ٹیگ کے محفوظات: کہاں

اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے

آنکھوں سے اک زماں سے پانی برس رہا ہے
اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے
قدرت بھی رو پڑی ہے، اس رخنہ سائباں پر
خوں ہے کہ آسماں سے پانی برس رہا ہے؟
پہلے تو ایک کونے سے چھت ٹپک رہی تھی
اور اب کہاں کہاں سے پانی برس رہا ہے
بادل نہیں نظر میں اور ہو رہی ہے بارش
شاید کہ لامکاں سے پانی برس رہا ہے
ان پختہ بستیوں میں سبزہ اُگے گا اک دن
شاید اسی گماں سے، پانی برس رہا ہے
بادل ہیں اور فلک پر قوسِ قزح نہیں ہے
سو چشمِ ضو فشاں سے پانی برس رہا ہے
بادل تو برسے بن ہی کب کا چلا گیا تھا
اب ابر کے گماں سے پانی برس رہا ہے
وہ آنسوؤں کی بارش تو تھم چکی تھی یاؔور
پر جانے اب کہاں سے پانی برس رہا ہے
یاور ماجد

مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے

ہر ایک موت ہے تعمیرِ نکتہ داں کے لیے
مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے
یہ بہکی بہکی سی باتیں یہ مضمحل نظریں
سُکوں نواز نہ بن جائیں نیم جاں کے لیے
غَرَض کے واسطے جیتی ہے فطرتاً دنیا
بہار پھول کھلاتی نہیں خزاں کے لیے
خوشی زمانے کو مرغوب ہی سہی، لیکن
الم حَسین ہے عنوانِ داستاں کے لیے
خرامِ ناز، نظرمست، منتشر زلفیں
یہ اہتمام ہے کیوں، کس لیے، کہاں کے لیے!
حقائقِ غمِ اُلفت کبھی چُھپے ہیں شکیبؔ!
بیان کیسے بدلتا میں راز داں کے لیے
شکیب جلالی

اک کارگہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں

آئینہِ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کارگہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں
سر چشمہِ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں
اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں
جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں
کہنا ہے وہی جس کی توقع ہے تجھے بھی
مت پوچھ مرے دل کی زباں ہیں تری آنکھیں
پلکوں کے جھروکوں سے سبو جھانک رہے ہیں
امید گہِ تشنہ لباں ہیں تری آنکھیں
یوں ہی تو نہیں امڈی چلی آتی ہیں غزلیں
پہلو میں مرے ، زمزمہ خواں ہیں تری آنکھیں
شکیب جلالی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز
ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں
رُخ نہ کر جانبِ دنیا کہ اسیرانِ نظر
تجھ کو ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں
ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم
ہم تو بس قربتِ شیریں سخناں چاہتے ہیں
چاہتے ہیں کہ وہ تا عمر رہے پیشِ نظر
ایک تصویر سرِ آبِ رواں چاہتے ہیں
جس میں سیراب ہیں آنکھیں جہاں آباد ہیں دل
ہم اُسی شہرِ تخیل میں مکاں چاہتے ہیں
رازِ ہستی سے جو پردہ نہیں اُٹھتا، نہ اُٹھے
آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں
شام ہوتے ہیں لگاتے ہیں درِ دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں
دُور عرفانؔ رہو اُن سے کہ جو اہلِ سخن
التفاتِ نگۂ کم نظراں چاہتے ہیں
عرفان ستار

لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

یہ حَسیں جس کو مِرا عجزِ بیاں کہتے ہیں
لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے

کر کے رَقَم قَدَم قَدَم ہم نئی داستاں گئے
بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے
گھر سے یونہی نکل چلے، زادِ سَفَر تھے وَلوَلے
آگ لگی تَو قافلے، ہو کے دُھواں دُھواں گئے
رَقصِ اَجَل چہار سُو، وحشت و یاس کُو بہ کُو
ذکرِ نشاطِ آرزو لے کے جہاں جہاں گئے
رکّھا ہے کیا سُراغ میں ؟ لکّھا ہے داغ داغ میں
آگ لگانے باغ میں ، جب گئے باغباں گئے
شہر تَو خیر جَل چکا، آتشِ جہل! یہ بتا
کیا ہُوا اہلِ عِلم کا؟ لوگ کہاں کہاں گئے؟
ضامنِؔ قلبِ سخت کوش! کوچہ ہے یہ اَجَل بَدوش
علم و خِرَد، حواس و ہوش، کہتے اَماں اَماں گئے
ضامن جعفری

ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب

زندگی تحفَہِ یَک بارِ گراں ہے صاحب
ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب
آگ میخانہِ ہستی میں لگائی کِس نے؟
کوئی کہتا تھا کہ خُود پیِرِ مُغاں ہے صاحب
زِیست اِک خواب سا ہے عالَمِ بیداری کا
وہ بھی کیا کہیے یقیں ہے کہ گُماں ہے صاحب
مُنتَشَر ہو گئے اَربابِ کَرَم اَور احباب
پُوچھتے پِھرتے ہیں ہم کون کہاں ہے صاحب
دِیدہ و دِل کی بَظاہر تَو خَطا ہے لیکن
حُسن کا ذِکر اَبھی مُحتاجِ بیاں ہے صاحب
عِشق آئینہِ ہَستی کی جِلا ہے ضامنؔ
گَردِ تاریخ کی ہَر تہ میں نہاں ہے صاحب
ضامن جعفری

ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے

حریمِ ناز کے قصّے اگر بیاں ہوں گے
ہَمیَں یقین ہے ہَم زیبِ داستاں ہوں گے
عَجَب شناخت ہے یہ شاہراہِ ہَستی کی
تَمام قافلے سُوئے عَدَم رَواں ہوں گے
نہ سمجھیں سہل پسند آپ اہلِ ساحل کو
ذرا سی دیر میں موجوں کے درمیاں ہوں گے
ہمارے ضبطِ سخن پر نہ جائیے صاحب
یہ بند ٹُوٹا تَو پھر آپ بھی کہاں ہوں گے
کہاں کہاں اُنہیَں ڈھونڈا مِرے تَخَیُّل نے
خیال تھا وہ ستاروں کے درمیاں ہوں گے
مِرا خیال ہے کوئی یہاں نہیں آتا
جو عِلم ہوتا یہاں اِتنے اِمتحاں ہوں گے
رَوِش حَسیِنوں کی ضامنؔ اِس اعتماد پہ ہے
ہمارے زَخم بھی ہم جیسے بے زباں ہوں گے
ضامن جعفری

برق میرے بھی آشیاں سے چلی

جب کبھی میری آسماں سے چلی
برق میرے بھی آشیاں سے چلی
عشق اَور آرزوئے عشق کی بات
حُسنِ خود بین و خوش گماں سے چلی
اُس نے پوچھا تَو کہہ دیا میں نے
رَوِشِ خونِ دل یہاں سے چلی
حُسنِ خودبیں کی رسمِ نخوت و ناز
عشق کی سعیِ رایگاں سے چلی
یادِ ماضی سے روز کہتا ہُوں
ٹھیَر جا! تُو ابھی کہاں سے چلی
آج فکرِ غزل مری ضامنؔ
کہکشاؤں کے درمیاں سے چلی
ضامن جعفری

لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

پیشِ حُسن آپ جسے عجزِ بیاں کہتے ہیں
لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے

زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے
کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اِک جہاں ہے
کبھی تیری آنکھوں کے تل میں جو دیکھا تھا میں نے
وُہی ایک پل محملِ شوق کا سارباں ہے
کہیں تو مرے عشق سے بدگماں ہو نہ جائے
کئی دِن سے ہونٹوں پہ تیرے نہیں ہے نہ ہاں ہے
خدا جانے ہم کس خرابے میں آ کر بسے ہیں
جہاں عرضِ اہلِ ہنر نکہتِ رائیگاں ہے
جہانوں کے مالک زمانوں سے پردہ اُٹھا دے
کہ دل اِن دِنوں بے نیازِ بہار و خزاں ہے
ترے فیصلے وقت کی بارگاہوں میں دائم
ترے اِسم ہر چار سو ہیں مگر تو کہاں ہے
خمارِ غریبی میں بے غم گزرتی ہے ناصر
درختوں سے بڑھ کر مجھے دھوپ کا سائباں ہے
ناصر کاظمی

فکرِ واماندگاں کرے کوئی

کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی
فکرِ واماندگاں کرے کوئی
تیرے آوارگانِ غربت کو
شاملِ کارواں کرے کوئی
زندگی کے عذاب کیا کم ہیں
کیوں غمِ لامکاں کرے کوئی
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے
اب کسے رازداں کرے کوئی
اس چمن میں برنگِ نکہتِ گل
عمر کیوں رائگاں کرے کوئی
شہر میں شور، گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
یہ خرابے ضرور چمکیں گے
اعتبارِ خزاں کرے کوئی
ناصر کاظمی

دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے

کچھ توں احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اُٹھتا ہوں
نشۂ خوابِ گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے
سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے
اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو اک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبورِ فغاں تھا پہلے
ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق
شعلہ پتھر میں نہاں تھا پہلے
ہم نے روشن کیا معمورۂ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے
ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے
ناصر کاظمی

کوئی ہے ڈھب کا ٹھکانہ کہاں ہم ایسوں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
نہ فرشِ خاک نہ باغِ جناں ہم ایسوں کا
کوئی ہے ڈھب کا ٹھکانہ کہاں ہم ایسوں کا
نہ پُختگی ہو جو عزم و عمل میں تو ماجِد
کوئی بھی کام ہو کیونکر رواں ہم ایسوں کا
ماجد صدیقی

اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
شہ بہ شہ اِک کھیل برپا ہے جہاں ہم آپ ہیں
اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں
خم نہیں ہے ابروؤں میں چِیں جبینوں پر نہیں
جو نہیں تنتی کبھی ایسی کماں ہم آپ ہیں
مژدۂ کربِ لحد، ذکرِ خدائے محتسب
جانے کن کن دبدبوں کے درمیاں ہم آپ ہیں
حرف کی توقیر ہے، زور آوری پر منحصر
مقتدر ہی معتبر ہے بے زباں ہم آپ ہیں
زیر کرتی ہے ہمیں ہی دانشِ اہلِ ریا
جو بھی دَور آتا ہے صیدِ مُفسداں ہم آپ ہیں
اِک ذرا سی جس کو دانائی و عّیاری ملی
رہنما وہ اور جیشِ ابلہاں ہم آپ ہیں
دھند چھٹتی ہے تو پھر اِک دھند چھا جانے لگے
کُھل نہیں پاتا یہی ماجدؔ کہاں ہم آپ ہیں
ماجد صدیقی

میرے انگناں بھی آسماں اُترا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
دل میں وُہ رشکِ گلستاں اُترا
میرے انگناں بھی آسماں اُترا
زعم ذہنوں سے، عدل خواہی کا
خاک اور خوں کے درمیاں اُترا
پستیوں نے جو، بعدِ اَوج دیا
تاپ خفت کا وہ، کہاں اُترا
رَن میں جیسے مجاہدِ اوّل
حرفِ حق، یُوں سرِ زباں اُترا
نُچ کے آندھی میں، پیڑ سے ماجدؔ
پھر ندی میں ہے، آشیاں اُترا
ماجد صدیقی

ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
تھا جو بھی شجر عرش نشاں، فرش نشاں تھا
ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا
کانٹوں پہ لرزتی تھی تمنّاؤں کی شبنم
چھالا سا ہر اِک لفظ سرِ نوکِ زباں تھا
ہونٹوں نے بھی لو، زہرِ خموشی سے چٹخ کر
سیکھا وُہی انداز جو مرغوبِ شہاں تھا
باز آئے گھٹانے سے نہ جو رزقِ گدا کو
اَب کے بھی سرِ شہر وُہی شورِ سگاں تھا
توصیف کا ہر حرف مثالِ خس و خاشاک
دیکھا ہے جہاں بھی پسِ شہ زور رواں تھا
غافل نظر آیا نہ کبھی وار سے اپنے
وُہ خوف کا خنجر جو قریبِ رگ جاں تھا
مجروح پرندوں سی جو پیوندِ زمیں ہے
ماجدؔ نگہِ شوق پہ کب ایسا گماں تھا
ماجد صدیقی

دل کو تسکین کہاں سے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
روز اک آنچ سی جاں سے آئے
دل کو تسکین کہاں سے آئے
کس توقع پہ لیا نام ترا
ایک خوشبو سی دہاں سے آئے
ضبط سے جسم پگھلتے ہوں جہاں
ہو کے ہم لوگ وہاں سے آئے
جسم آیا ہے کھنڈر ہونے کو
کیا خبر اور خزاں سے آئے
اتنا روئے ہیں مسلسل کہ ہمیں
اب تو دہشت سی فغاں سے آئے
لُطفِ مضموں بھی جُدا ہے ماجدؔ
کیا مزہ تیری زباں سے آئے
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
لکھو تم ہمیں چِٹھیاں دوستو
تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو
یہ دشتِ سخن اور یہ خاموشیاں
سلگتی ہے جیسے زباں دوستو
چمن میں مرے حال پر ہر کلی
بجاتی ہے اب تالیاں دوستو
کوئی بات جیسے نہ لوٹائے گا
خدا بھی برنگِ بُتاں دوستو
جِسے ڈھونڈتے ہو وہ ماجدؔ بھلا
غمِ جاں سے فارغ کہاں دوستو
ماجد صدیقی

دیکھ تسکین کی صورت ہے کہاں آنکھوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
رات کٹتی ہے سلگتے، مری جاں آنکھوں میں
دیکھ تسکین کی صورت ہے کہاں آنکھوں میں
دلِ ناداں کی پیمبر ہیں اِنہیں دیکھ ذرا
ہے کوئی غم تری جانب نگراں آنکھوں میں
پہلوئے دل میں مہکتا ہے وہی اِک گل تر
تیرتا ہے وہی اِک ماہ رواں آنکھوں میں
نہ کسی غم کا چراغاں نہ کسی یاد کے دیپ
کب سے ماجدؔ ہے اندھیروں کا سماں آنکھوں میں
ماجد صدیقی

چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
دل پہ چھایا ہے وہ احساسِ گراں
چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں
جب بھی گزرے ہیں تری یاد میں دن
کھِل اُٹھے پھُول سرِ جوئے رواں
سُونا سُونا ہے نظر کا دامن
چھُپ گیا ہے وہ مرا چاند کہاں
شعلۂ گل سے دئیے تک ماجدؔ
اُٹھ رہا ہے مری آہوں کا دھُواں
ماجد صدیقی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 100
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 70
ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 61
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 57
مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 56
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 46
سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز
ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں
رُخ نہ کر جانبِ دنیا کہ اسیرانِ نظر
تجھ کو ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں
ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم
ہم تو بس قربتِ شیریں سخناں چاہتے ہیں
چاہتے ہیں کہ وہ تا عمر رہے پیشِ نظر
ایک تصویر سرِ آبِ رواں چاہتے ہیں
جس میں سیراب ہیں آنکھیں جہاں آباد ہیں دل
ہم اُسی شہرِ تخیل میں مکاں چاہتے ہیں
رازِ ہستی سے جو پردہ نہیں اُٹھتا، نہ اُٹھے
آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں
شام ہوتے ہیں لگاتے ہیں درِ دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں
دُور عرفانؔ رہو اُن سے کہ جو اہلِ سخن
التفاتِ نگۂ کم نظراں چاہتے ہیں
عرفان ستار

کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 45
یہ کہہ کر حشر میں وہ رو دیا کچھ بد گماں ہو کر
کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر
یہ بچپن ہے جو پیش آتے ہو مجھ سے مہرباں ہو کر
نگاہیں کہہ رہیں ہیں آنکھ بدلو گے جواں ہو کر
کیا دستِ جنوں کو پیرہن نے جا بجا رسوا
گلی کوچوں میں دامن اڑ رہے ہیں دھجیاں ہو کر
چلا تھا توڑ کر زنجیر کو جب تیرا سودائی
خیالِ حلقۂ گیسو نے روکا بیڑیاں ہو کر
خدا رکھے تمھیں رنگِ حنا سے اتنا ڈرتے ہو
ابھی تو سینکڑوں کے خوں بہانے ہیں جواں ہو کر
خرامِ راز میں پنہاں نہ جانے کیسے محشر ہیں
وہیں اِک حشر ہوتا ہے نکلتے ہوں جہاں ہو کر
پریشاں بال، آنسو آنکھ میں، اتری ہوئی صورت
نصیبِ دشمناں ایسے میں آئے ہو کہاں ہو کر
قمر دل کو بچا کر لے گئے تھے تیر مژگاں سے
مگر ترچھی نگاہیں کام آئیں برچھیاں ہو کر
قمر جلالوی

خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 43
فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور
خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور
مژگاں کہاں ہیں ابروئے چشمِ بتاں سے دور
یہ تیر وہ ہیں جو نہیں ہوتے کماں سے دور
یادِ شباب یوں ہے دلِ ناتواں سے دور
جیسے کوئی غریب مسافر مکاں سے دور
دیر و حرم میں شیخ و برہمن سے پوچھ لے
سجدے اگر کئے ہوں ترے آستاں سے دور
اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں کسے راہ میں غبار
کوئی شکستہ پا تو نہیں کارواں سے دور
جب گھر سے چل کھڑے ہوئے پھر پوچھنا ہی کیا
منزل کہاں ہے پاس پڑے گی کہاں سے دور
ہو جاؤ آج کل کے وعدے سے منحرف
یہ بھی نہیں حضور تمھاری زباں سے دور
خوشبو کا ساتھ چھٹ نہ سکا تا حیات گل
لے بھی گئی شمیم تو کیا گلستاں سے دور
شعلے نظر نہ آئے یہ کہنے کی بات ہے
اتنا تو آشیانہ تھا باغباں سے دور
دیر و حرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ
جتنے یہاں سے دور ہیں اتنے وہاں سے دور
صیاد یہ جلے ہوئے تنکے کہاں ہیں
بجلی اگر گری ہے میرے آشیاں سے دور
مجھ پر ہی اے قمر نہیں پابندیِ فلک
تارے بھی جا سکے نہ حدِ آسماں سے دور
قمر جلالوی

خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 41
کہا تو ہے کہ قفس میں نہیں اماں صیاد
خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد
قفس سے ہٹ کے ذرا سن مری فغاں صیاد
لرز رہی ہے ترے سامنے زباں صیاد
بہارِ گل میں مجھے تو کہیں چین نہیں
مرے خلاف وہاں باغباں یہاں صیاد
جو پر کتر دیے دنیا میں ہو گی رسوائی
پر اڑ کے جائیں گے جانے کہاں کہاں صیاد
قفس میں کانپ رہا ہوں کہیں فریب نہ ہو
بہارِ گل میں ہوا ہے جو مہرباں صیاد
میں کوئی دم کا ہوں مہمان تیلیاں نہ بدل
کہ جائے گی تری محنت یہ رائیگاں صیاد
تری نظر پہ ترانے تری نظر پہ فغاں
ملے گا تجھ کو نہ مجھ سا مزاج داں صیاد
جفائے چرخ پہ چھوڑا تھا آشیاں میں نے
ترے قفس میں بھی سر پہ ہے آسماں صیاد
قمر کی روشنی میں کیسے پھول کھلتے ہیں
مگر وہ چاندنی راتیں یہاں کہاں صیاد
قمر جلالوی

یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 18
قیامت اب جہاں ہو گی ستم تیرا باں ہو گا
یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا
نہ گھبرا اے مریضِ عشق دونوں آنے والے ہیں
قضا بھی مہماں ہو گی وہ بت بھی مہماں ہو گا
بہار آخر ہے پی لی بیٹھ کر اے شیخ رندوں میں
یہ محفل پھر کہاں ہو گی یہ جلسہ پھر کہاں ہو گا
چمن میں توڑ ڈالی باغباں نے مجھ سے یہ کہہ کر
نہ شاخِ آشیاں ہو گی نہ تیرا آشیاں ہو گا
کدھر ڈھونڈے گا اپنے قافلے سے چھوٹنے والے
نہ گردِ کارواں ہو گی نہ شورِ کارواں ہو گا
مجھے معلوم ہے اپنی کہانی، ماجرا اپنا
نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا
وہ چہرے سے سمجھ لیں گے مری حالت مرا ارماں
نہ محتاجِ بیاں ہو گی نہ محتاجِ بیں ہو گا
تم اپنے در پہ دیتے ہو اجازت دفنِ دشمن کی
مری تربت کہاں ہو گی مرا مرقد کہاں ہو گا
ابھی کیا ہے قمر ان ی ذرا نظریں تو پھرنے دو
زمیں نا مہرباں ہو گی فلک نا مہرباں ہو گا
قمر جلالوی

تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 10
تو کہتا ہے قبضہ ہے یہاں میرا وہاں میرا
تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا
چلے آؤ یہاں گورِ غریباں میں نہیں کوئی
فقط اک بے کسی ہے جو بتاتی ہے نشاں میرا
قمر میں شاہِ شب ہوں فوق رکھتا ہوں ستاروں پر
زمانے بھر پہ روشن ہے کہ ہے تخت آسماں میرا
قمر جلالوی

کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 44
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟
بہتر ہے آپ غیر سے دل کھول کر ملیں
آخر تو یہ بھی میرے ہی ہے امتحاں کی طرح
اُس شمع رُو کی بزم میں مانع نہ تھا کوئی
ہوتی سبک جو نالۂ آتش فشاں کی طرح
کیوں ہر نفس ہے شہدِ خموشی سے بند لب
بھائی ہے دل کو کون سے شیریں بیاں کی طرح
لڑنے میں آشتی نہ تغافل میں التفات
یہ جور کی نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
خمیازہ بند بند گسل ہے خمار سے
بدمست کر گئی یہ کس ابرو کماں کی طرح
ہر ہر قدم پہ رشک سے جلتی ہے شمعِ فند
چلتا ہے وہ بھی شیفتہ میری زباں کی طرح
مصطفٰی خان شیفتہ

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 47
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جانبر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نا مہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ دہلوی

ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 218
بخشش ہوا یقین۔۔گماں بے لباس ہے
ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے
ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس
جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے
ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود
سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے
محمل نشینِ رنگ! کوئی پوستینِ رنگ
ریگِ رواں ہوں۔۔ریگِ رواں بے لباس ہے
اب پارہ پارہ پوششِ گفتار بھی نہیں
ہیں سانس بے رفو سو زیاں بے لباس ہے
صد جامہ پوش جس کا ہے جسم برہنہ ابھی
خلوت سرائے جاں میں وہ جاں بے لباس ہے
ہے دل سے ہر نفس ہوسِ دید کا سوال
خلوت ہے وہ کہاں۔۔وہ جہاں بے لباس ہے
ہے بُود اور نبود میں پوشش نہ پیرہن
یاراں مکین کیا کہ مکاں بے لباس ہے
تُو خود ہی دیکھ رنگِ بدن اپنا جوش رنگ
تُو اپنے ہر لباس میں جاں بے لباس ہے
غم کی برہنگی کو کہاں سے جُڑے لباس
میں لب سیے ہوئے ہوں۔۔فغاں بے لباس ہے
جون ایلیا

زندگی اک زیاں کا دفتر ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 217
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
زندگی اک زیاں کا دفتر ہے
پڑھ رہا ہوں میں کاغذاتِ وجود
اور نہیں اور ہاں کا دفتر ہے
کوئی سوچے تو سوزِ کربِ جاں
سارا دفتر گماں کا دفتر ہے
ہم میں سے کوئی تو کرے اصرار
کہ زمیں، آسماں کا دفتر ہے
ہجر تعطیلِ جسم و جاں ہے میاں
وصل، جسم اور جاں کا دفتر ہے
ہے جو بود اور نبود کا دفتر
آخرش یہ کہاں کا دفتر ہے
جو حقیقت ہے دم بدم کی یاد
وہ تو اک داستاں کا دفتر ہے
ہو رہا ہے گزشتگاں کا حساب
اور آئیندگاں کا دفتر ہے
جون ایلیا

رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 214
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے
دھول ہے ساری زمیں، دھند ہے سب آسماں
شکل کی صورت کہاں؟ شہر بگولوں کا ہے
گرد کی شکلیں سی دو ہونے کو ہیں ہمکنار
بیچ میں ہیں آندھیاں، شہر بگولوں کا ہے
گرد ہیں تعمیر کی ساری فلک بوسیاں
گرد میں ہوُ کا مکاں، شہر بگولوں کا ہے
ہیں اسی دم رُوبرُو، پھر نہ کوئی میں نہ توُ
اُس پہ وعدے بھی جاں ؟ شہر بگولوں کا ہے
اب سے ہے جو اب تلک، سود میں ہے وہ پلک
کس کا زیاں، کیا زیاں، شہر بگولوں کا ہے
ایک نفس ہی سہی، اس کی ہوس ہی سہی
رشتہ ہو اک درمیاں، شہر بگولوں کا ہے
دھند ہے بکھراو ہے، دھول ہے اندھیاو ہے
خود سے لگا چل میاں، شہر بگولوں کا ہے
ہائیں یہ آشفتگی، پائے نہ جاو گے پھر
شہر یہ آشفتگاں، شہر بگولوں کا ہے
وہم گماں کا گماں، عیشِ یقیں ہے یہاں
یہ بھی گماں ہے گماں، شہر بگولوں کا ہے
جون ایلیا

زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 168
خوش گذران شہر غم ، خوش گذراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے
وادی غم کے خوش خرام ، خوش نفسان تلخ جام
نغمہ زناں ، نوازناں ، نعرہ زناں گزر گئے
سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ
صر صر بے اماں کے ساتھ ، دست فشاں گزر گئے
زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ
عشرتیان رزق غم ، نوش چکاں گزر گئے
اس در نیم وا سے ہم حلقہ بہ حلقہ صف بہ صف
سینہ زناں گزر گئے ، جامہ وراں گزر گئے
ہم نے خدا کا رد لکھا نفی بہ نفی لا بہ لا!
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گراں گزر گئے
اس کی وفاکے باوجود اس کو نہ پا کے بد گماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے ، کتنے گماں گزر گئے
مجمع مہ وشاں سے ہم زخم طلب کے باوجود
اپنی کلاہ کج کیے ، عشوہ کناں گزر گئے
خود نگران دل زدہ ، دل زدگان خود نگر!
کوچہ ءِ التفات سے خود نگراں گزر گئے
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلفات دل پہ گراں گزر گئے
رات تھی میرے سامنے فرد حساب ماہ و سال
دن ، مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے
کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاں وہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے
جون ایلیا

