زمرہ جات کے محفوظات: کلیاتِ شکیب جلالی ۔ غیر مدوّن کلام ۔ نظمیں

عظمتِ آدم

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے

گھر گھر میں نئے دِیپ اُجالے ہم نے

تاریک خرابوں کو نیا نُور دیا

ظُلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے

—–

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے

تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے

بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم

پتّھر کی چٹان موم ہوجاتی ہے

—–

فانُوس کی لَو میں جھلملاتے ہیں کبھی

تاروں کی جبیں کو جگمگاتے ہیں کبھی

آنکھوں میں نُور بن کے رہتے ہیں ہم

سُورج کی کِرن میں مُسکراتے ہیں کبھی

—–

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتے ہیں ہم

ناکامیوں پر بھی مُسکراتے ہیں ہم

اللہ کی قدرت کے تو قائل ہیں مگر

اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ہم

—–

نظروں میں نیا زمانہ ڈَھلتا ہے حُضور

آغوش میں انقلاب پَلتا ہے حُضور

حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے

ماحول مِرے جَلو میں چلتا ہے حضور

شکیب جلالی

خانہ بدوش

یہ جنگل کے آہو، یہ صحرا کے راہی

تصنّع کے باغی، دلوں کے سپاہی

فقیری لبادے تو انداز شاہی

یہ اکھڑ ‘ یہ انمول‘ بانکے سجیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے

ہیں روشن جبیں ‘ گو ہیں پاؤں میں چھالے

یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے

کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا جام پی لے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

طلب آشیاں کی نہ فِکرِ قفس ہے

نہ دولت کی پروا‘ نہ زر کی ہوس ہے

زباں میں گھلاوٹ نگاہوں میں رس ہے

ہیں جینے کے انداز میٹھے رسیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

زمانے کو چھوڑا صداقت نہ کھوئی

محبّت ہی کاٹی، محبّت ہی بوئی

نہ حاکم ہے کوئی، نہ محکوم کوئی

اُصولوں کے بندھن مگر ڈھیلے ڈھیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہے پھولوں کا بستر کبھی بَن میں ڈیرا

نہ تفریق کوئی‘ نہ تیرا نہ میرا

جہاں سب نے چاہا وہیں پر بسیرا

وہ صحرا کے گُل بن‘ وہ وادی کے ٹیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہر اک اپنی اپنی جگہ پر مگن ہے

نہ دیوارِ زنداں نہ حدِّ چمن ہے

یہاں بھی وطن ہے وہاں بھی وطن ہے

کوئی اِن سے تعلیمِ آوارگی لے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

