ٹیگ کے محفوظات: اڑاتی

وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی

شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی
کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی جو دِیے جلاتی تھی
وہی تو دِن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل
خوشا وہ دِن کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی تیرا یاد آجانا
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی
اُداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر
وہ نے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اُڑاتی تھی
ناصر کاظمی

دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 203
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
میں بھی اذن نواگری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
اس سراپا وفا کی فرقت میں
خواہش غیر کیوں ستاتی ہے
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہمنشیں! سانس پھول جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
جون ایلیا

جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 415
پاؤں کی وحشت بچھاتی جا رہی ہے راستہ
جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ
احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ
اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ
اک بڑی اونچی پہاڑی رفتہ رفتہ ہاتھ سے
میرے پاؤں میں گراتی جا رہی ہے راستہ
سوچتا ہوں میری پُر آشوب بستی کس لیے
اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ
پیچھے پیچھے پاؤں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں
آگے آگے وہ بتاتی جا رہی ہے راستہ
رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں
عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ
منصور آفاق