ٹیگ کے محفوظات: اقبال
آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر
اقبال
آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جاچکا ہے شاہ گدانما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثل شعلہ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشت صر صر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر
اقبال
اقبال! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعرِ حیات
ہے تیرا قلب محرم اسرارِ کائنات
سرگرمیِ دوام ہے تیرے لیے حیات
میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات
مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرق سئیات
یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لیے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ، بےثبات
اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات
تیرا کلام جس کو کہ بانگِ درا کہیں
ہیں اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات
بھولے ہوؤں کو تو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضرِ رہِ حیات
سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات
عریاں تیری نگاہ میں اسرارِ کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیرِ کائنات
دنیا کا ایک شاعرِ اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے