ٹیگ کے محفوظات: دعا

لگ جائے تجھ کو آگ بھی میری دعا کے ساتھ

ردِّ بلا بھی تجھ کو ملے ہر بلا کے ساتھ
لگ جائے تجھ کو آگ بھی میری دعا کے ساتھ
کوئی جہت جہت نہ کوئی سمت جس کی سمت
اس سمت میں بھی چلتا رہا ہوں خدا کے ساتھ
جتنی بہارِ سبز کی میں نے ہے کی طلب
اتنے ہی زرد پتے ہیں آئے ہوا کے ساتھ
اک خوابِ کرب، خوابِ بلا چھوڑتا نہیں
آئے کوئی پری بھی کبھی اس بلا کے ساتھ
ممکن ہی ہو نہ سکتا تھا اس کا کوئی دوام
ہوتی نہ گر فنا بھی ہماری بقا کے ساتھ
عجزِ نظر سے بڑھ کے اسے اور کیا کہوں؟
اک عالمِ وجود بھی دیکھوں خلا کے ساتھ
آئیں گی خوشبوئیں بھی، بہاریں بھی لوٹ کر
صر صر اگر نہ لوٹ کے أئی صبا کے ساتھ
یاؔور مرے ہی سر پہ ہے اڑتا رہا ہمیش
آیا مگر نہ سایہ کوئی اس ہما کے ساتھ
یاور ماجد

یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے

خواہشیں قتل کی گئیں، خواب فنا کیے گئے
یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے
جوہرِ خوش صفات کی، راکھ ہیں ممکنات کی
ٹھیک سے دیکھیے کہ ہم، کون تھے کیا کیے گئے
پیرویءِ ضمیر سے، اور تو کچھ نہیں ہُوا
کام خراب کر لیے، دوست خفا کیے گئے
رکھے گئے تھے ضبط کی، قید میں جو تمام دن
رات کو گھر پہنچ کے وہ، اشک رہا کیے گئے
قوم کے سارے شرپسند، محوِعمل تھے رات دن
جتنے بھی اہلِ خیر تھے، صرف دعا کیے گئے
ذکر کیا کرو نہ تم، اہلِ جہاں کے درد کا
تم جو نگاہ پھیر کر، ذکرِ خدا کیے گئے
ربِّ سخن سے یہ گلہ، بنتا نہیں ہے کیا کہ ہم
عہدِ منافقت میں کیوں، نغمہ سرا کیے گئے
کرتے ہو کیوں موازنہ، اہلِ ہوس کا ہم سے تم
ہم تو وہ لوگ ہیں جنھیں، شعر عطا کیے گئے
چارہ گرانِ جسم کو، روح کی کیا خبربھلا
مجھ کو نہیں تھا جو مرض، اُس کی دوا کیے گئے
خالقِ حسن کو بہت، فکر تھی تیرے حسن کی
ہم بہ مشیّتِ خدا، تجھ پہ فدا کیے گئے
ملتا نہ تھا کوئی صلہ، پاسِ وفا کا اور پھر
ہم نے یہ فکر چھوڑ دی، اور وفا کیے گئے
ایک بزرگ روح سے، پوچھی تھی رمزِآگہی
اُس نے کہا کہ عشق کر، ہم بہ رضا کیے گئے
شام وہ اختیار کی، حسن سے کیا اُدھار کی
باقی تمام عمر ہم، قرض ادا کیے گئے
عرفان ستار

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

کیا بتاوٗں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں بادِ صبا ہے مجھ میں
تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے، یا کوئی نقشِ کفِ پا ہے مجھ میں؟
میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروفِ دعا ہے مجھ میں
اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں
آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں
ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں
مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے برسرِ پیکار فنا ہے مجھ میں
مجلسِ شامِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحولِعزا ہے مجھ میں
ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں
خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں
تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں
کیسے مل جاتی ہے آوازِ اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں
کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں
مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟
عرفان ستار

یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں

مجھے کیا خبر تھی، مجھے دوسروں نے بتایا میں کیسا ہوں، کیا آدمی ہوں
یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں
کسی کو سروکار کیا مجھ میں پھیلی ہوئی اس قیامت کی بے چارگی سے
اگر کوئی مجھ سے تعلق بھی رکھتا ہے تو یوں کہ میں کام کا آدمی ہوں
تمہیں یہ گلہ ہے کہ میں وہ نہیں جس سے تم نے محبت کے پیماں کیے تھے
مجھے بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ میں وہ نہیں، دوسرا آدمی ہوں
سبھی حسبِ خواہش، بقدرِضرورت مجھے جانتے ہیں، مجھے چھانتے ہیں
کسی کو کہاں اتنی فرصت جو دیکھے کہ میں کتنا ٹوٹا ہُوا آدمی ہوں
میں اپنی حقیقت کو صندوق میں بند کرکے ہر اک صبح جاتا ہوں دفتر
کبھی شام کے بعد دیکھو کہ میں کیسا پُرحال، پُر ماجرا آدمی ہوں
میں سچ بولتا ہوں، کبھی ٹوکتا ہوں، تو کیوں آپ ایسے برا مانتے ہیں
عزیزانِ من آپ سمجھیں تو مجھ کو کہ میں اصل میں آپ کا آدمی ہوں
نجانے میں اقلیم کے اور تقویم کے کس غلط راستے سے یہاں آگیا تھا
میں اِس دور میں جی رہا ہوں تو بس یہ سمجھ لو کہ میں معجزہ آدمی ہوں
تمہیں سب خبر ہے، یہ دنیا ہے کیا، اور دنیا کو قابو میں رکھنا ہے کیسے
مری بات پر دھیان دینا بھی مت کیونکہ میں تو بس اک سرپھرا آدمی ہوں
اندھیرا، تحیؔر، خموشی، اُداسی، مجرؔد ہیولے، جنوں، بے قراری
یہ تفصیل سُن کر سمجھ تو گئے ہومیں دن کا نہیں، رات کا آدمی ہوں
تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو یہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں ہے
تمہاری مدد کیا کروں گا کہ میں خود بھی اپنے لیے مسئلہ آدمی ہوں
یہ کیا زندگی ہے، یہ کیسا تماشا ہے، میں اس تماشے میں کیا کررہا ہوں
میں روزِ ازل سے کچھ ایسے سوالوں کی تکلیف میں مبتلا آدمی ہوں
وہ اک رنگ جو تم سبھی دیکھتے ہو، وہ میرا نہیں، میرے ملبوس کا ہے
کبھی اُس سے پوچھو جو سب جانتی ہے کہ میں کیسا رنگوں بھرا آدمی ہوں
مری بددماغی منافق رویؔوں سے محفوظ رہنے کا ہے اک طریقہ
مرے پاس آؤ، مرے پاس بیٹھوکہ میں تو سراپا دعا آدمی ہوں
میں اپنے تصور میں تخلیق کرتا ہوں ایک ایسی دنیا، جو ہے میری دنیا
مری اپنی مرضی کی اک زندگی ہے، میں تنہائیوں میں خدا آدمی ہوں
مرا کیا تعارف، مرا نام عرفان ہے اور میری ہے اتنی کہانی
میں ہر دور کا واقعہ آدمی ہوں، میں ہر عہد کا سانحہ آدمی ہوں
عرفان ستار

کہ ماں کا حرفِ دعا بھی نہیں رہا اب تو

حصارِ ردِؔ بلا بھی نہیں رہا اب تو
کہ ماں کا حرفِ دعا بھی نہیں رہا اب تو
بہت کثیر ہے تعداد دشمنوں کی مرے
پھر اُن سے کوی بچا بھی نہیں رہا اب تو
سخن کا کوی سبب ہے نہ رابطے کا جواز
کہ گفتگو میں مزا بھی نہیں رہا اب تو
نہ آگہی سے ملا کچھ ہمیں، مزید برآں
ہمارے پاس خدا بھی نہیں رہا اب تو
یہ خیر خواہ مجھے کس قدر ستاتے ہیں
میں اپنا حال بتا بھی نہیں رہا اب تو
رلا نہیں رہا اب تو کسی کا رنج ہمیں
کسی کا رنج رلا بھی نہیں رہا اب تو
اب اس کے بعد یہی ہاوہو سنو گے میاں
سخن سرا میں رسا بھی نہیں رہا اب تو
مرے تمام عزادار صبرپا گٗے ہیں
وہ شورِ آو بُکا بھی نہیں رہا اب تو
بس اب یہ گوشہ نشینی ہی ٹھیک ہے عرفان
کہ دل کو شہر یہ بھا بھی نہیں رہا اب تو
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں

یاد رکھّوں کہ بھلا دوں مجھے معلوم نہیں
چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں
اُسی غارت گرِ تسکین سے تسکین بھی ہے
بد دُعا دوں کہ دُعا دوں مجھے معلوم نہیں
جا چکا ہوں میں بہت دُور بتا دو اُس کو
کس طرح خود کو صدا دوں مجھے معلوم نہیں
صِرف قرطاس و قلم رہ گئے ماضی کے اَمیں
اِن کو رکّھوں کہ جَلا دوں مجھے معلوم نہیں
میں ہَر اِک حَرف میں خُود بِکھرا ہُوا ہُوں ضامنؔ
کون سا لفظ مٹا دوں مجھے معلوم نہیں
ضامن جعفری

ہر بے وفا سے عہدِ وفا کر چکے ہیں ہَم

ہیں مُطمئن کہ ترکِ اَنا کر چُکے ہیں ہَم
ہر بے وفا سے عہدِ وفا کر چکے ہیں ہَم
اَفشا ہے ہَم پہ رازِ صَنَم خانۂ حَیات
ہَر بُت کو ایک بار خُدا کَر چُکے ہَیں ہَم
اَب کوئی شَرطِ لُطفِ فَراواں نَہیِں قبول
حقِّ نَمَک کَبھی کا اَدا کَر چُکے ہَیں ہَم
تُو جانے اَور جانے تِری رحمتِ تَمام
اَب تَو دَراز دَستِ دُعا کَر چُکے ہَیں ہَم
اَربابِ فِکر ڈھُونڈ رَہے ہَیں دَوائے دِل
ہَم ہَنس رَہے ہَیں ، زَخم ہَرا کَر چُکے ہَیں ہَم
ضامنؔ! نگاہِ ناز کو نظروں سے دو پیام
ہوش و حواس تجھ پہ فدا کر چکے ہیں ہم
ضامن جعفری

جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو

کیا ضروری ہے کہ مٹّی میں مِلا دیں مجھ کو
جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو
میرے پندارِ جنوں کا بھی بھرم رکھ لیجے
لذتِ درد بڑھے ایسی دوا دیں مجھ کو
ترک کر دیجئے من من کے بگڑنے کی ادا
آپ کے بس کا نہیں ہے کہ بھلا دیں مجھ کو
دردِ دل مجھ سے ہے اور میں ہی دوائے دل ہوں
’’اختیار آپ کا رکھیں کہ گنوادیں مجھ کو‘‘
جان لے لیتا ہے بے وجہ تغافل دیکھیں !
کم سے کم کوئی خطا ہے تو بتا دیں مجھ کو
میں خود اپنے کو مٹانے پہ تُلا ہوں ضامنؔ
چاہنے والے مرے لاکھ دعا دیں مجھ کو
ضامن جعفری

اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے

عشق کے حق میں کچھ گواہی دے
اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے
اے سَرِشک! اے سفیِرِ خاموشی
آج تُو نُطق کو ہَرا ہی دے
کب تلک روز روز کی قَسمیں
ایک دن داغِ دِل دِکھا ہی دے
اُس سے شکوہ دَبی زبان سے کر
یہ نہ ہو بزم سے اُٹھا ہی دے
وہ تغافل پہ مائل اَور اِدَھر
ہَر نیا زخم اِک مزا ہی دے
جاؤ! لا کَر دِکھاؤ! ایسا دِل
جو دُکھے جائے اُور دُعا ہی دے
کوئی اُس سے کہے یہ ہیں ضامنؔ
پِھر تعارف مِرا کَرا ہی دے
ضامن جعفری

دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے

جَب کبھی اُن کا سامنا کیجے
دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے
ٹھان ہی لی ہے اب تَو کیا کیجے
جائیے! عرضِ مدّعا کیجے
کہیِں نیچی نہ ہو نظَر صاحب
حالِ دل سب سے مت کہا کیجے
کوئی شعلہ نَفَس ہے محفل میں
میرے جینے کی بس دُعا کیجے
جُنبِشِ لَب نَظَر میں رہتی ہے
گفتگو آنکھ سے کِیا کیجے
جب اشارے کنائے ہیں موجود
جو کہیَں کھُل کے مت کَہا کیجے
ڈال کر پھر نَظَر اَجَل انداز
میرے حق میں کوئی دُعا کیجے
اُسی انداز میں وہی الفاظ
جب بھی موقع ہو کہہ دیا کیجے
میں ہُوں ضامنؔ مجھے تَو کم از کم
رازِ الفت سے آشنا کیجے
ضامن جعفری

شہر میں آگ لَگا دی جائے

اُن کی تَصویِر دِکھا دی جائے
شہر میں آگ لَگا دی جائے
آؤ! شُعلوں کو ہَوا دی جائے
کوئی اَفواہ اُڑا دی جائے
کیا پَتا! ہو یَہی اُن کے دِل میں
دِل کی بات اُن کو بَتا دی جائے
میری قِسمَت پہ یہ پَتّھَر کی لَکیِر
کِس نے کھینچی ہے؟ مِٹا دی جائے
بیگُناہی کو گُنہ ٹھہرا کَر
اَیسے لوگوں کو سَزا دی جائے
عَرش تَک جانے نہ پائے فَریاد
کوئی دِیوار اُٹھا دی جائے
کَون بَستی میں سُنے گا اَپنی
جا کَے جَنگَل میں صَدا دی جائے
دوستوں سے یہ گُذارِش ہے مِری
یاد آؤں تَو دُعا دی جائے
دِل کو میں مار چُکا ہُوں صاحب
اَور اَب کِتنی سَزا دی جائے
جَب وہ مائل بہ کَرَم ہَوں ضامِنؔ
دِل کی رَفتار بَڑھا دی جائے
ضامن جعفری

دامانِ آرزو، مِرے دَستِ دُعا میں تھا

اِلزام تھا، ثبوت تھا، پھِر کیا سَزا میں تھا!
دامانِ آرزو، مِرے دَستِ دُعا میں تھا
خوش باش تھا میں فِکر و نظر کے جہان میں
عرشِ خیال کی اِک اَنوکھی فَضا میں تھا
وہ تَو گُناہ تھا ہی جو نِکلا زبان سے
وہ بھی گُنہ تھا جو مِرے ذہنِ رَسا میں تھا
یہ کہہ کے سَب نے مُلک بَدَر کَر دِیا مُجھے
جُراَت تَو دیکھیے! یہ صَفِ با وَفا میں تھا
میں زہر پی کے زندہ تھا لیکن مِرے طَبیِب
کیا جانے کیا مِلا ہُوا تیری دَوا میں تھا
اِس جُرم میں پکڑ کے سَزا دی گئی مجھے
ضامنؔ! میں سَنگِ میِل رَہِ اِرتِقا میں تھا
ضامن جعفری

میں دریا دریا روتا تھا

تنہائی کا دُکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایا
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محرابِ عبادت
تنہائی منبر کا دِیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دستِ دُعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دِل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

وہ جنگل کتنا گہرا تھا

پون ہری ، جنگل بھی ہرا تھا
وہ جنگل کتنا گہرا تھا
بوٹا بوٹا نور کا زینہ
سایا سایا راہ نما تھا
کونپل کونپل نور کی پتلی
ریشہ ریشہ رس کا بھرا تھا
خوشوں کے اندر خوشے تھے
پھول کے اندر پھول کھلا تھا
شاخیں تھیں یا محرابیں تھیں
پتا پتا دستِ دُعا تھا
گاتے پھول ، بلاتی شاخیں
پھل میٹھے ، جل بھی میٹھا تھا
جنت تو دیکھی نہیں لیکن
جنت کا نقشہ دیکھا تھا
ناصر کاظمی

دم بدم کوئی صدا ہے دل میں

پھر لہو بول رہا ہے دل میں
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں
تاب لائیں گے نہ سننے والے
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گل چیں
آج وہ پھول کھلا ہے دل میں
دشت بھی دیکھے چمن بھی دیکھا
کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں
رنج بھی دیکھے خوشی بھی دیکھی
آج کچھ درد نیا ہے دل میں
چشمِ تر ہی نہیں محوِ تسبیح
خوں بھی سرگرمِ دُعا ہے دل میں
پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی
کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں
پھر کسی غم نے پکارا شاید
کچھ اُجالا سا ہوا ہے دل میں
کہیں چہرے کہیں آنکھیں کہیں ہونٹ
اِک صنم خانہ کھلا ہے دل میں
اُسے ڈھونڈا وہ کہیں بھی نہ ملا
وہ کہیں بھی نہیں یا ہے دل میں
کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر
دوستو شہر بسا ہے دل میں
کوئی دیکھے تو دِکھاؤں ناصر
وسعتِ ارض و سما ہے دل میں
ناصر کاظمی

تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دُوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
مجال ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دُوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دُوں گا
مری خموش نگاہوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دُوں گا
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اِک دِن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دُوں گا
بہ پاسِ صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دُعا دُوں گا
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دُوں گا
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دُوں گا
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دُوں گا
ناصر کاظمی

سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

زِندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی
کتنی مردم شناس ہے دُنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی
کون اُٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی
بے غرض کون دل گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی
ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دُعا ہمیں سے ہوئی
سعیِٔ تجدیدِ دوستی ناصر
آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی
ناصر کاظمی

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا غور سے سن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
نو گرفتارِ بلا غور سے سن
دل تڑپ اُٹھتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سن
اِسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سن!
اِسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سن
موت اور زیست کے اَسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لے کو ذرا غور سے سن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سن
برگِ آوارہ بھی اک مطرِب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سن
عشق کو حسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سن
ناصر کاظمی

اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے

یوں کنکھیوں سے دیکھتا کیا ہے
اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے
کان بجتے ہیں کیوں ہر آہٹ پر
ہر گھڑی دل میں یہ صدا کیا ہے
کھو گئے ہم تو پردۂ در میں
پسِ پردہ نجانے کیا کیا ہے
آج ہر بات پر الجھتے ہو
کچھ پتا تو چلے ہُوا کیا ہے
وہ تو کہیے کہ خیریت گذری
ورنہ میں کیا مری دعا کیا ہے
کہنے والے کو دیکھتے ہیں لوگ
یہ نہیں دیکھتے کہا کیا ہے
اِس چمن کو بنانے والے نے
کیا بنایا تھا بن گیا کیا ہے
بہتری خامشی میں ہے باصرِؔ
یوں بھی کہنے کو اب رہا کیا ہے
باصر کاظمی

مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے

آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے
خوب صورت اگر دِکھائی دیں
ہم پہ پتھّر اُٹھا لیا کیجے
حُسن حیرت کا پیش خیمہ ہے
اِس عقیدے پہ سر دُھنا کیجے
ہم تکلّف کو بھول جاتے ہیں
آپ بھی دل ذرا بڑا کیجے
یہ ہے دنیا یہاں شکاری ہیں
اپنے اندر ہی اب اُڑا کیجے
سب درختوں پہ بُور آنے لگے
یار! ایسی کوئی دُعا کیجے
بات کرنا اگر نہیں آتا
خامشی کو ہرا بھرا کیجے
افتخار فلک

دریا میں وفور آب کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
ہر سُو جو چھلک چھلک چلا ہے
دریا میں وفور آب کا ہے
چُوزوں ہی پہ چِیل چِیل جِھپٹے
مظلوم ہی دار پر کِھنچا ہے
اب تک نہ لگا کسی کنارے
لب پر جو سفینۂ دُعا ہے
ذرّے مجھے مہر دیں دکھائی
قدموں میں لگے ،بِچھی ضیا ہے
چندا میں ہے اُس کا چاند چہرہ
اور ایلچی اُس کی یہ صبا ہے
مُونس ہے ہر اِک لُٹے پُٹے کا
ماجِد کہ نِعَم میں خود پلا ہے
ماجد صدیقی

جابر کی یہی تو اِک ادا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کہہ دے جو وُہ ہوتے دیکھتا ہے
جابر کی یہی تو اِک ادا ہے
لے عفو سے کام ،لے سکے گر
ہاں ہاں یہی وصفِ بے ریا ہے
اُجلا ہے تو دامنِ بداں ہے
تر خوں سے مری تری قبا ہے
رکھ تازگی تُو مری سلامت
مولا یہی اِک مری دُعا ہے
پنپی ہے یہ کس کی نیّتِ بد
ماحول میں زہر سا گُھلا ہے
ماجد صدیقی

