یہ جنگل
کس بے معنی سفاکی کے اندھیرے سے
ٹوٹ کے بے ہییت ہوتے اس موسم میں
بے بخشش ہاتھوں کی جانب تکتا ہے
دیکھ! اکارت جاتی سرد صدی کے منظر نامے میں
نخلِ بے تقدیر کھڑا ہے
بھوک کے سناٹے میں گرتے پتے پر
اس کے اپنے نام کے آگے
میرا نام بھی لکھا ہے میں کہ ان بے اشک آنکھوں سے
اُس کی خاطر
اپنے کل کی ظلمت کے امکان کی خاطر
ایک کرن کی خواش خوابی پیدا کرنے سے قاصر ہوں
میری دنیا کے مرکز میں ڈھیر لگا ہے سایہ سایہ لاشوں کا
اور زمستاں کا سورج اس پربت کے
لمبے سائے ڈال رہا ہے خودمحصور مکانوں پر
آفتاب اقبال شمیم