زمرہ جات کے محفوظات: آفتاب اقبال شمیم

نیم اجنبیت کے پُل پر ایک شام

یہ کم کم رنگ، یہ برسے ہوئے بادل کے ٹکڑے سے

مری آنکھوں کے خالی آسماں پر

کتنے برسوں سے معلّق ہیں

یہ کیسی خوشبوئیں ہیں جو کہ جینے کی گلابی

چسکیوں میں مجھ کو رک رک کے پلاتی ہیں

یہ رشتے کیا ہیں

کیوں پتا شجر سے ٹوٹ جاتا ہے

یہ چاہت کی ہوس جہدِ بقا کے سیپ میں پلتی ہے

یا کہ سچ کا موتی ہے

مِری آنکھیں کھُلی ہیں

لیکن اتنی کیوں نہیں کھُلیں

کہ ظرفِ لفظ میں جھانکوں

خداوندا! تری کوتاہ دستی،

مجھے جینے نہیں دیتی مجھے مرنے نہیں دیتی

آفتاب اقبال شمیم

میرِ نابلس

کہا اُس نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں

لہو میں لہرئیے سے ڈالتی بے لفظ سرگوشی کے لہجے میں

گواہ رہنا

میں اتنی دُور سے چل کر تمہارے پاس آیا ہوں

اگرچہ وہ میری ٹانگیں

دھماکے سے اُڑا کر مطمئن ہوں گے

انہوں نے سچ کے شاہد کو اپاہج کر دیا ہے

تم گواہ رہنا۔۔۔۔ تمہارے سامنے روندا گیا ہوں

اور میں چل کر تمہارے پاس آیا ہوں

ذرا دیکھو!

گلابی روشنی بیدار آنکھوں کے اُفق پر رونما ہو کر

ضمیروں کی فضا میں رچ رہی ہے

اور اک اک روح میں

پرچم کشائی کر رہی ہےں سچ کی آوازیں

کہو! کیا بند آنکھوں میں شفق کو پھولتے محسوس کرتے ہوئے

ضمیروں میں ملامت کی رگیں اُبھری ہویء ہیں

اور مقناطیس کے حلقے میں ایک رُخ ہو رہی ہیں

سچ کی آوازیں

آفتاب اقبال شمیم

میں کیا کرتا!

آراکش نے

الف انا کو کاٹ دیا

اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا

میں تھا۔۔۔۔لیکن کیا کرتا

میرے شہر کی ساری گلیاں

بند بھی تھیں متوازی بھی تھیں

تختیاں ہر ہر دروازے پر

ایک ہی نام کی لٹکتی تھیں

میں کیا کرتا

شہر کے گردا گرد سدھائے فتووں کی دیواریں تھیں

میرے نام پہ میرے آگے حائل تھیں

کوہ شمائل دیواریں

جن سے باہر صرف جنازوں کے جانے کا رستہ تھا

آفتاب اقبال شمیم

بند دروازے میں کرن کی درز

ظلمت کا ہر عضو ہے بیج سیاہی کا

کٹ کر پھر اُگ آتا ہے

دھوپ میں اتنی کاٹ نہیں کہ میں اُں کو

اندر سے مسمار کروں

کل وہ چہرہ مسخ تھا اتنا آج جسے

میں تصویر سمجھتا ہوں

کیا میں رات کے جادوگرکے شہر میں ہوں

جامد آنکھ کے روزن سے

دیکھ رہا ہوں جو مجھ کو دکھلاتا ہے

یا میں بے معنی دنیا میں

زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں

شاید میں پہچان کی بھول بھلیوں میں

گم ہوں

لیکن کیا یہ کم ہے

خواب کی مشعل ہاتھ میں لے کر چلتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم

روز کم شب

مری ماں میری سماعت تھی

ستارے دیکھ کر مجھ کو جگا تی تھی

کہیں ایسا نہ ہو میں فیکٹری سے لیٹ جاؤں

بسا اوقات پچھلے پہر سے پہلے

جگا دیتی تھی

میں بے خواب و بے ساعت

نکل پڑتا تھا

اب تک یا د ہے

اُن مختصر راتوں کے دن بھی کس قدر لمبے ہوا کرتے تھے

لیکن اے خُدا!

تو نے مجھے چھوٹے دنوں کی خاص بخشش سے

سدا محروم رکھا

کیوں؟

آفتاب اقبال شمیم

یارِ بے پروا ۔۔ سبطِ علی صبا کے نام

مجھے ملنے نہیں آیا

عظیم الشان سناٹے کی اس اقلیم میں

شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا

اک خلا کے ساتھ

اک بے انت دُوری کے سفر پر۔۔۔

کیوں نہیں آیا؟

ہمیشہ کا وہ سیلانی

ذرا اُس کو صدا دو

وہ یہیں

اُن خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چُھپا ہو

کیا خبر وہ یارِ بے پرواہ کسی چاہت کے کُنج خواب میں

دبکا ہوا ہو

ہاں صدا دو نا!

مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو

میں نہیں روؤں گا

میں بالکل نہیں روؤں گا

کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے

وہ یہیں ہو گا، یہیں ہو گا

مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے

آفتاب اقبال شمیم

گرتے ستون کا منظر

یہاں سے آگے نشیب ہے اور اُس سے آگے

غروب کی گھاٹیاں ہیں ، جن میں

لڑھک کے روپوش ہو گیا ہے

سوار دن کا

ذرا ذرا سے چراغ لے کر ہتھیلیوں پر

چلے ہیں با بالشتیے اندھیرےکے چوبداروں کے پیچھے پیچھے

قدم ملاتے ہوئے صدا پر صدا لگاتے

بتاؤ یہ آنکھ کا خلا ہے کہ وقت کاشہ نشیں ہے خالی

کہاں گیا ہے مکیں مکاں کا

کُھلا ہے دروازہ آسماں کا

یہاں سے آگے

چبوترے سے اترے کے اک عکس روشنی کا

چلا ہے بے انت بُھول کی

گیلری کی جانب

جہاں عجائب سجے ہوئے ہیں

آفتاب اقبال شمیم

مہر نیم شب

صدیوں گہرا سٹانا تھا جب اُس کو

گہنایا گیا

میں بھی خاموشی کی اس کالی سازش میں شامل تھا

میرے ہونٹوں پر بھی چُپ کے پہرے تھے

سناٹا ہی سناٹا تھا

پھر تاریخ کا اگلا ورق اُلٹایا گیا

شور اُٹھا اور

اس بے ساحل شور کے اندر سات سمندر ڈوب گئے

اور زمین جو بنجر تھی، آناً فاناً سرسبز ہوئی

پھر اُس کی آواز۔۔۔۔ صدائے آئندہ کا

ایک تناور پیڑ اُگا

جس کے سبز بدن سے جھلمل کرتی شاخیں

آوازیں ہی آوازیں

کرنوں کے جھرنے بن بن کر پھوٹ بہیں

آفتاب اقبال شمیم

منجمد ندی کی زنجیر

آہنی نظرئیے کی کمیں گاہ سے چھپ کے حملہ کرو

اور معصومیت کی سزا دو مجھے

اپنے دانتوں سے کھودو مرے جسم میں خون کی تہہ تک

بربریت کا گہر کنواں

ہاں مگر آنکھ کے طاق میں نظم کا دیپ رکھے ہوئے

آؤں گا میں درِ آسماں کے بڑے چوک سے؁اگلی رت میں شہیدوں کے تہوار پر

عہد کے سرخ پھولوں پہ اُڑتی ہوئی تتلیاں

اپنے رنگوں کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے

شعر کے لفظ بن جائیں گی

آسماں کی طرح یہ کشادہ زمیں

اپنے سینے میں ا۔ترے ہوئے، کوہ کی میخ کو

کھینچ کر پھینک دے گی پر

اور پھر نظرئیے کی کمانی سے چلتی ہوئی سانس کا قاعدہ

پانیوں کے ہرے معجزوں کے نمو میں

بدل جائے گا

آفتاب اقبال شمیم

لیو سان چے

جب کھِلتا ہے اگست کا پورا چاند یہاں

اس چوٹی سے آواز کا جھرنا گرتا ہے

ہر سینے پر دست دیتے اک جھونکا گیت کی خوشبو کا

ساری بستی میں پھرتا ہے

اس دریا پر

جس نے وادی کی دوشیزہ کو

لے رکھا ہے باہوں مایں

بجتا ہے ساز صنوبر کا

گرتے ہیں پھول اناروں کے

گیتوں کی آگ کی پنکھڑیاں

اُس پار کھڑا تنہا سارس

اُس گیت کے موتی چُنتا ہے

جس کی خاطر

وہ جان کی قیمت دے بیٹھی

سفاک خزاں کے ہاتھوں نے

گو برگ زباں کا نوچلیا

تم دکھو تو

کتنی آوازوں کی کلیاں

اظہار کی کتنی مہکاریں

کھل اُٹھی ہیں

کہساروں پر، دریاؤں میں

ہر بستی میں، ہر گاؤں میں

آفتاب اقبال شمیم

کوئی لگن

دیو مالائی زمیں

یہ صدائے غیب کا معبد جہاں فطرت کے آزر نے

چٹانوں سے تراشی ہیں مقدس دیویوں کی مورتیں

دارچینی کے درختوں کے معطر جھنڈ اُن کے پنکھ ہوں

جیسے ابھی اُڑ جائیں گی

سو بہ سو آباد ہیں غاروں میں جادو کے نگر

پہروں کے گلستاں میں

وقت کا طاؤس جیسے چھوڑ جائے ان گنت انداز

اپنے رقص کے

چوٹیوں سے جھانکتی آنکھوں کے جلوہ زار میں

بہہ رہا ہے لی چیانگ

جس طرح کُھلتی چلی جائے چٹائی دھوپ کی

رینگتی جاتی ہوں جیسے چمپئی بیلیں نشیبوں کی طرف

کاسیا کے پھول

چاروں موسموں کے یاتری

اس کھُلے مندر میں آ آ کر جلاتے ہیں

عقیدت کے دئیے

گونجتی ہے صبح کے گنبد میں کرنوں کی اذاں

تو انہیں کرتا ہے بپتسمہ سنہری دھوپ کے چھینٹوں سے

دن کا دیوتا

لہلہاتی ہیں ہرے زینہ نما کھیتوں میں

دہقاں لڑکیوں کی ٹولیاں

سازِ محنت سے شعاعیں پھوٹتی ہیں

پھڑپھڑاتے پرچموں کی تھاپ پر

اور صدیوں کے سفر میں روح سے

بچھڑے ہوئے سُر کی صدا

تھرتھراتی ہے ازل کے گیت میں

آفتاب اقبال شمیم

تاچائے

احمق بوڑھے کے بیٹوں نے

دھوپ کے رستے میں حائل پربت کے پاؤں

کاٹ دئیے

تختہ اُلٹا آمر کا

میناروں سے قدآور دہقانوں نے

آنکھوں کے ، صبحوں کے پرچم کھولے ہیں

وقت اُڑاتا پھرتا ہے

محنت کی خوشبوئیں دن کے معبد میں

کاہن ہے۔۔۔۔ چھ یونگ کوے جس معبد کا

ہر چوٹی پر، ہر گھاٹی میں

سنکھ کدالوں کے بجتے ہیں

اور عقیدت قطرہ قطرہ

گرم ارادے کے ماتھے سے گرتی ہے

دیکھونا ! بینائی کے اس روزن سے

احمق بوڑھے کے بیٹوں نے

کیا تصویر بنائی ہے

نظم لکھی ہے ہریالی کے رنگوں سے

جو ہم عصر ہے فردا کی

آفتاب اقبال شمیم

دیوارِ چین

کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک

گزر گیا سیل ہمتوں کا

بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہگزر سی

پہاڑ چلّہ چڑھیح کمانوں سے تیر پھینکیں

تو آسماں گر پڑے زمیں پر

رواں دواں وقت کے بہاؤ میں

ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے

عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئی ے

جُھکے ہوئے آسماں کے نیچے

جو اس صحیفے کو عکس در عکس بانٹتا ہے

یہ رزمیہ۔۔۔۔ جو لہو کی شفاف روشنی سے

لکھا گیا ہے

زمیں پہ چنگاریاں اُڑاتے ہوئے وہ آئے

جو بازوؤں سے بلندیوں کا خراج

لیتے رہے

شکم کو اناج دے کر

مشقتّیں جن کی باندھیا ں تھیں

لہو کے نمکین ذائقے

رقص کرتے رہتے تھے

جن کے ہونٹوں کے آستاں پر

یہیں پہ جسموں کے پیڑ گرتے تھے راکھ بن کر

کڑکتی آواز۔۔۔۔ جبر کی چابکوں کی بجلی

انہی پہاڑوں پہ کوندتی تھی

یہیں پہ محنت کے نقش گرنے

لہو کے پانی میں سنگ گوندھے

صدائے یشہ اٹھی تو کہوں سے پھوٹ نکلیں

بقا کی نہریں

زمیں کو اُس کی بلندیوں کی طرف اٹھایا

اُفق کو بابندھا اُفق سے اُس نے

قدیم قوّت کی رخش نے دس ہزار ‘لی’ کی مسافتوں میں فنا کے تاتاریوں کے لشکر کو ماتدے دی

یہیں پہ محنت کے نقش گرنے

سلوں کو پہنا دئیے سلاسِل

بٹے ہوئے خود گرفت قلعوں کی باڑ توڑی

اُسی نے کوہوں کے سر پہ گاڑا

ہزیمتوں، نصرتوں کا پرچم

کشود کر کے جسے اُڑایا

کئی زمانوں کے وارثوں نے

جو اُڑ رہا ہے

نشیب کو آسما ں کی جانب اُڑا رہا ہے

جوکل کو کل سے ملا رہا ہے

آفتاب اقبال شمیم

لمحے کا سمندر

ہوا پیڑوں میں باتیں کر رہی ہے

جھینگروں کے شور میں ہریالیوں کی نغمگی ہے

لفظ معنی کا اشارا ہے

وہاں دیوار کے پیچھے سمندر سو رہا ہے

آسماں ڈوبا ہوا ہے جس کی نیندوں میں

صدف کو لوریاں دیتی ہوئی لہریں

کونل سے گیت کی خوشبو اُڑتی ہیں

یہ مِلنے کی گھڑی ہے، تم ذرا آنکھیں اٹھاؤنا!

بھری ہیں بادلوں کی جھولیاں

چاندی کے خوشوں سے

فضاؤں میں نمی کی روشنی سی ٹمٹاتی ہے

کسی قربت کی خواہش روح کے اندر

تڑپی، کلبلاتی ہے

یہ لمحہ وصل کا ہے

جسم پر محرومیوں نے کنچلی ماری ہوئی ہے

پیاس کے ٹھہرے اندھیرے میں

ذرا اپنا ہتھیلی پر دیا رکھ کر جلاؤنا!

کسی بے انت خواہش کے بہاؤ میں

دہکتی دوزخوں کو ایک لمحے کی خوشی سے

سرد کر ڈالو

جو ایسا ہو سکے تو کر دکھاؤنا!

آفتاب اقبال شمیم

ناتمامیوں کا گیت

گِیتا! آؤ، اُترونا

سپنوں کے زینے پر چڑھتے چڑھتے تم تھک جاؤ گی

آنکھ ہتھیلی پر رکھ کر

ان تاریک زمینوں میں کس بھید کو پانے نکلی ہو

دیکھی ہے نا، میری شکل توقع کے آئینے میں

میں کیا ہوں!

اک سایہ، اپنے سائے کا

تم اپنی واز مِری بے ہیت ذات میں

ٹپکاؤ گی۔۔۔۔ کیا پاؤ گی

گیت ادھورا، بےترتیب کناروں کا

باہر سے اسرار بہت ہے کانچ جڑی دیواروں کا

انگلیاں زخمی کر بیٹھی ہو

اور دوا نایاب ہے ایسے زخموں کی

آؤ! بیٹھو پاس مرے

اور مجھے جی بھر کر تم رو لینے دو

کہتے ہیں کہ آخری آنسو

جو آنکھیں بے نور کرے۔۔۔۔ امرت ہوتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

اونیس۔۔ سفر کی قوس پر

خشک دریا کا کشکول

یہ پتنگیں۔۔۔۔ حوالے کے دھاگے سے ٹوٹی ہوئیں

ڈولتے ڈولتے گر رہی ہیں کہاں

وہ کہاں ہیں جو سرسوں کی پھیلی ہوئی دھوپ میں

بھاگتے تھے انہیں لوٹنے کے لئے

اس برہما! تِرے کھیت کے ٹھنٹھ کیسے اُگیں

پیاس سے ہانپتا ہے کنواں

سیپ اوندھا پڑا ہے تہی ہاتھ پر

کوئی تعویذ کا معجزہ

میرے اکڑے ہوئے جسم کو لوچ دے تو چلوں یا مری آنکھ کے زخم سے

گھنٹیاں سی بجاتا ہوا خوں ٹپکنے لگے

یا نگل لے مجھے

جھاگ کی کپکپی سی اڑاتا ہوا اژدھا

تو کہ ہے آسمانوں، زمینوں پہ پھیلا ہوا

منکشف ہو کہ میں

جی سکوں، مر سکوں

رائیگاں ہوں تو پھر نیستی کی سزا دے مجھے

اوس ہوں تو اڑا دے مجھے

(٢)

روشنی کی ابجد

وقت کی شاخ پر

کوئی اُڑتا ہوا ہنس اُترا ہے کیا؟

ارض کے انگ کو گداگداتی ہوئی کپکپی

دوڑتی پھر رہی ہے مِرے خون میں

اور اپریل کا اوّلیں آسماں

جُھک کے برسا رہا ہے زمینوں پہ ہریالیاں

یہ ملاپ اور تخلیق کا وقت ہے

سامنے چار سُو

اک الاؤ سی عورت ہے لیٹی ہوئی

خواب، سرخاب سے۔۔۔۔

آب کے عکس نیلی فضاؤں میں اُڑتے ہوئے

کائیوں اور گدلاہٹوں سے اٹی جھیل میں

بَو رہے ہیں کنول

کس کے آنے کا اعلان کرتے ہوئے

کل کا دہقاں مِری راکھ کو مٹھیوں میں سمیٹے ہوئے

بورہا ہے مجھے

میں کہ نابود ہونے کے ہیجان میں

پھتیلتا جا رہا ہوں زمانوں کو باہوں میں گھیرے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم

نیم وا دروازہ

کوئی کیوں میرے اندھیروں میں چُھپے

میری معیاد ہی کیا، دہر ہے وُہ، دہر ہے وُہ

میں تو مظہر ہوں زیاں خوردہ اصولوں کا

مُجھے چُھپنے دو

میری زنجیر کے حلقے میں مِرے روز و شب

سُوبہ سُو ظاہر و مستور کے ابہام کی منظر گاہیں

نصف سچائیاں کھلتی ہیں مِری آنکھوں پر

کوئی اس سوچ کی گرہیں کھولے

کیا مرا آنا کوئی واقعہ تھا

موج روپوش جو ہو جائے تو کیا ہوتا ہے

ایک تشکیل کی صورت سی سدا مٹتی ہوئی

سات طوفانوں کی اونچائی پر

ایک تخریب کی یورش ہے بپا

روندتی رہتی ہے دریا کے ارادے کو سدا

کون کس سمت اُڑائے لئے جاتا ہے مجھے

زرد سا ہاتھ کسی حرکت کا

سانس کی ڈور سے باندھا ہوا کاغذ ہوں میں

آفتاب اقبال شمیم

سفارتیا

آسماں سے کٹ کے آکر گر پڑی

صحن میں دن کی پتنگ

تیر جو آخیل کا مقدور تھا

اُس کی ایڑی پر لگا

اور شاید نیم عُمری تھی ہلاکت آفریں

ایک پایے کی ضروت تھی جھکی چھت کے سہارے کے لئے

اُس نے اپے واسطے دیتانت کا نسخہ لکھا

بہ گئی ڈھلوان سے ساری تمازت دھوپ کی

بے کراں تھا وہ، اُسے

سوئیوں کی گردشوں میں وقت نے سمٹا دیا

اور اب

جسم کے قلعے میں وہ محصور ہے

ڈھونڈتا رہتا ہے روز و شب ربڑ سی بزدلی کی نرم نرم آسائشیں

یاد ہیں اُس کو پہاڑے نفع و نقصان کے

کر چکا ہے آخری ترمیم وہ رومان کے منشور میں

رینگتا رہتا ہے ساحل کے قریب۔۔۔۔

کیکڑا

آفتاب اقبال شمیم

مٹی کا زنگ

کیسے پیلے رنگ اُمنڈ کر آئے چاروں جانب سے

پتوں کی بارش میں ہم تو بھیگ گئے

کس بستی میں دھوپ کا نعمہ سُننے جائیں

سارے رستے سوچوں کے

جاتے ہیں بے انت نشیبوں کی جانب

قدموں کے آگے ابہام کی دلدل ہے

دل کی دہشت نگری کے سنّاٹے میں

کالے فوجی بوٹوں کی آواز سنائی دیتی ہے

بگل بجاؤ

رات کی اس ڈھلوان سے اُتریں

پسپا ہونے والی فوجیں

آج کا آرم رات گزرنے سے پہلے مر جائے گا

(کل بھی ہم نے حرف بہ حرف یہی سوچا تھا)

نہر کی سوکھی، سکڑی رگوں میں

ہول اُڑتا ہے

چوٹیاں اپنی دودھ سے خالی چھاتیاں کھولے بیٹھی ہیں

وہ اک ہو کے عالم میں

جھانک رہے ہیں آنکھوں کے سوراخوں سے

اور بقا کی خانہ جنگی

ہر زینے پر، ہر کمرے میں جاری ہے

آفتاب اقبال شمیم

رِچُوئل

زانیہ ہے کھڑی

اُس کے گلدے، اُبلتے ہوئے جسم میں

کتنے برسوں سے غرّا رہی ہے ہوس لذتِ سنگ کی

بِلّیاں بین کرتی ہیں دیوار پر، سو رہو

اپنی نافعلیوں کی گھنی یاس میں

وہ کھڑی ہے کہ آئے کہیں سے اُسے روندنے کے لئے

جاگنے کی صدا

سوچتی ہے کہ کب، جانے کب فروری ختم ہو

خشک پتے کو

بنجر بگولے کے ہسٹیریا سے رہائی ملے

جسم کے درپہ دستک ہو اُٹھے ہوئے ہاتھ کی

وائلن کے سلگتے ہوئے تار بجنے لگیں

وہ نہیں جانتی

کون آئے گا کب

مرد ذات اُس کی تحویل میں

کون آئے گا کب

شب کی دےوار کو پھاند کر

اور پھر دن چڑھے اُس پہ فتووں کے پتھر گرانے کی تقریب میں

جشن ہو گا پرانی رسومات کا

آفتاب اقبال شمیم

زید آ

رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوشبو اُڑی

جسم میں آہٹیں سی ہوئیں

نوجواں فصل کو کاٹنے کے لئے

دستِ آئندہ آگے بڑھا

خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں

روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جرأتیں

سرلٹانے لگیں

زید آہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں

ورہ اس جہل کی اوٹ میں چُھپ کے بیٹھے ہوئے

کیسے بچ پائیں گے

سچ کی دوپہر

یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں

ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے

اور اپنے ہی پیچھے کھڑے

خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں

آفتاب اقبال شمیم

دن دریا

اے جنگجوؤ!

ان شامو ں پر یلغار کرو

آتی ہیں جو آگے پیچھے

کتبے لے کر، دھندلائے ہوئے پیغاموں کے

آؤ، آؤ

اگلے دن کو مسمار کرو

یہ کیا کہ کل بھی جینا ہے ان شرطوں پر

جو مجھ پر عائد ہیں جن کو

لکھا ہے نابیناؤں نے

آنکھیں آنکھیں۔۔۔۔ سب جمع کرو

بھر دو بھر دو ان روشنیوں میں لشکارے

پہنچائے مری سرگوشی کو شعلےکی زباں

ان بوندوں تک

جو قید ہیں ٹھہرے پانی میں

پھر لہروں کے، انبوہوں کے بازو اُٹھیں

ننگے پیروں کی طغیانی

ہموار کرے سب اونچی نیچی جگہوں کو

یہ باہوں کے سوکھے حلقے

پیارے بدنوں سے بھر جائیں

ہر قطرہ دریا بن جائے

آفتاب اقبال شمیم

ہم

اے زمیں! گھاس تیری ہری نظم ہے

تو جسے ہر جگہ، ہر اُفق پر، سمندر کی گہرائیوں میں

سدا گنگناتی رہی

جو کبھی کوہساروں کے پرچم کا کتبہ بنی

تو زمستاں کے عفریت نے تیز داتنوں سے کترا اُسے

اور پھر کف اُڑا کے ہوا میں بکھیرا اُسے

راستوں میں اگُی

تو وہاں تہ بہ تہ گرد نے اُس کے نقشوں کو مدہم کیا

سبز معصومیوں کو سدا

منجنیق اور نیپام کی نفرتیں بدبوؤں سے شرابور کرتی رہیں

بارہا راکھ بکھری

زمیں پر کئی پیلے پیکر زمانوں کے شانے لگے

پر ہمیشہ ہوا یوں

کہ ماں سبز اولاد جنتی رہی

نظم بنتی رہی

آفتاب اقبال شمیم

سمے اور مَیں

خود کو کس آگ میں پھینکوں کہ چٹخ جائیں تہیں عمروں کی

اور تاریخ مجھے پھر سے جنے

وقت! اے مہلتیں دینے والے

تیری اک آن کی یورش میں بہیں دُنیائیں

دیکھ! کندھے پہ اٹھائے ہوئے خواہش کی صلیب

تیرے رستے میں کھڑا ہوں

آکر

روند دے مجھ کو زمانوں کی گزرگاہوں میں

پھر مجھے میٹھوں میں بھ کے ہواؤں میں بکھیر

وقت آ!

اصل کی شکل دکھا

تاکہ کوہوں کے عقب سے ابھرے

آسماں معنی کا

اور اٹھوں میں شاعوں کے شجر کی مانند

اپنے خاکستر سے

روشنی اور ہوس جینے کی

مجھ سے باہر مجھے خوشبو کی طرح پھیلا دے

آفتاب اقبال شمیم

ایک پہر کا فاصلہ

سامنے کوہساروں پہ چڑھتی ہوئی صف بہ صف کھیتیاں

ندیوں کے کمر بند باندھے ہوئے

آسمانوں کی جانب قدم بہ قدم چڑھ رہی ہیں

یہ سِیڈار کے نیلگوں سبز پیڑوں کے جھرمٹ

اُٹھائے ہوئے اپنے پر، اُڑنے والے ہیں

تازہ ہوا قریہ قریہ کسانوں کی محنت کی خوشبوسمیٹے ہوئے بانٹتی پھر رہی ہیں

زمیں منہ پہ فصلوں کا گھونٹ گرائے ہوئے

کھردرے ہاتھ کے لمس کی آنچ سے

لذتوں میں شرابور ہے

اور سورج پہاڑوں کی مستک پہ ٹھوڑی کو ٹیکے ہوئے

تک رہا ہے مجھے

میں یہاں اپنے پاتال میں ڈھونڈتا ہوں کہ میں ہوں کہاں

اور سب ہیں کہاں

اس بکھرنے کی تحریک میں

کونسی لالچوں

کونسے فلسفوں کی کمندوں نے پھینکا مجھے

میں کہ کھوئی ہوئی نسل کا آخری فرد ہوں

آخری ذات ہوں

میں کہ تردید ہوں اور اثبات ہوں

آفتاب اقبال شمیم

دھند میں اٹھتا ہاتھ

الف۔سبز نیلے پروں کو اٹھائے ہوئے

یہ دیودار صدیوں سے اُڑنے کو تیار ہیں

اور اُڑتے نہیں

بیدمجنوں سے شاخوں کی لڑیاں لٹکتی ہوئیں۔۔۔۔جیسے گرجائیں گی اور گرتی نہیں

اور زرخیز مٹی سے اُگتا نہیں موسموں کا ثمر

میں مسافر۔۔۔۔ سفر کی اُترتی ہوئی قوس پر ہوں رواں

شام کیگردمیں خود سے روپوش ہوتا ہوا

سامنے۔۔۔۔ انت سے لے کے بے انت تک

راستے، راستوں سے نکلتے ہوئے۔۔۔۔ رُک کے رُکتے نہیں

خواب ، منظر، حقائق۔۔۔۔ سبھی کے سبھی

ہیں خلا میں معلّق ۔۔۔۔ جمود و تحرک

”تہیں” اور ”ہے” کا تماشا بنے

ب۔ تجھسے منکر ہے اندر کو کھلتی ہوئی آنکھ جو

دیکھتی ہے مگر دیکھتی بھی نہیں

تو نہیں جانتا ہے کہ امکان کی سرحدیں

روز کی گردشوں سے پرے

تیرے قدموں کو چھونے کو تیار ہیں

تو تخال کے خودزاد سایوں میں ڈوبا ہوا

اپنا قامت کی تحلیل تک

جانتا ہے مگر جانتا بھی نہیں کس طرح

تیسرے پہر سورج کے پُرزے اُڑیں

اور ہر شے کے پاؤں سے سائے اُگیں

موج در موج لشکر بڑھیں

جن کی ٹاپیں اندھیراُڑاتے ہوئے

اپنے اندر ڈبو دیں ہمیں

بے کراں وسعتیں اور بے تہ اندھیرے کی گہرائیاں

اس سمندر میں ڈوبیں تو ابھریں نہیں

اور چاہیں تو ہم

جرأتوں کے دل افروز لمحے کی آواز پر

اپنے جسموں کے انبار سے پاٹ کر

روشنی کا ہمالہ بنا دیں اِسے

آفتاب اقبال شمیم

عہد

عظیم خواہش! گواہ رہنا

کہ ہم نے کل فیصلے کی تکبیر پڑھ کے اپنا لہو

بہایا تھا راستوں پر

جہاں پہ ہریالیوں کا پرچم

مہ دستارا کی اوج پر لہلہا رہا ہے

گواہ رہنا کہ

کل کی ظلمت کو ہم نے تسخیر کر لیا ہے

تمام اہرام اپنے سائے پہ آگرے ہیں

ہماری جانب سحر نے پھینکی ہیں مٹھیاں بھر کے روشنی کی

بلندیوں سے برستی کرنوں نے کر دیا ہے

زمیں کا سارا بدن سنہرا

جوان لڑکوں نے سر پہ باندھے ہوئے ہیں سہرے

گلی گلی بے حساب چاہت کی خوشبوؤں سے بھری ہوئی ہے

عظیم خواہش گواہ رہنا

کہ ہم نے تکمیل کے سفر پر

روانہ ہونے سے پیشتر عہد کر لیا ہے

کہ ہم کسی مصلحت کے آگے نہیں جُھکیں گے

ہم اپنے منہ پر مفاہم کی سیاہ کیچڑ نہیں ملیں گے

گواہ رہنا کہ عزم اپنا

ہمالیہ سے بلند تر ہے

ہماری آنکھوں میں ساری مشرق کی دھوپ سمٹی ہوئی ہے

پیشانیوں پہ خاکِ وطن کا سونا چمک رہا ہے

ہمارے جذبوں کا رہ نما ہے

لہو سے لکھا ہوا نوشتہ محبتوں کا

آفتاب اقبال شمیم

زخم بینا

میں اپنے آپ کو تسلیم کر لوں

اور میرے خون میں جو ضعف کی، انکار کی گرہیں پڑی ہیں

کھول دو اُن کو

پرانے جسم کے جنگلے کو توڑ وں

اور دو رویہ فصیلوں کی گلی کی قید سے آزاد ہو کر

اپنے دائیں اور بائیں پھیل جاؤں

ساحلوں کو روندتا دریا نئی سمتوں کے معنی ڈھونڈ لے

دریافتیں ہونے کی، نہ ہونے کی ہو جائیں

بغاوت میرا مذہب کیوں نہیں

یہ روح سیسے کی طرح بھاری۔۔۔۔اُٹھانے کی سزا

میرے لئے کیوں ہے

خداوند! یہ کیسی بستیاں ہیں جن کا

مستقبل کھلا ہے

اور جن میں رہنے والے آج کی گاڑھی ہوس میں

ناف تک ڈوبے ہوئے ہیں

جن ک چہرے یوں بدلتے ہیں

کہ جیسے روز کے اخبار کی شہ سرخیاں ہوں

اشتہاروں کی فحاشی جن کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے

جنہیں ڈھلتی ہوئی عمروں کے ڈھیلے پن کا مہلک عارضہ ہے

جن کے دھڑ سے

چوب کے بازو کسی مردار خواش کی طرح لٹکے ہوئے ہیں

اور ساری جمع و تفریق کے ہندسوں کی آبادی

مرے اندر، مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے

اے خدا! اے مُردہ و زندہ زمانوں کے خدا

اِن بستوں کی دوزخیں کب سرد ہوں گی

اوریہ انبوہ کب میری گواہی دے گا

اپنے آپ کو تسلیم کر لے گا

آفتاب اقبال شمیم

سن شائن

گرا دو

ساری دیواریں گرا دو میرے سر پر

اور پھر سوچو

کہ کیا کوہوں کی جبریت کسی دریا کارستا

روک سکتی ہے

تمہیں کیوں وہم ہے

کہ کاغذوں کے پھول خوشبوئیں اڑاتے ہیں

تمہارے قمقموں کے سرد پس منظر میں

ظلمت کے سمندر ہیں

ہوا میں تتلیوں کے پر اُڑانے سے

نیا موسم نہیں آتا

زمیں پر ہر طرف چیلوں کے سائے

سنگ باری کر رہے ہیں

کوہ پیکر جبر کے ہاتھوں میں پرچم ہے اُجالے کا

اُجالا جو نہیں ہے

اور جو اپنی نفی پر قہر بن کرٹوٹنے والا ہے

جس کا عکس

کالے درد میں جھلسی ہوئی آنکھوں کی کرنیں ہیں

جنہیں کل فیکٹری کے گیٹ پر

تم نے انڈیلا ہے

آفتاب اقبال شمیم

انا سے ماورا تک

آخری، اعلیٰ ترین

فعل۔۔۔۔ جس سے پھوٹ کر بہنے لگے

سب سلاخیں ٹوٹنے کی

اور زنجیروں کے گرنے کی صدا

فعل۔۔۔۔ جس کے بعد خود کو جاننے کا اژدھا

ہر کسی کو کاٹ لے

پاؤں میں روندی ہوئی پیلی، پرانی گھاس سے

اُڑنے لگیں

سبز، گہرے سبز موسم کی گلابی خوشبوئیں

فعل۔۔۔۔ جس کے زور سے

کُل زمانے ایک ساعت میں سمٹ آئیں

نئے دن کی گواہی کے لئے

یہ سُلگنے کا عمل

کب تک۔۔۔۔ یہ اپنا قہر اپنے آپ پر

کرگسوں کے نوچنے کا

اور کالے پانیوں کا جبر

خود پر رحم کھانے کی سزا

بند ہیں سائے کے پنجرے میں پرندے

اور باہر سخت کا سورج

پہاڑوں پر کھڑا

ہر کسی سے کہہ رہا ہے آؤ۔ آؤ

فیصلے کی جست سے

تحت الثریٰ کو آسمانوں سے ملاؤ

آؤ۔ آؤ

آفتاب اقبال شمیم

پردہ گرتا ہے

لے تجھے

پھینکتا ہوں فرش پر

ٹوٹ، ٹوٹ، ٹوٹ جا

میں چلا ہوں دُور اس مکاں سے دُور

بوٹ سے مسل کے اپنے نام کو

اے جہالتوں کی رات!

