زمرہ جات کے محفوظات: سعادت حسن منٹو

شریفن

جب قاسم نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔ تو اسے صرف ایک گولی کی جلن تھی جو اس کی دہنی پنڈلی میں گڑ گئی تھی۔ لیکن اندر داخل ہو کر جب اس نے اپنی بیوی کی لاش دیکھی تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قریب تھا کہ وہ لکڑیاں پھاڑنے والے گنڈاسے کو اٹھا کر دیوانہ وار نکل جائے اور قتل و گری کا بازار گرم کردے کہ دفعتہً اسے اپنی لڑکی شریفن کا خیال آیا۔

’’شریفن، شریفن‘‘

اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔ سامنے دالان کے دونوں دروازے بند تھے۔ قاسم نے سوچا۔ شاید ڈر کے مارے اندر چھپ گئی ہو گی۔ چنانچہ وہ اس طرف بڑھا اور درز کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’شریفن، شریفن۔ میں ہوں تمہارا باپ۔ ‘‘

مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ قاسم نے دونوں ہاتھوں سے کواڑ کو دھکا دیا۔ پَٹ کھلے اور وہ اوندھے منہ دالان میں گر پڑا۔ سنبھل کر جب اس نے اٹھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی۔ قاسم چیخ کیساتھ بیٹھا۔ ایک گز کے فاصلے پر ایک جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی گورا گورا سڈول جسم، چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے چھوٹے پستان۔ ایک دم قاسم کا سارا وجود ہل گیا۔ اس کی گہرائیوں سے ایک فلک شگاف چیخ اٹھی۔ لیکن اس کے ہونٹ اس قدر زور سے بھینچے ہوئے تھے کہ باہر نہ نکل سکی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئی تھیں۔ پھر بھی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ مردہ سی آواز اس کے منہ سے نکلی۔

’’شریفن۔ ‘‘

اور اس نے آنکھیں بند کیے دالان میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر کچھ کپڑے اٹھائے اور انھیں شریفن کی لاش پر گرا کر وہ یہ دیکھے بغیر ہی باہر نکل گیا کہ وہ اس سے کچھ دور گرے تھے۔ باہر نکل کر اس نے اپنی بیوی کی لاش نہ دیکھی۔ بہت ممکن ہے اسے نظر ہی نہ آئی ہو۔ اس لیے کہ اس کی آنکھیں شریفن کی ننگی لاش سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے کونے میں پڑا ہوا لکڑیاں پھاڑنے والا گنڈاسا اٹھایا اور گھرسے باہر نکل گیا۔ قاسم کی دہنی پنڈلی میں گولی گڑی ہوئی تھی۔ اس کا احساس گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے دل و دماغ سے محو ہو گیا تھا۔ اس کی وفادار پیاری بیوی ہلاک ہو چکی تھی۔ اس کا صدمہ بھی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھا۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی تصویر آتی تھی۔ شریفن کی۔ ننگی شریفن کی۔ اور وہ نیزے کی انی بن بن کر اس کی آنکھوں کو چھیدتی ہوئی اس کی روح میں بھی شگاف ڈال دیتی۔ گنڈاسا ہاتھ میں لیے قاسم سنسان بازاروں میں ابلتے ہوئے لاوے کی طرح بہتا چلا جارہا تھا۔ چوک کے پاس اس کی مڈبھیڑ ایک سکھ سے ہوئی۔ بڑا کڑیل جوان تھا۔ لیکن قاسم نے کچھ ایسے بک تکے پن سے حملہ کیا اور ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ تیز طوفان میں اکھڑے ہوئے درخت کی طرح زمین پر آرہا۔ قاسم کی رگوں میں اس کا خون اور زیادہ گرم ہو گیا۔ اور بجنے لگا۔ تڑتڑ تڑ تڑ۔ جیسے جوش کھاتے ہوئے تیل پرپانی کا ہلکا سا چھینا پڑ جائے۔ دور سڑک کے اس پار اسے چند آدمی نظر آئے۔ تیرکی طرح وہ ان کی طرف بڑھا اسے دیکھ کر ان لوگوں نے

’’ہر ہر مہادیو‘‘

کے نعرے لگائے۔ قاسم نے جواب میں اپنا نعرہ لگانے کے بجائے انھیں ماں باپ کی موٹی موٹی گالیاں دیں اور گنڈاسا تانے ان میں گھس گیا۔ چند منٹوں ہی کے اندر تین لاشیں سڑک پر تڑپ رہی تھیں۔ دوسرے بھاگ گئے لیکن قاسم کا گنڈاسا دیر تک ہوا میں چلتا رہا۔ اصل میں اس کی آنکھیں بند تھیں۔ گنڈاسا گھماتے گھماتے وہ ایک لاش کے ساتھ ٹکرایا اور گر پڑا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسے گرالیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے گندی گندی گالیاں دے کر چلانا شروع کیا۔

’’مار ڈالو مجھے، مار ڈالو مجھے۔ ‘‘

لیکن جب کوئی ہاتھ اسے گردن پر محسوس نہ ہوا اور کوئی ضرب اس کے بدن پر نہ پڑی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ سڑک پر تین لاشوں اور اس کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک لحظے کے لیے قاسم کو مایوسی ہوئی۔ کیونکہ شاید وہ مرجانا چاہتا تھا لیکن ایک دم شریفن۔ ننگی شریفن کی تصویر اس کی آنکھوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر گئی اور اس کے سارے وجود کو بارود کا جلتا ہوا فلیتہ بنا گئی۔ وہ فوراً اٹھا۔ ہاتھ میں گنڈاسا لیا اور پھر کھولتے ہولے لاوے کی طرح سڑک پر بہنے لگا۔ جتنے بازار قاسم نے طے کیے سب خالی تھے۔ ایک گلی میں وہ داخل ہوا۔ لیکن اس میں سب مسلمان تھے۔ اس کو بہت کوفت ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنے لاوے کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔ ایک بازارمیں پہنچ کر اس نے اپنا گنڈاسا اونچا ہوا میں لہرایا اور ماں بہن کی گالیاں اگلنا شروع کیں۔ لیکن ایک دن اسے بہت ہی تکلیف دہ احسان ہوا کہ اب تک وہ صرف ماں بہن کی گالیاں ہی دیتا رہا تھا۔ چنانچہ اس نے فوراً بیٹی کی گالی دینا شروع کی اور ایسی جتنی گالیاں اسے یاد تھیں سب کی سب ایک ہی سانس میں باہر لاٹ دیں۔ پھر بھی اس کی تشفی نہ ہوئی۔ جھنجھلا کر وہ ایک مکان کی طرف بڑھا۔ جس کے دروازے کے اوپر ہندی میں کچھ لکھا تھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ قاسم نے دیوانہ وار گنڈاسا چلانا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کواٹر ریزہ ریزہ ہو گئے۔ قاسم اندر داخل ہوا۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ قاسم نے اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر پھر گالیاں دینا شروع کیں۔

’’باہر نکلو۔ باہر نکلو۔ ‘‘

سامنے دالان کے دروازے میں چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ قاسم اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر گالیاں دیتا رہا۔ دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی نمودار ہوئی۔ قاسم کے ہونٹ بھینچ گئے۔ گرج کر اس نے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

لڑکی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔

’’ہندو۔ ‘‘

قاسم تن کر کھڑا ہو گیا۔ شعلہ بار آنکھوں سے اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جس کی عمر چودہ یا پندرہ برس کی تھی اور ہاتھ سے گنڈاسا گرادیا۔ پھر وہ عقاب کی طرح جھپٹا اور اس لڑکی کو دھکیل کر اندر دالان میں لے گیا۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے دیوانہ وار کپڑے نوچنے شروع کیے۔ دھجیاں اور چندیاں یوں اڑنے لگیں جیسے کوئی روئی دھنک رہا۔ تقریباً آدھ گھنٹہ قاسم اپناا نتقام لینے میں مصروف رہا۔ لڑکی نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس لیے کہ وہ فرش پر گرتے ہی بیہوش ہو گئی تھی۔ جب قاسم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے دونوں ہاتھ لڑکی کی گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے کے ساتھ انھیں علیحدہ کرکے وہ اٹھا پسینے میں غرق اس نے ایک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا تاکہ اس کی اور تشفی ہوسکے۔ ایک گز کے فاصلے پر اس جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی۔ گورا گورا سڈول جسم چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے پستان۔ قاسم کی آنکھیں ایک دم بند ہو گئیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ بدن پر گرم گرم پسینہ برف ہو گیا اور اس کی رگوں میں کھولتا ہوا لاوا پتھر کی طرح منجمد ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی تلوار سے مسلح مکان کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ دالان میں کوئی شخص آنکھیں بند کیے لرزتے ہاتھوں سے فرش پر پڑی ہوئی چیز پر کمبل ڈال رہا ہے۔ اس نے گرج کر اس سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

قاسم چونکا۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں مگر اسے کچھ نظر نہ آیا۔ مسلح آدمی چلایا۔

’’قاسم!‘‘

قاسم ایک بار پھر چونکا۔ اس نے اپنے سے کچھ دور کھڑے آدمی کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ مسلح آدمی نے گھبراتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

’’کیا کررہے ہو تم یہاں؟‘‘

قاسم نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے فرش پر پڑے ہوئے کمبل کی طرف ایارہ کیا اور کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’شریفن۔ ‘‘

جلدی سے آگے بڑھ کر مسلح آدمی نے کمبل ہٹایا۔ ننگی لاش دیکھ کر پہلے وہ کانپا، پھر ایک دم اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ

’’بملا بملا‘‘

کہتا لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

شراب

’’آپ کے منہ سے بُو کیوں آ رہی ہے‘‘

’’کیسی بو؟‘‘

’’جیسی پہلے آیا کرتی تھی۔ مجھے بنانے کی کوشش نہ کیجیے‘‘

’’لاحول ولا، تم بنی بنائی ہو، تمھیں کون بنا سکتا ہے‘‘

’’آپ بات ٹال کیوں رہے ہیں؟

’’میں نے تو آج تک تمہاری کوئی بات نہیں ٹالی‘‘

’’لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے لیکن آپ کو کچھ فکر ہی نہیں‘‘

’’یہ تم نے اچھی کہی۔ تمہارے پاس کم سے کم بارہ ساڑھیاں پندرہ قمیضیں سولہ بلاؤز دس شلواریں اور پانچ بنیانیں ہوں گی اور تم کہتی ہو کہ لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔ تم عورتوں کی فطرت ہی یہی ہے کہ ہمیشہ ناشکری رہتی ہو‘‘

’’آپ بس مجھے ہر وقت یہی طعنہ دیتے ہیں۔ بتائیے ان پچھلے چھے مہینوں میں آپ نے مجھے کتنا روپیہ دیا ہے‘‘

حساب تو میرے پاس نہیں لیکن اندازاً چھ سات ہزار روپے ہوں گے‘‘

’’چھ سات ہزار؟ آپ نے ان میں سے کتنے لیے‘‘

’’یہ مجھے یاد نہیں‘‘

’’آپ کو بھلا یہ کب یاد رہے گا۔ چور اُچکے ہیں اول درجے کے۔

’’یہ تمہاری بڑی مہربانی ہے کہ تم نے مجھے اوّل درجے کا رتبہ بخشا۔ بس اب چپ رہو اور سو جاؤ‘‘

’’سو جاؤں؟‘‘

نیند کس کم بخت کو آئے گی۔ جس کا شوہر ایسا گیا گزرا ہو۔ آپ کو کم از کم میرا نہیں تو اپنی ان بچیوں ہی کا کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے تن پر بھی کپڑے نہیں‘‘

ننگی پھرتی ہیں۔ ابھی دس روز ہوئے میں نے تمھیں ایک تھان پوپلین کا لا کر دیا تھا۔ اس سے تم نے تینوں بچیوں کے معلوم نہیں کتنے فراک بنائے۔ اب کہتی ہو کہ ان کے تن پر کپڑے ہی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ غلط بیانی کیوں ہوتی ہے۔ کل کو تم یہ شکایت کرو گی کہ تمہارے پاس کوئی جوتا کوئی سینڈل نہیں۔ حالانکہ تمہاری الماری میں کئی جوتے اور سینڈلیں پڑی ہیں۔ چار روز ہوئے تمہارے لیے واکنگ شو لے کر آیا تھا۔ ‘‘

’’بڑا احسان کیا تھا آپ نے مجھ پر۔ ‘‘

’’احسان کی بات نہیں۔ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ حقیقت بیان کررہے ہیں، تو اس حقیقت کا انکشاف بھی کر دیجیے کہ آج آپ کے منہ سے بو کیوں آرہی ہے‘‘

’’کیسی بو‘‘

’’اوہ۔ تو تمہارا مطلب ہے، میں نے شراب پی ہے‘‘

’’مطلب وطلب میں نہیں جانتی، جو بو آپ کے منہ سے میری ناک تک پہنچ رہی ہے صریحاً اسی خبیث چیز کی ہے‘‘

’’خواہ مخواہ تو کوئی شک نہیں کرتا۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘‘

’’بھئی کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں نے نہیں پی۔ نہیں پی۔ ۔ نہیں پی‘‘

’’آپ کا اُکھڑا اُکھڑا لہجہ چغلی کھا رہا ہے۔ ‘‘

’’اس لہجے کو جھونکو جہنم میں۔ میں نے نہیں پی۔ !‘‘

’’خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ آپ نے کم از کم آدھی بوتل پی ہے۔ ‘‘

’’یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا؟‘‘

’’پندر برس ہو گئے ہیں آپ کے ساتھ زندگی گزارتے۔ کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھ سکتی۔ آپ کو یاد ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے ٹیلی فون کیا تھا اور میں نے فوراً آپ کی آواز سے اندازہ لگا کر آپ سے کہاتھا کہ اس وقت آپ چار پیگ پیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ تھا؟‘‘

’’نہیں۔ اُس دن میں نے واقعی چار پیگ پیے تھے۔ ‘‘

’’اب میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے آدھی بوتل پی رکھی ہے۔ اس لیے آپ ہوش میں ہیں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ ‘‘

’’منطق ونطق میں نہیں جانتی۔ میں نے آپ کے ساتھ پندرہ برس گزارے ہیں میں اس دوران میں یہی دیکھتی رہی ہوں کہ آپ دو تین پیگ پئیں تو بہک جاتے ہیں اگر پوری بوتل یا اس کا نصف چڑھا جائیں تو ہوش مند ہو جاتے ہیں‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی میں پیوں تو آدھے سے کم نہ پیوں‘‘

’’آپ کو تو مجھے ایک روز زہر پلانا پڑے گی تاکہ یہ قصہ ہی ختم ہوجائے‘‘

’’کون سا قصہ۔ زُلیخا کا؟‘‘

’’زلیخا کی ایسی کی تیسی۔ میرا نام کچھ اور ہے۔ غالباً آپ اس نشے کے عالم میں بھول گئے ہوں گے‘‘

’’میں تمہارا نام کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘

’’بتائیے کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’تمہارا نام۔ تمہارا نام؟۔ لیکن نام میں کیا پڑا ہے چلو آج سے زلیخا ہی سہی‘‘

’’اورآپ یوسف!‘‘

’’قسم خدا کی، آج تم نے طبیعت صاف کر دی میری۔ لو یہ سو روپے کا نوٹ۔ آج اپنے لیے کوئی چیز خرید لو۔ ‘‘

’’یہ نوٹ آپ پاس ہی رکھیے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسے لمحات میں بہت فیاض ہو جایا کرتے ہیں۔

’’کون سے لمحات میں؟‘‘

’’یہی لمحات جب آپ نے پی رکھی ہو‘‘

’’یہ پی پی کی رٹ تم نے کیا لگا رکھی ہے تم سے سو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ پچھلے چھے مہینوں سے میں نے ایک قطرہ بھی نہیں پیا لیکن تم مانتی ہی نہیں۔ اب اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟‘‘

’’اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپناعلاج کرائیے۔ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیجیے تاکہ وہ آپ کی اس بد عادت کو دُور کرسکے۔ آپ کبھی غور و فکر کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی صحت کتنی گر چکی ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کے رہ گئے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہتی ہوں۔ ‘‘

’’صرف ایک دو منٹ رونا کافی ہے، ساری رات رونے کی کیا ضرورت ہے اور پھر اتنا پانی آنکھوں میں کہاں سے آ جاتا ہے جو ساری رات تکیوں کوسیراب کرتا ہے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے مذاق نہ کیجیے‘‘

’’میں مذاق نہیں کررہا۔ ساری رات کوئی عورت، کوئی مرد رو نہیں سکتا۔ البتہ اونٹ یہ سلسلہ کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے کوہان میں کافی پانی جمع ہوتا ہے، جو آنسو بن بن کے ان کی آنکھوں سے ٹپک سکتا ہے۔ مگر مچھ ہیں، جن کے آنسو مشہور ہیں۔ یہ پانی میں رہتے ہیں اس لیے ان کو متواثر پانی بہانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ میں آبی حیوان یا جانور نہیں، اور نہ تم ہو‘‘

’’آپ تو فلسفہ بکھیرنے لگتے ہیں‘‘

’’فلسفہ کوئی اور چیز ہے، جس کے متعلق تمہارے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو گا۔ میں صرف ایسی باتیں بیان کررہا تھا جو عام آدمی سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، مگر افسوس ہے کہ تم نے انھیں نہ سمجھا اور ان پر فلسفے کا لیبل لگا دیا۔ ‘‘

’’میں جاہل ہوں۔ بیوقوف ہوں۔ ان پڑھ ہوں۔ مجھے یہ سب کچھ تسلیم ہے۔ جانے میری بلا کہ فلسفہ کیا ہے؟ میں تو صرف اتنا پوچھنا چاہتی تھی کہ آپ کے منہ سے وہ گندی گندی بو کیوں آرہی ہے؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔ ہوسکتا ہے، میں نے آج دانت صاف نہ کیے ہوں‘‘

’’غلط ہے ہم دونوں نے اکٹھے صبح غسل خانے میں دانتوں پر برش کیا تھا۔ ٹوتھ پیسٹ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے فوراً نوکر کو بھیجا اور وہ کولی نوس لے کر آیا۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں مجھے یاد آیا‘‘

’’آپ ہوش ہی میں نہیں۔ آپ کی یاد کو اب کب تک جگاتی رہوں گی۔ ‘‘

’’یاد کو چھوڑو کل صبح تم ٹھیک پانچ بجے جگا دینا۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ ‘‘

’’ضروری کام کیا ہے آپ کو؟ شراب کی بوتل کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’بھئی، مدت ہوئی میں اس چیز سے نا آشنا ہو چکا ہوں‘‘

’’آج تو آپ پوری طرح آشنا ہو کے آئے ہیں‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے۔ میں تمہاری قسم کھا کے۔ ‘‘

’’میری قسم آپ نہ کھائیے۔ آپ کیسی بھی قسم کھائیں، مجھے آپ کی کسی بات پریقین نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ شراب پینے کے بعد آپ کی کوئی بات قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’یعنی تم ابھی۔ ‘‘

’’آپ کو یہ ہچکی شروع کیوں ہو گئی۔ ‘‘

’’ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی نہ ہو۔ ‘‘

’’پانی لاؤں؟‘‘

’’نہیں۔ اندر میری الماری میں گلیسرین پڑی ہے، وہ لے آؤ‘‘

’’اس سے کیا ہو گا۔ ‘‘

’’وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔ ‘‘

’’آپ نشے میں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گلیسرین کا استعمال غلط ہو جائے‘‘

’’جاؤ۔ اُس کے چار قطرے فوراً ہچکی بند کر دیں گے۔ ‘‘

’’لیکن آپ کے منہ سے یہ بو کس چیز کی آرہی ہے۔ ‘‘

’’میرے پیچھے۔ کیو۔ کیو۔ کیوں پڑی ہو؟ گلیسرین لاؤ۔ ‘‘

’’لاتی ہوں۔ یہ سب شراب پینے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘

’’کس کم بخت نے پی ہے۔ اگر پی ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا‘‘

’’لے آئی ہو گلیسرین‘‘

’’جی نہیں، وہاں آپ کی بوتل پڑی تھی۔ اُس میں سے یہ تھوڑی سی گلاس میں ڈال کر لے آئی ہوں۔ پانی کا گلاس بھی ساتھ ہے۔ آپ خود جتنا چاہیں اس میں ملا لیجیے۔ میرا خیال ہے گلیسرین سے آپ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا جتنا اس چیز سے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شاہ دولے کا چوہا

سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہو گئے مگر اُس کے اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ماں اور ساس کو بہت فکرتھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات پیدا نہ ہوئی۔ سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہو۔ اُس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیا۔ مگر نتیجہ صفرتھا۔ ایک دن اُس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی۔ اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اُس کی گود میں ایک گل گوتھنا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اُس سے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا

’’فاطمہ تمہارے یہ لڑکا کیسے پیدا ہو گیا۔ ‘‘

فاطمہ اُس سے پانچ سال بڑی تھی۔ اُس نے مسکرا کر کہا۔

’’یہ شاہ دولے صاحب کی برکت ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے کہا کہ اگر تم اولاد چاہتی ہو تو گجرات جاکر شاہ دولے صاحب کے مزار پر منت مانو۔ کہو کہ حضور میرے جو پہلے بچہ ہو گا وہ آپ کی خانقاہ پر چڑھا دوں گی۔ اس نے یہ بھی سلیمہ کو بتایا کہ جب شاہ دولے صاحب کے مزار پر ایسی منت مانی جائے تو پہلا بچہ ایسا ہوتا ہے جس کا سر بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ فاطمہ کی یہ بات سلیمہ کو پسند نہ آئی اور جب اس نے مزید کہاکہ پہلا بچہ اس خانقاہ میں چھوڑ کر آنا پڑتا ہے تو اس کو اور بھی دُکھ ہوا۔ اس نے سوچا کون ایسی ماں ہے جو اپنے بچے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔ اُس کا سر چھوٹا ہو۔ ناک چپٹی ہو۔ آنکھیں بھینگی ہوں۔ لیکن ماں اُس کو گھورے میں نہیں پھینک سکتی وہ کوئی ڈائن ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن اُسے اولاد چاہیے تھی اس لیے وہ اپنی عمر سے زیادہ سہیلی کی بات مان گئی۔ وہ گجرات کی رہنے والی تو تھی ہی جہاں شاہ دولے کا مزار تھا۔ اُس نے اپنے خاوند سے کہا۔

’’فاطمہ مجبور کررہی ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اس لیے آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ ‘‘

اس کے خاوند کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ اس نے کہا۔

’’جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔ ‘‘

وہ فاطمہ کے ساتھ گجرات چلی گئی۔ شاہ دولہ کا مزار جیسا کہ اُس نے سمجھا تھا کوئی عہد عتیق کی عمارت نہیں تھی۔ اچھی خاصی جگہ تھی۔ جو سلیمہ کو پسند آئی۔ مگر جب اُس نے ایک حجرے میں شاہ دولے کے چوہے دیکھے، جن کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا اور ان کا دماغ بالکل ماؤف تھا تو کانپ کانپ گئی۔ ایک جوان لڑکی تھی پورے شباب پر مگر وہ ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آسکتی تھی۔ سلیمہ اُس کودیکھ کرایک لمحے کے لیے ہنسی مگر فوراً ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سوچنے لگی اس لڑکی کا کیا ہو گا۔ یہاں کے مجاور اُسے کسی کے پاس بیچ دیں گے یا بندر بنا کر اُسے شہر بہ شہر پھرائیں گے۔ یہ غریب کی روزی کا ٹھیکرا بن جائے گی۔ اس کا سر بہت چھوٹا تھا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اگر سر چھوٹا ہے تو انسانی فطرت تو اتنی چھوٹی نہیں۔ وہ تو پاگلوں کے ساتھ بھی چمٹی رہتی ہے۔ اس شاہ دولے کی چوہیا کا جسم بہت خوبصورت تھا۔ اُس کی ہر قوس اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھی۔ مگر اُس کی حرکات ایسی تھیں جیسے کسی خاص غرض کے ماتحت اس کے حواس مختل کردیے گئے ہیں۔ وہ اس طریقے سے کھیلتی پھرتی اور ہنستی تھی جیسے کوئی کوک بھرا کھلونا ہو۔ سلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احساسات کے باوجود اُس نے اپنی سہیلی فاطمہ کے کہنے پر شاہ دولا صاحب کے مزار پر منت مانی کہ اگر اس کے بچہ ہوا تو وہ اُن کی نذر کردے گی۔ ڈاکٹری علاج سلیمہ نے جاری رکھا۔ دو ماہ بعد بچے کی پیدائش کے آثار پیدا ہو گئے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ مقررہ وقت پر اُس کے ہاں لڑکا ہوا، بڑا ہی خوبصورت۔ حمل کے دوران میں چونکہ چاند گرہن ہوا تھا اُس لیے اس کے داہنے گال پر ایک چھوٹا سا دھبا تھا جو بُرا نہیں لگتا تھا۔ فاطمہ آئی تو اُس نے کہاکہ اس بچے کو فوراً شاہ دولے صاحب کے حوالے کردینا چاہیے۔ سلیمہ خود یہی مان چکی تھی۔ کئی دنوں تک وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ اس کی ممتا نہیں مانتی تھی کہ وہ اپنا لختِ جگر وہاں پھینک آئے۔ اُس سے کہا گیا تھا کہ شاہ دولے سے جو اولاد مانگتا ہے اُس کے پہلے بچے کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے لڑکے کا سر کافی بڑا تھا۔ اور فاطمہ نے اس سے کہا۔

’’یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تم بہانے کے طور پر استعمال کرسکو۔ تمہارا یہ بچہ شاہ دولے صاحب کی ملکیت ہے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔ اگر تم اپنے وعدہ سے پھر گئیں تو یاد رکھو تم پر ایسا عذاب نازل ہو گا کہ ساری عمر یاد رکھو گی۔ ‘‘

بادل نخواستہ سلیمہ کو اپنا پیارا گل گوتھنا سا بیٹا جس کے داہنے گال پر کالا دھبا تھا۔ گجرات جاکر شاہ دولے کے مزار کے مجاوروں کے حوالے کرنا پڑا۔ وہ اس قدر روئی۔ اُس کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہو گئی۔ ایک برس تک زندگی اورموت کے درمیان معلق رہی۔ اُس کو اپنا بچہ بھولتا ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر اُس کے داہنے گال پر کالا دھبا۔ جس کو اکثر چوما کرتی تھی۔ چونکہ وہ جہاں بھی تھا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس دوران میں اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کو فراموش نہ کیا۔ عجیب عجیب خواب دیکھتی۔ شاہ دولہ اُس کے پریشان تصور میں ایک بڑا چوہا بن کر نمودار ہوتا جو اُس کے گوشت کو اپنے تیز دانوں سے کترتا۔ وہ چیختی اور اپنے خاوند سے

’’مجھے بچائیے ! دیکھئے چوہا میرا گوشت کھا رہا ہے۔ ‘‘

کبھی اس کا مضطرب دماغ یہ سوچتا کہ اس کا بچہ چوہوں کے بل کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ وہ اُس کی دُم کھینچ رہی ہے۔ مگر بِل کے اندر جو بڑ ے بڑے چوہے ہیں انھوں نے اُس کی تھوتھنی پکڑ لی۔ اس لیے وہ اُسے باہر نکال نہیں سکتی۔ کبھی اُس کی نظروں کے سامنے وہ لڑکی آتی جو پورے شباب پر تھی اور جس کو اُس نے شاہ دولے صاحب کے مزار کے ایک حجرے میں دیکھا تھا۔ سلیمہ ہنسنا شروع کردیتی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد رونے لگتی۔ اتنا روتی کے اس کے خاوند نجیب کو سمجھ میں نہ آتا کہ اُس کے آنسو کیسے خشک کرے۔ سلیمہ کو ہر جگہ چوہے نظر آتے تھے۔ بستر پر باورچی خانے میں۔ غسل خانے کے اندر۔ صوفے پر۔ دل میں کانوں میں بعض اوقات تو وہ یہ محسوس کرتی کہ وہ خود چوہیا ہے۔ اُس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا ہے۔ وہ شاہ دولے کے مزار کے ایک حجرے میں اپنا چھوٹا بہت چھوٹا سر اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے ایسی حرکات کررہی ہے کہ دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ اُس کی حالت قابل رحم تھی۔ اُس کو فضا میں دھبے ہی دھبے نظر آتے۔ جیسے ایک بہت بڑا گال ہے جس پرسورج بجھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکے جگہ جگہ جم گیا ہے۔ بخار ہلکا ہوا تو سلیمہ کی طبیعت کسی قدر سنبھل گئی نجیب بھی قدرے مطمئن ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی علالت کا باعث کیا ہے۔ لیکن وہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اُس کواپنی پہلی اولاد کو بھینٹ چڑھائے جانے کا کوئی احساس نہیں تھا۔ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اسے مناسب سمجھتا تھا۔ بلکہ وہ تو یہ سوچتا تھا کہ اس کے جو بیٹا ہوا تھا وہ اس کا نہیں شاہ دولے صاحب کا تھا۔ جب سلیمہ کا بخار اتر گیا اور اس کے دل و دماغ کا طوفان ٹھنڈا پڑگیا تو نجیب نے اُس سے کہا

’’میری جان۔ اپنے بچے کو بھول جاؤ۔ وہ صدقے کا تھا۔ ‘‘

سلیمہ نے بڑے زخم خوردہ لہجے میں کہا۔

’’میں نہیں مانتی۔ ساری عمر اپنی ممتا پر لعنتیں بھیجتی رہوں گی کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا کہ اپنا لختِ جگر اس کے مجاورں کے حوالے کردیا۔ یہ مجاور ماں تو نہیں ہوسکتے۔ ‘ ایک دن وہ غائب ہو گئی۔ سیدھی گجرات پہنچی۔ ساتھ آٹھ روز وہاں رہی۔ اپنے بچے کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر کوئی اتا پتہ نہ ملا مایوس ہوکر واپس آگئی۔ اپنے خاوند سے کہا۔

’’میں اب اسے یاد نہیں کروں گی۔ ‘‘

یاد تو وہ کرتی رہی۔ لیکن دل ہی دل میں اس کے بچے کے داہنے گال کا دھبا اُس کے دل کا داغ بن کر رہ گیا تھا۔ ایک برس کے بعداُس کے لڑکی ہوئی۔ اس کی شکل اُس کے پہلوٹھی کے بچے سے بہت ملتی جلتی تھی۔ اس کے داہنے گال پر داغ نہیں تھا اس کا نام اس نے مجیب رکھا کیونکہ اپنے بیٹے کا نام اُس نے مجیب سوچا تھا۔ جب وہ دو مہینے کی ہوئی تو اُس نے اس کو گود میں اٹھایا اور سرمہ دانی سے تھوڑا سا سرمہ نکال کر اس کے داہنے گال پرایک بڑا ساتل بنا دیا اور مجیب کو یاد کر کے رونے لگی۔ اُس کے آنسو بچی کی گالوں پر گرے تو اُس نے اپنے دوپٹے سے پونچھے اور ہنسنے لگی۔ وہ کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اپنا صدمہ بھول جائے۔ اس کے بعد سلیمہ کے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اُس کا خاوند اب بہت خوش تھا۔ ایک بار سلیمہ کو کسی سہیلی کی شادی کے موقع پر گجرات جانا پڑا تو اُس نے ایک بار پھر مجیب کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر اُسے ناکامی ہوئی۔ اس نے سوچا شاید مر گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے جمعرات کو فاتحہ خوانی بڑے اہتمام سے کرائی۔ اڑوس پڑوس کی سب عورتیں حیران تھی کہ یہ کس کی مرگ کے سلسلے میں اتنا تکلف کیا گیا ہے۔ بعض نے سلیمہ سے پوچھا بھی، مگر اُس نے کوئی جوا ب نہ دیا۔ شام کو اس نے اپنی دس برس کی لڑکی مجیبہ کا ہاتھ پکڑا۔ اندر کمرے میں لے گئی۔ سرے سے اُس کے داہنے گال پر بڑا سا دھبا بنایا اور اُس کو دیر تک چومتی رہی۔ وہ مجیب ہی کو اپنا گم شدہ مجیب سمجھتی تھی۔ اب اُس کے متعلق سوچنا چھوڑدیا، اس لیے کہ اُس کی فاتحہ خوانی کرانے کے بعد اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنے تصور میں ایک قبر بنا لی تھی۔ جس پر وہ تصور ہی میں پھول بھی چڑھایا کرتی۔ اس کے تین بچے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو ہر صبح سلیمہ تیار کرتی۔ ان کے لیے ناشتہ بنواتی۔ ہر ایک کو بناتی سنوارتی۔ جب وہ چلے جاتے تو ایک لحظہ کے لیے اسے اپنے مجیب کا خیال آتا کہ وہ اس کی فاتحہ خوانی کرا چکی تھی۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر بھی اُس کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ مجیب کے داہنے گال کا سیاہ دھبا اُس کے دماغ میں موجود ہے۔ ایک دن اُس کے تینوں بچے بھاگے بھاگے آئے اور کہنے لگے

’’امی ہم تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

اُس نے بڑی شفقت سے پوچھا۔

’’کیسا تماشا؟‘‘

اس لڑکی نے جو سب سے بڑی تھی کہا

’’امی جان ایک آدمی ہے وہ تماشا دکھاتا ہے۔ ‘‘

سلیمہ نے کہا۔

’’جاؤ اُس کو بُلا لاؤ۔ مگر گھر کے اندر نہ آئے۔ باہر تماشا کرے۔ ‘‘

بچے بھاگے ہوئے گئے اور اُس آدمی کو بُلا لائے اور تماشا دیکھتے رہے۔ جب یہ ختم ہو گیا تو مجیبہ اپنی ماں کے پاس گئی کہ پیسے دے دو۔ ماں نے اپنے پرس سے چونی نکالی اور باہر برآمدے میں گئی۔ دروازے کے پاس پہنچی تو شاہ دولہ کا ایک چوہا کھڑا عجیب احمقانہ انداز میں اپنا سر ہلا رہا تھا سلیمہ کو ہنسی آگئی۔ دس بارہ بچے اُس کے گرد جمع تھے جو بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ اتنا شور مچا تھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ سلیمہ چونی ہاتھ میں لیے آگے بڑھی اور اُس نے شاہ دولے کے اُس چوہے کو دینا چاہی تو اُس کا ہاتھ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا۔ اُس چوہے کے داہنے گال پر سیاہ داغ تھا۔ سلیمہ نے غور سے اُس کی طرف دیکھا۔ اس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا۔ مجیبہ نے جو اُس کے پاس کھڑی تھی، اپنی ماں سے کہا۔

’’یہ۔ یہ چوہا۔ امی جان اس کی شکل مجھ سے کیوں ملتی ہے۔ میں بھی کیا چوہیا ہوں۔ ‘‘

سلیمہ نے اس شاہ دولے کے چوہے کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی۔ دروازے بند کرکے اُس کو چوما۔ اُس کی بلائیں لیں۔ وہ اس کا مجیب تھا۔ لیکن وہ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتا تھا کہ سلیمہ کے غم واندوہ میں ڈُوبے ہوئے دل میں بھی ہنسی کے آثار نمودار ہو جاتے۔ اُس نے مجیب سے کہا۔

’’بیٹے میں تیری ماں ہوں۔ ‘‘

شاہ دولے کا چوہا بڑے بے ہنگم طور پر ہنسا۔ اپنی ناک کی رینٹھ آستین سے پونچھ کر اُس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا

’’ایک پیسہ۔ ‘‘

ماں نے اپنا پرس کھولا۔ مگر اُس کی آنکھیں اپنی ساری نہریں، اس سے پہلے ہی کھول چکی تھیں۔ اُس نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور باہر جاکر اُس آدمی کو دیا۔ جو اُس کو تماشا بنائے ہوئے تھا۔ اس نے انکار کردیا کہ اتنی کم قیمت پر اپنی روزی کے ذریعے کو نہیں بیچ سکتا۔ سلیمہ نے اُسے بالآخر پانچ سو روپوں پر راضی کرلیا۔ یہ رقم ادا کر کے جب وہ اندر آئی تو مجیب غائب تھا، ۔ مجیبہ نے اُس کو بتایا کہ وہ پچھواڑے سے باہر نکل گیا ہے۔ سلیمہ کی کوکھ پکارتی رہی کہ مجیب واپس آجاؤ، مگر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا۔

سعادت حسن منٹو

شانتی

دو نوں پیرے ژین ڈیری کے باہر بڑے دھاریوں والے چھاتے کے نیچے کرسیوں پربیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ادھر سمندر تھا جس کی لہروں کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ چائے بہت گرم تھی۔ اس لیے دونوں آہستہ آہستہ گھونٹ بھر رہے تھے موٹی بھوروں والی یہودن کی جانی پہچانی صورت تھی۔ یہ بڑا گول مٹول چہرہ، تیکھی ناک۔ موٹے موٹے بہت ہی زیادہ سرخی لگے ہونٹ۔ شام کو ہمیش درمیان والے دروازے کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ مقبول نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بلراج سے کہا۔

’’بیٹھی ہے جال پھینکنے۔ ‘‘

بلراج موٹی بھوؤں کی طرف دیکھے بغیر بولا۔

’’پھنس جائے گی کوئی نہ کوئی مچھلی۔ ‘‘

مقبول نے ایک پیسٹری منہ میں ڈالی۔

’’یہ کاروبار بھی عجیب کاروبارہے۔ کوئی دکان کھول کر بیٹھتی ہے۔ کوئی چل پھر کے سودا بیچتی ہے۔ کوئی اس طرح ریستورانوں میں گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ جسم بیچنا بھی ایک آرٹ ہے، اور میرا خیال ہے بہت مشکل آرٹ ہے۔ یہ موٹی بھوؤں والی کیسے گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کیسے کسی مرد کو یہ بتاتی ہو گی کہ وہ بکاؤ ہے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’کسی روز وقت نکالو کہ کچھ دیر یہاں بیٹھو۔ تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ نگاہوں ہی نگاہوں میں کیوں کر سودے ہوتے ہیں اس جنس کا بھاؤ کیسے چُکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک مقبول کا ہاتھ پکڑا۔

’’اُدھر دیکھو، اُدھر۔ ‘‘

مقبول نے موٹی یہودن کی طرف دیکھا۔ بلراج نے اس کا ہاتھ دبایا۔

’’نہیں یار۔ اُدھر کونے کے چھاتے کے نیچے دیکھو۔ ‘‘

مقبول نے ادھر دیکھا۔ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لڑکی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے۔ ناک نقشہ ٹھیک تھا۔ ہلکے زرد رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ مقبول نے بلراج سے پوچھا۔

’’کون ہے یہ لڑکی؟‘‘

بلراج نے اس لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’اماں وہی ہے جس کے بارے میں تم سے کہا تھا کہ بڑی عجیب و غریب ہے۔ ‘‘

مقبول نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔

’’کون سی یار تم، تم تو جس لڑکی سے بھی ملتے ہوعجیب وغریب ہی ہوتی ہے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’یہ بڑی خاص الخاص ہے۔ ذرا غور سے دیکھو۔ ‘‘

مقبول نے غور سے دیکھا۔ بریدہ بالوں کا رنگ بھوسلا تھا۔ ہلکے بسنتی رنگ کی ساڑھی کے نیچے چھوٹی آستینوں والا بلاؤز۔ پتلی پتلی بہت ہی گوری بانھیں۔ لڑکی نے اپنی گردن موڑی تو مقبول نے دیکھا کہ اس کے باریک ہونٹوں پر سرخی پھیلی ہوئی سی تھی۔

’’میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر تمہاری اس عجیب و غریب لڑکی کو سرخی استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ اب اور غور سے دیکھا ہے تو ساڑھی کی پہناوٹ میں بھی خامیاں نظر آئی ہیں۔ بال سنوارنے کا انداز بھی ستھرا نہیں۔ ‘‘

بلراج ہنسا۔

’’تم صرف خامیاں ہی دیکھتے ہو۔ اچھائیوں پر تمہاری نگاہ کبھی نہیں پڑتی۔ ‘‘

مقبول نے کہا۔

’’جو اچھائیاں ہیں وہ اب بیان فرما دیجیے، لیکن پہلے یہ بتا دیجیے کہ آپ اس لڑکی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا۔ ‘‘

لڑکی نے جب بلراج کو دیکھا تو مسکرائی۔ مقبول رک گیا۔

’’مجھے جواب مل گیا۔ اب آپ محترمہ کی خوبیاں بتا دیجیے۔ ‘‘

سب سے پہلی خوبی اس لڑکی میں یہ ہے کہ بہت صاف گو ہے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ جو اس اس نے اپنے لیے بنا رکھے ہیں ان پر بڑی پابندی سے عمل کرتی ہے۔ پرسنل ہائی جین کا بہت خیال رکھتی ہے۔ محبت و حبت کی بالکل قائل نہیں۔ اس معاملے میں دل اس کا برف ہے۔ ‘‘

بلراج نے چاہیے کا آخری گھونٹ پیا

’’کہیے کیا خیال ہے؟‘‘

مقبول نے لڑکی کو ایک نظر دیکھا۔

’’جو خوبیاں تم نے بتائی ہیں ایک ایسی عورت میں نہیں ہونی چاہئیں۔ جس کے پاس مرد صرف اس خیال سے جاتے ہیں کہ وہ ان سے اصلی نہیں تو مصنوعی محبت ضرور کرے گی۔ خود فریبی ہیں اگر یہ لڑکی کسی مرد کی مدد نہیں کرتی تو میں سمجھتا ہوں بڑی بے وقوف ہے۔ ‘‘

’’یہی میں نے سوچا تھا۔ میں تم سے کیا بیان کروں، روکھے پن کی حد تک صاف گو ہے۔ اس سے باتیں کرو توکئی بار دھکے سے لگتے ہیں۔ ایک گھنٹہ ہو گیا۔ تم نے کھلی کوئی کام کی بات نہیں کی۔ میں چلی، اور یہ جا وہ جا۔ تمہارے منہ سے شراب کی بو آتی ہے۔ جاؤ چلے جاؤ۔ ساڑھی کو ہاتھ مت لگاؤ میلی ہو جائے گی‘‘

یہ کہہ کر بلراج نے سگریٹ سلگایا۔

’’عجیب و غریب لڑکی ہے۔ پہلی دفعہ جب اس سے ملاقات ہوئی تو میں بائی گوڈ چکرا گیا۔ چھوٹتے ہی مجھ سے کہا۔ ففٹی سے ایک پیسہ کم نہیں ہو گا۔ جیب میں ہیں تو چلو ورنہ مجھے اور کام ہیں۔ ‘‘

مقبول نے پوچھا۔

’’نام کیا ہے اس کا۔ ‘‘

’’شانتی بتایا اس نے۔ کشمیرن ہے‘‘

مقبول کشمیری تھا۔ چونک پڑا

’’کشمیرن!‘‘

’’تمہاری ہم وطن۔ ‘‘

مقبول نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ ناک نقشہ صاف کشمیریوں کا تھا۔

’’یہاں کیسے آئی؟‘‘

’’معلوم نہیں!‘‘

’’کوئی رشتے دار ہے اس کا؟‘‘

مقبول لڑکی میں دلچسپی لینے لگا۔

’’وہاں کشمیر میں کوئی ہو تو میں کہہ نہیں سکتا۔ یہاں بمبئی میں اکیلی رہتی ہے۔ ‘‘

بلراج نے سگریٹ ایش ٹرے میں دبایا

’’ہاربنی روڈ یر ایک ہوٹل ہے، وہاں اس نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے۔ یہ مجھے ایک روز اتفاقاً معلوم ہو گیا ورنہ یہ اپنے ٹھکانے کا پتا کسی کو نہیں دیتی۔ جس کو ملنا ہوتا ہے یہاں پیرے ژین ڈیری میں چلا آتا ہے۔ شام کو پورے پانچ بجے آتی ہے یہاں!‘‘

مقبول کچھ دیرخاموش رہا۔ پھر بیرے کو اشارے سے بلایا اور اس سے بل لانے کے لیے کہا۔ اس دوران میں ایک خوش پوش نوجوان آیا اور اس لڑکی کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ مبقول بلراج سے مخاطب ہوا۔

’’اس سے کبھی ملاقات کرنی چاہیے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’ضرور ضرور۔ لیکن اس وقت نہیں۔ مصروف ہے۔ کبھی آجانا یہاں شام کو۔ اور ساتھ بیٹھ جانا۔ ‘‘

مقبول نے بل ادا کیا۔ دونوں دوست اٹھ کر چلے گئے۔ دوسرے روز مقبول اکیلا آیا اور چائے کا آرڈر دے کر بیٹھ گیا۔ ٹھیک پانچ بجے وہ لڑکی بس سے اتری اور پرس ہاتھ میں لٹکائے مقبول کے پاس سے گزری۔ چال بھدی تھی۔ جب وہ کچھ دور، کرسی پر بیٹھ گئی تو مقبول نے سوچا۔

’’اس میں جنسی کشش تو نام کو بھی نہیں۔ حیرت ہے کہ اس کا کاروبار کیونکر چلتا ہے۔ لپ اسٹک کیسے بے ہودہ طریقے سے استعمال کی ہے اس نے۔ ساڑھی کی پہناوٹ آج بھی خامیوں سے بھری ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ اس سے کیسے ملے۔ اس کی چائے میز پر آچکی تھی ورنہ اٹھ کر وہ اس لڑکی کے پاس جا بیٹھتا۔ اس نے چائے پینا شروع کردی۔ اس دوران میں اس نے ایک ہلکا سا اشارہ کیا۔ لڑکی نے دیکھا کچھ توقف کے بعد اٹھی اور مقبول کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مقبول پہلے تو کچھ گھبرایا لیکن فوراً ہی سنبھل کر لڑکی سے مخاطب ہوا۔

’’چائے شوق فرمائیں گی آپ۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

اس کے جوابوں کے اس اختصار میں روکھا پن تھا۔ مبقول نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔

’’کشمیریوں کو تو چائے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ‘‘

لڑکی نے بڑے بے ہنگم انداز میں پوچھا۔

’’تم چلنا چاہتے ہو میرے ساتھ۔ ‘‘

مقبول کو جیسے کسی نے اوندھے منہ گرا دیا۔ گھبراہٹ میں وہ صرف اس قدر کہہ سکا۔

’’ہا۔ ‘‘

لڑکی نے کہا۔

’’ففٹی روپیز۔ یس اور نو؟‘‘

یہ دوسرا ریلا تھا مگر مبقول نے اپنے قدم جما لیے

’’چلیے!‘‘

مقبول نے چائے کا بل ادا کیا۔ دونو اٹھ کر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں اس نے کوئی بات نہ کی۔ لڑکی بھی خاموش رہی۔ ٹیکسی میں بیٹھے تو اس نے مقبول سے پوچھا۔

’’کہاں جائے گا تم؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔

’’جہاں تم لے جاؤ گی۔ ‘‘

’’ہم کچھ نہیں جانتا۔ تم بولو کدھر جائے گا؟‘‘

مقبول کو کوئی اور جواب نہ سوجھا تو کہا۔

’’ہم کچھ نہیں جانتا!‘‘

لڑکی نے ٹیکسی کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

’’تم کیسا آدمی ہے۔ خلی پیلی جوک کرتا ہے۔ ‘‘

مقبول نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

’’میں مذاق نہیں کرتا۔ مجھے تم سے صرف باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

وہ بگڑ کربولی

’’کیا۔ تم تو بولا تھا ففٹی روپیز یس!‘‘

مقبول نے جیب میں ہاتھ ڈ الا اور دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے۔

’’یہ لو گھبراتی کیوں ہو۔ ‘‘

اس نے نوٹ لے لیے۔

’’تم جائے گا کہاں۔ ‘‘

مقبول نے کہا۔

’’تمہارے گھر۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں نہیں۔ ‘‘

’’تم کو بولا ہے نہیں۔ ادھر ایسی بات نہیں ہو گی۔ ‘‘

مقبول مسکرایا۔

’’ٹھیک ہے۔ ایسی بات ادھر نہیں ہو گی۔ ‘‘

وہ کچھ متحیر سی ہوئی۔

’’تم کیسا آدمی ہے۔ ‘‘

’’جیسا میں ہوں۔ تم نے بولا ففٹی روپیز یس کہ نو۔ میں نے کہا یس اور نوٹ تمہارے حوالے کردیے۔ تم نے بولا اُدھر ایسی بات نہیں ہو گی۔ میں نے کہا بالکل نہیں ہو گی۔ اب اور کیا کہتی ہو۔ ‘‘

لڑکی سوچنے لگی۔ مقبول مسکرایا۔

’’دیکھو شانتی، بات یہ ہے۔ کل تم کو دیکھا۔ ایک دوست نے تمہاری کچھ باتیں سنائیں جو مجھے دلچسپ معلوم ہوئیں۔ آج میں نے تمہیں پکڑ لیا۔ اب تمہارے گھر چلتے ہیں۔ وہاں کچھ دیر تم سے باتیں کروں گا اور چلا جاؤں گا۔ کیا تمہیں یہ منظور نہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ یہ لو اپنے ففٹی روپیز۔ ‘‘

لڑکی کے چہرے پر جھنجلاہٹ تھی۔

’’تمہیں بس ففٹی روپیز کی پڑی ہے۔ روپے کے علاوہ بھی دنیا میں اور بہت سی چیزیں ہیں۔ چلو، ڈرائیور کو اپنا اڈریس بتاؤ۔ میں شریف آدمی ہوں۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کرونگا۔ ‘‘

مقبول کے انداز گفتگو میں صداقت تھی۔ لڑکی متاثر ہوئی۔ اس نے کچھ دیر سوچا پھرکہا۔

’’چلو۔ ڈرائیور، ہاربنی روڈ!‘‘

ٹیکسی چلی تو اس نے نوٹ مقبول کی جیب میں ڈال دیے۔

’’یہ میں نہیں لوں گی۔ ‘‘

مقبول نے اصرار نہ کیا۔

’’تمہاری مرضی!‘‘

ٹیکسی ایک پانچ منزلہ بلڈنگ کے پاس رکی۔ پہلی اور دوسری منزل پر مساس خانے تھے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل ہوٹل کے لیے مخصوص تھی۔ بڑی تنگ و تار جگہ تھی۔ چوتھی منزل پر سیڑھیوں کے سامنے والا کمرہ شانتی کا تھا۔ اس نے پرس سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ بہت مختصر سامان تھا۔ لوہے کا ایک پلنگ جس پر اجلی چادر بچھی تھی۔ کونے میں ڈرسنگ ٹیبل۔ ایک اسٹول، اس پر ٹیبل فین۔ چار ٹرنک تھے وہ پلنگ کے نیچے دھرے تھے۔ مقبول کمرے کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ ہر چیز صاف ستھری تھی۔ تکیے کے غلاف عام طور پر میلے ہوتے ہیں مگر اس کے دونوں تکیے بے داغ غلافوں میں ملفوف تھے۔ مقبول پلنگ پر بیٹھنے لگا تو شانتی نے اسے روکا۔

’’نہیں۔ ادھر بیٹھنے کا اجازت نہیں۔ ہم کسی کو اپنے بستر پر نہیں بیٹھنے دیتا۔ کرسی پر بیٹھو یہ کہہ کروہ خود پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول مسکرا کر کرسی پر ٹک گیا۔ شانتی نے اپنا پرس تکیے کے نیچے رکھا اور مقبول سے پوچھا۔

’’بولو۔ کیا باتیں کرنا چاہتے ہو؟‘‘

مقبول نے شانتی کی طرف غور سے دیکھا۔

’’پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانی بالکل نہیں آتی۔ ‘‘

شانتی نے برا نہ مانا۔ صرف اتنا کہا۔

’’مجھے مالوم ہے۔ ‘‘

’’اٹھو۔ مجھے لپ اسٹک دو میں تمہیں سکھاتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر مقبول نے اپنا رومال نکالا۔ شانتی نے اس سے کہا۔

’’ڈرسنگ ٹیبل پر پڑا ہے، اٹھا لو۔ ‘‘

مقبول نے لپ اسٹک اٹھائی۔ اسے کھول کر دیکھا۔

’’ادھر آؤ، میں تمہارے ہونٹ پونچھوں۔ ‘‘

’’تمہارے رومال سے نہیں۔ میرا لو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ٹرنک کھولا اور ایک دھلا ہوا رومال مقبول کو دیا۔ مقبول نے اس کے ہونٹ پونچھے۔ بڑی نفاست سے نئی سرخی ان پر لگائی۔ پھر کنگھی سے اس کے بال ٹھیک کیے اور کہا۔

’’لو اب آئینہ دیکھو۔ ‘‘

شانتی اٹھ کر ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ بڑے غور سے اس نے اپنے ہونٹوں اور بالوں کا معائنہ کیا۔ پسندیدہ نظروں سے تبدیلی محسوس کی اور پلٹ کر مقبول سے صرف اتنا کہا۔

’’اب ٹھیک ہے‘‘

پھر پلنگ پر بیٹھ کر پوچھا۔

’’تمہارا کوئی بیوی ہے؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی۔ مقبول چاہتا تھا باتیں ہوں چنانچہ اس نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

’’اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ تم کشمیر کی رہنے والی ہو۔ تمہارا نام شانتی ہے۔ یہاں رہتی ہو۔ یہ بتاؤ تم نے ففٹی روپیز کا معاملہ کیوں شروع کیا؟‘‘

شانتی نے یہ بے تکلف جواب دیا۔

’’میرا فادر سری نگر میں ڈاکٹر ہے۔ میں وہاں ہوسپیٹل میں نرس تھا۔ ایک لڑکے نے مجھ کو خراب کردیا۔ میں بھاگ کر ادھر کو آگئی۔ یہاں ہم کو ایک آدمی ملا۔ وہ ہم کو ففٹی روپیز دیا۔ بولا ہمارے ساتھ چلو۔ ہم گیا۔ بس کام چالو ہو گیا۔ ہم یہاں ہوٹل میں آگیا۔ پرہم ادھر کسی سے بات نہیں کرتی۔ سب رنڈی لوگ ہے۔ کسی کو یہاں نہیں آنے دیتی۔ ‘‘

مقبول نے کرید کرید کر تمام واقعات معلوم کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ کچھ اور باتیں ہوئیں جن سے اسے پتا چلا کہ شانتی کو جنسی معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جب اس کا ذکر آیا تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔

’’آئی ڈونٹ لائک۔ یِٹ از بیڈ۔ ‘‘

اس کے نزدیک ففٹی روپیز کا معاملہ ایک کاروباری معاملہ تھا۔ سرینگر کے ہسپتال میں جب کسی لڑکے نے اس کو خراب کیا تو جاتے وقت دس روپے دینا چاہے۔ شانتی کو بہت غصہ آیا۔ نوٹ پھاڑ دیا۔ اس واقعے کا اس کے دماغ پر یہ اثر ہوا کہ اس نے باقاعدہ کاروبار شروع کردیا۔ پچاس روپے فیس خود بخود مقرر ہو گئی۔ اب لذت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ چونکہ نرس رہ چکی تھی اس لیے بڑی محتاط رہتی تھی۔ ایک برس ہو گیا تھا اسے بمبئی میں آئے ہوئے۔ اس دوران میں اس نے دس ہزار روپے بچائے ہوتے مگر اس کو ریس کھیلنے کی لت پڑ گئی۔ پچھلی ریسوں پر اس کے پانچ ہزار اڑ گئے لیکن اس کو یقین تھا کہ وہ نئی ریسوں پر ضرور جیتے گی۔

’’ہم اپنا لوس پورا کرلے گا۔ ‘‘

اس کے پاس کوڑی کڑوی کا حساب موجود تھا۔ سو روپے ر وزانہ کما لیتی تھی جو فوراً بنک میں جمع کرا دیے جاتے تھے۔ سو سے زیادہ وہ نہیں کمانا چاہتی تھی۔ اس کو اپنی صحت کا بہت خیال تھا۔ دو گھنٹے گزر گئے تو اس نے پانی گھڑی دیکھی اور مقبول سے کہا۔

’’تم اب جاؤ۔ ہم کھانا کھائے گا اور سو جائے گا۔ ‘‘

مقبول اٹھ کر جانے لگا تو اس نے کہا۔

’’باتیں کرنے آؤ تو صبح کے ٹائم آؤ۔ شام کے ٹائم ہمارا نقصان ہوتی ہے۔ ‘‘

مقبول نے

’’اچھا‘‘

کہا اور چل دیا۔ دوسرے روز صبح دس بجے کے قریب مقبول شانتی کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی آمد پسند نہیں کرے گی مگر اس نے کوئی ناگواری ظاہر نہ کی۔ مقبول دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا۔ اس دوران میں شانتی کو صحیح طریقے پر ساڑھی پہننی سکھائی۔ لڑکی ذہین تھی۔ جلدی سیکھ گئی۔ کپڑے اس کے پاس کافی تعداد میں اور اچھے تھے۔ یہ سب کے سب اس نے مقبول کو دکھائے۔ اس میں بچپنا تھا نہ بڑھاپا۔ شباب بھی نہیں تھا۔ وہ جیسے کچھ بنتے بنتے ایک دم رک گئی تھی، ایک ایسے مقام پر ٹھہر گئی تھی جس کے موسم کا تعین نہیں ہوسکتا۔ وہ خوبصورت تھی نہ بدصورت، عورت تھی نہ لڑکی۔ وہ پھول تھی نہ کلی۔ شاخ تھی نہ تنا۔ اس کو دیکھ کر بعض اوقات مقبول کو بہت الجھن ہوتی تھی۔ وہ اس میں وہ نقطہ دیکھنا چاہتا تھا۔ جہاں اس نے غلط ملط ہونا شروع کیا تھا۔ شانتی کے متعلق اور زیادہ جاننے کے لیے مقبول نے اس سے ہر دوسرے تیسرے روز ملنا شروع کردیا۔ وہ اس کی کوئی خاطر مدارت نہیں کرتی تھی۔ لیکن اب اس نے اس کو اپنے صاف ستھرے بستر پر بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ ایک دن مقبول کو بہت تعجب ہوا جب شانتی نے اس سے کہا۔

’’تم کوئی لڑکی مانگتا؟‘‘

مقبول لیٹا ہوا تھا چونک کر اٹھا۔

’’کیا کہا؟‘‘

شانتی نے کہا۔

’’ہم پوچھتی، تم کوئی لڑکی مانگتا تو ہم لا کر دیتا۔ ‘‘

مقبول نے اس سے دریافت کیا کہ یہ بیٹھے بیٹھے اسے کیا خیال آیا۔ کیوں اس نے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہو گئی۔ مقبول نے اصرار کیا تو شانتی نے بتایا کہ مقبول اسے ایک بیکار عورت سمجھتا ہے۔ اس کو حیرت ہے کہ مرد اس کے پاس کیوں آتے ہیں جبکہ وہ اتنی ٹھنڈی ہے۔ مقبول اس سے صرف باتیں کرتا ہے اور چلا جاتاہے۔ وہ اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ آج اس نے سوچا، مجھ جیسی ساری عورتیں تو نہیں مقبول کو عورت کی ضرورت ہے، کیوں نہ وہ اسے ایک منگا دے۔ مقبول نے پہلی بار شانتی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ ایک دم وہ اٹھی اور چلانے لگی

’’ہم کچھ بھی نہیں ہے۔ جاؤ چلے جاؤ۔ ہمارے پاس کیوں آتا ہے تم۔ جاؤ۔ ‘‘

مقبول نے کچھ نہ کہا۔

’’خاموشی سے اٹھا اور چلا گیا۔ ‘‘

متواتر ایک ہفتہ دوپیرے ژین ڈیری جاتا رہا۔ مگر شانتی دکھائی نہ دی۔ آخر ایک صبح اس نے اس کے ہوٹل کا رخ کیا۔ شانتی نے دروازہ کھول دیا مگر کوئی بات نہ کی۔ مقبول کرسی پر بیٹھ گیا۔ شانتی کے ہونٹوں پر سرخی پرانے بھدے طریقے پر لگی تھی۔ بالوں کا حال بھی پرانا تھا۔ ساڑھی کی پہناوٹ تو اور زیادہ بدزیب تھی۔ مقبول اس سے مخاطب ہوا۔

’’مجھ سے ناراض ہو تم؟‘‘

شانتی نے جواب نہ دیا اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول نے تند لہجے میں پوچھا۔

’’بھول گئیں جو میں نے سکھایا تھا؟‘‘

شانتی خاموش رہی۔ مقبول نے غصے میں کہا۔

’’جواب دو ورنہ یاد رکھو ماروں گا۔ ‘‘

شانتی نے صرف اتنا کہا۔

’’مارو۔ ‘‘

مقبول نے اٹھ کر ایک زور کا چانٹا اس کے منہ پر جڑ دیا۔ شانتی بلبلا اٹھی۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ مقبول نے جیب سے اپنا رومال نکالا۔ غصے میں اس کے ہونٹوں کی بھدی سرخی پونچھی۔ اس نے مزاحمت کی لیکن مقبول اپنا کام کرتا رہا۔ لپ اسٹک اٹھا کر نئی سرخی لگائی۔ کنگھے سے اس کے بال سنوارے، پھر اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’ساڑھی ٹھیک کرو اپنی۔ ‘‘

شانتی اٹھی اور ساڑھی ٹھیک کرنے لگی مگر ایک دم اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا اور روتی روتی خود کو بستر پرگرا دیا۔ مقبول تھوڑی دیر خاموش رہا۔ جب شانتی کے رونے کی شدت کچھ کم ہوئی تو اس کے پاس جا کر کہا۔

’’شانتی اٹھو۔ میں جارہا ہوں۔ ‘‘

شانتی نے تڑپ کر کروٹ بدلی اور چلائی۔

’’نہیں نہیں۔ تم نہیں جاسکتے۔ ‘‘

اور دونوں بازو پھیلا کر دروازے کے درمیان میں کھڑی ہو گئی۔

’’تم گیا تو مار ڈالوں گی۔ ‘‘

وہ ہانپ رہی تھی۔ اس کا سینہ جس کے متعلق مقبول نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا جیسے گہری نیند سے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مقبول کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے شانتی نے تلے اوپر بڑی سرعت سے کئی رنگ بدلے۔ اس کی نمناک آنکھیں چمک رہی تھیں۔ سرخی لگے باریک ہونٹ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔ ایک دم آگے بڑھ کر مقبول نے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ دونوں پلنگ پر بیٹھے تو شانتی نے اپنا سر نیوڑھا کر مقبول کی گود میں ڈال دیا۔ اس کے آنسو بند ہونے ہی میں نہ آتے تھے۔ مقبول نے اس کو پیار کیا۔ رونا بند کرنے کے لیے کہا تو وہ آنسوؤں میں اٹک اٹک کر بولی

’’ادھر سرینگر میں۔ ایک آدمی نے۔ ہم کو مار دیا تھا۔ ادھر ایک آدمی نے۔ ہم کو زندہ کردیا۔ ‘‘

دو گھنٹے کے بعد جب مقبول جانے لگا تو اس نے جیب سے پچاس روپے نکال کر شانتی کے پلنگ پر رکھے اور مسکرا کہا۔

’’یہ لو اپنے ففٹی روپیز!‘‘

شانتی نے بڑے غصے اور بڑی نفرت سے نوٹ اٹھائے اور پھینک دیے۔ پھر اس نے تیزی سے اپنی ڈرسنگ ٹیبل کا ایک دروازہ کھولا اور مقبول سے کہا۔

’’ادھر آؤ۔ دیکھو یہ کیا ہے؟‘‘

مقبول نے دیکھا۔ دراز میں سو سو کے کئی نوٹوں کے ٹکڑے پڑے تھے۔ مٹی بھر کے شانتی نے اٹھائے اور ہوا میں اچھالے۔

’’ہم اب یہ نہیں مانگتا!‘‘

مقبول مسکرایا۔ ہولے سے اس نے شانتی کے گال پر چھوٹی سی چپت لگائی اور پوچھا:

’’اب تم کیا مانگتا ہے!‘‘

شانتی نے جواب دیا۔

’’تم کو‘‘

یہ کہہ کر وہ مقبول کے ساتھ چمٹ گئی اور رونا شروع کردیا۔ مقبول نے اس کے بال سنوارتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔

’’روؤ نہیں۔ تم نے جو مانگا ہے وہ تمہیں مل گیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شاردا

نذیر بلیک مارکیٹ سے وسکی کی بوتل لانے گیا۔ بڑک ڈاک خانے سے کچھ آگے بندر گاہ کے پھاٹک سے کچھ ادھر سگرٹ والے کی دکان سے اس کو اسکوچ مناسب داموں پر مل جاتی تھی۔ جب اس نے پینتیس روپے ادا کرکے کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل لی تو اس وقت گیارہ بجے تھے دن کے۔ یوں تو وہ رات کو پینے کا عادی تھا مگر اس روز موسم خوشگوار ہونے کے باعث وہ چاہتا تھا کہ صبح ہی سے شروع کردے اور رات تک پیتا رہے۔ بوتل ہاتھ میں پکڑے وہ خوش خوش گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ بوری بندر کے اسٹینڈ سے ٹیکسی لے گا۔ ایک پیگ اس میں بیٹھ کر پیئے گا اور ہلکے ہلکے سرور میں گھر پہنچ جائے گا۔ بیوی منع کرے گی تو وہ اس سے کہے گا۔

’’موسم دیکھ کتنا اچھا۔ ‘‘

پھر وہ اسے وہ بھونڈا سا شعر سنائے گا ؂ کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند جو گناہ کیجیے ثواب ہے آج وہ کچھ دیر ضرور چخ کرے گی، لیکن بالآخر خاموش ہو جائے گی اور اس کے کہنے پر قیمے کے پراٹھے بنانا شروع کردے گی۔ دکان سے بیس پچیس گز دور گیا ہو گا کہ ایک آدمی نے اس کو سلام کیا۔ نذیر کا حافظہ کمزور تھا۔ اس نے سلام کرنے والی آدمی کو نہ پہچانا، لیکن اس پر یہ ظاہر نہ کیا کہ وہ اس کو نہیں جانتا، چنانچہ بڑے اخلاق سے کہا۔

’’کیوں بھئی کہاں ہوتے ہو۔ کبھی نظر ہی نہیں آئے۔ ‘‘

اس آدمی نے مسکرا کر کہا۔

’’حضور، میں تو یہیں ہوتا ہوں۔ آپ ہی کبھی تشریف نہیں لائے؟‘‘

نذیر نے اس کو پھر بھی نہ پہچانا۔

’’میں اب جو تشریف لے آیا ہوں۔ ‘‘

’’تو چلیے میرے ساتھ۔ ‘‘

نذیر اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھا۔

’’چلو۔ ‘‘

اس آدمی نے نذیر کے ہاتھ میں بوتل دیکھی اور معنی خیز طریقے پر مسکرایا۔

’’باقی سامان تو آپ کے پاس موجود ہے۔ ‘‘

یہ فقرہ سن کر نذیر نے فوراً ہی سوچا کہ وہ دلال ہے۔

’’تمہارا نام کیا ہے۔ ‘‘

’’کریم۔ آپ بھول گئے تھے!‘‘

نذیر کو یاد آگیا کہ شادی سے پہلے ایک کریم اس کے لیے اچھی اچھی لڑکیاں لایا کرتا تھا۔ بڑا ایماندار دلال تھا۔ اس کو غور سے دیکھا تو صورت جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ پھر پچھلے تمام واقعات اس کے ذہن میں ابھر آئے۔ کریم سے اس نے معذرت چاہی۔

’’یار میں نے تمہیں پہچانا نہیں تھا۔ میرا خیال ہے۔ غالباً چھ برس ہو گئے ہیں تم سے ملے ہوئے۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’تمہار ا اڈہ تو پہلے گرانٹ روڈ کانا کا ہوا کرتا تھا؟‘‘

کریم نے بیڑی سلگائی اور ذرا فخر سے کہا۔

’’میں نے وہ چھوڑ دیا ہے۔ آپ کی دعا سے اب یہاں ایک ہوٹل میں دھندا شروع کررکھا ہے۔ ‘‘

نذیر نے اس کو داد دی۔

’’یہ بہت اچھا کیا تم نے؟‘‘

کریم نے اور زیادہ فخریہ لہجے میں کہا۔

’’دس چھوکریاں ہیں۔ ایک بالکل نئی ہے۔ ‘‘

نذیر نے اس کو چھیڑنے کے انداز میں کہا۔

’’تم لوگ یہی کہا کرتے ہو۔ ‘‘

کریم کو بُرا لگا۔

’’قسم قرآن کی، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ سور کھاؤں اگر وہ چھوکری بالکل نئی نہ ہو۔ ‘‘

پھر اس نے اپنی آواز دھیمی کی اور نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’آٹھ دن ہوئے ہیں جب پہلا پیسنجر آیا تھا۔ جھوٹ بولوں تو میرا منہ کالا ہو۔ ‘‘

نذیر نے پوچھا۔

’’کنواری تھی؟‘‘

’’جی ہاں۔ دو سو روپے لیے تھے اس پیسنجر سے؟‘‘

نذیر نے کریم کی پسلیوں میں ایک ٹھونکا دیا۔

’’لو، یہیں بھاؤ پکا کرنے لگے۔ ‘‘

کریم کو نذیر کی یہ بات پھر بُری لگی۔

’’قسم قرآن کی، سور ہوجو آپ سے بھاؤ کرے آپ تشریف لے چلیے۔ آپ جو بھی دیں گے مجھے قبول ہو گا۔ کریم نے آپ کا بہت نمک کھایا ہے۔ ‘‘

نذیر کی جیب میں اس وقت ساڑھے چار سو روپے تھے۔ موسم اچھا تھا۔ موڈ بھی اچھا تھا۔ وہ چھ برس پیچھے کے زمانے میں چلا گیا۔ بن پئے مسرور تھا۔

’’چلو یار آج تمام عیاشیاں رہیں۔ ایک بوتل کا اور بندوبست ہو جانا چاہیے۔ ‘‘

کریم نے پوچھا۔

’’آپ کتنے میں لائے ہیں یہ بوتل؟‘‘

’’پینتیس روپے میں۔ ‘‘

’’کون سا برانڈ ہے؟‘‘

’’جونی واکر!‘‘

کریم نے چھاتی پر ہاتھ مار کرکہا۔

’’میں آپ کو تیس میں لادوں گا۔ ‘‘

نذیر نے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور کریم کے ہاتھ میں دے دیے۔

’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ یہ لو۔ مجھے وہاں بٹھا کر تم پہلا کام یہی کرنا۔ تم جانتے ہو، میں ایسے معاملوں میں اکیلا نہیں پیا کرتا۔ ‘‘

کریم مسکرایا۔

’’اور آپ کو یاد ہو گا۔ میں ڈیڑھ پیگ سے زیادہ نہیں پیا کرتا۔ ‘‘

نذیر کو یاد آگیا کہ کریم واقعی آج سے چھ برس پہلے صرف ڈیڑھ پیگ لیا کرتا تھا۔ یہ یاد کرکے نذیر بھی مسکرایا۔

’’آج دور ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ ڈیڑھ سے زیادہ ایک قطرہ بھی نہیں۔ ‘‘

کریم ایک تھرڈ کلاس بلڈنگ کے پاس ٹھہر گیا۔ جس کے ایک کونے میں چھوٹے سے میلے بورڈ پر

’’میرینا ہوٹل‘‘

لکھا تھا۔ نام تو خوبصورت تھا۔ مگر عمارت نہایت ہی غلیظ تھی۔ سیڑھیاں شکستہ۔ نیچے سو خوار پٹھان بڑی بڑی شلواریں پہنے کھاٹوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی منزل پر کرسچین آباد تھے۔ دوسری منزل پر جہاز کے بے شمار خلاصی۔ تیسری منزل ہوٹل کے مالک کے پاس تھی۔ چوتھی منزل پر کونے کا ایک کمرہ کریم کے پاس تھا جس میں کئی لڑکیاں مرغیوں کی طرح اپنے ڈربے میں بیٹھی تھیں۔ کریم نے ہوٹل کے مالک سے چابی منگوائی۔ ایک بڑا لیکن بے ہنگم سا کمرہ کھولا جس میں لوہے کی ایک چارپائی، ایک کرسی اور ایک تپائی پڑی تھی۔ تین اطراف سے یہ کمرہ کھلا تھا، یعنی بے شمار کھڑکیاں تھیں، جن کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور کچھ نہیں، لیکن ہوا کی بہت افراط تھی۔ کریم نے آرام کرسی جو کہ بے حد میلی تھی، ایک اس سے زیادہ میلے کپڑے سے صاف کی اور نذیر سے کہا۔

’’تشریف رکھئے، لیکن میں یہ عرض کردوں۔ اس کمرے کا کرایہ دس روپے ہو گا۔ ‘‘

نذیر نے کمرے کو اب ذرا غور سے دیکھا۔

’’دس روپے زیادہ ہیں یار؟‘‘

کریم نے کہا۔

’’بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا کیا جائے۔ سالا ہوٹل کا مالک ہی بنیا ہے۔ ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ اور نذیر صاحب موج شوق کرنے والے آدمی بھی زیادہ کی پرواہ نہیں کرتے۔ ‘‘

نذیر نے کچھ سوچ کر کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ کرایہ پیشگی دے دوں؟‘‘

’’جی نہیں۔ آٰپ پہلے چھوکری تو دیکھئے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے ڈربے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی شرمیلی لڑکی تھی۔ گھریلو قسم کی ہندو لڑکی سفید دھوتی باندھے تھی۔ عمر چودہ برس کے لگ بھگ ہو گی۔ خوش شکل تو نہیں تھی، لیکن بھولی بھالی تھی۔ کریم نے اس سے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ یہ صاحب میرے دوست ہیں۔ بالکل اپنے آدمی ہیں۔ ‘‘

لڑکی نظریں نیچے کیے لوہے کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کریم یہ کہہ کر چلا گیا۔

’’اپنا اطمینان کرلیجئے نذیر صاحب۔ میں گلاس اور سوڈا لاتا ہوں۔ ‘‘

نذیر آرام کرسی پر سے اٹھ کر لڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ سمٹ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ نذیر نے اس سے چھ برس پہلے کے انداز میں پوچھا۔

’’آپ کا نام۔ ‘‘

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیر نے آگے سرک کر اس کے ہاتھ پکڑے اور پھر پوچھا۔

’’آپ کا نام کیا ہے جناب؟‘‘

لڑکی نے ہاتھ چھڑا کر کہا۔

’’شکنتلا۔ ‘‘

اور نذیر کو شکنتلا یاد آگئی۔ جس پر راجہ دشنیت عاشق ہوا تھا۔

’’میرا نام دشنیت ہے۔ ‘‘

نذیر مکمل عیاشی پر تُلا ہوا تھا۔ لڑکی نے اس کی بات سنی اور مسکرا دی۔ اتنے میں کریم آ گیا۔ اس نے نذیر کو سوڈے کی چار بوتلیں دکھائیں جو ٹھنڈی ہونے کے باعث پسینہ چھوڑ رہی تھیں۔