شکیب جلالی

آفتاب ہو تم

سَحر کدے کا تقدّس قمر کی آب ہو تم

ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم

یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار

نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم

ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار

دیارِ حسن ہو تم وادي شباب ہو تم

صبا کا لَوچ گُلوں کی پَھبن خمیر میں ہے

چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم

نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِ رقص

حریمِ بادہ ہو تم‘ پیکرِ شراب ہو تم

نَفَس نَفَس میں ترنّم کی جَوت جاری ہے

غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم

یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نُور‘ یہ رُوپ

خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم

یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام

بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم

نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے

سَحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم

شکیب جلالی

کھنڈر

بادِ خزاں سے گلشنِ ہستی ہے ہم کنار

ویرانیوں کا رقص ہے اب ڈھل چکی بہار

کلیاں جُھلس چکی ہیں ‘ خزاں کا نُزول ہے

پُر ہَول خامشی ہے‘ بگولے ہیں ‘ دُھول ہے

وہ کج رَوی ہے اور نہ اب وہ غرور و ناز

گُنبد زمیں پہ بیٹھ گئے ہیں بصد نیاز

ابرو میں وہ تناؤ نہ آنکھوں میں کوئی رَس

محراب ہے نہ طاق نہ سینے پہ وہ کَلَس

نقش و نگار مسخ تو چہرے پر جھرّیاں

ہل کی اَنی سے پڑ گئیں کھیتوں میں دھاریاں

ہے یہ بدن پہ کھال کا سمٹا ہوا غلاف

ڈالے ہیں زلزلے نے عمارت میں کیا شگاف

نیلی رَگوں کے جسم پہ بکھرے ہیں جال سے

جیسے کہ رینگتے ہوئے کیڑوں کے سلسلے

ہر دم کمالِ ضُعف سے یوں کانپتا ہے سر

جیسے لرز رہا ہو سفینہ بہاؤ پر

خشکی جمی ہوئی لبِ سادہ پہ اس طرح

روغن اتر رہا ہو دریچے کا جس طرح

آنکھوں کی پُتلیوں پہ پپوٹوں کے سائباں

جیسے کسی مکان کی دربستہ کھڑکیاں

بینائی پر ہے دُھند کا پردہ پڑا ہوا

جیسے کہ رَوزنوں پہ ہو جالا تنا ہوا

بکھرے ہوئے یہ بال‘ یہ اُلجھی ہوئی لَٹیں

جیسے کسی درخت کی سُوکھی ہوئی جڑیں

ماتھا ہے ملگجی سا کہ پگھلا ہوا ہے رانگ

ٹوٹی ہوئی کڑی ہے کوئی یا شکستہ مانگ

سبزہ ہے رُخ پہ یا کہ ہے کانٹوں کی کوئی باڑ

بازو ہیں نیم وَا کہ ہیں اترے ہوئے کواڑ

اعصابِ مُردہ‘ جسم کا ہر حصّہ بے سَکت

آغوش جس طرح کوئی بیٹھی ہوئی سی چھت

یوں ضُعف سے درازیِ قامت ہے سَرنِگوں

بارہ دری کا جیسے خمیدہ سا اک ستوں

پُشت آبلہ نما تو کمر نصف دائرہ

مینار گویا اپنے ہی قدموں پہ آگرا

سینے پہ زندگی کے شکستہ سے بام و در

ڈھانچا ہے ہڈّیوں کا کہ اُجڑا ہوا نگر

کیا کیا نہ ظلم و جَور حَسیں جسم پر ہوئے

اُف وہ محل‘ جو وقت سے پہلے کھنڈر ہوئے

شکیب جلالی

زنجیریں

دم بخود سارے شگوفے تھے مہک سے محروم

نکہتِ گُل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے

چمپئی بیل کی سیّال نمُو پر قدغن

سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے

غم کے تاریک لبادوں میں سمن زار اسیر

تیرگی پوش چناروں پہ کڑے پہرے تھے

گیت محبوس عنادل کے لبوں پر تالے

اس گھڑی زمزمہ کاروں پہ کڑے پہرے تھے

پھر ہوا شور کہ وہ طوق و سِلاسل ٹوٹے

