آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 40
یہ وسعتیں تا آسماں ، گہرائیاں پاتال تک
ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک
کیسے، کہاں ڈھونڈوں اُسے وہ جو ورائے چشم ہے
آئینہ دکھلاتا نہیں ، اپنے ہی خدوخال تک
میری کتاب ہست میں ، محفوظ ہے لکھا ہوا
ہر واقعہ، ہر حادثہ، روزِ ازل سے حال تک
اُس پیرِ دانشمند کی عمر طویل اُلٹے اگر
دیکھے، ہے کتنا فاصلہ اقوال سے افعال تک
شاید کہ تم ہو جانتے، چہرہ شناسی کا ہنر
آیا ہوں کتنی دیر سے، پوچھے نہیں احوال تک
آفتاب اقبال شمیم