آ جھپٹ کے نوچ لے

اِن تنے ہوئے سروں کی آبرو

اے غرور کے خُدا

بے شعور کر مجھے

ریت، ریت، ریت ہر طرف اُڑا

بے محیط آندھیوں کی نفرتیں

ناچتی رہیں دھڑوں کے ڈھیر پر

سمفنی

میرے سات نوجوان بھائیوں کی موت پر

چیخ وار قہقہے، چیخ اور قہقہہ

دیک! اُس غروب کی زمیں کو دیکھ

جس پہ گر کے مر گئی

کُل جہاں کی روشنی

آفتاب اقبال شمیم

سو ضرب صفر

اُس کی پگھلی ہوئی چھاتیاں

رات کے وقت ٹھہری ہوئی ریت میں بہہ گئیں

گرد میں

ناف تک جسم ڈوبا ہوا

اور آنکھوں میں ڑواہٹیں ڈبڈبائی ہوئیں

آئینے کے مقابل کھڑے

فاحشہ

فالتو جسم کو کاٹتے کاٹتے بے نشاں ن ہو گئی

آئینے کے مقابل کھڑے

زید اُٹھے ہوئے بازوؤں کی کمانوں سے

چھوڑا گیا

اور اُڑتے ہوئے

نیستی کے خرابے میں گُم ہو گیا

ایک مہمل زیاں ناپنے کے لئے

دن کے سوراخ سے ریت رستی رہی

کُل جہانوں کا عہد

زمیں کی ناف پھٹتی ہے

تو گہرے زلزلے چنگاڑتے ہیں اور پھر

مرگی زدہ مینار

چُڑ مُڑ کاغذوں یا فروری کے خشک پتوں

کی طرح پاگل ہوا کی انگلیوں پر ناچتے ہیں

اور وہ دانتوں سے

بورھے بازوؤں کی رسیوں کو کاٹ دیتی ہے

پرانے آسماں کا زرد خیمہ

ٹوٹتا ہے

جُھریوں کی چھال گرتی ہے درختو ں سے

اُدھر دیکھو

گرجتے پربتوں کے غول پے در پے

بلند آواز کے پرچم اُڑاتے آرہے ہیں

بجلیوں نے سخت سناٹے کو

اپنے ناخنوں سے چیر ڈالا ہے

اُدھر دیکھو

تن آور فیصلے کی یورشوں میں ڈوبتی جاتی ہیں

بنجر گھاٹیاں کل کے اندھیرے کی

ابھی چہرے سے مصنوعی سفیدی کا پلستر

زور سے چٹخے گا

ہم آنکھوں سے گونگے ضبط کے گاڑے ہوئے

نیزے سے نکالیں گے

ابھی سبزہ خلاؤں میں اُگے گا

نوجواں لڑکوں کے میلے میں ہرے موسم

ہمارے کُند جسموں سے اتُاریں گے

کئی برسوں کی نسواری تہیں

ہم وہ نہیں ہوں گے جو ”ہیں” یا ”تھے”

مگر ننگے بدن پر وسوسوں کی، خوف کی

چمگادڑیں چمٹی ہوئی ہیں

اور خوش فہمی کا میٹھا ذائقہ

سب کی زبانوں سے ٹپکتا ہے

کئی سرگوشیاں

تاریک مفروضوں کے جالے بُن رہی ہیں

اس نئے معبد میں

قوت کا خُدا ہم سے کہے گا

میں نئے انبوہ کا آئین ہوں

اقرار جس کا

سب پہ لازم ہے

نہیں ایسا نہیں ہو گا

ہم اپنی خودکشی سے پیشتر اقرار کرتے ہیں

نہیں ایسا نہیں ہو گا

آفتاب اقبال شمیم

لا مرکز آوازیں

ایک آواز۔

پوربوں میں دُھول دُھول سورجوں کے گردباد بُجھ گئے۔

شام بے لباس ہے

اور اُس کی کوہ کوہ چاہتوں پہ آسماں جُھکا ہوا

گھونٹ گھونٹ پی رہا ہے کپکپاتی آنکھ سے

بے نمود روشنی کی لذتیں

آ کہ یہ عبادتوں کا وقت ہے

اے عظیم باپ تُو

ہمیں ہمارے بنجروں کے سہم سے نجات دے

یہیں کہیں

ہزار بجلیاں ہوا کی مٹھیوں میں بند ہیں

کھڑے ہیں اپنے آپ سے جُدا، ہم اپنے سامنے نہ جانے عکس۔

آئینے کی پیاس کب مٹائے گا

اے عظیم باپ تُو

ہمیں بُجھا۔۔۔۔ کہ پوربوں کی آندھیاں

ہماری زرد راکھ کے لباس کو اُتار دیں

دوسری آواز

قدیم جسم دلدلوں کی شام میں

غروب ہو چکا ہے۔۔۔۔ دیکھتے نہیں؟

لہو کی روشنائی سے زمین کی جبین پر

لکھی ہوئی شہادتیں

اے عظیم موت! تو گواہ رہ

وہ کہ جن کی گردنوں سے خوف کی رسولیاں

لٹک رہی تھیں

بے نشان ہو چکے!

آفتاب اقبال شمیم

ایک مکالمہ

آ چلیں۔۔۔۔سامنے بائیں جانب کو مُڑتے ہوئے راستے پہ چلیں

کیوں، وہاں اُس طرف کیوں چلیں، اِس طرف کیوں نہ جائیں۔۔۔۔ مگر سوچتا ہوں کہ یہ اور وہ ایک ہی راہ کے دو زمانے ہیں، دو حالتیں ہیں، صدی دو صدی کے شور اور رفتار کے مظہروں کے سوا اورکچھ بھی نہیں ، اور کچھ بھی نہیں۔۔ کیوں چلیں، اُس طرف موسموں کی ہوا۔۔ چھوڑ ہم اُڑتے پرندوں کے انبوہ سے کس لئے جا ملیں اور پھر زید کے تنگ جوتے مجھے کاٹتے ہیں۔ یا اُسے یا مجھے زرد آنکھوں کی تکلیف ہے۔ آ یہیں۔۔۔۔ آ یہیں بیٹھ جائیں، یہیں گھاس پر۔۔۔۔ جانتے ہو یہ پاؤں میں روندی ہوئی گھاس، بنجر زمیں اور قدموں کی گرمی کی اولاد ہے۔

آچلیں۔۔ یہ دھوئیں اور مٹی کی باتیں ہیں، باتوں کے زینے پہ چڑھتے ہوئے تیرا دم ٹوٹ جائے گا۔۔ آ اب چلیں۔

کس طرف! کس طرف! ۔۔۔۔ میرے آقا! مجھے دائرے کے مسلسل سفر سے رہائی دِلا۔ انگلیاں، انگلیوں پر لپیٹے ہوئے میں کہاں تک گرہ بینوں سے نکلنے کی خواہش کروں اور لفظوں کی بارش میں بھیگے ہوئے، آنے والے خطوں کے مضامین بے معتبر نامہ برکی زباں سے سنوں۔۔۔۔ اور رنگوں کی آلائشیں۔۔۔۔ سب منافق ہیں۔ ہر بات سچّی بھی ہے اور جھوٹی بھی ہے۔

ڈیش اِٹ

اوہ۔ مت نوچ آنکھیں کہ یہ روشنی کی امانت ہیں، جن کے گنوانے کی پاداش میں گونج کی راہداری میں چلنا پڑے گا تجھے عُمر بھر۔۔۔۔ تُو کہ تُو زید کا دوسرا نام ہے۔ نصف چہرہ، تیرے دوسرے نصف چہرے کا بہروپ ہے۔۔۔۔ دیکھ! صدیوں کی پگڈنڈیاں، کارگاہوں سے بے رزق خلقت نکلتی ہوئی، ایک ہی سمت سے لوٹ کر ایک ہی سمت کو روز جاتی ہوئی، دُکھ کے دن روز و فردا کے ڈائل پہ چلتے ہوئے۔

یہ خدائی کو زیر و زبر کرنے والے مسائل نہیں۔۔۔۔

ڈیش اٹ۔ ڈیش اٹ

اور ڈائل پہ چلتی ہوئی سوئیاں اور سورج مسافر، مسافر تِری سانس میں اور تُو۔۔۔۔ منزلیں، منزلوں سے پرے تیرا ساحل سمندر سے پہلے بھی ہے اور آگے بھی ہے، ایک ہی راستے اور رشتے میں ہر شے پروئی ہوئی تجھ سے منکر نہیں۔۔۔۔ اپنا اقرار کر۔

اجنبی تو بہت نارمل ہے، بزرگوں کے اقوال کو سّچ سمجھتا ہے لیکن یہاں دیکھنے اور کم دیکھنے کی سزا ایک ہے۔ میرا ہونا، نہ ہونے کی تائید ہے۔ دوریاں، بے سفر دوریاں اور تو فاصلے کی مسافت گراف اور گرامر کی گردان سے ناپتا ہے۔ مگر میں نہیں، میں نہیں۔۔۔۔ ذلتیں منتشا، اے سلیبا، خود آگاہیاں منتشا۔۔۔۔ دہشتیں دشت دم دم گراں۔۔۔۔ پھوڑ دے، ہاں اسے پھوڑ دے۔

آفتاب اقبال شمیم

نیا مسیحا

سنگ زادوں نے کہا

کوئی تمثال کے جادو سے ہمیں زندہ کرے

کوئی آواز

تحرّک کے نئے قاعدے ایجاد کرے

رنگ کی ذات ہے کیا؟

روشنی اور اندھیرا کیا ہے؟

بے گرہ ہو کے سوال

منکشف ہم پہ ہمیں کر جائیں

کوئی آواز ہمیں

آن کی آن میں ظاہر کر دے

نیم بینائیاں انوار کے چشمے میں دُھلیں

او ر ہم دیکھ سکیں دور نما رازوں کو

سنگ زادوں نے کہا

کوئی وہ ضرب لگائے جس سے لفظ دو نیم ہو، چنگاریاں ہر سُو برسیں

اور معنی کی تپش سے یہ زمستاں کی زمیں

دھوپ کے غسل میں عریاں ہو جائے اور ترسے ہوئے ہونٹ

لب بہ لب حسن کے منظر پی لیں

پھر وہ آیا تو صدائیں گونجیں

آؤ ہم بکھری ہوئی آنکھوں کی

کِرچیاں چُن کے نئے خواب کا منظر لکھیں

انگلیاں زخم کی تاثیر سے گرمائی ہوئی

عہد نامے کے نئے صفحے پر

آنے والے کی گواہی کو مکرّر لکھیں

آفتاب اقبال شمیم

نیا عہد نامہ

ابھی کٹہروں میں پابہ زنجیر لائے جائیں گے

خواب میں چلنے والے مجرم

زمیں کی شہوت سے چُور جسموں کی جالیوں سے

ہمیں ہمارا شعور جھانکے گا

اور ہم خوردبیں کے نیچے

مسام اندر مسام اپنی منافقت کے کنوئیں میں

اوروں کا عکس ڈھونڈیں گے

اور اونچے چبوترے سے

مکعب فقروں کا بُت ہمیں گھورتا رہے گا

گلی کے درویش کی صدا آج بھی یہی ہے

لہو۔۔۔۔

طہارت کا گرم چشمہ اُبل کے اب سرد ہو چکا ہے

ہماری میراث خودکشی ہے

اُدھیڑ عمروں کے جوہڑوں پر مفاہمت کی سیاہ کائی جمی ہوئی ہے

زباں پہ میلی کراہتیں ذائقہ بنی ہیں

فلاک ٹیٹس کا فحش گھاؤ سفید کیڑے اُگل رہا ہے

ہمارا مقسوم۔۔۔۔وقت کی پیچ دار سڑکیں

دمہ زدہ موٹروں میں ہم رینگتے رہیں گے

لہو کی تہمت سے سُرخ لوہے کی نوک سے

دشمنی کا اعلان لکھ رہے ہیں

ابھی ابھی باپ اور بیٹے میں جنگ ہو گی

زباں زباں پر

اُبلتے فقروں کے جوش سے آبلے اُگیں گے

مکاں کا مالک گرجتی آواز میں کہے گا کہ اب چلے ہو تو پھر نہ آنا مکاں سے باہر برہنگی ہے

پرانے سائے کو اپنے جسموں سے کاٹ کر بے اماں پھرو گے

تمہاری خواہش کی پیاس سورج کی سنگ باری سے اور بھڑکے گی

اور بھڑکے گی۔۔۔۔اور تم بے اماں پھرو گے

تمہارے آگے ڈراؤنے خواب زار میں جاگتے دنوں کے کریہہ منظر

ڈراؤنے خواب زار جن میں

جلے ہوئے ٹنڈ منڈ پیڑوں سے دائرے، مستطیلیں،مخروط اور ہندسے لٹک رہے ہیں

زمیں کی بدفعلیوں کے پروردہ شہر زادو!

تمہارے جُز دان میں عقیدے کا ایک پارہ نہیں ہے

تم اس طرح ہو جیسے

ہوا میں ٹوٹی ہوئی پتنگیں

گرجتی آواز سُن کے بیٹا

خود اپنے اندر سمٹ کے موہوم ہو گیا ہے

وہ سوچتا ہے

بزرگ رستم پُرانے منشور کے تعصّب کا تیز خنجر

مِرے لہو میں ڈبو کے مجھ سے کہے گا

لکھوں

نئے زمانے کا عہد نامہ

نئے مکاں کی حدود بندی قبول کر لوں

آفتاب اقبال شمیم

نیلی گرد کا زمزم

میں تخّیل کے تشدّد کا شکار

دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے

سُن رہا ہوں

پھڑ پھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا

درد کی بوڑھی چڑیلیں

آنکھ کے صحرا میں اپنی ریتلی آواز میں سب کو پکاریں

آؤ آؤ

میں اکیلا اپنے سناّٹے میں، گردوپیش کے آشوب میں کھویا ہوا

چل رہا ہوں

راستے کے سنگریزے آنکھ سے چُنتے ہوئے

تاکہ پتھرائی ہوئی صر صرکی سڑکیں، رفتہ رفتہ میرے پاؤں چاٹ لیں

چل رہا ہوں

جانے کِس جانب مجھے جانا ہے، کیوں جانا ہے

شاید فاصلوں کی انتہا اُفتادگی ہے

اور شاید

منزلیں اُس واہمے کی موت کا منظر ہیں

جو تازہ لہو کے آئینے کا عکس ہیں

اور کیا معلوم۔۔۔۔یہ بھی واہمہ ہے

کاش کوئی لفظ اپنی بند مٹھی کھول دے

اور کاغذ پر بجھی سطروں کا جال

مجھ پہ چاروں سمت سے آ کر گرے

کیا خبر آزاد ہو جاؤں لق و دق ریت کے کہرام سے

چیختی چیلیں زمیں سے سایہ سایہ چیتھڑوں کو لے اُڑیں

اور میں مٹی کی ننگی گود میں لیٹے ہوئے

آسماں کو اپنے اوپر اوڑھ  لوں

آفتاب اقبال شمیم

ایوری باڈی نو باڈی

لٹکتی سانس کے پردے پہ برسوں کے پرانے، ملگجے جالے کشیدہ ہیں

ہوا کی آب گوں ململ میں ننگا جسم لپٹا ہے

پھٹی آنکھوں میں ناخن اُگ رہے ہیں، آؤ۔۔۔۔جالی دار دیواروں پہ

کوئی پوسٹر چسپاں کرو، اعلان کر دو۔۔۔۔ آج اُس کے استخوانی ہاتھ

اُس کی موت کی تاریخ لکھیں گے

کسی اخبار کے چالیسویں کالم میں اُس کا نام کل مذکور ہو گا

بے درخت و سنگ میدانوں میں اُس کی

بے صدا آواز اپنا عکس ڈھونڈے گی

تو کوئی سر کٹا بے نام ہیرو خاک سے اُٹھ کر

دھوئیں کے دائرے سے ایک کالا لفظ پھونکے گا

اُسے پتھر بنا دے گا

اُسے کہہ دو کہ ہم بھی جالیوں والی عمارت کے مکیں ہیں

جس کے سوراخوں پہ

سرجن نے مکینک کی جراحت سے نئی آنکھیں لگائی ہیں

کہ شاید اندرونی حادثوں کو جذب کر لیں اور سارے حرف

اپنے حاشیوں کی قید سے آزاد ہو جائیں

اُسے کہہ دو کہ ہم، ہم بھی نہیں ہیں، شام کے انبوہ سینماؤں سے

جب باہر نکلتے ہیں تو ہم اپنی شباہت

ہر کس و ناکس کے چہرے میں نمایاں دیکھتے ہیں،

رات کے بھاری کواڑوں پر

ہمارے ہاتھ شب بھر دوسروں کی دستکیں دیتے ہیں

جیسے اجنبی گھر ہو

جسے برسوں سے ہم اپنا سمجھتے ہیں

اُسے کہہ دو کہ وہ خود بھی نہیں ہے، زرد معیاروں کی دنیا میں

ہزاروں دھوپ چھاؤں کے بنے پیکر

خلا میں اپنا ویثرن ڈھونڈتے رہتے ہیں، بچوں کی طرح

بھیگی ہتھیلی سے

کسی دیوار پر اپنے ہی سائے کو مٹاتے ہیں

مگر کچھ بھی نہیں ہوتا

اُسے کہہ دو کہ ہم تو سرسری کردار ہیں

جو روز کی جنگوں میں مرتے ہیں

مگر کچھ بھی نہیں ہوتا

آفتاب اقبال شمیم

بے زور آور

چھتیں چھلنی ہیں

کالے موسموں کے زور سے کمرے کی دیواریں لرزتی ہیں

وہ اپنے آپ سے باہر کہاں جائے

کہ سارے راستے آخر یہیں پر لَوٹ آتے ہیں

برہنہ رات کو وہ’فرض کردہ، روشنی سے ڈھانپتا ہے

نیستی کے خوف سے چُھپ کے پنہ گاہوں میں

دن کے حیر کی زنجیر

پتھریلی زباں سے چاٹنا رہتا ہے

بے الزام قیدیں کاٹتا ہے

اور کہتا ہے

سزا ک زہر امرت ہے

یہاں اپنی حدوں کے مُلک میں بھی دوسروں کا دخل

برحق ہے

یہاں جینے کی یہ مشروط آزادی ہمارا خود نوشتہ حُکم نامہ ہے

تو پھر یہ بے دلی کا مُوڈ

اپنے آپ سے یا دوسروں غیر دلچسپی

سُلگتی آگ سے اُٹھتے دُھویں کے گھونٹ

آخر کون سے غم کا مدا وا ہیں

مشاغل، عادتیں، خوش فہمیاں، ہندسہ نما الفاظ

سینے کے پھٹے زخموں کو بھرنے کے لئے کافی۔۔۔۔بہت کافی ہیں

جینے کے تدّبر اور جذبے کا تقاضا ہے

کہ ہم اپنے نشیبوں سے بلندی کی طرف دیکھیں

جہاں کے اوج سے فتحیں

تمنا کی زباں میں ہم سے کہتی ہیں

کہ ہم بونے نہیں ہیں دیوتا ہیں

جو نئی ساعت کی کالی ریل کے نیچے کٹے اعضا کو جمع کر کے

دوبارہ جنم لیتے ہیں۔۔۔۔

اس نوروز پر جینے کا پھر سے عہد کرتے ہیں

آفتاب اقبال شمیم

کایا کا کرب

اُس نے دیکھا

وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں کھڑا تھا

بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں

کسی جلاّد کے قدموں کی آوازیں مسلسل

سُن رہی تھیں

آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدّت سے

اپنی بے بسی کا زہر پی کے

مر چکے تھے

اُس نے چاہا

بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے

مگر شاخوں سے مُرجھائے ہوئے پتّوں کی صورت

ہاتھ اُس کے بازؤں سے گِر چکے تھے

آفتاب اقبال شمیم

سنگ بے حیا

قید خانے کی دیوار پر انگلیوں کے نشان

ناخنوں کی خراشیں

سزا یافتہ مجرموں کی شب و زر سر پھوڑنے کی صدا

تیس برسوں سے رو کی ہوئی سانس

سینے میں سولی کی مانند لٹکتی ہوئی

اور آنکھوں کے جلتے ہوئے دائرے سے نکلنے کی

ممنوعہ سڑکوں پہ پھرنے کی خواہش کا

تاوان۔۔۔۔ہر سوچ کی نامرادی

(بگولے کی زنجیر کو خار و خس توڑ سکتے نہیں)

نینوا کے اندھیرے کنوئیں، دل کے پاتال میں

کوئی برسوں سے گرتی ہوئی چیخ

ہاروت و مارت کو چُھو کے لوٹی نہیں

آسماں اتنا اونچا ہے

پاؤں کی اکڑی ہوئی انگلیوں پہ کھڑے

بازؤں کو اٹھائے ہوئے، سوچتا ہوں۔۔۔۔کہ چُھولوں اسے

تیس برسوں کی روکی ہوئی سانس چلنے لگے

آفتاب اقبال شمیم

طلسم بے اسم

میں کبھی اُڑتے ہوئے رنگوں

کبھی بوئے گریزاں کے تعاقب میں اکیلا

شہرو صحرا میں پھرا

تاکہ مِل جائے ہجومِ ناشناساں میں وہ صورت آشنا

جس کو میں نے جسم بے ہیّت کی صورت

حرفِ بے اظہار کی مانند سوچا تھا

مگر دیکھا نہ تھا

جس کی چاہت میں نگاہیں

رنگ و صوت و جسم و جاں کو جمع کر کے

(او ر غیر آسودہ ہو کر)

منتشر کرتی رہیں

اور میں ناقابلِ تعبیر خوابوں کے خرابے میں

خجل ہوتا رہا

میں کہ تھانا خود شناس

ششدر و حیران ہزاروں آئنوں کے درمیاں

دُور سے آتی شعاعوں کے بدلتے زاویوں کے ساتھ ساتھ

رُونما ہوتے ہوئے ہر واقعے کے پیش و پس منظر کو

نقشِ دل بناتا تھا، مٹاتا تھا کبھی

بے اُفق ۔ نادیدہ ساحل آنکھ کے

قربتوں کے اِس طرف اور دُوریوں کے اُس طرف

اور مفروضہ حدوں کے درمیاں بھی

دُوریاں ہی دُوریاں

ظاہر و باطن کی دنیاؤں میں ہر سُو

لا تعلق صورتیں

روپ، رشتے۔ رفتہ و آئندہ کی جادوگری

میں اُسے شکلیں بدلتے

شہر بے تشبیہ میں کیسے ڈھونڈتا

غالباً

ہر تماشا، واقعہ۔ حرف و نظر کے دامِ کوتاہی میں تھا

میں گرفت نیم آگاہی میں تھا

آفتاب اقبال شمیم

ہم ذات کے نام

کتنی سفّاک تھی

موجِ آتش نفس

جو کہ برسوں کے پتھر کو

لمحوں کا تنکا بنا کر

بہا لے گئی

اور میں درد کے آبِ پایاب میں

ڈوبنے کے لئے

خواہشوں کے خُدا سے مناجات کرتا رہا

تُو خزاں زاد، بھیگا ہوا بارش برگ میں

بے نشاں راستوں یہ رواں

اپنی آواز کو میرے لہجے میں سُنتا رہا

شہر میں

دھوپ کی دھار سے

سارے سایوں کو کاٹا گیا

سُرخ آنچل ہری رُت نے اوڑھا نہ تھا

کہ اُسے

بیوگی کی سزا دی گئی

لوگ مایوسیوں کے عَلَم لے کے چلتے رہے

آس کی پیاس سے مرنے والوں کے اعزاز میں

تعزیے

ہر مکاں سے نکلتے رہے

یہ مناظر تِری آنکھ کے زخم

میری صدا کے خلا

شہر والوں کا مقسوم تھے

تو پھٹی پتلیوں میں کئی آسماں،

کتنے سورج چھپائے ہوئے

اپنے ہونے، نہ ہونے کے کہرام میں

ہر نئی نسل کے ساتھ مرتا رہا

اور جینے کی میعاد بڑھتی رہی

آفتاب اقبال شمیم

آدم زاد کی دُعا

زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر

کہ سجدہ کر سکوں

یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں

اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں

تِری کوتاہیوں میری انا کی سرحدیں ہیں

کیا یہ دیواریں

سدا اُٹھتی رہیں گی میرے سینے پر؟

بتا یہ رنگتیں، یہ دُوریاں پیدا ہوئی ہیں

کس کی دانش سے

بتا میرے لہو میں ڈوبتے جاتے ہیں کیوں

انجیر و زیتون کے گیا، ہستاں

مُجھے بھائی میرے نیلام کرنے جا رہے ہیں

تک رہا تو مجھے معذور آنکھوں کی سفیدی سے

یہ کیسا شہر ہے

جس کی ثقافت کی مچانوں سے

مُجھے مارا گیا ہے اور میں شو کیس میں

لٹکا ہوا ہوں

میرا منظر دیکھنے والے

لکھی سطروں کی کالی ڈوریوں پر ناچتے آتے ہیں

خود اپنے تماشائی

بتا بڑھتی ہوئی آبادیوں میں

چاندنی کیوں گھٹ گئی ہے

لبریم، پلکیں جھپکتے قمقمے، آنکھوں کا بھینگا پن

نئے چڑھتے دنوں کی سرخیاں ہیں کیا؟

خدا وند!

مجھے طائر، شجر، پربت بنا دے

یا مجھے ڈھا دے

کہ دوبارہ جنم لوں اپنی بے مشروط آزادی کی خواہش سے

آفتاب اقبال شمیم

فردا نژاد ۔ منظوم پیش لفظ از یاور ماجد

(محترم آفتاب اقبال شمیم کی کتاب فردا نژاد کا دیباچہ جو انہوں نے لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کے اوائل میں منظوم کیا)

شعورووجد میرے مجھ کو ہر دم ہی بتاتے ہیں

کہ دنیا جس میں پیدا میں ہوا ۔۔۔ نا آفریدہ ہے !

میں آیا ہوں عدم تکمیل کے مارے ہوئے ایسے مناظر کو

ذرا تشنہ سی اِک پہچان دینے

کہ میری روشنی کے سب علاقے

مرے اندر، مرے باہر، مرے دائیں، مرے بائیں کہیں ہیں

اور ان کے بیچ میں طرفہ خلا ہے

علاقے یہ کہ جیسے ہوں جزیرے

عجب اِک بحرِ پر اسرار کے اندر

چھپے ہیں، تیرتے ہیں، ڈوبتے ہیں اور ابھرتے ہیں

زِندگی!

مجھ کو مٹا کر پھر بناتی ہے

بنا کر پھر مٹاتی ہے

مگر ہر بار اِک ہی نقش بنتا ہے

کہ جس میں اس کا جوہر

عجب سی لا تعلّق خارجی سچّائی سے دست و گریباں ہے

تو کیا یہ جِنگ دائم ہی رہے گی؟

تو کیا انجام اس کا کچھ نہ ہو گا؟

جو پوچھو مجھ سے تو میں زِندگی کے حق میں کوئی بھی گواہی دے نہیں سکتا

کہ اس کی وسعتیں، گہرائیاں اور سرحدیں

مری پابند سوچوں کے احاطے ہی سے باہر ہیں

مرا ماضی!