تیرہ و تار دریچوں سے اُجالے پھوٹے

اک مسرّت کی کرن تیر گئی گلشن میں

اب شعاعِ گُل و انجم پہ کوئی قید نہیں

لالہِ وقت کے ہونٹوں پہ ستارے ابھرے

پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں

بند کلیوں کے چٹکنے کی کھنک لہرائی

جس طرح اذنِ تکلّم پہ کوئی قید نہیں

گھنگھرو باندھ کے پاؤں میں صبا اٹھلائی

جس طرح رقص و ترنّم پہ کوئی قید نہیں

لیکن افسوس کہ زنجیر صدا دیتی ہے

ہر اُبھرتی ہوئی آواز دبا دیتی ہے

شکیب جلالی

ہلالِ عید

یہ ہلالِ عید ہے قوسِ افق پر ضَو فگن

نیلگوں خیمے میں یا بیٹھی ہے کوئی سیم تَن

پُر تکلّف موڑ ہو جس طرح، جُوے شیر میں

یا ذرا خم آگیا ہو شاہدِ تنویر میں

مانگ ہو افشاں کی جیسے سنگِ مرمر کی کماں

جیسے انگشتِ سلیماں پر انگوٹھی کا نشاں

جس طرح برقاب خنجر، جیسے چاندی کی کٹار

یا کسی معصوم دوشیزہ کے سینے کا اُبھار

اس قدر نازک ادا جیسے کلائی حُور کی

اس قدر شفاف جیسے قاش ہو بِلُّور کی

نُورِ پیغامِ مسرّت ہر کرن سے ضَوفشاں

مطلعِ انوارِ عشرت ہیں زمین و آسماں

جس کو دیکھو آج اسی کو اشتیاقِ دید ہے

کوئی البیلی دُلھن ہے یا ہلالِ عید ہے

شکیب جلالی

نیا سویرا

جہانِ نو کے خداؤ نئی کرن پھوٹی

پرانے دیپ بجھاؤ نئی کرن پھوٹی

ہوا میں رُک نہ سکیں گی روایتی شمعیں

اب آفتاب جلاؤ نئی کرن پھوٹی

وہ پَو پھٹی وہ اُجالے کے نرم تیر چلے

وہ شب میں پڑگئے گھاؤ نئی کرن پھوٹی

سیاہیوں کا کفن چاک ہو گیا دیکھو

طلوعِ صبح مناؤ نئی کرن پھوٹی

شفق کے کھیت میں وہ روشنی کے پھول کِھلے

خزاں کو آگ لگاؤ نئی کرن پھوٹی

افق پہ چھا گئے زرکار و سیم گوں ڈورے

دلوں کے چاک ملاؤ نئی کرن پھوٹی

شفق بدوش رو پہلی سحر کی خوش رنگی

نظر نظر میں رچاؤ نئی کرن پھوٹی

پگھل رہا ہے دھواں دھار سطوتوں کا غرور

دہک اٹھا ہے الاؤ نئی کرن پھوٹی

شکار ہو نہ سکے گی جنوں کی زرتابی

خرد کے جال بچھاؤ نئی کرن پھوٹی

وہی جو تیرگیِ شب میں ظلم ڈھاتے تھے

اب ان کو پیار سکھاؤ نئی کرن پھوٹی

مرا پسینا جبینِ سَحر کا جُھومر ہے

مرا لہو نہ بہاؤ نئی کرن پھوٹی

جہاں سے حرص و ہَوس کا غُبار چَھٹ جائے

وفا کی دھوم مچاؤ نئی کرن پھوٹی

عیُوب پوش سیاہی کے سُودخوروں میں

متاعِ علم لُٹاؤ نئی کرن پھوٹی

ہر ایک فرد ہر انساں کا احترام کرے

اک ایسی رِیت بناؤ نئی کرن پھوٹی

نئی حیات جنم دن منا رہی ہے آج

نئے اصول بناؤ نئی کرن پھوٹی

شکیب جلالی

اس نے کہا

بھرے جہاں میں کہیں پیار مجھ کو مل نہ سکا

وفا سی شَے کا طلب گار مجھ کو مل نہ سکا

قدم قدم پہ بِکی ہے مری متاعِ شباب

قدم قدم پہ متاعِ شباب بیچوں گی

گراں ہیں دوش پہ زُلفوں کے عنبریں سایے!

یہ ریشمیں سے مُعطّر سحاب بیچوں گی

لطافتِ لَب و رُخسار ہے مری دشمن

بہارِ غنچہ و فصلِ گُلاب بیچوں گی

نہ راس آئی مجھے چاندنی وفاؤں کی

بطورِ خاص شبِ ماہتاب بیچوں گی

مرے جنوں نے بڑی تلخیاں خریدی ہیں

نظر کے جام‘ لبوں کی شراب بیچوں گی

مرا غُرور ہے آج انتقام آمادہ!

بدن کا لَوچ‘ نگاہوں کی آب بیچوں گی

قسم ہے مجھ کو تقدّس مآب مَریمؑ کی!

بڑے خُلوص سے شرم و حجاب بیچوں گی!

حیا نصیب شگوفوں کو لُوٹنے والو!!

بہارِ زیست کا میں انتخاب بیچوں گی!

کھنکتے سِکّوں نے جب تک تمھارا ساتھ دیا

میں اپنا حُسن‘ جوانی‘ شباب بیچوں گی

حیا فروش ہوں ‘ جاؤ میں نیک نام نہیں !

مری نظر میں تمھارا بھی کچھ مقام نہیں !

