ٹیگ کے محفوظات: جواب

ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟

کِسی نے میرا وہ دَورِ عَذاب دیکھا تھا؟
ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟
اَبھی اَبھی تَو یَہاں تھے وہ گفتگو بھی ہوئی
یَقین ہی نہیں آتا کہ خواب دیکھا تھا
کَہا ہے کِس نے کہ آباد و شاد ہے اَب تَو
کِسی نے کیا دِلِ خانہ خَراب دیکھا تھا
عَجیِب شَخص تھا ٹھَنڈَک بھی تھا تَمازَت بھی
وہ آفتاب تھا یا ماہتاب دیکھا تھا
شَرابِ حُسن سے گَر ہو نہ تِشنَگی سیراب
جَواز یہ ہے کہ تُو نے سَراب دیکھا تھا
عجیب دَور تھا ایک ایک پَل تھی نیند حَرام
اَور اُس پہ دونوں نے اِک مِل کَے خواب دیکھا تھا
خدا ہی جانے وہ دن تھا کہ رات تھی ضامنؔ
طُلُوعِ صُبح سے قَبل آفتاب دیکھا تھا
ضامن جعفری

ذرا دوہرا مرا عہدِ شباب آہستہ آہستہ

دِکھا چشمِ تصوّر پھر وہ خواب آہستہ آہستہ
ذرا دوہرا مرا عہدِ شباب آہستہ آہستہ
کسی کے مصحفِ رُخ پر نگاہیں جَم کَے رہ جائیں
پڑھی جائے بَہ فُرصَت یہ کتاب آہستہ آہستہ
نیازِ عشق و نازِ حسن ہَوں مصروفِ سرگوشی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
کوئی مدہوش دزدیدہ نظر اُٹھ اُٹھ کے جھُکتی ہو
خموشی چار سُو محوِ خطاب آہستہ آہستہ
نگاہوں میں ہو بحرِ سرخوشی اُور وہ سرِ ساحل
پٹکتے پھِر رہے ہَوں سر حباب آہستہ آہستہ
گذرتا وقت وہ اُستاد ہے اَزبَر کرا دے گا
کتابِ زندگی کے سارے باب آہستہ آہستہ
نوشتِ برق رفتاری ہے تاریخِ نگاہ و دل
پڑھی جاتی ہے لیکن یہ کتاب آہستہ آہستہ
دیارِ حُسن میں اَب راج ہو گا عشق کا، ضامنؔ!
میں برپا کر رہا ہُوں انقلاب آہستہ آہستہ
ضامن جعفری

ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب

اُن پہ لاتی نہیں عذاب کتاب
ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب
کبھی سورج کی آب و تاب کتاب
ہے کبھی سایہء سحاب کتاب
لکھ رہا ہوں میں آجکل واعظ
تیری تقریر کا جواب کتاب
آپ ہی نے تو کی تھی فرمائش
لیجیے پیش ہے جناب کتاب
ہم سے باصِرؔ کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شاملِ نصاب کتاب
باصر کاظمی

دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں

حالات خراب ہو گئے ہیں
دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں
آسان سوال تھے اگرچہ
دشوار جواب ہو گئے ہیں
لیتی تھیں گھٹائیں جن سے رنگ
محتاجِ خضاب ہو گئے ہیں
راتیں ہیں پہاڑ سی اور دن
مانندِ حباب ہو گئے ہیں
جو کام کبھی گُنہ تھے باصرِؔ
اب کارِ ثواب ہو گئے ہیں
باصر کاظمی

تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب

چشمِ کم سے دیکھتا ہے کیوں مِری چشمِ پُر آب
تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب
یوں گزرتی جا رہی ہے زندگی کی دوپہر
دل میں اک امیدِ کاذب اور آنکھوں میں سراب
خود سَری اُس تُند خو کی جاتے جاتے جائے گی
ایک ہی دن میں کبھی آتا نہیں ہے انقلاب
تم نے ہم کو کیا دیا اور ہم سے تم کو کیا مِلا
مِل گئی فرصت کبھی تو یہ بھی کر لیں گے حساب
ہم کو اپنا شہر یاد آتا نہ شاید اِس قدر
کیا کریں رہتا ہے تیرے شہر کا موسم خراب
ایک خط لکھ کر سمجھنا فرض پورا ہو گیا
واہ باصرِؔ جی تمہارا بھی نہیں کوئی جواب
باصر کاظمی

میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
نئی رُتوں،نئی فصلوں کی تاب دے مُجھ کو
میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو
جو مُجھ کو حوصلہ، جِینے کا حوصلہ دے دیں
اُڑوں میں جِن کے سہارے وُہ خواب دے مُجھ کو
یہ تُو جو خود ہی کرے شاد، پِھر کرے ناشاد
یہ کیا مذاق ہے بس یہ جواب دے مُجھ کو
مری بساط بھی دیکھ اے خُدا! خُدا ہے جو تُو
میں جِن کا اہل ہوں ایسے عذاب دے مُجھ کو
ہُوا جو مجھ پہ ہر اُس ظلم کی تلافی ہو
مرے زماں!کوئی ایسا خطاب دے مُجھ کو
مجھے جو دے تو کوئی نعمتِ فراواں دے
تووں سا تپنے لگا ہُوں سحاب دے مُجھ کو
لہو کے بیچ سے جو حِدّتِ سکوں بخشے
رگوں سے خِلق ہو جو وُہ شراب دے مُجھ کو
ماجد صدیقی

