ٹیگ کے محفوظات: اٹھائیں

آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
نِکھری رُتوں کا حسن‘ فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
بیدار جس سے خُفتہ لُہو ہو ترنگ میں
ایسا بھی کوئی گیت کبھی گنگنائیں ہم
رچتی ہے جیسے پھوُل کی خوشبُو ہواؤں میں
اِک دُوسرے میں یُوں بھی کبھی تو دَر آئیں ہم
اِخفا سہی پہ کچھ تو سپُردِ قلم بھی ہو
دیکھا ہے آنکھ سے جو سبھی کو دکھائیں ہم
ہو تُجھ سا مدّعائے نظر سامنے تو پھر
ساحل پہ کشتیوں کو نہ کیونکر جلائیں ہم
منصف ہے گر تو دل سے طلب کر یہ فیصلہ
تُجھ سے بچھڑ کے کون سے زنداں میں جائیں ہم
ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی فرصت نہ مل سکے
ماجدؔ چلو کہ فصلِ تمّنا اٹھائیں ہم
ماجد صدیقی

خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں

دیوان سوم غزل 1209
نچیں جبہے عاشق اگر دست پائیں
خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں
جھمکنے لگا خوں تو جاے سرشک
ابھی دیکھیں آنکھیں ہمیں کیا دکھائیں
رہیں کس کو سانسے کہ اب ضعف سے
مرا جی ہی کرنے لگا سائیں سائیں
خدا ساز تھا آزر بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
چلا یار کی اور جاتا ہے جی
جو ہو اختیاری تو اودھر نہ جائیں
جگر سوز ہیں اس کے لعل خموش
طلب کریے بوسہ تو باتیں بنائیں
ہمیں بے نیازی نے بٹھلا دیا
کہاں اتنی طاقت کہ منت اٹھائیں
کہیں دیکھے وہ بید مجنوں کہ ہم
فراموش کار اپنے کو تا دکھائیں
کہیں میر عشق مجازی ہے بد
حقیقت ہو معلوم گر دل لگائیں
میر تقی میر

یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 18
تیرے جور و ستم اُٹھائیں ہم
یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم
جی میں ہے اب وہاں نہ جائیں ہم
دل کی طاقت بھی آزمائیں ہم
نالے کرتے نہیں یہ الفت میں
باندھتے ہیں تری ہوائیں ہم
اب لب یار کیا ترے ہوتے
لب ساغر کو منہ لگائیں ہم
دل میں تم، دل ہے سینہ سے خود گم
کوئی پوچھے تو کیا بتائیں ہم
آب شمشیر یار اگر مل جائے
اپنے دل کی لگی بجھائیں ہم
اب جو منہ موڑیں بندگی سے تری
اے بت اپنے خدا سے پائیں ہم
زندگی میں ہے موت کا کھٹکا
قصر کیا مقبرہ بنائیں ہم
توبۂ مے سے کیا پشیماں ہیں
زاہد و دیکھ کر گھٹائیں ہم
دل میں ہے مثل ہیزم و آتش
جو گھٹائے اُسے بڑھائیں ہم
زار سے زار ہیں جہاں میں امیر
دل ہی بیٹھے جو لطف اٹھائیں ہم
امیر مینائی

کتنے پردے اٹھائیں گے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 87
کیا زیست کا راز پائیں گے ہم
کتنے پردے اٹھائیں گے ہم
ایک اپنی وفا کی روشنی سے
کس کس کا دیا جلائیں گے ہم
ہر رنگ جہاں سے ہٹ کے دیکھو
اس طرح نظر نہ آئیں گے ہم
یوں نکلے ہیں تیری جستجو میں
جیسے تجھے ڈھونڈ لائیں گے ہم
انداز جہاں کے دیکھتے ہیں
اپنی بھی خبر نہ پائیں گے ہم
اک بات نہ اٹھ سکے جہاں کی
کیا بار حیات اٹھائیں گے ہم
آغاز سفر میں کیا خبر تھی
یوں راہ میں بیٹھ جائیں گے ہم
جو دل پہ گزر رہی ہے باقیؔ
تجھ کو بھی نہ اب بتائیں گے ہم
باقی صدیقی