اُن کو سب کچھ ہی لگ رہا ہے ٹھیک
کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک
کبھی لب بستگی مناسب ہے
اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک
ڈوب جائیں گے سُنتے سُنتے ہم
سب غلط ایک ناخدا ہے ٹھیک
آج ہم ٹھیک ہیں مگر یارو
مستقل کون رہ سکا ہے ٹھیک
تھی شفا چارہ گر کی باتوں میں
ہم سمجھتے رہے دوا ہے ٹھیک
چَین سے سو رہا ہے ہمسایا
چلیے کوئی تو گھر بنا ہے ٹھیک
ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا
وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے، ٹھیک
کر دیا تھا عدو نے کام خراب
کر کے کتنے جتن کیا ہے ٹھیک
تیرا بیمار تجھ کو بھُول گیا
کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ٹھیک
کچھ دوا کر کہ زخمِ دل باصرِؔ
خود بخود بھی کبھی ہُوا ہے ٹھیک
باصر کاظمی