شکیب جلالی

جشن بہاراں

بساطِ رنگ بچھاؤ بہار آئی ہے

حریمِ وقت سجاؤ بہار آئی ہے

نظر کے ساتھ شفق رنگ مے کا دور چلے

فضا کو مست بناؤ بہار آئی ہے

فضا کی تشنہ لَبی پر مٹھاس بِکھرا دو

رسیلے گیت سناؤ بہار آئی ہے

کوئی خوشی کا فسانہ کوئی ہنسی کی بات

لَبوں سے پھول گراؤ بہار آئی ہے

صبا کے ساتھ ملا ہے پیامِ بیداری

کَلی کَلی کو جگاؤ بہار آئی ہے

نگارِ باغ کی دوشیزگی نکھر جائے

کَلی کو پھول بناؤ بہار آئی ہے

سَحر کا رنگ، ستاروں کا نور پگھلا کر

رخِ چمن پہ پھیلاؤ بہار آئی ہے

نئی دُھنیں ہوں ، نئے ساز ہوں ، نئی تانیں

پرانے گیت نہ گاؤ بہار آئی ہے

غمِ خزاں کا چمن میں کوئی نشاں نہ ملے

اِک ایسا جشن مناؤ بہار آئی ہے

یہیں پہ جنتِ قلب و نظر کی ہو تشکیل

یہیں پہ خلد بساؤ بہار آئی ہے

شکیب جلالی

مُجرم

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے

جس کے فُٹ پاتھ فقیروں سے اَٹے رہتے ہیں

خَستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے

یہ بھکاری کہ جنھیں دیکھ کےِگھن آتی ہے

ہڈّیاں جسم کی نکلی ہوئی، پچکے ہوئے گال

میلے سر میں جوئیں ‘ اعضا سے ٹپکتا ہوا کوڑھ

رُوح بیمار‘ بَدن سُست‘ نگاہیں پَامال

ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے

کچھ ہَوس کار نگاہوں میں اُترجاتے ہیں

جن کے افلاس زدہ جسم‘ ڈھلکتے سینے

چند سکّوں کے عوض شب کو بِکا کرتے ہیں

شدّتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننّھے بچّے

ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں

یا سرِ شام ہی سوجاتے ہیں بُھوکے پیاسے

ماں کی سُوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے، شہرت زدہ انسان اکثر

اپنی دولت و سخاوت کی نمایش کے لیے

یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر

چار چھ پیسے انھیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حق دار ہیں ننگی روحیں ؟

کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں ؟

کیوں انھیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے

اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں ؟

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے؟

شکیب جلالی

دلاسے

یہ لرزتے ہوئے حسیں آنسو

میرے عزمِ سفر میں حائل ہیں

مجھ میں اب ضبطِ غم کی تاب نہیں

میرے قلب و جگر بھی گھایل ہیں

ہجر کو ہجر کیوں سمجھتی ہو

صرف احساس پر ہے غم کا مدار

میں نے دیکھا ہے حوصلوں کے طفیل

ہو گئے ہیں اَلَم نشاط آثار

جب کوئی شے ہی پائدار نہیں

دُکھ کے لمحے بھی بیت جائیں گے

غم کا انجام مُسکراہٹ ہے

پھر خوشی کے زمانے آئیں گے

لذّتِ درد بڑھتی رہتی ہے

زخم ہر بار کُھل کے سِلنے میں

مستقل قُرب میں وہ بات کہاں

جو مزا ہے بچھڑ کے ملنے میں

یوں نہ ضائع کرو خدا کے لیے

اپنے اشکوں کے سیم پاروں کو

ان کو صرفِ خوشی بھی ہونا ہے

پونچھ لو قیمتی ستاروں کو

تم سے ملنے کے واسطے ہر دم

اپنے دل میں خلش سی پاؤں گا

جانِ من اس قدر اُداس نہ ہو

میں بہت جلد لوٹ آؤں گا

شکیب جلالی

پیامِ اقبال

……… 1 ………

بانسری پر کوئی دُھن چھیڑ کے کھوجا اس میں

مدھ بھری تان میں ہر گیت سناتا ہوا چل

راہ کی خُشک فضاؤں میں ترنّم گونجے

خواب آلود نظاروں کو جگاتا ہوا چل

بَربَطِ زیست پہ ہر گیت سُناتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 2 ………

قافلے سے جو بچھڑ جائے مسافر کوئی

تیرے گیت اس کے لیے بانگِ درا بن جائیں

جب کوئی راہ بھٹکنے لگے منزل کے قریب

تیرے قدموں کے نشاں راہ نما بن جائیں

نقشِ پا سے رہِ منزل کو سجاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 3 ………

آبشاروں کے ترنّم ہی میں کھو جائے نہ تُو

راہ کی مست بہاروں کی تمنّا مت کر

جو کہ منزل کو بھلانے کی تجھے دعوت دیں

ایسے پُرکار نظاروں کی تمنّا مت کر

تشنگی صرف نگاہوں کی بُجھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 4 ………

