ٹیگ کے محفوظات: آہٹ

دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ

دیوان سوم غزل 1120
کیا لڑکے دلی کے ہیں عیار اور نٹ کھٹ
دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ
ہم عاشقوں کو مرتے کیا دیر کچھ لگے ہے
چٹ جن نے دل پہ کھائی وہ ہو گیا ہے چٹ پٹ
دل ہے جدھر کو اودھر کچھ آگ سی لگی تھی
اس پہلو ہم جو لیٹے جل جل گئی ہے کروٹ
کلیوں کو تونے چٹ چٹ اے باغباں جو توڑا
بلبل کے دل جگر کو ظالم لگی ہے کیا چٹ
جی ہی ہٹے نہ میرا تو اس کو کیا کروں میں
ہر چند بیٹھتا ہوں مجلس میں اس سے ہٹ ہٹ
دیتی ہے طول بلبل کیا نالہ و فغاں کو
دل کے الجھنے سے ہیں یہ عاشقوں کی پھپٹ
مردے نہ تھے ہم ایسے دریا پہ جب تھا تکیہ
اس گھاٹ گاہ و بیگہ رہنے لگا تھا جمگھٹ
رک رک کے دل ہمارا بیتاب کیوں نہ ہووے
کثرت سے درد و غم کی رہتا ہے اس پہ جھرمٹ
شب میر سے ملے ہم اک وہم رہ گیا ہے
اس کے خیال مو میں اب تو گیا بہت لٹ
میر تقی میر

قریہ ء جاں میں اچانک ایک آہٹ سے ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 70
راکھ دل کا یہ پلازہ شاٹ سرکٹ سے ہوا
قریہ ء جاں میں اچانک ایک آہٹ سے ہوا
ختم ہونا چاہئے جا کر کہیں دریا کے پاس
اس تعلق کا اگر آغاز پنگھٹ سے ہوا
تم جسے کہتے ہو تاروں سے چمکتی داستاں
یہ شروع افسانہ تو سورج کے مرگھٹ سے ہوا
مجھ کو بھی ویزا دکھا کر اپنے گھر جانا پڑا
داخلہ سامان کا بھی ایک پرمٹ سے ہوا
گا رہے تھے ایک وحشت ناک لے میں ماہیے
میں فسردہ اور بھی بچوں کے جھرمٹ سے ہوا
خوبصورت ہٹ ہوا منصور اُس گلپوش سے
اور سمندر خوبرو، پھولوں بھرے ہٹ سے ہوا
منصور آفاق