’’مجھے یاد ہے کہ آپ کو روجر کا سوڈا پسند ہے برف میں لگا ہوا لے کر آیا ہوں۔ ‘‘

نذیر بہت خوش ہوا۔

’’تم کمال کرتے ہو‘‘

پھر وہ لڑکی سے مخاطب ہوا۔

’’جناب آپ بھی شوق فرمائیں گی؟‘‘

لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ کریم نے جواب دیا۔

’’نذیر صاحب۔ یہ نہیں پیتی۔ آٹھ دن تو ہوئے ہیں اس کو یہاں آئے ہوئے۔ ‘‘

یہ سن کر نذیر کو افسوس سا ہوا۔

’’یہ تو بہت بری بات ہے۔ ‘‘

کریم نے وسکی کی بوتل کھول کر نذیر کے لیے ایک بڑا پیگ بنایا اور اس کو آنکھ مار کر کہا۔

’’آپ راضی کرلیجئے اسے۔ ‘‘

نذیر نے ایک ہی جرعے میں گلاس ختم کیا۔ کریم نے آدھا پیگ پیا۔ فوراً ہی اُس کی آواز نشہ آلود ہو گئی۔ ذرا جھوم کر اس نے نذیر سے پوچھا۔

’’چھوکری پسند ہے نا آپ کو؟‘‘

نذیر نے سوچا کہ لڑکی اسے پسند ہے کہ نہیں۔ لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اس نے شکنتلا کی طرف غور سے دیکھا۔ اگر اس کا نام شکنتلا نہ ہوتا بہت ممکن ہے وہ اسے پسند کرلیتا۔ وہ شکنتلا جس پر راجہ دشنیت شکار کھیلتے کھیلتے عاشق ہوا تھا۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ کم از کم کتابوں میں یہی درج تھا کہ وہ چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔ آہو چشم تھی۔ نذیر نے ایک بار پھر اپنی شکنتلا کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھیں بُری نہیں تھیں۔ آہو چشم تو نہیں تھی، لیکن اس کی آنکھیں اس کی اپنی آنکھیں تھیں۔ کالی کالی اور بڑی بڑی۔ اس نے اور کچھ سوچا اور کریم سے کہا۔

’’ٹھیک ہے یار۔ بولو معاملہ کہاں طے ہوتا ہے؟‘‘

کریم نے آدھا پیگ اپنے لیے اور انڈیلا اور کہا۔

’’سو روپئے!‘‘

نذیر نے سوچنا بند کردیا تھا۔

’’ٹھیک ہے!‘‘

کریم اپنا دوسرا آدھا پیگ پی کر چلا گیا۔ نذیر نے اٹھ کر دروازہ بند کردیا۔ شکنتلا کے پاس بیٹھا تو وہ گھبرا سی گئی۔ نذیر نے اس کا پیار لینا چاہا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ نذیر کو اس کی یہ حرکت ناگوار محسوس ہوئی۔ لیکن اس نے پھر کوشش کی۔ بازو سے پکڑ کر اس کو اپنے پاس بٹھایا۔ زبردستی اس کو چوما۔ بہت ہی بے کیف سلسلہ تھا۔ البتہ وسکی کا نشہ اچھا تھا۔ وہ اب تک چھ پیگ پی چکا تھا اور اس کو افسوس تھا کہ اتنی مہنگی چیز بالکل بے کار گئی ہے اس لیے کہ شکنتلا بالکل الھڑ تھی۔ اس کو ایسے معاملوں کے آداب کی کوئی واقفیت ہی نہیں تھی۔ نذیر ایک اناڑی تیراک کے ساتھ اِدھر اُدھر بے کار ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ آخر اُکتا گیا۔ دروازہ کھول کر اس نے کریم کو آواز دی جو اپنے ڈربے میں مرغیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آواز سن کر دوڑا آیا۔

’’کیا بات ہے نذیر صاحب؟‘‘

نذیر نے بڑی ناامیدی سے کہا۔

’’کچھ نہیں یار۔ یہ اپنے کام کی نہیں ہے؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ ‘‘

کریم نے شکنتلاکو الگ لے جا کر بہت سمجھایا۔ مگر وہ نہ سمجھ سکی۔ شرمائی، لجائی، دھوتی سنبھالتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کریم نے اس پر کہا۔

’’میں ابھی حاضر کرتا ہوں۔ ‘‘

نذیر نے اس کو روکا۔

’’جانے دو۔ کوئی اور لے آؤ۔

’’لیکن اس نے فوراً ہی ارادہ بدل لیا۔

’’وہ جو تمہیں روپے دیے تھے، اس کی بوتل لے آؤ اور شکنتلا کے سوا جتنی لڑکیاں اس وقت موجود ہیں انھیں یہاں بھیج دو۔ میرا مطلب ہے جو پیتی ہیں۔ آج اور کوئی سلسلہ نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں گا اور بس!‘‘

کریم نذیر کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے چار لڑکیاں کمرے میں بھیج دیں۔ نذیر نے ان سب کو سرسری نظر سے دیکھا، کیونکہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ پروگرام صرف پینے کا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ان لڑکیوں کے لیے گلاس منگوائے اور ان کے ساتھ پینا شروع کردیا۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل سے منگوا کر کھایا اور شام کے چھ بجے تک ان لڑکیوں سے باتیں کرتا رہا۔ بڑی فضول قسم کی باتیں، لیکن نذیر خوش تھا۔ جو کوفت شکنتلا نے پیدا کی تھی۔ دور ہو گئی تھی۔ آدھی بوتل باقی تھی، وہ ساتھ لے کر گھر چلا گیا۔ پندرہ روز کے بعد پھر موسم کی وجہ اس کا جی چاہا کہ سارا دن پی جائے۔ سگرٹ والے کی دکان سے خریدنے کے بجائے اس نے سوچا کیوں نہ کریم سے ملوں، وہ تیس میں دے دیگا۔ چنانچہ وہ اس کے ہوٹل میں پہنچا۔ اتفاق سے کریم مل گیا۔ اس نے ملتے ہی بہت ہولے سے کہا۔

’’نذیر صاحب، شکنتلا کی بڑی بہن آئی ہوئی ہے۔ آج صبح ہی گاڑی سے پہنچی ہے۔ بہت ہٹیلی ہے۔ مگر آپ اس کو ضرور راضی کرلیں گے۔ ‘‘

نذیر کچھ سوچ نہ سکا۔ اس نے اپنے دل میں اتنا کہا۔

’’چلو دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

لیکن اس نے کریم سے کہا۔

’’تم پہلے یار وسکی لے آؤ۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے تیس روپے جیب سے نکال کر کریم کو دیے۔ کریم نے نوٹ لیکر نذیر سے کہا۔

’’میں لے آتا ہوں۔ آپ اندر کمرے میں بیٹھے۔ ‘‘

نذیر کے پاس صرف دس روپے تھے، لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھلوا کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ وسکی کی بوتل لے کر ایک نظر شکنتلا کی بہن کو دیکھ کر چل دے گا۔ جاتے وقت دو روپے کریم کو دے دے گا۔ تین طرف سے کھلے ہوئے ہوادار کمرے میں نہایت ہی میلی کرسی پر بیٹھ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور اپنی ٹانگیں رکھ دیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آہٹ ہوئی۔ کریم داخل ہوا۔ اس نے نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر ہولے سے کہا۔

’’نذیر صاحب آرہی ہے۔ لیکن آپ ہی رام کیجیے گا اُسے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک لڑکی جس کی شکل و صورت قریب قریب شکنتلا سے ملتی تھی۔ تیوڑی چڑھائے، شکنتلا کے سے انداز میں سفید دھوتی پہنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بڑی بے پروائی سے اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لیجا کر

’’آداب‘‘

کہا اور لوہے کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ نذیر نے یوں محسوس کیا کہ وہ اس سے لڑنے آئی ہے۔ چھ برس پیچھے کے زمانے میں ڈبکی لگا کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ شکنتلا کی بہن ہیں۔ ‘‘

اس نے بڑے تیکھے اور خفگی آمیز لہجے میں کہا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

نذیر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس لڑکی کوجس کی عمر شکنتلا سے غالباً تین برس بڑی تھی۔ بڑے غور سے دیکھا۔ نذیر کی یہ حرکت اس کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ وہ بڑے زور سے ٹانگ ہلا کر اس سے مخاطب ہوئی۔

’’آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

نذیر کے ہونٹوں پر چھ برس پیچھے کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’جناب آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟‘‘

وہ برس پڑی۔

’’میں ناراض کیوں نہ ہوں۔ یہ آپ کا کریم میری بہن کو جے پور سے اڑا لایا ہے۔ بتائیے آپ میرا خون نہیں کھولے گا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو بھی وہ پیش کی گئی تھی؟‘‘

نذیر کی زندگی میں ایسا معاملہ کبھی نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر سوچ کر اُس نے اس لڑکی سے بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’شکنتلا کو دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ کہ یہ لڑکی میرے کام کی نہیں۔ بہت الھڑ ہے۔ مجھے ایسی لڑکیاں بالکل پسند نہیں۔ آپ شاید بُرا مانیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ان عورتوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں جو مرد کی ضروریات کو سمجھتی ہوں۔ ‘‘

اس نے کچھ نہ کہا۔ نذیر نے اس سے دریافت کیا۔

’’آپ کا نام۔ ‘‘

شکتنلا کی بہن نے مختصراً کہا۔

’’شاردا۔ ‘‘

نذیر نے پھر اس سے پوچھا۔

’’آپ کا وطن۔ ‘‘

’’جے پور۔ ‘‘

اس کا لہجہ بہت تیکھا اور خفگی آلود تھا۔ نذیر نے مسکرا کر اس سے کہا۔

’’دیکھیے آپ کو مجھ سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں۔ کریم نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو آپ اس کو سزا دے سکتی ہیں، لیکن میرا کوئی قصور نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس کو اچانک اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہ کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ نذیر اس سے مخاطب ہوا

’’یہ قصور البتہ میرا ہے۔ اس کی سزا میں بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

لڑکی کے ماتھے پر بیشمار تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ اس نے تین چار مرتبہ زمین پر تھوکا۔ غالباً گالیاں دینے والی تھی، لیکن چپ ہو گئی۔ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ لیکن فوراً ہی بیٹھ گئی۔ نذیر نے چاہا کہ وہ کچھ کہے۔

’’بتائیے، آپ مجھے کیا سزا دینا چاہتی ہیں۔ ‘‘

’’وہ کچھ کہنے والی تھی کہ ڈربے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ لڑکی اٹھی نذیر نے اسے روکا۔ کہاں جارہی ہیں آپ؟‘‘

وہ ایک دم ماں بن گئی۔

’’منی رو رہی ہے، دودھ کے لیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ نذیر نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر کچھ سوچ نہ سکا۔ اتنے میں کریم وسکی کی بوتل اور سوڈے لیکر آگیا۔ اس نے نذیر کے لیے چھوٹا ڈالا۔ اپنا گلاس ختم کیا اور نذیر سے رازدارانہ لہجے میں کہا۔

’’کچھ باتیں ہوئیں شاردا سے۔

’’میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ نے پٹالیا ہو گا؟‘‘

نذیر نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’بڑی غصیلی عورت ہے!‘‘

’’جی ہاں۔ صبح آئی ہے، میری جان کھا گئی۔ آپ ذرا اس کو رام کریں۔ شکنتلا خود یہاں آئی تھی۔ اس لیے کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ چکا ہے اور اس شاردا کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ اس کا پتی شادی کے فوراً بعد ہی اس کو چھوڑ کر خدا معلوم کہاں چلا گیا تھا۔ اب اکیلی اپنی بچی کے ساتھ ماں کے پاس رہتی ہے۔ آپ منا لیجئے نا اس کو؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’منانے کی کیا بات ہے؟‘‘

کریم نے اس کو آنکھ ماری۔

’’سالی مجھ سے تو مانتی نہیں۔ جب سے آئی ہے ڈانٹ رہی ہے۔ ‘‘

اتنے میں شاردا اپنی ایک سال کی بچی کو گود میں اٹھائے اندر کمرے میں آئی۔ کریم کو اس نے غصے سے دیکھا۔ اس نے آدھا پیگ پیا اور باہر چلا گیا۔ منی کو بہت زکام تھا۔ ناک بہت بری طرح بہہ رہی تھی۔ نذیر نے کریم کو بلایا اور اس کو پانچ کا نوٹ دیکر کہا۔

’’جاؤ، ایک وکس کی بوتل لے آؤ۔ ‘‘

کریم نے پوچھا۔

’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’زکام کی دوا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک پرزے پر اس دوا کا نام لکھ دیا۔

’’کسی بھی اسٹور سے مل جائے گی۔ ‘‘

’’جی اچھا۔ ‘‘

کہہ کر کریم چلا گیا۔ نذیر منی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ منی خوش شکل نہیں تھی۔ لیکن کم سنی کے باعث نذیر کے لیے دلکش تھی۔ اس نے اس کو گود میں لیا۔ ماں سے سو نہیں رہی تھی۔ سر میں ہولے ہولے انگلیاں پھیر کر اس کو سلا دیا اور شاردا سے کہا۔

’’اس کی ماں تو میں ہوں۔ ‘‘

شاردا مسکرائی۔

’’لائیے، میں اس کو اندرچھوڑ آؤں۔ ‘‘

شاردا اس کو اندر لے گئی اور چند منٹ کے بعد واپس آگئی۔ اب اس کے چہرے پر غصے کے آثار نہیں تھے۔ نذیر اسکے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا۔

’’کیا آپ مجھے اپنا پتی بننے کی اجازت دے سکتی ہیں۔ ‘‘

اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ شاردا نے غصے کا اظہار نہ کیا۔

’’جواب دیجیے جناب؟‘‘

شاردا خاموش رہی۔ نذیر نے اٹھ کر ایک پیگ پیا، تو شاردا نے ناک سکوڑ کر اس سے کہا۔

’’مجھے اس چیز سے نفرت ہے۔ ‘‘

نذیر نے ایک پیگ گلاس میں ڈالا۔ اس میں سوڈا حل کرکے اٹھایا اور شاردا کے پاس بیٹھ گیا۔

’’آپ کو اس سے نفرت ہے کیوں؟‘‘

شاردا نے مختصر سا جواب دیا۔

’’بس ہے۔ ‘‘

’’تو آج سے نہیں رہے گی۔ یہ لیجیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے گلاس شاردا کی طرف بڑھا دیا۔

’’میں ہرگز نہیں پیوں گی۔ ‘‘

’’میں کہتا ہوں، تم ہرگز انکار نہیں کرو گی۔ ‘‘

شاردا نے گلاس پکڑ لیا۔ تھوڑی دیر تک اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھتی رہی، پھر نذیر کی طرف مظلومانہ نگاہوں سے دیکھا۔ اور ناک انگلیوں سے بند کرکے ساتھ گلاس غٹا غٹ پی گئے۔ قے آنے کو تھی مگر اس نے روک لی۔ دھوتی کے پلو سے اپنے آنسو پونچھ کے اس نے نذیر سے کہا۔

’’یہ پہلی اور آخری بار ہے۔ ‘‘

’’لیکن میں نے کیوں پی؟‘‘

نذیر نے اس کے گیلے ہونٹ چومے اور کہا۔

’’یہ مت پوچھو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔ شام کو سات بجے اس نے دروازہ کھولا۔ کریم آیا تو شاردا نظریں جھکائے باہر چلی گئی۔ کریم بہت خوش تھا۔ اس نے نذیر سے کہا۔

’’آپ نے کمال کردیا۔ آپ سے سو تو نہیں مانگتا، پچاس دے دیجیے۔ ‘‘

نذیر شاردا سے بے حد مطمئن تھا۔ اس قدر مطمئن کہ وہ گزشتہ تمام عورتوں کو بھول چکا تھا۔ وہ اس کے جنسی سوالات کا سو فی صدی صحیح جواب تھی۔ اس نے کریم سے کہا۔

’’میں کل ادا کردوں گا۔ ہوٹل کا کرایہ بھی کل چکاؤں گا۔ آج میرے پاس وسکی منگانے کے بعد صرف دس روپے باقی تھے۔ ‘‘

کریم نے کہا۔

’’کوئی واندہ نہیں ہے۔ میں تو اس بات سے بہت خوش ہوں کہ آپ نے شاردا سے معاملے طے کرلیا۔ حضور، میری جان کھا گئی تھی۔ اب شکنتلا سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتی!‘‘

کریم چلا گیا۔ شاردا آئی۔ اس کی گود میں منی تھی۔ نذیر نے اُس کو پانچ روپے دیے لیکن شاردا نے انکار کردیا۔ اس پر نذیر نے اس سے مکرما کر کہا۔

’’میں اس کاباپ ہوں۔ تم یہ کیا کررہی ہو۔ ‘‘

شاردا نے روپے لے لیے۔ بڑی خاموشی کے ساتھ۔ شروع شروع میں وہ بہت باتونی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ باتوں کے دریا بہا دے گی۔ مگر اب وہ بات کرنے سے گریز کرتی تھی۔ نذیر نے اس کی بچی کو گود میں لیکر پیار کیا اور جاتے وقت شاردا سے کہا۔

’’لو بھئی شاردا، میں چلا۔ کل نہیں تو پرسوں ضرور آؤنگا۔ ‘‘

لیکن نذیر دوسرے روز ہی آگیا۔ شاردا کے جسمانی خلوص نے اس پر جادو سا کردیا تھا۔ اس نے کریم کو پچھلے روپے ادا کیے۔ ایک بوتل منگوائی اور شاردا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کو پینے کے لیے کہا تو وہ بولی۔

’’میں نے کہہ دیا تھا کہ وہ پہلا اور آخری گلاس تھا۔ ‘‘

نذیر اکیلا پیتا رہا۔ صبح گیارہ بجے سے وہ شام کے ساتھ بجے تک ہوٹل کے اس کمرے میں شاردا کے ساتھ رہا۔ جب گھر لوٹا تو وہ بے حد مطمئن تھا پہلے روزسے بھی زیادہ مطمئن۔ شاردا اپنی واجبی شکل و صورت اور کم گوئی کے باوجود اس کے شہوانی حواس پر چھا گئی تھی۔ نذیر بار بار سوچتا تھا۔

’’یہ کیسی عورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی خاموش، مگر جسمانی طور پر ایسی پُر گو عورت نہیں دیکھی۔ ‘‘

نذیر نے ہر دوسرے دن شاردا کے پاس جانا شروع کردیا۔ اس کو روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نذیر ساٹھ روپے کریم کو دیتا تھا۔ دس روپے ہوٹل والا لے جاتا تھا۔ باقی پچاس میں سے قریباً تیرہ روپے کریم اپنی کمیشن کے وضع کرلیتا تھا مگر شاردا نے اس کے متعلق نذیر سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ دو مہینے گزر گئے۔ نذیر کے بجٹ نے جواب دے دیا۔ اس کے علاوہ اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ شاردا اس کی ازدواجی زندگی میں بہت بُری طرح حائل ہورہی ہے۔ وہ بیوی کے ساتھ سوتا ہے تو اس کو ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ چاہتا کہ اس کے بجائے شاردا ہو۔ یہ بہت بری تھی۔ نذیر کو چونکہ اس کا احساس تھا اس لیے اس نے کوشش کی کہ شاردا کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہو جائے۔ چنانچہ اس نے شاردا ہی سے کہا

’’شاردا میں شادی شدہ آدمی ہوں۔ میری جتنی جمع پونجی تھی ختم ہو گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، میں کیا کروں۔ تمہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا، حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ ادھر کا کبھی رخ نہ کروں۔ ‘‘

شاردا نے یہ سنا تو خاموش ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا۔

’’جتنے روپے میرے پاس ہیں آپ لے سکتے ہیں۔ صرف مجھے جے پور کا کرایہ دے دیجیے تاکہ میں شکنتلا کو لے کر واپس چلی جاؤں۔ ‘‘

نذیر نے اس کا پیار لیا اور کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ بات یہ ہے کہ میرا روپیہ بہت خرچ ہو گیا ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ ختم ہو گیا ہے میں یہ سوچتا ہوں کہ تمہارے پاس کیسے آسکوں گا۔ ‘‘

شاردا نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیر ایک دوست سے قرض لے کر جب دوسرے روز ہوٹل میں پہنچا تو کریم نے بتایا کہ وہ جے پور جانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ نذیر نے اُس کو بلایا۔ مگر وہ نہ آئی۔ کریم کے ہاتھ اس نے بہت سے نوٹ بھجوائے اور یہ کہا۔

’’آپ یہ روپے لے لیجیے۔ اور مجھے اپنا ایڈریس دے دیجیے۔ ‘‘

نذیر نے کریم کو اپنا ایڈریس لکھ کر دے دیا اور روپے واپس کردیے۔ شاردا آئی۔ گود میں منی تھی۔ اُس نے آداب عرض کیا، اور کہا۔

’’میں آج شام کو جے پور جارہی ہوں۔ ‘‘

نذیر نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

شاردا نے یہ مختصر جواب دیا۔

’’مجھے معلوم نہیں‘‘

اور یہ کہہ کروہ چلی گئی۔ نذیر نے کریم سے کہا اسے بلا کر لائے۔ مگر وہ نہ آئی۔ نذیر چلا گیا۔ اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے بدن کی حرارت چلی گئی ہے۔ اس کے سوال کا جواب چلا گیا ہے۔ وہ چلی گئی، واقعی چلی گئی۔ کریم کواس کا بہت افسوس تھا۔ اس نے نذیر سے شکایت کے طور پر کہا۔

’’نذیر صاحب آپ نے کیوں اس کو جانے دیا؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’بھائی، میں کوئی سیٹھ تو ہوں نہیں۔ ہر دوسرے روز پچاس ایک، دس ہوٹل کے، تیس بوتل، اور اوپر کا خرچ علیحدہ۔ میرا تو دیوالہ پٹ گیا۔ خدا کی قسم مقروض ہو گیا ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر کریم خاموش ہو گیا۔ نذیر نے اس سے کہا

’’بھئی میں مجبور تھا، کہاں تک یہ قصہ چلاتا۔ ‘‘

کریم نے کہا۔

’’نذیر صاحب اس کو آپ سے محبت تھی۔ ‘‘

نذیر کو معلوم نہیں تھا کہ محبت کیا ہوتی۔ وہ فقط اتنا جانتا تھا کہ شاردا میں جسمانی خلوص ہے۔ وہ اس کے مردانہ سوالات کا بالکل صحیح جواب ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاردا کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا تھا، البتہ اس نے مختصر الفاظ میں اس سے یہ ضرور کہا تھا کہ اس کا خاوند عیاش تھا اور اس کو صرف اس لیے چھوڑ گیا تھا کہ دو برس تک اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ اس سے علیحدہ ہوا تو نو مہینے کے بعد منی پیدا ہوئی جو بالکل اپنے باپ ہے۔ شکنتلا کو وہ اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اس کا بیاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ شریفانہ زندگی بسر کرے۔ کریم نے نذیر کو بتایا کہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ کریم نے بہت کوشش کی تھی کہ شکنتلا سے پیشہ کرائے۔ کئی پیسنجر آتے تھے۔ ایک رات کے دو دو سو روپے دینے کے لیے تیار تھے۔ مگر شاردا نہیں مانتی تھی، کریم سے لڑنا شروع کردیتی تھی۔ کریم اس سے کہتا تھا۔

’’تم کیا کررہی ہو۔ ‘‘

وہ جواب دیتی۔

’’اگر تم بیچ میں نہ ہوتے تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔ نذیر صاحب کا ایک پیسہ خرچ نہ ہونے دیتی۔ ‘‘

شاردا نے نذیر سے ایک بار اس کا فوٹو مانگا تھا۔ جو اس نے گھر سے لا کر اس کو دے دیا تھا۔ یہ وہ اپنے ساتھ جے پور لے گئی تھی۔ اس نے نذیر سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب دونوں بستر پر لیٹے ہوتے تو وہ بالکل خاموش رہتی۔ نذیر اس کو بولنے پر اکساتا مگر وہ کچھ نہ کہتی۔ لیکن نذیر اس کے جسمانی خلوص کا قائل تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق تھا۔ وہ اخلاص کا مجسمہ تھی۔ وہ چلی گئی، نذیر کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ کیونکہ اس کی گھریلو زندگی میں بہت بُری طرح حائل ہو گئی تھی۔ اگر وہ کچھ دیر اور رہتی تو بہت ممکن تھا کہ نذیر اپنی بیوی سے بالکل غافل ہو جاتا۔ کچھ دن گزرے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آنے لگا۔ شاردا کا جسمانی لمس اس کے جسم سے آہستہ آہستہ دور ہونے لگا۔ ٹھیک پندرہ دن کے بعد جب کہ نذیر گھرمیں بیٹھا۔ دفتر کا کام کررہا تھا۔ اس کی بیوی نے صبح کی ڈاک لا کر اسے دی۔ سارے خط وہی کھولا کرتی تھی۔ ایک خط اس نے کھولا اور دیکھ کر نذیر سے کہا۔

’’معلوم نہیں گجراتی ہے یا ہندی۔ ‘‘

نذیر نے خط لیکر دیکھا۔ اس کو معلوم نہ ہو سکا کہ ہندی ہے یا گجراتی۔ الگ ٹرے میں رکھ دیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نذیر کی بیوی نے اپنی چھوٹی بہن نعیمہ کو آواز دی۔ وہ آئی تو وہ خط اٹھا کر اسے دیا۔

’’ذرا پڑھو تو کیا لکھا ہے۔ تم تو ہندی اور گجراتی پڑھ سکتی ہو۔ ‘‘

نعیمہ نے خط دیکھا اور کہا۔

’’ہندی ہے‘‘

اور یہ کہہ کر پڑھنا شروع کیا۔

’’جے پور۔ پڑھیے نذیر صاحب۔ ‘‘

اتنا پڑھ کر وہ رک گئی۔ نذیر چونکا۔ نعیمہ نے ایک سطر اور پڑھی۔

’’آداب۔ آپ تو مجھے بھول چکے ہوں گے۔ مگر جب سے میں یہاں آئی ہوں، آپ کو یاد کرتی رہتی ہوں۔ ‘‘

نعیمہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اس نے کاغذ کا دوسرا رخ دیکھا۔

’’کوئی شاردا ہے۔ ‘‘

نذیر اٹھا۔ جلدی سے اس نے نعیمہ کے ہاتھ سے خط لیا اور اپنی بیوی سے کہا۔

’’خدا معلوم کون ہے۔ میں باہر جارہا ہوں۔ اس کو پڑھا کر اردو میں لکھوا لاؤں گا۔ ‘‘

اس نے بیوی کو کچھ کہنے کا موقعہ ہی نہ دیا اور چلا گیا۔ ایک دوست کے پاس جا کر اس نے شاردا کے خط جیسے کاغذ منگوائے اور ہندی میں ویسی ہی روشنائی سے ایک خط لکھوایا۔ پہلے فقرے وہی رکھے۔ مضمون یہ تھا کہ بمبے سنٹرل پر شاردا اس سے ملی تھی۔ اس کو اتنے بڑے مصور سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ شام کو گھر آیا اس نے نیا خط بیوی کو دیا اور اردو کی نقل پڑھ کر سنا دی۔ بیوی نے شاردا کے متعلق اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا۔

’’عرصہ ہوا ہے میں ایک دوست کو چھوڑنے گیا تھا۔ شاردا کو یہ دوست جانتا تھا۔ وہاں پلیٹ فارم پر میرا تعارف ہوا۔ مصوری کا اسے بھی شوق تھا۔ ‘‘

بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن دوسرے روز شاردا کا ایک اور خط آگیا۔ اس کو بھی نذیر نے اسی طریقے سے گول کیا۔ اور فوراً شاردا کو تار دیا کہ وہ خط لکھنا بند کردے اور اس کے نئے پتے کا انتظار کرے۔ ڈاک خانے جا کر اس نے متعلقہ پوسٹ مین کو تاکید کردی کہ جے پور کا خط وہ اپنے پاس رکھے، صبح آکر وہ اس سے پوچھ لیا کرے گا۔ تین خط اس نے اس طرح وصول کیے۔ اس کے بعد شاردا اس کو اس کے دوست کے پتے سے خط بھیجنے لگی۔ شاردا بہت کم گو تھیٗ، لیکن خط بہت لمبے لکھتی تھی۔ اس نے نذیر کے سامنے کبھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن اس کے خط اظہار سے پُر ہوتے تھے۔ گلے شکوے، ہجر وفراق، اس قسم کی عام باتیں جو عشقیہ خطوں میں ہوتی ہیں۔ نذیر کو شاردا سے وہ محبت نہیں تھی جس کا ذکر افسانوں اور ناولوں میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جواب میں کیا لکھے، اس لیے یہ کام اس کا دوست ہی کرتا تھا۔ ہندی میں جواب لکھ کر وہ نذیر کو سنا دیتا تھا اور نذیر کہہ دیتا تھا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

شاردا بمبئی آنے کے لیے بے قرار تھی۔ لیکن وہ کریم کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ نذیر اس کی رہائش کا اور کہیں بندوبست نہیں کرسکتا تھا۔ کیوں کہ مکان ان دنوں ملتے ہی نہیں تھے۔ اس نے ہوٹل کا سوچا۔ مگر خیال آیا، ایسا نہ ہو کہ راز فاش ہو جائے، چنانچہ اس نے شاردا کو لکھوا دیا کہ وہ ابھی کچھ دیر انتظار کرے۔ اتنے میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہو گئے۔ بٹوارے سے پہلے عجیب افراتفری مچی تھی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ وہ لاہور جانا چاہتی ہے۔

’’میں کچھ دیر وہاں رہونگی اگر حالات ٹھیک ہو گئے تو واپس آجاؤں گی، ورنہ آپ بھی وہیں چلے آئیے گا۔ ‘‘

نذیر نے کچھ دیر اسے روکا۔ مگر جب اس کا بھائی لاہور جانے کے لیے تیار ہوا تو وہ اور اس کی بہن اس کے ساتھ چلی گئیں اور وہ اکیلا رہ گیا۔ اس نے شاردا کو سرسری طور پر لکھا کہ وہ اب اکیلا ہے۔ جواب میں اس کا تار آیا کہ وہ آرہی ہے۔ اس تار کے مضمون کے مطابق وہ جے پور سے چل پڑی تھی۔ نذیر بہت سٹپٹایا۔ مگر اس کا جسم بہت خوش تھا۔ وہ شاردا کے جسم کا خلوص چاہتا تھا۔ وہ دن پھر سے مانگتا تھا۔ جب وہ شاردا کے ساتھ چمٹا ہوتا تھا۔ صبح گیارہ بجے سے لیکر شام کے سات بجے تک اب روپے کے خرچ کا سوال ہی نہیں تھا۔ کریم بھی نہیں تھا۔ ہوٹل بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا۔

’’میں اپنے نوکر کو راز دار بنا لوں گا۔ سب ٹھیک ہو جائیگا دس پندرہ روپے اس کا منہ بند کردیں گے۔ میری بیوی واپس آئی تو وہ اس سے کچھ نہیں کہے گا۔ ‘‘

دوسرے روز وہ اسٹیشن پہنچا۔ فرنٹیر میل ٓئی مگر شاردا، تلاشکے باوجود اسے نہ ملی۔ اس نے سوچا، شاید کسی وجہ سے رک گئی ہے۔ دوسرا تار بھیجے گی۔ اس سے اگلے روز وہ حسب معمول صبح کی ٹرین سے اپنے دفتر روانہ ہوا۔ وہ مہالکشمی اترتا تھا۔ گاڑی وہاں رکی تو اس نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر شاردا کھڑی ہے۔ اس نے زور سے پکارا۔

’’شاردا!‘‘

شاردا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

’’نذیر صاحب!‘‘

’’تم یہاں یہاں؟‘‘

شاردا نے شکایتاً کہا۔

’’آپ مجھے لینے نہ آئے تو میں یہاں آپ کے دفتر پہنچی۔ پتا چلا کہ آپ ابھی تک نہیں آئے۔ یہاں پلیٹ فارم پر اب آپ کا انتظار کررہی تھی۔ ‘‘

نذیر نے کچھ دیر سوچ کر اس سے کہا۔

’’تم یہاں ٹھہرو۔ میں دفتر سے چھٹی لیکر ابھی آتا ہوں۔ ‘‘

شاردا کو بنچ پر بٹھا کر جلدی جلدی دفتر گیا۔ ایک عرضی لکھ کر وہاں چپڑاسی کو دے آیا اور شاردا کو اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں دونوں نے کوئی بات نہ کی، لیکن ان کے جسم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی طرف کھنچتے رہے۔ گھر پہنچ کر نذیر نے شاردا سے کہا۔

’’تم نہا لو، میں ناشتے کا بندوبست کراتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نہانے لگی۔ نذیر نے نوکر سے کہا

’’کہ اس کے ایک دوست کی بیوی آئی ہے۔ جلدی ناشتہ تیار کردے۔ اس سے یہ کہہ کر نذیر نے الماری سے بوتل نکالی۔ ایک پیگ جو دو کے برابر تھا گلاس میں انڈیلا اور پانی میں ملا کر پی گیا۔ وہ اسی ہوٹل والے ڈھنگ سے شاردا سے اختلاط چاہتا تھا۔ شاردا نہا دھو کر باہر نکلی اور ناشتہ کرنے لگی۔ اس نے اِدھر اُدھر کی بے شمار باتیں کیں۔ نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بدل گئی ہے۔ وہ پہلے بہت کم گو تھی۔ اکثر خاموش رہتی تھی، مگر اب وہ بات بات پر اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی۔ نذیر نے سوچا۔

’’یہ محبت کیا ہے۔ اگر یہ اس کا اظہار نہ کرے تو کتنا اچھا ہے مجھے اس کی خاموشی زیادہ پسند تھی۔ اس کے ذریعے سے مجھ تک بہت سی باتیں پہنچ جاتی تھیں، مگر اب اس کو جانے کیا ہو گیا ہے۔ باتیں کرتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے اپنے عشقیہ خط پڑھ کر سنا رہی ہے۔ ‘‘

ناشتہ ختم ہوا تو نذیر نے ایک پیگ تیار کیا اور شاردا کو پیش کیا۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔ نذیر نے اصرار کیا تو شاردا نے اس کو خوش کرنے کی خاطر، ناک بند کرکے وہ پیگ پی لیا۔ بُرا سا منہ بنایا۔ پانی لے کر کلی کی۔ نذیر کو افسوس سا ہوا کہ شاردا نے کیوں پی۔ اس کے اصرار پر بھی انکار کیا ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔ مگر اس نے اس کے بارے میں زیادہ غور نہ کیا۔ نوکر کو بہت دور ایک کام پر بھیجا۔ دروازہ بند کیا اور شاردا کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا۔

’’تم نے لکھا تھا کہ وہ دن پھر کب آئیں گے۔ لو آگئے ہیں پھر وہی دن، بلکہ راتیں بھی۔ ان دنوں راتیں نہیں ہوتی تھیں صرف دن ہوتے تھے۔ ہوٹل کے میلے کچیلے دن یہاں ہر چیز اجلی ہے۔ ہر چیز صاف ہے۔ ہوٹل کا کرایہ بھی نہیں۔ کریم بھی نہیں۔ یہاں ہم اپنے مالک آپ ہیں۔ شاردا نے اپنے فراق کی باتیں شروع کردیں۔ یہ زمانہ اس نے کیسے کاٹا۔ وہی کتابوں اور افسانوں والی فضول باتیں، گلے، شکوے، آہیں۔ راتیں تارے گن گن کر کاٹنا۔ نذیر نے ایک اور پیگ پیا اور سوچا۔

’’کون تارے گنتا ہے۔ گن کیسے سکتا ہے اتنے سارے تاروں کو۔ بالکل فضول ہے، بے ہودہ بکواس ہے۔ ‘‘

یہ سوچتے ہوئے اس نے شاردا کو اپنے ساتھ لگا گیا۔ بستر صاف تھا۔ شاردا صاف تھی۔ وہ خود صاف تھا۔ کمرے کی فضا بھی صاف تھی۔ لیکن کیا وجہ تھی، نذیر کے دل و دماغ پر وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی جو اس غلیظ ہوٹل میں لوہے کی چارپائی پر شاردا کی قربت میں ہوتی تھی۔ نذیر نے سوچا۔ شاید اس نے کم پی ہے۔ اٹھ کر اس نے ایک پیگ بنایا اور ایک ہی جرتے میں ختم کرکے شاردا کے ساتھ لیٹ گیا۔ شاردا نے پھر وہی لاکھ مرتبہ کہی ہوئی باتیں شروع کردیں۔ وہی ہجر وفراق کی باتیں۔ وہی گلے شکوے۔ نذیر اکتا گیا اور اس اکتاہٹ نے اس کے جسم کو کند کردیا۔ اس کو محسوس ہونے لگا کہ شاردا کی سان گھس کر بیکار ہو گئی ہے اس کے جسم کے جذبات اب وہ تیز نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ دیر تک لیٹا رہا۔ فارغ ہوا تو اس کا جی چاہا کہ ٹیکسی پکڑے اور اپنے گھر چلا جائے، اپنی بیوی کے پاس، مگر جب اس نے سوچا کہ وہ تو اپنے گھر میں ہے، اور اس کی بیوی لاہور میں تو دل ہی دل میں بہت جھنجھلایا۔ اس کو یہ خواہش ہوئی کہ اس کا گھر ہوٹل بن جائے وہ دس روپے کرائے کے دے۔ کریم کو پچاس روپے ادا کرے اور چلا جائے۔ شاردا کے جسم کا خلوص بدستور برقرار تھا، مگر وہ فضا نہیں تھی۔ وہ سودے بازی نہیں تھی۔ یہ سب چیزیں مل ملا کر جو ایک ماحول بناتی تھیں۔ وہ نہیں تھا۔ نذیر اپنے گھر میں تھا۔ اس بستر پر تھا جس پر اس کی سادہ لوح بیوی اس کے ساتھ سوتی تھی۔ یہ احساس کے تحت الشعور میں تھا، اسی لیے وہ سمجھ نہ سکتا تھا۔ کہ معاملہ کیا ہے۔ کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ وسکی خراب ہے، کبھی یہ سوچتا تھاکہ شاردا نے التفات نہیں برتا۔ اور کبھی یہ خیال کرتا تھا کہ وہ خاموش رہتی تو سب ٹھیک ہوتا۔ پھر وہ یہ سوچتا، اتنی دیر کے بعد ملی ہے۔ دل کی بھڑاس تو نکالنا تھی بے چاری کو۔ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی، وہی پرانی شاردا بن جائے گی۔ ‘‘

پندرہ دن گزر گئے، مگر نذیرکو شاردا وہ پرانی ہوٹل والی شاردا محسوس نہ ہوئی۔ اس کی بچی جے پور میں تھی۔ ہوٹل میں وہ اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ نذیر اس کے زکام کے لیے، اس کی پھنسیوں کے لیے، اس کے گلے کے لیے دوائیں منگوایا کرتا تھا۔ اب یہ چیز نہیں تھی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ نذیر اس کو اور اسکی منی کو بالکل ایک سمجھتا تھا۔ ایک بار شاردا کی دودھ سے بھری ہوئی چھاتیوں پر دباؤ ڈ النے کے باعث نذیر کے بالوں بھرے سینے پر دودھ کے کئی قطرے چمٹ گئے تھے اور اس نے ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی تھی۔ اس نے سوچا تھا، ماں بننا کتنا اچھا ہے۔ اور یہ دودھ۔ مردوں میں یہ کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں۔ کسی کو پالنا۔ اپنے بچے ہی کو سہی کتنی شاندار چیز ہے۔ ‘‘

اب منی، شاردا کے ساتھ نہیں تھی۔ وہ نامکمل تھی۔ اس کی چھاتیاں بھی نا مکمل تھیں اب ان میں دودھ نہیں تھا۔ وہ سفید سفید آبِ حیات۔ نذیر اب اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتا تھا تو وہ اس کومنع نہیں کرتی تھی۔ شاردا، اب وہ شاردا نہیں تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاردا وہی شاردا تھی، بلکہ اس سے کچھ زیادہ تھی۔ یعنی اتنی دیر جدا رہنے کے بعد اس کا جسمانی خلوص تیز ہو گیا تھا۔ وہ روحانی طور پر بھی نذیر کو چاہتی تھی لیکن نذیر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شادرا میں اب وہ پہلی سی کشش یا جو کچھ بھی تھا نہیں رہا۔ پندرہ دن لگا تار اس کے ساتھ گزارنے پر وہ اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ پندرہ دن دفتر سے غیر حاضری بہت کافی تھی۔ اس نے اب دفتر جانا شروع کردیا۔ صبح اٹھ کر دفتر جاتا اور شام کو لوٹتا۔ شاردا نے بالکل بیویوں کی طرح اس کی خدمت شروع کردی۔ بازار سے اون خرید کر اس کے لیے ایک سویٹر بن دیا۔ شام کو دفتر سے آتا تو اس کے لیے سوڈے منگوا کر رکھے ہوتے۔ برف، تھرموس میں ڈالی ہوتی۔ صبح اٹھ کر اس کا شیو کا سامان میز پررکھتی۔ پانی گرم کرا کے اس کو دیتی۔ وہ شیو کر چکتا تو سارا سامان صاف کردیتی۔ گھرکی صفائی کراتی۔ خود جھاڑو دیتی۔ نذیر اور بھی زیادہ اکتا گیا۔ رات کو وہ اکٹھے سوتے تھے۔ مگر اب اس نے یہ بہانہ کیا کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے، اس لیے اکیلا سونا چاہتا ہے۔ شاردا دوسرے پلنگ پر سونے لگی۔ مگر یہ نذیر کے لیے ایک اور الجھن ہو گئی۔ وہ گہری نیند سوئی ہوتی اور وہ جاگتا رہتا۔ اور سوچتا کہ آخر یہ سب کچھ ہے کیا۔ یہ شاردا یہاں کیوں ہے؟۔ کریم کے ہوٹل میں اس نے اس کے ساتھ چند دن بڑے اچھے گزارے تھے، مگر یہ اس کے ساتھ کیوں چمٹ گئی ہے۔ آخر اس کا انجام کیا ہو گا۔ محبت وغیرہ سب بکواس ہے۔ جو ایک چھوٹی سی بات تھی وہ اب نہیں رہی۔ اس کو واپس جے پور جانا چاہیے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ وہ گناہ کررہا ہے۔ وہ کریم کے ہوٹل میں بھی کرتا تھا۔ اس نے شادی سے پہلے بھی ایسے بے شمار کیے تھے، مگر ان کا اسکو احساس ہی نہیں تھا لیکن اب اس نے بڑی شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بے وفائی کررہا ہے اپنی سادہ لوح بیوی سے جس کو اس نے کئی بار شاردا کے خطوں کے سلسلے میں چکمہ دیا تھا۔ شاردا اب اور بھی زیادہ بے کشش ہو گئی۔ وہ اس سے روکھا برتاؤ کرنے لگا، مگر اس کے التفات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اتنا جانتی تھی کہ آرٹسٹ لوگ موجی ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس سے ا س کی بے التفاتی کا گلہ نہیں کرتی تھی۔ پورا ایک مہینہ ہو گیا۔ جب نذیر نے دن گنے تو اس کو بہت الجھن ہوئی۔

’’یہ عورت کیا پورا ایک مہینہ یہاں رہی ہے۔ میں کس قدر ذلیل آدمی ہوں۔ اور ادھر ہر روز میں اپنی بیوی کو خط لکھتا ہوں، جیسے بڑا وفادار شوہر ہوں۔ جیسے مجھے اس کا بہت خیال ہے۔ جیسے اس کے بغیر میری زندگی اجیرن ہے۔ میں کتنا بڑا فراڈ ہوں۔ ادھر اپنی بیوی سے غداری کررہا ہوں، ادھر شاردا سے۔ میں کیوں اس سے صاف صاف نہیں کہہ دیتا کہ بھئی اب مجھے تم سے لگاؤ نہیں رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے لگاؤ نہیں رہا، شاردا میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی؟‘‘

وہ اس کے متعلق سوچتا مگر اسے کوئی جواب نہ ملتا۔ اس کے ذہن میں عجیب افراتفری پھیلی تھی۔ وہ اب اخلاقیات کے متعلق سوچتا تھا۔ بیوی سے جو وہ غداری کررہا تھا، اس کا احساس ہر وقت اس پر غالب رہتا تھا۔ کچھ دن اور گزرے تو یہ احساس اور بھی زیادہ شدید ہو گیا۔ اور نذیر کو خود سے نفرت ہونے لگی۔

’’میں بہت ذلیل ہوں۔ یہ عورت میری دوسری بیوی کیوں بن گئی ہے۔ مجھے اس کی کب ضرورت تھی۔ یہ کیوں میرے ساتھ چپک گئی ہے۔ میں نے کیوں اس کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ جب اس نے تار بھیجا تھا۔ لیکن وہ تار ایسے وقت پر ملا تھا کہ میں اس کو روک ہی نہیں سکتا تھا۔ ‘‘

پھروہ سوچتا کہ شاردا جو کچھ کرتی ہے، بناوٹ ہے۔ وہ اس کو اس بناوٹ سے اپنی بیوی سے جدا کرنا چاہتی ہے۔ اس سے اس کی نظروں میں شاردا اور بھی گر گئی۔ اس سے نذیر کا سلوک اور زیادہ روکھا ہو گیا۔ اس روکھے پن کو دیکھ کر شاردا بہت زیادہ ملائم ہو گئی۔ اس نے نذیر کے آرام و آسائش کا زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا۔ لیکن نذیر کو اس کے اس رویے سے بہت الجھن ہوئی۔ وہ اس سے بے حدنفرت کرنے لگا۔ ایک دن اس کی جیب خالی تھی۔ بینک سے روپے نکلوانے اس کو یاد نہیں رہے تھے۔ دفتر بہت دیر سے گیا، اس لیے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جاتے وقت شاردا نے اس سے کچھ کہا تو وہ اس پر برس پڑا۔

’’بکواس نہ کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔ بینک سے روپے نکلوانے بھول گیا ہوں اور سگریٹ میرے سارے ختم ہیں۔ ‘‘

دفتر کے پاس کی دکان سے اس کو گولڈ فلیک کا ڈبہ ملا۔ یہ سگریٹ اس کو ناپسند تھے مگر ادھار مل گئے تھے۔ اس لیے دو تین مجبوراً پینے پڑے۔ شام کو گھر آیا تو دیکھا۔ تپائی پر اس کا من بھاتا سگریٹ کا ڈبہ پڑا ہے۔ خیال کیا کہ خالی ہے۔ پھر سوچا شاید ایک دو اس میں پڑے ہوں۔ کھول کر دیکھا تو بھرا ہوا تھا۔ شاردا سے پوچھا۔

’’یہ ڈبہ کہاں سے آیا؟‘‘

شاردا نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’اندر الماری میں پڑا تھا۔ ‘‘

نذیر نے کچھ نہ کہا۔ اس نے سوچا، شاید میں نے کھول کر اندر الماری میں رکھ دیا تھا اور بھول گیا۔ لیکن دوسرے دن پھر تپائی پر سالم ڈبہ موجود تھا۔ نذیر نے جب شاردا سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اندر الماری میں پڑا تھا۔ ‘‘

نذیر نے بڑے غصے کے ساتھ کہا۔

’’شاردا، تم بکواس کرتی ہو۔ تمہاری یہ حرکت مجھے پسند نہیں۔ میں اپنی چیزیں خود خرید سکتا ہوں۔ میں بھکاری نہیں ہوں جو تم میرے لیے ہر روز سگریٹ خریدا کرو۔ ‘‘

شاردا نے بڑے پیار سے کہا۔

’’آپ بھول جاتے ہیں، اسی لیے میں نے دو مرتبہ گستاخی کی۔ ‘‘

نذیر نے بے وجہ اور زیادہ غصے سے کہا۔

’’میرا دماغ خراب ہے۔ لیکن مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں۔ ‘‘

شاردا کا لہجہ بہت ہی ملائم ہو گیا۔

’’میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ ‘‘

نذیر نے ایک لحظے کے لیے خیال کیا کہ شاردا کی کوئی غلطی نہیں۔ اسے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لینا چاہیے اس لیے کہ وہ اس کا اتنا خیال رکھتی تھی۔ مگر فوراً ہی اس کو اپنی بیوی کا خیال آیا کہ وہ غداری کررہا تھا، چنانچہ اس نے شاردا سے بڑے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں کل یہاں سے روانہ کردوں۔ کل صبح تمہیں جتنے روپئے دوکار ہوں گے دے دوں گا۔ ‘‘

لیکن یہ کہہ کر نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بڑا کمینہ اور رذیل ہے۔ شاردا نے کچھ نہ کہا۔

’’رات کو وہ نذیر کے ساتھ سوئی۔ ساری رات اس سے پیار کرتی رہی۔ نذیر کو اس سے الجھن ہوتی رہی مگر اس نے شاردا پر اس کا اظہار نہ کیا۔ صبح اٹھا تو ناشتے پر بے شمار لذیذ چیزیں تھی۔ پھر بھی اس نے شاردا سے کوئی بات نہ کی۔ فارغ ہو کر وہ سیدھا بنک گیا۔ جانے سے پہلے اس نے شاردا سے صرف اتنا کہا۔ میں بنک جارہا ہوں۔ ابھی واپس آتا ہوں۔ ‘‘

بنک کی وہ شاخ جس میں نذیر کا روپیہ جمع تھا بالکل نزدیک تھا۔ وہ دو سو روپے نکلوا کر فوراً ہی واپس آگیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ سب روپیہ شاردا کے حوالے کردے گا اور اس کو ٹکٹ وغیرہ لے کر رخصت کردے گا۔ مگر وہ جب گھر پہنچا تو اس کے نوکر نے بتایا کہ وہ چلی گئی ہے۔ اس نے پوچھا۔

’’کہاں؟‘‘

نوکر نے بتایا۔

’’جی مجھ سے انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ اپنا ٹرنک اور بستر ساتھ لے گئی ہیں!‘‘

نذیر اندر کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ تپائی پر اس کے پسندیدہ سگرٹوں کا ڈبہ پڑا ہے۔ بھرا ہوا!‘‘

31جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

شادی

جمیل کو اپنا شیفر لائف ٹائم قلم مرمت کے لیے دینا تھا۔ اس نے ٹیلی فون ڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ایجنٹ میسرز ڈی، جے، سمتوئر ہیں جن کا دفتر گرین ہوٹل کے پاس واقع ہے۔ جمیل نے ٹیکسی اور فورٹ کی طرف چل دیا۔ گرین ہوٹل پہنچ کر اسے میسرز ڈی، جے، سمتوئر کا دفتر تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ بالکل پاس تھا مگر تیسری منزل پر۔ لفٹ کے ذریعے جمیل وہاں پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چوبی دیوار کی چھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے اسے ایک خوش شکل اینگلو انڈین لڑکی نظر آئی، جس کی چھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں۔ جمیل نے قلم اس کی کھڑکی کے اندر داخل کردیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔ لڑکی نے قلم اس کے ہاتھ سے لے لیا، کھول کر ایک نظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل کے حوالے کردیا۔ منہ سے وہ بھی کچھ نہ بولی۔ جمیل نے چٹ دیکھی۔ قلم کی رسید تھی۔ چلنے ہی والا تھا کہ پلٹ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔

’’دس بارہ روز تک تیار ہو جائے گا، میرا خیال ہے۔ ‘‘

لڑکی بڑے زور سے ہنسی۔ جمیل کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔

’’میں آپ کی اس ہنسی کا مطلب نہیں سمجھا۔ ‘‘

لڑکی نے کھڑکی کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’مسٹر۔ آج کل وار ہے وار۔ یہ قلم امریکہ جائے گا۔ تم نو مہینے کے بعد پتا کرنا۔ ‘‘

جمیل بوکھلا گا۔

’’نو مہینے!‘‘

لڑکی نے اپنے بریدہ بالوں والا سر ہلایا۔ جمیل نے لفٹ کا رخ کیا۔ یہ نو مہینے کا سلسلہ خوب تھا۔ نو مہینے۔ اتنی مدت کے بعد تو عورت گل گوتھنا بچہ پیداکرکے ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ نو مہینے۔ نو مہینے تک اس چھوٹی سی چٹ کو سنبھالے رکھو۔ اوریہ بھی کون وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ نو مہینے تک آدمی یاد رکھ سکتا ہے کہ اس نے ایک قلم مرمت کے لیے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں وہ کم بخت مرکھپ ہی جائے۔ جمیل نے سوچا، یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ قلم میں معمولی سی خرابی تھی کہ اس کا فیڈر ضرورت سے زیادہ روشنائی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے لیے اسے امریکہ کے ہسپتال میں بھیجنا صریحاً چالبازی تھی۔ مگر پھر اس نے سوچا، لعنت بھیجو اس قلم پر۔ امریکہ جائے یا افریقہ۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے یہ بلیک مارکیٹ سے ایک سو پچھتر روپے میں خریدا تھا۔ مگر اس نے ایک برس اسے خوب استعمال بھی تو کیا تھا۔ ہزاروں صفحے کالے کر ڈالے تھے۔ چنانچہ وہ قنوطی سے ایک دم رجائی بن گیا۔ اور رجائی بنتے ہی اسے خیال آیا کہ وہ فورٹ میں ہے اور فورٹ میں شراب کی بے شمار دکانیں۔ وسکی تو ظاہر ہے نہیں ملے گی لیکن فرانس کی بہترین کونک برانڈی تو مل جائے گی، چنانچہ اس نے قریب والی شراب کی دکان کا رخ کیا۔ برانڈی کی ایک بوتل خرید کر وہ لوٹ رہا تھا کہ گرین ہوٹل کے پاس آکے رک گیا۔ ہوٹل کے نیچے قد آدم شیشوں کا بنا ہوا قالینوں کا شو روم تھا۔ یہ جمیل کے دوست پیر صاحب کا تھا۔ اس نے سوچا چلو اندر چلیں۔ چنانچہ چند لمحات کے بعد ہی وہ شو روم میں تھا اور اپنے دوست پیر سے، جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا، اور ہنسی مذاق کی گفتگو کررہا تھا۔ برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیز ایرانی قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ پیر صاحب نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا۔

’’یار اس دلہن کا گھونگٹ تو کھولو۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔ ‘‘

جمیل مطلب سمجھ گیا۔

’’سو پیر صاحب گلاس اور سوڈے منگوادئیے۔ پھر دیکھیے کیا رنگ جمتا ہے۔ ‘‘

فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آگئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے آئے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تین گلاس اٹھالایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبالب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انھوں نے رومال سے اپنا منہ صاف کیا۔

’’سگریٹ نکالو یار!‘‘

پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیل نے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر۔ اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا

’’مسٹر نٹورلال۔ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔ ‘‘

جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔ موتیوں کی دلالی میں۔ پیر صاحب نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’مسٹر جمیل۔ مشہور سونگ رائٹر۔ ‘‘

دونوں نے ہاتھ ملایااور برانڈی کا نیا دور شروع ہوا اور ایسا شروع ہوا کہ بوتل خالی ہو گئی۔ جمیل نے دل میں سوچا یہ کم بخت موتیوں کا دلال بلا کا پینے والا ہے۔ میری پیاس اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا۔ خدا کرے اسے موتیا بند ہو۔ مگر جونہی آخری دور کے پیگ نے جمیل کے پیٹ میں اپنے قدم جمائے، اس نے نٹور لال کو معاف کردیا۔ اورآخر میں اس سے کہا۔

’’مسٹر نٹور! اٹھیے، ایک بوتل اور ہو جائے۔ ‘‘

نٹور لال فوراً اٹھا۔ اپنے سفید و گلے کی شکنیں درست کیں۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کی اور کہا۔

’’چلیے!‘‘

جمیل پیر صاحب سے مخاطب ہوا۔

’’ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔ ‘‘

جمیل اور نٹور نے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پرپہنچے۔ جمیل نے ٹیکسی روکی مگر نٹور نے کہا۔

’’مسٹر جمیل۔ یہ دکان ٹھیک نہیں۔ ساری چیزیں مہنگی بیچتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔

’’دیکھو کولابہ چلو!‘‘

کولابہ پہنچ کر نٹور، جمیل کوشراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں لے گیا۔ جو برانڈ جمیل نے فورٹ سے لیا، وہ تو نہ مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جس کی نٹور نے بہت تعریف کی کہ نمبر ون ہے۔ یہ نمبر ون چیز خرید کر دونوں باہر نکلے۔ ساتھ ہی بار تھی۔ نٹور رک گیا۔

’’مسٹر جمیل! کیا خیال ہے آپ کا، ایک دو پیگ یہیں سے پی کر چلتے ہیں۔ ‘‘

جمیل کو کوئی اعتراض نہیں تھا، اس لیے کہ اس کا نشہ حالت نزع میں تھا۔ چنانچہ دونوں بار کے اندر داخل ہوئے۔ معاً جمیل کو خیال آیا کہ بار والے تو کبھی باہر کی شراب پینے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔

’’مسٹر نٹور آپ یہاں کیسے پی سکتے ہیں۔ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔ ‘‘

نٹور نے زور سے آنکھ ماری۔

’’سب چلتا ہے۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر ایک کیبن کے اندر گھس گیا۔ جمیل بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ نٹور نے بوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیرے کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس کو بھی آنکھ ماری۔

’’دیکھو! دو سوڈے روجرز۔ ٹھنڈے۔ اور دو گلاس۔ ایک دم صاف‘‘

بیرا یہ حکم سن کر چلا گیا اور فوراً سوڈے اور گلاس حاضر کردیے۔ اس پر نٹور نے اسے دوسرا حکم دیا۔

’’فسٹ کلاس چپس اور ٹومیٹوسوس۔ اور فسٹ کلاس کٹلس!‘‘

بیرا چلا گیا۔ نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایسے ہی مسکرایا۔ بوتل کا کارک نکالا اور جمیل کو گلاس میں اس سے پوچھے بغیر ایک ڈبل ڈال دیا۔ خود اس سے کچھ زیادہ۔ سوڈا حل ہو گیا تو دونوں نے اپنے گلاس ٹکرائے۔ جمیل پیا سا تھا۔ ایک جرعے میں اس نے آدھا گلاس ختم کردیا۔ سوڈا چونکہ بہت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لیے پھوں پھوں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد چپس اور کٹلس آگئے۔ جمیل صبح گھر سے ناشتہ کرکے نکلا تھا لیکن برانڈی نے اسے بھوک لگادی۔ چپس گرم گرم تھے، کٹلس بھی۔ وہ پل پڑا۔ نٹور نے اس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف! دو پلیٹیں اور منگوائی گئیں۔ جمیل نے اپنے لیے چپس بھی منگوائے۔ دو گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بوتل کی تین چوتھائی غائب ہو چکی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اب پیر صاحب کے پاس جانا بے کار ہے۔ نشے خوب جم رہے تھے، سرور خوب گھٹ رہے تھے۔ نٹور اور جمیل دونوں ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایسے سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے، جہاں انھیں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں۔ وہ ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے پر بٹھالیں اور یہ جا، وہ جا۔ جمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی وادی کے متعلق سوچ رہا تھا جہاں اس کی کسی ایسی خوبصورت عورت سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کو وہ اپنے تپتے ہوئے سینے کے ساتھ بیھنچ لے، اس زور سے کہ اس کی ہڈیاں تک چٹخ جائیں۔ جمیل کو اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایسی جگہ پر ہے۔ مطلب ہے ایسے علاقے میں ہے جو اپنے بروتھلز(قحبہ خانے) کی وجہ سے ساری بمبئی میں مشہور ہے، جنھیں عیاشی کرنا ہوتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر سے بھی جس لڑکی کو لُک چھپ کر پیشہ کرنا ہوتا ہے، یہیں آتی ہے۔ ان معلومات کی بنا پر اس نے نٹورسے کہا۔

’’میں نے کہا۔ وہ۔ وہ۔ میرا مطلب ہے، ادھر کوئی چھوکری ووکری نہیں ملتی؟‘‘

نٹور نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ انڈیلا اور ہنسا۔

’’مسٹر جمیل! ایک نہیں ہزاروں۔ ہزاروں۔ ہزاروں۔ !‘‘

یہ ہزاروں کی گردان جاری رہتی اگر جمیل نے اس کی بات کاٹی نہ ہوتی۔

’’ان ہزاروں میں سے آج ایک ہی مل جائے تو ہم سمجھیں کہ نٹور بھائی نے کمال کردیا۔ ‘‘

نٹور بھائی مزے میں تھے۔ جھوم کرکہا۔

’’جمیل بھائی۔ ایک نہیں ہزاروں۔ چلو، اس کو ختم کرو۔ ‘‘

دونوں نے بوتل میں جو کچھ بچا تھا، آدھ گھنٹے کے اندر اندر ختم کردیا۔ بل ادا کرنے اور بیرے کو تکڑی ٹِپ دینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ اندر اندھیرا تھا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایک لحظے کے لیے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں تیز روشنی کی عادی ہوئیں تو اس نے نٹور سے کہا۔

’’چلو بھئی!‘‘

نٹور نے تلاشی لینے والی نگاہوں سے جمیل کی طرف دیکھا۔

’’مال پانی ہے نا؟‘‘

جمیل کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نٹور کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھوکا دے کر اس نے کہا۔

’’بہت۔ نٹور بھائی، بہت۔ ‘‘

اور اس نے جیب سے پانچ نوٹ سو سو کے نکالے۔

’’کیا اتنے کافی نہیں؟‘‘

نٹور کی باچھیں کھل گئیں۔

’’کافی۔ ؟ بہت زیادہ ہیں۔ چلو آؤ، پہلے ایک بوتل خرید لیں، وہاں ضرورت پڑے گی۔ ‘‘

جمیل نے سوچا بات بالکل ٹھیک ہے، وہاں ضرورت نہیں پڑے گی تو کیا کسی مسجد میں پڑے گی۔ چنانچہ فوراً ایک بوتل خرید لی گئی۔ ٹیکسی کھڑی تھی۔ دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس وادی کی سیاحی کرنے لگے۔ سینکڑوں بروتھلز تھے۔ ان میں سے بیس پچیس کا جائزہ لیا گیا، مگر جمیل کو کوئی عورت پسند نہ آئی۔ سب میک اپ کی موٹی اور شوخ تہوں کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ جمیل چاہتا تھا کہ ایسی لڑکی ملے جو مرمت شدہ مکان معلوم نہ ہو۔ جس کو دیکھ کر یہ احساس نہ ہو کہ جگہ جگہ اکھڑے ہوئے پلستر کے ٹکڑوں پر بڑے اناڑی پن سے سرخی اور چونا لگایا گیا ہے۔ نٹور تنگ آگیا۔ اس کے سامنے جو بھی عورت آتی تھی، وہ جمیل کا کندھا پکڑ کر کہتا۔

’’جمیل بھائی، چلے گی!‘‘

مگر جمیل بھائی اٹھ کھڑا ہوتا۔

’’ہاں چلے گی۔ اور ہم بھی چلیں گے!‘‘

دو جگہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ سوچتا تھا کہ ان عورتوں کے پاس کون آتا ہے جو سؤر کے سوکھے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی ادائیں کتنی مکروہ ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کا انداز کتنا فحش ہے اور کہنے کو یہ پرائیویٹ ہیں یعنی ایسی عورتیں جو در پردہ پیشہ کراتی ہیں۔ جمیل کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پردہ کہاں ہے جس کے پیچھے یہ دھندہ کراتی ہیں۔ جمیل سوچ ہی رہا تھا کہ اب پروگرام کیا ہونا چاہیے، کہ نٹور نے ٹیکسی رکوائی اور اتر کرچلا گیا کہ ایک دم اسے ایک ضروری کام یاد آگیا تھا۔ اب جمیل اکیلا تھا۔ ٹیکسی تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔

’’یہاں کوئی بھڑوا ملے گا؟‘‘

ڈرائیور نے جواب دیا۔

’’ملے گا جناب!‘‘

’’تو چلو اس کے پاس!‘‘

ڈرائیور نے دو تین موڑ گھومے اور ایک پہاڑی بنگلہ نما بلڈنگ کے پاس گاڑی کھڑی کردی۔ دو تین مرتبہ ہارن بجایا۔ جمیل کا سر نشے کے باعث سخت بوجھل ہورہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کیسے اور کس طرح، مگر جب اس نے ذرا دماغ کو جھٹکا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلنگ پر بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی ایک جوان لڑکی، جس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹی سی پھنسی تھی، اپنے بریدہ بالوں میں کنگھی کررہی ہے۔ جمیل نے اس کو غور سے دیکھا۔ سوچنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا مگر اس کے شعور نے اس کو مشورہ دیا کہ دیکھو یہ سب عبث ہے۔ جمیل نے سوچا، یہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر نوٹ گن کر اور پاس پڑی ہوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کرلی کہ سب خیریت ہے۔ اس کا نشہ کسی قدر نیچے اترگیا۔ اٹھ کروہ اس گیسو بریدہ لڑکی کے پاس گیا اور کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مسکرا کر اس سے کہا۔

’’کہیے، مزاج کیسا ہے؟‘‘

اس لڑکی نے کنگھی میز پر رکھی اور کہا۔

’’کہیے آپ کا کیسا ہے؟‘‘

’’ٹھیک ہوں!‘‘

یہ کہہ کر اس نے لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’بتا تو چکی ایک دفعہ۔ آپ کو میرا خیال ہے یہ بھی یاد نہ رہا ہو گا کہ آپ ٹیکسی میں یہاں آئے۔ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے ہوں گے کہ بل اڑتیس روپے بنا جو آپ نے ادا کیا اور ایک شخص کا نام شاید نٹور تھا، آپ نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔ ‘‘

جمیل اپنے اندر ڈوب کر سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں، میں بھول جایا کرتا ہوں۔ یا یوں سمجھیے کہ مجھے بار بار پوچھنے میں مزا آتا ہے۔ وہ صرف اتنا یاد کرسکا کہ اس نے ٹیکسی والے کا بل جو کہ اڑتیس روپے بنتا تھا، ادا کیا تھا۔ لڑکی پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’میرا نام تارہ ہے۔ ‘‘

جمیل نے اس کو لٹا دیا اور اس سے مصنوعی پیار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے تارہ سے کہا۔

’’دو یخ بستہ سوڈے اور گلاس!‘‘

تارہ نے یہ دونوں چیزیں فوراً حاضر کردیں۔ جمیل نے بوتل کھولی۔ اپنے لیے ایک پیگ ڈال کر اس نے دوسرا تارہ کے لیے ڈالا۔ پھر دونوں پینے لگے۔ تین پیگ پینے کے بعد جمیل نے محسوس کیا کہ اس کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔ تارہ کو چومنے چاٹنے کے بعد اس نے سوچا کہ اب قصہ مختصر ہو جانا چاہیے۔

’’کپڑے اتار دو!‘‘

’’سارے؟‘‘

’’ہاں سارے!‘‘

تارہ نے کپڑے اتار دیے اور لیٹ گئی۔ جمیل نے اس کے ننگے جسم کو ایک نظر دیکھا اور یہ رائے قائم کی کہ اچھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیالات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ جمیل کا نکاح ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو دو تین مرتبہ دیکھا تھا۔ اس کا بدن کیسا ہو گا۔ کیا وہ تارہ کی طرح اس کے ایک مرتبہ کہنے پر اپنے سارے کپڑے اتار کر اس کے ساتھ لیٹ جائے گی؟ کیا وہ اس کے ساتھ برانڈی پیے گی؟ کیا اس کے بال کٹے ہوئے ہیں؟ پھرفوراً اس کا ضمیر جاگا جس نے اس کو لعنت ملامت شروع کردی۔ نکاح کا یہ مطلب تھا کہ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ صرف ایک مرحلہ باقی تھا کہ وہ اپنی سسرال جائے اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر لے آئے۔ کیا اس کے لیے یہ واجب تھا کہ ایک بازاری عورت کو اپنی آغوش کی زینت بنائے۔ خم کے خم لنڈھاتا پھرے۔ جمیل بہت خفیف ہوا اور اسی خفت میں اس کی آنکھیں مندنا شروع ہو گئیں اور وہ سو گیا۔ تارہ بھی تھوڑی دیر کے بعد خواب غفلت کے مزے لینے لگی۔ جمیل نے کئی بے ربط، اوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد جب کہ ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا، وہ ہڑبڑا کے اٹھا۔ جب اچھی طرح آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک اجنبی کمرے میں ہے اور اس کے ساتھ الف ننگی لڑکی لیٹی ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد واقعات آہستہ آہستہ اس کے دماغ کی دھند چیر کر نمودار ہونے لگے۔ وہ خود بھی الف ننگا تھا۔ بوکھلاہٹ میں اس نے الٹا پاجامہ پہن لیا، مگر اس کو احساس نہ ہوا۔ کرتا پہن کر اس نے جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ سب کے سب موجود تھے۔ اس نے سوڈا کھولا اور ایک پیگ بنا کر پیا۔ پھر اس نے تارہ کو ہولے سے جھنجھوڑا۔

’’اٹھو!‘‘

تارہ آنکھیں ملتی اٹھی۔ جمیل نے اس سے کہا

’’کپڑے پہن لو!‘‘

تارہ نے کپڑے پہن لیے۔ باہر گہری شام رات بننے کی تیاریاں کررہی تھی۔ جمیل نے سوچا، اب کُوچ کرنا چاہیے۔ لیکن وہ تارہ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا، کیوں کہ بہت سی باتیں اس کے ذہن سے نکل گئیں تھیں۔

’’کیوں تارہ جب ہم لیٹے۔ میرا مطلب ہے جب میں نے تم سے کپڑے اتارنے کو کہا تو اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

تارہ نے جواب دیا۔

’’کچھ نہیں۔ آپ نے اپنے کپڑے اتارے اور میرے بازو پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے سو گئے۔ ‘‘

’’بس؟‘‘

’’ہاں۔ لیکن سونے سے پہلے آپ دو تین مرتبہ بڑبڑائے اور کہا۔

’’میں گنہگار ہوں۔ میں گنہگار ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر تارہ اٹھی اور اپنے بال سنوارنے لگی۔ جمیل بھی اٹھا۔ گناہ کا احساس دبانے کے لیے اس نے ڈبل پیگ اپنے حلق میں جلدی جلدی انڈیلا۔ بوتل کو کاغذ میں لپیٹا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ تارہ نے پوچھا۔

’’چلے؟‘‘

’’ہاں، پھر کبھی آؤں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ لوہے کی پیچ دار سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ بڑے بازار کی طرف اس کے قدم اٹھنے ہی والے تھے کہ ہارن بجا اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ اس نے کہا چلو، اچھا ہوا، یہیں مل گئی۔ پیدل چلنے کی زحمت سے بچ گئے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔

’’کیوں بھائی خالی ہے؟‘‘

ڈرائیور نے جواب دیا۔

’’خالی ہے کا کیا مطلب۔ لگی ہوئی ہے!‘‘

’’تو پھر۔ ‘‘

یہ کہہ کر جمیل مڑا، لیکن ڈرائیور نے اس کو پکارا۔

’’کدھر جاتا ہے سیٹھ؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’کوئی اور ٹیکسی دیکھتا ہوں۔ ‘‘

ڈرائیور باہر نکل آیا۔

’’مستک تو نہیں پھرے لا۔ یہ ٹیکسی تمہیں نے تو لے رکھی یہ!‘‘

جمیل بوکھلا گیا۔

’’میں نے؟‘‘

ڈرائیور نے بڑے گنوار لہجے میں اس سے کہا۔

’’ہاں تو نے۔ سالا دارو پی کرسب کچھ بھول گیا۔ ‘‘

اس پر تُو تُو میں میں شروع ہوئی۔ ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جمیل نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔

’’چلو!‘‘

ڈرائیور نے ٹیکسی چلائی۔

’’کدھر؟‘‘

جمیل نے کہا۔

’’پولیس اسٹیشن!‘‘

ڈرائیور نے اس پر جانے کیا واہی تباہی بکی۔ جمیل سوچ میں پڑ گیا۔ جو ٹیکسی اس نے لی تھی، اس کا بل جو اڑتیس روپے تھا، اس نے ادا کردیا تھا۔ اب یہ نئی ٹیکسی کہاں سے آن ٹپکی۔ گو وہ نشے کی حالت میں تھا مگر وہ یقینی طور پر کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ ٹیکسی نہیں تھی، اور نہ یہ ڈرائیور وہ ڈرائیور جو اسے یہاں لایا تھا۔ پولیس اسٹیشن پہنچے۔ جمیل کے قدم بہت بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ سب انسپکٹر جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، فوراً بھانپ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے جمیل کو کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے اپنی داستان شروع کردی جو سرتاپا غلط تھی۔ جمیل یقیناً اس کی تردید کرتا مگر اس میں زیادہ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ سب انسپکٹر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا۔

’’جناب! میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کیا قصہ ہے، جو ٹیکسی میں نے لی تھی، اس کا کرایہ میں نے اڑتیس روپے ادا کردیا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور مجھ سے کیسا کرایہ مانگتا ہے؟‘‘

ڈرائیور نے کہا۔

’’حضور انسپکٹر بہادر! یہ دارو پئے ہے۔ ‘‘

اور ثبوت کے طور پر اس نے جمیل کی برانڈی کی بوتل میز پر رکھ دی۔ جمیل جھنجھلا گیا۔

’’ارے بھئی! کون سؤر کہتا ہے کہ اس نے نہیں پی۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ کہاں سے تشریف لے آئے۔ ‘‘

سب انسپکٹر شریف آدمی تھا۔ کرایہ ڈرائیور کے حساب سے بیالیس روپے بنتا تھا۔ اس نے پندرہ روپے میں فیصلہ کردیا۔ ڈرائیور بہت چیخا چلایا مگر سب انسپکٹر نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر تھانے سے نکلوا دیا۔ پھر اس نے ایک سپاہی سے کہا کہ وہ دوسری ٹیکسی لائے۔ ٹیکسی آئی تو اس نے ایک سپاہی جمیل کے ساتھ کردیا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے۔ جمیل نے لکنت بھرے لہجے میں اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پوچھا۔

’’جناب کیا یہ گرانٹ روڈ پولیس اسٹیشن ہے؟‘‘

سب انسپکٹر نے زور کا قہقہہ لگایا اور پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’مسٹر! اب ثابت ہو گیا کہ تم نے خوب پی رکھی ہے۔ یہ کولابہ پولیس اسٹیشن ہے۔ جاؤ، اب گھر جا کر سو جاؤ۔ ‘‘

