زمرہ جات کے محفوظات: آفتاب اقبال شمیم

یک شہرِ زرد رُو

زوال کا معرکہ بپا ہے

یہیں کہیں تسمہِ گلو سے لٹکتے سورج کے

خود و بکتر گرے ہیں

تم دیکھتے نہیں ہو! تمہاری آنکھوں کے صحن میں

مُور خوردہ کرنیں

جگہ جگہ چُور چُور بکھری ہوئی پڑی ہیں

سیاہ چیونٹوں کے لشکری

چاندنی کے ریزے لئے ہوئے جا رہے ہیں اپنے بلوں کی جانب

سنا نہیں! چاک کر رہی ہیں؟

وجود کی نیلگوں تہوں کو

کثافتیں بے ضمیریوں کی

میں اپنے پاؤں کے نیچے اُدھڑی ہوئی زمیں میں

جڑوں کے پنجر سے پوچھتا ہوں

یہ کیا کہ جوہڑ سے اُس نے اب کے نہیں پکارا

سمندروں کو

یہ میرا دست بریدہ کس کے خفیف ڈھانچے کو چُھو رہا ہے

یہ کیسی تحریر چلنے والوں کی گردنوں میں لٹک رہی ہے

یہ نرخ نامہ ہے

اوہ، مکتب میں یہ زباں کیوں مجھے پڑھائی

نہیں گئی تھی!

میں کس سے بولوں

کہ سیلِ بازار لے گیا ہے سماعتوں کو

اب ایسے انبوہِ لاتعلق سے رابطے کا بھی فائدہ کیا!

ہے شیلف خالی

نہ جنتری ہے نہ خواب نامہ

بتاؤ نا! فال کیا نکالوں

کہ سارے لفظوں نے اپنے معنی بدل لئے ہیں

میں کوئی ہاتف نہیں کہ فردا کا بھید کھولوں

مجھے یہ احساس ہے کہ یوں بھی

مرا سخن معتبر نہیں ہے

میں اپنے سچ کو کہاں پہ تولوں

کہ ساری بستی میں رہ گئی ہے

بس ایک میزان زرگروں کی

بس ایک پہچان۔۔۔۔ مومیائے ہوئے سروں کی

آفتاب اقبال شمیم

بُود نابُود

کون شیا ما تھی جو گھر کے ساتھ جڑے

سنسان احاطے میں اگتے چنبے کی جھاڑ میں رہتی تھی

کون مُڑے پیروں والی

دھوپ کی سیدھی قامت میں چلتی تھی اُجڑی گلیوں میں

مٹی کے پردے سے کس کی سرخ سنہری جھلکی پر

پہلی بھِڑ کا پہلا ڈنک بند کے اندر کھٹکا تھا

جُھلسی خوشبوؤں میں مِل کر باس گھڑے کے پانی کی

پیلے تنکوں سے لیپی سہ پہروں میں

بان کی پھیکی ٹھنڈک کا احساس بدن کو دیتی تھی

اور وہ شامیں کیسی تھیں

جن کے گیلے آنگن میں اُگتی کائی کے سبزے میں

لیمپ جلا کر پڑھنے والا

لفظوں اور پتنگوں کی گڈمڈ میں بنتی

شکلوں کی اِملا آنکھوں کی تختی پر

سرکنڈے کی بے قط نوک سے لکھتا تھا

اور ابد کے دریا میں بہتے امبر کا بیڑا جواُس وقت وہاں سے، اُس بستی سے گزرا تھا

کیا جانے اب کس ظلمت کے پار

کس بے اِسم سمندر کے ساحل پر اترا ہو

آؤ استفسار کریں

شاید یہ ازلوں کا دریا واقف ہو

اُلٹی سمت میں بہتی لہر کی منزل سے

ساحل کے ناساحل سے

آفتاب اقبال شمیم

آ۔۔۔۔ پان کھانے چلیں

جب بگولے کے کژدم کی کاٹی ہوئی رُت نے

تریاق مانگا تو اُس نے کہا

میں مسیحا نہیں

دیکھتے ہو وہ بوڑھا جو سورج کی دستار باندھے ہوئے

ظلمتوں میں رواں ہے اُسے

زید داؤد، نیلامبر اور وہ کتنے وقتوں میں

کتنے مقاموں پہ ملتے رہے

اور شاید کہ اُس کا بتایا ہوا برگِ نایاب

چڑھتی اُترتی خزاں کے گڈریے کی لمبی عصا کے

خمِ تیز کی دسترس میں نہیں

دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ فردا کے آئے ہوئے

چاہِ ماضی کی دیوار پر کیسے پیوند ہیں

پِن سے ٹانکی ہوئی تتلیوں کی طرح

دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ نی اون سائن سے

ڈھانپے ہوئے کوڑھ کے زخم میں کلبلاتی ہوئی آگ ہے

اورتقسیم کی آنکھ ماتھے پہ رکھے ہوئے

وہ سمجھتا ہے اُس کا بنایا ہوا دھات کا آدمی

معجزہ کر دکھائے گا اِس آگ میں کود کر

بس اِسی وہم میں، آس کی آس پر سب زمانے چلیں

آچلیں، پان کھانے چلیں

آفتاب اقبال شمیم

تمّنا کے مُخبر کی سرگوشی

اگر وہ خونخوار اپنے سرسے نکال سکتا

سڑاند مُردار حافظے کی

اگر وہ اپنی ہوس کی اس عارضی کمائی میں

دیکھ پاتا

زیاں۔۔۔۔ جو ناپاک کرتا رہتا ہے حوض کے تازہ پانیوں کو

اگر وہ جسموں کی اِس کھدائی میں دل کے معدن کا

وہ زرِ خام ڈھونڈ لیتا

جو خلیہ خلیہ بنا ہے پیمائشوں سے باہر کے وقت میں

اور جس پہ ظلمات کے ستارہ جبیں شناور کے

عکس کی جھلملاہٹیں ہیں

تو پھر یہ ابنائے جہل صیہون و سربیا کے

سری نگر پہ جھپٹنے والے سپوت بے چشم کورؤں کے

جنوبِ دنیا کی بستیوں میں

کرائے پر قتل کرنے والے

کبھی نہ ہم جنس روشنی کو ہلاک کرتے

کبھی نہ لاوقت کی کشیدوں سے بننے والے لہو کو

یوں رزقِ خاک کرتے

آفتاب اقبال شمیم

میلہ

تھئیٹر کی کھڑکی پہ بیٹھا ہوا کمپنی کا ملازم

ٹکٹ بیچتا ہے

بھرے ہال میں دن، مہینے، برس بے بدل حالتوں کے

لڑائی کے منظر کی سرشاریوں میں

ولین اور ہیرو کوآپس میں جگہیں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں

قناتوں سے باہر

بڑی رونقیں ہیں

پرانے پھّٹے چیتھڑوں میں بسی بے نیازی سے چمٹا بجاتے ہوئے گا رہا ہے

اُسی قول کے بول جس کو

کئی بار بستی کی چو سر پہ ہارا گیا ہے

قناتوں کے اندر

تماشے کا پنڈال وعدے کے رنگیں غباروں

بیانات کی جھلملاتی ہوئی کترنوں سے

سنوارا گیا ہے

جہاں آتے جاتے تماشائیوں اور خبروں کی مڈبھیڑ میں

ہوش سے ہوش بچھڑا ہوا ہے

بڑی رونقیں ہیں

گلابی ہے شیشہ نشاط آفریں ماڈلوں کی دمک سے

کہیں پر

ظرافت کو سنجیدگی لکھنے والے کی ارزاں نویسی کی

دھومیں مچی ہیں

کہیں پر

سدھائے ہوئے شیرکی ٹیپ کردہ صدا دھاڑتی ہے

کہیں پر

قدامت کے پنجرے میں پالا ہوا طائر سبز

لحنِ مکرر میں نغمہ سرا ہے

انہی رونقوں میں

وہ ہارا ہوا شخص رومان کا سرخ رومال

ماتھے پہ باندھے ہوئے،

کان میں ناشنیدہ سخن کی پھریری رکھے،

بے عصا چل رہا ہے

وہی جس نے سپنوں کے ساون میں آنکھیں گنوا دیں

ہرا ہی ہرا دیکھتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

سپنے کا برگد

فصیلِ برف سے حصارِ آب تک

زمیں۔۔۔۔

ازل کی کوکھ سے جنی ہوئی

تکون سی بنی ہوئی

نشیب در نشیب،

سو ہزار سال کے رُکے ہوئے سمے کو اوڑھ کر

دراز ہے

گزرتے آسماں نے روز ایک مہرِ بے کفن

کیا ہے دفن اِس کی سرد خاکمیں

مگر یہ کیا کہ ممکنات کے افق پہ وہ

طلوعِ واقعہ ہوا نہیں

جو اس کی چشمِ تنگ بیں کو کھول دے

جو اس کو ضربِ روشنی سے دھن کے اور کات کر

نئے سرے سے پھر بُنے

اور انتظار ہے کہ ایک دن مدارِ وقت پر

طلوعِ بے غروب میں

وہ شاہ مرد آئے گا

جو اس ادھیڑ عمر، ثقل یافتہ، شکن زدہ زمین میں

نئے خیال و فعل کے عمود و قوس ڈال کر

پتنگ کی طرح اِسے

سبک بدن، فراز جُو بنائے گا

بلندیوں کے بام سے

بسنت کی سہاگنوں کے درمیاں کھڑے ہوئے

اِسے ورائے آسماں اڑائے گا

آفتاب اقبال شمیم

١٣ مارچ ۔ (حبیب جالب)

بہت رویا تھا، دھاڑیں مار کر رویا تھا

کل شب آسماں

اور آج بستی کی منڈیروں پر

صفیں باندھے کھڑی ہے دھوپ،

کہتے ہیں کہ وہ شوریدہ سر

پھولوں کی بُکل مار کر گزرے گا اِن چپ چاپ

سڑکوں سے

وہی جو سونت کر شمشیر آوازِ برہنہ کی

اندھیرے سے لڑا چالیس برسوں تک

وہی سچ کا صدا بردار جس نے زندگی کی لہر پر سینہ سپر ہو کر

گواہی دی

ربودِ آب پر مامور پہرے کے مقابل میں

وہی شوریدہ سر

اِس آج کی تاریخ، وسطِ موسمِ گل میں

ہری چادر بدن پر اوڑھ کر

گزرے گا، کہتے ہیں

کہ قبرِ شام پر انبوہ کے انبوہ لوگوں کے

دعا مانگیں گے

اُس کے لوٹ کر دوبارہ آنے کی

آفتاب اقبال شمیم

پرانے تماشائی کی شہادت

وہ مشتبہ ہے!مسیحا ہے! یا تغیّر کے

اصولِ امر و نہی کانقیب ہے شاید!

کریں گی فیصلہ اگلی عدالتیں آکر

وہ جو بھی ہے

اُسے اک سلطنت گرانے کو

بدن سے نکلی ہوئی روح کو اشارا ملا

ذرا نہ دیر لگی

بس انحراف کے دو حرف۔۔۔۔ اور اس کے بعد

زنِ ستارہ جبیں سے نکاح فسخ ہوا

ستون و سقف گرے بے نہاد قلعے کے

ہمارے ساتھ تماشائیوں میں شامل تھا

اِس انہدام کا سب سے قدیم ناظر بھی

زمیں کی آب و وہا کے نمو کا پروردہ

درختِ پا بستہ

آفتاب اقبال شمیم

جل بھومیا

باپ کی نافرمانی کرنا آدم زاد کا شیوہ ہے

پہلے چرواہے سے لے کر

دورِ زر کے آخری ناپیغمبر تک

ہر پیغام کے سبز و سرخ نوشتے سے

اُس نے روگردانی کی

جیسے وہ مخلوق ہو گدلے پا نی کی

جو گاہے گاہے ظلمت کے حبس زدہ مسکن سے باہر

آتش و باد کے ساحل پر

سانس سکھانے آتی ہے

چندھیائی آنکھوں کو دے کر

دھوکہ نیل بلندی کو چھولینے کا

جل بھومی کے مادر زاد بلاوے پر

اپنے آپ میں پھر ہجرت کر جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم

زمیں زاد

رہ گزر نشیب کی اور سفر فراز کا

دونوں پہ ایک وقت میں

چلنے کا اِذن ہے اُسے

عمروں کا روپ اوڑھ کر

کرتا رہے مسافتیں وادیئ ماہ و سال میں

دُور کے اوجِ کوہ سے

آتی رہے نظر اُسے چادرِ آبِ نیلگوں

سپنے کے آسمان کی،

گرتی ہوئی زمین پر

شوق کی وسعتوں میں وہ بال و پرِ وجود پر

اُڑتا رہے صعود پر

پنجہءِباد گرد سے جانے ہے کیا بندھا ہوا

دیکھیں ذرا قریب سے

دیکھیں کسی حسین کا، کوئی پیام ہی نہ ہو

پھینکا ہوا زمین کا حلقہءِدام ہی نہ ہو

آفتاب اقبال شمیم

اِمکان کے دوراہے پر

ترجمے سچ کے اتنے ہوئے

میری شرحوں نے مجھ کو مرے سامنے

غیر ثابت شدہ کر دیا

ناکشیدہ، گماں آفریدہ لکیروں کے نقشے میں

شاید کہیں

کوئی بستی ہے جس کے کسی گھر میں رہتا ہوں میں

سو جگہ سے کٹا اور بانٹا ہوا

میں زمینِ تغیر سے دیکھوں ”ٍہیں” اور ”ہے” کے

تماشے میں ہجرت زدہ وقت کو

جو اگر ایک لمحہ ٹھہر جائے تو

آئینہ بے انا ہو کے دیکھے، دِکھائے مجھے

وہ مری سمت جو مجھ میں

نایافتہ ہے ابھی

اور یہ لحظہ بہ لحظہ بدلتی زمیں

کس قدر سخت ہے

نوکِ ناخن سے کیسے کریدوں اسے

اور دیکھوں کہ میرے بنانے کی ترکیب میں

کس سفیدی میں کتنی سیاہی ملائی گئی

چوب کی اصلیت چوب ہے

اپنے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی

آب کی اصلیت آب ہے

جس کی تاثیر یا ذائقہ اتنی صدیوں میں بدلا نہیں

اور میں تہ بہ تہ

مختلف بھی ہوں یکساں بھی ہوں

منکشف بھی ہوں پنہاں بھی ہوں

اور کیا ایسے ہونے کا امکاں بھی ہے؟

لفظ کے لمس سے

جامہءِہست کے رنگ و نارنگ کو چھو سکوں

٭٭٭

بے عقیدہ ہو تم

شک سے باہر کی آبادیاں

آدمی کی ولایت میں ہیں

ظلمتوں کے ذخیروں میں اُگتی ہوئی روشنی

وقت کا واقعہ

جنگلوں سے بھری رات میں

ایک چیتا جھپٹتا ہوا نور کے غول پر

اک گلہری ہری ٹہنیوں کو کترتی ہوئی

ایک آفاق بے انت کا

جس کے محراب پر ڈوبتے اور اُبھرتے ہوئے واقعے

انت کے

یہ جزیرے سفینہ نما

بے کراں کے سمندر کی قوسوں پہ بہتے ہوئے

اور پیہم بدلتے ہوئے منظروں کی شفق زادیاں

ساحلِ ریگ پر ڈھیر سیپوں سے

آنکھوں کے گوہر چنیں

اور اِن گوہروں میں پلیں

راز۔۔۔۔ حلقہ بہ حلقہ کسی ایک نقطے کی جانب

اُترتے ہوئے

ایک نقطے کے دل سے ابُھرتے ہوئے

خواب ناوقت کا

جس میں موجود و نابود آپس میں آمیختہ

کارِ تخلیق کرتے رہیں

یہ تمہارے گماں، یہ ہمارے بقیں

فکر و وجداں کی جہتیں ہیں جو

آج اور کل کی رائج شدہ منطقوں سے

سدا

پیش رفتہ رہیں

آفتاب اقبال شمیم

رُوداد۔۔۔۔ ایک جلسے کی

نامولود زمانے کا

ہال بھرا تھا غیب کے سننے والوں سے

شام کو ہونے والی اس تقریبِ دُور نمائی میں

ہم نے بھی مضمون پڑھا

اُن صدیوں پر

جو ندی کے گھاٹ پہ بیٹھے

بہتی ریت سے ذرّہ ذرّہ

سونا چنتی رہتی ہیں

ویسے تو

ہم نے اِس مضمون کے اندر

معنی کے معنی دھونڈے تھے

لیکن دُور سے آنے والے

بے ساحل دریا کے راز شناسوں نے

ہر فقرے پر

بنچ بجا کر ہوٹنگ کی

آفتاب اقبال شمیم

خریف

شہر ظلمت میں ہے

جس کے ہر راستے میں برہنہ ملے

نیم خفتہ گلی، کنکروں کے بچھونے پہ لیٹے ہوئے

ستر پر میلے پانی کی بد رو لپیٹے ہوئے

ڈیوڑھیاں، تنگ دلان، آلودہءِدود بُودار

باورچی خانوں میں صدیوں سے رہتی ہوئی بیبیاں

مرد سورج کی آنکھوں سے جن کو بچائے رکھے

سقف کا سائباں

شہر ظلمت میں ہے

دل کی سجدہ گہ لامکاں

بے اماں

لحنِ یکساں، مضامینِ تکرار کی گونج سے

خاک نائے مقدس کا منبر نشیں

اپنی دانست میں لفظ کے غیب سے آشنا

اس طرح شرح معنی کرے

چار خانوں میں تقسیم ہوں نیم خفتہ گلی کے مکیں

ایک جیسے جو ہیں ایک جیسے نہیں

نام کا پیرہن

جس کے نزدیک پہچان ہے ابنِ انسان کے اصل کی

پوچھتا ہوں میں خود سے کہ میں

ہوں خزاں کشتِ تاریخ کی کون سی فصل کی

آفتاب اقبال شمیم

یہی وہ دن ہے

یہی وہ دن ہے

کہ آسماں، چاند اور ستارا لئے ہوئے

خود زمیں پہ اترا تھا

شب گزاروں کو پیش کرنے ثمر مقّدر کی روشنی کا

یہی وہ دن ہے

کہ لعل و یاقوت جرأتوں کے

درونِ دل کی تپش سے سّیال ہو کے ٹپکے تھے

اور اِس صفحہ زمیں پر

ہرے ہرے لفظ بن گئے تھے

یہی وہ دن ہے

کہ دشت و میدان و کوہ و وادی

رُکی ہوئی سانس کھل کے لینے لگے تھے

دریاؤں اور جھیلوں میں عکس سرسبز ہو گئے تھے

یہی وہ دن ہے

کہ ہم نے جزدانِ فیصلہ میں

رکھا تھا لکھ کر وفا کا پیمان اِس زمیں سے

چلو کہ اس دن کے فیصلے نے

ہمیں جو نورِ شعور بخشا

ہمیں جو نقدِ ضمیر سونپا

اُسے ہم اپنی وفا کا شاہد بنا کے دیکھیں

کہ ہم امینوں سے یہ زمیں کتنی مطمئن ہے

یہی وہ دن ہے

آفتاب اقبال شمیم

زیطہ ۔(نجیب محفوظ کا ایک کردار)