اس قدر تیز نہ چل جلد ہی تھک جائے گا

تھک کے رُک جانا تری شان کے شایاں بھی نہیں

پھر تُو کچھ دیر کہیں بیٹھ کے سستائے گا

اور سُستانا تری شان کے شایاں بھی نہیں

ایک رفتار سے قدموں کو بڑھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 5 ………

منزلیں خود ترے قدموں کی تمنّائی ہیں

جُستجو میں ہیں تری خود ہی نشانِ منزل

پست ہمّت نہ بن اُمیّد سے مایوس نہ ہو

مل ہی جائیں گے کبھی خود ہی نشانِ منزل

ناامیدی کی چٹانوں کو ہٹاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 6 ………

دُور تک کوئی مسافر ہے نہ کوئی راہی

کس جگہ تیرے عزائم تجھے لے آئے ہیں

ہیں قدم تیرے ابھی زیرِ افق ہی شاید

کیسے بے رنگ دُھندلکے سے یہاں چھائے ہیں

عزمِ راسخ کے چراغوں کو جلاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 7 ………

تجھ کو آغوش میں لینے کو ہے بے تاب قمر

منتظر تیرے ابھی تک ہیں افق کے جادے

کون کہتا ہے کہ وہ تیری گزرگاہ نہیں

تیری منزل ہے ستاروں کے جہاں سے آگے

پرتوِ نور ہے تو عرش پہ چھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

شکیب جلالی

منقبت

ہو کہکشاں سے سوا کیوں نہ خاکِ کو ئے علیؑ

جما لِ آ یہء حق ہے جمالِ رو ئے علیؑ

علی ؑکے دستِ تصرّف میں کبریا کی رضا

وہ کبر یا کا عدو ہے جو عدوئے علیؑ

رسول نے جو سنی ہفت آسماں سے پرے

وہ گفتگو ئے خدا تھی کہ گفتگو علیؑ

نثار با غِ جنا ں تجھ پہ اے دیا رِ نجف

کہ تیری خا ک سے آتی ہے مجھ کو بو ئے علیؑ

امیرِ وقت کو کیا آ پڑی کو مشکل

کہ ہو رہی ہے مدینے میں جستجو ئے علی ؑ

قضا نے وار کیا بھی تو پشتِ سر پہ کیا

کسے مجال تھی آتا جو رُو بہ رُو ئے علیؑ

نہ شاہِ کشورِ نغمہ نہ تاج وارِ سخن

مگر شکیبؔ کو کہیے گدا ئے کو ئے علیؑ

شکیب جلالی

شہادتِ حق

واہمہ ہے کہ خدا؟

ذہن اُلجھے تو الجھتا ہی چلا جاتا ہے

چاند خاموش ستارے چپ ہیں

دل جو دھڑکے تو دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے

ہاں مگر

واقعہِ کرب و بلا

تیرے مظلوم سجیلے کردار

دجلہِ خوں میں نہائے ہوئے بے باک سوار

درِ احساس پہ دیتے ہیں صدا

ہم نے ڈھونڈا ہے اُسے

پردہِ سنگِ نظر کے اُس پار

ہم نے پایا ہے اُسے

صفتِ رنگ کے پیراہن میں

اِک حقیقت کی طرح جلوہ نما

برق اد ا قَفسِ رنگ کے زندانی تجھے کیا معلوم

واہمے پر بھی کوئی جان دیا کرتا ہے؟

شکیب جلالی

چونکتے سایوں کی آواز

حسرتو! غم سے بے خبر گزرو

اس سمندر کی بے کرانی میں

موج در موج سیکڑوں گرداب

بنتے رہتے ہیں مٹتے رہتے ہیں

ایسے گرداب دیکھ کر جن کو

تیرگی اک نہنگ کی صورت

چار سُو ناچتی نظر آئے

اور ساحل کا راستہ نہ ملے!