مری اپنی فنا کا اور بقا کا اِک حوالہ ہے

مری تاریخ بھی میری فنا کی اور بقا کی جدلیت کی ایک دستاویز سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی

نہیں کچھ اس ذرا سے تجربے سے بڑھ کے

جو ماضی سے مستقبل کی صبحیں ڈھونڈتا ہے اور مجھے مصروف رکھتا ہے

مری آزادیوں کے راستوں کو بند کرتا ،

میرے امکانات کا رخ طے شدہ رستے کی جانب موڑتا ہے

وہ رستہ جس میں کتنے ہی حوادث کے ہزاروں موڑ بستے ہیں

میں حاصل ہوں اسی اِک تجربے کا،

اسی رستے کا آئندہ

مگر ان راستوں میں دور اتنا جا چکا ہوں،

کہ پھر سے اپنی خود دریافتی کے سارے امکانات اب معدوم ٹھیرے ہیں

اجتماع !

اِک ساتھ رہنے کی پناہیں چاہتا ہے،

بکھر کر ٹوٹ جانے کا تصور ہی کچھ ایسا خوف آور ہے

زمانہ اس ارادے کے مہیب اظہار کا دریا سا بن کے

رواں رکھتا ہے اس کو درمیاں اپنے کناروں کے

اجتماع !

مظہرِروئیدگی ء زندگی ہے

اور ٹھٹھرتی منطقوں سے دور رہتا ہے

دہکتی دھوپ میں آجائے تو ہر مرتبہ

نئے اِک روپ کی چھاؤں کی چادر اوڑھ لیتا ہے

فرد!

تو بس زِندگی کا مرکزہ ہے

جسے سرسبزی کی خواہش بہت بے چین رکھتی ہے

حقیقت پوچھتے کیا ہو!

مجھے تو اجتماعوں میں بسے رہنے کی خواہش

اور ان سے ٹوٹ کر دور اور الگ رہنے کی تشنہ آرزوؤں نے

ہمیشہ مضطرب رکھا ہے

میں نے تو ہوائے تند کو اپنی لچک کا بے بہا تاوان بھی بخشا

اور سب کی ہمرہی کو،

راہداری سے گزرنے کی اجازت کو

سسکتی روح کو بھی داغوایا ہے!!

اگر ایسا نہ کرتا تو

بھلا یہ نظم کیسے لکھتا جو اب زِندگی کے سامنے

رکھی ہوئی پتھر کی تختی پر

خود اپنے ہی نہ ہونے اور ہونے کا نظارہ دے رہی ہے

عجب مشکل تو یہ ہے رنج کے اس معرکے میں

مرے مدِّ مقابل اور کوئی بھی نہیں میں خود کھڑا ہوں!!

کبھی خود ہی زمانے کی کوئی دیوار بن کر

کبھی پہچان کے اونچے نکلتے قد کا کوئی سایہء بےکار بن کر

زید اور میں خواب تکتے ہیں

زید ہے وہ فردِ اوّل،

عنصری انسان ایسا جس کی بنیادوں پہ میرا

معاشرتی تشخّص قائم و دائم ہے

وہ اور میں جبر کے شاہی قلعے میں قید ہیں

اور برف پر لیٹے حسیں خوابوں کی دنیا میں اکٹّھے سیر کرتے ہیں

یہیں سے دور کے اس شہر کو حسرت سے تکتے ہیں

جہاں پر داسیاں،

محبت اور آزادی کے مندر میں تھرکتے ناچتے خود اپنی ہی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں

اور

پھر حسن خود کو منکشف کر کے خود اپنے وصل کی خبریں سنا تا ہے

اور اِک فردِ دِگر کی آفرینش،

گزارے سب حوالوں کو مکمل طور سے نابود کر دیتی ہے

ہر لمحہ ہی گویا لمحہء تخلیق بن جاتا ہے

میں اور زید دونوں کرب کے دریا کی لہروں میں

پگھل کر بہتے بہتے اپنی اپنی وسعتوں میں غرق ہو جاتے ہیں

اور یہ سیر گاہِ خواب بے سرحد ،

مکمل طور سے لا منتہی ہے

ہمارے سامنے تقدیر کی مہمیز اپنی سرخیاں،

زمیں کی پسلیوں کے بے بہا رِستے لہو

سے لے رہی ہے

خلاؤں کو سُموں جیسے ستارے

نئے افلاک دیتے ہیں

ہر اِک اٹھتا قدم اگلے فرازوں کی نئی دہلیز بنتا ہے

یہاں اس خوبصورت شہر میں فردا کے باسی رہ رہے ہیں

حسیں ہیں،

اورتوانا اور گنہ سے دور

جو اندر اور باہر کی ہر اک دیوار بالکل توڑ بیٹھے ہیں

جو رفتہ اور آئندہ کے پاٹوں میں نہیں پِستے

جو آزادی کے دریا کو سبھی سمتوں میں چلتا دیکھتے ہیں

جو کل کے شہر کو شعلے دکھا کر

نحوست سے بھرے زرموش کی بیماریاں سب تلف کر بیٹھے

وہاں سب ہی برابر ہیں

وہاں کوئی کسی کے حق کا غاصب ہو نہیں سکتا

محبت بو کے فصلیں روشنی کی کاٹتے ہیں

کہو، کیسی منوّر سی زمیں ہے،

جہاں پر چاہتوں کی باد رقصاں ہے

حسیں سپنوں کی وادی دیکھنے سے

ہمیں بولو تو آخِر کون روکے گا

یہ فطرت تو تخیّل کی دلہن ہے

اوراِس کی بیوگی اب ہم نہ دیکھیں گے

فقط ہم خواب دیکھیں گے

مرے آدرش کا سورج جہاں نکلا

وہ خِطّہ تو سدا اِک کاسئہ پسماندگی تھامے

زمانے سے ذرا سی تیز حرکت کی گدائی کو کھڑا ہے

میں اپنی بستیوں میں بچپنے سے

جہل اور غربت کو رقصاں دیکھتا آیا

کہیں سے دستِ نا معلوم پیادوں کو گھروں میں اور بازاروں میں ہر اِک پل نچاتا ہے

ازل سے اپنا لا یعنی سفر جاری و ساری ہے

یہاں پر کچھ بڑے ہیں

جو کہ بس بے حد بڑے ہیں

باقی سب کے سب ہی چھوٹے ہیں

یہاں بے معنی دنیا داریاں تقدیس کے مہنگے لبادوں میں سجا کر طاقچوں پر رکھی جاتی

ہیں

یہاں اشیاء سے الفت کی بہت تلقین ہوتی ہے

یہاں اِک دوسرے کے درمیاں کے فاصلوں کی وجہ

نامعلوم زور آور کی بے رحمانہ ضرورت ہے

یہاں انساں کو نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے

مگر میں جو کئی نسلوں سے ایسی سرزمیں میں منزلوں کو ڈھونڈتا ہوں

نہیں مایوس بالکل بھی

مجھے تو کل بھی آنا ہے

خبر کیا دکھ کی ایسی یاترا سے جب بھی لوٹوں

مجھے معنی کے، سر افرازیوں کے اس سفر کا

سراغِ خفتہ مل جائے

عمل لفظوں کے جڑنے اور تڑنے کا حرارت خیز ہوتا ہے

مگر صرف اس قدر

کہ شب زارِمعانی میں کوئی چھوٹی سی شمع جل سکے

مرے اور میرے لفظوں کے حواس انمول ہیں

کہ ان میں جرأتِ انکار اور اقرار کی قوّت برابر ہے

یہ سچ کی رَو کو اپنے بیچ سے بہنے بھی دیتے ہیں،

ہماری روح میں گویا جڑوں کی طرح پھیلے ہیں

ہمارے نطق کی شاخوں سے پتوں کی طرح کھِلتے ہیں

جِن میں نصف سچّائی کی ہریالی دکھاتے ہیں

انہی لفظوں کی روشن اور انمٹ سی سیاہی سے

مرے اندر کے شاعر نے یہ ساری نظمیں لکھی ہیں

آفتاب اقبال شمیم

پیش لفظ

میرا وجدان اور شعور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک نیم آفریدہ دنیا میں پیدا ہوں۔ ایک نامکمل منظر کی نامکمل شناخت کرنے کے لئے۔ میری روشنی کے علاقے میرے وجود کے اندر، باہر اور اس کے مضافات میں کہیں کہیں واقع ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے بیچ میں خلا ہی خلا ہیں۔ یہ علاقے نادریافت شدہ اسرار کے سمندر میں تیرتے ہوئے، اوجھ ہوتے ہوئے، ابھرتے ہوئے جزیرے ہیں۔ زنگی اپنی پہچان کے لئے مجھے مٹا کر پھر بناتی ہے اور بار بار ایک ہی نقش بنتا ہے، جس میں زندگی کا جوہر ایک لاتعلق خارجی یحقیقت سے دست و گریباں نظر آتا ہے۔ کیا یہ جنگ لامتناہی ہے یا ہارجیت کے بعیر ختم ہو جائے گی؟ میں زندگی کے حق میں کوئی گوہی نہیں دے سکتا۔ وقت کی سمتیں اور ان کی طوالتیں میرے ادراک کے احاطے سے باہر ہیں۔

میرا حافظ میری فنا اور بقا کا حوالہ ہے اور میری تاریخ اس فنا و بقا کی جدلیت کو دستاویز ۔۔۔۔ ایک مسلسل تجربہ جو ماضی سے مستقبل کی روشنی تلاش کرتا ہے اور مجھے میرے تصّرف میں رکتھا ہے۔ میری آزادیوں کو مشروط کرتا ہے اور میرے امکانات کا رُخ ایک طے شدہ راستے، جس میں حادثوں کے کہیں کہیں خم ہیں، کی جانب موڑتا رہتا ہے۔ میں اس تجربے کی دریافت ہوں۔ اور استی رتہ کا آئندہ ہوں۔ تاریخ کا جبر کچھ ایسا ہے کہ میں اپنے آپ کو رد کر کے نئے سرے سے دریافت کرنا چاہوں تو شاید نہ کر سکوں۔

اجتماع معاشرت کی پناہیں پسند کرتا ہے۔ بکھر کر بے سمت ہو جانے کا خوف ایسا ہے کہ زمانہ اس کے ارادے کا اظہار بن کر اُسے اپنے کناروں کے درمیان رواں رکھتا ہے۔ اجتماع زندگی کی روئیدگی کا مظہر ہے اور برف پوش منطقتوں سے بچ کر چلتا ہے۔ چلچلاتی دھوپوں میں مفاہمت کی چھاےں اورھ لیتا ہے۔ فرد زندگی کا مرکزہ ہے جسمیں سرسبزی کی خواہش گھمسان مچائے رکھتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اجتماع کے ساتھ رہنے اور اس سے ٹوٹ کر الگ ہو جانے کی آرزو نے مجھے ہمیشہ مضطرب رکھا ہے۔ میں نے تند ہوا کو درخت کی لچک کا تاوان بھی دیا ہے اور دوسروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے، راہداری کا پروانہ حاصل کرنے کے لئے اپنی روح کا داغا جانا بھی قبول کیا ہے۔ اگر ایسا ہ کرتا تو اقرارکی یہ نظم کیسے لکھتا جو زندگی کے سامنے رکھی ہوئی لوحِ سنگ پر ہونے، نہ ہونے کا منظر نامہ مرتب کر رہی ہے اور کیسی عجیب بات ہے کہ دُکھ کے معرکہ زار میں، میں خود اپنے مقابل کھڑا ہوں۔ کبھی اپنے سامنے زمانے کی دیوار بن کر اور کبھی اپنی راہ میں پہچان کے قدےکا لمبا سایہ بن کر۔

زید اور میں خواب دیکھتے ہیں۔ زید وہ فدِ اول یا عنصری انسان ہے جس کی بنیاد پر میں نے اپنی معاشرتی شحصیت کی تعمیر کی ہے۔ ہم دونوں جبر کے شاہی قلعے کے زندانی سردف سلوں پر سوتے ہیں اور دُور کے اس شہر کی جانب دیکھتے رہتے ہیں جہاں محبت اور آزادی کے مندر میں داسیاں ناچتے ناچےت خود اپنی خوشبو بن جاتا ہیں۔ حسن منکشف ہو کر وصل کی بشارتیں دیتا ہے اور اک فردِ دگر کی آفرینش گزرے ہوئے حوالوں کو نابود کر دیتی ہے۔ ہر لمحہ تخلیق کا لمحہ بن جاتا ہے۔ ایک کرب جس میں سارا وجود پگھل کر بہتے ہوئے اپنی وسعتیں پا لیتا ہے۔ اور اس خواب کی سیرگاہ بے محیط ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رخشِ ارض کی پسلیوں سے رستے ہوئے لہو سے تقدیر کی مہمیز سرخ ہے اور خلاؤں کو پھندتے ہوئے سموں سے ستارے اُڑ اُڑ کر نئے آسمانوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ہر فراز اگلے فراز کی دہلیز بنتا جا رہا ہے۔

اور ہمارے ملکِ خواب میں فردازاد رہتے ہیں۔ خوب صورت، توانا، معصوم، جو اندر اور باہر کی ساری دیواریں مسمار کر چکے ہیں۔ جو رفتہ و آئندہ کے درمیان محصور نہیں بلکہ آزادیوں کے ارتفاع سے دریا کو ساری سمتوں میں رواں دیکھتے ہیں۔ جو کل کے شہر کو جلا کر زرمُوش کی وبا سے ہمیشہ کے لئے نجات پا چکے ہیں۔ جہاں مساوات ہے، انسان، انسان کا استحصال نہیں کرتا۔ محبت بونے والے روشنیاں اگاتے ہیں۔ کیسی من ہر زمین ہے جہاں ہ خان قوت کی ثقالت ہے نہ کا تعفّن چاہتوں کی نرم ہوا دما دم چلتی رہتی ہے۔ اور خواب دیکھنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے! فطرت، تخّیل کی دلہن ہے۔ ہم خواب دیکھتے رہیں گے۔ ہمیں اُس کی بیوگی منظور نہیں۔

جہاں میرے آورش کا سورج طلوع ہوا، وہ یہی خطہءِسبز قبا ہے جو پسماندگی کا کشکول تھامے وقت سے رفتار کی بھیک مانگ رہا ہے۔ میں ساری گزری ہوئی عمر سے اپنی گلیوں میں ناداری اور جہل کو دھمال ڈالتے دیکھ رہا ہوں۔ نامعلوم انگلیاں پیادے کو گھر، بازار اور دفتر کے سفید اور سیاہ خانوں میں نچاتی رہتی ہیں اور بے معنویت کا یکساں سفر جاری ہے۔ کچھ بڑے ہیں، جو بہت برے ہیں۔باقی سب کے سب چھوٹے ہیں۔ دنیاداریوں کو تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر اونچے طاقچوں میں سجایا جاتا ہے۔ اشیاء سے محبت کی تلقین کی جاتی ہے۔ منافقت کے رائج الوقت سکے پر بے چہرے فرمانروا کا نقش چمکتا ہے۔ نامعلوم زور آور کی سّفاک ضرورت نے ایک اور ایکایک اور دوسرے کے درمیان فاصلے حائل کر رکھے ہیں۔ انسان کو نا انسان بنانے کا عمل جاری ہے۔ لیکن میں جو گزری ہوئی نسلوں کے ساتھ اپنی اس سرزمین پر قدم بہ قدم چلا ہوں، مایوس نہیں۔ کیونکہ مجھے کل بھی آنا ہے۔ کیا خبر کہ دکھ کی یاترا سے جب لوٹوں تو مجھے معنی کے اور بلندیوں کے سفر کا سراغ مل جائے۔

لفظوں کو توڑنے اور جورنے کا عمل حرارت پیدا کرتا ہے لیکن صرف اتنی کہ اس سے شب زار معنی میں شمع جلا سکیں۔ ہمارے حواس ان کے اور یہ ہمارے حواس کے محتاج ہیں۔ ہاں۔ اس اتبار سے قابلِ قدر ہیں کہ ان میں انکار کی جرأت بھی ہے اور اقرار کی توانائی بھی۔ یہ سچ کی رو کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر جڑوں کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور شاخ نطق سے پتّیوں کی طرح پھوٹتے ہیں جن میں نصف سچائی کی ہریالی ہوتی ہے۔ انہی لفظوں کی روشنائی سے میں نے یہ نظمیں لکھی ہیں۔

آفتاب اقبال شمیم

مئی ١٩٨٥

آفتاب اقبال شمیم

نہیں اور ہاں سے آگے

نوٹ:

یہ نظم درحقیقت فلسفہ وجودیت اور سماجی حقیقت نگاری کا حسین امتزاج ہے۔ آفتاب اقبال شمیم انسان کے باطنی اضطراب، سماجی جبر، تہذیبی المیے اور تاریخ کی ظلمت کے درمیان بھی محبت اور امید کی روشنی کو زندہ رکھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ نظم میں موجود شاعرانہ اور علامتی گہرائی اسے جدید اردو شاعری کی ایک نہایت اہم تخلیق بناتی ہے۔

یاو رماجد

کسی سرسبز لمحے نے

کبھی شاید کسی روپوش منظر کا سنہرالمس

آنکھوں میں جگایا ہو

تری سانوں کے سبزے پر

اُتر کر آسماں طاؤس کی مانند ناچا ہو

الاؤ کے شراروں نے

کوئی گلشن تکلّم کا کھلایا ہو کسی دُوری کے پربت پر

کبھی تُو نے سمندر کی اٹھانوں میں

کسی سوئی ہوئی قوسِ قزح کی دلبری کا خواب

دیکھا ہو

کوئی ساعت معلق ہو گئی ہو اور پھر اُس نے

شعاعِ دُور کے رستے میں جلوے کو؁

منُور کر دیا ہو تیری آنکھوں میں

کہیں معنی کی خلوت میں

پناہِ یک نفس مانگی ہو تُو نے روز کے لفظوں کی

شورش سے

کسی ذرّے کے اندر رقص کے

خاموش سازینے کے محشر میں

اُسے دیکھا ہو۔۔ جو اوّل ہے اُس بے نام پیکر کا

جو تیری ذات

میرے اسم، لمحے اور لمحے کے خلا سے مل کے بنتا ہے

افق ساحل نہیں جس کے سنہرے آمسانوں کا

زمانوں کے زمانے ندیاں جس کے فرازوں کی

اسی کی سمت بہتی ہیں

وہ کیا ہے؟

جستجو، نادید کو منظر میں لانے کی

حواس افروز ہیں بینائیاں چشم تصّور کی

جو اس کو دیکھتی ہیں سچ کے امکاں میں

وہ ‘ہے’ اپنے سکڑنے کی ‘نہیں’ سے

پھیلنے کی ‘ہاں’ کے مظہر میں

پسِ اسباب ، پیشِ چشم برپا ہے تماشا

اُس کے ہونے کا

اکائی۔۔ جو کہ سارے مرکزوں کا ایک مرکز ہے

اکائی۔۔ جو کہ بہتے وقت کو ناوقت میں

معدوم کرتی ہے

اسی نابود کی ظلمت سے نخلِ نُور کی صورت اُبھرتی ہے

تڑپ اس غیب کے مہرِ منور کی

مزے اُس کی محبت کے

بجا ہے مضطرب رکھتے ہیں باطن کے مسافر کو

مگر اس کے ازل میں، لوحِ غائب پر

لکھا کس نے کہ ہم ان مٹیوں میں

خوار ہو ہو کر

سوال اُس سے نہ پوچھیں ، اے تماشاگر!

بتا اپنی بقا کی جنگ لڑتی خلقتیں

برفوں میں اُگتی گھاس کی مانند

گاہے سبز، گاہے زرد١، بہتے وقت میں

بہتی رہیں گی

انت کیا ہے اس تماشے کا؟

ہو کیوں دھوپ سے مل کر کسی تعمیر کی خاطر

زمیں پر بارشوں کیدھوم میں

جنگل اگاتی ہے

ہوا کیوں آندھیاں لاتی ہے

اپنے دشتِ پروردہ کو خود تخریب کا

ایندھن بناتی ہے

اگر ہم اس بڑی، پھیلی ہوئی فطرت کا کوئی انگ

خود کو مان لیتے ہیں

تو کیا اس نارسا، نامنکشف اندر کی دنیا میں

یہی ہوتا ہے۔۔ وہ جذبے جو تہذیبیں بناتے ہیں

ہمیں خود کو سزا دینے پہ اُکساتے ہیں

ہنگامے اٹھاتے ہیں

وہ زور آور ہوس کی کھیتوں میں گندگی بو کر

ہری فصلیں اُگاتے ہیں غلاموں کی

دھوئیں اور دھول کے زندانیوں کو کل کے وعدے پر

فضائے معتدل میں صبر سے جینا سکھاتے ہیں

یہی تاریک صدیوں سے زمیں زادوں کا مسلک ہے

خبر کی خشک سالی میں، نظر کے حبس میں

اولاد کو اولاد جنتی ہے

دھوئیں اور دھول میں کھوئی ہوئی نسلوں نے

جتنے زخم کھائے ہیں

تری دانست میں ہیں، کیا عجب تعداد میں

تیرے ستاروں سے زیادہ ہوں

بتا! راتوں کی تاریکی میں لڑتے لشکروں کی بے بسی

کس نے لکھی ہے جیتنے یا ہارنے والے کی

؁قسمت میں

زیاں احساس میں گھل کر ہمیں مایوس کرتا ہے

کہ ایسا کیوں!

زمیں تیری ہے، تیرے انتظاموں میں

بُرائی کی ضرورت کیا

بتا! اے ابتدا و انتہا کے جاننے والے

ہمیں رکھا ہوا ہے کس نے محصوری کی حالت میں

ہمارے ذہن اپنے عہد کی سچائیوں کو آحری سچائیاں

کیوں مان لیتے ہیں

بتاج! سومیر کا اوتار اپنے آسماں کے مندروں سے

بستیوں کے نام کیا ارسال کرتا تھا

وہ کان نینوا کے ہفت ہیکل کا

انانا کے گُل زرخیز کی خوشبو کے جادو سے

شکوہِ تاجور

جانِ رعایا کے مساموں میں بسایا تھا

سمی رامیس غسلِ آسماں سے جب نکلتی تھی

تو راہوں میں

شرف مٹی کو دیتی تھیں جبینیں سرفرازی کا

قدشمشاد کے سائے میں سبزہ لہلہاتا تھا

طلسمِ چشم ایسا تھا

کہ دشتِ آرزو میں صید ہونے کے لئے آہو

تڑپتے تھے

یہ موہن جودڑو کی لڑکیوں کے

سبزشانوں سے

پھسلتی عمر نے کیسا کھنڈر چھوڑا ہے صحرا میں

اجل نے کیوں مقدس پانیوں کی سبز زرخیزی

فنا کر دی

علم سورج کالے کر آنے والے

ہڈیوں کی ریزہ ریزہ، ذرہ ذرہ ریت کے

اُڑتے بگولوں میں

کہاں گُم ہو گئے۔۔۔۔ منہ زور شبدیزوں کی ٹاپیں

بے حرس سایوں کے لمبے قافلے کی چاپ میں

تحلیل کیسے ہو گئیں۔۔ ان بھکشوؤں کے دیس کے

وہ جنگجو، گرتے سروں کو

اپنے نیزوں میں پردتے تھے۔۔۔۔ کہاں کھوئے گئے

یہ کھیل کیا تھا؟

میں تو اپنی نسل کی آنکھوں سے تکتا ہوں

زیاں کے اس اندھیرے میں اُسے تکتا ہوں جو تھا شاہ کار اپنی ہزیمت کا

(کہ میں ہم رشتہ وہں سنگ و شجر کا

اوران سے مختلف بھی ہوں)

میں تامقدور دل کی روشنی میں

زندگی کے المیے کی وسعتوں کو دیکھ سکتا ہوں

بڑی مدت سے

اپنی فکر، اپنے شوق کی ڈوری سے

آنکھیں باندھ کر

ڈالی ہوئی ہیں بحر و دریا میں

کروں کیا

صید ہوتے ہیں نہیں ہیں موج و ماہی کے

ہیولے سے

زیاں کے اس اندھیرے میں

اُسے تکتا ہوں جو تھا شاہ کار اپنی ہزیمت کا

انائے شہر کے تنہا محافظ کوہوا اعلان

کھینچا جائے گا بے ڈول سے پہیوں کی رتھ سے باندھ کر

اونچی پنہ گہوں میں دبکے شہریوں کے سامنے

یہ فیصلہ ہے دیوتاؤں کا

بتا سچائیں کا جانا کیوں جرم ٹھہرا تیری دنیا میں

فرشتے روم سے بھیجے گئے مصلوب کرنے کے لئے

مشرق کے سورج کو

مگراس کی کمک لے کر ابابیلیں نہیں آئیں

بجا ہے ذہن کا یہ شعبہ گر

لفظ کی جادوگری سے رات کو دن، دھوپ کو چھاؤں

بناتا ہے

شکستیں جیت کا مفہوم دیتی ہیں۔۔ مگر پھر بھی

وہ پیاسے دن کے صحرا میں، تری موجودگی میں

مر گئے

ان کا قبیلہ آج بھی اُتنے کا اُتنا ہے

صنوبر کا بلندی سے

زمیں کی گھاس پر سایہ نہیں پڑتا

بجا ہے، تو کہے گا

ہم ذرا سی روشنی کے واہم کو سچ سمجھتے ہیں

یہ سو اطراف کے خیمے ہمارے فہم سے باہر

گڑے ہیں وسعتوں میں

اور ان کی سمت ، ان سے دُور اُڑتے

عکس اندر عکس

آنکھوں کی گرفتِ رنگ یکساں میں نہیں آتے

انہیں میں سے ادھوری روشنی کا ایک چھینٹا

ہم پہ پڑتا ہے

بجا کہتا ہے تو شاید۔۔ مگر

تخلیق، خالق سے جدا ہو کر، وجودِ محتلف

اُس کے مدارِ فکر سے باہر بناتی ہے

وہ اپنی لوح پر پہچان کے اپنے حوالوں

سے ابھرتی ہے

یہ فکر و جزبہ و احساس بے معنی نہیں ہے

ہم دئیے کی لو کو جب انگلی سے چُھوتے ہیں

تو کیسا کرب اپنی چھاپ سی

قرطاسِ جاں پر چھوڑ جاتا ہے

ذرا تُو بھی چراغِ ہست کو چھو کر

لگا اندازہ کیسے روشنی کی بوند دل میں

درد کی لہریں اٹھاتیں ہے

بہرصورت تری تخلیق ہیں ہم

اور تیری ہی طرح اُس آرزوئے دل سے وابستہ ہیں

جس کی حُسن منزل ہے

اُسے تکتا ہوں جو شاہکار ہے اپنی ہزیمت کا

محبت دھونڈنے نکلا تو رستے میں

کھنڈر آیا۔۔ جہاں پر سوحتہ کھپریل کے نیچحے

پڑی تھیں چوڑیاں ٹوٹی ہوئی، لوری کی وہ

کھوئی ہوئی آواز جو چاہت کی ٹہنی پر

مہکتی تھی، مجھے ں صدیاں پرے کی ایک بستی سے

سنائی دی

ملے ٹوٹے ہوئے حلقے، سلاسل پؤں کے

جو اُن زمیں زادوں کے زیور تھے

جنہیں اجداد نے میراث میں بخشی

وہ ناداری

جو اُن کو کات کر چرخے پہ زرداروں کی پوشاکیں

بناتی تھیں

بتا! اے اس زمیں کے اول او آخر کے آقا

یہ رموزِ ملکیت کیا ہیں

تجھے کیسے پسند آئیں لہو کی چوریاں

جانوں پہ ڈاکے

مفلسی کے زہرِ آہستہ اثر سے مرنے والوں کی کراہیں

اور کشتِ دل میں آنسو بو کے

آنسو کاٹنے والوں کی مجبوری

تجھے کیسے پسند آیا کہ پھولوں سے تراشی مورتیں

زینت بنیں اہلِ ہوس کی خواب گاہوں کی

جلیں فانوس عشرت کے

جواں، نوخیز، نورستہ بدن کی مومیائی سے

رموزِ ملکیت کیا ہیں

زمیں تیری ہے یا تیری نہیں ہے؟

حکمتوں کے چور دروازے سے جب قزاق آتے ہیں

تو کانگو کے کنارے پر کھڑے جنگل

انہیں اپنے خزانے پیش کرتے ہیں

کہیں ایراوتی اُن کو اشاروں سے بلاتا ہے

زمیں قالین کی مانند اُ ن کی ٹھوکروں میں

کھلتی جاتی ہے

یہیں حرصِ جہاں گیری کے پس ماندوں کی دنیا میں

حمیت کے نگوں پرچم کی مایوسی ملی جاتی ہے

چہروں پر

زمیں۔۔ ان بسنے والوں کی نہیں

زورآوروں کی ہے۔۔۔۔ جو آپس میں

ہری دوشیزگی اس کی ہمیشہ بانٹتے رہتے ہیں

کیا آیا ہے حصے میں تری ان کثرتوں کے۔۔

بانجھ مٹی قحط کی، مدقوق پیلاہٹ، دھنسی آنکھیں۔۔

جلا ہے کون صدیوں کی سزا کے اس جہنم میں

بتا! فردوس خوابوں کی

ہمارے کون سے فردا کی خواہش کے لپکتے بازؤں کی

دسترس میں ہے

ہمیشہ کی اذیت اور کیا ہوتی ہے۔۔۔۔

لیکن ہم امیں خوش فہمیوں کے

سادہ دل ایسے

کہ جب بھی آس کو ادھی کھلی کھڑکی سے

اپنی سمت تکتے دیکھتے ہیں

دل کی دھڑکن تیز کر لیتے ہیں

کیا معلوم، ہو انداز یہ بھی تیری بخشش کا

ہمارے واسطے اس طے شدہ لمبے سفر کی ظلمتوں میں

اک ذرا سی روشنی بھی تُو ہمارے ساتھ

رکھتا ہے

کہ دل کا توڑنا خارج ہے تیرے انتظاموں میں

یہی سمجھیں یہ عرصہ آزمائش کا ہے

دکھ کے تجربے شاید ہمیں چھینی ہوئی تاریخ لوٹا دیں

ہم اس تحقیر کی پستی سے اٹھ کر

اپنے ہونے کا افق چھو لیں سوار اشہب فردا محبت کی ہری دستار پہنے آئے

ان آبادیوں میں جبرے کے آئین کو

منسوخ کر ڈالے

(دھوپ کا پھٹا ہوا بادبان)

