زورِ قلم جو ہوتا، برابر تراشتے
شعروں میں اُس کا پھول سا پیکر تراشتے
محوِ سفر رہے ہیں قدم اور قلم سدا
رُک پاتے گر کہیں تو کوئی گھر تراشتے
گر قیدِ شش جہات پہ ہوتا کچھ اختیار
روزن کوئی بناتے کوئی دَر تراشتے
پَرکارِ فن سے دائرے کھینچا کیے ہزار
نِروان پاتے گر کبھی محور تراشتے
سیپی میں دِل کی تم جو اگر ٹھیرتے کبھی
ہم تیشۂ خیال سے گوہر تراشتے
ہاتھوں کی کونپلوں سے کٹھن روزگار کے
عمریں گزر گئیں مجھے پتھر تراشتے
ناخن کی نوک سے فلکِ روسیاہ پر
ہم چودھویں کے چاند کا منظر تراشتے
اس بار بھی بنی وہی مبہم سی شکل پھر
اس بُت کو اب کی بار تو بہتر تراشتے
یاور ماجد