شکیب جلالی

رات کے پچھلے پہر

شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند

اور ہوا چلتی تھی جیسے

اس کے زخمی ہوں قدم

دیدہِ مہر نے انجانے خطر سے مڑ کر

جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کودیکھا

لیکن اس سبز لکیر

اس درختوں کی ہری باڑ کے پار

کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار

اورپھر رات کے تنور سے ابلا پانی

تیرگیوں کا سیہ فواراہ

دیکھتے دیکھتے تصویر ہر اک چیز کی دھندلانے لگی

دور تک کالے سمندر کی ہمکتی لہریں

ہانپتے سینوں کے مانند کراں تابہ کراں پھیل گئیں

اور جب رات پڑی

سسکیاں بن گئیں جھونکوں کی صدا

دم بخود ہو گئے اس وقت درو بام

جیسے آہٹ کسی طوفاں کی سُنا چاہتے ہوں

آنکھیں مل مل کے چراغوں کی لوؤں نے دیکھا

لیکن اس سبز لکیر

اس درختوں کی ہری باڑ کے پار

کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار

رات کے پچھلے پہر

ناگہاں نیند سے چونکی جو زمین

اس کی ہونٹوں پہ تھی غم ناک کراہ‘

کرب انگیز کراہ

اس کے سینے پہ رواں

بوٹ لوہے کے گمکتے ہوئے بوٹ

جس طرح کانچ کی چادر پہ لڑھکتی ہوئی پتھر کی سلیں

ہر قدم ایک نئی چیخ جنم لیتی تھی

خاک سے دادِ ستم لیتی تھی

شکیب جلالی

مبارک وہ ساعت

میں بھٹکا ہوا اِک مسافر

رہ و رسمِ منزل سے نا آشنائی پہ نازاں

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا

مرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی

مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی

کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی رُوح پرور کشش

میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی

میں آنکھوں سے بینا تھا لیکن

مرے چار سُو چادریں آئنوں کی طرح تھیں

کہ جن کے لیے میرا پر تو ہی تھا ایک زندہ حقیقت

کسی دوسرے کو گوارانہ تھی اس میں شرکت

میں کانوں سے بہرہ نہیں تھا

مگر جس طرح کہنہ گنبد میں چمگادڑوں کے بھٹکنے کی آواز گونجتی نہیں ہے

کھلے آسماں کے پرندوں کی چہکار اندر پہنچتی نہیں ہے

اسی طرح میرا بھی ذوقِ سماعت رسا تھا فقط اپنی ہی دھڑکنوں تک

بس اپنے لہو کی سُبک آہٹوں تک

میں بھٹکا ہوا اک مسافر

مری راہ پرمٹ چکے تھے سفر کے اشارات سارے

فراموشیوں کی گھنی دھند میں کھو چکے تھے جہت کے نشانات سارے

رہ و رسمِ منزل سے میں آشنا ہی نہیں تھا

کروڑوں مرے ہم سفر تھے

مگرمیں اکیلا

کروڑوں کی اس بھیڑمیں بھی اداس اور اکیلا

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا

میں شاید ہمیشہ یونہی اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا

اگر روشنی مجھ پہ چمکی نہ ہوتی

مبارک وہ ساعت کہ جب موت اور تیرگی کے گھنے سائباں کے تلے

روشنی مجھ پہ چمکی

مرے دل پہ دھرتی نے اور اس کے ارفع مظاہر نے اپنی محبت رقم کی

مبارک وہ ساعت کہ جب برق کے کوڑے لہراتی

لوہے کی چیلوں سے اور

آتشیں تیر برساتے فولاد کے پَر درندوں سے مُڈھ بھیڑ میں

میں نے دیکھے

مرے ساتھیوں کے جگر میں ترازو ہیں جوتیر

ہُوا ہوں میں خود ان کا نخچیر

جو قطرہ لہو کا گرا ان کے تن سے

بہا ہے وہ میرے بدن سے

مبارک وہ ساعت کہ جب میں نے جانا

مری دھڑکنوں میں کروڑوں دلوں کی صدا ہے

مری روح میں مشترک’’گرچہ قالب جداہے‘ ‘

شکیب جلالی

آنکھیں پُرنم

آنکھیں پُرنم

آنچ ہے مدّھم

زخمی تارے

آنکھ کا مرہم

غم کے بادل

چھم چھم‘ چھم چھم

ننھا سا دل

دنیا کا غم

ہار

کوئی پکارے

ہم ہیں تمھارے

ناؤ شکستہ

دُور کنارے

گرتے آنسو

ٹوٹے تارے

باغ الاؤ

پھول شرارے

چاند کی کشتی

نیل کے دھارے

دل کی دھڑکن

شعر ہمارے

کوئی جیتا ؟

ہم جب ہارے

شکیب جلالی

نذرِ وطن

……… 1 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

مہرو ماہ سے حسیں ترے گلاب و یاسمن

تیرے پھول پھول پر فدا شفق کا بانکپن

ایک برگ کے عوض نہ لوں بہارِ صد چمن

تجھ میں خُلد کی پَھبَن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 2 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