مگر اس خواب کی تعبیر سے پہلے

اُسے دیکھیں جو آئندہ ہے رفتہ کا

ڈبو کر روز کے منظر کی کالی روشنائی میں

ورق پر خود بخود خامے کو چلنے دیں

نہیں، کوہاں، بنا لینا ہنر کا معجزہ ٹھہرا

یہ مضمون خوبصورت ہے

جسے موجود کے سارے متن سے منتخب کر کے

لکھا ہے چشم خوش بیں نے

فریبِ وہم بس اپنی صفائی پیش کرتا ہے

دلیلیں استغاثے کی نہیں سنتا

اُسے ڈر ہے

کہیں ایسا نہ ہو سچائیوں کے پیش منظر میں

وہ اپنے آپ کو اپنے لباس و جسم میں

عریاں نظر آئے

مسافر کیسے جھٹلائے

کہ ہر امروز ریہرسل ہے فردا کا

مسافر کا مقدر ہے

سفر میں بے سفر رہنا

بھنور ٹھہرا ہوا ہو جس طرح تصویر دریا میں

اُسے دیکھو جسے ملاح کی آنکھوں نے دیکھا ہے

بڑا ہے بادباں پر قد آدم کے برابر

چاک سائے کا

اُسے دیکھو جو آئندہ ہے رفتہ کا

اگرچہ دُور تک ہریالیاں پھّیلی ہیں

امکاں کے سرابوں کی

مگر پیچھے سے آگے تک یہی لگتا ہے

جیسے راستے بھی راہرو کے ساتھ چلتے ہیں

نئے جادے کے راہی سے

وہ مردِ پیر شاید سچ ہی کہتا ہے

پرانے تجربے کے سیپ سے تاثیر کا گوہر نہیں ملتا

کسی بھی لہر کا جادو نہیں ایسا

کہ ساحل کو صفت دے دے سمندر کی

رُتیں آتی ہیں جاتیں ہیں مگر کہنہ گناہوں کے،

ہمارے عقب میں چلتے ہوئے سائے نہیں ھگٹتے

دُورنا! تُو تو واقف ہے ہماری خفیہ خواہش سے

برائی کی جڑوں میں کھاد مٹی کی

جسے خوراک دیتی ہے

فنا کی گود میں سوئے ہوئے مایا قبیلوں ،

نوح سے بچھڑے ہوئے سیلاب بردہ

شہر داروں سے،

فلسطیں کی نئی تعمیر کردہ قتل گاہوں تک

لکھی ہوں گی لہو میں

سب کی سب شہ سرخیاں تیرے جریدے پر

کہ تُو باطن ہے ہر لمحے کے باطن کا

ہمارے بادشاہوں نے

مقرر کر رکھے ہیں اپنے چرواہ

ہمارے دھوپ چھاؤں کے گیاہستاں میں

ریوڑ کے چرانے پر

وہ آقا جن کی سولے ڈار سے یوروشلم تک

کوٹھیاں باد ہیں عیش فراواں کی

ہمارے خیرخواہوں کے تحفظ میں

ہمیں محکوم رکھنے کے لئے وہ آتشِ بارود سے

نامطئمن

ذرے کے زنداں میں مقّید آگ کی آندھی

بپا کرنے پہ قادر ہیں

جہنم کی گھٹن میں لڑنے والے

اپنی آزادی کی بے سیلاب تحریکوں میں

کیسے منقسم ہو کر

ہدف بنتے ہیں ترکیبِ سیاست کے

یہ جھتے حریت کے نا م پر تفریق کے خالی محاذوں پر

نہتے لڑ چکے ہیں اور ماتیں کھا چکے ہیں

پیش رفتہ چال بازی سے

وہی جو معتبر رکھتی تھی اپنی آبرو کو

دو جہانوں سے

وہ سہتی، وہ انا اب تیسری دنیا کے بازاروں میں

بکتی ہے

سنا ہے باپ کو بیٹے نے خّصی کر دیا ہے

دیو مالا کی نئی تجدید کا ہاتف بتاتا ہے

قوائے ذہن کے مندر میں ہندسوں کےنوے منتر کے

جادو سے،

نئی تہذیب کے کوہ مقدس سے

اُتر کو دیوتا مصروف ہیں انساں کو ناانساں بنانے میں

یہاں اخبار، ٹی وی، ریڈیو، فلمیں، عقوبت گھر،

حشیش و ہیروئن، رسم و روایت کے کلیشے

دست و بازو ہیں ہمارے دیوتاؤں کے

نئی دنیا کا پیغمبر۔۔۔۔

مہندس اپنے مقبوضہ تصور کی توانائی کی کُلیے سے

مکان و وقت کی تسخیر کرتا ہے۔۔۔۔

مگر کیسی دہائی ہے

کہ اس شہرِ عدد سر میں

تعلق ہو گیا موقوف دروازے کا دست سے

نیا آقا

نئے رشتے کی بنیادوں پہ کیسی اجنبیت ،

کیسی تنہائی کی دیواریں اٹھاتا ہے

بتا! تیرے پرانے بسنے والے کیا کریں

تُو نے تو سب زرخیزیاں تقسیم کر ڈالی ہیں

تو آبادکاروں میں

زمں بے زمیں جلتے ہوئے حبشہ کے جنگل میں

اگر ہے بھی تو تیری اور تیرے بے نیازوں کی نظر

اس پر نہیں پڑتی

چمکتے شہر کے تاجر نے

جنس جنس کو نشے کی چیزوں میں سرفہرست رکھا ہے

زمینِ بے فلک پر آسمانی طربیہ تخلیق کرنے

کون آئے گا

کہ کچے جامنی ہونٹوں کی، مقناطیس آنکھوں کی

وہ محبوبہ

ملازم ہو چکی ہے نیلی فلموں کے دارے میں

کسی کا انتطار اب نوکِ خوہش پر برہنہ پا کھڑے ہو کر

وہ کرتا ہے

وہی جو ہیر سے بچھڑا تھا فردا کی ملاقتاوں کے

وعدے پر

چٹانیں زاد گاہیں ہیں محبت کی

یلہ تشنہ و گرسنہ چاہتوں کا دور ہے جس میں

ہرا پھل ایک لمحے کی تپش میں پک کے گر جاتا ہے مٹی پر

محبت کون کرتا ہے

کلہ سب عشاق شامل ہو گئے ہیں

زار کے ایک چشم ساحر کے مریدوں میں

(وہ کہتا ہے

غزل نے بے ردیف و قافیہ ہو کر

پرانیدلبری کھود دی)

مگر اس کی رسائی سے پرے رہتی ہے

نامحسوس سی جنبش تماشا گر کے ہاتھوں کی

کہ اک زنجیر جب توڑی گئی تو کس نفاست سے

رہائی یافتہ کو دوسری زنجیر پہنا دی

زمیں دہقاں کی محبوبہ ہے لیکن داشتہ ہے

اس کے آقا کی

وہ اٹھی تو ہے آزادی کی خواہش میں

مگر کیا جانیے کب

مرمریں شانوں سے مہرِ ملکیت کا داغ چھٹتا ہے

ہمیشہ سے یہی اندازلا ہے کارِ سیاست کا

سگان پیشہ ور۔۔ حلقہ بگوش ہر آنے والے کے

دُمیں اک دوسرے کی اپنے ادنتوں میں دبائے

دائرے میں چلتے رہتے ہیں

پیادے مافیا کے

فیل ترچھی مار رپ۔۔ زیرِ زمیں، زیرِ زمانہ

تارجوں کی خفیہ تنظیمیں

بدلتی حکمتوں کے فرس

فرزیں خام قوت کا

بتا! ایسی بساطِ روز و شب پر اور کیا ہو گا

یہی ہو گا کہ ہم

شہ مات پر شہ مات کھائیں گے

یہاں کیا ہے

اندھیری رات میں زرموش کی پپلی وبا

گلیوں میں لچتی ہے دبے پاؤں

یہ بے میعاد اُبکائی کی کیفیت

تعفن پلپلے جسموں کا شہر زرگزیدہ کے تنفس میں

خدایا! تُو نے کویں پیدا کیا درویش کو

عقل و عقیدہ کی کشاکش کے زمانے میں

وگرنہ ناک پر روماں ل رکھ کر عمر کی لمبی گلی سے

خیروبرکگ کی صدا دیتے گزر جاتا

مساحت گر کہ گاؤں کی سرائے میں کئی برسوں سے ٹھہرا ہے

وہاں ا ہر روز جاتا ہے

جہاں قلعہ نما، پُرپیچ رستوں کی حولی کے

کسی تاریک کمرے میں

سیاہ عینک لگائے معتمد بیٹھا ہوا ہے

اور باہر۔۔ ایک ہی تختی سدا آویزاں رہتی ہے

‘جِسے مِلنا ہے کل آئے’

فرار اس منظر امروز سے کیسے کیا جائے

لہو سے سینچنے پر بھی غزل خوشبو نہیں دیتی

حیا کی سرہ سا آنکھیں قیامت ہیں

مگر ان کا کسی نغمے، کسی تصویر کی تحریک بننا۔۔

ایسے لگتا ہے کہ جذبے کی نہیں۔۔

شاید ثقافت کی ضرورت ہے

ہماری شاعری کیا ہے

قصیدہ رقم کرنا جنگجوؤں اور طالع آزماؤں کا

جہاں دیدہ نظر سے فلسفے کی موم کو

اپنی خطابت کی تپش دے کر

شبیہیں سی بنا لینا

قبولِ عام ہو کر داد پانا، عارضی شہرت کے جلسے میں

بتا! تیرے یہ خدمتگار کیسے ہیں

برائے شعبدہ، جو آستینوں میں

چھپا کر خوشنما لفظوں کے گلدستے، سرِمنظر

نگاہوں کو لبھاتے ہیں

بتا! سچ بولنا کیوں جرم ٹھہرا ہے

ہمارے تجربے کی آنچ پر پکتا ہوا جذبہ

سرِ شاخ قلم آکر نظر افروز ہو جائے

مگر ایسا نہیں ہوتا

ہم اپنے ذہن، اپنے قلب کو پابند کرتے ہیں

بنائے قاعدوں کی قافیہ پیما روایت کا

یہی آہنگ کی دس بیس تالوں پر

خیالوں کو نچاتے ہیں

ہمارے شستہ و شائستہ لہجے سے

سُریں آنند پاتی ہیں

بتا! ہم کون ہیں

کس کے زمستاں میں گماں کی سبز ٹہنی پر

پرندہ چہچہاتا ہے

یہ کس کی نیم بینائی کے مظہر میں

تماشا بھی حقیقت ہے، حقیقت بھی تماشا ہے

یہ منظر دیکھنا ممکن نہیں جس کا

اسے ہم دیکھتے ہیں اور حیرت ہے۔۔

ہماری پتلیاں پھر بھی نہیں پھٹتیں

(جنم ندی میں پرچھائیں کے بھنور)

میں ایسا گوشہ گیرِ ذات ہوں

جو روز کی دلچسپیوں سے کٹ گیا، ماحول سے

نامطمئن ہو کر

مگر ایسا نہیں تھا جب

ہوا کا بادلہ اوڑھے سبک لہریں

مجھے لائی تھیں چڑھتی دھوپ میں

مٹی کے ساحل پر

وہ کیسے دلنشیں دن تھے

ہرے موسم نے اپنا رقعہءِخوشبو

ہوا کے نامہ بر کے ہاتھ بھیجا تھا

کسی بے نام بستی کے کسی بے نام گھر میں آنے والے کو

عجب دن تھے

وہ کچّے اور معمولی سے آنگن میں

سویرے کے سنہرے پن میں تکتا تھا منڈیروں پر

اُچکتے پھول چڑیوں کے

اسے محسوس ہوتی تھی

اجالے کی خنک چھینٹوں سے بھیگی سانس کی ٹہنی پہ

ہریالی میں ہلکی کپکپی تتلی کے رنگوں کی

وہ بے حد اشتیاق اُس کا

کہ اُڑ کر آسماں کی دودھیا نیلی فضا میں

تیرنے جائے

بدن میں سوندھ مٹی کی اُسے اکسائے رکھتی تھی

کہ وہ کرنوں سے مل کر

سامنے دالان سے تکتی ہوئی ان مہربان آنکھوں میں

گھل جائے

اماں جن کی

معطر روشنی کے موچھل جیسی۔۔

محبت کے جھکے سائے میں وہ آسودہ رہتا تھا

عجب دن تھے

اُسے مکتب کے پچھواڑے میں سرکنڈوں سے

اپنے نام کی آواز آتی تھی

شرارت سے اُسے باہر بلاتی تھی

ہوا اُن نرسلوں میں چھپ کے سکأاے ہوئے

ہونٹوں سے جب سیٹی بجاتی تھی

تو کیسے بے ارادہ وہ کھینچا آتا تھا اُس کنجِ منور میں

جہاں چنبیلیاں اپنی مہک، سورج مکھی کے پھول

اپنے بیج اس کو پیش کرتے تھے

پھٹے ٹاٹوں سے اُڑتی گرد میں گردان گنتی کی

کسی یک لہجہ، بھاری، کھردری آواز کی دہشت سے

بے ہموار سانسوں میں

اُسے نیلی فضاؤں میں اڑانیں سارسوں کی

یاد آتی تھیں

جنہیں دیکھا کیا کرتا تھا وہ بھاگے ہوئے ہم مکتبوں کےساتھ

دریا کے کنارے پر

جنہیں بہتا ہوا پانی ابد سے جا ملاتا تھا

جہاں وہ کاسنی موسم کی سہ پہروں میں

سوکھی ریت کی لہروں پہ اُڑتا تھا، ہوا کو

تیز رفتاری میں پیچھے چھوڑ جاتا تھا

پتنگوں کے تعاقب میں

محافظ نے مکاں کی چاردیواری پہ اپنے حکم کی کانچیں

جڑا دی تھیں

گزرتا بند دروازے سے وہ کیسے؟

ہمیشہ دیکھتی آنکھوں کے پہرے میں

کڑی نگرانیوں کی ابر آﷲودہ فضا میں

گونجتی آواز کے کڑکے رعشے سا بدن میں

خوفِ ایذا کا

(کہ ان پابندیوں سے فائدہ مقصود تھا اس کا)

گلی میں نصب تھیں، آنکھیں ہی آنکھیں

جن کی دو رویہ حفاظت میں وہ اپنے روزمرہ کے

سفر میں آتا جاتا تھا

رہا کرتی تھی اس کے خوف کے جزدان میں

تحریر خطرے کی

وہ اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا۔۔۔۔ اور کیا کرتا

کبھی بے اختیار شوق اپنی انگلیاں مجروح کر لیتا

کبھی چھت پر کھڑے ہو کر

اشارہ بھیجتا

شامِ شفق افروز کوملنے کے وعدے کا

اندھیرے میں

کبھی وہ چاندگی میں اپنے سپنوں کا سنہراپن

ملا دیتا

کہ اس کی دسترس میں تھی یہی تدبیر

دنیا کی نگاہ استفادہ بیں سے بچنے کی

سفارت کی سند آوارگی کو خواب کی کشور سے

ملتی ہے

گلی کی تنگیوں سے مضمحل ہو کر

محلے کے کھلے میدان میں سستاتے ہوئے

وہ آسماں کی ٹیک سے کندھا لگا دیتا

وہ مجھ پر منکشف ہوتا ہوا

آوارہ سا لرکا

مرے ہمراہ رہتا تھا

مجھے اُس نے دیا احساس

دو دنیاؤں میں بستی ہوئی دو چہرے ہستی کا

گلی میں، شہر میں جو واقعے ہوتے انہیں

باتوں کے چرواہے

غلیلوں میں گھڑے الفاظ کے کنکر بنا کر

بے ارادلہ یا ارادے سے

ہمیشہ مستعد رہتے تھے ممنوعہ علاقے کی حدوں پر

سنگ باری میں

مرے رہبر۔۔۔۔ روایت، تجربے کی روشنی،

دانائیں کا نُور، بہتر سوچ اونچے مرتبے کی

اور پختہ عمر والوں کی

معین ہو گئی میرے سفر کی سمت۔۔ یعنی اب ہمیشہ

دوسروں کے طے شدہ رستے پہ چلنا تھا

مجھے وہ کوزہ بھر پانی میں

مشتِ خاک کا گوندھا ہوا پیکر سمجھتے تھے

مگر میں موجہءِپُر پیچ فطرت کے رواں دریا کا،

اپنی تشنگی سے مضطرب ،

ان کے بنائے ظرف میں کیسے سما جا

ہوا یوں

آئینے کی آب میں پرچھائیاں گھل کر

بھنور بننے گلیں شفاف پانی میں

تمنا زاد تصویریں خیالوں کی

بگڑتیں اور بنتیں آنکھ پر پڑتے ہوئے

باہر کے عکسوں سے

ادھر پائیں گلی کے جھونپڑے میں شام بستی تھی

لٹکتی دھجیاں، میلے بدن کی کھڑکیوں پر

اور اندر سے مسلسل کھانستی آواز کمرے کی

دھوئیں کی دودھیاسانسوں سے ہلتے پھیپھڑوں میں

ہچکیاں لیتی شفق کا آخری منظر

ہرا کیا تھا اگر مزدور آراکش

کسی جنگل میں قد آور صنوبر کا جنم لے کر

نموپاتا

ادھر ہر روز گورے اور کالے فوجیوں کی گاڑیاں

گاڑھا دھواں اندیلتیں، کوکیں لگاتیں

اور بن ٹھہرے گزر جاتیں

سویرے کے سٹیشن سے

اندھیرے کے محاذوں کی طرف بارود کی بُو،

ریت پر چھڑکے ہوئے، ضائع شدہ

تازہ لہو کی باس کے اندھے تعاقب میں

یہی دان تھے

مری بستی میں جب خنجر بکف بلوائیں کا شور

اٹھا تھا

سرراہے، کسی لمے کے مقتل میں

مری آنکھوں نے دیکھا، ایک آدم زاد نے گر نے سے پہلے

اپنے شانوں پر

لرزتے ہاتھ شسے آدھے کٹے سر کو سنبھالا تھا

مری آنکھوں نے دیکھا

ایک آدم زاد کو خودساحتہ گھر کے کھنڈر میں

بے نشاں ہوتے

بگولا قہقہے کا چند تنکوں میں اڑا کر لے گیا اس کو

مری آنکھوں نے دیکھا

اس مکاں کے بام پر سیلابِ خوں

جو منتقم نعروں میں پرنالے سے اُمڈا تھا

عجب منظر تھے وحشت کے

بڑوں نے پیش بیں اندازمیں مجھ کو تسلی دی

عدو آخر عدو ہے

اس کے ہاتھوں ممکنہ نقصان سے پہلے

یہ لازم ہے کہ بدلہ لے لیا جائے

جہاں انسان بستے ہیں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے

روایت ہے

کہ ان قربانیوں سے شہر پر آئی ہوئی آفات ٹلتی ہیں

تماشا دیکھنے کا تھا

وہ دامن پر پڑے ان سرخ دھبوں پہ

تصّور کے ہنر سے، نظریے کے سبز پتے کاڑھ کر

اپنے لئے توقیر کی خلعت بناتے تھے

وہاں دُوری پہ دھندلایا ہوا چہرے کسی آدرش کی

نوخیز دلہن کا

یہاں منظر کے ٹوٹے آئینے میں ابتری سی

مسخ شکلوں کی

عجب بے چارگی میں آستیں سے

اپنی آنکھیں ڈھانپ کر آوارہ لڑکے نے

یہی چاہا

کہ ادھ کھائے ہوئے مردار ساحل کی سٹراندوں سے

نکل جائے

حدوں کی بے بسی سے دور

ان دیکھے سمندر میں

مگر وہ دھوپ اُس دلدار موسم کی

بدن میں لہریے سے ڈالتا کچے ثمر کا شوق

ٹہنی سے اترنے کا

رفاقت دوستوں کی

چاہتیں درپر، دریچے میں اچانک

رونما ہوتے ہوئے محبوب چہروں کی

اُسے مہلت نہ دی

اس رنگ و خوشبو سے لدی شاخوں کے گلشن نے

وہاں سے دُور جانے کی

اسی اثنا میں

اَن دیکھی خلیجوں کے کنارے پر

کسی غائب افق کی روشنی کے جھٹپٹے میں

ایک چھوٹا سا سفینہ سیپ کا اُترا

ہرے پتے پہ شبنم تھرتھرائی اور

نس نس میں مہکتے رنگ، نیلی خوشبوئیں انڈیل دیں

کرنوں نے چپکے سے

دَفیں بجنے لگیں حواہش کے جنگل میں

میں اپنی ذات کے قصرِ عناصر میں

جلاتا ہوں کنول لمحہ جوانی کا

کنول لمحہ

گزرتی موج کے بے نام جادے کامسافر ہے

جہاں میں ہوں

وہاں کیفیتوں کے میکدے آباد ہیں جن میں

کسی کا نام لیتے ہی بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے

ہرے ساون کی راتوں میں

لہو کی ہلکی ہلکی گرم آہٹ پر اچانک جاتے

سپنے کی جھلمل میں

وہ شرمیلی سی لڑکی خود کو سمٹائے ہوئے

جب پاس سے گزرے

تو آویزہ لرز کر

کہکہشاں کا نُور سا رستے میں بکھرا دے

وہ جادوں گرنیوں جیسی بڑی آنکھیں

فسوں آواز کا۔۔

جو آشنا وہ دل کے بھیدوں سے

بدن کی چاندنی ہی چاندنی پھیلی ہوئی

سپنے کی گلیوں میں

اُسے مں دیکھتا ہو، دیکھتا رہتا ہوں۔۔

کیا بے نام چہت یا پرستش ہے

کہ وارفتہ۔۔ نکل کر اپنے پیکر سے

اُسے پا لوں۔۔۔۔ اُڑوں اُس کو اُڑا کر ساتھ لے جاؤں

اجالے کے بسیرے میں

میں اس کے درشنوں کے شیش لشکارے میں

ہر سُو منتشر ہو کر

بنفشی روشنی میں

آب جو کے پاس اٹھلاتی ہوا سے،

رنگ کے، احساس کے ہر عکس سے

اس کے بدل کی جستجو کرتا ہوں، جو ملتا نہیں

افسوس یہ۔۔۔۔

دیوار کی، پردے کی دُوری

کتنی صدیوں کے سفر نے طے نہیں کی ہے

یہ لڑکی جو کئی عمروں سے میرے جسم و جاں کی جھیل میں

اک عکسِ دل افروز کی مانند رہتی ہے

وہی۔۔۔۔ بالکل وہی ہے ناَ ۔۔۔۔

جسے میں نے کسی جنگل سے باہر

نیم عریاں گوریوں کے ساتھ دیکھا تھا

مہکتے گیسو و رخسار کے دلدار موسم میں

وہی لڑکی جو پاس آکر

ادائے دلبری سے قرب میں کم قرب کا

غم دے گئی شوقِ زیادہ کو

قدیم۔۔۔۔ اتنا قدیم اس سے تعلق

اور اتنا فاصلہ بدلے ہوئے رشتوں کی دنیا میں

کہ طے ہونے نہ پائے عمر کی لمبی مسافت میں

جسے ہو شوق جینے کا

جو بے اندازہ جذبے کی گرفتِ بے بہا سے چھوٹنا چاہے

اُسے بس چاہئے اک شامیانہ نصب کروا کر

نہنگِ رسم کے اعزاز میں جاں کی ضیافت دے

دہکتے شوق کے موسم میں جب بھیگی ہوائیں

غیب سے آتی ہیں اپنی جھولیاں بھر کر گلابوں سے

تو کیسی آرزو اس رستے پر

جھومتی رُت میں

لئے چلتی ہے آنکھیں موند کر بے اختیار میں

بتا! اے ساحرہ

اس جان کے رستے پہ کتنی دُور میرے ساتھ جائے گی

یہ بندھن ٹوٹ کر بھی ٹوٹتے کب ہیں

ہماری جیت شاید ہارنے میں ہے

پلٹ جائیں!

چلو یونہی سہی۔۔۔۔ یلہ شوق جینے کا ہمیں مرنے نہیں دیتا

چلو کم خوں بدن میں تازہ خواہش کی

بسنتی دھوپ انڈیلیں

چلو آوارہ ہو جایں

بہت سی لڑکیوں کے خواب دیکھیں

جن کی زیبائی

قریں ہو حُسن کے معیارِ اول سے

کریں منسوب ان کے نام ہم آوارگی اپنی

چلیں، چلتے رہیں وحشی غزالوں کے تعاقب میں

بجا ہے صرف خواہش سے کہاں تسخیر ہوتی ہیں

سیاہ آنکھیں

جنہیں بے نام جادو گرنیوں کے اسم و افسوں نے

کیا مامور دل کی بستیاں تاراج کرنے پر

ہم ایسے تھے کہ پابستہ رہے منےہ زور جذبے کی رکابوں سے

ہمیں بس لطفِ نظارا ہی کافی تھا

ابھی تک یاد ہے وہ سانولی کا چاہنے والا

جسے دیکھا گیا رخشِ تمّنا پر

لہو کی دھارسی مہمیز سے پھوٹی

مسافر انت سے بے انت کو طے کر گیا اک جست میں

حیرت پھٹی آنکھوں سے تکتی ہے

غم یک عمر کو کیسے بسر کتا ہے اک ساعت میں

دیوانہ

(پوری روشنی کا سپنا)

یہی دن تھے

محبت کا مسافر دھوپ کے دفتر میں جب چھاؤں کی روزی

ڈھونڈنے نکلا

یہی دن تھے

وہ سورج کی کلائی تھام کر اپنا سویرا فیکٹری میں

بیچنے جاتا تھا مشتِ رزق کی خاطر

اُسے سورج کہا کرتا تھا

دیکھو! میری کرنیں اس زمیں پر روزیوں کے ان گنت خوشے

اُگاتی ہیں

مگر میں نے کبھی اُن کے عوض انسان سے

آزادیوں کا زر نہیں مانگا

وہ اس کو واپسی کے گیٹ پر رخصت کی سرگوشی میں

کہتا تھا

چلو چلتے ہیں۔۔۔۔ تم اپنے اندھیرے اورمیں اپنے اندھیرے میں

یہی نا! اُن جہانوں میں جہاں ہم ہیں۔۔۔۔

وہاں کا کاروبار جبر ایسا ہے

چلو چلتے ہیں ہم شام آشنا کڑوے دھوئیں کے

چائے خانے میں

جہاں دو چار اوارہ طبیعت یار

اپنے منتظر ہوں گے

وہ باتیں ۔۔۔۔ اور بے اندازہ باتیں۔۔۔۔

یوں خلا کو ناپ کر اُس کے لوے ملبوس ہر خیاط

اندازے کی سوزن، لفظ کے دھاگے سے سیتا ہے

گماں کی خشت اندر خشت چنتا ہے

تصور کی زمیں پر فکر کا معمرا مٹی کی سرشتِ سخت سے

ایجاد کرتا ہے طلمس اسم جس کے زور سے ہوتی ہے

ارض خاک پر فردوس کی آب و ہوا پیدا

چلو یہ رات۔۔۔۔ یہ راتیں

خیالِ پرفشاں کے ساتھ خوہش کے فرازوں پرگزاریں گے

مگر امروز کا کڑوا کسیلا ذائقہ، چشم بصارت پر

خراشیں ڈالتے منظر اذیت کے

بیاض خواب میں لکھے ہوئے ہر شعر کی تردید کرتے ہیں

نہیں ایسا نہیں

مٹی کی خاصیت میں شامل ہے

تڑپ پستی سے اٹھنے گی

کہ چادر برف کی دستِ صنوبر سے اٹھا کر

رابطہ سورج سے رکھتی ہے

محبت مرد موسم کی

عجب طغیانیاں سوکھی ہوئی ندی میں لاتی ہے

سدھایا آدمی باہر نکلتا ہے

طواف بردباری سے

یہ تحریکیں زمانے کی شفق جیسی۔۔۔۔ افق سے تا افق

پھیلا سپیدہ دور سے آتے اجالے کا

ہوا امید کا دیدار مشرق کی بلندی سے

لمبا آبنوسوں کے اندھیرے میں، لہو کی پھڑ پھڑاتی

سرخ مشعل گاڑتا ہے

ظلم کی مسمار کردہ خلقتوں کی ڈھیر خاکستر پہ،

وہ ویکھو

آُبلتا، کھولتا انبوہ ، تختے کی طرح بجتی زمیں،

باہوں کا پرچم رقص، نعرے، طبل پر تھاپیں،

علم گرے ہوئے، اٹھتے ہوئے، موجوں کی چنگاڑیں

زمیں جو سر بہ زانو تھی، سفید آقاؤں کے

مدمقابل سراٹھاتی ہے

یہ کیسی موج ہے جو زرد دریا میں

پہاڑوں کے برابر اٹھ کے چلتی ہے

زمیں زادے برہنہ پا، نہتے، موت سے

ہستی کی منزل کی طرف لمبی مسافت پر روانہ ہیں

درانتی کھردرے، نادار ہاتھوں میں

زمیں سے صاف کرتی جا رہی ہے فصل سایوں کی

یہی بے نان کل کا آسماں ہے جس کے مشرق سے

صدا ماؤ کی اٹھتی ہے

جوان افتاد گانِ خاک میں تقسیم کرتی ہے

صحیفے خواب تازہ کی شاعوں کے

کہا آوندہ بیں انکھوں کو سکڑاتے ہوئے

اُس سے معلوم نے

گریباں چاک کو لو موسم گل آنے والا ہے

پرندہ ہجر کی بکھری وہئی پیلاہٹوں کے ڈھیر سے اٹھ کر

ہری امید کی ٹہنی پہ آبیٹھا

کہا اُس نے نظام شاہ داری کو نگلتی ہے بلا اپنے تضادوں کی

اندھیرے میں

فرازِ دار سے گرتے ہوئے قطرے

لہو کے بیج بن بن کر زمیں کی کوکھ کو

زرخیز کرتے ہیں

اُسے دادا نے اپنے بام پر جذبے کی نکھری دھوپ میں

کل کی صداقت کی گواہی دی

کسی نادیدہ منظر میں

نطر آئی اُسے افشاں تبسم کی جواں بیوہ کے

چہرے پر

وفا کچّے مکاں کی چاردیواری میں رہتی تھی

گھڑے پر موتیے کا ہار،

چھتی پر قرینے سے سجے برتن،

رسوئی میں ملائم انگلیوں کا لیپ،

آنکھوں میں کشیدہ کاریاں رنگیں سپنوں کی

یہا اسباب تھے جن سے

وہ روزانہ کا جیون گھر سجائی تھی

نظر آئی

گلابوں کی ہنسی، چمپا کی مسکانیں اُڑاتے،

آسمانی پیرہن میں

چاند جھولے کے الاروں میں ستارے توڑ کر لاتے ہوئے

آنگن میں گلدستے شگفتے سرخ بچوں کے

نمو پاتے ہوئے کرنوں کی بارش میں

مگر کیسا۔۔۔۔ یہ کیسا راستہ ہے

جس پہ بے اولاد پاگل ماں بھٹکتی پھر رہی ہے

اپنی لامرکز نگاہوں کے بیاباں میں

گلی کے موڑ پر تاریک گھر کی بالکونی سے

صدا دیتی ہے لالی سرد ہونٹوں کی

وہ رُک جاتا ہے، ننگی نالیوں کی بُو سے

سیتا کا ہیولا سا ابھرتا ہے

بہت سستا زمانہ ہے

یہی دوچار سکے چاہیں مریم کے گاہک کو

مگر کیا کیجے

واحد دّونی جیب میں ہے اور اگنے پر

اےس جانا ہے کافی دور آگے گھر کی منزل تک

خداوند! یہ کیسی بستیاں ہیں جن کی راتوں میں

سحر نیلام ہوتی ہے

چلو یلہ حبس میں جھلسی ہوئی شامیں

صدر کی مال پر چل کر گزاریں

گفتگو کرنے چلیں خود سے۔۔۔۔

درختوں سے پرے آنکھیں اڑاتوں میں

کسے ڈھونڈیں

کہ نیلی قوس کے نیچے ہماری ہی طرح کی بستیاں ہوں گی

ہماری ہی طرح کے رنج چہروں سے

دنوں کی نیم آسودہ فصا میں منعکس ہوتے

نظر آئیں گے آنکھوں کو

اُداسی ان سنی آواز کی مانند محرومی کے سنّاٹے میں

خالی آنگنوں میں بولتی ہو گی

خداوند! یہ دنیا کیسی دنیا ہے

جہاں ہم یاس میں بھیگے ہوئے تنکے غبارِ وقت میں

اُڑتے ہوئے

مٹی پہ آگرتے ہیں آحر میں

کھڑے ہیں

اور پاؤں کے تلے

رنگوں، صداےں اور خوشبوؤں کی پھسلن ہے

مگر کس نے ہماری قسمتیں

لمحے کے ساحر کی رصا سے باندھ رکھی ہیں

یہی۔۔۔۔ شاید یہی ہے۔۔۔۔

لوگ جنگل سے نکل کر بھی ابھی جنگل میں رہتے ہیں

بقا کی اس لڑائی میں

ہماری بستیاں لتقدیر کے خفیہ اشارے پر

وہی مرطوب، مبہم اور متوازن فضا ایجاد کرتی ہیں

کہ جسم و ذات میں اٹھتی ہیں تحریکیں

محبت اور نفرت کی۔۔۔۔

بھیانک آندھیاں باطن کے صحرا میں

ذرا سی یا بہت سی روشنی کی اس رکاوٹ سے

نہیں تھمتیں

جسے اُس نے گیا میں اور پھر اُس نے حرا میں

جا کے ڈھونڈا تھا

نہ جانے حبس کے اس گھونسلے میں

کون سی شبو اور کب طائر ہوا کا آکے بیٹھے گا

شریں کی پیلی پیلی باس شاخوں سے اترتی ہے

ذرا ٹھہریں کہ چنبیلی کی آہٹ سی

سنائی دے رہے ہیں

قمقمے کی روشنی میں پان کھانے کے لئے رُک کر

گزاریں چند گھڑیاں اس کی سنگت میں

یہاں سانوں میں سانسیں ڈال کر چلنے کی مہلت ہی

بہت کم ہے

مگر جو کچھ میسر ہے۔

نہیں۔۔۔۔ وہ بھی کسی کی دسترس میں ہے۔۔۔۔

سنو! تم فعل میں کمزور ہو، یہ طور مردِ نامناسب کا

پسند آتا نہیں دنیا کی دلہن کو

نظر آتے نہیں کیا، برگ نخلِ واقعہ پر سبز خبروں کے؟

ہوانا میں زمیں کو عاشقوں نے کر لیا اغوا

وڈیرے کی حویلی سے

گویرا اپنے اگلے مورچے پرخون کا پرچم اڑاتے گا

صدی پہلے یہاں آدم مویشی بیچنے والا

کہاں ہے؟ کمپنی کی حکمتوں کی داشتہ،

سب پتلیاں، حنبش میں دستِ رشتہ گیر اُن کا

ہویدا ہو چکا ہو ذہن روشن پر

ہمیں اس حال میں مایوس ہونے کی ضرورت کیا!