جمیل گھر جا کے کھانا کھائے اور کپڑے اتارے بغیر سو گیا۔ برانڈی کی بوتل بھی اس کے ساتھ سوتی رہی۔ دوسرے روز وہ دس بجے کے قریب اٹھا۔ جوڑ جوڑ میں درد تھا۔ سر میں جیسے بڑے بڑے و زنی پتھر تھے۔ منہ کا ذائقہ خراب۔ اس نے اٹھ کر دو تین گلاس فروٹ سالٹ کے پیے، چار پنچ پیالے چائے کے۔ تب کہیں شام کو جا کر طبیعت کسی قدر بحال ہوئی اور اس نے خود کو گزشتہ واقعات کے متعلق سوچنے کے قابل محسوس کیا۔ بہت لمبی زنجیر تھی۔ ان میں سے بعض کڑیاں تو سلامت تھیں، مگر بعض غائب۔ واقعات کا تسلسل شروع سے لے کر گرین ہوٹل اور وہاں سے لے کر کولابہ تک بالکل صاف تھا۔ اس کے بعد جب نٹور کے ساتھ خاص وادی کی سیاحی شروح ہوئی تھی، معاملہ گڈمڈ ہو جاتا تھا۔ چند جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بڑی واضح، مگر فوراً مبہم پرچھائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اس لڑکی کے گھر پہنچا۔ اس کا نام جمیل کے حافظے سے پھسل کر جانے کس کھڈ میں جا گرا تھا۔ اس کی شکل و صورت اسے البتہ بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ وہ اس کے گھر کیسے پہنچا تھا۔ یہ جاننا بہت اہم تھا۔ اگر جمیل کا حافظہ اس کی مدد کرتا تو بہت سی چیزیں صاف ہو جاتیں۔ مگر بصد کوشش وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اور یہ ٹیکسیوں کا کیا سلسلہ تھا۔ اس نے پہلی کوتوچھوڑ دیا تھا، مگر وہ دوسری کہاں سے ٹپک پڑی تھی؟ سوچ سوچ کے جمیل کا دماغ پاش پاش ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جتنے وزنی پتھر تھے، سب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چُور چُور ہو گئے ہیں۔ رات کو اس نے برانڈی کے تین پیگ پئے، تھوڑا سا ہلکا کھانا کھایا اور گزشتہ واقعات کے متعلق سوچتاسوچتا سو گیا۔ وہ ٹکڑے جو گم ہو گئے تھے، ان کو تلاش کرنا اب جمیل کا شغل ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس روز ہوا، من و عن اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے اور یہ روز روز کی مغزپاشی دور ہو۔ اس کے علاوہ اس کو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ اس کا گناہ نامکمل رہ گیا۔ وہ سوچتا یہ ادھورا گناہ جائے گا کس کھاتے میں۔ وہ چاہتا تھا کہ بس ایک دفعہ اس کی بھی تکمیل ہو جائے۔ مگر تلاش بسیار کے باوجود وہ پہاڑی بنگلوں جیسا مکان جمیل کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے ایک دن سوچا کہ یہ سب خواب ہی تو نہیں تھا! مگر خواب کیسے ہو سکتا تھا۔ خواب میں آدمی اتنے روپے تو خرچ نہیں کرتا۔ اس روز اس کے کم از کم ڈھائی سو روپے خرچ ہوئے تھے۔ پیر صاحب سے اس نے نٹور کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس روز کے بعد دوسرے دن ہی سمندر پار کہیں چلا گیا ہے۔ غالباً موتیوں کے سلسلے میں۔ جمیل نے اس پر ہزار لعنتیں بھیجیں اورا پنی تلاش شروع کردی۔ اس نے جب اپنے حافظے پر بہت زور دیا تو اسے بنگلے کی دیوار کے ساتھ پیتل کی ایک پلیٹ نظر آئی۔ اس پرکچھ لکھا تھا۔ غالباً۔ ڈاکٹر۔ ڈاکٹر بیرام جی۔ آگے جانے کیا۔ ایک دن کولابہ کی گلیوں میں چلتے چلتے آخر وہ ایک ایسی گلی میں پہنچا جو اس کو جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ دو رویہ اسی قسم کی بنگلہ نما عمارتیں تھیں۔ ہر عمارت کے باہر چھوٹے چھوٹے پیتل کے بورڈ لگے تھے۔ کسی پر چار کسی پر پانچ۔ کسی پر تین۔ وہ ادھر ادھر غور سے دیکھتا چلا جارہا تھا، مگر اس کے دماغ میں وہ خط گھوم رہا تھا جو صبح اس کی ساس کی طرف سے موصول ہوا تھا کہ اب انتظار کی حد ہو گئی ہے۔ میں نے تاریخ مقرر کردی ہے، آؤ اور اپنی دلہن کو لے جاؤ۔ اور وہ ادھر ایک نامکمل گناہ کومکمل بنانے کی کوشش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ جمیل نے کہا۔

’’ہٹاؤ جی اس وقت۔ پھرنے دو مارا مارا۔ ایک دم اس نے اپنا داہنے ہاتھ پیتل کا ایک چھوٹا سا بورڈ دیکھا۔ اس پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر ایم بیرام جی۔ ایم ڈی۔ جمیل کانپنے لگا۔ یہ وہی بلڈنگ۔ بالکل وہی۔ وہی رنگ، وہی بل کھاتی ہوئی آہنی سیڑھیاں۔ جمیل بے دھڑک اوپر چلا گیا۔ اس کے لیے اب ہر چیز جانی پہچانی تھی۔ کوریڈور سے نکل کر اس نے سامنے والے دروازے پر دستک دی۔ ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اسی لڑکے نے جو اس روز سوڈا اور برف لایا تھا۔ جمیل نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’بیٹا، بائی جی ہیں؟‘‘

لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’جی ہاں!‘‘

’’جاؤ، ان سے کہو، صاحب ملنے آئے ہیں۔ ‘‘

جمیل کے لہجے میں بے تکلفی تھی۔ لڑکا دروازہ بھیڑ کر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور تارہ نمودار ہوئی۔ اس کو دیکھتے ہی جمیل نے پہچان لیا کہ وہ لڑکی ہے، مگر اب اس کی ناک پر پھنسی نہیں تھی۔

’’نمستے!‘‘

’’نمستے! کہیے مزاج کیسے ہیں؟‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ جمیل نے جواب دیا۔

’’اچھے ہیں۔ میں پچھلے دنوں بہت مصروف رہا، اس لیے آ نہ سکا۔ کہو، پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘

تارہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’معاف کیجیے، میری شادی ہو چکی ہے۔ ‘‘

جمیل بوکھلا گی۔

’’شادی۔ کب؟‘‘

تارہ نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’جی، آج صبح۔ آئیے میں آپ کو اپنے پتی سے ملاؤں۔ ‘‘

جمیل چکرا گیا اور کچھ کہے سنے بغیر کھٹا کھٹ نیچے اتر گیا۔ سامنے ٹیکسی کھڑی تھی۔ جمیل کا دل ایک لحظے کے لیے ساکت سا ہو گیا۔ تیز قدم اٹھاتا، وہ بڑے بازار کی طرف نکل گیا۔ معاً جمیل کو جاتے دیکھ کرڈرائیور نے زور سے کہا۔

’’سیٹھ صاحب ٹیکسی!‘‘

جمیل نے جھنجھلا کر کہا۔

’’نہیں کم بخت، شادی!‘‘

سعادت حسن منٹو

شاداں

خان بہادر محمد اسلم خان کے گھرمیں خوشیاں کھیلتی تھیں۔ اورصحیح معنوں میں کھیلتی تھی۔ ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک لڑکا۔ اگر بڑی لڑکی کی عمرتیرہ برس کی ہو گی تو چھوٹی کی یہی گیارہ ساڑھے گیارہ۔ اور جو لڑکا تھا گو سب سے چھوٹا مگر قد کاٹھ کے لحاظ سے وہ اپنی بڑی بہنوں کے برابر معلوم ہوتا تھا۔ تینوں کی عمر جیسا کہ ظاہر ہے اس دور سے گزررہی تھی جب کہ ہر آس پاس کی چیز کھلونا معلوم ہوتی ہے۔ حادثے بھی یوں آتے ہیں، جیسے ربڑ کے اڑتے ہوئے غبارے۔ ان سے بھی کھیلنے کو چاہتا ہے۔ خان بہادر محمد اسلم کا گھر خوشیوں کا گھر تھا۔ اس میں سب سے بڑی تین خوشیاں، اس کی اولاد تھیں۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب۔ یہ تینوں اسکول جاتے تھے جیسے کھیل کے میدان میں جاتے ہیں۔ ہنسی خوشی جاتے تھے۔ ہنسی خوشی واپس آتے تھے اور امتحان یوں پاس کرتے تھے جیسے کھیل میں کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جائے۔ کبھی فریدہ فرسٹ آتی تھی، کبھی نجیب اور کبھی سعیدہ۔ خان بہادر محمد اسلم بچوں سے مطمئن، ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے تھے انھوں نے محکمہ زراعت میں بتیس برس نوکری کی تھی۔ معمولی عہدہ سے بڑھتے بڑھتے وہ بلند ترین مقام پر پہنچ گئے۔ اس دوران میں انھوں نے بڑی محنت کی تھی، دن رات دفتری کام کیے تھے۔ اب وہ سستا رہے تھے۔ اپنے کمرے میں کتابیں لے کر پڑے رہتے اور ان کے مطالعے میں مصروف رہتے۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب کبھی کبھی ماں کا کوئی پیغام لے کر آتے تو وہ اس کا جواب بھجوا دیتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے اپنا بستر وہیں اپنے کمرے میں لگا لیا تھا۔ دن کی طرح ان کی رات بھی یہیں گزرتی تھی۔ دنیا کے جھگڑے ٹنٹنوں سے بالکل الگ۔ کبھی کبھی ان کی بیوی جو ادھیڑ عمر کی عورت تھی ان کے پاس آجاتی اور چاہتی کہ وہ اس سے دو گھڑی باتیں کریں مگر وہ جلد ہی اسے کسی بہانے سے ٹال دیتے۔ یہ بہانہ عام طور پر فریدہ اور سعیدہ کے جہیز کے متعلق ہوتا

’’جاؤ، یہ عمر چونچلے بگھارنے کی نہیں۔ گھر میں دو جوان بیٹیاں ہیں، ان کے دان دہیج کی فکر کرو۔ سونا دن بدن مہنگا ہورہاہے۔ دس بیس تولے خرید کر کیوں نہیں رکھ لیتیں۔ وقت آئے گا تو پھر چیخو گی کہ ہائے اللہ، خالی زیوروں پر اتنا روپیہ اٹھ رہا ہے۔ ‘‘

یا پھر وہ کبھی اس سے یہ کہتے۔

’’فرخندہ خانم۔ میری جان ہم بڈھے ہو چکے ہیں۔ تمہیں اب میری فکر اور مجھے تمہاری فکر ایک بچے کی طرح کرنی چاہیے۔ میری ساری پگڑیاں لیرلیر ہو چکی ہیں مگر تمہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ململ کے دو تھان ہی منگوالو۔ دو نہیں چار۔ تمہارے اور بچیوں کے دوپٹے بھی بن جائیں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیا چاہتی ہو؟۔ اور ہاں وہ میری مسواکیں ختم ہو گئی ہیں۔ ‘‘

فرخندہ، خان بہادر کے پلنگ پر بیٹھ جاتی اور بڑے پیار سے کہتی۔

’’ساری دنیا برش استعمال کرتی ہے۔ آپ ابھی تک پرانی لکیر کے فقیر بنے ہیں۔ ‘‘

خان بہادر کے لہجے میں نرمی آجاتی۔

’’نہیں فرخندہ جان۔ یہ برش اورٹوتھ پیسٹ سب واہیات چیزیں ہیں۔ ‘‘

فرخندہ کے ادھیڑ چہرے پر لکیروں کی کوڑیاں اور مولیاں سی بکھر جاتیں۔ مگر صرف ایک لحظے کے لیے خان بہادر اس کی طرف دیکھتے اور باہر صحن میں بچوں کی کھیل کود کا شور و غل سنتے ہوئے کہتے

’’فرخندہ۔ تو کل ململ کے تھان آجائیں۔ اور لٹھے کے بھی۔ ‘‘

لیکن فوراً ہی معلوم نہیں کیوں ان کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ جاتی اور وہ فرخندہ کو منع کردیتے۔

’’نہیں نہیں، لٹھا منگوانے کی ابھی ضرورت نہیں۔ !‘‘

باہر صحن میں بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے۔ سہ پہر کو شاداں عموماً ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ گو نئی نئی آئی تھی۔ لیکن ان میں فوراً ہی گھل مل گئی تھی۔ سعیدہ اور فریدہ تو اس کے انتظار میں رہتی تھیں کہ وہ کب آئے اور سب مل کر

’’لکن میٹی‘‘

یا کِھدو‘‘

کھیلیں۔ شاداں کے ماں باپ عیسائی تھے۔ مگر جب سے شاداں خان بہادر کے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ فریدہ کی ماں نے اس کا اصلی نام بدل کر شاداں رکھ دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ بڑی ہنس مکھ لڑکی تھی اور اس کی بچیاں اس سے پیار کرنے لگی تھیں۔ شاداں صبح سویرے آتی تو فریدہ، سعیدہ اور نجیب اسکول جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے۔ وہ اس سے باتیں کرنا چاہتے مگر ماں ان سے کہتی

’’بچوجلدی کرو۔ اسکول کا وقت ہورہا ہے۔ ‘‘

اور بچے جلدی جلدی تیاری سے فارغ ہو کر شاداں کو سلام کہتے ہوئے اسکول چلے جاتے۔ سہ پہر کے قریب شاداں جلدی جلدی محلے کے دوسرے کاموں سے فارغ ہو کرآجاتی اور فریدہ، سعیدہ اور نجیب کھیل میں مشغول ہو جاتے اور اتنا شور مچتا کہ بعض اوقات خان بہادر کو اپنے کمرے سے نوکر کے ذریعے سے کہلوانا پڑتا کہ شور ذرا کم کیا جائے۔ یہ حکم سن کر شاداں سہم کر الگ ہو جاتی، مگر سعیدہ اور فریدہ اس سے کہتیں

’’کوئی بات نہیں شاداں۔ ہم اس سے بھی زیادہ شور مچائیں تو وہ اب کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک سے زیادہ بار وہ کوئی بات نہیں کہا کرتے۔ ‘‘

اور کھیل پھر شروع ہو جاتا۔ کبھی لکن میٹی، کبھی کِھدو اور کبھی لوڈو۔ لوڈو، شاداں کو بہت پسند تھی، اس لیے کہ یہ کھیل اس کے لیے نیا تھا۔ چنانچہ جب سے نجیب لوڈو لایا تھا، شاداں اسی کھیل پر مصر ہوتی۔ مگر فریدہ، سعیدہ اور نجیب تینوں کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ بس وہ جو

’’چٹو‘‘

سا ہوتا ہے، اس میں پانسہ ہلاتے اور پھینکتے رہو اور اپنی گوٹیں آگے پیچھے کرتے رہو۔ شاداں کھلی کھلی رنگت کی درمیانے قد کی لڑکی تھی۔ اس کی عمر فریدہ جتنی ہو گی مگر اس میں جوانی زیادہ نمایاں تھی۔ جیسے خود جوانی نے اپنی شوخیوں پر لال پنسل کے نشان لگا دیے ہیں۔ محض شرارت کے لیے۔ ورنہ فریدہ اور سعیدہ میں وہ تمام رنگ، وہ تمام لکیریں، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو اس عمر کی لڑکیوں میں ہوتی ہیں۔ لیکن فریدہ، سعیدہ اور شاداں جب پاس کھڑی ہوتیں تو شاداں کی جوانی زیر لب کچھ گنگناتی معلوم ہوتی۔ کھلی کھلی رنگت۔ پریشان بال اور دھڑکتا ہوا دوپٹہ جو کس کر اس نے اپنے سینے اور کمرکے اردگرد باندھا ہوتا۔ ایسی ناک، جس کے نتھنے گویا ہوا میں انجانی خوشبو میں ڈھونڈنے کے لیے کانپ رہے ہیں۔ کان ایسے جو ذرا سی آہٹ پر چونک کر سننے کے لیے تیار ہوں۔ چہرے کے خد وخال میں کوئی خوبی نہیں تھی۔ اگر کوئی عیب گننے لگتا تو بڑی آسانی سے گن سکتا تھا، صرف اسی صورت میں اگر اس کا چہرہ اس کے جسم سے الگ کرکے رکھ دیا جاتا۔ مگر ایسا کیا جانا ناممکن تھا، اس لیے کہ اس کے چہرے اور اس کے بقایا جسم کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جس طرح چولی علیحدہ کرنے پر جسم کے آثار اس میں باقی رہ جاتے ہیں، اسی طرح اس کے چہرے پر بھی رہ جاتے اور اس کو پھر اس کی سالمیت ہی میں دیکھنا پڑتا۔ شاداں بے حد پھرتیلی تھی۔ صبح آتی اور یوں منٹا مٹنی میں اپنا کام ختم کرکے یہ جا وہ جا۔ سہ پہر کو آتی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھیل کود میں مصروف رہتی۔ جب خان بہادر کی بیوی آخری بار چلا کر کہتی۔

’’شاداں، اب خدا کے لیے کام تو کرو۔ ‘‘

تو وہ وہیں کھیل بند کرکے اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ ٹوکرہ اٹھاتی اور دو دو زینے ایک جست میں طے کرتی کوٹھے پر پہنچ جاتی۔ وہاں سے فارغ ہو کر دھڑ دھڑ دھڑ نیچے اترتی اور صحن میں جھاڑو شروع کردیتی۔ اس کے ہاتھ میں پھرتی اور صفائی دونوں چیزیں تھیں۔ خان بہادر اور اس کی بیوی فرخندہ کو صفائی کا بہت خیال تھا، لیکن مجال ہے جو شاداں نے کبھی ان کو شکایت کا موقع دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے کھیل کود پر معترض نہیں ہوتے تھے۔ یوں بھی وہ اس کو پیار کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ روشن خیال تھے، اس لیے چھوت چھات ان کے نزدیک بالکل فضول تھی۔ شروع شروع میں تو خان بہادر کی بیوی نے اتنی اجازت دی تھی کہ لکن میٹی میں اگر کوئی شاداں کو چھوئے تو لکڑی استعمال کرے اور اگر وہ چھوئے تو بھی لکڑی کا کوئی ٹکڑا استعمال کرے، لیکن کچھ دیر کے بعد یہ شرط ہٹا دی گئی اور شاداں سے کہا گیا کہ وہ آتے ہی صابن سے اپنا ہاتھ منہ دھو لیا کرے۔ جب شاداں کی ماں کمانے کے لیے آتی تھی تو خان بہادر اپنے کمرے کی کسی چیز سے اس کو چھونے نہیں دیتے تھے، مگر شاداں کو اجازت تھی کہ وہ صفائی کے وقت چیزوں کی جھاڑ پونچھ بھی کرسکتی ہے۔ صبح سب سے پہلے شاداں، خان بہادر کے کمرے کی صفائی کرتی تھی۔ وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہوتے۔ شاداں ہاتھ میں برش لیے آتی تو ان سے کہتی

’’خان بہادر صاحب۔ ذرا برآمدے میں چلے جائیے!‘‘

خان بہادر اخبارسے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھتے شاداں فوراً ان کے پلنگ کے نیچے سے ان کے سلیپر اٹھا کر ان کو پہنا دیتی اور وہ برآمدے میں چلے جاتے۔ جب کمرے کی صفائی اور جھاڑ پونچھ ہو جاتی تو شاداں دروازے کی دہلیز کے پاس ہی سے کمر میں ذرا سا جھانکنے کا خم پیدا کرکے خان بہادر کو پکارتی

’’آجائیے خان بہادر صاحب۔ ‘‘

خان بہادر صاحب اخبار اور سلیپر کھڑکھڑاتے اندر آجاتے۔ اور شاداں دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتی۔ شاداں کو کام پر لگے، دو مہینے ہو گئے تھے۔ یہ گزرے تو خان بہادر کی بیوی نے ایک دن یوں محسوس کیا کہ شاداں میں کچھ تبدیلی آگئی ہے۔ اس نے سرسری غور کیا تو یہی بات ذہن میں آئی کہ محلے کے کسی نوجوان سے آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ اب وہ زیادہ بن ٹھن کے رہتی تھی۔ اگر وہ پہلے کوری ململ تھی۔ تو اب ایسا لگتاتھا کہ اسے کلف لگا ہوا ہے۔ مگر یہ کلف بھی کچھ ایسا تھا جو ململ کے ساتھ انگلیوں میں چنا نہیں گیا تھا۔ شادان دن بدن تبدیل ہو رہی تھی۔ پہلے وہ اترن پہنتی تھی، پر اب اس کے بدن پر نئے جوڑے نظر آتے تھے۔ بڑے اچھے فیشن کے بڑے عمدہ سلے ہوئے۔ ایک دن جب وہ سفید لٹھے کی شلوار اور پھولوں والی جارجٹ کی قمیض پہن کر آئی تو فریدہ کو باریک کپڑے کے نیچے سفید سفید گول چیزیں نظر آئیں۔ لکن میٹی ہورہی تھی۔ شاداں نے دیوار کے ساتھ منہ لگا کر زور سے اپنی آنکھیں میچی ہوئی تھیں۔ فریدہ نے اس کی قمیض کے نیچے سفید سفید گول چیزیں دیکھی تھیں۔ وہ بوکھلائی ہوئی تھی۔ جب شاداں نے پکارا

’’چھپ گئے؟‘‘

تو فریدہ نے سعیدہ کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے گئی اور دھڑکتے ہوئے دل سے اس کے کان میں کہا۔

’’سعیدہ۔ تم نے دیکھا، اس نے کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

سعیدہ نے پوچھا۔

’’کس نے؟‘‘

فریدہ نے اس کے کان ہی میں کہا۔

’’شاداں نے؟‘‘

’’کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

فریدہ کی جوابی سرگوشی سعیدہ کے کان میں غڑاپ سے غوطہ لگا گئی۔ جب ابھری تو سعیدہ نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور ایک بھنچی بھنچی حیرت کی

’’میں‘‘

اس کے لبوں سے خود کو گھسیٹتی ہوئی باہر نکلی۔ دونوں بہنیں کچھ دیر کھسر پھسر کرتی رہیں۔ اتنے میں دھماکا سا ہوا اور شاداں نے ان کو ڈھونڈ لیا۔ اس پر سعیدہ اور فریدہ کی طرف سے قاعدے کے مطابق چخم ڈھاڑ ہونا چاہیے تھی مگر وہ چپ رہیں۔ شاداں کی خوشی کی مزید چیخیں اس کے حلق میں رک گئیں۔ فریدہ اور سعیدہ کمرے کے اندھیرے کونے میں کچھ سہمی سہمی کھڑی تھیں شاداں بھی قدرے خوفزدہ ہو گئی۔ ماحول کے مطابق اس نے اپنی آواز دبا کر ان سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

فریدہ نے سعیدہ کے کان میں کچھ کہا، سعیدہ نے فریدہ کے کان میں۔ دونوں نے ایک دوسری کو کہنیوں سے ٹھوکے دیے۔ آخر فریدہ نے کانپتے ہوئے لہجے میں شاداں سے کہا۔

’’یہ تم نے۔ یہ تم نے قمیض کے نیچے کیا پہن رکھا ہے!‘‘

شاداں کے حلق سے ہنسی کے گول گول ٹکڑے نکلے۔ سعیدہ نے پوچھا۔

’’کہاں سے لی تو نے یہ؟‘‘

شاداں نے جواب دیا۔

’’بازار سے؟‘‘

فریدہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

’’کتنے میں؟‘‘

’’دس روپے میں!‘‘

دونوں بہنیں ایک دم چلاتے چلاتے رک گئیں۔

’’اتنی مہنگی!‘‘

شاداں نے صرف اتنا کہا۔

’’کیا ہم غریب دل کو اچھی لگنے والی چیزیں نہیں خرید سکتے؟‘‘

اس بات نے فوراً ہی ساری بات ختم کردی۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اس کے بعد پھر کھیل شروع ہو گیا۔ کھیل جاری تھا۔ مگر کہاں جاری تھا۔ یہ خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب تو شاداں بڑھیا قسم کا تیل بالوں میں لگاتی تھی۔ پہلے ننگے پاؤں ہوتی تھی، پر اب اس کے پیروں میں اس نے سینڈل دیکھے۔ کھیل یقیناً جاری تھا۔ مگر خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اگر کھیل جاری ہے تو اس کی آواز شاداں کے جسم سے کیوں نہیں آتی۔ ایسے کھیل بے آواز اور بے نشان تو نہیں ہوا کرتے۔ یہ کیسا کھیل ہے جو صرف کپڑے کا گز بنا ہوا ہے۔ اس نے کچھ دیر اس معاملے کے بارے میں سوچا، لیکن پھر سوچا کہ وہ کیوں بیکار مغز پاشی کرے۔ ایسی لڑکیاں خراب ہوا ہی کرتی ہیں اور کتنی د استانیں ہیں جو ان کی خرابیوں سے وابستہ ہیں اور شہر کے گلی کوچوں میں ان ہی کی طرح رُلتی پھرتی ہیں۔ دن گزرتے رہے اور کھیل جاری رہا۔ فریدہ کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ اس کی ماں خان بہادر کی بیوی کی منہ بولی بہن تھی۔ اس لیے سب کی شرکت لازمی تھی۔ گھر میں صرف خان بہادر تھے سردی کا موسم تھا۔ رات کو خان بہادر کی بیوی کو معاً خیال آیا کہ اپنی گرم شال منگوالے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ نوکر بھیج دے مگر وہ ایسے صندوق میں پڑی تھی۔ جس میں زیورات بھی تھے، اس لیے اس نے نجیب کو ساتھ لیا اور اپنے گھر آئی۔ رات کے دس بجے چکے تھے۔ اسکا خیال تھا کہ دروازہ بند ہو گا، چنانچہ اس نے دستک دی۔ جب کسی نے نہ کھولا تو نجیب نے دروازے کو ذرا سا دھکا دیا۔ وہ کھل گیا۔ اندر داخل ہوکر اس نے صندوق سے شال نکالی اور نجیب سے کہا۔

’’جاؤ، دیکھو تمہارے ابا کیا کررہے ہیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم تو ابھی تھوڑی دیر کے بعد لوٹ آؤ گے، لیکن ہم سب کل صبح آئیں گے۔ جاؤ بیٹا!‘‘

صندوق میں چیزیں قرینے سے رکھ کر وہ تالا لگا رہی تھی کہ نجیب واپس آیا اور کہنے لگا۔

’’ابا جی تو اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ ‘‘

’’اپنے کمرے میں نہیں ہیں؟۔ اپنے کمرے میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں؟

’’خان بہادرکی بیوی نے تالا بند کیا اور چابی اپنے بیگ میں ڈالی۔

’’تم یہاں کھڑے رہو، میں ابھی آتی ہوں!‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے شوہر کے کمرے میں گئی جو کہ خالی تھا مگر بتی چل رہی تھی۔ بستر پر سے چادر غائب تھی۔ فرش دھلا ہوا تھا۔ ایک عجیب قسم کی بُو کمرے میں بسی ہوئی تھی۔ خان بہادر کی بیوی چکرا گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ پلنگ کے نیچے جھک کر دیکھا، مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز تھی۔ اس نے رینگ کر اسے پکڑا اور باہر نکل کر دیکھا۔ خان بہادر کی موٹی مسواک تھی۔ اتنے میں آہٹ ہوئی۔ خان بہادر کی بیوی نے مسواک چھپالی۔ خان بہادر اندر داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی مٹی کے تیل کی بو۔ ان کا رنگ زرد تھا جیسے سارا لہو نچڑ چکا ہے۔ کانپتی ہوئی آواز میں خان بہادر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔

’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ شال لینے آئی تھی۔ میں نے سوچا، آپ کو دیکھتی چلوں۔ ‘‘

’’جاؤ!‘‘

خان بہادر کی بیوی چلی گئی۔ چند قدم صحن میں چلی ہو گی کہ اسے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی۔ وہ بہت دیر تک اپنے کمرے میں بیٹھی رہی پھر نجیب کو لے کر چلی گئی۔ دوسرے روز فریدہ کی سہیلی کے گھر خان بہادر کی بیوی کو یہ خبر ملی کہ خان بہادر گرفتار ہو گئے ہیں۔ جب اس نے پتا لیا تو معلوم ہوا کہ جرم بہت سنگین ہے۔ شاداں جب گھر پہنچی تو لہولہان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو گئی۔ اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے۔ پولیس ساتھ تھی۔ شاداں کو وہاں ایک لحظے کے لیے ہوش آیا اور اس نے صرف

’’خان بہادر‘‘

کہا۔ اس کے بعد وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئی۔ جرم بہت سنگین تھا۔ تفتیش ہوئی۔ مقدمہ چلا۔ استغاثے کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی۔ ایک صرف شاداں کے لہو میں لتھرے ہوئے کپڑے تھے اور وہ دو لفظ جو اس نے مرنے سے پہلے اپنے منہ سے ادا کیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اسغاثے کو پختہ یقین تھا کہ مجرم خان بہادر ہے، کیونکہ ایک گواہ ایسا تھا جس نے شاداں کو شام کے وقت خان بہادر کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر۔ ڈاکٹر نے کہا کہ خان بہادر اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی عورت سے ایسا رشتہ قائم کرسکے۔ شاداں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نابالغ تھی۔ اس کی بیوی نے اس کی تصدیق کی۔ خان بہادر محمد اسلم خان بری ہو گئے۔ مقدمے میں انھیں بہت کوفت اٹھانی پڑی۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انھوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔

سعادت حسن منٹو

سہائے

’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندومار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کرکے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ایک ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جاسکتے ہیں۔ مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں، روح میں ہوتا ہے۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

ممتاز اس روز بہت ہی پرجوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جدا ہو کر پاکستان جارہا تھا۔ پاکستان، جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جدا ہورہا تھا۔ جگل کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اسکا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا۔

’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔ ‘‘

ممتاز نے اس سے پوچھا۔

’’کیاکرو گے؟‘‘

جگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔

’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔ ‘‘

’’یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموش تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جارہا ہے۔ ‘‘

ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگل کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے۔

’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں‘‘

غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں۔ ممتاز کو جو کہاس کا جگری دوست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہو گیا تھا۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔ صبح اٹھتے ہی اس نے پینا شروع کردی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے باندھا اور بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جارہا ہے۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔ کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کررہا ہے، لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کیلیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں۔ اشارۃً میں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔ جگل تین چار پگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہو گیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے۔ ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں۔ لانڈری سے کپڑے لانے تھے۔ یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے، لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا۔

’’یاد ہے برج۔ آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا، گوبند نے ہمیں ایک روپیہ ادھار دیا تھا۔ ‘‘

راستے میں ممتاز خاموش رہا۔ مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر، لیکن وہ کچھ ایسی پرخلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہو گیا، لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہو گئے۔ ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہتیں۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہار ریفیو جی جارہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔ بے پناہ ہجوم تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جارہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جارہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں۔ جواس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔ جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔ آسمان اور سمندر کا آپس میں ملنا۔ لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر دلکش ہے۔ یہ ملاپ!‘‘

جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی یہ کہی ہوئی بات چٹکیاں لے رہی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔ ‘‘

ممتاز نے جہاز کی بار سے برانڈی منگوائی، کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔ ہم چاروں گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیو جی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہورہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔ جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا۔

’’مجھے معاف کردینا ممتاز۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دکھ پہنچایا تھا۔ ‘‘

ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا۔

’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مارڈ الوں۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ ‘‘

جگل نے اثبات میں سر ہلایا

’’۔ لیکن مجھے افسوس ہیچ‘‘

’’تم مجھے مار ڈ التے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔ ‘‘

ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔ ایک مسلمان کو۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ ایک انسان کو مارا ہے۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شر وع کیا۔

’’ہو سکتا ہے، میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلانا شروع کردیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں۔ لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کردیا۔ بتاؤ، تم اور میں کس تمغے کے مستحق ہیں؟۔ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلت کا حقدار ہے۔ میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار۔ بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔ ‘‘

باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت جذباتی ہو گیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً اس کی اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ ‘‘

یہ سن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرے سے چبنی سے کہا۔

’’نہیں بالکل ٹھیک نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک توہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی طرح ادا نہیں کرسکا۔ مذہب سے میری مراد، یہ مذہب نہیں، یہ دھرم نہیں، جس میں ہم میں سے ننانوے فی صدی مبتلا ہیں۔ میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت بخشتی ہے۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔ لیکن یہ چیز کیا ہے؟۔ افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دکھا سکتا‘‘

یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا

’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟۔ کٹر ہندو تھا۔ پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کس کی؟‘‘

’’ایک بھڑوے کی۔ ‘‘

ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔

’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرفِ عام میں ایک بھڑوا تھا۔ عورتوں کا دلال۔ لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔ ‘‘

ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رک گیا، جیسے وہ پرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کررہا ہے۔ چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا

’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔ کچھ سہائے تھا۔ بنارس کا رہنے والا۔ بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے۔ لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ صرف صفائی ہی نہیں، ہر کام۔ اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔ رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجیے۔ اگر کسی لڑکے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپاتا نہیں تھا۔ اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔ معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں، زیادہ کیوں نہیں۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کرکے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزازی کی دکان کھولے گا۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔ ‘‘

میں یہاں تک سن چکا تو میرے منہ سے نکلا

’’عجیب و غریب آدمی تھا۔ ‘‘

ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی

’’۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر تا پا بناوٹ ہے۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیو ں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از وہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹس کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابل یقین تھی کہ وہ دس بارہ لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا، مینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرادی تھی، لاہور سے خط لکھا ہے کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزازی کی دکان کھول سکے۔ یہ سن کر تو میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا، چونکہ میں مسلمان ہوں۔ اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ‘‘

میں نے ممتاز سے پوچھا۔

’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

’’بالکل۔ ۔ اس کے قول و فعل میں کوئی بعد نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔ ‘‘

جگل نے سوال کیا۔

’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا!‘‘

’’اس کی موت پر‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔

’’فسادات شروع ہو چکے تھے۔ میں علی الصبح اٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔ کرفیو کے باعث بازارمیں آمدورفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چلی رہی تھی۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا، تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گھٹڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کوئی پاٹی والا(مزدور) سو رہا ہے۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رک گیا۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں پھر رک گیاآس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لھتڑی ہوئی تھی۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کردیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے۔ ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔ میں اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر ایک دم اس کے سارے بدن میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔

’’آپ؟۔ آپ؟‘‘

میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کردی۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ سامنے ہسپتال ہے، کیا میں وہاں اطلاع دوں؟

’’اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے۔ میرے دن پورے ہو چکے تھے۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

بھگوان کو جانے کیا منظور تھا، لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر، مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے، اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑاتھا، وہ بھی مسلمان تھا۔ میں ڈرپوک تو نہیں، لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا نہ گیا تو پوچھ پچھ کے لیے دھیر لیا جاؤں گا۔ ایک بار خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔ میں ٹھہر گیا۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رک گئے۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں، جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا، مگر جب کچھ اور کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا

’’۔ نیچے بنڈی ہے۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں۔ یہ۔ یہ سلطانہ کا مال ہے۔ میں نے۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔ آج اسے۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔ کیونکہ۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ آپ اسے دے دیجیے گا اور۔ کہئے گا فوراً چلی جائے۔ لیک۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ابھری تھی، دور، اُدھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہورہی ہے۔ جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔

’’میں سلطانہ سے ملا۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ‘‘

جب ہم ممتاز سے رخصت ہو کر نیچے اترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا داہنا ہاتھ ہِل رہا تھا۔ میں جگل سے مخاطب ہوا۔

’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتاز، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

جگل نے صرف اتنا کہا۔

’’کاش، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

سعادت حسن منٹو

سڑک کے کنارے

’’یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔ ‘‘

’’اسً نے مجھ سے کہا تھا۔ تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کیے ہیں یقین جانو۔ میری زندگی ان سے خالی تھی۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں۔، تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں تم سے اور کیا کہوں۔ میری تکمیل ہو گئی ہے۔ ایسے مکمل طور پر کہ محسوس ہوتا ہے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔ اور وہ چلا گیا۔ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ ‘‘

’’میری آنکھیں روئیں۔ میرا دل رویا۔ میں نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے لاکھ مرتبہ پوچھا کہ میری ضرورت اب تمہیں کیوں نہیں رہی۔ جبکہ تمہاری ضرورت۔ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ اب شروع ہوئیہے۔ ان لمحات کے بعد جنہوں نے بقول تمہارے، تمہاری ہستی کی خالی جگہیں پُر کی ہیں۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے۔ اب کہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا میرا رشتہ خود بخود ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘

کس قدر ظالمانہ لفظ تھے۔ مجھے سے یہ پتھراؤ برداشت نہ کیا گیا۔ میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’یہ ذرے جن سے تمہاری ہستی کی تکمیل ہوئی ہے، میرے وجود کا ایک حصہ تھے۔ کیا ان کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔ کیا میرے وجود کا بقایا حصہ ان سے اپنا ناطہ توڑ سکتا ہے؟۔ تم مکمل ہو گئے ہو۔ لیکن مجھے ادھورا کرکے۔ کیا میں نے اسی لیے تمہیں اپنا معبود بنایا تھا؟‘‘

اس نے کہا۔

’’بھونرے، پھولوں اور کلیوں کا رس چوس چوس کر شہید کشید کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تلچھٹ تک بھی ان پھولوں اور کلیوں کے ہونٹوں تک نہیں لاتے۔ خدا اپنی پرستش کراتا ہے، مگر خود بندگی نہیں کرتا۔ عدم کے ساتھ خلوت میں چند لمحات بسر کرکے اس نے وجود کی تکمیل کی۔ اب عدم کہاں ہے۔ اس کی اب وجود کو کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسی ماں تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔ ‘‘

عورت رو سکتی ہے۔ دلیلیں پیش نہیں کرسکتی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے۔ میں نے اس سے کہا۔

’’دیکھو۔ میں رو رہی ہوں۔ میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں تم جارہے ہو تو جاؤ، مگر ان میں سے کچھ آنسوؤں کو تو اپنے رومال کے کفن میں لپیٹ کر ساتھ لیتے جاؤ۔ میں تو ساری عمر روتی رہوں گی۔ مجھے اتنا تو یاد رہے گا کہ چند آنسوؤں کے کفن دفن کا سامان تم نے بھی کیا تھا۔ مجھ خوش کرنے کے لیے!‘‘

اس نے کہا۔

’’میں تمہیں خوش کرچکا ہوں۔ تمہیں اس ٹھوس مسرت سے ہمکنار کرچکا ہوں۔ جس کے تم سراب ہی دیکھا کرتی تھیں۔ کیا اس کا لطف اس کا کیف، تمہاری زندگی کے بقایا لمحات کا سہارا نہیں بن سکتا۔ تم کہتی ہوکہ میری تکمیل نے تمہیں ادھورا کردیا ہے۔ لیکن یہ ادھورا پن ہی کیا تمہاری زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کافی نہیں۔ میں مرد ہوں۔ آج تم نے میری تکمیل کی ہے۔ کل کوئی اور کرے گا۔ میراوجود کچھ ایسے آب و گل سے بنا ہے جس کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئیں گے جب وہ خود کو تشنہ تکمیل سمجھے گا۔ وہ تم ایسی کئی عورتیں آئیں گی جو ان لمحات کی پیدا کی ہوئی خالی جگہیں پُر کریں گی۔ ‘‘

میں روتی رہی۔ جھنجھلاتی رہی۔ میں نے سوچا۔ یہ چند لمحات جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے۔ نہیں۔ میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی۔ میں نے کیوں خود کو ان کے حوالے کردیا۔ میں نے کیوں اپنی پھڑپھڑاتی روح ان کے منہ کھولے قفس میں ڈال دی۔ اس میں مزا تھا۔ ایک لطف تھا۔ ایک کیف تھا۔ تھا، ضرور تھا۔ اور یہ اس کے اور میرے تصادم میں تھا۔ لیکن۔ یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا۔ اورمجھ میں تریڑے پڑ گئے۔ یہ کیا، کہ وہ اب میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میں اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔ وہ طاقتور بن گیا ہے۔ میں نحیف ہو گئی ہوں۔ یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔ ایک رو رو کر برسنے لگا، دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا، کدکڑے لگاتا بھاگ جائے۔ یہ کس کا قانون ہے؟۔ آسمانوں کا؟۔ زمینوں کا۔ یا ان کے بنانے والوں کا؟ میں سوچتی رہی اور جھنجھلاتی رہی۔ دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا اور ایک ہو کر والہانہ وسعت اختیار کرجانا۔ کیا یہ سب شاعری ہے۔ نہیں، دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کرکائنات بنتا ہے۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے۔ کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نکتے پر پہنچنے میں مدد تھی۔ یہ کیسی کائنات ہے۔ یہی دن تھے۔ آسمان کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔ وہ موجود نہیں ہے۔ بجلی کا کوندا بن کر جانے وہ کن بدلیوں کی گریہ و زاری سے کھیل رہا ہے۔ اپنی تکمیل کر کے چلا گیا۔ ایک سانپ تھا جو مجھے ڈس کر چلا گیا۔ لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی لکیر کیوں میرے پیٹ میں کروٹیں لے رہی ہے۔ کیا یہ میری تکمیل ہورہی ہے؟ نہیں، نہیں۔ یہ کیسی تکمیل ہو سکتی ہے۔ یہ تو تخریب ہے۔ لیکن یہ میرے جسم کی خالی جگہیں پُر ہورہی ہیں۔ یہ جو گڑھے تھے کس ملبے سے پُر کیے جارہے ہیں۔ میری رگوں میں یہ کیسی سرسراہٹیں دوڑ رہی ہیں۔ میں سمٹ کر اپنے پیٹ میں کس ننھے سے نکتے پر پہنچنے کے لیے پیچ و تاب کھا رہی ہوں۔ میری ناؤ ڈوب کر اب کن سمندروں میں ابھرنے کے لیے اٹھ رہی ہے۔ ؟ یہ میرے اندر دہتے ہوتے چولھوں پر کس مہمان کے لیے دودھ گرم کیا جارہا ہے۔ یہ میرا دل میرے خن کو دھنک دھنک کر کس کے لیے نرم و نازک رضائیاں تیار کررہا ہے۔ یہ میرا دماغ میرے حالات کے رنگ برنگ دھاگوں سے کس کے لیے ننھی منی پوشاکیں بن رہا ہے؟ میرا رنگ کس کے لیے نکھر رہا ہے۔ میرے انگ انگ اور روم روم میں پھنسی ہوئی ہچکیاں لوریوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں۔ یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟ میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟ نہیں، نہیں۔ یہ تقدیس کچھ بھی نہیں۔ میں ان محرابوں کو ڈھا دوں گی۔ میں اپنے اندر تمام چولھے سرد کردوں گی جن پر بن بلائے مہمان کی خاطر داڑیاں چڑھی ہیں۔ میں اپنے خیالات کے تمام رنگ برنگ دھاگے آپس میں الجھا دوں گی۔ یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن میں وہ دن کیوں یاد کرتی ہوں جن کے سینے پر سے وہ اپنے نقش قدم بھی اٹھا کر لے گیا تھا۔ لیکن یہ۔ یہ نقش قدم کس کا ہے۔ یہ جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔ ؟۔ کیایہ میرا جانا پہچانا نہیں۔ میں اسے کھرچ دوں گی۔ اسے مٹادوں گی۔ یہ رسولی ہے۔ پھوڑا ہے۔ بہت خوفناک پھوڑا۔ لیکن مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پھاہا ہے۔ پھاہا ہے تو کس زخم کا؟۔ اس زخم کا جو وہ مجھے لگا کر چلا گیا تھا؟۔ نہیں نہیں۔ یہ تو ایسا لگتا ہے کسی پیدائشی زخم کے لیے ہے۔ ایسے زخم کے لیے جو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ جو میری کوکھ میں جانے کب سے سورہا تھا۔ یہ کوکھ کیا؟۔ فضول سی مٹی کی ہنڈکلیا۔ بچوں کا کھلونا۔ میں اسے توڑ پھوڑ دوں گی۔ لیکن یہ کون میرے کان میں کہتا ہے۔

’’یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔ اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے۔ یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انگلیاں۔ ادھر کیوں نہ اٹھیں گی، جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کرکے چلا گیا تھا۔ کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں۔ یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔ لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ادھر بھی ادھورا پن تھا۔ اُدھر بھی ادھورا پن۔ اِدھر بھی آنسو، اُدھر بھی آنسو۔ لیکن یہ کس کا آنسو، میرے سیپ میں موتی بن رہا ہے۔ یہ کہاں بندھے گا؟ انگلیاں اٹھیں گی۔ جب سیپ کا منہ کھلے اور موتی پھسل کر باہر چوراہے میں گر پڑے گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔ سیپی کی طرف بھی اور موتی کی طرف بھی۔ اور یہ انگلیاں سنپولیاں بن بن کر ان دونوں کو ڈسیں گی اور اپنے زہر سے ان کو نیلا کردیں گی۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ یہ گر کیوں نہیں پڑتا۔ وہ کون سے ستون ہیں جو اس کو تھامے ہوئے ہیں۔ کیا اس دن جو زلزلہ آیا تھا وہ ان ستونوں کی بنیادیں ہلا دینے کے لیے کافی نہیں تھا۔ یہ کیوں اب تک میرے سر کے اوپر اسی طرح تنا ہوا ہے؟ میری روح پسینے میں غرق ہے۔ اس کا ہر مسام کھلا ہوا ہے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی ہے۔ میرے اندر کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔ دھونکنیاں چل رہی ہیں۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سونا، آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ میری رگوں میں نیلی آنکھیں دوڑ دوڑ کر ہانپ رہی ہیں۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ کوئی آرہا ہے۔ کوئی آرہا ہے۔ بند کردو۔ بند کردو کواڑ۔ کٹھالی الٹ گئی ہے۔ پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ وہ آرہا ہے۔ میری آنکھیں مند رہی ہیں۔ نیلا آسمان گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے۔ یہ کس کے رونے کی آواز ہے۔ اسے چپ کراؤ۔ اس کی چیخیں میرے دل پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ چپ کراؤ۔ اسے چپ کراؤ۔ اسے چپ کراؤ۔ میں گود بن رہی ہوں۔ میں کیوں گودبن رہی ہوں۔ میری بانھیں کھل رہی ہیں۔ چولھوں پر دودھ ابل رہا ہے۔ میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں۔ لاؤ اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹا دو۔ مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھ سے جدا نہ کرو۔ انگلیاں۔ انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں۔ مجھے کوئی پروا نہیں۔ یہ دنیا چوراہا ہے۔ پھوٹنے دومیری زندگی کے تمام بھانڈے۔ میری زندگی تباہ ہو جائے گی؟۔ ہو جانے دو۔ مجھے میرا گوشت واپس دے دو۔ میری روح کا یہ ٹکڑا مجھ سے مت چھینو۔ تم نہیں جانتے یہ کتنا قیمتی ہے۔ یہ گوہر ہے جو مجھے ان چند لمحات نے عطا کیا ہے۔ ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چن چن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنا خیال میں ادھورا چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ میری تکمیل آج ہوئی ہے۔ مان لو۔ مان لو۔ میرے پیٹ کے خلا سے پوچھو۔ میری دودھ بھری ہوئی چھاتیوں سے پوچھو۔ ان لوریوں سے پوچھو، جو میرے انگ انگ اور روم روم میں تمام ہچکیاں سلا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان جھولنوں سے پوچھو جومیرے بازوؤں میں ڈالے جارہے ہیں۔ میرے چہرے کی زردیوں سے پوچھو جو گوشت کے اس لوتھڑے کے گالوں کو اپنی تمام سرخیاں چھپاتی رہی ہیں۔ ان سانسوں سے پوچھو، جو چھپے چوری اس کو اس کا حصہ پہنچاتے رہے ہیں۔ انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں۔ میں انھیں کاٹ ڈالوں گی۔ شور مچے گا۔ میں یہ انگلیاں اٹھا کر اپنے کانوں میں ٹھونس لوں گی۔ میں گونگی ہو جاؤں گی، بہری ہو جاؤں گی، اندھی ہو جاؤں گی۔ میرا گوشت، میرے اشارے سمجھ لیا کرے گا۔ میں اسے ٹٹول ٹٹول کر پہچان لیا کروں گی۔ مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔ یہ میری کوکھ کی مانگ کا سیندھور ہے۔ یہ میری ممتا کے ماتھے کی بندیا ہے۔ میرے گناہ کا کڑوا پھل ہے؟۔ لوگ اس پرتھو تھو کریں گے؟۔ میں چاٹ لوں گی یہ سب تھوکیں۔ آنول سمجھ کر صاف کردوں گی۔ دیکھو، میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ میرے بھرے ہوئے دودھ کے برتن اوندھے نہ کرو۔ میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں آگ نہ لگاؤ۔ میری بانھوں کے جھولوں کی رسیاں نہ توڑو۔ میرے کانوں کو ان گیتوں سے محروم نہ کرو جو اس کے رونے میں مجھے سنائی دیتے ہیں۔ مت چھینو۔ مت چھینو۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھے اس سے جدا نہ کرو۔ لاہور21جنوری دھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی۔ بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سونے کی انگوٹھی

’’چھتے کا چھتہ ہو گیا آپ کے سر پر۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بال نہ کٹوانا کہاں کا فیشن ہے۔ ‘‘

’’فیشن ویشن کچھ نہیں۔ تمہیں اگر بال کٹوانے پڑیں تو قدرِ عافیت معلوم ہو جائے۔ ‘‘

’’میں کیوں بال کٹواؤں‘‘

’’کیا عورتیں کٹواتی نہیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسی موجود ہیں جو اپنے بال کٹواتی ہیں۔ بلکہ اب تو یہ فیشن بھی چل نکلا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال رکھتی ہیں۔ ‘‘

’’لعنت ہے ان پر۔ ‘‘

’’کس کی۔ ‘‘

’’خدا کی اور کس کی۔ بال تو عورت کی زینت ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ عورتیں کیوں اپنے بال مردوں کی مانند بنوالیتی ہیں ٗ پھر پتلو نیں پہنتی ہیں۔ نہ رہے ان کا وجود دنیا کے تختے پر۔ ‘‘

’’وجود تو خیر آپ کی اس بد دعا سے ان نیک بخت عورتوں کا دنیا کے اس تختے سے کسی حالت میں بھی غائب نہیں ہو گا۔ ویسے ایک چیز سے مجھے تم سے کُلّی اتفاق ہے کہ عورت کو پتلون جسے سلیکس کہتے ہیں ٗ نہیں پہننی چاہیے۔ اور سگریٹ بھی نہ پینے چاہئیں‘‘

’’اور آپ ہیں کہ دن میں پورا ایک ڈبا پھونک ڈالتے ہیں۔ ‘‘

’’اس لیے کہ میں مرد ہوں۔ مجھے اس کی اجازت ہے‘‘

’’کس نے دی تھی یہ اجازت آپ کو۔ میں اب آئندہ سے ہر روز صرف ایک ڈبیا منگا کر دیا کروں گی۔ ‘‘

’’اور وہ جو تمہاری سہیلیاں آتی ہیں ٗ ان کو سگریٹ کہاں سے ملیں گے؟‘‘

’’وہ کب پیتی ہیں۔ ‘‘

’’اتنا سفید جھوٹ نہ بولا کرو۔ ان میں سے جب بھی کوئی آتی ہے تم میرا سگریٹ کا ڈبا اٹھا کر اندر لے جاتی ہو۔ ساتھ ہی ماچس بھی۔ آخر مجھے آواز دے کر تمہیں بلانا پڑتا ہے اور میرا ڈبا مجھے واپس ملتا ہے اس میں سے پانچ چھ سگریٹ غائب ہوتے ہیں۔ ‘‘

پانچ چھ سگریٹ۔ جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں۔ وہ تو بیچاریاں مشکل سے ایک سگریٹ پیتی ہیں۔ ‘‘

’’ایک سگریٹ پینے میں انہیں مشکل کیا محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ آپ کو تو اور کوئی کام ہی نہیں ٗ سوائے بحث کرنے کے۔ ‘‘

’’ہزاروں کام ہیں۔ تم کون سے ہل چلاتی ہو۔ سارا دن پڑی سوئی رہتی ہو۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ آپ تو چوبیس گھٹنے جاگتے اور وظیفہ کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’وظیفے کی بات غلط ہے۔ البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں صرف رات کو چھ گھنٹے سوتا ہوں۔ ‘‘

’’اور دن کو۔ ‘‘

’’کبھی نہیں۔ بس آنکھیں بند کر کے تین چار گھنٹے لیٹا رہتا ہوں کہ اس سے آدمی کو بہت آرام ملتا ہے۔ ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔ ‘‘

’’یہ تھکن کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ کونسی مزدوری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’مزدوری ہی تو کرتا ہوں۔ صبح سویرے اٹھتا ہوں۔ اخبار پڑھتا ہوں۔ ایک نہیں سپر۔ پھر ناشتہ کرتا ہوں۔ نہاتا ہوں اور پھر تمہاری روز مرہ کی چخ چخ کے لیے تیار ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

’’یہ مزدوری ہوئی۔ اور آپ یہ تو بتائیے کہ روز مرہ کی چخ چخ کا الزام کہاں تک درست ہے۔ ‘‘

’’جہاں تک اسے ہونا چاہیے۔ شروع شروع میں۔ میرا مطلب شادی کے بعد دو برس تک بڑے سکون میں زندگی گزر رہی تھی لیکن پھر ایک دم تم پر کوئی ایسا دورہ پڑا کہ تم نے ہر روز مجھ سے لڑنا جھگڑنا اپنا معمول بنا لیا۔ پتہ نہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ ‘‘

’’وجہ ہی تو مردوں کی سمجھ سے ہمیشہ بالا تر رہتی ہے۔ آپ لوگ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ‘‘

’’مگر تم سمجھنے کی مہلت بھی دو۔ ہر روز کسی نہ کسی بات کا شوشہ چھوڑ دیتی ہو۔ بھلا آج کیا بات تھی جس پر تم نے اتنا چیخنا چلانا شروع کر دیا‘‘

’’گویا یہ کوئی بات ہی نہیں کہ آپ نے پچھلے چھ مہینوں سے بال نہیں کٹوائے ! اپنی اچکنوں کے کالر دیکھیے۔ میلے چِیکٹ ہو رہے ہیں۔ ‘‘

’’ڈرائی کلین کرا لوں۔ ‘‘

’’پہلے اپنا سر ڈرائی کلین کرایے۔ وحشت ہوتی ہے اللہ قسم آپ کے بالوں کو دیکھ کر۔ جی چاہتا ہے مٹی کا تیل ڈال کر ان کو آگ لگا دوں۔ ‘‘

’’تاکہ میرا خاتمہ ہی ہو جائے۔ لیکن مجھے تمہاری اس خواہش پر کوئی بھی اعتراض نہیں۔ لاؤ باورچی خانے سے مٹی کے تیل کی بوتل۔ آہستہ آہستہ میرے سر میں ڈالو اور ماچس کی تیلی جلا کر اس کو آگ دکھا دو۔ خس کم جہاں پاک۔ ‘‘

’’یہ کام آپ خود ہی کیجیے۔ میں نے آگ لگائی تو آپ یقیناًکہیں گے کہ تمہیں کسی کام کا سلیقہ نہیں۔ ‘‘

’’یہ تو حقیقت ہے کہ تمہیں کسی بات کا سلیقہ نہیں۔ کھانا پکانا نہیں جانتی ٗ سینا پرونا تمہیں نہیں آتا۔ گھر کی صفائی بھی تم اچھی طرح نہیں کرسکتیں ٗ بچوں کی پرورش ہے تو اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ بچوں کی پرورش تو اب تک ماشاء اللہ ٗ آپ ہی کرتے آئے ہیں ٗ میں تو بالکل ہی نکمی ہوں۔ ‘‘

’’میں اس معاملے میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔ تم خدا کے لیے اس بحث کو بند کرو‘‘

’’میں بحث کہاں کر رہی ہوں۔ آپ تو معمولی باتوں کو بحث کا نام دے دیتے ہیں‘‘

’’تمہارے نزدیک یہ معمولی باتیں ہوں گی ! تم نے میرا دماغ چاٹ لیا ہے۔ میرے سر پر ہمیشہ اتنے ہی بال رہے ہیں۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ مجھے اتنی فرصت نصیب نہیں ہوتی کہ حجام کے پاس جاؤں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ آپ کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ ‘‘

’’کن عیاشیوں سے۔ ‘‘

’’آپ کام کیا کرتے ہیں۔ کہاں ملازم ہیں۔ کیا تنخواہ پاتے ہیں۔ آپ کو تو ہر وہ کام بہت بڑی لعنت معلوم ہوتا ہے جس میں آپ کو محنت مشقت کرنی پڑے۔ ‘‘

’’میں کیا محنت مشقت نہیں کرتا۔ ابھی پچھلے دنوں اینٹیں سپلائی کرنے کا میں نے جو ٹھیکہ لیا تھا ٗ جانتی ہو میں نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ ‘‘

’’گدھے کام کررہے تھے۔ آپ تو سوتے رہے ہوں گے۔ ‘‘

’’گدھوں کا زمانہ گیا۔ لاریاں کام کر رہی تھیں۔ اور مجھے ان کی نگرانی کرنا پڑتی تھی۔ دس کروڑ اینٹوں کا ٹھیکہ تھا۔ مجھے ساری رات جاگنا پڑتا تھا۔ ‘‘

’’میں مان ہی نہیں سکتی کہ آپ ایک رات بھی جاگ سکیں۔ ‘‘

’’اب اس کا کیا علاج ہے کہ تم نے میرے متعلق ایسی غلط رائے قائم کرلی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم ہزار ثبوت دینے پر بھی مجھ پر یقین نہیں کرو گی۔ ‘‘

’’میرا یقین آپ پر سے ٗ عرصہ ہوا اٹھ گیا ہے۔ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ ‘‘

’’بہتان تراشی میں تمہاری ہم پلہ اور کوئی عورت نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ‘‘

’’ٹھہریے۔ پرسوں آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ کسی دوست کے ہاں گئے تھے لیکن جب شام کو آپ نے تھوڑی سی پی۔ تو چہک چہک کر مجھے بتایا کہ آپ ایک ایکٹریس سے مل کر آئے ہیں۔ ‘‘

’’وہ ایکٹریس بھی تو اپنی دوست ہے۔ دشمن تو نہیں۔ میرا مطلب ہے اپنے ایک دوست کی بیوی ہے۔ ‘‘

’’آپ کے دوستوں کی بیویاں عموماً یا تو ایکٹریس ہوتی ہیں ٗ یا طوائفیں‘‘

’’اس میں میرا کیا قصور۔ ‘‘

’’قصور تو میرا ہے۔ ‘‘

’’وہ کیسے۔ ‘‘

’’ایسے کہ میں نے آپ سے شادی کر لی۔ میں ایکٹریس ہوں نہ طوائف۔ ‘‘

’’مجھے ایکٹریسوں اور طوائفوں سے سخت نفرت ہے۔ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ عورتیں نہیں سلیٹیں ہیں جن پر کوئی بھی چند حروف یا لمبی چوڑی عبارت لکھ کر مِٹا سکتا ہے۔ ‘‘

’’تو اس روز آپ کیوں اس ایکٹریس کے پاس گئے۔ ‘‘

’’میرے دوست نے بلایا۔ میں چلا گیا۔ اس نے ایک ایکٹریس سے جو پہلے چار شادیاں کر چکی تھی ٗ نیا نیا بیاہ رچایا تھا مجھے اس سے متعارف کرایا گیا۔ ‘‘

’’چار شادیوں کے بعد بھی وہ خاصی جوان دکھائی دیتی تھی۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ عام کنواری جوان لڑکیوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے اچھی تھی۔ ‘‘

’’وہ ایکٹریسیں کس طرح خود کو چست اور جوان رکھتی ہیں۔ ‘‘

’’مجھے اس کے متعلق کوئی زیادہ علم نہیں۔ بس اتنا سنا ہے کہ وہ اپنے جسم اور جان کی حفاظت کرتی ہیں۔ ‘‘

’’میں نے تو سنا ہے کہ بڑی بد کردار ہوتی ہیں اول درجے کی فاحشہ۔ ‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ‘‘

’’آپ ایسی باتوں کا جواب ہمیشہ گول کر جاتے ہیں۔ ‘‘

’’جب مجھے کسی خاص چیز کے متعلق کچھ علم ہی نہ ہو تو میں جواب کیا دوں۔ میں تمہارے مزاج کے متعلق بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ ‘‘

’’دیکھئے ! آپ میرے متعلق کچھ نہ کہا کیجیے۔ آپ ہمیشہ میری بے عزتی کرتے رہتے ہیں۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’میں نے تمہاری بے عزتی کب کی ہے۔ ‘‘

’’یہ بے عزتی نہیں کہ پندرہ برسوں میں آپ میرا مزاج نہیں جان سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں مخبوط الحواس ہوں۔ نیم پاگل ہوں ٗ جاہل ہوں اجڈ ہوں۔ ‘‘

’’یہ تو خیر تم نہیں۔ لیکن تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم نے میرے بالوں کی بات کس غرض سے شروع کی۔ اس لیے کہ جب بھی تم کوئی بات شروع کرتی ہو اس کے پیچھے کوئی خاص بات ضرور ہوتی ہے۔ ‘‘

’’خاص بات کیا ہو گی۔ بس آپ سے صرف یہی کہنا تھا کہ بال اتنے بڑھ گئے ہیں ٗ کٹوا دیجیے۔ حجام کی دکان یہاں سے کتنی دور ہے ٗ زیادہ سے زیادہ دو سو گز کے فاصلے پر ہو گی۔ جائیے۔ میں پانی گرم کرتی ہوں۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ ذرا ایک سگریٹ پی لوں۔ ‘‘

’’سگریٹ وگریٹ آپ نہیں پئیں گے۔ لیجیے اب تک۔ ٹھہرئیے ٗ میں ڈبا دیکھ لوں۔ میرے اللہ۔ بیس سگریٹ پھونک چکے ہیں آپ۔ بیس۔ ‘‘

’’یہ تو کچھ زیادہ نہ ہوئے۔ بارہ بجنے والے ہیں۔ ‘‘

’’زیادہ باتیں مت کیجیے۔ سیدھے حجام کے پاس جائیے۔ اور یہ اپنے سر کا بوجھ اتروائیے۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ کوئی اور کام ہو تو بتا دو۔ ‘‘

’’میرا کوئی کام نہیں۔ آپ اس بہانے سے مجھے ٹالنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا تو میں چلا۔ ‘‘

’’ٹھہرئیے۔ ‘‘

’’ٹھہر گیا۔ فرمائیے۔ ‘‘

’’آپ کے بٹوے میں کتنے روپے ہوں گے۔ ‘‘

’’پانچ سو کے قریب۔ ‘‘

تو یوں کیجیے۔ بال کٹوانے سے پہلے انار کلی سے سونے کی ایک انگوٹھی لے آئیے۔ آج میری ایک سہیلی کی سالگرہ ہے۔ دو ڈھائی سو روپے کی ہو۔ ‘‘

’’میری تو وہیں ٗ انار کلی ہی میں حجامت ہو جائے گی۔ میں جاتا ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سونورل

بشریٰ نے جب تیسری مرتبہ خواب آور دوا سونورل کی تین ٹکیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی تو میں سوچنے لگا کہ آخر یہ سلسلہ کیا ہے۔ اگر مرنا ہی ہے تو سنکھیا موجود ہے۔ افیم ہے۔ ان سُموم کے علاوہ اور بھی زہر ہیں جو بڑی آسانی سے دستیاب ہیں، ہر بار سو نورل، ہی کیوں کھائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خواب آور دوا زیادہ مقدار میں کھائی جائے تو موت کا باعث ہوتی ہے لیکن بشریٰ کا تین مرتبہ صرف اسے ہی استعمال کرنا ضرور کوئی معنی رکھتاتھا۔ پہلے میں نے سوچا چونکہ دو مرتبہ دوا کھانے سے اس کی موت واقع نہیں ہوئی اس لیے وہ احتیاطاً اسے ہی استعمال کرتی ہے اور اسے اپنے اقدامِ خود کشی سے جو اثر پیدا کرنا ہوتا ہے، موت کے اِدھر اُدھر رہ کر کرلیتی ہے۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ وہ اِدھر اُدھر بھی ہوسکتی تھی۔ یہ کوئی سو فیصد محفوظ طریقہ نہیں تھا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے بتیس گولیاں کھائیں تو اُس کے تیسرے شوہر کو جو پی ڈبلیو ڈی میں سب اوور سیر ہیں، صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب پتہ چلا کہ وہ فالج زدہ بھینس کی مانند بے حس و حرکت پلنگ پر پڑی تھی۔ اُس کو یہ خواب آور دوا کھائے غالباً تین چار گھنٹے ہوچکے تھے۔ سب اوور سیر صاحب سخت پریشان اور لرزاں میرے پاس آئے۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، اس لیے کہ بشریٰ سے شادی کرنے کے بعد وہ مجھے قطعاً بھول چکے تھے۔ اس سے پہلے وہ ہر روز میرے پاس آتے اور دونوں اکٹھے بیئر یا وسکی پیا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ مفلوک الحال تھے۔ سائیکل پر دفتر جاتے اور اسی پر گھر واپس آتے۔ مگر جب اُن کی بشریٰ سے دوستی ہوئی اور وہ اُس سے شادی کرکے اُسے اپنے گھر لائے تو نقشہ ہی بدل گیا۔ اُن کا بھی اور اُن کے گھرکا بھی۔ اب وہ بہت عمدہ سُوٹ پہنتے تھے۔ سواری کے لیے موٹر بھی آگئی۔ گھر بڑھیا سے بڑھیا فرنیچر سے آراستہ ہو گیا۔ ریس کھیلنے لگے۔ دیسی رم کے بجائے اب سکاچ وسکی کے دور ان کے یہاں چلتے تھے۔ بشریٰ بھی پینے والی تھی اس لیے دونوں بہت خوش رہتے تھے۔ سب اوورسیر قمر صاحب کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ بشریٰ ان سے غالباً پانچ برس بڑی تھی۔ کسی زمانے میں شاید اس کی شکل و صورت قابل قبول ہو۔ مگر اس عمر میں وہ بہت بھیانک تھی۔ چہرے کی جھریوں والی گال پر شوخ میک اپ، بال کالے کیے ہوئے، بند بند ڈھیلا جیسے اوس میں پڑی ہوئی پتنگ، ڈھلکا ہوا پیٹ، انگیا کے کرینوں سے اُوپر اُٹھائی ہوئی چھاتیاں۔ آنکھوں میں سُرمے کی بد خط تحریر۔ میں نے جب بھی اس کو دیکھا وہ مجھے نسوانیت کا ایک بھدا کارٹون سا دکھائی دی۔ قمر صاحب نے جیسا کہ ظاہر ہے اس میں اس کے سوا اور کیا خوبی دیکھی ہو گی کہ وہ مالدار تھی۔ اُس کا باپ پنجاب میں ایک بہت بڑا زمیندار تھا۔ جس سے وراثت میں اس کو بہت زمینیں ملی تھیں۔ ان سے چھ سات سو روپیہ ماہوار کی مستقل آمدن ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ بینک میں بھی اس کا دس، پندرہ ہزار روپیہ موجود تھا۔ اور قمر صاحب ایک معمولی سب اوور سیر تھے۔ بیوی تھی چھ بچے تھے، جن میں دو لڑکے تھے جو کالج میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اُن کے گھر میں افلاس ہی افلاس تھا۔ ویسے شوقین مزاج تھے اور شاعر بھی۔ شام کو شراب بہت ضروری سمجھتے تھے اس لیے آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے بال بچوں کے لیے کیا بچتا ہو گا۔ قمر صاحب نے یوں تو ظاہر کیا تھا کہ وہ بشریٰ کو شرعی طور پر اپنے رشتہ مناکحت میں لاچکے ہیں لیکن مجھے شک تھا اور اب بھی ہے کہ یہ محض ایک ڈھونگ تھا۔ قمر صاحب بڑے ہوشیار اور چالاک آدمی ہیں۔ اپنی زندگی کے پچاس برسوں میں نا جانے وہ کتنے پاپڑ بیل چکے ہیں۔ سرد و گرم چشیدہ ہیں۔ گرگ باراں دیدہ ہیں۔ بشریٰ سے شادی کا جھنجھٹ پالنا کیسے منظور کر سکتے تھے۔ بشریٰ سے شادی کرکے قمر صاحب کے گھر میں حالت بہت حد تک سدھر چکی تھی۔ اُن کی تین بچیاں جو سارا دن آوارہ پھرتی رہتی تھیں عیسائیوں کے کسی سکول میں داخل کرادی گئی تھیں۔ ان کی پہلی بیوی کے کپڑے کے صاف ستھرے ہو گئے تھے۔ کھانا پینا بھی اب عمدہ تھا۔ میں خوش تھاکہ چلو اب ٹھیک ہے۔ دوسری شادی کی ہے، کچھ بُرا نہیں ہوا۔ بشریٰ کو ایک خاوند مل گیا ہے باسلیقہ اور ہوشیار ہے اور قمر صاحب کو ایک ایسی عورت مل گئی جو بد صورت سہی مگر مالدار تو ہے۔ مگر ان کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک مستحکم نہ رہا۔ کیونکہ ایک روز سننے میں آیا کہ ان کے درمیان بڑے زوروں کا جھگڑا ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کے دونوں نے سونورل کافی مقدار میں کھالی۔ کمرے میں فرش پر قمر صاحب بے ہوش پڑے تھے اور ان کی اہلیہ محترمہ پلنگ پر لاش کی مانند لیٹی تھیں۔ فوراً دونوں کو ہسپتال داخل کرایاگیا۔ جہاں سے وہ ٹھیک ٹھاک ہوکر واپس آگئے مگر ابھی پندرہ روز بمشکل گزرے ہوں گے کہ پھر دونوں نے سونورل سے شغل فرمالیا۔ معلوم نہیں وہ ہسپتال پہنچائے گئے یا گھر میں ان کا علاج ہوا بہرحال بچ گئے۔ اس کے بعد غالباً ایک برس تک ان کے یہاں ایسا کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ لیکن ایک روزعلی الصبح مجھے پتہ چلا کہ بشریٰ نے سونورل کی بتیس ٹکیاں کھالی ہیں۔ قمر صاحب سخت پریشان اور لرزاں تھے۔ ۔ ان کے حواس باختہ تھے۔ میں نے فوراً ہسپتال ٹیلی فون کیا اور ایمبولنس گاڑی منگوائی، بشریٰ کو وہاں پہنچایاگیا۔ ہاؤس سرجن اپنے کوارٹر میں تھے میں نے ان کو وہاں سے نکالا اور سارا ماجرا سُنا کر جلدی ہسپتال چلنے کے لیے کہا۔ ان پر میری عجلت طلب درخواست کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بڑے بے رحم انداز میں کہنے لگے۔

