ٹیگ کے محفوظات: دیدار

میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو

جب تَلک سارا زمانہ ہی طرب زار نہ ہو
میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو
اک نیا دل سا دھڑکتا ہے مرے سینے میں
ان کی نظروں کے تصادم کی یہ جھنکار نہ ہو
قوتِ دید و نظر ان پہ نچھاور ہو جائے
اس طرح دیکھ کہ پھر زحمتِ دیدار نہ ہو
بے سبب تو نہیں ہونٹوں پہ خموشی کا نُزول
سوچتا ہوں کہ کسی پر میرا غم بار نہ ہو
ہائے، وہ آگ کہ جو دل میں سُلگتی ہی رہے
ہائے، وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
یہ تبسّم مرا حق ہے تو عنایت ہو جائے
وہ عنایت کہ جو مِنّت کشِ ایثار نہ ہو
مسکراہٹ کو ترستی ہیں ابھی کچھ کلیاں
میرے ہونٹوں پہ تبسّم ابھی بیدار نہ ہو
بدگمانی تو محبت کی علامت ہے، شکیبؔ
یہ بھی ممکن ہے گلستاں میں کوئی خار نہ ہو
شکیب جلالی

میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک

دل میں لرزاں ہے ترا شعلہِ رخسار اب تک
میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک
پھول مُرجھا گئے ، گلدان بھی گِر کر ٹوٹا
کیسی خوشبو میں بسے ہیں در و دیوار اب تک
حسرتِ دادِ نہاں ہے مرے دل میں شاید
یاد آتی ہے مجھے قامتِ دلدار اب تک
وہ اجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
تیشہِ غم سے ہوئی روح تو ٹکڑے ٹکڑے
کیوں سلامت ہے مرے جسم کی دیوار اب تک
شکیب جلالی

اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے

کس کو سمجھاؤں سبب جو مرے اصرار کا ہے
اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے
کفر و ایماں کا نہ اقرار نہ انکار کا ہے
مسئلہ سارے کا سارا ترے دیدار کا ہے
تو نے پوچھا ہے ترا مجھ سے تعلق کیا ہے
وہی رشتہ ہے مصور سے جو شہکار کا ہے
دل میں میرے بھی وہی ہے جو ہے تیرے دل میں
فرق ہم دونوں میں پیرایۂ اظہار کا ہے
وہ مسیحائی پہ مائل ہیں یقیناً میری
ذکر محفل میں سنا ہے کسی بیمار کا ہے
کر کے تُو بیخ کَنی میری پشیماں کیوں ہے
یہ کرشمہ تَو تری پستیٔ کردار کا ہے
کس قدر بزم میں انجان سے بن جاتے ہیں
فکر یہ بھی ہے سبب کیا مرے آزار کا ہے
حسنِ خود بیں سے ہماری تَو نہ نبھتی ضامنؔ
یہ کمال اُور یہ ہنر عشقِ روا دار کا ہے
ضامن جعفری

ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا

کہاں سیاستِ اغیار نے ہلاک کیا
ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا
کسی کی موت کا باعث تھی خانہ ویرانی
کسی کو رونقِ گلزار نے ہلاک کیا
کسی کے واسطے پھولوں کی سیج موجبِ مرگ
کسی کو جادہء پُرخار نے ہلاک کیا
کسی کو شعلہء خورشید نے جلا ڈالا
کسی کو سایہء اشجار نے ہلاک کیا
سوادِ شام کسی کے لیے پیامِ اجل
کسی کو صبح کے آثار نے ہلاک کیا
کسی کی جان گئی دیکھ کر ترا جلوہ
کسی کو حسرتِ دیدار نے ہلاک کیا
کوئی شکار ہوا اپنی ہچکچاہٹ کا
کسی کو جرأتِ اظہار نے ہلاک کیا
کسی کا تختہ بچھایا نصیبِ خُفتہ نے
کسی کو طالعِ بیدار نے ہلاک کیا
وہی ہلاکو کہ جس نے کیے ہزاروں ہلاک
اُسے بھی وقت کی یلغار نے ہلاک کیا
کسی کو مار گیا اُس کا کم سخن ہونا
کسی کو کثرتِ اشعار نے ہلاک کیا
وہی خسارہ ہے سب کی طرح ہمیں درپیش
ہمیں بھی گرمیِ بازار نے ہلاک کیا
کبھی تباہ ہوئے مشورہ نہ ملنے سے
کبھی نوشتہء دیوار نے ہلاک کیا
ملی تھی جس کے لبوں سے نئی حیات ہمیں
اُسی کی شوخیِ گفتار نے ہلاک کیا
خدا کا شکر کہ پستی نہ ہم کو کھینچ سکی
ہمیں بلندیِ معیار نے ہلاک کیا
باصر کاظمی

کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 103
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اس سے تعلق کا چاہیے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے بر سرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فراز
دنیا ہمارے در پۓ آزار ہی سہی
احمد فراز

ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 75
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
فرشِ رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
خاک ہو رونقِ گلزار ترے کوچے میں
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں
ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
لے گیا شوقِ غلط کار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
خلد میں روح، تنِ زار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے "کہاں رہتے ہو؟”
ترے کوچے میں ستم گار! ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 37
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب
لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب
تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب
دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب
رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب
وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب
جوشِ نگاہِ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب
روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
مصطفٰی خان شیفتہ

فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 32
گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابیِ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبیِ دلدار نے سونے نہ دیا
یاس سے آنکھ بھی جھپکی تو توقع سے کھلی
صبح تک وعدۂ دیدار نے سونے نہ دیا
طالعِ خفتہ کی تعریف کہاں تک کیجے
پاؤں کو بھی خلشِ خار نے سونے نہ دیا
دردِ دل سے جو کہا نیند نہ آئی؟ تو کہا
مجھ کو کب نرگسِ بیمار نے سونے نہ دیا
شبِ ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز
شیفتہ تو بھی دلِ زار نے سونے نہ دیا
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 27
کس نے کہا کہ داغ وفا دار مر گیا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا
دام بلائے عشق کی وہ کشمکش رہی
ایک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مر گیا
آنکھیں کھلی ہوئی پس مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالب دیدار مر گیا
جس سے کیا ہے آپ نے اقرار جی گیا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مر گیا
کس بیکسی سے داغ نے افسوس جان دی
پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مر گیا
داغ دہلوی

ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 256
ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو@ بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے
جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے ناچار ہے
ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
مجھ سے مت کہہ "تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی”
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے
@وہ۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 183
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے@ جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدرِلذّتِ آزار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
@ جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنی کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہےاس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یائے معروف ہی یائے مجہول (بڑی ے)کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لئے یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 124
کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
آتش پرست کہتے ہیں اہلَ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرربار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر
بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طو ر پر
دیتے ہیں بادہ’ ظرفِ قدح خوار’ دیکھ کر
سر پھوڑنا وہ! ‘غالب شوریدہ حال’ کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
مرزا اسد اللہ خان غالب

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 113
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
خانہ ویراں سازئ حیرت! تماشا کیجیئے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست
چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست
یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہےآپ
ہے ردیف شعر میں غالب! ز بس تکرارِ دوست
مرزا اسد اللہ خان غالب

آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ

دیوان ششم غزل 1872
آزارکش کو اس کے آزار ہے ہمیشہ
آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ
مختار عشق اس کا مجبور ہی ہے یعنی
یک رہ دو چار ہو کر ناچار ہے ہمیشہ
کب سہل عاشقی میں اوقات گذرے ہے یاں
کام اپنا اس پر اس بن دشوار ہے ہمیشہ
عالم کا عین اسی کو معلوم کرچکے ہیں
اس وجہ سے اب اس کا دیدار ہے ہمیشہ
اس سے حصول مطلب اپنا ہوا نہ ہو گا
با آنکہ کام دل کا اظہار ہے ہمیشہ
پرواے نفع و نقصاں مطلق نہیں ہے اس کو
اس کی تو لاابالی سرکار ہے ہمیشہ
ملنا نہ ملنا ٹھہرے تو دل بھی ٹھہرے اپنا
اقرار ہے ہمیشہ انکار ہے ہمیشہ
آمادئہ فنا کچھ کیا میر اب ہوا ہے
جی مفت دینے کو وہ تیار ہے ہمیشہ
میر تقی میر