چلیں دو گی میں چل کر بیٹھتے ہیں

تم کہ جھیلوں کی زمیں سے

دھوپ کے تازہ گیاہستاں میں آئے ہو

بتاؤنا!

دمے کی قید کی میعاد کتنی ہے

تمہاری جان کے بنجر علاقے محں

معاش جستجو میں حیرتوں، بس حیرتوں کا رزق ملتا ہے

سوال ایسے کہ آنکھیں جن کی حدت سے

ابلتی ہیں

اسے تسخیرکرنے کون آئے گا

جو اپنی حکمتِ امروز کے بدلے ہوئے چولے میں آیا ہے

جو زور و زر کی زنبیلوں میں رکھتا ہے

طبق اندر طبق تاریکیاں

جن میں ہماری برقِ حوں پہل بھر تڑپ کر ڈوب جاتی ہے

کہو ایسے لہو کی سرخیاں کیسی

جو بہہ کر سوکھ جاتا ہے۔۔۔۔

کہ دیوانوں کی تعداد مقرر میں کمی بیشی نہیں ہوتی

یہاں کتنے ہیں جو بے وجہ، بے تقصیر گر گر کر

شمار سرفروشاں میں نہیں آتے

کہو ساحر نے کیسے

طبع عالم سیر کو سمٹا دیا اسباب و اشیا کے

گھرندوں میں

خرد کے بلدیے میں قسمتوں کی قیمتیں لگتی ہیں

ثروت کی دلیلوں سے

یہاں پروانہ ملتا ہے اُسے خوشحالیوں کی

راہداری کا

ادا جو اپنی قیمت سکہءِرائج میں کرتا ہے

یہاں رہنا پڑے گا

اپنے فہمِ روزمرہ اور اسلوب معین کی اطاعت میں

ضرورت ہے کہ ہم

اندرسے خودکو مسخرہ تسلیم کر کے

روز کی اسٹیج پر سنجیدہ کرداروں میں ظاہر ہوں

ہمیں اس روشنی کا،

اس ذرا سی روشنی کا عمر بھر تاوان دینگا ہے

جسے آنکھیں چرا کر لائی ہیں قصر عناصر سے

رجا کی فتنہ گر آنکھوں نے صحرا میں

لگا رکھا ہے کیسا خیمہءِمنظر۔۔۔۔

بتاؤنا! ہماری اصل کیا ہے؟

ہم غرورِ خاک ہیں یا عجز ہیں نادار مٹی کا

کہیں یہ تو نہیں، اُس نے

ہمیں اپنے اندھیرے کے سفر میں

راہ کی مشعل بنایا ہو

جسے جب چاہے کوئی حادثہ آکر بجھا ڈالے

ہماری اصل کیا ہےئ

ہم اندھیرے اور تنہائی سے بچنے کے لئے

انبوہ کے قلعے میں رہتے ہیں

مگر پھر بھی اماں ملتی نہیں ڈر کی چڑیلوں کے

بلاوے سے

تعلق سرسری سا دوسروں سے

عمر بھر ہم جن کی نگرانی میں رہتے ہیں

ہمیں دائم سلب ہوتی ہوئی آزادیوں نے

خوداذیت کا چلن ایسا سکھایا ہے

کہ ہم اس دشتِ سنگ وخشت میں

آدرش کے سورج کی بکھری کرچیاں

آنکھوں سے جمع کر کے

ہر صبح نیا سورج بناتے ہیں

مگر پیشِ نظر سائے کا پھیلاؤ نہیں گھٹتایہی ہر روز کہتے ہیں

ابھی موسم نہیں خاکستر افسوس میں چنگاریوں کے

پھول کھلنے کا

یہ کیسی خانقاہیں ہیں

جہاں سے اندرونِ جسم کو خیرات ملتی ہے

یہیں پر بے یقینی اور شک کی وارداتیں

درج کروا کر ہمیں اپنی اندھیرے کی عدالت میں

گواہِ وہم کی وعدہ معافی پر

سزا کے ٹالنے کا حکم ملتا ہے

وہی محدود منظر روزمرہ کا

وہی روزن

جہاں سے برکتوں کی مشت بھر نیلاہٹیں

ہم پر اُترتی ہیں

ا نہی کم نوشیوں پر مشغلہ جینے کا چلتا ہے

ہمارا ظرف بھی شاید نہیں اتنا

کہ ہم اپنی اکائی سے نکل کر

ٹوٹتی بنتی ہوئیموجوں کی کثرت میں سما جائیں

مگر اس غیب کے دریا میں وہ زورِ سبک کیا ہے؟

جو ثقلِ جسم کو اوپر اٹھاتا ہے

مصور کون ہے جو جسم میں

لاانتہار پیچیدہ، پر اسرارہستی کی

شعور رنگ، عرفان و رائے رنگ سے تخلیق کرتا ہے یہ لڑکی خوبصورت سی

بظاہر بعبتِ خاک معطر، مضطرب رنگوں کا پیکر ہے

مگر دیکھیں تو اسرار و رموز دو جہاں سے آشنا

ہستی نے

اپنے آپ کو سمٹا لیا ہے ان خطوں، قوسوں کے

جھرمٹ میں

سمندر اپنی ساری وسعتوں، گہرائیوں کے ساتھ

اس قطرے میں رہتا ہے

مگر پھر اسطرح کیو ں ہے

کہ آدم زاد۔۔۔۔ اپنے آسمانِ ہست کا انجم

اندھیرے میں زبوں، ناآفریدہ روشنی میں

اپنی صورت دیکھنے کے شوق میں

ناآشنائی کے سفر میں چلتا رہتا ہے

ہم اپنی نیم آگاہی کے عالم میں

چلو پوچھیں

ہم ناوقت کی اقلیم سے کس نے نکالا ہے

ہمیں اس نیک و بد، اس بیش و کم، اس نور و ظلمت کا

دیا احساس کیوں لمحے کی دانش نے

برائے جستجو؟

لیکن کھلے امکاں کے صد راہے پہ

اتنی حیرتوں کی بھیڑ میں کس سے پتہ پوچھیں

ہمارا کون سا رستہ ہے، منزل کس طرف ہے!

اور کب تک

نیم بینائی۔۔ شعاعِ ناشگفتہ کے چٹکنے کی توقع میں

چلیں۔۔۔۔ چلتے رہیں مفروضہ مقصد کے

اشارے پر

حواس و ہوش ، فہم و وہم۔۔ نارساحیلے ہیں

جینے کی ضرورت کے ہمارے حافظے کیا ہیں؟

وسیلے سا و ماہ و یوم کی کڑیوں سے

زنجیریں بنانے کے

جنہیں پہنے ہوئے تاریخ چلتی ہے

حواس انگیختہ منظر کی دنیا میں

بڑائی کم تری، ادانیٰ و اعلیٰ، ضابطے، قانون

پنچیت، ریاست

باپ بیٹے کا تعلق، جنس کے شتے

اکیلے اور مل کر جینے والوں نے کئے ایجاد۔۔۔۔

لیکن منحرف ہو کر محبت اور فطرت سے

کچھ ایسا ہے کہ ہم

خود ساختہ زنداں کی دیواریں

بڑی رکھتے ہیں دروازوں کی نسبت سے

یہ دنیا خوبصورت ہے

اسے ہم فاصلے کے وسط میں دیکھیں تو لگتا ہے

کتابِ پاک میں جیسے پر طاؤس رکھتا ہو

مگر ہم اس کے باشندے

خوشی کو حالتِ امکاں میں فرکھ کر

نا خوشی اپنے لئے تجویز کرتے ہیں

یہ منظر روشنی کا شام کا، امید کی چنبیلیوں کے

مسکرانے کا

ہمیشہ سے جہاں پرتھا وہیں پر ہے

وہی ہارے ہوئے سپنے

وہی موسم۔۔ ہمیشہ لوٹ کر اتا ہوا موسم شکستوں کا

وہی تصویر

نامعلوم سی افسردگی کی

یاد و نسیاں کا مصور نوکِ مژگاں سے جسے

احساس کے قرطاس پر

پت جھڑ کے رنگوں سے نباتا ہے

تمنا کے لبوں پر

تشنگی بے انت صحرا کی

یہ کیسا معرکہ ہے جس میں ہم شامل نہیں ہوتے ہیں

لیکن ہار جاتے ہیں

مگر یہ شوق کیا ہے اور کس کا ہے!

کہ ہم اٹھتے ہوئے پاؤں کا پرچم آسماں پر

اور بعدِ آسماں پر گاڑنے نکلے ہوئے ہیں

ہار کر پسا نہیں ہوتے

وہاں دیکھا گیا بے عقل بوڑھے کو

جو نسلوں کی رجالے کر ہوا تھا حملہ آور،

جبر کے کالے پہاڑوں کو

ہٹانے کے لئے سورج کے رستے سے

مگر پھر کیا ہوا؟

ہاں دیکھئے ہوتا ہے کیا، ویسے تو اب بھی

نصرتوں کے بام پر اُس شہ سوارِ مرکبِ امروز کی

تصویر لٹکی ہے

محبت کے مصور کا وطن چالیس برسوں کے اندھیرے سے

نکل کر بھی اندھیرے میں مقید ہے

مگر کیا کیجئے

امید کی منظر کشی مایوس بھی ہونے نہیں دیتی

کسی مشرق سے کرنوں کا خنک جھونکا

کھلا دیتا ہے گلشن سا تصورمیں

ابھی آدم ادھیڑ عمری کے سمجھتوں کی منزل پر نہیں آیا

ابھی ڈبلن کے زندانی

جواں صغا، مقدس ماریا، گمنامیوں میں مرنے والے

جان کی کرنیں اندھیرے میں لٹاتے ہیں

مگر کیا جانیے کب منقلب ہو گا

دکھوں کی ریت پر یہ کیکرے کی چال میں چلتا ہوا

انبوہ دنیا کا

نہ جانے دورنو آبادکاراں

ختم ہو گا یا نہیں ہو گا

ابھی و سامرِ زر کا فسوں چلتا ہے

پس افتادہ شہروں پر

وہاں دیکھو

شتیلہ جل رہا ہے

ابنِ موسیٰ پھر سے کوئی سلطنت لوٹا رہا ہے

اپنے دشمن کو

ادھر دیکھو

ہمارے گاؤں کے مکھیا نے کیسے وار دی ہے

گل بدن لرکی حمّیت کی

مفاد شہریاراں پر

یہاں اس رقبہءِصنعت میں تاجر کی اشارت پر

سنہرے بال بکھرائے ہوئے آنکھیں جھپکتی فاحشہ

فی یون سائن کی

کنکھیوں کی کشش سے رات کو فتنے جگاتی ہے

یہاں کے سادہ دل لوگوں کو

سستی خواہشوں کے زیور و ملبوس کا گاہک بناتی ہے

اسی میں عافیت ہے

طےح شدہ سائز کے قلبوتوں پہ ہوں تیار

سب پاپوش ذہنوں کے

یہاں تصویر و آواز و خبر کے کارخانے میں

جو مصنوعات بنتی ہیں

انہیں سے پرورش پاتے ہیں فہم و وہم

لوگوں کے۔۔ کہ سارے کینوس، سب موقلم، سب رنگ اُن کے ہیں

ہمارے پاس آنکھیں

اور وہ بھی ان کے معیاروں کی پروردہ

یہی اشاد ہے عقل مکمل کا

تجسس کفر ہے، تحقیق کو الحاد کا درجہ دیا جائے

خداوندِ رعایا کی ضرورت۔۔۔۔ شہروقریہ میں

نظامِ نعرہ و لبیک رائج ہو

رہیں مسحور چشم و گوش اشیاء کی چمک سے،

حوش گلو وعدے کی خوشبو سے

مگر کیا کیجئے

حکم زمانہ ہے کہ ہر اقرار میں انکار کبھی شامل کیا جائے

فسوں ابہرام کا

اندر ہی اندر آدمی کو منقسم کر دے

یہ رشتے، یہ حوالے

تجزیے کی خُردبیں میں غیرسنجیدہ نظر آتے ہیں

سارے واقعے سچّے بھی ہیں، جھوٹے بھی ہیں

کیا کیجئے

تحلیل کا اعجاز ایسا ہے

ادھورے اور ناممکن سوالوں کا ابوالہول اپنے

ترچھے ناخنوں سے وار کر کے

آدمی کو بانٹتا جاتا ہے اجزا میں

ادھر آدھے بدن کے خطہءِظلمت سے اٹھتی

داڑ چیتے کی

نہیں رُکتی کسی پشتے سے، جو تہذیب نے

آبادیوں کے درمیاں بہتے ہوئے جنگل پہ باندھا ہے

تصادم آج کا۔۔۔۔

اک دوسرے کی سمت سرپٹ بھاگتے بیلوں کے رستے میں

کھڑے ہیں ہم

کہ خود ہم بے خبر ہیں اُس اچانک فعل سے

جو ہونے والا ہے

یہی لگتا ہے

بے معنمی میں معنی ڈھونڈنے کی جستجو بھی

زندگی کے اس غلکط خاکے کا حصہ ہے

جسے اسرار کے قرطاس پر اُس نے بنایا ہے

کریں ابلاغ کس سے

فاصلے ہی فاصلے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں

اور ان تنہائیوں کے بے افق میداں میں ہم

اتنے اکیلے۔۔۔۔ اتنے معمولی

نہ جانے کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں

اور پھر اک دوسرے سے بھی جدا ہیں

اپنی اپنی خودکلای میں

(برف زار میں صنوبروں کے پرچم )

یہ دنیا خوبصورت ہے

سمندر کی ہری لہریں

ہوا کا بادلہ اوڑھے ہوئے آئیں

مری مٹی کے ساحل پر

لہو میں جاگتے لمحے کے بُرجوں سے

سحر کی اولیں خواہش کے اونچے غلغلے اٹھیں

گلابی ناخنوں میں تلملاہٹ ہو

افق کے باغ میں اگتے ہوئے پھولوں کو چھونے کی

تصوّر۔۔۔۔ باغباں دل کا

اگائے خواب کی چنبیلیاں رنگیں فضاؤں میں

معطر انگلیاں آہستہ آہستہ

دنوں کی رحل پر کھولے ہوئے روشن صحیفے کے

ورق اٹھیں

لب دریا مہکتی دھوپ کے اس پیش منظر میں

ذرا دیکھوں کہ میں کیا ہوں!

مگر رونق سی رونق ہے کہ کرنیں منتشر ہو کر

کریں یلغار آنکھوں پر

لہو میں ٹوٹتے، بنتے حبابوں کی دبی سرگوشیاں اٹھیں

چلوے چلتے ہیں،

دل کی تیز ہوتی دھڑکنیں جس سمت لے جائیں

کسی خوشبو، کسی رنگیں تتلی کے تعاقب میں

کسی منہ زور بے اندازہ خواہش کی عناں تھامے ہوئے

آوارہ ہو جائیں

اسی منظر کی رونق میں

لگے ایسا کہ ساری دھوپ کا میلہ

لپکتے بازوؤں کی دسترس میں ہے

مگر یہ اَن سنتی آواز کیسی ہے؟

کہا کس نے مجھے قربت کی دُوری سے

دریچے سے ذرا سائے کو سرکار کر

اُسے دیکھو!

مکانوں کو دیا ہے ربط جس نے تنگ گلیوں کا

اُسے دیکھو!

ذرا سا رزق جو آنگن کی جھولی میں

سحر دم ڈال دیتا ہے

تمہیں معلوم ہی کیا، کون کیا ہے!

کون سے ناآفریدہ شہر کی جانب تمہیں جانا ہے

کس کس حادثے کی زد میں آنا ہے

تمہارے حکم نامے میں لکھا ہے

دیکھتے رہنا

اسے جو ماورا ہے کشفِ منظر ہے

بجا ہے، بے تمنا کون جیتا ہے

بجا ہے، گوش برآواز رہنے میں برائی کیا

مگر یہ کیا ضروری ہے

کہ چاہِ بے صدا کے بطنِ ظلمت سے

ازل کے روز سے پھینکی ہوئی آواز اپنی گونج لوٹا دے

تو کیا بہتر نہیں ہم تم

اٹھا کر پائنچے پایاب دریا میں چلیں

کل کے کنارے تک!۔۔۔۔

مجھے کیا!میں تو سمجھوتہ بھی کر لوں

بے سماعت، بے بصر وہ کر

مگر مٹی کی فطرت میں انا شعلے کی شامل ہے

میں نااندیشہ خواہش کے اثر میں ہوں

یہی جی چاہتا ہے ایک دن

ان بستیوں کو آگ کا ظائر نظر آےں

بلندی کی طرف اُڑتے ہوئے،

سورج سے جا ملنے کے رستے میں

مرے باطن میں کوئی روح یا بدروح رہتی ہے

ہمیشہ مضطرب رہنا مری مٹی کی فطرت ہے

مجھے یہ آب و باد و خاک کے منظر تغیر میں

بھلے لگتے ہیں۔۔۔۔ کیسے سرسری سے

رنگ و خوشبو کے ورق اُڑتے ہیں چارو ں سمت

کثرت میں

نشاط انگیز، غم افروز لمحے کے ادھورے پن کی

یہ آئینہ در آئینہ تصویریں!

مگر ان منظروں سے اور آگے اور بھی کچھ ہے

مجھے لگتا ہے میں بن باس میں ہوں

اور میرا تخت ہے قصرِ ستارہ میں

ابھی تو یہ تغّیر کی زمیں بھی

میری مرضی میں نہیں۔۔۔۔ ویسے یہ لگتا ہے

اسے تسخیرکر سکتا ہوں میں زورِ ارادہ سے

مگر یہ کون ہے!۔۔۔۔۔۔ یہ بار بار آتی ہوئی آواز

کیسی ہے!

کہا کس نے مجھے قربت کی دُوری سے

بلادِ غم میں رہتے ہو

بتاؤ نا! وفا، کیسی وفا کے بے نشاں رشتوں میں

وابستہ ہو مٹی سے

یہ مٹی جس کے کوزے میں

اسی کو شکل اپنا کر مقّید ہو

تمہارا ثقل ہے جس نے

تمہیں باندھا ہوا ہے رنگ و خوشبو کی طنابوں سے

تم اپنے وہم کی شکلوں ہی شکلوں کے صنم خانے میں

کیوں سر پھوڑتے ہو

لفظِ کم معنی کے کہنے پر

بتاؤ! دہر کے بیداد گر سے یاریاں کیونکر نبھاتے ہو

جہازوں کو سمندر کی جفا جب توڑ دے

تو ڈوب جاتے ہیں

مگر تم ہو کہ نامعلوم کی طغیانیوں میں

اپنے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے اپنے آپ کو

پھر سے بناتے ہو

کھنڈر سی بستیوں میں

دست جاں سے کرچیاں لمحوں کو چنت ہو

فنا ہو کر فنا ہونے پہ آمادہ نہیں ہوتے

یہی کہتے ہو اپنے آپ سے

چلتا ہوں، بس یہ بے نوشتہ لفظ تو لکھ لوں

نہایت سخت جاں ہو

دھوپ کتنی ہی کڑی ہو واہمے کی آستیں سے

سایہ کر لیتے ہو آنکھوں پر

دمادم دوڑتے آتے ہوئے لمحوں کے رستے میں

کھڑے ہو بے خطر۔۔۔۔ پاگل کہیں کے

خون کی زربفت کا پیوند مٹی پہ لگاتے ہو

بتاؤنا! یہ قطرہ قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ مرنا۔۔۔۔ وہ بھی

جہد رائیگاں میں۔۔۔۔ کیا ضروری ہے!

رضا کے نجس لاشے کو

انا کے چاہ سے باہر نکالو

خودکشی کر لو

نہیں۔۔۔۔ ممکن نہیں میں توڑ دوں باندھا ہوا

پیمان مٹی سے

مجھے ماں نے سفر پر بھیجنے سے بیشتر

سوگنددی تھی اپنی خوشبو کی

سپرا انداز مت ہونا

سفرہو گا تمہارے سامنے بے انت امکاں کی

مسات کا

اُسے مت بھولنا

صدیوں کی صدیاں صرف کیں جس نے

شتمہیں تخلیق کرنے میں

لو! تعویذ تمنّا باندھ دیتی ہوں تمہارے مجزہ آثار بازو پر

تمہیں مایوس ہونے سے بچائے گا

سریسہ۔۔۔۔ ساحرہ تخت جزیرہ کی

ہمیشہ سے یہی چاہے کہ بے تقدیرہو جاؤں

مگر میں تو زمیں کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے

نکلا ہوا ہوں

اور ساتوں آسماں تم دیکھنا، باردگر

میری گزرگاہوں میں آئیں گے

کردں گا انتطآر اور انتظار اور انتظار اُس کا

مجھے جو ہجر کے بے انت عرصے سے نکالے گا

یہی زادِ سفر لے کر

مجھے چلنے ہے صدیوں اور صدیوں کے تعاقب میں

یہ دنیا خوبصورت ہے

بدن کا پھول جیسے گیسوؤں کی سیج پر رکھا ہو

پہلی رات کی شرمیلی دلہن نے

ہوا کی ڈالیوں پر چہچہاتا لفظ خواہش کا

اترتا ہے تو کیسی لرزشیں سی جاگتی ہیں برگ پر

ٹھہری ہوئی شبنم کے قطرے میں

قیامت روح میں آئینہ در آئینہ اٹھتی ہے

یہ آتش بازیاں سی آب و بارودخاک کے

ہر جشن منظرم میں

یہ دہلیزیں، یہ دروازے، یہ دالانوں کے اندر

رونقیں معوم حوشیوں کی

یہ بچے۔۔۔۔ نقش ہوں جیسے معطر چاندنی کی

چتر کاری کے

وہ سپنے سے زیادہ خوبرو لڑکی

ڈبو کر اپنے شیتل پاؤں دن کی آبجو میں

منتظر بیٹھی ہے

ہر سہ پہر کو گھر لوٹنے والے کی چاہت میں

یہ جگنو سے خیالوں کے

نظر آتے ہوئے، چھپتے ہوئے شب کی خیاباں میں

یہ گیتوں کی اُداسی

جیسے پیلی پتیّوں کے فرش پر چلتی ہوئی

ویران سہ پہروں کی اہٹ ہو

یےہ سوندھی بواس

جلتی گرمیوں میں پہلی بارش کی

عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیّر سے

فضا کے بحر سے لہریں ہوا کے ساتھ لائیں

سیپیوں جیسی سنہری دھوپ

سرما کی زمینوں پر

کوئی کیسے سنبھالے دل کی دھڑکن کو

جنوں کی کامنی رُت سات رنگے پیرہن میں

رقص کرتی ہے

سمے کی جوت سے چنگاریاں اُڑ کر

لہو کو شوق کی درد آشنائی کا ہراسندیسہ دیتی ہے

گریباں تابہ داماں چاک کر لیں

اور زنجیریں حدوں کی توڑ کر بے انت ہو جائیں

یہ نظارہ فزا پربت بلندی کے۔۔۔۔ یہ عکسوں سے بھری جھیلیں

یہ پتوں سے ملے پتے، جڑیں باہم بغل گیری کے عالم میں

یہاں زندہ ستونوں کے

کھلے قلعے کے اندر خواہش تخلیق کی شہزادی رہتی ہے

ہیولا سا

گزرتی شام کی محبوبیوں کا

سانولی افسردگی بالوں میں تارے اور

ویرانے میں اُگتے موتیے کے پھول گوندھے

دن کے آنگن سے گزرتی ہے

تھکے اعصاب میں جینے کا مرت گھولتی راتیں ش

شبستاں میں دبی آواز پہلے بھید کا غنچہ چٹکنے کی

تنے لمحے کی تادیدہ مسہری کے تلے

گھمساں سانسوں کا

یہ صبحیں۔۔۔۔ یہ زیارت گاہیں سورج کی

جہاں ہر روز ہر ذی روح جینے کی قسم کھائے

یہ دنیا خوبصورت ہے

مری مایوسیاں

شاید ثمر ہیں تجربوں کے حاصلوں کی نابلندی کا

مری مایوسیاں

شاید صلہ ہیں میری ترکیبِ عناصر کا

جو کم آہنگ ہے اپنے توازن میں

مری مایوسیاں

شاید سزا ہوں میرے فعلوں کی

جو پَر تو ہیں مرے اک جزو کا

انجام ہیں باہر کے اسباب و نتائج کا

جو خمیازہ ہیں شاید میرے سارے تجربے کے ایک امکاں کا

جنہیں امکانِ دیگر میں

رہے نسبت نہ کوئی میرے جوہر، میری نیت سے

یہ ایسا مرحلہ ہے

جب شعور آگے ہے شاید رشتہءِاشیاء انسانوں سے

زمامغ زور سے، مہمیز زر سے

انتظام شہر چلتا ہے

مگر یہ ابتدائے رہگذر ہے

بھوک، ناانصافیوں، بے علمیوں کے المیے کا سُورما

خود اپنا دشمن راہ پسپائی میں

صدیوں سے

شکستوں پر شکستیں کھا چکا ہے

اپنی لڑائی میں

حدیں اپنے نظاموں کی ہوئی ہیں

منکشف اُس پر

نئے امکاں کی آنکھوں پر

کھلا ہے دشتِ پر بر اُس کے اندر کا

اؒسے عقل و عقیدہ کے تصادم میں

ملا تو ہے شعور اپنے اندھیروں کا

مجھے تو زید خلوت سے اشاروں میں بتاتا ہے

کہ میں اب بھی پرانے بے بدل جوہر میں رہتا ہوں

ہمیشہ سے ہری مٹی کے

گدلائے ہوئے دریا میں۔۔۔۔ تنہا اور سب کے ساتھ

بہتا ہوں

اکیلا ہوں مگر ان خلقتوں کے ساتھ

وابستہ ہوں اور ازلوں کی وفاداری کے رشتے میں

یہ نامحسوس سے محسوس

نادیدہ سے دیدہ تک اشارے کرنے والی زندگی کی

کثرتیں

میری ہی آنکھوں کی تصّور گاہ میں

شکلیں بناتی ہیں

مگر کیسا تماشا ہے

یہ قدریں ڈھالنے والے

سدا ماخوذ کو ماخذ کیوں برتر سمجھتے ہیں

میں اول کی اکائی ہوں۔۔۔۔ نمائندہ

ہمیشہ سے ہمیشہ تک رواں کثرت کی وحدت کا

یہ آمر۔۔۔۔ اپنی بُت گاہوں کے پتھر سے

اُتر کر شہ نشینِ خشت مر مرے

مجھے دیکھیں

مرے پگھلے ہوئے دل میں

بہا دلبراں رہتی ہے

میری اس خزاں ناآشنا دنیا کی وسعت میں

نہ باڑیں ہیں، نہ جنگلے ہیں

نہ کوئی رہزنی کرتا ہے محنت کے پسینے کی

نہ کوئی جنگجو قوت کے مینارے سے

نقارہ بجاتا ہے

یہ آمر۔۔۔۔ یہ مفادِ زور آور کے نگہاباں

میری آزاری کو اپنے خیر و شر کی تجربہ گاہوں میں

اپنے دشمنوں پر آزماتے ہیں

زمانے اپنی قدر کا سکہ چلاتے ہیں

یہ سمجھوتے، اکٹھا مل کے رہنے اور بیچوں بیچ

دیواریں بنانے کے

ہماری اصل کی تردیدکرتے ہیں

منافق کون ہے؟ سچ کی گواہی پر

اُسے پہچاننا آسان ہے لیکن اُسے تاراج کرنا

کارِ مشکل ہے

ہماری دنیاداری کیا اِسے تسلیم کر لے گا

کہ مصنوعی قرابت داریوں شتوں کو اس صدیاں پرانیقلعہ بندی کوگرا کر

وسعتِ دل کی زمینوں میں

پرے وسعتِ بخیلاں کی رسائی سے

نئی بستی بہ اندازِ دگر، بارِ دگر تمیر کی جائے

یہی کہتے ہو

یہ تقدیر۔۔۔۔ ناممکن ہے امکاں کا

مگر دیکھو۔۔۔۔ نہیں اور ہاں سے آگے کی رسائی میں

یہی تقدیر۔۔۔۔ ممکن ہے کہ ناممکن کا امکاں ہو

کے ہے اختلاف اس سے

بہت کم حوصلہ خود غرضیوں نے کر دیا ہے

اہل دنیا کو

مگر امکان سے باہر نہیں اس حالت حالات کو

تبدیل کر دینا

ستارہ جو سفینہ ڈھونڈ سکتا ہے

وہ رستہ جو ابھی کھویا ہوا ہے

وقت کو ٹھہرانے والے نظریہ سازوں کے سائے میں

یہ آنکھیں اور وا کی جائیں ورنہ

اس بھنور کی ظلموں میں ڈوب جائیں گی

ارادہ بادباں کھولے الاؤ کا

اندھیرے کے عناصر کو لہو کی روشنی سے سر کیا جائے

یہ ممکن ہے کہ باہر اور اندر کے سفر میں

مستعد ہو کر

کسی دن ڈھونڈلیں اُس کنجِ ظلمت کو

جہاں پر جمر پلتے ہیں۔۔۔۔

وجود انکار کر دے ظاہر و باطن کی دوئی سے

یہ نا ممکن نہیں (بس فیصلے کی دیر ہے)

