آخر تم نے
میرے لیکھ میں میرے بھید کا مجھ پر ایسے
کم کم کھلنا کیوں لکھا تھا!
کیسے دن تھے
خواب میں اپنی تخت نشینی کا منظر جب دیکھا تھا
دودھ کا امرت، پیار کا بوسہ
خوشبو کے کیسے جھونکے تھے، جن کے لمس سے لمس ملا کر
دھوپ میں شعلے کی کیفیت جاگی تھی
اور مجھے چاروں جانب کے آئینوں کی دنیا میں
تنہائی کا، کثرت کا دلچسپ تماشا
خود ہی منظر خود ہی ناظر بن کر اپنے راج نگر میں
تکنا تھا
اپنے آپ کو میں نے دیکھا سپنے کے سنگھاسن سے
دن کی ہولی کے میلے میں
تصویروں پر تصویروں کے رنگ گرانے والوں میں
اور اِسی میلے میں پھر ڈھلتی دوپہر کے رستے پر
میں نے اپنے آپ کو دیکھا
بھِیڑ کے اندر تنہائی کی راکھ اُڑانے والوں میں
کیسے دن ہیں۔۔۔۔ اونچائی سے
میرے نام پہ میری آس کا ساون دھارا
اوک میں چھینٹے چھوڑ گیا ہے
اور میں خود سے سرگوشی میں کہتا ہوں
پیارے یہ دن دوبارہ بھی آئے گا
تو نے یہ منظر آنے سے پہلے بھی تو دیکھاتھا