ٹیگ کے محفوظات: ابھرتے

سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے

وہ گِرد و پیش سے تھے بے خَبَر سَنوَرتے ہُوئے
سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے
رَہِ حیات میں ہَم کو بھی کچھ رَہی عُجلَت
اُنہیں بھی دیر لگی بام سے اُتَرتے ہُوئے
ہَمیَں بھَلا کِسی دَیر و حَرَم سے کیا لینا
ہَم آگئے ہیں کِسی کو تَلاش کَرتے ہُوئے
یہ اَور بات کِسی نے سُنا نہیں لیکن
پُکارے سَب کو تھے ہَم ڈُوبتے اُبھَرتے ہُوئے
سوال پوچھتے رہ جائیں گے مسیحا سے
یہ میری ڈُوبتی نَبضیَں یہ خواب مَرتے ہُوئے
نہ جانے کیا غمِ دَوراں کو آ گیا ہے پَسَند
کہ جھانک لیتا ہے اَکثَر یُونہی گذرتے ہُوئے
ہر ایک دَرد ہَماری پَناہ میں آیا
کسی کو دیکھ نہ پائے ہم آہ بھرتے ہُوئے
میں ہاتھ پاؤں لگا مارنے سُوئے ساحل
غَضَب کا طنز تھا اَمواج میں بپھرتے ہُوئے
زباں کے زَخم ہیں ضامنؔ! سو اِتنی عُجلَت کیا
تمام عُمر ہے دَرکار اِن کو بھرتے ہُوئے
ضامن جعفری

رات بھر ہم نکھرتے سنورتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
چاہتوں میں نئے رنگ بھرتے رہے
رات بھر ہم نکھرتے سنورتے رہے
اُس سے نسبت تھی جیسے شب و ماہ سی
نِت نئے طور سے ہم نکھرتے رہے
تن بدن اُس کا اِک لوح تھا جس پہ ہم
حرفِ تازہ بنے نِت اُبھرتے رہے
جیسے اُس کی مہک ہی سے سرشار تھے
پاس سے جو بھی جھونکے گزرتے رہے
ہم کو یک جا کیا اُس زرِ خاص نے
ہم کہ سیماب آسا بکھرتے رہے
نشۂ قرب سے جیسے باہم دگر
جان و دل میں، رگوں میں اُترتے رہے
اَب تو اپنا ہے ماجدؔ وُہ جس کے لئے
ہم بصد آرزُو روز مرتے رہے
ماجد صدیقی

سنورتے گئے، دن گزرتے گئے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 45
میں تڑپا کیا اور گیسوئے ناز
سنورتے گئے، دن گزرتے گئے
میں روتا رہا اور بہاروں کے رنگ
نکھرتے گئے، دن گزرتے گئے
مری زیست پر ان کے جلووں کے نقش
ابھرتے گئے، دن گزرتے گئے
گلستاں کے دامن میں کھل کھل کے پھول
بکھرتے گئے، دن گزرتے گئے
میں ان کے تصور میں کھویا رہا
گزرتے گئے دن گزرتے گئے
چھلکتے ہوئے جام میں ماہ و سال
اترتے گئے، دن گزرتے گئے
مجید امجد