منصور آفاق ۔ غزل نمبر 130
برقی زینے پر مخالف سمت چلنا پڑ گیا
حادثے سے پہلے ہوٹل سے نکلنا پڑ گیا
ساحلوں کی ریت پر گرتے ہوئے آیا خیال
کیا ہواکہ موج سے مل کر اچھلنا پڑ گیا
آ گیا پھر یاد کہ پستی نہیں میرامقام
گرتے گرتے راستے میں پھر سنبھلنا پڑ گیا
دیکھ کر لاہور کو جاتا ہوا کوئی جہاز
ایک بچے کی طرح دل کو مچلنا پڑ گیا
درد تھا اس کی رگوں میں سلسلے تھے آگ کے
کار کے منصور انجن کو بھی جلنا پڑ گیا
منصور آفاق