’’منٹو صاحب مرنے دیجیے اس کو۔ آپ کیوں گھبرا رہے ہیں۔ ‘‘

اُن کو معلوم تھا کہ بشریٰ اس سے پیشتر دو مرتبہ زہر خوری کے سلسلے میں ہسپتال آچکی ہے۔ میں نے ان سے بشریٰ کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور تھوڑی دیر بعد واپس گھر چلاآیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بشریٰ کا حدود اربعہ معلوم نہیں تھا اور اُس کی زندگی کے سابقہ حالات میرے علم سے باہرتھے۔ میری اس کی متعدد مرتبہ ملاقات بھی ہوچکی تھی۔ وہ مجھے بھائی سعادت کہتی تھی۔ اس کے ساتھ کئی دفعہ پینے پلانے کا اتفاق بھی ہوچکا تھا۔ اس کی ایک لڑکی پرویز تھی۔ اس کی تصویر میں نے پہلی مرتبہ اُس روز دیکھی جب وہ قمر صاحب کے گھر میں بحیثیت بیوی آئی۔ نیچے دو کمروں میں سامان وغیرہ سجایا جارہا تھا۔ میں نے دیکھا ایک قبول صورت جوان لڑکی کا فوٹو معمولی سے فریم میں مینٹل پیس پر پڑا ہے۔ جب بیئر کا دور چلا تو میں نے بشریٰ سے پوچھا کہ یہ فوٹو کس کا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اُس کی لڑکی پرویز کاہے۔ جس نے خود کشی کرلی تھی۔ میں نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو مجھے قمر صاحب اور بشریٰ سے جو باتیں معلوم ہوئیں، ان کو اگر کہانی کے انداز میں بیان کیا جائے تو کچھ اس قسم کی ہوں گی۔ پرویز بشریٰ کی پہلوٹھی کی لڑکی تھی جو اس کے پہلے خاوند سے پیدا ہوئی۔ وہ بھی کافی دولت مند زمیندار تھا۔ وہ مرگیا۔ مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ بشریٰ کا یہ پہلا خاوند جس کا نام اللہ بخش تھا اس سے شادی کے چند برسوں بعد ہی سخت متنفر ہو گیا تھا۔ اس لیے اس کی زندگی ہی میں بشریٰ نے کسی اور شخص سے آنکھ لڑانا شروع کردی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بشریٰ کو اپنے خاوند کی نفرت اور حقارت سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ مرتے وقت اللہ بخش نے بشریٰ کو ایک کوڑی نہ دی۔ لیکن اپنی بچی پرویز کے لیے کچھ جائیداد الگ کردی۔ بشریٰ نے دوسری شادی کرلی۔ چونکہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھی اس لیے پشاور کا ایک کامیاب بیرسٹر اُس کے دام میں گرفتار ہو گیا۔ اس سے اس کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ مگر اس دوسرے شوہر کے ساتھ بھی وہ زیادہ دیر تک جم کے نہ رہ سکی۔ چنانچہ اس سے طلاق حاصل کرلی۔ دراصل وہ آزاد زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔ یہ بیرسٹر ابھی تک زندہ ہے۔ دونوں لڑکے جو اب جوان ہیں اُس کے پاس ہیں۔ یہ اپنی ماں سے نہیں ملتے۔ اس لیے کہ اس کا کردار اُنھیں پسند نہیں۔ یہ تو ہے بشریٰ کی زندگی کا مختصر خاکہ۔ اس کی بیٹی پرویز کی کہانی ذرا طویل ہے اس کا بچپن زیادہ تر دیہات کی کھلی فضاؤں میں گزرا۔ بڑ ی نرم و نازک بچی تھی۔ سارا دن سرسبز کھیتوں میں کھیلتی تھی۔ اس کا ہمجولی کوئی نہ تھا۔ مزارعوں کے بچوں سے میل جول اس کے والدین کو پسند نہیں تھا۔ جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو اُسے لاہور کے ایک ایسے سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیاگیا جہاں بڑے بڑے امیروں کے بچے پڑھتے تھے۔ ذہین تھی۔ طبعیت میں جوہر تھا۔ جب سکول سے نکل کر کالج میں داخل ہوئی تو وہ ایک خوبصورت دوشیزہ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ جس کا مضطرب دل و دماغ ہر وقت آئیڈیل کی تلاش میں رہتا تھا۔ بہت سُریلی تھی۔ جب گاتی تو سننے والے اس کی آواز سے مسحور ہوجاتے۔ رقص بھی اُس نے سیکھا تھا۔ ناچتی تو دیکھنے والے مبہوت ہوجاتے۔ اس کے اعضا میں بلا کی لوچ تھی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ ناچتی تو اُس کے اعضا کی خفیف سے خفیف حرکت بھی دیکھنے والوں سے ہم کلام ہوتی تھی۔ بہت بھولی بھالی تھی۔ اس میں وہی سادگی اور سادہ لوحی تھی جو گاؤں کے اکثر باشندوں میں ہوتی ہے۔ انگریزی سکول میں پڑھی تھی۔ کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اُس کی سہلیوں میں بڑی تیز، شریر اور کائیاں لڑکیاں موجود تھیں۔ مگر وہ ان سب سے الگ تھی۔ وہ بادلوں سے بھی اوپر اُس فضا میں رہتی تھی جو بڑی لطیف ہوتی ہے۔ اُس کو دھن دولت کی کو ئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ ایک ایسے نوجوان کے خواب دیکھتی تھی جس کو معبود بنا کر اُس کی ساری زندگی عبادت میں گزر جائے۔ عشق و محبت کی جائے نماز پر وہ مجسم سجدہ تھی۔ اس کی ماں اسے ایبٹ آباد لے گئی تو وہاں مردوں اور عورتوں سے ملی جلی محفل منعقد ہوئی۔ پرویز کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا رقص دکھائے۔ اُس نے حاضرین پر نگاہ دوڑائی۔ ایک خوش پوش پٹھان نوجوان دُور کونے میں کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر دمک تھی۔ ایک لمحے کے لیے پرویز کی نظریں اُس پر رُک گئیں۔ نوجوان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے کچھ کہا اور پرویز جو انکار کرنے والی تھی سب کچھ بھول کر بڑے دلفریب انداز میں رقص کرنے لگی۔ اس دوران میں اُس نے اپنے لچکیلے اور گداز جسم کے بھاؤ اور ہر رنگ سے اپنی رُوح کے اندر چھپی ہوئی خواہشوں کو ایک ایک کر کے باہر نکالا اور اُس پٹھان نوجوان کی محترم اور مسحور آنکھوں کے سامنے ترتیب وار سجادیا۔ اس نوجوان کا نام یوسف غلزئی تھا۔ اچھے دولت مند قبیلے کا ہونہار فرد۔ فارغ التحصیل ہوکر اب بڑھ چڑھ کے ملکی سیاست میں حصہ لے رہا تھا۔ عورت اس کے لیے عجوبہ نہیں تھی۔ لیکن پرویز نے اُسے موہ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کی شادی بڑے دھوم دھڑکے سے ہوئی اور وہ میاں بیوی بن کر ابیٹ آباد میں رہنے لگے۔ پرویز بہت خوش تھی۔ اس قدر خوش کہ اس کا جی چاہتا تھا ہر وقت رقصاں رہے۔ ہر وقت اُس کے ہونٹوں سے سہانے اور سماعت نواز گیت چشموں کی طرح پھوٹتے رہیں۔ وہ یوسف تھا۔ تو پرویز اُس کی زُلیخا تھی۔ اُس کی عبادت میں دن رات مصروف رہتی تھی۔ اس نے اپنی طرف سے اس کے قدموں میں تمام نسائیت کا جوہر نکال کر ڈال دیا تھا۔ اُس سے زیادہ کوئی عورت کیا کرسکتی ہے۔ شروع شروع میں وہ بہت خوش رہی، اتنی خوش اور مسرور کہ اُسے یہ محسوس تک نہ ہوا کہ اسے ازدواجی زندگی بسر کرتے ہوئے پورے تین برس گزر چکے ہیں۔ اُس کے ایک بچی ہوئی مگر وہ اپنے یوسف کی محبت میں اس قدر مستغرق تھی کہ کبھی کبھی اُس کے وجود سے بالکل غافل ہوجاتی تھی۔ عجیب بات ہے کہ جب یہ لڑکی پیدا ہوئی تو اُس نے یہ محسوس کیا کہ اُس کے پیٹ سے بچی کے بجائے یوسف نکلا ہے۔ اس کی محبت کو جنم دیا ہے۔ اس سے آپ پرویز کی والہانہ محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے معبود کے قدم ثابت نہ رہے۔ وہ طبعاً عیش پرست تھا۔ وہ مصری کی مکھی کی طرح نہیں بلکہ شہد کی مکھی کی طرح باغ کی ہر کلی کا رس چوسنا چاہتا تھا۔ چنانچہ کروٹ بدل کر اور پرویز کی محبت کی زنجیریں توڑنے کے بعد وہ پھر اپنے پہلے اشغال میں مصروف ہو گیا۔ اس کے پاس دولت تھی، جوانی تھی، پُرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ ملکی سیاسیات میں سرگرم حصہ لینے کے باعث اس کانام دن بہ دن روشن ہو رہا تھا۔ اُس کو پرویز کی والہانہ محبت یکسر جہالت پر مبنی دکھائی دی۔ وہ اُس سے اُکتا گیا۔ ہر وقت کی چوما چاٹی، منٹ منٹ کی بھینچا بھانچی اس کو سخت کھلنے لگی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پرویز اُسے مکڑی کی مانند اپنی محبت کے جالے میں بند کر دے جہاں وہ مرنڈا ہو جائے۔ اس کے بعد اُسے سفوف میں تبدیل کرکے نسوار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردے۔ پرویز کو جب معلوم ہوا کہ یوسف سالم کا سالم اُس کا نہیں تو اُسے سخت صدمہ ہوا۔ کئی دنوں تک وہ اس کے باعث گم سم اور نڈھال رہی۔ اُس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے آئیڈیل کو ہتھوڑوں کی ظالم ضربوں نے چکنا چور کر کے ڈھیر کردیا ہے۔ اُس نے یوسف سے کچھ نہ کہا۔ اُس کی بے اعتنائیوں اور بے وفائیوں کا کوئی ذکر نہ کیا۔ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔ طویل عرصے تک تنہائیوں میں رہ کر اس نے حالات پر غور کیا۔ یوسف سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اُس کو معبود کا رتبہ عطا کرنے والی وہ خود تھی۔ خدا کو اس کا بندہ کیسے رد کرسکتا ہے۔ جب کہ وہ ایک بار صدقِ دل سے اُس کی خدائی تسلیم کرچکا ہو، اُس کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہاہو۔ اُس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ یوسف کے لیے نہیں صرف اپنے اس جذبے کی خاطر، جس نے یوسف کو خدائی کا رتبہ بخشا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کے ساتھ رہے گی۔ وہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت دینے کے لیے بھی تیار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بے چاری نے یوسف کی آغوش کے لیے ہر اس عورت کے لیے آسانیاں پیدا کیں جو اس میں تھوڑی دیر کے لیے حرارت محسوس کرناچاہتی تھی۔ یہ بڑی بے غیرتی تھی۔ مگر اُس نے اپنے ٹوٹے پھوٹے آئیڈیل کو مکمل شکست و ریخت سے بچانے کی خاطر فرار کا یہ عجیب و غریب راستہ اختیار کیا اور ہر قسم کی بے غیر تی برداشت کی۔ وہ اُس کی چند روزہ محبوباؤں سے بڑے پیار و محبت سے پیش آتی۔ اُن کی خاطر تواضع کرتی۔ ان کی عصمت باختہ تلون مزاجیوں کو سر آنکھوں پر رکھتی اور اُن کو اور اپنے خاوند کو ایسے موقع بہم پہنچاتی کہ اُس کی موجودگی ان کے عیش و عشرت میں مخل نہ ہو پاتی۔ ان عورتوں کے لیے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر وہ قسم قسم کے کھانے تیار کرتی، اس کا خاوند ان واہیات عورتوں کو خوش رکھنے کے لیے جب اُسے حکم دیتا کہ ناچے اور گائے تو وہ ضبط سے کام لے کر کسی بھی لمحے برس پڑنے والی مصنوعی آنکھیں خوش دکھاتی۔ زخمی دل پر بھاہے لگاتی۔ غم و غصے سے کانپتے ہوئے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹیں پیدا کرتی، مسرت و انبساط سے بھرے ہوئے گیت گاتی اور بڑے طربناک انداز میں رقص کرتی۔ اس کے بعد وہ تنہائی میں اس قدر روتی، اس قدر آہیں بھرتی کہ اُسے محسوس ہوتا کہ وہ اب نہیں جیئے گی۔ مگر ایسے طوفان کے بعد اُس میں ایک نئی قوتِ برداشت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ یوسف کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرناشروع کردیتی تھی اور خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتی تھی کہ یہ کالک نہیں بڑا ہی خوش رنگ غازہ ہے۔ اس دوران میں اُس کی ماں اُس سے ملنے کے لیے کئی مرتبہ آچکی تھی۔ مگر اُس نے اپنے خاوند کے متعلق اُس سے کبھی شکایت نہیں کی تھی۔ وہ اپنے راز یا دُکھ میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان حالات میں وہ اپنے خاوند کی ذات کے ساتھ کسی اور کو کسی طریقے سے بھی وابستہ دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ یہ سوچتی کہ خاوند میرا ہے۔ وہ دُکھ بھی میرا ہے۔ جو وہ مجھے پہنچا رہا ہے وہ اگر دوسری عورتوں کو بھی اسی قسم کا دُکھ پہنچائے تو مجھے حسد ہو گا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ اس لیے میں خوش ہوں۔ بشریٰ ان دنوں فارغ تھی۔ یعنی اُس نے کوئی اپنا شوہر نہیں کیا ہوا تھا۔ اس کا وقت سیرو تفریح میں گزر رہا تھا۔ دس پندرہ دن ایبٹ آباد پرویز کے ساتھ رہتی۔ یوسف کے ساتھ اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ وہ گھنٹوں علیحدہ کمرے میں بیٹھے تاش کھیلنے میں گزارتے اور پرویز ان کی خاطر تواضع میں مصروف رہتی۔ وہ چاہتی تھی کہ اُس کی ماں زیادہ دیر تک اس کے پاس ٹھہرے تاکہ سوسائٹی کی ان عورتوں کا جو چکلے کی رنڈیوں سے بھی بدتر ہیں، اس گھر میں داخلہ بند رہے۔ مگر وہ ایک جگہ بہت عرصے تک ٹک کر نہیں رہ سکتی تھی۔ جب وہ چلی جاتی تو دوسرے تیسرے روز یوسف بھی اپنی پرانی ڈگر اختیار کرلیتا۔ پرویز دوسرا روپ دھار لیتی اور اپنے خاوند کی نت نئی سہلیوں کے قدموں کے لیے پاانداز بن جاتی۔ اُس نے اس زندگی کو آہستہ آہستہ اپنا لیا ہے۔ اب اسے زیادہ کوفت نہیں ہوتی تھی۔ اس نے خود کو سمجھا بجھا کر راضی کرلیا تھا کہ اُسے زندگی کے ڈرامے میں یہی رول ادا کرنا تھا جو وہ کررہی تھی۔ چنانچہ اُس سے اُس کے دل و دماغ سے وہ کدورت جو پہلے پہلے بہت اذیت دہ تھی، قریب قریب دُھل گئی تھی، وہ خوش رہتی اور اپنی ننھی بچی کی طرف زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ ایک دن اُسے کسی ضروری کام سے اچانک لاہور جانا پڑا۔ دو دن کے بعد لوٹی تو شام کا وقت تھا۔ یوسف کا کمرہ بند تھا۔ مگر اس میں اُس کے مخمور قہقہوں کی آواز سُنائی دے رہے تھی۔ پرویز نے دروازے کی ایک درز سے جھانک کر دیکھا تو سرتا پا لرز گئی اُس کا پیازی رنگ ایک دم کاغذ کی مانند بے جان سفیدی اختیار کرگیا۔ یہ سارے واقعات مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوئے۔ بشریٰ نے مجھے جو کچھ بتایا اس سے مختلف تھا اس کا بیان ہے کہ دل ہی دل میں کڑھ کڑھ کر وہ اپنی جان سے بیزار ہو گئی تھی اُس نے یوسف کی خاطر بڑی سے بڑی ذلت قبول کرنا گوارا تو کر لیاتھا، مگر اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک رات اُس نے شراب کے نشے میں بدمست اپنی کسی چہیتی کو آغوش میں لیے پرویز سے کہاکہ ناچے اور ننگی ناچے وہ اس کے کسی حکم کو نہیں ٹالتی تھی۔ یوسف اُس کا خدا تھا، چنانچہ اُس نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس کا عریاں بند رقصاں تھا۔ ناچ ختم ہوا تو اس نے خاموشی سے کپڑے پہنے اور باہر نکل کر زہر کھالیا اور مرگئی۔ معلوم نہیں حقیقت کیا تھی لیکن جو کچھ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا یہ ہے کہ جب پرویز نے یوسف کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو اُسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہے گی، چنانچہ اُسی وقت وہ موٹر میں سیدھی ایک کیمسٹ کی دُکان پر گئی اور اُس نے سونورل کی پوری ڈبیہ طلب کی۔ قیمت ادا کرنے لگی تو اُسے معلوم ہوا کہ افراتفری کے عالم میں وہ اپنا پرس وہیں گھر پر بھول آئی ہے، چنانچہ اس نے کیمسٹ سے کہا کہ میں مسز یوسف غلزئی ہوں۔ پرس ساتھ نہیں لائی۔ بل بھیجوا دیجیے گا۔ یوسف صاحب ادا کردیں گے۔ گھر آ کے اُس نے خادمہ کو ڈبیہ کی ساری گولیاں دیں اور اس سے کہا اچھی طرح پیس کے لاؤ۔ یہ سفوف اُس نے گرم گرم دُودھ میں ڈالا اور پی گئی۔ تھوڑی دیر بعد نوکر آیا اور اُس نے پرویز سے کہاکہ آپ کی والدہ آئی ہیں یوسف صاحب آپ کو بلاتے ہیں۔ پرویز کی آنکھیں بالکل خشک تھیں۔ مگر ان میں غنودگی تھی۔ اس لیے کہ زہر کا اثر شروع ہو گیاتھا۔ منہ دھو کر اور بال سنوار کر وہ اندر گئی۔ اپنی ماں سے بغل گیر ہوئی اور یوسف کے ساتھ قالین پر بیٹھ گئی۔ ماں سے باتیں کرتے کرتے ایک دم پرویز کو چکر آیا اور وہ بے ہوش ہوکر ایک طرف لڑھک گئی۔ ماں نے تشویش کا اظہار کیا، اس لیے کہ اس کی بچی کا رنگ نیلا ہو رہا تھا۔ مگر یوسف نے جو نشے میں چور تھا، کسی قسم کے تردد کااظہار نہ کیا اور بشریٰ سے کہا

’’کچھ بھی نہیں ہوا اسے، بن رہی ہے۔ ‘‘

پھر اُس نے بڑے زور سے پرویز کا شانہ جھنجھوڑا اور حاکمانہ کہا

’’اُٹھ۔ ‘‘

مجھے یہ ایکٹنگ پسند نہیں۔ ‘‘

بشری نے بھی اُس کو آوازیں دیں اُس کو ہلایا جلایا۔ آخر ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ مگر وہ جب آیا تو پرویز اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ پرویز کی خودکشی کے متعلق کئی قصے مشہور ہیں۔ لیکن اس کا جو پہلو مجھے معتبر ذرائع سے منکشف ہوا میری سمجھ میں آگیا تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اس کی تصدیق کب ہوتی ہے۔ قمر صاحب بشریٰ کو ہسپتال سے واپس لائے تو میں ان سے ملا۔ ان کے پاس اب موٹر نہیں تھی۔ میں نے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے شاعرانہ بے اعتنائی اختیار کرتے ہوئے جواب دیا

’’جس کی تھی لے گئی‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

جواب ملا۔

’’مطلب یہ کہ موٹر میری کب تھی۔ وہ تو ان محترمہ کی تھی۔ میں نے کچھ عرصہ سے اس کا استعمال ترک کردیا تھا۔ اپنی سائیکل پر دفتر جاتا اور اسی پر واپس آتا تھا۔ جب ان کو ضرورت ہوتی تو میں ڈرائیور کے فرائض ادا کرتا تھا۔ ‘‘

میں کچھ کچھ سمجھ گیا

’’کیا ناچاقی ہو گئی؟‘‘

’’ہاں کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ میں نے ان کو طلاق دے دی ہے۔ ‘‘

بعد میں مجھے جب قمر صاحب سے مفصل گفتگو کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ نکاح وکاح کوئی نہیں ہوا تھا۔ طلاق نامہ انھوں نے صرف اس لیے لکھا کہ لوگوں میں اس بات کی تشہیر نہ ہو کہ وہ غیر شرعی طور پر ان کے ساتھ قریب قریب دو برس رہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ ان کے درمیان جو فیصلہ کن لڑائی جھگڑا ہوا اُس کی وجہ یہ تھی کہ بقول قمر صاحب، ان کی محترمہ نے حیدر آباد کے ایک ادھیڑ عمر کے مہاجر رئیس سے جسمانی رشتہ قائم کر لیا تھا اس لیے اُن کے لیے قمر صاحب کی ذات میں وہ کشش ختم ہو گئی تھی جو کسی زمانے میں اُن کو نظر آتی تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ جس کو دیکھ کر اُن کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ مجھے افسوس ہوا، اس لیے کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ قمر صاحب نے اپنی تینوں ہونہار بچیوں کو سکول سے اُٹھا لیا ہے خود گولڈ فلیک کے بدلے بگلے کے سستے سگریٹ پیتے ہیں پہلے تفریح کے اتنے سامان مہیا تھے، پر اب شُتربے مہار کی طرح بے مطلب اِدھر اُدھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ محترمہ بشریٰ کے متعلق انھوں نے مجھے بہت کچھ بتایا لیکن میں یہ نہ سمجھ سکا کہ جب علیحدگی کا فیصلہ ہوچکا تھا اور حیدر آباد کے مہاجر رئیس صاحب نے بشریٰ کے ساتھ باقاعدہ راتیں گزارنا شروع کر رکھی تھیں تو اُن کو سونورل کی بتیس گولیاں کھا کر خودکشی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بظاہر خطرناک فعل قمر صاحب کے اس اعتراض کا ردِ عمل معلوم ہوتا ہے جو ان کو بشریٰ کے چال چلن پر تھا۔ لیکن ایمان کی بات ہے کہ مجھے اس کے عقب میں ایسا کوئی دل شکن عنصر نظر نہیں آتا جو انسان کو موت کی گود میں سو جانے پر مجبور کر دے۔ اس پر قمر صاحب بھی کوئی روشنی ڈالنے سے معذور ہیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ان سے میں آخر پوچھ ہی بیٹھا

’’سونورل کھانے کی روایت جو بشریٰ کی بیٹی پرویز نے قائم کی آپ نے اور بشریٰ نے جاری رکھی۔ لیکن آپ یہ بتائیے کہ وہ کونسی وجہ تھی جس نے اس غریب کو اتنے خطرناک اقدام کے لیے تیار کر دیا۔ آپ کئی بار مجھے بتا چکے ہیں کہ پرویز اپنے شوہر یوسف غلزئی کی حرام کاریوں کی عادی ہو چکی تھی۔ بلکہ وہ خود اس معاملے میں اس کی معاونت کرتی تھی۔ کوئی عورت جب اس حد تک پہنچ کر داشتہ بن جائے، خرابے کی انتہا کو پہنچ کر ضمیر کی نہایت ہی خوفناک صورت اختیار کرے، خودکشی کو وہ زبوں ترین فعل سمجھے، اس کو کبھی اس کا خیال تک نہیں آسکتا۔ میرا اپنا خیال ہے، بلکہ یقین ہے کہ اس کی ماں بشریٰ نے جسے آپ محترمہ کہتے ہیں یوسف سے ایسے تعلقات پیدا کر لیے تھے جنھیں عام لوگ ناجائز کہتے ہیں‘‘

قمر صاحب نے صرف ان الفاظ میں میری تصدیق کی

’’یہ بالکل دُرست ہے۔ ایک دن شراب کے نشے میں بشریٰ نے اس کا اقرار کیا تھا اور بہت روئی تھی۔ ‘‘

اُس دن شام کو معلوم ہوا کہ حیدر آباد کے مہاجر رئیس صاحب نے سونورل کی چوبیس گولیاں کھا لی ہیں۔ بشریٰ نے حسب معمول بتیس کھائی تھیں۔ دونوں ہسپتال میں بے ہوش پڑے تھے۔ دوسرے روز رئیس صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ چوبیس ہی میں ان کا کام تمام ہو گیا مگر بشریٰ بچ گئی۔ آج کل وہ مرحوم کا سوگ منارہی ہے۔ جس شخص کے پاس اُس نے موٹر بیچی تھی وہ دن رات اُس کے پاس دل جوئی کے لیے موجود رہتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سوراج کے لیے

مجھے سن یاد نہیں رہا۔ لیکن وہی دن تھے۔ جب امرتسر میں ہر طرف

’’انقلاب زندہ باد‘‘

کے نعرے گونجتے تھے۔ ان نعروں میں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک عجیب قسم کا جوش تھا۔ ایک جوانی۔ ایک عجیب قسم کی جوانی۔ بالکل امرتسر کی گجریوں کی سی جو سر پر اوپلوں کے ٹوکرے اٹھائے بازاروں کو جیسے کاٹتی ہوئی چلتی ہیں۔ خوب دن تھے۔ فضا میں جو وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کا اداس خوف سمویا رہتا تھا۔ اس وقت بالکل مفقود تھا۔ اب اس کی جگہ ایک بے خوف تڑپ نے لے لی تھی۔ ایک اندھا دھند جَست نے جو اپنی منزل سے ناواقف تھی۔ لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہورہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا۔ چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہو گئے۔ زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا۔ ہڑتال ہونی چاہیے، چلیے جی ہڑتال ہو گئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائر کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑھی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔ مجھے یاد ہے کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔ شیخو نے جو میرا ہم جماعت تھا جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے

’’ٹوڈی بچے‘‘

کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیض اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔ میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا۔ اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کُھد بُد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران میں رہا کرتی ہے۔ اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہو گئی تھی۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھنا اور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا۔ اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسّی پی پی کر جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا۔ اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔ میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا۔ شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے، خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔ شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کجکلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔ جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی۔ دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔ شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہو گیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں۔ یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں۔ ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔ ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگرس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔ جونہی مجھے معلوم ہوا کہ۔ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔ زمین پر ایک گدیلہ تھا۔ جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔

’’سنا بے شہزادے۔ ‘‘

میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا

’’نہیں سعادت۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔ شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا۔ اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پُر کشش دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کجکلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔ خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پُر خلوص بیباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے

’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔ ‘‘

اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ مگر وہ خادم دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی۔ اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں۔ وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوشمندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔ اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خامکار تھیں۔ حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے۔ ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارکباد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پُرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی۔ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چمبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑھی میں ملبوس۔ دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے جسے میں نے چمبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا۔ محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے کچھ کانگرس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خُوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہو گئی تھی۔ وہ حسین نہیں تھی۔ لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھا۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزی نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا۔ مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگرس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہو گئے۔ غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔ بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شانداری کوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔ بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی۔ اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔ گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدہ ءِ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔ یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے۔ اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی ظنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی۔ حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔ امرتسر میں بابا جی کے سینکڑوں جلوس نکل چکے تھے مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا۔ ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔ دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالیشان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے۔ گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا۔ مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔ کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔ بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم( وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھڑیوں سے بے نیاز تھا۔ جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔ شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔ میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک ہے، اس کے گنجے سر سے، اس کی اَدھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے۔ اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گریت کے اثر سے کچھ اپنی شدید جوانی سے جو اس کی کھردردی سفید ساڑھی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہشمند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں۔ وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔ اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔ اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر اَن سُنا نغمہ گونج رہا تھا۔ گیت ختم ہوا بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتائی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔ غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا۔

’’شہزادے ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘

غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

’’جی نہیں۔ ‘‘

بابا جی نے قلمدان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے۔

’’مگر میں تو سمجھتا ہوں۔ تم گرفتار ہو چکے ہو۔ ‘‘

غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے۔

’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔ ‘‘

نگار محجوب سی ہو گئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت کھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے۔

’’بہت اچھا ہوا۔ ‘‘

بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘

تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہو گیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا۔

’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔ ‘‘

ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی۔ جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے گا۔

’’تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔ ‘‘

دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا۔

’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی اُن کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔ ‘‘

پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے انھیں اس کی الھڑ اور بیباک جوانی سے کہا۔

’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔ ‘‘

بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی۔

’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں۔ مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔ ‘‘

بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔ خیر۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا۔

’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔ ‘‘

نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ، لسّی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟ نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی؟۔ لیکن بابا جی کے اس سوال پر

’’کمل تم کب شادی کررہی ہو۔ ‘‘

کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں؟۔ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے؟۔ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر اُدھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟ میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر دانتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے۔ بھجن گاتے تھے۔ مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی، ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے۔ ان میں بالکل مفقود تھا۔ جُھکے جُھکے سے، دبے دبے سے۔ زرد چہرے، دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے۔ اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے۔ اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے۔ اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟ لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں ان

’’شاید‘‘

کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبہ ءِ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔ میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا۔ مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درسگاہ کہا جائے ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟ میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے۔ سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔ نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے۔ کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔ میں اب سوچتا ہوں تو بالا جی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفرین کیف میں لپٹی ہوئی تھی۔ ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔ وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔ جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورت اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔ دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا۔ کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔ غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگرس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے۔ چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔ غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے۔ کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے۔ بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکرٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہمراہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ اس کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔ میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگرسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔ جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا۔

’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلتی تھی لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا۔ پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘

مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔ اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہو گیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔ یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سینکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔ غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ وہ غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی۔ لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چُست کیے۔ ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں۔ مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بن کیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے۔ جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔ بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا۔

’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے۔ میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔ ‘‘

تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساری میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔ غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دولہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔ نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تیالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔ بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہو گیا۔ رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی۔ بہت سہانا سماں تھا۔ بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا۔ یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔ بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں۔ اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے۔ اصل میں صرف یہی لوگ ہیں۔ جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم۔ حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا۔ بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا۔

’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہو گی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا۔ میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہو گا۔ ‘‘

جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہو گیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا۔

’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہو گا؟‘‘

نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی۔ یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی۔

’’جی؟۔ جی نہیں۔ ‘‘

ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہو گیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچدار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی۔ مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا۔

’’بابا جی۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔ ‘‘

دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی۔ انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔ گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔ عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاستدانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہو گئی۔ آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا۔ پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا۔ مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا۔ ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہو گی۔ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔ کئی برس گزر گئے۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھی اگی، کالج میں داخل ہوا۔ ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا۔ والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا۔ ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے۔ وہاں ریا کاریاں اور چالبازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔ گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں گلیاں کس حالت میں ہیں۔ اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی۔ جو پتًہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہو گئی تھی۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے۔ اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ؟۔ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔ آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں۔ جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے۔ پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھا۔ کیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔ آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے صرف ہارنبی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھی۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہو گیا۔ یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا۔

’’کیا مانگتا ہے صاحب۔ ‘‘

میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے۔

’’ہاں۔ کریپ سول شو۔ ‘‘

’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔ ‘‘

مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں۔

’’گم بوٹ نکالو۔ ‘‘

’’بابو والے کی دکان سے ملیں گے۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔ ‘‘

میں نے ایسے ہی پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’سیٹھ کی مرضی۔ ‘‘

یہ مختصر مگر جامع جواب سنکر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا۔

’’ارے۔ غلام علی۔

’’سعادت یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی۔ چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا۔ جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا

’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے غاطب ہوا۔

’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ ‘‘

میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ کجکلاہی، وہ ہلکا سا گنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی۔ جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا۔

’’نگار۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہو گا‘‘

۔ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیا۔ جو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا۔

’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘

غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

’’میرا۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔ ‘‘

ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سینکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے۔ کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے۔ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا۔ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔ نگار کہاں تھی؟۔ کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔ شاید وہ مرچکی ہو۔ ہو سکتا ہے۔ غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔

’’کیا سوچ رہے ہو۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔ ‘‘

غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔ میں شاید خاموش ہو گیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی

’’ہاں‘‘

کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا۔

’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بج جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔ لیکن یار عجیب بات ہے۔ اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔ ‘‘

اتنے میں ایک گاہک آیا۔ جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا۔

’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔ ‘‘

گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا۔

’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔ ‘‘

یہ سوال میں نے یونہی کیا تھا۔ لیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہو گیا۔ دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’مجھے پسند نہیں۔ ‘‘

’’کیا پسند نہیں؟‘‘

’’یہی ربڑ۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا۔

’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا۔ ایک لحظے کے لیے دھندلی ہوئیں۔ لیکن پھر چمک اٹھیں۔

’’بکواس تھی یار وہ زندگی۔ سچ کہتا ہوں سعادت میں وہ دن بالکل بھول چکا ہوں۔ جب میرے دماغ پر لیڈری سوار تھی۔ چار پانچ برس سے اب بڑے سکون میں ہوں۔ بیوی ہے بچے ہیں، اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ ‘‘

اللہ کے فضل و کرم سے متاثر ہو کر غلام علی نے بزنس کا ذکر شروع کردیا کہ کتنے سرمائے اس نے کام شروع کیا تھا۔ ایک برس میں کتنا فائدہ ہوا۔ اب بنک میں اس کا کتنا روپیہ ہے۔ میں نے اسے درمیان میں ٹوکا اور کہا۔

’’لیکن تم نے کسی واہیات چیز کا ذکر کیا تھا۔ جس کا تمہاری زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

ایک بار پھر غلام علی کا چہرہ بے رونق ہو گیا۔ اس نے ایک لمبی ہاں کی اور جواب دیا۔

’’گہرا تعلق تھا۔ شکر ہے کہ اب نہیں ہے۔ لیکن مجھے ساری داستان سنانی پڑے گی۔ ‘‘

اتنے میں اس کا نوکر آگیا۔ دکان اس کے سپرد کرکے وہ مجھے اندر اپنے کمرے میں لے گیا۔ جہاں بیٹھ کر اس نے مجھے اطمینان سے بتایا کہ اسے ربڑ کی چیزوں سے کیوں نفرت پیدا ہوئی۔

’’میری سیاسی زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ اس کے متعلق تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میرا کیریکٹر کیسا تھا۔ یہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ ہم دونوں قریب قریب ایک جیسے ہی تھے۔ میرا مطلب ہے ہمارے ماں باپ کسی سے فخریہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمارے لڑکے بے عیب ہیں۔ معلوم نہیں میں تم سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ لیکن شاید تم سمجھ گئے ہو کہ میں کوئی مضبوط کیریکٹر کا مالک نہیں تھا۔ مجھے شوق تھا کہ میں کچھ کروں۔ سیاست سے مجھے اسی لیے دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ میں جھوٹا نہیں تھا۔ وطن کے لیے میں جان بھی دے دیتا۔ اب بھی حاضر ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں۔ بہت غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستان کی سیاست، اس کے لیڈر سب ناپختہ ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح میں تھا۔ ایک لہر اٹھتی ہے۔ اس میں جوش، زور، شورسبھی ہوتا ہے۔ لیکن فوراً ہی بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ لہر پیدا کی جاتی ہے، خود بخود نہیں اٹھتی۔ لیکن شاید میں تمہیں اچھی طرح سمجھا نہیں سکا۔ ‘‘

غلام علی کے خیالات میں بہت الجھاؤ تھا۔ میں نے اسے سگرٹ دیا۔ اسے سلگا کر اس نے زور سے تین کش لیے اور کہا۔

’’تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا ہندوستان کی ہر کوشش جو اس نے آزادی حاصل کرنے کے لیے کی ہے۔ غیر فطری نہیں۔ کوشش نہیں۔ میرا مطلب ہے اس کا انجام کیا ہر بار غیر فطری نہیں ہوتا رہا۔ ہمیں کیوں آزادی نہیں ملتی۔ کیا ہم سب نامرد ہیں؟ نہیں، ہم سب مرد ہیں۔ لیکن ہم ایسے ماحول میں ہیں کہ ہماری قوت کا ہاتھ آزادی تک پہنچنے ہی نہیں پاتا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’تمہارا مطلب ہے آزادی اور ہمارے درمیان کوئی چیز حائل ہے۔ ‘‘

غلام علی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’بالکل۔ لیکن یہ کوئی پکی دیوار نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس چٹان نہیں ہے۔ ایک پتلی سی جھلی ہے۔ ہماری اپنی سیاست کی، ہماری مصنوعی زندگی کی جہاں لوگ دوسروں کو دھوکا دینے کے علاوہ اپنے آپ سے بھی فریب کرتے ہیں۔ ‘‘

اس کے خیالات بدستور الجھے ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے وہ اپنے گزشتہ تجربوں کو اپنے دماغ میں تازہ کررہا تھا۔ سگرٹ بجھا کر اس نے میری طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا۔

’’انسان جیسا ہے ایسے ویسا ہی ہونا چاہیے نیک کام کرنے کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ انسان اپنا سر منڈائے، گیروے کپڑے پہنے یا بدن پر راکھ ملے، تم کہو گے۔ یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن میں کہتاہو ں اس کی اس مرضی ہی سے اس کی اس نرالی چیز ہی سے گمراہی پھیلتی ہے۔ یہ لوگ اونچے ہو کر انسان کی فطری کمزوریوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان کے کردار۔ ان کے خیالات اور عقیدے تو ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ لیکن ان کے منڈے ہوئے سر، ان کے بدن کی راکھ اور ان کے گیردے کپڑے سادہ لوح انسانوں کے دماغ میں رہ جائیں گے۔ ‘‘

غلام علی زیادہ جوش میں آگیا۔

’’دنیا میں اتنے مصلح پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی تعلیم تو لوگ بھول چکے ہیں۔ لیکن صلیبیں، دھاگے، داڑھیاں، کڑے اور بغلوں کے بال رہ گئے ہیں۔ ایک ہزار برس پہلے جو لوگ یہاں بستے تھے۔ ہم ان سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آج کے مصلح کیوں خیال نہیں کرتے کہ وہ انسان کی شکل مسخ کررہے ہیں۔ جی میں کئی دفعہ آتا ہے۔ بلند آواز میں چلانا شروع کردوں۔ خدا کے لیے انسان کو انسان رہنے دو۔ اس کی صورت کو تم بگاڑ چکے ہو، ٹھیک ہے۔ اب اس کے حال پر رحم کرو۔ تم اس کو خدا بنانے کی کوشش کرتے ہو، لیکن وہ غریب اپنی انسانیت بھی کھو رہا ہے۔ سعادت، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ میں نے جو محسوس کیا ہے۔ وہی کہہ رہا ہوں۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر کوئی چیز درست اور صحیح نہیں ہے۔ میں نے دو برس، پورے دو برس دماغ کے ساتھ کئی کشتیاں لڑی ہیں۔ میں نے اپنے دل، اپنے ضمیر، اپنے جسم، اپنے روئیں روئیں سے بحث کی ہے۔ مگر اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے۔ نفس ہزاروں میں ایک دو آدمی ماریں۔ سب نے اپنا نفس مارلیا تو میں پوچھتا ہوں یہ کشتہ کام کس کے آئے گا؟‘‘

یہاں تک کہہ کر اس نے ایک اور سگرٹ لیا اور اسے سلگانے میں ساری تیلی جلا کر گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

’’کچھ نہیں سعادت۔ تم نہیں جانتے۔ میں نے کتنی روحانی اور جسمانی تکلیف اٹھائی ہے۔ لیکن فطرت کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے گا۔ اسے تکلف برداشت کرنی ہی ہو گی۔ میں نے اس روز۔ تمہیں یاد ہو گا وہ دن۔ جلیانوالہ باغ میں اس بات کا اعلان کرکے کہ نگار اورمیں غلام بچے پیدا نہیں کریں گے ایک عجیب قسم کی برقی مسرت محسوس کی تھی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ اس اعلان کے بعد میرا سر اونچا ہو کر آسمان کے ساتھ جا لگا ہے۔ لیکن جیل سے واپس آنے کے بعد مجھے آہستہ آہستہ اس بات کا تکلیف دہ۔ بہت ہی اذیت رساں احساس ہونے لگا کہ میں نے اپنے جسم کا اپنی روح کا ایک بہت ہی ضروری حصہ مفلوج کردیا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے میں نے اپنی زندگی کے باغ کا سب سے حسین پھول مسل ڈالا ہے۔ شروع شروع میں اس خیال سے مجھے ایک عجیب قسم کا تسلی بخش فخر محسوس ہوتا رہا کہ میں نے ایسا کام کیا ہے جو دوسروں سے نہیں ہوسکتا۔ لیکن دھیرے دھیرے جب میرے شعور کے مسام کھلنے لگے تو حقیقت اپنی تمام تلخیوں سمیت میرے رگ و ریشے میں رچنے لگی۔ جیل سے واپس آنے پر میں نگار سے ملا۔ ہسپتال چھوڑ کر وہ بابا جی کے آشرم میں چلی گئی تھی۔ سات مہینے کے قید کے بعد جب میں اس سے ملا تو اس کی بدلی ہوئی رنگت، اس کی تبدیل شدہ جسمانی اور دماغی کیفیت دیکھ کر میں نے خیال کیا۔ شاید میری نظروں نے دھوکا کھایا ہے۔ لیکن ایک برس گزرنے کے بعد۔ ایک برس اس کے ساتھ۔ ‘‘

غلام علی کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ہاں ایک برس اس کے ساتھ رہنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس کا غم بھی وہی ہے جو میراہے۔ لیکن وہ مجھ پر ظاہر کرنا چاہتی ہے، نہ میں اس پر ظاہر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم دونوں اپنے عہد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ایک برس میں سیاسی جوش آہستہ آہستہ ٹھنڈاہو چکا تھا۔ کھادی کے لباس اور ترنگے جھنڈوں میں اب وہ پہلی سی کشش باقی نہ رہی تھی۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اگر کبھی بلند ہوتا بھی تا تو اس میں وہ شان نظر نہیں آتی تھی۔ جلیانوالہ باغ میں ایک تنبو بھی نہیں تھا۔ پرانے کیمپوں کے کھونٹنے کہیں کہیں گڑے نظر آتے تھے۔ خون سے سیاست کی حرارت قریب قریب نکل چکی تھی۔ میں اب زیادہ وقت گھر ہی میں رہتا تھا، اپنی بیوی کے پاس‘‘

۔ ایک بار پھر غلام علی کے ہونٹوں پر وہی زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ میں بھی چپ رہا۔ کیونکہ میں اس کے خیالات کا تسلسل توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ چند لمحات کے بعد اس نے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھا اور سگرٹ بجھا کر کہنے لگا۔

’’ہم دونوں ایک عجیب قسم کی لعنت میں گرفتار تھے۔ نگار سے مجھے جتنی محبت ہے۔ تم اس سے واقف ہو۔ میں سوچنے لگا۔ یہ محبت کیا ہے؟۔ میں اس کو ہاتھ لگاتا ہوں تو کیوں اس کے رد عمل کو اپنی معراج پر پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں کیوں ڈرتا ہوں کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے گا۔ مجھے نگار کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ ایک روز جب کہ شاید میں بالکل صحیح حالت میں تھا، میرا مطلب ہے جیسا کہ ہر انسان کو ہونا چاہیے تھا۔ میں نے انھیں چوم لیا۔ وہ میرے بازوؤں میں تھی۔ یوں کہو کہ ایک کپکپی تھی جو میرے بازوؤں میں تھی۔ قریب تھا کہ میری روح اپنے پرچھڑا کر پھڑپھڑاتی ہوئی اونچے آسمان کی طرف اڑ جائے کہ میں نے۔ کہ میں نے اسے پکڑ لیا اور قید کردیا۔ اس کے بعد بہت دیر تک۔ کئی دنوں تک اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میرے اس فعل سے۔ میرے اس بہادرانہ کارنامے سے میری روح کو ایسی لذت ملی ہے جس سے بہت کم انسان آشنا ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس میں ناکام رہا اور اس ناکامی نے جسے میں ایک بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہتا تھا۔ خدا کی قسم یہ میری دلی خواہش تھی کہ میں ایسا سمجھوں مجھے دنیا کا سب سے زیادہ دکھی انسان بنا دیا۔ لیکن جیسا کہ تم جانتے ہو۔ انسان حیلے بہانے تلاش کرلیتا ہے، میں نے بھی ایک راستہ نکال لیا۔ ہم دونوں سوجھ رہے تھے۔ اندر ہی اندر ہماری تمام لطافتوں پر پپڑی جم رہی تھی۔ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے غیر بن رہے تھے۔ نے سوچا۔ بہت دنوں کے غور و فکر کے بعد ہم اپنے عہد پر قائم رہ کر بھی۔ میرا مطلب ہے کہ نگار غلام بچے پیدا نہیں کرے گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس کے ہونٹوں پر تیسری بار وہ زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ لیکن فوراً ہی ایک بلند قہقہے میں تبدیل ہو گئی۔ جس میں تکلیف دہ احساس کی چبھن نمایاں تھی۔ پھر فوراً ہی سنجیدہ ہو کروہ کہنے لگا۔

’’ہماری ازواجی زندگی کا یہ عجیب و غریب دور شروع ہوا۔ اندھے کو جیسے ایک آنکھ مل گئی۔ میں ایک دم دیکھنے لگا لیکن یہ بصارت تھوڑی دیر ہی کے بعد دھندلی ہونے لگی۔ پہلے پہل تو یہی خیال تھا۔ غلام علی موزوں الفاظ تلاش کرنے لگا۔

’’پہلے پہل تو ہم مطمئن تھے۔ میرا مطلب ہے شروع شروع میں ہمیں اس کا قطعاً خیال نہیں تھا کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم نامطمئن ہو جائیں گے۔ یعنی ایک آنکھ تقاضا کرنے لگی کہ

’’دوسری آنکھ بھی ہو۔ آغاز میں ہم دونوں نے محسوس کیا تھا جیسے ہم صحت مند ہورہے ہیں، ہماری تندرستی بڑھ رہے۔ نگار کا چہرہ نکھر گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی تھی۔ میرے اعضا سے بھی خشک سا تناؤ دور ہو گیا تھا جو پہلے مجھے تکلیف دیا کرتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہم دونوں پر عجیب قسم کی مردنی چھانے لگی۔ ایک برس ہی میں ہم دونوں ربڑ کے پتلے سے بن گئے۔ میرا احساس زیادہ شدید تھا۔ تم یقین نہیں کرو گے، لیکن خدا کی قسم اس وقت جب میں بازو کا گوشت چٹک میں لیتا تو بالکل ربڑ معلوم ہوتا۔ ایسا لگتا تھا کہ اندر خون کی نسیں نہیں ہیں۔ نگار کی حالت مجھ سے، جہاں تک میرا خیال ہے مختلف تھی۔ اس کے سوچنے کا زاویہ اور تھا، وہ ماں بننا چاہتی تھی۔ گلی میں جب بھی کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اسے بہت سی آہیں چھپ چھپ کر اپنے سینے کے اندر دفن کرنا پڑتی تھیں۔ لیکن مجھے بچوں کا کوئی خیال نہیں تھا، بچے نہ ہوئے تو کیا ہے۔ دنیا میں لاکھوں انسان موجود ہیں جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ میں اپنے عہد پر قائم ہوں۔ اس سے تسکین تو کافی ہو جاتی تھی مگر میرے ذہن پر جب ربڑ کا مہین مہین جالا تننے لگا تو میری گھبراہٹ بڑھ گئی۔ میں ہر وقت سوچنے لگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے دماغ کے ساتھ ربڑ کالمس چمٹ گیا۔ روٹی کھاتا تو لقمے دانتوں کے نیچے کچکچانے لگتے۔

’’یہ کہتے ہوئے غلام علی کو پھریری آگئی۔ ‘‘

بہت ہی واہیات اور غلط چیز تھی۔ انگلیوں میں ہرقت جیسے صابن سا لگا ہے۔ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ میری روح کا سارا رس نچڑ گیا ہے اور اس چھلکا سا باقی رہ گیا ہے، استعمال شدہ۔ استعمال شدہ۔ غلام علی ہنسنے لگا۔ شکر ہے کہ وہ لعنت دور ہوئی۔ لیکن سعادت، کن اذیتوں کے بعد۔ زندگی بالکل سوکھے ہوئے چھیچھڑے کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ ساری حِسیں مردہ ہو گئی تھیں۔ لیکن لمس کی حس غیر فطری حد تک تیز ہو گئی تھی۔ تیز نہیں۔ اس کا صرف ایک رخ ہو گیا تھا۔ لڑکی میں، شیشے میں، لوہے میں، کاغذ میں، پتھر میں ہر جگہ ربڑ کی وہ مردہ، وہ ابکائی بھری ملائمی!!۔ یہ عذاب اور بھی شدید ہو جاتا جب میں اس کی وجہ کا خیال کرتا۔ میں دو انگلیوں سے اس لعنت کو اٹھا کرپھینک سکتا تھا، لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا مجھے کوئی سہارا مل جائے۔ عذاب کے اس سمندر میں مجھے ایک چھوٹا سا تنکا مل جائے جس کی مدد سے میں کنارے لگ جاؤں۔ بہت دیر تک میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ لیکن ایک روز جب کوٹھے پر دھوپ میں ایک مذہبی کتاب پڑھ رہا تھا، پڑھ کیا رہا تھا۔ ایسے ہی سرسری نظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک حدیث پر پڑی۔ خوشی سے اچھل پڑا۔ سہارا میری آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔ میں نے بار بار وہ سطریں پڑھیں۔ میری خشک زندگی جیسے سراب ہونے لگی۔ لکھا تھا کہ شادی کے بعد میاں بیوی کے لیے بچے پیدا کرنے لازم ہیں۔ صرف اسی حالت میں ان کی پیدائش روکنے کی اجازت ہے۔ جب والدین کی زندگی خطرے میں ہو۔ میں نے دو انگلیوں سے اس لعنت کو اٹھایا اور ایک طرف پھینک دیا۔ ‘‘

یہ کہہ وہ بچوں کی طرح مسکرانے لگا میں بھی مسکرا دیا۔ کیونکہ اس نے دو انگلیوں سے سگرٹ کا ٹکڑا اٹھا کر ایک طرف ایسے پھینکا تھا جیسے وہ کوئی نہایت ہی مکروہ چیز ہے۔ مسکراتے مسکراتے غلام علی دفعتہً سنجیدہ ہو گیا۔

’’مجھے معلوم ہے سعادت۔ میں نے جو کچھ تم سے کہا ہے تم اس کا افسانہ بنا دو گے۔ لیکن دیکھو میرا مذاق مت اڑانا۔ خدا کی قسم میں نے کچھ محسوس کیا تھا وہی تم سے کہا ہے۔ میں اس معاملے میں تم سے بحث نہیں کروں گا۔ لیکن میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت کی خلاف ورزی ہرگز ہرگز بہادری نہیں۔ یہ کوئی کارنامہ نہیں کہ تم فاقہ کشی کرتے کرتے مر جاؤ، یا زندہ رہو۔ قبر کھو کر اس میں گڑ جانا اور کئی کئی دن اس کے اندر دم سادھے رکھنا، نوکیلی کیلوں کے بستر پر مہینوں لیٹے رہنا، ایک ہاتھ برسوں اوپر اٹھائے رکھنا، حتیٰ کہ وہ سوکھ سوکھ کر لکڑی ہو جائے۔ ایسے مداری پنے سے خدا مل سکتا ہے نہ سوراج۔ اور میں تو سمجھتا ہوں۔ ہندوستان کو سوراج صرف اس لیے نہیں مل رہا کہ یہاں مداری زیادہ ہیں اور لیڈر کم۔ جو ہیں وہ قوانین فطرت کے خلاف چل رہے ہیں۔ ایمان اور صاف دلی کا برتھ کنٹرول کرنے کے لیے ان لوگوں نے سیاست ایجاد کرلی ہے اور یہی سیاست ہے جس نے آزادی کے رحم کا منہ بند کردیا ہے۔ ‘‘

غلام علی اس کے آگے بھی کچھ کہنے والا تھا کہ اس کا نوکر اندر داخل ہوا۔ اس کی گود میں شاید غلام علی کا دوسرا بچہ تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک خوشرنگ بیلون تھا۔ غلام علی دیوانوں کی طرح اس پر جھپٹا۔ پٹاخے کی سی آواز آئی۔ بیلون پھٹ گیا اور بچے کے ہاتھ میں دھاگے کے ساتھ ربڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لٹکتا رہ گیا۔ غلام علی نے دو انگلیوں سے اس ٹکڑے کو چھین کر یوں پھینکا جیسے وہ کوئی نہایت ہی مکروہ چیز تھی۔

سعادت حسن منٹو

سودا بیچنے والی

سہیل اورجمیل دونوں بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی کو لوگ مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔ دونوں اسکول میں اکٹھے پڑھے۔ پھر اس کے بعد سہیل کے باپ کا تبادلہ ہو گیا اور وہ راولپنڈی چلا گیا۔ لیکن ان کی دوستی پھر بھی قائم رہی۔ کبھی جمیل راولپنڈی چلا جاتا اور کبھی سہیل لاہور آجاتا۔ دونوں کی دوستی کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ حسن پسند تھے۔ وہ خوبصورت تھے۔ بہت خوبصورت لیکن وہ عام خوبصورت لڑکوں کی مانند بدکردار نہیں تھے۔ ان میں کوئی عیب نہیں تھا۔ دونوں نے بی اے پاس کیا۔ سہیل نے راولپنڈی کے گارڈن کالج اور جمیل نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے بڑے اچھے نمبروں پر۔ اس خوشی میں انھوں نے بہت بڑی دعوت کی۔ اس میں کئی لڑکیاں بھی شریک تھیں۔ جمیل قریب قریب سب لڑکیوں کو جانتا تھا، مگر ایک لڑکی کو جب اس نے دیکھا، جس سے وہ قطعاً ناآشنا تھا، تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے سارے خواب پورے ہو گئے ہیں۔ اس نے اس لڑکی کے متعلق، جس کا نام جمیلہ تھا، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سلمیٰ کی چھوٹی بہن ہے۔ سلمیٰ کے مقابلے میں جمیلہ بہت حسین تھی۔ سلمیٰ کی شکل و صورت سیدھی شادی تھی لیکن جمیلہ کا ہر نقش تیکھا اور دل کش تھا۔ جمیل اس کو دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے فوراً اپنے دل کے جذبات سے اپنے دوست کو آگاہ کردیا۔ سہیل نے اس سے کہا۔

’’ہٹاؤ یار۔ تم نے اس لڑکی میں کیا دیکھا ہے جو اس بری طرح لٹو ہو گئے ہو؟‘‘

جمیل کو برا لگا:

’’تمہیں حسن کی پرکھ ہی نہیں۔ اپنا اپنا دل ہے۔ تمہیں اگر جمیلہ میں کوئی بات نظر نہیں آئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے دکھائی نہ دی ہو۔ ‘‘

سہیل ہنسا

’’تم ناراض ہورہے ہو۔ لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تمہاری یہ جمیلہ برف کی ڈلی ہے، اس میں حرارت نام کو بھی نہیں۔ عورت کا دوسرا نام حرارت ہے۔ ‘‘

’’حرارت پیدا کرلی جاتی ہے۔ ‘‘

’’برف میں؟‘‘

’’برف بھی تو حرارت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری یہ منطق عجیب وغریب ہے۔ اچھا بھئی جو چاہتے ہو، سو کرو۔ میں تو یہی مشورہ دوں گا کہ اس کا خیال اپنے دل سے نکال دو اس لیے کہ وہ تمہارے لائق نہیں ہے۔ تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو۔ ‘‘

دونوں میں ہلکی سی چخ ہوئی لیکن فوراً صلح ہو گئی۔ جمیل، سہیل کے مشورے کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ اس نے جب اپنے دوست پر یہ واضح کردیا کہ وہ جمیلہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو سہیل نے اسے اجازت دے دی کہ جس قسم کی چاہے، جھک مار سکتا ہے۔ ‘‘

سہیل راولپنڈی چلا گیا۔ جمیل نے جو جمیلہ کے عشق میں بری طرح مبتلا تھا، اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی، مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کی بڑی بہن سلمیٰ اس کو محبت کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ اس نے ان کے گھر آنا جانا شروع کیا تو سلمیٰ بہت خوش ہوئی۔ وہ یہ سمجھتی تھی کہ جمیل اس کے جذبات سے واقف ہو چکا ہے اس لیے اس سے ملنے آتا ہے۔ چنانچہ اس نے غیر مبہم الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار شروع کردیا۔ جمیل سخت پریشان تھا کہ کیا کرے۔ جب وہ ان کے گھر جاتا تو سلمیٰ اپنی چھوٹی بہن کو کسی نہ کسی بہانے سے اپنے کمرے سے باہر نکال دیتی اور جمیل دانت پیس کے رہ جاتا۔ کئی بار اس کے جی میں آئی کہ وہ سلمیٰ سے صاف صاف کہہ دے کہ وہ کس غرض سے آتا ہے۔ اس کواس سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ اس کی چھوٹی بہن سے محبت کرتا ہے۔ بے حد مختصر لمحات جو جمیل کو جمیلہ کی چند جھلکیاں دینے کے لیے نصیب ہوتے تھے، اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کئی باتیں کرنے کی کوشش کی اور یہ بار آورثابت ہوا۔ ایک دن اسے جمیلہ کا رقعہ ملا، جس کی عبارت یہ تھی:

’’میری بہن جس غلط فہمی میں گرفتار ہیں، اس کو آپ دور کیوں نہیں کرتے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھ سے ملنے آتے ہیں لیکن باجی کی موجودگی میں آپ سے کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ البتہ آپ باہر جہاں بھی چاہیں، میں آسکتی ہوں۔ ‘‘

جمیل بہت خوش ہوا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کون سی جگہ مقرر کرے اور پھر جمیلہ کو اس کی اطلاع کیسے دے۔ اس نے کئی محبت نامے لکھے اور پھاڑ دیے۔ اس لیے کہ ان کی ترسیل بڑی مشکل تھی۔ آخر اس نے یہ سوچا کہ سلمیٰ سے ملنے جائے اور موقع ملے تو جمیلہ کو اشارۃً وہ جگہ بتا دے، جہاں وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ قریب قریب ایک مہینے تک وہ سلمیٰ سے ملنے جاتا رہا مگر کوئی موقع نہ ملا۔ لیکن ایک دن جب جمیلہ کمرے میں موجود تھی اور سلمیٰ اسے کسی بہانے سے باہر نکالنے والی تھی، جمیل نے بڑی بے ربطی سے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

’’لارنس گارڈن۔ پانچ بجے۔ ‘‘

جمیلہ نے یہ سنا اور چلی گئی۔ سلمیٰ نے بڑی حیرت سے پوچھا

’’یہ آپ نے کیا کہا تھا؟‘‘

’’تم ہی سے تو کہا تھا۔ ‘‘

’’کیا کہا تھا؟‘‘

’’لارنس گارڈن۔ پانچ بجے‘‘

۔ میں چاہتا تھا کہ تم کل لارنس گارڈن میرے ساتھ چلو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک پکنک ہو جائے۔ ‘‘

سلمیٰ خوش ہو گئی اور فوراً رضا مند ہو گئی کہ وہ جمیل کے ساتھ دوسرے روز شام کو پانچ بجے لارنس گارڈن میں ضرور جائے گی۔ وہ سینڈوچز بنانے میں مہارت رکھتی تھی، چنانچہ اس نے بڑے پیار سے کہا

’’چکن سینڈوچز کا انتظام میرے ذمے رہا۔ ‘‘

اسی شام کو پانچ بجے لارنس باغ میں جمیل اور جمیلہ سینڈوچ بنے ہوئے تھے۔ جمیل نے اس پر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا تو جمیلہ نے کہا۔

’’میں اس سے غافل نہیں تھی۔ پر کیا کروں، بیچ میں باجی حائل تھیں۔ ‘‘

’’تو اب کیا کیا جائے؟‘‘

’’ایسی ملاقاتیں زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکیں گی۔ ‘‘

’’یہ تو درست ہے۔ کل مجھے صرف اس ملاقات کی پاداش میں تمہاری باجی کے ساتھ یہاں آنا پڑے گا۔ ‘‘

’’اسی لیے تو میں سوچتی ہوں کہ اس کا کیا حل ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’تم حوصلہ رکھتی ہو؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟۔ میں ابھی آپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔ بتائیے، کہاں چلنا ہے؟‘‘

’’اتنی جلدی نہ کرو۔ مجھے سوچنے دو۔ ‘‘

’’آپ سوچ لیجیے۔ ‘‘

’’کل شام کو چار بجے تم کسی نہ کسی بہانے سے یہاں چلی آنا، میں تمہارا انتظار کررہا ہوں گا۔ اس کے بعد ہم راولپنڈی روانہ ہو جائیں گے۔ ‘‘

’دطوفن بھی ہو تو میں کل اس مقررہ وقت پر یہاں پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘

’’اپنے ساتھ زیور وغیرہ مت لانا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں تمہیں خود خرید کے دے سکتا ہوں۔ ‘‘

’’میں اپنے زیور نہیں چھوڑ سکتی۔ باجی نے مجھے اپنی ایک بالی بھی آج تک پہننے کے لیے نہیں دی۔ میں اپنے زیور اس کے لیے چھوڑ جاؤں؟‘‘

دوسرے دن شام کو سلمیٰ سینڈوچز تیار کرنے میں مصروف تھی کہ جمیلہ نے الماری میں سے اپنے زیور اور اچھے اچھے کپڑے نکالے، انھیں سوٹ کیس میں بند کیا اور باہر نکل گئی۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی۔ سلمیٰ سینڈوچز تیار کرتی رہی اور جمیل اور جمیلہ دونوں ریل میں سوار تھے جو راولپنڈی کی طرف تیزی سے جارہی تھی۔ راولپنڈی پہنچ کر جمیل اپنے دوست سہیل کے پاس گیا جو اتفاق سے گھر میں اکیلا تھا۔ اس کے والدین ایبٹ آباد میں منتقل ہو گئے تھے۔ سہیل نے جب ایک برقعہ پوش عورت جمیل کے ساتھ دیکھی تو بڑا متحیر ہوا، مگر اس نے اپنے دوست سے کچھ نہ پوچھا۔ جمیل نے اس سے کہا

’’میرے ساتھ جمیلہ ہے۔ میں اسے اغوا کرکے تمہارے پاس لایا ہوں۔ ‘‘

سہیل نے پوچھا۔

’’اغوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’بڑا لمبا قصہ ہے۔ میں پھر کبھی سنادوں گا۔ ‘‘

پھر جمیل جمیلہ سے مخاطب ہوا۔

’’برقع اتار دو اور اس گھر کو اپنا گھر سمجھو۔ سہیل میرا عزیز ترین دوست ہے۔ ‘‘

جمیلہ نے برقع اتار دیا اور شرمیلی نگاہوں سے جن میں کسی اور جذبے کی بھی جھلک تھی، سہیل کی طرف دیکھا۔ سہیل کے ہونٹوں پر عجیب قسم کی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

’’اب تمہارا ارادہ کیا ہے‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’شادی کرنے کا۔ لیکن فوراً نہیں۔ میں آج ہی واپس لاہور جانا چاہتا ہوں تاکہ وہاں کے حالات معلوم ہوسکیں۔ ہوسکتا ہے بہت گڑ بڑ ہو چکی ہو۔ میں اگر وہاں پہنچ گیا تو مجھ پر کسی کو شک نہیں ہو گا۔ دو تین روز وہاں رہوں گا۔ اس دوران میں تم ہماری شادی کا انتظام کردینا۔ ‘‘

سہیل نے ازراہ مذاق سے کہا۔

’’بڑے عقلمند ہوتے جارہے ہو تم۔ ‘‘

جمیل، جمیلہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

’’یہ تمہاری صحبت ہی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘

’’تم آج ہی چلے جاؤ گے؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’ابھی۔ اسی وقت۔ مجھے صرف اپنے اس سرمایہ حیات کو تمہارے سپرد کرنا تھا۔ یہ میری امانت ہے۔ ‘‘

جمیل اپنی جمیلہ کو سہیل کے حوالے کرکے واپس لاہور آگیا۔ وہاں کافی گڑبڑ مچی ہوئی تھی۔ وہ سلمیٰ سے ملنے گیا۔ اس نے شکایت کی کہ وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔ جمیل نے اس سے جھوٹ بولا۔

’’مجھے سخت زکام ہو گیا تھا۔ افسوس ہے کہ میں تمہیں اس کی اطلاع نہ دے سکا، اس لیے کہ ہمارا ٹیلی فون خراب تھا اور نوکر کو امی جان نے کسی وجہ سے برطرف کردیا تھا۔ ‘‘

سلمیٰ جب مطمئن ہو گئی تو اس نے جمیل کو بتایا کہ اس کی بہن کہیں غائب ہو گئی ہے۔ بہت تلاش کی ہے مگر نہیں ملی۔ اپنے زیور کپڑے ساتھ لے گئی ہے۔ معلوم نہیں کس کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ جمیل نے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا۔ سلمیٰ اس سے بڑی متاثر ہوئی اور اسے مزید یقین ہو گیا کہ جمیل اسے محبت کرتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جمیل نے محض رواداری کی خاطر اپنی جیب سے رومال نکال کر اس کی نمناک آنکھیں پونچھیں اور مصنوعی محبت کا اظہار کیا۔ سلمیٰ اپنی بہن کی گمشدگی کا صدمہ کچھ دیر کے لیے بھول گئی۔ جب جمیل کو اطمینان ہو گیا کہ اس پر کسی کو بھی شبہ نہیں تووہ ٹیکسی میں راولپنڈی پہنچا۔ بڑا بیتاب تھا۔ لاہور میں اس نے تین دن کانٹوں پر گزارے تھے۔ ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے جمیلہ کا حسین چہرہ رقص کرتا رہتا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ وہ جب اپنے دوست کے گھر پہنچا تو اس نے جمیلہ کو آواز دی۔ اس کو یقین تھا کہ اس کی آواز سنتے ہی وہ اڑتی ہوئی آئے گی اور اس کے سینے کے ساتھ چمٹ جائے گی۔ مگر اسے ناامیدی ہوئی۔ اس کا دوست اس کی آواز سن کر آیا۔ دونوں ایک دوسرے کے گلے ملے۔ جمیل نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا۔

’’جمیلہ کہاں ہے؟‘‘

سہیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جمیل بڑا مضطرب تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔

’’یار۔ جمیلہ کو بلاؤ۔ ‘‘

سہیل نے بڑے رقت آمیز لہجے میں کہا۔

’’وہ تو اسی روز چلی گئی تھی۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’جب تم یہاں اسے چھوڑ کر گئے تو وہ دو تین گھنٹوں کے غائب ہو گئی۔ اسے غالباً تم سے محبت نہیں تھی۔ ‘‘

جمیل پھر لاہور آیا۔ مگر سلمیٰ سے اسے معلوم ہوا کہ اس کی بہن ابھی تک غائب ہے، بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی۔ چنانچہ جمیل کو پھرراولپنڈی جانا پڑا تاکہ وہ اس کی تلاش وہاں کرے۔ وہ اپنے دوست کے گھر نہ گیا۔ اس نے سوچا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا چاہیے۔ جہاں سے مطلوبہ معلومات حاصل ہونے کی توقع ہو سکتی ہے۔ جب اس نے راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں کمرے کرائے پر لیا تو اس نے دیکھا کہ جمیلہ ساتھ والے کمرے میں سہیل کی آغوش میں ہے۔ وہ اسی وقت اپنے کمرے سے نکل آیا۔ لاہور پہنچا۔ جمیلہ کے زیورات اس کے پاس تھے، یہ اس نے بیمہ کراکر اپنے دوست کو بھیج دیے اور صرف چند الفاظ ایک کاغذ پر لکھ کر ساتھ رکھ دیے۔

’’میں تمہاری کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جمیلہ کو میرا سلام پہنچا دینا۔ ‘‘

دوسرے دن وہ سلمیٰ سے ملا۔ وہ اس کو جمیلہ سے کہیں زیادہ خوب صورت دکھائی دی۔ وہ اپنی بہن کی گمشدگی کے غم میں رو رہی تھی۔ جمیل نے اس کی آنکھیں چومیں اور کہا

’’یہ آنسو بیکار ضائع نہ کرو۔ انھیں ان اشخاص کے لیے محفوظ رکھو، جو ان کے مستحق ہیں۔ ‘‘

’’لیکن وہ میری بہن ہے۔ ‘‘

’’بہنیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اسے بھول جاؤ۔ ‘‘

جمیل نے سلمیٰ سے شادی کرلی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ گرمیوں میں مری گئے تو وہاں انھوں نے جمیلہ کو دیکھا جس کا حسن ماند پڑ گیا تھا اور نہایت واہیات قسم کا میک اپ کیے تھے، پنڈی پوائنٹ پر یوں چل پھر رہی تھی جیسے اسے کوئی سودا بیچنا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سو کینڈل پاور کا بلب

وہ چوک میں قیصر پارک کے باہر جہاں ٹانگے کھڑے رہتے ہیں۔ بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ خاموش کھڑا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے! یہی پارک جو صرف دو برس پہلے اتنی پُررونق جگہ تھی اب اجڑی پچڑی دکھائی تھی۔ جہاں پہلے عورت اور مرد شوخ و شنگ فیشن کے لباسوں میں چلتے پھرتے تھے۔ وہاں اب بے حد میلے کچیلے کپڑوں میں لوگ ادھر ادھر بیم قصد پھر رہے تھے۔ بازار میں کافی بھیڑ تھی مگر اس میں وہ رنگ نہیں تھا جو ایک میلے ٹھیلے کا ہوا کرتا تھا۔ آس پاس کی سیمنٹ سے بنی ہوئی بلڈنگیں اپنا روپ کھو چکی تھیں۔ سرجھاڑ منہ پھاڑ ایک دوسرے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے بیوہ عورتیں۔ وہ حیران تھا کہ وہ غازہ کہاں گیا۔ وہ سپندور کہاں اڑگیا۔ وہ سر کہاں غائب ہو گئے جو اس نے کبھی یہاں دیکھے اور سنے تھے۔ زیادہ عرصہ کی بات نہیں، ابھی وہ کل ہو تو(دو برس بھی کوئی عرصہ ہوتا ہے) یہاں آیا تھا۔ کلکتے سے جب اسے یہاں کی ایک فرم نے اچھی تنخواہ پر بلایا تھا تو اس نے قیصر پارک میں کتنی کوشش کی کہ اسے کرائے پر ایک کمرہ ہی مل جائے مگر وہ ناکام رہا تھا۔ ہزار فرمائشوں کے باوجود۔ مگراب اس نے دیکھا کہ جس کنجڑے، جولا ہے اور موچی کی طبیعت چاہتی تھی۔ فلیٹوں اور کمروں پر اپنا قبضہ جما رہا تھا۔ جہاں کسی شان دار فلم کمپنی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ وہاں چولہے سلگ رہے ہیں۔ جہاں کبھی شہر کی بڑی بڑی رنگین ہستیاں جمع ہوتی تھیں۔ وہاں دھوبی میلے کپڑے دھو رہے ہیں۔ دو برس میں اتنا بڑا انقلاب! وہ حیران تھا۔ لیکن اس کو اس انقلاب کا پس منظر معلوم تھا۔ اخباروں کے ذریعہ سے اور ان دوستوں سے جو شہرمیں موجود تھے۔ اسے سب پتہ لگ چکا تھا کہ یہاں کیسا طوفان آیا تھا۔ مگر وہ سوچتا تھا کہ یہ کوئی عجیب و غریب طوفان تھا جو عمارتوں کا رنگ و روپ بھی چوس کر لے گیا۔ انسانوں نے انسان قتل کیے۔ عورتوں کی بے عزتی کی۔ لیکن عمارتوں کی خشک لکڑیوں اور ان کی اینٹوں سے بھی یہی سلوک کیا۔ اس نے سنا تھا کہ اس طوفان میں عورتوں کو ننگا کیا گیا تھا۔ ان کی چھاتیاں کاٹی گئی تھیں۔ یہاں اس کے آس پاس جو کچھ تھا۔ سب ننگا اور جوبن بریدہ تھا۔ وہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگا اپنے ایک دوست کا انتظار کررہا تھا۔ جس کی مدد سے وہ اپنی رہائش کا کوئی بندوبست کرنا چاہتا تھا۔ اس دوست نے اس سے کہا کہ تم قیصر پارک کے پاس جہاں تانگے کھڑے رہا کرتے ہیں میرا انتظار کرنا۔ دو برس ہوئے جب وہ ملازمت کے سلسلے میں یہاں آیا تو یہ ٹانگوں کا اڈا بہت مشہور جگہ تھی، سب سے عمدہ، سب سے بانکے ٹانگے صرف یہیں کھڑے رہتے تھے۔ کیونکہ یہاں سے عیاشی کا ہر سامان مہیا ہو جاتا تھا۔ اچھے سے اچھا ریسٹورنٹ اور ہوٹل قریب تھا۔ بہترین چائے، بہترین کھانا اور دوسرے لوازمات بھی۔ شہر کے جتنے بڑے دلال تھے وہ یہیں دستیاب ہوتے تھے۔ اس لیے کہ قیصر پارک میں بڑی بڑی کمپنیوں کے باعث روپیہ اور شراب پانی کی طرح بہتے تھے۔ اس کو یاد آیا کہ دو برس پہلے اس نے اپنے دوست کے ساتھ بڑے عیش کیے تھے۔ اچھی سے اچھی لڑکی ہر رات کو ان کی آغوش میں ہوتی تھی۔ اسکاچ جنگ کے باعث نایاب تھی مگر ایک منٹ میں درجنوں بوتلیں مہیا ہو جاتی تھیں۔ ٹانگے اب بھی کھڑے تھے مگر ان پروہ کلغیاں، وہ پھندنے، وہ پیتل کے پالش کیے ہوئے سازو سامان کی چمک دمک نہیں تھی۔ یہ بھی شاید دوسری چیزوں کے ساتھ اڑ گئی تھی۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ پانچ بج چکے تھے۔ فروری کے دن تھے۔ شام کے سائے چھانے شروع ہو گئے تھے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے دوست کو لعنت ملامت کی اور دائیں ہاتھ کے ویران ہوٹل میں موری کے پانی سے بنائی ہوئی چائے پینے کے لیے جانے ہی والا تھا کہ کسی نے اس کو ہولے سے پکارا۔ اس نے خیال کیا کہ شاید اس کا دوست آگیا۔ مگر جب اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اجنبی تھا۔ عام شکل و صورت کا، لٹھے کی نئی شلوار میں جس میں اب اور زیادہ شکنوں کی گنجائش نہیں تھی۔ نیلی پاپلین کی قمیض جو لانڈری میں جانے کے لیے بیتاب تھی۔ اس نے پوچھا

’’کیوں بھئی۔ تم نے مجھے بلایا؟‘‘

اس نے ہولے سے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

اس نے خیال کہ مہاجر ہے بھیک مانگنا چاہتا ہے۔

’’کیا مانگتے ہو؟‘‘

اس نے اسی لہجے میں جواب دیا۔

’’جی کچھ نہیں۔ ‘‘

پھر قریب آکر کہا۔

’’کچھ چاہیے آپ کو؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کوئی لڑکی وڑکی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے سینے میں ایک تیر سا لگا کہ دیکھو اس زمانے میں بھی یہ لوگوں کے جنسی جذبات ٹٹولتا پھرتا ہے۔ اور پھر انسانیت کے متعلق اوپر تلے اس کے دماغ میں بڑے حوصلہ شکن خیالات آئے۔ انہی خیالات کے زیر اثر اس نے پوچھا۔

’’کہاں ہے؟‘‘

اس کا لہجہ دلال کے لیے امید افزا نہیں تھا۔ چنانچہ قدم اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔

’’جی نہیں آپ کو ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ ‘‘

اس نے اس کو روکا۔

’’یہ تم نے کس طرح جانا۔ انسان کو ہر وقت اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو تم مہیا کرسکتے ہو۔ وہ سولی پر بھی۔ جلتی چتا میں بھی۔ ‘‘

وہ فلسفی بننے ہی والا تھا کہ رک گیا۔

’’دیکھو۔ اگر کہیں پاس ہی ہے تو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے یہاں ایک دوست کو وقت دے رکھا ہے۔ ‘‘

دلال قریب آگیا۔

’’پاس ہی۔ بالکل پاس۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’یہ سامنے والی بلڈنگ میں۔ ‘‘

اس نے سامنے والی بلڈنگ کو دیکھا۔

’’اس میں۔ اس بڑی بلڈنگ میں؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

وہ لرز گیا۔

’’اچھا۔ تو۔ ؟‘‘

سنبھل کر اس نے پوچھا۔

’’میں بھی چلوں؟‘‘

’’چلیے۔ لیکن میں آگے آگے چلتا ہوں۔ ‘‘

اور دلال نے سامنے والی بلڈنگ کی طرف چلنا شروع کردیا۔ وہ سینکڑوں روح شگاف باتیں سوچتا اس کے پیچھے ہولیا۔ چند گزوں کا فاصلہ تھا۔ فوراً طے ہو گیا۔ دلال اور وہ دونوں اس بڑی بلڈنگ میں تھے۔ جس کی پیشانی پر ایک بورڈ لٹک رہا تھا۔ اس کی حالت سب سے خستہ تھی، جگہ جگہ اکھڑی ہوئی اینٹوں، کٹے ہوئے پانی کے نلوں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیرتھے۔ اب شام گہری ہو گئی تھی۔ ڈیوڑھی میں سے گزر کر آگے بڑھے تو اندھیرا شروع ہو گیا۔ چوڑا چکلا صحن طے کرکے وہ ایک صرف مڑا۔ عمارت بنتے بنتے رک گئی تھی۔ ننگی اینٹیں تھیں۔ چونہ اور سیمنٹ ملے ہوئے سخت ڈھیر پڑے تھے اور جا بجا بجری بکھری ہوئی تھی۔ دلال نامکمل سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ مڑ کر اس نے کہا۔

’’آپ یہیں ٹھہریئے۔ میں اب آیا۔ ‘‘

وہ رک گیا۔ دلال غائب ہو گیا۔ اس نے منہ اوپر کرکے سیڑھیوں کے اختتام کی طرف دیکھا تو اسے تیز روشنی نظر آئی۔ دو منٹ گزر گئے تو دبے پاؤں وہ بھی اوپر چڑھنے لگا۔ آخری زینے پر اسے دلال کی بہت زور کی کڑک سنائی دی۔

