ٹیگ کے محفوظات: اٹھاتے

بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
بھرم مرا نہ گنواتے اگر بُرا کیا تھا
بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے روٹھ کے جانے سے جو ہوا برپا
وہ حشر تم نہ اٹھاتے اگر بُرا کیا تھا
وہی جو تیر سی میرے بدن کو چیر گئی
وہ بات منہ پہ نہ لاتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے ہجرِمسلسل سے جو الاؤ بنی
اس آگ میں نہ جلاتے اگر بُرا کیا تھا
تم ہی تو تھے جو مرا دم تھے، دل کی دھٹرکن تھے
سفر میں ساتھ نبھاتے اگر بُرا کیا تھا
ماجد صدیقی

باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 41
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں
دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی

نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم

دیوان پنجم غزل 1681
کہا سنتے تو کاہے کو کسو سے دل لگاتے تم
نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم
شکیبائی کہاں جو اب رہے جاتی ہوئی عزت
کدھر وہ ناز جس سے سرفرو ہرگز نہ لاتے تم
یہ حسن خلق تم میں عشق سے پیدا ہوا ورنہ
گھڑی کے روٹھے کو دو دو پہر تک کب مناتے تم
نظر دزدیدہ کرتے ہو جھکی رکھتے ہو پلکوں کو
لگی ہوتیں نہ آنکھیں تو نہ آنکھوں کو چھپاتے تم
یہ ساری خوبیاں دل لگنے کی ہیں مت برا مانو
کسو کا بار منت بے علاقہ کب اٹھاتے تم
پھرا کرتے تھے جب مغرور اپنے حسن پر آگے
کسو سے دل لگا جو پوچھتے ہو آتے جاتے تم
جو ہوتے میر سو سر کے نہ کرتے اک سخن ان سے
بہت تو پان کھاتے ہونٹ غصے سے چباتے تم
میر تقی میر

آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم

دیوان پنجم غزل 1677
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم
ہر صورت کو دیکھ رہو ہو ہر کوچے کو جھانکو ہو
آگے عشق کیا ہوتا تو پھرتے جی نہ کھپاتے تم
چاہت آفت الفت کلفت مہر و وفا و رنج وبلا
عشق ہی کے سب نام ہیں یہ دل کاش کہیں نہ لگاتے تم
شائق ہو مرغان قفس کے آئے گھر صیادوں کے
پھول اک دو تسکین کو ان کی کاش چمن سے لاتے تم
دونوں طرف سے کشش رہتی تھی نیا نیا تھا عشق اپنا
دھوپ میں آتے داغ ہوئے تو گرمی سے گل کھاتے تم
کیدھر اب وہ یک رنگی جو دیکھ نہ سکتے دل تنگی
رکتے پاتے ٹک جو ہمیں تو دیر تلک گھبراتے تم
کیا کیا شکلیں محبوبوں کی پردئہ غیب سے نکلی ہیں
منصف ہو ٹک اے نقاشاں ایسے چہرے بناتے تم
شاید شب مستی میں تمھاری گرم ہوئی تھیں آنکھیں کہیں
پیش از صبح جو آئے ہو تو آئے راتے ماتے تم
کب تک یہ دزدیدہ نگاہیں عمداً آنکھیں جھکا لینا
دلبر ہوتے فی الواقع تو آنکھیں یوں نہ چھپاتے تم
بعد نماز دعائیں کیں سو میر فقیر ہوئے تم تو
ایسی مناجاتوں سے آگے کاشکے ہاتھ اٹھاتے تم
میر تقی میر

آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں

دیوان چہارم غزل 1452
دل کی لاگ بری ہے ہوتی چنگے بھلے مرجاتے ہیں
آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں
رنگ نہ بدلے چہرہ کیونکر آنکھیں بیٹھی جائیں نہ کیوں
کیسے کیسے غم کھاتے ہیں کیا کیا رنج اٹھاتے ہیں
جی ہی جائے ہے میر جو اپنا دیر کی جانب کیا کریے
یوں تو مزاج طرف کعبے کے بہتیرا ہم لاتے ہیں
میر تقی میر

رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم

دیوان چہارم غزل 1442
چاہیے یوں تھا بگڑی صحبت آپھی آ کے بناتے تم
رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم
چلتے کہا تھا جائو سفر کر آئوگے تو ملیے گا
وعدئہ وصل نہ ہوتا تو پھر کس کو جیتا پاتے تم
کیا دن تھے وے دیکھتے تم کو نیچی نظر میں کرلیتا
شرما شرما لوگوں سے جب آنکھیں مجھ کو دکھاتے تم
بستر پر میں مردہ سا تھا جان سی مجھ میں آجاتی
کیا ہوتا جو رنجہ قدم کر میرے سرہانے آتے تم
دل کے اوپر ہاتھ رکھے ہی شام و سحر یاں گذرے ہے
حال یہ تھا تو دل عاشق کا ہاتھ میں ٹک تو لاتے تم
خاک ہے اصل طینت آدم چاہیے اس کو عجز کرے
بات کی تہ کو کچھ پاتے تو اتنا سر نہ اٹھاتے تم
چہرہ زرد بجا ہے سارا عشق میں غم کا مارا ہوں
رنگ یہ دیکھا ہوتا تو دل میر کہیں نہ لگاتے تم
میر تقی میر

پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو

دیوان دوم غزل 918
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو
آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف نہیں پاتے
سو آفتیں لاتے ہو سو فتنے اٹھاتے ہو
رہتے ہو تم آنکھوں میں پھرتے ہو تمھیں دل میں
مدت سے اگرچہ یاں آتے ہو نہ جاتے ہو
ایسی ہی زباں ہے تو کیا عہدہ برآ ہوں گے
ہم ایک نہیں کہتے تم لاکھ سناتے ہو
خوش کرنے سے ٹک ایسے ناخوش ہی رکھا کریے
ہنستے ہو گھڑی بھر تو پہروں ہی رلاتے ہو
اک خلق تلاشی ہے تم ہاتھ نہیں لگتے
لڑکے تو ہو پر سب کو ٹالے ہی بتاتے ہو
مدت سے تمھارا کب ایدھر کو تہ دل ہے
کاہے کو تصنع سے یہ باتیں بناتے ہو
کچھ عزت کفر آخر اے دیر کے باشندو
مجھ سہل سے کو کیوں تم زنار بندھاتے ہو
آوارہ اسے پھرتے پھر برسوں گذرتے ہیں
تم جس کسو کو اپنے ٹک پاس بٹھاتے ہو
دل کھول کے مل چلیے جو میر سے ملنا ہے
آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منھ بھی چھپاتے ہو
میر تقی میر

بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

دیوان دوم غزل 849
رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ
بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ
مظاہر سب اس کے ہیں ظاہر ہے وہ
تکلف ہے یاں جو چھپاتے ہیں لوگ
عجب کی جگہ ہے کہ اس کی جگہ
ہمارے تئیں ہی بتاتے ہیں لوگ
رہے ہم تو کھوئے گئے سے سدا
کبھو آپ میں ہم کو پاتے ہیں لوگ
اس ابرو کماں پر جو قرباں ہیں ہم
ہمیں کو نشانہ بناتے ہیں لوگ
نہ سویا کوئی شور شب سے مرے
قیامت اذیت اٹھاتے ہیں لوگ
ان آنکھوں کے بیمار ہیں میر ہم
بجا دیکھنے ہم کو آتے ہیں لوگ
میر تقی میر

پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے

دیوان اول غزل 494
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے
پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے
گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو اب ہے
تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے
وے دن گئے کہ اٹھ کر جاتے تھے اس گلی میں
اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اٹھاتے
کب تھی ہمیں تمنا اے ضعف یہ کہ تڑپیں
پر زیر تیغ اس کی ہم ٹک تو سر ہلاتے
گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو
کاہے کو خاک میں ہم اپنے تئیں ملاتے
شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتوں کو آتے آتے
اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی
حال خراب مجلس ہم شیخ کو دکھاتے
جی دینا دل دہی سے بہتر تھا صدمراتب
اے کاش جان دیتے ہم بھی نہ دل لگاتے
شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز ورنہ
احوال میر صاحب ہم تجھ کو سب سناتے
میر تقی میر

آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو

دیوان اول غزل 391
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھاکر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
جب ملنے کا سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گذرے صبح و شام بتاتے ہو
بکھری رہیں ہیں منھ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیونکے چھپے مے خواری شب جب ایسے رات کے ماتے ہو
سرو تہ و بالا ہوتا ہے درہم برہم شاخ گل
ناز سے قد کش ہوکے چمن میں ایک بلا تم لاتے ہو
صبح سے یاں پھر جان و دل پر روز قیامت رہتی ہے
رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو
جن نے تم کو نہ دیکھا ہووے اس سے آنکھیں مارو تم
ایک نگاہ مفتن کر تم سو سو فتنے اٹھاتے ہو
چشم تو ہے اک دید کی جا پر کب تکلیف کے لائق ہے
دل جو ہے دلچسپ مکاں تم اس میں کب کب آتے ہو
راحت پہنچی ٹک تم سے تو رنج اٹھایا برسوں تک
سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو
ہو کے گداے کوے محبت زور صدا یہ نکالی ہے
اب تو میر جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو
میر تقی میر

لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 232
تیرے افسانے سناتے ہیں مجھے
لوگ اب بھولتے جاتے ہیں مجھے
قمقمے بزم طرب کے جاگے
رنگ کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے
میں کسی بات کا پردہ ہوں کہ لوگ
تیری محفل سے اٹھاتے ہیں مجھے
زخم آئنہ بنے جاتے ہیں
حادثے سامنے لاتے ہیں مجھے
نیند بھی ایک ادا ہے تیری
رات بھر خواب جگاتے ہیں مجھے
تیرے کوچے سے گزرنے والے
کتنے اونچے نظر آتے ہیں مجھے
ان کے بگڑے ہوئے تیور باقیؔ
زیست کی یاد دلاتے ہیں مجھے
باقی صدیقی