جُگ بیت گئے ماجدؔ، اِس جاں پہ عذاب آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
پتھر کے تلے اگتے اور زیرِ عتاب آئے
جُگ بیت گئے ماجدؔ، اِس جاں پہ عذاب آئے
پھر اِذن دیا اُس نے، اظہارِ غم دل کا
پھر شاخِ لب و جاں پر، کھِلنے کو گلاب آئے
مائل ہوں جو شفقت پر اور جانیں، برسنا بھی
کھیتوں پہ لئے بوندیں ایسی، نہ سحاب آئے
ایوان نشینوں سے کیا آس، مُرادوں کی
کٹیاؤں کو پہلے بھی کب ایسے جواب آئے
جب بادِ صبا تک نے، لی ذات بدل اپنی
پودوں کے قد و رُخ پر، کیا رنگِ شباب آئے
جس طور لپکتی ہیں لینے کو، ہمیں موجیں
اُس پار کا ساحل بھی، اے کاش! شتاب آئے
ماجد صدیقی

ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
وُہ رُوئے روشن، وُہ حسن کا انتخاب آئے
ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے
سوال جو بھی کرو گے اس گنبدِ فلک میں
تمہارا اپنا کہا ہی بن کر جواب آئے
وُہ گل بہ شاخِ نظر ہو یا آس کا ثمر ہو
جِسے بھی آنا ہے پاس اپنے شتاب آئے
کھِنچا کھنچا سا لگے وُہ سانسوں میں بسنے والا
برس ہوئے ہیں ہمِیں پہ اِک یہ عتاب آئے
جھُلانے آئیں نہ رات کی رانیوں سی نیندیں
نہ لوریوں کو کہیں کوئی ماہتاب آئے
فلک سے اُتری ہے برق کب بُوند بُوند ماجدؔ
زدستِ انساں ہی خاک پر ہر عذاب آئے
ماجد صدیقی

نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جو نہیں ہے تُو، تو یہ ماہتاب ہے سامنے
نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے
ہے رواں لُہو میں ترے ہی لمس کا ذائقہ
شب و روز اک یہی عکسِ خواب ہے سامنے
وُہی جس کی آس مشامِ جاں کو رہی سدا
سرِ شاخِ شب وُہ کھِلا گلاب ہے سامنے
تری دید ہے کہ نظر میں حرف سُرور کے
ترا قرب ہے کہ کھُلی کتاب ہے سامنے
یہی شے تو وجہِ قیام خیمۂ لُطف ہے
یہ جو دو حدوں میں تنی طناب ہے سامنے
ہے تجھی سی پیاس اِسے بھی لختِ زمین جاںِ
یہی جو نظر میں تری سحاب ہے سامنے
وُہی کھو گئی تھی جو تُجھ سے ماجدِ ؔ بے سکوں
وُہی دیکھ! ساعتِ اضطراب ہے سامنے
ماجد صدیقی

مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
حجلے سے واہموں کے نکلتا ہوں خواب میں
مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں
کیوں سر پہ آ پڑا ہے یہ خیمہ سکون کا
آیاہے جھول کس کی نظر کی طناب میں
شایدکہیں تو لطف کا دریا رواں ملے
کہسار سر کئے ہیں اِسی اضطراب میں
وہ ابرِ لخت لخت حجابوں کا اور وہ تو
کیا لذّتیں تھیں مجھ سے ترے اجتناب میں
پیاسی زمیں پہ وہ بھی مجھی سا تھا مہرباں
خُو بُو تھی کچھ مجھی سی مزاجِ سحاب میں
ہر حرف چاہتا تھا اُسی پر رکے رہیں
کیا کیا تھے باب اُس کے بدن کی کتاب میں
انساں تھا وہ بھی میری طرح ہی انا شکار
تھوکا ہے، اس نے بھی مرے منہ پر جواب میں
ماجدؔ قلم کو تُو بھی نمِ دل سے آب دے
نکلی ہیں دیکھ کونپلیں شاخِ گلاب میں
ماجد صدیقی

وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 100
دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے
کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے
زمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترے
میں اُس سے کُھل کے ملوں ،سوچ کا حجاب اُترے
وہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترے
اُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میں
کوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترے
کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
فصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پر
تراجمال کبھی صُورت سحاب اُترے
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی
نوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوں
مثالِ قطرہ ءِ شبنم ترا جواب اُترے
تری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیں
سفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترے
پروین شاکر

وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 22
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ،لُہو کو چناب کر دے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اورلا جواب کر دے گا
اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سےپہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا
سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی
تُمھاری یاد کے نام اِنتساب کر دے گا
پروین شاکر

برائی دیکھی، بھلائی دیکھی، عذاب دیکھا، ثواب دیکھا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 21
ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب عجب انتخاب دیکھا
برائی دیکھی، بھلائی دیکھی، عذاب دیکھا، ثواب دیکھا
نہ دل ہی ٹھہرا، نہ آنکھ جھپکی، نہ چین پایا، نہ خواب آیا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو، جو دوستی میں عذاب دیکھا
نظر میں ہے تیری کبریائی، سما گئی تیری خود نمائی
اگر چہ دیکھی بہت خدائی، مگر نہ تیرا جواب دیکھا
پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کلیم دیکھوں تو جب بھی خوش تھے
ہم اس کی آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلوہ یوں بے حجاب دیکھا
یہ دل تو اے عشق گھر ہے تیرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تالا دیکھا، تجھی کو خانہ خراب دیکھا
جو تجھ کو پایا تو کچھ نہ پایا، یہ خاکداں ہم نے خاک پایا
جو تجھ کو دیکھا تو کچھ نہ دیکھا، تمام عالم خراب دیکھا
داغ دہلوی

شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 237
مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے
آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے
کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے
اس سے نبھے گا رشتۂِ سودوزیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بَلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے
امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی
یعنی کہ شہرِ دل کا حال اور خراب چاہیے
جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو
تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے
کھل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و امید
جون اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے
جون ایلیا

دل کی حالت بہت خراب نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 131
کیا یہ آفت نہیں عذاب نہیں
دل کی حالت بہت خراب نہیں
بُود پَل پَل کی بے حسابی ہے
کہ محاسب نہیں حساب نہیں
خوب گاؤ بجاؤ اور پیو
ان دنوں شہر میں جناب نہیں
سب بھٹکتے ہیں اپنی گلیوں میں
تا بہ خود کوئی باریاب نہیں
تُو ہی میرا سوال ازل سے ہے
اور ساجن تیرا جواب نہیں
حفظ ہے شمسِ بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں
تجھ کو دل درد کا نہیں احساس
سو میری پنڈلیوں کو داب نہیں
نہیں جُڑتا خیال کو بھی خیال
خواب میں بھی تو کوئی خواب نہیں
جون ایلیا

میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 129
اب کسی سے میرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ میرا خون ہے ، شراب نہیں
میں شرابی ہوں میری آس نا چھین
تو میری آس ہے شراب نہیں
نوچ پھینکے میں نے لبوں سے سوال
طاقتِ شوخیِ جواب نہیں
اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اب خود جیسا آب دو آب نہیں
غم آباد کا نہیں ہے آن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں
جون ایلیا

لَبِ دریا سراب بیچے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 124
سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
لَبِ دریا سراب بیچے ہیں
اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
خود سوال ان لبوں سے کرکے میاں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں
زُلف کوچوں میں شانہ کش نے ترے
کتنے ہی پیچ و تاپ بیچے ہیں
شہر میں خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں
جانِ مَن تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں
میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں
جون ایلیا

خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 35
تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا
مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا
نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا
دوستو۔۔ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
جون ایلیا

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 255
رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے
بالِ تَدَر و@ جلوۂ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
@ تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 184
نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نـہ ہو بـہ ہـرزہ روادارِ سـعـئ بـے ہـودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ
بـہ ہر نـمـط غـمِ دل باعـثِ مسـرّت ہے
نموۓ حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ
لـگاؤ اس کا ہـے بـاعـث قــیامِ مسـتی کا
ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ
ہـزار حـیف کـہ اتنـا نـہیں کـوئ غالب
کہ جاگنے کو ملا دے وے آکے خواب کے ساتھ
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 168
کب سے ہُوں، کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب

دیوان ششم غزل 1810
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب
بگڑا بنا ہوں عشق سے سو بار عاقبت
پایا قرار یہ کہ رہوں میں خراب اب
خوں ریزی عاشقوں کی ہے ظالم اگر ثواب
تو تو ہوا ہے تجھ کو بہت سا ثواب اب
بھڑکی دروں میں آتش سوزندہ عشق کی
دل رہ گیا ہے پہلو میں ہوکر کباب اب
ہوں اس بہشتی رو سے جدا میں جحیم میں
رہتا ہے میری خاک کو ہر دم عذاب اب
قاصد جو آیا چپ ہے نشاں خط کا کچھ نہیں
دیکھیں جو لاوے باد کوئی کیا جواب اب
کیا رنج و غم کو آگے ترے میں کروں شمار
یاں خود حسابی میری تو ہے بے حساب اب
جھپکی ہیں آنکھیں اور جھکی آتی ہیں بہت
نزدیک شاید آیا ہے ہنگام خواب اب
آرام کریے میری کہانی بھی ہوچکی
کرنے لگو گے ورنہ عتاب و خطاب اب
جانا سبھوں نے یہ کہ تو معشوق میر ہے
خلع العذار سے نہ گیا ہے حجاب اب
میر تقی میر

سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو

دیوان پنجم غزل 1714
کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو
سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو
گل کو دیکھ کے گلشن کے دروازے ہی سے پھر آیا
کیا مل بیٹھیے اس سے بھلا جو صحبت ہی کا باب نہ ہو
مستی خرابی سر پر لائی کعبے سے اٹھ دیر گیا
جس کو خدا نے خراب کیا ہو پھر وہ کیونکے خراب نہ ہو
خلع بدن کرنے سے عاشق خوش رہتے ہیں اس خاطر
جان و جاناں ایک ہیں یعنی بیچ میں تن جو حساب نہ ہو
خشم و خطاب جبیں پر چیں تو حسن ہے گل رخساروں کا
وہ محبوب خنک ہوتا ہے جس میں ناز و عتاب نہ ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حد و حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یارب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو
صبر بلا ہاے عشقی پر حوصلے والے کرتے ہیں
رحمت ہے اس خستہ جگر کو دل جس کا بیتاب نہ ہو
جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو
نہریں چمن کی بھر رکھی ہیں گویا بادئہ لعلیں سے
بے عکس گل و لالہ الٰہی ان جویوں میں آب نہ ہو
اس دن میں تو مستانہ ہوتا ہوں کوئی کوچہ گدا
جس دن کاسۂ چوبیں میں میرے یک جرعہ بھی شراب نہ ہو
تہ داری کچھ دیدئہ تر کی میر نہیں کم دریا سے
جوشاں شور کناں آجاوے یہ شعلہ سیلاب نہ ہو
میر تقی میر

دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں

دیوان پنجم غزل 1694
عشق نے ہم کو مار رکھا ہے جی میں اپنے تاب نہیں
دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں
کوئی سبب ایسا ہو یارب جس سے عزت رہ جاوے
عالم میں اسباب کے ہیں پر پاس اپنے اسباب نہیں
قحط نہیں ہے دل کا اب من مارے تم کیوں پھرتے ہو
لینے والا چاہیے اس کا ایسا تو کمیاب نہیں
خط کا جواب نہ لکھنے کی کچھ وجہ نہ ظاہر ہم پہ ہوئی
دیر تلک قاصد سے پوچھا منھ میں اس کے جواب نہیں
رونا روز شمار کا مجھ کو آٹھ پہر اب رہتا ہے
یعنی میرے گناہوں کو کچھ حصر و حد وحساب نہیں
رنگ شکستہ دل ہے شکستہ سر ہے شکستہ مستی میں
حال کسو کا اپنا سا اس میخانے میں خراب نہیں
ٹھہریں میر کسو جاگہ ہم دل کو قرار جو ٹک آوے
ہوکے فقیر اس در پر بیٹھیں اس کے بھی ہم باب نہیں
میر تقی میر

خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1614
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر
خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر
پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے جی ہی اپنا
مجھ سے اٹھیں گے اس کے ناز و عتاب کیونکر
اس بحر میں ہے مٹنا شکل حباب ہر دم
ابھرا رہے ہمیشہ نقش پرآب کیونکر
پانی کے دھوکے پیاسے کیا کیا عزیز مارے
سر پر نہ خاک ڈالے اپنے سراب کیونکر
آب رواں نہ تھا کچھ وہ لطف زندگانی
جاتی رہی جوانی اپنی شتاب کیونکر
سینے میں میرے کب سے اک سینک ہی رہے ہے
قلب و کبد نہ ہوویں دونوں کباب کیونکر
شلّاق خواری کی تھی خجلت جو کچھ نہ بولا
منھ کیا ہے نامہ بر کا نکلے جواب کیونکر
سوز دل و جگر سے جلتا ہے تن بدن سب
میں کیا کوئی ہو کھینچے ایسے عذاب کیونکر
چہرہ کتابی اس کا مجموعہ میر کا ہے
اک حرف اس دہن کا ہوتا کتاب کیونکر
میر تقی میر

گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1613
روزوں میں رہ سکیں گے ہم بے شراب کیونکر
گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر
تھوڑے سے پانی میں بھی چل نکلے ہے اپھرتا
بے تہ ہے سر نہ کھینچے اک دم حباب کیونکر
چشمے بحیرے اب تک ہیں یادگار اس کے
وہ سوکھ سب گئی ہے چشم پرآب کیونکر
دل کی طرف کا پہلو سب متصل جلے ہے
مخمل ہو فرش کیوں نہ آوے گی خواب کیونکر
اول سحور کھانا آخر صبوحی کرنا
آوے نہ اس عمل سے شرم و حجاب کیونکر
اجڑے نگر کو دل کے دیکھوں ہوں جب کہوں ہوں
اب پھر بسے گی ایسی بستی خراب کیونکر
جرم و ذنوب تو ہیں بے حد و حصر یارب
روزحساب لیں گے مجھ سے حساب کیونکر
پیش از سحر اٹھے ہے آج اس کے منھ کا پردہ
نکلے گا اس طرف سے اب آفتاب کیونکر
خط میر آوے جاوے جو نکلے راہ ادھر کی
نبھتا نہیں ہے قاصد لاوے جواب کیونکر
میر تقی میر

ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے

دیوان چہارم غزل 1513
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے
ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے
عشق میں دل بہت ہے بے آرام
چین دیوے تو کوئی خواب کرے
وقت یاں کم ہے چاہیے آدم
کرنا جو کچھ ہو سو شتاب کرے
پھاڑ کر خط کو ان نے پھینک دیا
نامہ بر اس کا کیا جواب کرے
ہے برافروختہ جو خشم سے وہ
آتش شعلہ زن کو آب کرے
ہے تو یک قطرہ خون ہی لیکن
قہر ہے دل جو اضطراب کرے
میر اٹھ بت کدے سے کعبے گیا
کیا کرے جو خدا خراب کرے
میر تقی میر

آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب

دیوان چہارم غزل 1353
کیا گئی جان و دل سے تاب شتاب
آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب
ہلیں وے پلکیں اور کیے رخنے
حال دل ہو گیا خراب شتاب
یوں صبا بھی سبک نہیں جاتی
جوں گیا موسم شباب شتاب
پیر ہوکر ہوا ہوں یوں غافل
جیسے لڑکوں کو آوے خواب شتاب
مرتے ہیں ہو جواب نامہ وہی
آوے خط کا اگر جواب شتاب
مہربانی تو دیر میں ہے کبھو
ہے دل آزاری و عتاب شتاب
یاں قدم چاہیے رکھیں گن کر
میر لے ہے کوئی حساب شتاب
میر تقی میر

اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا

دیوان چہارم غزل 1349
چاہت کا اظہار کیا سو اپنا کام خراب ہوا
اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
ساری ساری راتیں جاگے عجز و نیاز و زاری کی
تب جاکر ملنے کا اس کے صبح کے ہوتے جواب ہوا
کیا کہیے مہتاب میں شب کی وہ بھی ٹک آبیٹھا تھا
تاب رخ اس مہ نے دیکھی سو درجے بیتاب ہوا
شمع جو آگے شام کو آئی رشک سے جل کر خاک ہوئی
صبح گل تر سامنے ہوکر جوش شرم سے آب ہوا
مرتے نہ تھے ہم عشق کے رفتہ بے کفنی سے یعنی میر
دیر میسر اس عالم میں مرنے کا اسباب ہوا
میر تقی میر

دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے

دیوان سوم غزل 1296
تسکین دردمندوں کو یارب شتاب دے
دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
لوگوں کے پوچھنے کا کوئی کیا جواب دے
گل ہے بہار تب ہے جب آنکھوں میں ہو نشہ
جاتی ہے فصل گل کہیں ساقی شراب دے
وہ تیغ میری تشنۂ خوں ہو گئی ہے کند
کر رحم مجھ پہ کاشکے یار اس کو آب دے
دو چار الم جو ہوویں تو ہیں بابت بتاں
کیا درد بے شمار کا کوئی حساب دے
تار نگہ کا سوت نہیں بندھتا ضعف سے
بیجان ہے یہ رشتہ دلا اس کو تاب دے
مژگان تر کو یار کے چہرے پہ کھول میر
اس آب خستہ سبزے کو ٹک آفتاب دے
میر تقی میر

جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں

دیوان سوم غزل 1196
عشق وہ خانماں خراب ہے میاں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میر کا کتاب ہے میاں
میر تقی میر

کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی

دیوان دوم غزل 954
آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی
کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی
میں ہی جلتا نہیں جدا دل سے
دور مجھ سے کباب ہے وہ بھی
سائل بوسہ سب گئے محروم
ایک حاضر جواب ہے وہ بھی
وہم جس کو محیط سمجھا ہے
دیکھیے تو سراب ہے وہ بھی
کم نہیں کچھ صبا سے اشک گرم
قاصد پرشتاب ہے وہ بھی
حسن سے دود دل نہیں خالی
زلف پرپیچ و تاب ہے وہ بھی
خانہ آباد کعبے میں تھا میر
کیا خدائی خراب ہے وہ بھی
میر تقی میر

وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو

دیوان دوم غزل 924
تاچند انتظار قیامت شتاب ہو
وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو
احوال کی خرابی مری پہنچی اس سرے
اس پر بھی وہ کہے ہے ابھی ٹک خراب ہو
یاں آنکھیں مندتے دیر نہیں لگتی میری جاں
میں کان کھولے رکھتا ہوں تیرے شتاب ہو
پھولوں کے عکس سے نہیں جوے چمن میں رنگ
گل بہ چلے ہیں شرم سے اس منھ کی آب ہو
یاں جرم گنتے انگلیوں کے خط بھی مٹ گئے
واں کس طرح سے دیکھیں ہمارا حساب ہو
غفلت ہے اپنی عمر سے تم کو ہزار حیف
یہ کاروان جانے پہ تم مست خواب ہو
شان تغافل اس کی لکھی ہم سے کب گئی
جب نامہ بر ہلاک ہو تب کچھ جواب ہو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
جب لیویں جام ہاتھ میں تب آفتاب ہو
ہستی پر ایک دم کی تمھیں جوش اس قدر
اس بحرموج خیز میں تم تو حباب ہو
جی چاہتا ہے عیش کریں ایک رات ہم
تو ہووے چاندنی ہو گلابی شراب ہو
پرپیچ و تاب دود دل اپنا ہے جیسے زلف
جب اس طرح سے جل کے درونہ کباب ہو
آگے زبان یار کے خط کھینچے سب نے میر
پہلی جو بات اس کی کہیں تو کتاب ہو
میر تقی میر

اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیوان دوم غزل 879
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا ہے
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردہ
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریۂ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلانوش کو شراب کہاں
عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو
یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
محو ہیں اس کتابی چہرے کے
عاشقوں کو سرکتاب کہاں
عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں
میر تقی میر

میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب

دیوان دوم غزل 774
تابوت پر بھی میرے نہ آیا وہ بے نقاب
میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب
اس آفتاب حسن کے جلوے کی کس کو تاب
آنکھیں ادھر کیے سے بھر آتا ہے ووہیں آب
اس عمر برق جلوہ کی فرصت بہت ہے کم
جو کام پیش آوے تجھے اس میں ہو شتاب
غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ
یاں وہ سماں ہے جیسے کہ دیکھے ہے کوئی خواب
اس موج خیز دہر نے کس کے اٹھائے ناز
کج بھی ہوا نہ خوب کلہ گوشۂ حباب
یہ بستیاں اجڑ کے کہیں بستیاں بھی ہیں
دل ہو گیا خراب جہاں پھر رہا خراب
بیتابیاں بھری ہیں مگر کوٹ کوٹ کر
خرقے میں جیسے برق ہمارے ہے اضطراب
ٹک دل کے نسخے ہی کو کیا کر مطالعہ
اس درس گہ میں حرف ہمارا ہے اک کتاب
مجنوں نے ریگ بادیہ سے دل کے غم گنے
ہم کیا کریں کہ غم ہیں ہمارے تو بے حساب
کاش اس کے روبرو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب
شاید کہ ہم کو بوسہ بہ پیغام دست دے
پھرتا ہے بیچ میں تو بہت ساغر شراب
ہے ان بھوئوں میں خال کا نقطہ دلیل فہم
کی ہے سمجھ کے بیت کسو نے یہ انتخاب
گذرے ہے میر لوٹتے دن رات آگ میں
ہے سوز دل سے زندگی اپنی ہمیں عذاب
میر تقی میر

پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا

دیوان دوم غزل 760
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا
پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا
اے ابرتر یہ گریہ ہمارا ہے دیدنی
برسے ہے آج صبح سے چشم پرآب کیا
دم گنتے گنتے اپنی کوئی جان کیوں نہ دو
وہ پاس آن بیٹھے کسو کے حساب کیا
سو بار اس کے کوچے تلک جاتے ہیں چلے
دل ہے اگر بجا تو یہ ہے اضطراب کیا
بس اب نہ منھ کھلائو ہمارا ڈھکے رہو
محشر کو ہم سوال کریں تو جواب کیا
دوزخ سو عاشقوں کو تو دوزخ نہیں رہا
اب واں گئے پہ ٹھہرے ہے دیکھیں عذاب کیا
ہم جل کے ایک راکھ کی ڈھیری بھی ہو گئے
ہے اب تکلف آگے جلے گا کباب کیا
ہستی ہے اپنے طور پہ جوں بحر جوش میں
گرداب کیسا موج کہاں ہے حباب کیا
دیکھا پلک اٹھاکے تو پایا نہ کچھ اثر
اے عمر برق جلوہ گئی تو شتاب کیا
ہر چند میر بستی کے لوگوں سے ہے نفور
پر ہائے آدمی ہے وہ خانہ خراب کیا
میر تقی میر

دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا

دیوان دوم غزل 730
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پرآب کا
دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا
جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں
عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا
دریا دلی جنھیں ہے نہیں ہوتے کاسہ لیس
دیکھا ہے واژگوں ہی پیالہ حباب کا
شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھرے
میں منتظر زمانے کے ہوں انقلاب کا
بارے نقاب دن کو جو رکھتا ہے منھ پہ تو
پردہ سا رہ گیا ہے کچھ اک آفتاب کا
تلوار بن نکلتے نہیں گھر سے ایک دم
خوں کر رہو گے تم کسو خانہ خراب کا
یہ ہوش دیکھ آگے مرے ساتھ غیر کے
رکھتا ہے پائوں مست ہو جیسے شراب کا
مجنوں میں اور مجھ میں کرے کیوں نہ فرق عشق
چھپتا نہیں مزہ تو جلے سے کباب کا
رو فرصت جوانی پہ جوں ابر بے خبر
انداز برق کا سا ہے عہد شباب کا
واں سے تو نامہ بر کو ہے کب کا جواب صاف
میں سادگی سے لاگو ہوں خط کے جواب کا
ٹپکاکرے ہے زہر ہی صرف اس نگاہ سے
وہ چشم گھر ہے غصہ و ناز و عتاب کا
لائق تھا ریجھنے ہی کے مصراع قد یار
میں معتقد ہوں میر ترے انتخاب کا
میر تقی میر

بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا

دیوان دوم غزل 715
تمام روز جو کل میں پیے شراب پھرا
بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا
اثر بن آہ کے وہ منھ ادھر نہ ہوتا تھا
ہوا پھری ہے مگر کچھ کہ آفتاب پھرا
نہ لکھے خط کی نمط ہو گئیں سفید آنکھیں
تجھے بھی عشق ہے قاصد بھلا شتاب پھرا
وہ رشک گنج ہی نایاب تھا بہت ورنہ
خرابہ کون سا جس میں نہ میں خراب پھرا
کسو سے حرف محبت کا فائدہ نہ ہوا
بغل میں میں تو لیے یاں بہت کتاب پھرا
لکھا تو دیکھ کہ قاصد پھرا جو مدت میں
جواب خط کا مرے صاف بے جواب پھرا
کہیں ٹھہرنے کی جا یاں نہ دیکھی میں نے میر
چمن میں عالم امکاں کے جیسے آب پھرا
میر تقی میر

آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا

دیوان دوم غزل 688
اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا
آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا
برقع اٹھاکے دیکھے ہے منھ سے کبھو ادھر
بارے ہوا ہے ان دنوں رفع حجاب سا
وہ دل کہ تیرے ہوتے رہے تھا بھرا بھرا
اب اس کو دیکھیے تو ہے اک گھر خراب سا
دس روز آگے دیکھا تھا جیسا سو اب نہیں
دل رہ گیا ہے سینے میں جل کر کباب سا
اس عمر میں یہ ہوش کہ کہنے کو نرم گرم
بگڑا رہے ہے ساختہ مست شراب سا
ہے یہ فریب شوق کہ جاتے ہیں خط چلے
واں سے وگرنہ کب کا ہوا ہے جواب سا
کیا سطر موج اشک روانی کے ساتھ ہے
مشتاق گریہ ابر ہے چشم پر آب سا
دوزخ ہوا ہے ہجر میں اس کے جہاں ہمیں
سوز دروں سے جان پہ ہے اک عذاب سا
مدت ہوئی کہ دل سے قرار و سکوں گئے
رہتا ہے اب تو آٹھ پہر اضطراب سا
مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاک
ہے میر بحربے تہ ہستی سراب سا
میر تقی میر

دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے

دیوان اول غزل 571
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے
جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منھ میں ترے نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے
رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا
سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے
کہیں گے کہو تمھیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا
نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منھ سے حجاب ہے
چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں
لب ناں تو واں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے
نہیں کھلتیں آنکھیں تمھاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہو وے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے
کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے
تو جہاں کے بحر عمیق میں سرپرہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے
رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میر کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے
میر تقی میر

کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو

دیوان اول غزل 407
فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو
میری ہی چشم تر کی کرامات ہے یہ سب
پھرتا تھا ورنہ ابر تو محتاج آب کو
گذری ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اس سے میں ترسوں ہوں خواب کو
خط آگیا پر اس کا تغافل نہ کم ہوا
قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو
تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے
پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جام شراب کو
اب تو نقاب منھ پہ لے ظالم کہ شب ہوئی
شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو
کہنے سے میر اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھائوں کب تک اس دل خانہ خراب کو
میر تقی میر

پر تمامی عتاب ہیں دونوں

دیوان اول غزل 366
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا رویئے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پائوں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میر
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
میر تقی میر

جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں

دیوان اول غزل 288
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں
بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے
ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں
جاکر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گوپہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں
دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں
آنکلے تھے جو حضرت میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں
تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں
میر تقی میر

ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب

دیوان اول غزل 178
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب
تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کریو اضطراب
اے رگ گل دیکھیو کھاتی ہے جو تو پیچ و تاب
موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب
تو ہو اور دنیا ہو ساقی میں ہوں مستی ہو مدام
پر بط صہبا نکالے اڑ چلے رنگ شراب
ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک
ٹک تو رہ پیری چلی آتی ہے اے عہد شباب
کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوے حرم
ذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب
کیا ہو رنگ رفتہ کیا قاصد ہو جس کو خط دیا
جز جواب صاف اس سے کب کوئی لایا جواب
واے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں
جام مے پر گردش آوے اور میخانہ خراب
چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا
ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشک آبدار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب
کچھ نہیں بحرجہاں کی موج پر مت بھول میر
دور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
میر تقی میر

کس طرح آفتاب نکلے گا

دیوان اول غزل 147
وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا
محتسب میکدے سے جاتا نہیں
یاں سے ہوکر خراب نکلے گا
یہی چپ ہے تو درد دل کہیے
منھ سے کیونکر جواب نکلے گا
جب اٹھے گا جہان سے یہ نقاب
تب ہی اس کا حجاب نکلے گا
عرق اس کے بھی منھ کا بو کیجو
گر کبھو یہ گلاب نکلے گا
آئو بالیں تلک نہ ہو گی دیر
جی ہمارا شتاب نکلے گا
دفتر داغ ہے جگر اس بن
کسو دن یہ حساب نکلے گا
تذکرے سب کے پھر رہیں گے دھرے
جب مرا انتخاب نکلے گا
میر دیکھوگے رنگ نرگس کا
اب جو وہ مست خواب نکلے گا
میر تقی میر

یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

دیوان اول غزل 104
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روے خنداں چشم پرآب نکلا
پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا
روے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا
مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا
شان تغافل اپنے نوخط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منھ سے جواب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میر رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
میر تقی میر

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 34
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اُٹھے بزم غیر کے دروبام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے
فیض احمد فیض

یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 203
غزل کسی کے نام انتساب کے لیے نہیں
یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں
اب اس زمیں پہ شہ سوار لوٹ کر نہ آئیں گے
سو یہ سفر غبارِ ہم رکاب کے لیے نہیں
یہ ساعتِ وصال کس جتن سے ہاتھ آئی ہے
متاعِ دست برد ہے حساب کے لیے نہیں
نکل رہی ہیں طاق و در سے سایہ سایہ صورتیں
سنو! یہ بام سیرِ ماہتاب کے لیے نہیں
میں کیا بتاؤں جاگتا ہوں رات رات کس لیے
نہیں، کسی کی چشمِ نیم خواب کے لیے نہیں
تو اور کوئی راز ہے مرے سخن کا‘ صاحبو!
کہ یہ عذاب جاں فقط ثواب کے لیے نہیں
عرفان صدیقی

کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 393
اپنی نیندوں میں کوئی خواب نہیں
کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں
ساحلوں پر برہنہ جوڑے ہیں
پر کوئی آنکھ بے حجاب نہیں
ہم سفر احتیاط، میرا بدن
نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں
کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک
اور گھڑیال بھی خراب نہیں
عمر گزری ہے ایک کمرے میں
پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں
کس لیے ذہن میں در آتے ہیں
جن سوالات کے جواب نہیں
آنکھ بھی خالی ہو گئی منصور
اور گٹھڑی میں بھی ثواب نہیں
منصور آفاق

مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 39
سفید طشت میں اک کاسنی گلاب ملا
مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا
ملی شرابِ کرم ہم گناہگاروں کو
جنابِ شیخ کو بس وعدۂ شراب ملا
یہ آنکھیں لیں جو دیکھنا نہیں ممکن
کسی مقام پہ سر چشمۂ غیاب ملا
میں سرخ سرخ رتوں سے بڑا الرجک ہوں
مجھے ہمیشہ لہو رنگ آفتاب ملا
مجھے چراغ کی خواہش ذرا زیادہ ہے
وہ رات ہوں جسے کوئی نہ ماہ تاب ملا
علوم وصل سے میرا بھی کچھ تعارف ہو
کوئی بیاض دکھا دے کوئی کتاب ملا
سلگ اٹھی ہے تہجد میں وصل کی خواہش
خدائے پاک مجھے منزلِ ثواب ملا
تُو ہار جائے گی غم کا مقابلہ پگلی
شمارِ شامِ محرم سے نہ حساب ملا
ہزار ٹیکس دئیے روڈ کے مگر منصور
میں جس طرف بھی مڑا راستہ خراب ملا
منصور آفاق