’’اٹھتی ہے کہ نہیں؟‘‘

کوئی عورت بولی۔

’’کہہ جودیا مجھے سونے دو۔ ‘‘

اس کی آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔ دلال پھر کڑکا۔

’’میں کہتا ہوں اٹھ۔ میرا کہا نہیں مانے گی تو یاد رکھ۔ ‘‘

عورت کی آوازئی۔

’’تو مجھے مار ڈال۔ لیکن میں نہیں اٹھوں گی۔ خدا کے لیے میرے حال پر رحم کر۔ ‘‘

دلال نے پچکارا۔

’’اٹھ میری جان۔ ضد نہ کر۔ گزارہ کیسے چلے گا۔ ‘‘

عورت بولی۔

’’گزارہ جائے جہنم میں۔ میں بھوکی مر جاؤں گی۔ خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کر۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ ‘‘

دلال کی آواز کڑی ہو گئی۔

’’تو نہیں اٹھے گی۔ حرامزادی، سور کی بچی۔ ‘‘

عورت چلانے لگی۔

’’میں نہیں اٹھوں گی۔ نہیں اٹھوں گی۔ نہیں اٹھوں گی۔ ‘‘

دلال کی آواز بھنچ گئی۔

’’آہستہ بول۔ کوئی سن لے گا۔ لے چل اٹھ۔ تیس چالیس روپے مل جائیں گے۔ ‘‘

عورت کی آواز میں التجا تھی دیکھ میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میں کتنے دنوں سے جاگ رہی ہوں۔ رحم کر۔ خدا کے لیے مجھ پر رحم کر۔ ‘‘

’’بس ایک دو گھنٹے کے لیے۔ پھر سو جانا۔ نہیں تو دیکھ مجھے سختی کرنی پڑے گی‘‘

تھوڑی دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔ اس نے دبے پاؤں آگے بڑھ کر اس کمرے میں جھانکا جس میں بڑی تیز روشنی آرہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جس کے فرش پر ایک عورت لیٹی ہے۔ کمرے میں دو تین برتن ہیں، بس اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ دلال اس عورت کے پاس بیٹھا اس کے پاؤں داب رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے اس عورت سے کہا۔

’’لے اب اٹھ۔ قسم خدا کی ایک دو گھنٹے میں آجائے گی۔ پھر سو جانا۔ ‘‘

وہ عورت ایک دم یوں اٹھی جیسے آگ دکھائی ہوئی چھچھوندر اٹھتی ہے اور چلائی۔

’’اچھا اٹھتی ہوں۔ ‘‘

وہ ایک طرف ہٹ گیا۔ اصل میں وہ ڈر گیا تھا۔ دبے پاؤں وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔ اس نے سوچا کہ بھاگ جائے۔ اس شہر ہی سے بھاگ جائے۔ اس دنیا سے بھاگ جائے۔ مگر کہاں؟‘‘

پھر اس نے سوچا کہ یہ عورت کون ہے؟ کیوں اس پر اتنا ظلم ہورہا ہے؟۔ اور یہ دلال کون ہے؟۔ اس کا کیا لگتا ہے اور یہ اس کمرے میں اتنا بلب جلا کر جو سوکینڈل پاور سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ کیوں رہتے ہیں۔ کب سے رہتے ہیں؟ اس کی آنکھوں میں اس تیز بلب کی روشنی ابھی تک گھسی ہوئی تھی۔ اس کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مگر وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی تیز روشنی میں کون سو سکتا ہے؟۔ اتنا بڑا بلب؟۔ کیا وہ چھوٹا نہیں لگا سکتے۔ یہی پندرہ پچیس کینڈل پاور کا؟ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آہٹ ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ دو سائے اس کے پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے جو دلال کا تھا۔ اس سے کہا۔

’’دیکھ لیجیے۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’دیکھ لیا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے نا؟‘‘

ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’چالیس روپے ہوں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’دے دیجیے۔ ‘‘

وہ اب سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جیب میں اس نے ہاتھ ڈالا اور کحھ نوٹ نکال کر دلال کے حوالے کردیے۔

’’دیکھ لو کتنے ہیں!‘‘

نوٹوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ دلال نے کہا۔

’’پچاس ہیں۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’پچاس ہی رکھو۔ ‘‘

’’صاحب سلام۔ ‘‘

اس کے جی میں آئی کہ ایک بہت بڑا پتھر اٹھا کر اس کو دے مارے۔ دلال بولا۔

’’تو لے جائیے اسے۔ لیکن دیکھیے تنگ نہ کیجیے گا اور پھر ایک دو گھنٹے کے بعد چھوڑ جائیے گا۔ ‘‘

’’بہتر۔ ‘‘

اس نے بڑی بڈنگ کے باہر نکلنا شروع کیا جس کی پیشانی پر وہ کئی بار ایک بہت بڑا بورڈ پڑھ چکا تھا۔ باہر ٹانگہ کھڑا تھا۔ وہ آگے بیٹھ گیا اور عورت پیچھے۔ دلال نے ایک بار پھر سلام کیا اور ایک بار پھر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک بہت بڑا پتھر اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے۔ ٹانگہ چل پڑا۔ وہ اسے پاس ہی ایک ویران سے ہوٹل میں لے گیا۔ دماغ کو حتی المقدور اس تکدر سے جو اسے پہنچ چکا تھا نکال کر اس نے اس عورت کی طرف دیکھا جو سرسے پیر تک اجاڑ تھی۔ اس کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ اس کا اوپر کا دھڑ بھی سارے کا سارا خمیدہ تھا جیسے وہ ایک ایسی عمارت ہے جو پل بھر میں گر جائے گی۔ وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’ذرا گردن تو اونچی کیجیے۔ ‘‘

وہ زور سے چونکی۔

’’کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ کوئی بات تو کیجیے۔ ‘‘

اس کی آنکھیں سرخ بوٹی ہورہی تھیں جیسے ان میں مرچیں ڈالی گئی ہوں۔ وہ خاموش رہی۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں؟‘‘

اس کے لہجے میں تیزاب کی سی تیزی تھی۔

’’آپ کہاں کی رہنے والی ہیں؟‘‘

’’جہاں کی بھی تم سمجھ لو۔ ‘‘

’’آپ اتنا روکھا کیوں بولتی ہیں۔ ‘‘

عورت اب قریب قریب جاگ پڑی اور اس کی طرف لال بوٹی آنکھوں سے دیکھ کر کہنے لگی۔

’’تم اپنا کام کرو۔ مجھے جانا ہے۔ ‘‘

اس نے پوچھا۔

’’کہاں؟‘‘

عورت نے بڑی روکھی بے اعتنائی سے جواب دیا۔

’’جہاں سے مجھے تم لائے ہو۔ ‘‘

’’آپ چلی جائیے۔ ‘‘

’’تم اپنا کام کرونا۔ مجھے تنگ کیوں کرتے ہو؟‘‘

اس نے اپنے لہجے میں دل کا سارا درد بھر کے اس سے کہا۔

’’میں تمہیں تنگ نہیں کرتا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ ‘‘

وہ جھلاّ گئی۔

’’مجھے نہیں چاہیے کوئی ہمدرد۔ ‘‘

پھر قریب قریب چیخ پڑی۔

’’تم اپنا کام کرو اور مجھے جانے دو۔ ‘‘

اس نے قریب آکر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تو اس عورت نے زور سے ایک طرف جھٹک دیا۔

’’میں کہتی ہوں۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ میں کئی دنوں سے جاگ رہی ہوں۔ جب سے آئی ہوں۔ جاگ رہی ہوں۔ ‘‘

وہ سر تا پا ہمدردی بن گیا۔

’’سو جاؤ یہیں۔ ‘‘

عورت کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ تیز لہجے میں بولی۔

’’میں یہاں سونے نہیں آئی۔ یہ میرا گھر نہیں۔ ‘‘

’’تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے تم آئی ہو؟‘‘

عورت اور زیادہ خشمناک ہو گئی۔

’’اف۔ بکواس بند کرو۔ میرا کوئی گھر نہیں۔ تم اپنا کام کرو ورنہ مجھے چھوڑ آؤ اور اپنے روپے لے لو اس۔ اس۔ ‘‘

وہ گالی دیتی دیتی رہ گئی۔ اس نے سوچا کہ اس عورت سے ایسی حالت میں کچھ پوچھنا اور ہمدردی جتانا فضول ہے۔ چنانچہ اس نے کہا۔

’’چلو، میں تمہیں چھوڑ آؤں۔ ‘‘

اور وہ اسے اس بڑی بلڈنگ میں چھوڑ آیا۔ دوسرے دن اس نے قیصر پارک کے ایک ویران ہوٹل میں اس عورت کی ساری داستان اپنے دوست کو سنائی۔ دوست پر رقت طاری ہو گئی۔ اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا:

’’کیا جوان تھی؟‘‘

اس نے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں۔ میں اسے اچھی طرح بالکل نہ دیکھ سکا۔ میرے دماغ میں تو وقت یہ خیال آتا تھا کہ میں نے وہیں سے پتھر اٹھا کر دلال کا سر کیوں نہ کچل دیا۔ ‘‘

دوست نے کہا۔

’’واقعی بڑے ثواب کا کام ہوتا۔ ‘‘

وہ زیادہ دیر تک ہوٹل میں اپنے دوست کے ساتھ نہ بیٹھ سکا۔ اس کے دل و دماغ پر پچھلے روز کے واقعہ کا بہت بوجھ تھا۔ چنانچہ چائے ختم ہوئی تو دونوں رخصت ہو گئے۔ اس کا دوست چپکے سے ٹانگوں کے اڈے پر آیا۔ تھوڑی دیر تک اس کی نگاہیں اس دلال کو ڈھونڈتی رہی مگر وہ نظر نہ آیا۔ چھ بج چکے تھے۔ بڑی بلڈنگ سامنے تھی چند گزوں کے فاصلے پر۔ وہ اس طرف چل دیا اور اس میں داخل ہو گیا۔ لوگ اندر آجارہے تھے۔ مگر وہ بڑے اطمینان سے اس مقام پر پہنچ گیا۔ کافی اندھیرا تھا مگر جب وہ ان سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو اسے روشنی دکھائی دی اوپر دیکھا اور دبے پاؤں اوپر چڑھنے لگا۔ کچھ دیر وہ آخری زینے پر خاموش کھڑا رہا۔ کمرے سے تیز روشنی آرہی تھی۔ مگر کوئی آواز، کوئی آہٹ اسے سنائی نہ دی۔ آخری زینہ طے کرکے وہ آگے بڑھا۔ دروازے کے پٹ کھلے تھے۔ اس نے ذرا ادھر ہٹ کر اندر جھانکا۔ سب سے پہلے اسے بلب نظر آیا۔ جس کی روشنی اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔ ایک دم وہ پرے ہٹ گیا تاکہ تھوڑی دیر اندھیرے کی طرف منہ کرکے اپنی آنکھوں سے چکا چوند نکال سکے۔ اس کے بعد وہ پھر دروازے کی طرف بڑھا مگر اس انداز سے کہ اس کی آنکھیں بلب کی تیز روشنی کی زد میں نہ آئیں۔ اس نے اندر جھانکا۔ فرش کا جو حصہ اسے نظر آیا۔ اس پر ایک عورٹ چٹائی پر لیٹی تھی۔ اس نے اسے غور سے دیکھا۔ سو رہی تھی۔ منہ پر دوپٹہ تھا۔ اس کا سینہ سانس کے اتار چڑھاؤ سے ہل رہا تھا۔ وہ ذرااور آگے بڑھا۔ اس کی چیخ نکل گئی مگر اس نے فوراً ہی دبالی۔ اس عورت سے کچھ دور ننگے فرش پر ایک آدمی پڑا تھا۔ جس کا سر پاش پاش تھا۔ پاس ہی خون آلود اینٹ پڑی تھی۔ یہ سب اس نے ایک نظر دیکھا۔ اور سیڑھیوں کی طرف لپکا۔ پاؤں پھسلا اور نیچے۔ مگر اس نے چوٹوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہوش و حواس قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بمشکل اپنے گھر پہنچا اور ساری رات ڈراؤنے خواب دیکھتا رہا۔

سعادت حسن منٹو

سنترپنچ

میں لاہور کے ایک اسٹوڈیو میں ملازم ہوا۔ جس کا مالک میرا بمبئی کا دوست تھا۔ اس نے میرا استقبال کیا۔ میں اس کی گاڑی میں اسٹوڈیو پہنچا تھا ٗ بغل گیر ہونے کے بعد اس نے اپنی شرافت بھری مونچھوں کو جو غالباً کئی دنوں سے ناتراشیدہ تھیں۔ تھرکاکر کہا:

’’کیوں خواجہ ! چھوڑ دی۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’چھوڑنی پڑی۔ ‘‘

اسٹوڈیو کا مالک جو اچھا فلم ڈائریکٹر بھی ہے ( میں اسے سہولت کی خاطر گیلانی کہوں گا) مجھے اپنے خاص کمرے میں لے گیا۔ ادھر ادھر کی بے شمار باتیں کرنے کے بعد اس نے چائے منگوائی جو نہایت ذلیل تھی ٗ زبردستی پلائی۔ کئی سگریٹ اس دوران خود پھونکے اور مجھ سے پھنکوائے۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’یار ٗ چھوڑو اب چائے کی بکواس کو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے آج اتنے برسوں کے بعد کیسے یاد کر لیا‘‘

’’بس ایک دن اچانک یاد آگئے۔ بُلالیا۔ بتاؤ اب صحت کیسی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری دعا سے ٹھیک ہے۔ ‘‘

میرے لہجے میں دوستانہ طنز تھا۔ وہ ہنسا۔

’’واہ ٗ میرے مولوی صاحب۔ میرا خیال ہے کہ جب سے تم خشک خشک ہوئے ہو۔ تمہاری ہر وقت شگفتہ رہنے والی طبیعت ٹھہرے پانی کی طرح ٹھہر گئی ہے۔ ‘‘

’’ہو گا ایسا ہی۔ ‘‘

’’ہو گا کیا۔ ہے ہی ایسا معاملہ۔ لیکن خدا نہ کرے ٗ ایسی ذہانت جس کے سب معترف ہیں۔ اس کا بھی یہی حشر ہو۔ کیا تم اب بھی فلم کہانی کا ڈھانچہ تیار کر سکتے ہو۔ فرسٹ کلاس کہانی۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’فرسٹ ٗ سیکنڈٗ انٹر اور تھرڈ میں نہیں جانتا۔ البتہ کہانی ضرور ہو گی۔ تم سوچتے ہو فرسٹ کی کہانی وہ اسکرین پر آتے ہی تھرڈ نہ بن جائے۔ یا تھرڈ جس کو تم نے ڈبوں میں بند کر کے گودام میں رکھ چھوڑا تھا۔ وہ گولڈن جوبلی فلم ثابت ہو۔ کیا درست نہیں۔ خیر اِن باتوں کو چھوڑو تم یہ بتاؤ کہ چاہتے کیا ہو۔ ‘‘

اس نے مجھے ایک سگریٹ سلگا کر دیا اور سنجیدگی سے کہا:

’’دیکھو منٹو۔ میں ایک کہانی چاہتا ہوں۔ بڑا دلچسپ رومان ہو اور تم مجھے اس کا مفصل اسکیچ ایک ہفتے کے اندر اندر دے دو۔ کیونکہ میں فلم ڈسٹری بیوٹر سے کنٹریکٹ کر چکا ہوں تم بتاؤ کتنی دیر میں لکھ لو گے۔ ‘‘

’’فراغت سے ایک مہینے کے بعد۔ ‘‘

سردیوں کا موسم تھا اس نے اپنے ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ بڑے زور کے ساتھ ملے۔ اس کے اس عمل سے دو چیزیں ظاہر ہوتی تھیں اول یہ کہ اس کے ہاتھ گرم ہو گئے ہیں۔ دوم یہ کہ اس کے سر کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے کہ اس کو کہانی وقت پر مل جائے گی اور وہ جو کہ میری طرح تیزی سے کام کرنے والا ہے ٗ اسے وقت مقررہ کے اندر اندر ڈائریکٹ کر کے اس کے پرنٹ ڈسٹری بیوٹر کے حوالے کر دے گا اور کنٹریکٹ کی رو سے جو بقایا رقم اس کے نام نکلتی تھی ٗ اسی وقت میز پر دھروالے گا۔ اس نے چند لمحات غور کیا۔

’’کل ہی کام شروع کر دے گا۔ ‘‘

میں نے جواب دیا:

’’کام تو میں شروع کر دوں۔ لیکن یہاں میرے لیے کوئی علیحدہ کمرہ ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’ہو جائے گا۔ ‘‘

’’اور ایک اسسٹنٹ۔ ‘‘

’’مل جائے گا۔ تو کل سے آنا شروع کر دو گے۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’دیکھو گیلانی۔ میرے گھر سے اور تمہارے اسٹوڈیو تک کا فاصلہ کافی ہے۔ تانگے میں آؤں تو قریب قریب ڈیڑھ گھنٹہ۔ بس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘

اس نے پوچھا

’’کیوں۔ ‘‘

’’یعنی اس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بس اسٹینڈ پر کھڑے رہو۔ خدا خدا کر کے پانچ نمبر کی بس آگئی۔ مسافروں سے بھری ہوئی اور وہ بغیر ٹھہرے چل دی اور تم خود کو دنیا کا کم ترین انسان محسوس کرتے ہو۔ جی میں آتا ہے کہ خودکشی کر لو۔ یا پھر دنیا والوں کی بے رخی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سنیاس دھارلوں۔ ‘‘

گیلانی نے اپنی شرارت بھری مونچھیں تھرکائیں۔

’’میں شرط بدنے کیلیے تیار ہوں کہ تم کبھی دنیا تیاگ نہیں سکتے جس دنیا میں ہر قسم کی شراب ملتی ہے۔ اور خوبصورت عورتیں بھی۔ ‘‘

میں نے چڑ کر کہا:

’’عورتیں جائیں جہنم میں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں بمبئی کے ہر اسٹوڈیو میں ٗ جہاں میں نے کام کیا ٗ ان سے دور ہی رہا۔ ‘‘

’’تم تو خیر اپنے وقت کے ڈون جو آن Donjyan ہو۔ ‘‘

’’مذاق اُڑاتے ہو تم خواجہ میرا۔ ‘‘

میں نے سنجیدگی کے ساتھ اس سے کہا:

’’نہیں گیلانی ع یہ رُتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ یایوں کہہ لو ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ گیلانی مسکرایا۔

’’خدائے بخشندہ تو بڑے عرصے سے تمہیں مرحوم و مغفور کر چکا ہے۔ تم بخشی ہوئی روح ہو۔ ‘‘

میں نے کہا:

’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’فلسفہ مت بگھارو یار۔ یہ بتاؤ کیا ابھی تک تمہارے پاس وہ اردو ٹائپ رائٹر موجود ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ وہ ایکٹریس جس سے تم نے کلکتہ میں شادی کی تھی ٗ ابھی تک تمہارے پاس موجود ہے۔ ‘‘

گیلانی نے فخریہ انداز میں جواب دیا:

’’موجود کیوں نہیں ہو گی۔ گویا تمہاری نظر میں ایکٹریس اور ٹائپ رائٹر میں کوئی فرق نہیں۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’کیا فرق ہے۔ ایک فلم پر ٹائپ کرتی ہے۔ دوسری کاغذ پر۔ دونوں کسی وقت بھی بگڑ سکتی ہیں۔ ‘‘

گیلانی میری ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔ آخر میں نے اس کو دلاسا دیا۔

’’یار ٗ یہ سب مذاق تھا۔ تو میں کل آجاؤں۔ میرا مطلب ہے تم گاڑی بھیج دو گے؟‘‘

گیلانی صوفے پر سے اٹھا۔ اس کے ساتھ میں بھی۔ اس نے کہا:

’’ہاں۔ ہاں بھئی۔ کب چاہیے تمہیں گاڑی۔ ‘‘

’’کوئی وقت بھی مقرر کر لو۔ ساڑھے نو بجے صبح۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’تم کاغذ وغیرہ آج ہی منگوا لینا۔ تاکہ میں اسٹوڈیو پہنچتے ہی کام شروع کر دُوں۔ اور تم سے الٹا نہ سنوں کہ دیکھو تم نے مجھے لیٹ ڈاؤن دیا۔ میرا اتنے ہزار روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ ‘‘

گیلانی نے بڑے پیار سے کہا:

’’کیا بکتے ہو یار۔ میں تمہاری طبیعت سے کیا واقف نہیں۔ کبھی کبھی تم ڈبکی لگا جایا کرتے ہو۔ ‘‘

میں نے اُس کو یقین دلایا:

’’نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تم مطمئن رہو۔ ہاں میرا ٹائپ رائٹر یہاں محفوظ تو رہے گا؟‘‘

گیلانی کی عادت ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر چِڑ جاتا ہے۔

’’محفوظ نہیں رہے گا تو کیا غنڈے اغواہ کرنے آ جائیں گے۔ اپنے کسی عاشق کے ساتھ تمہاری مشین بھاگ نکلے گی۔ ‘‘

میں بہت ہنسا۔ ہنستے ہنساتے ہم دونوں نے اسٹوڈیو کا چکر لگایا۔ اس کے بعد اس نے مجھے الوداع کہی اور میں اسی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ جہاں پہنچتے ہی میں نے ٹائپ رائٹر کی جھاڑ پونچھ کی۔ اس لیے کہ ایک مدت سے میں نے اسے استعمال نہیں کیا تھا کیونکہ فلمی کہانی لکھنے کا اس دوران میں کوئی موقع ہی میسر نہ آیا۔ بِگڑا ہوا مکینک یا مستری آرٹسٹ بن جاتا ہے ٗ یہ میرا اپنا ذاتی اختراع کردہ محاورہ ہے۔ گیلانی شروع شروع میں مکینک تھا۔ بگڑ کر وہ آرٹسٹ بن گیا ٗ پر وہ محنتی تھا۔ جب وہ مستری تھا تو اسے زیادہ سہولتیں میسر نہیں تھیں لیکن جب کیمرہ قلی سے ترقی کرتا کرتا کیمرہ مین بن گیا تو اس نے کیمرے کے ہر پیچ کے متعلق اپنی خداداد ذہانت اور جستجو طلب طبیعت کی بدولت یہ دریافت کر لیا کہ ان کا لوہے کے اس چوکھٹے میں اپنی اپنی جگہ کیا مصرف ہے۔ کیمرے کو وہ الٹا کرتا۔ کبھی سیدھا۔ کبھی اس کا گیٹ کھول کر بیٹھ جاتا اور گھنٹوں اس سے اپنے مختلف سائز کے پیچ پُرزوں کے ذریعے بوس و کنار میں مشغول رہتا۔ فرصت کے اوقات۔ یعنی جب شوٹنگ نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنی سائیکل پر شہر پہنچتا اور سارا دن کباڑیوں کی دکانوں پر صرف کرتا۔ اس کو دنیا کے تمام کباڑیوں سے محبت ہے ٗ اور ان کے کباڑ خانوں کو وہ بڑی مقدس جگہیں تصوّر کرتا تھا۔ وہ ان دُکانوں میں بیٹھ کر منصوبہ تیار کرتا رہتا کہ سلائی مشین کا ہینڈل جو بیکار پڑا ہے اگر لوہے کے فلائی ٹکڑے کے ساتھ ویلڈ کر دیا جائے اور اس کے فلاں کے اندر چھوٹے پنکھے جو نکڑوالی دکان میں موجود ہیں ٗ لگا دئیے جائیں تو فرسٹ کلاس دھونکنی بن سکتی ہے۔ خدا معلوم وہ کیا کیا سوچتا تھا۔ ان دنوں در اصل ذہنی ورزش کر رہا تھا۔ یہ وہ تیاری تھی جو وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایڈیٹنگ بھی اسی طرح سیکھی۔ آس پاس کی ہر ننھی سے ننھی شے کا مطالعہ کیا ٗ اور آخر ایک دن اس نے اسٹوڈیو کی ایک فلم کی ایسی عمدہ ایڈیٹنگ کی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سیٹھ نے سوچا۔ کہ اچھے کیمرہ مین تو مل جائیں گے مگر ایسا با کمال ایڈیٹر جو سیلو لائیڈ کے چھوٹے بڑے فیتے کے ٹکڑوں کو اس چابک دستی سے جوڑتا ہے کہ پھر اس میں مزید کتربیونت ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ایڈیٹنگ ڈیپارٹ منٹ کاہیڈبنا دیا۔ تنخواہ اس کی وہی رہی جو بحیثیت کیمرہ مین تھی۔ وہ اپنا کام بڑی محنت اور تندہی سے کرتا رہا ٗ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ لیبارٹری سے بھی دلچسپی لیتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اُس نے اس کے کل پرزوں میں چند اصلاحات اور ترکیبیں پیش کیں جو بڑی ردّ و کد کے بعد قبول کر لی گئیں۔ نتیجہ دیکھا گیا تو بڑا حوصلہ افزا تھا۔ سیٹھ نے ایک دن سوچا

’’کیوں نہ گیلانی کو ایک فلم ڈائریکٹ کرنے کا موقع دیا جائے‘‘

جب اس سے پوچھا:

’’تم کوئی فلم ڈائریکٹ کر لو گے۔ ‘‘

تو اس نے بڑی خود اعتمادی سے جواب دیا:

’’ہاں سیٹھ۔ پر اس میں کوئی دخل نہ دے!‘‘

کہانی آدھی گیلانی نے خود بنائی۔ آدھی اِدھر اُدھر کے منشیوں سے لکھوائی اور اللہ کا نام لے کر شوٹنگ شروع کر دی۔ یہ فلم ختم ہوا اور نمائش کیلیے مقامی سینما ہاؤس میں پیش کیا گیا تو اس نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد اس نے لاہور میں دو فلم بنائے۔ یہ بھی سلور جوبلی ہٹ ثابت ہوئے۔ ایک کلکتہ جا کر پھر بنایا۔ وہ بھی کامیاب تھا۔ یہاں وہ بمبئی پہنچا۔ کیونکہ وہاں کے فلمسازوں نے بڑی تکڑی تکڑی آفریں بھیجی تھیں۔ چنانچہ ایک جگہ اس نے آفر قبول کر کے کنٹریکٹ پر دستخط کر دئیے اور کہانی

’’چن وے‘‘

کا منظر نامہ خود لکھا۔ فلم بن گیا۔ اور اتنا بڑا باکس آفس ثابت نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ بٹوارے کے باعث دوسرے شہروں کے مانند بمبئی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے جس طرح دوسرے مسلمان ہجرت کررہے تھے اس طرح گیلانی بھی بمبئی چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ یہاں سے وہ لاہور پہنچا اور ایک اسٹوڈیو کی داغ بیل رکھی۔ ساؤنڈ ریکارڈ سٹ سے لے کر کیلیں ٹھوکنے والے تک کو اس کی ذاتی نگرانی میں کام کرنا پڑتا تھا۔ قصّہ مختصر کہ اسٹوڈیو تیار ہو گیا۔ لاہور کے مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ جب یہ اسٹوڈیو بنا تو ان کی جان میں جان آئی۔ چنانچہ یہاں شوٹنگ شروع ہو گئی۔ اس کے بعد یہ چل نکلا۔ گیلانی اس دوران میں اسٹیج اور اِدھر اُدھر کے متعلقہ سامان کو درست اور مرمت کرانے میں مشغول رہا اس کا دست راست لاہور ہی کا ایک نوجوان سراج دین تھا۔ جو قریب قریب آٹھ برس سے اس کے ساتھ تھا۔ نے کہا ٹائپ رائٹر کی دال لے کر کھا لو۔ اس کے بعد گیلانی نے خود میرے ٹائپ رائٹر کا معائنہ کیا اور فیصلہ صادر کر دیا کہ مشین میں کوئی نقص نہیں۔ مگر سراج اپنے تجربے کے بل بوتے پر مصر تھا۔

’’نہیں حضور۔ یہ اب مرمت طلب ہو چکی ہے۔ بڑے اور چھوٹے رولر سب نئے لگوانے پڑیں گے۔ اوور ہالنگ ہو گی۔ اس کا کتا بھی ناقص ہو چکا ہے ٗ وہ بھی پڑے گا۔ ‘‘

’’تمہاری ٹانگوں پر۔ ‘‘

’’آپ میرا مذاق نہ اُڑائیے۔ اچھا۔ خیر آپ ہی صحیح کہتے ہیں‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے گنجے سر پر ٹوپی درست کرتا ہوا چلا گیا۔ گیلانی نے اپنا خاص ٹول بکس منگوایا اور مشین کے سب پرزے الگ الگ کر کے رکھ دیے کوئی پرزہ پتھر پر گھسایا۔ کوئی ریگمال پر۔ کسی کے سریش لگائی۔ کسی کو تیل۔ اور ان کو دوبارہ فٹ کر کے فتح مندانہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہا:

’’کیوں صاحب ! ٹھیک ہو گئی یا نہیں۔ ‘‘

میں نے ایسے ہی کہہ دیا

’’ہاں ٗ اب ٹھیک ہے۔ ‘‘

گیلانی نے اپنے پاس کھڑے اسسٹنٹ کو بلایا:

’’جاؤ ٗ اس اُلو کے پٹھے ایکسپرٹ سراج کو بلا کر لاؤ۔ ‘‘

چند منٹ میں سراج حاضر ہو گیا۔ اس نے مشین چلائی تو دس پندرہ بار ٹپ ٹپ کرنے کے بعد ہی خاموش ہو گئی سراج نے گیلانی سے کچھ نہ کہا۔ تھوڑے وقفے کے بعد گیلانی بڑے تحکمانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا

’’اچھا تم اسے بناؤ۔ دیکھیں تم کیا تیر مارتے ہو۔ ‘‘

مجھے اپنی پندرہ سالہ عزیز مشین کی اس درگت پر ترس آرہا تھا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ جب اس کے انجر پنجر ڈھیلے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے پڑے تھے۔ دوسرے دن سراج نے اپنا ٹول بکس ریکارڈنگ میں سے منگوایا اور میری مشین پر اپنی ماہرانہ سرجری شروع کر دی۔ ضروری پرزے نکال کر اس نے علیحدہ رکھ لیے اور باقی حصّے پٹرول میں ڈال دیے اب ان کی چتا جلانے کیلیے صرف ماچس کی ایک تیلی ہی کافی تھی۔ میں خاموش رہا۔ یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ کتے کے جبڑوں کو ایک پلاس کے ساتھ زور سے پکڑا اور میری طرف کرتے ہوئے بولا:

’’لو دیکھ لو۔ میں نہ کہتا تھا۔ کتا کام نہیں کر رہا۔ اس کا تو سنترپنچ ہی خراب ہے۔ ‘‘

’’سنتر پنچ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

اور سراج ایک بار پھر اس کا سنتر پنچ ٹھیک کرنے لگا۔

سعادت حسن منٹو

سگریٹ اور فاؤنٹین پن

’’میرا پارکر ففٹی ون کا قلم کہاں گیا۔ ‘‘

’’جانے میری بلا۔ ‘‘

’’میں نے صبح دیکھا کہ تم اُس سے کسی کو خط لکھ رہی تھیں اب انکار کر رہی ہو‘‘

’’میں نے خط لکھا تھا مگر اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں غارت ہو گیا۔ ‘‘

’’یہاں تو آئے دن کوئی نہ کوئی چیز غارت ہو تی ہی رہتی ہے مینٹل پیس پر آج سے دس روز ہوئے میں نے اپنی گھڑی رکھی صرف اس لیے کہ میری کلائی پر چند پھنسیاں نکل آئی تھیں دوسرے دن دیکھا وہ غائب تھی۔ ‘‘

’’کیا میں نے چرا لی تھی۔ ‘‘

’’میں نے یہ کب کہا سوال تو یہ ہے کہ وہ گئی کہاں۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے یہ گھڑی وہیں رکھی ہے اُس کے ساتھ ہی دس روپے آٹھ آنے تھے وہ تو رہے لیکن گھڑی جس کی قیمت دو سو پچھتر روپے تھی وہ غائب ہو گئی۔ تم پر میں نے چوری کا الزام کب لگایا۔ ؟‘‘

’’ایک گھڑی آپ کی پہلے بھی گم ہو گئی تھی۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’میں تو یہ کہتی ہوں کہ آپ نے خود انھیں بیچ کھایا ہے‘‘

’’بیگم تم ایسی بے ہُودہ باتیں نہ کیا کرو مجھے وہ دونوں گھڑیاں بہت عزیز تھیں۔ جس کے علاوہ ان کو بیچنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا تم جانتی ہو کہ میری آمدنی اللہ کے فضل سے کافی ہے بینک میں اس وقت میرے دس ہزار سے کچھ اُوپر روپے جمع ہیں گھڑیاں بیچنے کی ضرورت مجھے کیسے پیش آسکتی تھی۔ ‘‘

’’کسی دوست کو دے دی ہو گی‘‘

’’کیوں مجھے اِن کی ضرورت نہیں تھی۔ میں تو گھڑی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا چھکڑا ہوں جس میں کوئی پہیہ نہیں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا گھر میں کلاک ہے مگر وہ تمہاری طرح نازک مزاج ہے ذرا موسم بدلے تو جناب بند ہو جاتے ہیں پھر جب موسم ان کے مزاج کے موافق ہو تو چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی میں کلاک ہوں۔ ‘‘

’’میں نے صرف تشبیہ کے طور پر کہا تھا۔ کلاک تو بہت کام کی چیز ہے‘‘

’’اور میں کسی کام کی چیز نہیں۔ شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے۔ ‘‘

’’میں نے تو صرف مذاق کے طورپر یہ کہہ دیا تھا تم خواہ مخواہ ناراض ہو گئی ہو۔ ‘‘

’’میں آج تک کبھی آپ سے خواہ مخواہ ناراض ہوئی ہوں آپ خود ایسے موقعے دیتے ہیں کہ مجھے ناراض ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تو چلیے اب صلح ہو جائے۔ ‘‘

’’صلح ولح کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی ان برسوں میں آپ سے میں پندرہ ہزار مرتبہ صلح صفائی کر چکی ہوں مگر نتیجہ کیا نکلا ہے۔ وہی ڈھاک کے تین پات‘‘

’’ڈھاک کے تین پاتوں کو چھوڑو تم مجھے میرا پارکر قلم لا کے دے دو مجھے چند بڑے ضروری خط لکھنے ہیں۔ ‘‘

’’مجھے کیا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ لے گیا ہو گا کوئی اُٹھا کر۔ اب میں ہر چیزکا دھیان تونہیں رکھ سکتی۔ ‘‘

’’تو پھر تم کس مرض کی دوا ہو‘‘

’’میں نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ آپ میری زندگی کا سب سے بڑا روگ ہیں‘‘

’’تو یہ روگ دُور کرو ہر روگ کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہوتا ہے‘‘

’’خدا ہی بہتر کرے گا یہ روگ یہ کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دُور ہونیوالا نہیں‘‘

’’اگر تمہاری یہی خواہش ہے کہ مرجاؤں تو میں اس کے لیے تیار ہوں میرے پاس اتفاق سے اس وقت قاتل زہر موجود ہے میں کھا کر مر جاتا ہوں۔ ‘‘

’’مر جائیے۔ ‘‘

’’اِس کے لیے تو میں تیار ہوں تاکہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو جائے۔ ‘‘

’’آپ تو چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے چھٹکارا ملے۔ بیوی بچے جائیں بھاڑ میں آپ آرام سے قبر میں سوتے رہیں لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ وہاں کا عذاب یہاں کے عذاب سے ہزار گنا زیادہ ہو گا۔ ‘‘

’’ہوا کرے۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم ہوں۔ ‘‘

’’آپ کبھی اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہے‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے میں جب کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اس پر قائم رہتا ہوں ابھی پچھلے دنوں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں سگریٹ نہیں پیوں گا چنانچہ اب تک اس پر قائم ہوں۔ ‘‘

’’پاخانے میں سگریٹ کے ٹکڑے کہاں سے آتے ہیں۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ تم پیتی ہو گی۔ ‘‘

’’میں مجھے تو اس چیز سے سخت نفرت ہے‘‘

’’ہو گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاخانہ بھی کوئی ایسی معقول جگہ ہے جہاں پرسگریٹ پیے جائیں۔ ‘‘

’’چوری چھپے جو پینا ہوا پاخانے کے علاوہ اور موزوں و مناسب جگہ کیا ہوسکتی ہے آپ میرے ساتھ فراڈ نہیں کرسکتے۔ میں آپ کی رگ رگ کو پہچانتی ہوں۔ ‘‘

’’یہ تم نے مجھ سے آج ہی کہا کہ میں پاخانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیتا ہوں‘‘

’’میں نے اس لیے اس کا ذکر آپ سے نہیں کیا تھا۔ آپ چونکہ تمباکو کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے سگریٹ نوشی آپ ترک نہیں کرسکتے لیکن یہ بہر حال بہتر ہے کہ آپ دو ایک سگریٹ دن میں پی لیتے ہیں جہاں آپ پچاس کے قریب پھونکتے تھے۔ ‘‘

’’میں نے ڈھائی برس میں ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ بھنگی پیتا ہو گا۔ ‘‘

’’بھنگی گولڈ فلیک اور کریون اے نہیں پی سکتا۔ ‘‘

’’حیرت ہے‘‘

’’کس بات کی۔ حیرت تو مجھے ہے کہ آپ صاف انکار کر رہے ہیں مجھے بنا رہے ہیں‘‘

’’نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سگریٹ وہاں کون پیتا ہے‘‘

’’آپ کے سوا اور کون پی سکتا ہے مجھے تو اس کے دُھوئیں سے کھانسی ہو جاتی ہے مجھے تو اس سے سخت نفرت ہے معلوم آپ لوگ کس طرح دُھواں اپنے اندر کھینچتے ہو۔ ‘‘

’’خیر اس کو چھوڑو۔ میرا پار کر قلم مجھے دو۔ ‘‘

’’میرے پاس نہیں ہے‘‘

’’تمہارے پاس نہیں ہے تو کیا میرے پاس ہے آج صبح تم خدا معلوم کسے خط لکھ رہی تھیں تمہاری انگلیوں میں میرا ہی قلم تھا۔ ‘‘

’’تھا۔ لیکن مجھے کیا معلوم کہاں گیا۔ میں نے آپ کے میز پر رکھا ہو گا۔ اور آپ نے اُٹھا کر کسی دوست کو دے دیا ہو گا۔ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو بیگم میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قلم میں نے کسی دوست کو نہیں دیا ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنی کسی سہیلی کو دے دیا ہو‘‘

’’میں کیوں اتنی قیمتی چیز کسی سہیلی کو دینے لگی۔ وہ تو آپ ہیں کہ ہزاروں اپنے دوستوں میں لُٹا دیتے ہیں۔ ‘‘

’’اب سوال یہ ہے کہ وہ قلم ہے کہاں مجھے چند ضروری خط لکھنے ہیں جاؤ میری جان ذرا تھوڑی سی تکلیف کرو ممکن ہے ڈھونڈنے سے مل جائے۔ ‘‘

’’نہیں ملے گا۔ آپ فضول مجھے تکلیف دینا چاہتے ہیں‘‘

’’تو ایسا کرو دوات اور پن ہولڈر لے آؤ۔ ‘‘

’’دوات تو صبح آپ کی بچی نے توڑ دی پن ہولڈر بھانجے کے بیٹے نے‘‘

’’اتنے پن ہولڈر تھے کہاں گئے۔ ‘‘

’’آپ ہی استعمال کرتے ہیں‘‘

’’میں نے آج تک پن ہولڈر کبھی استعمال نہیں کیا کبھی کبھی تم کیا کرتی ہو۔ ‘‘

’’آپ کی بچیاں آفت کی پتلیاں ہیں وہی توڑ پھوڑ کے پھینک دیتی ہوں گی۔ ‘‘

’’تم دھیان کیوں نہیں دیتیں‘‘

’’کس کس چیز کا دھیان رکھوں مجھے گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ہے‘‘

’’اسی لیے تو میری دو گھڑیاں غائب ہو گئیں۔ جب دیکھو لیٹی رہتی ہو۔ خدا معلوم گھر کا کام کاج لیٹے لیٹے کرتی ہو۔ ‘‘

’’گھر کا سارا کام تو آپ کرتے ہیں‘‘

’’میں اس کا دعوےٰ نہیں کرتا بہر حال جو کچھ میں کرسکتا ہوں کرتا رہتا ہوں‘‘

’’کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘

’’ہفتے میں ایک دو دفعہ مارکیٹ جاتا ہوں مرغی اور مچھلی خرید کر لاتا ہوں انڈے بھی کوئلے کا پرمٹ بھی حاصل کرتا ہوں گھی کا بندوبست کرتا ہوں اب میں اور کیا کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’مصروف آدمی ہوں دفتر میں جاتا ہوں وہاں نہ جاؤں تو مہینہ ختم ہونے کے بعد سات سو روپے کیسے آسکتے ہیں۔ ‘‘

’’ان سات سو روپوں میں سے آپ مجھے کتنے دیتے ہیں‘‘

’’پورے سات سو روپے‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن آپ اپنا گزارہ کس طرح کرتے ہیں۔ ؟‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے‘‘

’’رشوت لیتے ہیں اور کیا ورنہ ساری تنخواہ مجھے دینے کے بعد آپ پانچ سو پچپن کے سگریٹ نہیں پی سکتے۔ ‘‘

’’میں نے سگریٹ پینے ترک کر دیے ہیں‘‘

’’آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ ‘‘

’’میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ تم میرا پارکر قلم ذرا ڈھونڈ کے نکالو‘‘

’’میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس نہیں ہے۔ ‘‘

’’تو اور کس کے پاس ہے‘‘

’’مجھے کیا معلوم میں نے صبح خط لکھ کر سینٹل پیس پر رکھ دیا۔ ‘‘

’’وہاں تو اس کا نام و نشان نہیں‘‘

’’آپ نے کسی دوست کو بخش دیا ہو گا۔ گیارہ بجے آپ کے چند دوست آئے تھے۔ ‘‘

’’میرے دوست کہاں تھے۔ صرف ملاقات کرنے آئے تھے۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں جانتا۔ ‘‘

’’میرا نام بھی آپ بھول گئے ہوں گے بتائیے کیا ہے۔ ‘‘

’’تمہارا نام۔ لیکن بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تم۔ تم ہو۔ بس۔ ؟‘‘

’’ان پندرہ برسوں میں آپ کو میرا نام بھی یاد نہیں رہا میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کس قسم کے انسان ہیں۔ ‘‘

’’قسمیں پوچھو گی تو حیران رہ جاؤ گی ایک کروڑ سے زیادہ ہوں گی اب جاؤ میرا قلم ڈھونڈو۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتی کہاں ہے۔ ‘‘

’’یہ قمیص تم نے نئی سلوائی ہے‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’گریبان بہت خوبصورت ہے ارے یہ اس میں تو میرا قلم اٹکا ہوا ہے‘‘

’’سچ میں نے یہاں اُڑس لیا ہو گا۔ معاف کیجیے گا۔ ‘‘

’’ٹھہرو میں خود نکال لیتا ہوں۔ ممکن ہے تم قمیص پھاڑ ڈالو‘‘

’’یہ کیا گرا ہے‘‘

’’یہ کیا ہے۔ ارے یہ تو پانچ سو پچپن سگرٹوں کا ڈبہ ہے کہاں سے آگیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سرکنڈوں کے پیچھے

کون سا شہر تھا، اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں، آپ کو معلوم کرنے اور مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ جگہ جو اس کہانی سے متعلق ہے، پشاور کے مضافات میں تھی۔ سرحد کے قریب۔ اور جہاں وہ عورت تھی، اس کا گھر جھونپڑا نما تھا۔ سرکنڈوں کے پیچھے۔ گھنی باڑھ تھی، جس کے پیچھے اس عورت کا مکان تھا، کچی مٹی کا بنا ہوا، چونکہ یہ باڑھ سے کچھ فاصلے پر تھا، اس لیے سرکنڈوں کے پیچھے چھپ سا گیا تھا کہ باہر کچی سڑک پر سے گزرنے والا کوئی بھی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ سرکنڈے بالکل سوکھے ہوئے تھے مگر وہ کچھ اس طرح زمین میں گڑے ہوئے تھے کہ ایک دبیز پردہ بن گئے تھے۔ معلوم نہیں اس عور ت نے خود وہاں پیوست کیے تھے یا پہلے ہی سے موجود تھے۔ بہر حال، کہنا یہ ہے کہ وہ آہنی قسم کے پردہ پوش تھے۔ مکان کہہ لیجئے یا مٹی کا جھونپڑا، صرف چھوٹی چھوٹی تین کوٹھڑیاں تھیں۔ مگر صاف ستھری۔ سامان مختصر تھا مگر اچھا۔ پچھلے کمرے میں ایک بہت بڑا نواڑی پلنگ تھا۔ اس کے ساتھ ایک طاقچہ تھا جس میں سرسوں کے تیل کا دیا رات بھر جلتا رہتا تھا۔ مگر یہ طاقچہ بھی صاف ستھرا رہتا تھا۔ اور وہ دیا بھی جس میں ہر روز نیا تیل اور بتی ڈالی جاتی تھی۔ اب میں آپ کو اس عورت کا نام بتادوں جو اس مختصر سے مکان میں جو سرکنڈوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ مختلف روایتی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس کی بیٹی نہیں تھی۔ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو اس نے بچپن سے گود لے کرپال پوس کر بڑا کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی ناجائز لڑکی تھی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اس کی سگی بیٹی تھی۔ حقیقت جو کچھ بھی ہے، اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ کہانی پڑھنے کے بعد آپ خودبخود کوئی نہ کوئی رائے قائم کرلیجئے گا۔ دیکھیے، میں آپ کو اس عورت کا نام بتانا بھول گیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اس کا نام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کا نام آپ کچھ بھی سمجھ لیجیے، سکینہ، مہتاب، گلشن یا کوئی اور۔ آخر نام میں کیا رکھا ہے لیکن آپ کی سہولت کی خاطر میں اسے سردار کہوں گا۔ یہ سردار، ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ کسی زمانے میں یقیناخوبصورت تھی۔ اس کے سرخ و سفید گالوں پر گو کسی قدر جھریاں پڑ گئی تھیں، مگر پھر بھی وہ اپنی عمر سے کئی برس چھوٹی دکھائی دیتی تھی۔ مگر ہمیں اس کے گالوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی بیٹی، معلوم نہیں وہ اس کی بیٹی تھی یا نہیں، شباب کا بڑا دلکش نمونہ تھی۔ اس کے خدوخال میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ وہ فاحشہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور خوب دولت کما رہی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لڑکی کو جس کا نام پھر آپ کی سہولت کی خاطر نواب رکھے دیتا ہوں، کو اس پیشے سے نفرت نہیں تھی۔ اصل میں اس نے آبادی سے دور ایک ایسے مقام پر پرورش پائی تھی کہ اس کو صحیح ازدواجی زندگی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ جب سردار نے اس سے پہلا مرد بستر پر۔ نواڑی پلنگ پر متعارف کروایا تو غالباً اس نے یہ سمجھا کہ تمام لڑکیوں کی جوانی کا آغاز کچھ اسی طرح ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کسبیانہ زندگی سے مانوس ہو گئی تھی اور وہ مرد جو دور دور سے چل کر اس کے پاس آتے تھے اور اس کے ساتھ اس بڑے نواڑی پلنگ پر لیٹتے تھے، اس نے سمجھا تھا کہ یہی اس کی زندگی کا منتہیٰ ہے۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے ایک فاحشہ عورت تھی، ان معنوں میں جن میں ہماری شریف اور مطہر عورتیں ایسی عورتوں کو دیکھتی ہیں، مگر سچ پوچھیے تو اس امر کا قطعاً احساس نہ تھا کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کررہی ہے۔ وہ اسکے متعلق غور بھی کیسے کرسکتی تھی جب کہ اس کو اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اس کے جسم میں خلوص تھا۔ وہ ہر مرد کو جو اس کے پاس ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے بعد طویل مسافت طے کرکے آتا تھا، اپنا آپ سپرد کردیتی تھی، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتی تھی کہ ہر عورت کا یہی کام ہے۔ اور وہ اس مرد کی ہر آسائش اس کے ہر آرام کا خیال رکھتی تھی۔ وہ اس کی کوئی ننھی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کو شہر کے لوگوں کے تکلفات کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ قطعاً نہیں جانتی تھی کہ جو مرد اس کے پاس آتے ہیں، صبح سویرے اپنے دانت برش کے ساتھ صاف کرنے کے عادی ہیں اور آنکھیں کھول کر سب سے پہلے بستر میں چائے کی پیالی پیتے ہیں، پھر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں، مگر اس نے آہستہ آہستہ بڑے الہڑ طریقے پر ان مردوں کی عادات سے کچھ واقفیت حاصل کرلی تھی۔ پر اسے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ سب مرد ایک طرح کے نہیں ہوتے تھے۔ کوئی صبح سویرے اٹھ کر سگریٹ مانگتا تھا، کوئی چائے اور بعض ایسے بھی ہوتے جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ کچھ ساری رات جاگتے رہتے اور صبح موٹر میں سوار ہو کر بھاگ جاتے تھے۔ سردار بے فکر تھی۔ اس کو اپنی بیٹی پر، یا جو کچھ بھی وہ تھی، پورا اعتماد تھا کہ وہ اپنے گاہکوں کو سنبھال سکتی ہے، اس لیے وہ افیم کی ایک گولی کھا کرکھاٹ پر سوئی رہتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کی ضرورت پڑتی۔ مثال کے طور پر جب کسی گاہک کی طبیعت زیادہ شراب پینے کے باعث یکدم خراب ہوئے تو وہ غنودگی کے عالم میں اٹھ کر نواب کو ہدایات دے دیتی تھی کہ اس کو اچار کھلادے یا کوشش کرے کہ وہ نمک ملا گرم گرم پانی پلا کر قے کرادے اور بعد میں تھپکیاں دے کر سلا دے۔ سردار اس معاملے میں بڑی محتاط تھی کہ جونہی گاہک آتا، وہ اس سے نواب کی فیس پہلے وصول کرکے اپنے نیفے میں محفوظ کرلیتی تھی اور اپنے مخصوص انداز میں دعائیں دے کر کہ تم آرام سے جھولے جھولے، افیم کی ایک گولی ڈبیا میں سے نکال کر منہ میں ڈال کر سو جاتی۔ جو روپیہ آتا، اس کی مالک سردار تھی۔ لیکن جو تحفے تحائف وصول ہوتے، وہ نواب ہی کے پاس رہتے تھے۔ چونکہ اس کے پاس آنے والے لوگ دولت مند ہوتے، اس لیے وہ بڑھیا کپڑا پہنتی اور قسم قسم کے پھل اور مٹھائیاں کھاتی تھی۔ وہ خوش تھی۔ مٹی سے لپے پتے اس مکان میں جو صرف تین چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں پر مشتمل تھا۔ وہ اپنی دانست کے مطابق بڑی دلچسپ اور خوشگوار زندگی بسر کررہی تھی۔ ایک فوجی افسر نے اسے گرامو فون اور بہت سے ریکارڈلا دیے تھے۔ فرصت کے اوقات میں وہ ان کو بجا بجا کر فلمی گانے سنتی اور ان کی نقل اتارنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ اس کے گلے میں کوئی رس نہیں تھا۔ مگر شاید وہ اس سے بے خبر تھی۔ سچ پوچھیے تو اس کو کسی بات کی خبر بھی نہیں تھی اور نہ اس کو اس بات کی خواہش تھی کہ وہ کسی چیز سے باخبر ہو۔ جس راستے پر وہ ڈال دی گئی تھی، اس کو اس نے قبول کرلیا تھا۔ بڑی بے خبری کے عالم میں۔ سرکنڈوں کے اس پار کی دنیا کیسی ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتی تھی سوائے اس کہ ایک کچی سڑک ہے جس پر ہر دوسرے تیسرے دن ایک موٹر دھول اڑاتی ہوئی آتی ہے اور رک جاتی ہے۔ ہارن بجتا ہے۔ اس کی ماں یا جو کوئی بھی وہ تھی، کھٹیا سے اٹھتی ہے اور سرکنڈوں کے پاس جا کر موٹر والے سے کہتی ہے کہ موٹر ذرا دور کھڑی کرکے اندر آ جائے۔ اور وہ اندر آجاتا ہے اور نواڑی پلنگ پر اس کے ساتھ بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اس کے ہاں آنے جانے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ یہی پانچ چھ ہوں گے مگر یہ پانچ چھ مستقل گاہک تھے اور سردار نے کچھ ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ ان کا باہم تصادم نہ ہو۔ بڑی ہوشیار عورت تھی۔ وہ ہر گاہک کے لیے خاص دن مقرر کردیتی، اور ایسے سلیقے سے کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملتاتھا۔ اس کے علاوہ ضرورت کے وقت وہ اس کا بھی انتظام کرتی رہتی کہ نواب ماں نہ بن جائے۔ جن حالات میں نواب اپنی زندگی گزار رہی تھی، ان میں اس کا ماں بن جانا یقینی تھا۔ مگر سردار دو ڈھائی برس سے بڑی کامیابی کے ساتھ اس قدرتی خطرے سے نبٹ رہی تھی۔ سرکنڈوں کے پیچھے یہ سلسلہ دو ڈھائی برس سے بڑے ہموار طریقے پر چل رہا تھا۔ پولیس والوں کو بالکل علم نہیں تھا۔ بس صرف وہی لوگ جانتے تھے جو وہاں آتے تھے۔ یا پھر سردار اور اس کی بیٹی نواب، یا جو کوئی بھی وہ تھی۔ سرکنڈوں کے پیچھے، ایک دن مٹی کے اس مکان میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ ایک بہت بڑی موٹر جو غالباً ڈوج تھی وہاں آکے رکی۔ ہارن بجا۔ سردار باہر آئی تو اس نے دیکھا کوئی اجنبی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ اجنبی نے بھی اس سے کچھ نہ کہا۔ موٹر دور کھڑی کرکے وہ اترا اور سیدھا ان کے گھر میں گھس گیا جیسے برسوں کا آنے جانے والا ہو۔ سردار بہت سٹپٹائی، لیکن دروازے کی دہلیز پر نواب نے اس اجنبی کا بڑی پیاری مسکراہٹ سے خیر مقدم کیا اور اسے اس کمرے میں لے گئی جس میں نواڑی پلنگ تھا۔ دونوں اس پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہی تھے کہ سردار آگئی۔ ہوشیار عورت تھی۔ اس نے دیکھا کہ اجنبی کسی دولت مند گھرانے کا آدمی ہے۔ خوش شکل ہے، صحت مند ہے۔ اس نے اندر کوٹھڑی میں داخل ہو کر سلام کیا اور پوچھا۔

’’آپکو ادھر کاراستہ کس نے بتایا؟‘‘

اجنبی مسکرایا اور بڑے پیار سے نواب کے گوشت بھرے گالوں میں اپنی انگلی چبھو کرکہا۔

’’اس نے؟‘‘

نواب تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی، ایک ادا کے ساتھ کہا۔

’’ہائیں۔ میں تو کبھی تم سے ملی بھی نہیں؟‘‘

اجنبی کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔

’’ہم تو کئی بار تم سے مل چکے ہیں۔ ‘‘

نواب نے پوچھا۔

’’کہاں۔ کب؟‘‘

حیرت کے عالم میں اس کا چھوٹا سا منہ کچھ اس طور پر وا ہوا کہ اس کے چہرے کی دلکشی میں اضافے کا موجب ہو گیا۔ اجنبی نے اس کا گدگدا ہاتھ پکڑ لیا اور سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تم یہ باتیں ابھی نہیں سمجھ سکتیں۔ اپنی ماں سے پوچھو۔ ‘‘

نواب نے بڑے بھول پن کے ساتھ اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ شخص اس سے کب اور کہاں ملا تھا۔ سردار سارا معاملہ سمجھ گئی کہ وہ لوگ جو اس کے یہاں آتے ہیں، ان میں سے کسی نے اس کے ساتھ نواب کا ذکر کیا ہو گا اور سارا اتا پتا بتا دیا ہو گا چنانچہ اس نے نواب سے کہا۔

’’میں بتادوں گی تمہیں۔ ‘‘

اور یہ کہہ کروہ باہر چلی گئی۔ کھٹیا پر بیٹھ کر اس نے ڈبیا میں سے افیم کی گولی نکالی اور لیٹ گئی۔ وہ مطمئن تھی کہ آدمی اچھا ہے گڑ بڑ نہیں کرے گا۔ وثوق سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن اغلب یہی ہے کہ اجنبی جس کا نام ہیبت خان تھا اور ضلع ہزارہ کا بہت بڑارئیس تھا، نواب کے الہڑ پن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رخصت ہوتے وقت سردار سے کہا کہ آئندہ نواب کے پاس اور کوئی نہ آیا کرے۔ سردار ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا۔

’’خان صاحب! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا آپ اتنا روپیہ دے سکیں گے کہ۔ ‘‘

ہیبت خان نے سردار کی بات کاٹ کر جیب میں ہاتھ اور سو سو کے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی اور نواب کے قدموں میں پھینک دی۔ پھر اس نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی انگلی سے نکالی اور نواب کو پہنا کر تیزی سے سرکنڈوں کے اس پار چلا گیا۔ نواب نے نوٹوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ بس دیر تک اپنی سجی ہوئی انگلی کودیکھتی رہی جس پر کافی بڑے ہیرے سے رنگ رنگ کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ موٹر اسٹارٹ ہوئی اور دھول اڑاتی چلی گئی۔ اس کے بعد وہ چونکی اور سرکنڈوں کے پاس آئی، مگر اب گردوغبار کے سوا سڑک پر کچھ نہ تھا۔ سردار نوٹوں کی گڈی اٹھا کر انھیں گن چکی تھی۔ ایک نوٹ اور ہوتا تو پورے دو ہزار تھے۔ مگر اس کو اس کا افسوس نہیں تھا۔ سارے نوٹ اس نے اپنی گھیرے دار شلوے کے نیفے میں بڑی صفائی سے اڑسے اور نواب کو چھوڑ کر اپنی کھٹیا کی طرف بڑھی اور ڈبیا میں سے افیم کی ایک بڑی گولی نکال کر اس نے منہ میں ڈالی اور بڑے اطمینان سے لیٹ گئی اور دیر تک سوتی رہی۔ نواب بہت خوش تھی۔ بار بار اپنی اس انگلی کو دیکھتی تھی جس پر ہیرے کی انگوٹھی تھی۔ تین چار روز گزرگئے۔ اس دوران میں اس کا ایک پرانا گاہک آیا جس سے سردار نے کہہ دیا کہ پولیس کا خطرہ ہے، اس لیے اس نے یہ دھندہ بند کردیا ہے۔ یہ گاہک جو خاصا دولت مند تھا، بے نیل و مرام واپس چلا گیا۔ سردار کو ہیبت خان نے بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے افیم کھا کر پینک کے عالم میں سوچا تھا کہ اگر آمدن اتنی ہی رہے جتنی کہ پہلے تھی اور آدمی صرف ایک ہوتو بہت اچھا ہے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ باقیوں کو آہستہ آہستہ یہ کہہ کرٹرخا دے گی کہ پولیس والے اس کے یپچھے ہیں اور یہ نہیں دیکھ سکتی کہ ان کی عزت خطرے میں پڑے۔ ہیبت خان ایک ہفتے کے بعد نمودار ہوا۔ اس دوران میں سردار دو گاہکوں کو منع کر چکی تھی کہ وہ اب ادھر کا رخ نہ کریں۔ وہ اسی شان سے آیا جس شان سے پہلے روز آیا تھا۔ آتے ہی اس نے نواب کو اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچ لیا۔ سردار نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ نواب اسے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ہیبت خان اسے اس کوٹھڑی میں لے گیا جہاں نواڑی پلنگ تھا۔ اب کے سردار اندر نہ آئی اور اپنی کھٹیا پر افیم کی گولی کھا کر اونگھتی رہی۔ ہیبت خان بہت محظوظ ہوا۔ اس کو نواب کا الہڑ پن اور بھی زیادہ پسند آیا۔ وہ پیشہ ور رنڈیوں کے چلتروں سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس میں وہ گھریلو پن بھی نہیں تھا جو عام عورتوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات تھی جو خود اس کی اپنی تھی۔ دوسروں سے مختلف۔ وہ بستر میں اس کے ساتھ اس طرح لیٹتی تھی، جس طرح بچہ اپنی ماں کے ساتھ لیٹتا ہے۔ اس کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کی ناک کے نتھنوں میں انگلیاں ڈالتا ہے، اس کے بال نوچنا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سو جاتا ہے۔ ہیبت خان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ اس کے لیے عورت کی یہ قسم بالکل نرالی، دلچسپ اور فرحت بخش تھی۔ وہ اب ہفتے میں دوبار آنے لگا تھا۔ نواب اس کے لیے ایک بے پناہ کشش بن گئی تھی۔ سردار خوش تھی کہ اس کے نیفے میں اڑسنے کے لیے کافی نوٹ مل جاتے ہیں۔ لیکن نواب اپنے الہڑ پن کے باوجود بعض اوقاس سوچتی تھی کہ ہیبت خان ڈرا ڈرا سا کیوں رہتا ہے۔ اگر کچی سڑک پر سے، سرکنڈوں کے اس پار کوئی لاری یا موٹر گزرتی ہے تو وہ کیوں سہم جاتا ہے۔ کیوں اس سے الگ ہو کرباہر نکل جاتا ہے اور چھپ چھپ کر دیکھتا ہے کہ کون تھا۔ ایک رات بارہ بجے کے قریب سڑک پرسے کوئی لاری گزری۔ ہیبت خان اور نواب دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے سورہے تھے کہ ایک دم ہیبت خان بڑے زور سے کانپا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نواب کی نیند بڑی ہلکی تھی۔ وہ کانپا تو وہ سر سے پیر تک یوں لرزی جیسے اس کے اندر زلزلہ آگیا ہے۔ چیخ کر اس نے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

ہیبت خان اب کسی قدر سنبھل چکا تھا۔ اس نے خود کو اور زیادہ سنبھال کر اس سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ میں۔ میں شاید خواب میں ڈرگیا تھا۔ ‘‘

لاری کی آواز دور سے رات کی خاموشی میں ابھی تک آرہی تھی۔ نواب نے اس سے کہا۔

’’نہیں خان۔ کوئی اور بات ہے۔ جب بھی کوئی موٹر یا لاری سڑک پر سے گزرتی ہے، تمہاری یہی حالت ہوتی ہے۔ ‘‘

ہیبت خان کی شاید یہ دکھتی رگ تھی جس پر نواب نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنا مردانہ وقار قائم رکھنے کے لیے بڑے تیز لہجے میں کہا۔

’’بکتی ہو تم۔ موٹروں اور لاریوں سے ڈرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘

نواب کا دل بہت نازک تھا۔ ہیبت خان کے تیزلہجے سے اس کو ٹھیس لگی اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ ہیبت خان نے جب اس کو چپ کرایا تووہ اپنی زندگی کے ایک لطیف ترین خط سے آشنا ہوا اور اس کا جسم نواب کے جسم سے اور زیادہ قریب ہو گیا۔ ہیبت خان اچھے قد کاٹھ کا آدمی تھا۔ اس کا جسم گٹھا ہوا تھا۔ خوبصورت تھا۔ اس کی بانھوں میں نواب نے پہلی بار بڑی پیاری حرارت محسوس کی تھی۔ اس کو جسمانی لذت کی الف بے اسی نے سکھائی تھی۔ وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ یوں کہیے کہ وہ شے جو محبت ہوتی ہے، اس کے معانی اب اس پر آشکار ہورہے تھے۔ وہ اگر ایک ہفتہ غائب رہتا تو نواب گراموفون پر دردیلے گیتوں کے ریکارڈ لگا کر خود ان کے ساتھ گاتی اور آہیں بھرتی تھی۔ مگر اس کو اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ ہیبت خان موٹروں کی آمدورفت سے کیوں گھبراتا ہے۔ مہینوں گزر گئے۔ نواب کی سپردگی اور اس کے التفات میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر ادھر اس کی الجھن بڑھتی گئی کہ اب ہیبت خان چند گھنٹوں کے لیے آتا اور افراتفری کے عالم میں واپس چلا جاتا تھا۔ نواب محسوس کررہی تھی کہ یہ سب کسی مجبوری کی وجہ سے ہے، ورنہ ہیبت خان کا جی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ دیر ٹھہرے۔ اس نے کئی مرتبہ اس سے اس بارے میں پوچھا۔

’’مگر وہ گول کرگیا۔ ایک دن صبح سویرے اس کی ڈوج سرکنڈوں کے پار رکی۔ نواب سو رہی تھی۔ ہارن بجا تو چونک کر اٹھی۔ آنکھیں ملتی ملتی باہر آئی۔ اس وقت تک ہیبت خان اپنی موٹر دور کھڑی کرکے مکان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ نواب دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ وہ اسے اٹھا کر اندر کمرے میں لے گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا۔ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ پیار محبت کی باتیں۔ معلوم نہیں نواب کے دل میں کیا آئی کہ اس نے اپنی زندگی کی پہلی فرمائش کی۔

’’خان۔ مجھے سونے کے کڑے لادو۔ ‘‘

ہیبت خان نے اس کی موٹی موٹی گوشت بھری سرخ و سفید کلائیوں کو کئی مرتبہ چوما اور کہا۔

’’کل ہی آجائیں گے۔ تمہارے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔ ‘‘

نواب نے ایک ادا کے ساتھ، مگر اپنے مخصوص الہڑ انداز میں کہا۔

’’خان صاحب۔ جانے دیجیے۔ جان تو مجھے ہی دینی پڑے گی۔ ‘‘

ہیبت خان یہ سن کر کئی بار اس کے صدقے ہوا۔ اور بڑا پرلطف وقت گزار کے چلا گیا، اور وعدہ کر گیا کہ وہ دوسرے دن آئے گا اور سونے کے کڑے اس کے نرم نرم ہاتھوں میں خود پہنائے گا۔ نواب خوش تھی۔ اس رات وہ دیر تک مسرت بھرے ریکارڈ بجا بجا کر اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں ناچتی رہی جس پر نواڑی پلنگ تھا۔ سردار بھی خوش تھی۔ اس رات اس نے پھر اپنی ڈبیا سے افیم کی ایک بڑی گولی نکالی اور اسے نگل کرسو گئی۔ دوسرے دن نواب اور زیادہ خوش تھی کہ سونے کے کڑے آنے والے ہیں اور ہیبت خان خود اس کو پہنانے والا ہے۔ وہ سارا دن منتظر رہی پر وہ نہ آیا۔ اس نے سوچا شاید موٹر خراب ہو گئی ہو۔ شاید رات ہی کو آئے۔ مگر وہ ساری رات جاگتی رہی اور ہیبت خان نہ آیا۔ اس کے دل کو، جو بہت نازک تھا، بڑی ٹھیس پہنچی۔ اس نے اپنی ماں کو، یا جو کچھ بھی وہ تھی، بار بار کہا

’’دیکھو، خان نہیں آیا، وعدہ کرکے پھر گیا ہے۔ ‘‘

لیکن پھر وہ سوچتی اور کہتی

’’ایسا نہ ہو، کچھ ہو گیا ہو‘‘

اور وہ سہم جاتی۔ کئی باتیں اس کے دماغ میں آتی تھیں۔ موٹر کا حادثہ، اچانک بیماری، کسی ڈاکو کا حملہ۔ لیکن بار بار اس کو لاریوں اور موٹروں کی آوازوں کا خیال آتا تھا۔ جن کو سن کر ہیبت خان ہمیشہ بوکھلا جاتا تھا۔ وہ اس کے متعلق پہروں سوچتی تھی، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں اس کا کوئی پرانا گاہک بھی نہ آیا، اس لیے کہ سردار ان سب کو منع کر چکی تھی۔ تین چار لاریاں اور دو موٹریں البتہ اس کچی سڑک پر سے دھول اڑاتی گزریں۔ نواب کا ہر بار یہی جی چاہا کہ دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے جائے اور ان کو آگ لگا دے۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہیبت خان کے یہاں آنے میں رکاوٹ کا باعث ہیں، مگر پھر سوچتی کہ موٹریں اور لاریاں رکاوٹ کا کیا باعث ہو سکتی ہیں، وہ اپنی کم عقلی پر ہنستی۔ لیکن یہ بات اس کے فہم سے بالاتر تھی کہ ہیبت خان جیسا تنومند مرد ان کی آواز سن کر سہم کیوں جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اس کے دماغ کی پیدا کی ہوئی دلیل جھٹلا نہیں سکتی تھی۔ اور جب ایسا ہوتا تو بے حد رنجیدہ اور مغموم ہو جاتی اور گراموفون پر دردیلے ریکارڈ لگا کر سننا شروع کردیتی اور اس کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔ ایک ہفتے کے بعد دوپہر کو جب نواب اور سردار کھانا کھا کر فارغ ہو چکی تھیں اور کچھ دیر آرام کرنے کی سوچ رہی تھیں کہ اچانک باہر سڑک پر سے موٹر کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ دونوں یہ آواز سن کر چونکیں کیوں کہ ہیبت خان کی ڈوج کے ہارن کی آواز نہیں تھی۔ سردار باہر لپکی کہ دیکھے کون ہے، پرانا آدمی ہوا تو اسے ٹرخا دے گی۔ مگر جب وہ سرکنڈوں کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ایک نئی موٹر میں ہیبت خان بیٹھا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک خوش پوش اور خوبصورت عورت ہے۔ ہیبت خان نے موٹر کچھ دور کھڑی کی اور باہر نکلا۔ اس کے ساتھ ہی پچھلی نشست سے وہ عورت۔ دونوں ان کے مکان کی طرف بڑھے۔ سردار نے سوچا کہ یہ کیا سلسلہ ہے۔ عورت کے لیے تو ہیبت اتنی دور سے چل کر یہاں آتا ہے، پھر یہ عورت جو اتنی خوبصورت ہے، جوان ہے، قیمتی کپڑوں میں ملبوس ہے، اس کے ساتھ یہاں کیا کرنے آئی ہے۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہیب خان اس خوبصورت کے ساتھ جس نے بیش قیمت زیور پہنے ہوئے تھے، مکان میں داخل ہو گیا۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلی۔ اس کی طرف ان دونوں میں سے کسی نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ جب وہ اندر گئی تو ہیبت خان، نواب اور وہ عورت تینوں نواڑی پلنگ پر بیٹھے تھے اور خاموشی طاری تھی۔ عجیب قسم کی خاموشی۔ زیوروں سے لدی پھندی عورت البتہ کسی قدر مضطرب نظر آتی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ بڑے زور سے ہل رہی تھی۔ سردار دہلیز کے پاس ہی کھڑی ہو گئی۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر جب ہیبت خان نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے سلام کیا۔ ہیبت خان نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سخت بوکھلایا ہوا تھا۔ اس عورت کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی۔

’’ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا تو بندوبست کرو۔ ‘‘

سردار نے سرتاپا مہمان نواز بن کر کہا۔

’’جو تم کہو، ابھی تیار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

اس عورت نے جس کے خدوخال سے صاف مترشح تھا کہ بڑی دھڑلے کی عورت ہے، سردار سے کہا۔

’’تو چلو تم باورچی خانے میں۔ چولہا سلگاؤ۔ بڑی دیگچی ہے گھرمیں؟‘‘

’’ہے!‘‘

سردار نے اپنا وزنی سرہلایا۔

’’تو جاؤ اس کو دھو کرصاف کرو۔ میں ابھی آئی۔ ‘‘

وہ عورت پلنگ پر سے اٹھی اور گراموفون کو دیکھنے لگی۔ سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اس سے کہا۔

’’گوشت وغیرہ تو، یہاں نہیں ملے گا۔ ‘‘

اس عورت نے ایک ریکارڈ پر سوئی رکھی

’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے، وہ کرو۔ اور دیکھو آگ کافی ہو۔ ‘‘

سردار یہ احکام لے کر چلی گئی۔ اب وہ خوش پوش عورت مسکرا کر نواب سے مخاطب ہوئی۔

’’نواب! ہم تمہارے لیے سونے کے کڑے لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنا وینٹی بیگ کھولا اور اس میں سے باریک سرخ کاغذ میں لپٹے ہوئے کڑے نکالے جو کافی وزنی اور خوبصورت تھے۔ نواب اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے خاموش ہیبت خان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے کڑوں کو ایک نظر دیکھا اور اس سے بڑی نرم و نازک مگر سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’خان یہ کون ہے؟‘‘

اس کا اشارہ اس عورت کی طرف تھا۔ وہ عورت کڑوں سے کھیلتے ہوئے بولی۔

’’میں کون ہوں۔ میں ہیبت خان کی بہن ہوں۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر اس نے ہیبت خان کی طرف دیکھا جو اس کے اس جواب پر سکڑ گیا تھا۔ پھر وہ نواب سے مخاطب ہوئی۔

’’میرا نام ہلاکت ہے۔ ‘‘

نواب کچھ نہ سمجھی۔ مگر وہ اس عورت کی آنکھوں سے خوف کھا رہی تھی جو یقیناً خوبصورت تھیں مگر بڑے خوفناک طور پر کھلی۔ ان میں جیسے آگ برس رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے سمٹی ہوئی، سہمی ہوئی نواب کی کلائیاں پکڑیں اور اس میں کڑے ڈالنے لگی۔ لیکن اس نے اس کی کلائیاں چھوڑ دیں اور ہیبت خان سے مخاطب ہوئی۔

’’تم جاؤ ہیت خان۔ میں اسے اچھی طرح سجا بنا کر تمہاری خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

ہیبت خان مبہوت تھا۔ جب وہ نہ اٹھا تو ہ عورت جس نے اپنا نام ہلاکت بتاتا تھا، ذرا تیزی سے بولی۔

