ٹیگ کے محفوظات: گھر

ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں

جہاں سے گزریں کبھی ہم، جدھر کو دیکھتے ہیں
ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں
نہیں ہے اپنا ہی عجزِ ہنر نظر میں جب
تو لوگ کیوں مرے دستِ ہنر کو دیکھتے ہیں؟
وہ منزلوں پہ نظر رکھتے ہیں، مگر ہم لوگ
پڑاؤ کر کے فقط رہگزر کو دیکھتے ہیں
وداع کہہ کے پرندے شجر سے جب جائیں
ہر ایک پیڑ پہ ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مذاقِ طبع کو، سننے کو پنچھیوں کی پکُار
جلا کے گھونسلے، آؤ شجر کو دیکھتے ہیں
شفق سے بہتا لہو دیکھتے ہیں جب پنچھی
تو کیوں گلِے سے وہ مجھ بے ضرر کو دیکھتے ہیں؟
یاور ماجد

جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا

خورشید کبھی راہِ دگر کیوں نہیں جاتا
جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا
میں سیدھے کسی راستے پر کیوں نہیں جاتا
اب کیسے بتاؤں میں سدھر کیوں نہیں جاتا
آوارگی! آوارگی! آوارگی! بتلا!
میں لوٹ کے آخر کبھی گھر کیوں نہیں جاتا
میں دھوپ میں جھلسا ہی چلا جاؤں گماں کی
اب ابرِ یقیں مجھ پہ ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک عمر جسے یاد کے چہرے سے ہے کھُرچا
آخر وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
اے عکس مری یاد کی جھیلوں پہ پڑے عکس
تُو ٹوٹ چکا کب کا، بکھر کیوں نہیں جاتا
جب ہم سفری کا کوئی امکاں ہی نہیں ہے
تُو اپنی تو میں اپنی ڈگر کیوں نہیں جاتا
اے دشمنِ جاں چھوڑ بھی اب! جا بھی کہیں! مر!
تو بیتا ہوا پل ہے گزر کیوں نہیں جاتا
جو دل کے گلستان میں چلتا ہے ہمیشہ
جھونکا وہ سرِ راہگزر کیوں نہیں جاتا
مشکل ہو اگر حد سے زیادہ تو ہو آساں
بکھرا ہوں میں اتنا تو سنور کیوں نہیں جاتا
وہ چاند ہے اور سامنے موجود ہے میرے
پھر بحر تخیل کا بپھر کیوں نہیں جاتا
کہتے ہیں کہ ہر سیپ سے موتی نکل آئے
کیا جانیے آنکھوں سے گہر کیوں نہیں جاتا
یاور ماجد

شعروں میں اُس کا پھول سا پیکر تراشتے

زورِ قلم جو ہوتا، برابر تراشتے
شعروں میں اُس کا پھول سا پیکر تراشتے
محوِ سفر رہے ہیں قدم اور قلم سدا
رُک پاتے گر کہیں تو کوئی گھر تراشتے
گر قیدِ شش جہات پہ ہوتا کچھ اختیار
روزن کوئی بناتے کوئی دَر تراشتے
پَرکارِ فن سے دائرے کھینچا کیے ہزار
نِروان پاتے گر کبھی محور تراشتے
سیپی میں دِل کی تم جو اگر ٹھیرتے کبھی
ہم تیشۂ خیال سے گوہر تراشتے
ہاتھوں کی کونپلوں سے کٹھن روزگار کے
عمریں گزر گئیں مجھے پتھر تراشتے
ناخن کی نوک سے فلکِ روسیاہ پر
ہم چودھویں کے چاند کا منظر تراشتے
اس بار بھی بنی وہی مبہم سی شکل پھر
اس بُت کو اب کی بار تو بہتر تراشتے
یاور ماجد

ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے

گو کہ بادل تو ٹوٹ کر بر سے
ہم مگر ترسے، ۔۔۔ اور ہم تر سے
ہم غریبوں کی کون تیاری؟
وا کیا در، نکل پڑے گھر سے
کچھ تحرک تو ہو فضاؤں میں
ہو صبا سے بھلے، ہو صَرصَر سے
ہم لڑھکتے چلے گئے پھر تو
کھائی ٹھوکر جو ایک پتھر سے
کیسے کیسے پہاڑ کاٹ دیے
اور وہ بھی اس ایک پیکر سے
ایک سورج فلک پہ ہوتا تھا
کیوں حذف ہو گیا وہ منظر سے
اپنا تقدیر پر یقیں ہی نہیں
پھر گلہ کیا کریں مقدر سے
اپنے مرکز کو ڈھونڈنے کے لیے
چھن گئے دائرے ہی محور سے
طے کیا تھا سفر جو ماجدؔ نے
کیا کبھی ہو سکے گا یاؔور سے
یاور ماجد
 

یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی

گھائل نہیں جو حُسنِ گُلِ تر کا آدمی
یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی
گہرائیوں میں جا کے بھی کیا بات ہے کہ اب
سُنتا ہے شور سطحِ سمندر کا، آدمی
کیسی چلی یہ تیغ کہ ثابت رہا بدن
تقسیم ہو گیا مگر اندر کا آدمی
ہر راہ سے نکلتے ہیں سو اور راستے
اب ڈھونڈتا پھرے گا پتا گھر کا آدمی
شب خوں کے ڈر سے تھا مجھے ہر پیڑ پر گماں
یہ بھی نہ ہو غنیم کے لشکر کا آدمی
تنہائیوں کی بھیڑ ہے گھیرے ہوئے مجھے
اب میں ہوں اپنے شہر میں باہر کا آدمی
دشتِ طلب بھی کیا کوئی شہرِ طلسم ہے
دیکھا جو مڑ کے، ہو گیا پتھر کا آدمی
آنکھیں وہ خود ہی پھوڑ لیں جن کی شعاع سے
لیتا تھا لطف شام کے منظر کا آدمی
پھر آن کر گرے نہ اسی فرشِ خاک پر
اُڑتا ہے کیا ہواؤں میں بے پَر کا آدمی
ٹانگوں میں بانس باندھ کے چلتے ہیں سب یہاں
کیوں کر ملے، شکیبؔ! برابر کا آدمی
شکیب جلالی

دامن بچا کے گزرو‘ یادوں کی رہ گزر سے

اس خاکد اں میں اب تک باقی ہیں کچھ شررسے
دامن بچا کے گزرو‘ یادوں کی رہ گزر سے
ہر ہر قدم پہ آنکھیں ‘ تھیں فرشِ راہ، لیکن
وہ روشنی کا ہالا‘ اُترا نہ بام پر سے
کیوں جادہِ وفا پر‘ مشعل بکف کھڑے ہو
اس سیلِ تیرگی میں ‘ نکلے گا کون گھر سے
کس دشت کی صدا ہو‘ اتنا مجھے بتا دو
ہر سُو بچھے ہیں رستے‘ آؤں تو میں کدھر سے
اُجڑا ہُوا مکاں ہے یہ دل‘ جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے
شکیب جلالی

میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے

موج غم اس لئے شاید نہیں گزری سر سے
میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر بر سے
کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
پیار کی جو سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
اک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک
درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
وادیِٔ خواب میں اس گل کا گزر کیوں نہ ہوا
رات بھر آتی رہی جس کی مہک بستر سے
طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیبؔ
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
شکیب جلالی

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے
جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے
مُرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مرمر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے
کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے
آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھم تھا جو بھی نقش، اجاگر لگا مجھے
یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی
سورج اگر ہے ، کرنوں کی جھالر لگا مجھے
صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے
میں نے ا سے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
شکیب جلالی

پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں

نگاہِ شوق سے راہِ سفر کو دیکھتے ہیں
پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ جانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو
جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں
یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہمارے طرزِ توجہ پہ خوش گمان نہ ہو
تجھے نہیں تری تابِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہمارے سامنے دریا ہیں سلسلوں کے رواں
پہ کیا کریں کہ تری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرص و ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں
دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
عرفان ستار

کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں

کتنی زندہ یادیں لے کر، رات کو بستر پر جاتے ہیں
کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں
کوی رنج نہیں ہوتا ہے، کوی آہ نہیں اٹھتی ہے
اب دل سے یادوں کے لشکر یوں چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جتنے بھی ہیں کام ضروری، سارے عجلت میں نمٹا لو
اوروں کے دکھ سہنے والے، اکثر جلدی مر جاتے ہیں
بھاگم بھاگ یہ ساری خلقت، جانے کس جانب جاتی ہے
میں بس پوچھتا رہ جاتا ہوں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
ایسے حال میں ناممکن ہے، کوءی چیز ٹھکانے سے ہو
آنکھ میں خون اتر آتا ہے، دل میں آنسو بھر جاتے ہیں
اور بتاو اس کے علاوہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے
تم بھی اپنے گھر جاتے ہو، ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
دنیا میں ساری بربادی، اہلِ خرد نے پھیلای ہے
لیکن سب الزام ہمیشہ، اہلِ جنوں کے سر جاتے ہیں
کبھی کبھار جو یاد آجاءے، اپنا یوں بے مصرف ہونا
کچھ دن بے چینی رہتی ہے، پھر کچھ سال گزر جاتے ہیں
تار و پود بکھر جاتے ہیں، ٹکڑے چننے کے چکر میں
ٹکڑے چننے کے چکر میں، تار و پود بکھر جاتے ہیں
ہجر کی ساعت آخری دم تک، عمر کے ساتھ سفر کرتی ہے
وصل کے لمحے آناً فاناً، وقت کے پار اتر جاتے ہیں
تم عرفان کی فکر نہ کرنا، اس کی بات بنی رہتی ہے
آتی آفت ٹل جاتی ہے، بگڑے کام سنور جاتے ہیں
عرفان ستار

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

وہ بے گھری کہ جو ہوتی ہے گھر کے ہوتے ہُوئے

نہ سمجھے اہلِ نظر بھی نظر کے ہوتے ہُوئے
وہ بے گھری کہ جو ہوتی ہے گھر کے ہوتے ہُوئے
تلاشِ وسعتِ صحرا ہو نطق و لہجے کو
تَو کون بولے گا دِیوار و دَر کے ہوتے ہُوئے
تِرے جنوں میں یقیناً کمی رَہی ہو گی
جو سَر جھُکا دِیا سَودائے سَر کے ہوتے ہُوئے
اَزَل اَبَد کی نظر بندیاں معاذ اللہ
یہ اِک عذاب ہے ذَوقِ نظر کے ہوتے ہُوئے
حواس و ہوش سے ہَم کو شکایتیں کیسی؟
شکار ہو گئے ہَم بال و پَر کے ہوتے ہُوئے
ہَر ایک سانس میں ہے ایک دَشتِ تَنہائی
سَفَر میں رہتا ہُوں میں اَپنے گھر کے ہوتے ہُوئے
سُکونِ قَلب کو اِس اَنجمن سے کیا نِسبَت
بَھلا بَتائیے! اِس شور و شَر کے ہوتے ہُوئے
یہاں کے بعد وہاں کی بھی فکر ہے ضامنؔ
اِک اَور بوجھ ہے اِس بارِ سَر کے ہوتے ہُوئے
ضامن جعفری

سَمَجھ رہے ہیں جو کرنے تھے کام کر آئے

لگا کے پیڑ نہ جن میں کبھی ثَمَر آئے
سَمَجھ رہے ہیں جو کرنے تھے کام کر آئے
دُعا کا کیا ہے؟ دُعا لب پہ عمر بھر آئے
مزا تَو جب ہے دعاؤں میں کچھ اَثَر آئے
جنوں اُنھِیں کا اُنھِیں کی ہُوئیں منازلِ شوق
جو ہر سَفَر میں نیا سنگِ میِل دھَر آئے
نظامِ گلشنِ رَدّ و قبول کو تَو سَمَجھ
جو چاہے نخلِ تمنّا میں کچھ ثَمَر آئے
خلوصِ حُسنِ نَظَر کی فصِیل حائل تھی
بہت خیال نے چاہا مُراد بَر آئے
نہ وہ فضا نہ وہ خوشبُو نہ وہ در و دیوار
ہم اجنبی سے تھے ضامنؔ جب اپنے گھر آئے
ضامن جعفری

میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا

گو دِل شکستگی کا اثر تَو نہیں گیا
میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا
تا حَشر دیکھ بھال کی ایک ایک زَخم کی
دَھڑکا لگا رَہا کہیِں بَھر تَو نہیں گیا
وحشَت کی لاج رَکّھی ہے میں نے تمام عُمر
کیا کیا نَہ خاک اُڑائی پَہ گھر تَو نہیں گیا
رَستے میں کوئی چاک گریباں نہیں مِلا
لینا خَبَر کہیِں وہ سُدَھر تَو نہیں گیا
حُسنِ بُتاں ! یہ واقفِ خُوئے بُتاں بھی ہے
دِل پُوچھتا رَہا میں اُدَھر تَو نہیں گیا
آواز کس طرح کی یہ سینے سے آئی ہے
ضامنؔ! دِلِ شکستہ بِکھر تَو نہیں گیا
ضامن جعفری

تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا

فَریبِ حُسنِ نَظَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا
میں اِنتِظار کی گَھڑیوں سے کہنے والا ہُوں
سَدا دَریچہ و دَر میں نَہیں رَہا جاتا
مِری خَطا ہے، اُسے آئینہ دِیا لا کَر
اَب اُس سے شام کو گَھر میں نَہیں رَہا جاتا
یہ رازِ عِشق کی خُوبی ہے یا خرابی ہے؟
کہ اُس سے دیِدہِ تَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَو کیا میں ظُلمَتِ شَب ہی سے دوستی کَرلُوں ؟
گر اِنتِظارِ سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا!
کوئی بَتائے کہ کَب تَک میں پیش پیش رَہوں
نزاعِ زیر و زَبَر میں نَہیں رَہا جاتا
جنوں نے جَب سے حصارِ خِرَد کو توڑا ہے
قیودِ شام و سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا
بَدَل گیا ہے کوئی یُوں مِرے دَر و دِیوار
کہ مجھ سے اپنے ہی گھر میں نہیں رہا جاتا
چَلو! دیارِ جنوں چل کر اب رہیں ضامنؔ
خِرَد کے سحر و اَثَر میں نہیں رَہا جاتا
ضامن جعفری

تمام شہر جَلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں

امیرِ شہر کے دستِ ہُنَر کا ذکر نہیں
تمام شہر جَلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں
پڑھا ہے ہم نے بہت ہاتھ کی لکیروں کو
کِسی معاہدہِ خَیر و شَر کا ذکر نہیں
تمہارے حُسن کی تاریخ نامکمّل ہے
کسی جگہ مرے حُسنِ نظر کا ذکر نہیں
صلیب و دار کے سائے میں ہے تمام سَفَر
میں جس سَفَر میں ہُوں اُس میں شَجَر کا ذکر نہیں
تمہاری سنگ دِلی کی گواہ ہے تاریخ
کسی وَرَق پہ کَہیِں در گُزر کا ذکر نہیں
بہت عجیب ہیں دیدہ وَران نَو ضامنؔ
نظر کا زعم ہے اہلِ نظر کا ذکر نہیں
ضامن جعفری

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دُھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہِ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ناصر کاظمی

کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش

کارواں سُست راہبر خاموش
کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش
تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش
دیکھ اور دیکھ کر گزر خاموش
یوں ترے راستے میں بیٹھا ہوں
جیسے اک شمعِ رہگزر خاموش
تو جہاں ایک بار آیا تھا
ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش
اُس گلی کے گزرنے والوں کو
تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش
اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش
یہ زمیں کس کے اِنتظار میں ہے
کیا خبر کیوں ہے یہ نگر خاموش
شہر سوتا ہے رات جاگتی ہے
کوئی طوفاں ہے پردہ در خاموش
اب کے بیڑا گزر گیا تو کیا
ہیں ابھی کتنے ہی بھنور خاموش
چڑھتے دریا کا ڈر نہیں یارو
میں ہوں ساحل کو دیکھ کر خاموش
ابھی وہ قافلے نہیں آئے
ابھی بیٹھیں نہ ہم سفر خاموش
ہر نفس اِک پیام تھا ناصر
ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش
ناصر کاظمی

نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو

دل بھی عجب عالم ہے نظر بھر کے تو دیکھو
نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو
اے دیدہ ور و دیدئہ پرنم کی طرف بھی
مشتاق ہو لعل و زر و گوہر کے تو دیکھو
بے زادِ سفر جیب تہی شہر نوردی
یوں میری طرح عمر کے دِن بھر کے تو دیکھو
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو
ناصر کاظمی

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
تو جہاں چند روز ٹھہرا تھا
یاد کرتا ہے تجھ کو آج وہ گھر
ہم جہاں روز سیر کرتے تھے
آج سنسان ہے وہ راہگزر
تو جو ناگاہ سامنے آیا
رکھ لیے میں نے ہاتھ آنکھوں پر
ناصر کاظمی

خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزر گئی لیکن
اِتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں
اُن اُجالوں کی دُھن میں پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں
رَین اندھیری ہے اور کنارہ دُور
چاند نکلے تو پار اُتر جائیں
ناصر کاظمی