ہنر مند زیطہ

اکیلی گلی کی خدائی میں چُھپ کر

بناتا ہے سّیارو سالم، توانا و بے عیب جسموں کو کسبِ زیاں سے

اپاہج

یہیں اُس کی مشاق ترشی ہوئی انگلیاں خام کی خامیوں سے

کمالات کے چاک پر وہ نوادر بنائیں

جو حےران کر دیں

یہ پہلو میں لٹکے ہوئے بازوؤں کا تماشا

یہ آنکھوں سے پِھسلی ہوئی روشنی کی نمائش

یہ بہروپ کے اُبٹنوں سے سنوارے ہوئے مسخ و مسکین چہرے

یہ کتنی ہی قسموں کے بے آسرا بے سہارابھکاری

جو اپنی فغاں سے

گزرتے ہوئے نیک دل راہ گیروں کو تسخیر کر لیں

کرشمہ ہیں اُس کی ہنرکاریوں اور پیشہ وری کا

ہنرمند زیطہ

جراحت کے آلات، حکمت کے نسخوں سے اہلِ جہاں کو

شفا بخشتا ہے

مفادِ زر و زور و دانش کی خاطر

بدلتا ہے کتنے ہی حیلوں وسےلوں سے اصلیتیں خلقتوں کی

زمانے کے آئےن میں اُس کے خفیہ مصنف نے لکھا یہی ہے

سفر پر چلو تو

سزا و جزا، پندو تلقین، رسم و روایت کا زادِ سفر ساتھ رکھو

گلوں میں لٹکتا رہے روزمرہ کا طوقِ ضرورت

زمیں کا خلیفہ

جبلّت، انا اور طبعِ مخالف کی تہذیب کر کے

مسافر کو دیتا ہے پروانہءِراہداری

بدن مہرِ حاکم سے داغے ہوئے اور تلووں

میں ٹھونکی ہوئی استقامت کی نعلیں

بندھے قاعدے، نظریے اور تجرید۔۔۔۔ آنکھوں

کو یک سمت رکھنے کی اندھیاریاں جو

حدوں میں رکھیں گور تک آدمی کو

عجب ہیں خداوندِ دنیا کی محتاجیوں کے نمونے۔۔۔۔ گداگر

ہنرمند زیطہ

کروں، لامکانوں، زمانوں کا آقا

مجھے جس نے مٹی سے بہرِ تماشا اُٹھایا

مجھے میرے مثبت کو منفی سے، سیدھے سے اُلٹے

کو پیوست کر کے بنایا

کہ میں اپنے ہاتھوں خجل اپنی ضِد، اپنی حد، اپنی مجبوریوں

کے پلستر میں مفلوج باہوں کو باندھے ہوئے روز کے اس اندھیرے

اُجالے میں اُس سے

زمانے کے ہاتھوں میں پہلے سے گروی شدہ عمر کی بھیک مانگوں

مری خاک کے اندروں نیند میں چلنے والی

تمنا کی آنکھیں

ادھورے میں پورے کا سپنا جگائے

مجھے ایک بے صرفہ جہدِ مسلسل پہ مامور رکھیں

وہ میرے تماشے کا میلہ لگائے

سدا مجھ کو بے چارگی میں مجھے ہی دکھائے

آفتاب اقبال شمیم

ادھورے میل کی نظم

آدھی شام ہوئی ہے آؤ!

دھیمی سانس کی ناؤ سے نیچے اتریں اِن روشنیوں

ناروشنیوں کے ساحل پر

ماہی پُشت، پری چہرہ سے تھوڑا تھوڑا جسم ملا کر

رقص کریں

اگلے لمحے جب ہاتھوں میں رہ جائے

نیم نمااحساس پھسلتی کائی کا

اور گلے کو کچاپن سا کھاری کر دے

جائیں اور خلا سے مانگیں

ایک صراحی آبِ شراب وضو کرنے کو

جس کے بعد ستاروں کی تسبیح پہ شب بھر

بے معنی کا اسم پڑھیں

آفتاب اقبال شمیم

بعید کے بعد

کافی بار کا دروازہ مغرب کی جانب کھلتا ہے

گوری اپنے سائے میں

ناچ رہی ہے ڈِسکو کی ہچکولے کھاتی لہروں پر

کھِلتی چمپا

پنکھڑیوں کی اوٹ سے رنگ دکھاتی ہے

آنکھیں، گُل چیں آنکھیں نیم شرابی سی

چھلک رہی ہیں مِس مِس کرتی خواہش سے

تیز سروں میں اُکساہٹ سے جھاگ اڑاتی بوتل کی

صبح اُٹھانے آئے گی

اڑے ہوئے رنگوں کے دھبے

گزری رات کے درپن سے

اور یہی وہ جائے منظرِ رفتہ ہے

جس میں کوئی آٹھ برس پہلے ہم نے

جھُرمٹ جھُرمٹ رقص میں پر کھولے،

گاؤں کی پریوں کو

مشرق میں چڑھتے سورج کی جانب اُڑتے دیکھا تھا

آفتاب اقبال شمیم

فیصلہ

اِتنی بِھیڑ میں، اتنے گم کردہ سفروں میں

اتنے پھیلاؤ میں، اتنی ظلمت میں

تو کیا معنی ڈھونڈے ہے

پیشانی پر ایک چراغِ چشم دھرے

ارے، ارے!

اندر کے گنجلک عکسوں کو

ڈھلتے وقت کی مدھم کرتی پرچھائیں میں دیکھ ذرا

اور بتا

ہستی کا مفہوم ہے کیا؟

ہم کیا جانیں ہستی کا مفہوم ہے کیا

جو معلوم کی نامعلوم سے دوری ہے

اُس کے بیچ بھٹکتے رہنا دانش کی مجبوری ہے

ہم کیا جانیں ہستی کا مفہوم ہے کیا

ہم تو بس اتنا جانیں

”ہونا” ایک حضوری ہے

جینا شرط ہے جینے کی

عمریں چاہے چھوٹی ہوں یا لمبی ہوں

طے کرنی ہی پڑتی ہیں

اور ہمارے اندر کوئی ہم سے کہتا رہتا ہے

فرق بڑا ہے

سچ کے جینے اور ضرورت کے جینے میں

اک ارادہ۔۔۔۔ اپنے آپ کو بامعنی کر لینے کا

ایک حمایت ۔۔۔۔ دُکھ سہنے والوں کی،

اپنے جیسوں کی

آفتاب اقبال شمیم

اُن سے کہنا!

کون ہو؟

قصر خداوند سے آئے ہو بُلاوا لے کر

اُن سے کہنا

کہ غمِ شعر سے فرصت پا کر

میں ضرور آؤں گا

اور یہ ایسی فراغت ہے کہ ملتی ہی نہیں

میرا گھر اتنا بڑا ہے کہ مرے آنگن میں

اُن کے افلاک سما جاتے ہیں

میرا دل کشورِ اسرارِ تمنا ہے جہاں

چُپ کی گلیوں میں ہیں آباد ہجوموں کے ہجوم

ان کہی باتوں کے

میرا غم ایسا گلستاں ہے جہاں کھِلتا ہے

رنگِ نایاب

جو دامنِ قزح میں بھی نہیں

جس میں رہتی ہے وہ خوشبو

جو مشاموں میں اُجالے کی طرح بہتی ہے

اور اِس دنیا میں

بے زمانہ ہیں زمینیں جن پر

یاد آباد ہے جو جب بھی اشارہ کر دے

کوئے امروز میں ماضی کے مکیں آجائیں

اُن سے کہنا کہ وہ چاہیں تو یہیں آجائیں

آفتاب اقبال شمیم

دیوار چاٹنے والے

میں زرِ غم کا لئیم

کسیہءِضبط میں رکھتا ہوں بڑا مال جسے

رات جب آئے تو گِننے بیٹھوں

لب پہ افسوس کی چُپ سادھے ہوئے

لمس کو شانت کروں

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اشکوں کے اُچکّے آکر

میرا کچھ سیم اُٹھا کر لے جائیں

پھر کسی یاد کے پچھواڑے سے

چاندنی ساتھ لئے

چپکے سے در آئے نقب زن کوئی

ایک آسودہ سی بے چارگی کے عالم میں

اپنے دیناروں کی

دُور ہوتی ہوئی جھنکار سنوں

اور آواز کا سہم

بھاگتے شعر کے پیچھے بھاگے

لے گیا کتنے ہی برسوں کی کمائی میری

کوئی روکے اس کو

اور کچھ دیر کے بعد

پہرہءِدنیا سے

خواب اغوا کئے لے آئے اُسے

جس کی اک دید بخیلوں کو سخی کر ڈالے

ضبط کی تاب کہاں

وار دُوں اس پہ زرِ غم سارا

خود سے سرگوشی کروں

میری دولت ہے تہی جیب مری

اور جب اگلی سحر خوابِ مقدر سے اُٹھوں

کیسہءِضبط بھرا ہو غم سے

آستیں بھیگی ہوئی ہو نم سے

آفتاب اقبال شمیم

مٹی کا بلاوا

میں اُس غم سے مفرور ہو کر

کسی دُور کی کنجِ مستور میں جا بسا تھا

جہاں سیم تن لعبتیں لمس کی قربتوں کے

چھلکتے ہوئے جام ترغیب کی عشرتیں بانٹتی تھیں

جہاں دن کے آنگن میں پھیلی ہوئی جھنڈ کی

جھُنڈ دُھوپیں

بڑی دور تک اُونگھ میں جسم و جاں کو

شرابور رکھتی تھیں بے نام سے شربتی بوجھ

کے ذائقے سے

جہاں انگلیوں پر

گلابی چٹکتی تھی، شیشے کی کنجِ معطر میں عکسوں

کے جھرمٹ

اُترے تھے آنکھوں کے رستے

جہاں ٹمٹماتے ہوئے قمقموں میں

گھری شام کی جھیل پر پھڑ پھڑاتی ہوا، وقفہ وقفہ

صدا۔۔۔۔ گیت بن کر

ہویدا سے مستور تک، دُور تک آتے جاتے

ہوئے موسموں سے

پرے تیسرے رُت میں آوارگی کی کسک، دل

کے پنجرے سے چھوڑے ہوئے طائروں سے

بھرے آسماں کو

بناتی تھی رنگیں

گماں کو

گماں جو۔۔۔۔ ہمیشہ سے عمروں کے دیکھے ہوئے سارے خوابوں سے بھی بے کراں ہو

مگر ایک بے مہر لمحے کے کھائے ہوئے عام سے ایک غم نے

مجھے ایسے بے بس کیا، میری مٹی کے پاؤں سے باندھا

ہُوا بوجھ برتی ہوئی زندگی کا

ہوا سا لگا اور میں اس غنودہ فصا، اُس رہائی

کی جنت کے پردیس سے لوٹ کر آگیا

آفتاب اقبال شمیم

دو گواہیاں

وقت کی کہانی میں عام داستانوں کی

منطقیں نہیں ہوتیں

کس طرح یہ فردا سا آگیا تھا ماضی میں

وہ جو روشنی دن کی، رات کی ولایت میں

آکے جھلملائی تھی

وہ جو تختِ زرداراں بے زروں نے اُلٹا تھا

خواب تو نہیں تھا وہ

آرزو کے کہنے پر، لاشعورِ ماضی سے

دفعتاً جو اُبھرا ہو مطلعِ بصارت پر

نیند ہے یا بیداری

ایک جُنڈ سپنوں کی نقرئی سفیدی کا

آنکھ نے بلندی پر پھڑ پھڑاتے دیکھا ہے

دُور کی فضاؤں میں

برگ و شاخ و طائر کے صبح خیز منظر کی

سرخیاں سی ابھری ہیں

اور میرے پاؤں سے اٹھ رہی ہیں جھنکاریں

بیڑیوں کے بجنے کی

آفتاب اقبال شمیم

نئے پرانے کے سنگم

باہر شام کے جنگل کا سناٹا ہے

روپ بدل کر

لمحوں کا چرواہا اپنے

پتلے پھرتیلے پنجوں پر

خون کی بچھڑی بُو کی ٹوہ میں آتا ہے

سوکھے پتوں پر چلنے کی چاپ سنائی دیتی ہے

باڑیں، دیواریں، دروازے

جوں کے توں رہ جائیں گے

کوئی اندر سے جھپٹے گا

اور اچانک خود کو چھو کر دیکھو گے

تو اپنے آپ کو جھاگ لگو گے

جس کے اندر سے جھانکے گی

ایک سفیدی خون کے عادی دانتوں کی

آفتاب اقبال شمیم

ایک ہارا ہوا دِن(اپنے پیشرو کے نام)

مجھے مایوس کر دو نا!

