ٹیگ کے محفوظات: انگارہ

خزاں نے لُوٹ لیا ہے جنوں کا گہوارہ

کہیں مہک، نہ ترنّم، نہ رقصِ گل پارہ
خزاں نے لُوٹ لیا ہے جنوں کا گہوارہ
کبھی جو شاق گزرتا ہے خندہِ انجم
سسکنے لگتا ہے نوکِ مژہ پہ اک تارہ
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
شبِ الم میں ہمیں روشنی سے مطلب ہے
وہ کہکشاں ہو، قمر ہو، کہ کوئی سیّارہ
حیات برف کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتی
دہک رہا ہے ابھی دل میں ایک انگارہ
شکیب جلالی

پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا
شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا
شہر سے دُور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا
صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا منہ دیکھا تھا
دیر کے بعد مرے آنگن میں
سرخ انار کا پھول کھلا تھا
دیر کے مرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کیا تھا
شام کی گہری اونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا
ناصر کاظمی