ٹیگ کے محفوظات: انسانوں

رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی

تم نے تقدیر جگا دی مرے ارمانوں کی
رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی
لاکھ تم بُھولو، مگر رنج کی زَد پر آ کر
یاد آجاتی ہے بھولے ہوئے انسانوں کی
ہوں گے منظر یہی، خآ کے یہی، کردار یہی
سُرخیاں صرف بدل جائیں گی افسانوں کی
ڈگمگاجاتے ہیں اب تک مری توبہ کے قدم
یاد جب آتی ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی
آپ کو میری قسم، آپ نہ ہوں آزردہ
کیا ہُوا، لُٹ گئی دُنیا مرے ارمانوں کی
پھر، شکیبؔ، آج مری زیست پہ غم حاوی ہے
پھر بدلنے لگی سُرخی مرے افسانوں کی
شکیب جلالی

انسانوں نے چکّھا ماس انسانوں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
ایسا تو اِتلاف، نہ دیکھا جانوں کا
انسانوں نے چکّھا ماس انسانوں کا
حد سے بڑھ کر شائستہ بھی ٹھیک نہیں
انساں، رُوپ بھرے گا یُوں حیوانوں کا
ترکش بھی، کَس بل بھی جس کے پاس ہے وُہ
زور نہ جتلائے کیوں، تیر کمانوں کا
ضعف نہ جائے گا جب تک، جانے کا نہیں
ماجدؔ کھٹکا ہے جو ہمیں تاوانوں کا
ماجد صدیقی