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

یزیدِ وقت نے جور و ستم کی اِنتہا کر دی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
مری ہر آس کے خیمے کی زینب بے رِدا کر دی
یزیدِ وقت نے جور و ستم کی اِنتہا کر دی
اگر سر زد ہوا حق مانگنے کا جرم تو اس پر سزا کیسی
مرے دستِ طلب نے کونسی ایسی خطا کر دی
کچھ افیونی حقائق ہی کھُلے ورنہ اِن ہونٹوں پر
سخن کیا تھا کہ خلقِ شہر تک جس نے خفا کر دی
زمیں یا آسماں کا جو خدا تھا سامنے اُس کے
جھکایا سر اٹھائے ہاتھ اور رو کر دعا کر دی
وطن کی بد دعا پر ریزہ ریزہ ہو گیا کوئی
کسی نے دیس پر جاں تک ہتھیلی پر سجا کر دی
حیا آنکھوں میں اور سچّائیاں جذبات میں ماجد
مجھے ماں باپ نے جو دی یہی پونجی کما کر دی
ماجد صدیقی

یزیدِ وقت نے جوروستم کی انتہا کر دی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
مری ہر آس کے خیمے کی زینب بے رِدا کر دی
یزیدِ وقت نے جوروستم کی انتہا کر دی
اگر سر زد ہُوا حق مانگنے کا جرم تو اُس پر سزا کیسی
مرے دستِ طلب نے کونسی ایسی خطا کر دی
کچھ افیونی حقائق ہی کھُلے ورنہ اِن ہونٹوں پر
سخن کیا تھا کہ خلقِ شہر تک جس نے خفا کر دی
زمیں یا آسماں کا جو خدا تھا سامنے اُس کے
جھُکایا سر، اٹھائے ہاتھ اور رو کر دعا کر دی
وطن کی بد دعا پر ریزہ ریزہ ہو گیا کوئی
کسی نے دیس پر جاں تک ہتھیلی پر سجا کر دی
حیا آنکھوں میں اور سچّائیاں جذبات میں ماجد
مجھے ماں باپ نے جو دی یہی پونجی کما کر دی
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
وہ برگ کہ جھڑتا ہے اِس راز کو کیا جانے
کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے
جس بِل سے ڈسا جائے جائے یہ اُدھر ہی کیوں
پوچھے یہ وہی دل سے جو طرزِ وفا جانے
آتے ہوئے لمحوں کی مُٹھی میں شرارے میں
یا اشک ہیں خوشیوں کے، کیا ہے، یہ خدا جانے
ہونٹوں سے فلک تک ہے پُر پیچ سفر کیسا
یہ بات تو میں سمجھوں یا میری دُعا جانے
بھرنا نہ جنہیں آئے اُن ہجر کے زخموں کو
کیوں چھیڑنے آتی ہے پنجرے میں ہوا جانے
ہر روز جلے جس میں ماجدؔ اُسی آتش سے
ہر شخص کے سینے کو ویسا ہی جلا جانے
ماجد صدیقی

درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے
شکستِ آرزو کا رنج دل میں
زباں پر منجمد حرفِ دُعا ہے
وہی ہونا ہے، ہیں آثار جس کے
یہ دل کن وسوسوں میں مبتلا ہے
کسی پیاسے کو جیسے موج دیکھے
کُچھ ایسے ہی ہمیں وُہ دیکھتا ہے
ترستا ہے کسی دستِ طلب کو
گلاب اِک باڑھ سے نت جھانکتا ہے
اُسے چھیڑیں نہ ہم اُکتا کے اُس سے
یہی اُس شوخ کا بھی مُدّعا ہے
عِناں جب ہاتھ میں دل کی ہے اُس کے
وُہ جو کچھ بھی کرے ماجدؔ! روا ہے
ماجد صدیقی

پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
سر کہیں اور جھُکنے لگا ہے
پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے
گرد ہے نامرادی کی پیہم
اورِادھر میرا دستِ دعا ہے
ہاتھ میں برگ ہے پھر ہوا کے
پھر ورق اک الٹنے لگا ہے
محو ہیں ابر پھر قہقہوں میں
پھر نشیمن کوئی جل اٹھا ہے
معتبر ہی جو ٹھہرے تو مجھ پر
جو ستم بھی کرو تم، روا ہے
خود کلامی سی ہے ایک، ورنہ
شاعری میں دھرا اور کیا ہے
میرے حصے کا من و سلویٰ
جانے ماجدؔ کہاں رُک گیا ہے
ماجد صدیقی

ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 118
جھومتے ہیں یہ گل، ہوا اور مَیں
ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں
کھوجتے ہیں اسی کی خوشبو کو
مل کے باہم سحر، صبا اور میں
کس کی رہ دیکھتے ہیں ہم دونوں
موسموں سے دُھلی فضا اور میں
صورتِ موج، مضطرب ٹھہرے
اس سے ملنے کا مدّعا اور مَیں
صید ہیں کب سے نامرادی کے
کلبلاتی ہوئی دعا اور میں
زندگی بطن میں ہے کیا ماجدؔ
جانتے ہیں یہ ہم، خدا اور مَیں
ماجد صدیقی

یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
کُھل کے اظہارِ مدّعا کرتے
یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے
مانگتے گر کبھی خُدا سے تمہیں
لُطف آتا ہمیں دُعا کرتے
سج کے اک دُوسرے کے ہونٹوں پر
ہم بھی غنچہ صفت کھِلا کرتے
ہم پئے لُطف چھیڑ کر تُجھ کو
جو نہ سُننا تھا وُہ سُنا کرتے
جگنوؤں سا بہ سطحِ یاد کبھی
ٹمٹماتے، جلا بُجھا کرتے
بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
پُھول کھِلتے سرِ فضا ماجدؔ
ہونٹ بہرِ سخن جو وار کرتے
ماجد صدیقی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
گئی جو چھوڑ کبھی شاخ پر سجا کے مجھے
پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے
ہُوا ہے جو بھی خلافِ گماں ہُوا اُن کے
بہت خفیف ہوئے ہیں وہ آزما کے مجھے
ہے میرے ظرف سے منصف مرا مگر خائف
مزاج پوچھ رہا ہے سزا سُنا کے مجھے
ابھی ہیں باعثِ ردِّ تپّش یہی بادل
بہم جو سائے بزرگوں کی ہیں دُعا کے مجھے
سُنا یہ ہے رہِ اظہارِ حق میں دار بھی ہے
چلے ہیں آپ یہ کس راہ پر لگا کے مجھے
زمیں کے وار تو اک ایک سہہ لئے میں نے
فلک سے ہی کہیں اب پھینکئے اُٹھا کے مجھے
سرِ جہاں ہوں وہ بیگانۂ سکوں ماجدؔ
پڑے ہیں جھانکنے گوشے سبھی خلا کے مجھے
ماجد صدیقی

میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
پیشانی پر دل کے درد سجا لیتا ہوں
میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں
اپنے کاج سنوار بھی لوں تو اِس سے کیا ہے
میں آخر کس ٹوٹے دل کی دُعا لیتا ہوں
رکھ کر عذر پرانا وہی مشقّت والا
میں بچّوں سے چُھپ کر کیا کچھ کھا لیتا ہوں
جس سے عیاں ہو میری کوئی اپنی نادانی
کس عیّاری سے وہ بات چھپا لیتا ہوں
یہ نسبت تو باعثِ رسوائی ہے ماجدؔ
شاخ سے جھڑکے موجِ صبا سے کیا لیتا ہوں
ماجد صدیقی

کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
ماجد صدیقی

بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 112
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے
کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز

لوگ مر جائیں بلا سے تیری

احمد فراز ۔ غزل نمبر 90
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
کوئی نسبت کبھی اے جان سخن
کسی محروم نوا سے تیری
اے مرے ابر گریزاں کب تک
راہ تکتے ہی رہیں پیاسے تیری
تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد
ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری
تو بھی نادم ہے زمانے سے فراز
وہ بھی نا خوش ہیں وفا سے تیری
احمد فراز

کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 87
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو
رندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
تجھ ایسے مسیحا سے تغافل کا گلہ کیا
ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی
جلتے رہے بے صرفہ چراغوں کی طرح ہم
تو کیا، ترے کوچے کی ہوا تک نہیں آئی
کس جادہ سے گزرا ہے مگر قافلۂ عمر
آوازِ سگاں، بانگِ درا تک نہیں آئی
اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر
کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی
دعوائے وفا پر بھی طلب دادِ وفا کی
اے کشتۂ غم تجھ کو حیا تک نہیں آئی
جو کچھ ہو فراز اپنے تئیں، یار کے آگے
اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں آئی
احمد فراز

ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ

احمد فراز ۔ غزل نمبر 84
صنم تراش پر آدابِ کافرانہ سمجھ
ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ
میں تجھ کو مانگ رہا ہوں قبول کر کہ نہ کر
یہ بات تیری مری ہے اسے دعا نہ سمجھ
پلٹ کے آئے گا وہ بھی گئی رتوں کی طرح
جو تجھ سے روٹھ گیا ہے اسے جدا نہ سمجھ
رہِ وفا میں کوئی آخری مقام نہیں
شکستِ دل کو محبت کی انتہا نہ سمجھ
ہر ایک صاحبِ منزل کو با مراد نہ جان
ہر ایک راہ نشیں کو شکستہ پا نہ سمجھ
فراز آج کی دنیا مرے وجود میں ہے
مرے سخن کو فقط میرا تذکرہ نہ سمجھ
احمد فراز

حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 72
سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں
حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں
ہم کبھی بد دعا نہیں دیتے
ہم سلیقے دعا کے رکھتے ہیں
ہم نہیں ہیں شکست کے قائل
ہم سفینے جلا کے رکھتے ہیں
ان کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں
وہ جو دامن بچا کے رکھتے ہیں
احمد فراز