یہ کارِ لفظ دوزی۔۔۔۔ جس سے جذبوں اور خیالوں کو

منقش کرتا رہتا ہوں۔۔۔۔

اِسے بے کار سمجھوں

اور برسوں کی بچت کے قطرہ قطرہ وقت سے

لکھی ہوئی نظموں کی اس ساری کمائی کو

جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

تمہاری ہی طرح میں بھی کسی بے نام بے آشوب

گوشے میں

شکستہ کرکے آئینے حوالوں اور مثالوں کے

مٹا کر وہم، زورِ لفظ سے کچھ کر گزرنے کا

لگالوں اپنے گردا گرد باڑیں روزمرہ کی،

دُھواں پیتے ہوئے

کھاتا رہوں معمول کی خوراک میں

محدود سی مقدار رنج و شادمانی کی

چڑھے جب دن تو میں

تپتی ہوئی شب کی سرائے سے نکل کر دھوپ کے نخلِ سکون افشاں کی

چھاؤں میں ذرا بیٹھوں

اکیلا کھیلتے دیکھوں اُجالے کے لڑکپن کو

گزرتے پہر کے ٹیلے پہ چرھ کر جو گیا ہوتے سنہرے میں

رہوں

تازہ شجر کی ڈال پر سورج کے پکنے تک

پرندوں کے بسیرے سے اُترتے شور کی گت پر

نئے دن کے خبرنامے کی سنگت میں

برابر ہیں سبھی اچھی بُری خبریں

مجھے کیا تیسری دنیا کا باشندہ ہوں

اپنا قہر سہہ لینے کی عادت پال رکھی ہے

ابھی امرود اور جامن کے پیڑوں سے ہوا اُترے گی

اپنے کاسنی ملبوس پیلی اوڑھنی میں

اور لے جائے گی چڑھتی سانس کے اُونچے بہت اُونچے

ہلارے میں مجھے پیچھے بہت پیچھے

جہاں پہلے سفر میں دفعتاً حملہ ہوا تھا

جان کے خیمہ پڑاؤ پر

کسی دلدار چہرے کی بڑی آنکھوں نے

دل کے شہریوں میں ایک بھگدڑ سی مچا دی تھی

بدن کے باغ میں

سورج مکھی سے شہد کا تاوان لیتے ڈنگ میں

کہرام برپاہو گیا تھا نارسائی کا

جہاں پہلی گلی والے

سویرے ہی سویرے چند لقموں کے عوض آراکشی کرنے

دیوداروں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے جاتے تھے

شب کو لوٹ کر سستانے آتے تھے

ذرا آواز تو دوں دھوپ کو۔۔۔۔ شاید کہ رُک جائے

پڑا ہوں دیر سے

ٹیکے ہوئے کہنی ملائم اور اُجلائی ہوئی راحت کے تکیے پر

ذرا قامت کشیدہ دھوپ سے ہٹ کر

دراز ہو جاؤں اپنے آپ پر جھکتی ہوئی

آنکھوں کے سائے میں

پسینہ، اُونگھ کچی ٹوٹتی بنتی ہوئی شکلیں،

پرانی تہمدیں، کھیتوں پہ ٹھہری باس گنے اور

گوبر کی، تھرکتے نقرئی پاؤں کسی لاطینی لڑکی کے،

لبوں پر تھرتھری سی چھوڑ کر اُڑتی ہوئی مہکار

نغمے کی، قبا کے چاک سے چھلکی ہوئی جھلکی کے اندر

کوند اوجھل کی، پرانی آنچ میں بھیگی ہوئی آنکھیں

بچائے کوئی اِن آ نکھوں کو قدِ ریگ میں چلتے ہوئے

سائے کے سائے سے

یہی نسیاں، یہی یادیں۔۔۔۔

رواں آئینے ناموجود کی آئینہ داری کے

زمانوں کے بہاؤ میں

کہاں سے دیکھتا ہے کون اِس لمحے کے جگنو کو

ذرا سی رات کا منظر بنا کر بند مٹھی میں

ابھی بے انت کے رستے میں اُس آئی ہوئی

سہ پہر کے زینے سے اتُروں گا

پرانی دوستی کے آشنا چہروں کی بیٹھک میں

تو رنگا رنگ موضوعات کے پتوں کو پھینٹا جائے گا

چلتی رہے گی دیر تک تفریح چائے اور چالوں کی

مزا آتا ہے کم کم چُسکیوں میں ٹال کر

موضوع کی گرمی کو اپنے سامنے موجود رکھنے میں

یہ میٹھے گھونٹ کیسے ایک لمحے میں

پھڑکتی کنپٹی میں ایک دو کڑوی کسیلی گولیوں کی

راحتیں سی گھول دیتے ہیں

نہیں تو جسم کو خنکی کا اک احساس سا بے چین رکھتا ہے

چلوں آگے

کہ میرے اِس سفر کی نہج پہلے سے معین ہے

مجھے چلتی زمیں کے ساتھ چلنا ہے

اور اب دو رویہ نیندوں میں گھِرے دن کی

سڑک سے شام کی بستی میں آ اُترا ہوں

میرا سارباں آواز دیتا ہے

کہ بس کی لائٹیں ٹوٹی ہوئی ہیں

تم یہیں سپنے کی چادر تان کر سو لو

یہ وقفہ جاگنے کا ہے کہ سونے کا؟

میں خود سے پوچھتا ہوں

اور کمرے میں گھڑی کی نبض دھیمی پڑنے لگتی ہے

یہ دائم جاگنے والا مجھے سونے نہیں دے گا

کوئی تدبیر۔۔۔۔ اِس اندر کی تنہائی سے بچنے کی

جو آنکھوں میں سلائی پھیرتی ہے

اور سیسہ سا پلا دیتی ہے کانوں میں

مگر سوچوں تو یہ ہونا نہ ہونا بھی غنیمت ہے

مجھے کیا مفت میں زندہ ہوں ورنہ

میں بہت پہلے

کرائے پر کسی پردیس میں لڑتے ہوئے مارا گیا ہوتا

جنم کا حادثہ کہئے

کہ میں اُس نسل میں شامل نہیں تھا

جس نے سورج کے جزیرے میں

ہمکتے شہر سے اُٹھتے ہوئے خیمہ نما شعلے کا

رقصِ مرگ دیکھا تھا

مرے اِمکان میں تھا

کوئی یالو کے کنارے یا گھنے بانسوں کے جنگل میں

بدن میں چھید کر کے اوک بھر مجھ کو بہاد یتا

مجھے کیا، مفت میں زندہ ہوں ورنہ

یہ بھی ممکن تھا

کہ صحرا میں پلٹتے قافلے پر آگ کی بارش میں

مَیں بھی بھیگ جاتا

اور زندہ ہوں

کہ میں نے بے حمیّت ، مصلحت آمیز خاموشی میں

جینے کی سزا تسلیم کر لی ہے

مجھے کیا، ٹھاٹھ سے دستور کے مسکن میں رہتا ہوں

گزر اوقات ہو جاتی ہے رزقِ خواب پر

نانِ قناعت پر

بس اتنا ہے

کہ ساری عمر اس اپنی ہی بستی میں

زمانے اور زمیں کی علتوں کے آستانے پر

جبیں رکھ کر جیا ہوں

ور میرا نام بھی مذکور ہے گم نام صدیوں سے رواں

انبوہ کی لوحِ مقدّر پر

یہ کیسی ذلتیں ہیں جن سے بچنے کی

مری تہذیب داری نے مجھے مہلت نہیں دی

اور یہ تہذیب داری۔۔۔۔ زندگی کی اِس فضائے اجنبیت میں

بہر انداز جینے کے قرینے کا سبق دے کر

مجھے تم نے سکھائی تھی

مجھے اب حوصلہ دو

میں تمہاری ہی طرح

اپنے لہو کی روشنائی سے لکھی نظموں کی اِس ساری

کمائی کو جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

آفتاب اقبال شمیم

خُوبصورت عورت کا خواب

گڑی ہے چوبِ درختِ مُردہ

سبھی زمانوں کے راستے میں

شکست و نصرت کا اِستعارہ

غلام و آقا کے رابطے کی ہمیشگی کا

جسے ہرا پھر سے کر دیا ہے

تمہارے وارے ہوئے لہو نے

بلندیوں پر

تمہارے مصلُوب بازوؤں کے کشودہ پرچم کی پھڑ پھڑاہٹ

تمہارے سُوکھے لبوں کی قوسیں،

فضا میں زندہ پروں کی بست و کشود کے دلنواز

مژدے بکھیرتی ہیں

خموشیاں بولنے لگی ہیں

ابھی وہ دلبر۔۔۔۔ قدیم وعدے کی پالکی میں

تمہیں تمہاری وفا کا انعام دینے آئے گی

اور گھونگھٹ اُٹھا کے

آنکھوں کے آسماں پر ابھرتے تارے

کی روشنی میں

تمہارے دوبارہ لوٹنے کی نوید دے گی

کہ اس نے ہارے ہوئے لہو سے

کشید کر کے

بنا لیا ہے نیا ہیولیٰ

زمیں کی قسمت کا تازہ وارث

جسے وہ اپنے وجود میں پلنے والی

خواہشِ کے دودھ پر پالتی رہے گی

آفتاب اقبال شمیم

میں مایوس نہیں

یہ فنا کے گھاٹ اُتارتے ہوئے

تجربے

یہ الم سلائی کی نوک سے جو لکھے گئے

میری آنکھ پر

یہ ہمیشہ سے

کسی شے پرست کی دسترس

کسی خواب پُھونکتی آرزو کے طلسم پر

یہ دل و دماغ کی بے نتیجہ سی کاوشیں

فن و فلسفہ کی مشاورت

جو نہ ظلمتوں کو گھٹا سکی’ جو نہ روشنی کو بڑھا سکی

یہ ضرورتوں کے معاہدے

جو سدھائے فہم کی فرض کردہ صداقتوں سے’

بنے بنائے مجّرردات سے

ناپتے ہیں مرے وجود کے بھید کو

یہ رجا و بیم کے جھپٹنے کی مسافتیں

یہ ہجوم

ایک ہی دائرے میں گھسیٹتے ہوئے چل رہے ہیں

حدوں کی بیڑیاں پاؤں میں

ہے گمان کیا؟ ہے یقین کیا؟ مجھے کیا خبر

رکھیں اپنی اپنی گرفت میں میرے ذہن کو

یہ وسیلے ہندسہ و حرف کے

یہ دلیلیں’ منطقیں اور زاویے سوچ کے

جنہیں مثل سِکہءِرائجہ کیا معتبر

زر و زور نے’

یہ نفاق نیّت و فعل ، معنی و لفظ میں،

یہ سدا سے بہری عدالتوں میں

سدا کی گونگی گواہیوں کی سماعتیں’

کئی اور ایسے ہی یاس خیز تلازمے۔۔۔۔

مجھے کیا برا تھا کہ اِیسے جینے کے کرب سے

میں فرار ڈھونڈتا موت میں

مگر ایک رابطہ قُرب کا

مری چاہتوں میں کسک سی ایک

جدائی کی

مری شاخِ دل کو بھری خزاں میں ہرا رکھے

نہیں بھولتا

وہ لڑکپنے کی زباں پہ ذائقہ پان کا

سرِ راہ

بھیگے ہوئے سمے کی چنبیلیوں پہ

سماں عجیب سا جگنوؤں کی اُڑان کا

وہ جو شفقتیں

میرے بچپنے میں ملیں مجھے

میں اُسی سخاوتِ جاریہ سے نہال ہوں

وہ عجیب و سادہ سی چاہ جو

مری دھڑکنوں میں خلل سا ڈال دے

دفعتاً

رخِ دل نواز کو دیکھ کر

وہ چٹکتے نشے کی باس دیتے ہوئے

لبوں کی گلابیاں

وہ فسوں سا چشمِ سیاہ کا

غمِ روزگار سے مہلتوں کی گھڑی گھڑی

میں رچا ہوا

وہ دنوں کی بھیڑ سے بچ کے

کُنج گریز میں مرا بیٹھنا

بڑی دیر تک

میری اپنے آپ سے گفتگو

کسی آشنائی کے درد کی ہو شفق سی

جیسے کھلی ہوئی

میرے گرد و پیش کے کاسنی سے سکوت میں

یہی گرمیوں کا وہ موڑ ہے

جہاں سبز جھاڑ سے جھانکتے ہوئے موتیے کی

شگفت سی

میری صبح و شام کی راہ میں، مجھے ایک ثانیہ روک کر

کرے عطرِ بیز سواگتیں

وہ وفورِ شکر کہ آنکھ میں اُمڈ آئے

اشک سپاس کا

وہ کھِلے کنول کا سکون رات کی جھیل میں

وہ تھکن کے لمبے سفر سے واپسی

صفر وقت کی سمت پر

سرِبام کوچہ شرر فشاں

وہ سلگتا گیت جسے جنوب کی بے مثال مغنّےہ نے

عطا کیا

مجھے اپنے مخزنِ سوز سے

دلِ در کشادہ کی بیٹھکوں میں وہ صحبتیں،

وہ نیاز یار فرید کے

وہی آستانہءِیاد روز کی شام کا

مرا تخت ہے

جہاں دوستوں سے نشست ہوتی ہے چائے پر

یہ سپردگی کا خمیر میری سرشت میں

یہ محبتوں کی روایتیں

جو وراثتوں میں ملیں مجھے

جو مرے لہو میں تھکے بغیر سبک سبک سی

رواں رہیں

مرے حوصلے کی امین ہیں

میں ذرا سا پیکرِ خاک ہوں

مگر عندیہ کوئی غیب کا میرے سلسلے میں

ضرور ہے

کہ ہزیمتوں پہ ہزیمتیں

مجھے بار بار ہرا کے بھی نہ ہرا سکیں

یہ حصار ویسے تو دیکھنے میں ہے پست

قدِ غنیم سے

اِسے کُل جہان کے حُزن و یاس کی یورشیں نہ گرا سکیں

آفتاب اقبال شمیم

سنگِ مارگلہ

یہ پتھر مارگلہ کی پہاڑی کا

جسے نسبت ہے تاروں کے پرانے خانوادے سے

جسے نِروان میں رکھا

نہ جانے کتنی صدیوں کی تپسیا میں

سماع و وجد مےں مصروف پانی کے گےانی نے

گھٹا کی حبشنیں

اپنی برہنہ چھاتیوں کے دودھ کی برکھا میں نہلاتی رہیں

جس کو

ہوا کی بوسہ بوسہ لذتوں کی رات میں

اپنے بدن خود سے چراتی ناگنوں کے لمس سے

طاری رہی مدہوشیوں کی سنسنی

جس پر

سدا آتے ہوئے جاتے ہوئے موسم نے کی تحریر

جس کی لوح پر تاریخ وقتوں کی

یہ سنگِ مارگلہ جس کی رگ رگ میں

گلِ آتش کا زیرہ بہتا رہتا ہے

اسی خورشید زادے کو

چنا ہے حادثے کے راج معماروں نے

میرے شہر کے ایوانِ اول میں

جہاں یہ بے بس و ناچار

قندِ مرتبہ پر رال ٹپکاتے ہوئے

درباریوں کی

لاڈلی سی بھنبھناہٹ سُنتا رہتا ہے

کسی آتے ہوئے سائے کی آہٹ سُنتا رہتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

اندیشہ دار

چیخ کے کہتا ہوں نیزہ برداروں سے

شہر پناہ کے سب سے اونچے بام پہ جو استادہ ہیں

سنو’ سنو

اکڑی گردن کو خَم دے کر تم دیکھو تو

کتنا پانی ڈوب چکا ہے چوری چوری

بستی کی بنیادوں میں

کتنی دھنسی ہوئی مٹی نے

شہر پناہ کی ستر کو ننگا کر ڈالا ہے

ایک دھڑام

جو آج کے دن کو بے فردا کر جائے گی

کون سنے گا

بجلی گرنے کی آواز تو کافی دیر کے بعد

آتی ہے

آفتاب اقبال شمیم

مَیں

تمہیں معلوم ہی کیا’ کون ہوں میں

کون سے ملتے بچھڑتے پل کے سنگم پر

کسی اسرار نے اپنی سنہری دھڑکنوں کی تال پر

مٹی سے بالیدہ کیا مجھ کو

تمہیں معلوم ہی کیا

اُس جہانوں کے جہاں والے نے

کس خوش بخت کو شہزادگی بخشی

چٹکتے کیسری لمحے کی بے سایہ زمینوں کی

تمہیں تو چاہئے تھا وقت سے لمحہ چرا کر

مجھ سے ملتے اُس ابد آباد جہلم کے محلے میں

جہاں کی تنگنائی سے افق کی وسعتوں تک

سرحدیں تھیں میری کشور کی

کہاں مہلت ملی تم کو

کہ آ کر دیکھتے آوارگی کے تخت پر اُڑتے سلیماں کو

کبھی تم دیکھتے آ کر

صبا کے ساتھ قصرِ خواب کی پھلواریوں میں گُھومتی

اُس موج پِیچاں کو

تمہیں معلوم ہی کیا، کون ہوں میں

ایک چوتھائی صدی سے عمر کی لمبی گلی میں

روز ہی جاتا ہوں دریوزہ گری کرنے

زمیں زادہ خداوندانِ نعمت کے دروں پر نوکری کرنے

آفتاب اقبال شمیم

دوسرے منظر کی بازگشت

بہت گہرائیوں میں جا کے مت پوچھو

تمہیں میں کیا بتاؤں گا۔۔۔۔ہنسی آ جائے گی مجھ کو

کہ اُن تاریکیوں کے شہر بے حد میں

چراغِ چشم لے کر میں نے دیکھا

چراغِ چشم ایسا تھا کہ جس کے عقب میں بھی

ٹمٹماتی تھیں لویں سی نا شناسائی کے نادیدہ

چراغوں کی

مری تحقیق نا کافی سہی لیکن

وہی جو روشنی تھی دستیاب اُس سے

یہی دیکھا کہ

سچے خواب بھی سچے نہیں ہوتے

اُمیدیں داشتائیں ہیں۔۔۔۔رعایا کی

جو دادِ عیش ناداری پہ پلتی ہیں

جسے عادت ہے خود پہ رحم کھا کھا کر گزر اوقات کرنے کی

تغیر ایک ڈھارس ہے بدلنے کی

یہی دس بیس برسوں کے اُجالے میں

اور اس کے بعد اگلے آمروں کا دور آتا ہے

نشیبوں پر ذرا سے نخل کی مانند ہے دنیا

جو گہرے جبر کی وسعت میں پلتا ہے

وہی رفتہ کا رفتہ

اور آئندہ کا آئندہ

ہمیشہ گھوم پھر کے مطلعِ منظر پہ چڑھتا اور ڈھلتا ہے

وہ عامل۔۔۔۔

اور میں معمول گزرے چار عشروں کے تماشے کا

وہی بولوں گا جو بتلائے گا مجھ کو

کہ میں پس ماندگی میں رہ گیا ہوں وقت سے پیچھے

کہ میں۔۔۔۔

شگفت

ایک خیالِ خواب افروز کی کرنوں نے

اپنے نور سے درزیں بھر دیں بستی کے دروازوں کی

چُپ کی خاک سے تانیں پھوٹیں ہری ہری آوازوں کی

ایک نگاہِ فردا زاد بلندی سے

کیسی کیسی رمزیں لے کر آئی اپنے دامن میں

پھیلی جن سے خوابوں کی خوشحالی آنگن آنگن میں

ایک صدائے دُرونما نے اپنے قول کی برکت سے

صدیوں کی نادار زمیں کو تحفہ کیا نایاب دیا

مٹی کو اک سمت عطا کی’ آنکھوں کو اک خواب دیا

آفتاب اقبال شمیم

آدھی نظم

مشقِ جنوں کرتا رہتا ہوں

جانے کب وہ مرد صفت لمحہ آ پہنچے

جو معمول کی اِس شائستہ نظم کا دامن چاک کرے

دید برہنہ سچائی کی’ لفظوں کو بے باک کرے

آنسو’ توڑ کے ساحل خالی آنکھوں کا

اِس ظلمت کی مٹی کو نمناک کرے

کوئی مداو؟۔۔۔۔اوسطیوں کی نسل مجھے

اپنی عمروں کے ترکے سے عاق کرے

دل کہتا ہے

آ خطرے کی سب سے اُنچی چوٹی پر

جان کو عریاں کرنے کا وہ رقص کریں

جس کو دیکھ کے ساری دنیا پاگل ہو

خون کے اندر صدیوں کی خفتہ آنکھوں میں ہلچل ہو

اور شرر بھر وقفے میں یہ آدھی نظم مکمل ہو

آفتاب اقبال شمیم

نخلِ رواں

میں وہ نخل رواں ہوں

جو نمود و نیستی کی گردشوں میں گھومتا رہتا ہے

بستی کے ذخیرے میں

جہاں پر آب رو دنیا کی بہتی ہے

بقائے روزمرہ کی ضمانت میں

جہاں پر وقت

دن بھر گرم کرنیں گوندھنا رہتا ہے

میری سرد مٹی کی قدامت میں

وہ کرنیں’ جو سماع و رقص میں انبوہِ خورشیداں

کے آوارہ خراباتی

لٹاتے پھر رہے ہیں لامکانوں کے اندھیرے میں

یہ سیم و زر ذکاوت اور جذبوں کے

رضائے وقت نے شاید نکالے ہیں

اِنہی کرنوں’ اِسی مٹی، اِسی پانی کے معدن سے

یہ سیم و زر۔۔۔۔یہ میرے بھید کے اثمار جو

لگتے ہیں اوجِ شاخِ ہستی پر

انہیں میں دیکھتا ہوں نیم بینندہ نگاہوں سے

انہیں میں دُور سے چھوتا ہوں

اپنے لمس کی کوتاہ دستی سے

سمجھتا ہوں کہ اِن کو جانچنا شاید مرے پیمانۂِ  لفظ و عدد میں ہو

یہ لامحدود میری جستجو’ میری تمناؤں کی حد میں ہو

آفتاب اقبال شمیم

وارداتیا

ہوا یوں تھا

کہ وہ دانستہ’ نادانستہ اُس دن

کارگاہِ مصلحت کے ساختہ’ آنکھوں کے عدسے

اپنے گھر پر بھول آیا تھا

وہ وسطِ شہر سے گزرا تو شاید

راج گھر میں اُس سمے اجلاس جاری تھا

اُسے ایسے نظر آیا کہ جیسے کوئی منظر ہو

ڈرامے کا

ہنسا وہ مسخرہ پن دیکھ کر سنجیدہ چہروں پر

محبت کی کہانی میں

اُسے گرما دیا تکرار کی تکرار کرتے عشق بازوں نے

تصادم خیز تھا ماحول برجستہ کلامی کا

فضا میں سنسنی ٹلتے ہوئے سسپنس کی سی تھی

دھوئیں اور دھول کے سیناریو میں

یہ اُبھرواں اور اُجلایا ہوا منظر

اُسے ایسے پسند آیا

کہ بے قابو سا ہو کر داد دی دل کھول کے

اُس نے ڈرامے کے مصنف کو

اسی پاداش میں جیسے کہ ہوتا ہے ہمیشہ سے

اسے اس عامیانہ پن پہ ٹھہرایا گیا

مجرم’ متین و برگزیدہ کی اہانت کا

آفتاب اقبال شمیم

دو چہرے۔۔۔۔ایک چہرہ

دن کے دورانئے میں

ایک بے لیکھ جواری کی طرح

ہار دیتے ہو کمایا ہوا دھن خوابوں کا

پاؤں کے گرد تھکن بن کے لپٹتے ہوئے اِس رستے پر

نیم فہمیدہ مقاصد کی تگ و دو میں رواں رہتے ہو

ایک موہوم سے وعدے کے تعاقب میں سدا

کیوں نہ اک تجربہ کر کے دیکھیں

چل کے اس رات کے میخانے میں

آج ہم اتنا پیئں’ اتنا پیئں

کہ اندھیرا بھی نشے میں آ کر

ہچکیاں لینے لگے

اور جب اپنے ادھورے پن کو

سیل تسلیم کی موجوں میں ڈبو کر نکلیں

ہاتھ رکھے ہوئے اک دوسرے کے کاندھے پر

کیا عجب دن کے دکھاوے کی نظر بندیوں سے

آنکھ آزاد ملے

اور اِن روشنیوں کے خوانچے میں

رکھ کے شیرینیاں جو بیچتا ہے

اس کی آواز پہ بچوں کی طرح

ہم نہ للچائیں کہ یہ زہر لہو میں جا کر

قطرہ قطرہ سیاہی میں بدل جاتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

شہر کے لئے دعا

اے خدا عمریں دے

ایسے پیوند لگے پیڑوں کو

جن کی کم وقت نہادوں سے ابھی پھوٹی نہیں

وہ اکائی کی تراوت جو نئی ٹہنی کو

جورِ موسم سے نمٹنے کی سکت دیتی ہے

اے محبت کے خدا!