’’جاؤ۔ تم نے سنا نہیں؟‘‘

ہیبت خان، نواب کی طرف دیکھتا ہوا باہر چلا گیا۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں جائے اور کیا کرے۔ مکان کے باہر جو برآمدہ ساتھا، اس کے ایک کونے میں ٹاٹ لگا باورچی خانہ تھا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سردارآگ سلگا چکی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی اور سرکنڈوں کے اس پار سڑک پر چلا گیا۔ اس کی حالت نیم دیوانوں کی سی تھی۔ ذرا سی آہٹ پر بھی وہ چونک اٹھتا تھا۔ جب اس کو دور سے ایک لاری آتی ہوئی دکھائی دی تو اس نے سوچا کہ وہ اسے روک لے اور اس میں بیٹھ کر وہاں سے غائب ہو جائے۔ مگر جب وہ پاس آئی تو ایسی دھول اڑی کہ وہ اس میں غائب ہو گیا۔ اس نے آوازیں دیں، مگر گرد کے باعث اس کا حلق اس قابل ہی نہیں تھا کہ بلند آواز نکال سکے۔ گردوغبار کم ہوا تو ہیبت خان نیم مردہ تھا۔ اس نے چاہا کہ سرکنڈوں کے پیچھے اس مکان میں جائے جہاں اس نے کئی دن اور کئی راتیں نواب کے الہڑ پہلو میں گزاری تھیں، مگر وہ نہ جاسکا۔ اس کے قدم ہی نہیں اٹھتے تھے۔ وہ بہت دیر تک کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ وہ عورت جو اس کے ساتھ آئی تھی، اس کے ساتھ اس کے کافی پرانے تعلقات تھے، صرف اس بنا پر کہ بہت دیر ہوئی، وہ اس کے خاوند کی موت کا افسوس کرنے گیا تھا جو اس کا لنگوٹیا تھا۔ مگر اتفاق سے یہ ماتم پرسی ان دنوں کے باہمی تعلق میں تبدیل ہو گئی۔ خاوند کی موت کے دوسرے ہی دن وہ اس کے گھر میں تھا، اور اس عورت نے اس کو ایسے تحکم سے اندر بلا کر اپنا آپ اس کے سپرد کیا تھا جیسے وہ اس کا نوکر ہے۔ ہیبت خان عورت کے معاملے میں بالکل کورا تھا۔ جب شاہینہ نے اس سے اپنے عجیب و غریب تحکم بھرے التفات کا اظہار کیا تو اس کے لیے یہی بڑی بات تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہینہ کے پاس بے اندازہ دولت تھی۔ کچھ اپنی اور کچھ اپنے مرحوم خاوند کی، مگر اسے اس دولت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس کو شاہینہ سے صرف یہی دلچسپی تھی کہ وہ اس کی زندگی کی سب سے پہلی عورت تھی۔ وہ اس کے تحکم کے نیچے شاید اس لیے دب کے رہ گیا تھا کہ وہ بالکل اناڑی تھا۔ بہت دیر تک وہ کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔ سرکنڈوں کے پیچھے مکان کی طرف بڑھا تو اس نے برآمدے میں ٹاٹ لگے باورچی خانے میں سردار کو کچھ بھونتے ہوئے دیکھا۔ اندر اس کمرے کی طرف گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا تو دروازہ بند پایا۔ اس نے ہولے سے دستک دی۔ چند لمحات کے بعد دروازہ کھلا۔ کچے فرش پر اس کو سب سے پہلے خون ہی خون نظر آیا۔ وہ کانپ اٹھا۔ پھر اس نے شاہینہ کو دیکھا جو دروازہ کے پٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا۔

’’میں نے تمہاری نواب کو سجا بنا دیا ہے!‘‘

ہیبت خان نے اپنے خشک گلے کو تھوک سے کسی قدر تر کرکے اس سے پوچھا

’’کہاں ہے؟‘‘

شاہینہ نے جواب دیا۔

’’کچھ تو اس پلنگ پر ہے۔ لیکن اس کا بہترین حصہ باورچی خانہ میں ہے۔ ‘‘

ہیبت خان پر اس کا مطلب سمجھے بغیر ہیبت طاری ہو گئی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ وہیں دہلیز کے پاس کھڑا رہا۔ مگر اس نے دیکھا کہ فرش پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے بھی ہیں اور۔ ایک تیز چھری بھی پڑی ہے۔ اور نواڑی پلنگ پر کوئی لیٹا ہے جس پر خون آلود چادرپڑی ہے۔ شاہینہ نے مسکرا کر کہا۔

’’چادر اٹھا کر دکھاؤں۔ تمہاری سجی بنی نواب ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے سنگھار کیا ہے۔ لیکن تم پہلے کھانا کھا لو۔ بہت بھوک لگی ہو گی، سردار بڑا لذیذ گوشت بھون رہی ہے۔ اس کی بوٹیاں میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹی ہیں۔ ہیبت خان کے پاؤں لڑکھڑائے۔ زور سے چلایا۔

’’شاہینہ تم نے یہ کیا کیا!‘‘

شاہینہ مسکرائی۔

’’جان من!یہ پہلی مرتبہ نہیں۔ دوسری مرتبہ ہے۔ میرا خاوند، اللہ اسے جنت نصیب کرے، تمہاری طرح ہی بے وفا تھا۔ میں نے خود اس کو اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور اس کا گوشت پکا کر چیلوں اور کوؤں کو کھلایا تھا۔ تم سے مجھے پیار ہے، اس لیے میں نے تمہارے بجائے۔ ‘‘

اس نے فقرہ مکمل نہ کیا اور پلنگ پر سے خون آلود چادر ہٹادی۔ ہیبت خان کی چیخ اس کے حلق کے اندر ہی دھنسی رہی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ شاہینہ کار چلا رہی ہے اور وہ غیر علاقے میں ہیں۔

سعادت حسن منٹو

سُرمہ

فہمیدہ کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر انیس برس سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کا جہیز تیار تھا۔ اس لیے اس کے والدین کو کوئی دِقت محسوس نہ ہوئی۔ پچیس کے قریب جوڑے تھے اور زیورات بھی، لیکن فہمید نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ سُرمہ جو خاص طور پر اُن کے یہاں آتا ہے، چاندی کی سرمے دانی میں ڈال کر اُسے ضرور دیں۔ ساتھ ہی چاندی کا سرمچو بھی۔ فہمیدہ کی یہ خواہش فوراً پوری ہو گئی۔ اعظم علی کی دکان سے سرمہ منگوایا۔ برکت کی دکان سے سرمے دانی اور سرمچو لیا اور اس کے جہیز میں رکھ دیا۔ فہمیدہ کو سرمہ بہت پسند تھا۔ وہ اس کو معلوم نہیں، کیوں اتنا پسند تھا۔ شاید اس لیے کہ اس کا رنگ بہت زیادہ گورا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ تھوڑی سی سیاہی بھی اس میں شامل ہو جائے۔ ہوش سنبھالتے ہی اُس نے سُرمے کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اُس کی ماں اُس سے اکثر کہتی۔

’’فہمی۔ یہ تمھیں کیا خبط ہو گیا ہے۔ جب نہ تب آنکھوں میں سرمہ لگاتی رہتی ہو۔ ‘‘

فہمیدہ مسکراتی۔

’’امی جان۔ اس سے نظر کمزور نہیں ہوتی۔ آپ نے عینک کب لگوائی تھی؟‘‘

’’بارہ برس کی عمر میں۔ ‘‘

فہمیدہ ہنسی۔

’’اگر آپ نے سرمے کا استعمال کیا ہوتا، تو آپ کو کبھی عینک کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اصل میں ہم لوگ کچھ زیادہ ہی روشن خیال ہو گئے ہیں لیکن روشنی کے بدلے ہمیں اندھیرا ہی اندھیرا ملتا ہے۔ ‘‘

اس کی ماں کہتی۔

’’جانے کیا بک رہی ہو‘‘

’’میں جو کچھ بک رہی ہوں صحیح ہے۔ آج کل لڑکیاں نقلی بھویں لگاتی ہیں۔ کالی پنسل سے خدا معلوم اپنے چہرے پر کیا کچھ کرتی ہیں۔ لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ چڑیل بن جاتی ہیں۔ ‘‘

اس کی ماں کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔

’’جانے کیا کہہ رہی ہو۔ میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا‘‘

فہمیدہ کہتی۔

’’امی جان! آپ کو اتنا سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں صرف خاک ہی خاک نہیں۔ کچھ اور بھی ہے۔ ‘‘

اس کی ماں اس سے پوچھتی۔

’’اور کیا ہے؟‘‘

فہمیدہ جواب دیتی۔

’’بہت کچھ ہے۔ خاک میں بھی سونے کے ذرے ہوسکتے ہیں۔ ‘‘

خیر۔ فہمیدہ کی شادی ہو گئی۔ پہلی ملاقات میاں بیوی کی بڑی دل چسپ تھی۔ جب فہمیدہ کا خاوند اس سے ہم کلام ہوا، تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں سیاہیاں تیر رہی ہیں۔ اُس کے خاوند نے پوچھا۔

’’یہ تم اتنا سرمہ کیوں لگاتی ہو؟‘‘

فہمیدہ جھینپ گئی اور جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کے خاوند کو یہ ادا پسند آئی اور وہ اُس سے لپٹ گیا۔ لیکن فہمیدہ کی سرمہ بھری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کالے کالے آنسو بہنے لگے۔ اس کا خاوند بہت پریشان ہو گیا،

’’تم رو کیوں رہی ہو ؟‘‘

فہمیدہ خاموش رہی۔ اُس کے خاوند نے ایک بار پھر پوچھا

’’کیا بات ہے۔ آخر رونے کی وجہ کیا ہے۔ میں نے تمھیں کوئی دُکھ پہنچایا؟

’’جی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر رونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟‘‘

’’کوئی بھی نہیں۔ ‘‘

اُس کے خاوند نے اس کے گال پر ہولے ہولے تھپکی دی اور کہا

’’جان من جو بات ہے مجھے بتا دو۔ اگر میں نے کوئی زیادتی کی ہے تو اُس کی معافی چاہتا ہوں۔ دیکھو تم اس گھر کی ملکہ ہو۔ میں تمہارا غلام ہوں۔ لیکن مجھے یہ رونا دھونا اچھا نہیں لگتا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سدا ہنستی رہو۔ ‘‘

فہمیدہ روتی رہی۔ اس کے خاوند نے اس سے ایک بار پھر پوچھا

’’آخر اس رونے کی وجہ کیا ہے؟‘‘

فہمیدہ نے جواب دیا۔

’’کوئی وجہ نہیں ہے، آپ پانی کا ایک گلاس دیجیے مجھے‘‘

اس کا خاوند فوراً پانی کا ایک گلاس لے آیا۔ فہمیدہ نے اپنی آنکھوں میں لگا ہوا سرمہ دھویا۔ تولیے سے اچھی طرح صاف کیا۔ آنسو خود بخود خشک ہو گئے اس کے بعد وہ اپنے خاوند سے ہم کلام ہوئی۔

’’میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو میں نے اتنا پریشان کیا۔ اب دیکھیے میری آنکھوں میں سرمے کی ایک لکیر بھی باقی نہیں رہی۔ ‘‘

اس کے خاوند نے کہا ’ مجھے سرمے پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم شوق سے اس کو استعمال کرو۔ مگر اتنا زیادہ نہیں کہ آنکھیں ابلتی نظر آئیں۔ ‘‘

فہمیدہ نے آنکھیں جھکا کر کہا۔

’’مجھے آپ کا ہر حکم بجا لانا ہے۔ آئندہ میں کبھی سرمہ نہیں لگاؤں گی۔ ‘‘

’’نہیں نہیں۔ میں تمھیں اس کے استعمال سے منع نہیں کرتا۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ۔ میرا مطلب ہے کہ اس چیز کو بقدر کفایت استعمال کیا جائے۔ ضرورت سے زیادہ جو بھی چیز استعمال میں آئے گی، اپنی قدر کھو دے گی۔ ‘‘

فہمیدہ نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی چاندی کی سرمے دانی اور چاندی کے سرمچو کو ہر روز نکال کر دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ یہ دونوں چیزیں اُس کی زندگی سے کیوں خارج ہو گئی ہیں، وہ کیوں ان کو اپنی آنکھوں میں جگہ نہیں دے سکتی۔ صرف اس لیے کہ اُس کی شادی ہو گئی ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ اب کسی کی ملکیت ہو گئی ہے؟ یا ہوسکتا ہے کہ اس کی قوتِ ارادی سلب ہو گئی ہو۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔ ایک برس کے بعد اس کے ہاں چاند سا بچہ آگیا۔ فہمیدہ نڈھال تھی لیکن اسے اپنی کمزوری کا کوئی احساس نہیں تھا اس لیے کہ وہ اپنے لڑکے کی پیدائش پر نازاں تھی۔ اُسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس نے کوئی بہت بڑی تخلیق کی ہے۔ چالیس دنوں کے بعد اُس نے سرمہ منگوایا اور اپنے نومولود لڑکے کی آنکھوں میں لگایا۔ لڑکے کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ ان میں جب سرمہ کی تحریر ہوئی تو وہ اور بھی زیادہ بڑی ہو گئیں۔ اس کے خاوند نے کوئی اعتراض نہ کیا کہ وہ بچے کی آنکھوں میں سرمہ کیوں لگاتی ہے۔ اس لیے کہ اُسے بڑی اور خوب صورت آنکھیں پسند تھیں۔ دن اچھی طرح گزر رہے تھے۔ فہمیدہ کے خاوند شجاعت علی کو ترقی مل گئی تھی۔ اب اس کی تنخواہ ڈیڑھ ہزار روپے کے قریب تھی۔ ایک دن اُس نے اپنے لڑکے، جس کا نام اس کی بیوی نے عاصم رکھا تھا، سرمہ لگی آنکھوں کے ساتھ دیکھا۔ وہ اُس کو بہت پیارا لگا، اس نے بے اختیار اُس کو اُٹھایا چوما چاٹا اور پلنگڑی پر ڈال دیا۔ وہ ہنس رہا تھا، اور اپنے ننھے منے ہاتھ پاؤں اِدھر اُدھر مار رہا تھا۔ اس کی سالگرہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ فہمیدہ نے ایک بہت بڑے کیک کا آرڈر دے دیا تھا۔ محلے کے سب بچوں کو دعوت دی گئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے لڑکے کی پہلی سالگرہ بڑی شان سے منائی جائے۔ سالگرہ یقیناً شان سے منائی جاتی، مگر دو دن پہلے عاصم کی طبیعت نا ساز ہو گئی اور ایسی ہوئی کہ اسے تشنج کے دورے پڑنے لگے۔ ! اُسے ہسپتال لے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا۔ تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ اسے ڈبل نمونیا ہو گیا ہے۔ فہمیدہ رونے لگی۔ بلکہ سر پیٹنے لگی

’’ہائے میرے لال کو یہ کیا ہو گیا ہے۔ ہم نے تو اُسے پھولوں کی طرح پالا ہے۔ ‘‘

ایک ڈاکٹر نے اس سے کہا

’’میڈم یہ بیماریاں انسان کے احاطہ اختیار میں نہیں۔ ویسے بحیثیت ڈاکٹر میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ بچے کے جینے کی کوئی امید نہیں۔ ‘‘

فہمیدہ نے رونا شروع کر دیا۔

’’میں تو خود مر جاؤں گی۔ خدا کے لیے، ڈاکٹر صاحب ! اسے بچا لیجیے، آپ علاج کرنا جانتے ہیں۔ مجھے اللہ کے گھر سے اُمید ہے کہ میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔

’’آپ اتنے نا امید کیوں ہیں؟‘‘

میں نا امید نہیں۔ لیکن میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا۔ ‘‘

’’جھوٹی تسلیاں، آپ مجھ کو کیوں دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میرا بچہ زندہ رہے گا۔ ‘‘

خدا کرے کہ ایسا ہی ہو‘‘

مگر خدا نے ایسا نہ کیا اور وہ تین روز کے بعد ہسپتال میں مر گیا۔ فہمیدہ پر دیر تک پاگل پن کی کیفیت طاری رہی اس کے ہوش و حواس گم تھے کوئلے اٹھاتی انھیں پیستی اور اپنے چہرے پر ملنا شروع کر دیتی۔ اس کا خاوند سخت پریشان تھا۔ اُس نے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔ دوائیں بھی دیں لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ فہمیدہ کے دل و دماغ میں سرمہ ہی سرمہ تھا۔ وہ ہر بات کا لک کے ساتھ سوچتی تھی۔ اُس کا خاوند اس سے کہتا

’’کیا بات ہے تم اتنی افسردہ کیوں رہتی ہو‘‘

وہ جواب دیتی

’’جی، کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے آپ سرمہ لا دیجیے‘‘

اس کا خاوند اُس کے لیے سرمہ لے آیا، مگر فہمیدہ کو پسند نہ آیا۔ چنانچہ وہ خود بازار گئی اور اپنی پسند کا سرمہ خرید کر لائی۔ اپنی آنکھوں میں لگایا اور سو گئی۔ جس طرح وہ اپنے بیٹے عاصم کے ساتھ سویا کرتی تھی۔ صبح جب اُس کا خاوند اٹھا اور اور اس نے اپنی بیوی کو جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔ سعادت حسن منٹو ۱۱۔ دستمبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

سراج

ناگپاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف جو چھوٹا سا باغ ہے۔ اس کے بالکل سامنے ایرانی کے ہوٹل کے باہر، بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر ڈھونڈو کھڑا تھا۔ دن ڈھلے، مقررہ وقت پر وہ یہاں آجاتا اور صبح چار بجے تک اپنے دھندے میں مصروف رہتا۔ معلوم نہیں، اس کا اصل نام کیا تھا۔ مگر سب اسے ڈھونڈو کہتے تھے، اس لحاظ سے تو یہ بہت مناسب تھا کہ اس کا کام اپنے موکلوں کے لیے ان کی خواہش اور پسند کے مطابق ہر نسل اور ہر رنگ کی لڑکیاں ڈھونڈتا تھا۔ یہ دھندہ وہ قریب قریب دس برس سے کررہا تھا۔ اس دوران میں ہزاروں لڑکیاں اس کے ہاتھوں سے گزر چکی تھیں۔ ہر مذہب کی، ہر نسل کی، ہر مزاج کی۔ اس کا اڈہ شروع سے یہی رہا تھا۔ ناگپاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف۔ باغ کے بالکل سامنے۔ ایرانی ہوٹل کے باہر بجلی کے کھمبے کے ساتھ۔ کھمبا اس کا نشان بن گیا تھا۔ بلکہ مجھے تو وہ ڈھونڈو ہی معلوم ہوتا تھا۔ میں جب کبھی ادھر سے گزرتا اور میری نظر اس کھمبے پر پڑتی۔ جس پر جگہ جگہ چونے اور کتھے کی انگلیاں پونچھی گئی تھیں تو مجھے ایسا لگتا کہ ڈھونڈو کھڑا ہے اور کالے کانڈی اور سینکے لی سوپاری والا پان چبا رہا ہے۔ یہ کھمبا کافی اونچا تھا۔ ڈھونڈو بھی دراز قد تھا۔ کھمبے کے اوپر بجلی کے تاروں کا ایک جال سا بچھا تھا۔ کوئی تار دور تک دوڑتا چلا گیا تھا اور دوسرے کھمبے کے تاروں کے الجھاؤ میں مدغم ہو گیا تھا۔ کوئی تار کسی بڈنگ میں اور کوئی کسی دکان میں چلا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کھمبے کی پہنچ دور دور تک ہے۔ وہ دوسرے کھمبوں سے مل کر گویا سارے شہر پر چھایا ہوا ہے۔ اس کھمبے کے ساتھ ٹیلیفون کے محکمے نے ایک بکس لگا رکھا تھا جس کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً تاروں کی درستی وغیرہ کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ اکثر سوچتا تھا کہ ڈھونڈو بھی اسی قسم کا ایک بکس ہے جو لوگوں کی جنسی جانچ پڑتال کے لیے کھمبے کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ کیونکہ اسے آس پاس کے علاقے کے علاوہ دور دور کے علاقوں کے ان تمام سیٹھوں کا پتا تھا جن کو وقفوں کے بعد یا ہمیشہ ہی اپنی جنسی خواہشات کے تنے ہوئے یا ڈھیلے تار درست کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اسے ان تمام چھوکریوں کا بھی پتا تھا جو اس دھندے میں تھیں۔ وہ ان کے جسم کے ہر خدوخال سے واقف تھا۔ ان کی ہر نبض سے آشنا تھا۔ کون کس مزاج کی ہے اور کس وقت اور کس گاہک کے لیے موزوں ہے۔ اس کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن ایک صرف اس کو سراج کے متعلق ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ ڈھونڈو کئی بار مجھ سے کہہ چکا تھا۔

’’سالی کا مستک پھرے لا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب، کیسی چھوکری ہے۔ گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولا۔ کبھی آگ، کبھی پانی۔ ہنس رہی ہے۔ قہقہے لگا رہی ہے۔ لیکن ایک دم رونا شروع کردے گی۔ سالی کی کسی سے نہیں بنتی۔ بڑی جھگڑالو ہے۔ ہر پسنجر سے لڑتی ہے۔ سالی سے کئی بار کہہ چکا کہ دیکھ، اپنا مستک ٹھیک کر، ورنہ جان جہاں سے آئی ہے۔ انگ پر تیرے کوئی کپڑا نہیں۔ کھانے کو تیرے پاس ڈیڑھیا نہیں۔ مارا ماری اور دھاندلی سے تو میری جان کام نہیں چلے گا۔ پر وہ ایک تخم ہے۔ کسی کی سنتی ہی نہیں‘‘

میں نے سراج کو ایک دو مرتبہ دیکھا ہے۔ بڑی دبلی پتلی لڑکی تھی مگر خوبصورت۔ اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ بڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس کے بیضوی چہرے پر صرف اپنی بڑائی جتانے کی خاطر چھائی ہوئی ہیں۔ میں نے جب اس کو پہلی مرتبہ کلیئر روڈ پر دیکھا تھا تو مجھے بڑی الجھن ہوئی تھی۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اس کی آنکھوں سے کہوں کہ بھئی تم تھوڑی دیر کے لیے ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ تاکہ میں سراج کو دیکھ سکوں۔ لیکن میری اس خواہش کے باوجود جو یقیناً میری آنکھوں نے اس کی آنکھیں تک پہنچا دی ہو گی، وہ اسی طرح اس کے سفید بیضوی چہرے پرچھائی رہیں۔ مختصر سی تھی، مگر اس اختصار کے باوجود بڑی جامع معلوم ہوتی تھی۔ ایسالگتا تھا کہ وہ ایک صراحی ہے جس میں ایک حجم سے زیادہ پانی ملی ہوئی شراب بھرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نتیجے کے طور پر سیال چیز دباؤ کے باعث ادھر ادھر، تڑپ کر بہہ گئی ہے۔ میں نے پانی ملی ہوئی شراب اس لیے کہا ہے کہ اس میں تلخی تھی، وہ جو تیز و تند شراب کی ہوتی ہے، مگر ایسا لگتا تھا کسی دھوکے باز نے اس میں پانی ملا دیا ہے، تاکہ مقدار زیادہ ہو جائے۔ مگر سراج میں لسانیت کی جو مقدار تھی، ویسی کی ویسی موجود تھی اور اس جھنجھلاہٹ سے جو اس کے گھنے بالوں سے اس کی تیکھی ناک سے، اس کے بھنچے ہوئے ہونٹوں سے اور اس کی انگلیوں سے، جو نقشہ نویسوں کی نوکیلی اور تیز تیز پنسلیں معلوم ہوتی تھیں، میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ وہ ہر چیز سے ناراض ہے۔ ڈھونڈو سے۔ اس کھمبے سے جس کے ساتھ لگ کر وہ کھڑا رہتا تھا۔ ان گاہکوں سے جو اس کے لیے لائے جاتے تھے۔ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی جو اس کے سفید بیضوی چہرے پر قبضہ جمائے رکھتی تھیں۔ اس کی پتلی پتلی، نوکیلی انگلیاں جو نقشہ نویسوں کی پنسلوں کی طرح تیز تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان سے بھی ناراض ہے۔ شاید اس لیے کہ جو نقشہ سراج بنانا چاہتی تھی وہ نہیں بنا سکتی تھیں۔ یہ تو ایک افسنہ نگار کے تاثرات میں جو چھوٹے سے تل میں سنگِ اسود کی تمام سختیاں بیان کرسکتا ہے۔ آپ ڈھونڈو کی زبانی سراج کے متعلق سنیے اس نے مجھ سے ایک دن کہا۔

’’منٹو صاحب۔ آج سالی نے پھر ٹنٹا کردیا۔ وہ تو جانے کس دن کا ثواب کام آگیا اور آپ کی دعا سے یوں بھی ناگپاڑہ چوکی کے سب افسر مہربان ہیں، ورنہ کل ڈھونڈو اندر ہوتا۔ وہ دھمال مچائی کہ میں تو باپ رے باپ کہتا رہ گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا بات ہوئی تھی؟‘‘

’’وہی جو ہوا کرتی ہے۔ میں نے لاکھ لعنت بھیجی اپنی ہشت پشت پر کہ حرامی جب تو اس چھوکری کو اچھی طرح جانتا ہے تو پھر کیوں انگلی لیتا ہے۔ کیوں اس کو نکال کر لاتا ہے۔ تیری ماں لگتی ہے یا بہن۔ میری تو کوئی عقل کام نہیں کرتی منٹو صاحب!‘‘

ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ ڈھونڈو نے کوفی ملی چائے پرچ میں انڈیلی اور سڑپ سڑپ پینے لگا۔

’’اصل بات یہ ہے کہ سالی سے مجھے ہمدردی ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

ڈھونڈو نے سر کو ایک جھٹکا دیا۔

’’جائے کیوں۔ یہ سالا معلوم ہو جائے تو یہ روز کا ٹنٹا ختم نہ ہو۔ ‘‘

پھر اس نے ایک دم پرچ میں پیالی اوندھی کرکے مجھ سے کہا۔

’’آپ کو معلوم ہے۔ ابھی تک کنواری ہے۔ ‘‘

یقین مانیے کہ میں ایک لحظے کے لیے چکرا گیا۔

’’کنواری۔ ‘‘

’’آپ کی جان کی قسم‘‘

میں نے جیسے اس کو اپنی بات پر نظرثانی کرنے کے لیے کہا۔

’’نہیں ڈھونڈو۔ ‘‘

ڈھونڈو کو میرا یہ شک ناگوار معلوم ہوا۔

’’میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا منٹو صاحب۔ سولہ آنے کنواری ہے۔ آپ مجھ سے شرط لگا لیجیے۔ ‘‘

میں صرف اسی قدر کہہ سکا۔

’’مگر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔ ‘‘

ڈھونڈو نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا۔

’’ایسا کیوں ہونے کو نہیں سکتا۔ سراج جیسی چھوکری تو اس دھندے میں بھی رہ کر ساری عمر کنواری رہ سکتی ہے۔ سالی کسی کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیتی۔ مجھے اس کی ساری ہشٹری معلوم نہیں۔ انتا جانتا ہوں۔ پنجابن ہے۔ لیمنگٹن روڈ پر میم صاحب کے پاس تھی۔ وہاں سے نکالی گئی کہ ہر پیسنجر سے لڑاتی تھی۔ دو تین مہینے نکل گئے کہ مڈام کے پاس دس بیس اور چھوکریاں تھیں۔ پر منٹو صاحب کوئی کب تک کسے کھلاتا ہے۔ اس نے ایک دن تین کپڑوں میں نکال باہر کیا۔ یہاں سے فارس روڈ میں دوسری مڈام کے پاس پہنچی۔ وہاں بھی اس کا مستک ویسے کا ویسا تھا۔ ایک پیسنجر کے کاٹ کھایا۔ دو تین مہینے یہاں گزرے۔ پر سالی کے مزاج میں تو جیسے آگ بھری ہوئی ہے اب کون اسے ٹھنڈا کرتا پھرے۔ پھر خدا آپ کا بھلا کرے، کھیت و اڑی کے ایک ہوٹل میں رہی۔ پر یہاں بھی وہی دھمال۔ منیجر نے تنگ آکر چلتا کیا۔ کیا بتاؤں منٹو صاحب۔ نہ سالی کو کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا۔ کپڑوں میں جوئیں پڑی ہیں۔ سر دو دو مہینے سے نہیں دھویا۔ چرس کے ایک دو سگرٹ مل جائیں کہیں سے تو پھونک لیتی ہے۔ یا کسی ہوٹل سے دور کھڑی ہو کر، فلمی ریکارڈ سنتی رہتی ہے۔ ‘‘

میرے لیے یہ تفصیل کافی تھی۔ اس کے رد عمل سے میں آپ کو آگاہ نہیں کرنا چاہتا کہ افسانہ نگار کی حیثیت سے یہ نامناسب ہے۔ میں نے ڈھونڈو سے محض سلسلہ گفتگو قائم رکھنے کے لیے پوچھا۔

’’تم اسے واپس کیوں نہیں بھیج دیتے۔ جب کہ اسے اس دھندے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کرایہ تم مجھ سے لے لو!‘‘

ڈھونڈو کو یہ بات بھی ناگوار معلوم ہوئی۔

’’منٹو صاحب کرائے سالے کی کیا بات ہے۔ میں نہیں دے سکتا۔ ‘‘

میں نے ٹوہ لینی چاہی۔

’’پھر اسے واپس کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘

ڈھونڈو کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ کان میں اڑے ہوئے سگرٹ کا ٹکڑہ نکال کر اس نے سلگایا اور دھوئیں کو ناک کے دونوں نتنھوں سے باہر پھینک کر اس نے صرف اتنا کہا۔

’’میں نہیں چاہتا کہ وہ جائے۔ ‘‘

میں نے سمجھا۔ الجھے ہوئے دھاگے کا ایک سرا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔

’’کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟‘‘

ڈھونڈو پر اس کا شدید رد عمل ہوا۔

’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں منٹو صاحب۔ ‘‘

۔ پھر اس نے دونوں کان پکڑ کر کھینچے۔

’’قرآن کی قسم میرے دل میں ایسا پلید خیال کبھی نہیں آیا۔ مجھے بس۔ ‘‘

وہ رک گیا۔

’’مجھے بس، کچھ اچھی لگتی ہے!‘‘

میں نے بڑا صحیح سوال کیا۔

’’کیوں؟‘‘

ڈھونڈو نے بھی اس کا بڑا صحیح جواب دیا۔

’’اس لیے۔ اس لیے کہ وہ دوسروں جیسی نہیں۔ باقی جتنی ہیں۔ سب پیس کی پیر ہیں۔ حرامی ہیں اول درجے کی۔ پر یہ جو ہے نا۔ کچھ عجیب و غریب ہے۔ نکال کے لاتا ہوں تو راضی ہو جاتی ہے۔ سودا ہو جاتا ہے۔ ٹیکسی یا وکٹوریہ میں بیٹھ جاتی ہے۔ اب منٹو صاحب، پیسنجر سالا موج شوق کے لیے آتا ہے۔ مال پانی خرچ کرتا ہے۔ ذرا دبا کے دیکھتا ہے۔ یا ویسے ہی ہاتھ لگا کے دیکھتا ہے۔ بس دھمال مچ جاتی ہے۔ مارا ماری شروع کردیتی ہے۔ آدمی شریف ہو تو بھاگ جاتا ہے۔ پیے والا ہو۔ یا موالی ہو تو آفت۔ ہر موقعے پر مجھے پہنچنا پڑتا ہے۔ پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں اور ہاتھ پیر الگ جوڑنے پڑتے ہیں۔ قسم قرآن کی صرف سراج کی خاطر۔ اور منٹو صاحب آپ کی جان کی قسم اسی سالی کی وجہ سے میرا دھندا آدھا رہ گیا ہے‘‘

۔ ! میرے ذہن نے سراج کا جو عقبی منظر تیار کیا تھا، میں اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا، لیکن اتنا ہے کہ جو کچھ ڈھونڈو نے مجھے بتایا وہ اس کے ساتھ ٹھیک طور پر جمتا نہیں تھا۔ میں نے ایک دن سوچا کہ ڈھونڈو کو بتائے بغیر سراج سے ملوں۔ وہ بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی ایک نہایت واہیات جگہ میں رہتی تھی۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ آس پاس کا تمام فضلہ تھا۔ کارپوریشن نے یہاں غریبوں کے لیے جست کے بے شمار جھونپڑے بنا دیے تھے۔ میں یہاں ان بلند بام عمارتوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتا جو اس غلاظت گاہ سے تھوڑی دور ایستا دہ تھیں۔ کیونکہ ان کا اس افسانے سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ یا رفعتوں اورپستیوں کا۔ ڈھونڈو سے مجھے اس کے جھونپڑے کا اتا پتا معلوم تھا۔ میں وہاں گیا۔ اپنے خوش وضع کپڑوں کو اس ماحول سے چھپائے ہوئے۔ لیکن یہاں میری ذات متعلق نہیں۔ بہر حال میں وہاں گیا۔ جھونپڑے کے باہر ایک بکری بندھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو ممیائی۔ اندرسے ایک بڑھیا نکلی۔ جیسے پرانی داستانوں کے کرم خوردہ انبار سے کوئی کٹنی لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔ میں لوٹنے ہی والا تھا کہ ٹاٹ کے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے پردے کے پیچھے مجھے دو بڑی بڑی آنکھیں نظر آئیں۔ بالکل اسی طرح پھٹی ہوئی جس طرح وہ ٹاٹ کا پردہ تھا۔ پھر میں نے سراج کا سفیدی بیضوی چہرہ دیکھا اور مجھے ان غاصب آنکھوں پر بڑا غصہ آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ معلوم نہیں اندر کیا کام کررہی تھی۔ فوراً سب چھوڑ چھاڑ کر باہر آئی۔ اس نے بڑھیا کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مجھ سے کہا۔

’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘

میں نے مختصراً کہا۔

’’تم سے ملنا تھا۔ ‘‘

سراج نے بھی اختصار ہی کے ساتھ کہا۔

’’آؤ اندر!‘‘

میں نے کہا۔

’’نہیں میرے ساتھ چلیے۔ ‘‘

اس پر کرم خوردہ داستانوں کی کرم خوردہ کٹنی بڑے دکاندارانہ انداز میں بولی۔

’’دس روپے ہوں گے۔ ‘‘

میں نے بٹوہ نکال کر دس روپے اس بڑھیا کو دے دیے اور سراج سے کہا۔

’’آؤ سراج‘‘

۔ ! سراج کی بڑی بڑی آنکھوں نے ایک لحظے کے لیے میری نگاہوں کو راستہ دیا کہ اس کے چہرے کی سڑک پر چند قدم چل سکیں۔ میں ایک بار پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ خوبصورت تھی۔ سکڑی ہوئی خوبصورتی۔ حنوط لگی خوبصورتی۔ صدیوں کی محفوظ و مامون اور مدفون کی ہوئی خوبصورتی۔ میں نے ایک لحظے کے لیے یوں محسوس کیا کہ میں مصر میں ہوں اور پرانے دفینوں کی کھدائی پر مامور کیا گیا ہوں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ سراج میرے ساتھ تھی۔ ہم دونوں ایک ہوٹل میں تھے۔ وہ میرے سامنے، اپنے غلیظ کپڑوں میں ملبوس بیٹھی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے بیضوی چہرے پر قبضہ مخالفانہ کیے تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انھوں نے صرف سراج کے چہرے ہی کو نہیں، اس کے سارے وجود کو ڈھانپ لیا ہے کہ میں اس کے کسی روئیں کو بھی نہ دیکھ سکوں۔ بڑھیا نے جو قیمت بتائی تھی، میں نے ادا کردی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے چالیس روپے اور سراج کو دیے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے بھی اسی طرح لڑے جھگڑے، جس طرح وہ دوسروں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض سے میں نے اس سے کوئی ایسی بات نہ کی جس سے محبت اور خلوص کی بو آئے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی میں خائف تھا۔ وہ اتنی بڑی تھیں کہ میرے علاوہ میرے اردگرد کی ساری دنیا بھی دیکھ سکتی تھیں۔ وہ خاموش تھی۔ واہیات طریقے پر اسے چھیڑنے کے لیے ضروری تھا کہ میرے جسم اور ذہن میں غلط قسم کی حرارت ہو۔ چنانچہ نے وسکی کے چار پیگ پیے اور اس کو عام پیسنجروں کی طرح چھیڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے ایک زبردست فضول حرکت کی۔ میرا خیال تھا کہ وہ بارود جو اس کے اندر بھری پڑی ہے، اس کو بھک سے اڑانے کے لیے یہ چنگاری کافی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ وہ کسی قدر پرسکون ہو گئی۔ اٹھ کر اس نے مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے پھیلاؤ میں سمیٹتے ہوئے کہا۔

’’چرس کا ایک سگریٹ منگوا دو مجھے!‘‘

’’شراب پیو!‘‘

’’نہیں۔ چرس کا سگرٹ پیوں گی!‘‘

میں نے اسے چرس کا سگرٹ منگوا دیا۔ اسے ٹھیٹ چرسیوں کے انداز میں پی کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اب اپنا تسلط چھوڑ چکی تھیں۔ مگر اسی طرح جس طرح کوئی غاصب چھوڑتا ہے۔ اس کا چہرہ مجھے ایک اجڑی ہوئی، ایک بربادشدہ سلطنت نظر آیا۔ تاخت و تاراج ملک، اس کا ہر خط، ہر خال۔ ویرانی کی ایک لکیر تھی۔ مگر یہ ویرانی کیا تھی؟۔ کیوں تھی؟۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آبادیاں ہی ویرانوں کا باعث ہوتی ہیں۔ کیا وہ اسی قسم کی آبادی تھی جو شروع ہونے کے بعد کسی حملہ آور کے باعث ادھوری رہ گئی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی دیواریں جو ابھی گز بھر بھی اوپر نہیں اٹھی تھیں کھنڈر بن گئی تھیں۔ میں چکر میں تھا، لیکن آپکو میں اس چکر میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں نے کیا سوچا، کیا نتیجہ برآمد کیا۔ اس سے آپ کو کیا مطلب۔ سراج کنواری تھا یا نہیں۔ میں اس کے متعلق جاننا نہیں چاہتا تھا۔ سلفے کے دھوئیں میں، البتہ اس کی محزون و مخمور آنکھوں میں مجھے ایک ایسی جھلک نظر آئی تھی جس کو میرا قلم بھی بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے اس سے باتیں کرنا چاہیں مگر اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے چاہا کہ وہ مجھ سے لڑے جھگڑے، مگر یہاں بھی اس نے مجھے ناامید کیا۔ میں اسے گھر چھوڑ آیا۔ ڈھونڈوکو جب میرے اس خفیہ سلسلے کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اس کے دوستانہ اور تاجرانہ جذبات دونوں بہت بری طرح مجروح ہوئے تھے۔ اس نے مجھے صفائی کا موقعہ نہ دیا۔ صرف اتنا کہا۔

’’منٹو صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی!‘‘

اور یہ کہہ کر وہ کھمبے سے ہٹ کر ایک طرف چلا گیا۔ عجیب بات ہے کہ دوسرے روز شام کو وقتِ مقررہ پر وہ مجھے اپنے اڈے پر نظر نہ آیا۔ میں سمجھا شاید بیمار ہے۔ مگر اس سے اگلے روز بھی وہ موجود نہیں تھا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ وہاں سے میرا صبح شام آنا جانا ہوتا تھا۔ میں جب اس کھمبے کو دیکھتا۔ مجھے ڈھونڈویاد آتا۔ میں بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی جو واہیات جگہ تھی وہاں بھی گیا۔ یہ دیکھنے کے لیے سراج کہاں ہے۔ مگر وہاں اب صرف وہ کرم خوردہ کٹنی رہتی تھی۔ میں نے اس سے سراج کے متعلق پوچھا تووہ پوپلی مسکراہٹ میں لاکھوں برس کی پرانی جنسی کروٹیں بدل کر بولی۔

’’وہ گئی۔ اور ہیں۔ منگواؤں!‘‘

میں نے سوچا، اس کا کیا مطلب ہے۔ ڈھونڈو اور سراج دونوں غائب ہیں اور وہ بھی میری اس خفیہ ملاقات کے بعد۔ لیکن میں اس ملاقات کے متعلق اتنا متردو نہیں تھا۔ یہاں پھر میں اپنے خیالات آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن مجھے یہ حیرت ضرور تھی کہ وہ دونوں غائب کہاں ہو گئے۔ ان میں محبت کی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ڈھونڈو ایسی چیزوں سے بالاتر تھا۔ اس کی بیوی تھی بچے تھے اور وہ ان سے بے حد محبت کرتا تھا، پھر یہ سلسلہ کیا تھا کہ دونوں بیک وقت غائب تھے۔ میں نے سوچا۔ ہوسکتا ہے کہ اچانک ڈھونڈو کے دماغ میں یہ خیال آگیا ہو کہ سراج کو واپس گھر جانا چاہیے۔ اس کے متعلق وہ پہلے فیصلہ نہیں کرسکا تھا، پر اب اچانک کرلیا ہو۔ غالباً ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک شام اچانک مجھے ڈھونڈو نظر آیا۔ اسی کھمبے کے ساتھ، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بڑی دیر کرنٹ فیل رہنے کے بعد ایک دم واپس آگیا ہے اس کھمبے میں جان پڑ گئی۔ ٹیلی فون کے ڈبے میں بھی۔ چاروں طرف، اوپر تاروں کے پھیلے ہوئے جال، ایسا لگتا تھا آپس میں سرگوشیاں کررہے ہیں۔ میں اس کے پاس سے گزرا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں تھے۔ میں نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ اس نے اپنے لیے کوفی ملی چائے اور میرے لیے سادہ چائے منگوائی اور پہلو بدل کر اس نے ایسی نشست قائم کی کہ جیسے وہ مجھے کوئی بہت بڑی بات سنانے والا ہے، مگر اس نے صرف اتنا کہا

’’اور سناؤ منٹو صاحب۔ ‘‘

’’’کیا سنائیں ڈھونڈو۔ بس گزر رہی ہے۔ ‘‘

ڈھونڈو مسکرایا۔

’’ٹھیک کہا آپ نے۔ بس گزر رہی ہے۔ اور گزرتی جائے گی۔ لیکن یہ سالا گزرتے رہنا یا گزرنا بھی عجیب چیز ہے۔ سچ پوچھیے تو اس دنیا میں ہر چیز عجیب ہے۔ ‘‘

میں نے صرف اتنا کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہو ڈھونڈو۔ ‘‘

چائے آئی اور ہم دونوں نے پینا شروع کی۔ ڈھونڈو نے پرچ میں اپنی کوفی ملی چائے انڈیلی اور مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب۔ اس نے مجھے بتا دی تھی ساری بات۔ کہتی تھی، وہ سیٹھ جو تمہارا دوست ہے اس کا مستک پھرے لا ہے۔ ‘‘

میں ہنسا۔

’’کیوں؟‘‘

’’بولی۔ مجھے ہوٹل لے گیا۔ اتنے روپے دیے۔ پر سیٹھوں والی کوئی بات نہ کی۔ ‘‘

میں اپنے اناڑی پن پر بہت خفیف ہوا۔

’’وہ قصہ ہی کچھ ایسا تھا ڈھونڈو‘‘

اب ڈھونڈو پیٹ بھر کے ہنسا۔

’’میں جانتا ہوں۔ مجھے معاف کردینا کہ میں اس روز تم سے ناراض ہو گیا تھا۔ ‘‘

اس کے اندازِ گفتگو میں ان جانے میں بے تکلفی پیدا ہو گئی۔

’’پر اب وہ قصہ خلاص ہو گیا ہے!‘‘

’’کون سا قصہ؟‘‘

’’اس سالی کا سراج کا۔ اور کس کا؟‘‘

میں نے پوچھا کیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

ڈھونڈو گٹکنے لگا۔

’’جس روز آپ کے ساتھ گئی۔ واپس آکر مجھ سے کہنے لگی۔ میرے پاس چالیس روپے ہیں۔ چلو مجھے لاہور لے چلو۔ میں بولا سالی، یہ ایک دم تیرے سر پر کیا بھوت سوار ہوار۔ بولی، نہیں۔ چل ڈھونڈو، تجھے میری قسم۔ اور منٹو صاحب، آپ جانتے ہیں۔ میں سالی کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا کہ مجھے اچھی لگتی ہے۔ میں نے کہا چل۔ سو ٹکٹ کٹا کے ہم دونوں گاڑیوں میں سوارہوئے۔ لاہور پہنچ کر ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ مجھ سے بولی۔ ڈھونڈو۔ ایک برخا لا دے میں لے آیا۔ اسے پہن کر وہ لگی سڑک سڑک اور گلی گلی گھومنے۔ کئی دن گزر گئے۔ میں بولا۔ یہ بھی اچھی رہی ڈھونڈو۔ سراج سالی کا مستک تو پھرے لا تھا۔ سالا تیرا بھی بھیجا پھر گیا جو تو اتنی دور اس کے ساتھ آگیا۔ منٹو صاحب۔ آخر ایک دن اس نے ٹانگہ رکوایا اور ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہنے لگی۔ ڈھونڈو۔ اس آدمی کو میرے پاس لے آ۔ میں چلتی ہوں واپس سرائے میں۔ میری عقل جواب دے گئی۔ میں ٹانگے سے اترا تو وہ غائب۔ اب میں اس آدمی کے پیچھے پیچھے۔ آپ کی دعا سے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے۔ میں آدمی آدمی کو پہچانتا ہوں۔ دو باتیں کیں اور میں تاڑ گیا کہ موج شوق کرنے والا ہے۔ میں بولا بمبئی کا خاص مال ہے۔ بولا، ابھی چلو۔ میں بولا۔ نہیں پہلے مال پانی دکھاؤ۔ اس نے اتنے سارٹ نوٹ دکھائے۔ میں دل میں بولا۔ چلو ڈھونڈو۔ یہاں بھی اپنا دھندا چلتا رہے۔ پر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ سراج سالی نے سارے لاہور میں اسی کو کیوں چُنا۔ میں نے کہا، چلتا ہے۔ ٹانگہ لیا اور سیدھا سرائے میں۔ سراج کو خبر کی۔ وہ بولی۔ ابھی ٹھہر۔ میں ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس آدمی کو جو اچھی شکل کا تھا اندر لے گیا۔ سراج کو دیکھتے ہی وہ سالا یوں بدکا جیسے گھوڑا۔ سراج نے اس کو پکڑ لیا۔ ‘‘

ڈھونڈو نے یہاں پہنچ کر پیالی سے اپنی ٹھنڈی کوفی ملی چائے ایک ہی جرعے میں ختم کی اور بڑی سلگانے لگا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’سراج نے اس کو پکڑ لیا۔ ‘‘

ڈھونڈو نے بلند آواز میں کہا۔

’’ہاں جی۔ پکڑ لیا اس سالے کو۔ کہنے لگی۔ اب کہاں جاتا ہے۔ میرا گھر چھڑا کر تو مجھے اپنے ساتھ کس لیے لایا تھا۔ میں تجھ سے محبت کرتی تھی۔ تو نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ تُو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ پر جب میں اپنا گھر بار، اپنا ماں باپ چھوڑ کر تیرے ساتھ بھاگ نکلی اور امرتسر سے ہم دونوں یہاں آئے۔ اسی سرائے میں آکر ٹھہرے تو رات ہی رات تو بھاگ گیا۔ مجھے اکیلی چھوڑ کر۔ کس لیے لایا گیا تو مجھے یہاں۔ کس لیے بھگایا تھا تو نے مجھے۔ میں ہر چیز کے لیے تیار تھی۔ پر تو میری ساری تیاریاں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ آ۔ اب میں نے تمہیں بلایا ہے۔ میری محبت ویسی کی ویسی قائم ہے۔ آ۔ اور منٹو صاحب، وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ اس سالے کے آنسو ٹپکنے لگے۔ رو رو کر معافیاں مانگنے لگا۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں ڈر گیا تھا۔ میں اب کبھی تم سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔ قسمیں کھاتا رہا۔ جانے کیا بکتا رہا۔ سراج نے مجھے اشارہ کیا۔ میں باہر چلا گیا۔ صبح ہوئی تو میں باہر کھاٹ پر سو رہا تھا۔ سراج نے مجھے جگایا اور کہا۔ چلو ڈھونڈو۔ میں بولا۔ کہاں؟۔ بولی، واپس بمبئی۔ میں بولا۔ وہ سالا کہاں ہے۔ سراج نے کہا۔ سورہا ہے۔ میں اس پر اپنا بُرخا ڈال آئی ہوں۔ ‘‘

ڈھونڈو نے اپنے لیے دوسری کوفی ملی چائے کا آرڈر دیا تو سراج اندر د اخل ہوئی۔ اس کا سفید بیضوی چہرہ نکھرا ہوا تھا اور اس پر اس کی بڑی بڑی آنکھیں دو گرے ہوئے سگنل معلوم ہوتی تھیں۔

سعادت حسن منٹو

سجدہ

گلاس پربوتل جھکی تو ایک دم حمید کی طبیعت پر بوجھ سا پڑ گیا۔ ملک جو اسکے سامنے تیسرا پیگ پی رہا تھا فوراً تاڑ گیا کہ حمید کے اندر روحانی کشمکش پیدا ہو گئی ہے۔ وہ حمید کو سات برس سے جانتا تھا، اوران سات برسوں میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے جن کا مطلب اس کی سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا تھا، لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اس کے لاغر دوست کے سینے پر کوئی بوجھ ہے ایسا بوجھ جس کا احساس شراب پینے کے دوران میں کبھی کبھی حمید کے اندر یوں پیداہوتا ہے جیسے بے دھیان بیٹھے ہوئے آدمی کی پسلیوں میں کوئی زور سے ٹہوکا دے دے۔ حمید بڑا خوش باش انسان تھا۔ ہنسی مذاق کا عادی، حاضر جواب، بذلہ سنج اس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو زیادہ نزدیک آکر اسکے دوست ملک نے معلوم کی تھیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بے حد مخلص تھا، اس قدر مخلص کہ بعض اوقات اس کا اخلاص ملک کے لیے عہد عتیق کا رومانی افسانہ بن جاتا تھا۔ حمید کے کردار میں ایک عجیب وغریب بات جوملک نے نوٹ کی یہ تھی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ناآشنا تھیں۔ یوں تو ملک بھی رونے کے معاملے میں بڑا بخیل تھا مگر وہ جانتا تھا کہ جب کبھی رونے کا موقع آئے گا وہ ضرور رو دے گا۔ اس پر غم افزا باتیں اثر ضرور کرتی تھیں مگر وہ اس اثر کو اتنی دیر اپنے دماغ پر بیٹھنے کی اجازت دیتا تھا جتنی دیر گھوڑا اپنے تنے ہوئے جسم پر مکھی کو۔ غموں سے دور رہنے والے اور ہر وقت ہنسی مذاق کے عادی حمید کی زندگی میں نہ جانے ایسا کون سا واقعہ الجھا ہوا تھا کہ وہ کبھی کبھی قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتا تھا۔ ایسے لمحات جب اس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کرلیتا تھا جو تین دن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ سات برس کے دوران میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے مگر ملک نے آج تک اس سے ان کی وجہ دریافت نہ کی تھی۔ اس لیے نہیں کہ ان کی وجہ دریافت کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ملک پرلے درجے کا سُست اور کاہل واقع ہوا تھا۔ اس خیال سے بھی وہ حمید کے ساتھ اس معاملے میں بات چیت نہیں کرتا تھا کہ ایک طول طویل کہانی اسے سننا پڑے گی اور اس کے چوتھے پیگ کا سارا سرور غارت ہو جائے گا۔ شراب پی کر لمبی چوڑی آپ بیتیاں سننا یا سنانا اس کے نزدیک بہت بڑی بدذوقی تھی۔ اس کے علاوہ وہ کہانیاں سننے کے معاملے میں بہت ہی خام تھا۔ اسی خیال کی وجہ سے کہ وہ اطمینان سے حمید کی داستان نہیں سن سکے گا اس نے آج تک اُس سے اُن دوروں کی بابت دریافت نہیں کیا تھا۔ کرپارام نے حمید کے گلاس میں تیسرا پیگ ڈال کر بوتل میز پر رکھ دی اور ملک سے مخاطب ہوا

’’ملک، اسے کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

ملک خاموش رہا لیکن حمید مضطرب ہو گیا۔ اس کے اعصاب زور سے کانپ اٹھے۔ کرپا رام کی طرف دیکھ کر اُس نے مسکرانے کی کوشش کی، اس میں جب ناکامی ہوئی تو اس کا اضطراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ حمید کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ کسی بات کو چھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہُوئی عورت کی ہوتی ہے۔ ملک نے اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور اس فضا کو جو کچھ عرصہ پہلے طرب افزا باتوں سے گونج رہی تھی اپنی بے محل ہنسی سے خوشگوار بنانے کے لیے اس نے کرپا رام سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’کرپا۔ تم مان لو اسے اشوک کمار کا فلمی عشق ہو گیا ہے۔ بھئی یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے۔ پردے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کاسٹرآئل پی رہا ہے۔ ‘‘

کرپا رام، اشوک کمارکو اتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ مہاراجہ اشوک اور اسکی مشہور آہنی لاٹھ کو۔ فلم اور تاریخ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ وہ انکے فوائد سے ضرور آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ عام طور پر کہا کرتا تھا۔

’’مجھے اگر کبھی بے خوابی کا عارضہ لاحق ہو جائے تو میں یا تو فلم دیکھنا شروع کردوں گا یا چکرورتی کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھنا شروع کردوں گا۔ ‘‘

وہ ہمیشہ حساب دان چکرورتی کو مورخ بنا کر اپنی مسرت کے لیے ایک بات پیدا کرلیا کرتا تھا۔ کرپا رام چار پیگ پی چکا تھا۔ چار پیالہ پیگ، نشہ اس کے دماغ کی آخری منزل تک پہنچ چکا تھا آنکھیں سیکڑ کر اس نے حمید کی طرف اس اندازسے دیکھا جیسے وہ کیمرے کا فوکس کررہا ہے۔

’’تمہارا گلاس ابھی تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔ ‘‘

حمید نے دردِ سر کے مریض کی سی شکل بنا کرکہا۔

’’بس۔ اب مجھ سے زیادہ نہیں پی جائے گی۔ ‘‘

’’تم چُغد ہو۔ نہیں چُغد نہیں کچھ اور ہو۔ تمہیں پینا ہو گی۔ سمجھے، یہ گلاس اور اس بوتل میں جتنی پڑی ہے سب کی سب تمہیں پینا ہو گی۔ شراب سے جو انکار کرے وہ انسان نہیں حیوان ہے۔ حیوان بھی نہیں، اس لیے کہ حیوانوں کو اگر انسان بنا دیا جائے تووہ بھی اس خوبصورت شے کو کبھی نہ چھوڑیں تم سُن رہے ہو ملک۔ ملک نے اگر یہ ساری شراب اس کے حلق میں نہ انڈیل دی تو میرا نام کرپا رام نہیں گھسیٹا رام آرٹسٹ ہے۔ ‘‘

گھسیٹا رام آرٹسٹ سے کرپا رام کو سخت نفرت تھی صرف اس لیے کہ آرٹسٹ ہوکر اس کا نام گھسیٹا رام تھا۔ ملک کا منہ سوڈا ملی وسکی سے بھرا ہوا تھا۔ کرپا رام کی بات سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑا جس کے باعث اس کے منہ سے ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

’’کرپا رام خدا کے لیے تم گھسیٹا رام آرٹسٹ کا نام نہ لیا کرو۔ میری انتڑیوں میں ایک طوفان سا مچ جاتا ہے۔ لاحول ولا۔ میری پتلون کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ لو بھئی، حمید، اب تو تمہیں پینا ہی پڑے گی۔ کرپا رام، گھسیٹا رام بنے یا نہ بنے لیکن میں ضرور کرپا رام بن جاؤں گا اگرتم نے یہ گلاس خالی نہ کیا۔ لو پیو۔ پی جاؤ۔ ارے میرا منہ کیا دیکھتے ہو۔ یہ تمہارے چہرے پر یتامت کیسی برس رہی ہے۔ کرپا رام اٹھو۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ زبردستی کرنا ہی پڑے گی۔ ‘‘

کرپا رام اور ملک دونوں اٹھے اور حمید کو زبردستی پلانے کی کوشش کرنے لگے۔ حمید کو روحانی کوفت تو ویسے ہی محسوس ہورہی تھی، جب کرپا رام اور ملک نے اس کو جھنجھوڑنا شروع کیا تو اس کو جسمانی اذّیت بھی پہنچی جس کے باعث وہ بے حد پریشان ہو گیا۔ اس کی پریشانی سے کرپا رام اور ملک بہت محظوظ ہُوئے۔ چنانچہ انھوں نے ایک کھیل سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنا شروع کیا۔ کرپا رام نے گلاس پکڑ کر اس کے سر میں تھوڑی سی شراب ڈال دی۔ اور نائیوں کے انداز میں جب اس نے حمید کا سر سہلایا تو وہ اس قدر پریشان ہوا کہ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔ اس کی آواز بھرّا گئی۔ اس کے سارے جسم میں تشنج سا پیدا ہوا اور ایک دم کاندھے ڈھیلے کرکے اس نے رونی اور مُردہ آواز میں کہا۔

’’میں بیمار ہُوں۔ خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کرو۔ ‘‘

کرپا رام اسے بہانہ سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ سوچنے ہی والا تھا کہ ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے پرے ہٹا دیا۔

’’کرپا، اس کی طبیعت واقعی خراب ہے۔ دیکھو تو رو رہا ہے۔ ‘‘

کرپا رام نے اپنی موٹی کمر جھکا کر غور سے دیکھا۔

’’ارے۔ تم تو سچ مچ رو رہے ہو۔ ‘‘

حمید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے، جس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟۔ خیر تو ہے؟‘‘

’’یہ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘

’’بھئی حد ہو گئی۔ ہم تو صرف مذاق کررہے تھے۔ ‘‘

’’کچھ سمجھ میں بھی تو آئے۔ کیا تکلیف ہے تمہیں؟‘‘

ملک اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’’بھئی مجھے معاف کردو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ ‘‘

حمید نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ جذبات کی شدت کے باعث اسکی قوتِ گویائی جواب دے گئی۔ تیسرے پیگ سے پہلے اسکے چہرے پر رونق تھی، اسکی باتیں سوڈے کے بُلبُلوں کی طرح تروتازہ اور شگفتہ تھیں مگر اب وہ باسی شراب کی طرح بے رونق تھا۔ وہ سکڑ سا گیا تھا۔ اس کی حالت ویسی ہی تھی جیسی بھیگی ہُوئی پتلون کی ہوتی ہے۔ کرسی پر وہ اس انداز سے بیٹھا تھا گویا وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ اپنے آپ کو چھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کے رہ گیا تھا جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔ ملک کو اس کی حالت پربہت ترس آیا۔

’’حمید، لو اب خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔ واللہ تمہارے آنسوؤں سے مجھے روحانی تکلیف ہورہی ہے۔ مزا تو سب کِرکرا ہو ہی گیا تھا۔ مگر یوں تمہارے ایکا ایکی آنسو بہانے سے میں بہت مغموم ہو گیا ہوں۔ خدا جانے تمہیں کیا تکلیف ہے۔ ؟‘‘

’’کچھ نہیں، میں بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ اٹھا۔

’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔ ‘‘

کرپا رام بوتل میں بچی ہُوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔ حمید گھر پہنچا تو اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ کمرے میں چونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اس لیے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اسکی آنسوؤں سے لبالب بھری ہُوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو جس کے چھیڑنے سے وہ جی بھر کے رو سکے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ بالکل اکیلا ہو۔ ایک عجیب کشمکش اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ وہ کرسی پر اس انداز سے اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پٹا ہوا مہرہ بساط سے بہت دُور پڑا ہے۔ سامنے میز پر اس کی ایک پرانی تصویر چمکدار فریم میں جڑی رکھی تھی۔ حمید نے اداس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو سات برس اس تصویر اور اس کے درمیان تھان کی طرح کھلتے چلے گئے۔ ! ٹھیک سات برس پہلے برسات کے اِنہی دنوں میں رات کو وہ ریلوے رسٹوران میں ملک عبدالرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اُس وقت کے حمید اور اِس وقت کے حمید میں کتنا فرق تھا۔ کتنا فرق تھا۔ حمید نے یہ فرق اس شدت سے محسوس کیا کہ اسے اپنی تصویر میں ایک ایسا آدمی نظر آیا جس سے ملے اس کو ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ اس نے تصویر کو غور دیکھا تو اُس کے دل میں یہ تلخ احساس پیدا ہوا کہ انسانیت کے لحاظ سے وہ اس کے مقابلے میں بہت پست ہے۔ تصویر مں ہ جو حمید ہے اس حمید کے مقابلے میں بدرجہا افضل و برتر ہے جوکرسی پر سرنیوڑھائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اس احساس نے اُسکے دل میں حسد بھی پیدا کردیا۔ ایک سجدے۔ صرف ایک سجدے نے اسکا ستیاناس کردیا تھا۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے کا ذکرہے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ رات کو ریلوے رسٹوران میں اپنے دوست ملک عبدالرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حمید کویہ شرارت سوجھی تھی کہ بغیر بُوکی شراب جن کا ایک پورا پیگ لیمونیڈ میں ملا کر اسکو پلادے اور جب وہ پی جائے تو آہستہ سے اسکے کان میں کہے۔

’’مولانا ایک پورا پیگ آپ کے ثوابوں بھرے پیٹ میں داخل ہو چکا ہے۔ ‘‘

بَیرے سے مل ملا کر اس نے اس بات کا انتظام کردیا تھا کہ آرڈر دینے پر لیمونیڈ کی بوتل میں جن کا ایک پیگ ڈال کر ملک کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہُوا کہ حمید نے وِسکی پی اور ملک بظاہر بے خبری کی حالت میں جن کا پورا پیگ چڑھا گیا۔ حمید چونکہ تین پیگ پینے کا ارادہ رکھتا تھا اس لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے پوچھا۔

’’ملک صاحب، آپ یوں بیکار نہ بیٹھیے میں تیسرا پیگ بڑی عیاشی سے پیا کرتا ہوں۔ آپ ایک اور لیمونیڈ منگوا لیجیے۔ ‘‘

ملک رضا مند ہو گیا، چنانچہ ایک اور لیمونیڈ آگیا۔ اس بیرے نے اپنی طرف سے جن کا ایک پیگ ملا دیا تھا۔ ملک سے حمید کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حمید اس شرارت سے باز رہتا مگر اُن دنوں وہ اس قدر زندہ دل اور شرارت پسند تھا کہ جب بیرا ملک کے لیے لیمونیڈ کا دوسرا گلاس لایا اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تووہ اس خیال سے بہت خوش ہُوا کہ ایک کے بجائے دو پیگ ملک کے پیٹ کے اندر چلے جائیں گے۔ ملک آہستہ آہستہ لیمونیڈ ملی جِن پیتا رہا اور حمید دل ہی دل میں اس کبوترکی طرح گٹگٹاتا رہا جس کے پاس ایک کبوتری آبیٹھی ہو۔ اس نے جلدی جلدی اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور ملک سے پوچھا۔

’’اور پئیں گے آپ۔ ‘‘

ملک نے غیرمعمولی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا

’’نہیں۔ ‘‘

پھر اُس نے بڑے روکھے انداز میں کہا۔

’’اگر تمہیں اور پینا ہے تو پیو، میں جاؤنگا۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔ ‘‘

اس مختصر گفتگو کے بعد دونوں اٹھے۔ حمید نے دوسرے کمرے میں جا کر بل ادا کیا۔ جب وہ رسٹوران سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حمید کے دل میں یہ خواہش چٹکیاں لینے لگی کہ وہ ملک پراپنی شرارت واضح کردے مگر اچھے موقع کی تلاش میں کافی وقت گزر گیا۔ ملک بالکل خاموش تھا اور حمید کے اندر پُھلجھڑی سی چھوٹ رہی تھی۔ بے شمار ننھی ننھی خوبصورت اور شوخ و شنگ باتیں اس کے دل و دماغ میں پیدا ہو ہو کر بُجھ رہی تھیں۔ وہ ملک کی خاموشی سے پریشان ہورہا تھا اور جب اُس نے اپنی پریشانی کا اظہار نہ کیا تو آہستہ آہستہ اُس کی طبیعت پر ایک افسردگی سی طاری ہو گئی۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اسکی شرارت اب دُم کٹی گلہری بنکر رہ گئی ہے۔ دیر تک دونوں بالکل خاموش چلتے رہے۔ جب کمپنی باغ آیا تو ملک ایک بنچ پر مفکرانہ انداز میں بیٹھ گیا۔ چند لمحات ایسی خاموشی میں گزرے کہ حمید کے دل میں وہاں سے اُٹھ بھاگنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس وقت زیادہ دیر تک دبے رہنے کے باعث اس کی تمام تیزی اور طراری ماند پڑ چکی تھی۔ ملک بنچ پر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’حمید تم نے آج مجھے روحانی تکلیف پہنچائی ہے۔ تمہیں یہ شرارت نہیں کرنی چا ہیے تھے۔ ‘‘

اس آواز میں اور درد پیدا ہو گیا۔

’’تم نہیں جانتے کہ تمہاری اس شرارت سے مجھے کس قدر روحانی تکلیف پہنچی ہے۔ اللہ تمہیں معاف کرے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلا گیا اورحمید نے اپنے آپ کو بڑی شدت گناہگار محسوس کرنے لگا۔ معافی مانگنے کا خیال اس کو آیا تھا مگر ملک باغ سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ ملک کے چلنے جانے کے بعد حمید گناہ اور ثواب کے چکر میں پھنس گیا۔ شراب کے حرام ہونے کے متعلق اس نے جتنی باتیں لوگوں سے سنی تھیں سب کی سب اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگیں۔

’’شراب اخلاق بگاڑ دیتی ہے۔ شراب، خانہ خراب ہے، شراب پی کر آدمی بے ادب اور بے حیا ہو جاتا ہے۔ شراب اسی لیے حرام ہے۔ شراب صحت کا ستیاناس کردیتی ہے۔ اس کے پینے سے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ شراب۔ ‘‘

شراب، شراب کی ایک لامتناہی گردان حمید کے دماغ میں شروع ہو گئی۔ اور اس کی تمام بُرائیاں ایک ایک کرکے اس کے سامنے آگئیں۔

’’سب سے بڑی بُرائی تو یہ ہے۔ ‘‘

حمید نے محسوس کیا۔

’’کہ میں نے بے ضرر شرارت سمجھ کر ایک شریف آدمی کو دھوکے سے شراب پلا دی ہے۔ ممکن ہے وہ پکا نمازی اور پرہیزگار ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی میری ہے اور سارا گناہ میرے ہی سر ہو گا مگر اُسے جو روحانی تکلیف پہنچی ہے اس کا کیا ہو گا؟ واللہ باللہ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ اُسے تکلیف پہنچے۔ میں اس سے معافی مانگ لونگا اور۔ لیکن اس سے معافی مانگ کر بھی تو میرا گناہ ہلکا نہیں ہو گا۔ ایک میں نے شراب پی اُوپر سے اُسکو دھوکا دیکر پلائی۔ ‘‘

وسکی کا نشہ اس کے دماغ میں جمائیاں لینے لگا جس سے اس کا احساس گناہ گھناؤنی شکل اختیار کرگیا۔

’’مجھے معافی مانگنی چاہیے۔ مجھے شراب چھوڑ دینی چاہیے۔ مجھے گناہوں سے پاک زندگی بسرکرنی چاہیے۔ ‘‘

اس کو شراب شروع کیے صرف دو برس ہوئے تھے۔ ابھی تک وہ اُس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اُس نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں دوسری باتوں کے ساتھ اس پر بھی غور کیا۔

’’میں شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاؤنگا۔ یہ کوئی ضروری چیز نہیں۔ میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں۔ دنیا کہتی ہے۔ دنیا کہتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ منہ سے لگی ہوئی یہ چُھٹ ہی نہیں سکتی۔ میں اسے بالکل چھوڑ دوں گا۔ میں اس خیال کو غلط ثابت کردونگا۔ ‘‘

یہ سوچتے ہوئے حمید نے خود کو ایک ہیرو محسوس کیا۔ پھر ایک دم اُس کے دماغ میں خدا کا خیال آیا جس نے اسے تباہی سے بچا لیا تھا۔

’’مجھے شکر بجا لانا چاہیے کہ میرے سینے میں نور پیدا ہو گیا ہے۔ میں نہ جانے کتنی دیر تک اس کھائی میں پڑا رہتا۔ ‘‘

وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اوپر آسمان پر گدلے بالوں میں چاند صابن کے جھاگ لگے گالوں کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ ہوا خُنک تھی۔ فضا بالکل خاموش تھی۔ حمید پر خدا کے رعب اور شراب نوشی سے بچ جانے کے احساس نے رقت طاری کر دی۔ اس نے شکرانے کا سجدہ کرنا چاہا۔ وہیں پتھریلی زمین پر اس نے گھٹنے ٹیک کر اپنا ماتھا رگڑنا چاہا اس خیال سے کہ اسے کوئی دیکھ لے گا وہ کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ یُوں خدا کی نگاہوں میں اس کی وقعت بڑھ جائے گی وہ ڈبکی لگانے کے انداز میں جُھکا اوراپنی پیشانی گلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پتھریلے فرش کے ساتھ جوڑ دی۔ جب وہ اُٹھا تو اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا آدمی محسوس کیا۔ ا س نے جب آس پاس کی اونچی دیواروں کو دیکھا تو وہ اسے اپنے قد کے مقابلے میں بہت پست معلوم ہوئیں۔ اس واقعہ کے ڈیڑھ مہینے بعد اسی کمرے میں جہاں اب حمید بیٹھا اپنی سات برس کی پرانی تصویر پر رشک کھا رہا تھا۔ اس کا دوست ملک آیا۔ اندر آتے ہی اس نے اپنی جیب سے بلیک اینڈ وائٹ کا ادھا نکالا اور زور سے میز پر رکھ کر کہا

’’حمید آؤ۔ آج پئیں اور خوب پئیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو اور لائیں گے۔ ‘‘

حمید اس قدر متحیر ہُوا کہ وہ اس سے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ ملک نے دوسری جیب سے سوڈے کی بوتل نکالی، تپائی پر سے گلاس اٹھا کر اس میں شراب اُنڈیلی۔ سوڈے کی بوتل انگوٹھے سے کھولی، اور حمید کی متحیر آنکھوں کے سامنے وہ دو پیگ غٹاغٹ پی گیا۔ حمید نے تتلاتے ہوئے کہا۔

’’لیکن۔ لیکن۔ اُس روز تم نے مجھے اِتنا بُرا بھلا کہا تھا۔ ‘‘

ملک نے ایک قہقہہ بلند کیا۔

’’تم نے مجھ سے شرارت کی۔ میں نے بھی اس کے جواب میں تم سے شرارتاً کچھ کہہ دیا۔ مگر بھئی ایمان کی بات ہے جو مزہ اس روز جِن کے دو پیگ پینے میں آیا ہے زندگی بھر کبھی نہیں آئے گا۔ لو اَب چھوڑو اس قصے کو۔ وِسکی پیو۔ جِن وِن بکواس ہے۔ شراب پینی ہو تو وِسکی پینی چاہیے۔ ‘‘

یہ سُن کر حمید کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ جو سجدہ اس نے گلی میں کیا تھا ٹھنڈے فرش سے نکل کر اس کی پیشانی پر چپک گیا ہے۔ یہ سجدہ بھوت کی طرح حمید کی زندگی سے چمٹ گیا تھا۔ اس نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے پھر پینا شروع کیا۔ مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہُوا۔ اُن سات برسوں میں جو اس کی پرانی تصویر اور اس کے درمیان کھلے ہُوئے تھے یہ ایک سجدہ بے شمار مرتبہ حمید کو اس کی اپنی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کر چکا تھا۔ اس کی خودی، اس کی تخلیقی قوت، اُس کی زندگی کی وہ حرارت جس سے حمید اپنے ماحول کو گرما کے رکھنا چاہتا تھا اس سجدے نے قریب قریب سرد کردی تھی۔ یہ سجدہ اس کی زندگی میں ایک ایسی خراب بریک بن گئی تھی جو کبھی کبھی اپنے آپ اُس کے چلتے ہُوئے پہیوں کو ایک دھچکے کے ساتھ ٹھہرا دیتی تھی۔ سات برس کی پرانی تصویر اُس کے سامنے میز پر پڑی تھی۔ جب سارا واقعہ اس کے دماغ میں پوری تفصیل کے ساتھ دہرایا جا چکا تھا تو اس کے اندر ایک ناقابل بیان اضطراب پیدا ہو گیا۔ وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اُسکو قے ہونے والی ہے۔ وہ گھبرا کر اُٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اس نے اپنا ماتھا رگڑنا شروع کردیاجیسے وہ اس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سر جُھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کرکے اس نے تھکی ہُوئی آواز میں کہا۔

’’اے خدا، میرا سجدہ مجھے واپس دیدے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سبز سینڈل

’’آپ سے اب میرا نباہ بہت مشکل ہے۔ مجھے طلاق دے دیجیے‘‘

’’لاحول ولا کیسی باتیں منہ سے نکال رہی ہو۔ تم میں سب سے بڑا عیب ایک یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً تم پر ایسے دورے پڑتے ہیں کہ ہوش و حواس کھو دیتی ہو‘‘

’’آپ تو بڑے ہوش و حواس کے مالک ہیں۔ چوبیس گھنٹے شراب کے نشے میں دُھت رہتے ہیں‘‘

’’میں شراب ضرور پیتا ہوں لیکن تمہاری طرح بِن پئے مدہوش نہیں رہتا۔ واہی تباہی نہیں بکتا۔ ‘‘

’’گویا میں واہی تباہی بک رہی تھی‘‘

’’یہ میں نے کب کہا۔ لیکن تم خود سوچو یہ طلاق لینا کیا ہے‘‘

’’بس میں لینا چاہتی ہوں۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا ذرا بھر خیال نہ ہو اس سے طلاق نہ مانگی جائے تو اور کیا مانگا جائے؟‘‘

’’تم طلاق کے علاوہ اور سب چیزیں مجھ سے مانگ سکتی ہو‘‘

’’آپ مجھے دے ہی کیا سکتے ہیں؟‘‘

’’یہ ایک نیا الزام تم نے مجھ پر دھرا۔ تمہاری ایسی خوش نصیب عورت اور کون ہو گی۔ گھر میں۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی خوش نصیبی پر‘‘

’’اس پر لعنت نہ بھیجو۔ معلوم نہیں تم کس بات پر ناراض ہو۔ لیکن میں تمھیں خلوصِ دل سے یقین دلاتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے‘‘

’’خدا مجھے اس محبت سے پناہ دے‘‘

’’اچھا۔ چھوڑو ان جلی کٹی باتوں کو۔ بتاؤ، بچیاں اسکول چلی گئیں‘‘

’’آپ کو ان سے کیا دلچسپی ہے۔ اسکول جائیں یا جہنم میں۔ میں تو دُعا کرتی ہوں مر جائیں۔ ‘‘

’’کسی روز تمہاری زبان مجھے جلتے چمٹے سے باہر کھینچنا پڑے گی۔ شرم نہیں آتی کہ اپنی اولاد کے لیے ایسی بکواس کر رہی ہو۔ ‘‘

’’میں نے کہا میرے ساتھ ایسی بد کلامی نہ کیجیے۔ شرم آپ کو آنی چاہیے کہ ایک عورت سے جو آپ کی بیوی ہے اور جس کا احترام آپ پر فرض ہے اس سے آپ بازاری انداز میں گفتگو کررہے ہیں۔ اصل میں یہ سب آپ کی بُری سُوسائٹی کا قصور ہے‘‘

’’اور جو تمہارے دماغ میں خلل ہے اُس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’آپ اور کون؟‘‘

’’قصور وار ہمیشہ مجھے ہی ٹھہراتی ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا تمھیں کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’مجھے کیا ہوا ہے۔ جو ہوا ہے صرف آپ کو ہوا ہے۔ ہر وقت میرے سر پر سوار رہتے ہیں۔ میں آپ سے کہہ چکی ہوں۔ مجھے طلاق دے دیجیے۔ ‘‘

’’کیا دوسری شادی کرنے کا ارادہ ہے۔ مجھ سے اُکتا گئی ہو‘‘

’’تھو ہے آپ پر۔ مجھے کوئی ایسی ویسی عورت سمجھا ہے۔ ‘‘

’’طلاق لے کر کیا کرو گی؟‘‘

’’جہاں سینگ سمائے چلی جاؤں گی۔ محنت مزدوری کروں گی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گی‘‘

