ٹیگ کے محفوظات: خزاں

میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں

بے جا نوازشات کا بارِ گراں نہیں
میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں
آغوشِ حادثات میں پائی ہے پرورش
جو برق پُھونک دے، وہ مرا آشیاں نہیں
کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دشواریوں پہ لوگ؟
ہوں بے وطن ضرور مگر بے نشاں نہیں
گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصلِ گُل ہے یہ دورِ خزاں نہیں
کچھ برق سوز تنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جھک جائیں گُل کے بار سے وہ ڈالیاں نہیں
شکیب جلالی

مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے

ہر ایک موت ہے تعمیرِ نکتہ داں کے لیے
مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے
یہ بہکی بہکی سی باتیں یہ مضمحل نظریں
سُکوں نواز نہ بن جائیں نیم جاں کے لیے
غَرَض کے واسطے جیتی ہے فطرتاً دنیا
بہار پھول کھلاتی نہیں خزاں کے لیے
خوشی زمانے کو مرغوب ہی سہی، لیکن
الم حَسین ہے عنوانِ داستاں کے لیے
خرامِ ناز، نظرمست، منتشر زلفیں
یہ اہتمام ہے کیوں، کس لیے، کہاں کے لیے!
حقائقِ غمِ اُلفت کبھی چُھپے ہیں شکیبؔ!
بیان کیسے بدلتا میں راز داں کے لیے
شکیب جلالی

ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپے جاں اور طرح کے
اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دُنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دَولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی

کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے

زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے
کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اِک جہاں ہے
کبھی تیری آنکھوں کے تل میں جو دیکھا تھا میں نے
وُہی ایک پل محملِ شوق کا سارباں ہے
کہیں تو مرے عشق سے بدگماں ہو نہ جائے
کئی دِن سے ہونٹوں پہ تیرے نہیں ہے نہ ہاں ہے
خدا جانے ہم کس خرابے میں آ کر بسے ہیں
جہاں عرضِ اہلِ ہنر نکہتِ رائیگاں ہے
جہانوں کے مالک زمانوں سے پردہ اُٹھا دے
کہ دل اِن دِنوں بے نیازِ بہار و خزاں ہے
ترے فیصلے وقت کی بارگاہوں میں دائم
ترے اِسم ہر چار سو ہیں مگر تو کہاں ہے
خمارِ غریبی میں بے غم گزرتی ہے ناصر
درختوں سے بڑھ کر مجھے دھوپ کا سائباں ہے
ناصر کاظمی

فکرِ واماندگاں کرے کوئی

کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی
فکرِ واماندگاں کرے کوئی
تیرے آوارگانِ غربت کو
شاملِ کارواں کرے کوئی
زندگی کے عذاب کیا کم ہیں
کیوں غمِ لامکاں کرے کوئی
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے
اب کسے رازداں کرے کوئی
اس چمن میں برنگِ نکہتِ گل
عمر کیوں رائگاں کرے کوئی
شہر میں شور، گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
یہ خرابے ضرور چمکیں گے
اعتبارِ خزاں کرے کوئی
ناصر کاظمی

دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے

کچھ توں احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اُٹھتا ہوں
نشۂ خوابِ گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے
سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے
اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو اک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبورِ فغاں تھا پہلے
ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق
شعلہ پتھر میں نہاں تھا پہلے
ہم نے روشن کیا معمورۂ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے
ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے
ناصر کاظمی

دل کا شعلہ زباں نے چھین لیا

لبِ معجز بیاں نے چھین لیا
دل کا شعلہ زباں نے چھین لیا
دل مرا شب چراغ تھا جس کو
مژۂ خوں فشاں نے چھین لیا
عمر بھر کی مسرتوں کا خمار
خلشِ ناگہاں نے چھین لیا
تیرا ملنا تو خیر مشکل تھا
تیرا غم بھی جہاں نے چھین لیا
آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئی
سب مزہ رفتگاں نے چھین لیا
ہر گھڑی آسماں کو تکتا ہوں
جیسے کچھ آسماں نے چھین لیا
باغ سنسان ہو گیا ناصر
آج وہ گل خزاں نے چھین لیا
ناصر کاظمی

دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور

دُور اِس تیرہ خاکداں سے دُور
دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور
آنے والی بہار کے افسوں
دیکھ ویرانۂ خزاں سے دُور
پھول جلتے ہیں شاخچوں سے جدا
شمع روتی ہے شمعداں سے دُور
شہر خلقِ خدا سے بیگانہ
کارواں میرِ کارواں سے دُور
تیرے زندانیوں کی کون سنے
برق چمکی ہے آشیاں سے دُور
چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں
چاند نکلا ہے آسماں سے دُور
سو گیا پچھلی رات کا جادو
کوئی اب لے چلے یہاں سے دُور
دل عجب گوشۂ فراغت ہے
کیوں بھٹکتے ہو اس مکاں سے دُور
کوئی سنتا نہیں یہاں ناصر
بات دل کی رہی زباں سے دور
ناصر کاظمی

خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے
خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اُڑ رہا ہے پھُولوں کا
غنچہ غنچہ شررفشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش رُبا
کچھ مری شوخیٔ بیاں بھی ہے
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
وجہِ تسکیں بھی ہے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے
ناصر کاظمی

زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
نگاہ میں ہے جو منظر بہ جُز گماں کیا ہے
زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے
یہ جانتے ہیں مسافر فقط اندھیروں کے
ستارۂ سحری کیا ہے، کہکشاں کیا ہے
نظر میں لا کے تنِ برگِ زرد کا لرزہ
کُھلا یہ ہم پہ کہ اندیشۂ خزاں کیا ہے
گدا گدا ہے سو کُتّوں کا سامنا ہے اُسے
غنی کے واسطے آوازۂ سگاں کیا ہے
زوالِ عمر تلک ہم نہ سُرخرو ٹھہرے
حیات!تُجھ سا کوئی اور امتحاں کیا ہے
کوئی رہا ہے نہ ماجِد کسی نے رہنا ہے
تو پھر یہ مضحکۂ رنجِ رفتگاں کیا ہے
ماجد صدیقی

اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
خاک میں ملنے پہ در آتے زماں کی بات کر
اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر
تیرنے کو ہیں یہ نیّائیں فراتِ زیست میں
بات کر ایقان کی یا تُو گماں کی بات کر
ہاں وہی جو ہم نے حفظِ جاں کو حاصل کی نہیں
اور ہمیں پر جو تنی ہے اُس کماں کی بات کر
جس کے فیض و غیض ہر دو میں دوگونہ لطف ہے
چھوڑ سارے مخمصے اُس جانِ جاں کی بات کر
ہم فرشتے تو نہیں،نوری ہوں کیا خاکی سے ہم
اے زمیں زادے! نہ ہر دم آسماں کی بات کر
غیر ہیں جو گنبد و مِینار ماجِد کیا ہیں وُہ
دیس سے نکلا ہے اپنے آستاں کی بات کر
ماجد صدیقی

جو برگ ہے پہلو میں لئے خوفِ خزاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
پیڑوں میں بھی پہلی سی طراوت وُہ کہاں ہے
جو برگ ہے پہلو میں لئے خوفِ خزاں ہے
مت پوچھ کہ ہے کیسے ستاروں سے مرتّب
آنکھوں کے اُفق پر جو سجی کاہکشاں ہے
سیلاب سا منظر ہے نظر جائے جدھر بھی
گھیراؤ میں موجوں کے ہے جو شخص جہاں ہے
اُس برگ سی تازہ ہے تمّنائے بقا بھی
جو ٹُوٹ کے ٹہنی سے سرِآب، رواں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجد صدیقی

شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
پرندوں سے تھا ہم سخن جو، وُہی بے زباں ہو گیا ہے
شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے
کسی برگ پر جیسے چیونٹی کوئی تیرتے ڈولتی ہو
ہواؤں کی زد پر کچھ ایسا ہی ہر آشیاں ہو گیا ہے
کسی ابر پارے کو بھی آسماں پر نہ اَب شرم آئے
بگولہ ہی جیسے سروں پر تنا سائباں ہو گیا ہے
سمٹتے ہوئے کور لمحوں کی بوچھاڑ برسا رہا ہے
مہِ نو بھی جیسے اُفق پر تنی اِک کماں ہو گیا ہے
لگے اِس طرح جیسے دل بھی شکم ہی کے زیرِنگیں ہو
کہ دربار بھی اَب تو، مُحبوب کا آستاں ہو گیا ہے
مسافت سے پہلے بھی کم تو نہ تھی کچھ گھُٹن ساحلوں کی
چلے ہیں تو اَب مشتِ کنجوس کی بادباں ہو گیا ہے
نجانے بھروسہ ہے کیوں اُس کی نیّت پہ ماجدؔ دلوں کو
وہ حرفِ تسلی تلک جس کا سنگِ گراں ہو گیا ہے
ماجد صدیقی

مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
معاملہ ہی رہائی کا اُس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
مثالِ ریگ ہوا نے اُسے بکھیرا ہے
جو لختِ ابر کبھی اپنے گلستاں پر تھا
یہ کربِ عجز تو ماتھا ہی جانتا ہے مرا
گُہر مراد کا کس کس کے آستاں پر تھا
ثمر تو تھے ہی مگر سنگ بھی تھے شاخوں پر
وُہ جن کا بوجھ مسلسل شجر کی جاں پر تھا
نشیبِ خاک سے کیا اُس کی پیروی کرتے
مقدّمہ ہی ہمارا جب آسماں پر تھا
لُٹے بھی گر تو زباں پر نہ ہم کبھی لائے
وہ اِتّہام کہ ہر دَور میں خزاں پر تھا
بھُلا سکے نہ وہ پل اُس کے قُرب کا ماجدؔ!
جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پرنیاں پر تھا
ماجد صدیقی

دل کو تسکین کہاں سے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
روز اک آنچ سی جاں سے آئے
دل کو تسکین کہاں سے آئے
کس توقع پہ لیا نام ترا
ایک خوشبو سی دہاں سے آئے
ضبط سے جسم پگھلتے ہوں جہاں
ہو کے ہم لوگ وہاں سے آئے
جسم آیا ہے کھنڈر ہونے کو
کیا خبر اور خزاں سے آئے
اتنا روئے ہیں مسلسل کہ ہمیں
اب تو دہشت سی فغاں سے آئے
لُطفِ مضموں بھی جُدا ہے ماجدؔ
کیا مزہ تیری زباں سے آئے
ماجد صدیقی

بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
نہ باز آئے یہ لُو اور نہ تن سے جاں نکلے
بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے
ہمیں بہار کے ہونٹوں کی نرمیوں کے امیں
ہمیں وہ برگ کہ پیغمبرِ خزاں نکلے
جہاں گلاب سخن کے سجائے تھے ہم نے
شرر بھی کچھ اُنہی حرفوں کے درمیان نکلے
زخستگی لبِ اظہار کا تو ذکر ہی کیا
کشش سے جیسے قلم کی بھی اب دھواں نکلے
ہمارا حال جبیں سے ہی جاننا اچھا
زباں سے کیا کوئی اب کلمۂ گراں نکلے
حضورِ یار ہیں وہ جاں سپار ہم ماجدؔ
ہو حکمِ قتل بھی اپنا تو منہ سے ہاں نکلے
ماجد صدیقی

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

کرلی ہے مفاہمت خزاں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی

پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کانٹوں کے درمیاں گلِ تر کا نشاں بھی دیکھ
پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ
ہاتھوں میں میرے، صفحۂ سادہ پہ کر نظر
اظہارِ غم کو ترسی ہوئی انگلیاں بھی دیکھ
تو اور سراپا بس میں ہمارے ہو! ہائے ہائے!!
ہم پر یہ ایک تہمتِ اہلِ جہاں بھی دیکھ
تھا زیست میں بہار کا طوفاں بھی پل دو پل
اِس بحر میں تموّجِ گردِ خزاں بھی دیکھ
سہمی ہوئی حیات کو یُوں مختصر نہ جان
لمحے میں جھانک اور اسے بیکراں بھی دیکھ
ردّی کے بھاؤ بیچا گیا ہوں کسی کے ہاتھ
لے کُو بکُو بکھرتی مری داستاں بھی دیکھ
ماجدؔ ہے جس کا شور سماعت میں اَب تلک
اُس سیلِ تند و تیز کے چھوڑے نشاں بھی دیکھ
ماجد صدیقی

تری بہار تو کیا ہے خزاں نہیں رہتی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 90
ہوا کسی کی بھی اے باغباں نہیں رہتی
تری بہار تو کیا ہے خزاں نہیں رہتی
سنے جو حشر میں شکوے نظر بدل کئے
کہیں بھی بند تمھاری زباں نہیں رہتی
نہ دے تسلیاں صیاد برق گرنے پر
یہ بے جلائے ہوئے آشیاں نہیں رہتی
کئے جو سجدے تو دیر و حرم پکار اٹھے
خدا کی ذات مقید یہاں نہیں رہتی
قمر وہاں سے میں کشتی بچا کہ لایا ہوں
کسی کی ناؤ سلامت جہاں نہیں رہتی
قمر جلالوی

ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 52
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
بیت الحزن میں نغمۂ شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز
صبحِ شبِ وصال نیِ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز
ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز
کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز
جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز
ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز
مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز
اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز
اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکۂ آسماں ہنوز
نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز
آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز
اے موجۂ نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز
مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز
آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
مصطفٰی خان شیفتہ

جانِ جاں ، جانانِ جاں ، افسوس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 108
سود ہے میرا زیاں ، افسوس میں
جانِ جاں ، جانانِ جاں ، افسوس میں
رائگانی میں نے سونپی ہے تجھے
اے مری عمرِ رواں ، افسوس میں
اے جہانِ بے گمان و صد گماں
میں ہوں اوروں کا گماں ، افسوس میں
نا بہ ہنگامی ہے میری زندگی
میں ہوں ہر دم نا گہاں ، افسوس میں
زندگی ہے داستاں افسوس کی
میں ہوں میرِ داستاں ، افسوس میں
اپنے برزن اپنے ہی بازار میں
اپنے حق میں ہوں گراں ، افسوس میں
گم ہوا اور بے نہائت گم ہوا
مجھ میں ہے میرا سماں ، افسوس میں
میرے سینے میں چراغِ زندگی
میری انکھوں میں دھواں ، افسوس میں
مجھ کو جز پرواز کوئی چارہ نہیں
ہوں میں اپنا آشیاں ، افسوس میں
ہے وہ مجھ میں بے اماں ، افسوس وہ
ہوں میں اس میں بے اماں ، افسوس میں
خود تو میں ہوں یک نفس کا ماجرا
میرا غم ہے جاوداں ، افسوس میں
ایک ہی تو باغِ حسرت ہے میرا
ہوں میں اس کی ہی خزاں ، افسوس میں
اے زمین و آسماں ،، افسوس تم
اے زمین و آسماں ، افسوس میں
جون ایلیا

صحن ہوا دھواں دھواں ! شام بخیر شب بخیر ۔۔۔

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 51
جاؤ قرار بے دلاں ! شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں ! شام بخیر شب بخیر ۔۔۔
شام وصال ہے قریب ، صبح کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سر گراں ، شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں
جسم بہ جسم جاں بہ جاں، شام بخیر شب بخیر
اے مرے شوق کی امنگ میرے شباب کی ترنگ
تجھ پہ شفق کا سائباں، شام بخیر شب بخیر
تو مری شاعری میں ہے رنگِ طراز و گل فشاں
تیری بہار بے خزاں، شام بخیر شب بخیر
تیرا خیال خواب خواب خلوتِ جاں کی آب و تاب
جسم جمیل و نوجواں، شام بخیر شب بخیر
ہے مرا نام ارجمند تیرا حصارِ سر بلند
بانو شہر جسم و جاں، شام بخیر شب بخیر
درد سے جان دید تک دل سے رخِ امید تک
کوئی نہیں ہے درمیاں، شام بخیر شب بخیر
ہو گئی دیر جاؤ تم مجھ کو گلے لگاؤ تم
تو مری جاں ہے مری جاں، شام بخیر شب بخیر
شام بخیر شب بخیر، موجِ شمیمِ پیرہن
تیری مہک رہے گی یاں، شام بخیر شب بخیر
زاہدہ حنا کے نام
جون ایلیا

جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 186
ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشوارئِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ
مرزا اسد اللہ خان غالب

نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں

دیوان چہارم غزل 1445
ہے وضع کشیدہ کا جو شور اس کے جہاں میں
نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں
ہر طور میں ہم حرف و سخن لاگ سے دل کی
کیا کیا کہیں ہیں مرغ چمن اپنی زباں میں
کیا بائو نے بھی دست تطاول کو دیا طول
پھیلے پڑے ہیں پھول ہی سب اب کے خزاں میں
خوش رنگ ہے کس مرتبہ انہار کا پانی
خوناب مری چشم کا ہے آب رواں میں
روئو مرے احوال پہ جوں ابر بہت میر
بے طاقتی بجلی کی سی ہے آہ و فغاں میں
میر تقی میر

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

دیوان اول غزل 321
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں
پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایہ رو زلف بتاں ہوں
دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوں
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبش لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیر زباں ہوں
ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں
رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں
اک وہم نہیں بیش مری ہستی موہوم
اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں
خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھے مجھے میر
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں
میر تقی میر

بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 58
کوئی ضرور آئے گا، اُسکو یہاں لئے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے
رہتا ہے دور سے پرے، حدِّشعور سے پرے
حلقۂ بے محیط میں کون و مکاں لئے ہوئے
اتنے قریب و دور سے اُس کے لبوں کو دیکھنا
لذتیں نارسائی کی زیرِ زباں لئے ہوئے
ہاں میں نہیں ، نہیں میں ہاں ، اُسکی ادائے دلبری
لب پہ غزل کی طرز کا رنگِ بیاں لئے ہوئے
زانوئے شاخ پر کوئی سویا ہوا گلاب سا
گود میں اپنے لال کو بیٹھی ہے ماں لئے ہوئے
دے کے صدا گزر گیا، کوئی گدا گزر گیا
کاسہء گردباد میں رزقِ خزاں لئے ہوئے
آفتاب اقبال شمیم

جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فیض احمد فیض

جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں

مجید امجد ۔ غزل نمبر 61
ضمیرِ رازداں ہے اور میں ہوں
جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں
درِ پیرِ مغاں ہے اور میں ہوں
وہی رطلِ گراں ہے اور میں ہوں
وہی دورِ زماں ہے اور میں ہوں
وہی رسمِ فغاں ہے اور میں ہوں
فریبِ رنگ و بو ہے اور تم ہو
بہارِ صد خزاں ہے اور میں ہوں
جہاں ہے اور سکوتِ نیم شب ہے
مرا قلبِ تپاں ہے اور میں ہوں
یہ دو ساتھی نہ جانے کب بچھڑ جائیں
مری عمر رواں ہے اور میں ہوں
مجید امجد

فریب خوردہ تھے ہر مہرباں کے ساتھ چلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 216
نہ اپنے دل کے نہ اپنی زباں کے ساتھ چلے
فریب خوردہ تھے ہر مہرباں کے ساتھ چلے
کتاب دور جہاں کے وہ لفظ ہیں ہم لوگ
ہر اک فسانے ہر اک داستاں کے ساتھ چلے
وہ پی کے ہوش میں آئے کہ ہوش کھو بیٹھے
کھچ ایسے قصّے مئے ارغواں کے ساتھ چلے
کہاں کا سود کہ اپنا خیال بھی نہ رہا
زیاں کی فکر میں ہم ہر زیاں کے ساتھ چلے
یہ رُخ بھی کش مکش زندگی کا دیکھا ہے
جہاں کی بات نہ کی اور جہاں کے ساتھ چلے
ہمارے خون سے ابھریں چمن کی دیواریں
ہمارے قصّے بہار و خزاں کے ساتھ چلے
کچھ اس طرح بھی کیا ہم نے طے سفر باقیؔ
نشان بن کے ہر اک بے نشاں کے ساتھ چلے
باقی صدیقی

کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 139
چشمک ہم سفراں یاد نہیں
کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں
دل شوریدہ سے الجھا تھا کوئی
تم تھے یا درد جہاں یاد نہیں
ہم تھے شاکی کہ جہاں تھا شاکی
کون تھا کس پہ گراں یاد نہیں
زندگی چال نہ چل جائے کہیں
کوئی بھی اپنا نشاں یاد نہیں
ہم کہاں ہیں کہ ہمیں اب کچھ بھی
جز حدیث دگراں یاد نہیں
آگ گلشن میں لگی تھی باقیؔ
فصل گل تھی کہ خزاں یاد نہیں
باقی صدیقی

اس چپ میں بھی ہے جی کازیاں بولتے رہو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 98
کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو
اس چپ میں بھی ہے جی کازیاں بولتے رہو
ہر یاد، ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ
یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو
موج صدائے دل پہ رواں ہے حصار زیست
جس وقت تک ہے منہ میں زباں بولتے رہو
اپنا لہو ہی رنگ ہے، اپنی تپش ہی بو
ہو فصل گل کہ دور خزاں بولتے رہو
قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے
لمبا سفر ہے ہمسفراں بولتے رہو
ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا
تم بھی بطرز شیشہ گراں بولتے رہو
باقیؔ جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
باقی صدیقی