اپنے ایوانِ تغافل سے ذرا نیچے آ

اور اس شہر کو جو آئنہ داری کے تمدن سے ابھی عاری ہے

جس میں زر خوردہ ثقافت کی عمل داری ہے

اپنی تخریب کے حملے سے بچا

ورنہ یہ رعشہءِخوف

یہ فشارِ ہوس و حرص کا روگ

جس سے اعضائے بدن اپنے توازن میں نہیں

بڑھ گیا اور تو پھر اس کے لئے

نا امیدی کے سوا

نسخہءِچارہ گری کر نہ سکے گی تجویز

تیری بخشش’ تیری فطرت کی مسیحائی بھی

فیصلِ وقت کی بینائی بھی

آفتاب اقبال شمیم

حوصلے والے

آ چرائی ہوئی آنکھ سے دیکھ کر

بے نیازانہ برتیں اُسے جو ملا ہے ہمیں

اور چپ چاپ بیزاریاں کاٹنے کی سزائیں سہیں

جیسے فردوس کے راندگاں

آگ کی کیچڑوں میں فراغت سے لیٹے ہوئے

اپنے معمول کی نا امیدی میں جلتے رہیں

اور جیسے زنانِ مہ و سال خوردہ

بجھی جنس کی اور بڑھتی ہوئی عمر کی راکھ کو

دستِ افسوس کی سلوٹوں میں سمیٹے ہوئے

روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوں

اور جیسے کوئی ہر دفعہ

مکتبِ شوق سے لوٹ آئے درِ بند کو دیکھ کر

جس پہ آویزاں نوٹس ہو

تعطیل کے بعد تعطیل کا

آفتاب اقبال شمیم

پڑاؤ۔۔۔۔بے سفر مسافروں کا

یہ جوہڑ عضوِ بریدہ ہے اُس دریا کا

جس کے شفاف بہاؤ میں ہر ٹھہرا منظر بہتا تھا

جو گزرا کل کی بستی سے

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے پرچھائیں اپنے گھاؤ کی

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے

کچھ خار و خس’ کچھ ٹوٹے پر’ طائر ایامِگذشتہ کا

ٹہنی کے خمیدہ شانے پر

اس خالی سرد بسیرے میں

اور چھوڑ گیا’ اپنے پیچھے مٹھی میں بند عفونت سی ٹھراؤ کی

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے

مسند پہ کلاہ خود داری کی’ وہ شاہ سوار جو گزرا تھا

اِس رستے سے

جو فرش یہ اوندھی رکھ دی ہے

ان آج کے عزت داروں نے

اب کاسہءِدستِ گدایاں ہے

اور اپنے آپ پہ حیراں ہے

آفتاب اقبال شمیم

روشنی نا روشنی

سارے رنگ ادھورے ہیں

سب خوشبوئیں

میرے مشامِ ذوق کو ترسایا ترسایا رکھتی ہیں

آنکھوں کی اِس ناآسودہ بستی میں

روشنیوں نا روشنیوں کی آپس میں یک جہتی ہے

دھوپ ہمیشہ سائے سے سمجھوتہ کر کے رہتی ہے

ہریالی سے پیلے پن

اور پیلے پن سے ہریالی کے

گردش کرتے موسم میں ایک تماشا برپا رہتا ہے محدود تغیر کا ایک بخل کے عالم میں

عمر کے اس پیمانہءِکم کیفیت کو

رنگیں کر لیتا ہوں اپنے خوابوں کی آمیزش سے

اگلے دن کی دھوپ میں جو اُڑ جاتے ہیں

اِن رنگوں کی بخشش سے

آفتاب اقبال شمیم

مارکوپولو برج

شہر سے کچھ پرے

پُل کے نیچے اُنہیں

خشک ندی کی بہتی ہوئی ریت پر

باڑماری گئی

سینہءِشب میں ہلکی سی لرزش ہوئی

چند صحنوں میں قد کے برابر بلندی سے

چیخیں گریں

بے بسی کے اندھیرے کنوئیں میں دھمک سی ہوئی

اور اوپر کہیں لوحِ تقدیر پر

حاکم نیک اندیش کی عمر میں اور توسیع

کر دی گئی

آفتاب اقبال شمیم

ساحلِ سمندر پر (ماؤ کی نظم پئے تاخہ کے پس منظر میں)

یہیں کبوتر کے اِس بسیرے کے دیدباں سے

روانہ ہو کر

اِسی سمندر کے پار اُتریں

اُفق کے ساحل پہ اُس کی آنکھیں

یہیں پہ دیکھا نئے زمانے کا خواب اُس نے

یہ پاک دربار پانیوں کا

وہی ہے جس میں

ملی اسے خلوتِ بصیرت’ عنان برداریئ تغیر

یہیں پرانی حویلیوں کے کھنڈر سے اُس نے

نئی سحر کا طلوع دیکھا

یہیں سحر کا طلوع دیکھا

یہیں مصور کی آنکھ میں نقش خواب اُبھرا

وہ خواب۔۔۔۔تعبیر بن کے جس کی

ہزاروں برسوں کی جبر خوردہ زمیں سے

یوم حساب اُبھرا

آفتاب اقبال شمیم

ٹھہرا ہوا منظر

دل کے اک متروک گوشے میں وفا کی

خوبصورت راہبہ بیٹھی ہوئی

اپنے گردا گرد

بے برکت دعا کا نور پھیلائے ہوئے

مدتوں سے۔۔۔۔جانے کس کی منتظر

اور باہر

شہر کی دہلیز پر

رات کے نوزائیدہ بچے کے جشنِ تہنیت میں

رقص کرتے ہیجڑے

درد کی فرہنگ کے سارے ورق بکھرے ہوئے

لفظِ نابینا کے آگے درج معنی کا خلا

عشرتِ یک شب کے دلدادہ تماشابیں

بہک کر

جمگھٹوں میں بامِ ثروت کی طرف جاتے ہوئے

نغمہ بے سوز سننے کے لئے

اور کم میعاد کی مانگی ہوئی خوشحالیوں کے پیرہن سے

شوخ’ کچا رنگ۔۔۔۔ ناپختہ چمک اڑتی ہوئی

ایک گوشے میں اکیلا

معرکہ زارِ شکست پے بہ پے میں ایستادہ نوجواں

بے بس و مجبور’ بے دست و کماں

آفتاب اقبال شمیم

مراجعت

شامِ فنا کی جھیل پر

کیا بے بسی تھی، جو اُسے اُس سے چھڑا کر لے گئی

باہر محیطِ چشم سے

اک اجنبی سا شخص تھا’ جو دھوپ کے پردیس سے

نکلا بدن پر اوڑھنے

سایہ درختِ آب سے مانگا ہو

اندر بپا کہرام تھا

ہارے ہوئے برسوں کا بنجر منطقے کی ریت پر

ننگی ہوا کی سیٹیوں کے بین میں

چلتے ہوئے۔۔۔۔کیا جانئے’ کیوں رک گیا

شاید اُسے آیا نظر

اِن شدتوں کی اوٹ میں اک عکس سا

کھوئی ہوئی پہچان کا

آئی اُسے شاید زمینِ سبز کی

مانوس مٹی کی مہک

شاید لپک کر آئی ہوں۔۔۔۔سرگوشیاں

دکھ کے پرانے سرمئی خیموں سے اُس کی سمت

پہچانے ہوئے انفاس کی

وہ اجنبی۔۔۔۔کیا جانئے کیوں رک گیا

ممکن ہے خود پر منکشف

ہوتے ہوئے اس نے سنا ہو پاس کی

اُس کنج میں

شاخِ ہوا پر خوشبوؤں کا چہچہا

اُس ڈال پر

جُھولا جُھلاتی یاد کی بانہوں میں

رنگیں چوڑیوں کا نغمہءِخواب آفریں

کچھ دوستوں کا ذکر موجِ ساز پر

احساس کے سنگیت کا چھیڑا ہوا

کوئی پراناواقعہ۔۔۔۔

وہ رک گیا

اور لوٹ کر’ کچھ مختلف انداز میں

دُکھ کے پرانے قافلے سے آ ملا

آفتاب اقبال شمیم

پیاسوں کے لئے ایک نظم

ہم وارث تختِ تمنا کے

ٹھہرے منظرکے سائے سے کب نکلیں گے

دُکھ کی دیروز سرائے سے کب نکلیں گے

ہم آب سراب کے دریا کو

دریا، کیسے تسلیم کریں

اے دل والو!

کچھ چھینٹے شوقِ تغیر کے ہم پر ڈالو

دھڑ پتھر کے متحرک ہوں

ہم وارث تختِ تمنا کے

سانسوں کی حبس حویلی میں، جینا اپنا معمول کریں

آتہمتِ کفر قبول کریں

آبرسیں ٹوٹ کے آنکھوں سے

مرجھائے وقت کی ظلمت کو، سیراب کریں

پھر نشوونما کا شجر اُگے

اِمکان کے فردا زاروں میں

پھر موسم کے میخانے کا در کھل جائے

میخواروں پر، دروازہءِمنظر کھل جائے

پھر عرش، زمیں کی باہوں میں

باہیں ڈالے

اس بستی کی، دہلیز پہ آکر رقص کرے

ہر لمحے کی پھلواری میں

طاؤسِ تغیّر رقص کرے

آفتاب اقبال شمیم

دھوپ ندی کا مانجھی

دھوپ کی مغویہ اور وہ

شعر کی کنجِ روشن میں سرگوشیاں کر رہے تھے

کہ پکڑے گئے

ظلمتوں کے کماں دار مقتل کی جانب

لئے جا رہے ہیں انہیں

ایک ہُو کی صدا آبنوسوں سے اٹھتی ہوئی

سُن ذرا دستکیں بستیوں میں

جہاں گیر پیغام کی

دیکھ! اس دار پر

چند چھینوں کی شہ سرخیاں

اور خبریں کنشت و کلیسا کی دیوار پر

کوہِ زندہ سے گرتے ہوئے پیڑ کی

دیکھ!

برگِ خزاں بر د ٹہنی پہ پھر سے نمودار ہوتا ہوا

ہر دریچے میں

آنکھوں کی کلیاں سلاخوں پہ چٹکی ہوئی

عکس سے عکس بنتے ہوئے

جیسے جشنِ چراغاں سرِ آب جُو۔۔۔۔

بارشِ اشک سے خشک جنگل میں ہریالیوں کی نمو

آفتاب اقبال شمیم

پیاس ادھورے لمحے کی

عمر۔۔۔۔ ادھورا لمحہ وقت کی کایا کا

پیاسی سہ پہروں سے آگے

رات کی رُت میں

سپنے کی بہتی ندی کی مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے

اور میں سرگوشی میں اس سے کہتا ہوں

جانِ من!

یہ جنموں کی وہ بستی ہے

جس کے سبز علاقے میں ہم دونوں کا سنجوگ ہوا

اور جہاں رنگوں، خوشبوؤں کے اُس گزرے موسم میں

یادوں کا اک آنگن ہے۔۔۔۔

جس کے پیچھے کے کمرے میں

نقب لگا کر

مجھ کو خود معلوم نہیں کیا چیز چُرانے جاتا ہوں

برسوں کے روزن سے آتے

نم آلود اجالے میں

چیزوں کی بدلی بوسیدہ شکلوں کو

اُلٹ پلٹ کر تکتا ہوں

اور اندھیری گونج کی لمبی راہداری سے

ہاتھ کا خالی کاسہ تھامے

لوٹ آتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم

اُس سے دو ملاقاتیں

جان کے امبر پہ ساون خواہشیں اُمڈی ہوئی

اور آنکھوں کی خیاباں میں

مہکتی روشنی

پوششِ گل میں کسی ندی پہ تکتا ہوں تجھے

اک لپکتا عکس۔۔۔۔ آئینے کے اندر مضطرب

ایک منظر کا سنہراپن۔۔۔۔ ہرے جنگل میں آوازِ سحر کے شور سے

دیکھتا ہوں۔۔۔۔ تُو دہکتی سانس کی سچائیوں سے

مجھ کو مجھ سے آشنا کرتی ہوئی

جنگلوں کی راج دھانی میں سوئمبر جان کی پہچان کا

اور اب۔۔۔۔

دیکھتا ہوں شہر کی اونچی فصیلوں کی اُترتی دھوپ میں

رسم کے ملبوس میں لپٹا ہوا تیرا بدن

مجھ سے میری دوریوں کے کرب سے ناآشنا

دیکھتا ہوں۔۔۔۔ تیرا پیکر

سرمئی سی شام کے اسرار سے رنگِ شفق کی دلبری

چھِنتی ہوئی

اور تو اس جھٹپٹے کی شاہزادی

خوبصورت۔۔۔۔ نیم دیدہ خواب کی مانند

لگتی ہے مجھے

آفتاب اقبال شمیم

منکر کا خوف

پرانا پاسباں ظِلّ الٰہی کا

جسے چاہے، کرے نصب عطا عالم پناہی کا

اُسے ترکیب آتی ہے

کسی مضمونِ کہنہ کو نیا عنوان دینے کی

وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے

ہمارے راستے کے پست و بالا پر

وہ دانا اپنے منصوبے بناتا ہے

ہماری فطرتوں کی خاکِ ظلمت سے

ہماری خواہشِ تکرار کی دیرینہ عادت سے

وہ معبد ساز، بت گر اپنی ہستی کے تقدس میں

سدا محفوظ رکھتا ہے

ہمارے گھر کو تحقیق و تجسّس کی بلاؤں سے

کہیں اوہام کی عمدہ شبہیوں میں

ثقافت کے نگارستاں سجاتا ہے۔۔۔۔

کہیں خوش فہمیوں کے استعارے سے

ہرے لفظوں کے باغیچے کھلاتا ہے

کہیں نوکِ سناں کے اسم و افسوں سے

لہو کی بند میں تسلیم کی کرنیں جگاتا ہے

قلوب اہلِ زمیں کے اس کی مٹھی میں دھڑکتے ہیں

شعور اس کا سدا مامور رہتا ہے

ہمیں، اچھے بُرے کے فلسفے کی آڑ میں

ہم سے چھپانے پر

مگر اس کا مداوا کیا

کہ وہ پروردگارِ زور و حکمت اپنی نیندوں میں

ہمیشہ سے

وجودِ فرد میں اک مضطرب سی شے سے ڈرتا ہے

وہ شے۔۔۔۔ جس کی حقیقت

وقت کا اِبلیس اُس پر فاش کرتا ہے

آفتاب اقبال شمیم

گلی

یہاں پر روشنی

ہر روز مقدارِ مقرر میں اترتی ہے

یہاں پر زندگی کو نالیوں کے فحش پانی کی نمی

سیراب کرتی ہے

دھوئیں کے شامیانے میں

یہاں لڑکے غروبِ شام سے ہی کرنے لگتے ہیں

تھکن کی دھول میں تیاریاں سپنوں کے میلوں کی۔۔۔۔

ابھی چلتے ہوئے ہو گا

اُسے احساس سانسوں کے ذرا سے گرم ہونے کا

کسی در پر لٹکتے ٹاٹ کے اُدھڑے کنارے پر

گلابی انگلیوں کا پھول مہکے گا

سکینہ مسکرائے گی

فضائے دل میں جینے کی تمنا گنگنائے گی۔۔۔۔

ابھی دہلیز تک آکر

اُسے ماں اپنی ناداری

کے عالم میں دعا دے گی

وہ گھر سے رِزق کے کھلیان کی جانب

ہوا میں تیرتا۔۔۔۔ ہرےالیاں چُننے نکل جائے گا

ڈھلتی دھوپ کے آنگن میں آکر

مژدہءِفردا سنائے گا

سنو ماں! سبز خوشحالی کا موسم آنے والا ہے۔۔۔

یہاں خشتِ شکستہ کی کسی دہلیز پر بیٹھے

وہ ہم عمروں کی سنگت میں

سناتا اور سنتا ہے

کہانا اُس دلاور شاہزادے کی

جو دیوِ جبر کو تسخیر کرتا ہے

یہاں وہ بچپنے سے نیم عمری تک

ہزیمت کے سفر میں

رفتہ رفتہ یہ گلی اپنے بدن کی خاک میں تعمیر کرتا ہے

اچانک خواب سے اٹھ کر

وہ اپنے خوں میں پلتی زرد بیزاری میں کہتا ہے

میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔

آفتاب اقبال شمیم

اے وطن!

اے وطن!

کوئی کیوں مجھ پہ تیری ثنا،

تیری توصیف کی شرط عائد کرے

جبکہ میری محبت کی خاموشیاں

لفظ کے شور سے معتبر

میرے سینے کے معبدمیں تیرے تقدس کی گلنار

شمعیں جلائے رکھیں

عطر سا کنجِ دل میں اڑائے رکھیں

میں کہ پیکر ہوں تیری ہی مٹی کی تخلیق کا

تیری مہکار کو ہر مسامِ بدن میں چھپائے ہوئے

فخر کرتا ہوں خود پر کہ میں

زندگی کی سفارت میں تیرا نمائندہ ہوں

اور تیری ہی تائید سے زندہ ہوں

تیری ”تو” میری ”میں” ۔۔۔۔۔۔ ایک باطن کے دو روپ ہیں

اے وطن!

میں تری خاک کی سرفرازی کے اِقرار میں

سر اٹھائے رکھوں

اور میرا یہ انداز ہی ہے قصیدہ ترا

اے وطن!