سلایا مرے خوں میں تلوار کو

دیوان ششم غزل 1858
زمانے نے دشمن کیا یار کو
سلایا مرے خوں میں تلوار کو
کھلی رہتی ہے چشم آئینہ ساں
کہاں خواب مشتاق دیدار کو
مجھے عشق اس پاس یوں لے گیا
کوئی لاوے جیسے گنہگار کو
محبت میں دشوار دینی ہے جاں
نہ جاتے سنا سہل آزار کو
کوئی دن کرے زندگی عشق میں
جو دم لینے دیں دل کے بیمار کو
بکا میں تو بازار خوبی میں جا
کہ واں بیچتے تھے خریدار کو
مرے منھ پہ رکھا ہے رنگ اب تلک
ہزار آفریں چشم خونبار کو
تب اک جرعہ مے دیں مجھے مغبچے
گرو جب کروں رخت و دستار کو
کرو مت درنگ اٹھتے اس پینٹھ میں
چلو مول لو میر بازار کو
میر تقی میر

وہ بیچتا رہے گا خریدار کب تلک

دیوان ششم غزل 1833
اس کی رہے گی گرمی بازار کب تلک
وہ بیچتا رہے گا خریدار کب تلک
عہد و وعید حشر قیامت ہے دیکھیے
جیتے رہیں گے طالب دیدار کب تلک
دل کا جگر کا لوہو تو غم نے سکھا دیا
آنکھیں رہیں گی دیکھیے خونبار کب تلک
نسبت بہت گناہوں کی کرتا ہے اس طرف
بے جرم ہم رہیں گے گنہگار کب تلک
اس کی نگاہ مست ہے اکثر سوے رباط
صوفی رہیں گے حال سے ہشیار کب تلک
دیوار و در بڑے تھے جہاں واں نشاں نہیں
یاں خانوادوں کے رہیں آثار کب تلک
مہمان کوئی دن کا ہے وارفتہ عشق کا
ظاہر ہے حال سے کہ یہ بیمار کب تلک
ترسا کے مارنے میں عذاب شدید ہے
اک کھینچ کر نہ ماروگے تلوار کب تلک
صیاد اسیر کرکے جسے اٹھ گیا ہو میر
وہ دام کی شکن میں گرفتار کب تلک
میر تقی میر

وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر

دیوان پنجم غزل 1618
عشق ہمارا خون کرے ہے جی نہیں رہتا یار بغیر
وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر
جان عزیز کی جاں بھی گئے پر آنکھیں کھلی رہ جائیں گی
یعنی کشتۂ حیرت تھا میں آئینہ سا دیدار بغیر
گوندھے گئے سو تازہ رہے جو سبد میں تھے سوملالت سے
سوکھ کے کانٹا پھول ہوئے وے اس کے گلے کے ہار بغیر
پھولوں کا موسم کا شکے ہو پردے سے ہوا کے چشمک زن
گل کھائے ہیں ہزار خزاں میں مرغ چمن نے بہار بغیر
وحشی وطیر سے دشت بھرے تھے صیادی تھی یار کی جب
خالی پڑے ہیں دام کہیں میر اس کے ذوق شکار بغیر
میر تقی میر

آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب

دیوان چہارم غزل 1354
بیکار بھی درکار ہیں سرکار میں صاحب
آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب
محروم نہ رہ جائیں کہیں بعدفنا بھی
شبہ، ہے ہمیں یار کے دیدار میں صاحب
لیتی ہے ہوا رنگ سراپا سے تمھارے
معلوم نہیں ہوتے ہو گلزار میں صاحب
رہتا تھا سرزلف بھی زیرکلہ آگے
سو بال گھڑس نکلے ہیں دستار میں صاحب
ہے چار طرف شور مری بے خبری کا
کیا کیا خبریں آتی ہیں اخبار میں صاحب
گو فہم نہ ہو کفر کی اسلام کی نسبت
رشتہ ہے عجب سبحہ و زنار میں صاحب
یا گفتگو کا میری نہ کرتے تھے کبھو ذکر
یا ہر سخن اب آوے ہے تکرار میں صاحب
طالع سے زلیخا نے لیا مصر میں یوسفؑ
کب ایسا غلام آوے ہے بازار میں صاحب
رکھتی ہے لکھا ساتھ مٹا دینے کا میرے
جوہر نہیں ہے آپ کی تلوار میں صاحب
یہ عرض مری یاد رہے بندگی میں میر
جی بچتے نہیں عشق کے اظہار میں صاحب
میر تقی میر

لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ

دیوان سوم غزل 1247
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ
لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ
رو بہ پس یار کے کوچے سے جو خورشید گیا
عشق تھا اس کے مگر سایۂ دیوار کے ساتھ
دستے نرگس کے رکھیں گور پہ میری وارث
تا یہ جانیں کہ گیا میں غم دیدار کے ساتھ
واں کھنچی میان سے یاں سر کو جھکایا میں نے
گردن اپنی ہے بندھی یار کی تلوار کے ساتھ
عشق کے زار سے بولا نہ خشونت سے کرو
لطف سے بات کوئی کرتے ہیں بیمار کے ساتھ
تہمت عشق سے آبادی بھی وادی ہے ہمیں
کون صحبت رکھے ہے خوں کے سزاوار کے ساتھ
اب خوشامد انھیں کی آٹھ پہر کرتے ہیں
گفتگو میر کو جن لوگوں سے تھی عار کے ساتھ
میر تقی میر

خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو

دیوان سوم غزل 1221
دوست رکھتا ہوں بہت اپنے دل بیمار کو
خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو
جز عزیز از جاں نہیں یوسف کو لکھتا یہ کبھو
کیا غرور میرزائی ہے ہمارے یار کو
جب کبھو ایدھر سے نکلے ہے تو اک حسرت کے ساتھ
دیکھے ہے خورشید اس کے سایۂ دیوار کو
بوجھ تو اچھا تھا پر آخر گرو رکھتے ہوئے
وجہ جام مے نہ پایا خرقہ و دستار کو
خوں چکاں شکوے ہیں دل سے تا زباں میری ولے
سی لیا ہے تو کہے میں نے لب اظہار کو
تصفیے سے دل میں میرے منھ نظر آتا ہے لیک
کیا کروں آئینہ ساں میں حسرت دیدار کو
عاشقی وہ روگ ہے جس میں کہ ہوجاتی ہے یاس
اچھے ہوتے کم سنا ہے میر اس آزار کو
میر تقی میر

رہتی ہے میرے خلق کے تلوار درمیاں

دیوان دوم غزل 894
جب سے ہے اس کی ابروے خمدار درمیاں
رہتی ہے میرے خلق کے تلوار درمیاں
برپا ہوا ہجوم سے اک حشر تازہ واں
آیا جہاں کہیں قدم یار درمیاں
اس کام جاں میں ہم میں ہوا ہے حجاب چشم
یوں رہیے آہ کب تئیں دیوار درمیاں
سو بار اس سے فتنے جہاں میں اٹھے ولے
دیکھی نہ ہم نے وہ کمر اک بار درمیاں
کیا کہیے آہ جی کو قیامت ہے انتظار
آتا نہ کاش وعدئہ دیدار درمیاں
رکھ دی ہے کتنے روزوں سے تلوار یار نے
کوئی نہیں ہے خوں کا سزاوار درمیاں
ثابت ہے ساری خلق کے اوپر کہ تو ہے ایک
حاجت نہیں جو آوے یہ تکرار درمیاں
آیا کیے دماغ کے اعضا میں یہ فتور
ٹھہرے قشون کیا نہیں سردار درمیاں
بازار میں دکھائی ہے کب ان نے جنس حسن
جو بک نہیں گئے ہیں خریدار درمیاں
دیکھیں چمن جو سینۂ پر داغ سے بڑھیں
بیداد ہے یہ قطعۂ گلزار درمیاں
کھنچنے نہ پائی اس کی تو تلوار بھیڑ میں
مارا گیا عبث یہ گنہگار درمیاں
اب کے جنوں کے بیچ گریباں کا ذکر کیا
کہیے بھی جو رہا ہو کوئی تار درمیاں
کتنے دنوں سے میر کا نالہ نہیں سنا
شاید نہیں ہے اب وہ گرفتار درمیاں
میر تقی میر

تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس

دیوان دوم غزل 822
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
دردمندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھاکر اتندی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آکر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمھیں میر ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس
میر تقی میر

غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر

دیوان دوم غزل 807
مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں مار دیا کر
غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر
آئینے کی مشہور پریشاں نظری ہے
تو سادہ ہے ایسوں کو نہ دیدار دیا کر
سو بار کہا غیر سے صحبت نہیں اچھی
اس جیف کو مجلس میں نہ تو بار دیا کر
کیوں آنکھوں میں سرمے کا تو دنبالہ رکھے ہے
مت ہاتھ میں ان مستوں کے تلوار دیا کر
کچھ خوب نہیں اتنا ستانا بھی کسو کا
ہے میر فقیر اس کو نہ آزار دیا کر
میر تقی میر

دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ

دیوان دوم غزل 791
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ
دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ
کس کی خوبی کے طلبگار ہیں عزت طلباں
خرقے بکنے کو چلے آتے ہیں بازار کے بیچ
خضر و عیسیٰ کے تئیں نام کو جیتا سن لو
جان ہے ورنہ کب اس کے کسو بیمار کے بیچ
اگلے کیا پیچ تمھارے نہ تھے بس عاشق کو
بال جو اور گھر سنے لگے دستار کے بیچ
عشق ہے جس کو ترا اس سے تو رکھ دل کو جمع
زندگی کی نہیں امید اس آزار کے بیچ
ہم بھی اب ترک وفا ہی کریں گے کیا کریے
جنس یہ کھپتی نہیں آپ کی سرکار کے بیچ
دیدنی دشت جنوں ہے کہ پھپھولے پا کے
میں نے موتی سے پرو رکھے ہیں ہر خار کے بیچ
پردہ اٹھتا ہے تو پھر جان پر آ بنتی ہے
خوبی عاشق کی نہیں عشق کے اظہار کے بیچ
اس زمیں میں غزل اک اور بھی موزوں کر میر
پاتے ہیں زور ہی لذت تری گفتار کے بیچ
میر تقی میر

ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے

دیوان اول غزل 517
خوش سر انجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے
بے قراری سے دل زار کی آزار ہوئے
خواہش اس حد کو کھنچی آہ کہ بیمار ہوئے
جنس دل دونوں جہاں جس کی بہا تھی اس کا
یک نگہ مول ہوا تم نہ خریدار ہوئے
عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتی منزل قدس
وے بھی رسواے سر کوچہ و بازار ہوئے
سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
اس ستمگار کے کوچے کے ہواداروں میں
نام فردوس کا ہم لے کے گنہگار ہوئے
وعدۂ حشر تو موہوم نہ سمجھے ہم آہ
کس توقع پہ ترے طالب دیدار ہوئے
سستی بخت تو ٹک دیکھ کہ اس چاہت پر
معتمد غیر ہوئے ہم نہ وفادار ہوئے
میر صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر
جس سے اس ظلم نمایاں کے سزاوار ہوئے
میر تقی میر

جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

دیوان اول غزل 429
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ
شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ
راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی
جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گذرے
جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ
ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ
کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدئہ خونبار کے ساتھ
میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ
دیکھیے کس کو شہادت سے سر افراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ
بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل
دم کش میر ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ
میر تقی میر

ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ

دیوان اول غزل 419
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ
ایک آن گذر جائے تو کہنے میں کچھ آوے
درپیش ہے یاں مردن دشوار ہمیشہ
دشمن کو نہ کیوں شرب مدام آوے میسر
رہتی ہے ادھر ہی نگہ یار ہمیشہ
یوسف سے کئی آن کے تیرے سر بازار
بک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ
ہے دامن گل چین چمن جیب ہمارا
دنیا میں رہے دیدئہ خوں بار ہمیشہ
جو بن ترے دیکھے موا دوزخ میں ہے یعنی
رہتی ہے اسے حسرت دیدار ہمیشہ
جینا ہے تو بے طاقتی و بے خودی ہے میر
مردہ ہے غرض عشق کا بیمار ہمیشہ
میر تقی میر

لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو

دیوان اول غزل 400
دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو
لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو
باب صحت ہے وگرنہ کون کہتا ہے طبیب
جلد اٹھائو میرے دروازے سے اس بیمار کو
حشر پہ موقوف تھا سو تو نظر آیا نہ یاں
کیا بلا درپیش آئی وعدئہ دیدار کو
وے جو مست بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام
میکدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو
نقش شیریں یادگار کوہکن ہے اس میں خوب
ورنہ کیا ہے بے ستوں دیکھا ہے میں کہسار کو
کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب
پائوں میں گڑ کر نہیں چبھنے کی فرصت خار کو
ہے غبار میر اس کے رہگذر میں یک طرف
کیا ہوا دامن کشاں آتے بھی یاں تک یار کو
میر تقی میر

ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 397
عاشق ہوئے تو گو غم بسیار کیوں نہ ہو
ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو
کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دور
حشر دگر پہ وعدئہ دیدار کیوں نہ ہو
گل گشت کا بھی لطف دل خوش سے ہے نسیم
پیش نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو
مخصوص دل ہے کیا مرض عشق جاں گداز
اے کاش اس کو اور کچھ آزار کیوں نہ ہو
آوے جو کوئی آئینہ بازار دہر میں
بارے متاع دل کا خریدار کیوں نہ ہو
مقصود درد دل ہے نہ اسلام ہے نہ کفر
پھر ہر گلے میں سجہ و زنار کیوں نہ ہو
شاید کہ آوے پرسش احوال کو کبھو
عاشق بھلا سا ہووے تو بیمار کیوں نہ ہو
تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تری ادھر
تو اس ستم کا میر سزاوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 396
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو
مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک
عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو
رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو
آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
موے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میر اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک

دیوان اول غزل 255
ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک
سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک
رنگینی عشق اس کے ملے پر ہوئی معلوم
صحبت نہ ہوئی تھی کسی خونخوار سے اب تک
کب سے متحمل ہے جفائوں کا دل زار
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
ابرو ہی کی جنبش نے یہ ستھرائو کیے ہیں
مارا نہیں ان نے کوئی تلوار سے اب تک
وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غم دیدار سے اب تک
مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک
برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک دود سا اٹھتا ہے چمن زار سے اب تک
کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں ان نے تو ہمیں پیار سے اب تک
اس باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغ گرفتار سے اب تک
خط آئے پہ بھی دن ہے سیہ تم سے ہمارا
جاتا نہیں اندھیر یہ سرکار سے اب تک
نکلا تھا کہیں وہ گل نازک شب مہ میں
سو کوفت نہیں جاتی ہے رخسار سے اب تک
دیکھا تھا کہیں سایہ ترے قد کا چمن میں
ہیں میر جی آوارہ پری دار سے اب تک
میر تقی میر

تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز

دیوان اول غزل 233
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز
دل بھی پر داغ چمن ہے پر اسے کیا کیجے
جی سے جاتی ہی نہیں حسرت دیدار ہنوز
بہ کیے عمر ہوئی ابر بہاری کو ولے
لہو برسا رہے ہیں دیدئہ خوں بار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
نا امیدی میں تو مر گئے پہ نہیں یہ معلوم
جیتے ہیں کون سی امید پہ ناچار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ
تو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
ایک دن بال فشاں ٹک ہوئے تھے خوش ہوکر
ہیں غم دل کی اسیری میں گرفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں سے گذرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہگار ہنوز
اڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز
ایک بھی زخم کی جا جس کے نہ ہو تن پہ کہیں
کوئی دیتا ہے سنا ویسے کو آزار ہنوز
ٹک تو انصاف کر اے دشمن جان عاشق
میان سے نکلی پڑے ہے تری تلوار ہنوز
میر کو ضعف میں میں دیکھ کہا کچھ کہیے
ہے تجھے کوئی گھڑی قوت گفتار ہنوز
ابھی اک دم میں زباں چلنے سے رہ جاتی ہے
درد دل کیوں نہیں کرتا ہے تو اظہار ہنوز
آنسو بھر لا کے بہت حزن سے یہ کہنے لگا
کیا کہوں تجھ کو سمجھ اس پہ نہیں یار ہنوز
آنکھوں میں آن رہا جی جو نکلتا ہی نہیں
دل میں میرے ہے گرہ حسرت دیدار ہنوز
میر تقی میر

جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر

دیوان اول غزل 214
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں یک بار دیکھ کر
ناخواندہ خط شوق لگے چاک کرنے تو
قاصد تو کہیو ٹک کہ جفا کار دیکھ کر
کوئی جو دم رہا ہے سو آنکھوں میں ہے پھر اب
کریو ٹک ایک وعدئہ دیدار دیکھ کر
دیکھیں جدھر وہ رشک پری پیش چشم ہے
حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر
جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے
آتا ہے جی بھرا در و دیوار دیکھ کر
تیرے خرام ناز پہ جاتے ہیں جی چلے
رکھ ٹک قدم زمیں پہ ستمگار دیکھ کر
طالع نے چشم پوشی کی یاں تک کہ ہم نشیں
چھپتا ہے مجھ کو دور سے اب یار دیکھ کر
جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
میر تقی میر

کام آئے فراق میں اے یار

دیوان اول غزل 211
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار
کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مر گئے ہیں قشون کے سردار
گل پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار
مت نکل گھر سے ہم بھی راضی ہیں
دیکھ لیں گے کبھو سر بازار
سینکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پایئے لب اظہار
سیر کر دشت عشق کا گلشن
غنچے ہو ہورہے ہیں سو سو خار
روز محشر ہے رات ہجراں کی
ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار
بحث نالہ بھی کیجیو بلبل
پہلے پیدا تو کر لب گفتار
چاک دل پر ہیں چشم صد خوباں
کیا کروں یک انار و صد بیمار
شکر کر داغ دل کا اے غافل
کس کو دیتے ہیں دیدئہ بیدار
گو غزل ہو گئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار
ہر سحر لگ چلی تو ہے تو نسیم
اے سیہ مست ناز ٹک ہشیار
شاخسانے ہزار نکلیں گے
جو گیا اس کی زلف کا اک تار
واجب القتل اس قدر تو ہوں
کہ مجھے دیکھ کر کہے ہے پکار
یہ تو آیا نہ سامنے میرے
لائو میری میاں سپر تلوار
آ زیارت کو قبر عاشق پر
اک طرح کا ہے یاں بھی جوش بہار
نکلے ہے میری خاک سے نرگس
یعنی اب تک ہے حسرت دیدار
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
سہل سی زندگی پہ کام کے تیں
اپنے اوپر نہ کیجیے دشوار
چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب
سب سے رکھیے سلوک ہی ناچار
کوئی ایسا گناہ اور نہیں
یہ کہ کیجے ستم کسی پر یار
واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسمان ظلم شعار
یہی درخواست پاس دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار
در مسجد پہ حلقہ زن ہو تم
کہ رہو بیٹھ خانۂ خمار
جی میں آوے سو کیجیو پیارے
لیک ہوجو نہ درپئے آزار
حاصل دو جہان ہے یک حرف
ہو مری جان آگے تم مختار
میر تقی میر

کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

دیوان اول غزل 195
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح
میں اور قیس و کوہکن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح
منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دوچار وہ عیار ایک طرح
سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح
گھر اس کے جاکے آتے ہیں پامال ہوکے ہم
کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح
گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرحدار ایک طرح
نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا
صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح
سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم
تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح
بن جی دیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں
گر ہے تو یہ ہے اے جگر افگار ایک طرح
ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میر کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح
میر تقی میر

رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح

دیوان اول غزل 194
ہونے لگا گذار غم یار بے طرح
رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح
اب کچھ طرح نہیں ہے کہ ہم غم زدے ہوں شاد
کہنے لگا ہے منھ سے ستمگار بے طرح
جاں بر تمھارے ہاتھ سے ہو گا نہ اب کوئی
رکھنے لگے ہو ہاتھ میں تلوار بے طرح
فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے تو شتاب
بیٹھے ہیں آ کے طالب دیدار بے طرح
لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میر
بپھرا ہے آج دیدئہ خونبار بے طرح
میر تقی میر

عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا

دیوان اول غزل 121
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا
عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابر بہار سے
میری طرف بھی دیدئہ خونبار دیکھنا
اے ہم سفر نہ آبلے کو پہنچے چشم تر
لاگا ہے میرے پائوں میں آ خار دیکھنا
ہونا نہ چار چشم دل اس ظلم پیشہ سے
ہشیار زینہار خبردار دیکھنا
صیاد دل ہے داغ جدائی سے رشک باغ
تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر
اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا
بلبل ہمارے گل پہ نہ گستاخ کر نظر
ہوجائے گا گلے کا کہیں ہار دیکھنا
شاید ہماری خاک سے کچھ ہو بھی اے نسیم
غربال کرکے کوچۂ دلدار دیکھنا
اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میر
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا
میر تقی میر

کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا

دیوان اول غزل 109
کیا مصیبت زدہ دل مائل آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرفدار نہ تھا
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا یہ ولے قابل دیدار نہ تھا
دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا
صد گلستاں تہ یک بال تھے اس کے جب تک
طائر جاں قفس تن کا گرفتار نہ تھا
حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتل ناداں ورنہ
بے گنہ مارنے قابل یہ گنہگار نہ تھا
عشق کا جذب ہوا باعث سودا ورنہ
یوسف مصر زلیخا کا خریدار نہ تھا
نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا
سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا
رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میر
درد پنہاں تھے بہت پر لب اظہار نہ تھا
میر تقی میر

نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا

دیوان اول غزل 96
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا
اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا
لے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقت اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا
یہ بخت سبز دیکھو باغ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا
مستوری خوبروئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تاگل پھر گل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میر وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا
میر تقی میر

اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا

دیوان اول غزل 55
عالم میں کوئی دل کا طلبگار نہ پایا
اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا
حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ
عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا
غیروں ہی کے ہاتھوں میں رہے دست نگاریں
کب ہم نے ترے ہاتھ سے آزار نہ پایا
جاتی ہے نظر خس پہ گہ چشم پریدن
یاں ہم نے پر کاہ بھی بے کار نہ پایا
تصویر کے مانند لگے در ہی سے گذری
مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا
سوراخ ہے سینے میں ہر اک شخص کے تجھ سے
کس دل کے ترا تیر نگہ پار نہ پایا
مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل
اس باغ میں ہم نے گل بے خار نہ پایا
دم بعد جنوں مجھ میں نہ محسوس تھا یعنی
جامے میں مرے یاروں نے اک تار نہ پایا
آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم
پر سیر ہو اس شخص کا دیدار نہ پایا
وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میر
خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا
میر تقی میر

غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا

دیوان اول غزل 33
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا
موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی وے نہیں
کب درمیاں سے وعدئہ دیدار جائے گا
چھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیونکے تا سر دیوار جائے گا
دے گی نہ چین لذت زخم اس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا
آوے گی اک بلا ترے سر سن لے اے صبا
زلف سیہ کا اس کی اگر تار جائے گا
باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا
لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
آئے بن اس کے حال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہو گا پاس سے جب یار جائے گا
کوچے کے اس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میر
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا
میر تقی میر

مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 48
جو ٹوٹے تو ثابت زیادہ ہو تلوار میری
مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری
عجب کیا، نتیجہ نکل آئے سر پھوڑنے کا
کسی روز دروازہ بن جائے دیوار میری
رسوخ دروغ و زر و زور لاؤں کہاں سے
خبر ساز کی دسترس میں ہے دستار میری
عبث ہے مرا خواب، میری حقیقت کے آگے
جلاتی رہے میرے گلزار کو نار میری
وُہ مہ رُو کسی اور خورشید کا عکس نکلا
حضوری میں جس کی رہی چشمِ دیدار میری
آفتاب اقبال شمیم

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق