اِلزام تھا، ثبوت تھا، پھِر کیا سَزا میں تھا!
دامانِ آرزو، مِرے دَستِ دُعا میں تھا
خوش باش تھا میں فِکر و نظر کے جہان میں
عرشِ خیال کی اِک اَنوکھی فَضا میں تھا
وہ تَو گُناہ تھا ہی جو نِکلا زبان سے
وہ بھی گُنہ تھا جو مِرے ذہنِ رَسا میں تھا
یہ کہہ کے سَب نے مُلک بَدَر کَر دِیا مُجھے
جُراَت تَو دیکھیے! یہ صَفِ با وَفا میں تھا
میں زہر پی کے زندہ تھا لیکن مِرے طَبیِب
کیا جانے کیا مِلا ہُوا تیری دَوا میں تھا
اِس جُرم میں پکڑ کے سَزا دی گئی مجھے
ضامنؔ! میں سَنگِ میِل رَہِ اِرتِقا میں تھا
ضامن جعفری