معدوم ہو جائے تصور پست و بالا کا

عقوبت گاہ و مقتل صفحہءِعالم سے مٹ جائیں

یہ ناممکن نہیں ان منتشر رنگوں کو منشور محبت سے

گزاریں اور پھر شفاف کرنوں میں

نظر آئے کہ ساری سرحدیں، سب دُوریاں،

تفریق کی سب اختراعیں۔۔۔۔ جھوٹ تھیں

تاریک ماضی کا

جہانِ نو میدہ میں

خوشی کی بارشیں اتنی ہوں، اتنی ہوں

کہ آنسو اور لہو کے داغ چھُٹ جائیں

زمیں کے کہنہ دامن سے

نظر آئے کہ بستی بے ریاست ہو گئی ہے

اور تازہ عہد نامے سے

نکالا جا چکا ہے لفظ جو رو جبر کی بے معنویت کا

نظر آئے کہ تسخیرِ زمین و آسماں کی بے کرانی میں

اُجالے کا سماں ہے

حُسن کے مرکز سے آزادی کے محور تک

یہ نا ممکن نہیں۔۔۔۔ (خلدِ زمیں کے خواب کی عشرت کہیں جس کو)

یہ نا ممکن نہیں

زورِ ارادہ سے اگر تاریخ کے جابر کا ہم

تختہ الٹ ڈالیں

یہ نا ممکن نہیں

فردا کے آئین مقدس میں لکھا جائے۔۔۔۔

بغاوت اختیارِ فرد ہے،

دنیا سے لے کر ماورا تک جبر کی تردید کرنا

آدمی کا حق اوّل ہے

سخاوت۔۔۔۔بے تمنائے صلہ جاں سے گزرنے کی

حدیث جاں فروشاں۔۔۔۔

جو رکھے، دائم کشادہ، دل کو دنیا سے

جو سچائی کے روشن راستے سے سأیہ اشیا کو سرکا دے

زمیں سیّار۔۔۔۔ کیسی راگنی کی جھانجھریں

پاؤں میں ڈالے، گھومتی پھرتی ہے نیلی سیرگاہوں میں

تو پھر اُس کے زمیں زادے

یہ ممکن ہے، کسی اگلی صدی میں،اُس کا ہم جوہر بنا لیں

اپنی دنیا کو

زمام کار اپنے ہاتھ میں لے کر

پرانی دو رُخہ تہذیب سے آزاد ہو جائیں

(آدھا سورج اور آدرش کا اکائی)

چلو چلتے ہیں شالیمار یا داتا کے گوشے میں

ذرا بیٹھیں

جنم کا حادثہ یہ ہے

کہ ہم تم نا مکاں نا وقت کے آزا گاں

کر لیں قناعت چائے نوسشی پر

فضائے حبس خوردہ سے نکل کر بیٹھتے ہیں

آؤ اس کنجِ تصور میں

یہیں بیٹھیں ۔۔۔۔غنیمت ہیں یہ سہ پہریں

محبت کے سفر میں دوستی کی ساعتوں کے جھنڈ۔۔۔۔

نخلستان صحرا کے

کسی کے نام پر

جامِ جہانِ رفتگاں افروز ہاتھوں میں اٹھائے

ساعتِ موجود کو لا انتہا کر کے

اُسے دیکھیں

وہ دریا جو کہیں پر آسماں سے جا کر ملتا تھا

کہ جس کی راہ میں آتا تھا

یہ میدان زمیں کا اور بازیچے زمانوں کے

ازل سے مضطرب آئینہ گر کی جستجو لے کر

رواں رہتا تھا کِھلتے اور مرجھاتے ہوئے

وقتوں کے رسے میں

کسی کے عکس سے رنگین ہونے کی تمنا میں

کوئی گوری

نہ جانے کون سے اسرار کے بے نام گاؤں سے

ادھر آئی

بھری گاگر اُٹھاتے اس نے اپنے عکس کی

مجوبیاں دیکھیں

ٹھٹھک کر ایک لمحے کے لئے

رکتے ہوئے شفاف پانی کی روانی میں

چلی تو ساتھ لے کر

جسم کے اک اک روئیں میں تھر تھری سی

ناسائی کی

وہ نآسودہ، اپنے صحن کی ویرانیوں میں

لوٹ کر، چھلکی ہوئی گاگر کی بوندوں سے

سنا ہے سرد مٹی پر چمکتی دھوپ میں

اپنی شبیہیں اور تمثالیں بناتی ہے

مگر اک آن میں دیکھی ہوئی محبوبیوں کا عکس

بے تکمیل رہتا ہے

اسی کے خواب کے دھندلائے آئینے کی شکلوں میں

ادھورا نقش ابھرے۔۔۔۔اس طرح اُبھرے

کرن کی گردسی اُٹھتی ہے جیسے

دفعتاً

انگشت شبنم سے

اسی پیہم بگڑتے اور بنتے نقش کو

اُس حُسن خودبیں نے

تمناؤں کے ترکے سے ہمیشہ مضطرب، نامطمئن رہنے کی

فطرت وہ ہے

مگر اس قرب میں بھی دور اُس سے

ماور اُس سے۔۔۔۔اسی کی جستجو میں ہے

وہی وہ ہے

مگر وہ پیاس کے صحرا میں اُس سے اور آگے

اپنے تسکیں تمنا کے بیاباں میں

سرابوں سے گزر پھر سرابوں میں اُترتا ہے

نہ جانے انت کیا ہے اس تعاقب کے تعاقب کا!

یہی شاید مقدر ہو

مگر تقدیر۔۔۔۔خود تقدیر نا ممکن کا امکاں ہے۔۔۔۔

چلو یونہی سہی

فکر مجرّد۔۔۔۔ دُور سے بھی دُور کے ابہام سے ہٹ کر

ہم اپنے تجربوں، جذبوں، خیالوں اور فعلوں

اور دردِ مشترک کی بات کرتے ہیں

افق کے آخری جنگلے پہ جھک کر دیکھ لیں گے،

اس سے آگے اور کیا ہے

ہم ابھی تو وسطِ دنیا میں کھرے ہیں

اور جو زادِ سفر باندھا ہوا ہے ہم نے

تو شے میں

تمنا کے سوا کیا ہے!

مگر تم ہی بتاؤ نا

کوئی اس سے زیادہ اور کیا چاہے

محبت کے لئے تو حُسن کافی ہے

ہمارا شوقِ وافر۔۔۔۔تتلیوں کے رنگ،

قربِ یار کی مہکار، سیاروں کی موسیقی کا دلدادہ

حدوں کو، خواہ وہ کیسی ہی حدیں ہوں،

پھاند سکتا ہے

ہماری جستجو۔۔۔۔ لا انتہا کے راستے پہ اس جگہ

یا اس جگہ دلبر سے ملنے کی

اکارت تو نہیں جائے گی، بے معنی نہیں ہے

ہاں کہیں ایسا نہ ہو یہ راستہ ہی

مختصر ہو جائے لافطرت کے ہاتھوں سے

کہیں ایسا نہ ہو یہ کل کی قبریں کھودنے والے

تلاشِ جسم زندہ میں

بنا دیں پھر سے زندانی ہمیں اہرا بے درکا

پرندہ لفظ کا

اسرار کی خاموش کشور سے

کسی محبوب کا باندھا ہُوا پیغام لے کر

دوشِ عاشق پر اُترتا ہے

چلو آگے چلیں

لا انتہا کے راستے پہ چلنے والوں کی رفاقت میں

ہمیں اپنی سکستوں سے خود آگاہی ملی ہے

اور جذبے نے بڑی آزادیوں کا

خواب دیکھا ہے

زمیں پر رہنے والے ایک ہیں۔۔۔۔

سب ایک ہیں

جن کے لئے شرط، انمٹ دوستی کے نام پر

آؤ چلیں، آگے چلیں

زینہ بناتے جائیں ہم رستے کو رستے کا

ہم اُن سے ہیں

انہی کے نام پر دولت لٹاتا ہے ہمارے درمیاں

قارون جذبوں کا

انہی کے واسطے دروازہ وا رکھا ہوا ہے

وقت نے اپنی سخاوتکا

رواں ہے کارواں۔۔۔۔جیسے بقا کا حرف

دست غیب لکھتا جا رہا ہو

کچھ سے کچھ ہوتی ہوئی اس لوحِ منظر پر

ہم اس انبوہِ آہستہ سفر سے منقطع ہو کر

گنوا دیں

یہ سفر کی سمت، یہ پہچان پستی اور بلندی کی

ہم ان سے ہیں

ہمارا رشتہءِخوں، اوّل و آخر انہی سے ہے

جو آپس میں،ہمارے ساتھ

صدیوں کی ہری تعمیر کے آہنگ میں پیوست ہیں

جن سے جدا ہو کر

کوئی بارش میں کچی، اینٹ کی مانند بہہ جائے

ہری آبادیاں شہرِ درختاں کی

بقا دیتی ہیں راہ باد میں ہر برگِ تنہا کو

ارادے کی عناں تھامے ہوئے

ان دھوپ چھاؤں کی زمینوں میں گروہِ عاشقاں نکلے

انوکھے با بچپن سے

مثبت و منفی سے آگے کی مہموں پر

غرورِ بے پناہی اور عجزِ خاکساری کے ہنر سے

کوزہ گر

بکھرے ہوؤں کو مجتمع کر کے

جمال افروز شکلوں میں

بناتا جائے ایسے نقص جو خوابِ بقا کے دیکھنے والوں نے

دیکھے ہیں

یہ گھر، یہ بستیاں جمعِ مسلسل سے

عجب کیا

اپنی کیفیت بدل ڈالیں

چلو آگے چلیں

اُس رہگذر پر گیسو و ابرو کے سایوں میں

مہکتی دھوپ سی پھیلی ہوئی ہے

لوک گیتوں کی

بسنتی رنگ کی آواز جیسے آسمانوں سے اُترتی ہے

جو اپنی کیفیت میں سرمئی ہو کر

اُداسی کی مہک کے پنکھ پھیلائے ہوئے

آہستہ آہستہ

ہمیں تحلیل کر دیتی ہے اپنی لے کے امرت میں

امر لمحے کی ساری راحتیں، سارے الم

منسوب ہیں ہم سے

بنفشی نور کا دروازہ کُھلتا ہے

ہمارے گرد دی بے انت وسعت کو،

ستاروں سے ستاروں تک

امر لمحہ

ملا دیتا ہے باطن سے

اک آنسو سا سرِ شاخِ الم رکھ کر

صدا رو پوش ہوتی ہے، ابھرتی ہے

نشیبوں سے اُترتی

سامنے آتی ہوئی، اوڑھنی جیسے ہوا میں

خوشبؤوں کے لہرئیے سے چھوڑ جاتی ہے

یہ صدیوں سے ہری آواز پیلے راستوں پہ چلنے والوں کی

یہ جیون کی ہری گھمبیرتا

جو انت سے بے انت کی پھلواریوں میں لہلہاتی ہے

ہمیں مایوس ہونے سے بچاتی ہے

ہری گھمبیرتا

جو اپنے ہونے کی وفائیں اپنی مٹی سے نبّاتی ہے

یہ ریلے ان گنت معلوم و نا معلوم تہذیبوں،

زمانوں کے کھنڈر سے چل کے آئے ہیں

زمین و آسماں کے سارے رستے

ان کے رستے ہیں

یہ برگ و کاہ راہوں کے، خزاؤں کے

یہ پیکر دھوپ چھاؤں کے

بڑے لمبے سفر پہ چل کے آئے ہیں

سفارت وقت کی اقلیم میں نا وقت کی کشور سے

لائے ہیں

چمک ان میں کسی خفتہ ستارے کی

ابھی لمبے سفر کی دُھول میں آنکھوں سے اوجھل ہے

مگر ان کے لئے

نادید کے مخفی اشارے میں

نویدِ بے پناہی ہے

زمیں کی بادشاہی ہے

کہ یہ پیکر کسی بے نام آور نے

جشنِ بیکراں کے درمیاں

بے انت شعلوں کی تپش کو منجمد کر کے

بنائے ہیں

ہماری دانشیں، جذبے،تمنائیں

اسی نخلِ بقا کی سبز ٹہنی پر چٹکتے ہیں

آفتاب اقبال شمیم

شجرستانِ ہجر کا مُسافر

جب سہ ہر کی ڈھلوانوں سے روشنیاں بہہ جاتی تھیں

جبانگشت ستارے کی

تھرانے لگتی تھی شام کے بربط پر

اور معطر سی گھمبیر اُداسی کے ویرانے میں

شاخِ شجر سے اُڑتی تھیں

لرزاں لرزاں پیلی تایں پتوھں کی

اُس دم جانے کون صدا دیتگا تھا۔۔ آؤ

بجھتے رنگوں کے یہ تحفے

آؤ! اپنے کل کے سپنوں کی قیمت میں

لیتے جاؤ

اور آواز کے راتوں لمبے رستے پر

دو رویہ خاموشی میں

ہجر کے شجرستاں کی جانب ہم دونوں چل پڑتے تھے

یاد ہے؟ تو کہتا تھا اپنی خوشبو کی سرگوشی میں

ہجرمسافت جان سے جان کے ملنے کی

کسی نے کب طے کی ہے پیارے

ہجر فنا کا رستہ ہے

شوق تحّیر سے گزرے تو وقت کی سرحد سے آگے نا وقت ملے

اور تحیر صدیوں کے پھیلاؤ میں

جانے کون سی نادیدہ منزل کی سمت اشارا ہے

اس سے پہلے۔۔ روز سفارت لفظوں کی

بے آواز چلی آتی ہے وعدے کی اسناد لئے

خالی آنکھ کے ایواں میں

یعنی ایک کبھی نہ آنے والے کل کے آنے تک

بس اک خواب کے درشن کرنا، کرتے رہنا

جیتے رہنا، مرتے رہنا

تیشے سے

کوہ مقدر سر کر کے

آخر میں اپنے ہی خون کی ندی پر

اپنی پیاس بجھانا ہے

ہجر زدہ صحرا زادے

نااُمید نہیں ہیں جان لٹا کر بھی

اب تو جاتے ہیں لیکن پھر آئیں گے

(جینا خون بہا ہے شاید مرنے کا)

جب سانوں کے امبر پر

ٹوٹ رہے ہوتے ہیں تارے پیلی رُت کے آنگن میں

دل پر دستک ہوتی ہے

اور دریچے کی چلمن سے ساحر آنکھیں

کیسے شوح اشاروں میں

پھولوں کے آدرش کا مژدہ دیتی ہیں

دل کا سجر

شنا درجدبے اور تصّور ان ہونی سی باتوں کا۔۔آس کے در اک لمے پر وا ہوتے ہیں

لہروں کی خویصیں کندھوں پر تھال اٹھائے آتی ہیں

اور الٹتی جاتی ہیں

ریزہ ریزہ روشنی کے گوہر ریت کی جوھلی میں

دیکھا تھانا! ہم نے ہجر کے شجرستاں میں

وہ برگد کے سائے میں

صبح و شام کے خاسکتر سے کرنیں چنتا رہتا تھا

دھیان سے اڑتی خوشبو کے مرغولوں سے

سپنے بنتا رہتاتھا

جانے اُس کے نور کا کس پہ کشف ہوا

وہ شہزادہ عمروں کے بن باس میں اب بھی

تنہا پھرتا رہتا ہے

خبروں کے انبار میں اک نادیدہ حرف محبت کا

ڈھونڈیں پر کیسے ڈھوندیں

دکھ کے معرکہ زاروں میں

ہونے والی جنگوں کے طرے ہونے کا امکان نہیں

روز مچھیرا معلوم تعاقب میں

رنگ و بُو کا جال اٹھائے آتا ہے اور خلیجِ شام سےآگے

بے تکمیل سفر کے لمبے سایوں میں کھو جاتا ہے

لیکن آتسلیم کریں یہ سوچیں کم معنی ہیں

لفظ ذرا سے گونگے بھی ہیں بہرے بھی

ہوش مساحت گر ٹھہری اندازے کی، اندیشے کی

ہم کیاجانیں کون تماشا گرے ہے ان دنیاؤں کا

جن کے سناٹے میں وقت کا ٹپکاؤ

ہستی کے گلزار کھلاتا رہتا ہے

ہم اس ہونے، نہ ہونے کے عالم گیر تماسشے میں

ناظر بھی ہیں، منظر بھی تمثیلوں کے

ہم کیا جانیں کیا ہیں!

۔۔۔۔ یاد نہیں کیا؟

کیسے جشن کی کیفیت تھی دن کے چڑھتے منظر میں

آئینے در آئینہ

عکسوں کی گہماگہمی سی رہتی تھی

تازہ زخموں کی مہکاریں

ہم دنوں کو

آوارہ رکھتی تھیں دل کے قریے میں

اوّل اوّل

جب میں مونج کی چپّل پہنے

اور بسنتی خواب کی چھتری سر پر تانے

برووں کے اونچے پربت سے اترا تھا

تم بستی سے باہر دھوپ کی سنگت میں

مجھ کو لینے آئے تھے

تم نے میرے لمبے بالوں، نسواری پیراہن کو

کتنے غور سے دیکھی تھا

پھر جیسے تُم نے مجھ کو، میں نے تم کو پہچان لیاج

یاد ہے نا! وہ بے چنی سی

دل کی ممنوعہ گلیوں میں جانے کی

دُور کہیں بُرجوں پر جلتی قندیلیں

چاندیوں کے گیت، تھرکتے پاؤں سے اُڑتی چاندی کے چھینٹوں میں

رقص کی لہروں پر ہلکورے کھاتی آنکھیں

دن کی بارہ دریوں میں

شہر صبا آباد خرام لالہ رخاں

ہر نفسے ہم رنگ پیام لالہ خاں

کھل کھل اانا نیم شگفتہ زخموں کا

اور بہ چاہت دل میں مرجانے کی

گرم لہو کی لوریاں سنتے سنتے ہم

اورنگھنے لگتے تھے رنگیں افسانوں کے گہوارے میں

پھر ہم دنوں

ٹھہرے لمحے کی جنت سے، اپنے ہی اُکسانے پر

مٹی کے دکھ کا بےنام ثمر چکھ کے

ہونے کا، نہ ہونے کا تاوان ادا کرنے نکلے

باہر ایک تماشا ہر سُو بے چہرے انبوہوں کا

سایہ سایہ زلفیں کھولے

دھوپ پرانی دہلیوں پر بیٹھی تھی

گھر کے کچے آنگن میں

بے شکوہ آکھوں سے قطرہ قطرہ گرتی بینائی کی آہٹ سی

بوڑھے ہاتھوں میں رعشہ ناداری کا

زید کے ماتھے کی تختی پہ کھا تھا

یہ مٹی، یہ آل اولاد ستاروں کی

قحط کی فصلیں کیوں ہرساں اُگاتی ہے

اے داتا! ان ناحق مرنے والوں کو

اپنے بخششں سے تو لمبی عمریں دے

آئندہ کی دنیا میں

قصر بہت اونچے تھے عشرت گاہوں کے

جن کے شب زاروں میں پھول مہکتے تھے

بوٹے جیسے قد و قامت کی نوخیز کنیزوں کے

جن کے زینے سے خلقت پر جینے کا انعام اترتا رہتات ھا

آتے جاتے موسم سبز صلیبوں کے

خاک کا دامن بھر جاتے تھے سرخ سجیلے جسموں سے

جبر کے ظلمت خانے میں

خوف، اندھیرے اور دھوئیں کے سنّاٹے

زنگی پہیرداروں کی چنگاڑیں رات کے جنگل میں

گرتے خون کی موسیقی پر رقص برہنہ شہعلوں کا

کیا دیکھا؟ ۔۔۔۔ بے چشم مصنف بستی کی دیواروں پر

سہ پہروں کے سائے لکھتا رہتا تھا

طاقت کے شاہی قلعے ماخذ ساری تہذیبوں کے

جس کے دانش زادوں نے تعمیر کئے

زر کے بیجوں سے اُگتی بحالی کے پس منظرمیں

چمستان ثقافت کے

یاد ہے؟ ہم دنوں نے اپنے سارے خون کی شدت سے

نفرت، نفرت، نفرت کا اقرار کیا

اے شاعر! آ

عمروں کے فاقے سے برفائے ہاتھوں کو بوسہ دیں

روشنیاں اُنڈیلیں ٹھنڈے سینوں میں

اتنی کہ صحبوں کے گھاؤ پڑ جائیں

رّب جبر کی نازل کردہ ظلمت کی پیشانی پر

خواب پرندے اور نشیمن آنکھوں کے

آدم زادے شہر ازل کی گم کردہ جنت کی دھن میں یوں نکلے

جوں عشاق نکلتے ہیں

اے ایام کی مٹتی یاد گوہی دے

ہم فردا کے دزُد اندھیری راتوں میں

روشنیوں کے نعرے دیواروں پہ لکھتے رہتے تھے

لگتا تھا کہ دل نورستہ جذبوں کی طغیانی میں بہہ جائے گا

لیکن کیسے قدآور سالاروں نے

ڈھلتی عمروں کی ٹھنڈی آسائش کے خس خانے میں

منصوبے تیار کئے پسپایء کے

دام بچھائے نافہمیدہ سچائی کی منطق نے

پھر۔۔۔۔ ہم بھی کچھ ایسے تھے

ناآموز شنا اور بحرِ ہمت کے

ڈوبے حیلے اور حوالے کے گدلے گردابوں میں

ہم کیا کرتے

(ہم نے سوچا) بہتر ہے سمجھوتے سے

ہم ابہام کے پیچ و خم میں کھو جائیں

ورنہ یہ جابر سلطان زمانے کا

ہم آزادوں سے مانگے کا جزیہ باجگزاری کا

بہتر ہے کہ سر پہ لے لیں تہمت کم کم جینے کی

کیا ہے؟ غور سے دیکھو تو

زرد بگولے کی مٹھی میں نیک کمائی تنکوں کی

سارے جذبے لا حاصل

اس سے آگے منظر شام سرائے کا

چائے کے مٹیالے گھونٹوں سے گرمائے ہجے میں

پہروں خود چھپ کر خود سے باتیں کرنا

باہر افراتفری ٹوٹے آئینوں کے عکسوں کی

خالی کمرے میں مجمع آوازوں کا

بے پیغام، تہی تمثیلیں معنی اور حوالے کی

ایک تمسخر ہونٹوں پر

لایعنی فعلوں کی زریں فصلیں بونے والوں کا

بس ایسے ہی کاٹ دیا

اکتا دینے والے روز و شب کے آنے جانے میں

ہم نے رہتی عمروں کو

اے شاعر آ

ہجر کے اندر ہجر کے اس دورہے پر

موڑ مڑیں ایسے کہ کوئی منظر پچھلی یادوں کا

نظروں سے روپوش نہ ہو

بچھڑیں لیکن اگلی رت میں پھر ملنے کے وعدے پر

ہم کہ پیوستہ ہیں خون کے رشتے میں

دکھ کے زرد قبیلے سے

دیکھ! یہاں پر

ہجر کے شجرستاں میں کیسے لمبے لمبے سائے ہیں

اے جنموں کے آوارہ! اے ازلوں کے سیلانی آ

دل کے عرش پہ چل کے تارے چنتے ہیں

دلبر سے ملنے سایوں کی بستی میں

پیارے! کل پھر آنا

آفتاب اقبال شمیم

درخت

ابھی ابھی بف کی چڑیلیں

ہری ہری مسکراہٹوں کو

شگفتہ چہرے سے نوچ لیں گی

ابھی ابھی بادلے دنوں کی

سیہ لٹکتی ہوئی زبانیں

صرر صرر چاٹنے لگیں گی ترے بدن کو

خزاں کا سفاک لکڑا ہارا

ابھی ترا انگ انگ کاٹے گا، پھانسیاں سی

تجھے بلندی سے پستیوں میں کڑک کڑک

کھینچنے لگیں گی

مگر معطر لہو برستا ہے جب فضا سے

خنک خنک آگ جاگ اٹھتی ہے جب رگوں میں

تو ایسے موسم میں تیرے زخموں سے پھوٹ آئیں گی

عہدنامے کی آیتیں سی

تو مسکرا کر محبتوں کی گواہی دے گا

(کرن کا بے انت روشنی سے اٹوٹ رشتہ)

زمیں کے پرچم! تجھے نگوں کون کر سکا ہے

کھڑے کھڑے مر بھی جائے گا تو

مگر وہیں پر

جہاں کی مٹی سے تیرا ناطہ بندھا رہے گا

لگا ہوا اپنے آستاں سے

ملا رہا ہے یہاں کی پستی کو آسماں سے

مجھے بھی یہ شوکتیں عطا کر

مجھے بھی اپنا سا عزم دے دے

مجھے بھی آزادیوں کا، سر کو اٹھائے رکھنے کا

بھید سمجھا

یہاں میں نیچی چھتوں کو اوڑھے

چہار دیواریوں کا بُکل بدن پہ مارے ہوئے

کھڑا ہوں

دروں پہ بے اعتمادیوں کی، شکوک کی کنڈیاں لگی ہیں

ثقالتوں میں گڑا ہوں ہوں

(یہی بہت ہے

تری بلندی سے دیکھ لیتا ہوں آسماں کو)

مرے اندھیرے کی جھیل میں روشنی کی شبنم

ٹپکتی رہتی ہے کھڑکیوں سے

میں اپنے روزن سے تک رہا ہوں

کھلی فضا میں ترے لچکتے دراز بازو

اٹھے ہوئے ہیں

تو اپنی نمناک انگلیوں سے

فلک کے رخ پر

چمکتے چھینٹے اُڑا رہا ہے

یہ شب کی بھیگی ہوئی سی خوشبو

مرے مساموں سے کیوں نکلتی نہیں

کہ میں بھی

ہوا کو بھر دوں لطافتوں سے

وجود میرا

گیاہ زاروں کے بیچ میں جیسے کوئی سمٹا ہُوا سا صحرا

میں اپنے ہیجان کا جزیرہ ہوں

جس میں بدمست پیل پیکر سوال

چنگاڑتے ہیں

 بلائیں، اندھی انائیں ہر سُو

’’نہیں نہیں‘‘  کی کٹار چیخوں پہ ناچتی ہیں

تجھے وفا کے، عبادتوں کے صلے میں شاید

سدا کا نروان مِل گیا ہے

ازل کی پاکیزگی کا لمحہ

مرے تنفس میں گھو لتا ہے

تِری محبت کے گرم معنی

تو میں اندھیرے کا، چمنیوں کے دھوئیں کا پردہ

اٹھا کے اُس سمت دیکھتا ہوں

جہاں مجھے بے لباس دیکھا تھا تیری چھاؤں نے

مجھ پہ جھک کر

میں اک بگولا تھا سرکشی کا

جسے جُھلاتے رہے ہواؤں میں تیرے بازو

مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب مری رضا نے

مرے لئے وقت کی جزمانے کی سر پرستی

قبول کر لی

میں تجھ سے بچھڑا تو پھر نہ لوٹا

جنم جنم کی رفاقتوں کو بُھلا چکا ہوں

عجیب معصومیت کے دن تھے

میں تیری اُس رقص کرتی چھاؤں میں

دھوپ کی تتلیاں پکڑتا تھا

اور تُو تالیاں بجا کر، مجھے اُٹھا کر

اُچھالتا تھا

مرے تصور کا سبز پیکر

ہوا کی گت پر چھڑا ہوا گیت طائروں کا

کبھی اندھیرے میں شاہزادہ دکھائی دیتا تھا

تو طلسمات کی زمیں کا

میں دیکھتا ہوں

کہ بلڈنگوں کے مہیب عضریت

تیرے سر پہ جھکے ہوئے ہیں

تو سنگ سڑکوں کی، تنگ رستوں کی

بیڑیاں ڈال کر کھڑا ہے

تُو اُگ رہا ہے مری ہوس کی

سیاہ مٹی میں

میرے لا انتہا خلا میں

کھڑا ہے تُو وقت کی عدالت میں

دے گواہی

یہ رُوپ۔۔۔۔میرا۔۔۔۔مرا نہیں ہے

مجھے مری ذات کے سفر میں

مرے ارادوں نے،حادثوں نے

فنا کیا ہے

لٹک رہا ہوں صلیب پر

اور اپنا منکر ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں

یہاں میں بن باس میں ہوں

یہ بے درخت دنیا مری نہیں ہے

کبھی کسی سچ کا اسم اعظم

مجھے رہائی دلائے اُس سے

جو میں نہیں ہوں

کبھی کسی راستے کا پربت

وجود کی گھاٹیوں سے مجؒ کو

فراز کے دوش پر اٹھالے

کبھی تری مامتا سی چھاؤں

کڑی اذّیت کی دوپہر سے مجھے بچا لے

تری پناہوں میں اتنا سؤوں

کہ اپنی تاریخ بھول جاؤں

میں تیری پہچان بن کے جاگوں

آفتاب اقبال شمیم

میں ابد ہوں

آسماں ڈوب گیا تنگ خلیجوں میں کہیں

میز پہ رکھے ہوئے ہاتھوں پر

سانس دھندلائی ہوئی گرتی ہے

ادھ کھلی کھڑی سے

رات انڈیل رہی ہے خنکی

سارے دروازو ں پر

خود کو کم جاننے کے پہرے ہیں

اجنبیت کاپرانا احساس

ڈولتے کوہ کی مانند جھکا ہے سر پر

جو ابھی سونڈ میں لپٹا کے

اچھالے گا اُسے

اور پلٹا کے پھٹی آنکھوں کو

اپنی پیشانی میں وہ جھانکے گا

اور دیکھے گا تھَئیٹر کا وہ منظر جس میں

بیل ہسپانوی لڑکے کو ارینا میں کچل دیتا ہے

مسکراتا ہوا لڑکا جس کی

موت محبوبہ ہے

کیا یہ تہوار ہے خوشبوؤں کا؟

سرمئی ریت میں ڈوبے ہوئے شفاف لہو کے

سورج

آسمانوں کے مہکتے ہوئے پھیلاؤ میں

رات کے پیڑ پہ اُگ آئے ہیں

اور اب

دھوپ کی پتیاں رستوں میں لٹائی ہے ہوا

زرد مشرق میں غلامی کی سڑاند

صندلیں نسل کی یورش میں بہی جاتی ہے

کیا یہ تہوار ہے خوشبوؤں کا؟

قہر کے کوہ سے بہہ نکلی ہے

آہستہ سے

سرخ ملبوس میں دلہن ہے رواں

اور فرہاد نئے موسم کا

خودکشی کر کے اناالحق کی اذاں دیتا ہے

ویت نامی بھکشو

کھول کے اپنی رگیں

خام قوت کے مقابل میں گواہی اپنی

دے رہا ہے دیکھو!

