ٹیگ کے محفوظات: قلم

ہائے انسان کی انگڑائی کا خم

دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
پرِ پرواز پہ یہ راز کھلا
پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم
چاندنی غارہِ پائے جولاں
کہکشاں جادہِ ابنِ آدم
ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا
ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم
شکیب جلالی

چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں

وصل کا عیش غلط، ہجر کے غم جھوٹے ہیں
چند کو چھوڑ کے سب اہلِ قلم جھوٹے ہیں
اپنا رستہ یہاں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے میاں
عشق کی راہ میں سب نقشِ قدم جھوٹے ہیں
گونجتی ہے یہی آواز دمادم ہر سُو
ایھا النّاس سنو، دیر و حرم جھوٹے ہیں
اولاً ہم تھے جنھیں خواب کا آزار ملا
اور تُو پھر بھی سمجھتا ہے کہ ہم جھوٹے ہیں
میری جانب ہیں بہت عام سے سچے، دو چار
اور ترے ساتھ بہت سارے اہم جھوٹے ہیں
کم سے کم کہتے وہی ہیں کہ جو دل مانتا ہے
یعنی ہم جھوٹے اگر ہیں بھی تو کم جھوٹے ہیں
ہے کوئی اور ہی اقلیم جو شاید سچ ہو
یہ مگر طے ہے وجود اور عدم جھوٹے ہیں
تم بھلا کون، کسی حرف کے تقدیر کشا؟
وقت کو فیصلہ کرنے دو کہ ہم جھوٹے ہیں
راہ عرفان محبت کی ہے سیدھی، سچی
اب کھلا ہم پہ کہ اس راہ کے خم جھوٹے ہیں
عرفان ستار

کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے

کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے
جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے
کچھ نہ کچھ ہے تو اُداسی کا سبب
مان بھی جاؤ کہ ہم یاد آئے
بت کدہ چھوڑ کے جانے والو
کیا کروگے جو صنم یاد آئے
جب بھی پامالیِ اقدار ہوئی
وقت کو اہلِ قلم یاد آئے
کیا ہُوا راہِ جنوں کو ضامنؔ
کیوں مرے نقشِ قدم یاد آئے
ضامن جعفری

متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں

فسانہِ غمِ ہستی رَقَم کروں نہ کروں
متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں
وہ جن میں دھڑکنیں اُن کے بھی دل کی ہیں شامل
وہ حادثات سپُردِ قَلَم کروں نہ کروں
تمام عمر لیے دل میں سوچتا ہی رَہا
قبول ہو نہ ہو نذرِ صَنَم کروں نہ کروں
ہو بحثِ رشتہِ عصیاں و زلف گر ضامنؔ
کہو کہ تذکرہِ پیچ و خَم کروں نہ کروں
ضامن جعفری

لَبَوں پر آہ اور آنکھوں میں نَم تَو ہو گا نا!

شِکَستَہ دِل ہیں تَو چہرے پہ غَم تَو ہو گا نا!
لَبَوں پر آہ اور آنکھوں میں نَم تَو ہو گا نا!
بَڑھا ہُوا ہے بہت دَرد آ کَے دیکھ تَو لو!
نہ بھی گیا تَو کَم اَز کَم یہ کَم تَو ہو گا نا!
چَلو یہ مان لِیا احتیاط بہتَر ہے
عَدَم تَوَجُّہی لیکن سِتَم تَو ہو گا نا!
گَر اَب پُہُنچ بھی گیا مُژدَہِ وِصال تَو کیا!
مَریضِ ہِجر کا ہونٹوں پہ دَم تَو ہو گا نا!
ہُجومِ یاس میں یَک دَم یہ جَلوَہ آرائی
حَواس و ہوش کا یَکلَخت رَم تَو ہو گا نا!
پُہُنچ ہی جائے گا خوں میرا اُن کے داماں تَک
قَدَم قَدَم کوئی نَقشِ قَدَم تَو ہو گا نا!
دِیارِ کِذب میں حَق گوئی! کیا کِیا ضامنؔ؟
یہ قتلِ کِذب ہے، اَب سَر قَلَم تَو ہو گا نا!
ضامن جعفری

کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آ رہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دِن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دِلوں کے ختن
پاشکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر
شہر اُجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں اِن کے علم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابرِ کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
ناصر کاظمی

بس یہی ایک سبب ہے کہ جو کم لکھتے ہیں

شعر لکھواتے ہیں جب خود کو تو ہم لکھتے ہیں
بس یہی ایک سبب ہے کہ جو کم لکھتے ہیں
شور کرتا ہے رگ وپے میں سخن اک مدت
تب کہیں جا کے اٹھاتے ہیں قلم لکھتے ہیں
بولتے ہیں کہ عنایت ہے یہ تیری یارب
اور جب تک ہے ترا ہم پہ کرم لکھتے ہیں
باصر کاظمی

کروں گا داستاں کوئی نئی رقم، برادرم

روا روی میں اٹھ گیا مرا قلم، برادرم
کروں گا داستاں کوئی نئی رقم، برادرم
جلوسِ دلبراں چلا، زمین کانپنے لگی
شعورِ عشق نے کہا، اٹھا علم، برادرم
خدا کرے زمین پر زمین زاد خوش رہیں
خدا کرے خدا کا ہو نیا جنم، برادرم
بے ہیں بےضمیر ہیں۔۔ یہی کہا ناں! آپ نے؟
تو پھر اٹھیں کریں ہمارا سر قلم، برادرم
گلہ ضرور کیجیے، مگر خفا نہ جایئے
ہماری بات تو سنیں، برادرم، برادرم!
افتخار فلک

ہم سے ہو گا نہیں یہ سِتم ، معذرت

دم بہ دم دل لگی دم بہ دم معذرت!
ہم سے ہو گا نہیں یہ سِتم ، معذرت!
رقص فرما ہیں یاں شیخ بھی، رِند بھی
اے خُدا! اے خُدا! مُحترم ، معذرت!
ہاتھ باندھے ہوئے تھے انا نے اگر
کیسے لکھتا مِرا پھر قلم ، معذرت!
سر پِھرے عشق سے سامنا ہے مِرا
زندگی تجھ سے اب ہر قدم معذرت!
صاحبا! دلبرا! اِک نظر اِس طرف
اب نہ ہو گی مِری آنکھ نٙم، معذرت!
چال کوئی بھی جب کارگر نہ ہوئی
یاد آئی مجھے ایک دم معذرت!
شب بہ خیر آج کوئی نہ بولے مجھے
آج کی رات ہے پُر الم، معذرت!!
سب مداری ہیں کوئی معزّز نہیں
حاکم و اہلِ دیں یک قلم معذرت!
افتخار فلک

ہم انسانوں ہی جیسے ہیں خدایا کیوں کرم تیرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
کسی پر ہیں زیادہ اور کہیں احساں ہیں کم تیرے
ہم انسانوں ہی جیسے ہیں خدایا کیوں کرم تیرے
ہمیں ہی کیا؟ سرِ آفاق اک نیچا دکھانا تھا
ہمارے حق میں، کیا لکّھا کئے، لوح و قلم تیرے
نجانے کیوں کریں تضحیک، اِک اِک بانجھ خطّے کی
زمیں پر جس قدر بھی کھیت ہیں، شاداب و نم تیرے
گدا کے ہاتھ میں کشکول ہی تیرا نہیں ورنہ
چھلکتے جام ہیں جتنے یہاں، تیرے ہیں، جم تیرے
کسی نے اِس کی نسبت آج تک تجھ سے نہیں مانی
قصیدے لکھ رہا ہے گرچہ ماجدؔ دمبدم تیرے
ماجد صدیقی

ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
جمع کرتے بدن کی یہ نم، تھک گئے
ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے
یوں لگے، ڈھیل توبہ کی دیتے ہوئے
ہم پہ ہوتے رہے جو، کرم تھک گئے
ایک انساں، نہ سجدوں سے باز آ سکا
پُوجے جانے سے، کیا کیا صنم تھک گئے
آرزو جستجو اور محرومیاں
اس مسلسل سفر سے، قدم تھک گئے
ہیں کُچھ ایسی ہی ماجدؔ حکایاتِ غم
لکھتے لکھتے جنہیں، سب قلم تھک گئے
ماجد صدیقی

