ٹیگ کے محفوظات: ابلنا

ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 162
در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں
ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں
وہ کہتے ہیں کہ آزادی اسیری کے برابر ہے
تو یوں سمجھو کہ زنجیریں بدلنا چاہتا ہوں میں
MERGED نمو کرنے کو ہے میرا لہو قاتل کے سینے سے
وہ چشمہ ہوں کہ پتھر سے ابلنا چاہتا ہوں میں
بلند و پستِ دُنیا فیصلہ کرنے نہیں دیتے
کہ گرنا چاہتا ہوں یا سنبھلنا چاہتا ہوں میں
محبت میں ہوس کا سا مزا ملنا کہاں ممکن
وہ صرف اک روشنی ہے جس میں جلنا چاہتا ہوں میں
عرفان صدیقی