ٹیگ کے محفوظات: اجالوں

ڈھُونڈنا ہم کو اِن حَوالوں میں

دَرد میں آنسُووَں میں چھالوں میں
ڈھُونڈنا ہم کو اِن حَوالوں میں
ڈُوبتے وَقت کی ہَنسی مَت پُوچھ
سَب ہی اَپنے تھے ہَنسنے والوں میں
مَر چُکا ہے ضمیرِ کُوزہ گَراں
گھِر گئے چاک بَد سفالوں میں
ہَم جنوں میں ہیں آپ اَپنی مِثال
ہَم کو مَت ڈھُونڈنا مِثالوں میں
آئینہ دیکھ کر شُبہ سا ہُوا
کوئی باقی ہے مِلنے والوں میں
شہر کے شہر ہو گئے خالی
لوگ بَستے ہیں اَب خیالوں میں
میں اَندھیروں میں تھا بھٹکتا رَہا
آپ کو کیا مِلا اُجالوں میں
اَور کوئی جگہ نہیں محفوظ
چَین سے رہ مِرے خیالوں میں
اُس کی آنکھیں کلام کرتی رہیِں
میں بھی اُلجھا نہیں سوالوں میں
حُسن و عشق آج کس قَدَر خُوش ہیں
آپ اُور مُجھ سے باکمالوں میں
کِس پہ ضامنؔ نے یہ کہی ہے غزل
ہیں چِہ مِیگوئیاں غزالوں میں
ضامن جعفری

ملے جواب نہ اِس طرح کے سوالوں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہمارے گرد ہے کیا جال سا یہ چالوں کا
ملے جواب نہ اِس طرح کے سوالوں کا
یہ ہم کہ گھونسلے جن کے ہیں زد پہ طوفاں کی
لٹے گا چین ہمِیں سے خراب حالوں کا
بہم پناہ ہمیشہ جنہیں ہے غاروں کی
پھرا ہے اُن کی طرف رخ کہاں اجالوں کا
دیا تو دینا پڑے گا ہمیں بھی لمحوں میں
ہمارے نام ہے جو جو حساب سالوں کا
کھُلا تو ہاتھ لگائیں گے سارے کانوں کو
چمن میں حال ہے ماجد جو با کمالوں کا
ماجد صدیقی

ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 538
بدل رہی ہے کچھ ایسے گلوب کی گردش
ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے
مکاں بھی اپنے مکینوں سے اب گریزاں ہیں
گلی بھی خود کو چھپاتی ہے چلنے والوں سے
وہ تیرگی کہ لرزتے ہیں بام و در شب کے
وہ روشنی ہے کہ سورج ڈرے اجالوں سے
یہ روز و شب ہیں تسلسل سے منحرف منصور
یہ ساعتیں کہ الگ ہو گئی ہیں سالوں سے
منصور آفاق