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 41
کیا بتاوٗں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں بادِ صبا ہے مجھ میں
تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے، یا کوئی نقشِ کفِ پا ہے مجھ میں؟
میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروفِ دعا ہے مجھ میں
اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں
آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں
ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں
مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے برسرِ پیکار فنا ہے مجھ میں
مجلسِ شامِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحولِعزا ہے مجھ میں
ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں
خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں
تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں
کیسے مل جاتی ہے آوازِ اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں
کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں
مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 21
دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 126
نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے
اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تو نے
مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تو نے
یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا
میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تو نے
ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے
وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تو نے
کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا
شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تو نے
قمر جلالوی

ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 77
کیا کوئی باغ میں ہم مفت رہا کرتے ہیں
ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں
رخ اِدھر آنکھ ادھر آپ یہ کیا کرتے ہیں
پھر نہ کہنا مرے تیر خطا کرتے ہیں
اب تو پردے کو اٹھا دو مری لاش اٹھتی ہے
دیکھو اس وقت میں منہ دیکھ لیا کرتے ہیں
تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
اب تو احباب بھی مرنے کی دعا کرتے ہیں
صبحِ فرقت بھی قمر آنکھ کے آنسو رکے
یہ وہ تارے ہیں جو دن میں بھی گرا کرتے ہیں
قمر جلالوی

تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 71
شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں
گلشن میں چل کے بندِ قبا تیرے وا کروں
جی چاہتا ہے جامۂ گل کو قبا کروں
آتا ہوں پیرِ دیر کی خدمت سے مست میں
ہاں زاہدو تمہارے لئے کیا دعا کروں
جوشِ فغاں وداع، کہ منظور ہے انہیں
دل نذرِ کاوشِ نگہِ سرما سا کروں
نفرین بے شمار ہے اس عمد و سہو پر
گر ایک میں صواب کروں سو خطا کروں
مطرب بدیع نغمہ و ساقی پری جمال
کیا شرحِ حالتِ دلِ درد آشنا کروں
تم دلربا ہو دل کو اگر لے گئے تو کیا
جب کاہ ہو کے میں اثرِ کہربا کروں
اے چارہ ساز لطف! کہ تو چارہ گر نہیں
بس اے طبیب رحم! کہ دل کی دوا کروں
پیتا ہوں میں مدام مئے نابِ معرفت
اصلِ شرور و امِ خبائث کو کیا کروں
یا اپنے جوشِ عشوۂ پیہم کو تھامئے
یا کہئے میں بھی نالۂ شورش فزا کروں
میں جل گیا وہ غیر کے گھر جو چلے گئے
شعلے سے استعارہء آوازِ پا کروں
ڈر ہے کہ ہو نہ شوقِ مزامیر شیفتہ
ورنہ کبھی سماعِ مجرد سنا کروں
مصطفٰی خان شیفتہ

کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 65
مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
دشنام بھی سنی نہ تمہاری زبان سے
ہے کوستی اثر کو دعا اور دعا کو ہم
افغانِ چرس رس کی لپٹ نے جلا دیا
نامے کو ڈھونڈتی ہے صبا اور صبا کو ہم
لاتا ہے ظنِ نیم تبسم سے جوش میں
دل کو قلق، قلق کو بُکا اور بُکا کو ہم
درماں مریضِ غم کا ترے کچھ نہ ہو سکا
چھیڑے ہے چارہ گر کو دوا اور دوا کو ہم
پھر کیوں نہ دیکھنے سے عدو کے ہو منفعل
پھر اس کو دوکھتی ہے حیا اور حیا کو ہم
ہیں جاں بلب کسی کے اشارے کی دیر ہے
دیکھے ہے اس نگہ کو قضا اور قضا کو ہم
ہے آرزوئے شربتِ مرگ اب تو شیفتہ
لگتی ہے زہر ہم کو شفا اور شفا کو ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 176
کس سے اظہارِ مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے
ہو نا پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیا کیجیے تو کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جن سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلا کریں اس سے؟
گلہ تنگیِ قبا کیجے
فطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے
حضرتِ زلفِ غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بیوفائی کی انتہا کیجے
کوہکن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے
رنگ ہر رنگ میں ہے دوا غالب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے
جون ایلیا

جانے ہم خود میں کہ ناخود میں رہا کرتے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 119
کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
جانے ہم خود میں کہ ناخود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہرکے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں
لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں
جانے اس کوچہء حالت کا ہے کیا حال کہ ہم
اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں
میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
اور سب لوگ جو کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں
اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اک یاد سے ہم
شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں
جس کو برباد کیا اس کے فداکاروں نے
ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں
شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
نزرِ پُرمایگئ جیبِ صبا کرتے ہیں
جن کو مُفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں
ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہیے
ہو کوئی اس کا خدا ہم تو دعا کرتے ہیں
جون ایلیا

جان ہم کو وہاں بلا بھیجو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 65
اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اب کھلی ہیں وہاں
ان کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
دھول اڑتی ہے جو اس آنگن میں
اس کو بھیجو ، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اس گل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ شام ہجر کے ہاتھوں
اپنی اتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بد دعا بھیجو
جون ایلیا

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 271
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے@
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اَور درویش کی صدا کیا ہے؟
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
@ ہیں۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے

دیوان ششم غزل 1887
وہ اب ہوا ہے اتنا کہ جور و جفا کرے
افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے
ہجران یار ایک مصیبت ہے ہم نشیں
مرنے کے حال سے کوئی کب تک جیا کرے
صورت ہو ایسی کوئی تو کچھ میری قدر ہو
مشتاق یار کو بھی کسو کا خدا کرے
مرنا قبول ہے نہیں زنہار یہ قبول
منت سے آن کر جو معالج دوا کرے
مستی شراب کی ہی سی ہے آمد شباب
ایسا نہ ہو کہ تم کو جوانی نشہ کرے
یارب نسیم لطف سے تیری کہیں کھلے
دل اس چمن میں غنچہ سا کب تک رہا کرے
میں نے کہا کہ آتش غم میں جلے ہے دل
وہ سردمہر گرم ہو بولا جلا کرے
رکنے سے میرے رات کے سارا جہاں رکا
آئے نسیم صبح کہ اک دم ہوا کرے
برسوں کیا کرے مری تربت کو گل فشاں
مرغ چمن اگر حق صحبت ادا کرے
عارف ہے میر اس سے ملا بیشتر کرو
شاید کہ وقت خاص میں تم کو دعا کرے
میر تقی میر

جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ

دیوان ششم غزل 1870
مرتے ہیں ہم تو اس صنم خودنما کے ساتھ
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ
دیکھیں تو کار بستہ کی کب تک کھلے گرہ
دل بستگی ہے یار کے بند قبا کے ساتھ
اے کاش فصل گل میں گئی ہوتی اپنی جان
مل جاتی یہ ہوا کوئی دن اس ہوا کے ساتھ
مدت ہوئی موئے گئے ہم کو پر اب تلک
اڑتی پھرے ہے خاک ہماری صبا کے ساتھ
ہم رہتے اس کے محو تو وہ کرتا ہم کو سہو
ہرگز وفا نہ کرنی تھی اس بے وفا کے ساتھ
کیفیت آشنا نہیں اس مست ناز کی
معشوق ورنہ کون ہے اب اس ادا کے ساتھ
منھ اپنا ان نے عکس سے اپنے چھپا لیا
دیکھا نہ کوئی آئینہ رو اس حیا کے ساتھ
ٹھہرا ہے رونا آٹھ پہر کا مرا علاج
تسکین دل ہے یعنی کچھ اب اس دوا کے ساتھ
تھا جذب آگے عشق سے جو ہر نفس میں میر
اب وہ کشش نہیں ہے سحر کی دعا کے ساتھ
میر تقی میر

دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو

دیوان ششم غزل 1863
ہاتھ بے سبحہ ٹک رہا نہ کبھو
دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو
کیونکے عرفان ہو گیا سب کو
اپنے ڈھب پر تو وہ چڑھا نہ کبھو
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
ان نے یک حرف بھی لکھا نہ کبھو
گو شگفتہ چمن چمن تھے گل
غنچۂ دل تو وا ہوا نہ کبھو
طور کی سی تھی صحبت اس کی مری
جھمکی دکھلا کے پھر ملا نہ کبھو
غیرت اپنی تھی یہ کہ بعد نماز
اس کا لے نام کی دعا نہ کبھو
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی پائی انتہا نہ کبھو
وہ سخن گو فریبی چشم یار
ہم سے گویا تھی آشنا نہ کبھو
میر تقی میر

منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو

دیوان ششم غزل 1859
کن نے کہا کہ مجھ سے بہت کم ملا کرو
منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو
بندے سے کی ہے جن نے یہ خصمی خدا کرے
اس سے بھی تم خصومت جانی رکھا کرو
عنقا سا شہرہ ہوں پہ حقیقت میں کچھ نہیں
تم دور ہی سے نام کو میرے سنا کرو
بیماری جگر کی شفا سے تو دل ہے جمع
اب دوستی سے مصلحتاً کچھ دوا کرو
ہم بے خودان مجلس تصویر اب گئے
تم بیٹھے انتظار ہمارا کیا کرو
جی مارتے ہیں ناز و کرشمہ بالاتفاق
جینا مرا جو چاہو تو ان کو جدا کرو
میں نے کہا کہ پھنک رہی ہے تن بدن میں آگ
بولا کہ عشق ہے نہ پڑے اب جلا کرو
دل جانے کا فسانہ زبانوں پہ رہ گیا
اب بیٹھے دور سے یہ کہانی کہا کرو
اب دیکھوں اس کو میں تو مرا جی نہ چل پڑے
تم ہو فقیر میر کبھو یہ دعا کرو
میر تقی میر

وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں

دیوان ششم غزل 1853
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بودو باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بدخواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میر کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
میر تقی میر

بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں

دیوان ششم غزل 1848
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں
بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں
غیرت سے نام اس کا آیا نہیں زباں پر
آگے خدا کے جب ہم محو دعا ہوئے ہیں
اہل چمن سے کیونکر اپنی ہو روشناسی
برسوں اسیر رہ کر اب ہم رہا ہوئے ہیں
بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گذرتی
اے وائے کس بلا میں ہم مبتلا ہوئے ہیں
جانا کہ تن میں ہر جا نازک ہے اور دلکش
ہم رفتۂ سراپا اس کے بجا ہوئے ہیں
تھے غنچے جتنے زیر دیوار باغ طائر
شب باشی چمن سے شاید خفا ہوئے ہیں
صرفہ قمیص کا ہے کیا وقر اس گلی میں
ترک لباس کر واں شاہاں گدا ہوئے ہیں
خاموش اس کے در پر ہوکر فقیر بیٹھے
یعنی کہ عاشقی میں ہم بے نوا ہوئے ہیں
عہد شباب گذرا شرب مدام ہی میں
ہم کہنہ سال ہوکر اب پارسا ہوئے ہیں
اظہار کم فراغی ہردم کی بے دماغی
ان روزوں میر صاحب کچھ میرزا ہوئے ہیں
میر تقی میر

