ٹیگ کے محفوظات: آزاری

جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 151
اُن لوگوں سے اب کے سانجھ ہماری ہے
جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے
جو بولے در کھولے خود پر پھندوں کا
کچھ کہنے میں ایک یہی لاچاری ہے
اپنا اک اک سانس بھنور ہے دریا کا
اپنا اک اک پل صدیوں پر بھاری ہے
اوّل اوّل شور دھماکے پر تھا بہت
دشت میں اُس کے بعد خموشی طاری ہے
طوفاں سے ٹکرانا بِن اندازے کے
یہ تو اپنے آپ سے بھی غدّاری ہے
ہر مشکل کے آگے ہو فرہاد تمہی
ماجِدؔ صدّیقی کیا بات تمہاری ہے
ماجد صدیقی

اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 73
حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تیری چارہ گری کیا، میری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دِل ناداں نے دِکھا رکھی ہے ہشیاری کیا
قید خانے سے نکل آئے تو صحرا کا حصار
ہم سے ٹوٹے گی یہ زنجیرِ گرفتاری کیا
وہ بھی یک طرفہ سخن آراء ہیں، چلوں یوں ہی سہی
اتنی سی بات پہ یاروں کی دل آزاری کیا
عرفان صدیقی