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 36
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا
اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
امیر مینائی

ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 28
قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں
جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں
سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں
دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں
محشر کے دن بٹہائے گئے آفتاب میں
رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں
یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں
تیرِ دعا نشانے پہ کیونکر نہ بیٹھتا
کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں
وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے
کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں
حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا
پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں
مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ
جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں
سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل
کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں
چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع
کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں
دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے
ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں
ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں
موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں
اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر
بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں
چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے
شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں
کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں
بلبل بنے جو بلبلہ اٹھّے گلاب میں
چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے
مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں
ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند
اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں
جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر
اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں
امیر مینائی

کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 27
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
دو کی جگہ دئیے مجھے بوسے بہک کے چار
تھے نیند میں، پڑا اُنہیں دھوکا حساب میں
سمجھا ہے تو جو غیبتِ پیر مغاں حلال،
واعظ، بتا یہ مسئلہ ہے کس کی کتاب میں؟
دامن میں اُن کے خوں کی چھینٹیں پڑیں امیر
بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں
امیر مینائی

ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 10
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا
شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا
لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہو سکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا
اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے ضرور ہے جرم
کہ کوئی یہ نہ کہے قابلِ عذاب نہ تھا
شکایت اُن سے کوئی گالیوں کی کیا کرتا
کسی کا نام کسی کی طرف خطاب نہ تھا
نہ پوچھ عیش جوانی کا ہم سے پیری میں
ملی تھی خواب میں وہ سلطنت شباب نہ تھا
دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح
دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا
وہ کہتے ہیں شبِ وعدہ میں کس کے پاس آنا
تجھے تو ہوش ہی اے خانماں خراب نہ تھا
ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر
میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا
فلک نے افسرِ خورشید سر پہ کیوں رکھا
سبوئے بادہ نہ تھا ساغرِ شراب نہ تھا
غرض یہ ہے کہ ہو عیش تمام باعث مرگ
وگرنہ میں کبھی قابلِ خطاب نہ تھا
سوال وصل کیا یا سوال قتل کیا
وہاں نہیں کے سوا دوسرا جواب نہ تھا
ذرا سے صدمے کی تاب اب نہیں وہی ہم میں
کہ ٹکڑے ٹکڑے تھا دل اور اضطراب نہ تھا
کلیم شکر کرو حشر تک نہ ہوش آتا
ہوئی یہ خیر کہ وہ شوق بے نقاب نہ تھا
یہ بار بار جو کرتا تھا ذکر مے واعظ
پئے ہوئے تو کہیں خانماں خراب نہ تھا
امیر اب ہیں یہ باتیں جب اُٹھ گیا وہ شوخ
حضور یار کے منہ میں ترے جواب نہ تھا
امیر مینائی

تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 9
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار
نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیاں کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا
جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر
اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا
امیر مینائی

اس طرح بھی جواب ملتا ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 244
آب مانگو، سراب ملتا ہے
اس طرح بھی جواب ملتا ہے
سینکڑوں گردشوں کے بعد کہیں
ایک جام شراب ملتا ہے
یا مقدر کہیں نہیں ملتا
یا کہیں محو خواب ملتا ہے
جتنا جتنا خلوص ہو جس کا
اتنا اتنا عذاب ملتا ہے
غم کی بھی کوئی حد نہیں باقیؔ
جب ملے بے حساب ملتا ہے
باقی صدیقی

کون اے دوست باریاب نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 137
میکشوں میں وہ اضطراب نہیں
کون اے دوست باریاب نہیں
بار دنیا نہ اٹھ سکا تو کیا
زندگی میرا انتخاب نہیں
دل کی تسکیں بھی چاہتا ہوں میں
میرا مقصد فقط جواب نہیں
اک نہ اک چیز کی کمی ہی رہی
کبھی ساغر کبھی شراب نہیں
دل کو کیونکر فریب دیں باقیؔ
غم حقیقت ہے کوئی خواب نہیں
باقی صدیقی

اج دا دن تے ماجداُ دن سی جویں، عذاب دا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 48
دُکھ نے انت وکھا لیا، خورے کیہڑے خواب دا
اج دا دن تے ماجداُ دن سی جویں، عذاب دا
موت جھلارا خوف دا، مُڑیا اِنج پچھتاوندا
جیئوں جیون دی تاہنگ سی، کھِڑیا پھل گلاب دا
لاپرواہی سی آپنی، کجھ اوہدیاں بے مہریاں
اِک اِک ورقہ پھولیا، دُکھ دی بھری کتاب دا
کل تیکن تے زہر سی، دُکھاں دی کڑوان وی
اج میں سمجھاں موت وی، ہے اک جام شراب دا
جینا کَیڈ گناہ سی اوہ وی جھولی موت دی
رّب مینتھوں کی پچھسی، کی اے روز حساب دا؟
کنّے لوک نگاہ وچ، رہئیے سن رنگ بکھیر دے
کوئی کوئی ماں دا لعل سی ماجدُ تیرے جواب دا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)