داستاں کی داستاں ہے زندگی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 151
اک گمانِ بے گماں ہے زندگی
داستاں کی داستاں ہے زندگی
دَم بہ دَم ہے اک فراقِ جاوداں
اک جبیں بے آستاں ہے زندگی
کہکشاں بر کہکشاں ہے اک گریز
بودِ بے سودوزیاں ہے زندگی
ہے مری تیرہ نگاہی اک تلاش
تم کہاں ہو اور کہاں ہے زندگی
جون ایلیا

کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 107
ہوں میں یکسر رایگاں ، افسوس میں
کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں
اب عبث کا کارواں ہے گرم سیر
میں ہوں میرِ کارواں ، افسوس میں
کیسے پہنچوں آخر اپنے آپ تک
میں ہوں اپنے درمیاں ، افسوس میں
شعلہء یاقوت فامِ زخمِ دل
میں ہوں کتنا تیرہ جاں ، افسوس میں
یاد اُس لب کی عطش انگیز ہے
ہوں میں دوزخ درمیاں ، ، افسوس میں
بازوانِ مرمرینِ ۔۔ آرزو
وائے ہجرِ جاداں ، افسوس میں
سبزہ زارِ خوابِ لالہ فام میں
کس قدر ہوں میں تپاں ، افسوس میں
پرتوِ سمیینِ مہتابِ گماں
گم ہوئی شمعِ ، افسوس میں
مجھ کو ہے درپیش اپنے سے فراق
میں کہاں اور میں کہاں ، افسوس میں
دل میں نالہ توڑنا ہے جس کا فن
میں ہوں وہ آوازہ خواں ، افسوس میں
میں ہوں گوشہ گیرِ گردِ صد ملال
اے غبارِ کارواں ، افسوس میں
میرے ہی دل پر لگا ہے جس کا تیر
ہے وہ میری ہی کماں افسوس میں
جون ایلیا

اپنا گماں ہوں میں یا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 104
جانے یہاں ہوں میں یا میں
اپنا گماں ہوں میں یا میں
میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں
جانے کون تھا وہ یارو
جانے کہاں ہوں میں یا میں
ہر دم اپنی زد پر ہوں
جا سے اماں ہوں میں یا میں
میں جو ہوں اک حیرت کا سماں
کیا وہ سماں ہوں میں یا میں
کون ہے مجھ میں شعلہ بجاں
شعلہ بجاں ہوں میں یا میں
آگ، مرے ہونے کی آگ
تیرا دھواں ہوں میں یا میں
جون ایلیا

تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 103
تیرا زیاں رہا ہوں میں، اپنا زیاں رہوں گا میں
تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں
تیرے حضور، تجھ سے دور، جلتی رہے گی زندگی
شعلہ بجاں رہا ہوں میں، شعلہ بجاں رہوں گا میں
تجھ کو تباہ کر گئے، تیری وفا کے ولولے
یہ مرا غم ہے میرا غم، اس میں تپاں رہوں گا میں
حیف نہیں ہے دیکھ بھال میری نصیب میں ترے
یعنی متاعِ بردہ ءِ کم نظراں رہوں گا میں
جاز کی دھن اداس ہے، دل بھی بہت اداس ہے
جانے کہاں بسے گی تو، جانے کہاں رہوں گا میں
ہم ہیں جدا جدا مگر، فن کی بساطِ رنگ پر
رقص کناں رہے گی تو، زمزمہ خواں رہوں گا میں
جون ایلیا

سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 102
ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بیکراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہ ءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے، میں ترے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
گلہ ءِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
جون ایلیا

ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 84
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں
رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا
پر ہوا خوب رائیگاں جاناں
میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے
کس سے پوچھوں ترا نشاں جاناں
علام و بیکرانِ رنگ ہے تو
تجھ میں ٹھہروں کہاں کہاں جاناں
میں ہواؤں سے کیسے پیش آؤں
یہی موسم ہے کیا وہاں جاناں؟
روشنی بھر گئی نگاہوں میں
ہو گئے خواب بے اماں جاناں
درد مندانِ کوئے دلداری
گئے غارت جہاں تہاں جاناں
اب بھی جھیلوں میں عکس پڑتے ہیں
اب بھی نیلا ہے آسماں جاناں
ہے پرخوں تمہارا عکس خیال
زخم آئے کہاں کہاں جاناں
جون ایلیا

میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 69
حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
میری سُنو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بہ صد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
یہ تیرے لوگ نہیں ہیں یہ تیرا شہر نہیں
یہ مشورہ ہے مرا تو یہاں سے چل نکلو
یہ جو بھی کچھ ہے نہیں کچھ بھی جُز فریبائی
یقیں کو چھوڑ دو یعنی گماں سے چل نکلو
شبِ گزشتہ خراباتیوں میں تھا یہ سوال
کہاں کا رُخ کرو آخر کہاں سے چل نکلو
نفس نفس ہے وجود و عدم میں اک پیکار
ہے مشورہ یہ میرا درمیاں سے چل نکلو
جون ایلیا

وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 24
جانے کہاں گیا وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا؟
وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟
تا لمحہ گزشتہ یہ جسم اور بہار آئے
زندہ تھے رائیگاں میں، جو کچھ تھا رائیگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر؟
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی جو ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصلیں اور گرد کا مکاں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکانِ خال و خد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا
عمریں گزر گئیں تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا، صدیوں میں بے اماں تھا
میں ڈوبتا چلا گیا تاریکیوں کہ تہہ میں
تہہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
جون ایلیا

سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی

دیوان ششم غزل 1916
گلبرگ سی زباں سے بلبل نے کیا فغاں کی
سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی
مطلوب گم کیا ہے تب اور بھی پھرے ہے
بے وجہ کچھ نہیں ہے گردش یہ آسماں کی
مائل ستم کے ہونا جور و جفا بھی کرنا
انصاف سے یہ کہنا یہ رسم ہے کہاں کی
ہے سبزئہ لب جو اس لطف سے چمن میں
جوں بھیگتی مسیں ہوں کوئی سرو نوجواں کی
میں گھر جہاں میں اپنے لڑکوں کے سے بنائے
جب چاہا تب مٹایا بنیاد کیا جہاں کی
صوم و صلوٰۃ یکسو میخانے میں جو تھے ہم
آواز بھی نہ آئی کانوں میں یاں اذاں کی
جب سامنے گئے ہم ہم نے اسے دعا دی
شکل ان نے دیکھتے ہی غصہ کیا زباں کی
دیکھیں تو میر کیونکر ہجراں میں ہم جیے ہیں
ہے اضطراب دل کا بے طاقتی ہے جاں کی
میر تقی میر

کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے

دیوان ششم غزل 1911
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے
بہت نامہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے
ہمیں جس جاے کل غش آگیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے
مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے
اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے
چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے
اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے
پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میر
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
میر تقی میر

نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے

دیوان ششم غزل 1891
کہو سو کریے علاج اپنا طپیدن دل بلاے جاں ہے
نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے
تلاش دل کی جو دلبری سے ہمارے پاس آ تمھیں رہے ہے
ستم رسیدہ شکستہ وہ دل گیا بھی خوں ہوکے یاں کہاں ہے
کڑھا کریں ہیں ہوا ہے مورد جہان اجسام جب سے اپنا
غم جدائی جہان جاں کا ہمارے دل میں جہاں جہاں ہے
نہیں جو دیکھا ہے ہم نے اس کو ہوا ہے نقصان جان اپنا
ادھر نہ دیکھے ہے وہ کبھو تو نگہ کا اس کی مگر زیاں ہے
بجا بھی ہے جو نہ ہووے مائل نگار سیر چمن کا ہرگز
گلوں میں ہمدم ہو کوئی اس کا سو کس کا ایسا لب و دہاں ہے
کسے ہے رنج و غم و الم سے دماغ سر کے اٹھانے کا اب
مصیبت اس کے زمانے میں تو ہمارے اوپر زماں زماں ہے
نہیں ہے اب میر پیر اتنا جو ذکر حق سے تو منھ چھپاوے
پگاہ نعرہ زنی کیا کر ابھی تو نام خدا جواں ہے
میر تقی میر

سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے

دیوان ششم غزل 1875
کہتے ہیں مرنے والے یاں سے گئے
سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے
دم میں دم جب تلک تھا سوچ رہا
سانس کے ساتھ سارے سانسے گئے
آنکھ کھلتے ہی گھر گئے وے تو
ہم ستم دیدہ خانماں سے گئے
واں گئے کرتے وے خرام ناز
یاں جواں کیسے کیسے جاں سے گئے
اس گلی سے جو اٹھ گئے بے صبر
میر گویا کہ وے جہاں سے گئے
میر تقی میر

پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں

دیوان ششم غزل 1844
رابطہ باہم ہے کوئی دن کا یاں
پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں
گم ہوا ہوں یاں سے جاکر میں جہاں
کچھ نہیں پیدا کہاں میرا نشاں
پیری میں ہے طفل مکتب سا جہول
ہے فلک کرنے کے قابل آسماں
تو کہے واں ناگہاں بجلی گری
وہ نگاہ تند کرتا ہے جہاں
بھولے بھی میں یک نظر دیکھا نہیں
اس پہ ہے وہ بے دماغ و بدگماں
عشق نے تکلیف کی مالایطاق
بار امانت کا گراں میں ناتواں
کام کچھ آئی نہ دل کی بھی کشش
کھنچ رہا ہے ہم سے وہ ابرو کماں
کیا چھپی ہیں باتیں میرے عشق کی
داستاں در داستاں ہے داستاں
عشق میں کیونکر بسر کریے گا عمر
دل لگا ہے جس سے سو نامہرباں
جو زمیں پالغز تھی شاید کہ میر
ہو وہیں مسجود اس کا آستاں
میر تقی میر

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک

دیوان ششم غزل 1832
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک
لبریز جلوہ اس کا سارا جہاں ہے یعنی
ساری ہے وہ حقیقت جاوے نظر جہاں تک
ہجراں کی سختیوں سے پتھر دل و جگر ہیں
صبر اس کی عاشقی میں کوئی کرے کہاں تک
سوداے عاشقی میں نقصاں ہے جی کا لیکن
ہم راضی ہورہے ہیں اپنے زیان جاں تک
وا ماندہ نقش پا سے یک دشت ہم ہیں بیکس
دشوار ہے پہنچنا اب اپنا کارواں تک
جی مارتے ہیں دلبر عاشق کا اس خطر سے
حرف وفا نہ آیا اپنی کبھو زباں تک
دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوے گلشن
پہنچے مبادا میری خاشاک آشیاں تک
دیواروں سے بھی مارا پتھروں سے پھوڑ ڈالا
پہنچا نہ سر ہمارا حیف اس کے آستاں تک
یہ تنگی و نزاکت اس رنگ سے کہاں ہے
گل برگ و غنچے پہنچیں کب ان لب و دہاں تک
ان جلتی ہڈیوں پر ہرگز ہما نہ بیٹھے
پہنچی ہے عشق کی تب اے میر استخواں تک
میر تقی میر

حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا

دیوان ششم غزل 1807
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا
حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا
جو قافلے گئے تھے انھوں کی اٹھی بھی گرد
کیا جانیے غبار ہمارا کہاں رہا
سوکھی پڑی ہیں آنکھیں مری دیر سے جو اب
سیلاب ان ہی رخنوں سے مدت رواں رہا
اعضا گداز عشق سے ایک ایک بہ گئے
اب کیا رہا ہے مجھ میں جو میں نیم جاں رہا
منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا
سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا
اس کے فریب لطف پہ مت جا کہ ہمنشیں
وہ دیر میرے حال پہ بھی مہرباں رہا
اب در پہ اس کے گھر کے گرا ہوں وگر نہ میں
مدت خرابہ گرد ہی بے خانماں رہا
ہے جان تو جہان ہے مشہور ہے مثل
کیا ہے گئے پہ جان کے گو پھر جہاں رہا
ترک شراب خانہ ہے پیری میں ورنہ میر
ترسا بچوں ہی میں رہا جب تک جواں رہا
میر تقی میر

مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا

دیوان ششم غزل 1793
میں رنج عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا
بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف
بیمار عشق چار ہی دن میں گراں ہوا
شاید کہ دل تڑپنے سے زخم دروں پھٹا
خونناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا
غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں
یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا
مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست
شیشہ ہوا نہ کیف کا پیر مغاں ہوا
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اسیر کر
صیاد کے کرم سے قفس آشیاں ہوا
ہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصان جاں کیا
ان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوا
ٹک رکھ لے ہاتھ تن میں نہیں اور جاے زخم
بس میرے دل کا یار جی اب امتحاں ہوا
وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آ کے پھر گئے
میں بے دیار و بیدل و بے خانماں ہوا
گردش نے آسماں کی عجائب کیا سلوک
پیر کبیر جب میں ہوا وہ جواں ہوا
مرغ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھی
میں آگ دی چمن کو جو گرم فغاں ہوا
دو پھول لاکے پھینک دیے میری گور پر
یوں خاک میں ملا کے مجھے مہرباں ہوا
سر کھینچا دود دل نے جہاں تیرہ ہو گیا
دم بھر میں صبح زیر فلک کیا سماں ہوا
کہتے ہیں میر سے کہیں اوباش لڑ گئے
ہنگامہ ان سے ایسا الٰہی کہاں ہوا
میر تقی میر

کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک

دیوان پنجم غزل 1665
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک
کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک
میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب ہوا
اس نیم جاں کے بدلے ہوا یک جہاں ہلاک
مقصود گم ہے پھرتا جو رہتا ہے رات دن
ہلکان ہو کے ہو گا کبھو آسماں ہلاک
اس ظلم کیش کی ہے طرب گاہ ہر کہیں
عاشق خدا ہی جانے ہوا ہے کہاں ہلاک
جی میر نے دیا نہ ہوا لیک وصل یار
افسوس ہے کہ مفت ہوا یہ جواں ہلاک
میر تقی میر

پر حوصلے سے شکوہ آیا نہیں زباں تک

دیوان پنجم غزل 1661
اب رنج و درد و غم کا پہنچا ہے کام جاں تک
پر حوصلے سے شکوہ آیا نہیں زباں تک
آواز کے ہماری تم حزن پر نہ جائو
یہ نالۂ حزیں تو جاتے ہیں آسماں تک
رونا جہاں جہاں تو عین آرزو ہے لیکن
روتا ہوں رویا جاوے میرے کنے جہاں تک
اکثر صداع مجھ کو رہتا ہے عاشقی میں
تصدیع درد و غم سے کھینچے کوئی کہاں تک
آوارہ ہی ہوئے ہم سر مار مار یعنی
نوپر نکل گئے ہیں اپنے سب آشیاں تک
اے وائے بے نصیبی سر سے بھی گذرے لیکن
پیشانی ٹک نہ پہنچی اس خاک آستاں تک
نفع کثیر اٹھایا کر عشق کی تجارت
راضی ہیں میر اب تو ہم جان کے زیاں تک
میر تقی میر

ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد

دیوان پنجم غزل 1604
ہے عشق کا فسانہ میرا نہ یاں زباں زد
ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد
حسرت سے حسن گل کی چپکا ہوا ہوں ورنہ
طیران باغ میں ہوں میں خوش زباں زباں زد
مذکور عاشقی کا ہر چار سو ہے باہم
یعنی نہیں کہانی میری کہاں زباں زد
فرہاد و قیس و وامق ہر یک سے پوچھ لو تم
شہروں میں عشق کے ہوں میں ناتواں زباں زد
کیا جانے میر کس کے غم سے ہے چپ وگرنہ
حرف و سخن میں کیا ہی ہے یہ جواں زباں زد
میر تقی میر

اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو

دیوان چہارم غزل 1467
دیتی ہے طول بلبل کیا شورش فغاں کو
اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو
میں تو نہیں پر اب تک مستانہ غنچے ہوکر
کہتے ہیں مرغ گلشن سے میری داستاں کو
نالاں تو ہیں مجھی سے پر وہ اثر کہاں ہے
گو طائر گلستاں سیکھے مری زباں کو
کیا جانیے کہ کیا کچھ پردے سے ہووے ظاہر
رہتے ہیں دیکھتے ہم ہر صبح آسماں کو
اس چشم سرخ پر ہے وہ ابروے کشیدہ
جوں ترک مست رکھ لے سر کے تلے کماں کو
میری نگاہ میں تو معدوم سب ہیں وے ہی
موجود بھی نہ جانا اس راہ سے جہاں کو
بعد از نماز تھے کل میخانے کے در اوپر
کیا جانے میر واں سے پھر اٹھ گئے کہاں کو
میر تقی میر

پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات

دیوان چہارم غزل 1365
کرتا ہے گرچہ یاروں سے وہ ٹیڑھی بانکی بات
پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
پہنچی ہے اس سرے تئیں طبع رواں کی بات
اب تو وفا و مہر کا مذکور ہی نہیں
تم کس سمیں کی کہتے ہو ہے یہ کہاں کی بات
مرغ اسیر کہتے تھے کس حسرتوں سے ہائے
ہم بھی کبھی سنیں گے گلوں کے دہاں کی بات
شب باش ان نے کہتے ہیں آنے کہا ہے میر
دن اچھے ہوں تو یہ بھی ہو اس مہرباں کی بات
میر تقی میر

صدشکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا

دیوان چہارم غزل 1338
ہم کوے مغاں میں تھے ماہ رمضاں آیا
صدشکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا
گو قدر محبت میں تھی سہل مری لیکن
سستا جو بکا میں تو مجھ کو بھی گراں آیا
رسم اٹھ گئی دنیا سے اک بار مروت کی
کیا لوگ زمیں پر ہیں کیسا یہ سماں آیا
یہ نفع ہوا نقصاں چاہت میں کیا جی کا
کی ایک نگہ ان نے سو جی کا زیاں آیا
بلبل بھی تو نالاں تھی پر سارے گلستاں میں
اک آگ پھنکی میں جب سرگرم فغاں آیا
طائر کی بھی رہتی ہے پھر جان چمن ہی میں
گل آئے جہاں وہ بھی جوں آب رواں آیا
خلوت ہی رہا کی ہے مجلس میں تو یوں اس کی
ہوتا ہے جہاں یک جا میں میر جہاں آیا
میر تقی میر

کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم

دیوان سوم غزل 1171
آ ٹک شتاب جاتے ہیں ورنہ جہاں سے ہم
کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم
ہر بات کے جواب میں گالی کہاں تلک
اب جاں بہ لب ہوئے ہیں تمھاری زباں سے ہم
وعدہ کرو تو سوچ لو مدت کو دل میں بھی
یہ حال ہے تو دیر رہیں گے کہاں سے ہم
الجھائو دل کا جس سے ہے جھنجھلاکے اس بغیر
جھگڑا کیا کریں ہیں زمین آسماں سے ہم
لاویں ہماری خاک پر اس کینہ ور کو بھی
یہ کہہ مریں گے اپنے ہر اک مہرباں سے ہم
دربان سنگدل نے خبر واں تلک نہ کی
سر مار مار صبح کی اس آستاں سے ہم
جب اس کی تیغ رکھنے لگا اپنے پاس میر
امید قطع کی تھی تبھی اس جواں سے ہم
میر تقی میر

لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک

دیوان سوم غزل 1160
ہر چند صرف غم ہیں لے دل جگر سے جاں تک
لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک
کیا کوئی اس کے رنگوں گل باغ میں کھلا ہے
شور آج بلبلوں کا جاتا ہے آسماں تک
دو چار دن جو ہوں تو رک رک کے کوئی کاٹے
ناچار صبر کرنا عاشق سے ہو کہاں تک
ان جلتی ہڈیوں کو شاید ہما نہ کھاوے
تب عشق کی ہمارے پہنچی ہے استخواں تک
روئے جہاں جہاں ہم جوں ابر میر اس بن
اب آب ہے سراسر جاوے نظر جہاں تک
میر تقی میر

سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات

دیوان سوم غزل 1113
جب سے چلی چمن میں ترے رنگ پاں کی بات
سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات
یاں شہر حسن میں تو کہیں ذکر بھی نہیں
کیا جانیے کہ مہر و وفا ہے کہاں کی بات
اختر شناس کو بھی خلل ہے دماغ کا
پوچھو اگر زمیں سے کہیں آسماں کی بات
ایسا خدا ہی جانے کہ ہو عرش یا نہ ہو
دل بولنے کی جا نہیں کیا اس مکاں کی بات
کیا لطف جو سنو اسے کہتے پھرا کرو
یوں چاہیے کہ بھول وہیں ہو جہاں کی بات
لے شام سے جہاں میں ہے تاصبح ایک شور
اپنی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتی یاں کی بات
اوباش کس کو پوچھتے ہیں التفات سے
سیدھی کبھو سنی نہیں اس بدزباں کی بات
ہر حرف میں ہے ایک کجی ہر سخن میں پیچ
پنہاں رہے ہے کب کسو کی ٹیڑھی بانکی بات
کینے سے کچھ کہا ہی کیا زیرلب مجھے
کیا پوچھتے ہو میر مرے مہرباں کی بات
میر تقی میر

سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے

دیوان دوم غزل 1004
یاں ہم براے بیت جو بے خانماں رہے
سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے
تھا ملک جن کے زیرنگیں صاف مٹ گئے
تم اس خیال میں ہو کہ نام و نشاں رہے
آنسو چلے ہی آنے لگے منھ پہ متصل
کیا کیجے اب کہ راز محبت نہاں رہے
ہم جب نظر پڑیں تو وہ ابرو کو خم کرے
تیغ اپنے اس کے کب تئیں یوں درمیاں رہے
کوئی بھی اپنے سر کو کٹاتا ہے یوں ولے
جوں شمع کیا کروں جو نہ میری زباں رہے
یہ دونوں چشمے خون سے بھر دوں تو خوب ہے
سیلاب میری آنکھوں سے کب تک رواں رہے
دیکھیں تو مصر حسن میں کیا خواریاں کھنچیں
اب تک تو ہم عزیز رہے ہیں جہاں رہے
مقصود گم کیا ہے تب ایسا ہے اضطراب
چکر میں ورنہ کاہے کو یوں آسماں رہے
کیا اپنی ان کی تم سے بیاں کیجیے معاش
کیں مدتوں رکھا جو تنک مہرباں رہے
گہ شام اس کے مو سے ہے گہ رو سے اس کے صبح
تم چاہو ہو کہ ایک سا ہی یاں سماں رہے
کیا نذر تیغ عشق سرِتیر میں کیا
اس معرکے میں کھیت بہت خستہ جاں رہے
اس تنگناے دہر میں تنگی نفس نے کی
جوں صبح ایک دم ہی رہے ہم جو یاں رہے
اک قافلے سے گرد ہماری نہ ٹک اٹھی
حیرت ہے میر اپنے تئیں ہم کہاں رہے
میر تقی میر

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

دیوان دوم غزل 976
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے
تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے
جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے
کیا خوبی اس کے منھ کی اے غنچہ نقل کریے
تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے دہاں سے
آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے
سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے
کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے
دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے
خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے
اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھائو ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر تقی میر

ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے

دیوان دوم غزل 974
وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے
ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے
عزیزاں غم میں اپنے یوسفؑ گم گشتہ کے ہر دم
چلے جاتے ہیں آنسو کارواں در کارواں میرے
تمھاری دشمنی ہم دوستوں سے لا نہایت ہے
وگرنہ انتہا کینے کو بھی ہے مہرباں میرے
لب و لہجہ غزل خوانی کا کس کو آج کل ایسا
گھڑی بھر کو ہوئے مرغ چمن ہم داستاں میرے
نظر مت بے پری پر کر کہ آں سوے جہاں پھر ہوں
ہوئے پرواز کے قابل یہ ٹوٹے پر جہاں میرے
کہاں تک سر کو دیواروں سے یوں مارا کرے کوئی
رکھوں اس در پہ پیشانی نصیب ایسے کہاں میرے
مجھے پامال کر یکساں کیا ہے خاک سے تو بھی
وہی رہتا ہے صبح و شام درپے آسماں میرے
خزاں کی بائو سے حضرت میں گلشن کے تطاول تھا
تبرک ہو گئے یک دست خارآشیاں میرے
کہا میں شوق میں طفلان تہ بازار کے کیا کیا
سخن مشتاق ہیں اب شہر کے پیر و جواں میرے
زمیں سر پر اٹھا لی کبک نے رفتار رنگیں سے
خراماں ناز سے ہو تو بھی اے سرو رواں میرے
سخن کیا میر کریے حسرت و اندوہ و حرماں سے
بیاں حاجت نہیں حالات ہیں سارے عیاں میرے
میر تقی میر

ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو

دیوان دوم غزل 917
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو
یہی مشہور عالم ہیں دوعالم
خدا جانے ملاپ اس سے کہاں ہو
جہاں سجدے میں ہم نے غش کیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہو
نہ ہووے وصف ان بالوں کا مجھ سے
اگر ہر مو مرے تن پر زباں ہو
جگر تو چھن گیا تیروں کے مارے
تمھاری کس طرح خاطر نشاں ہو
نہ دل سے جا خدا کی تجھ کو سوگند
خدائی میں اگر ایسا مکاں ہو
تم اے نازک تناں ہو وہ کہ سب کے
تمناے دل و آرام جاں ہو
ہلے ٹک لب کہ اس نے مار ڈالا
کہے کچھ کوئی گر جی کی اماں ہو
سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمھارا
کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو
کنارہ یوں کیا جاتا نہیں پھر
اگر پاے محبت درمیاں ہو
ہوئے ہم پیر سو ساکت ہیں اب میر
تمھاری بات کیا ہے تم جواں ہو
میر تقی میر

جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں

دیوان دوم غزل 865
کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب واں عیاں نہیں
جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں
دفتر بنے کہانی بنی مثنوی ہوئی
کیا شرح سوز عشق کروں میں زباں نہیں
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں
ہنگامہ و فساد کی باعث ہے وہ کمر
پھر آپ خوب دیکھیے تو درمیاں نہیں
جی ہی نکل گیا جو گیا یار پاس سے
جسم ضعیف و زار میں اب میرے جاں نہیں
ہے عشق ہی سے چار طرف بحث و گفتگو
شور اس بلاے جاں کا جہاں میں کہاں نہیں
اس عہد کو نہ جانیے اگلا سا عہد میر
وہ دور اب نہیں وہ زمیں آسماں نہیں
میر تقی میر

حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ

دیوان دوم غزل 846
غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیونکر کہیں کہ شہر وفا میں جنوں نہیں
اس خصم جاں کے سارے دوانے ہیں یاں کے لوگ
رونق تھی دل میں جب تئیں بستے تھے دلبراں
اب کیا رہا ہے اٹھ گئے سب اس مکاں کے لوگ
تو ہم میں اور آپ میں مت دے کسو کو دخل
ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ
مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ
پتی کو اس چمن کی نہیں دیکھتے ہیں گرم
جو محرم روش ہیں کچھ اس بدگماں کے لوگ
بت چیز کیا کہ جس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیرچشم ہیں کوے بتاں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
منھ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر

جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک

دیوان دوم غزل 844
سو خونچکاں گلے ہیں لب سے مری زباں تک
جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک
ملنے میں میرے گاہے ٹک تن دیا نہ ان نے
حاضر رہا ہوں میں تو اپنی طرف سے جاں تک
ہر چند میں نے سر پر اس رہ کی خاک ڈالی
لیکن نہ پہنچیں آنکھیں اس پائوں کے نشاں تک
ان ہڈیوں کا جلنا کوئی ہما سے پوچھو
لاتا نہیں ہے منھ وہ اب میرے استخواں تک
اس کی گلی کے سگ سے کی ہے موافقت میں
اس راہ سے بھی پہنچیں شاید کہ پاسباں تک
ابربہار نے شب دل کو بہت جلایا
تھا برق کا چمکنا خاشاک آشیاں تک
اس مہ کے گوش تک تو ہرگز نہیں پہنچتی
گو آہ بے سرایت جاتی ہے آسماں تک
قید قفس میں مرنا کب شوق کا ہے مانع
پہنچیں گے مشت پر بھی اڑ کر یہ گلستاں تک
ہونا جہاں کا اپنی آنکھوں میں ہے نہ ہونا
آتا نظر نہیں کچھ جاوے نظر جہاں تک
جاتی ہیں خط کے پیچھے جوں مہر آنکھیں میری
اب کارشوق میرا پہنچا ہے میر یاں تک
میر تقی میر

آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک

دیوان دوم غزل 840
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک
اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا اثر
ہرچند پہنچی میری دعا آسماں تلک
جو آرزو کی اس سے سو دل میں ہی خوں ہوئی
نومید یوں بسر کرے کوئی کہاں تلک
کھینچا کیے وہ دور بہت آپ کو سدا
ہمسائے ہم موا کیے آئے نہ یاں تلک
بلبل قفس میں اس لب و لہجہ پہ یہ فغاں
آواز ایک ہو رہی ہے گلستاں تلک
پچھتائے اٹھ کے گھر سے کہ جوں نو دمیدہ پر
جانا بنا نہ آپ کو پھر آشیاں تلک
ہم صحبتی یار کو ہے اعتبار شرط
اپنی پہنچ تو میر نہیں پاسباں تلک
میر تقی میر

لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر

دیوان دوم غزل 802
رفتار میں یہ شوخی رحم اے جواں زمیں پر
لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر
آنکھیں لگی رہیں گی برسوں وہیں سبھوں کی
ہو گا قدم کا تیرے جس جا نشاں زمیں پر
میں مشت خاک یارب بارگران غم تھا
کیا کہیے آ پڑا ہے اک آسماں زمیں پر
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں لوگوں کی تیری رہ میں
ٹک دیکھ کر قدم رکھ اے کام جاں زمیں پر
خاک سیہ سے یکساں ہر ایک ہے کہے تو
مارا اٹھا فلک نے سارا جہاں زمیں پر
چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں جاری
جوں ابر ہم نہ روئے اس بن کہاں زمیں پر
آتا نہ تھا فرو سرجن کا کل آسماں سے
ہیں ٹھوکروں میں ان کے آج استخواں زمیں پر
جو کوئی یاں سے گذرا کیا آپ سے نہ گذرا
پانی رہا کب اتنا ہوکر رواں زمیں پر
پھر بھی اٹھالی سر پر تم نے زمیں سب آکر
کیا کیا ہوا تھا تم سے کچھ آگے یاں زمیں پر
کچھ بھی مناسبت ہے یاں عجز واں تکبر
وے آسمان پر ہیں میں ناتواں زمیں پر
پست و بلند یاں کا ہے اور ہی طرف سے
اپنی نظر نہیں ہے کچھ آسماں زمیں پر
قصر جناں تو ہم نے دیکھا نہیں جو کہیے
شاید نہ ہووے دل سا کوئی مکاں زمیں پر
یاں خاک سے انھوں کی لوگوں نے گھر بنائے
آثار ہیں جنھوں کے اب تک عیاں زمیں پر
کیا سر جھکا رہے ہو میر اس غزل کو سن کر
بارے نظر کرو ٹک اے مہرباں زمیں پر
میر تقی میر

ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح

دیوان دوم غزل 793
آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح
ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح
کیا میں ہی چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں
اچھی لگے ہے سب کو مرے بد زباں کی طرح
آگے تو بے طرح نہ کبھو کہتے تھے ہمیں
اب تازہ یہ نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
یہ شور دل خراش کب اٹھتا تھا باغ میں
سیکھے ہے عندلیب بھی ہم سے فغاں کی طرح
کرتے تو ہو ستم پہ نہیں رہنے کے حواس
کچھ اور ہو گئی جو کسو خستہ جاں کی طرح
نقشہ الٰہی دل کا مرے کون لے گیا
کہتے ہیں ساری عرش میں ہے اس مکاں کی طرح
مرغ چمن نے زور رلایا سبھوں کے تیں
میری غزل پڑھی تھی شب اک روضہ خواں کی طرح
لگ کر گلے سے اس کے بہت میں بکا کیا
ملتی تھی سرو باغ میں کچھ اس جواں کی طرح
جو کچھ نہیں تو بجلی سے ہی پھول پڑ گیا
ڈالی چمن میں ہم نے اگر آشیاں کی طرح
یہ باتیں رنگ رنگ ہماری ہیں ورنہ میر
آجاتی ہے کلی میں کبھو اس دہاں کی طرح
میر تقی میر

پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ

دیوان دوم غزل 789
عشق میں اے طبیب ہاں ٹک سوچ
پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ
بے تامل اداے کیں مت کر
قتل میں میرے مہرباں ٹک سوچ
سرسری مت جہاں سے جا غافل
پائوں تیرا پڑے جہاں ٹک سوچ
پھیل اتنا پڑا ہے کیوں یاں تو
یار اگلے گئے کہاں ٹک سوچ
ہونٹ اپنا ہلا نہ سمجھے بن
یعنی جب کھولے تو زباں ٹک سوچ
گل و رنگ و بہار پردے ہیں
ہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سوچ
فائدہ سر جھکے کا شیب میں میر
پیری سے آگے اے جواں ٹک سوچ
میر تقی میر

انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا

دیوان دوم غزل 718
یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا
جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا
منھ تکیے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا
جس راہ سے وہ دل زدہ دلی میں نکلتا
ساتھ اس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا
افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
آندھی تھی بلا تھا کوئی آشوب جہاں تھا
کس مرتبہ تھی حسرت دیدار مرے ساتھ
جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا
مجنوں کو عبث دعوی وحشت ہے مجھی سے
جس دن کہ جنوں مجھ کو ہوا تھا وہ کہاں تھا
غافل تھے ہم احوال دل خستہ سے اپنے
وہ گنج اسی کنج خرابی میں نہاں تھا
کس زور سے فرہاد نے خارا شکنی کی
ہر چند کہ وہ بے کس و بے تاب و تواں تھا
گو میر جہاں میں کنھوں نے تجھ کو نہ جانا
موجود نہ تھا تو تو کہاں نام و نشاں تھا
میر تقی میر

بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا

دیوان دوم غزل 716
لے رنگ بے ثباتی یہ گلستاں بنایا
بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا
اڑتی ہے خاک یارب شام و سحر جہاں میں
کس کے غبار دل سے یہ خاکداں بنایا
اک رنگ پر نہ رہنا یاں کا عجب نہیں ہے
کیا کیا نہ رنگ لائے تب یہ جہاں بنایا
آئینے میں کہاں ہے ایسی صفا کہے تو
جبہوں سے راستوں کے وہ آستاں بنایا
سرگشتہ ایسی کس کی ہاتھ آگئی تھی مٹی
جو چرخ زن قضا نے یہ آسماں بنایا
نقش قدم سے اس کے گلشن کی طرح ڈالی
گرد رہ اس کی لے کر سرو رواں بنایا
ہونے پہ جمع اپنے پھولا بہت تھا لیکن
کیا غنچہ تنگ آیا جب وہ دہاں بنایا
اس صحن پر یہ وسعت اللہ رے تیری صنعت
معمار نے قضا کے دل کیا مکاں بنایا
دل ٹک ادھر نہ آیا ایدھر سے کچھ نہ پایا
کہنے کو ترک لے کر اک سوانگ یاں بنایا
دریوزہ کرتے گذری گلیوں میں عمر اپنی
درویش کب ہوئے ہم تکیہ کہاں بنایا
وہ تو مٹا گیا تھا تربت بھی میر جی کی
دو چار اینٹیں رکھ کر پھر میں نشاں بنایا
میر تقی میر

ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے

دیوان اول غزل 585
نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے
گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی لب ودہاں ہے
لیکن سخن کا تجھ سے غنچے کو منھ کہاں ہے
ہنگام جلوہ اس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت چشمک بلاے جاں ہے
پتھر سے توڑنے کے قابل ہے آرسی تو
پر کیا کریں کہ پیارے منھ تیرا درمیاں ہے
باغ و بہار ہے وہ میں کشت زعفراں ہوں
جو لطف اک ادھر ہے تو یاں بھی اک سماں ہے
ہر چند ضبط کریے چھپتا ہے عشق کوئی
گذرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
عالم میں آب و گل کا ٹھہرائو کس طرح ہو
گر خاک ہے اڑے ہے ورآب ہے رواں ہے
چرچا رہے گا اس کا تاحشر مے کشاں میں
خونریزی کی ہماری رنگین داستاں ہے
ازخویش رفتہ اس بن رہتا ہے میر اکثر
کرتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے
میر تقی میر

ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے

دیوان اول غزل 574
دو سونپ دود دل کو میرا کوئی نشاں ہے
ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے
بیٹھا جگر سے اپنے کھینچوں ہوں اس کے پیکاں
جینے کی اور سے تو خاطر مری نشاں ہے
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
اے شمع کچھ تو کہہ تو تیرے بھی تو زباں ہے
بھڑکے ہے آتش گل اے ابرتر ترحم
گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے
ہم زمزمہ تو ہو کے مجھ نالہ کش سے چپ رہ
اے عندلیب گلشن تیرا لب و دہاں ہے
کس دور میں اٹھایا مجھ سینہ سوختہ کو
پیوند ہو زمیں کا جیسا یہ آسماں ہے
کتنی ہی جی نے تجھ سے لی خاک گر اڑائی
وابستگی کر اس سے پر وہی جہاں ہے
ہے قتل گاہ کس کی کوچہ ترا ستمگر
یک عمر خضر ہو گئی خوں متصل رواں ہے
پیرمغاں سعادت تیری جو ایسا آوے
یہ میر مے کشوں میں اک طرز کا جواں ہے
میر تقی میر

رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے

دیوان اول غزل 561
تمام اس کے قد میں سناں کی طرح ہے
رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے
برے ہونا احوال کو سن کے میرے
بھلا تو ہی کہہ یہ کہاں کی طرح ہے
اڑے خاک گاہے رہے گاہ ویراں
خراب و پریشاں یہاں کی طرح ہے
تعلق کرو میر اس پر جو چاہو
مری جان یہ کچھ جہاں کی طرح ہے
میر تقی میر

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

دیوان اول غزل 472
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

دیوان اول غزل 463
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جاے گئی طبع بدگماں میری
وہ نقش پاے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں
نہ کچھ خبر ہے نہ سدھ ہے گی رہرواں میری
شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری
اسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمرعزیز آہ رائیگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری
نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری
رہا میں در پس دیوار باغ مدت لیک
گئی گلوں کے نہ کانوں تلک فغاں میری
ہوا ہوں گریۂ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میر
پڑی جہان میں جاکر نظر جہاں میری
میر تقی میر

شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ

دیوان اول غزل 422
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ
شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ
روسفیدی ہے نقاب رخ شور مستی
ریش قاضی کے سبب پنبہ دہاں ہے شیشہ
منزل مستی کو پہنچے ہے انھیں سے عالم
نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ
درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ
جاکے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کرکے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ
جھک گیا دیکھ کے میں میر اسے مجلس میں
چشم بد دور طرحدار جواں ہے شیشہ
میر تقی میر

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جائوں

دیوان اول غزل 368
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں یہاں جائوں وہاں جائوں
ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جائوں
لگی آتی ہے واں تک تیرے دامن کی ہوا اڑ کے
میں یہ مشت غبار اپنا چھپانے کو جہاں جائوں
ادھر صحراے بیتابی ادھر مشہد ہے اے قاتل
جو فرماوے تو واں جائوں جو فرماوے تو یاں جائوں
اگر جیتا رہا اے زلف تو میں میر ہوں سنیو
بلاے ناگہانی کے سر اوپر ناگہاں جائوں
میر تقی میر

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

دیوان اول غزل 358
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں
دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں
آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں
سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم
مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں
بے رحم ٹک تو پائوں تو چھاتی پہ رکھے رہ
مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں
اک گردش اے فلک کہ ہو اثناے راہ سے
کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
ہم تو ہوئے تھے میر سے اس دن ہی ناامید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں
میر تقی میر

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

دیوان اول غزل 321
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں
پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایہ رو زلف بتاں ہوں
دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوں
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبش لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیر زباں ہوں
ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں
رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں
اک وہم نہیں بیش مری ہستی موہوم
اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں
خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھے مجھے میر
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں
میر تقی میر

پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم

دیوان اول غزل 278
جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم
ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پائوں دینے کو آئے کہاں سے تم
اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم
تنکے بھی تم ٹھہرتے کہیں دیکھے ہیں تنک
چشم وفا رکھو نہ خسان جہاں سے تم
جائو نہ دل سے منظر تن میں ہے جا یہی
پچھتائوگے اٹھوگے اگر اس مکاں سے تم
قصہ مرا سنوگے تو جاتی رہے گی نیند
آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم
جتنے تھے کل تم آج نہیں پاتے اتنا ہم
ہر دم چلے ہی جاتے ہو آب رواں سے تم
رہتے نہیں ہو بن گئے میر اس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم
میر تقی میر

طوفاں ہے میرے اشک ندامت سے یاں تلک

دیوان اول غزل 261
جاتے ہیں لے خرابی کو سیل آسماں تلک
طوفاں ہے میرے اشک ندامت سے یاں تلک
شاید کہ دیوے رخصت گلشن ہوں بے قرار
میرے قفس کو لے تو چلو باغباں تلک
قید قفس سے چھوٹ کے دیکھا جلا ہوا
پہنچے نہ ہوتے کاشکے ہم آشیاں تلک
اتنا ہوں ناتواں کہ در دل سے اب گلہ
آتا ہے ایک عمر میں میری زباں تلک
میں ترک عشق کرکے ہوا گوشہ گیر میر
ہوتا پھروں خراب جہاں میں کہاں تلک
میر تقی میر

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک

دیوان اول غزل 254
اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک
بہ بھی گیا بدن کا سب ہوکے گوشت پانی
اب کارد اے عزیزاں پہنچی ہے استخواں تک
تصویر کی سی شمعیں خاموش جلتے ہیں ہم
سوز دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک
روتے پھرے ہیں لوہو یک عمر اس گلی میں
باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک
آنکھیں جو روتے روتے جاتی رہیں بجا ہے
انصاف کر کہ کوئی دیکھے ستم کہاں تک
بے لطف تیرے کیونکر تجھ تک پہنچ سکیں ہم
ہیں سنگ راہ اپنی کتنے یہاں سے واں تک
ہم بے نصیب سر کو پتھر سے کیوں نہ پھوڑیں
پہنچا کبھو نہ جبہہ اس سنگ آستاں تک
مانند طیر نوپر اٹھے جہاں گئے ہم
دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک
تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ
حاضر ہیں میر ہم تو اپنی طرف سے جاں تک
میر تقی میر

اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا

دیوان اول غزل 150
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا
اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا
ہے مجھ کو یقیں تجھ میں وفا ایسی جفا پر
گھر چاک برابر ہوئے اس میرے گماں کا
سینے میں مرے آگ لگی میرے سخن سے
جوں شمع جلایا ہوا ہوں اپنی زباں کا
آرام عدم میں نہ تھا ہستی میں نہیں چین
معلوم نہیں میرا ارادہ ہے کہاں کا
میر تقی میر