ٹیگ کے محفوظات: ملا

کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا

وہ کون ہے جو تمھارا سُراغ پا نہ سکا
کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا
وہ اپنا معنوی چہرہ مجھے دِکھا نہ سکا
اس آئنے سے کوئی بھی نظر مِلا نہ سکا
یہ ٹھنڈی آگ جُدا ہے بدن کے شعلے سے
بدن کا شعلہ مری روح کو جلا نہ سکا
کسی کی بات تھی جو اُس نے ڈال دی مجھ پر
وہ آج خود تو ہنسا، پر مجھے ہنسا نہ سکا
اسی لیے تو اُجالا ہے میرے سینے میں
میں بھول کر بھی کسی کا دیا بُجھا نہ سکا
کچھ اتنے ہاتھ بڑھے تھے مجھے گرانے کو
کہ ڈگمگانا بھی چاہا تو ڈگمگا نہ سکا
وہ پیرہن ہوں میں اپنے برہنہ جوئی کا
جو کوئی زخم تری آنکھ سے چھپا نہ سکا
جو لوحِ دل ہوئی ٹکڑے تو یہ خیال آیا
کہ میں بھی سَنگ اٹھاؤں ، مگر اٹھا نہ سکا
شکیبؔ! روح میں طوفاں کا شور باقی ہے
میں اپنا درد، کسی ساز پر سنا نہ سکا
شکیب جلالی

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے

اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے
پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے
تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصلِ عشق کی؟
جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے
زیرِ قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض
اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے
شفّاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں؟
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے
ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکستِ انا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ستار

مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی

یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا، مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در، یونہی جا بہ جا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا، مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا، کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا، مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں، مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیرِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا، مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم، مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مری ساری عمر گزر گئی
مری اُن صفات کا کیا بنا، مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا، مرا کیا بنا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا، مری ساری عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مری ساری عمر گزر گئی
عرفان ستار

چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں

گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات یے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے
یہاں آہی گیا ہے اب، تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں
کہیں سبحان اللہ جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں
عرفان ستار

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا
ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا
چراغ یوں تو سرِ طاقِ دل کئی تھے مگر
تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا
خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟
جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا
ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں
کہ مجھ کو راہِ خرد سے گریزپا رکھا
خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں
جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا
چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ تباہ کا حال
یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا
وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ جاں سے
وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا
بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے
کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا
سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے
کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا
سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے
تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا
میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا
مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا
خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟
خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟
یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا
مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟
کبھی نہ ہونے دیا طاقِ غم کو بے رونق
چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا
نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی
سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا
تُو پاس تھا، تو رہے محو دیکھنے میں تجھے
وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا
ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں
ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟
ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال
دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا
ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن
تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟
ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی
سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا
خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ
ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا
جو ناگہاں کبھی اذنِ سفر ملا عرفان
تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا
عرفان ستار

کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے

یہ دَورِ خزاں ، کس نے کہا ہے کہ نہیں ہے
کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے
افلاک سے آہیں جو پَلَٹ آئی ہیں ناکام
ہر زخم نے پوچھا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
مظلوم کی آنکھوں میں جو لکّھا ہے اُسے پڑھ
تیرے لئے پیغامِ قضا ہے کہ نہیں ہے
چہرہ نہ مرا دیکھ، مرے دل پہ نَظَر رکھ
ہر حال میں راضی بہ رضا ہے کہ نہیں ہے
تفصیلِ فرائض تو بتادی گئی مجھ کو
کیا مجھ کو کوئی حق بھی مِلا ہے کہ نہیں ہے
لوگوں کے بندھے ہاتھوں پہ امکاں کی نَظَر ڈال
اِن میں سے ہر اِک دستِ قضا ہے کہ نہیں ہے
کیوں کرتے ہو تم پُرسشِ احوال کی زحمت
جو دل میں ہے چہرے پہ لکھا ہے کہ نہیں ہے
ضامنؔ! مِرا شیوہ ہی محبّت ہے، مجھے کیا
بستی کے مکینوں میں وفا ہے کہ نہیں ہے
ضامن جعفری

قیامت میں اَور اِک قیامت مچا دوں

مِلے زِندگی سے جو تحفے دِکھا دُوں
قیامت میں اَور اِک قیامت مچا دوں
زمانے سے اَپنا تَعارُف کَرا دُوں
ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں
نہ جانے مِزاجِ گِرامی ہیں کیسے
میں نوحہ پَڑھوں یا قَصیِدہ سُنا دُوں
مُکَمَّل سے شاید کہ شَرمِندَگی ہو
تُمہیَں آؤ آدھی کَہانی سُنا دُوں
فَقیِروں کی بَستی سے آیا ہُوا ہُوں
تُمہیَں کیا میں جِس دَر پہ چاہُوں صَدا دُوں
یہ دِل اِحتیاطَوں کا مارا ہُوا ہے
کئی بار سوچا کہ سَب کچھ بَتا دُوں
وہ خاموش بیٹھے ہیں میں کہہ رہا ہُوں
یہ تَصویر دے دو میں دِل میں لَگا دُوں
اِشارے کِنائے سِکھائے ہیں کِس نے
کَہو تَو میں سَب اَپنے اِحساں گِنا دُوں
غَزَل مَت سُنانا اَبھی اُن کو ضامِنؔ
میں شعروں میں خُونِ جِگَر تَو مِلا دُوں
ضامن جعفری

ہمارے بارے میں کچھ کسی نے کہا سنا تھا تو ہم سے کہتے

زمانے بھر سے تھی کیا ضرورت جو دل دُکھا تھا تو ہم سے کہتے
ہمارے بارے میں کچھ کسی نے کہا سنا تھا تو ہم سے کہتے
ہمیشہ امکان کچھ نہ کچھ چاہتوں میں رہتا ہے رنجشوں کا
حضور آپس کی بات تھی کچھ برا لگا تھا تو ہم سے کہتے
ہماری کوشش سدا یہی تھی نمائشِ غم نہ ہو کبھی بھی
اگر کہیں کوئی پارۂ دل پڑا ملا تھا تو ہم سے کہتے
نظر نے تو اُن کی گفتگو ہم سے جب بھی موقع ملا بہت کی
زباں پہ لیکن اَنا نے پہرہ بٹھادیا تھا تو ہم سے کہتے
سوالِ الفت اُٹھانے والے جواب سن کر بہت ہیں برہم
اُنہی کا عکس آئینہ جب اُن کو دکھا رہا تھا تو ہم سے کہتے
روایتِ حسن کے تقاضوں سے ہم بھی اچّھی طرح ہیں واقف
کمان سے اُن کی تیر، ضامنؔ! نکل گیا تھا تو ہم سے کہتے
ضامن جعفری