’’تم محنت مزدوری کیسے کر سکو گی۔ صبح نو بجے اٹھتی ہو۔ ناشتہ کر کے پھر لیٹ جاتی ہو۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کم از کم تین گھنٹے سوتی ہو۔ خود کو دھوکا تو نہ دو‘‘

’’جی ہاں، میں تو ہر وقت سوئی رہتی ہوں۔ آپ ہیں کہ ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔ ابھی کل آپ کے دفتر سے ایک آدمی آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے افسر صاحب کو جب دیکھو میز پر سر رکھے انٹا غفیل ہوتے ہیں‘‘

’’وہ کون تھا اُلو کا پٹھا‘‘

’’آپ اپنی زُبان درست کیجیے‘‘

’’بھئی مجھے تاؤ آگیا تھا۔ غصے میں آدمی کو اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا‘‘

’’مجھے آپ پر اتنا غصہ آرہا ہے لیکن میں نے ایسا کوئی غیر مہذب لفظ استعمال نہیں کیا۔ انسان کو ہمیشہ دائرہ ءِ تہذیب میں رہنا چاہیے۔ مگر یہ سب آپ کی بری سوسائٹی کی وجہ ہے جو آپ ایسے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں‘‘

’’میں تم سے پوچھتا ہوں، میری بُری سُوسائٹی کون سی ہے‘‘

’’وہ کون ہے جو خود کو کپڑے کا بہت بڑا تاجر کہتا ہے۔ اُس کے کپڑے آپ نے کبھی ملاحظہ کیے۔ بڑے ادنیٰ قسم کے اور وہ بھی میلے چکٹ۔ یوں تو وہ بی اے ہے، لیکن اس کی عادات و اطوار اٹھنا بیٹھنا ایسا واہیات ہے کہ گھن آتی ہے‘‘

’’وہ مرد مجذوب ہے‘‘

’’یہ کیا بلا ہوتی ہے‘‘

’’تم نہیں سمجھو گی۔ مجھے بیکار وقت ضائع کرنا پڑے گا‘‘

’’آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ ہمیشہ ایک بات کرنے پر بھی ضائع ہو جاتا ہے‘‘

’’تم اصل میں کہنا کیا چاہتی ہو‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ جو کہنا تھا، کہہ دیا۔ بس مجھے طلاق دے دیجیے تاکہ میری جان چھٹے۔ ان ہر روز کے جھگڑوں سے میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے‘‘

’’تمہاری زندگی تو محبت سے بھرے ہوئے ایک کلمے سے بھی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟‘‘

’’اس کا علاج صرف طلاق ہے‘‘

’’تو بُلاؤ کسی مولوی کو۔ تمہاری اگر یہی خواہش ہے تو میں انکار نہیں کروں گا۔ ‘‘

’’میں کہاں سے بُلاؤں مولوی کو‘‘

’’بھئی طلاق تم چاہتی ہو۔ اگر مجھے لینا ہوتی تو میں دس مولوی چٹکیوں میں پیدا کر لیتا۔ مجھ سے تم کو اس سلسلے میں کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے تم جانو، تمہارا کام جانے‘‘

’’آپ میرے لیے اتنا کام بھی نہیں کرسکتے‘‘

’’جی نہیں‘‘

’’آپ تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ آپ کو مجھ سے بے پناہ محبت ہے‘‘

’’درست ہے۔ رفاقت کی حد تک۔ مفارقت کے لیے نہیں‘‘

’’تو میں کیا کروں‘‘

’’جو جی میں آئے کرو۔ اور دیکھو مجھے اب زیادہ تنگ نہ کرو۔ کسی مولوی کو بلوا لو۔ وہ طلاق نامہ لکھ دے میں اس پردستخط کر دُوں گا۔ ‘‘

’’حق مہر کا کیا ہو گا؟‘‘

’’طلاق چونکہ تم خود طلب کر رہی ہو اس لیے اس کے مطالبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘

’’واہ جی واہ‘‘

’’تمہارے بھائی بیرسٹر ہیں۔ ان کو خط لکھ کر پوچھ لو۔ جب عورت طلاق چاہے تو وہ اپنا حق مہر طلب نہیں کرسکتی‘‘

’’تو ایسا کیجیے کہ آپ مجھے طلاق دے دیں‘‘

’’میں ایسی بے وقوفی کیوں کرنے لگا۔ مجھے تو تم سے پیار ہے‘‘

’’آپ کے یہ چونچلے مجھے پسند نہیں۔ پیار ہوتا تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے؟‘‘

’’تم سے میں نے کیا بد سلوکی کی ہے‘‘

’’جیسے آپ جانتے ہی نہیں۔ ابھی پرسوں کی بات ہے آپ نے میری نئی ساڑھی سے اپنے جوتے صاف کیے‘‘

’’خدا کی قسم نہیں‘‘

’’تو اور کیا فرشتوں نے کیے تھے‘‘

’’میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ کی تینوں بچیاں اپنے جوتوں کی گرد آپ کی ساڑھی سے جھاڑ رہی تھیں۔ میں نے ان کو ڈانٹا بھی تھا‘‘

’’وہ ایسی بد تمیز نہیں ہیں‘‘

’’کافی بد تمیز ہیں۔ اس لیے کہ تم ان کو صحیح تربیت نہیں دیتی ہو۔ اسکول سے واپس آئیں تو اُن سے پوچھ لینا کہ وہ ساڑھی کا ناجائز استعمال کر رہی تھیں یا کہ نہیں‘‘

’’مجھے ان سے کچھ پوچھنا نہیں ہے‘‘

’’تمہارے دماغ کو آج معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ اصل وجہ معلوم ہو جائے تو میں کوئی نتیجہ قائم کر سکوں۔ ‘‘

’’آپ نتیجے قائم کرتے رہیں گے لیکن میں اپنا نتیجہ قائم کر چکی ہوں۔ بس آپ مجھے طلاق دے دیجیے۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا مطلقاً خیال نہ ہو اس کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ ٗ‘

’’میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے‘‘

’’آپ کو معلوم ہے کل عید ہے‘‘

’’معلوم ہے۔ کیوں؟۔ کل ہی تو میں بچیوں کے لیے بُوٹ لایا ہوں اور ان کے فراکوں کے لیے میں نے آج سے آٹھ روز پہلے تمھیں ساٹھ روپے دیے تھے‘‘

’’یہ روپے دے کر آپ نے بڑا میرے باپ پر احسان کیا‘‘

’’احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بات کیا ہے‘‘

’’بات یہ ہے کہ ساٹھ روپے کم تھے۔ تین بچوں کے لیے آرکنڈی چالیس روپے میں آئی۔ فی فراک درزی نے سات روپے لیے۔ بتائیے آپ نے مجھ پر اور ان بچیوں پر کون سا کرم کیا‘‘

’’باقی روپے تم نے ادا کر دیے‘‘

’’ادا نہ کرتی تو فراک سلتے کیسے؟‘‘

’’تو یہ روپے مجھ سے ابھی لے لو۔ میرا خیال ہے ساری ناراضی اسی بات کی تھی‘‘

’’میں کہتی ہوں کل عید ہے‘‘

’’ہاں ہاں! مجھے معلوم ہے۔ میں دو مُرغ منگوا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ سویاں بھی۔ تم نے بھی کچھ انتظام کیا؟‘‘

’’میں خاک انتظام کروں گی‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں چاہتی تھی کل سبز ساڑھی پہنوں۔ سبز سینڈل کے لیے آرڈر دے آئی تھی، آپ سے کئی مرتبہ کہا کہ جائیے اور چینیوں کی دکان سے دریافت کیجیے کہ وہ سینڈل ابھی تک بنے ہیں یا نہیں۔ مگر آپ کو مجھ سے کوئی دلچسپی ہو تو آپ وہاں جاتے‘‘

’’لاحول ولا۔ یہ جھگڑا سارا سبز سینڈل کا تھا؟۔ جناب آپ کے یہ سینڈل میں پرسوں ہی لے آیا تھا۔ آپ کی الماری میں پڑے ہیں۔ آپ تو سارا وقت سوئی رہتی ہیں۔ آپ نے الماری کھولی ہی نہیں ہو گی۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو ۱۱۔ اگست ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

ساڑھے تین آنے

’’میں نے قتل کیوں کیا۔ ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب تک میں اس کے تمام عواقب و عواطف سے آپ کو آگاہ نہیں کروں گا، آپ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ مگر اس وقت آپ لوگوں کی گفتگو کا موضوع جرم اور سزا ہے۔ انسان اور جیل ہے۔ چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں، اس لیے میری رائے نادرست نہیں ہوسکتی۔ مجھے منٹو صاحب سے پورا اتفاق ہے کہ جیل، مجرم کی اصلاح نہیں کرسکتی۔ مگر یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔ اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔ ہتھکڑیاں ہیں اور وہ ننگِ انسانیت بیڑیاں۔ میں قانون کا یہ زور پہن چکا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر رضوی نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے موٹے موٹے حبشیوں کے سے ہونٹ عجیب انداز میں پھڑکے۔

’’اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھیں، جو قاتل کی آنکھیں لگی تھیں چمکیں۔ ہم سب چونک پڑے تھے۔ جب اس نے یکا یک ہماری گفتگو میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ ہمارے قریب کرسی پر بیٹھا کریم ملی ہوئی کوفی پی رہا تھا۔ جب اس نے خود کو متعارف کرایا تو ہمیں وہ تمام واقعات یاد آگئے جو اس کی قتل کی واردات سے وابستہ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچا لی تھی۔ وہ اسی دن رہا ہوکر آیا تھا۔ بڑے شائستہ انداز میں وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’معاف کیجیے گا منٹو صاحب۔ آپ لوگوں کی گفتگو سے مجھے دلچسپی ہے۔ میں ادیب تو نہیں، لیکن آپ کی گفتگو کا جو موضوع ہے اس پر اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہوں۔ پھر اس نے کہا۔

’’میرا نام صدیق رضوی ہے۔ لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا، میں اس سے متعلق تھا۔ ‘‘

میں نے اس قتل کے متعلق صرف سرسری طور پر پڑھا تھا۔ لیکن جب رضوی نے اپنا تعارف کرایا تو میرے ذہن میں خبروں کی تمام سرخیاں ابھر آئیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کرسکتی ہے۔ میں خود محسوس کررہا تھا۔ ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔ رضوی نے جب یہ کہا۔

’’یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔

’’تو مجھے بڑی تسکین ہوئی۔ میں نے یہ سمجھا جیسے رضوی نے میرے خیالات کی ترجمانی کردی ہے۔ کریم ملی ہوئی کوفی کی پیالی ختم کرکے رضوی نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔ منٹو صاحب آدمی جرم کیوں کرتا ہے۔ جرم کیا ہے، سزا کیا ہے۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکرا ہوتا ہے، بہت اچھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے!‘‘

نصیر نے کہا۔

’’آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ ‘‘

رضوی نے ایک اور کافی کا آرڈر دیا اور نصیر سے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں جناب، لیکن میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اپنے مشاہدات کی بنا پر عرض کیا ہے ورنہ یہ موضوع بہت پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو۔ فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا۔ شاید کسی اور ملک کا ہو۔ آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گے، جرم اور سزا پر اس نے کافی لکھا ہے۔ مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یاد ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو صاحب، غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔ کیا تھا؟۔ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کوجرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا کہ وہ سیڑھی کون سی ہے۔ اس کے کتنے زینے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ سیڑھی ضرور ہے، اس کے زینے بھی ہیں، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، بے شمار ہیں، ان کو گننا، ان کا شمار کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے

’’منٹو صاحب، حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد و شمار کرتی ہیں، حکومتیں ہر قسم کی شماری کرتی ہیں۔ اس سیڑھی کے زینوں کی شماری کیوں نہیں کرتیں۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں۔ میں نے قتل کیا۔ لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کرکے کیا۔ حکومت نے مجھے وعدہ معاف گواہ بنا لیا، اس لیے کہ قتل کا ثبوت اس کے پاس نہیں تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں۔ وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب میرے نزدیک نہیں ہیں، ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے۔ میں اس فاصلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہیں۔ ‘‘

ہم سب رضوی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ وہ بظاہر تعلیم یافتہ معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن اس کی گفتگو سے ثابت ہوا کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ میں نے اس سے کچھ کہا ہوتا، لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں۔ اسی لیے میں اس کی گفتگو میں حائل نہ ہوا۔ اس کے لیے نئی کوفی آگئی تھی۔ اسے بنا کر اس نے چند گھونٹ پیے اور کہنا شروع کیا۔

’’خدا معلوم میں کیا بکواس کرتا رہا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ہر وقت ایک آدمی کا خیال رہا ہے۔ اس آدمی کا، اس بھنگی کا جو ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ ‘‘

نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر؟‘‘

رضوی نے یخ آلود جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر۔ اور جو اسکو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا۔ یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیر محفوظ ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گُو مُوت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں، کیونکہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب وغریب ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ رضوی سے قتل بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ تھوڑے عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ نصیر نے اس سے کہا۔

’’آپ پھگو بھنگی کی بات کررہے تھے۔ ؟‘‘

رضوی نے اپنی چھدری مونچھوں پرسے کوفی رومال کے ساتھ پونچھی۔

’’جی ہاں۔ پھگو بھنگی چور ہونے کے باوجود، یعنی وہ قانون کی نظروں میں چور تھا۔ لیکن ہماری نظروں میں پورا ایماندار۔ خدا کی قسم میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا، ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے، اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے، میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میں دو دن کا بھوکا تھا، مجبوراً مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے۔ دو مہینوں کی تنخواہ۔ حضور اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی سلائی کے پیسے مارے ہوئے تھے۔ حضور، میں پہلے بھی چوریاں کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے بٹوے سے نکال لیے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لیے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا۔ حضور میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ میں چور نہیں ہوں۔ کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ مجھے چوریاں کرنی پڑیں۔ اور حالات ہی ایسے تھے کہ میں پکڑا گیا۔ مجھ سے بڑے بڑے چور موجود ہیں لیکن وہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ حضور، اب میرا بچہ بھی نہیں ہے، بیوی بھی نہیں ہے۔ لیکن حضور افسوس ہے کہ میرا پیٹ ہے، یہ مر جائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے، حضور مجھے معاف کردو۔ لیکن حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس قید بامشقت کی سزا دے دی۔ ‘‘

رضوی بڑے بے تکلف انداز میں بول رہا تھا۔ اس میں کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ الفاظ خود بخود اس کی زبان پر آتے اور بہتے چلتے جارہے ہیں۔ میں بالکل خاموش تھا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نصیر پھر اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ پھگو کی ایمانداری کی بات کررہے تھے؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

رضوی نے جیب سے بیٹری نکال کر سلگائی۔

’’میں نہیں جانتا قانون کی نگاہوں میں ایمانداری کیا چیز ہے، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ پھگو بھنگی نے بھی بڑی ایمانداری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایماندار کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں، اور سچ پوچھیے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا۔ ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے، میرے لیے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے، دوسری میں بری۔ ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے بال بڑھانا گناہ سمجھا جاتا ہے، لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں۔ اگریہ بال بڑھانا واقعی گناہ ہے تو خدا ان کو سزا کیوں نہیں دیتا اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو، ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو۔ اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ۔ خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو، کیونکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم خدا تو ہو۔ ‘‘

رضوی کی اس تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خامکاری ہی اصل میں تاثر کا باعث بھی۔ وہ باتیں کرتا تھا تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے دل ہی دل میں گفتگو کررہا ہے۔ اس کی بیڑی بجھ گئی تھی، غالباً اس میں تمباکو کی گانٹھ اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس نے پانچ چھ مرتبہ اس کو سلگانے کی کوشش کی۔ جب نہ سلگی تو پھینک دی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’منٹو صاحب، پھگو مجھے اپنی تمام زندگی یاد رہے گا۔ آپ کو بتاؤں گا تو آپ ضرورکہیں گے کہ جذباتیت ہے، لیکن خدا کی قسم جذباتیت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ وہ میرا دوست نہیں تھا۔ نہیں وہ میرا دوست تھا کیونکہ اس نے ہر بار خود کو ایسا ہی ثابت کیا۔ ‘‘

رضوی نے جیب میں سے دوسری بیڑی نکالی مگر وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو اس نے قبول کرلیا۔

’’شکریہ۔ منٹو صاحب، معاف کیجیے گا، میں نے اتنی بکواس کی ہے حالانکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی اس لیے کہ ماشاء اللہ آپ۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹی۔

’’رضوی صاحب، میں اس وقت منٹو نہیں ہوں صرف سعادت حسن ہوں۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھئے۔ میں بڑی دلچسپی سے سن رہا ہوں۔ ‘‘

رضوی مسکرایا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ آپ کی بڑی نوازش ہے۔ پھر وہ نصیرسے مخاطب ہوا۔

’’میں کیا کہہ رہا تھا۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’آپ پھگو کی ایمانداری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے۔ ‘‘

’’جی ہاں‘‘

یہ کہہ کراس نے میرا پیش کیا ہوا سگریٹ سلگایا۔

’’منٹو صاحب، قانون کی نظروں میں وہ عادی چور تھا۔ بیڑیوں کے لیے ایک دفعہ اس نے آٹھ آنے چرائے تھے۔ بڑی مشکلوں سے، دیوار پھاند کر جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تو اس کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قریب قریب ایک برس تک وہ اس کا علاج کراتا رہا تھا، مگر جب میرا ہم الزام دوست جرجی بیس بیڑیاں اسکی معرفت بھیجتا تو وہ سب کی سب پولیس کی نظریں بچا کر میرے حوالے کردیتا۔ وعدہ معاف گوا ہوں پر بہت کڑی نگرانی ہوتی ہے، لیکن جرجی نے پھگو کو اپنا دوست اور ہمراز بنا لیا تھا۔ وہ بھنگی تھا، لیکن اس کی فطرت بہت خوشبودار تھا۔ شروع شروع میں جب وہ برجی کی بیڑیاں لے کر میری پاس آیا تو میں نے سوچا، اس حرامزادے چور نے ضرور ان میں سے کچھ غائب کرلی ہوں گی، مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعی طور پر ایماندار تھا۔ بیڑی کے لیے اس نے آٹھ آنے چراتے ہوئے اپنے ٹخنے کی ہڈی تڑوا لی تھی مگر یہاں جیل میں اس کو تمباکو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا، وہ جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں تمام و کمال میرے حوالے کردیتا تھا، جیسے وہ امانت ہوں۔ پھر وہ کچھ دیر ہچکچانے کے بعد مجھ سے کہتا، بابو جی، ایک بیڑی تو دیجیے اور میں اس کو صرف ایک بیڑی دیتا۔ انسان بھی کتنا کمینہ ہے!‘‘

رضوی نے کچھ اس انداز سے اپنا سر جھٹکا جیسے وہ اپنے آپ سے متنفر ہے۔

’’جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھ پر بہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرجی البتہ میرے مقابلے میں بہت آزاد تھا۔ اس کو رشوت دے دلا کر بہت آسانیاں مہیا تھیں۔ کپڑے مل جاتے تھے۔ صابن مل جاتا تھا۔ بیڑیاں مل جاتی تھیں۔ جیل کے اندر رشوت دینے کے لیے روپے بھی مل جاتے تھے۔ پھگو بھنگی کی سزا ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے، جب اس نے آخری بار جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں مجھے لا کر دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ جیل سے نکلنے پر خوش نہیں تھا۔ میں نے جب اس کو مبارکباد دی تو اس نے کہا۔

’’بابو جی، میں پھر یہاں آجاؤں گا۔ بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھاناہی پڑتا ہے۔ بابو جی آپ بڑے اچھے ہیں، مجھے اتنی بیڑیاں دیتے رہے۔ خدا کرے آپ کے سارے دوست بری ہو جائیں۔ جرجی بابو آپ کو بہت چاہتے ہیں۔ ‘‘

نصیر نے یہ سن کر غالباً اپنے آپ سے کہا۔

’’اور اس کو صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں سزا ملی تھی۔ ‘‘

رضوی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ پی کر ٹھنڈے انداز میں کہا۔

’’جی ہاں صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں۔ اور وہ بھی خزانے میں جمع ہیں۔ خدا معلوم ان سے کس پیٹ کی آگ بجھے گی!‘‘

رضوی نے کافی کا ایک اور گھونٹ پیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’ہاں منٹو صاحب، اس کی رہائی میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔ مجھے دس روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے یہ روپے ایک سلسلے میں سنتری کو رشوت کے طور پر دینے تھے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے کاغذ پنسل مہیا کرکے جرجی کو ایک خط لکھا تھا اور پھگو کے ذریعہ سے اس تک بھجوایا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی طرح دس روپے بھیج دے۔ پھگو ان پڑھ تھا۔ شام کو وہ مجھ سے ملا۔ جرجی کا رقعہ اس نے مجھے دیا۔ اس میں دس روپے کا سرخ پاکستانی نوٹ قید تھا۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ یہ لکھا تھا۔ رضوی پیارے دس روپے بھیج تو رہا ہوں، مگر ایک عادی چور کے ہاتھ، خدا کرے تمہیں مل جائیں۔ کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جارہاہے۔ ‘‘

میں نے یہ تحریر پڑھی تو پھگو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگااگر اس نے دس روپے چرائے ہوتے تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سزا ملتی؟‘‘

یہ کہہ کررضوی نے کافی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کافی ہاؤس سے باہر چلا گیا۔ 26جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

رشوت

احمد دین کھاتے پیتے آدمی کا لڑکا تھا۔ اپنے ہم عمر لڑکوں میں سب سے زیادہ خوش پوش مانا جاتا تھا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ بالکل خستہ حال ہو گیا۔ اس نے بی اے کیا اور اچھی پوزیشن حاصل کی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس کے والد خان بہادر عطاء اللہ کا ارادہ تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ پاسپورٹ لے لیا گیا تھا۔ سوٹ وغیرہ بھی بنوا لیے گئے تھے کہ اچانک خان بہادر عطاء اللہ نے جو بہت شریف آدمی تھے، کسی دوست کے کہنے پر سٹہ کھیلنا شروع کر دیا۔ شروع میں انہیں اس کھیل میں کافی منافع ہوا۔ وہ خوش تھے کہ چلو میرے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کا خرچ ہی نکل آیا۔ مگر لالچ بری بلا ہے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کی پشت پر چوگنی ہے۔ جیتتے ہی چلے جائیں گے۔ ان کا وہ دوست جس نے ان کو اس راستے پر لگایا تھا بار بار ان سے کہتا تھا:

’’خان صاحب۔ ماشاء اللہ آپ قسمت کے دھنی ہیں۔ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جائے۔ ‘‘

اور وہ اس قسم کی چاپلوسیوں کے ذریعے خان بہادر سے سو دو سو روپے اینٹھ لیتا۔ خان بہادر کو بھی کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی اس لیے کہ انہیں بغیر محنت کے ہزاروں روپے مل رہے تھے۔ احمد دین ذہین اور باشعور لڑکا تھا۔ اس نے ایک دن اپنے باپ سے کہا:

’’ابا جی! یہ آپ نے جو سٹہ بازی شروع کی ہے۔ معاف کیجیے گا، اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ ‘‘

خان بہادر نے تیز لہجے میں اس سے کہا:

’’برخوردار ! تمہیں میرے کاموں میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔ جتنا روپیہ آرہا ہے، وہ میں اپنے ساتھ قبر میں لے کر نہیں جاؤں گا۔ یہ سب تمہارے کام آئے گا۔ ‘‘

احمد دین نے بڑی معصومیت سے پوچھا:

’’لیکن ابا جی ٗ یہ کب تک آتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کل کو یہ جانے بھی لگے۔ ‘‘

خان بہادر بھِنّا گئے۔

’’بکو مت۔ آتا ہی رہے گا۔ ‘‘

روپیہ آتا رہا۔ لیکن ایک دن خان بہاد نے کئی ہزار روپے کی رقم داؤ پر لگا دی۔ لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ دس ہزار ہاتھ سے دینے پڑے۔ تاؤ میں آ کر انہوں نے بیس ہزار روپے کا سٹہ کھیلا۔ ان کو یقین تھا کہ ساری کسر پوری ہو جائے گی۔ لیکن صبح جب انہوں نے اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بیس ہزار بھی گئے۔ خان بہادر ہمت ہارنے والے نہیں تھے انہوں نے اپنا ایک مکان گروی رکھ کر پچاس ہزار روپے لیے ٗ اور سب کا سب اللہ کا نام لے کر چاندی کے سٹے پر لگا دیے۔ اللہ نام تو خیر اللہ کا نام ہے۔ وہ چاندی اور سونے کی مارکیٹ پر کیا کنٹرول کرسکتا ہے۔ صبح ہوئی تو خان بہادر کو معلوم ہوا کہ چاندی کا بھاؤ ایک دم گر گیاہے۔ ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ دل کے دورے پڑنے لگے۔ احمد دین نے ان سے کہا

’’ابا جی۔ چھوڑ دیجیے اس بکواس کو۔ ‘‘

خان بہادر نے بڑے غصے میں اپنے بیٹے سے کہا:

’’تم بکواس مت کرو۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔ ‘‘

احمد دین نے مودّبانہ کہا: لیکن ابا جان۔ یہ جو آپ کو دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے ٗ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایسے عارضے انسان کو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ‘‘

احمد دین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:

’’جی ہاں۔ انسان کو ہر قسم کے عارضے ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ایسی چیز کھا لیں جس میں ہیضے کے جراثیم ہوں اور۔ ‘‘

خان بہادر کو اپنے بیٹے کی یہ گفتگو پسند نہیں تھی۔

’’تم چلے جاؤ یہاں سے۔ میرا مغز مت چاٹو۔ میں ہر چیز سے واقف ہوں۔ ‘‘

احمد دین نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا :

’’یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ کوئی انسان بھی ہر چیز سے واقف ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

احمد دین چلا گیا۔ خان بہادر اندرونی طور پر خود کو بہت بڑا چغد سمجھنے لگے تھے۔ لیکن وہ اپنے اس احساس کو اپنے لڑکے پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بستر پر لیٹے انہوں نے بار بار خود سے کہا:

’’خان بہادر عطاء اللہ۔ تم خان بہادر بنے پھرتے ہو۔ لیکن اصل میں تم اوّل درجے کے بیوقوف ہو۔ ‘‘

’’تم اپنے بیٹے کی بات پر کان کیوں۔ نہیں دھرتے۔ جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے صحیح ہے۔ ‘‘

’’جتنا روپیہ تم نے حاصل کیا تھا ٗ اس سے دگنا روپیہ تم ضائع کر چکے ہو۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘

خان بہادر جھنجھلا گئے اور بڑ بڑانے لگے:

’’سب درست ہے۔ سب درست ہے۔ ایک میں ہی غلط ہوں لیکن میرا غلط ہونا ہی صحیح ہو گا۔ بعض اوقات غلطیاں بھی صحت کا سامان مہیا کر دیتی ہیں۔ ‘‘

پندرہ دن بستر پر لیٹے اور علاج کرانے کے بعد جب وہ کسی قدر ہی تندرست ہوئے تو انہوں نے اپنا ایک اور مکان بیچ دیا۔ یہ پچیس ہزار روپے میں بکا۔ خان صاحب نے یہ سب روپے سٹے پر لگا دیے۔ ان کو پوری امید تھی کہ وہ اپنی اگلی پچھلی کسر پوری کر لیں گے مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ ان پچیس ہزار روپوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ احمد دین پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنے باپ کو کس طرح سمجھائے۔ وہ اس کی کوئی بات سنتے ہی نہیں تھے۔ احمد دین نے آخری کوشش کی۔ اور ایک دن جب اس کا باپ اپنے کمرے میں حقہ پی رہا تھا اور معلوم نہیں کس سوچ میں غرق تھا کہ اس سے ڈرتے ڈرتے مخاطب ہوا:

’’ابا جی۔ ‘‘

خان بہادر صاحب سوچ میں اس قدر غرق تھے کہ انہوں نے اپنے لڑکے کی آواز ہی نہیں سُنی۔ احمد دین نے آواز کو ذرا بلند کیا:

’’ابا جی۔ ابا جی !‘‘

خان بہادر چونکے۔

’’کیا ہے۔ ‘‘

احمد دین کانپ گیا۔

’’کچھ نہیں ابا جی۔ مجھے۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنا تھی‘‘

خان بہادر نے حقے کی نڑی اپنے منہ سے جدا کی۔

’’کہو ٗ کیا کہنا ہے۔ ‘‘

احمد دین نے بڑی لجاجت سے کہا:

’’مجھے یہ عرض کرنا ہے۔ یہ درخواست کرنا تھی۔ کہ۔ آپ سٹہ کھیلنا بند کر دیں۔ ‘‘

حقے کا ایک زور دار کش لے کر وہ احمد دین پر برس پڑے۔

’’تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے۔ میں جانوں میرا کام۔ کیا اب تک تمہارے ہی مشورے سے میں سارے کام کرتا رہا ہوں۔ دیکھو ٗ میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ آئندہ میرے معاملے میں کبھی دخل نہ دینا۔ مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں۔ سمجھے!‘‘

احمد دین کی گردن جھکی ہوئی تھی:

’’جی میں سمجھ گیا۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر وہ اپنے باپ کے کمرے سے نکل گیا۔ سٹے کی لت شراب کی عادت سے بھی کہیں زیادہ بری ہوتی ہے۔ خان بہادر اس میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے کہ جائیداد۔ سب کی سب اس خطرناک کھیل کی نذر ہو گئی۔ مرحوم بیوی کے زیور تھے۔ وہ بھی بک گئے۔ اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ان کے دل کے عارضے نے کچھ ایسی شکل اختیار کی کہ وہ ایک روز صبح سویرے غسل خانے میں داخل ہوتے ہی دھم سے گرے اور ایک سیکنڈ کے اندر اندر دم توڑ دیا۔ احمد دین کو ظاہر ہے کہ اپنے باپ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ کئی دن نڈھال رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرئے۔ بی اے پاس تھاٗ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ مگر اب سارا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ اس کے باپ نے ایک پھوٹی کوڑی بھی اس کیلیے نہیں چھوڑی تھی۔ مکان۔ جس میں وہ تنہا رہتا تھا۔ رہن تھا۔ یہاں سے اس کو کچھ عرصے کے بعد نکلنا پڑا گھر کی مختلف چیزیں بیچ کر اس نے چار پانچ سو روپے حاصل کیے اور ایک غلیظ محلے میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا مگر پانچ سو روپے کب تک اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ایک برس تک بڑی کفایت شعاری سے گزارا کر لیتا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا۔ احمد دین نے سوچا:

’’مجھے ملازمت کر لینی چاہیے ! چاہے وہ کیسی بھی ہو۔ پچاس ساٹھ روپے ماہوار مل جائیں۔ تو گزارا ہو جائے گا۔ ‘‘

اس کی ماں کو مرے اتنے ہی برس ہو گئے تھے جتنے اس کو جیتے ٗ احمد دین نے حالانکہ اس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ نہ اس کو دودھ پینا نصیب ہوا تھا۔ پھر بھی وہ اکثر اس کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہتا۔ احمد دین نے ملازمت حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اتنے بے روزگار اور بے کار آدمی تھے کہ وہ خود کو اس بے روزگاری اور بے کاری کے سمندر میں ایک قطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن اس احساس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری۔ اور اپنی تگ و دو جاری رکھی۔ بہت دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اگر کسی افسر کی مٹھی گرم کی جائے تو ملازمت ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لیکن وہ مٹھی گرم کرنے کا مسالا کہاں سے لاتا۔ ایک دفتر میں جب وہ ملازمت کے سلسلے میں گیا تو ہیڈ کلرک نے اس سے شفیقانہ انداز میں کہا:

’’دیکھو برخوردار۔ یوں خالی خولی کام نہیں چلے گا۔ جس اسامی کے لیے تم نے درخواست دی ہے ٗ اس کے لیے پہلے ہی دو سو پچاس درخواستیں وصول ہو چکی ہیں۔ میں بڑا صاف گو آدمی ہوں۔ پانچ سو روپے اگر تم دے سکتے ہو تو یہ ملازمت تمہیں یقیناً مل جائے گی۔ ‘‘

اب احمد دین پانچ سو روپے کہاں سے لاتا۔ اس کے پاس بمشکل بیس یا تیس روپے تھے۔ چنانچہ اس نے ہیڈ کلرک سے کہا:

’’جناب ! میرے پاس اتنے روپے نہیں۔ آپ ملازمت دلوا دیجیے تنخواہ میں سے آدھی رقم آپ لے لیا کریں۔ ‘‘

ہیڈ کلرک ہنسا۔

’’تم ہمیں بیوقوف بناتے ہو۔ جاؤ، چلتے پھرتے بنو۔ ‘‘

احمد دین بہت دیر تک چلتا پھرتا رہا۔ مگر اسے اطمینان سے کہیں بیٹھنے کا موقع نہ ملا۔ جہاں جاتا، رشوت کا سوال سامنے ہوتا۔ دنیا شاید رشوت ہی کی وجہ سے عالم وجود میں آئی ہے۔ شاید خدا کو کسی نے رشوت دی ہو اور اس نے یہ دنیا بنا دی ہو۔ احمد دین کے پاس جب پیسہ بھی نہ رہا تو مزدوری شروع کر دی۔ بوجھ اٹھاتا اور ہر روز دوروپے کما لیتا۔ مہنگائی کا زمانہ تھا۔ گو دونوں وقت کا کھانا بھٹیار خانے میں کھاتا لیکن اسے کافی خرچ برداشت کرنا پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ ایک آنہ بچ رہتا۔ احمد دین مزدوری کرتا۔ مگر اس کے دل و دماغ پر رشوت کا چکر گھومتا رہتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی لعنت تھی۔ اور وہ چاہتا تھا کہ اس سے کسی طرح نجات حاصل کرئے۔ اور مزدوری چھوڑ کر کوئی ایسی ملازمت اختیار کرے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ آخر وہ بی اے پاس تھا۔ فرسٹ کلاس فرسٹ۔ اس نے سوچا کہ نماز پڑھنا شروع کر دے۔ خدا سے دعا مانگے کہ وہ اس کی سنے! چنانچہ اس نے باقاعدہ پانچ وقت کی نماز شروع کر دی۔ یہ سلسلہ ایک وقت تک جاری رہا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس دوران میں اس کے پاس تیس روپے جمع ہو چکے تھے۔ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ڈاک خانے گیا تیس روپے کا پوسٹل آرڈر لیا اور لفافے میں ڈال کر ساتھ ہی ایک رقعہ بھی رکھ دیا جس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا:۔

’’اللہ میاں۔ میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو۔ میرے پاس تیس روپے ہیں جو تمہیں بھیج رہا ہوں۔ مجھے کہیں اچھی سی ملازمت دلوا دو۔ بوجھ اٹھا اٹھا کر میری کمر دوہری ہو گئی ہے۔ ‘‘

لفافے پر اس نے پتہ لکھا :

’’بخدمت جناب اللہ میاں۔ مالکِ کائنات‘‘

چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو

’’کائنات‘‘

اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا۔ اس کا نام محمد میاں تھا ٗ خط کے ذریعے اس نے احمد دین کو بلایا تھا۔ وہ

’’کائنات‘‘

کے دفتر گیا جہاں مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا۔ آخر رشوت کام آ ہی گئی۔

سعادت حسن منٹو

رحمتِ خداوندی کے پھول

زمیندار، اخبار میں جب ڈاکٹر راتھر پر رحمت خدا وندی کے پھول برستے تھے تو یار دوستوں نے غلام رسول کا نام ڈاکٹر راتھر رکھ دیا۔ معلوم نہیں کیوں، اس لیے کہ غلام رسول کو ڈاکٹرراتھر سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایم۔ بی بی۔ ایس میں تین بار فیل ہو چکا تھا۔ مگر کہاں ڈاکٹرراتھر، کہاں غلام رسول۔ ڈاکٹرراتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا جو اشتہاروں کے ذریعے سے قوتِ مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔ خدا اور اس کے رسول کی قسمیں کھا کھا کر اپنی دواؤں کو مجرب بتاتا تھا اور یوں سینکڑوں روپے کماتا تھا۔ غلام رسول کو ایسی دوائیوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ شادی شدہ تھا، اور اس کو قوت مردمی بڑھانے والی چیزوں کی کوئی حاجت نہیں تھی، لین پھر بھی اس کے یار دوست اس کو ڈاکٹر راتھر کہتے تھے۔ اس کا یا کلپ کو اس نے تسلیم کرالیا تھا۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ یہ نہیں تھا۔ اس کے دوستوں کو یہ نام پسند آگیا تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ غلام رسول کے مقابلے میں ڈاکٹرراتھر کہیں زیادہ موڈرن ہے۔ اب غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر ہی کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ اس لیے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ سب سے بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر نہیں تھا اور نہ بننا چاہتا تھا۔ وہ ایک اطاعت مند بیٹے کی طرح اپنے ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ اتنے عرصے سے کہ اب کالج کی عمارت اس کی زندگی کا ایک جزو بن گئی تھی۔ وہ یہ سمجھنے لگا تھا کہ کالج اس کے کسی بزرگ کا گھر ہے جہاں اس کو ہر روز سلام عرض کرنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اس کے والدین مصر تھے کہ وہ ڈاکٹری پاس کرے۔ اس کے والد کو یقین تھا کہ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اپنے بڑے لڑکے کے متعلق مولوی صباح الدین نے اپنی بیوی سے پیش گوئی کی تھی کہ وہ بیرسٹر ہو گا۔ چنانچہ جب اس کو ایل، ایل، بی پاس کراکے لندن بھیجا گیا توہ بیرسٹر بن کر ہی آیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی پریکٹس دوسرے بیرسٹوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی۔ گو ڈاکٹر راتھر تین مرتبہ ایم۔ بی بی۔ ایس کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا، مگر اس کے بات کو یقین تھا کہ وہ انجام کاربہت بڑا ڈاکٹر بنے گا اور ڈاکٹر راتھر اپنے باپ کا اس قدر فرماں بردار تھا کہ اس کو بھی یقیناًتھا کہ ایک روز وہ لنڈن کے ہارلے اسٹریٹ میں بیٹھا ہو گا اور اس کی ساری دنیا میں دھوم مچی ہو گی۔ ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ ایک خوبی یہ تھی کہ سادہ لوح تھا۔ لیکن سب سے بڑی برائی اس میں یہ تھی کہ پیتا تھا اور اکیلا پیتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس نے بہت کوشش کی کہ اپنے ساتھ کسی اور کو نہ ملائے لیکن یار دوستوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان کو اس کا ٹھکانا معلوم ہو گیا۔

’’سیوائے بار‘ میں شام کو سات بجے پہنچ جائے مجبوراً ڈاکٹر راتھر کو نہیں اپنے ساتھ پلانا پڑتی۔ یہ لوگ اس کا گن گاتے، اس کے مستقبل کے متعلق بھی حوصلہ افزا باتیں کرتے۔ راتھر نشے کی ترنگ میں بہت خوش ہوتا اوراپنی جیب خالی کردیتا۔ پانچھ چھ مہینے اسی طرح گزر گئے۔ اس کو اپنے باپ سے دو سوروپے ماہوار ملتے تھے۔ رہتا الگ تھا۔ مکان کا کرایہ بیس روپے ماہانہ تھا۔ دن اچھے تھے۔ روز راتھر کی بیوی کو فاقے کھینچنے پڑتے، لیکن پھر بھی اس کا ہاتھ تنگ ہو گیا اس لیے کہ راتھر کو دوسروں کو پلانا پڑتی تھی۔ ان دنوں شراب بہت سستی تھی۔ آٹھ روپے کی ایک بوتل۔ ادھر چار روپے آٹھ آنے میں ملتا تھا۔ مگر ہرروز ایک ادھار لینا، یہ ڈاکٹر راتھر کی بساط سے باہر تھا اس نے سوچا کہ گھرمیں پیا کرے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا۔ اس کی بیوی فوراً طلاق لے لیتی اس کو معلوم ہی تھا کہ اس کا خاوند شراب کا عادی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو شرابیوں سے سخت نفرت تھی، نفرت ہی نہیں، ان سے بہت خوف آتا تھا۔ کسی کی سرخ آنکھیں دیکھتی توڈر جاتی، ہائے، ڈاکٹر صاحب، کتنی ڈراؤنی آنکھیں تھیں اس آدمی کی۔ ایسا لگتا تھا کہ شرابی ہے۔ ‘‘

اور ڈاکٹرراتھر دل ہی دل میں سوچتا کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں، کیا پی کر آنکھوں میں سرخ ڈورے آتے ہیں؟۔ کیا اس کی بیوی کو اس کی آنکھیں ابھی تک سرخ نظر نہیں آئیں؟۔ کب تک اس کاراز راز رہے گا؟۔ منہ سے بو تو ضرور آتی ہو گی۔ کیا وجہ ہے کہ اس کی بیوی نے کبھی نہیں سونگھی۔ پھر وہ یہ سوچتا

’’نہیں‘‘

میں بہت احتیاط برتتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ منہ پرے کرکے اس سے بات کی ہے۔ ایک دفعہ اس نے پوچھا تھا کہ آپ کی آنکھیں آج سرخ کیوں ہیں تو میں نے اس سے کہا تھا، دھول پڑی گئی ہے۔ اسی طرح ایک بار اس نے دریافت کیا تھا، یہ بو کسی ہے، تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا، آج سیگار پیا تھا۔ بہت بو ہوتی ہے کم بخت میں۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر اکیلا پینے کا عادی تھا۔ اس کو ساتھی نہیں چاہیے تھے۔ وہ کنجوس تھا۔ اس کے علاوہ اس کی جیب بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ دوستوں کو پلائے اس نے بہت سوچا کہ ایسی ترکیب کیا ہوسکتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی یہ مسئلہ کچھ اس طرح حل ہو کہ وہ گھرمیں پیا کرے جہاں اس کے دوستوں کو شرکت کرنے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر راتھر، پورا ڈاکٹر تو نہیں تھا، لیکن اس کو ڈاکٹری کی چند چیزوں کا علم ضرور تھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ دوائیں بوتلوں میں ڈال کر دی جاتی ہیں۔ اور ان پر اکثر یہ لکھا ہوتا ہے۔

’’شیک دی بوٹل بی فور یوز‘‘

۔ اس نے اتنے علم میں اپنی ترکیب کی دیواریں استوار کیں۔ آخر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نے یہ سوچا کہ وہ گھر ہی میں پیا کرے گا۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ وہ دوا کی بوتل میں شراب ڈلوا کر گھر رکھ دے گا۔ بیوی سے کہے گا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اس کے استاد ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے اپنے ہاتھ سے یہ نسخہ دیاہے اور کہا ہے کہ شام کو ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک پانی کے ساتھ پیا کرے، انشاء اللہ شفا ہو جائے گی۔ یہ ترکیب تلاش کرلینے پر ڈاکٹر راتھر بے حد خوش ہوا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار اس نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے ایک نیا امریکا دریافت کرلیا ہے، چنانچہ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’نسیمہ، آج میرے سرد میں بڑا درد ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے پھٹ جائے گا۔ نسیمہ نے بڑے تردو سے کہا۔

’’کالج نہ جائیے آج۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر مسکرایا۔

’’پگلی، آج تو مجھے ضرور جانا چاہیے۔ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ صاحب سے پوچھوں گا۔ ان کے ہاتھ میں بڑی شفاہے۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، ضرور جائیے۔ میرے متعلق بھی ان سے بات کیجیے گا۔ ‘‘

نسیمہ کو سلان الرحم کی شکایت تھی جس سے ڈاکٹر راتھر کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر اس نے کہا۔

’’ہاں ہاں بات کروں گا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ میرے لیے کوئی نہایت ہی کڑی اور بدبو دار دوا تجویز کردیں گے۔ ‘‘

’’آپ خوڈد ڈاکٹر ہیں، دوائیں مٹھائیاں تو نہیں ہوتیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن بدبو دار دواؤں سے مجھے نفرت ہے۔ ‘‘

’’آپ دیکھیے تو سہی کیسی دوا دیتے ہیں۔ ابھی سے کیوں ایسی رائے قائم کررہے ہیں آپ؟‘‘

’’اچھا‘‘

کہہ کر ڈاکٹر راتھر اپنے سر کو دباتا کالج چلا گیا۔ شام کو وہ دوا کی بوتل میں وسکی ڈلوا کر لے آیا اور اپنی بیوی سے کہا۔

’’میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ڈاکٹر سیدرمضان علی شاہ ضرور کوئی ایسی دوا لکھ کر دیں گے۔ جو بے حد کڑی اور بدبودار ہو گی۔ لو، ذرا سے سونگھو۔

’’بوتل کا کارک اتار کر اس نے بوتل کا منہ اپنی بیوی کی ناک کے ساتھ لگا دیا۔ اس نے سونگھا اور ایک دم ناک ہٹا کر کہا۔

’’بہت واہیات سی بو ہے۔ ‘‘

’’اب ایسی دوا کون پیے؟‘‘

’’نہیں نہیں۔ آپ ضرور پئیں گے۔ سر کا درد کیسے دور ہو گا۔ ‘‘

’’ہو جائے گا اپنے آپ۔ ‘‘

’’اپنے آپ کیسے دور ہو گا۔ یہی تو آپ کی بری عادت ہے۔ دوا لاتے ہیں مگر استعمال نہیں کرتے۔ ‘‘

’’یہ بھی کوئی دوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے شراب ہے۔ ‘‘

’’آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انگریزی دواؤں میں شراب ہوا کرتی ہے۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی دواؤں پر!‘‘

ڈاکٹر راتھر کی بیوی نے خوراک کے نشان دیکھے اور حیرت سے کہا۔

’’اتنی بڑی خوراک!‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بُرا سا منہ بنایا۔

’’یہی تو مصیبت ہے!‘‘

’’آپ مصیبت مصیبت نہ کہیں، اللہ کا نام لے کر پہلی خوراک پئیں۔ پانی کتناڈ النا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بوتل اپنی بیوی کے ہاتھ سے لی اورمصنوعی طور پر بادل ناخواستہ کہا۔

’’سوڈا منگوانا پڑے گا۔ عجیب و غریب دوا ہے۔ پانی نہیں سوڈا۔ ‘‘

یہ سن کر نسیمہ نے کہا۔

’’سوڈا اس لیے کہا ہو گا کہ آپ کا معدہ خراب ہے۔ ‘‘

’’خدا معلوم کیا خراب ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کرڈاکٹر راتھر نے ایک خوراک گلاس میں ڈالی۔

’’بھئی خدا کی قسم میں نہیں پیوں گا۔ ‘‘

بیوی نے بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’نہیں نہیں۔ پی جائیے۔ ناک بند کرلیجیے۔ میں اسی طرح فیور مکسچر پیا کرتی ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بڑے نخروں کے ساتھ شام کا پہلا پیگ پیا۔ بیوی نے اس کو شاباش دی اور کہا۔

’’پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک۔ خدا کے فضل و کرم سے درد یوں چٹکیوں میں دورہو جائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے سارا ڈھونگ کچھ ایسے خلوص سے رچایا تھا کہ اس کومحسوس ہی نہ ہوا کہ اس نے دوا کے بجائے شراب پی ہے، لیکن جب ہلکا سا درد اس کے دماغ میں نمودار ہوا تو وہ دل ہی دل میں خوب ہنسا۔ ترکیب خوب تھی۔ اس کی بیوی نے عین پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک گلاس میں انڈیلی۔ اس میں سوڈا ڈالا اور ڈاکٹر راتھر کے پاس لے آئی۔

’’یہ لیجئے دوسری خوراک۔ کوئی ایسی بری بُو تو نہیں ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے گلاس پکڑ کر بڑی بددلی سے کہا، تمہیں پینا پڑے تو معلوم ہو۔ خدا کی قسم شراب کی سی بُو ہے۔ ذرا سونگھ کر تو دیکھو!‘‘

’’آپ تو بالکل میری طرح ضد کرتے ہیں۔ ‘‘

’’نسیمہ، خدا کی قسم ضد نہیں کرتا۔ ضد کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، لیکن۔ خیر، ٹھیک ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے گلاس منہ سے لگایا اور شام کا دوسرا پیگ غٹاغٹ چڑھا گیا۔ تین خوراکیں ختم ہو گئیں۔ ڈاکٹرراتھر نے کسی قدر افاقہ محسوس کیا، لیکن دوسرے روز پھر سر میں درد عود کر آیا۔ ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ مرض آہستہ آہستہ دور ہو گا، لیکن دوا کا استعمال برابر جاری رہنا چاہیے۔ خدا معلوم کیا نام لیا تھا انھوں نے بیماری کا۔ کہا تھا معمولی سر کا درد ہوتا تو دو خوراکوں ہی سے دور ہو جاتا۔ مگر تمہارا کیس ذرا سیریس ہے۔

’’یہ سن کر نسیمہ نے تردو سے کہا۔

’’تو آپ کو دوا اب باقاعدہ پینی پڑے گی۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ تم وقت پر دے دیا کرو گی تو قہر درویش برجان درویش پی لیا کروں گا۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک خوراک سوڈے میں حل کرکے اس کو دی۔ اس کی بو ناک میں گھسی تو متلی آنے لگی مگر اس نے اپنے خاوند پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔ کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ وہ پینے سے انکار کردے گا۔ ڈاکٹر راتھر نے تین خوراکیں اپنی بیوی کے بڑے اصرار پر پیں۔ وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خاوند اس کا کہا مان رہا ہے، کیونکہ بیوی کی بات ماننے کے معاملے میں ڈاکٹر بہت بدنام تھا۔ کئی دن گزر گئے۔ خوراکیں یپنے اور پلانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ ڈاکٹر راتھر بڑا مسرور تھا کہ اس کی ترکیب سود مند ثابت ہوئی۔ اب اسے دوستوں کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ ہر شام گھر میں بسر ہوتی۔ ایک خوراک پیتا اور لیٹ کر کوئی افسانہ پڑھنا شروع کردیا۔ دوسری خوراک عین پندرہ منٹ کے بعد اس کی بیوی تیار کرکے لے آتی۔ اسی طرح تیسری خوراک اس کو من مانگے مل جاتی۔ ڈاکٹر راتھر بے حد مطمئن تھا۔ اتنے دن گزر جانے پر اس کے اور اس کی بیوی کے لیے یہ دوا کا سلسلہ ا یک معمول ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر راتھر اب ایک پوری بوتل لے آیا تھا۔ اس کا لیبل وغیرہ اتار کر اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔

’’کیمسٹ میرا دوست ہے۔ اس نے مجھ سے کہا۔ آپ ہر روز تین خوراکیں لیتے ہیں، دوا آپ کو یوں مہنگی پڑتی ہے۔ پوری بوتل لے جائیے۔ اس میں سے چھوٹی نشانوں والی بوتل میں ہر روز تین خوراکیں ڈال لیا کیجیے۔ بہت سستی پڑے گی اس طرح آپکو یہ دوا!‘‘

یہ سن کر نسیمہ کوخوش ہوئی کہ چلو بچت ہو گئی۔ ڈاکٹر راتھر بھی خوش تھا کہ اس کے کچھ پیسے بچ گئے، کیونکہ روزانہ تین پیگ لینے میں اسے زیادہ دام دینے پڑے تھے۔ اور بوتل آٹھ روپوں میں مل جاتی تھی۔ کالج سے فارغ ہو کر ڈاکٹر راتھر ایک دن گھر آیا تو اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر راتھر نے اس سے کہا۔

’’نسیمہ کھانا نکالو، بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘

نسیمہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا۔

’’کھانا۔ کیا آپ کھانا کھا نہیں چکے۔ ‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’نسیمہ نے ایک لمبی، نہیں‘ کہی۔

’’آپ۔ کھانا کھا چکے ہیں۔ میں نے آپ کو دیا تھا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے حیرت سے کہا۔

’’کب دیا تھا۔ میں ابھی ابھی کالج سے آرہا ہوں۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک جمائی لی۔

’’جھوٹ ہے۔ آپ کالج تو گئے ہی نہیں۔ ‘‘

ڈاکٹرراتھر نے سمجھا، نسیمہ مذاق کررہی ہے، چنانچہ مسکرایا۔

’’چلو اٹھو، کھانا نکالوسخت بھوک لگی ہے۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک اور لمبی

’’نہیں‘‘

کہی۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔

’’کب؟۔ حد ہو گئی ہے۔ چلو اٹھو، مذاق نہ کرو۔

’’یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی کا بازو پکڑا۔

’’خدا کی قسم میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ ‘‘

نسیمہ کھکھلا کر ہنسی۔

’’چوہے۔ آپ یہ چوہے کیوں نہیں کھاتے؟‘‘

ڈاکٹرراتھرنے بڑے تعجب سے پوچھا۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ ‘‘

نسیمہ نے سنجیدگی اختیار کرکے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے خاوند سے کہا۔

’’میں۔ میں۔ سرد میں درد تھا میرے۔ آپکی دوا کی دو خو۔ خو۔ خوراکیں پی ہیں۔ چوہے۔ چوہے بہت ستاتے ہیں۔ ان کو مارنے والی گولیاں لے آئیے۔ کھانا؟۔ نکالتی ہوں کھانا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا۔

’’تم سو جاؤ، میں کھانا کھا چکا ہوں۔ ‘‘

نسیمہ زور سے ہنسی۔

’’میں نے جھوٹ تو نہیں کہا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے جب دوسرے کمرے میں جا کر مضطرب حالت میں زمیندار کا تازہ پرچہ کھولا تو اس کو ایک خبر کی سرخی نظر آئی۔ ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول۔ ‘‘

اس کے نیچے یہ درج تھا کہ پولیس نے اس کو دھوکا دہی کے سلسلے میں گرفتار کرلیا ہے۔ غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خدا وندی کے پھول برس رہے ہیں۔ 25جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

رَتی، ماشہ، تولہ

زینت اپنے کالج کی زینت تھی۔ بڑی زیرک ٗ بڑی ذہین اور بڑے اچھے خدو خال کی صحتمند نوجوان لڑکی۔ جس طبیعت کی وہ مالک تھی اس کے پیشِ نظر اُس کی ہم جماعت لڑکیوں کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا۔ کہ وہ اتنی مقدار پشد عورت بن جائے گی۔ ویسے وہ جانتی تھیں کہ چائے کی پیالی میں صرف ایک چمچ شکر ڈالنی ہے زیادہ ڈالدی جائے تو پینے سے انکار کر دیتی ہے قمیص اگر آدھا انچ بڑی یا چھوٹی سِل جائے تو کبھی نہیں پہنے گی۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند سے بھی نپی تلی محبت کرے گی۔ زینت سے ایک لڑکے کو محبت ہو گئی وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اُس کا اور زینت کا مکان آمنے سامنے تھا ایک دن اُس لڑکے نے جس کا نام جمال تھا اُسے کوٹھے پر اپنے بال خشک کرتے دیکھا تو وہ سر تاپا محبت کے شربت میں شرابور ہو گیا۔ زینت وقت کی پابند تھی صبح ٹھیک چھ بجے اُٹھتی۔ اپنی بہن کے دو بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی اس کے بعد خود نہاتی اور سر پر تولیہ لپیٹ کر اوپر کوٹھے پر چلی جاتی اور اپنے بال جو اُس کے ٹخنوں تک آتے تھے سُکھاتی کنگھی کرتی اور نیچے چلی جاتی جوڑا وہ اپنے کمرے میں کرتی تھی۔ اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر عمل کے وقت معین تھے۔ جمال گر صبح ساڑھے چھ بجے اُٹھتا اور حوائج ضروری سے فارغ ہو کر اپنے کوٹھے پر پہنچتا تو اُسے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے کہ زینت اپنے بال سُکھا کر نیچے چلی گئی ہوتی تھی ایسے لمحات میں وہ اپنے بالوں میں اُنگلیوں سے کنگھی کرتا اور ادھر ادھر دیکھ کے واپس نیچے چلا جاتا اس کو سیڑھیاں اُترتے ہوئے یوں محسوس ہوتا کہ ہر زینہ کنگھی کا ایک دندانہ ہے جو اُترتے ہوئے ایک ایک کر کے ٹوٹ رہا ہے۔ ایک دن جمال نے زینت کو ایک رقعہ بھیجا وقت پر وہ کوٹھے پر پہنچ گیا تھا جبکہ زینت اپنے ٹخنوں تک لمبے بال سُکھا رہی تھی اس نے یہ تحریر جو خوشبودار کاغذ پر تھی روڑے میں لپیٹ کر سامنے کوٹھے پر پھینک دی زینت نے یہ کاغذی پیراہن میں ملبوس پتھر اُٹھایا۔ کاغذ اپنے پاس رکھ لیا اور پتھر واپس پھینک دیا۔ لیکن اُس کو جمال کی شوخئ تحریر پسند نہ آئی اور وہ سر تا پا فریاد بن گئی اُس نے لکھا تھا۔ زلف برہم سنبھال کر چلیے راستہ دیکھ بھال کر چلیے موسمِ گُل ہے اپنی بانھوں کو میری بانھوں میں ڈال کر چلیے موسمِ گل قطعاً نہیں تھا۔ اس لیے اس آخری شعر نے اُس کو بہت کوفت پہنچائی اس کے گھر میں کئی گملے تھے جن میں بوٹے لگے ہوئے تھے یہ سب کے سب مرجھائے ہوئے تھے جب اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کا ردّعمل یہ ہوا کہ اس نے مُرجھائے بے گُل بُوٹے اکھاڑے اور اس کنستر میں ڈال دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ ایک زُلف اس کی برہم رہتی تھی۔ لیکن راستہ دیکھ بھال کر چلنے کا سوال کیا پیدا ہوتا تھا زینت نے سوچا کہ یہ محض شاعرانہ تُک بندی ہے لیکن اس کے بال ٹخنوں تک لمبے تھے۔ اسی دن جب اس کو یہ رقعہ ملا تو نیچے سیڑھیاں اُترتے ہوئے جب ایک زینے پر اپنی ایک بھانجی کے کان سے گری ہوئی سونے کی بالی اُٹھانی پڑی تو وہ اس کی سینڈل سے اُلجھ گئے اور گرتے گرتے بچی۔ چنانچہ اُس دن سے اُس نے راستہ دیکھ بھال کر چلنا شروع کیا۔ مگر اس کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر چلنے میں سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے زیادتی سمجھتی تھی اس لیے کہ موسم گل نہیں تھا موسم گل بھی ہوتا تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پھولوں سے بانہوں کا کیا تعلق ہے اس کے نزدیک بانہوں میں بانھیں ڈال کر چلنا بڑا واہیات بلکہ سوقیانہ ہے چنانچہ جب وہ دوسرے روز صبح ۶ بجے اُٹھی اور اپنی بھانجیوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ اتوار ہے اس کے دل و دماغ میں وہ دو شعر سوار تھے۔ اُس نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بچیوں کو تیار کرے گی اس کے بعد نہائے گی اور اپنے کمرے میں جا کر جمال کا رقعہ پڑھ کر اُسے جی ہی میں کوسے گی مگر اتوار ہونے کے باعث اس کا یہ تہیہ درہم برہم ہو گیا۔ اُسے وقت سے پہلے غسل کرنا پڑا حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کے اوقات کے معاملے میں بڑی پابند تھی۔ اُس نے غسل خانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا دو بالٹیوں سے پہلے نہاتی تھی دو بالٹیوں سے اب بھی نہائی۔ لیکن آہستہ آہستہ اُس نے نہاتے وقت اپنی بانھوں کو دیکھا۔ جو سڈول اور خوبصورت تھیں پھر اُسے جمال کی بانھوں کا خیال آیا لیکن اس نے ان کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ قمیص کی آستینوں کے اندر چھپی رہتی تھیں ان کے متعلق وہ کیا رائے قائم کرسکتی تھی بہر حال وہ اپنے گدرائے ہوئے بازو دیکھ کر مطمئن ہو گئی اور جمال کو بھول گئی۔ غسل میں کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ اپنے حسن و جمال کے متعلق اندازہ کرنے بیٹھ گئی تھی اس نے کافی دیر غور کرنے پر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ زیادہ حسین تو نہیں لیکن قبول صورت اور جوان ضرور ہے۔ جوان وہ بلا شبہ تھی۔ وہ چھوٹی مختصر سی ریشمی چیز جو اُس نے اپنے بدن سے اُتار کر لکس صابن کی ہوائیوں میں دھوئی تھی اُس کے سامنے ٹنگی تھی۔ یہ گیلی ہونے کے باوجود بہت سی چغلیاں کھا رہی تھی۔ اس کے بعد روڑے میں لپٹا ہوا ایک اور خط آیا اُس میں بے شمار اشعار تھے شعروں سے اُسے نفرت تھی اس لیے کہ وہ انھیں محبت کا عامیانہ ذریعہ سمجھتی تھی خط آتے رہے زینت وصول کرتی رہی لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ محبت کے شدید جذبے کی قائل نہیں تھی اس کو جمال پسند تھا اس لیے کہ وہ خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اُس کے متعلق وہ لوگوں سے بھی سُن چکی تھی کہ وہ بڑے اچھے خاندان کا لڑکا ہے شریف ہے اس کو اور کسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رہا غالباً یہی وجہ تھی ایک دن اُس نے اپنی نوکرانی کے دس سالہ بچے کے ہاتھ اس کو یہ رقعہ لکھ کر بھیج دیا۔

’’آپ کی رقعہ نویسی پر مجھے اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شعروں میں نہ ہوا کرے مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھے چاندی اور سونے کے ہتھوڑوں سے کُوٹ رہا ہے۔ یہ خط ملنے کے بعد جمال نے اشعار لکھنے بند کر دیے لیکن اُس کی نثر اُس سے بھی کہیں زیادہ جذبات سے پُر ہوتی تھی زینت کی طبع پر یہ بھی گراں گزرتی۔ وہ سوچتی یہ کیسا آدمی ہے وہ رات کو سوتی تو اپنا کمرہ بند کر کے قمیص اتار دیتی تھی اس لیے کہ اس کی نیند پر یہ ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔ مگر جمال تو اُس کی قمیص کے مقابلے میں کہیں زیادہ بوجھل تھا۔ وہ اُسے کبھی برداشت نہ کرسکتی لیکن اُس کو اس بات کا مل احساس تھا کہ وہ اس سے والہانہ محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زینت نے جمال کو کئی موقع دیے کہ وہ اس سے ہمکلام ہوسکے وہ اس سے جب پہلی بار ملا تو کانپ رہا تھا۔ کانپتے کانپتے اور ڈرتے ڈرتے اُس نے ایک ناول بغیر عنوان کے اپنی جیب سے نکالا اور زینت کو پیش کیا اسے پڑھیے میں۔ میں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور کانپتا لرزتا زینت کے گھر سے نکل گیا۔ زینت کو بڑا ترس آیا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اچھا ہوا۔ اس لیے کہ اُس کے پاس زیادہ وقت تخلیے کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابا ٹھیک ساڑھے سات بجے آنے والے تھے اور جمال سوا سات بجے چل دیا تھا۔ اس کے بعد جمال نے ملاقات کی درخواست کی تو زینت نے اسے کہلا بھیجا کہ وہ اس سے پلازہ میں شام کا پہلا شو شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مل سکے گی۔ زینت وہاں پندرہ منٹ پہلے پہنچی جو سہیلی اُس کے ساتھ تھی اُس کو کسی بہانے اِدھر اُدھر کر دیا دس منٹ اس نے باہر گیٹ کے پاس جمال کا انتظار کیا جب وہ نہ آیا تو کسی تکدر کے بغیر وہاں سے ہٹی اور اپنی سہیلی کو تلاش کر کے اندر سینما میں چلی گئی۔ جمال اُس وقت پہنچا جب وہ فرسٹ کلاس میں داخل ہو رہی تھی زینت نے اُسے دیکھا اس کے ملتجی چہرے اور اس کی معافی کی خواستگار آنکھوں کو مگر اُس نے اُس کو گیٹ کیپر کی بھی حیثیت نہ دی اور اندر داخل ہو گئی شو چونکہ شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اتنی نوازش کی کہ جمال کی طرف دیکھ کر گیٹ کیپر سے کہا

’’معاف کیجیے گا ہم لیٹ ہو گئے‘‘

جمال شو ختم ہونے تک باہر کھڑا رہا جب لوگوں کا ہجوم سینما کی بلڈنگ سے نکلا تو اس نے زینت کو دیکھا آگے بڑھ کے اس سے بات کرنا چاہی مگر اُس نے اُس کے ساتھ بالکل اجنبیوں سا سلوک کیا چنانچہ اُسے مایوس گھر لوٹنا پڑا۔ اُس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بال بنوانے اور نہا دھو کر کپڑے پہننے میں اسے دیر ہو گئی تھی۔ اُس نے رات کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایک خط لکھا جو معذرت نامہ تھا۔ وہ زینت کو پہنچا دیا یہ خط پڑھ کر جب وہ مقررہ وقت پر کوٹھے پر آئی تو جمال نے اس کے تیوروں سے محسوس کیا کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔ اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا زینت کو جمال سے شکایت رہتی کہ وہ خط بہت لمبے لکھتا ہے جو ضرورت سے زیادہ جذبات سے پُر ہوتے ہیں۔ وہ اختصار کی قائل تھی محبت اُس کو بھی جمال سے ہو چکی تھی مگر وہ اُس کے اظہار میں اپنی طبیعت کے موافق برتتی تھی آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہو گئی مگر ادھر دونوں کے والدین رضا مند نہیں ہوتے تھے بہر حال بڑی مشکلوں کے بعد یہ مرحلہ طے ہوا اور جمال کے گھر زینت دلہن بن کے پہنچ گئی حجلہ ءِ عروسی سجا ہوا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے جمال کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا عشق و محبت کا اُس نے چنانچہ عجیب و غریب حرکتیں کیں زینت کو سر سے پاؤں تک اپنے ہونٹوں کی سجدہ گاہ بنا ڈالا۔ زینت کو جذبات کا یہ بے پناہ بہاؤ پسند نہ آیا وہ اکتا گئی ٹھیک دس بجے سو جانے کی عادی تھی اُس نے جمال کے تمام جذبات ایک طرف جھٹک دئیے اور سو گئی۔ جمال نے ساری رات جاگ کر کاٹی زینت حسبِ معمول صبح ٹھیک چھ بجے اٹھی اور غسلخانے میں چلی گئی باہر نکلی تو اپنے ٹخنوں تک لمبے بالوں کا بڑی چابک دستی سے جوڑا بنانے میں مصروف ہو گئی اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ جمال سے مخاطب ہوئی۔

’’ڈارلنگ مجھے بڑا افسوس ہے۔ ‘‘

جمال اس ننھے سے جملے سے ہی خوش ہو گیا جیسے کسی بچے کو کھلونا مل گیا ہو۔ اُس نے دل ہی دل میں اس فضا ہی کو چومنا شروع کر دیا جس میں زینت سانس لے رہی تھی وہ اُس سے والہانہ طور پر محبت کرتا۔ اس قدر شدید انداز میں کہ زینت کی مقدار پسند طبیعت برداشت نہیں کرتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ایک طریقہ بن جائے جس کے مطابق محبت کی جائے۔ ایک دن اس نے جمال سے کہا۔ آپ مجھ سے یقیناًناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے محبت کا جواب تار کے سے اختصار سے ملتا ہے لیکن میں مجبور ہوں میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں۔ لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہیے آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمال نے بہت خیال رکھا۔ ناپ تول کر بیوی سے محبت کی مگر ناکام رہا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں میں ناچاقی ہو گئی۔ زینت نے بہت سوچا کہ طلاق ہی بہتر صورت ہے جو بد مزگی دُور کرسکتی ہے چنانچہ جمال سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اُس نے طلاق کے لیے جمال کو کہلوا بھیجا اس نے جواب دیا کہ مر جائے گا مگر طلاق نہیں دے گا۔ وہ اپنی محبت کا گلا ایسے بے رحم طریقے سے گھونٹنا نہیں چاہتا۔ زینت کے لیے جمال کی یہ محبت بہت بڑی مصیبت بن گئی تھی اُس نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں پہلے روز جب فریقین حاضر ہوئے تو عجیب تماشا ہوا جمال نے زینت کو دیکھا تو اس کی حالت غیر ہو گئی اُس کے وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی سماعت اور کسی تاریخ پر ملتوی کر دی جائے۔ زینت کو بڑی کوفت ہوئی وہ چاہتی تھی کہ جلد کوئی فیصلہ ہو۔ اگلی تاریخ پر جمال حاضر عدالت نہ ہوا۔ کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے مہینے کی تاریخ پر بھی وہ نہ آیا تو زینت نے ایک رقعہ لکھ کر جمال کو بھیجا کہ وہ اُسے پریشان نہ کرے اور جو تاریخ مقرر ہوئی ہے اس پر وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ تاریخ سولہ اگست تھی رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی زینت حسبِ معمول صبح چھ بجے اٹھی نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے وکیل کے ساتھ تانگے میں عدالت پہنچ گئی اُس کو یقین تھا کہ جمال وہاں موجود ہو گا اس لیے کہ اس نے اس کو لکھ بھیجا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب اُس نے اِدھر اُدھر دنظر دوڑائی اور اسے جمال نظر نہ آیا تو اُس کو بہت غصہ آیا۔ مقدمہ اُس دن سر فہرست تھا۔ مجسٹریٹ نے عدالت میں داخل ہوتے ہی تھوڑی دیر کے بعد جمال اور زینت کو بلایا۔ زینت اندر جانے ہی والی تھی کہ اُس کو جمال کی آواز سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس کا چہرہ خون میں لِتھڑا ہوا تھا بالوں میں کیچڑ کپڑوں میں خون کے دھبے لڑکھڑاتا ہوا وہ اس کے پاس آیا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا۔ زینت مجھے افسوس ہے۔ میری موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں۔ ‘‘

جمال کے ماتھے پر گہرا زخم تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ زینت نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور پٹی بنا کر اس پر باندھ دی اور جمال نے جذبات سے مغلوب ہو کر وہیں عدالت کے باہر اس کا منہ چوم لیا۔ اُس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بلکہ وکیل سے کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ ‘‘

جمال دس دن ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں زینت اس کی بڑی محبت سے تیمار داری کرتی رہی آخری دن جب جمال مشین پر اپنا وزن دیکھ رہا تھا تو اس نے زینت سے دبی زُبان سے پوچھا۔ میں اب تم سے کتنی محبت کرسکتا ہوں‘‘

’’زینت مسکرائی۔ ایک من۔ ‘‘

جمال نے وزن کرنے والی مشین کی سوئی دیکھی اور زینت سے کہا۔

’’مگر میرا وزن تو ایک من تیس سیر ہے۔ میں یہ فالتو تیس سیر کہاں غائب کروں‘‘

زینت ہنسنے لگی۔

سعادت حسن منٹو

رامیشگر

میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا آیا پرویز مجھے پسند ہے یا نہیں۔ کچھ دنوں سے میں اس کے ایک ناول کا بہت چرچا سُن رہا تھا۔ بوڑھے آدمی، جن کی زندگی کا مقصد دعوتوں میں شرکت کرنا ہے اس کی بہت تعریف کرتے تھے اور بعض عورتیں جو اپنے شوہروں سے بگڑ چکی تھیں اس بات کی قائل تھیں کہ وہ ناول مصنف کی آئندہ شاندار ادبی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ میں نے چند ریویو پڑھے۔ جو قطعاً متضاد تھے۔ بعض ناقدوں کا خیال تھا کہ مصنف ایسا معیاری ناول لکھ کر بہتر ناول نگاروں کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر یہ ناول نہ پڑھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ خیال سما گیا ہے کہ کسی ایسی کتاب کو جو ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دے ایک سال ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ میعاد گزر جانے پر آپ اسے عموماً نظر انداز کر دیں گے۔ میری پرویز سے ایک دعوت میں ملاقات ہوئی۔ میری میزبان دو ادھیڑ عمرکی عورتیں تھیں۔ دعوت میں ایک جوان لڑکی بھی شریک تھی، جو غالباً میزبان کی چھوٹی بہن تھی۔ اس کا نام عفت تھا۔ وہ خاصی تندرست اور قد آور تھی وہ ذرا زیادہ توانا اور لمبی ہوتی تو اور بھی بھلی معلوم ہوتی۔ پرویز بھی میرے پاس بیٹھا تھا۔ عمر یہی کوئی بائیس تیئس سال درمیانہ قد جسم کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ وہ ناٹامعلوم ہوتا۔ اس کی جلد سُرخ تھی جو اس کے چہرے کی ہڈیوں پر اکڑی ہوئی سی دکھائی دیتی تھی۔ ناک لمبی، آنکھیں نیلگوں اور سر کے بال بھورے رنگ کے۔ وہ بھورے رنگ کی جیکٹ اور گرے پتلون پہنے تھا۔ اُس کے لب و لہجے اور حرکات میں کوئی دلکشی نہ تھی اُسے صرف اپنی زُبان سے اپنی تعریف کرنے کی عادت تھی۔ اُسے اپنے ہمعصروں سے سخت نفرت تھی۔ اُس کی فطرت میں مزاح کی کمی نہ تھی۔ لیکن میں اُس سے پوری طرح محفوظ نہ ہوسکا۔ کیونکہ وہ تینوں عورتیں اُس کی ہر ایک بات پر یونہی لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ میں نہیں کہہ سکتا وہ ذہین تھا یا نہیں۔ اچھا ناول لکھ لینا کوئی ذہانت کی نشانی نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ ظاہری طور پر عام انسانوں سے ذرا مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے دو تین دن بعد اس کا ناول میرے ہاتھ لگا۔ میں نے اُسے پڑھا اُس میں آپ بیتی کا رنگ نمایاں تھا کرداروں کا تعلق درمیانے طبقہ کے ان لوگوں سے تھا جو تھوڑی آمدن ہونے پر بھی شاندار طریقے سے رہنے سہنے کی کوشش کرتے ہیں مزاح کا معیار بہت عامیانہ تھا۔ کیونکہ اس میں ان لوگوں کا صرف اس لیے منہ چڑایا گیا تھا کہ وہ غریب اور بوڑھے ہیں۔ پرویز کو اس بات کا قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ ان لوگوں کے مسائل کس درجہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ اس ناول کی مقبولیت کا سبب محبت کا وہ افسانہ ہے جو اُس کے پلاٹ کی جان ہے۔ انداز بیان میں کوئی ایسی پختگی نہ تھی۔ لیکن اُس کے مطالعے سے پڑھنے والے کے ذہن میں جنسیت کے شدید احساس کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔ میں نے پرویز کو کتاب کے بارے میں اپنی رائے لکھی اور ساتھ ہی لنچ پر بھی مدعو کیا۔ وہ بہت شرمیلا تھا۔ میں نے اُسے بیئر کا گلاس پیش کیا۔ اُس کی گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ اُس کے اندر ایک حجاب سا پیدا ہو گیا ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہا تھا مجھے وہ آداب سے عاری نظر آیا۔ وہ فضول سی باتیں کہہ کر اپنی الجھن کو مٹانے کے لیے قہقہہ لگاتا۔ اس کا مقصد اپنے ہمعصروں کے خیالات کی شدید مخالفت کرنا تھا۔ وہ قابل نفرت انسان تھا۔ ایسے انسان دنیا سے کچھ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اُنھیں اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کے ہاتھ پھیلے نظر نہیں آتے۔ وہ شہرت حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں۔ پرویز اپنے ناول کے متعلق خاموش تھا۔ پر جب میں نے اُس کی تعریف کی تو مارے شرم کے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اُسے اس کی اشاعت سے تھوڑے پیسے نصیب ہوئے تھے اور اب پبلشر اُسے آئندہ ناول لکھنے کے لیے کچھ رقم ماہانہ دے رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایسے پُرسکون مقام پر پہنچ کر اسے مکمل کرے جہاں زندگی کی ضروریات سستی میسر ہوسکیں۔ میں نے اُسے اپنے پاس چند دن بسر کرنے کی دعوت دی۔ اس دعوت نے اُس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا کر دی۔