گونجتا ہے مرے خواب میں نغمہءِناشنیدہ ترا

میری ناداریوں پر

ترا منظرِخلد کھلتا نہیں

گنجِ بخشش پہ بیٹھے ہوئے اژدہوں کی شررر بار پھنکار سے

ترے فرزند جھلسے ہوئے

تیری اولاد صدیوں سے اجڑی ہوئی

استقامت سے امید کے رزق پر جی رہی ہے

کہ تو۔۔۔۔ ایک دن

پست و بالا کی تفریق سے ماورا

ایک سی روشنی۔۔۔۔ مثلِ خورشید۔۔۔۔ تقسیم کرتا نظر آئے گا

سارے پیڑوں پہ ہریالیوں کا ثمر آئے گا

اے وطن! اے وطن!

آفتاب اقبال شمیم

بنتِ براہیم (صعنا کی نذر)

تجھے جاناں!

معطر آنسوؤں کی اوٹ سے آنکھوں نے دیکھا

تُو۔۔۔۔ عروسِ آسماں

اپنے جواں جذبے کے سادہ سے بلاوے پر

شفق کی قِرمزی پوشاک پہنے

گیسوےں میں شام کی چنبیلیاں گوندھے ہوئے

اِقرار کے معبد سے نکلی تھی

قبولِ عشق کا سجدہ ادا کر کے

عجب منظر تھا رونق کا

زمیں نے ان گنت طائر اُڑائے روشنی کے

تیرے رستے میں

چھنا چھن۔۔۔۔ منتشر ہوتی ہوئی خوشبو نے ہر ہر سُو

لُٹائی نقرئی خیرات سپنوں کی

نمو کا شوق جاگا سرمئی مٹی کے سینے میں

کیا طے زندگی سے زندگی تک کا سفر اک جست میں

بخشش کے لمحے نے

شگفت ایسی ہوئی تاریکیوں میں دُور تک اُڑتے شرارے کی

دِل شب میں

اندھیرے کے چٹخنے کی صدا آئی

دھڑکتے بولتے رنگوں نے ہر خیمے میں جا جا کر

منادی کی

اُسے دیکھو!

اشاروں میں بلاتی ہے تمہیں بامِ بلندی سے

تمہیں جو عشق کے میلے میں آئے ہو!

اُسے دیکھو!

ذرا سی خاک

کیسے خوبصورت منظروں کے گلستاں تخلیق کرتی ہے

فنا ہو کر

بقا کی داستاں تخلیق کرتی ہے

آفتاب اقبال شمیم

آس پیاس

آخر تم نے

میرے لیکھ میں میرے بھید کا مجھ پر ایسے

کم کم کھلنا کیوں لکھا تھا!

کیسے دن تھے

خواب میں اپنی تخت نشینی کا منظر جب دیکھا تھا

دودھ کا امرت، پیار کا بوسہ

خوشبو کے کیسے جھونکے تھے، جن کے لمس سے لمس ملا کر

دھوپ میں شعلے کی کیفیت جاگی تھی

اور مجھے چاروں جانب کے آئینوں کی دنیا میں

تنہائی کا، کثرت کا دلچسپ تماشا

خود ہی منظر خود ہی ناظر بن کر اپنے راج نگر میں

تکنا تھا

اپنے آپ کو میں نے دیکھا سپنے کے سنگھاسن سے

دن کی ہولی کے میلے میں

تصویروں پر تصویروں کے رنگ گرانے والوں میں

اور اِسی میلے میں پھر ڈھلتی دوپہر کے رستے پر

میں نے اپنے آپ کو دیکھا

بھِیڑ کے اندر تنہائی کی راکھ اُڑانے والوں میں

کیسے دن ہیں۔۔۔۔ اونچائی سے

میرے نام پہ میری آس کا ساون دھارا

اوک میں چھینٹے چھوڑ گیا ہے

اور میں خود سے سرگوشی میں کہتا ہوں

پیارے یہ دن دوبارہ بھی آئے گا

تو نے یہ منظر آنے سے پہلے بھی تو دیکھاتھا

آفتاب اقبال شمیم

ہم (٢)

یہ زمیں، یہ سمندر، یہ کہسار، یہ آسماں

اور ہم ایک ہیں

برگ و گل، شاخ و طائر، زمان و مکاں

اور لوح و قلم ایک ہیں

اے اندھیرے میں سوئے ہوئے فاتحو!

شرمساری سے ہم سرجھکائے کھڑے ہیں، ہمیں

آ کے لوٹاؤ

اتلاف کی تیغ سے ساری لُوٹی ہوئی بستیاں

سارے مارے ہوئے نوجواں

اورجن شاعروں نے تمہارے قصیدے لکھے

ان سے آ کر کہو

اپنی توقیر کی خلعتیں پھینک دیں

دل کی پس ماندگی کے نوشتوں پہ اپنی ملامت کریں

کون کس سے بڑا ہے۔۔۔۔ کہو!

برتری کی روایت یہاں کمتروں نے رکھی

وہ جو فطرت کی آواز سے منحرف ہو گئے

ساعدِ خاک کو بے حنا کر کے

بدصورتی سے بیاہے گئے۔۔۔۔

زندگی آسمانوں کی جانب لپکتی ہوئی

روشنی کے سفر میں

ستارے، مہ و مہر، سیرِ زمیں پہ ہمیشہ سے نکلے ہوئے

ایک قرطاس پر ایک تصویر پھیلی ہوئی

اور تم۔۔۔۔ فرق و تفریق کے پیشواؤں کی تقلید میں

تنگیوں کی کمندوں سے پھیلی ہوئی وسعتیں

صید کرنے پہ مامور ہو

دن کو شب اور پھر شب کو دن میں بدلتے ہوئے وقت سے

ایک لمحے کی عریانیاں مانگ کر

خود کو دیکھو کبھی

’’ہست‘‘ کے سارے رشتے تمہارے حوالے سے ہیں

اپنی طے کردہ سچائیوں کی نظربندیاں توڑ کر

رقص کرتے ستاروں کے نغمے سنو!

مہر کے زر سے کیسے تونگر ہوئی ہے زمیں

کس طرح مٹیوں کے بدن میں کرن ڈوب کر

آسماں کی نیازیں

کبھی رنگ و خوشبو، کبھی نخل و انساں، کبھی ناچ کے، گیت کے

روپ میں۔۔۔۔ بانٹتی ہے

کہو! کون کس سے بڑا ہے

کہو!

آفتاب اقبال شمیم

وہ اور میں

اُس کے دھیان میں ارمانوں کی جوت جگائے بیٹھا ہوں

وہ گوری تو ایسی ہے

جیسے دھوپ کے گلشن میں بہتی ندی کا نغمہ ہو

روشنیوں کی رِم جھم میں

اُس کا بھیگا بھیگا مکھڑا جب دیکھوں

اَن دیکھا ہی رہ جائے

بے تسخیر ہے جادو اس کی آنکھوں کا۔۔۔۔

وہ تو وہ ہے

اور مرے آدرش کے جیون مندر میں

دیکھوں تو مجھ جیسی ہے

میں اپنی پہچان کے بھیدی لمحے میں

اس سے پوچھوں

گوری! تم کیوں اپنے رنگ دکھا کر مجھ سے

اپنا انگ چراتی ہو؟

وہ مجھ کو سمجھائے لیکھ اشارے میں

تم مٹی کی کایا ہو

روپ سے روپ بدلتا، ڈھلتا سایا ہو

میں تو میں ہوں

کل کے آج میں، آج کے کل میں رہتی ہوں

جنم جنم سے اک اک پل میں رہتی ہوں

آفتاب اقبال شمیم

دُوری کے ا فق

آپ ملاپ کا سپنا تم نے دیکھا تھا؟

ہاں سائیں!

وہ میری انگلی تھامے آدرش کے برج دوارے پر

آتا تھا اپنے کل کی پرچھائیں میں

اور کسی اَن دیکھی شے کو دُور افق میں

تکتے تکتے کہتا تھا

دیکھو! چنگاری کا انت الاؤ ہے

موج کا ظرف بڑھے تو دریا ہو جائے

تم چاہو تو

سانس کا جھونکا تیز ہوا کا جنگل بھی بن سکتا ہے

دیکھو! تم سپنے کی جوت جگائے رکھنا اپنے دل کے مندر میں

سر سے سر کو اونچا کر کے اُس دانا سے

جو مانگو گے پاؤ گے۔۔۔۔

آپ ملاپ کی آشا کے اس عمروں لمبے رستے پر

آج میں خود سے پوچھ رہا ہوں

وہ جو بیچ شراروں کے

میں نے جذبوں کے موسم میں بوئے تھے

اُن سے راکھ کی فصلیں کیوں اُگ آئی ہیں؟

(ہاں سائیں!

روز کے سمجھوتوں کے بدلے

اتنا ہی تاوان ادا کرنا پڑتا ہے)

اور زیاں کے اِس حاصل سے

میں نے یاس کا جو آکاش بنایا ہے

اس کے نیچے، شام کے میلے میں دنیا کے سوداگر

مجھ سے آنکھ بچا کر کیسے

رنگ برنگے منظر اُس کی آنکھوں میں بھر جاتے ہیں

وہ۔۔۔۔ جس کی انگلی تھامے آدرش کے برج دوارے پر

آتا ہوں اپنے کل کی پرچھائیں میں

اور کسی اَن دیکھی شے کی جانب تک کر کہتا ہوں

دیکھو! چنگاری کا انت الاؤ ہے! ۔۔۔۔ خاکستر ہے!

آفتاب اقبال شمیم

خواب کی خالی مچان

چار دیواری میں گر گر کر شفق بجھتی ہوئی

دید بانوں سے لگی آنکھوں میں

ننگے خنجروں کے عکس تھرائے ہوئے

اور بے بازو جواں کے سامنے رکھی ہوئی

خالی کماں

مسکنِ تقدیر ۔ ۔ ۔ ۔ ایوانِ سفید

بھیجتا ہے زر نوشتہ حکم روہیلے کے نام

بے بسی کے قصر میں

نوجواں شہزادیوں کے جسم

خوفِ مرگ سے ڈھلکے ہوئے

اورآ نکھوں میں سلائی پھیرتا لمحہ

زوالِ روشنی لکھتا ہوا

سب نے اپنے دوش پر

رکھا ہوا ہے کپکپاتا ہاتھ کل کی آس کا

دےکھ! منظر یا س کا

کس طرح یہ بے ارادہ جرأتیں

طے کریں اک جست میں پس ماندگی کا فاصلہ!

آفتاب اقبال شمیم

مرحبا!

کشفِ منظر کا پیمبر

توڑتا ہے یاس کے آزر کے بُت

آنکھ بے وہم و گماں

دیکھتی ہے جابہ جا اِس وسعتِ شب میں

اُچکتی روشنی کے واقعے ہوتے ہوئے

ذائقے کی آبجو میں خواہشوں کی لہر اٹھتی ہے کہیں

اور اِس باغِ سماعت کی خزاں کے عہد میں

کوئی طائر گیت کے رنگیں پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سے

مہکتی آس کا پیغام دیتا ہے ہمیں

برتری کے تخت پر بیٹھے ہوئے زور آوروں کے سامنے

کوئی سرکش آتشِ بارود سے کر کے کشید

پھونک دیتا ہے سُروں میں اپنے جسم و جان کی سچائیاں

دیکھتی ہے ماریا مغرب کی ظلمت میں

طلوعِ خواب کی رعنائیاں

اور صنعا اپنے بالوں میں سجا کر

پُھول اُجلی دھوپ کے

تنگ گلیوں سے کھلے میدان کی جانب رواں

ڈالتی جاتی ہے مایوسی کے خالی دامنوں میں

مُٹھیاں بھر بھر کے جذبوں کی نیاز

اور ہم خوش ہیں کہ دو جنگوں کے جابر فاتحوں کے سامنے

سینہ سپر ہے زیر دستوں کی انّا

مرحبا!

آفتاب اقبال شمیم

منحنی کی ثنا

بہت سنجیدگی اچھی نہیں

یہ زندگی ایسی ہے۔۔۔۔ اِس پر مُسکرا لینا

شفا دیتا ہے زخموں کو

چلو کہہ لیں کہ سطحیں منحنی ہیں

نارسائی کی

ہمارے علم کی پیمائشوں میں بھید کے رقبے نہیں آتے

چلو کہہ لیں

کہ پیچیدہ مسائل پر بہت سنجیدہ ہو جانا

جنم لیتا ہے ظرفِ کم کشادہ سے

کسی دشوار ناہموار کے خوفِ زیادہ سے

ہمارا قہرِ بے بخشش، ہماری مہرِ بے پایاں

ہمیشہ آنسوؤں کے المیے تخلیق کرتے ہیں

مگر پھر معتدل ہونا بھی راس آتا نہیں

ذوقِ طبیعت کو

ارادہ زوردارِ غیب کے آگے نہیں چلتا

کبھی چیزیں بگڑتی ہیں بنانے سے

کبھی آلام بڑھتے ہیں گھٹانے سے

یہاں نزدیکیوں میں دوریاں ہیں

اور ہم الفاظ مضمونوں میں ملتا ہے نہایت فرق

معنی کا

سبھی چہرے مشابہ ہیں

مگر ان پر

جدا آنکھوں کے پرچم پھڑ پھڑاتے ہیں

پرانی دانشیں۔۔۔۔

گرتا ہوا پختہ ثمر مٹی کی جھولی میں

مسائل بھی نئے حل بھی نیا ہمراہ لاتے ہیں نئے انداز

جینے کے

یہاں اس کچھ سے کچھ ہوتی ہوئی دنیا کے فردا میں

جو ہو گا وہ نہیں ہو گا۔۔۔۔

کہ منطق ہے یہی ہونے نہ ہونے کی

تو پھر سنجیدگی اچھی نہیں

یہ زندگی ایسی ہے۔۔۔۔ کوئی کیا کرے

ہر چیز کو تسلیم نا تسلیم کرنے کے سوا

چارہ نہیں کوئی

آفتاب اقبال شمیم

دریا درویش!

وہ دریا درویش

کسی پربت کی پتھریلی کٹیا میں رہتا ہے

چاندیوں سے دُھلی ہوئی

وادی کی صبحیں

کافیاں گاتے پانی کی

شفاف روانی میں عکسوں کے گجرے پہنے

اُس بے پروا آواز کے دھیمے بھاری لہجے کی

محبوبی میں’

سدا سہاگن رہتی ہیں

میں اُس کو برسوں سے پیاس پرندے کے

پاؤں میں باندھ کے سندیسہ

بھجواتا ہوں

آ ! اِس ہجر کے موسم میں

لہروں کے چمکیلے چمٹے پر بھیگی مٹی کی

اُڑتی خوشبو کے نعمے سے

آس کنارے پر رہنے والوں کی دنیا کو

مہکاتا جا

آ!  تیرا آنا مژدہ ہے تیرے دائم آنے کا

تجھ کو لوٹ کے جاتے کس نے دیکھا ہے

آ! اِن اشکوں کی مقدار بہت کم ہے

اِن کے نم سے کیسے ہم

سورج مکھیوں کے مرجھائے کھیتوں کو سیراب کریں

آفتاب اقبال شمیم

جہلم کے کنارے اک شام

اے ملاحو!

اِن لہروں کی کتنی چاندی ساتھ سمیٹے

اپنی رات کی کٹیا میں لے جاتے ہو

اور تمہارے روز کنارے کی بدبوئیں سلوٹ سلوٹ کپڑوں میں

سپنوں کی البیلیاں کیسے دھوتی ہیں

گیلی تو پڑ جاتی ہو گی موتیے جیسی رنگت

ان کے ہاتھوں کی

زخمی ہو تو ہو جاتے ہوں گے سبک سنہرے پاؤں اُن کے

جیون دکھ کے گھاٹوں پر

سایہ سا

دیوار سے اپنی پشت لگائے

ہولے ہولے کھینچ رہا ہے دھوپ کا کانٹا

اپنے ننگے پاؤں سے

ہونٹوں پر اُجڑی خاموشی شور کے گزرے لمحے کی

ڈھلتی شام کی پیشانی پر

زرد چنبیلی کا گھاؤ

پھیکی پڑتی کرنوں کی پیلاہٹ کو پھیلاتا ہے

ایک ستارہ

نم آلودہ پلکوں پر’ گھمبیر اندھیرے کے چُپ کی ویرانی میں

تھرّاتا ہے

اے ملاحو!

آنکھ بھنور سے کتنی دُوری پر تم ناؤ کھیتے ہو

غفلت کی عمروں کے لمبے رستے پر

مٹی اور کنارے کے ٹھہراؤ جیسی

یاد بھی ہے کچھ

کتنی چاندنیاں اور دُھوپیں

زرد اُداسی کی فصلوں کے کھیت بنیںِ

کتنے پتھر ریت بنے

اِس پانی کی

اپنے بانسوں سے تم نے کتنی گہرائی ناپی ہے

دریا بھید ہے اس سے کیسے دکھ کا انت ملے

ایک کھنڈر

بے آہٹ گزری صدیوں کا

شام سویرے کے رستے میں پھیلا ہے

اند باہر کی دنیائیں

جیسے ہوں خالی پرچھائیاں آپس کی

اور کنارا بھی دھارا ہو اُلٹا بہتے دریا کا

لوک کہانی والے جس میں

مٹی کے پیکر لمحوں کے بہتے رہنے کا نظاّرا

اپنی آنکھ کے ناٹک گھر سے

تکتے ہوں

آفتاب اقبال شمیم

اے غیر فانی اجنبی!

اے غیر فانی اجنبی!

یہ زندگی، یہ خاکِ یکساں کی زمیں

تیرے لئے موزوں نہیں

تو نے فرازِ خواب سے دیکھا جسے

وہ یوں نہیں

کیا ہے تری میراث میں

کچھ چادرِ ایام کی بوسیدگی، کچھ بستیوں کی بیوگی

کچھ منظروں کی اوٹ میں اڑتی ہوئی

خوشبو گلِ نایاب کی

برجوں میں بجھتی روشنی

محرومیاں۔۔۔۔

ڈوبے ہوئے دن کا سماں۔۔۔۔

اُجڑا ہوا خیمہ جسے چھوڑ آئے پیچھے کارواں

اے غیر فانی اجنبی!

وہ زیرِ نخلاں درس گاہ دوستی

وہ غار جس میں روشنی

شاخِ بشارت پر کھلی

وہ چوب جس پر سُرخیاں اُبھریں نئے امکان کی

نغمہ نما آواز میں روئیدگی نروان کی

وہ زیر دستوں کے لئے منشور

اس روئے زمیں پر خلد کی تعمیر کا

لیکن یہ عادت خاک کی

ایجاد کر لینا بدل زنجیر کا

اے غیر فانی اجنبی!

کل بھی یہاں تو آئے گا

یہ خاکِ یکساں کی زمیں’ نیم آفریں

جلوہ تجھے دکھلائے گی بے انت کا

اس انت میں

کیسی شگفت اُس نام کی

پیغام کی

لکھے جسے دستِ زماں

مایا کے اڑتے رنگ میں

اے ہجر زادِ زندگی!

