ٹیگ کے محفوظات: آزمائیں

یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 18
تیرے جور و ستم اُٹھائیں ہم
یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم
جی میں ہے اب وہاں نہ جائیں ہم
دل کی طاقت بھی آزمائیں ہم
نالے کرتے نہیں یہ الفت میں
باندھتے ہیں تری ہوائیں ہم
اب لب یار کیا ترے ہوتے
لب ساغر کو منہ لگائیں ہم
دل میں تم، دل ہے سینہ سے خود گم
کوئی پوچھے تو کیا بتائیں ہم
آب شمشیر یار اگر مل جائے
اپنے دل کی لگی بجھائیں ہم
اب جو منہ موڑیں بندگی سے تری
اے بت اپنے خدا سے پائیں ہم
زندگی میں ہے موت کا کھٹکا
قصر کیا مقبرہ بنائیں ہم
توبۂ مے سے کیا پشیماں ہیں
زاہد و دیکھ کر گھٹائیں ہم
دل میں ہے مثل ہیزم و آتش
جو گھٹائے اُسے بڑھائیں ہم
زار سے زار ہیں جہاں میں امیر
دل ہی بیٹھے جو لطف اٹھائیں ہم
امیر مینائی

کیسے اپنا دیا جلائیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 21
یہ رات یہ دشت کی ہوائیں
کیسے اپنا دیا جلائیں
نشہ دیتا ہے زہر غم بھی
ہے تاب ستم تو مسکرائیں
ہوتے رہتے ہیں زخم تازہ
تم ساتھ نہ ہو تو بھول جائیں
اب سوز بھی ساز چاہتا ہے
دنیا کی زباں کہاں سے لائیں
کب تک سنیں دل شکست باتیں
کب تک ہم خود کو آزمائیں
دریا کو پیاس لگ رہی تھی
صحرا سے گزر گئیں گھٹائیں
آئی وہ شاہ کی سواری
آؤ ہم تالیاں بجائیں
در سے دیوار بے خبر ہے
کیسے یہ فاصلے مٹائیں
یہ رنگ کہ رنگ اڑ رہا ہے
یہ ہوش کہ ہوش میں نہ آئیں
ہم تیرے خیال سے بھی گزرے
ایسے میں اگر مراد پائیں
ہو شوق سفر کی خیر باقیؔ
لینے لگے حادثے بلائیں
باقی صدیقی