دھرتی سے آکاش ملا تھا

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش ملا تھا
دُور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گرتا تھا
چلتی ندیاں گاتے نوکے
نوکوں میں اِک شہر بسا تھا
نوکے ہی میں رَین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا
نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں اُلجھا تھا
ہنستا پانی روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا
ناصر کاظمی

یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا

دَم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا
یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا
تنہائی کے آتشداں میں
میں لکڑی کی طرح جلتا تھا
زرد گھروں کی دیواروں کو
کالے سانپوں نے گھیرا تھا
آگ کی محل سرا کے اندر
سونے کا بازار کھلا تھا
محل میں ہیروں کا بنجارا
آگ کی کرسی پر بیٹھا تھا
اک جادوگرنی وہاں دیکھی
اُس کی شکل سے ڈر لگتا تھا
کالے منہ پر پیلا ٹیکا
انگارے کی طرح جلتا تھا
ایک رسیلے جرم کا چہرہ
آگ کے سپنے سے نکلا تھا
پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
بازو کھنچ کر تیر بنے تھے
جسم کماں کی طرح ہلتا تھا
ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی
پیٹ کمر سے آن ملا تھا
وہم کی مکڑی نے چہرے پر
مایوسی کا جال بنا تھا
جلتی سانسوں کی گرمی سے
شیشہِ تن پگھلا جاتا تھا
جسم کی پگڈنڈی سے آگے
جرم و سزا کا دوراہا تھا
ناصر کاظمی

بھیس جدائی نے بدلا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس جدائی نے بدلا ہے
دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
تنہائی کو کیسے چھوڑوں
برسوں میں اِک یار ملا ہے
رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی
رستے میں دریا پڑتا ہے
ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر
آج کسی نے یاد کیا ہے
ناصر کاظمی

گھر کا ہر فرد چل دیا باہر

ایک دروازہ کیا کھُلا باہر
گھر کا ہر فرد چل دیا باہر
دیکھ یخ بستہ ہے ہوا باہر
اِس طرح ایک دم نہ جا باہر
چل دیے یوں صنم کدے سے ہم
جیسے مل جائے گا خدا باہر
ایک تجھ سے رہے ہمیشہ دور
ورنہ کیا کچھ نہیں ملا باہر
گھر میں آ کر سکوں ملا باصِرؔ
کس قدر تیز تھی ہوا باہر
باصر کاظمی

کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک

اُن کو سب کچھ ہی لگ رہا ہے ٹھیک
کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک
کبھی لب بستگی مناسب ہے
اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک
ڈوب جائیں گے سُنتے سُنتے ہم
سب غلط ایک ناخدا ہے ٹھیک
آج ہم ٹھیک ہیں مگر یارو
مستقل کون رہ سکا ہے ٹھیک
تھی شفا چارہ گر کی باتوں میں
ہم سمجھتے رہے دوا ہے ٹھیک
چَین سے سو رہا ہے ہمسایا
چلیے کوئی تو گھر بنا ہے ٹھیک
ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا
وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے، ٹھیک
کر دیا تھا عدو نے کام خراب
کر کے کتنے جتن کیا ہے ٹھیک
تیرا بیمار تجھ کو بھُول گیا
کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ٹھیک
کچھ دوا کر کہ زخمِ دل باصرِؔ
خود بخود بھی کبھی ہُوا ہے ٹھیک
باصر کاظمی

مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے

آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے
خوب صورت اگر دِکھائی دیں
ہم پہ پتھّر اُٹھا لیا کیجے
حُسن حیرت کا پیش خیمہ ہے
اِس عقیدے پہ سر دُھنا کیجے
ہم تکلّف کو بھول جاتے ہیں
آپ بھی دل ذرا بڑا کیجے
یہ ہے دنیا یہاں شکاری ہیں
اپنے اندر ہی اب اُڑا کیجے
سب درختوں پہ بُور آنے لگے
یار! ایسی کوئی دُعا کیجے
بات کرنا اگر نہیں آتا
خامشی کو ہرا بھرا کیجے
افتخار فلک

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
کُھل کے اظہارِ مدّعا کرتے
یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے
مانگتے گر کبھی خُدا سے تمہیں
لُطف آتا ہمیں دُعا کرتے
سج کے اک دُوسرے کے ہونٹوں پر
ہم بھی غنچہ صفت کھِلا کرتے
ہم پئے لُطف چھیڑ کر تُجھ کو
جو نہ سُننا تھا وُہ سُنا کرتے
جگنوؤں سا بہ سطحِ یاد کبھی
ٹمٹماتے، جلا بُجھا کرتے
بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
پُھول کھِلتے سرِ فضا ماجدؔ
ہونٹ بہرِ سخن جو وار کرتے
ماجد صدیقی

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 135
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
ہم سفر چاہیے ہجوم نہیں
اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
احمد فراز

مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 53
یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا، مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در، یونہی جا بہ جا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا، مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا، کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا، مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں، مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیرِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا، مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم، مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مری ساری عمر گزر گئی
مری اُن صفات کا کیا بنا، مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا، مرا کیا بنا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا، مری ساری عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مری ساری عمر گزر گئی
عرفان ستار

چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 33
گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات یے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے
یہاں آہی گیا ہے اب، تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں
کہیں سبحان اللہ جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں
عرفان ستار

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 11
کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا
ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا
چراغ یوں تو سرِ طاقِ دل کئی تھے مگر
تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا
خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟
جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا
ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں
کہ مجھ کو راہِ خرد سے گریزپا رکھا
خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں
جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا
چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ تباہ کا حال
یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا
وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ جاں سے
وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا
بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے
کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا
سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے
کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا
سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے
تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا
میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا
مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا
خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟
خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟
یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا
مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟
کبھی نہ ہونے دیا طاقِ غم کو بے رونق
چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا
نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی
سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا
تُو پاس تھا، تو رہے محو دیکھنے میں تجھے
وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا
ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں
ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟
ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال
دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا
ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن
تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟
ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی
سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا
خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ
ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا
جو ناگہاں کبھی اذنِ سفر ملا عرفان
تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا
عرفان ستار

قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 124
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے
بچھڑے تو حال نجانے کیا ہو
جو شخص ابھی ملا نہیں ہے
جینے کی تو آرزو ہی کب تھی
مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے
جو زیست کو معتبر بنا دے
ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے
خوشبو کا حساب ہو چکا ہے
اور پھول ابھی کھلا نہیں ہے
سرشاری رہبری میں دیکھا
پیچھے میرا قافلہ نہیں ہے
اک ٹھیس پہ دل کا پھوٹ بہنا
چھونے میں تو آبلہ نہیں ہے !
پروین شاکر

تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 160
تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے
میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے
تم نے اِحسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ اِحسان جتا دو تو مزا آ جائے
آپنے یوسف کی زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزا آ جائے
چین پڑتا ہی نہیں ہے تمھیں اب میرے بغیر
اب جو تم مجھ کو گنوا دو تو مزا آ جائے
بھائی حضرت رئیس امروہی کی نذر
جون ایلیا

دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 138
وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں
ترکِ الفت ہے کس قدر آسان
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
ہے کہاں موجہ ءِ صبا و شمیم
جیسے تُو موجہ ءِ صبا ہی نہیں
جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی
ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں
وہ بھی کتنا کٹھن رہا ہو گا
جو کہ اچھا بھی تھا ، برا ہی نہیں
کوئی دیکھے تو میرا حجرہ ءِ ذات
یاں سبھی کچھ وہ تھا جو تھا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
جون ایلیا

عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 96
یہاں معنی کا بے صورت صلا نئیں
عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں
ہیں سب اک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نئیں
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نئیں
کبھی خود سے مکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پہ اس کے جانے کا نئیں
بچھڑ کے جان تیرے آستاں سے
لگا جی بہت پر جی لگا نئیں
جدائی اپنی بے روداد سی تھی
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں
وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب
وہ سارا ماجرا جو تھا، وہ تھا نئیں
بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں
جون ایلیا

خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 90
اے صبح، میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
میں جرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی تلاش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص، میں تیری جستجو میں
بے زار نہیں ہوں ، تھک گیا ہوں
جون ایلیا

کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی

دیوان ششم غزل 1894
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغ سودا کی ہے سر سے
بہار اب ہے جنوں کی ابتدا کی
نہ ہو گلشن ہمارا کیونکے بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حر عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انھیں نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی
ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی
پیام اس گل کو پہنچا پھر نہ آئی
نہ خوش آئی میاں گیری صبا کی
سبب حیرت کا ہے اس کا توقف
سبک پا واں یہ اب تک کیا کیا کی
جفائیں سہیے گا کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی
جواں ہونے کی اس کے آرزو تھی
سو اب بارے ہمیں سے یہ جفا کی
گیا تھا رات دروازے پر اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی
لگا کہنے کہ یہ تو ہم نشیناں
صدا ہے دل خراش اس ہی گدا کی
رہا تھا دیکھ پہلے جو نگہ کر
ہمارے میر دل میں ان نے جا کی
ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی
میر تقی میر

دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو

دیوان ششم غزل 1863
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو
کیونکے عرفان ہو گیا سب کو
اپنے ڈھب پر تو وہ چڑھا نہ کبھو
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
ان نے یک حرف بھی لکھا نہ کبھو
گو شگفتہ چمن چمن تھے گل
غنچۂ دل تو وا ہوا نہ کبھو
طور کی سی تھی صحبت اس کی مری
جھمکی دکھلا کے پھر ملا نہ کبھو
غیرت اپنی تھی یہ کہ بعد نماز
اس کا لے نام کی دعا نہ کبھو
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی پائی انتہا نہ کبھو
وہ سخن گو فریبی چشم یار
ہم سے گویا تھی آشنا نہ کبھو
میر تقی میر

کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1783
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے
بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو
برا کرنے کو وہ بھلا جانتا ہے
مرا شعر اچھا بھی دانستہ ضد سے
کسو اور ہی کا کہا جانتا ہے
زمانے کے اکثر ستم گار دیکھے
وہی خوب طرز جفا جانتا ہے
نہیں جانتا حرف خط کیا ہیں لکھے
لکھے کو ہمارے مٹا جانتا ہے
نہ جانے جو بیگانہ تو بات پوچھے
سو مغرور کب آشنا جانتا ہے
نہیں اتحاد تن و جاں سے واقف
ہمیں یار سے جو جدا جانتا ہے
میر تقی میر

نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس

دیوان پنجم غزل 1629
یار ہم سے جدا ہوا افسوس
نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس
جب تلک آن کر رہے مجھ پاس
مجھ میں تب تک نہ کچھ رہا افسوس
دل میں حسرت گرہ ہے رخصت کی
چلتے ان نے نہ کچھ کہا افسوس
کیا تدارک ہے عشق میں دل کا
میں بلا میں ہوں مبتلا افسوس
سب سے بیگانگی کی جس کے لیے
وہ نہیں ہم سے آشنا افسوس
رات دن ہاتھ ملتے رہتے ہیں
دل کے جانے کا ہے بڑا افسوس
باچھیں پھٹ پھٹ گئیں ہیں گھگھیاتے
بے اثر ہو گئی دعا افسوس
مجھ کو کرنا تھا احتراز اس سے
ہائے افسوس کیا کیا افسوس
نوش دارو ہے نیش دارو میر
متاثر نہیں دوا افسوس
میر تقی میر

بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں

دیوان چہارم غزل 1455
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ان طیوروں سے ہوں میں بھی اگر آتی ہے صبا
باغ کے چار طرف آگ لگا دیتے ہیں
گرچہ ملتے ہیں خنک غیرت مہ یہ لڑکے
دل جگر دونوں کو یک لخت جلا دیتے ہیں
دیر رہتا ہے ہما لاش پہ غم کشتوں کی
استخواں ان کے جلے کچھ تو مزہ دیتے ہیں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
ہر طرف سینکڑوں درویش دعا دیتے ہیں
دل جگر ہو گئے بیتاب غم عشق جہاں
جی بھی ہم شوق کے ماروں کے دغا دیتے ہیں
کیونکے اس راہ میں پا رکھیے کہ صاحب نظراں
یاں سے لے واں تئیں آنکھیں ہی بچھا دیتے ہیں
ملتے ہی آنکھ ملی اس کی تو پر ہم بے تہ
خاک میں آپ کو فی الفور ملا دیتے ہیں
طرفہ صناع ہیں اے میر یہ موزوں طبعاں
بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں
میر تقی میر

ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا

دیوان چہارم غزل 1327
دل سنبھالے کہیں میں کل جو چلا جاتا تھا
ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا
بے دماغی کا سماں دیکھنے کی کس کو تاب
آنکھیں ملتا تھا جو وہ جی ہی ملا جاتا تھا
سوزش دل کے سبب مرگ نہ تھی عاشق کی
اپنی غیرت میں وہ کچھ آپھی جلا جاتا تھا
ہلہلاوے ہے حقیری سے مجھے اب وہ بھی
جس شکستے سے نہ جاگہ سے ہلا جاتا تھا
میر کو واقعہ کیا جانیے کیا تھا درپیش
کہ طرف دشت کے جوں سیل چلا جاتا تھا
میر تقی میر

اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا

دیوان چہارم غزل 1320
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغ گور اکیلا جلا کیا
آیا نہ اس طرف سے جواب ایک حرف کا
ہر روز خط شوق ادھر سے چلا کیا
ڈرتا ہی میں رہا کہ پلک کوئی گڑ نہ جائے
آنکھوں سے اس کے رات جو تلوے ملا کیا
بدحال ٹھنڈی سانسیں بھرا کب تلک کرے
سرگرم مرگ میر ہوا تو بھلا کیا
میر تقی میر

خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے

دیوان سوم غزل 1269
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
بہت روئے ہمارے دیدئہ تر اب نہیں کھلتے
متاع آب دیدہ ہے کوئی اس کو ہوا دیوے
تمھارے پائوں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے
تم آئو تو تمھیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جا دیوے
دلیل گم رہی ہے خضر جو ملتا ہے جنگل میں
پھرے ہے آپھی بھولا کیا ہمیں رستہ بتا دیوے
گئے ہی جی کے فیصل ہو نیاز و ناز کا جھگڑا
کہیں وہ تیغ کھینچے بھی کہ بندہ سر جھکا دیوے
لڑائی ہی رہی روزوں میں باہم بے دماغی سے
گلے سے اس کے ہم کو عید اب شاید ملا دیوے
ہوا میں میر جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا
لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے
میر تقی میر

کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر

دیوان سوم غزل 1135
سحر گوش گل میں کہا میں نے جا کر
کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر
لگا کہنے فرصت ہے یاں یک تبسم
سو وہ بھی گریباں میں منھ کو چھپا کر
تناسب پہ اعضا کے اتنا تبختر
بگاڑا تجھے خوب صورت بنا کر
قیامت رہا اضطراب اس کے غم میں
جگر پھر گیا رات ہونٹوں پہ آ کر
اسی آرزو میں گئے ہم جہاں سے
نہ پوچھا کبھو لطف سے ٹک بلا کر
کھنچی تیغ اس کی تو یاں نیم جاں تھے
خجالت سے ہم رہ گئے سر جھکا کر
مبارک تمھیں میر ہو عشق کرنا
بہت ہم تو پچھتائے دل کو لگا کر
میر تقی میر

گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے

دیوان دوم غزل 1050
کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے
اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے
فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے
سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے
کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ
مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا
جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے
اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے
گرم آکر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا
تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے
کیا چال یہ نکالی ہوکر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے
دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے
ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے
سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی
کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے
حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت
اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے
سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں
منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے
بیٹھے ہے یار آکر جس جا پہ ایک ساعت
ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے
سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے
کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم
اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے
گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے
ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے
گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی
مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے
ایک آفت زماں ہے یہ میر عشق پیشہ
پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے
میر تقی میر

دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

دیوان دوم غزل 1030
کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے
ان چار دن سے ہوں میں افسردہ کچھ وگرنہ
پھوڑا سا دل بغل میں برسوں جلا کیا ہے
اس گل کی اور اپنا تب منھ کیا ہے میں نے
جب آشنا لبوں سے صلِّ علیٰ کیا ہے
دل داغ کب نہ دیکھا جی بار کب نہ پایا
کیا کیا نہال خواہش پھولا پھلا کیا ہے
تڑپا ہے ایسا ایسا جو غش رہا ہے مجھ کو
دل اک بغل میں جی کا دشمن پلا کیا ہے
کیا خاک میں ہمیں کو ان نے نیا ملایا
ٹیڑھی ہی چال گردوں اکثر چلا کیا ہے
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے
ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہو گا
تونے بدی تو کی ہے ظالم بھلا کیا ہے
ہے منھ پہ میر کے کیا گرد ملال تازہ
یہ خاک میں ہمیشہ یوں ہی رلا کیا ہے
میر تقی میر

اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان دوم غزل 1026
چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے
اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے
میں اور تو ہیں دونوں مجبورطور اپنے
پیشہ ترا جفا ہے شیوہ مرا وفا ہے
روے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یارب
سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے
کچھ بے سبب نہیں ہے خاطر مری پریشاں
دل کا الم جدا ہے غم جان کا جدا ہے
حسن ان بھی معنیوں کا تھا آپھی صورتوں میں
اس مرتبے سے آگے کوئی چلے تو کیا ہے
شادی سے غم جہاں میں دہ چند ہم نے پایا
ہے عید ایک دن تو دس روز یاں دہا ہے
ہے خصم جان عاشق وہ محو ناز لیکن
ہر لمحہ بے ادائی یہ بھی تو اک ادا ہے
ہو جائے یاس جس میں سو عاشقی ہے ورنہ
ہر رنج کو شفا ہے ہر درد کو دوا ہے
نایاب اس گہر کی کیا ہے تلاش آساں
جی ڈوبتا ہے اس کا جو تہ سے آشنا ہے
مشفق ملاذ و قبلہ کعبہ خدا پیمبر
جس خط میں شوق سے میں کیا کیا اسے لکھا ہے
تاثیر عشق دیکھو وہ نامہ واں پہنچ کر
جوں کاغذ ہوائی ہر سو اڑا پھرا ہے
ہے گرچہ طفل مکتب وہ شوخ ابھی تو لیکن
جس سے ملا ہے اس کا استاد ہو ملا ہے
پھرتے ہو میر صاحب سب سے جدے جدے تم
شاید کہیں تمھارا دل ان دنوں لگا ہے
میر تقی میر

جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے

دیوان دوم غزل 1001
اس شوخ ستمگر کو کیا کوئی بھلا چاہے
جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے
کعبے گئے کیا کوئی مقصد کو پہنچتا ہے
کیا سعی سے ہوتا ہے جب تک نہ خدا چاہے
سو رنگ کی جب خوبی پاتے ہو اسی گل میں
پھر اس سے کوئی اس بن کچھ چاہے تو کیا چاہے
ہم عجز سے پہنچے ہیں مقصود کی منزل کو
گہ خاک میں مل جاوے جو اس سے ملا چاہے
ہوسکتی ہیں سد رہ پلکیں کہیں رونے کی
تنکوں سے رکے ہے کب دریا جو بہا چاہے
جب تونے زباں چھوڑی تب کاہے کا صرفہ ہے
بے صرفہ کہے کیوں نہ جو کچھ کہ کہا چاہے
دل جاوے ہے جوں رو کے شبنم نے کہا گل سے
اب ہم تو چلے یاں سے رہ تو جو رہا چاہے
خط رسم زمانہ تھی ہم نے بھی لکھا اس کو
تہ دل کی لکھے کیونکر عاشق جو لکھا چاہے
رنگ گل و بوے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں
کیا قافلہ جاتا ہے جو تو بھی چلا چاہے
ہم میر ترا مرنا کیا چاہتے تھے لیکن
رہتا ہے ہوئے بن کب جو کچھ کہ ہوا چاہے
میر تقی میر

مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے

دیوان دوم غزل 1000
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے دور جاناں سے
کوئی کاش اس گلی میں ہم کو اک تکیہ بنا دیوے
ہوئے برسوں کہ وہ ظالم رہے ہے مجھ پہ کچھ ٹیڑھا
کوئی اس تیغ برکف کو گلے میرے ملا دیوے
وفا کی مزد میں ہم پر جفا و جور کیا کہیے
کسو سے دل لگے اس کا تو وہ اس کی جزا دیوے
کہیں کچھ تو برا مانو بھلا انصاف تو کریے
بدی کو بھی نہایت ہے تمھیں نیکی خدا دیوے
صنوبر آدمی ہو تو سراپا بار دل لاوے
کہاں سے کوئی تازہ دل اسے ہر روز لا دیوے
بہت گمراہ ہے وہ شوخ لگتا ہے کہے کس کے
کوئی کیا راہ کی بات اس جفاجو کو بتا دیوے
جگر سب جل گیا لیکن زباں ہلتی نہیں اپنی
مباد اس آتشیں خو کو مخالف کچھ لگا دیوے
کوئی بھی میر سے دل ریش سے یوں دور پھرتا ہے
ٹک اس درویش سے مل چل کہ تجھ کو کچھ دعا دیوے
میر تقی میر

محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو

دیوان دوم غزل 933
عنایت ازلی سے جو دل ملا مجھ کو
محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو
تنک شراب ضعیف الدماغ ہوں ساقی
دم سحر مئے پرزور مت پلا مجھ کو
پڑا رہے کوئی مردہ سا کب تلک خاموش
ہلا کہیں لب جاں بخش کو جلا مجھ کو
جنوں میں سخت ہے اس زلف سے علاقۂ دل
خوش آگیا ہے نہایت یہ سلسلہ مجھ کو
فلک کی چرخ زنی برسوں ہو تو مجھ سا ہو
سمجھ سمجھ کے تنک خاک میں ملا مجھ کو
رہا تھا خوں تئیں ہمرہ سو آپھی خون ہے حیف
رفیق تجھ سا ملے گا کہاں دلا مجھ کو
درستی جیب کی اتنی نہیں ہے اے ناصح
بنے تو سینۂ صدچاک دے سلا مجھ کو
ہوا ہوں خاک پہ دل کی وہی ہے ناصافی
ابھی اس آئینے کی کرنی ہے جلا مجھ کو
مگر کہ مردن دشوار میر سہل ہے شوخ
ہلاک کرتا ہے تیرا مساہلہ مجھ کو
میر تقی میر

ہو گئی عید تو گلے نہ ملا

دیوان دوم غزل 763
عید آئندہ تک رہے گا گلا
ہو گئی عید تو گلے نہ ملا
ڈوبے لوہو میں دیکھتے سرخار
حیف کوئی بھی آبلہ نہ چھلا
ابر جاتا رہا رہیں بوندیں
اب تو ساقی مجھے شراب پلا
میر افسردہ دل چمن میں پھرا
غنچۂ دل کہیں نہ اس کا کھلا
میر تقی میر

دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا

دیوان دوم غزل 692
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش
رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا
کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات
کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین
آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا
اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر
جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا
جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا
کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا
خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا
میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا
ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار
ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا
جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ
پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا
جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں
وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا
پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ
دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا
بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر
دیکھا تھا ہم نے میر کو کچھ تو بھلا ہوا
میر تقی میر

آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

دیوان دوم غزل 672
جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا
اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم
کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا
اب بھی دماغ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا
جانی نہ قدر اس گہر شب چراغ کی
دل ریزئہ خزف کی طرح میں اٹھا دیا
تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا
گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا
وہ آگ ہورہا ہے خدا جانے غیر نے
میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا
اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تونے مار مار کے آکر بچھا دیا
اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا
تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی
کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا
کی چشم تونے باز کہ کھولا درستم
کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا
کیا کیا زیان میر نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا
میر تقی میر

بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے

دیوان اول غزل 644
مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے
بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے
وے دن گئے کہ آٹھ پہر اس کے پاس تھے
اب آگئے تو دور سے کچھ غم سنا گئے
میر تقی میر

الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے

دیوان اول غزل 612
کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کروگے تو کیا کروگے
الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ درد ہجراں سے مرتے رہیے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کروگے
جہاں کی مسلخ تمام حسرت نہیں ہے تس پر نگہ کی فرصت
نظر پڑے گی بسان بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کروگے
اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے
ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو غبار ہوکر اڑا کروگے
بلا ہے ایسا طپیدن دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل
دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کروگے
عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا
تمھیں تو لت ہے ستانے ہی کی کسو پر آخر جفا کروگے
اگرچہ اب تو خفا ہو لیکن موئے گئے پر کبھو ہمارے
جو یاد ہم کو کروگے پیارے تو ہاتھ اپنے ملا کروگے
سحر کو محراب تیغ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل
تو ایک سجدہ بسان بسمل مری طرف سے ادا کروگے
غم محبت سے میر صاحب بتنگ ہوں میں فقیر ہو تم
جو وقت ہو گا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کروگے
میر تقی میر

اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے

دیوان اول غزل 587
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے
اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے
ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر صفت
ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پا سکے
غافل نہ رہیو آہ ضعیفوں سے سرکشاں
طاقت ہے اس کو یہ کہ جہاں کو جلا سکے
میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں
تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے
تدبیر جیب پارہ نہیں کرتی فائدہ
ناصح جگر کا چاک سلا جو سلا سکے
اس کا کمال چرخ پہ سر کھینچتا نہیں
اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ تو ہے بوالہوس
کھانا تجھے حرام ہے جو زخم کھا سکے
اس رشک آفتاب کو دیکھے تو شرم سے
ماہ فلک نہ شہر میں منھ کو دکھا سکے
کیا دل فریب جاے ہے آفاق ہم نشیں
دو دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جا سکے
مشعر ہے اس پہ مردن دشوار رفتگاں
یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اٹھا سکے
بدلوں گا اس غزل کے بھی میں قافیے کو میر
پھر فکر گو نہ عہدے سے اس کے بر آسکے
میر تقی میر

تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے

دیوان اول غزل 510
لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
کھینچا تھا آہ شعلہ فشاں نے جگر سے سر
برسوں تئیں پڑے ہوئے جنگل جلا کیے
غنچے نے ساری طرز ہماری ہی اخذ کی
ہم جو چمن میں برسوں گرفتہ رہا کیے
تدبیر عشق میں بھی نہ کرتے قصور یار
جو اس مرض میں ہوتے بھلے ہم دوا کیے
جوں نے نہ تیرے کشتے کے لب سے رہی فغاں
ہر چند بند بند بھی اس کے جدا کیے
کیا حرف دل نشیں ہو مرا جیسے خط مدام
اغیار روسیاہ ترے منھ لگا کیے
پھر شام آشنا نہ کبھو نکلے گل رخاں
ہر صبح ان سے برسوں تئیں ہم ملا کیے
بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی اے بتاں
تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے
اک خاک سی اڑے ہے منھ اوپر وگرنہ میر
اس چشم گریہ ناک سے دریا بہا کیے
میر تقی میر

اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

دیوان اول غزل 388
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو
چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکر لب اب وہ نہیں رہا تو
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہرسحر کے
یا اب چمن میں بلبل ہم ہی رہیں گے یا تو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بلا تو
تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے
دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو
تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے
گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو
دل کیونکے راست آوے دعواے آشنائی
دریاے حسن وہ مہ کشتی بہ کف گدا تو
ہر فرد یاس ابھی سے دفتر ہے تجھ گلے کا
ہے قہر جب کہ ہو گا حرفوں سے آشنا تو
عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تو آنکھوں کا مدعا تو
منھ کریے جس طرف کو سو ہی تری طرف ہے
پر کچھ نہیں ہے پیدا کیدھر ہے اے خدا تو
آتی بخود نہیں ہے باد بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تو
کم میری اور آنا کم آنکھ کا ملانا
کرنے سے یہ ادائیں ہے مدعا کہ جا تو
گفت و شنود اکثر میرے ترے رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو
کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو
میر تقی میر

کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو

دیوان اول غزل 379
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تو
کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو
گر اپنی روش راہ چلا یار تو اے کبک
رہ جائے گا دیوار گلستاں سے لگا تو
بے گل نہیں بلبل تجھے بھی چین پہ دیکھیں
مر رہتے ہیں ہم ایک طرف باغ میں یا تو
خوش رو ہے بہت اے گل تر تو بھی ولیکن
انصاف ہے منھ تیرے ہی ویسا ہے بھلا تو
کیا جانیے اے گوہر مقصد تو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن نہ ملا تو
اس جینے سے اب دل کو اٹھا بیٹھیں گے ہم بھی
ہے تجھ کو قسم ظلم سے مت ہاتھ اٹھا تو
منظر میں بدن کے بھی یہ اک طرفہ مکاں تھا
افسوس کہ ٹک دل میں ہمارے نہ رہا تو
تھے چاک گریبان گلستاں میں گلوں کے
نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بند قبا تو
بے ہوشی سی آتی ہے تجھے اس کی گلی میں
گر ہوسکے اے میر تو اس راہ نہ جا تو
میر تقی میر

اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

دیوان اول غزل 144
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ باد صبح کہ آکر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما ومن کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
میر تقی میر

اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دیوان اول غزل 119
لخت جگر تو اپنے یک لخت روچکا تھا
اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا
دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا
ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا
اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت
ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا
مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں
کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا
اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت
میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا
بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا
پر تونے یوں نہ جانا اے بے وفا کہ کیا تھا
روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا
شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا
سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا
سو بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں
اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا
یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اس کا اس کے کوچے میں جابجا تھا
سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا
کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا
آنکھیں مری کھلیں جب جی میر کا گیا تب
دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا
میر تقی میر

اب کے شرط وفا بجا لایا

دیوان اول غزل 85
بارہا گور دل جھنکا لایا
اب کے شرط وفا بجا لایا
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم میں میں دکھا لایا
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر

یہ صراحی میں پھول نرگس کا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 44
میری مانند خودنگر، تنہا
یہ صراحی میں پھول نرگس کا
اتنی شمعیں تھیں تیری یادوں کی
اپنا سایہ بھی اپنا سایہ نہ تھا
میرے نزدیک تیری دوری تھی
کوئی منزل تھی، کوئی عالم تھا
ہائے وہ زندگی فریب آنکھیں
اس نے کیا سوچا، میں نے کیا سمجھا
صبح کی دھوپ ہے کہ رستوں پر
منجمد بجلیوں کا اک دریا
گھنگھروؤں کی جھنک منک میں بسی
تیری آہٹ، میں کس خیال میں تھا
کون یاد آ گیا تھا، یاد نہیں
دل بھی اک ضرب بھول بھول گیا
سارے بندھن کڑے سہی، لیکن
تجھ سے یہ ربط، دھندلا اور گہرا
پھر کہیں دل کے برج پر کوئی عکس
فاصلوں کی فصیل سے ابھرا
پھول مرجھا نہ جائیں بجروں میں
مانجھیو! کوئی گیت ساحل کا
وقت کی سرحدیں سمٹ جاتیں
تیری دوری سے کچھ بعید نہ تھا
عمر جلتی ہے، بخت جلووں کے
زیست مٹتی ہے، بھاگ مٹی کا
رہیں دردوں کی چوکیاں چوکس
پھول لوہے کی باڑ پر بھی کھلا
جو خود ان کے دلوں میں تھا تہہِ سنگ
وہ خزانہ کسی کسی کو ملا
لاکھ قدریں تھیں زندگانی کی
یہ محیط اک عجیب زاویہ تھا
سانس کی رو میں رونما طوفاں
تیغ کی دھار پر بہے دھارا
ہے جو یہ سر پہ گیان کی گٹھڑی
کھول کر بھی اسے کبھی دیکھا؟
روز جھکتا ہے کوئے دِل کی طرف
کاخِ صد بام کا کوئی زینہ
امجد، ان آنسوؤں کو آگ لگے
کتنا نرم اور گراں ہے یہ دریا
مجید امجد

اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 216
لشکرِ عشق نے جب سے خیمے کیے کچھ نہ کچھ روز سرحد بڑھا لی گئی
اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی
رات کو رک کے صحرا جگایا گیا جب تھکن سے بدن کی طنابیں گریں
اپنے ہاتھوں کے تکیے بنائے گئے اپنی مٹی کی چادر بچھالی گئی
ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا
میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی
دستِ خالی پہ کیا حوصلہ کیجئے کیسے جینے کی قیمت ادا کیجئے
اب کے دربار میں نذرِ سر بھیج کر بچ نکلنے کی صورت نکالی گئی
کوچۂ رہزناں سے گزرتے ہوئے کچھ بچانا بھی تھا کچھ لٹانا بھی تھا
اپنی صدیوں کا سونا لٹایا گیا اپنے خوابوں کی دُنیا بچالی گئی
ختم ہوتا ہے اس رات کا ماجرا اب یہ کیا پوچھتے ہو کہ پھر کیا ہوا
پھر چراغوں کی آنکھیں بجھا دی گئیں پھر گلوں کی زباں کاٹ ڈالی گئی
سارے منظر غبارِ پسِ کارواں ہو گئے بام و در سب دھواں ہو گئے
اب مناجات کا وقت ہے گھر چلو سیر کی جاچکی خاک اڑا لی گئی
عرفان صدیقی

معرکوں کا فیصلہ ہو گا علیؑ آنے کو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 175
خیمۂ نصرت بپا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
معرکوں کا فیصلہ ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
دیکھتا ہوں آسمانوں پر غبار اُٹھتا ہوا
دلدلِ فرخندہ پا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
دُور اُفق تک ہر طرف روشن چراغوں کی قطار
داغ دل کا سلسلہ ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
آئنے خوش ہیں کہ اُڑ جائے گی سب گردِ ملال
شہر میں رقصِ ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
میں تو چپ تھا پھر زمانے کو خبر کیسے ہوئی
میرے چہرے پر لکھا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
ہو رہا ہے قید و بندِ رہزناں کا بند و بست
عاملوں کو خط ملا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
آج تک ہوتا رہا ظالم ترا سوچا ہوا
اب مرا چاہا ہوا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
جب اِدھر سے ہوکے گزرے گا گہر افشاں جلوس
میرا دروازہ کھلا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
چاکر دُنیا سے عرضِ مدّعا کیوں کیجیے
خسروِ دوراں سے کیا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
لفظ نذر شاہ کر دینے کی ساعت آئے گی
خلعتِ معنی عطا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
جان فرشِ راہ کر دینے کی ساعت آئے گی
زندگی کا حق ادا ہو گا علیؑ آنے کو ہیں
عرفان صدیقی

پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 645
میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دیے
پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے
پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے
آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا، دیے
کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں
ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دیے
ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب
کتنے بجھا سکے گی زمیں پر، ہوا، دیے
بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں
دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دیے
بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں
کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دیے
بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں
ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دیے
کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی
میرا یقین چاند، مرا حوصلہ دیے
اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس
مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دیے
کچھ پل ستم شعار کی گلیوں میں گھوم لے
عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دیے
میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کر دیا
فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دیے
منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دیے
منصور آفاق

سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 589
ہوتے مرے بھی خال و خد، آئینہ دیکھتا مجھے
سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے
کشفِ وصال و ہجر میں کیسا شعورِ ذات ہے
عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے
اس کے خرامِ ناز پر کوئی چراغ کیا جلا
شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے
لکھی غزل ہے میر نے میرے چُرا چُرا کے خواب
غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے
قریہء ماہ تاب تک چھان کے آ گیا ہوں میں
منزلِ وصل کے لیے اتنا نہ اب پھرا مجھے
اس کو حیات بخش دی، مہر منیر ہو گیا
شاخِ صلیبِ شام پر جس نے کہا خدا مجھے
جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے
چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے
کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں
میرے قریب بیٹھ کر تُو بھی کبھی منا مجھے
مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک
میرا مقام و مرتبہ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے
میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں
میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے
ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں
لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے
میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی
اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے
خیمۂ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو
حرف صدائے کن بتا، کیسے ہے تھامنا مجھے
اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے
لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے
میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے
اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے
ایک کرن شعور کی، ایک بہار نور کی
اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے
مجھ سے بڑا کوئی نہیں ‘ رات کے اک چراغ نے
کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے
آمدِ یار کے لیے جمع چراغِ چشم ہیں
کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے
پاؤں میں ہے غبارِ رہ، آنکھ میں منظرِ سیہ
دل ہے مرا طلب کدہ کوئی دیا دکھا مجھے
اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا
پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے
کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیوں ترے بغیر
دیتا تمام شہر ہے، جینے کا مشورہ مجھے
رستہ تھا روشنی بکف، گھر تھا چمن بنا ہوا
تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے
میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں
میرے بدن پہ پاؤں رکھ، قوس قزح بنا مجھے
کہتی ہے داستانِ نور، آ کے سیہ لباس میں
مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے
سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں
چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے
مستی سے بھر، ترنگ دے، دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے
منصور آفاق

میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 493
عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی
میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی
آج میرا بہت برا دن تھا
یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی
اس لیے آنکھ میں تھکاوٹ ہے
ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی
بارشِ سنگ ہوتی رہتی ہے
آسماں لیپتا ہوں ویسے ہی
مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے
میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی
ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو
اک ذرا رک گیا ہوں ویسے ہی
پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے
راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی
تُو بہت خوبرو سہی لیکن
میں تجھے مل رہا ہوں ویسے ہی
وہ کبھی پوچھنے نہیں آیا
آسماں سے جڑا ہوں ویسے ہی
مجھ کو جانا نہیں کہیں منصور
تار پر چل رہا ہوں ویسے ہی
منصور آفاق

بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 450
آثارِ قدیمہ ، مری تہذیب مٹا دی
بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی
وہ بھی تو درِ کعبہ پہ سجاآتے تھے نظمیں
میں نے بھی اباسین میں اک نظم بہادی
جو علم کے معروف سمندر ہیں انہوں نے
اک آگ کتب خانۂ دجلہ میں لگادی
اطلاع کی کوئی بیل نہ بجی خانۂ دل میں
اخبار بھی کرتے رہے تصویری منادی
یہ ڈیڑھ ارب بھوک زدہ آدمی کیوں ہیں
کچھ بول چناروں بھری کشمیر کی وادی
پھر رات کی چادر پہ ابھر آئے ستارے
پھر روشنی منصور اندھیرے میں ملادی
منصور آفاق

ابھی نہ مجھ پہ شجر رو ‘ ابھی ہرا ہوں میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 334
ابھی تو شاخ سے اپنی، جدا ہوا ہوں میں
ابھی نہ مجھ پہ شجر رو ‘ ابھی ہرا ہوں میں
یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے
کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں
وصالِ زانوئے جاناں کے انتظار میں رات
خود اپنے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو گیا ہوں میں
لہو میں دوڑتی پھرتی ہے لمس کی خوشبو
تیر ے خیال سے شاید گلے ملا ہوں میں
ستم کہ جس کی جدائی میں بجھ رہا ہے بدن
اسی چراغ کی مانگی ہوئی دعا ہوں میں
یہ المیہ نہیں سورج مقابلے پر ہے
یہ المیہ ہے کہ بجھتا ہوا دیا ہوں میں
پڑے ہوئے ہیں زمانوں کے آبلے منصور
بس ایک رات کسی جسم پر چلا ہوں میں
منصور آفاق

دلِ آدمی سے دماغِ خدا تک محمد محمد محمد محمدﷺ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 159
ضمیرِ زمیں سے شعورِ سما تک محمد محمد محمد محمدﷺ
دلِ آدمی سے دماغِ خدا تک محمد محمد محمد محمدﷺ
جمودِ عدم سے نمودِ مکاں تک، سکوتِ ازل سے خرام جہاں تک
دیارِ فنا سے طلسمِ بقا تک محمد محمد محمد محمدﷺ
درختوں کے پتوں کی حمد ونثامیں بہاروں کی پاکیزہ قوسِ قزح میں
چنبیلی کے پھولوں سے بادصبا تک محمد محمد محمد محمدﷺ
اے دنیا اے اعجازِ کن کی نمائش،ذرا تُو بھی صلِ علیٰ آج کہہ دے
تری ابتداء سے تری انتہا تک محمد محمد محمد محمدﷺ
خدا کے لبوں پر وہی ذکرِ اقدس ، وہ اسم گرامی ہے عرشِ علا پر
فضا سے خلا تک ، خلا سے ملا تک محمد محمد محمد محمدﷺ
منصور آفاق

خواب میں جا کر رقص کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 124
نیندجگاکر رقص کیا
خواب میں جا کر رقص کیا
خوشبو کے اکتارے پر
رنگ بجا کر رقص کیا
آبِ رواں کے پہلو میں
گیت بہاکر رقص کیا
نرم پروں پہ تتلی کے
شام بناکر رقص کیا
ابرِ سیہ کی بوندوں میں
شور مچاکر رقص کیا
دھوپ کے ننگے سینے پر
پیٹر جھکا کر رقص کیا
رات کے کالے شیشے سے
دن ٹکرا کر رقص کیا
خواب بھری آوازوں سے
لطف اٹھا کر رقص کیا
بزم سخن میں رومی سے
ہاتھ ملا کر رقص کیا
برف بھری منصور رُتیں
آگ بجھا کر رقص کیا
منصور آفاق

شعلہ صرصر ہے کہ صبا معلوم نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 140
گل کے پردے میں ہے کیا معلوم نہیں
شعلہ صرصر ہے کہ صبا معلوم نہیں
کس کا ہاتھ ہے کس مہرے پہ کیا جانیں
کون اور کیسی چال چلا معلوم نہیں
ہم نے خون میں لت پت گلشن دیکھا ہے
کس جانب سے شور اٹھا معلوم نہیں
ہم ہیں اور اندھیری رات کا ہنگامہ
کس کا کس پر وار پڑا معلوم نہیں
جانے کیا مستی میں اس نے بات کہی
نشے میں کیا ہم نے سنا معلوم نہیں
لحظہ لحظہ دوری بڑھتی جاتی ہے
کل کا انساں کیا ہو گا معلوم نہیں
ہر چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں
کون ہمیں کس وقت ملا معلوم نہیں
قدموں کی آہٹ پر کان رہے اپنے
کون آیا اور کون گیا معلوم نہیں
ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقیؔ
کتنی دیر چراغ جلا معلوم نہیں
باقی صدیقی

چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم ے خفا ہوں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 103
تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں
چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم سے خفا ہوں
رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے
برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں
سو بار گرہ دے کے کسی آس نے جوڑا
سو بار میں دھاگے کی طرح ٹوٹ چکا ہوں
جائے گا جہاں تو مری آواز سنے گا
میں چور کی مانند ترے دل میں چھپا ہوں
ایک نقطے پہ آ کر بھی ہم آہنگ نہیں ہیں
تو اپنا فسانہ ہے تو میں اپنی صدا ہوں
چھیڑو نہ ابھی شاخ شکستہ کا فسانہ
ٹھہرو میں ابھی رقص صبا دیکھ رہا ہوں
منزل کا پتا جس نے دیا تھا مجھے باقیؔ
اس شخص سے رستے میں کئی بار ملا ہوں
باقی صدیقی

رہ کے گلشن میں بھی کیا کیجے گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 53
سیر مانند صبا کیجے گا
رہ کے گلشن میں بھی کیا کیجے گا
کس توقع پہ صدا کیجے گا
نہ سنے کوئی تو کیا کیجے گا
حق پرستی ہے بڑی بات مگر
روز کس کس سے لڑا کیجے گا
بن گئے لالہ و گل جز و قفس
کس سے اب ذکر صبا کیجے گا
دوستی شرط نہیں ہے کوئی
بس یونہی ہم سے ملا کیجے گا
لو سلام سر رہ سے بھی گئے
اور جا جا کے گلا کیجے گا
طوف کعبہ کو گئے تو باقیؔ
میرے حق میں بھی دعا کیجے گا
باقی صدیقی