تیری تمنا کے افق ہیں بے زمیں’ بے آسماں

تیرے ہنر کی انگلیاں

جو لانی ء محدود سے شاید کبھی

پرچھائیوں کو باندھ لیں

لیکن نہیں

یہ خاکِ یکساں کی زمیں

تیری بقاء کی رازداں

اپنی انا تیری انا کے درمیاں

اک فاصلہ قائم رکھے

شاید تجھے یوں مضطرب دائم رکھے

آفتاب اقبال شمیم

ادھوری گونج گیتوں کی

اُداسی وسعتوں میں گا رہی ہے

اور میں خیمے میں بیٹھا ہوں

کسی بیتی ہوئی بستی کے دریا پر اترتی چاندنی کی

نیلمیں دھندلاہٹوں میں دیکھتا ہوں

اس کے چہرے کا کنول

اور سنتا ہوں

گئی رُت کے سنہرے پاؤں میں بجتی ہوئی

جھانجر کا، ہر لحظہ بدلتے سُر کا گیت

اور میرے پاس ہی سایہ مرا

گھٹنوں پہ سر رکھے ہوئے چپ چاپ،

چاکِ چشم سے لے کر تصّور کے افق تک

اس کی، ہلکے سرمئی رنگوں میں

تصویریں بناتا ہے

ادھوری گونج کے اس پیش منظر میں

زمینیں نارسائی کی

جہاں پر ساتھ چلتے چاند کو

آوارہ رکھتی ہیں نگاہیں آخرِ شب تک

جہاں پرانگلیاں لکھتی ہیں پھیلی ریت پر

اک حرف، نامعلوم سا

معدوم سا۔۔۔۔ آتی ہوا سے مہلتیں لے کر

محبت! اے محبت تو کہاں ہے

وقفہءِدائم ہمارے درمیاں ہے

اور میں افسوس کے قرطاس پر

لکھے ہوئے ضائع شدہ حرفوں کو اپنی

نوکِ ناخن سے کترتا ہوں

پھر اس گھاؤ میں

چشمِ آبدیدہ سے گزرتی روشنی کے رنگ بھرتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم

اے ہمیشہ کے زندانیو!

اک جہاں گیر لمحے کی یلغار میں

راز کے سب حصاروں کو تسخیر کرتے ہوئے

اپنے دل میں اترتے ہوئے

پنجہءِدست سے نوچ لوں

وہ جڑیں جن سے اگتا ہے میری حدوں کا شجر

۔۔۔۔ منظرِکرب میں

آ ذرا دیکھ زنداں کی زنجیر کو حالتِ ضرب میں

سرمگیں آنکھ سے

غصہءِبے بسی کے شرارے نچڑتے ہوئے

اور آہن کے ہونٹوں پہ محشر بپا

جھنجھلائی ہوئی چیخ کا

اور پھر پوچھ خود سے کہ

پاؤں کی جولانیوں کی حدیں ہیں کہاں

۔۔۔۔۔۔ ان سلاخوں سے باہر ہرے پیڑ پر

کٹ کے گرتی پتنگوں کی چھوڑی ہوئی ڈور سے

ایک طائر کسی سایہءِشے کی مانند

لٹکا ہوا

۔۔۔۔ اور اس سے پرے

یہ شعاعِ نظر، آنکھ کی راہبر

سارے رنگوں کو مُٹھی میں بھینچے ہوئے

جانے کیا دیکھتی ہے دکھاتی ہے کیا

رُت کی پھلواریوں میں کہیں

خاک سے تادمِ گل، تمنا کے زندانیوں کا نفس

تارِ خوشبو کی مانند چلتا ہوا

۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے افق اور آگے افق

۔۔۔۔ اے ہمیشہ کے زندانیو!

چار دیواریاں

وسعتوں کے مدور علاقے کی

چوکور شکلیں ہیں کیا؟

یہ چھتیں آسمانوں کی نقلیں ہیں کیا؟

یہ نگاہ و تصوّر کی پرواز، آزادیوں کی ہوس

خاک کی خوش خیالی ہے کیا؟

۔۔۔۔ اے ہمیشہ کے زندانیو!

ضبط و تسلیم کی عادتیں ڈالنے کی دعا دو مجھے

کیا عجب اس طرح

اپنی شدت کو میں معتدل کر سکوں

یا

کسی دن جہاں گیر لمحے کی یلغار میں

خود کو ہر دل کے اسرار میں

منتقل کر سکوں

آفتاب اقبال شمیم

ایک پرانے ورق پر نئی تحریر

بہت دھوپ ہے

میرے آنگن کی مٹی۔۔۔۔ ہنسی اور شرارت کے چھونے سے

جیسے سنہری سی ہونے لگی ہے

مرے پاس رنگین ملبوس میں اک خوشی

جھلملاتی کرن کے بنائے ہوئے نقش

برگِ گلابی کے نزدیک ٹھہری ہوئی نرم خوشبو کی مانند

بیٹھی ہوئی ہے

اور گہرے مساموں میں گھلتا ہوا لمس

بے نام سی سنسی کا

ہرے نم سے آلودہ سانسوں میں جیسے

اُجالے کے چھلکے ہوئے جام کی جھاگ سی مل رہی ہو

کہیں کوئی آنسو پس چشم ٹھہرا ہوا

جس سے تقطیر ہو کر نظر

ایک قوسِ قزح سی رگِ جاں کے اندر بناتی ہوئی

پانیوں میں کنول سے کھلاتی ہوئی

اور میں اس سے کہتا ہوں

اے مہر لمحے کے مندر میں چھیڑی ہوئی راگنی!

اے گلابوں کے رستے سے آئی ہوئی روشنی!

اِس گھڑی کے جزیرے کے چاروں طرف

تجھ سے آگے بھی تو، تجھ سے پیچھے بھی تو

اور میں تیرے موجود کے عکس کا عکس دل میں لئے

روز کے رنگ میلے میں بھٹکا ہوا

دور سے دیکھتا ہوں تجھے

اور اب دیکھتے دیکھتے گلشنِ شام میں آگیا ہوں

جہاں ایک آوارہ لڑکے کی مٹھی سے اُڑتے ہوئے

شوخ جگنو کے پیچھے

نظر حیرتوں کے دھندلکے میں کھوئی ہوئی ہے

آفتاب اقبال شمیم

المیے کے فالتو کردار

اور وہ کیا المیے کے فالتو کردار تھے؟

شہر کی چوکوں میں

جن کا شوقِ وارفتہ لہو اور آگ کی تحریر میں

اپنی گواہی دے گیا

اور وہ۔۔۔۔۔۔

ٹکٹکی پر جن کے چمکیلے بدن داغے گئے

اور وہ۔۔۔۔۔۔

جو گیارہ پہر لمبی رات کی راہداریوں میں پابجولاں

اپنی گھٹتی عمر کی بڑھتی مسافت میں رہے

جن کے دل کی دھڑکنیں

ایام کی تسبیح پر وردِ وفا کرتی رہیں

اور وہ۔۔۔۔۔۔

دہشتِ زندان و مقتل کا سگِ مخبر جنہیں

سُونگھتا پھرتا رہا بستی کی ہر دہلیز پر

تھیں مقرر جن کے سر کی قیمتیں

اور وہ۔۔۔۔۔۔

اپنے پیاروں سے بچھڑ کر جو عجب افسوس کی

ہجرت سرائے میں رہے

شاہ گر کا ذہنِ حکمت ساز کہتا ہے یہی

یہ ہجومِ عاشقاں اب بے افادہ ہو چکا

قصر و قُوت تحفۂ تقدیر میں

بخت زادی سے کہا جائے

کہ وہ یکتائیوں کے شہ نشیں پر جلوہ افروزی کرے

اور وہ۔۔۔۔۔۔

شاہ گر۔۔۔۔ چہرہ بدلنے کے پرانے پیشہ ور

اپنے سحرِ حکمت و الفاظ سے

بخت زادی کے لئے ایسی کرشمہ سازیاں کرتے رہیں

اُس کے سر سے ہر بلا ٹلتی رہے

مملکت چلتی رہے

آفتاب اقبال شمیم

بے نام ہونے کی آرزو

کسی شجرے کی ٹہنی پر ہوئی ہے

لمحہءِحاضر کی ہریالی

ہوا نسیاں زدہ پچھلی خزاں کے رفتگاں کی

خاک پر رقصاں

خمیدہ ہو کے مُجرا پیش کرتی ہے

حضورِ برگِ تازہ میں

یہ عشوہ ساز واقف ہے پرانے باسیوں کی رسم و عاد ت سے

یہ بستی کیسی بستی ہے!

جہاں پر لوگ اچھے نام کی شیشم سے

دروازے، دریچے او دہلیزیں بناتے ہیں

یہی دو چار عشروں میں

جنہیں لمحوں کی دیمک چاٹ جاتی ہے

عجائب گاہ میں یہ اسمِ نامعلوم کس کا ہے!

جسے اسلوب کا ماہر

دعائے جستجو سے زندہ کرتا ہے

کسی قدرِ مروج کے حوالے سے یہی دو چار عشروں کے لئے

اس سے زیادہ کون جیتا ہے

تو پھر بہتر یہی ہو گا کہ دروازے کی مستک سے

ہم اپنے نام کی تختی اتروا دیں

آفتاب اقبال شمیم

ہجر زاد

میرے دکھ کا عہد طویل ہے

میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا

میں جنم جنم سے کسی میں عکسِ مشابہت کی تلاش میں

پھرا اپنے خواب سراب ساتھ لئے ہوئے

گیا شہر شہر، نگر نگر

تھیں عجیب بستیاں راہ میں، میری جیت، میری شکست کی

کسی دوسرے کی صداقتیں۔۔۔۔ مری راہبر، مری رہزن

لئے ساتھ ساتھ، قدم قدم

کبھی پیشِ خلوتِ آئینہ،

کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں،

کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم مجھے کر گئیں

میں دھواں سا آتشِ اصل کا

اُڑا اور خود سے بچھڑ گیا

مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں

سفرا آزما ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں

میں حلیف اپنے غنیم کا

ہوں جہاں بھی راہِ زیاں میں ہوں

میں خیال پرورِ شوق، شہرِ مثال کا

مجھے ہر مقام پہ یوں لگا

کہ حقیقتوں کے سگانِ کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں

مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمیں پر

میرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے

میری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر

یہ فرار تھا۔۔۔۔

کہ انا کا سایہ و سائبان

لیا جس نے اپنے بچاؤ میں

میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں

میرا پائے شوقِ سزا کہیں پہ رکا نہیں

یہ نشیبِ شام ہے اور میں ہوں رواں دواں

یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شبِ ابد کے پڑاؤ میں

ذرا انتظار۔۔۔۔ کہ جب وجود کا کوزہ گر مجھے پھر سے خاک بنا چکے

تو یہ دیکھنا

کہ شبیہہ شخصِ دگر میں لوٹ کے آؤں گا۔۔۔۔

اسی شہر میں

میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا

میرے دکھ کا عہد طویل ہے

آفتاب اقبال شمیم

بناہل کا ایک منظر

۔۔۔۔ اور پرانے پربت پر

آتے جاتے سورج رُک کر تکتا ہے

اپنے اپنے خون میں تر دو بیلوں میں

بے انجام لڑائی یکساں ماتوں کی

طبلِ زمیں پر تھاپ۔۔۔۔ مسلسل تھاپ پڑے

غیب کے بھاری ہاتھوں کی

آنکھیں۔۔۔۔ ہر سو خفیہ آنکھیں

محوِ جشنِ تماشا ہیں

دم دم بولتے سنانے میں ہول کڑی دوپہروں کا

ہر پتے پر طاری ہے

اور ہمیشہ کی، ناوقت اڑانوں پر

دھوپ کے زرد بسیرے سے

اِس پربت کے

پیچھے بہتے دریا کی آواز کا پنچھی آتا ہے،

بکھراتا ہے

سبز نمی کا نعمہ ٹھہری وادی پر

لیکن مٹی کے اعصاب میں، شریانوں میں

بے انجام لڑائی پیہم جاری ہے

آفتاب اقبال شمیم

راج ہنس

پرندہ

دھوپ کے دو چار تنکے

نیم وا منقار میں تھامے ہوئے اترا ہے

خواہش کی بلندی سے

بدن میں کپکپاتے بادلوں کا سرمئی ہیجان پھیلا ہے

وہ اترا ہے

کسی بے نام ساحل پر

ہوا کی چند خود رو جھاڑیوں کے درمیاں اپنے نشیمن میں

(جہاں اُس کی اڑانیں ختم ہوتی ہیں)

سمندر سامنے ہے

اور آنکھوں کے سفینے میں پڑا ہے بادباں لپٹا ہوا

فردا کے سائے میں

وہی ٹھہری ہوئی تصویر کچھ بے صرفہ خوابوں کی

وہی اُس کی پرانی جستجو۔۔۔۔

تخلیق کے اوجِ مقدس سے

اُتر کر حسنِ خوابیدہ کے پہلو میں سحر تک ریت کے بستر پہ سونے کی

تمنا کے صدف میں روشنی کی پرورش کرتی ہوئی لہریں

اُسے ویرانیوں کے چاند کی دف پر

وصال و ہجر کے نغمے سناتی ہیں

سمندر سامنے ہے

اور اس اسرار کی تاریک وسعت میں

اسے کل اور پرسوں بھی

سفر کی قوس پر ایک دودھیا سے نقش کی مانند اُڑنا ہے

وہ کیا ہے؟

کیا خبر بے معنویت کے سفر کا استعارہ ہو

زمیں کی رات میں بھٹکا ہوا

کوئی ستارہ ہو

آفتاب اقبال شمیم

آشنا نا آشنا

دِن کے مکان میں

لائے کرن سفارتیں سورج کے شہر کی

در آئے تنگیوں میں دریچے کی آنکھ سے

وُسعت سپہر کی

نیرنگِ واقعات سے ہر سو بنی ہوئی

تصویر دہر کی

ہر گُل کی چشم وا

تکتی ہے ایک منظر ہم زاد چار سو

اڑتی ہے اوجِ شاخ سے ہریالیوں کی بو

لمحوں کے چنگ سے

پھوٹیں شرار نغمہ سرائے بہار کے

رُت کے چڑھاؤ میں

موہوم، بے نشان اشارے اتار کے

نادید کا نمو

حلقے میں گھومتی ہوئی گونجوں کی آب جو

آوازِ ہفت زاویہ موسم کے اسم کی

جیسے ہو یہ زمیں کوئی وادی طلسم کی

آنکھوں کے آس پاس

عیشِ رواں میں بہتی ہوئی ناؤ جسم کی

دلدادہءِحواس

تکتا ہے اپنی چشمِ تمنا کے روبرو

دلدارِ خوبرو

جس کے بدن میں اطلسِ دنیا کا لمس ہے

بیٹھا ہے جونمود کی اونچی نشست پر

جلوے کی شست پر

رنگوں کی دھوپ میں

پھیلی ہیں خوشبوئیں گلِ ثروت کے عطر کی

ایسی کشش میں خود کو سبک کر سکے تو کر

جینے کالطف لے

کس نے تجھے کہا ہے کہ محرومیوں پہ مر

اے ہفت آشنا!

اے آسماں نورد!

آوارہءِہوا، تری بلقیس کا محل

تقدیس کا محل

سچ کی بلندیوں کا کہیں خواب ہی نہ ہو

ایسے میں فیصلے کا کوئی اہتمام کر

آ خود کو عام کر

گہرے بدن کا عطر کیوں ملبوس میں رہے

رقصِ تمام کر

کیوں داغ رنگ کا پرِ طاؤس میں رہے

آفتاب اقبال شمیم

سورج کی خوشبو

مِرا نام۔۔۔۔خوش بخت سورج کی خوشبو،

مِرا شہر۔۔۔۔بے آسماں ملک کے وسط میں

جس کے بازار اشیاء میں آنکھیں جھپکتی ہوئی فاحشہ

اپنی زرّیں ہتھیلی پہ رکھے ہوئے جسم کی عشرتیں

بانٹتی ہے

جہاں لوگ، اِسراع، ‘اِسراع’ کی گونج پر

یک زباں ہو کے، لبیک کہتے ہوئے

سِحر میں چل رہے ہیں

مِرا مشغلہ۔۔۔۔ ایک خواہش، لگاتار خواہش کہ لمحے کی مہمیز کا زخم

کھا کی حسِیں۔۔۔۔بے عناں، ایک ہی جست میں

جسم و جاں کی حدیں پھاند لیں

کش لگے اور روحوں کے پاتال میں جاؤں

بربط بجاتے ہوئے

کیا خبر گمشدہ جل پری میری آواز پر جی اُٹھے

اور میرا پتہ۔۔۔۔ ایک نالے کی نیلی گزرگاہ پر

اک مکاں۔۔۔۔ بے نمود اور بے نام سا

جس کے کمرے میں چُپ چاپ سایہ سا چلتا ہوا

اجنبی اور مفرور۔۔۔۔روپوش گمنامیوں کی پنہ گاہ میں

۔۔۔(دیکھتے ہو اُسے؟)

کل سویرے وہیں۔۔۔۔ دوسرے اور وہ ۔۔۔۔خشت بردار،

اہرام کی جائے تعمیر پر، پائے جائیں گے

آقا کی بھاری صدا اُس سے پوچھے گی کیا نام ہے؟

وہ کہے گا، مِرا نام۔۔۔۔خوش بخت سورج کی خوشبو۔۔۔۔

آفتاب اقبال شمیم

حصارِ سزا میں

جانتے ہو، کون ہی

جو کاغذوں پر پیشاں لکھ کر سدا

ایک بے میعاد وعدے کی عدالت میں

بُلاتے ہیں تمہیں

اور پھر خود ساختہ انصاف کی جنت دکھاتے ہیں تمہیں

کس قدر مسحور کرتی ہیں شبہیں باغ کی

جس میں سنگھاس پہ بیٹھا بادشاِ آسماں

شادماں۔۔۔۔

شادماں سرو و صنوبر کی کنیزیں

مورچھل تھامے ہوئے

اپنا سایہ ڈالتی ہیں شوکتوں کی دھوپ پر

اور وہ اپنی سخاوت سے رواں کرتا ہے

چشمے کا سیراب

اور تم

داستاں کے شاہ زادے کی طرح

اس نظامِ سحر نا مطمئن

لوٹتے ہو۔۔۔۔اور آگے دیو استبداد کا

فیصلہ در دست آتا ہے نظر

بستیوں کے آہنی پھاٹک کی تالہ بندیاں کرتے ہوئے

کیا کرو گے!