مشرق و مغرب میں

چی گویرا کی صدا پھیلتی ہے، پھیلتی ہے

میں نے پہچان سے اثبات کا

ناوقت سفر

طے کیا اور اجالے مرے قدموں میں بچھے

میں کہ بے انت اندھیرے کی

کسی شاخ سے لٹکا ہوا اک پتا تھا

میری آنکھوں سے کئی صدیوں کے

جہل کی چھال گری۔۔ اور زمانوں کے زمانے پلٹے

نوجوانوں کی جواں تر آواز

خون میں گونجتی ہے، گونجتی ہے

سوچ کا بحر ہے میلوں گہرا

اور نروان خمومشی کا پرندہ ہے بلندی سے

نگاہیں جس کی

معتدل موسموں کو برف پہ چھڑکاتی ہیں

بس ابھی پھینکیں گی

آسمانوں سے ابابیلیں کئی سوچتے جذبوں کی

حرارت جس سے

جھوٹ کی کند تہوں کے چھلکے

سارے جسموں سے اتر جائیں گے

اور گوتم کوئی

ساتھ لائے گا خود آگاہیوں کا آئینہ

سب کی پیشانیاں پاکیزہ زمانوں کی بشارت سے

دمک اٹھیں گی

(٢)

تُو نے دیکھا ہے کبھی

تند دریاؤں کو پستی سے بلندی کی طرف بہتے ہوئے

تُو نے خوشیوں کے کھلے موسم میں

سرمئی دھوپ کو آنکھوں سے ٹٹولا ہے کبھی؟

جب اُجالے کا ابوالہول ترے سینے پر

ناچنے لگتا ہے

تو نے محسوس کیا ہو شاید

تیرے آئینے میں الٹائی ہوئی شکلیں ہیں

اپنی تردید سے خائف ہو کر

وہم کے تنکوں سے

تو بناتا ہے عقیدوں کی فصیلیں کتنی

انکشافات کے لشکارے کو

تُو سیاہی میں ڈبوئے ہوئے الفاظ کے

چھینٹوں سے بجھا دیتا ہے

گول ابھری ہوئی آنکھوں سے تجھے تاڑتی

رہتی ہیں کئی چھپکلیاں

خوف و حیرت کے سوالات ہیں منہ کھولے ہوئے

اور تو جانتا ہے

روشنی ڈھونڈنے والوں کو مکوڑوں کی طرح

رات کی ڈائنیں کھا جاتی ہیں

اور مکروہ سوالات خلاؤں کی طرح

گُھورتے رہتے ہیں

روزمرہ کے بنائے ہوئے تسلیم شدہ رستوں پر

دھول ہی دھول ہے سمجھوتوں کی

یہ نفی کے پردے

دیکھنے والے کی پوشش بھی ہیں عُریانی بھی

روشنی کے قد سے

گھر کے یہ سائے بہت لمبے ہیں

فرش پر بکھرے ہوئے جُوتوں کے

منہ کھلے ہیں جن سے

رات بھر اڑتی ہے بیمار سفر کی بدبو

کیسے ہرشام کوہارا ہوا خود سر لڑکا

اپنی چوکور پنہ گاہ میں لوٹ آتا ہے

اور کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک

جیسے دانتوں سے کترنے کی مسلسل آواز

کوئی شے گھٹتی ہوئی

رونما ہوتے ہوئے واقعے، وقفوں کے خلا

بلبلے اور زمانے یکساں

دیکھتے دیکھتے خاموش دھماکوں میں بکھر جاتے ہیں

وقت بے سمت مکاں ہے جس کا

کوئی دروازہ نہ دیواریں ہیں

ایک احساس بیک وقت

ہزاروں جانب

پھیلتا اور سکڑتا ہے حوالوں سے ترے

تو خود اپنا کل ہے

اپنے پاؤں کے تلے روندا ہوا

تیرا احساس ہے ایذا تیری

تو تروتازہ چراگاہوں سے

دن کے ڈھلتے ہوئے سورج کی رفاقت میں

بہت دُور نکل آیا ہے

منزلیں۔۔ عارضی ترکیبیں بغاوت کو

فرو کرنے کی

نظرئیے موم کے بت ہیں جن کو

مصلحت اور ہوس کی گرمی

مسخ کر دیتی ہے

تُو نے دیکھا ہو گا

سادگی اور خباثت کو گلے ملتے ہوئے

فلسفے اور اصول

بات سےبات بنانے کے ہنر

اور تقریر کے کوزہ گر نے

چاک پر، ایک ہی مضمون کو ڈھالا ہے

کئی شکلوں میں

توڑ اِن خوابوں کو

واہمے دن کی چٹانوں پہ گرا

المیے خبروں کے

آنکھ میں چبھتے ہوئے گرد کے تنکوں کی طرح

منکشف ہوتے ہوئے، چھپتے ہوئے

منظروں اور مزاروں کی نمائش گاہیں

جن میں چندھیائی ہوئی، سکڑی ہوئی

پتلیاں کھلتے کھلتے

اپنے پھیلاؤ میں صدیوں کے اندھیرے کو ڈبو لیتی ہیں

اور پھٹ جاتی ہیں

ایک انبار ہے بولے ہوئے، لکھے ہوئے حرفوں کا جسے

لیمپ کی روشنی میں

نوک دار انگلیاں سلجھاتی ہیں

اور پھر رسیوں کے ٹکڑوں سے

بنتی رہی ہیں بچھونا جس میں

کوئی سوراخ نہ ہو

دھڑ تڑپتا ہوا نایافتہ آسائشوں کی خواہش میں

سر کو ڈستے ہیں سوالات کے کالے کژدُم

اپنی حد بندیوں کی سولیاں لٹکی ہوئیں۔۔ چاروں جانب سب عمل بے مقصد

سرحدیں۔۔ ڈوریاں الجھی ہوئیں ہر پاؤں میں

پتلیاں ناچتی ہیں، ناچتی ہیں

(٣)

سرد کافور کی بُو، صبح کی پہلی کرنیں

اور فلموں کے پرانے گانے

ایک سا ذائقہ ہے

ناشتے اور نئے دن کے خبرنامے کا

کھُردرے چہرے پہ ریزر کے رگڑنے کی صدا

تیز چائے میں گھلائے ہوئے سگرٹ کا دھواں

منہ میں ٹپکاتا ہے

سالہا سال کی عادات کا مٹیالا مزا

اورالماری سے آتی ہے کتابوں کی پرانی خوشبو

وہ کتابیں جن میں

ہم رکھا کرتے تھے

خوشنما مور کے پر اور سنہری کتریں

یاد ہے؟ آج سے برسوں پہلے

ہم اسی وقت اسی راستے پر

ہاتھ میں تختیاں لٹکائے ہوئے چلتے تھے

آسماں اور زمیں اپنے تھے

معرکے تازہ لہو کے جن میں

چاہتے تھے کہ نئی لرزشیں محسوس کریں

نِت نئے تجربوں سے خون اُبالیں اپنا

کوئی دعویٰ ہمیں تسخیر کرے

یاد ہے؟ سینکڑوں پگڈنڈیاں کھُلتی ہوئیں

پاؤں کے تلے

کھلکھلاتی تھی ہمیں دیکھ کے، سبزے میں بھگوئے ہوئے

کھیتوں کی ہوا

سخت کھینچے ہوئے تاروں کی رگیں بجتی تھیں

اور گہنائے ہوئے چاند ، اٹھائے ہوئے صدمات کی نیلاہٹیں، ناکامیاں

رومان، چکاچوند دلیلوں کی شکستیں، نئی دریافتیں ، اعصاب سے

گرتا ہوا ہیجان، نئے روپ، بدلتی ہوئی

پہچان میں سرجن کی جراحت کا عمل

سارے افعال و مسائل کی اذیت میں

عجب لذت تھی

کون سی شام تھی جب

میں نے جلتے ہوئے سگرٹ سے ڈسی تھیں آنکھیں

بے دلی گہری، بہت گہری تھی

جابجا درزوں سے

روشنی چھنتی تھی

جیسےبے جسم اندھیرے کے مساموں سے لہو رستا ہو

جاگتے رہنے کی حاجت تھی نہ سو جانے کی

سرد سیسے کی طرح سُست وجود

کوئی نسیاں کے سمندر میں گرا دے مجھ کو

میں نے یوں چاہا تھا پر دل سے کہاں چاہا تھا

اور پھر میں نے کہا زید سے سرگوشی میں

آچلیں چائے پئیں

نیم رس روشنیاں ہوٹل کی

منتظر ہیں اپنی

دیکھ! وہ لڑکیاں خوشبو کے بگولے کی طرح

گرزی ہیں

عکس پھلدار درختوں کے رواں سایوں کے

روح میں تیرتے ہیں

گد گداتی ہے طبیعت کو ستمبر کی ہوا

آ کہ ان رُکتے ہوئے،چلتے ہوئے جھونکو ں کو

اپنے ہر انگ سےمحسوس کریں اور حسیں

دنیا کے

منظروں اور رُتوں کا امرت

چُسکیاں لے کے پئیں

دوستو! دُوریاں طبعی ہیں، مری مجلس میں

تم سدا رہتے ہو

واہ کے مال، صدر کی سڑکیں

اور جہلم کا ابد کا دریا

مرے ہونے کے حوالے ہیں، مرے ماخذ ہیں

جو مرے مسخ شدہ چہرے کی

آخری سرخی ہیں

جبر کے سلسلے، سسلی کے پہاڑ

پیٹ میں بھوک کے لاوے کا اُبال

گھر پہ نیپام بموں کی بارش

اور گورے وحشی

سینکڑوں برسوں سے

ان گنت راستوں سے شہر پہ حملہ آور

اجنبی جبر کے خفیہ رستے

موت پھنکارتی پھرتی ہے گلی کوچوں میں

زرد قوت کا بھیانک اژدر

جس کا اُگلا ہوا پیلا لاوا

شہرزادوں کو بہائے لئے جاتا ہے نشیبوں کی طرف

جس طرح دھوپ کو ڈستے ڈستے

پھیلتا سایہ فنا کر ڈالے

جیسے پندرہ راتیں

چاند کے جسم کو کھا جاتی ہیں

زرد قوت کا بھیانک اژدر

رینگتا رہتا ہے بل کھائی ہوئی سڑکوں پر

منڈیوں، ہوٹلوں، بنکوں کا خدا

کتنی پُرہول ہے صورت اس کی

میں نے آرے کی مشینوں میں پھنسی بوٹیاں

دیکھی ہیں کٹے جسمو ں کی

میں نے دیکھا ہے لہو تھوکتے مزدوروں کو

زرد قوت کا خدا

روندتا جاتا ہے

جس طرح پاؤں رگڑنے سے بجھا دے کوئی

فرش پر کوئلے کی تحریریں

زید! تو کہتا ہے میں زندہ ہوں

میرے ہونے کی ضرورت کیا ہے

اور پھر کون سے مقصد کے لئے

خود کو موسم کی ہواؤں کے حوالے کر دوں

میں کہ مظلوم ہوں، ظالم کے گلے کیسے لگوں

میں چلا جاؤں۔۔ کہاں جاؤں؟

کہ جینا مری معذوری ہے

فیصلہ۔۔ میری حقیقت ہے جسے

میں نے گم کر دیا ابہام کے چورستے پر

خودکشی اور بغاوت دونوں

میرے ہونے کی دلیلیں ہیں جنہیں دے نہ سکوں

دیکھ! وہ دیکھ بہادر لڑکے

خون میں ڈوب کے ابھرے ہیں فلک زاد اجالے کی طرح

ویت نامی لڑکے

اور میں اُن کے لئے جیتا ہوں

اور پھر سوچتا ہوں

روز و شب، وقت کی خوش فہمیوں کے جگنو ہیں

ان کے پیچھے پیچھے

کوئی بھاگے کب تک

اور آوازوں کے

کتنے انبوہ تعاقب میں مرے

چلے رہتے ہیں، مجھے کہتے ہیں

میں فنا ہو جاؤں

ورنہ ایندھن کے بڑے ڈھیر میں سڑتے سڑتے

راکھ بن جاؤں

ہاں اسی مٹی پر

گر کے شفاف پیالے کی طرح ٹوٹ چکی ہیں آنکھیں

اور ان بکھری ہوئی کرچیوں میں عکس پڑے ہیں کتنے

نرغہ در نرغہ سوالات کھڑے ہیں کتنے

پوچھتا ہوں کہ مرا نام ہے کیا

میں کہ خود میں بھی نہیں

بیشتر ٹیپ شدہ تقریریں

پیش رو ہیں میری

میرے افعال نئے فیشنوں کی نقلیں ہیں

میں اُسے ڈھونڈوں کہاں

میں کہ خود میں بھی نہیں

ہاں مگر میرے لئے

غیرمحسوس ارادوں کی کئی منزلیں ہیں

جو مجھے ساتھ لئے پھرتے ہیں

ڈوبتی گرمیوں کی شامیں گھنی جھاڑیوں میں

بیٹھی ہوئیں

سانولی دلہنیں آنکھوں کے اشارے سے

بلاتی ہیں مجھے

اور میں روز ہی جاتا ہوں

جہاں

منتظر ہوتا ہے

آسماں۔۔ میرے لڑکپن کا رفیق

اور ہم بانہوں میں بانہیں ڈالے

گھر سے بھاگے ہوئے لڑکوں کی طرح

شہر سے دُور نکل جاتے ہیں

دُور۔۔ خآموشیوں کے معبد میں

ہم اشاروں کے اسالیب میں سرگوشیاں کرتے کرتے

آنسوؤں اور ستاروں کو ملا دیتے ہیں

پھیلتی پھیلتی بیہوشی میں

روشنی گھلتی ہے

دیکھتے دیکھتے شکلوں کے معکب

آنکھ سے ٹوٹ کے گر جاتے ہیں

پھر ہمیں راہ میں بھیگے ہوئے سٹرس کی گریزاں خوشبو

اور سرزرد سریں کے سائے

ساتھ لے اڑتے ہیں

سنسناتا ہے، مرے جسم پہ کانٹے سے ابھر آتے ہیں

اور پھر آنکھوں سے

آبشاروں کی طرح گرتے ہیں

خواب آئندہ کے

کون سی لڑکیاں تھیں؟

جن کو چاہا تھا، بہت چاہا تھا

وہ کسک۔۔ حُزنیہ گیتوں کی کسک آج بھی ہے

آج بھی ہے

جو مرے جسم کو سلگائے ہوئے رکھتی ہے

اور میں زندہ ہوں

دیکھ! وہ مشرق و مغرب کے جلوس

مشعلیں تھامے ہوئے، نعرے اُڑاتے ہوئے

آ پہنچے ہیں

میرے ہونے کی گواہی دینے

خون میں ڈوب چکا ہوں تو کیا؟

میں اندھیرے کے درندے سے لڑا ہوں برسوں

اور اب شہر بہ شہر

گھنٹیاں بجتی ہیں

آسمانوں سے اذانوں کی صدا آتی ہے

اور میں زندہ ہوں

آفتاب اقبال شمیم

بے انت کا سپنا

بوڑھا سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ

وہاں تو ہرجا

چمکتی دہشت کی دھار سے سربریدہ شاخوں

ہلاک پتوں کے حون کی پٹپریاں جمی ہیں

سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ

سفیدکرگس

تمہارے جسموں کو نچ لیں گے

سیاہ بارود کی مچانوں پہ چھپ کے بیٹھے ہوئے شکاری

چمکتی انکھوں میں قبر کھودیں گے گولیوں سے

سنو! سنو! نوجوان لڑکو

تمہارے ناخن گلاب کی پتیاں ہیں، ان سے

کڑی سلاخوں کو کیسے کاٹوں گے، کیا کرو گے

زمیں کی تختی پہ سارے وقتوں کا فیصلہ کیسے لکھ سکو گے

تم ان سے کالے سمندروں کی تہیں ٹٹولو گے

اور واپس نہ آسکو گے

سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ

وہاں اندھیرا سلگ رہا ہے

مُدوسا۔ انگ گنت دانت مرے ہا۔ ہا۔ہا

سینکڑئں ہاتھ مرے ہا۔ہا۔ہا

آگ پاکیزہ ہے

میں اگر اپ کی اولاد ہوں، ماں ہوں

تو مقدس ہوں میں

آؤ، سب آؤ، مرے شعلوں میں مدغم ہو جاؤ

یہ مکاں ہیں کہ کھنڈر ہیں، جن کی

کنڈیاں بند ہیں، دانتوں میں دبایء ہوئی سانسوں کی صدا آۃی ہے

کانپتی بلڈنگیں، بے آہ وفغاں، ٹھہرا ہوا واویلا

عورتیں، ہا۔ ہا ۔ ہا

اور بچوں کا بلکنا۔ ہا، ہا

تُو نے اس شہر کے مردوں کو کہاں بھیجا ہے

ٹکٹکی باندھ کے کیوں دیکھتا جاتا ہے مجھے

اے پجاری! تری خواہش کا معظر دریا

بہہ رہا ہے، جس پر

رینگتا ہے مری آواز کا سنسان دھواں

اے ہیہوئے کے مقدس کا ہن!

میں تری ماں ہوں، ترے بیٹوں کی اولاد بھی ہوں

اجنبی گورکنوں کو میں نے

اس جگہ بھیجا ہے

جو مری اگ میں کفنائے ہوئے شہروں کو دفنائیں گے

اسے ہیوئے کے مدس کاہبن!

تو نےاس شہر کے مردوں کو کہاں بھیجا ہے

شہر کیوں خالی ہے

ہا۔ہا۔ہا

میں۔ زید! آچل کے خبروں کے اونچے دھماکے سُنیں

کیا خبربرف کے زخم کھائے ہوئے ہاتھ کی پشت پر

روشنی تیز ریزر سے نیلی رگیں کاٹ دے

اور تیزاب میں دُل کے اُجلے بدن

اپنی تازہ تپش سے مہکنے لگیں

کیاخبر

کنکریٹ اور سیمنٹ کی سخت دیوار پر

تیز بارش کا سبزہ اُگے

زلاید۔ میرے ہمزاد! چائے کی خالی پیالی بڑھا

تیری آنکھوں میں اُگتا ہوا سبز منظر بہت غیر دلچسپ ہے

میں یہاں دس برس سے ہوں بیٹھا ہوا

میں نے دیکھا ہے سیسے کی بیساکھیوں پہ اپاہج دنوں کاسفر

ہاتھ بنجر سہی

پر کئی سال ہم دھوپ میں بیٹھ کے

ناخنوں کی کھڑی فصل کو کاٹنتے ہی رہے

بند کمرے میں آنکھوں کی دیوار پر

لڑکیوں کی سرکتی ہوئی نیم عریاں تصاویر نے

جسم پر رینگتی کیڑیوں کی طرح

گد گدایا ہمیں

روزناموں میں قتل اور اغوا کی خبریں مزے لے کے پڑھتے ہوئے

ہم نے ہاتھوں کو سانسوں سے ٹھنڈا کیا

میرے ہمزاد! تو نے مجھے اور میں نے تجھے

بارہا مات دی

بارہا ہم نے باتوں کی جنگیں لڑیں

میرے ہمزاد! آ آج بھی حست معمول باتیں کریں

آکسی تیسرے شحص کی ذات کو

چُست فقروں کی چوکاٹ میں جڑ کے اک دوسرے کو

دکھاتے پھریں

کورس۔ سفید طاعون حملہ آور ہے

دبا کے نرغے میں آئی بستی کے جسم پر کپکپی ہے طاری

ہماری آنکھوں میں دیکھ بابا!

ہمارے سینوں میں غیب کی روشنی کا سنگیت بج رہا ہے

ہیوئے سے سائیگاؤں تک

آنے والے موسم کی راہ میں ہم

گلاب کیسربریدہ قلمیں لگا رہے ہیں

بہار کاگیت لکھ رہے ہیں

وہ دیکھ بابا!

بموں کی بارش نے تازہ مٹی کے برتنوں کو گھلا دیا ہے

ہمارے بھائی

دھوئیں کے جنگل میں ہم سے غافل

لہو کی چادر میں سو رہے ہیں

انہیں جگانا ہے اور جانا ہے آسماں تک

جہاں سے ہم سبزد دیو مالال کا اسم اعظم

زمیں پہ پھونکیں گے اور کبڑی زمیں کے سب بل نکال دیں گے

میں۔ رات بھر اسماں اور میں

مرد و زن طرح اپنے سینوں کو باہم ملائے ہوئے

نیم بے ہوش کیفیتوں میں اندھیرے کی سرگوشیاں

سن رہے تھے

صدا اپنے مرکز سے محور کی جانب رواں

بے خزاں وقت ذروں کو لہریں بناتے ہوئے

اور لہروں کو نابود کرتے ہوئے

زندگی۔۔ موت۔۔ لاانتہا

خون کیاوس ہی آسمان و زمیں، بحر و بر اور مخروط کی

نوک سے دائرہ تک کا پیہم سفر

اے خدا! تُو اکائی بھی، لاانتہا بھی، اکیلا بھی ہے اور

انبوہ بھی، زلزلے، آندھیاں، بے حسی۔۔ موت یا نیند

کی بے حسی۔۔ سب کے سب تیرے مظہر ہیں۔۔ تو کیا ہے

اے جاگتوں کے خدا! اے سلگتے اندھیروں کے آقا

تجھے کون سا نام دوں۔۔ تیرے اوراق پہ روشنائی کے

ساتوں سمندر ہیں پھیلے ہوئے

وہم کی روشنی اتنی کم ہے یا اتنی زیادہ ہے

رستوں کا مقصد سرابوں میں غرقاب ہے، خواب کی

سب نے سب سے ہمیشہ کہا

موت کی بادشاہت میں آنکھوں کے پرچم کو اونچھا رکھو

قاف کی چوٹیوں پہ کھڑے

سب نے سب سے ہمیشہ کہا

آخری جنگ کے بعد تابہ ابد نور ہی نور ہے

اے خدا تیرے منشور و آیات کی خیر ہو

کیا یہی آخری جنگ ہے؟

ایک آواز: کھیسان کی سولی ٹوٹ چکی

اب شہر پناہوں کے باہر

چوبی لشکر پھر چوکس ہے

کیا مرکو سیاست کی قوت

پھر جیتے گی

اندازے کی بالشتوں سے کیا ناپتے ہوئ

نسوانی لمس خوش آمد کا

اچھا لگتا ہے کیا کیجے

سب بزدل میں

بیماروں کے اس میلے میں

کُل سوچوں ، سارے وقتوں کا

انداز وہی ہے ، جو کل تھا

دوسری آواز فلسفے سب فلسفے

دلدلیں، اُبلے ہوئے لاوے ، پرانی گیس کے اندھے کنوئیں

نصف دائیں دھڑکی اقلیدس تمہیں

لائنوں اور زاویوں کی مختلف اشکال میں

اور تہذیب و ثقافت، مذہب و جغرافیہ کے جال میں

جکڑے ہوئے

تم کو تم پر فاش کر سکتی نہیں

تم کہ ہو

سام کی بورھی حکومت کی عصا

تم کہ ہو

تہ بہ تہ، پردہ بہ پردہ ان گنت اوہام میں لپٹے ہوئے

کھولتے خوں کے چمتے سورجوں کو

بزدلی یا مصلحت یا فیصلے کے ضعف کی پھونکیں

بجھا سکتی نہیں

تم سمجھتے ہو کہ شاید آسماں کی جبرکا طوفاں اڑا لے جائے گا

تم سمجھتے ہو تمہاری خندقیں سیلاب کی زد میں نہیں

اس طرف دیکھو جہاں

نوجواں لڑکوں نے اپنے ناخنوں سے آہنی دیوار کو

کر دیا ہے ناتواں

زندہ باد اے ویت نام

بورھا۔ جوان لڑکو! تمہاری مائیں

جلی ہوئیں بستیوں کے ملبے پہ آنسوؤں کی

چمکتی مالائیں لے کے برسوں سے منتظر ہیں

زمیں کو رعشہ سا ہو گیا ہے

تم آؤ گے اور تم نہ آؤ گے اور وہ منتظر رہیں گی

جوان لڑکو!

بموں کی بارش میں آگ کے پیڑ اُگ رہے ہیں

زمیں کی چھت سے دھوئیں کے جالے لٹک رہے ہیں

بہار کی دلہنیں کہاں ہیں؟

سنا ہے وہ بھی

تمہارے ہمراہ آرہی ہیں

(سنا ہے وہ بین کر رہی ہیں)

نہیں، نہیں، تم ضرور آؤ گے، آخری جنگ۔۔ ساری

سوچوں کا،سارے وقتوں کا فیصلہ کرنے والے لڑکو!

تم آؤ گے اور تم نہ آؤ گے اور ہم منتظر رہیں گے

آفتاب اقبال شمیم

اپنے ہونے کی سزا

دیکھ!

اُس بے سقف کمرے میں بجھے تاروں کی بارش کا سماں

سُن!

شکستہ آئینے کی کرچیوں پر رینگتے لمحوں کا شور

کھٹکھٹاتا ہے گلی کے بند دروازوں کو

پاگل پیل مرد

اور مسجد کے قریب

ہو گیا ہے خود بخود دو نیم برگد کا درخت

شہر میں بے ربط آوازیں۔۔۔

درندوں، وحشیوں کے قہقہے

اور اس نظارہ و آواز کے ملبے میں

چشم و گوش بے نام و نشاں

بے خروش

آنکھ کا سیلاب کب کا تھم چکا

اب حقارت کی سیہ صرصر بیابانوں میں چلتی ہے سدا

پر کسی تاریک گوشے میں ابھی تک ٹمٹماتا ہے

کسی نادار خواہش کا چراغ

اور مرجھائی ہوئی کرنوں میں کوئی ڈھونڈتا رہتا ہے

امکانِ بہار

درد کے اہرام سے باہر نکل آئے کبھی

جس کے تہ خانوں کی سب پُرپیچ راہوں، چوردروازوں

دربیروں کا رستہ

بے زباں گونگے محافظ جانتے ہیں

پر بتا سکتے نہیں

اور وہ صدیوں پرانی چھت کو دُزدیدہ نظر سے دیکھ کر

سوچتا ہے کس طرح کچھ سال پہلے

شہر کے اک خانہءِتاریک میں

دب گیا تھا بے خطا

طفلِ یتیم

کوچہ و بازار میں رسوا خیال

گوش برآواز ہیں

جابجا بکھرے ہوئے پیتل کے ارزاں قہقہے

چوک میں لٹکی ہوئی بوڑھے مؤذن کی صدا

اور کج پیکر مکیں

کھینچتے پھرتے ہیں بازاروں میں

ستواں جسم پورس کی برہنہ لاش کو

آنکھ، اس تاریک زنداں کی اسیر

دیکھتی ہے اِن سلاخوں سے پرے سب واہمہ ہے

سب سراب

(اپنے ہونے کی سزا)

کل بھی تھا وہ اجنبی لوگوں میں تنہا۔۔۔ بے رفیق

مرد و زن ترشے ہوئے شیشے کی آنکھوں سے اُسے

دیکھتے تھے اور نفریں قہقہے سے

پھیر لیتے تھے نظر

اُس کی رفعت سے کہیں کم ترنگاہیں

اپنی پستی سے زیادہ پست۔۔۔ کیسے دیکھتیں

اس کی رخشندہ جبیں

وہ کسی فردا کے نادیدہ جہاں کا منتظر

بے ثمر، یکساں دنوں کی ایک سی رفتار سے

نامطمئن

چاہتا تھا اپنی آہِ سرد سے

یہ سدا جلتا ہوا سورج بُجھا دے

وہ ہمیشہ بے امّاں

دھوپ سے پگھلے ہوئے جسموں کو ہر دم چاٹتی چابک کی زہریلی صدا

سنتا رہا

جس نے دیکھے خوں چشیدہ کھیت میں اُگتے ستوں

جبر کے اونچے محل

وہ کسی فردا کے نادیدہ جہاں کا منتظر

اجنبی شہروں میں سرگرداں رہا

دل۔۔۔ ہوا میں کانپتا پتہ۔۔۔ ہمیشہ مضطرب

روز و شب کے معنی و اسلوب سے نامطمئن

چاہتا تھا توڑ دے خودبیں خداؤں کے سیہ آئین کو

مشرق و مغرب میں حائل فاصلے کو پاٹ دے

خود ستائش گر نطر سے

چھین لے وہ عکس جو آئینہ گر کا فیض تھا

اور دھو دے

بے بصر دل کی سیاہی

جسم و جاں کی سلوٹوں سے خوف و اندیشہ کا میل

تاکہ مل جائے انہیں

دائمی ساعت کا بے پایاں سکوں

شہر میں سرکش

اناؤں کی سدا جلتی ہوئی آندھی کازور

ناتواں پیڑوں کو گرتا دیکھ کر

کف اڑاتا ہے کسی سفاک، بے ساحل سمندر کا جنوں

اس سمندر کو ابھی تک یاد ہے

اَن گنت، بھولی ہوئی جنگوں کا حال

اولیں سایہ ابھی تک

کوئی کیوں سوچے کہ اُس کے خون میں محفوظ ہے

کوئی کیوں سوچے کہ اُس کا اولیں سایہ

پرانی رزم گاہوں میں لہو پیتا رہا

(اپنے ہاتھوں قتل ہونے سے اُسے ہوتا تھا جیسے اپنے ہونے کا گماں)

اور اس لا انتہا لذت سے ملتا تھا اُسے

ایک لحظہ کے لئے اس دائمی ساعت کا بے پایاں سکوں

جو گھنے جنگل میں رکھتی تھی

اُسے آئندہ و رفتہ کے اندیشے سے دور

(آنکھ تھی ہر واہمے سے بے نیاز)

اس گھنے، لاانتہا جنگل کی سرحد بن گئی

نیم روشن آگہی

اور پھر اپنی اَنا۔۔

جسم و جاں کا اولیں سایہ ہوا گرم ستیز

(دائمی ساعت کے کھو دینے کے دکھ کا انتقام)

آگہی نے کتنی زنجیں بنائیں

تاکہ جنگل کی ہوا کو، رینگتے بے جسم سائے کو

کسی حیلے سے کر لے زیرِ دام

پر سدا چلتی ہوئی

اک چراغ چشم کی انگشت بھر لو سے کہاں تھمتی

کہ وہ ہر ضابطے کی قید سے آزاد تھی

اپنے ہونے کا صلہ ہے

بے کراں ساعت کی بے صرفہ تمّنا کا عذاب

بے ثمر خوابوں کا دکھ

کل بھی کوئی آئے گا طرح دگر پر

شہر نو تعمیر کرنے کے لئے

اور اُس کی دکھ بھری آواز

غُراتی مشینوں، اجنبی لوگوں کے ارزاں قہقہوں کے شور میں

کھو جائے گی

دُکھ کی سلِ دل پر اٹھائے

کوچہ و بازار میں تنہا پھرے گا

اور سوچے گا

کہ اس تاریک زنداں سے پر

سب واہمہ ہے، سب فریب

(اپنے ہونے کی سزا)

آفتاب اقبال شمیم

ستمبر کا شہر

ہواؤ! آؤ

کھڑے ہیں اُفتادہ پا مسافر

جھکی جھکی ٹہنیوں میں

دامان و آستیں کا ہجوم الجھا ہوا ہے کب سے

فضا کی بے سمت آنکھ میں

سوختہ دنوں کا غبار

بھیگی ہوئی عبارت کے آبدیدہ حروف

بے جان و جسم بکھرے ہوئے پڑے ہیں

خمیدہ پیڑوں پہ ٹمٹماتی حنائی شمعیں

صدائے صرصر کی منتظر ہیں

ہواؤ! آؤ!

