ٹیگ کے محفوظات: اعجاز

چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا

دیوان دوم غزل 762
رہا میں تو عزت کا اعزاز کرتا
چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا
نہ ہوتا میں حسرت میں محتاج گریہ
جو کچھ آنسوئوں کو پس انداز کرتا
نہ ٹھہرا مرے پاس دل ورنہ اب تک
اسے ایسا ہی میں تو جانباز کرتا
جو جانوں کہ درپے ہے ایسا وہ دشمن
تو کاہے کو الفت سے میں ساز کرتا
تو تمکین سے کچھ نہ بولا وگرنہ
مسیحا صنم ترک اعجاز کرتا
گلوگیر ہی ہو گئی یاوہ گوئی
رہا میں خموشی کو آواز کرتا
زیارت گہ کبک تو ہو بلا سے
ٹک آ میر کی خاک پر ناز کرتا
میر تقی میر

یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 6
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایہء چشم میں‌حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیء لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشہء مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نَے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لےَ بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
فیض احمد فیض

یہ اسرارِ نیاز و ناز تم جانو یا وہ جانے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 564
زمیں و آسماں کے راز تم جانو یا وہ جانے
یہ اسرارِ نیاز و ناز تم جانو یا وہ جانے
ہمارا کام ہے آقا فقط جلوئوں میں کھو جانا
چھیڑا کیوں زندگی کا ساز تم جانو یا وہ جانے
تکلم اب خموشی کا گریباں گیر کب ہو گا
جہاں ہے گوش بر آواز تم جانو یا وہ جانے
بدن کو بعد لیکن ہر نفس معراج کا حامل
فراق و وصل کے انداز تم جانو یا وہ جانے
ضمیرِکن فکاں سے ایسے عقدے حل نہیں ہوتے
خود اپنی قوتِ پرواز تم جانو یا وہ جانے
وصالِ نور کاقصہ ہم اہل طور کیا جانیں
حدِ قوسین کا اعجاز تم جانو یا وہ جانے
منصور آفاق

زندگی کا کوئی انداز تو ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 251
نہ سہی ساز غم ساز تو ہے
زندگی کا کوئی انداز تو ہے
کچھ گریزاں ہے صبا ہی ورنہ
بوئے گل مائلِ پرواز تو ہے
بن سکے سرخیٔ روداد حیات
خون دل اتنا پس انداز تو ہے
لب خاموش بھی بول اٹھے ہیں
کچھ نہ کچھ وقت کا اعجاز تو ہے
میری آمد نہ گراں گزری ہو
اس خموشی میں کوئی راز تو ہے
کس توقع پہ صدا دیں باقیؔ
در ارباب کرم باز تو ہے
باقی صدیقی