اپنی ناداری کا ترکہ چھوڑ کر مر جاؤ گے

اپنے ظلمت زاد فرزندوں کے نام

یا یہ دستاریں سروں سے کھول کر

دال دو گے خاک پر

تاکہ سمجھوتے کی کالی چیونٹیاں

رفتہ رفتہ۔۔۔۔ذرہ ذرہ کر کے لے جائیں تمہیں

آفتاب اقبال شمیم

جو ہیں اور نہیں ہیں

جمبود ٹوٹے گا جب زمیں کا

تو برق رفتار حادثوں کے سموں سے چنگاریاں اڑیں گی

نہتّے اور پُر غرور لڑکے

اُڑائیں گے کنکروں کی آندھی

کھنڈر میں اپنی ہزیمتوں کے، اُکھڑے جالوت جا گرے گا

کٹیں گی پھر شہر شہر تازہ بشارتوں کی

نئی رتوں کی مہکتی فصلیں

فضا میں بے نام مرنے والوں کی عظمتوں کے عَلم کھلیں گے

مگر یہ مفروضہ وارداتیں ہمارے جانے کے بعد ہوں گی

چلو چلیں منجمد سڑک پر حشیش پینے

طمانیت کی تلاش کرنے

گریں گے آنکھوں سے جب شرارے

اُتر کے آئے گا دیوتاؤں کے آسماں سے

سکوں کا بے سایہ دار لمحہ

چلو چلیں اتقام لینے کسی سے بیٹھک کے معرکے میں

ہدف کو ہم قہقہوں کی بوچھاڑ سے اُڑائیں

فراغ ہو تو

بچھائیں آنگن کے بیچ میں دھوپ سردیوں کی

بڑھتے ہوئے ناخنوں کو کاٹیں

پڑھیں رسالہ

کہ جس کے رنگین سر ورق پر

چھپی ہے تصویر شاعرہ کی

آفتاب اقبال شمیم

دراز سایہ سہ پہر

ایک لڑکی ابابیل سی

دھوپ میں دس بجے پر فشاں

ایک خوشبو کے جھونکے کے ہمراہ اڑتے ہوئے

راستے میں ملی اور اک آن میں بے نشاں ہو گئی

آنکھ میں تتلیوں سے چرائے ہوئے رنگ ٹپکا گئی

اک شرارا گرا اس کی جانب لپکتے ہوئے ہاتھ پر

انگلیاں جل گئیں

دن کی آواز مغرب میں ڈھلنے لگی

اور احساس میں

اک دھواں سا، زیاں سا دھند لکے بنانے لگا

کتنی بھاری تھیں اشیاء کی اصلیتیں

کھرورے جسم کے پربتوں پر اُبھرتا کہاں

عکس کھویا ہؤا

اور اب تیز قدموں سے سہ پہر کی

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے

دیکھتا ہوں کہ میں ہوں کھڑا

دم بہ دم ڈوبتے شہر کی غیر مانوس شکلوں کے ابنوہ میں

وہ کہیں بھی نہیں، وہ کہیں بھی نہیں

شام ہونے کو ہے۔۔۔۔

ڈوب جا، ڈوب جا

ایک ہی دن میں دو بار سورج نکلتا نہیں

آفتاب اقبال شمیم

سُرخ پرچم نہر

سب نے محنت کی تقدیس کا اسمِ اعظم پڑھا

چانگ دریا کا پانی سوا نیزہ اوپر اٹھا

بے گیاہ آسماں لہلہلانے لگا

کوہِ عریاں کو بہتی ہوئی روشنی کا کمر بند باندھا گیا

دودھ کے رس سے پھٹتی ہوئی چھاتیاں

سبز پوشاک سے ڈھک گئیں

مسکرایا کساں دیوتا

بھوک کی ڈأینیں مر گئیں، بیلچوں کی

کدالوں کی ضربات سے

اور بچوں کو سوتیلی ماؤں کی غرّاہٹوں سے رہائی ملی

خشک پربت پہ تازہ رگیں پھیل کر

بن گئیں سرخیاں کل کے منشور کی

آفتاب اقبال شمیم

نوعِ نو جسم

کہاں سے گزرا ہوں

سارے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں

یہ دیکھ:

میرے بدن کو نیلے لہو کی دیمک نے اس جگہ سے

یہاں سے چاٹا ہے

میری آنکھیں

اُبلتے عکسوں کی دلدلیں ہیں

یہ راستے سرو منظروں کے

زمیں کی کچی فصیل پر سو ہواؤں کے قہقہے اگے ہیں

مرے تعاقب میں لشکری بے یقینوں کے

میں خود کو خود سے چھپا رہا ہوں

یہاں سے نیچے گروں تو کیسے

زمیں کے سارے نشیب میری ہی پستیوں کی

علامتیں ہیں

قدیم راتوں کے پیشواؤ!

پرانی پوشیدگی کے صنعت گروں کی خاطر

گلی کی خندق میں چُھپ کے بیٹھا ہوں

آسمانوں کو نالیوں میں ڈبو چکا ہوں

قدیم راتوں کے پیشواؤ!

میں ایک سو سالہ اژدہا ہوں

کہ اپنی صورت بدل کے فردا کے آئینے میں

پرانے بہروپ کا تماشا قدیم آنکھوں سے

تک رہا ہوں

آفتاب اقبال شمیم

خواب آفریں!

گزرا اِدھر سے وُہ

اِک پُر شکوہ سر کشی کے راہوار پر

تھامے ہوئے کرن کو اندھیرے کی سیدھ میں

اُس نے ہوا کو دشت سے

ساحل سے موج کو

آزاد کر دیا

مضمون دہر سے

بے حاشیہ سطور کی چنگاریاں اُڑیں

اِک خواب کی شگفت سے موسم بدل گیا

دیکھا گیا سپہر تصوّر کے اوج پر

منظر طلوع کا

امکان کی منجنیق سے چھینٹے الاؤ کے

برسے فیصل پرتحریر حرفِ گُل ہوا لوحِ بہار پر

الٹا ورق ہوا نے زمیں کی کتاب کا

دیکھا گیا دیارِ تمنا کے آس پاس

لمحے کو بے لباس

اک برق تھی کہ پشتِ سیاہی سے کُود کر

اُتری زمین پر

غائب ہوئی تو چھوڑ گئی شب کے رُو برو

چشمِ ستارہ جُو

آفتاب اقبال شمیم

ریت کی پیاس

آؤ کہ چل کے رات کا لا نشہ پئیں

اک پَل کی بے پناہیاں

بے انت آسماں

ہم کو دبوچ لیں

دھچکا ہوا کا بند کواڑوں کو کھول دے

نکلیں حویلیوں سے نظر بند لڑکیاں

بے حُسن منظروں کی سزا وار آنکھ کو

آزادیاں ملیں

رونق کا اک شرر

بس دھوم سی مچا دے فنا کی فصیل پر

پھر اس کے بعد فرش پہ، چاہے تو گر پڑے

آئینہ خواب کا

یہ کیا کہ آپ اپنا تماشا بنے ہوئے

ہم دوسرے کے خفیہ اشارے کے سحر میں

ایام کی بساط پہ چلتے رہیں سدا

اپنے خلاف جنگ کسی اور کی لڑیں

رستے کی قوس پر

جینے کی آس نیم دریدہ لباس میں

دائم کھڑی ہوئی

عریانیوں کی ڈھلکی ہوئی بھیک دے ہمیں

آنکھوں کی تشنگی

اک خوشنما سراب کا جلوہ انڈیل دے

صحرا کی اوک میں

آفتاب اقبال شمیم

بے وعدہ عمروں کے بن باس میں

آج بھی فرشِ شبِ دیر بز پر

آسمانوں کا بہشتی دھوپ کا چھڑکاؤ کرنے آئے گا

اور دوشیزہ ہوا کی نرم و نازک انگلیاں

کھول کر نظمِ مناظر کی کتاب

رنگ و خوشبو، نور و نغمہ کے ورق اُلٹائیں گی

جسم کے آنگن میں پھیلے گی شفق کی سنسنی

آج بھی اپنے دریچے سے اُسے جاتے ہوئے دیکھوں گا

دفتر کی طرف

اور اس لمحے کے پس منظر میں آئیں گی نظر

لڑکیاں جو رات کے سپنوں کے گلدستے لئے

صبح دم آتی تھیں رو دِنیل پر

جب اجالا دِل کے مندر میں بجاتا تھا سنہری گھنٹیاں

تو گلابوں کی لچکتی ٹہنیاں

عکس اندر عکس پانی میں بہاتی تھیں نیازیں

اپنے پیاروں کے معطر نام پر

اور چکنائے ہوئے تانبے کی رنگت کے بدن

گُد گُدی محسوس کرتے تھے کسی کے لمس کی

بھیجتے تھے ایک پیغامِ تصوّر۔۔۔۔

ایک سندیسہ کرن کی لوچ سے لکھا ہوا

بادِ صبا کے ہاتھ کل کے وصل کا

اور میں دیکھوں گا اُس کو آج بھی سہ پہر کے رستے سے گھر آتے ہوئے

ایک خالی پرس اپنے نیم جاں کندھے سے لٹکائے ہوئے

اُس کی آنکھوں میں نظر آئے گا

بے اقرارلمحہ۔۔۔۔جانے کتنی دیر سے ٹھہرا ہوا

اور چوبی انگلیاں تھامے ہوئے ہوں گی

کسی تقدیس کی خوشبو،

کسی بے نام سپنے کی کتاب

آفتاب اقبال شمیم

مُنکروں کے درمیان

مضطرب ذات کہیں

سچ کا تعویذ اتارے نہ مرے بازو سے

اور میں تیرے فسوں میں آکر

اسمِ زر پھونکتی آواز کے ہمراہ چلوں

شر کا شہر رواں ہے جیس

اپنے انکار کی مدہوشیوں کے دائرے میں

میں شفق زاد اجالے کا امیں

تیری تاریکیوں کے تنگ کنوئیں کے اندر

اپنی گونجحوں کا بھنور بن جاؤں

میرے انگوٹھے پر

روشنائی نہ لگا آج کے سمجھوتے کی

میں گزرگاہ تمنا کا مسافر ہوں مجھے جانے دے

زادِ آوارگی کافی ہے مجھے

اس ہوا زار سے گلدستہءِخوشبو لے کر

جب میں دورانِ سفر فردا سرا میں اتروں

اہلِ نوشہر سے یہ کہہ تو سکوں

لوَ تمہارے لئے اِک پھول بچا لیا ہوں

آفتاب اقبال شمیم

حبس کی خواب گاہ سے

ہوا شرارت سے روز آکر بٹن دباتی ہے

اور اندر

ذرا سی آواز گونجتی ہے

وُہ دائیں کھڑکی سے اپنے چوبی بدن پہ رکھا ہوا کسی کا

بناوٹی سرنکالتا ہے

ہمیشہ یکساں جواب دیتا ہے

دیکھ: اے کوہِ سبز کی رہنے والی لڑکی

ابھی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہم حویلی میں

روشنی کو

سکھائیں آداب ظلمتوں کے

ابھی یہ دروازہ بندشوں کا

نہیں کھلے گا

ہم اپنے دشمن نہیں کہ میعادِ تربیت میں

خلل کو تسلیم کی سند دیں

یہاں سے جاؤ

یہ چار دیواریوں کا پہرہ

یہ حبس خائف نہیں کسی سے

جمود۔۔۔۔ ہییت خرابیوں کی

تم اپنے دستِ سبک سے کیسے بدل سکو گی

کہیں سے آندھی کا زور

طواں کا غلغلہ اپنے ساتھ لاؤ

آفتاب اقبال شمیم

آئینہ نما

یہ جنگل

کس بے معنی سفاکی کے اندھیرے سے

ٹوٹ کے بے ہییت ہوتے اس موسم میں

بے بخشش ہاتھوں کی جانب تکتا ہے

دیکھ! اکارت جاتی سرد صدی کے منظر نامے میں

نخلِ بے تقدیر کھڑا ہے

بھوک کے سناٹے میں گرتے پتے پر

اس کے اپنے نام کے آگے

میرا نام بھی لکھا ہے میں کہ ان بے اشک آنکھوں سے

اُس کی خاطر

اپنے کل کی ظلمت کے امکان کی خاطر

ایک کرن کی خواش خوابی پیدا کرنے سے قاصر ہوں

میری دنیا کے مرکز میں ڈھیر لگا ہے سایہ سایہ لاشوں کا

اور زمستاں کا سورج اس پربت کے

لمبے سائے ڈال رہا ہے خودمحصور مکانوں پر

آفتاب اقبال شمیم

گماں کی منطق

دریا کے گہرے باطن میں

نادیدہ انبوہ پسِ انبوہ رواں رہتا تھا لیکن

سطحِ آب پہ آکر جو معروف ہوئیں وہ اسم نما لہریں کتنی تھیں

اور گہر

جو ساحل کی منظر گاہوں میں

ایک منور لمیے کی انگشت حنائی میں چمکا

وہ گم نامی کی ظلمت میں

بسنے والے ہم زادوں سے کیوں بچھڑا تھا؟

اور پرندہ صحرا کا

اپنی بے مشہو صدا کے سناٹے میں ڈوبا تھا

کیوں ڈوبا تھا؟

اور گلِ رونق پر اُمڈی آنکھوں نے

غفلت کی بے مہری سے

سبزے کو ہر آتے جاتے موسم میں پامال کیا

آخر کیوں؟

شاید یہ امکان کی اپنی منطق ہے

شاید ہر شے

یکسا دہرائے جانے والے فعلوں کی زد میں ہو

کیا معلوم کہ

اس جہور کی بے نام آور آبادی

جس میں ہم بھی شام ہیں

ہستی کی دانست میں ہو

آفتاب اقبال شمیم

رونق کا شگون

دھوپ مدھم تھی

ہوا کی منجمد شاخوں سے سانسیں توڑنا دشوار تھا

اور چوبَ خشک سے لٹکے ہوئے پتے کی آنکھ

اپنے آئینے میں تکتی تھی ہمیں

ہم تہی دستوں نے گلیوں کے خس و خاشاکگھر کے صحن میں جمع کئے

جسم کی دح سے مٹ جانے سے پہلے

خون کے گرتے شرارے سے اُگایا

سبز موسم کے الاؤ کا شجر

منظرِ روپوش کے آثار سے

سب کی آنکھوں کی گزرگاہیں معطر ہو گئیں

اور ہم نے نارسا پیغام بھیجا آسماں کے نام پر

اے خدا!