آج تو شام بھی سحر سی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر سی ہے
بے ثمر ہی رہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہگزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
ناصر کاظمی

اِک نگہ نے پھِردکھا دی میری خاکستر کو آگ

کچھ قرار آنے لگا تھا مدتوں جلنے کے بعد
اِک نگہ نے پھِردکھا دی میری خاکستر کو آگ
چل رہے تھے کب سے ننگے پاؤں جلتی ریت پر
کیا عجب چڑھنے لگی ہے اب جو اپنے سر کو آگ
دوستو محفوظ مت سمجھو تم اپنے آپ کو
ایک گھر کی آگ سے لگ جائے گی ہر گھر کو آگ
باصر کاظمی

دیس سے ہٹ کر کون ٹھکانہ گھر سا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
جس کا اندر جنّت کے اندر سا ہو
دیس سے ہٹ کر کون ٹھکانہ گھر سا ہو
بیشک دِل اُس میں اُلجھے پر فتنہ وُہ
زن سا اور زمیں اور نہ زر سا ہو
رحمتِ یزداں تک سے بھی وہ ڈر جائے
جس کھیتی پر بادل ٹوٹ کے برسا ہو
اُس خطّے میں اچّھے دن کم کم آئیں
تخت جہاں کا بھی حقدار کو ترسا ہو
گُنی بہت اور اپنی آن کا رکھوالا
جس کا بیٹا ہو میرے یاور سا ہو
اپنے یہاں گھر بار کے سب دکھ سہنے کو
حوصلہ ہو تو ماجِد وُہ ساگر سا ہو
ماجد صدیقی

اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ
اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ
جیسے کم سن چوزے ہوں مرغی کے پروں میں بند
جبر کی چیلوں سے دبکے ہیں یوں ہر گھر کے لوگ
ہر فریاد پہ لب بستہ ہیں مانندِ اصنام
عدل پہ بھی مامور ہوئے کیا کیا پتّھر کے لوگ
صبح و مسا ان کے چہروں پر اک جیسا اندوہ
منظر منظر ہیں جیسے اک ہی منظر کے لوگ
کچھ بھی نہیں مرغوب اِنہیں، کولہو کے سفر کے سوا
میرے نگر کے لوگ ہیں ماجد اور ڈگر کے لوگ
ماجد صدیقی

سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یابس دنوں کی یاد سے ہے سر بہ سر اداس
سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
ساقط ہُوا ہے جیسے اُبھرتے ہی آفتاب
اب کے کچھ اِس طرح سے ہوئے بام و در اداس
حیراں نہیں تھے یوں کبھی اشکوں کے آئینے
اُترا نہیں تھا اِن میں نگر کا نگر اداس
یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِسطرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
دونوں پہ موسموں کا اثر یوں کبھی نہ تھا
ششدر ہوں میں اِدھر تو اُدھر میرا گھر اداس
جیسے الاؤ پر سے کبوتر گزر کے آئے
لَوٹا ہے اب کے ہو کے بہت نامہ بر اداس
پہروں کے پہر،یُوں کبھی گڈ مڈ ہوئے نہ تھے
شب ہے اداس، شام اداس اور سحر اداس
پُورا ہُوا تو ساتھ ہی گھٹنے لگا یہ چاند
ماجد ہے اِس حیات کا سارا سفر اداس
ماجد صدیقی

شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
جس سے لرزاں تھی وُہ ڈر، یاد آیا
شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا
حبس سانسوں میں، جہاں بھی اُترا
مُجھ کو ہجرت کا، سفر یاد آیا
چاند تھا جن کا، چراغاں مَیں تھا
پھر نہ وُہ بام، نہ در یاد آیا
زخم سا محو، جو دل سے ٹھہرا
کیوں اچانک، وُہ نگر یاد آیا
کیسی سازش یہ صبا نے، کی ہے
کیوں قفس میں، گلِ ترا یاد آیا
بُوند جب، ابر سے بچھڑی ماجدؔ
مُجھ کو چھوڑا ہُوا گھر، یاد آیا
ماجد صدیقی

کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
وہ فردِ جرم کا غلبہ ہے دربہ در دیکھا
کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا
بدن میں خوف سے پائی سکت نہ جنبش کی
یہ انکسار بھی باوصفِ بال و پر دیکھا
بس اِتنا یاد ہے قصہ گرانیٔ شب کا
کوئی گلاب نہ کِھلتا دم سحر دیکھا
لہو کی آنچ لیے جو بھی تا بہ لب آیا
وہ حرف بعد میں لکھا بہ آبِ زر دیکھا
ہُوا ہو برق کی مانند سامنا جس سے
جدا نہ ذہن سے ہوتا ہوا وہ ڈر دیکھا
چمن کا حال وہ ماجدؔ! کہے گا کیا جس نے
ہر ایک شاخ کے پہلو میں ہو تبر دیکھا
ماجد صدیقی

فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
لُٹا کے حرصِ نمو میں گل و ثمر اپنے
فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے
نظر، خیال، گماں، تشنگی تمّنا کی
نہ آئے لوٹ کے جتنے تھے نامہ بر اپنے
یتیم جیسے جواں ہو کے بھی یتیم رہے
اُسی طرح کے گماں اور وہی ہیں ڈر اپنے
فضا کے دوش سے کس آن پھینک دیں جانے
مسافتوں سے شکستہ یہ بال و پر اپنے
ملا وُہ یار تو دل یوں مچل اُٹھا ماجدؔ
کہ بعدِ عمر مُڑے جیسے کوئی گھر اپنے
ماجد صدیقی

اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
سحر تو ایک سی گُرگ و غزال پر اُترے
اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے
سنی پکار نہ آئی صدا سسکنے کی
نجانے کون سی گھاٹی میں ہم سفر اُترے
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وُہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اُترے
انہی پہ سانپ نگلتے ہیں ناتوانوں کو
سفیر بن کے سکوں کے ہیں گو شجر اُترے
مری بھی رُوح کا ساگر ہُوا کرم فرما
مری بھی آنکھ میں دیکھو تو ہیں گہر اُترے
سمیٹ لائے جہاں بھر کے رتجگے ماجدؔ
وہ ذہن جس پہ فلک سے کوئی ہُنر اُترے
ماجد صدیقی

اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے
زخم وہ کھل بھی تو سکتا ہے سِلایا ہے جسے
ہم بھلا کب ہیں حدِ خوف و خطر سے نکلے
یہ سفر اپنا کہیں جانبِ محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
کل جو ٹپکے تھے سرِ کوچۂِ کوتہ نظراں
اشک اب کے بھی وہی دیدۂ تر سے نکلے
عکس کچھ اپنا ہی آئینہ حالات میں تھا
سٹپٹائے ہوئے جب دامِ سفر سے نکلے
کون کہہ سکتا ہے ماجدؔ کہ بایں کم نگہی
حشر کیا ساعتِ آئندہ کے در سے نکلے
ماجد صدیقی

مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
تھا نہ جانے کون سے بے رحم ڈر کا سامنا
مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا
کرچیاں اُتری ہیں آنکھوں میں اندھیری رات کی
اور اُدھر مژدہ کہ لو کیجو سحر کا سامنا
ننھی ننھی خواہشوں کا مدفنِ بے نُور سا
زندگی ہے اب تو جیسے اپنے گھر کا سامنا
تجربہ زنداں میں رہنے کا بھی مجھ کو دے گیا
بعد جانے کے ترے دیوار و در کا سامنا
پیرہن کیا جسم کا حصہ سمجھئے اَب اسے
تا بہ منزل ہے اِسی گردِ سفر کا سامنا
دیکھنے زیبا ہیں کب ایسے کھنڈر بعدِ خزاں
کون اب کرنے چلے شاخ و شجر کا سامنا
کچھ کہو یہ کس جنم کی ہے سزا ماجدؔ تمہیں
روز و شب کیوں ہے یہ تخلیق ہُنر کا سامنا
ماجد صدیقی

سو شک کا فائدہ اس کی نظر کو جاتا ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 137
گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ اس کی نظر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے
یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیش نظر
مگر خیال تری رہ گزر کو جاتا ہے
تو انوری ہے، نہ غالب تو پھر یہ کیوں ہے فراز
ہر ایک سیل بلا تیرے گھر کو جاتا ہے
احمد فراز

کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 108
جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے
کسے خبر کہ وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے
اب اک ہجوم شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نہ ملا ہمسفر ہمارے ہوئے
کسی نے غم تو کسی نے مزاج غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے
وہ اعتماد کہاں سے فراز لائیں گے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے
احمد فراز

بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 88
قیمت ہے ہر کِسی کی دُکاں پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی
غافل نہ جان اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر لگی ہوئی
خوش ہو نہ سر نوِشتۂ مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر لگی ہوئی
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشمِ بد ہے جانبِ خیبر لگی ہوئی
غیروں سے کیا گِلا ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مرے گھر لگی ہوئی
لازم ہے مرغِ بادنما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر لگی ہوئی
میرے ہی قتل نامے پہ میرے ہی دستخط
میری ہی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
کس کے لبوں پہ نعرۂ منصور تھا فراز
ہے چار سُو صدائے مکرّر لگی ہوئی
احمد فراز

تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 75
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
احمد فراز

عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 73
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
نہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے
تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
تیرے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے
یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں
عجب فسونِ خریدار کا اثر ہے کہ ہم
اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں
کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے
طلسم خانۂ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
فراز در خورِ سجدہ ہر آستانہ نہیں
ہم اپنے دل کے حوالے سے در کو دیکھتے ہیں
وہ بے خبر میری آنکھوں کا صبر بھی دیکھیں
جو طنز سے میرے دامانِ تر کو دیکھتے ہیں
یہ جاں کنی کی گھڑی کیا ٹھہر گئی ہے کہ ہم
کبھی قضا کو کبھی چارہ گر کو دیکھتے ہیں
ہماری دربدری کا یہ ماجرا ہے کہ ہم
مسافروں کی طرح اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
فراز ہم سے سخن دوست، فال کے لئے بھی
کلامِ غالب آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں
احمد فراز

مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 20
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا
کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
احمد فراز

پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 45
نگاہِ شوق سے راہِ سفر کو دیکھتے ہیں
پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ جانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو
جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں
یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہمارے طرزِ توجہ پہ خوش گمان نہ ہو
تجھے نہیں تری تابِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہمارے سامنے دریا ہیں سلسلوں کے رواں
پہ کیا کریں کہ تری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرص و ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں
دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
عرفان ستار

اندر سے بھی کوئی مرے پر کاٹ رہا ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 121
صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مرے پر کاٹ رہا ہے
اے چادر منصب، ترا شوقِ گلِ تازہ
شاعر کا ترے دستِ ہُنر کاٹ رہا ہے
جس دن سے شمار اپنا پناہگیروں میں ٹہرا
اُس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے
کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوۓ سر کاٹ رہا ہے
پروین شاکر

کس اسم کے جمال سے بابِ ہُنر کُھلے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 105
سرگوشی بہار سے خوشبو کے در کھلے
کس اسم کے جمال سے بابِ ہُنر کُھلے
جب رنگ پا بہ گِل ہوں ، ہوائیں بھی قید ہوں
کیا اُس فضا میں پرچمِ زخمِ جگر کُھلے
خیمے سے دُور ، شام ڈھلے ، اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں ، بے وقت ، سر کُھلے
شاید کہ چاند بُھول پڑے راستہ کبھی
رکھتے ہیں اِس اُمید پہ کچھ لوگ گھر کُھلے
وہ مُجھ سے دُور خوش ہے؟ خفا ہے؟ اُداس ہے؟
کس حال میں ہے؟ کُچھ تو مرا نامہ بر کُھلے
ہر رنگ میں وہ شخص نظر کو بھلا لگے
حد یہ__کہ رُوٹھ جانا بھی اُس شوخ پر کُھلے
کُھل جائے کن ہواؤں سے رسمِ بدن رہی
خلوت میں پُھول سے کبھی تتلی اگر کُھلے
راتیں تو قافلوں کی معیت میں کاٹ لیں
جب روشنی بٹی تو کئی راہبر کُھلے
پروین شاکر

دُکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 101
پُھول آئے ، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے
دُکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے
ہیں تیز بہت ہَوا کے ناخن،
خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے
کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی
پتّہ نہ سہی ، شجر ہی ٹھہرے
اس شہرِ سخن فروشگاں میں
ہم جیسے تو بے ہُنر ہی ٹھہرے
اَن چکھّی اڑان کی بھی قیمت
آخر مرے بال و پر ہی ٹھہرے
روغن سے چمک اُٹھے تو مجھ سے
اچھّے مرے بام و در ہی ٹھہرے
کچھ دیر کو آنکھ رنگ چُھو لے
تتلی پہ اگر نظر ہی ٹھہرے
وہ شہر میں ہے ، یہی بہت ہے
کس نے کہا ، میرے گھر ہی ٹھہرے
چاند اُس کے نگر میں کیا رُکا ہے
تارے بھی تمام اُدھر ہی ٹھہرے
ہم خود ہی تھے سوختہ مقدر
ہاں ! آپ ستارہ گر ہی ٹھہرے
میرے لیے منتظر ہو وہ بھی
چاہے سرِ رہگزر ہی ٹھہرے
پا زیب سے پیار تھا ، سو میرے
پاؤں میں سدا بھنور ہی ٹھہرے
پروین شاکر

جب سے ہم اُن کو میسر ہو گئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 96
دسترس سے اپنی،باہر ہو گئے
جب سے ہم اُن کو میسر ہو گئے
ہم جو کہلائے طُلوعِ ماہتاب
ڈوبتے سُورج کا منظر ہو گئے
شہرِ خوباں کا یہی دستورہے
مُڑ کے دیکھا اور پتھر ہو گئے
بے وطن کہلائے اپنے دیس میں
اپنے گھر میں رہ کے بے گھر ہو گئے
سُکھ تری میراث تھے،تجھ کو ملے
دُکھ ہمارے تھے،مقدر ہو گئے
وہ سر اب اُترا رگ وپے میں کہ ہم
خود فریبی میں سمندر ہو گئے
تیری خود غرضی سے خود کو سوچ کر
آج ہم تیرے برابر ہو گئے
پروین شاکر

جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 91
خوشبو ہے وہ تو چُھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے
خود پُھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا
چوری تمام رنگ کی ، تتلی کے سر نہ جائے
ایسا نہ ہو کہ لمس بدن کی سزا بنے
جی پُھول کا ، ہَوا کی محبت سے بھر نہ جائے
اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے،یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے
شدّت کی نفرتوں میں سدا جس نے سانس لی
شدّت کا پیار پاکے خلا میں بکھر نہ جائے
اُس وقت تک کناروں سے ندّی چڑھی رہے
جب تک سمندر کے بدن میں اُتر نہ جائے
پلکوں کو اُس کی ، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر کی گردِ سفر نہ جائے
میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دُعا
قاصد، ہوا،ستارہ کوئی اُس کے گھر نہ جائے
پروین شاکر

میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 18
آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا
رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا
صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا
اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہو گے
مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا
خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا
تُونے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کُچھ تو کہہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا
پروین شاکر

آئی ہے عجب گھڑی وفا پر

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 4
مٹّی کی گواہی خوں سے بڑھ کر
آئی ہے عجب گھڑی وفا پر
کس خاک کی کوکھ سے جنم لیں
آئے ہیں جو اپنے بیج کھوکر
کانٹا بھی یہاں کا برگِ تر ہے
باہر کی کلی ببول ، تھوہر
قلموں سے لگے ہُوئے شجر ہم
پل بھر میں ہوں کِس طرح ثمر ور
کچھ پیڑ زمین چاہتے ہیں
بیلیں تو نہیں اُگیں ہوا پر
اس نسل کا ذہن کٹ رہا ہے
اگلوں نے کٹائے تھے فقط سر
پتّھر بھی بہت حسیں ہیں لیکن
مٹّی سے ہی بن سکیں گے کچھ گھر
ہر عشق گواہ ڈھونڈتا ہے
جیسے کہ نہیں یقیں خود پر
بس اُن کے لیے نہیں جزیرہ
پَیر آئے جو کھولتے سمندر
پروین شاکر

وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 145
ان کی تجلیوں کا اشر کچھ نہ پوچھیے
وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے
از شامِ ہجر تا بہ سحر کچھ نہ پوچھیے
کٹتے ہیں کیسے چار پہر کچھ نہ پوچھیے
بجلی جو شاخ، گل پہ گری اس کا غم نہیں
لیکن وہ اک غریب کا گھر کچھ نہ پوچھیے
ہو ایک راستہ تو کوئی ڈھونڈے انھیں
کتنی ہے ان کی راہگزر کچھ نہ پوچھیے
تنکے وہ نرم نرم سے پھولوں کی چھاؤں میں
کیسا بنا تھا باغ میں گھر کچھ نہ پوچھیے
بس آپ دیکھ جایئے صورت مریض کی
نبضوں کا حال دردِ جگر کچھ نہ پوچھیے
جب چاندنی میں آ کے ہوئے تو وہ میہماں
تاروں بھری وہ رات قمر کچھ نہ پوچھیے
قمر جلالوی

سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 144
ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے
دل کو وہ کیا دیکھتے سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لیئے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کیے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کیے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کیے اور ہم ادھر دیکھا کیے
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھئے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کیے
رات بھر تڑپا کیا ہے دردِ فرقت سے قمر
پوچھ تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کیے
قمر جلالوی

کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 123
یوں تمھارے ناتوان منزل بھر چلے
کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے
چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے
دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے
ہو گیا صیاد برہم ہے اے اسیرانِ قفس
بند اب یہ نالہ و فریاد، ورنہ پر چلے
کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ
تھک گئے جب پاؤں ترا نام لے لے کر چلے
آ رہے ہیں اشک آنکھوں میں اب اے ساقی نہ چھیڑ
بس چھلکنے کی کسر باقی ہے ساغر بھر چلے
جب بھی خالی ہاتھ تھے اور اب بھی خالی ہاتھ ہیں
لے کے کیا آئے تھے اور لے کر کیا چلے
حسن کو غم گین دیکھے عشق یہ ممکن نہیں
روک لے اے شمع آنسو اب پتنگے مر چلے
اس طرف بھی اک نظر ہم بھی کھڑے ہیں دیر سے
مانگنے والے تمھارے در سے جھولی بھر چلے
اے قمر شب ختم ہونے کو ہے انتظار
ساحلِ شب سے ستارے بھی کنارہ کر چلے
قمر جلالوی

وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 96
بیمار کو کیا خاک ہوا امید سحر کی
وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی
مہماں ہے کبھی میری کبھی غیر کے گھر کی
تو اے شبِ فرقت ادھر کی نہ ادھر کی
اللہ رے الفت بتِ کافر ترے در کی
منت مجھے درباں کی نہ کرنی تھی مگر کی
بیمار شبِ ہجر کی ہو خیر الٰہی
اتری ہوئی صورت نظر آتی ہے سحر کی
اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے
بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی
اے شمع مرے حال پہ تو روئے گی کب تک
مجھ پر تو مصیبت ہے ابھی چار پہل کی
یہ وقت وہ ہے غیر بھی اٹھ کر نہیں جاتے
آنکھوں میں مرا دم ہے تمہیں سوجھی ہے گھر کی
دم توڑنے والا ہے مریضِ خمِ گیسو
سوجھی ہے مسافر کو سرِ شام سفر کی
جاؤ بھی شبِ وعدہ رکھا خوب پریشاں
رہنے دو قسم کھا گئے جھوٹی مرے سر کی
ہر اک سے کہتے ہو کہ وہ مرتا مجھ پر
چاہے کبھی صورت بھی نہ دیکھی ہو قمر کی
قمر جلالوی

عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 85
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ
چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر
یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ
قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں
بہارِ گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ
کوئی چھپ جائے گا بیمارِ شامِ ہجر کا مرنا
پہنچ جائے گی ان تک بھی خبر آہستہ آہستہ
غمِ تبدیلی گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے
قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ آہستہ
ہمارے باغباں نے کہہ دیا گلچیں کے شکوے پر
نئے اشجار بھی دیں گے ثمر آہستہ آہستہ
الٰہی کو نسا وقت آگیا بیمارِ فرقت پر
کہ اٹھ کر چل دیے سب چارہ گر آہستہ آہستہ
نہ جانے کیوں نہ آیا ورنہ اب تک کب کا آ جاتا
اگر چلتا نامہ بر وہاں سے آہستہ آہستہ
خفا بھی ہیں ارادہ بھی ہے شاید بات کرنے کا
وہ چل نکلیں ہیں مجھ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ
جوانی آگئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں
چلانا آگیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ
جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں
یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ
ابھی تک یاد ہے کل کی شبِ غم اور تنہائی
پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر آہستہ آہستہ
قمر جلالوی

وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 83
بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں
وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں
اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر
نامہ بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں
اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے
میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں
تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرآ ہی کی گستاخی معاف
خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں
ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج
بس یہ کہئیے دردِ دل کو چارہ گر سمجھا نہیں
داغِ دل اس سے نہ پوچھا حالِ شامِ غم کے ساتھ
تم کو صورت سے وہ شاید اے قمر سمجھا نہیں
قمر جلالوی

ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 67
دل کو خبر نہیں ہے اور درد ہے جگر میں
ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں
اتنا سبک نہ کیجئے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
رسوائیوں کا ڈر بھی میری قضا کا غم ہے
میت سے کچھ الگ ہیں آنسو ہیں چشمِ تر میں
حالانکہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن
اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں
دیکھا جو صبح فرقت اترا سا منہ قمر کا
بولے کہ ہو گیا ہے کیا حال رات بھر میں
قمر جلالوی

اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 57
ممکن ہے کوئی موج ہو ساحل ادھر نہ ہو
اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو
یہ تو نہیں آہ میں کچھ بھی اثر نہ ہو
ممکن آج رات کوئی اپنے گھر نہ ہو
تاروں کی سیر دیکھ رہے ہیں نقاب سے
ڈر بھی رہے ہیں مجھ پہ قمر کی نظر نہ ہو
قمر جلالوی

تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 38
دیکھو پھر دیکھ لو دیوار کی دَر کی صورت
تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت
خیر ہو آپ کے بیمارِ شبِ فرقت کی
آج اتری نظر آتی ہے سحر کی صورت
اے کلی اپنی طرف دیکھ کہ خاموش ہے کیوں
کل کو ہو جائے گی تو بھی گلِ تر کی صورت
جام خالی ہوئے محفل میں ہمارے آگے
ہم بھرے بیٹھے رہے دیدۂ تر کی صورت
پوچھتا ہوں ترے حالات بتاتے ہی نہیں
غیر کہتے نہیں مجھ سے ترےِدر کی صورت
اس نے قدموں میں بھی رکھا سرِمحفل نہ ہمیں
جس کہ ہم ساتھ رہے گردِ سفر کی صورت
رات کی رات مجھے بزم میں رہنے دیجئے
آپ دیکھیں گے سحر کو نہ قمر کی صورت
قمر جلالوی

اے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 32
اب تو منہ سے بول مجھ کو دیکھ دن بھر ہو گیا
اے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا
اب تو چپ ہو باغ میں نالوں سے محشر ہو گیا
یہ بھی اے بلبل کوئی صیاد کا گھر ہو گیا
التماسِ قتل پر کہتے ہو فرصت ہی نہیں
اب تمہیں اتنا غرور اللہ اکبر ہو گیا
محفلِ دشمن میں جو گزری وہ میرے دل سے پوچھ
ہر اشارہ جنبشِ ابرو کا خنجر ہو گیا
آشیانے کا کیا بتائیں کیا پتہ خانہ بدوش
چار تنکے رکھ لئے جس شاخ پر گھر ہو گیا
حرس تو دیکھ فلک بھی مجھ پہ کرتا ہے ظلم
کوئی پوچھے تو بھی کیا ان کے برابر ہو گیا
سوختہ دل میں نہ ملتا تیر کا خوں اے قمر
یہ بھی کچھ مہماں کی قسمت سے میسر ہو گیا
قمر جلالوی

کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 12
کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا
ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی
اکھٹا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا
یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دمِ آخر علاجِ سوزِ غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشاناتِ جبیں جوشِ عقیدت خود بتائیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگِ در اپنا
جوابِ خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتہ میری بجائے نامہ بر اپنا
مجھ اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیر نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
قمر ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہو نے تک
شبِ وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
قمر جلالوی

رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 58
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ
کیا لطفِ آہ، صبحِ شبِ ہجرِ مہروش
کیا فائدہ جو کیجئے روشن سحر چراغ
پروانہ گر نہ جائے تو بے جا ہے لافِ عشق
روشن ہے میرے نالوں سے افلاک پر چراغ
حربا کرے طریقۂ پروانہ اختیار
اُس تابِ رخ سے کیجئے روشن اگر چراغ
پروانہ ہو گیا ہے رقیبِ کتاں کہ ہے
اُس مہر وش کے جلوے کے آگے قمر چراغ
گستاخیوں کی تاب کسے اس کی بزم میں
بے باکیِ نسیم سے ہرگز نہ ڈر چراغ
ہے شمعِ انجمن وہ مہِ آتشیں عذار
گھی کے جلیں گے آج تو دشمن کے گھر چراغ
کرتا ہوں فکرِ شعر جو میں شب کو شیفتہ
رہتا ہے خواب گہ میں مری رات بھر چراغ
مصطفٰی خان شیفتہ

ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 43
اے شیفتہ نویدِ شبِ غم سحر ہے آج
ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج
آہنگِ دل پذیر سے مطرب ہے جاں نواز
آہِ جگر خراش کا ظاہر اثر ہے آج
دل سے کشادہ تر نہ ہو کیوں کر فضائے بزم
تنگیِ خانہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج
فانوس میں نہ شمع، نہ شیشے میں ہے پری
ساغر میں جس بہار سے مے جلوہ گر ہے آج
پروانوں کا دماغ بھی ہے آسمان پر
نورِ چراغ میں جو فروغِ قمر ہے آج
ہر سمت جلوہ گر ہیں جوانانِ لالہ رُو
گلزار جس کو کہتے ہیں وہ اپنا گھر ہے آج
سامان وہ کہ آئے نہ چشمِ خیال میں
آ اے رقیب دیکھ کہ پیشِ نظر ہے آج
وہ دن گئے کہ ربطِ سر و سنگ تھا بہم
شکرانے کے سجود ہیں اور اپنا سر ہے آج
اسبابِ عیش یہ جو مہیا ہے شیفتہ
کیا پردہ تم سے، آنے کی اُن کے خبر ہے آج
مصطفٰی خان شیفتہ

کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 40
دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت
دیوانۂ اُلفت ادب آموزِ خرد ہے
سودے میں نہیں زلفِ معنبر کی شکایت
تاخیر نہ کر قتلِ شہیدانِ وفا میں
ہر ایک کو ہے تیزیِ خنجر کی شکایت
تاثیر ہو کیا، ان لب و دنداں کا ہوں بیمار
نے لعل کا شکوہ ہے نہ گوہر کی شکایت
کیوں بوالہوسوں سے دلِ عاشق کا گلہ ہے
غیروں سے بھی کرتا ہے کوئی گھر کی شکایت
اب ظلم سرشتوں کی نگہ سے ہوں مقابل
ہوتی تھی کبھی کاوشِ نشتر کی شکایت
یاں کانٹوں پہ بھی لوٹنے میں چین نہیں ہے
واں غیر سے ہے پھولوں کے بستر کی شکایت
تعلیم بد آموز کو ہم کرتے ہیں ، یعنی
ہے شکرِ وفا، جورِ ستم گر کی شکایت
بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہو گی
اے شیفتہ ہنگامۂ محشر کی شکایت
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 29
اُس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جاتا تھا ہمارے بھی گھر آیا
کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لختِ جگر آیا
گو کچھ نہ کہا، پر ہوئے دل میں متاثر
شکوہ جو زباں پر مری آشفتہ تر آیا
بے طاقتیِ شوق سے میں اٹھ ہی چکا تھا
ناگاہ وہ بے تاب مری قبر پر آیا
بے قدر ہے مفلس شجرِ خشک کی مانند
یاں درہم و دینار میں برگ و ثمر آیا
حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجہ
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا
دیکھے کہ جدائی میں ہے کیا حال، وہ بدظن
اس واسطے شب گھر میں مرے بے خبر آیا
کیا دیر ہے اے ساقیِ گلفام سحر ہے
کیا عذر ہے اے زاہدِ خشک، ابرِ تر آیا
احوال میں ہیں شیفتہ کی مختلف اقوال
پوچھیں گے، وہاں سے جو کوئی معتبر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 27
قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا
مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا
جذبۂ شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا
خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا
اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچۂ یار سے زخمی جو کبوتر آیا
دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا
اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا
آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 12
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا
حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا
آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا
شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا
شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا
نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا
میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا
اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا
آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا
مصطفٰی خان شیفتہ

کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 36
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
ہے دوا انکی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
کوئی آسان ہے تیرا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں
جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی
ٹوٹ آئیں ہیں کس قدر آنکھیں
دل کو تو گھوَنٹ گھوَنٹ کر رکھا
مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں
نہ گئی تاک جھانک کی عادت
لئے پھرتی ہیں در بہ در آنکھیں
ناوک و نیشتر تری پلکیں
سحرِ پرداز و فتنہ گر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں
نوحہ گر کون ہے مقدر میں
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
یہی رونا ہے گر شبِ غم کا
پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں
حالَ دل دیکھنا نہیں آتا
دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں
داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
انکو دیدو نکال کر آنکھیں
داغ دہلوی

وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 23
خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا
وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا
مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کی توبہ
لے لیا دوڑ کے جب سامنے ساغر آیا
غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا
سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک
ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا
داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے لیا عشق میں جو ہم کو میسر آیا
عشق تاثیر ہی کرتا ہے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہی جی بھر آیا
اس قدر شاد ہوں گویا کہ ملی ہفت اقلیم
آئینہ ہاتھ میں آیا کہ سکندر آیا
وصل میں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک دیکھ تو یہ کون مرے گھر آیا
راہ میں وعدہ کریں جاؤں میں گھر پر تو کہیں
کون ہے، کس نے بلایا اسے، کیونکر آیا
داغ کے نام سے نفرت ہے، وہ جل جاتے ہیں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آیا
داغ دہلوی

پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 188
جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے
پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے
تھک کر گریں گے جس دم بانہوں میں تیری آ کر
اُس دَم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہوں گے
اے جانِ عہد و پیماں۔۔ہم گھر بسائیں گے ہاں
تُو اپنے گھر میں ہو گا۔۔ہم اپنے گھر میں ہوں گے
میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و دَر کے رشتے۔۔دیوار و دَر میں ہوں گے
تجھ عکس کے سوا بھی اے حُسن وقتِ رخصت
کچھ اور عکس بھی تو اس چشمِ تر میں ہوں گے
ایسے سراب تھے وہ ایسے تھے کچھ کہ اب بھی
میں آنکھ بند کر لوں تب بھی نظر میں ہوں گے
اس کے نقوشِ پا کو راہوں میں ڈھونڈنا کیا
جو اس کے زیر پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے
وہ بیشتر ہیں جن کو کل کا خیال کم ہے
تُو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے
آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے
یہ تو کمر عجب ہے اِک سوچ ہے جو اَب ہے
اب جانے ہاتھ میرے کِس کمر میں ہوں گے
جون ایلیا

جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 167
اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے
اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے
اب کیا کہوں کے سارا محلہ ہے شرم سار
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھی گئے
ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
تھا رن بھی زندگی کا عجب طرفہ معاملہ
یعنی اٹھے تو پاؤں مگر جون سر گئے
جون ایلیا

کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 159
حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے
کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے
عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز
بہ سوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے
کبھی گئے تھے میاں جو خبر کو صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے
کوئی جنوں نہیں سودائیانِ صحرا کو
کہ جو عزاب بھی آئے وہ شہر پر آئے
بتاؤ دام گرو چاہیے تمہیں اب کیا
پرندگانِ ہوا خاک پر اُتر آئے
عجب خلوص سے رخصت کیا گیا ہم کو
خیالِ خام کا ناوان تھا سو بھر آئے
جون ایلیا

سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 134
طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں میرے اندر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ غم ہے ایک کوچہ گرد کا
دیوارِ بود کچھ نہیں اور گھر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِمغاں و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم لقمہ کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں ممبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دِیار میں
شاید وہ جبر ہے کے مقدر بھی کچھ نہیں
جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا
یہ اور بات ہے تیرا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن میرے کوہان
صبح شتاب کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشیگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی وفاِ عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے اور زباں پر بھی کچھ نہیں
جون ایلیا

تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 122
وہ زلف ہے پریشاں، ہم سب ادھر چلے ہیں
تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں
تم بھی چلو غزالاں، کوئے غزال چشماں
درشن کا آج دن ہے سب خوش نظر چلے ہیں
رنگ اس گلی خزاں کے موسم میں کھیلنے کو
خونیں دلاں گئے ہیں خونیں جگر چلے ہیں
اب دیر مت لگا چل، اے یار بس چلا چل
دیکھیں یہ خوش نشینیاں آخر کدھر چلے ہیں
بس اب پہنچ چکے ہیں ہم یاراں سوئے بیاباں
ساتھ اپنے ہم کو لے کر دیوار و در چلے ہیں
دنیا تباہ کر کے ہوش آگیا ہے دل کو
اب تو ہماری سن اب ہم سدھر چلے ہیں
ہے سلسلے عجب کچھ اس خلوتی سے اپنا
سب اس کے گھر چلے ہیں ہم اپنے گھر چلے ہیں
جون ایلیا

سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 112
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
جون ایلیا

راہ گریز پائی ہے صر صر ہے گم یہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 89
پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گم یہاں
راہ گریز پائی ہے صر صر ہے گم یہاں
وسعت کہاں کہ سمت وجہت پرورش کریں
بالیں کہاں سے لائیں کہ بستر ہے گم یہاں
ہے ذات کا زخم کہ جس کا شگافِ رنگ
سینے سے دل تلک ہے پہ خنجر ہے گم یہاں
بس طور کچھ نہ پوچھ میری بود و باش کا
دیوار و در ہیں جیب میں اور گھر ہے گم یہاں
بیرون ذات کیسے ہے صد ماجرا فروش
وہ اندرونِ ذات جو اندر ہے گم یہاں
کس شاہراہ پر ہوں رواں میں بہ صد شتاب
اندازِ پا درست ہے اور سر ہے گم یہاں
ہیں صفحۂ وجود پہ سطریں کھنچی ہوئی
دیوار پڑھ رہا ہوں مگر در ہے گم یہاں
جون ایلیا

تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 79
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بستر نہ رہیو
ہر ایک حالت کے بیری میں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھہرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
جون ایلیا

مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 59
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن
اب نہ کوئی دن مرے گھر جائے گا
جانے کس کے گھر گئے مرے دن
اب نہیں ہیں مرے کوئی دن رات
کہ مجھ ہی کو بسر گئے مرے دن
ساری راتیں گئیں مری بے حال
مرے دن ! بے اثر گئے مرے دن
خوشا اب انتظار ہے نہ امید
یار یاراں ! سدھر گئے مرے دن
اب میں بس رہ گیا ہوں راتوں میں
مر گئے جون ! مر گئے مرے دن
جون ایلیا

سارا نشہ اُتر گیا جانم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 55
دل تمنا سے ڈر گیا جانم
سارا نشہ اُتر گیا جانم
اک پلک بیچ رشتہء جاں سے
ہر زمانہ گزر گیا جانم
تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ
کون پھر اپنے گھرگیا جانم
جانے کیسی ہوا چلی اک بار
دل کا دفتر بِکھر گیا جانم
اپنی خواب و خیال دنیا کو
کون برباد کر گیا جانم
تھی ستم ہجر کی مسیحائی
آخرش زخم بھر گیا جانم
اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو
یعنی میں بے اثر گیا جانم
نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
اب تو سب کچھ بسر گیا جانم
زہر تھا اپنے طور سے جینا
کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم
جون ایلیا

اور چاروں طرف ہے گھر درپیش

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 53
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش
دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
میں رہا خود کو عمر بھر درپیش
اب میں کوئے عبث شتاب چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش
اس کے دیدار کی امید کہاں
جبکہ ہے دید کو نظر درپیش
اب مری جاں بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش
کس طرح کوچ پر کمر باندھوں
ایک رہزن کی ہے کمر درپیش
خلوتِ ناز اور آئینہ
خود نگر کو ہے ،خود نگر درپیش
جون ایلیا

کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 52
شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر
کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر
کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر
وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس
میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر
کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حُسنِ بدن کا ہے ضرر
ہم نہ کہیں سے آئیں گے دو پر سر لیے بغیر
قریہء گریہ میں مرا گریہ ہنرورانہ ہے
یاں سے کہیں ٹلوں گا میں دادِ ہنر لیے بغیر
اُسکے بھی کچھ گِلے ہیں دل۔۔ان کا حساب تم رکھو
دید نے اس میں کی بسر اس کی خبر لیے بغیر
اُس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جون تم
شہرہء شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر
جون ایلیا

یاد کے گھر نہیں رہے آباد

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 49
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئیں ہلاک نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سرتاپا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہر دل میں عجب محلے تھے
ان میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
جون ایلیا

وقت پہلے گزر گیا ہو گا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 22
آدمی وقت پر گیا ہو گا
وقت پہلے گزر گیا ہو گا
خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہو گا
شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہو گا
مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہو گا
جون ایلیا

قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 20
زخمِ اُمید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
نا صحو میں سُدھر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل میری جان مر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا
جون ایلیا

غنیمت کہ میں اپنے باہر چُھپا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 15
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چُھپا
غنیمت کہ میں اپنے باہر چُھپا
مجھے یاں کسی پر بھروسہ نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چُھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
سو میں اپنے ہونٹوں میں اکثر چُھپا
مری سن! نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تو کسی اور کے گھر چُھپا
یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر
مری جاں مجھے میرے اندر چُھپا
خیالوں کی آمد میں یہ آرجار
ہے پیروں کی یلغار تو سر چُھپا
جون ایلیا

حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 226
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کِیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا@ کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے
@ دیوانِ غالب ( فرہنگ کے ساتھ) میں "مانا” ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 181
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں
بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں
خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر، گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کُھلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں
مرزا اسد اللہ خان غالب

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 175
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں@ گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
@نسخۂ نظامی میں ’آئے‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 125
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟
کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
’جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر‘
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر
مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
بہرا ہوں میں، تو چاہیئے، دونا ہوں التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر
مرزا اسد اللہ خان غالب

نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے

دیوان ششم غزل 1885
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر اک جوں ابر میرے گھر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے
سو بار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
چھاتی کے جلنے سے ہی شاید کہ آگ سلگی
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے
نکلا سو سب جلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہال خواہش برگ و گل و ثمر سے
جھڑ باندھنے کا ہم بھی دیں گے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آکر آگے ہمارے برسے
سو نامہ بر کبوتر کر ذبح ان نے کھائے
خط چاک اڑے پھریں ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشم نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اس کے برسوں مہینوں ترسے
اپنا وصول مطلب اور ہی کسی سے ہو گا
منزل پہنچ رہیں گے ہم ایسے رہگذر سے
سر دے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے درد سر سے
میر تقی میر

پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں

دیوان ششم غزل 1851
آئے ہیں میر کافر ہوکر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خونناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہو گا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
میر تقی میر

جھانکتے اس کو ساتھ صباکے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم

دیوان ششم غزل 1838
عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سرپرہم
جھانکتے اس کو ساتھ صباکے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم
روز و شب کو اپنے یارب کیونکے کریں گے روزوشب
ہاتھ رکھے رہتے ہیں دل پر بیتابی میں اکثر ہم
پوچھتے راہ شکستہ دل کی جا نکلے تھے کعبے میں
سوچ وہاں تو گذرا جی میں آئے کدھر سے کیدھر ہم
شام سے کرتا منزل آکر گھر کو ہمارے صدر نشیں
رکھتے ستارہ اس مہ وش کی چاہ میں گربد اختر ہم
برسوں خس و خاشاک پہ سوئے مدت گلخن تابی کی
بخت نہ جاگے جو اس سے ہوں ایک بھی شب ہم بستر ہم
روز بتر ہے حالت عشقی جیسے ہوں بیمار اجل
ہے نہ دوا نے کوئی معالج کیونکر ہوں گے بہتر ہم
اس کی جناب سے رحمت ہو تو جی بچتا ہے دنیا میں
اس جانب سے تو بیٹھے ہیں مرنا کرکے مقرر ہم
اب تو ہماری طرف سے اتنا دل کو پتھر مت کریو
سختی سے ایام کی اب تک جیتے رہے ہیں مرمرہم
آہ معیشت روز و شب کی ساتھ اندوہ کے ٹھہری ہے
روتے کڑھتے رہا کرتے ہیں غم سے ہوئے ہیں خوگر ہم
شعلہ ایک اٹھا تھا دل سے آہ عالم سوز کا میر
ڈھیری ہوئی ہے خاکستر کی جیسی شب میں جل کر ہم
میر تقی میر

سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک

دیوان ششم غزل 1831
رہے ہے غش و درد دو دو پہر تک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
ہوئے ہیں حواس اور ہوش و خرد گم
خبر کچھ تو آئی ہے اس بے خبر تک
زمیں گرد اس مہ کے میرے ہیں عاشق
ستارے فلک کے رہے ہیں ادھر تک
قیامت ہے مشتاق لوگوں کی کثرت
پہنچنا ہے مشکل ہمیں اس کے گھر تک
کہاں تک اسے سر سے مارا کروں میں
نہ پہنچا مرا ہاتھ اس کی کمر تک
بہار آئی پر ایک پتی بھی گل کی
نہ آئی اسیران بے بال و پر تک
بہت میر برہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
میر تقی میر

کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب

دیوان ششم غزل 1811
منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب
سر صدقے تیرے ہونے کی خاطر بہت ہے گرم
مارا کرے ہے شام و سحر چکر آفتاب
ہر خانہ کیوں نہ صبح جہاں میں ہو پر فروغ
پھرتا ہے جھانکتا اسی کو گھر گھر آفتاب
تجرید کا فراغ ہے یک دولت عظیم
بھاگے ہے اپنے سائے سے بھی خوشتر آفتاب
نازک مزاج ہے تو کہیں گھر سے مت نکل
ہوتا ہے دوپہر کے تئیں سر پر آفتاب
پیدا ہے روز مشرق نو کی نمود سی
آئے ہے کوے یار سے بچ بچ کر آفتاب
ہو پست اس کے نور کا زیر زمیں گیا
ہر چند سب ستاروں سے تھا برتر آفتاب
اس رخ کی روشنی میں نہ معلوم کچھ ہوا
مہ گم کدھر ہوا ہے گیا کیدھر آفتاب
کس زورکش کی قوس قزح ہے کمان پاک
جس کی اٹھا سکا نہ کبھو سیسر آفتاب
روشن ہے یہ کہ خوف ہے اس غصہ ور کا میر
نکلے ہے صبح کانپتا جو تھرتھر آفتاب
میر تقی میر

مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب

دیوان ششم غزل 1809
ہے عشق میں جو حال بتر تو ہے کیا عجب
مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب
لے جا کے نامے کتنے کبوتر ہوئے ہیں ذبح
اڑتی سی ہم کو آوے خبر تو ہے کیا عجب
شبہاے تار و تیرہ زمانے میں دن ہوئیں
شب ہجر کی بھی ہووے سحر تو ہے کیا عجب
جیسے ہے رخنہ رخنہ یہ چرخ اثیر سب
اس آہ کا ہو اس میں اثر تو ہے کیا عجب
جاتی ہے چشم شوخ کسی کی ہزار جا
آوے ادھر بھی اس کی نظر تو ہے کیا عجب
لغزش ملک سے ہووے لچک اس کمر کی دیکھ
عاشق سے جو بندھے نہ کمر تو ہے کیا عجب
ترک وطن کیا ہے عزیزوں نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر تو ہے کیا عجب
برسوں سے ہاتھ مارتے ہیں سر پہ اس بغیر
ہووے بھی ہم سے دست بسر تو ہے کیا عجب
معلوم سودمندی عشاق عشق میں
پہنچے ہے اس سے ہم کو ضرر تو ہے کیا عجب
گھر بار میں لٹا کے گیا گھر سے بھی نکل
اب آوے وہ کبھو مرے گھر تو ہے کیا عجب
ملتی نہیں ہے آنکھ اس آئینہ رو کی میر
وہ دل جو لے کے جاوے مکر تو ہے کیا عجب
میر تقی میر

ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا

دیوان ششم غزل 1800
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظارکشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کرآیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میر کے اشکوں کا تا کمر آیا
میر تقی میر

گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے

دیوان پنجم غزل 1727
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے
میلان نہ آئینے کا اس کو ہے نہ گل کا
کیا جانیے اب روے دل یار کدھر ہے
اے شمع اقامت کدہ اس بزم کو مت جان
روشن ہے ترے چہرے سے تو گرم سفر ہے
اس عاشق دیوانہ کی مت پوچھ معیشت
دنداں بجگر دست بدل داغ بسر ہے
کیا آگ کی چنگاریاں سینے میں بھری ہیں
جو آنسو مری آنکھ سے گرتا ہے شرر ہے
ڈر جان کا جس جا ہے وہیں گھر بھی ہے اپنا
ہم خانہ خرابوں کو تو یاں گھر ہے نہ در ہے
کیا پرسش احوال کیا کرتے ہو اکثر
ظاہر ہے کہ بیمار اجل روز بتر ہے
رہتی ہیں الم ناک ہی وے آنکھیں جو اچھی
بدچشم کسو شخص کی شاید کہ نظر ہے
دیدار کے مشتاق ہیں سب جس کے اب اس کی
کچھ شورش ہنگامۂ محشر میں خبر ہے
سب چاہتے ہیں رشد مرا یوں تو پر اے میر
شاید یہی اک عیب ہے مانع کہ ہنر ہے
میر تقی میر

سرگرم بے راہ روی ہیں خود گم بے رہبر ہیں لوگ

دیوان پنجم غزل 1666
راہ کی بات کہیں ہم کس سے بے تہ یاں اکثر ہیں لوگ
سرگرم بے راہ روی ہیں خود گم بے رہبر ہیں لوگ
بدتر آپ سے پائوں کسو کو تو میں اس کا عیب کہوں
خوب تامل کرتا ہوں تو سب مجھ سے بہتر ہیں لوگ
دیوانے ہیں شہر وفا کی راہ و رسم کے ہم تو میر
دل کے کہے جی دینے والے قاطبۃً گھر گھر ہیں لوگ
میر تقی میر

کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در

دیوان پنجم غزل 1610
عشق خدائی خراب ہے ایسا جس سے گئے ہیں گھر کے گھر
کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در
حج سے جو کوئی آدمی ہو تو سارا عالم حج ہی کرے
مکے سے آئے شیخ جی لیکن وے تو وہی ہیں خر کے خر
رنج و تعب میں مرتے دیکھے ہم نے ممسک دولت مند
جی کے جی بھی عبث جاتے ہیں ان لوگوں کے زر کے زر
مسلم و کافر کے جھگڑے میں جنگ و جدل سے رہائی نہیں
لوتھوں پہ لوتھیں گرتی رہیں گی کٹتے رہیں گے سر کے سر
سخت مصیبت عشق میں یہ ہے جانیں چلی جاتی ہیں لیک
ہاتھ سروں پر ماریں گے تو بند رہیں گے گھر کے گھر
کب سے گرمی عشق نے میرے چشمۂ چشم کو خشک کیا
کپڑے گلے سب تن کے لیکن وے ہیں اب تک ترکے تر
نکلے اب کے قفس میں شاید کوئی کلی تو نکلے میر
سارے طیر شگفتہ چمن کے ٹوٹے گئے وے پر کے پر
میر تقی میر

سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب

دیوان پنجم غزل 1579
کاوش سے ان پلکوں کی رہتی ہے خلش سی جگر میں اب
سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب
موسم گل کا شاید آیا داغ جنوں کے سیاہ ہوئے
دل کھنچتا ہے جانب صحرا جی نہیں لگتا گھر میں اب
نقش نہیں پانی میں ابھرتا یہ تو کوئی اچنبھا ہے
صورت خوب اس کی ہے پھرتی اکثر چشم تر میں اب
ایک جگہ پر جیسے بھنور ہیں لیکن چکر رہتا ہے
یعنی وطن دریا ہے اس میں چار طرف ہیں سفر میں اب
حسرت نے ملنے کی آیا میر تمھارا خون پیا
تیغ و تبر اس ترک بچے ظالم کی نہیں ہے کمر میں اب
میر تقی میر

خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب

دیوان پنجم غزل 1575
دل خوں ہوا تھا یکسر پانی ہوا جگر سب
خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب
یارب کدھر گئے وے جو آدمی روش تھے
اوجڑ دکھائی دے ہیں شہر و دہ و نگر سب
حرف وسخن سے مطلق یاں گفتگو نہیں ہے
پیادے سوار ہم کو آئے نظر نفر سب
عالم کے لوگوں کا ہے تصویر کا سا عالم
ظاہر کھلی ہیں آنکھیں لیکن ہیں بے خبر سب
میر اس خرابے میں کیا آباد ہووے کوئی
دیوار و در گرے ہیں ویراں پڑے ہیں گھر سب
میر تقی میر

ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا

دیوان پنجم غزل 1540
منھ اپنا کبھو وہ ادھر کر رہے گا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
جو دلبر ہے ایسا تو دل جا چکا ہے
کسو روز آنکھوں میں گھر کر رہے گا
ہر اک کام موقوف ہے وقت پر ہی
دل خوں شدہ بھی جگر کر رہے گا
نہ ہوں گو خبر مردماں حال بد سے
مرا نالہ سب کو خبر کر رہے گا
فن شعر میں میر صناع ہے وہ
دل اس کا کوئی تو ہنر کر رہے گا
میر تقی میر

کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے

دیوان چہارم غزل 1488
نقد دل غفلت سے کھویا راہ کھوٹی کر گئے
کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے
کیا کہیں ان نے جو پھیرا اپنے در پر سے ہمیں
مر گئے غیرت سے ہم بھی پر نہ اس کے گھر گئے
واعظ ناکس کی باتوں پر کوئی جاتا ہے میر
آئو میخانے چلو تم کس کے کہنے پر گئے
میر تقی میر