ٹیگ کے محفوظات: آتی

وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی

شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی
کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی جو دِیے جلاتی تھی
وہی تو دِن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل
خوشا وہ دِن کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی تیرا یاد آجانا
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی
اُداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر
وہ نے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اُڑاتی تھی
ناصر کاظمی

عرش پر برچھیاں چلاتی ہے

دیوان اول غزل 554
آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے
عرش پر برچھیاں چلاتی ہے
ناز بردار لب ہے جاں جب سے
تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے
اے شب ہجر راست کہہ تجھ کو
بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے
چشم بد دور چشم تر اے میر
آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہے
میر تقی میر