ٹیگ کے محفوظات: احساس

ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس

جب کبھی بڑھ گیا ہے خوف و ہراس
ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس
رات تارے بھی میرے ساتھ رہے
مضمحل مضمحل اُداس اُداس
نرم و نازک سے آبگینے ہیں
ان کی دوشیزگی، مرا احساس
جب اُجالوں کے تیر چلتے ہیں
چاک ہوتا ہے ظُلمتوں کا لباس
چاند کی پُربہار وادی میں
ایک دوشیزہ چُن رہی ہے کپاس
خار تو شہرِ گُل کی رونق تھے!
کس نے خاروں کو دے دیا بن باس
شکیب جلالی

احساس

گہرے نیلم پانی میں

پُھول بدن لہریں لیتے تھے

ہَوا کے شبنم ہاتھ انھیں چُھو جاتے تو

پور پور میں خنکی تیرنے لگتی تھی

شوخ سی کوئی موج شرارت کرتی تو

نازک جسموں ،نازک احساسات کے مالک لوگ

شاخِ گلاب کی صُورت کانپ اُٹھتے تھے!

اُوپر وسط اپریل کا سُورج

انگارے برساتا تھا

ایسی تمازت!

آنکھیں پگھلی جاتی تھی!

لیکن دِل کا پُھول کِھلا تھا

جسم کے اندر رات کی رانی مہک رہی تھی

رُوح محبت کی بارش میں بھیگ رہی تھی

گیلی ریت اگرچہ دُھوپ کی حدت پاکر

جسموں کو جھلسانے لگی تھی

پھر بھی چہروں پہ لکھا تھا

ریت کے ہر ذرے کی چُبھن میں

فصلِ بہار کے پہلے گُلابوں کی ٹھنڈک ہے

پروین شاکر

مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 31
کبھی خود کو درد شناس کرو، کبھی آؤ نا!
مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!
مری عمر سرائے مہکے ہے، گُل ہجراں سے
کبھی آؤ آ کر باس کرو، کبھی آؤ نا!
مجھے چاند میں شکل دکھائی دے، جو دہائی دے
کوئی چارۂ ہوش و حواس کرو، کبھی آؤ نا!
اُسی گوشۂ یاد میں بیٹھا ہوں ، کئی برسوں سے
کسی رفت گزشت کا پاس کرو، کبھی آؤ نا!
کہیں آب و ہوائے تشنہ لبی، مجھے مار نہ دے
اسے برکھا بن کر راس کرو کبھی آؤ نا!
سدا آتے جاتے موسم کی، یہ گلاب رتیں
کوئی دیر ہیں ، یہ احساس کرو، کبھی آؤ نا!
آفتاب اقبال شمیم