شاید اس کے بھی دل میں جا کریے

دیوان پنجم غزل 1762
داد فریاد جابجا کریے
شاید اس کے بھی دل میں جا کریے
اب سلگنے لگی ہے چھاتی بھی
یعنی مدت پڑے جلا کریے
چشم و دل جان مائل خوباں
بدی یاروں کی کیا کیا کریے
دیکھیں کب تک رہے ہے یہ صحبت
گالیاں کھائیے دعا کریے
کچھ کہیں تو کہے ہے یہ نہ کہو
کیونکر اظہار مدعا کریے
اتفاق ان کا مارے ڈالے ہے
ناز و انداز کو جدا کریے
عید ہی کاشکے رہے ہر روز
صبح اس کے گلے لگا کریے
راہ تکنے کو بھی نہایت ہے
منتظر کب تلک رہا کریے
ہستی موہوم و یک سرو گردن
سینکڑوں کیونکے حق ادا کریے
وہ نہیں سرگذشت سنتا میر
یوں کہانی سی کیا کہا کریے
مترتب ہو نفع جو کچھ بھی
دل کی بیماری کی دوا کریے
سو تو ہر روز ہے بتر احوال
متحیر ہیں آہ کیا کریے
میر تقی میر

چال ایسی چلا جس پر تلوار چلا کی ہے

دیوان پنجم غزل 1737
جب جل گئے تب ان نے کینے کی ادا کی ہے
چال ایسی چلا جس پر تلوار چلا کی ہے
خلقت مگر الفت سے ہے شورش سینہ کی
چسپاں مری چھاتی سے دن رات رہا کی ہے
ہم لوگوں کے لوہو میں ڈوبی ہی رہی اکثر
اس تیغ کی جدول بھی کیا تیز بہا کی ہے
عشاق موئے پر بھی ہجراں میں معذب ہیں
مدفن میں مرے ہر دم اک آگ لگا کی ہے
صد رنگ بہاراں میں اب کے جو کھلے ہیں گل
یہ لطف نہ ہو ایسی رنگینی ہوا کی ہے
مرنے کو رہے حاضر سو مارے گئے آخر
گو ان نے جفا کی ہے ہم نے تو وفا کی ہے
مایوس ہی رہتے ہیں بیمار محبت کے
اس درد کی مدت تک ہم نے بھی دوا کی ہے
آنا ادھر اس بت کا کیا میری کشش سے ہے
ہو موم جو پتھر تو تائید خدا کی ہے
دامان دراز اس کا جو صبح نہیں کھینچا
اے میر یہ کوتاہی شب دست دعا کی ہے
میر تقی میر

دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ

دیوان پنجم غزل 1723
بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ
دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ
ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و زشت سے
کیا آئینہ کرے ہے بسر یاں حیا کے ساتھ
گو دست لطف سر سے اٹھا لے کوئی شفیق
دل کا لگائو اپنا ہے دست دعا کے ساتھ
تدبیر دوستاں سے ہے بالعکس فائدہ
ہے درد عاشقی کو خصومت دوا کے ساتھ
کی کشتی اس کی پاک زبردست عشق نے
جن نے ملائے ہاتھ ٹک ایک اس بلا کے ساتھ
اوباش لڑکوں سے تو بہت کرچکے معاش
اب عمر کاٹیے گا کسو میرزا کے ساتھ
کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میر
آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ
میر تقی میر

کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف

دیوان پنجم غزل 1651
دیکھ نہ ہر دم اے عاشق قاتل کی تیغ جفا کی طرف
کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف
چار طرف سے نزول حوادث جاؤں کدھر تنگ آیا ہوں
غالب ہے کیا عہد میں میرے اے دل رنج و عنا کی طرف
آوے زمانہ جب ایسا تو ترک عشق بتاں کا کر
چاہیے بندہ قصد کرے جانے کا اپنے خدا کی طرف
قحط مروت اب جو ہوا ہے کس کو دماغ بادہ کشی
ابر آیا سبزہ بھی ہوا کرتا نہیں کوئی ہوا کی طرف
ظلم و ستم سے جور و جفا سے کیا کیا عاشق مارے گئے
شہر حسن کے لوگوں میں کرتا نہیں کوئی وفا کی طرف
شام و سحر ہے عکس سے اپنے حرف و سخن اس گلرو کو
پشت پا سے نگاہ اٹھالی چھوڑی ان نے حیا کی طرف
ہاتھ کسی کا دیکھتے رہیے گاہے ہم سے ہو نہ سکا
اپنی نظر اے میر رہی ہے اکثر دست دعا کی طرف
میر تقی میر

اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط

دیوان پنجم غزل 1641
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط
اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط
گل ہو کے برگ برگ ہوئے پھر ہوا ہوئے
رکھتے ہیں اس چمن کے جو غنچے صبا سے ربط
زنہار پشت پا سے نہیں اٹھتی اس کی آنکھ
اس چشم شرمگیں کو بہت ہے حیا سے ربط
شاید اسی کے ہاتھ میں دامن ہو یار کا
ہو جس ستم رسیدہ کو دست دعا سے ربط
کرتی ہے آدمی کو دنی صحبت فقیر
اچھا نہیں ہے میر سے بے تہ گدا سے ربط
میر تقی میر

اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش

دیوان پنجم غزل 1634
رکھتے رہے بتوں سے مہر و وفا کی خواہش
اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش
بیماری دلی پر میں صبر کر رہا ہوں
جی کو نہیں ہے میرے مطلق دوا کی خواہش
شب وصل کی میسر آئی نہ ایک دن بھی
دل کو یہی ہمارے اکثر رہا کی خواہش
چاہت بہت کسو کی اے ہمنشیں بری ہے
سو جان کی ہے کاہش اک اس ادا کی خواہش
مشتاق عاشقی کا عاقل کوئی نہ ہو گا
ابلہ کسو کو ہو گی اس بدبلا کی خواہش
عجز و انابت اپنی یوں ہی تھی صبح گہ کی
درویشوں سے کریں گے اب ہم دعا کی خواہش
حیران کار الفت اے میر چپ ہوں میں تو
پوچھا کرو ہو ہردم کیا بے نوا کی خواہش
میر تقی میر

نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس

دیوان پنجم غزل 1629
یار ہم سے جدا ہوا افسوس
نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس
جب تلک آن کر رہے مجھ پاس
مجھ میں تب تک نہ کچھ رہا افسوس
دل میں حسرت گرہ ہے رخصت کی
چلتے ان نے نہ کچھ کہا افسوس
کیا تدارک ہے عشق میں دل کا
میں بلا میں ہوں مبتلا افسوس
سب سے بیگانگی کی جس کے لیے
وہ نہیں ہم سے آشنا افسوس
رات دن ہاتھ ملتے رہتے ہیں
دل کے جانے کا ہے بڑا افسوس
باچھیں پھٹ پھٹ گئیں ہیں گھگھیاتے
بے اثر ہو گئی دعا افسوس
مجھ کو کرنا تھا احتراز اس سے
ہائے افسوس کیا کیا افسوس
نوش دارو ہے نیش دارو میر
متاثر نہیں دوا افسوس
میر تقی میر

پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ

دیوان چہارم غزل 1482
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے ہیں
بیماری دلی کی شاید نہیں دوا کچھ
وارفتہ ہے گلستاں اس روے چمپئی کا
ہے فصل گل پہ گل کا اب وہ نہیں مزہ کچھ
وہ آرسی کے آگے پہروں ہے بے تکلف
منھ سے ہمارے اس کو آتی نہیں حیا کچھ
دل ہی کے غم میں گذرے دس دن جو عمر کے تھے
اچرج ہے اس نگر سے جاتا نہیں دہا کچھ
منھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرف سے کیا کچھ
دل لے فقیر کا بھی ہاتھوں میں دل دہی کر
آجائے ہے جہاں میں آگے لیا دیا کچھ
یاروں کی آہ و زاری ہووے قبول کیوں کر
ان کی زباں میں کچھ ہے دل میں ہے کچھ دعا کچھ
ساری وہی حقیقت ملحوظ سب میں رکھیے
کہیے نمود ہووے جو اس کے ماسوا کچھ
حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ
کب تک یہ بدشرابی پیری تو میر آئی
جانے کے ہو مہیا اب کر چلو بھلا کچھ
میر تقی میر

ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں

دیوان چہارم غزل 1457
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں
کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم میں ہم بھی
اٹھ کے اب قافلۂ رفتہ کو جا لیتے ہیں
نازکی ہائے رے طالع کی نکوئی سے کبھو
پھول سا ہاتھوں میں ہم اس کو اٹھا لیتے ہیں
صحبت آخر کو بگڑتی ہے سخن سازی سے
کیا درانداز بھی اک بات بنا لیتے ہیں
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں
چاک سینے کے ہمارے نہیں سینے اچھے
انھیں رخنوں سے دل و جان ہوا لیتے ہیں
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
میر تقی میر

بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں

دیوان چہارم غزل 1455
ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
ان طیوروں سے ہوں میں بھی اگر آتی ہے صبا
باغ کے چار طرف آگ لگا دیتے ہیں
گرچہ ملتے ہیں خنک غیرت مہ یہ لڑکے
دل جگر دونوں کو یک لخت جلا دیتے ہیں
دیر رہتا ہے ہما لاش پہ غم کشتوں کی
استخواں ان کے جلے کچھ تو مزہ دیتے ہیں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
ہر طرف سینکڑوں درویش دعا دیتے ہیں
دل جگر ہو گئے بیتاب غم عشق جہاں
جی بھی ہم شوق کے ماروں کے دغا دیتے ہیں
کیونکے اس راہ میں پا رکھیے کہ صاحب نظراں
یاں سے لے واں تئیں آنکھیں ہی بچھا دیتے ہیں
ملتے ہی آنکھ ملی اس کی تو پر ہم بے تہ
خاک میں آپ کو فی الفور ملا دیتے ہیں
طرفہ صناع ہیں اے میر یہ موزوں طبعاں
بات جاتی ہے بگڑ بھی تو بنا دیتے ہیں
میر تقی میر

قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا

دیوان چہارم غزل 1313
واجب کا ہو نہ ممکن مصدر صفت ثنا کا
قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا
سب روم روم تن میں زردی غم بھری ہے
خاک جسد ہے میری کس کان زر کا خاکا
بند اس قبا کا کھولیں کیا ناخن فقیراں
وابستہ ہے یہ عقدہ شاید کسو دعا کا
ناسازی طبیعت کیا ہے جواں ہوئے پر
اوباش وہ ستمگر لڑکا ہی تھا لڑاکا
گل پھول فصل گل میں صد رنگ ہیں شگفتہ
میں دل زدہ ہوں اب کے رنگینی ہوا کا
عاشق کی چشم تر میں گو دبتے آویں لیکن
پائوں کا دلبروں کے چھپتا نہیں چھپاکا
زوریں کش اس جواں کی کس سے کماں کھنچے ہے
تھا یکہ و جنازہ میر ان نے جس کو تاکا
میر تقی میر

دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو

دیوان سوم غزل 1232
زخموں پہ اپنے لون چھڑکتے رہا کرو
دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو
کیا آنکھ بند کرکے مراقب ہوئے ہو تم
جاتے ہیں کیسے کیسے سمیں چشم وا کرو
موقوف ہرزہ گردی نہیں کچھ قلندری
زنجیر سر اتار کے زنجیر پا کرو
ہر چند اس متاع کی اب قدر کچھ نہیں
پر جس کسو کے ساتھ رہو تم وفا کرو
تدبیر کو مزاج محبت میں دخل کیا
جانکاہ اس مرض کی نہ کوئی دوا کرو
طفلی سے تم نے لطف و غضب مختلط کیے
ٹک مہر کو جدا کرو غصہ جدا کرو
بیٹھے ہو میر ہو کے درکعبہ پر فقیر
اس روسیہ کے باب میں بھی کچھ دعا کرو
میر تقی میر

کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر

دیوان سوم غزل 1133
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
تھی جملہ تن لطافت عالم میں جاں کے ہم تو
مٹی میں اٹ گئے ہیں اس خاکداں میں آ کر
سعی و طلب بہت کی مطلب کے تیں نہ پہنچے
ناچار اب جہاں سے بیٹھے ہیں ہاتھ اٹھا کر
غیرت یہ تھی کہ آیا اس سے جو میں خفا ہو
مرتے موا پہ ہرگز اودھر پھرا نہ جا کر
قدرت خدا کی سب میں خلع العذار آئو
بیٹھو جو مجھ کنے تو پردے میں منھ چھپا کر
ارمان ہے جنھوں کو وے اب کریں محبت
ہم تو ہوئے پشیماں دل کے تئیں لگا کر
میں میر ترک لے کر دنیا سے ہاتھ اٹھایا
درویش تو بھی تو ہے حق میں مرے دعا کر
میر تقی میر

دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ

دیوان سوم غزل 1124
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ
دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ
فرہاد و قیس جس سے مجھے چاہو پوچھ لو
مشہور ہے فقیر بھی اہل وفا کے بیچ
آخر تو میں نے طول دیا بحث عشق کو
کوتاہی تم بھی مت کرو جور و جفا کے بیچ
آئی جو لب پہ آہ تو میں اٹھ کھڑا ہوا
بیٹھا گیا نہ مجھ سے تو ایسی ہوا کے بیچ
اقبال دیکھ اس ستم و ظلم و جور پر
دیکھوں ہوں جس کو ہے وہ اسی کی دعا کے بیچ
دل اس چمن میں بہتوں سے میرا لگا ولے
بوے وفا نہ پائی کسو آشنا کے بیچ
جوش و خروش میر کے جاتے رہے نہ سب
ہوتا ہے شور چاہنے کی ابتدا کے بیچ
میر تقی میر

جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے

دیوان دوم غزل 1053
جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے
جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے
لخت دل قطرئہ خوں ٹکڑے جگر ہو ہوکر
کیا کہوں میں کہ مری آنکھوں سے کیا نکلے ہے
میں جو ہر سو لگوں ہوں دیکھنے ہو کر مضطر
آنسو ہر میری نگہ ساتھ گتھا نکلے ہے
پارسائی دھری رہ جائے گی مسجد میں شیخ
جو وہ اس راہ کبھو مستی میں آ نکلے ہے
گوکہ پردہ کرے جوں ماہ شب ابر وہ شوخ
کب چھپا رہتا ہے ہرچند چھپا نکلے ہے
بھیڑیں ٹل جاتی ہیں آگے سے اس ابرو کے ہلے
سینکڑوں میں سے وہ تلوار چلا نکلے ہے
بنتی ہے سامنے اس کے کیے سجدہ ہی ولے
جی سمجھتا ہے جو اس بت میں ادا نکلے ہے
بد کہیں نالہ کشاں ہم ہیں کہ ہم سے ہر روز
شور و ہنگامے کا اک طور نیا نکلے ہے
اجر سے خالی نہیں عشق میں مارے جانا
دے ہے جو سر کوئی کچھ یاں سے بھی پا نکلے ہے
لگ چلی ہے مگر اس گیسوے عنبربو سے
ناز کرتی ہوئی اس راہ صبا نکلے ہے
کیا ہے اقبال کہ اس دشمن جاں کے آتے
منھ سے ہر ایک کے سو بار دعا نکلے ہے
سوز سینے کا بھی دلچسپ بلا ہے اپنا
داغ جو نکلے ہے چھاتی سے لگا نکلے ہے
سارے دیکھے ہوئے ہیں دلی کے عطار و طبیب
دل کی بیماری کی کس پاس دوا نکلے ہے
کیا فریبندہ ہے رفتار ہے کینے کی جدا
اور گفتار سے کچھ پیار جدا نکلے ہے
ویسا بے جا نہیں دل میر کا جو رہ نہ سکے
چلتا پھرتا کبھو اس پاس بھی جا نکلے ہے
میر تقی میر

گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے

دیوان دوم غزل 1050
کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے
اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے
فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے
سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے
کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ
مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا
جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے
اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے
گرم آکر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا
تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے
کیا چال یہ نکالی ہوکر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے
دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے
ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے
سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی
کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے
حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت
اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے
سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں
منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے
بیٹھے ہے یار آکر جس جا پہ ایک ساعت
ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے
سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے
کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم
اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے
گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے
ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے
گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی
مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے
ایک آفت زماں ہے یہ میر عشق پیشہ
پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے
میر تقی میر

مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے

دیوان دوم غزل 1000
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے دور جاناں سے
کوئی کاش اس گلی میں ہم کو اک تکیہ بنا دیوے
ہوئے برسوں کہ وہ ظالم رہے ہے مجھ پہ کچھ ٹیڑھا
کوئی اس تیغ برکف کو گلے میرے ملا دیوے
وفا کی مزد میں ہم پر جفا و جور کیا کہیے
کسو سے دل لگے اس کا تو وہ اس کی جزا دیوے
کہیں کچھ تو برا مانو بھلا انصاف تو کریے
بدی کو بھی نہایت ہے تمھیں نیکی خدا دیوے
صنوبر آدمی ہو تو سراپا بار دل لاوے
کہاں سے کوئی تازہ دل اسے ہر روز لا دیوے
بہت گمراہ ہے وہ شوخ لگتا ہے کہے کس کے
کوئی کیا راہ کی بات اس جفاجو کو بتا دیوے
جگر سب جل گیا لیکن زباں ہلتی نہیں اپنی
مباد اس آتشیں خو کو مخالف کچھ لگا دیوے
کوئی بھی میر سے دل ریش سے یوں دور پھرتا ہے
ٹک اس درویش سے مل چل کہ تجھ کو کچھ دعا دیوے
میر تقی میر

کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے

دیوان دوم غزل 990
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے
کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے
حرص و ہوس سے باز رہے دل تو خوب ہے
ہے قہر اس کلی کے تئیں گر ہوا لگے
تلخ اب تو اپنے جی کو بھی لگتی ہے اس نمط
جیسے کسو کے زخم پہ تیر اک دو آ لگے
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جا لگے
ایسے لگے پھرے ہیں بہت سائے کی روش
جانے دے ایسی حور پری سے بلا لگے
وہ بھی چمن فروز تو بلبل ہے سامنے
گل ایسے منھ کے آگے بھلا کیا بھلا لگے
پس جائیں یار آنکھ تری سرمگیں پڑے
دل خوں ہو تیرے پائوں میں بھر کر حنا لگے
بن ہڈیوں ہماری ہما کچھ نہ کھائے گا
ٹک چاشنی عشق کا اس کو مزہ لگے
خط مت رکھو کہ اس میں بہت ہیں قباحتیں
رکھیے تمھارے منھ پہ تو تم کو برا لگے
مقصود کے خیال میں بہتوں نے چھانی خاک
عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے
سب چاہتے ہیں دیر رہے میر دل زدہ
یارب کسو تو دوست کی اس کو دعا لگے
میر تقی میر

منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے

دیوان دوم غزل 966
گر ناز سے وہ سر پر لے تیغ آ نہ پہنچے
منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے
جیتے رہیں گے کیونکر ہم اے طبیب ناداں
بیمار ایسے تس پر مطلق دوا نہ پہنچے
لائق ترے نہیں ہے خصمی غیر لیکن
وہ باز کیونکے آوے جب تک سزا نہ پہنچے
ہر چند بہر خوباں سر مسجدوں میں مارے
پر ان کے دامنوں تک دست دعا نہ پہنچے
بن آہ دل کا رکنا بے جا نہیں ہمارا
کیا حال ہووے اس کا جس کو ہوا نہ پہنچے
اپنے سخن کی اس سے کس طور راہ نکلے
خط اس طرف نہ جاوے قاصد گیا نہ پہنچے
وہ میر شاہ خوبی پھر قدر دور اس کی
درویش بے نوا کی اس تک صدا نہ پہنچے
میر تقی میر

ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی

دیوان دوم غزل 947
ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی
ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی
کس کو لاگی کہ نہ لوہو میں ڈبایا اس کو
اس کی شمشیر کی جدول بھی بہا کیا کیا کی
جان کے ساتھ ہی آخر مرض عشق گیا
جی بھلا ٹک نہ ہوا ہم نے دوا کیا کیا کی
ان نے چھوڑی نہ طرف جور و جفا کی ہرگز
ہم نے یوں اپنی طرف سے تو وفا کیا کیا کی
سجدہ اک صبح ترے در کا کروں اس خاطر
میں نے محراب میں راتوں کو دعا کیا کیا کی
آگ سی پھنکتی ہی دن رات رہا کی تن میں
جان غمناک ترے غم میں جلا کیا کیا کی
میر نے ہونٹوں سے اس کے نہ اٹھایا جی کو
خلق اس کے تئیں یہ سن کے کہا کیا کیا کی
میر تقی میر

گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو

دیوان دوم غزل 928
جوں غنچہ میر اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو
جوں نے نہ زارنالی سے ہم ایک دم رہیں
تم بند بند کیوں نہ ہمارا جدا کرو
سوتے کے سوتے یوں ہی نہ رہ جائیں ہم کبھو
آنکھیں ادھر سے موند نہ اپنی لیا کرو
سودے میں اس کے بک گئے ایسے کئی ہزار
یوسفؑ کا شور دور ہی سے تم سنا کرو
ہوتے ہو بے دماغ تو دیکھو ہو ٹک ادھر
غصے ہی ہم پہ کاش کے اکثر رہا کرو
یہ اضطراب دیکھ کہ اب دشمنوں سے بھی
کہتا ہوں اس کے ملنے کی کچھ تم دعا کرو
دم رکتے ہیں سیاہی مژگاں ہی دیکھ کر
سرمہ لگا کے اور ہمیں مت خفا کرو
پورا کریں ہیں وعدے کو اپنے ہم آج کل
وعدے کے تیں وصال کے تم بھی وفا کرو
دشمن ہیں اپنے جی کے تمھارے لیے ہوئے
تم بھی حقوق دوستی کے کچھ ادا کرو
اپنا چلے تو آپھی ستم سب اٹھایئے
تم کون چاہتا ہے کسو پر جفا کرو
ہر چند ساتھ جان کے ہے عشق میر لیک
اس درد لاعلاج کی کچھ تو دوا کرو
میر تقی میر

پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو

دیوان دوم غزل 926
لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو
پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو
چپکے رہے بھی چین نہیں تب کہے ہے یوں
لب بستہ بیٹھے رہتے جو ہو مدعا کہو
پیغام بر تو یارو تمھیں میں کروں ولے
کیا جانوں جاکے حق میں مرے اس سے کیا کہو
اب نیک و بد پہ عشق میں مجھ کو نظر نہیں
اس میں مجھے برا کہو کوئی بھلا کہو
سر خاک آستاں پہ تمھاری رہا مدام
اس پر بھی یا نصیب جو تم بے وفا کہو
برسوں تلک تو گھر میں بلا گالیاں دیاں
اب در پہ سن کے کہنے لگے ہیں دعا کہو
صحبت ہماری اس کی جو ہے گفتنی نہیں
کیا کہیے گر کہے کوئی یہ ماجرا کہو
یارو خصوصیت تو رہے اپنی اس کے ساتھ
میرا کہو جو حال تو اس سے جدا کہو
آشفتہ مو حواس پریشاں خراب حال
دیکھو مجھے تو خبطی دوانہ سڑا کہو
کب شرح شوق ہوسکے پر تو بھی میرجی
خط تم نے جو لکھا اسے کیا کیا لکھا کہو
میر تقی میر

دیوانے کو جو خط لکھوں بتلائو کیا لکھوں

دیوان دوم غزل 893
دل کو لکھوں ہوں آہ وہ کیا مدعا لکھوں
دیوانے کو جو خط لکھوں بتلائو کیا لکھوں
کیا کیا لقب ہیں شوق کے عالم میں یار کے
کعبہ لکھوں کہ قبلہ اسے یا خدا لکھوں
حیراں ہو میرے حال میں کہنے لگا طبیب
اس دردمند عشق کی میں کیا دوا لکھوں
وحشت زدوں کو نامہ لکھوں ہوں نہ کس طرح
مجنوں کو اس کے حاشیے پر میں دعا لکھوں
کچھ روبرو ہوئے پہ جو سلجھے تو سلجھے میر
جی کے الجھنے کا اسے کیا ماجرا لکھوں
میر تقی میر

گہر پہنچا بہم آب بقا میں

دیوان دوم غزل 867
نہیں تبخال لعل دلربا میں
گہر پہنچا بہم آب بقا میں
غریبانہ کوئی شب روز کر یاں
ہمیشہ کون رہتا ہے سرا میں
اٹھاتے ہاتھ کیوں نومید ہو کر
اگر پاتے اثر کچھ ہم دعا میں
کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا
عجب نسبت ہے بندے میں خدا میں
کفن میں ہی نہ پہنا وہ بدن دیکھ
کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں
ادھر جانے کو آندھی تو ہے لیکن
سبک پائی سی ہے باد صبا میں
بلا تہ دار بحر عشق نکلا
نہ ہم نے انتہا لی ابتدا میں
ملے برسوں وہی بیگانہ ہے وہ
ہنر ہے یہ ہمارے آشنا میں
اگرچہ خشک ہیں جیسے پر کاہ
اڑے ہیں میرجی لیکن ہوا میں
میر تقی میر

کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

دیوان دوم غزل 833
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع
کب تلک ان بتوں سے چشم رہے
ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع
میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ
ڈھونڈو تم یار و آشنا سے نفع
مغتنم جان گر کسو کے تئیں
پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع
اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل
میر شاید کہ ہو دعا سے نفع
میر تقی میر

کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش

دیوان دوم غزل 827
مطلق نہیں ہے ایدھر اس دلربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اس کی جفا کی خواہش
لعل خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
اقلیم حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے جنس وفا کی خواہش
خون جگر ہی کھانا آغاز عشق میں ہے
رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش
وہ شوخ دشمن جاں اے دل تو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش
میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میر اونچا
رکھتا ہے اہل دل سے ہر اک دعا کی خواہش
میر تقی میر

غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز

دیوان دوم غزل 818
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
عاشق کے اس کو گریۂ خونیں کا درد کیا
آنسو نہیں ہے آنکھ سے جس کی گرا ہنوز
کیا جانے وہ کہ گذرے ہے یاروں کے جی پہ کیا
مطلق کسو سے اس کا نہیں دل لگا ہنوز
برسوں میں نامہ بر سے مرا نام جو سنا
کہنے لگا کہ زندہ ہے وہ ننگ کیا ہنوز
گھگھیاتے رات کے تئیں باچھیں تو پھٹ گئیں
ناواقف قبول ہے لیکن دعا ہنوز
کیا کیا کرے ہے حجتیں قاصد سے لیتے خط
حالانکہ وہ ہوا نہیں حرف آشنا ہنوز
سو بار ایک دم میں گیا ڈوب ڈوب جی
پر بحر غم کی پائی نہ کچھ انتہا ہنوز
خط سے ہے بے وفائی حسن اس کی آئینہ
ہم سادگی سے رکھتے ہیں چشم وفا ہنوز
سو عقدے فرط شوق سے پیش آئے دل کو یاں
واں بند اس قبا کے نہیں ہوتے وا ہنوز
یاں میر ہم تو پہنچ گئے مرگ کے قریب
واں دلبروں کو ہے وہی قصد جفا ہنوز
میر تقی میر

سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات

دیوان دوم غزل 781
کام کیا تھا جیب و دامن سے مجھے پیش از جنوں
سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات
جن دنوں کھینچا تھا سر اس بادشاہ حسن نے
ہر گلی میں اک فقیر اس کو دعا کرتا تھا رات
اب جہاں کچھ بات چھیڑی سوچ لایا پیش ازیں
میں کہا کرتا غم دل وہ سنا کرتا تھا رات
ہجر میں کیا کیا سمیں دیکھے ہیں ان آنکھوں سے میں
زرد رخ پر لالہ گوں آنسو بہا کرتا تھا رات
کیا کہوں پھر کیسے کیسے دن دکھاتا سالہا
وہ سخن نشنو جو ٹک میرا کہا کرتا تھا رات
دیکھنے والے ترے دیکھے میں سب اے رشک شمع
جوں چراغ وقف دل سب کا جلا کرتا تھا رات
بعد میرے اس غزل پر بھی بہت روویں گے لوگ
میں بھی ہر ہر بیت پر اس کی بکا کرتا تھا رات
دیکھ خالی جا کہیں گے برسوں اہل روزگار
میر اکثر دل کا قصہ یاں کہا کرتا تھا رات
میر تقی میر

شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا

دیوان دوم غزل 675
کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا
شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا
ہے ابر کی چادر شفقی جوش سے گل کے
میخانے کے ہاں دیکھیے یہ رنگ ہوا کا
بہتیری گرو جنس کلالوں کے پڑی ہے
کیا ذکر ہے واعظ کے مصلیٰ و ردا کا
مرجائے گا باتوں میں کوئی غمزدہ یوں ہی
ہر لحظہ نہ ہو ممتحن ارباب وفا کا
تدبیر تھی تسکیں کے لیے لوگوں کی ورنہ
معلوم تھا مدت سے ہمیں نفع دوا کا
ہاتھ آئینہ رویوں سے اٹھا بیٹھیں نہ کیونکر
بالعکس اثر پاتے تھے ہم اپنی دعا کا
آنکھ اس کی نہیں آئینے کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا
برسوں سے تو یوں ہے کہ گھٹا جب امنڈ آئی
تب دیدئہ تر سے بھی ہوا ایک جھڑاکا
آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی
جس خاک پہ ہو گا اثر اس کی کف پا کا
تلوار کے سائے ہی میں کاٹے ہے تو اے میر
کس دل زدہ کو ہوئے ہے یہ ذوق فنا کا
میر تقی میر

الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے

دیوان اول غزل 612
کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کروگے تو کیا کروگے
الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کروگے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ درد ہجراں سے مرتے رہیے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کروگے
جہاں کی مسلخ تمام حسرت نہیں ہے تس پر نگہ کی فرصت
نظر پڑے گی بسان بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کروگے
اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے
ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو غبار ہوکر اڑا کروگے
بلا ہے ایسا طپیدن دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل
دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کروگے
عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا
تمھیں تو لت ہے ستانے ہی کی کسو پر آخر جفا کروگے
اگرچہ اب تو خفا ہو لیکن موئے گئے پر کبھو ہمارے
جو یاد ہم کو کروگے پیارے تو ہاتھ اپنے ملا کروگے
سحر کو محراب تیغ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل
تو ایک سجدہ بسان بسمل مری طرف سے ادا کروگے
غم محبت سے میر صاحب بتنگ ہوں میں فقیر ہو تم
جو وقت ہو گا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کروگے
میر تقی میر

کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

دیوان اول غزل 605
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلاکر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھاکر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپاکر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہاکر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدے کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آکر چلے
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھاکر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
میر تقی میر

خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے

دیوان اول غزل 522
بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے
خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے
رونا یہی ہے مجھ کو تیری جفا سے ہر دم
یہ دل دماغ دونوں کب تک وفا کریں گے
ہے دین سر کا دینا گردن پہ اپنی خوباں
جیتے ہیں تو تمھارا یہ قرض ادا کریں گے
درویش ہیں ہم آخر دو اک نگہ کی رخصت
گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے
آخر تو روزے آئے دو چار روز ہم بھی
ترسابچوں میں جا کر دارو پیا کریں گے
کچھ تو کہے گا ہم کو خاموش دیکھ کر وہ
اس بات کے لیے اب چپ ہی رہا کریں گے
عالم مرے ہے تجھ پر آئی اگر قیامت
تیری گلی کے ہر سو محشر ہوا کریں گے
دامان دشت سوکھا ابروں کی بے تہی سے
جنگل میں رونے کو اب ہم بھی چلا کریں گے
لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
ذلت کی اپنی اب ہم عزت کیا کریں گے
احوال میر کیونکر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے
میر تقی میر

پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان اول غزل 513
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے
مت پوچھ میری اس کی شام و سحر کی صحبت
اس طرف سے ہے گالی اس طرف سے دعا ہے
بالیں پہ میری آکر ٹک دیکھ شوق دیدار
سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آرہا ہے
بے اس کے رک کے مرتے گرمی عشق میں تو
کرتے ہیں آہ جب تک تب تک ہی کچھ ہوا ہے
شکوہ ہے رونے کا یہ بے گانگی سے تیری
مژگان تر وگرنہ آنکھوں میں آشنا ہے
مت کر زمین دل میں تخم امید ضائع
بوٹا جو یاں اگا ہے سو اگتے ہی جلا ہے
شرمندہ ہوتے ہیں گے خورشید و ماہ دونوں
خوبی نے تیرے منھ کی ظالم قراں کیا ہے
اے شمع بزم عاشق روشن ہے یہ کہ تجھ بن
آنکھوں میں میری عالم تاریک ہو گیا ہے
جیتے ہی جی تلک ہیں سارے علاقے سو تو
عاشق ترا مجرد فارغ ہی ہو چکا ہے
آزردگی عبث کیوں تشہیر و قتل و ایذا
فرمایئے تو وہ کچھ جو کچھ کہ مدعا ہے
صد سحر و یک رقیمہ خط میر جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے
میر تقی میر

یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے

دیوان اول غزل 476
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے
وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی اس کی بلا سے
کوئی ہم سے کھلتے ہیں بند اس قبا کے
یہ عقدے کھلیں گے کسو کی دعا سے
پشیمان توبہ سے ہو گا عدم میں
کہ غافل چلا شیخ لطف ہوا سے
نہ رکھی مری خاک بھی اس گلی میں
کدورت مجھے ہے نہایت صبا سے
جگر سوے مژگاں کھنچا جائے ہے کچھ
مگر دیدئہ تر ہیں لوہو کے پیاسے
اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے
تعصب تجھے ہے عجب ماسوا سے
طبیب سبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا درد عشق آہ دونا دوا سے
ٹک اے مدعی چشم انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے
نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے
میر تقی میر

پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

دیوان اول غزل 470
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی
کیونکر بجھائوں آتش سوزان عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
دل کو گئے ہی یاں سے بنے اب کہ ہر سحر
کوچے میں تیری زلف کے آنے صبا لگی
زلف سیاہ یار کی رہتی ہے چت چڑھی
یہ تازہ میرے جی کو کہاں کی بلا لگی
بیتابی و شکیب و سفر حاصل کلام
اس دل مریض غم کو نہ کوئی دوا لگی
ڈر مجھ نفس سے غیر کہ پھر جی ہی سے گیا
جس کو کسو ستم زدہ کی بد دعا لگی
لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نالگی
تھا صیدناتواں میں ولے میرے خون سے
پائوں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی
کشتے کا اس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میر
کس جاے اس شہید کے تیغ جفا لگی
میر تقی میر

دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

دیوان اول غزل 456
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول
شرمندئہ اثر تو ہماری دعا نہ تھی
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی
آئی پری سی پردئہ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی
اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی
میر تقی میر

اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو

دیوان اول غزل 403
حال دل میر کا اے اہل وفا مت پوچھو
اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا مت پوچھو
استخواں توڑے مرے اس کی گلی کے سگ نے
جس خرابی سے میں واں رات رہا مت پوچھو
ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب
اس کے ایک آنے میں کیا کیا نہ گیا مت پوچھو
اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھنکا
شہر دل کیا کہوں کس طور جلا مت پوچھو
وقت قتل آرزوے دل جو لگے پوچھنے لوگ
میں اشارت کی ادھر ان نے کہا مت پوچھو
خواہ مارا انھیں نے میر کو خواہ آپ موا
جانے دو یارو جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
میر تقی میر

اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو

دیوان اول غزل 392
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو
کام لے یار سے جو جذب رسا رکھتا ہو
یا کوئی آئینہ ساں دست دعا رکھتا ہو
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
کریے تدبیر جو یہ درد دوا رکھتا ہو
میں نے آئینہ صفت در نہ کیا بند غرض
اس کو مشکل ہے جو آنکھوں میں حیا رکھتا ہو
ہائے اس زخمی شمشیر محبت کا جگر
درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہو
اس سے تشبیہ تو دیتے ہیں یہ ناشاعر لیک
سیب کچھ اس ذقن آگے جو مزہ رکھتا ہو
آوے ہے پہلے قدم سر ہی کا جانا درپیش
دیکھتا ہو جو رہ عشق میں پا رکھتا ہو
ایسے تو حال کے کہنے سے بھلی خاموشی
کہیے اس سے جو کوئی اپنا کہا رکھتا ہو
کیا کرے وصل سے مایوس دل آزردہ جو
زخم ہی یار کا چھاتی سے لگا رکھتا ہو
کب تلک اس کے اسیران بلا خانہ خراب
ظلم کی تازہ جو ہر روز بنا رکھتا ہو
ایک دم کھول کے زلفوں کی کمندوں کے تئیں
مدتوں تک دل عاشق کو لگا رکھتا ہو
گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
میر تقی میر

پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں

دیوان اول غزل 326
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں
پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا کرے
گر بزم میں یہ اپنا ترا ماجرا کہوں
مت کر خرام سر پہ اٹھالے گا خلق کو
بیٹھا اگر گلی میں ترا نقش پا کہوں
دل اور دیدہ باعث ایذا و نور عین
کس کے تئیں برا کہوں کس کو بھلا کہوں
آوے سموم جاے صبا باغ سے سدا
گرشمہ اپنے سوز جگر کا میں جا کہوں
جاتا ہوں میر دشت جنوں کو میں اب یہ کہہ
مجنوں کہیں ملے تو تری بھی دعا کہوں
میر تقی میر

جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں

دیوان اول غزل 292
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمع تصویر ہیں خاموش جلا کرتے ہیں
جائے ہی نہ مرض دل تو نہیں اس کا علاج
اپنے مقدور تلک ہم تو دوا کرتے ہیں
اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر
شیخ یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصت جنبش لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گذریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعوی مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
تجھ سے لگ جاکے یہ یوں جاتے رہیں مجھ سے حیف
دیدہ و دل نے نہ جانا کہ دغا کرتے ہیں
فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
مجلس حال میں موزوں حرکت شیخ کی دیکھ
حیز شرعی بھی دم رقص مزہ کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو برا اپنا بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں
تجھ بن اس جان مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کریں ہیں لوہو پیا کرتے ہیں
میر تقی میر

لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم

دیوان اول غزل 284
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جی کے مر گئے ہوتے بلا سے ہم
چھوٹا نہ اس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایان کار مارے گئے اس ادا سے ہم
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول گل چنا کیے باغ وفا سے ہم
غافل نہ اپنی دیدہ درائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم
دو چار دن تو اور بھی آ تو کراہتہً
اب ہوچکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم
آئینے کی مثال پس از صد شکست میر
کھینچا بغل میں یار کو دست دعا سے ہم
میر تقی میر

بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

دیوان اول غزل 231
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
ٹپکے ہے خون دم بہ دم آنکھوں سے تا ہنوز
دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں
پھرتا ہوں منھ پہ خاک ملے جابجا ہنوز
خط کاڑھ لا کے تم تو منڈا بھی چلے ولے
ہوتی نہیں ہماری تمھاری صفا ہنوز
غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
گذری نہ پار عرش کہ تسکین ہو مجھے
افسوس میری آہ رہی نارسا ہنوز
احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز
غنچہ نہ بوجھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا
کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز
توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تونے سنگ دل
ہے دل خراش کوچے میں تیرے صدا ہنوز
چلو میں اس کے میرا لہو تھا سو پی چکا
اڑتا نہیں ہے طائر رنگ حنا ہنوز
بے بال و پر اسیر ہوں کنج قفس میں میر
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
میر تقی میر

اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد

دیوان اول غزل 200
ہوں رہگذر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد
اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد
طوف حرم میں بھی میں بھولا نہ تجھ کو اے بت
آتا ہے یاد تو ہی میرا خدا ہے شاہد
شرمندئہ اثر کچھ باطن مرا نہیں ہے
وقت سحر ہے شاہد دست دعا ہے شاہد
نالے میں اپنے پنہاں میں بھی ہوں ساتھ تیرے
شاہد ہے گرد محمل شور درا ہے شاہد
ایذا ہے میر پر جو وہ تو کہوں ہی گا میں
بارے یہ کہہ کہ تیری خاطر میں کیا ہے شاہد
میر تقی میر