تیری خاک کیمیا تری گھٹائیں زرفشاں …

تیرے سنگ وخِشت بھی جواہرات سے گراں

زندگی ہیں قوم کی تری سنہری کھیتیاں

تو متاعِ جان و تن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 3 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

علم و فن کا بوستاں ‘ لطافتوں کی سرزمیں

دینِ حق کا پاسباں ‘ صداقتوں کا تُوامیں

بے کسوں کے واسطے تو اک منارہِ یقیں

حُرّیت تراچلن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 4 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

حفظِ امن کے لیے جوان سر بکف

غیر کی مجال کیا جو بڑھ سکے تری طرف

آندھیوں کی راہ میں ہیں کوہسار صف بہ صف

تو شکستِ اَہر مَن

ارضِ پاک‘ اے وطن

شکیب جلالی

کالا پتّھر

میرا چہرہ آئینہ ہے

آئینے پر داغ جو ہوتے

لُہو کی برکھا سے میں دھوتا

اپنے اندر جھانک کے دیکھو

دل کے پتّھر میں کالک کی کتنی پَرتیں جمی ہوئی ہیں

جن سے ہرنتھرا ستھرا منظرکجلا سا گیا

دریا سُوکھ گئے ہیں شرم کے مارے

کوئلے پر سے کالک کون اتارے!!

شکیب جلالی

چرواہے کا گیت

یہ مری اُجلی بھیڑوں کا ریوڑ نہیں ہے

ہوا دُودھیا بادلوں کو اڑائے لیے جا رہی ہے

شکیب جلالی

پاکیزگی

گدلے تالاب میں مہِ شب تاب

رات بھر تیرتا رہا لیکن

اس کے چہرے کی آب دُھل نہ سکی

شکیب جلالی

ساتھی

میں اس کو پانا بھی چاہوں

تو یہ میرے لیے ناممکن ہے

وہ آگے آگے تیز خرام

میں اس کے پیچھے پیچھے

اُفتاں خیزاں

آوازیں دیتا

شور مچاتا

کب سے رواں ہوں

برگِ خزاں ہوں !

جب میں اُکتا کر رک جاؤں گا

وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر

مجھ سے آنکھیں چار کرے گا

پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا

پھر میں

منہ موڑ کے

تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا

اپنے نقشِ قدم روندوں گا

اب وہ دل تھام کے

میرے پیچھے لپکتا آئے گا

ندی نالے

پتھر پَربَت پھاند تا آجائے گا

میں آگے آگے

وہ پیچھے پیچھے

دونوں کی رفتار ہے اک جیسی

پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے

وہ مجھ کو

یا میں اس کو پالوں

شکیب جلالی

روشنیوں کے دشمن

روشنیوں کے دشمن ادھر آرہے ہیں

ڈھانپ دو قمقمے

لالٹینوں پہ مل دو سیاہی کا زہر

روشنیوں پہ مَنڈھ دو اندھیرے کے بوجھل غلاف

کھڑکیوں سے نہ نکلے اُجالے کی مدّھم سی لہر

رَوزنوں سے بھی جھانکے نہ کوئی سجیلی کرن

آرہے ہیں ادھر روشنیوں کے دشمن

روشنیوں کے دشمن

اُجالوں کے قاتل‘

شکیب جلالی

تنہا ستارہ

وہ میری شمعِ رخ مہ جبیں

خوشبوؤں کی مکیں

آج مجھ سے بہت دُور ہے

اتنی ہی دُور جتنا یہ تنہا ستارا

نیلگوں شام کے دشت میں

مگر اس کے چہرے کی کرنیں مری چشمِ حیراں سے اوجھل نہیں ہیں

شکیب جلالی

آس

اک صحرا‘

جس کے ذرّے چُنتے چُنتے

میری اُنگلیاں شل ہوجائیں گی

ایک سمندر‘

جس کے جُرعے پیتے پیتے

میری سانس اُکھڑ جائے گی

شکیب جلالی

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں
سیماب سے دھوئی ہوئی نوری کرنیں
بِلّور سی بانہوں پہ دمکتے ہوئے بال
مہتاب کی قاشوں پہ اُدھوری کرنیں
شکیب جلالی