انہیں بجھاؤ

شکستہ دل، دست و پا بریدہ

سپاہِ دارا

ستم کے تاریک راستے پر

چلی ہے شہرِ فنا کی جانب

جہاں پہ کتنے ہی زرد سورج

شبِ مسلسل کی سرد مٹی میں دب چکے ہیں

ہواؤ! آؤ!

نہ جانے اب کون سا پڑاؤ ہے جس میں ہم

بے درا پڑے ہیں

ابھی تو جانا ہے اور آگے

قدیم راہیں

ابھی پسارے ہوئے ہیں اپنے برہنہ بازو

کہ کوئی شعلہ

بھڑک کے اس نودمیدہ سبزے کو راکھ کر دے

تو راکھ میں دب کے سو بھی جائیں

نڈھال بانہیں مگر ابھی تو

ابھی تو جانا ہے اور آگے

(کہیں پہ ان سست ساعتوں کا اداس لشکر ٹھہر نہ جائے)

کوئی چھلاوا

بلند چپلیوں

سفید، یخ بستہ چوٹیوں پر

کھڑا ہے سرما کی دھوپ کا تاج سر پہ پہنے

وہی تو ہے وہ مقام اوّل

جہاں سے بانگِ رحیل کی اوّلیں صدا

بے خروش لمحوں کو لے اُڑی تھی

بہارِ بے برگ و گل کی جانب

عروسِ نو

ناچشیدہ لذت سے ناشنا سا

کھڑی ہوئی نیم سوختہ شام کے کنارے

شفق کے پھولوں سے آنے والی

وصال کی نرم نرم خوشبو

حنائی کرنوں کی آنچ سے شعلہ بن گئی تھی

نگاہ امید منتظر تھی

وہ رات آئے

کہ لحظہ لحظہ پگھلتی شمعوں کی روشنی میں

مئے شبانہ کی نرم قلقل کا ساز

اُس راگ کو جگا دے

کہ جس کی موجِ نشاط میں

بوئے درد بھی ہے۔۔۔ عذاب و راحت

مگر ہوا آنے والی شب کی خبر نہ لائی

فضا کے سینے میں بند نوحے

سسکتے لب

زخمِ خام کی بوئے آتشیں سے دہک اُٹھے تھے

ہوا کی سرگوشیوں میں جیسے

تمام چنگاریاں دبی ہوں ۔۔۔۔۔۔

مگر ہوا آنے والی شب کی خبرنہ لائی

بلند و بالا نشیں سفیدوں

دراز ستواں صنوبروں پر

مدام اُگتی رہی سیاہی

کہیں پہ اس ۔۔۔۔۔۔ آسماں کے نیچے

اُداس پچھلے پہر کی پیلی

خنک خنک دھوپ میں بگولے

ملول رستوں کی خاک پر محوِ رقص ہوں گے

درخت بے برگ و شاخ

جیسے صلیب چپ چاپ، سانس روکے ہوئے کھڑے ہوں

کہ آسماں سے ہلاک پتوں

گزیدہ شاخوں کا خون برسے

تو ڈوب جائیں

کشیدہ راہیں

کہیں پہ ہوں گے

کشاں کشاں قافلے روانہ

بہار صوتِ ہزار کی دائمی خلش میں

قدم قدم پر سراب

بے صرفہ خواہشوں کو فریب دے کر

دکھاتے ہوں گے

مسافروں کو نشانِ منزل

یہ قافلے گرمِ جستجو ہیں

کہ جیسے کم سن سا کوئی بچہ

ادھر اُدھر

عکسِ آئینہ کو اسیر کرنے کی خام خواہش میں

ڈورتاہو

کھنڈر کے نیچے

پرانے شہروں کے خاص ایواں

ستونِ شوکت

دبے ہوئے بے نمود خلقت کی خاک میں

بے نشاں پڑے ہیں

کھنڈر کے کتبے پہ نقش

حرفِ شکست

برسوں کے بادوباراں ے تازیانے سے بے خبر ہے

ہواؤ! آؤ!

لحد سے یہ اوڑھنی اٹھاؤ

یہاں پہ ہم نے

کئی ہزیمت زدہ زمانوں کے سردلاشے

سپردِ شہر خزاں کئے تھے

وہ سرد لاشے

کہ جن کی آنکھوں کے نُور سے

مشعلیں جلائے

رواں دواں کارواں ہوئے تھے

گزرتے شام و سحر کی بوجھل

سیاہ و روشن سلیں اٹھائے

چلے تھے سنگین و سخت اہرام

ان سلوں سے بلند کرنے

۔۔۔۔ قدیم خود ساختہ لحد۔۔۔

جس کے سردخانوں میں سو رہی ہیں

مشقتوں سے نڈھال روحیں

مسافروں کو نہیں ہے اذن مقام لیکن

ابھی تو جانا ہے اور آگے

پریدہ لحے

کشاں کشاں ماہ و سال

حدنگاہ سے دُور جا چکے ہیں

مگر وہ بے درد گیت

یادوں کی دھند میں اب بھی تیرتے ہیں

کہ جن کو آنسو بنا کے

ٹپکا دیا تھا ہم نے

شفیق راتیں

گئے دنوں کے غبار میں گم

طویل رستے کی ایک جانب

تھکی تھکی روشنی میں ماتم کناں ہمیں

دُور سے بلائیں

گزرتے لمحو!

یہ قہوہ خانے کی کنج تنہا

وہی ہے جس میں

عزیز چہروں کے پھول ہر شب کھلا کئے تھے

وہ مسکراتی رفیق آنکھیں

دبی دبی گفتگو کا جادُو

کسے بتائیں

کہ ان چراغوں کے نرم شعلے دمِ سحر نے بجھا دئیے تھے

بہار زار شاخ سے جدا

برگِ زرد

سرما کا چاند

خاموش بستیوں، سونی خواب گاہوں

سے دُور ہو گا

اکیلا۔۔۔۔ تنہا

کہیں پہ ریگِ رواں کے نیچے

دبے ہوئے ساحلوں کا موتی

نمودِیک شب کی آس میں محوِ خواب ہو گا

کبھی تو اس لامکاں سمندر

میں چھپنے والے

ابھر کے دیکھیں گے شاخِ شب پر

اُداس ۔۔۔ سرما کا چاند

حرماں نصیب موتی

خیال۔۔۔ شریں و ترش

آوارہ طائروں، اڑتے بادلوں کی طرح گریزاں

گزر گئے تو

زمیں کے خاکستری لبادے پہ

کوئی نقشِ بقا نہ چھوڑا

خیال۔۔۔ شیریں و ترش

لیکن

بدلتے پیکر میں جذب

ساون کی پہلی بارش سے اٹھنے والی

عجیب خوشبو

اڑا گئے تھے

وہ باس جس کی خفیف آتش میں جل کے

روما کے آزروں نے صنم تراشے

یہ سجدہ گاہیں

جہاں یہ آنکھوں کے جلتے بجھتے چراغ

تاریک طاقچوں سے

کسی کو اک آنکھ دیکھنے کو

ترس گئے ہیں

یہیں ہزیمت زدہ تمّنا نے سخت پتھر کو

رنگ و نغمہ کا روپ بخشا

کہیں پہ مسمار مکتبوں میں خیال

پیرانہ سال مٹی میں دفن ہوں گے

نئے شوالوں میں بُت، تحّیر فزا

کھڑے ہیں

نئے پجاری کو دیکھتے ہیں

کو جو نحیف و ضعیف کاہن کو گاڑا آیا ہے

منہدم معبدوں کے نیچے

خیال ۔۔۔ شیریں و ترش

لے کر مسافروں کو چلے تو کتنے ہی خار

دامان و آستیں سے الجھ گئے تھے

دھواں دھواں

راستے پہ چلتے رہے مسافر

فگار پاؤں کے آبلوں نے

قدم نہ روکے

صدائے صُورسوک، سُن سن کے گرنے والے

ہلاک پتّے

کئی زمستاں پرے یہاں سے

شبِ مسلسل کی برف باری میں

دب چکے ہیں

کوئی چھلاوا

بلند چیلوں

سفید یخ بستہ چوٹیوں پر

کھڑا ہے سرما کی دھوپ کا تاج سر پہ پہنے

بلا رہا ہے

ہواؤ! آؤ!

یہ قافلے اپنی آگ میں راکھ ہو چکے ہیں

یہ ڈھیر پتّے

یہ کاہ و خاشاک

خاکدانِ نمود سے لامکاں سیاہی

کی سمت جانے کے منتظر ہیں

ہلاک سورج

کشیدہ سایوں کی گود میں

لخت لخت

بکھرے ہوئے پڑے ہیں

ہواؤ! آؤ!

جھکی فصیلوں، پناہ گاہوں

میں بند لشکر

دھوئیں کے گرتے حصار دیکھیں

سیاہ رتھ کے قریب آتی ہوئی

صدا

سُن رہے ہیں شاید

یہ ٹمٹماتی حنائی شمعیں

یہ زرد آنکھیں۔۔۔ یہ سرد چہرے

مثالِ تصویر۔۔۔ دم بخود ہیں

ہواؤ! آؤ!

آفتاب اقبال شمیم

وہ اور میں ۔ از یاور ماجد

یاور ماجد

ہمارے دور کی اس نظمِبے آخر کا یہ اِک اقتباسِچند منظر ہے

کہ جس کی وجہِ پیدائش

کسی جغرافیے یا پھر کسی بھی خاص خطے سے کوئی ناطہ نہیں رکھتی

اگرچہ یہ ہمارے دور کی تہذیب کی جہتوں

ہمارے کنج ہائے ذہن کے پردہ سرائے نفس کے منظر دکھاتا ہے؛

یہ ایسی نظم ہے جو لمحہءِ موجود کی اصلیتوں کے خارج و داخل کے منظر

اور صدا کو پیش کرتی ہے

بجائے رزمیے کے المیے کی داستانِ خونچکاں تالیف کرتی ہے

ہمارے دور میں ابلیس یا سہراب جیسے سورما پیدا نہیں ہوتے

ہماری آنکھ سے تاریخ کے پردے اٹھے تو

ہم نے رومانی روّیوں کے گلستاں کو جلا کر راکھ کر ڈالا

ارسطو ہو یا رومی ہو

خدا ہو یا کہ پرمیشر ! ہماری ہی وراثت ہیں

کہ صدیوں کے عمل نے اور تو کچھ ہو نہ ہو

ہم کو شعور زِندگی بخشا ہے

ہم انسان کو خطوّں میں کیسے منقسم کر دیں

کہ ہم مرکز ہیں اور فطرت زمین اور زِندگی گویا ہمارے دائرے ہیں

پسِآئینہ کیا معلوم جانے کیا حقیقت ہے

مگر تا حال تو صدیوں پہ پھیلے واقعوں کے موڑ ایسا ہی بتاتے ہیں

کہ انسان تاکراں حیرانیوں کے بحر میں کب سے

ہوائے صد زماں کے ان گنت سفاک اور ظالم تھپیڑوں میں ،

اکیلا زِندگی کی ناؤ پر بہتا رہا ہے !

بظاہر تیرگی کے بے سروپا اور نابینا سفر میں موت کے آگے اکیلا ہے !

ہزاروں مسئلے ہیں اور موجودات کا خود سے تصادم بھی

تو کیا اپنے تضادوں کے سفر میں ایک دن پامال ہو جائے گا؟

اِک بے جان عنصر کی طرح

صدہا عناصر کے ازل سے تابہ محشر تجربے کا حصہ ٹھیرے گا ؟

یا اپنے آپ سے ہی ماورا ہونے کا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

تو کیا پھر زِندگی اس سے بھی بڑھ کر افضل و اعلیٰ

کوئی مخلوق پیدا کر دکھائے گی ؟

ہمارا دائروں کا یہ سفر جاری رہے گا کیا ؟

مگر میں دیکھتا ہوں اشرف المخلوق میں امکان کے مثبت اشارے ہیں

کہ وہ خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے

ذرا مڑ کر تو دیکھو!

بستیاں پامال کرنے والے وحشی سورما کا نام پاتے تھے ،

مگر اب ہم شعور زِندگی رکھتے ہیں ، ان کو قابلِنفرت سمجھتے ہیں

وہ استبداد و استحصال جو کل تک ہمارا بے بدل مقسوم ٹھیرا تھا

ابھی بھی ہے

مگر اب سارے مظلوموں پہ یہ احساس حاوی ہے

کہ جور و جبر جو کل تک اٹل تھا

اور لازم تھا

اسے وہ ٹال سکتے ہیں

انہیں ہر حال میں اس کو مٹانا ہے

انہیں اب آدمیت کی نئی قدریں بنانا ہیں

ہمیں ادراک ہے

ان نشہ آور فلسفوں ، افیوں فروشوں کی ثقافت

کے پلے بیجوں سے صرف اِک عالمی نفرت کی پیلی فصل اگتی ہے

ہمیں خوابوں کے بافندے بنایا جا رہا تھا

ہم انہی کی لوریوں سے نیند کی وادی میں پہنچے تھے

مگر ہم جاگ اٹھے ہیں !

ہم اپنی نیم وا آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں

ہمیں معلوم ہے مندر میں رکھی مورتی کی غیبی قوت مشتہر کرنے پہ آخر کون بیٹھا ہے

یہ ہم جو جبر کے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہیں !

ہماری گردنوں سے قطرہ قطرہ سرخ جیون بہہ رہا ہے

ہمیں ادارک ہوتا جا رہا ہے زور آور کی سیاست کا !

مفاد اس کا جو اس کے حکم کی تحریر بنتا ہے

وہی پھر نسل بعدِ نسل کی تقدیر بنتا ہے

یہ مانا اب حقیقت روشنی بن کر

ہماری سوچ پر افشا تو ہونے لگ پڑی

لیکن

حقیقت خود معمہ ہے !

یہ رومانی روّیہ تو بڑا آسان ہے شیشے کو گہری سانس

سے دھندلا کے جو چاہیں وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں !

یہ گہری سانس ظاہر میں کئی خوشیوں بھرے منظر دکھاتی ہے

تو باطن میں کئی پردے گراتی ہے

مگر ایسے عمل میں ہم نے یہ ادراک پا یا ہے !

کہ کوئی اخذ و حاصل آخر ی حاصل نہیں ہوتا

کوئی بھی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا

یہ ہم فکر و تصور سے معانی کا جو تانا بانا بنتے تھے

کبھی بھی زِندگی کی جامعیت تک نہیں پہنچا

ہمارے اس عمل نے لاشعوری

اور شعوری فاصلوں کو اور زیادہ وسعتیں بخشیں

سزاؤں ، دھمکیوں ، پندو نصائح کی بٹی رسی کی جِنبش پر

ہمیں چلنا بھی آیا

اور ہم فطرت اکائی سے الگ ہوکر

کئی اشیا کی منڈی اور کلیسا کے سفر میں کھو گئے آخر

چلو آؤ ناں

سادہ اور آساں زِندگی کی راہ پر چل دیں !

سخاوت اور احساں ہی تو وہ انصاف ہے

جو زِندگی ہم سے طلب کرتی ہے

کیا ممکن نہیں ایسا کہ یہ انصاف کر کے نوعِہستی کو بدل ڈالیں

نہیں !

یہ سب امکان کی حد میں ہے، کل کی دسترس میں ہے

میں ڈرتا ہوں !

میں اپنے ہی گریباں میں بھلا کیا جھانک کر دیکھوں

یہاں اب تک رفو کا بے تحاشا کام باقی ہے !

یہاں تو اب تلک شخصی حکومت چل رہی ہے

یہاں ابلاغ عامہ کا جو اسرافیل ہے

وہ جاگتوں کو بھی سلانے پر لگا ہے

یہاں انسان کو پیہم ہی نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے

یہاں تو مرد نے

بے چاریوں کی ذمہ داری تک بھی جبراً پاس رکھی ہے

یہاں ایسا بھی طبقہ ہے

امیر شہر کو جو کج کلاہی کے سبھی تیور سکھاتا ہے

اسی طبقے کی حکمت اور حکومت اس جگہ موقع پرستی ، دوغلے پن کی

نہایت حوصلہ افزائی کرتی ہے

ثقافت جب کلیشے اور نابینائی کے سینچے ہوئے جذبات سے بنتی ہو

تو پائے گدائے لنگ کے مانند بے ساکھی پہ چلتی ہے

گدا کی خانقاہوں میں بڑی توسیع ہوتی ہے

یہاں آنکھوں کا بھینگا پن نہیں جاتا

یہاں ایذا پرستی ، دکھ اٹھانے کا تلذ ّذ کس طرح جائے

کہ یہ آزار تو ان کی وراثت ہے

یہ سب صدیوں کی تنبیہہ و سزا کے باوجود

اپنی وراثت کے نشے میں مست رہتے ہیں !

مری ساری امیدوں کا

مگر !

محور یہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

یہی ہیں وہ جو اس کے دِل میں کانٹے کی طرح چبھہ کر

اسے وحشت دلاتے ہیں

میں خود بھی اس قبیلے میں بصد اعزاز شامل ہوں

میں اپنی زِندگی کے آئینہ خانے میں

عکسوں کے عجب الجھاؤ میں رہتا ہوں

یہ تاریخ کیا ہے

یہ عناصر اور وقت اپنی حقیقت میں بھلا کیسی قیامت ہیں

میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں

جو دور صدزماں سے بے تغیر چل رہا ہے

اسی انبوہ کا اِک فرد ہے

جو مجھ میں بیٹھا میرے نوحے میرے نالے سن رہا ہے

اور جو فطرت میں باہر میرے اندرہے

اسی کا عکس ہوں شاید !

ثمر ہوں ایسی مٹی کا جسے دھوپوں نے گرمی میں پکایا ہو !

میں اس تاریخ کا ننھا خلاصہ ہوں

جو ناپختہ ارادے ، سوچ کی محدودیت ، لا انتہا خواہش ، گھنی گہری

جبلت کے الجھتے اور ملتے واقعوں سے بنتی رہتی ہے

مرے اندر شکستوں کے گھنے سائے ہیں

امکانوں کے جھلمل بھی !

میں اپنے آپ سے کچھ مطمئن ہوں

مضطرب بھی ہوں !

میں ندی کی روانی ہوں

کناروں کا ہوں ٹھیراؤ !

میں حسن اور زِندگی سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں

’’مجھے خود سے مکمل اجِنبیت ہے‘‘

میں اپنے دِل کی تنہائی میں اکثر زید سے ملتا ہوں

اپنے سچ سے ملتا ہو ں!

میں اس سے گفتگو کرتا ہوں اکثر ! لیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ !

وہ میرے سامنے ہے اور مری پہچان سے باہر بھی رہتا ہے

اسے پہچانوں تو کیسے ! کہ میری آنکھیں گھائل ہیں

،،وہ اور میں،، زِندگی کے دو اہم کردار ہیں

جو دور اِک دوسرے سے لفظ و معنی کی رسائی میں

جو چاہیں بھی تو شاید مل نہیں سکتے

وہ میرا اور میں اس کا کبھی محرم نہیں ٹھیرے

وہ میری پوری سچّائی ہے

اور میں آدمی کے اصل کی آدھی صداقت ہوں!

کہ میں صدیوں سے اس سے گفتگو میں گم ہوں

اور یہ گفتگو ایسی جو یک طرفہ رواں ہے

مرا ایمان ہے اگلے جِنم بھی جب میں آؤں گا

مری اور زید کی یہ گفتگو دائم رواں ریگِفراتِتشنگی پر چل رہی ہو گی

آفتاب اقبال شمیم

وُہ اور مَیں

یہ طویل نظمیں شاید اُس طویل نظم کے بیچ بیچ کے حصہ ہیں جو ہمارے دور میں زیرتخلیق ہے۔ جس کے ”ہونے” کا جغرافیہ کسی مخصوص خطہ ارض سے منسوب نہیں بلکہ اس دور کے تہذیب اور ہمارے نفسیاتی علاقوں کی خط کشی کرتا ہے۔ یہ طویل نظمیں کچھ ایسے ہیں جو آج کے خارج و داخل کی منظرکشی اور صدابندی کرتے ہوئے کسی رزمیے کے بجائے المیے کی تالیف کرتی نظر آتی ہیں۔ یوں بھی آج کی نظم میں کسی اخیل، تبریس، سہراب یا ابلیس کیکردارکشی شاید ممکن نہیں رہی۔ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم پر اپنی تاریخ کا جو انکشاف اس صدی میں ہوا ہے، اُس نے ہمارے بہت سے رومانی روّیوں کو مسمار کر دیا ہے۔ مشرق و مغرب کی تاریخ اور فلسفہ ہماری اجتماعی میراث ہے۔ ہم نے صدیوں کے عملم یں جیسی بھی انسانی تہذیب کی صورت گری کی ہے۔ اس نے ہمیں یہ شعور ضرور بخشا ہے کہ انسان کو خطوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زمین، فطرت اور زندگی کے مرتب کردہ منظر نامے میں انسان ایک مرکزے کی حیثیت رکتھا ہے۔ کیا معلوم کہ انسان کی اس حیثیت کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی کارفرما ہو۔ لیکن تاحال تو یہی منکشف ہوا ہے کہ اتنی وسیع کائنات میں وہ بے کنارہ وست کی لہروں پر اکیلی ناؤ کی طرح ڈولتے ہوئے بہے چلا جا رہا ہے اور بظاہر اس بے معنی سفر میں وہ بالکل تنہا خود اپنے آپ سے متصادم بھی ہے۔ اُسے اس صورتِ حال کا شعور بھی ملتا جا رہا ہے۔ اس تصادم کے امکانات کیا ہیں؟ وہ اپنے آپ سے آگے بھی نکل سکتا ہے اور خود کو فنا بھی کر سکتا ہے۔ اگ وہ خود کو فنا کر دیتا ہے تو وہ ایک ناقص الوجود مخلوق کی حیثیت سے عناصر کے تجربے کا حصہ بن جائے گا او شاید زندگی آگے چل کر اُس کے مقابلے میں زیادہ بسیط اور مکمل تر مخلوق پیدا کرے اور یہ سلسلہ جاری رہے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ انسان میں امکانات کی اتنی گنجائش ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ سے آگے نکل جائے۔ مثلاً یہی چند صدیاں پہلے بستیوں کو تاراج کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا جاتا تھا۔ ایسے ہیرو اب بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں مینیک یا وِلین کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اِسی طرح اِستبداد اور استحصال جو آج بھی بہت عام ہے، مظلوموں کے لئے ایک چیلنج بن چکا ہے آزادی پسند قوتیں ایک ایسے زمانے کا خواب دیکھ رہی ہیں جب جبر و استحصالکا نام نہ رہے گا۔ اب وہ نشہ آور فلسفوں اور ثقافتی افیونوں مثلاً آئیڈیلائزڈ محبت جیسی منشیات کے بارے میں جان چکی ہیں کہ اُن کے بیج سے عالمی نفرت کی فصل اُگتی رہی۔ اُن کے نام پر مظلوموں کو لوریاں دی جاتی رہیں اور انہیں خوابوں کی بافندگی کا پیشہ سونپ دیا گیا۔ اب وہ نیند سے بیداری کے عالم میں ہیں۔ مظلوم اپنی نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ زور آور کے معبد میں مورتیں ا بنانے، ان کی غیبی قوت کی تشہیر کرنے پر کون مامور ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جبر کے بورھے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہوئے ہیں اور ان کی گردن سے قطرہ قطرہ سرخ زندگیح ٹپک رہی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا جا رہا ہے کہ زورآور کی سیاست کا قلم ان کیلوح حیات پر جو لکھتا ہے وہی ان کی تقدیر بن جاتا ہے۔ یہ حقیقتیں آشکار تو ہو رہی ہیں لین حقیقت خود ایک معمہ ہے۔ رومان کا عمل آسان سا ہے، وہ شیشے کو سانس سے دھندلا کر چیزوں اور مظاہر کو دیکھ لیتا ہے۔ حقیقت بظاہر پردے اٹھاتی ہے لیکن اس عمل میں تہ اندر تہ حقیقتیں سراب سی نظر آنے لگتی ہیں۔ بہرطور یہ ادراک تو میسر آتا ہے کہ کوئی اخذ شدہ نتیجہ آحری نتیجہ نہیں، کوئی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں اور کوئی نظام فکر آحری نظام فکر نہیں۔ محدود لامحدود نہیں ہوتا۔ ہم مشاہدے، فکر اور تور سے معنی کا جو تانا بانا بُنتے رہے وہ زندگی کی جامعیت پر تنگ رہا۔ انسان کو بُرے اور بھلے میں باٹنا معاشرے اور فرد کو متوازن رکھنے کے لئے مفید عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اسیا کرنے سے ہم نے فرد کو اُس کو کلیت سے محروم کر دیا۔ اس کے شعور اور لاشور میں فاصلے بڑھا دئیے۔ نصیحتوں ، دھمکیوں اور سزاؤں کی بٹی ہوئی رسی کی جنبشی پر اُسے چلنا اور رکنا سکھایا۔ وہ اپنی فطرت کی اکائی سے الگ ہو کر ایک یا دو دُنیاؤں کی فکر میں اتنا سنجادہ ہو گیا کہ اُس نے اشیاء کی منڈی اور کنشت و کلیسا کے ماورائی ڈھانچے کے درمیان آمدورفت میں ہی صدیاں گزار دیں۔ کیوں نہ ہم ایک سادہ سی، آسان سی زندگی گزارنے پر سمجھوتہ کر لیں ادنیٰ و اعلیٰ اور نیک و بد کی مصنوعات بنانے سے دست کش ہو جائیں۔ ایسے شجر اکھاڑ پھینکیں جن پر استحصال اور جبر کا پھل لگتا ہے۔ فرد کی کلیت کو تسلیم کیا جائے اور فرد انسانی تاریخ میں کھائی ہوئی شکستوں اور فہم خالص کے شعور میں اپنی حدوں کے المیے کا اعتراف کرے۔ ایک درد مشترک کا اُسے وہ اخلاقی بصیرت بخشے کہ وہ اپنی اصل کو پہچان کر انبوہ کے رَواں دھارے میں قطرے کی طرح مدغم ہو جائے۔ ایسے قطروں سے بنا ہوا دھارا یقیناً اپنے آپ سے آگے نکل جائے گا۔ کیا ضروری ہے کہ صدیوں سے کھیلا جانے والا آگ اور خون کا ناٹک جاری رہے۔ کیا ضروری ہے کہ افلاس اور غلامی کی وباء پھیلانے کے لئے ہوس کے گٹروں میں زرموش کی پرورش کی جائے۔ جنسِ قوت تخلیں ہے، اسی کے شبستانوں میں بقا کا خواب پلتا ہے۔ اسے سمٹ سمٹ کر چلنے کا پابند کیوں بنایا جائے۔ سخاوت اور احسان ہی وہ انصاف ہے جو زندگی ہم سے مانگتی ہے۔ کیا یہ کارِ ناممکن ہے؟ نہیں۔ یہ ہماری حدِ اِمکان میں ہے۔

مَیں اپنے گریبان میں کیا جھانکوں۔ یہاں تو ابھی رُفو کا بہت سا کام پڑا ہے یہاں تو ابھی شخصی حکومتیں چل رہی ہیں۔ ابلاغ عامہ کا سرافیل جاگتے ہوؤں کو سلانے اور آذر جمود باطن کے بُتوں کو پختہ کرنے پر مامور ہے۔ یہاں تو ابھی مردنے بیچاریوں کو چادر اور چاردیواری کا تحفظ دینے کی ذمہ داری جبراً اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اشتہار اور اشیاء کی چکاچوند میں آنکھیں کیا دیکھیں، اپنے لئے برے دھندے اور اولادوں کے لئے بڑی جائیدادیں یہی ہماری ساری تگ و دو کا مرکز و محور ہے۔ ایک طبقہ ہے جو شاہ کو کج کلاہی کے تیور سکھاتا ہے، گدا کو خانقاہیں چلانے کی سہولتیں بخشتا ہے اور شاعر سے حُب الوطنی کے ثبوت میں ترانے لکھواتا ہے۔ اس کی حکمت و حکومت موقع پرستی اور منافقت کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ایک پورا کلچر ہے جو اس کے پیچھے پیچھے کلیشے اور جذباتیت کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ اس مکتب شہ گری اور درسگاہ اناشکنی کے ‘ان پڑھ’ دُک۔ اُٹھانے اور رُسوا ہونے کے پرانے عادی ہیں اور صدیوں کی تنبیہ و سزا کے اوجود ان کی یہ عادت نہیں گئی۔ اور یہی ہیں وہ جن پر میری ساری امیدوں کا انحصار ہے۔ یہی ہیں وہ جو اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ میں خود اِسی قبیلے کا فرد ہوں۔

اور زندگی کی اِس موجود منظر گاہ میں اپنے رُوبرُو کھڑا میں سوچ رہا ہوں کہ وقت، عناصر اور تاریخ کا تیارہ شدہ پیکر اپنی اصل میں کیا ہے؟ میں اُس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں جو صدیوں سے بے تغیر چل رہا ہے۔ اس انبوہ کی ایک خردہ شکل میرے اندر بھی موجود ہے۔ مَیں اُس فطرت کا قدیم عکس ہوں جو میرے باہر اور اندر محیط ہے۔ میں اُس پرانی مٹی کی روئیدگی کا ثمر ہوں جسے دھوپوں نے پکایا ہے۔ میں اس تاریخ کا مُرقع بھی ہوں جو خیال کو جبلّت پر حاوی کرتی رہی ہے اور یوں ایک تجربے کا حاصل بھی ہوں۔ میرے اندر شکستوں کے دراز سائے بھی ہیں اور امکان کی دُور نما جھلمل بھی۔ دیکھوں تو میں خود بھی نہیں۔ اپنے آپ سے ملا ہوں، اپنے آپ سے بچھڑا ہوا۔ اپنے آپ میں بہت مضطرب، بہت مطمئن۔ ندی کی روانی بھی اور کنارے کا ٹھہراؤ بھی۔ زندہ و خوبصورت کی بے پناہ چاہت بھی اور خود سے اجنبیت اور بیزاری بھی۔ میں اپنی گھمبیر تنہائی میں ‘زید’ سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ ناوقت اور نالفظ میں چھپی ہوئی اصل۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن ایک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوکِ سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اُس کے بہت سے اندھیرے میری حسّیات کے ٹٹولنے کی پہنچے سے باہر ہیں۔ اُس کی بہت سی آوازیں میری سماعت کے منطقتوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی اور میں اپنی آدجھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ذرا سُنیے ہ وہ آپ میں بھی موجود ہے اور یہ گفتگو آپ کی گفتگو بھی ہے۔ اور کیوں نہیں؟ ہم سب اس مہینے، اس سال اوراس صَدی میں اکٹھے زندگی کر رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ میں اگلے جنم میں بھی آؤں گا اور زید سے یہ مکالمہ جاری رہے گا۔

آفتاب اقبال شمیم

اپریل ، ٨٩

آفتاب اقبال شمیم