منصور آفاق ۔ غزل نمبر 628
یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے
ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے
تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر
یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے
نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی
یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے
چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید
یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے
ابھی سے کس لیے رکھتے ہو بام پر آنکھیں
ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے
ابھی نکال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے
ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے
شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں
شعاعِ شام سیہ، ابر سے چھنی ہوئی ہے
نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو
مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے
کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے
کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے
کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو
یہ میرے باغ میں کیسی شگفتنی ہوئی ہے
اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے
کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے
جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن
مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے
میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں
لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا، ہوا غنی ہوئی ہے
سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور
یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