ساون در و دیوار کو نم کرنے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
پھر وقت ہمیں اشک بہم کرنے لگا ہے
ساون در و دیوار کو نم کرنے لگا ہے
تعمیر کا شیدا ہے پیمبر بھی فنا کا
انسان یہ کیا طُرفہ ستم کرنے لگا ہے
اے کاش کہ وہ نوعیتِ بخشش بھی سمجھ لے
ہم پر جو سخی لُطف و کرم کرنے لگا ہے
دریا نے بھی لو کام جلانے کا سنبھالا
بپھرا ہے تو کھلیان بھسم کرنے لگا ہے
چھیڑا نہ کبھی مانی و بہزاد نے جس کو
وُہ کاج بھی ماجدؔ کا قلم کرنے لگا ہے
ماجد صدیقی

وُہ ماجرا سرِ دیوار ہے رقم دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
لب و زباں پہ اُترتے جسے ہے کم دیکھا
وُہ ماجرا سرِ دیوار ہے رقم دیکھا
وُہ دل بھی سنگ سے کمتر ہے کب کہ جس نے کبھی
کوئی خُدا، نہ پسِ آرزو، صنم دیکھا
شبِ الم کے تصّور سے یوں لگے جیسے
اِسی حیات میں اِک اور ہو جنم دیکھا
ستم کو نام دیا اَب کے جو ستمگر نے
کسی بھی جھُوٹ کا کھُلتے نہ یوں بھرم دیکھا
ملا فروغ جہاں بھی سکوں کے نغموں کو
وُہ شاخ راکھ ہوئی، آشیاں بھسم دیکھا
کبھی بہ حسنِ سلامت ہمیں نہ یاد آیا
وُہ شخص جس کو بچھڑتے بہ چشمِ نم دیکھا
ہوا کی چھیڑ بھی ماجدؔ تھی شاخِ بالا سے
نہ جھُک سکا جو کہیں سر وُہی قلم دیکھا
ماجد صدیقی

کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ورق پہ دشتِ طلب کے رقم کیا جائے
کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے
فلک سے فصل نے ژالوں کی کب دعا کی ہے
کسی نے کب یہ کہا ہے، ستم کیا جائے
اساس جس کی مسّرت میں التوا ٹھہرے
نہ ہم پہ اور اب ایسا کرم کیا جائے
ستم کشی کہ جو عادت ہی بن گئی اپنی
اِسے نہ رُو بہ اضافہ، نہ کم کیا جائے
ہر ایک سر کا تقاضاہے یہ کہ تن پہ اگر
لگے تو اُس کو بہرحال خم کیا جائے
بہم نہیں ہیں جو موسم کی خنکیاں ماجدؔ
تو کیوں نہ آنکھ کا آنگن ہی نم کیا جائے
ماجد صدیقی

یہ کیسا ستم اب کے ہم دیکھتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 129
پیالوں میں امرت کے سم دیکھتے ہیں
یہ کیسا ستم اب کے ہم دیکھتے ہیں
کرشمہ یہ کس حرص کے گھاٹ کا ہے
کہ شیر اور بکری بہم دیکھتے ہیں
یہ کیا دور ہے جس کے پہلو میں ہم تم
ہر اک آن تازہ جنم دیکھتے ہیں
لٹی نم زباں کی تو کس عاجزی سے
فضاؤں کی جانب قلم دیکھتے ہیں
چلیں تیر کھانے پہ بھی ناز سے جو
ہم ان ہی غزالوں کا رم دیکھتے ہیں
جدھر بے بسی کے مناظر ہوں ماجدؔ!
خداوند اُس سمت کم دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی

ترے رُخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 120
ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں
ترے رُخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں
غضب ہے نشیب و فرازِ زمانہ
نہ تم دیکھتے ہو، نہ ہم دیکھتے ہیں
تمنا ہے اب ہم کو بے حرمتی کی
سبھی کو یہاں محترم دیکھتے ہیں
چلو بے کمند و کماں آج چل کر
غزالوں کا اندازِ رم دیکھتے ہیں
یہی تو محبت ہے یارو کہ اب وہ
ہماری طرف کم سے کم دیکھتے ہیں
خدایا ترے حسنِ تقویم میں ہم
تضادِ وجود و عدم دیکھتے ہیں
نہ روٹھو جو لکھتے ہیں اوروں کو خط ہم
ذرا اپنا زورِ قلم دیکھتے ہیں
کھڑے ہو کہ ہم وقت کے حاششیے پر
فساداتِ دیر وحرم دیکھتے ہیں
جون ایلیا

غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 272
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد ودید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے
سخن میں خامۂ غالب کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 233
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرّہ ہائے خم بہ خم آگے
دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 227
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
@مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
@ نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں یہاں لفظ "اگر” ہے، دوسرے تمام نسخوں میں "مگر”، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی املا قبول کی ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 210
بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب@ آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ ری تیری تندئ خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے
اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق
جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے
@ نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں ” دامِ سخت قریب”
مرزا اسد اللہ خان غالب

عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا

دیوان پنجم غزل 1561
چاہ میں جور ہم پہ کم نہ ہوا
عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا
فائدہ کیا نماز مسجد کا
قد ہی محراب سا جو خم نہ ہوا
یار ہمراہ نعش جس دم تھا
وائے مردے میں میرے دم نہ ہوا
نہ گیا اس طرف کا خط لکھنا
ہاتھ جب تک مرا قلم نہ ہوا
بے دلی میں ہے میر خوش اس سے
دل کے جانے کا حیف غم نہ ہوا
میر تقی میر

پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا

دیوان پنجم غزل 1560
عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا
پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا
بود نبود کی اپنی حقیقت لکھنے کے شائستہ نہ تھی
باطل صفحۂ ہستی پر میں خط کھینچا قلم مارا
غیر کے میرے مرجانے میں تفاوت ارض و سما کا ہے
مارا ان نے دونوں کو لیکن مجھ کو کرکے ستم مارا
ان بالوں سے طلسم جہاں کا در بستہ تھا گویا سب
زلفوں کو درہم ان نے کیا سو عالم کو برہم مارا
دور اس قبلہ رو سے مجھ کو جلد رقیب نے مار رکھا
قہر کیا اس کتے نے کیا دوڑ کے صیدحرم مارا
کاٹ کے سر عاجز کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی
فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں ایسا کیا رستم مارا
جس مضمار میں رستم کی بھی راہ نہ نکلی میر کبھو
اس میداں کی خاک پہ ہم نے جرأت کرکے قدم مارا
میر تقی میر

ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر

دیوان چہارم غزل 1387
کیا صبر ہم نے جو اس کے ستم پر
ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر
لکھا جو گیا اس کو کیا نقل کریے
سخن خونچکاں تھے زبان قلم پر
جھکے ٹک جدھر جھک گئے لوگ اودھر
رہی درمیاں تیغ ابرو کے خم پر
سخن زن ہوں ہر چند وے مست آنکھیں
نہیں اعتماد ان کے قول و قسم پر
جگر ہے سزا میر اس رنج کش کو
گیا دو قدم جو ہمارے قدم پر
میر تقی میر

گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا

دیوان چہارم غزل 1343
جگر خوں کیا چشم نم کر گیا
گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا
ان آنکھوں کو نرگس لکھا تھا کہیں
مرے ہاتھ دونوں قلم کر گیا
شب اک شعلہ دل سے ہوا تھا بلند
تن زار میرا بھسم کر گیا
مرے مزرع زرد پر شکر ہے
کل اک ابر آیا کرم کر گیا
نہ اک بار وعدہ وفا کرسکا
بہت بار قول و قسم کر گیا
فقیری میں تھا شیب بارگراں
قد راست کو اپنے خم کر گیا
بکاے شب و روز اب چھوڑ میر
نواح آنکھوں کا تو ورم کر گیا
میر تقی میر

وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو

دیوان سوم غزل 1228
بہرفردوس ہو آدم کو الم کاہے کو
وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو
کہتے ہیں آوے گا ایدھر وہ قیامت رفتار
چلتے پھرتے رہیں گے تب تئیں ہم کاہے کو
یہ بھی اک ڈھب ہے نہ ایذا نہ کسو کو راحت
رحم موقوف کیا ہے تو ستم کاہے کو
نرگس ان آنکھوں کو جو لکھ گئے نابینا تھے
اپنے نزدیک ہیں وے دست قلم کاہے کو
اس کی تلوار سے گر جان کو رکھتے نہ عزیز
مرتے اس خواری سے تو صید حرم کاہے کو
چشم پوشی کا مری جان تمھیں لپکا ہے
کھاتے ہو دیدہ درائی سے قسم کاہے کو
میری آنکھوں پہ رکھو پائوں جو آئو لیکن
رکھتے ہو ایسی جگہ تم تو قدم کاہے کو
دل کو کہتے ہیں کہ اس گنج رواں کا گھر ہے
اس خرابے میں کرے ہے وہ کرم کاہے کو
شور نے نام خدا ان کے بلا سر کھینچا
میر سا ہے کوئی عالم میں علم کاہے کو
میر تقی میر

پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم

دیوان سوم غزل 1166
جی کے تئیں چھپاتے نہیں یوں تو غم سے ہم
پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم
اپنے خیال ہی میں گذرتی ہے اپنی عمر
پر کچھ نہ پوچھو سمجھے نہیں جاتے ہم سے ہم
زانو پہ سر ہے قامت خم گشتہ کے سبب
پیری میں اپنی آن لگے ہیں قدم سے ہم
جوں چکمہ میرحاج کا ہے خوار جانماز
بت خانے میں جو آئے ہیں چل کر حرم سے ہم
روتے بھی ان نے دیکھ کے ہم کو کیا نہ رحم
اک چشم داشت رکھتے تھے مژگان نم سے ہم
بدعہدیاں ہی کرتے گئے اس کو سال و ماہ
اب کب تسلی ہوتے ہیں قول و قسم سے ہم
زنار سا بندھا ہے گلے اپنے اب تو کفر
بدنام ہیں جہان میں عشق صنم سے ہم
لوگوں کے وصف کرنے سے بالیدگی ہوئی
جوں شیشہ پھیل پھوٹ پڑے ان کے دم سے ہم
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
میر تقی میر

جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا

دیوان سوم غزل 1072
تد اس بہشتی رو سے یہ خلطہ بہم کیا
جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا
چہرے کو نوچ نوچ لیا چھاتی کوٹ لی
جانے کا دل کے ہم نے بہت غم الم کیا
مربوط اور لوگوں سے شاید کہ وے ہوئے
وہ ربط و رابطہ جو بہت ہم سے کم کیا
کیا کیا سخن زباں پہ مری آئے ہوکے قتل
مانند خامہ گوکہ مرا سر قلم کیا
کی ہم نے تب درونے کی سوزش سے عاقبت
سب تن بدن اس آگ نے اپنا بھسم کیا
یاں اپنے جسم زار پہ تلوار سی لگی
ان نے جو بے دماغی سے ابرو کو خم کیا
اس زندگی سے مارے ہی جانا بھلا تھا میر
رحم ان نے میرے حق میں کیا کیا ستم کیا
میر تقی میر

تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک

دیوان دوم غزل 841
ہم بیکسوں کا کون ہے ہجراں میں غم شریک
تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک
دم رک کے ووہیں کہیو اگر مر نہ جائے وہ
ہو میرے حال کا جو کوئی ایک دم شریک
خوں ہوتے ہوتے ہوچکے آخر کہاں تلک
اب دل جگر کہیں نہیں ہیں تیرے ہم شریک
دل تنگ ہوجیے تو نہ ملیے کسو کے ساتھ
ہوتے ہیں ایسے وقت میں یہ لوگ کم شریک
شاید کہ سرنوشت میں مرنا ہے گھٹ کے میر
کاغذ نہ محرم غم دل نے قلم شریک
میر تقی میر

پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے

دیوان اول غزل 475
کب سے نظر لگی تھی دروازئہ حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے
صورت گر اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو
کھینچی وہ تیغ ابرو فولاد کے قلم سے
سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے
جلتا ہوں اور دریا بہتے ہیں چشم نم سے
طاعت کا وقت گذرا مستی میں آب رز کی
اب چشم داشت اس کے یاں ہے فقط کرم سے
کڑھیے نہ رویئے تو اوقات کیونکے گذرے
رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے
مشہور ہے سماجت میری کہ تیغ برسی
پر میں نہ سر اٹھایا ہرگز ترے قدم سے
بات احتیاط سے کر ضائع نہ کر نفس کو
بالیدگی دل ہے مانند شیشہ دم سے
کیا کیا تعب اٹھائے کیا کیا عذاب دیکھے
تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے
ہستی میں ہم نے آکر آسودگی نہ دیکھی
کھلتیں نہ کاش آنکھیں خواب خوش عدم سے
پامال کرکے ہم کو پچھتائوگے بہت تم
کمیاب ہیں جہاں میں سر دینے والے ہم سے
دل دو ہو میر صاحب اس بدمعاش کو تم
خاطر تو جمع کرلو ٹک قول سے قسم سے
میر تقی میر

نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں

دیوان اول غزل 322
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں
جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آ کے اس کے قدم دیکھتے ہیں
گہے داغ رہتا ہے دل گہ جگر خوں
ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
اگر جان آنکھوں میں اس بن ہے تو ہم
ابھی اور بھی کوئی دم دیکھتے ہیں
لکھیں حال کیا اس کو حیرت سے ہم تو
گہے کاغذ و گہ قلم دیکھتے ہیں
وفا پیشگی قیس تک تھی بھی کچھ کچھ
اب اس طور کے لوگ کم دیکھتے ہیں
کہاں تک بھلا روئوگے میر صاحب
اب آنکھوں کے گرد اک ورم دیکھتے ہیں
میر تقی میر

دستۂ داغ و فوج غم لے کر

دیوان اول غزل 223
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
دستۂ داغ و فوج غم لے کر
دست کش نالہ پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غم دوری چلے ہیں ہم لے کر
تیری وضع ستم سے اے بے درد
ایک عالم گیا الم لے کر
بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغ یاس آہوے حرم لے کر
ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر
دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق
جائے گا جان بھی یہ غم لے کر
شوق اگر ہے یہی تو اے قاصد
ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر
میر صاحب ہی چوکے اے بد عہد
ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر
میر تقی میر

جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 68
اُس جگہ تنہا نہ تھے تم اور ہم، کتنے ہی تھے
جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
اُنگلیوں سے جو نشانِ فتح لہراتے ہوئے
بڑھ رہے تھے سوئے مقتل دم بدم، کتنے ہی تھے
کر سکو گے صفحۂ منظر پہ دھبوں کا شمار
وُہ جو کٹ کے گر گئے دست و قلم کتنے ہی تھے
گا ہے شب روشن ہوئی اور گا ہے دن تیرہ ہوا
آنکھ کو حیرت کے یہ ساماں بہم کتنے ہی تھے
خود سے مُنکر کیا ہوا بس سلسلہ ہی چل پڑا
میرے دورِ ہست میں دورِ عدم کتنے ہی تھے
نارسائی کام آئی، ورنہ سلجھاتے کہاں
گیسوئے سرکشن کہ جس میں پیچ و خم کتنے ہی تھے
آفتاب اقبال شمیم

رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 26
نشۂ مے ہے اگر نشۂ غم مل جائے
رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے
وقت کے چارہ گرو کوئی کرامات کرو
ارضِ بیمار کو ٹوٹا ہوا دم مل جائے
ہم کہ بگڑی ہوئی تقدیر کے پیارے ٹھہرے
ڈھونڈنے جائیں خوشی اور الم مل جائے
مصلحت نامۂ ہر روز پڑھا کر، اس میں
کیا خبر تجھ کو ترا نام رقم مل جائے
اک سرایت سی ترے لمس کی محسوس کروں
جیسے پتے کو دمِ باد کا نم مل جائے
میں کہ ذرّہ ہوں مرا ظرفِ تمنا دیکھو
چاہتا ہوں کہ مجھے لوح و قلم مل جائے
آفتاب اقبال شمیم

درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 8
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
فیض احمد فیض

چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 605
لکھنے والوں میں محترم کیا ہے
چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے
ہے بلندی کا فوبیا ورنہ
یہ حریمِ حرم ورم کیا ہے
مسئلے تو ہزار ہیں لیکن
تیری موجودگی میں غم کیا ہے
روز پانی میں ڈوب جاتا ہوں
ایک دریا مجھے بہم کیا ہے
اے سٹیچو بشیر بابا کے
بول کیا ؟ دید کیا ؟ قدم کیا ہے ؟
مرہمِ لمس بے کنار سہی
صحبتِ انتظار کم کیا ہے
موت منصور پر نہیں آتی
کھینچ لے جو کوئی وہ دم کیا ہے
منصور آفاق

پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 66
موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا
پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا
اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمر آور ہوئے
پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا
اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں
پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا
میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال
آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا
لاکھ اترے یار کے غم، لاکھ لوگوں کے مگر
اپنے غم سے خوبصورت کوئی کم نازل ہوا
میری صورت پر ہوئی تخلیق آدم کی شبیہ
پھر اسی مٹی کے بت پر میرا دم نازل ہوا
یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ
مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا
منصور آفاق

احسان یہ نہ ہر گز بھولیں گے ہم تمہارا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 25
کھولی ہیں تم نے آنکھیں اے حادثو ہماری
احسان یہ نہ ہر گز بھولیں گے ہم تمہارا
ہوتے ہی تم تو پیدل کچھ رو دئیے سوارو
ہے لاکھ لاکھ من کا ایک اک قدم تمہارا
رستے میں گر نہ ٹھہرے تو تم بھی جا ملو گے
گزرا ابھی ہے یاں سے خیل و حشم تمہارا
پھرتے ادھر ادھر ہو کس کی تلاش میں تم
گم ہے تمہیں میں یارو باغ ارم تمہارا
جادو رقم تو مانیں، ہم دل سے تم کو حالیؔ
کچھ کر کے بھی دکھائے زور قلم تمہارا
الطاف حسین حالی

کون کرتا ہے کرم دیوانے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 220
کس توقع جئیں ہم دیوانے
کون کرتا ہے کرم دیوانے
پاسِ حالات بجا ہے لیکن
ہو نہ جائیں کہیں ہم دیوانے
اس زمانے میں وفا کا دعویٰ
خود پہ کرتے ہیں ستم دیوانے
زندگی تلخ ہوئی جاتی ہے
کھو نہ دیں اپنا بھرم دیوانے
چونک چونک اٹھے خرد کے بندے
جب بھی مل بیٹھے بہم دیوانے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں عنواں کوئی
کر کے افسانہ رقم دیوانے
کھا گئے قحط جنوں میں باقیؔ
بیچ کر لوح و قلم دیوانے
باقی صدیقی

آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 68
تو قادر مطلق ہے یہی وصف ہے کم کیا
آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا
تو خالق کونین ہے اور حاصل کونین
ہے جس پہ نظر تیری اسے کوئی ہو غم کیا
تو اپنے گنہ گار کو توفیق عمل دے
ہوتا ہے زباں سے سرتسلیم بھی خم کیا
یہ رنگ غم زیست، یہ انداز غم جاں
دنیا کی تمنا میں نکل جائے گا دم کیا
اک سجدہ کیا میں نے فقط شعر کی صورت
ورنہ ہے تخیل مرا کیا؟ میرا قلم کیا
باقی صدیقی