اب نہ آئے بادزاروں کی ہوا

مشرق و مغرب کے پھیلے فاصلے کی سمت سے

ورنہ ان چنگاریوں کے پھول گلشن کو جلا سکتے بھی ہیں

آفتاب اقبال شمیم

دُورنما روشنیوں کا خوف

کانچ کی کوئی چیز کہیں پر گر کر چکنا چُور ہوئی

نابینا اپنے سائے سے ٹکرایا

آنکھیں، آنکھیں۔۔۔۔ ہر سو آنکھیں

اوپر رات کا گہرا بادل

اُمڈا ہے

پرنالوں سے بہتا ہے

کالا شور اندھیرے کا

کوئی شاید

جسم کا بھاری بوجھ اٹھائے نکلا ہے

خود سے بات کرے تو خود بھی سن نہ سکے

پونچھ رہا ہے

بھیگے ہاتھ سے پیشانی پر

لکھا حرف مقدر کا

جیسے یوں بچ جائے گا وُہ بہنے سے

دھوپوں کی طغیانی میں

آفتاب اقبال شمیم

خود کلامی کے کٹہرے میں

یہ ہے تشخیص اندیشہ۔۔۔۔ بتا کیا ہے؟

گزرگاہوں میں کیوں ہر سو وبا سایوں کی پھیلی ہے

یہ کیسی گردشیں ہیں شہر میں یکساں تغّیر کی

مسیحا بے شفا موسم کا نسخہ

زرد پتے کے لئے تجویز کرتا ہے

نہایت دردمندی اور دل داری سے

نبضِ شاخ پر وعدے کی نازک انگلیاں رکھ کر

وہ اسمِ صبر پڑھتا ہے

بڑے رقّت زدہ لہجے میں کہتا ہے

ہم اپنی روح کے بے آسماں قلزم میں

اپنے جسم کے تختے پہ بیٹھے ہیں

ہمیں

ممکن بھی ہے، زورِ ہوا ساحل پہ لے آئے

وگرنہ سراٹھاتی موج کا انداز

یوں ہے جس طرح جلاد نے تلوار سونتی ہو

اگر ہونا، نہ ہونا حادثہ ہے یا مقدر ہے

تو پھر اپنی حسوں میں

بے سبب ہیجان پیدا کر کے کیا لو گے

سنو! اس چشم کم بینا سے ایسی دوریوں کو دیکھنے کی

خواہشیں اچھی نہیں ہوتیں

عجب بے اعتدالی ہے صور کی

کسی نیاتہ جنت کے سپنے دیکھتے رہنا

یہ سایہ جو تمہیں آزار لگتا ہے

ہمیشہ دھوپ کے ہمراہ آتا ہے

جنم کے ساتھ وابستہ ہیں سارے سلسلے غم کے

نہ دو خود کو یہ ایذا، یہ سزا

بے اطمینانی کی

اسے آتا ہے اپنے فائدے کی منطقیں

ایجاد کر لینا

یہ بے اقدار مجلس

منعقد ہوتی رہے گی تا ابد اس کی صدارت میں

مرا آدرش سورج ہے

میں شب گلشنوں سے قمقموں کی روشنی میں

پھول کیں توڑوں

یہ صلحیں میری فطرت کے منافی ہیں

یہ اُس کا فیصہ پستی میں رہنے کا

زمیں کے آسماں کی سمت اٹھنے کے پرانے خواب کی

تردید کرتا ہے

اُدھر وُہ نظریے کا جال مجھ پر پھینکتا ہے

اِس طرف

اس منفعت خواہوں کی بستی میں

مجھے مجھ سے جدا کر کے

ہدایت کوئی دیتا ہے

مجھے بہتے ہوئے بازار کے گرداب زر میں ڈوب جانے کی

انا کا آخری قلعہ

جہاں کا ایک ہی درپستیوں کی سمت کھلتا ہے

جہاں سے میں اگر چاہوں

اُتر سکتا ہوں اس انبوہ میں

نااجنبی ہو کر

مگر یہ روشنی دل کی

مجھے آنکھیں لٹانے کی اجازت ہی نہیں دیتی

آفتاب اقبال شمیم

ڈوبتے پتھر کی صدا

گیت کا خیمہ ہوا میں گر پڑا

آخری طائر صدا کی اُوس پتوں پر گرا کر اُڑ گیا

اپنے اندر موڑ مُڑتی آہٹیں

سو گئی ہیں گوش کی دہلیز پر

راستے آنکھوں پہ بازو رکھ کے ہیں لیٹے ہوئے

اُڑ رہے ہیں دائروں میں

گم شُدہ سمتوں کے پیلے گردباد

عزم کی تحریر پر کالی ہوس کی روشنائی گر گئی

ریزہ ریزہ نور کے چھینٹے اُڑا کر گم ہوا

آسماں کا عکس گدلی جھیل میں

اور میرے گرد سنّاٹے کا شہر

بے سماعت، بے زباں۔۔۔۔

میں کہ لامرکز کھڑا ہوں

ڈوبتی بینائیوں کے درمیاں

کس کو پہچانوں، کِسے آواز دوں

آفتاب اقبال شمیم

نارسیں

اُسے عکسوں سے بھیگی آنکھ میں وہ ڈھونڈتا ہے

جو لہو کی سرزمینوں میں

ابھی نایافتہ ہے۔۔۔۔ کون ہے وہ؟

کوئی لڑکی ہے کہ عریانی کا کوئی لمحہ ہے؟

عجب کیا

ہو اُسے شوقِ سماعت پانیوں کے شور کا

جس پر کسی گزرے زمانے میں

کسی نے باندھا تھا

وہ پُشتہ اُس کے آدم جسم سے اونچا۔۔۔۔ محیط اندر محیط

اُس سے بلند ہونے سے پہلے گر گیا ہو گا

وہ اپنی زرد پرچھائیں کی خندق میں

کسی کو ڈھونڈتا ہے

کونسی آواز ہے جس کا تعاقب کر رہا ہے

اور کیسی شام کے حلقے میں آ کر

ڈوبتا جاتا ہے

کتنی دُوریوں سے تک رہا ہے اپنے مشرق کو

مگر وسعت

نطر کی راہداری سے اُسے کیسے دکھائی دے

کسی لمحے کی آزادی

کبھی شاید اُسے اپنے تشدد سے رہائی دے

آفتاب اقبال شمیم

گمان سے پہچان تک

کلی کی اوٹ سے ا۔س نے کیا اشارا مجھے

میں مُسکرایا

مساموں میں بجلیاں کوندیں

لہوکے دشت میں ٹاپیں سنائی دیں مجھ کو

گلابیاں سی ہوا میں دکھائی دیں مجھ کو

میں اپنی نظم بنا اور خود کو پڑھنے لگا

ہوا میں اُٹھتی ہوئی سیڑھیوں پہ چڑھنے لگا

گماں ہوا کہ قبا کھول دی ہے ساعت نے

بھنور نے سیپ کو پانی کی طشت پر اُلٹا

اندھیرا فاش ہوا روشنی کے بھید کھلے

عجیب وسعتیں پھیلیں خدائیوں کی سی

مٹھاس گھلنے لگی آشنائیوں کی سی

اُفق نے جھیل کو سمٹایا اپنی باہوں میں

تو زور زور سے کشتی کی سانس چلنے لگی

سفر کا نغمہ چھڑا بادباں کی دھڑکن پر

پیام آئے مجھے میری اپنی خوشبو کے

حیا سے سمٹی ہوئی اک صدا کی سرگوشی

مجھے بلانے لگی

پلٹ کے دیکھا تولہکتے ہاتھ کسی نیم وا درچے میں

ہلا رہے تھے بلاوے مِرے حوالوں کے

گلی کے موڑ پہ پہلا درخت پیپل کا

لپٹ گیا مجھ سے

میں بے پناہ کشش کی لپیٹ میں آیا

برس کے بوند گری، اشک ٹوٹ کے ٹپکا

قدیم اصل کے انبوہ کے سمندر میں

آفتاب اقبال شمیم

ہری نظم

ہم نے وقتوں کی فہرست میں نام ان کا لکھا

جو ہمارے وفادار تھے

اور ان کا لکھا

سبز سچائیاں جن کے تازہ لہو سے مہکتی رہیں

جن کے لہجے میں فردا کا اقرار تھا

اور جو راستے میں پڑی سلوٹیں

اپنے دکھ کے گرانبار قدموں سے ہموار کرتے رہے

کل نئے وقت کی دھوپ تاریک قلعوں کو مسمار کرتے ہوئے

پھیل جائے گی بے انت آزادیوں کی طرح

اپنی مٹی سے ’’اوینس‘‘ اٹھے گا جب

اور جب تیسرے شہر کی

زرد نسلیں، سیہ فام آبادیاں

لکھ چکیں گی نیا عہد نامہ نئے وقت کا

تو زمیں گنگنانے لگے گی ہری گھاس کی اُس ہری نظم کو

جس کے مَیں اور تُو اور وُہ لفظ ہیں

بول ہیں

آفتاب اقبال شمیم

کہانی

اے سہیلی بتا!

جسم کی یاترا کر کے آئی ہے تُو

موتیے کی ہنسی سے مہکتے ہوئے تیرے گُلنار چہرے پہ

شکنوں میں لکھے ہوئے

بید کے شبد پڑھ کے سناؤں تجھے؟

(اے سکھی! انت کا بھید کس پہ کھلا ہے کبھی)

کیا بتاؤں کہ اُن درشنوں سے

مِری آنکھ سیراب ہو کے بھی

پیاسی رہی

ہاتھ کا لمس ایسا تھا

ہر پور سے دیپ کی لو لپکتی تھی ہر سانس میں

تھرتھری سی کسی ان سُنے گیت کی

کیا بتاؤں سکھی! کس طرح دل دریچے کھلے

اور پنجرے سے

احساس کی نارسائی کا پنچھی اُڑا

میں نے دیکھا سکھی

جھیل کی لہر میں

اک نئے چاند کا عکس اُگتا ہوا

اور پھر ٹمٹماتے ستاروں کی پریاں مجھے

کل کے سپنوں کے آکاش پر لے گئیں

اسے سکھی! اور پھر یوں ہوا

جب سویرے کی پہلی کرن نے جگایا مجھے

گاؤں کا راکشس

جانیے کونسی سمت لے جا چکا تھا انہیں

میں تو چاہت کی ہاری وہیں

مر گئی

اے سہیلی بتا! دُکھ کی بپتا سناتے ہوئے

تُو بڑی سخت جاں ہے کہ

روئی نہیں

ہاں۔۔۔۔ مجھے کل کی سچائیوں پر بھروسہ جو ہے

دُکھ کے پردیس سے

دیکھنا! شیام پیارے ضرور آئیں گے

آفتاب اقبال شمیم

اعلان نامۂ بیروت

دیکھ! یہ وسطِ بیروت کا

آخری موچہ ہے جہاں میں کھڑا ہوں مگر

ان فضاؤں میں بارود کی آتشیں آندھیوں کا ہدف

میں اکیلا نہیں

میرے پیچھے نظر تا نظر پُرسکوں لہلہاتی ہوئی بستیاں

(جن میں میرے لئے ایک بھی گھر نہیں)

جبر کی زد میں ہیں

دن کی شاخوں سے ٹوٹے ہوئے برگ

بکھرے پڑے ہیں مِرے سامنے

جن کا تازہ لہو

میری خندق کے حلقوم تک آگیا ہے

کہ یہ آخری معرکہ۔۔۔۔ اسفلِ ارض سے آسماں کا

دفاعِ ضمیر جہاں کا۔۔۔۔ مرے ڈوبنے تک لڑا جائے گا

کوئی اپنی رگیں کھول کر میری تائید کرنے اُٹھے

اور کوئی سخی مرد اپنا زرِخوں لُٹانے کو تیار ہو

جو مِرے بعد میری جگہ

میری بندوق تھامے ہوئے ایستادہ رہے

اور کل کے کٹہرے میں جب آج کے

یہ سلاطین ، یہ دیوتا

بے ضمیروں کی صف میں کھڑے فیصلہ سُن رہے ہوں

تو وہ خلقتوں کو

زمیں سے زمیں تک

نئی، ایک ہی ملکت کے اُبھرنے کا پیغام دے

جس کے خورشیدِ فردا نما برج پر

وہ لہو میں نہائی ہوئی نسل کے

خواب فردا کی پرچم کُشائی کرے جس میں بے خانماں، ہجرتوں کے سفر میں

بھٹکتے ہوئے قافلوں کو

ارادے کی آزادیاں پیش کرنے کی تقریب پر

ہرکفِ شاخ کو

دستِ موسم

گلُوں سے حناوی کرے

آفتاب اقبال شمیم

نارسیدہ لمحے کا بلاوا

زید! یہ کیسے پھول ہری آشاؤں کے

دن کے صحن میں کھلتے ہیں

نیم جنوں کی خوشبوئیں

سینے کے صفحے پہ نقش بناتی ہیں

بے مفہوم، شکستہ خط تحریروں کے

آمکتب سے بھاگ چلیں

دیکھ! وہاں پر

ریت کا ٹھہرا دریا نیلی بینائی کی

وُسعت سے جا ملتا ہے

سُنتا ہے تُو دل میں دھوپ کی دھڑکن سی؟

ایک تمّنا نامعلوم تعاقب کی

ہم سے آگے آہٹ آہٹ چلتی ہے

آدھے عرش کی دُوری سے

دیکھ! پتنگیں کٹ کر ڈولتی جاتی ہیں

پیچھے پیچھے

ریلے ہی ریلے میں اُٹھی باہوں کے

کیا معلوم ہوا کا پرچم کس خوش بخت کے ہاتھ آئے

آہم بھی یلغار کریں

پھر کیا

وہ ہم دونوں سے قدآور بھی ہیں، آگے بھی

آفتاب اقبال شمیم

خواب در خواب

دیکھئے

دائرہ در دائرہ۔۔۔۔ ایک سے پیلے دنوں کو

ایک جیسی ظلمتوں میں ڈوبتے

طائروں کو دُور کی اونچائیوں سے لوٹ کر اپنی طرف آتے ہوئے

منظروں سے گرد کی چادر کو بے ہیجان ہاتھوں سے ہٹا کر

دیکھئے

سبز دن کی شاخ پر دلدار چہروں کے گلاب

جوزیاں ہوتے ہوئے احساس کی سہ پہر میں پرچھائیاں

بنتے رہے

دھونڈئیے

اُن بستیوں کو

جن میں سورج بھیجتا تھا روز صبحوں کا پیام

کون تھے، وہ کون تھے

جن کی آنکھوں پر اُترتے تھے صحیفے خواب کے

اور خود سے پوچھئے

اُن امنگوں سے دھڑتی ساعتوں کے بیج

کن بنجر زمینوں پر گرے

حشک سالی کیا ہماری عُمر کا مقدور تھی؟

یہ بھی ممکن ہے

ہماری جستجو سے دُور نادریافت کردہ منطقے موجود ہوں

جو اچانک منکشف ہو جائیں کل کی آنکھ پر

اور ہرکارہ ہمارے بے پتہ گھر پر

ہمارے نام کی آواز دے

آفتاب اقبال شمیم

بے نوشتہ نظم کا پیش لفظ

میں کفِ دست کی اوٹ میں

سوچ کا پھڑ پھڑتا دیا لے کے چلتا ہوں

جذبوں کے جنگل میں، نعرے لگاتی ہواؤں کی یلغار میں

کیا خبر وہ تنا کی دیوی لبِ آب آئے نظر

غسلِ مہتاب کرتے ہوئے

اس کی عریانیاں

منکشف ہوں لہو کی مچلتی ہوئی لہر پر

روشنی کے کنول کی طرح

ہنِ لفظ پگھلا ہوا موم بن کے ٹپکنے لگے

اور بہری سماعت سُنے ٹوٹتی جھاگ کی تھرتھری

اور مس ہوں مِرے جسم کی وح سے

میرے امکان کی سرحدیں

جانتا ہوں کہ میں آج بھی لَوٹ آؤں گا

کالک میں لپٹی ہوئی انگلیں

بے افق، بے نشاں چاند کی سمت

تکتے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم

لشکارا

بالکونی سے شادی کسی سائے نے

جھُک کے دیکھا مجھے

کون ہے؟ کون ہے؟

اور پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی آہٹوں کی دبی سنسنی

ایک وقفہ

اندھیرے کے سنسان سینے کے اندر دھڑکتاہوا

بے صدا شور ٹھہری ہوئی سانس کا

در کی درزیں سفیدی کی دو مختصر سی لکیروں سے روشن ہوئیں

اور میں دل کی دہلیز پر

اپنی بھیگی ہوئی مٹّیوں، خشک ہونٹوں کو بھینچے ہوئے

در کے کھلنے کی آواز کا منظر

واپسی کی گزرگاہ پر

دُور ہوتی ہوئی چاپ سُنتا رہا

آفتاب اقبال شمیم

اجنبی

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جسے بے نام خوشبوؤں کی آوازیں

تصّور کی زمینوں میں سدا آوارہ رکھتی تھیں

جسے گھر سے گلی سے مدرسے تک

تربیت نے

قاعدے کی تال پر چلنا سکھایا تھا

وہ کنج خواب کا حجلہ نشیں

خواہش کے روزن سے

سمندر کے اُفق پر

دیکھتا تھا خواب اُڑتے بادبانوں کے

تمسخر روشنی کا دن کے چہرے پر

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جسے بے رشتہ رہنا تھا ہمیشہ

شہر اشیا کی ثقافت میں

کسے رعنائیاں اپنی دکھاتا

کس پہ کشفِ دلبری کرتا

کسے پہچانتا

کیسے جگاتا انگلیوں کے لمس سے

آواز کی خوشبو سے

اشیا میں

حرارت آشنائی کی

وہ لڑکا شاہزادہ سا

جبیں کی لوح پرکل کی جزائیں

لکھتا رہتا تھا

مقدم زخم کا

خفیہ پتے ممنوعہ رستوں کے

وہی ہر روز کے مضمون میں

لُکنت خالی جگہوں کی

تحّیر لفظ سے ٹوٹے ہوئے معنی کے رشتے کا

وہ لڑکا شاہزادہ تھا

کسی موعود و نامولود دنیا کا

آفتاب اقبال شمیم

منظر کا خلا

ماں! آ دیکھ نا آنگن میں

کرنوں کی پیلی چنبیلی بکھری ہے

منڈیروں پہ کیا کیا نقش پرندوں کے

چڑھتے دن نے کاڑھے ہیں

پودے۔۔۔۔ کومل تانیں سی

ہریالی کے گیتوں کی

گلیوں کے میلے میں شور ہے بچوں کا

آس کا بابا

رنگارنگ غبارے لے کر آیا ہے

اٹھ نا! کیا تو رحل کے آگے

ہاتھوں کا کشکول اٹھائے

دن کے خاکستر ہونے تک بیٹھے گی؟

آخر کب تک مانگے گی

دُکھ سے گدلائی ظلمت کے آقا سے

جھاڑو سے اُڑتی مٹی کے مولا سے

دن کے موتی جن کو اس آنگن میں تو کھو بیٹھی ہے

جن کے بدلے

اُس نے اپنی بخشش سے بھر ڈالا ہے

تیری رات کی جھولی کو

اگلے روز کے سپنے سے

آفتاب اقبال شمیم

افریقہ۔۔۔ اگلے محاذ پر

عشر نے دھاوا بولا ہے

دیکھ! سفید انسانیت کے خیموں پر

پنجے سخت طنابوں کے

جنگل کے محکوم بدن پر ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں

کل کے طبل پہ چوٹ پڑی ہے

دیکھ! تڑپتی شہ رگ کی

ہر ہر بستی میں مینار الاؤ کے

روشن ہوتے جاتے ہیں

کل آزادی کی ہریالی پھوٹے گی۔۔۔۔ اور یہ بیلیں

پیڑوں کا رس پینے والی نیلی بیلیں

جڑ سے کاٹی جائیں گی

دیکھ! وہ ٹوٹا (قلعے جیسا)

اور اک جالا مکڑے کا

پرچم سی آنکھیں پربت پہ نصب ہوئیں

امبے او کے ہاتھ میں دستاویز ہے

کل کے سپنوں کی

آفتاب اقبال شمیم

چکور دستک اور صلیب

جب جسم تراٹیں مارے گااور روح پچھل پائی کی طرح پچھواڑے میں

چِلاّئے گی

جب ریت کی پیاس سلیٹی سی، ہونٹوں کی پپڑی کے نیچے

ایسا کہرام مچائے گی

کہ بیٹے اپنے باپوں کی پہنائی ہوئی زنجیروں کو

ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے

اُس وقت کے موسمِ فردا میں

سلوٹ سلوٹ چہرے والا۔۔۔۔ تاریک زمانے کا کاہن

گھر گھر میں سچ سندرتا کی

نشری آواز لگائے گا

ترمیم کے معبد کے اندر

تربیت کے رنگین پیویلین کے نیچے

کچھ تازہ بھینٹ کی خوشبوئیں

کچھ مخفی راگ کی سُرتانیں

سلگائے گا

سب آئیں گے

لے لے کر آنکھ ہتھیلی پر سپنے اپنے

پھر اگلے دن کے چوک پہ ہم

خود اپنے آپ تماشائی

سرکس کے چیتے دیکھیں گے

آفتاب اقبال شمیم

کھنڈر گھاٹ کا ناخدا

پھر اُتارا زمیں کے سلگتے ہوئے جسم سے

دستِ اسرار نے

دھوپ کا سو جگہ سے پھٹا پیرہن

اور آنکھوں میں چھلکیں اندھیرے کی عریانیاں

ٹمٹماتے چراغوں نے دیکھا مجھے

بے نشاں رونقوں۔۔۔۔ ایک گزرے ہوئے روز کی خوشبوؤں کے تعاقب میں

بھٹکے ہوئے

کتنے گہرے خلا پیش منظر میں تھے

شام کی بیٹھکیں کس لئے میہمانوں سے خالی ہوئیں

یار لمبے سفر پر یہاں سے کہاں چل دئیے

موسموں کے وطن کی مسافر ابابیل کا آشیانہ یہاں

آج ہے، کل نہیں

میں دنوں کے پلندے میں خالی ورق جوڑ کر

سوچتا ہوں یہ ہونے کا اندازمیرے حسابوں میں ہے

وہ جو انگلی پکڑ کے مجھے ساتھ لایا یہاں

منظروں، موسموں کے پھریرے اڑاتے ہوئے

بعد میں

بھول کی ٹوکری میں مِرے خول کو پھینک کر

بے دھیانی میں

مجھ سے زمانے سے آگے نکل جائے گا

آفتاب اقبال شمیم