’’میری موجودگی سے آپ کو تکلیف تو نہ ہو گی‘‘

’’قطعاً نہیں۔ میں تمہارے لیے خوراک اور ایک کمرے کا بندوبست کر دُوں گا۔

’’شکریہ۔ میں آپ کو اپنے ارادے سے جلد مطلع کر دُوں گا۔ ‘‘

یہ سچ ہے کہ اس وقت میں نے اسے دعوت دے دی۔ لیکن چار ہفتے گزرنے پر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ فضول انسان ہے اور اُسے اپنے پاس بلانا ٹھیک نہیں وہ یقیناًمیری خاموش زندگی میں مخل ہو گا۔ اُس نے اپنے خط میں جو مجھے اُس نے چار ہفتوں کے بعد لکھا تھا اس میں مایوس دورِ زندگی کا ذکر کیا تھا اور اُسی کے زیرِ اثر میں نے اُسے تار دے کر بُلا لیا۔ وہ آیا اور بہت مسرور ہوا۔ شام کو ڈنر سے فارغ ہو کر باغ میں بیٹھے۔ اس نے اپنے ناول کا ذکر چھیڑا اس کا پلاٹ ایک نوجوان مصنف اور ایک مغنیہ کارومان تھا۔ وہی پرانا تخیل۔ یہ ٹھیک ہے کہ پرویز کا ارادہ اس افسانے کو ایک نئے انداز سے لکھنے کا تھا اس نے اس کے متعلق بہت کچھ کہا اُسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ اپنے ہی خوابوں کو افسانہ کی صورت دینا چاہتا تھا۔ ایک ایسے خیالی نوجوان کے خواب جو یونہی اپنے ذہن میں اپنی ذات سے محبت کرنے والی ایک حد درجہ حسین اور نازک محبوبہ کے تخیل کو پالتا ہے۔ مجھے یہ نا پسند نہ تھا کہ وہ اپنی قوتِ بیان سے خون کو گرما کر شاعرانہ رنگ دے رہا ہے۔ میں نے اُس سے پوچھا۔ کیا تم نے کبھی کسی مغنیہ کو دیکھا‘‘

’’نہیں میں نے بہت سی آپ بیتیاں ضروری پڑھی ہیں۔ اور اُس کے ایک ایک نقطہ اور مختلف واقعات کوجانچنے کی کوشش کی ہے‘‘

’’اس سے کیا تمہارا مقصد پورا ہو گیا؟‘‘

’’غالباً‘‘

اُس نے اپنی خیالی مغنیہ کو میرے سامنے پیش کیا۔ وہ جوان تھی حسین تھی مگر بڑی کائیاں۔ موسیقی اُس کی جان تھی۔ اُس کی آواز اور اُس کے خیالات موسیقی سے لبریز تھے وہ آرٹ کی مداح تھی۔ اور اگر کوئی گانے والی اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی وہ اس کے گیت سن کر اُس کی خطا کو معاف کر دیتی بہت فیاض تھی۔ اور کسی کی دُکھ بھری داستان سُن کر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی۔ وہ گہری محبت کرنے والی تھی اور اپنے محبوب کی خاطر اگر ساری دُنیا سے ٹھن جائے تو اُسے پروانہ تھی۔

’’کیوں نہ تمہاری مغنیہ سے ملاقات کرادی جائے؟‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’تم الماس کو جانتے ہو کیا‘‘

’’بے شک۔ میں نے اُس کا ذکر اکثر سُنا ہے۔ ‘‘

’’یہیں پاس ہی اُس کا مکان ہے۔ میں اُسے کھانے پر بُلاؤں گا۔ ‘‘

’’سچ؟‘‘

’’اگر وہ تمہارے معیار پر پوری نہ اُترے تو مجھے الزام نہ دینا۔ ‘‘

’’میں واقعی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

الماس کس سے چھپی تھی۔ وہ فلموں کے لیے گانا ترک کر چکی تھی۔ لیکن اب بھی اُس کی آواز میں وہی لوچ تھی اور وہی ترنم۔ اُس سے میری ملاقات چند سال پہلے ہوئی۔ جو شیلے مزاج کی عورت تھی۔ اور گانے کے علاوہ اپنے محبت کے رومانوں کے سبب مشہور تھی۔ اکثر مجھے اپنی محبت کے انوکھے افسانے سُناتی اور مجھے یقین ہے کہ وہ سچائی سے خالی نہ تھے۔ اُس نے تین چار دفعہ اپنی شادی رچائی۔ کیونکہ ہر بار چند ہی ماہ بعد یہ رشتہ ٹُوٹ جاتا تھا۔ وہ لکھنؤ کی رہنے والی تھی بہت شستہ اُردو بولتی تھی۔ وہ مجرد آرٹ کی مداح تھی۔ لیکن اُسے ایک فریب سے تعبیر کرتی۔ اس لیے کہ یہ اُس کی آنکھوں میں بہت گھلتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس مغنیہ سے پرویز کی ملاقات میرے لیے تفریح کا باعث ہو گی۔ اُسے میرے ہاں کا کھانا پسند تھا۔ سبز رنگ کا نیم عریاں لباس پہنے آئی۔ گلے میں موتیوں کی مالا اُنگلیوں میں جگمگاتی انگوٹھیاں اور بانھوں میں ہیرے جڑی چوڑیاں تھی۔

’’تم کتنی بھلی معلوم دیتی ہو۔ بہت بن ٹھن کے آئی ہو‘‘

الماس نے کہا

’’ضیافت ہی تو ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تمہارا دوست ایک ذہین مصنف ہے اور حسن پرست ہے۔ ‘‘

میں نے اُسے شیری کا ایک چھوٹا گلاس پیش کیا۔ میں اُسے لمی کے نام سے پُکارتا اور وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتی۔ وہ پینتیس سال کی معلوم ہوتی تھی۔ اُس کے چہرے کے خطوط سے اُس کی صحیح عمر کا اندازہ مشکل تھاوہ کبھی اسٹیج پر بہت حسین دکھائی دیتی تھی اور اب اپنی لمبی ناک اور گوشت بھرے چہرے کے باوصف خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘

وہ بے وقوف تھی۔ البتہ اُسے ایک خاص رنگ میں باتیں کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ جس سے لوگ پہلی ملاقات میں بہت متاثر ہوتے۔ یہ محض ایک تماشہ تھا۔ کیونکہ در اصل اُسے اس قسم کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ڈرائنگ روم میں ہم کھانا کھا رہے تھے۔ نیچے باغ میں سنگترے کے پودوں سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ وہ ہمارے درمیان بیٹھی شیری کی تعریف کررہی تھی۔ بار بار اُس کی نگاہیں چاند کی طرف اُٹھتیں۔

’’اللہ رے قدرت کی رنگینی اس وقت گانا کسے سوجھ سکتا ہے۔ ‘‘

پرویز نے خاموشی سے اُس کے الفاظ سُنے۔ شیری کے دو گلاس نے اس پر نشہ طاری کر دیا تھا۔ بڑی باتونی تھی۔ اس کی باتوں سے ظاہر تھا کہ وہ ایک ایسی عورت ہے جس سے دنیا نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اُس کی زندگی حوادث کے خلاف ایک مسلسل جدو جہدتھی۔ گانے کے جلسوں کے منیجر اُس سے فریب کرتے رہے۔ مختلف گویوں نے اُسے برباد کرنے کی کوشش کی۔ اُس کے وہ محبوب جن کی خاطر اُس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اُسے ٹھکرا کر چل دئیے۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن اپنی چالاکی اور ذہانت سے اُس نے سب کے منصوبے خاک میں مِلائے۔ میں حیران ہوں وہ کس طرح مجھے اپنے متعلق اپنی زبان سے یہ ہتک آمیز باتیں سناتی رہی۔ اسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ خود اپنے عیار اور خود غرض ہونے کا اعتراف کر رہی ہے۔ میں نے نظریں چرا کر پرویز کی طرف دیکھا۔ وہ یقیناً اس کا اپنی خیالی مغنیہ سے مقابلہ کر کے دل ہی دل میں کوئی فیصلہ کر چکا تھا۔ اس عورت کا سینہ دل سے خالی تھا۔ جب وہ رخصت ہوئی تو میں نے پرویز سے کہا۔

’’کہو پسند آئی؟‘‘

’’بہت۔ بڑے کام کی چیز ہے۔ ‘‘

’’سچ؟‘‘

’’میری مغنیہ ایسی ہی ہے۔ اسے کیا خبر کہ اس ملاقات سے پہلے میں اس کا ذہنی نقش تیار کر چکا ہوں‘‘

میں نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’آرٹ کی پرستار ہے۔ اُس کی رُوح میں کتنی پاکیزگی ہے۔ تنگ نظر انسان اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ارادوں کی بلندی بالآخر اسے کامیاب بنا دیتی ہے۔ یقین جانو میری مغنیہ کی الماس زندہ تصویر ہے۔ ‘‘

میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن لب تک آئی بات وہیں رُک گئی۔ پرویز نے اُس عورت میں اپنی خیالی مغنیہ کو اصل شکل میں دیکھ لیا تھا۔ دو تین دن کے بعد وہ رخصت ہو گیا۔ دن گزرتے گئے۔ پرویز کا دوسرا ناول شائع ہوا تو اسے وہ پہلی سی کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ نقاد جنھوں نے اُس کے پہلے ناول کی بے جا تعریف کی تھی اب اسے یونہی کوسنے لگے۔ اپنی ذات یا ایسے انسانوں کے متعلق جنھیں ہم بچپن سے جانتے ہیں ناول لکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اپنے تخلیق کیے ہوئے کرداروں کو ناول میں جگہ دینا بڑا کام ہے۔ اُس کے ناول میں کافی رطب و یا بس تھا۔ لیکن اُس کا رومان سے بھرا ہوا پلاٹ شدید جذبات کا مظہر تھا۔ اس دعوت کے بعد۔ ایک سال تک الماس سے ملنا نہ ہوسکا۔ وہ کلکتے میں رقص و سُرور کے دورے پر چلی گئی اور گرمیوں کے آخر میں لوٹی ایک دفعہ اس نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں اس کی باورچن کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اُس پر برس پڑتی۔ لیکن اُس کے بغیر اُس کا گزارہ بھی نہ تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ سر کے بال سفید ہو چکے تھے اور چہرے کی جھریوں نے بڑھاپے کو اور بھی نمایاں کر دیا تھا۔ وہ انوکھی وضع کی عورت تھی اور اپنی مالکن کی رگ رگ سے واقف تھی۔ الماس نیلے لباس میں بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں مالا اور ہاتھوں میں چوڑیاں۔ جھول جھول کر اپنے سفر کے حالات سُنا رہی تھی۔ اس کی زبان میں لوچ تھی اور باتوں سے ظاہر تھا کہ اُسے اس دورے میں کافی رقم ہاتھ لگی ہے۔ اُس نے اپنی نوکرانی سے کہا۔

’’میری باتیں سچی ہیں نا؟‘‘

’’ایک حد تک۔ ‘‘

’’کلکتے میں جس شخص سے ملاقات ہوئی تھی اُس کا کیا نام تھا؟‘‘

’’کونسا شخص؟‘‘

’’بے وقوف۔ جس سے میری ایک بار شادی ہوئی تھی‘‘

نوکرانی نے منہ بنا کر جواب دیا۔

’’وہ سیٹھ جوہری‘‘

’’ہاں وہی کوئی قلاش تھا۔ احمق انسان مجھے ہیروں کی مالا دے کر واپس لینا چاہتا تھا۔ صرف اس لیے کہ وہ اُس کی ماں کی ملکیت تھی۔ ‘‘

’’بہتر ہوتا اگر تم سچ مچ لوٹا دیتیں۔ ‘‘

’’لوٹا دیتی! تم کیا پاگل ہو گئی ہو!‘‘

پھر اُس نے مجھ سے کہا

’’آؤ باہر چلیں۔ اگر میرے اندر کا جذبہ نرم نہ ہوتا تو میں اس بڑھیا کو کبھی کا نکال چکی ہوتی‘‘

ہم دونوں باہر نکل کر برآمدے میں بیٹھ گئے۔ باغیچہ میں صنوبر کی شاخیں تاروں بھرے آسمان کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ ایکا ایکی الماس بول اٹھی

’’تمہارا وہ پگلا دوست اور اُس کا ناول۔ ؟‘‘

میں اس کا مفہوم جلدی نہ سمجھ سکا۔

’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

’’پگلے نہ بنو۔ وہی حونق جس نے میرے متعلق ناول لکھا تھا‘‘

’’لیکن ناول سے تمہارا کیا تعلق؟‘‘

’’کیوں نہیں میں کوئی پگلی تھوڑی ہوں اُس نے مجھے ایک نسخہ بھیجنے کی بھی حماقت کی تھی۔ ‘‘

’’لیکن تم نے اسے شرفِ قبولیت بخشا ہو گا۔ ‘‘

’’مجھے کیا اتنی فرصت ہے کہ ٹکے ٹکے کے مصنفوں کو خط لکھتی پھروں۔ تمھیں کوئی حق نہ تھا کہ دعوت پر پُلا کر اُس سے میرا تعارف کراتے۔ میں نے صرف تمہاری خاطر دعوت قبول کی تھی۔ لیکن تم نے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ افسوس کہ اب پرانے دوستوں پر بھی اعتبار کرنا محال ہو گیا ہے۔ میں آئندہ تمہارے ساتھ کبھی کھانا نہ کھاؤں گی۔

’’یہ تم کیا چھیڑ بیٹھی ہو۔ اس ناول میں گانے والی کے کردار کا خاکہ وہ تمہاری ملاقات سے پہلے تیار کر چکا تھا اور بھلا تمہاری اس سے مشابہت ہی کیا ہے!‘‘

’’کیوں نہیں میرے دوستوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ میری ہی تصویر ہے‘‘

’’پر تم کو اُس کا یقین کیوں ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ میں نے ایک دوست کو یہ کہتے سُنا کہ یہ میری ہی کہانی ہے‘‘

’’لیکن ناول کی ہیروئین کی عمر تو صرف پچیس سال ہے‘‘

’’مجھ ایسی عورت کے لیے عمر کوئی چیز نہیں‘‘

’’وہ سراپا موسیقی ہے۔ فاختہ کی طرح خاموش اور بے غرض۔ کیا تمہاری بھی اپنے متعلق یہی رائے ہے؟‘‘

’’اور تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘

’’ناخن کی طرح سخت۔ سنگدل۔ ‘‘

اُس نے مجھے ایک ایسے نام سے پکارا جسے عورتیں کسی شریف مرد کو مخاطب کرتے وقت بہت کم استعمال کرتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں چمک تھی لیکن یہ ظاہر تھا کہ وہ ناراض نہیں۔

’’ہیرے کی انگوٹھی کی کہو۔ کیا میں نے اُسے یہ قصّہ سُنایا؟‘‘

قصّہ یہ ہے کہ ایک بڑی ریاست کے شہزادے نے تحفے کے طور پر ایک ہیرا الماس کی نذر کیا۔ ایک شب دونوں میں تکرار ہو گئی اور گالی گلوچ تک نوبت پہنچی۔ اُس نے وہ انگوٹھی اُتار آگ میں پھینک دی۔ شہزادہ چھوٹے دل کا تھا۔ گھٹنوں کے بل ہو کر آگ میں انگوٹھی تلاش کرنے لگا۔ الماس بڑی نفرت آمیز نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھتی رہی۔ شہزادے کو انگوٹھی مل گئی لیکن وہ الماس سے چھن گئی۔ اس کے بعد وہ اس سے محبت نہ کر سکی۔ یہ واقعہ رنگین تھا۔ اور پرویز نے اس کا بڑے دلکش انداز میں ذکر کیا تھا۔

’’میں نے تمھیں اپنا سمجھ کر یہ واقعہ سُنایا تھا۔ بھلا یہ کہاں کی شرافت ہے کہ اسے لوگوں کے پڑھنے کے لیے بیان کر دیا جائے۔ ‘‘

’’میں تو کئی بار یہی واقعہ دوسروں کی زُبانی سُن چکا ہوں۔ یہ تو بڑی پرانی حکایت ہے۔ ‘‘

ایک لمحہ کے لیے اس نے حیران نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

’’کئی بار ایسا ہوا ہے۔ میں غلط نہیں کہہ رہی۔ یہ ظاہر ہے کہ عورتیں غصیلی ہوتی ہیں اور مرد کمینہ فطرت، وہ ہیرا میں اب بھی تمھیں دکھا سکتی ہوں۔ اس واقعہ کے بعد مجھے اُسے دوبارہ چرانا پڑا۔ میں تمھیں اب اورواقعہ سُناتی ہوں۔ بڑا دلچسپ ہے لیکن دیکھو کسی کو سنانہ دینا۔ ‘‘

میں نے کہا

’’سُناؤ ضرور سُناؤ۔ تمہاری زندگی کا ہر واقعہ دلچسپ ہوتا ہے‘‘

’’میں نے تمھیں کبھی موتیوں والا قصّہ نہیں سُنایا؟‘‘

’’میں یہ قصہ اس سے بیشتر سُن چکا ہوں‘‘

موتیوں کا ایک بڑا دولت مند عرب تھا۔ وہ ایک مدت تک الماس پر لٹو رہا۔ ہم جس مکان میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اس کا دیا ہوا تھا۔ الماس نے کہنا شروع کیا

’’پون ہل پر بمبئی میں میرے راگ سے متاثر۔ ہو کر ایک عرب نے موتیوں کی مالا میرے گلے میں ڈالی۔ تم تو شاید اُسے نہیں جانتے!‘‘

’’نہیں‘‘

’’وہ کوئی اتنا بڑا نہ تھا۔ لیکن بڑا حاسد۔ ایک برطانوی افسر کی بات پر اُس سے ٹھن گئی۔ میں دنیا میں ایک ایسی عورت ہوں کہ ہر کسی کی رسائی ممکن ہے لیکن اپنی عزت کا کسے خیال نہیں۔ میں نے غصے میں وہ موتیوں کی مالا اُتار کر دہکتی ہوئی انگیٹھی میں پھینک دی۔ وہ چیخ اُٹھا کہ یہ تو پچاس ہزار روپوں کی چیز ہے۔ اُس کا رنگ زرد ہو گیا۔ میں نے ذرا تُنک کر کہا

’’صرف تمہاری محبت کی وجہ سے مجھے یہ مالا عزیزتھی‘‘

اور منہ پھیر لیا۔ ‘‘

’’تم نے کتنی حماقت کی‘‘

میں نے کہا۔

’’چوبیس گھنٹے تک میں نے اُس سے کلام نہ کیا۔ اور جب ہم شملے پہنچے تو اُس نے فوراً ہی نئی موتیوں کی مالا خرید دی۔ ‘‘

وہ زیر لب مسکرانے لگی

’’تم نے کیا کہا تھا کہ میں بیوقوف ہوں؟۔ میں نے سچے موتیوں کی مالا تو وہیں بنک میں رکھ دی تھی اور ایک نقلی خرید کر لی۔ جسے میں نے انگیٹھی میں پھینک دیا۔ ‘‘

وہ بچے کی طرح فرطِ مسرت سے ہنسنے لگی۔ یہ بھی اُس کا ایک فریب تھا۔

’’مرد کتنے پگلے ہوتے ہیں‘‘

اُس نے کہا وہ دیر تک ہنستی رہی۔ اور شاید اس وجہ سے اُس پر ایک مستی سی چھانے لگی۔

’’میں گانا چاہتی ہوں پیانو تو بجاؤ‘‘

الماس دھیمے سروں میں گانے لگی اور جونہی اُسے ہونٹوں سے نکلتی ہوئی آواز کا احساس ہوا وہ بے خود ہو گئی۔ گیت ختم ہوا۔ ماحول۔ پر ایک سکوت چھانے لگا وہ کھڑکی میں کھڑی ہو کر دریا کا نظارہ کرنے لگی۔ رات کا سماں دلفریب تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا میری رانوں پر ایک کپکپی طاری ہو رہی ہے الماس پھر گانے لگی۔ یہ موت کا راگ تھا۔ وہ راگ رنگ کی محفلوں میں اکثر اس کی نمائش کر چکی تھی۔ اُس کی سریلی آواز ساکن ہوا کو چیر کر پہاڑوں میں ارتعاش پیدا کررہی تھی اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھ پر وجد طاری ہو گیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میری زبان گنگ ہو گئی۔ وہ بھی ابھی تک کھڑکی میں کھڑی باہر خلا میں دیکھ رہی تھی۔ کتنی عجیب عورت تھی۔ پرویز نے اُسے خوبیوں کا مجسمہ تصورکیا۔ لیکن مجھے وہ اپنی زندگی کی تمام تر نفرتوں سمیت پیاری تھی۔ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ مجھے ایسے لوگ کیوں پسند ہیں جو ضرورت سے زیادہ برے ہوتے ہیں۔ وہ قابل نفرت ضرور تھی۔ لیکن اُس کی ذات میں دلکشی اُس سے کہیں سوا تھی۔ سعادت حسن منٹو ۱۲؍اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

رام کھلاون

کھٹمل مارنے کے بعد میں ٹرنک میں پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ سعید بھائی جان کی تصویر مل گئی۔ میز پر ایک خالی فریم پڑا تھا۔ میں نے اس تصویر سے اس کو پُر کردیا اور کرسی پر بیٹھ کر دھوبی کا انتظارکرنے لگا۔ ہر اتوار کو مجھے اسی طرح انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہفتے کی شام کو میرے دھلے ہوئے کپڑوں کا اسٹاک ختم ہو جاتا تھا۔ مجھے اسٹاک تو نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ مفلسی کے اس زمانے میں میرے صرف اتنے کپڑے تھے جو بمشکل چھ سات دن تک میری وضعداری قائم رکھ سکتے تھے۔ میری شادی کی بات چیت ہورہی تھی اور اس سلسلے میں پچھلے دو تین اتواروں سے میں ماہم جارہا ہے۔ دھوبی شریف آدمی تھا۔ یعنی دھلائی نہ ملنے کے باوجودہر اتوار کو باقاعدگی کے ساتھ پورے دس بجے میری کپڑے لے آتا تھا، لیکن پھر پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ ایسا نہ ہو میری نادہندگی سے تنگ آ کر کسی روز میرے کپڑے چور بازار میں فروخت کردے اورمجھے اپنی شادی کی بات چیت میں بغیر کپڑوں کے حصہ لینا پڑے جو کہ ظاہر ہے بہت ہی معیوب بات ہوتی۔ کھولی میں مرے ہوئے کھٹملوں کی نہایت ہی مکروہ بُو پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح دباؤں کہ دھوبی آگیا۔

’’ساب سلام۔ ‘‘

کرکے اس نے اپنی گٹھڑی کھولی اور میرے گنتی کے کپڑے میز پر رکھ دیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی نظر سعید بھائی جان کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک کر اس نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اور ایک عجیب اور غریب آواز حلق سے نکالی۔

’’ہے ہے ہے ہیں؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے دھوبی؟‘‘

دھوبی کی نظریں اس تصویر پر جمی رہیں۔

’’یہ تو ساعیدشالیم بالشٹر ہے؟‘‘

’’کون؟‘‘

دھوبی نے میری طرف دیکھا اور بڑے وثوق سے کہا۔

’’ساعیدشالیم بالشٹر۔ ‘‘

’’تم جانتے ہو انھیں؟‘‘

دھوبی نے زور سے سر ہلایا۔

’’ہاں۔ دو بھائی ہوتا۔ ادھر کولابا میں ان کا کوٹھی ہوتا۔ ساعیدشالیم بالشٹر۔ میں ان کا کپڑا دھوتا ہوتا۔ ‘‘

میں نے سوچا یہ دو برس پہلے کی بات ہو گی کیونکہ سعید حسن اور محمد حسن بھائی جان نے فجی آئی لینڈ جانے سے پہلے تقریباً ایک بمبے میں پریکٹس کی تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’دو برس پہلے کی بات کرتے ہوتم۔ ‘‘

دھوبی نے زور سے سرہلایا۔

’’ہاں۔ ساعیدشالیم بالشٹر جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی دیا۔ ایک دھوتی دیا۔ ایک کرتہ دیا۔ نیا۔ بہت اچھا لوگ ہوتا۔ ایک کا داڑھی ہوتا۔ یہ بڑا۔ ‘‘

اس نے ہاتھ سے داڑھی کی لمبائی بتائی اور سعید بھائی جان کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا:

’’یہ چھوٹا ہوتا۔ اس کا تین بلوا لوگ ہوتا۔ دو لڑکا، ایک لڑکی۔ ہمارے سنگ بہت کھیلتا ہوتا۔ کولابے میں کوٹھی ہوتا۔ بہت بڑا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’دھوبی یہ میرے بھائی ہیں۔ ‘‘

دھوبی نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی۔

’’ہے ہے ہے ہیں؟۔ ساعیدشالیم بالشٹر؟ ؟‘‘

میں نے اس کی حیرت دورکرنے کی کوشش کی اور کہا۔

’’یہ تصویر سعید حسن بھائی جان کی ہے۔ داڑھی والے محمد حسن ہیں۔ ہم سب سے بڑے۔ ‘‘

دھوبی نے میری طرف گھور کے دیکھا، پھر میری کھولی کی غلاظت کا جائزہ لیا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی بجلی لائٹ سے محروم۔ ایک میز تھا۔ ایک کرسی اور ایک ٹاٹ کی کوٹ جس میں ہزارہا کھٹمل تھے۔ دھوبی کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں ساعیدشالیم بالشٹر کا بھائی ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو ان کی بہت سی باتیں بتائیں تو اس نے سر کو عجیب طریقے سے جنبش دی اور کہا۔

’’ساعیدشالیم بالشٹر کولابے میں رہتا اور تم اس کھولی میں!‘‘

میں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’دنیا کے یہی رنگ ہیں دھوبی۔ کہیں دھوپ کہیں چھاؤں۔ پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ‘‘

’’ہاں ساب۔ تم بروبر کہتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر دھوبی نے گٹھڑی اٹھائی اور باہر جانے لگا۔ مجھے اس کے حساب کا خیال آیا۔ جیب میں صرف آٹھ آنے تھے جو شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم تک آنے جانے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ صرف یہ بتانے کے لیے میری نیت صاف ہے میں نے اسے ٹھہرایا اور کہا۔

’’دھوبی۔ کپڑوں کا حساب یاد رکھنا۔ خدا معلوم کتنی دھلائیاں ہو چکی ہیں۔ ‘‘

دھوبی نے اپنی دھوتی کا لانگ درست کیا اور کہا۔

’’ساب ہم حساب نہیں رکھتے۔ ساعیدشالیم بالشٹر کا ایک برس کام کیا۔ جو دے دیا، لے لیا۔ ہم حساب جانتے ہی نا ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا اور میں شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ بات چیت کامیاب رہی۔ میری شادی ہو گئی۔ حالات بھی بہتر ہو گئے اور میں سکینڈ پیر خان اسٹریٹ کی کھولی سے جس کا کرایہ نو روپے ماہوار تھا کلیئر روڈ کے ایک فلیٹ میں جس کا کرایہ پینتیس روپے ماہوار تھا، اٹھ آیا اور دھوبی کو ماہ بماہ باقاعدگی سے اس کی دھلائیوں کے دام ملنے لگے۔ دھوبی خوش تھا کہ میرے حالات پہلے کی بہ نسبت بہتر ہیں چنانچہ اس نے میری بیوی سے کہا۔

’’بیگم ساب۔ ساب کا بھائی ساعیدشالیم بالشٹر بہت بڑا آدمی ہوتا۔ ادھر کولابہ میں رہتا ہوتا۔ جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا ساب بھی ایک دن بڑا آدمی بنتا ہوا۔ ‘‘

میں اپنی بیوی کو تصویر والا قصہ سنا چکا تھا اور اس کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ مفلسی کے زمانے میں کتنی دریا دلی سے دھوبی نے میرا ساتھ دیا تھا۔ جب دے دیا، جو دے دیا۔ اس نے کبھی شکایت کی ہی نہ تھی۔ لیکن میری بیوی کو تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس سے یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ حساب نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’چار برس میرا کام کرتا رہا۔ اس نے کبھی حساب نہیں کیا۔ ‘‘

جواب یہ ملا۔

’’حساب کیوں کرتا۔ ویسے دوگنے چوکنے وصول کرلیتا ہو گا۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ نہیں جانتے۔ جن کے گھروں میں بیویاں نہیں ہوتیں ان کو ایسے لوگ بے وقوف بنانا جانتے ہیں۔ ‘‘

قریب قریب ہر مہینے دھوبی سے میری بیوی کی چخ چخ ہوتی تھی کہ وہ کپڑوں کا حساب الگ اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا۔ وہ بڑی سادگی سے صرف اتنا کہہ دیتا۔

’’بیگم ساب۔ ہم حساب جانت نا ہیں۔ تم جھوٹ نا ہیں بولتے گا۔ ساعیدشالیم بالشٹر جو تمہارے ساب کا بھائی ہوتا۔ ہم ایک برس اس کا کام کیا ہوتا۔ بیگم ساب بولتا دھوبی تمہارا اتنا پیسہ ہوا۔ ہم بولتا، ٹھیک ہے!‘‘

ایک مہینے ڈھائی سو کپڑے دھلائی میں گئے۔ میری بیوی نے آزمانے کے لیے اس سے کہا۔

’’دھوبی اس مہینے ساٹھ کپڑے ہوئے۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ بیگم ساب، تم جھوٹ نا ہیں بولے گا۔ ‘‘

میری بوی نے ساٹھ کپڑوں کے حساب سے جب اس کو دام دیے تو اس نے ماتھے کے ساتھ روپے چھوا کر سلام کیا اور چلا گیا۔ شادی کے دو برس بعد میں دلی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال وہاں رہا، پھر واپس بمبئی آگیا اور ماہم میں رہنے لگا۔ تین مہینے کے دوران میں ہم نے چار دھوبی تبدیل کیے کیونکہ بے حد ایمان اور جھگڑالو تھے۔ ہر دھلائی پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی کپڑے کم نکلتے تھے، کبھی دلائی نہایت ذلیل ہوتی تھی۔ ہمیں اپنا پرانی دھوبی یاد آنے لگا۔ ایک روز جب کہ ہم بالکل بغیر دھوبی کے رہ گئے تھے وہ اچانک آگیا اور کہنے لگا۔ ساب کو ہم نے تک دن بس میں دیکھا۔ ہم بولا، ایسا کیسا۔ ساب تو دلی چلا گیا تھا۔ ہم نے ادھر بائی کھلہ میں تپاس کیا۔ چھاپہ والا بولا، اُدھر ماہم میں تپاس کرو۔ باجو والی چالی میں ساب کا دوست ہوتا۔ اس سے پوچھا اور آگیا۔ ‘‘

ہم بہت خوش ہوئے اور ہمارے کپڑوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔ کانگرس برسر اقتدار آئی تو امتناعِ شراب کا حکم نافذ ہو گیا۔ انگریزی شراب ملتی تھی لیکن دیسی شراب کی کشید اور فروخت بالکل بند ہو گئی۔ ننانوے فی صدی دھوبی شراب کے عادی تھے۔ دن بھر پانی میں رہنے کے بعد شام کو پاؤ آدھ پاؤ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔ ہمارا دھوبی بیمار ہو گیا۔ اس بیماری کا علاج اس نے اس زہریلی شراب سے کیا جو ناجائز طور پر کشید کرکے چھپے چوری بکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے معدے میں خطرناک گڑ بڑ پیدا ہو گئی جس نے اس کو موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔ میں بے حد مصروف تھا۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو دس ساڑھے دس بجے لوٹتا تھا۔ میری بیوی کو جب اس کی خطرناک بیماری کا علم ہوا تو وہ ٹیکسی لے کر اس کے گھر گئی۔ نوکر اور شوفر کی مدد سے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر بہت متاثر ہوا چنانچہ اس نے فیس لینے سے انکار کردیا۔ لیکن میری بیوی نے کہا۔

’’ڈاکٹر صاحب؛، آپ سارا ثواب حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘

ڈاکٹر مسکرایا۔

’’تو آدھا آدھا کرلیجیے۔ ‘‘

ڈاکٹر نے آدھی فیس قبول کرلی۔ دھوبی کا باقاعدہ علاج ہوا۔ معدے کی تکلیف چند انجکشنوں ہی سے دور ہو گئی۔ نقاہت تھی، وہ آہستہ آہستہ مقوی دواؤں کے استعمال سے ختم ہو گئی۔ چند مہینوں کے بعد وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور اٹھتے بیٹھتے ہمیں دعائیں دیتا تھا۔ بھگوان ساب کو ساعیدشالیم بالشٹر بنائے۔ ادھر کولابے میں ساب رہنے کو جائے۔ باوا لوگ ہیں۔ بہت بہت پیسہ ہو۔ بیگم ساب دھوبی کو لینے آیا۔ موٹر میں۔ ادھر کِلے(قلعے) میں بہت بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کے پاس میم ہوتا۔ بھگوان بیگم ساب کو خُس رکھے۔ ‘‘

کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی سیاسی انقلاب آئے۔ دھوبی بلاناغہ اتوار کو آتا رہا۔ اس کی صحت اب بہت اچھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے پر بھی وہ ہمارا سلوک نہیں بھولا تھا۔ ہمیشہ دعائیں دیتا تھا۔ شراب قطعی طور پر چھوٹ چکی تھی۔ شروع میں وہ کبھی کبھی اسے یاد کیا کرتا تھا۔ پر اب نام تک نہ لیتا تھا۔ سارا دن پانی میں رہنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے اب اسے دارو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے۔ بٹوارہ ہوا تو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں کے علاقوں میں مسلمان اور مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہلاک کیے جانے لگے۔ میری بیوی لاہور چلی گئی۔ جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے تو میں نے دھوبی سے کہا۔

’’دیکھو دھوبی اب تم کام بند کردو۔ یہ مسلمانوں کا محلّہ ہے، ایسا نہ ہو کوئی تمہیں مار ڈالے۔ ‘‘

دھوبی مسکرایا۔

’’ساب اپن کو کوئی نہیں مارتا۔ ‘‘

ہمارے محلے میں کئی وارداتیں ہوئیں مگر دھوبی برابر آتا رہا۔ ایک اتوار میں گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھیلوں کے صحفے پر کرکٹ کے میچوں کا اسکور درج تھا اور پہلے صفحات پر فسادات کے شکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد و شمار۔ میں ان دونوں کی خوفناک مماثلت پر غور کررہا تھا کہ دھوبی آگیا۔ کاپی نکال کر میں نے کپڑوں کی پڑتال شروع کردی تو دھوبی نے ہنس ہنس کے باتیں شروع کردیں۔ ساعیدشالیم بالشٹر بہت اچھا آدمی ہوتا۔ یہاں سے جاتا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتہ دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب بھی ایک دم اچھا آدمی ہوتا۔ باہر گام گیا ہے نا؟۔ اپنے ملک میں؟۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔ موٹر لے کر آیا ہماری کھولی میں۔ ہم کو اتنا جلاب آنا ہوتا۔ ڈاکٹر نے سوئی لگایا۔ ایک دم ٹھیک ہو گیا۔ ادھر کاگج لکھو توہمارا سلام بولو۔ بولو رام کھلاون بولتا ہے، ہم کو بھی کاگج لکھو۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر ذرا تیزی سے کہا۔

’’دھوبی۔ دارو شروع کردی؟‘‘

دھوبی ہنسا

’’دارو؟۔ دارو کہاں سے ملتی ہے ساب؟‘‘

میں نے اور کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنائی اور سلام کرکے چلا گیا۔ چند دنوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے۔ لاہور سے تار پر تار آنے لگے کہ سب کچھ چھوڑو اور جلدی چلے آؤ۔ میں نے ہفتے کے روز ارادہ کرلیا کہ اتوار کو چل دوں گا۔ لیکن مجھے صبح سویرے نکل جانا تھا۔ کپڑے دھوبی کے پاس تھے۔ میں نے سوچا کرفیو سے پہلے پہلے اس کے ہاں جا کر لے آؤں، چنانچہ شام کو وکٹوریہ لے کر مہاکشمی روانہ ہو گیا۔ کرفیو کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اس لیے آمدورفت جاری تھیں۔ ٹریمیں چل رہی تھیں۔ میری وکٹوریہ پل کے پاس پہنچی تو ایک دم شور برپا ہوا۔ لوگ اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سانڈوں کی لڑائی ہورہی یہ۔ ہجوم چھدرا ہوا تو دیکھا، دو بھینسوں کے پاس بہت سے دھوبی لاٹھیاں ہاتھ میں لیے ناچ رہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ مجھے ادھر ہی جانا تھا مگر وکٹوریہ والے نے انکارکردیا۔ میں نے اس کو کرایہ ادا کیا اور پیدل چل پڑا۔ جب دھوبیوں کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک دھوبی سے پوچھا۔

’’رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

ایک دھوبی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جھومتا ہوا اس دھوبی کے پاس آیا جس سے میں نے سوال کیا۔

’’کیا پوچھت ہے؟‘‘

’’پوچھت ہے رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

شراب سے دھت دھوبی نے قریب قریب میرے اوپر چڑھ کر پوچھا۔

’’تم کون ہے؟‘‘

’’میں؟۔ ر ام کھلاون میرا دھوبی ہے۔ ‘‘

’’رام کھلاون تہار دھوبی ہے۔ تو کس دھوبی کا بچہ ہے۔ ‘‘

ایک چلایا۔

’’ہندو دھوبی یا مسلمین دھوبی کا۔ ‘‘

تمام دھوبی جو شراب کے نشے میں چور تھے مکے تانتے اور لاٹھیاں گھماتے میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ مجھے ان کے صرف ایک سوال کا جواب دینا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو؟۔ میں بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ میں ان میں گھرا ہوا تھا۔ نزدیک کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا۔ جس کو مدد کیلیے پکارتا۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بے جوڑ الفاظ میں ان سے گفتگو شروع کردی۔ رام کھلاون ہندو ہے۔ ہم پوچھتا ہے وہ کدھر رہتا ہے۔ اس کی کھولی کہاں ہے۔ دس برس سے وہ ہمارا دھوبی ہے۔ بہت بیمار تھا۔ ہم نے اس کا علاج کرایا تھا۔ ہماری بیگم۔ ہماری میم صاحب یہاں موٹر لے کر آئی تھی۔ یہاں تک میں نے کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آیا۔ دل ہی دل میں بہت خفیف ہوا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کتنی نیچی سطح پر اتر آتا ہے اس احساس نے جرأت پیدا کردی چنانچہ میں نے ان سے کہا

’’میں مسلمین ہوں۔ ‘‘

’’مار ڈالو۔ مار ڈالو‘‘

کا شوربلند ہوا۔ دھوبی جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا ایک طرف دیکھ کرچلایا۔

’’ٹھہرو۔ اسے رام کھلاون مارے گا۔ ‘‘

میں نے پلٹ کردیکھا۔ رام کھلاون موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسلمانوں کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیں۔ ڈنڈا سر تک اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’رام کھلاون۔ ‘‘

رام کھلاون دہاڑا۔

’’چپ کر بے رام کھلاون کے۔ ‘‘

میری آخری امید بھی ڈوب گئی۔ جب وہ میرے قریب آپہنچا تو میں نے خشک گلے سے ہولے سے کہا۔

’’مجھے پہچانتے نہیں رام کھلاون؟‘‘

رام کھلاون نے وار کرنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا۔ ایک دم اس کی آنکھیں سکڑیں، پھر پھیلیں، پھر سکڑیں۔ ڈنڈا ہاتھ سے گرا کر اس نے قریب آکر مجھے غور سے دیکھا اور پکارا۔

’’ساب!‘‘

پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا

’’یہ مسلمین نہیں۔ ساب ہے۔ بیگم ساب کا ساب۔ وہ موٹر لے کر آیا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ نے میرا جلاب ٹھیک کیا تھا۔ ‘‘

رام کھلاون نے اپنے ساتھیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔ سب شرابی تھے۔ تُوتُو میں میں شرع ہو گئی۔ کچھ دھوبی رام کھلاون کی طرف ہو گئے اور ہاتھا پائی پر نوبت آگئی۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب میرا سامان تیار تھا۔ صرف جہاز کے ٹکٹوں کا انتظار تھا جو ایک دوست بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے گیا تھا۔ میں بہت بے قرار تھا۔ دل میں طرح طرح کے جذبات ابل رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی ٹکٹ آجائیں اور میں بندرگاہ کی طرف چل دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو میرا فلیٹ مجھے اپنے اندر قید کرلے گا۔ دروازہ پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا ٹکٹ آگئے۔ دروازہ کھولا تو باہر دھوبی کھڑاتھا۔

’’ساب سلام!‘‘

’’سلام‘‘

’’میں اندر آجاؤں؟‘‘

’’آؤ‘‘

وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا۔ گٹھڑی کھول کر اس نے کپڑے نکال پلنگ پر رکھے۔ دھوتی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور گلو گیر آواز میں کہا۔

’’آپ جارہے ہیں ساب؟‘‘

’’ہاں‘‘

اس نے رونا شروع کردیا۔ ساب، مجھے ماف کردو۔ یہ سب دارو کا قصور تھا۔ اور دارو۔ دارو آج کل مفت ملتی ہے۔ سیٹھ لوگ بانٹتا ہے کہ پی کر مسلمین کو مارو۔ مفت کی دارو کون چھوڑتا ہے ساب۔ ہم کو ماف کردو۔ ہم پئے لا تھا۔ ساعیدشالیم بالشٹر ہمارا بہت مہربان ہوتا۔ ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب ہمارا جان بچایا ہوتا۔ جلاب سے ہم مرتا ہوتا۔ وہ موٹر لے کر آتا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ اتنا پیسہ خرچ کرتا۔ ملک ملک جاتا۔ بیگم صاب سے مت بولنا۔ رام کھلاون۔ ‘‘

اس کی آواز گلے میں رٍُندھ گئی۔ گٹھڑی کی چادر کاندھے پر ڈال کر چلنے لگا تو میں نے روکا

’’ٹھہرو رام کھلاون۔ ‘‘

لیکن وہ دھوتی کا لانگ سنبھالتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

راجو

سن اکتیس کے شروع ہونے میں صرف رات کے چند برفائے ہوئے گھنٹے باقی تھے۔ وہ لحاف میں سردی کی شدت کے باعث کانپ رہا تھا۔ پتلون اور کوٹ سمیت لیٹا تھا، لیکن اس کے باوجود سردی کی لہریں اُس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سبز روشنی میں جو سردی میں اضافہ کررہی تھی، زور زور سے ٹہلنا شروع کردیا کہ اس کا دوران خون تیز ہوجائے۔ تھوڑی دیر یوں چلنے پھرنے کے بعد جب اُس کے جسم کے اندر تھوڑی سی حرارت پیدا ہو گئی تو وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سُلگا کر اپنے دماغ کو ٹٹولنے لگا۔ اس کا دماغ چونکہ بالکل خالی تھا، اس لیے اُس کی قوتِ سامعہ بہت تیز تھی۔ کمرے کی ساری کھڑکیاں بند تھیں، مگروہ باہر گلی میں ہوا کی مدھم سے مدھم گنگناہٹ بڑی آسانی سے سن سکتا تھا۔ اس گنگناہٹ میں اُسے انسانی آوازیں سُنائی دیں۔ ایک دبی دبی چیخ دسمبر کی آخری رات کی خاموشی میں چابک کے اول کی طرح ابھری، پھر کسی کی التجائیہ آواز لرزی۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس نے کھڑکی کی درزمیں سے باہر کی طرف دیکھا۔ وہی۔ وہی لڑکی یعنی سوداگروں کی نوکرانی میونسپلٹی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ صرف ایک سفید بُنیان پہنے۔ لیمپ کی روشنی میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بدن پر برف کی ایک پتلی سی تہہ جم گئی ہے۔ اُس کے بُنیان کے نیچے، اس کی بدنما چھاتیاں، ناریلوں کے مانند لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اس انداز میں کھڑی تھی، گویا ابھی ابھی کشتی سے فارغ ہوئی ہے۔ ایسی حالت میں دیکھ کر سعید کے صناعانہ جذبات کو دھچکا سا لگا۔ اتنے میں کسی مرد کی بھنچی بھنچی آواز سنائی دی۔

’’خدا کے لیے اندر چلی آؤ۔ کوئی دیکھ لے گا تو آفت ہی آ جائے گی‘‘

وحشی بلی کی طرح اس نے غرا کر جواب دیا۔

’’میں نہیں آؤں گی۔ بس ایک بار جو کہہ دیا کہ نہیں آؤں گی۔ ‘‘

سوداگر کے بچے نے التجا کے طور اُس سے کہا۔

’’خدا کے لیے اونچے نہ بولو، کوئی سُن لے گا، راجو۔ ‘‘

تو اُس کا نام راجو تھا۔ راجو نے اپنی لنڈوری چٹیا کو جھٹکا دے کر کہا۔

’’سُن لے۔ ساری دنیا سُن لے۔ خدا کرے ساری دنیا سُن لے۔ اگر تم مجھے یوں ہی اپنے کمرے کے اندر آنے کو کہتے رہو گے، تو میں خود محلے بھر کو جگا کر سب کچھ کہہ دُوں گی۔ ‘‘

راجو اُس کو نظر آرہی تھی، مگر وہ جس سے مخاطب تھی وہ اُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اُس نے بڑی درز سے راجو کو دیکھا، اس کے بدن پر جھرجھری سی طاری ہو گی۔ اگر وہ ساری کی ساری ننگی ہوتی تو شاید اُس کے صناعانہ جذبات کو ٹھیس نہ پہنچتی۔ لیکن اُس کے جسم کے وہ حصے جوننگے تھے، دوسرے مستور حصوں کو عریانی کی دعوت دے رہے تھے۔ راجو میونسپلٹی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی اور اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عورت کے متعلق اُس کے جذبات اپنے کپڑے اُتار رہے ہیں۔ راجو کی غیر متناسب بانھیں، جو کاندھوں تک ننگی تھیں، نفرت انگیز طورپر لٹک رہی تھیں۔ مردانہ بنیان اور گول گلے میں سے اُس کی نیم پختہ ڈبل روٹی ایسی موٹی اور نرم چھاتیاں، کچھ اس انداز سے باہر جھانک رہی تھیں، گویا سبزی ترکاری کی ٹُوٹی ہوئی ٹوکری میں سے گوشت کے ٹکڑے دکھائی دے رہے ہوں۔ زیادہ استعمال سے گھسی ہوئی پتلی بنیان کا نچلا گھیراخود بخود اُوپر کو اُٹھ گیا (تھا) اور راجو کی ناف کا گڑھا، اُس کے خمیرے آٹے ایسے پھولے ہوئے پیٹ پر یوں دکھائی دیتا تھا۔ جیسے کسی نے انگلی کھبودی ہو۔ یہ نظارہ دیکھ کر اُس کے دماغ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ اُس نے چاہا کہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بستر پر لیٹ جائے، اور سب کچھ بھول بھال کر سو جائے لیکن جانے کیوں، وہ سوراخ پر آنکھیں جمائے کھڑا رہا؟ راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کے دل میں کافی نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ شاید وہ اسی نفرت کی وجہ سے اُس سے دلچسپی لے رہا تھا۔ سوداگر کے سب سے جھوٹ لڑکے نے جس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی، ایک بار پھر التجائیہ لہجے میں کہا۔

’’راجو خدا کے لیے اندر چلی آؤ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی تمھیں نہیں ستاؤں گا۔ لو اب مان جاؤ۔ یہ تمہاری بغل میں وکیلوں کا مکان ہے، ان میں سے کسی نے دیکھا یا سُن لیا تو بڑی بدنامی ہو گی۔ ‘‘

راجو خاموش رہی لیکن تھوڑی دیر کے بعد بولی۔

’’مجھے میرے کپڑے لادو۔ بس اب میں تمہارے گھر میں نہیں رہوں گی۔ تنگ آ گئی ہوں۔ کل سے وکیلوں کے ہاں نوکری کر لوں گی۔ سمجھے؟۔ اب اگر تم نے مجھ سے کچھ اور کہا تو خدا کی قسم شور مچانا شروع کردوں گی۔ میرے کپڑے چپ چاپ لا کے دے دو۔ ‘‘

سوداگر کے لڑکے کی آواز آئی۔

’’لیکن تم رات کہاں کاٹو گی؟‘‘

راجو نے جواب دیا۔

’’جہنم میں۔ تمھیں اس سے کیا۔ جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو۔ میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی۔ ‘‘

اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ سچ مچ رو رہی تھی۔ سوراخ پر سے آنکھ ہٹا کر وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ راجو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اُسے عجیب قسم کا صدمہ ہوا تھا۔ اُس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمے کے ساتھ وہ نفرت بھی لپٹی ہوئی تھی جو راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کے دل میں پیدا ہوئی تھی، مگر غایت درجہ نرم دل ہونے کے باعث وہ پگھل سا گیا۔ راجو کی کھلاڑی آنکھوں میں جو شیشے کے مرتبان میں چمک دار مچھلیوں کی طرح سدا متحرک رہتی تھیں آنسو دیکھ کر اُس کا جی چاہا کہ انھیں تھپکا کر دلاسا دے۔ راجو کی جوانی کے چار قیمتی برس سوداگر بھائیوں نے معمولی چٹائی کی طرح استعمال کیے تھے ان برسوں میں تینوں بھائیوں کے نقش قدم کچھ اس طرح خلط ملط ہو گئے تھے کہ ان میں سے کسی کو اس بات کا خوف نہیں رہا تھا کہ کوئی ان کے پیروں کے نشان پہچان لے گا اور راجو کے متعلق بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتی تھی نہ دوسروں کے۔ اسے بس چلتے جانے کی دُھن تھی کسی بھی طرف۔ پر اب شاید اُس نے مُڑ کے دیکھا تھا۔ مُڑ کے اُس نے کیا دیکھا تھا جو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ اُس کو معلوم نہیں تھا باہر سن تیس کی آخری رات دم توڑ رہی تھی اور اُس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہاں کہاں گئی؟۔ کیا وہ اندر چلی گئی؟۔ کیا وہ مان گئی تھی؟۔ مگر سوال یہ تھا کہ وہ کس بات پر جھگڑی تھی؟۔ راجو کے کانپتے ہوئے نتھنے ابھی تک اُس کو نظر آ رہے تھے۔ ضروراس کے اور سوداگر کے لڑکے کے درمیان جن کا نام محمود تھا کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا جبھی تو وہ دسمبر کی خون منجمد کردینے والی رات میں صرف ایک بنیان اور شلوار کے ساتھ باہر نکل آئی تھی اور اندر جانے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجو کو دُکھی دیکھ کر اُس کے ایک نامعلوم جذبے کو تسکین پہنچی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی اُس کے دل میں رحم کے جذبات بھی پیدا ہوئے تھے۔ کسی عورت سے اس نے کبھی ہمدری کا اظہار نہیں کیا تھا۔ شاید اسی لیے وہ راجو کو دکھی دیکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ اُس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرسکے۔ اُسے یقین تھا کہ اگروہ راجو کے قریب ہونا چاہے گا تو وہ جنگلی گھوڑی کی طرح بدکے گی نہیں۔ راجو غلاف چڑھی عورت نہیں تھی۔ وہ جیسی بھی تھی دُور سے نظر آجاتی تھی۔ اُس کی بھدی اور موٹی ہنسی جو اکثر اُس کے مٹ میلے ہونٹوں پر بچوں کے ٹُوٹے ہوئے گھروندے کے مانند نظر آتی تھی اصلی ہنسی تھی۔ بڑی صحت مند۔ اور اب اُس کی بھونرے جیسی متحرک آنکھوں نے آنسو اُگلے تھے، تو ان میں کوئی مصنوعی پن نہیں تھا۔ راجو کو وہ ایک مدت سے جانتا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے چہرے کے تمام خطوط تبدیل ہوئے تھے اور وہ غیر محسوس طریق پر لڑکی سے عورت بننے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تین سوداگر بھائیوں کو ہجوم نہیں سمجھتی تھی۔ یہ ہجوم اُسے پسند نہیں تھا اس لیے کہ ایک عورت کے ساتھ وہ صرف ایک مرد منسلک دیکھنے کا قائل تھا۔ مگر یہاں۔ یعنی راجو کے معاملے میں اُسے پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے درمیان رُک جانا پڑتا تھا۔ اس واقعے کے دوسرے روز جب وہ جاگ رہا تھا لحاف اوڑھے لیٹا تھا کہ راجو آئی اُ س نے کمرہ صاف کیا اُس نے یہ سمجھا کہ شاید جمعدار ہے۔ جو آج جلدی آگیا ہے۔ چنانچہ اُس نے لحاف کے اندر سے کہا۔

’’دیکھو بھئی۔ گرد مت اُڑانا۔ ‘‘

ایک نسوانی آواز اُس کو سنائی دی

’’جی میں۔ جی میں میں تو۔ ‘‘

اس نے لحاف اپنے سے جدا کیا اور دیکھا کہ راجو ہے۔ وہ بہت متحیر ہوا۔ چند لمحات وہ اُس کو دیکھتا رہا۔ اُس کے بعد اُس سے مخاطب ہوا۔

’’تم یہاں کیسے آئی ہو؟‘‘

راجو نے جھاڑن اپنے کاندھے پر رکھا اور جواب دیا۔

’’میں آج صبح یہاں آئی ہوں۔ سوداگروں کی نوکری میں نے چھوڑ دی ہے۔ ‘‘

اُس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ بہرحال اُس نے اتنا کہہ دیا۔

’’اچھا کیا۔ اب کیا تم نے ہمارے یہاں ملازمت اختیار کرلی ہے؟‘‘

’’جی ہاں‘‘

۔ یہ اس کا مختصر جوا ب تھا۔ اُس کو راجو سے سخت نفرت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے گھر میں اس کا کسی قسم کا دخل نہ ہو لیکن اس کی والدہ نے جو بہت رحمدل تھیں اور جنھیں نوکرانی کی ضرورت بھی تھی راجو کو ملازم رکھ لیا تھا۔ اُس کو بڑی اُلجھن محسوس ہوئی کہ وہ رات کا تماشا دیکھ چکا تھا۔ اُسے اُس سے نفرت تھی۔ اس قدر نفرت کو وہ چاہتا تھا کہ وہ اُس کی نظروں کے سامنے نہ آئے۔ مگر وہ آتی تھی۔ صبح ناشتہ لے کر آتی۔ شیو کا سامان لے کر آتی۔ دوپہرکا کھانا پیش کرتی۔ مگر اس کو یہ سب باتیں بہت ناگوار گزرتیں۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ راجو اُس سے اس قسم کا سلوک کرے۔ چنانچہ ایک دن اُس نے تنگ آکر اس سے کہا۔

’’دیکھو راجو مجھے تمہاری ہمدردیاں پسند نہیں۔ میں اپنا کام خود کرسکتا ہوں۔ تم مہربانی کرکے تکلیف نہ کیا کرو۔ ‘‘

راجو نے بڑی متانت سے کہا۔

’’سرکار۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ میں تو آپ کی باندی ہوں۔ ‘‘

وہ جھینپ سا گیا۔

’’ٹھیک ہے۔ تم نوکرانی ہو۔ بس اس کا خیال رکھو۔ ‘‘

راجو نے تپائی کا کپڑا ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

’’جی مجھے ہر چیز کا خیال ہے۔ مجھے اس بات کا بھی خیال ہے کہ آپ مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ ‘‘

وہ لوٹ پوٹ گیا۔

’’میں۔ میں تمھیں اچھی نظروں سے کیوں نہیں دیکھتا۔ یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘

راجو مسکرائی۔

’’حضور آپ امیر آدمی ہیں۔ آپ کو ہم غریبوں کے دُکھ درد کا کوئی احساس نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

اُس کو راجو سے اور نفرت ہو گئی۔ وہ سمجھنے لگا کہ یہ لڑکی جو اُس کے گھر میں اُس کی والدہ کی نرم طبیعت کی وجہ سے آگئی ہے بہت واہیات ہے۔ راجو بڑی باقاعدگی سے کا م کرتی رہی۔ اُس کا کوئی نقص نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب اُس کی شادی کا سوال اُٹھا تو وہ بہت مضطرب ہوا۔ وہ اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھے یہ جھنجھٹ ابھی نہیں چاہیے۔ اُس کے والدین نے بہت زور دیا کہ وہ شادی کرلے مگر وہ نہ مانا۔ اُسے کوئی لڑکی پسند نہیں آتی تھی۔ ایک دن وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ اُس کے ساتھ راجو بھی۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ وہ میاں بیوی بن چکے ہیں۔ سعادت حسن منٹو ۱۲جنوری۱۹۵۵ء

سعادت حسن منٹو

دیکھ کبیرا رویا

نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرایا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہو گئی۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لوگوں نے پوچھا۔ اے جولاہے تو کیوں روتا ہے؟ کبیر نے رو کر کہا۔

’’کپڑا جو چیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہو گیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘

ایک ایم اے۔ ایل ایل بی کو دو سو کھڈیاں الاٹ ہو گئیں۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایم اے۔ ایل ایل بی نے پوچھا۔

’’اے جولاہے کے بچے تو کیوں روتا ہے؟۔ کیا اس لیے کہ میں نے تیرا حق غصب کرلیا ہے؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا۔

’’تمہارا قانون تمہیں یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ کھڈیاں پڑی رہنے دو، دھاگے کا جو کوٹا ملے اسے بیچ دو۔ مفت کی کھٹ کھٹ سے کیا فائدہ۔ لیکن یہ کھٹ کھٹ ہی جولاہے کی جان ہے!‘‘

چھپی ہوئی کتاب کے فرمے تھے۔ جن کے چھوٹے بڑے لفافے بنائے جا رہے تھے۔ کبیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے وہ تین لفافے اٹھائے اور ان پر چھپی ہوئی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے لفافے بننے والے نے حیرت سے پوچھا۔

’’میاں کبیرتم کیوں رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔

’’ان کاغذوں پر بھگت سُورداس کی کویتا چھپی ہے۔ لفافے بنا کر اس کی بے عزتی نہ کرو۔ ‘‘

لفافے بنانے والے نے حیرت سے کہا۔

’’جس کا نام سُورداس ہے۔ وہ بھگت کبھی نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

کبیر نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ ایک اونچی عمارت پر لکشمی کا بہت خوبصورت بت نصب تھا۔ چند لوگوں نے جب اسے اپنا دفتر بنایا تو اس بُت کو ٹاٹ کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ دفتر کے آدمیوں نے اسے ڈھارس دی اور کہا۔

’’ہمارے مذہب میں یہ بت جائز نہیں۔ ‘‘

کبیر نے ٹاٹ کے ٹکڑوں کی طرف اپنی نمناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’خوبصورت چیز کو بدصورت بنا دینا بھی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ ‘‘

دفتر کے آدمی ہنسنے لگے۔ کبیر ڈھاریں مار مارکر رونے لگا۔ صف آرا فوجوں کے سامنے جرنیل نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔

’’اناج کم ہے، کوئی پروا نہیں۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ کوئی فکر نہیں۔ ہمارے سپاہی دشمن سے بھوکے ہی لڑیں گے۔ ‘‘

دو لاکھ فوجیوں نے زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ کبیر چلا چلا کے رونے لگا۔ جرنیل کو بہت غصہ آیا۔ چنانچہ وہ پکار اٹھا۔

’’اے شخص، بتا سکتا ہے، تو کیوں روتا ہے؟‘‘

کبیر نے رونی آواز میں کہا۔

’’اے میرے بہادر جرنیل۔ بھوک سے کون لڑے گا۔ ‘‘

دو لاکھ آدمیوں نے کبیر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

’’بھائیو، داڑھی رکھو مونچھیں کترواؤ اور شرعی پاجامہ پہنو۔ بہنو، ایک چوٹی کرو، سرخی سفیدہ نہ لگاؤ، برقع پہنو!‘‘

۔ بازار میں ایک آدمی چلا رہا تھا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ چلّانے والے آدمی نے اور زیادہ چلّا کر پوچھا۔

’’کبیر تو کیوں رونے لگا؟‘‘

کبیر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

’’تیرا بھائی ہے نہ تیری بہن، اور یہ جو تیری داڑھی ہے۔ اس میں تو نے وسمہ کیوں لگا رکھا ہے۔ کیا سفید اچھی نہیں تھی۔ ‘‘

چلّانے والے نے گالیاں دینی شروع کردیں۔ کبیر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ایک جگہ بحث ہورہی تھی۔

’’ادب برائے ادب ہے۔ ‘‘

’’محض بکواس ہے، ادب برائے زندگی ہے۔ ‘‘

’’وہ زمانہ لد گیا۔ ادب، پروپیگنڈے کا دوسرا نام ہے۔ ‘‘

’’تمہاری ایسی کی تیسی۔ ‘‘

’’تمہارے اسٹالن کی ایسی کی تیسی۔ ‘‘

’’تمہارے رجعت پسند اور فلاں فلاں بیماریوں کے مارے ہوئے فلابیئر اور بادلیئر کی ایسی کی تیسی‘‘

کبیر رونے لگا بحث کرنے والے بحث چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک نے اس سے پوچھا۔

’’تمہارے تحت الشعور میں ضرور کوئی ایسی چیز تھی جسے ٹھیس پہنچی۔ ‘‘

دوسرے نے کہا۔

’’یہ آنسو بورژوائی صدمے کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘

کبیر اور زیادہ رونے لگا۔ بحث کرنے والوں نے تنگ آکر بیک زبان سوال کیا۔

’’میاں، یہ بتاؤ کہ تم روتے کیوں ہو؟‘‘

کبیر نے کہا۔

’’میں اس لیے رویا تھا کہ آپ کی سمجھ میں آجائے، ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی۔ ‘‘

بحث کرنے والے ہنسنے لگے۔ ایک نے کہا۔

’’یہ پرولتاری مسخرہ ہے۔ ‘‘

دوسرے نے کہا۔

’’نہیں یہ بورژوائی بہروپیا ہے۔ ‘‘

کبیر کی آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔ حکم نافذ ہو گیا کہ شہر کی تمام کسبی عورتیں ایک مہینے کے اندر شادی کرلیں اور شریفانہ زندگی بسر کریں۔ کبیر ایک چکلے سے گزرا تو کسبیوں کے اڑے ہوئے چہرے دیکھ کر اس نے رونا شروع کردیا۔ ایک مولوی نے اس سے پوچھا۔

’’مولانا۔ آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا

’’اخلاق کے معلّم ان کسبیوں کے شوہروں کے لیے کیا بندوبست کریں گے‘‘

مولوی کبیر کی بات نہ سمجھا اور ہنسنے لگا۔ کبیر کی آنکھیں اور زیادہ اشک بار ہو گئیں۔ دس بارہ ہزار کے مجمع میں ایک آدمی تقریر کررہا تھا۔

’’بھائیو۔ بازیافتہ عورتوں کا مسئلہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہمیں سب سے پہلے سوچنا ہے اگر ہم غافل رہے۔ تو یہ عورتیں قحبہ خانوں میں چلی جائیں گی۔ فاحشہ بن جائیں گی۔ سن رہے ہو، فاحشہ بن جائیں گی۔ تمہارا فرض ہے کہ تم ان کو اس خوفناک مستقبل سے بچاؤ اور اپنے گھروں میں ان کے لیے جگہ پیدا کرو۔ اپنے اپنے بھائی، یا اپنے بیٹے کی شادی کرنے سے پہلے تمہیں ان عورتوں کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کرناچاہیے۔ کبیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تقریر کرنے والا رُک گیا۔ کبیر کی طرف اشارہ کرکے اس نے بلند آواز میں حاضرین سے کہا۔

’’دیکھو اس شخص کے دل پر کتنا اثر ہوا ہے۔ ‘‘

کبیر نے گلو گیر آواز میں کہا۔

’’لفظوں کے بادشاہ، تمہاری تقریر نے میرے دل پرکچھ اثر نہیں کیا۔ میں نے جب سوچا کہ تم کسی مالدار عورت سے شادی کرنے کی خاطر ابھی تک کنوارے بیٹھے ہو تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ‘‘

ایک دکان پر یہ بورڈ لگا تھا۔

’’جناح بوٹ ہاؤس۔ ‘‘

کبیر نے اسے دیکھا۔ تو زار و قطار رونے لگا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کٹ مرا ہے۔ بورڈ پر آنکھیں جمی ہیں اور روئے جارہا ہے۔ انھوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔

’’پاگل ہے۔ پاگل ہے!‘‘

ملک کا سب سے بڑا قائد چل بسا تو چاروں طرف ماتم کی صفیں بچھ گئیں۔ اکثر لوگ بازوؤں پر سیاہ بلے باندھ کر پھرنے لگے۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیاہ بلّے والوں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا دکھ پہنچا جو تم رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔

’’یہ کالے رنگ کی چندیاں اگر جمع کرلی جائیں تو سینکڑوں کی سترپوشی کرسکتی ہیں۔ ‘‘

سیاہ بلّے والوں نے کبیر کو پیٹنا شروع کردیا۔ تم کمیونسٹ ہو، ففتھ کالمسٹ ہو۔ پاکستان کے غدار ہو۔ ‘‘

کبیر ہنس پڑا۔

’’لیکن دوستو، میرے بازو پر تو کسی رنگ کا بلّا نہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

دیوالی کے دِیے

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دِیے ہانپتے ہوئے بچوں کے دل کی طرح دھڑک رہے تھے۔ مُنی دوڑتی ہوئی آئی۔ ا پنی ننھی سی گھگری کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائے چھت کے نیچے گلی میں موری کے پاس کھڑی ہو گئی۔

اس کی روتی ہوئی آنکھوں میں منڈیرپر پھیلے ہوئے دِیوں نے کئی چمکیلے نگینے جڑ دیے۔ اس کا ننھا سا سینہ دیے کی لو کی طرح کانپا، مسکرا کر اس نے اپنی مٹھی کھولی، پسینے سے بھیگا ہوا پیسہ دیکھا اور بازار میں دیے لینے کے لیے دوڑ گئی۔

چھت کی منڈیر پر شام کی خنک ہوا میں دیوالی کے دیے پھڑپھڑاتے رہے۔ سریندر دھڑکتے ہوئے دل کو پہلو میں چھپائے چوروں کی مانند گلی میں داخل ہوا اور منڈیر کے نیچے بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ اس نے دِیوں کی قطار کی طرف دیکھا۔ اسے ہوا میں اچھلتے ہوئے یہ شعلے اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کے رقصاں قطرے معلوم ہوئے۔

دفعتہً سامنے والی کھڑکی کھلی۔ سریندر سرتا پا نگاہ بن گیا۔ کھڑکی کے ڈنڈے کا سہارا لیکر ایک دوشیزہ نے جھک کرگلی میں دیکھا اور فوراً اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔

کچھ اشارے ہوئے۔ کھڑکی چوڑیوں کی کھنکناہٹ کے ساتھ بند ہوئی اور سریندر وہاں سے مخموری کی حالت میں چل دیا۔ چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے دلہن کی ساڑھی میں ٹکے ہوئے تاروں کی طرح چمکتے رہے۔ سرجو کمہار لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور دم لینے کے لیے ٹھہر گیا۔ بلغم اس کی چھاتی میں سڑکیں کوٹنے والے انجن کی مانند پھر رہا ہے۔

گلے کی رگیں دمے کے دورے کے باعث دھونکنی کی طرح کبھی پھولتی تھیں کبھی سکڑ جاتی تھیں۔ اس نے گردن اٹھا کر جگمگ جگمگ کرتے دیوں کی طرف اپنی دھندلی آنکھوں سے دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ دور۔ بہت دور۔ بہت سے بچے قطار باندھے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ سرجُو کمہار کی لاٹھی منوں بھاری ہو گئی بلغم تھوک کروہ پھر چیونٹی کی چال چلنے لگا۔ چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے جگمگاتے رہے۔ پھر ایک مزدور آیا۔ پھٹے ہوئے گریبان میں سے اس کی چھاتی کے بال برباد گھونسلوں کی تیلیوں کے مانند بکھر رہے تھے۔

دِیوں کی قطار کی طرف اس نے سر اٹھا کردیکھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ آسمان کی گدلی پیشانی پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے چمک رہے ہیں۔ پھر اسے اپنے گھر کے اندھیارے کا خیال آیا اور وہ ان تھرکتے ہوئے شعلوں کی روشنی کنکھیوں سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے آنکھیں جھپکتے رہے۔ نئے اور چمکیلے بوٹوں کی چرچراہٹ کے ساتھ ایک آدمی آیا۔ اور دیوار کے قریب سگریٹ سلگانے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کا چہرہ اشرفی پر لگی ہوئی مہر کے مانند جذبات سے عاری تھا۔ کالر چڑھی گردن اٹھا کر اس نے دِیوں کی طرف دیکھا۔ اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ بہت سی کٹھالیوں میں سونا پگھل رہا ہے۔ اس کے چرچراتے ہوئے چمکیلے جوتوں پر ناچتے ہوئے شعلوں کا عکس پڑ رہا تھا۔

وہ ان سے کھیلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ چھت کے منڈیر پر دیوالی کے دیے جلتے رہے۔ جو کچھ انھوں نے دیکھا، جو کچھ انھوں نے سنا، کسی کو نہ بتایا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ اور سب دیے ایک کرکے بُجھ گئے۔

سعادت حسن منٹو

دُھواں

وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا، جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے تھے کھالیں اُتری ہُوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دُھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جسکو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں۔ پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اسکی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔ اس وقت سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سما وار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دُھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہُوئی ہے۔ موسم کچھ ایسی ہی کیفیت کا حامل تھا۔ جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہو۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے آوازیں مدھم تھیں۔ جیسے سرگوشیاں ہورہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہورہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اُٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔ مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جارہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہُوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دُھواں اُٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہُوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دُھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دُھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہرشے پر چڑھی ہُوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔ مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کرکے قطعی طور پر خوشی نہ ہُوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کردیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے۔ کچھ آرہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ مسعود نے جب سُنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہُوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اُس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے د ادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہُوا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دِقت ہِوئی تھی اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہُوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدّت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آکر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ۔ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا، چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنی تو اسے یہ بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا، جب سکتر صاحب کا جنازہ اُٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بِلبِلا اٹھیں گے۔ مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں اس میں رکھیں اور باقی بستہ اُٹھا کرگھر کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعو د دکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا چھو کر دیکھے، چنانچہ آگے بڑھ کر اس نے انگلی سے بکرے کے اس حصّے کو چھوکر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا، گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہُوئی۔ قصائی دکان کے اندر چُھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنائی تو اسے معلوم ہُوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہیں۔ اب گھرمیں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانہ میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کررہی تھی۔ چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں پڑا تھا۔ اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لُوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سُنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبزسبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اُٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دُھواں اُٹھنے لگا۔ اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا۔

’’امی جان، آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے۔ کھال اُتری ہوئی تھی اور ان میں سے دُھواں نکل رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔ ‘‘

’’اچھا۔ !‘‘

یہ کہہ کر اُس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔

’’ہاں اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔ !‘‘

یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانہ سے باہر چلی گئی۔

’’اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔ ‘‘

مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘

’’یوں۔ یوں۔ ‘‘

مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کرکے اپنی بہن کو دکھائی۔

’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔

’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے تو ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔ ‘‘

’’گرم تھا۔ اچھا مسعود یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے۔ ‘‘

’’بتائیے۔ ‘‘

’’آؤ، میرے ساتھ آؤ۔ ‘‘

’’نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے۔ ‘‘

’’تم آؤ تو سہی میرے ساتھ۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ آپ پہلے کام بتائیے۔ ‘‘

’’دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہورہا ہے۔ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پاؤں سے دبا دینا۔ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہورہا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کردیں۔

’’یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے۔ جب دیکھو درد ہورہا ہے، اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔ ‘‘

مسعود اُٹھ کھڑا ہُوا۔

’’چلیے، لیکن یہ آپ سے کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤنگا۔ ‘‘

’’شاباش۔ شاباش۔ ‘‘

اس کی بہن اُٹھ کھڑی ہُوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔ صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دُکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اُوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جُھکے ہُوئے تھے۔

’’مسعود، آج ضرور بارش ہو گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کرگھڑی میں وقت دیکھا۔

’’دیکھئے باجی گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دونگا۔ ‘‘

’’بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آکر جلدی کمر دباؤ ورنہ یاد رکھو بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔ ‘‘

کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دباناشروع کردی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل نہیں تھا۔ ایک دوبار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اسی قسم کی حرکت جو اُس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بدولی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اِس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اس گمنام سی لذت میں اضافہ کررہی تھی۔ ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی۔ شاباش مسعود، شاباش۔ لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح۔ شاباش میرے بھائی۔ ‘‘

مسعود نے دیوار کا سہارا لیکر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوارکا سہارا لیکر اپنی بہن کی رانیں دبائے، چنانچہ اس نے کہا۔

’’یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کردیا۔ سیدھی لیٹ جائیے۔ میں آپکی ٹانگیں دبا دوں۔ ‘‘

کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں اِدھر اُدھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔

’’نابھائی میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم اوٹ پٹانگ طریقے سے دباتے ہو۔ ‘‘

مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ نہیں، اب کی دفعہ میں پُورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا۔ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ‘‘

دیوار کا سہارا لیکر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے اپنے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر اِدھر اُدھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازیگر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔ اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہورہی تھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا

’’کلثوم کو اگر ذبح کردیا جائے تو کھال اُتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟‘‘

لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپکو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کردیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

’’بس بس۔ ‘‘

کلثوم تھک گئی۔

’’بس بس۔ ‘‘

مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہورہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کررہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اسکے گالوں کے ساتھ مس ہُوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پَر پھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہُوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گل داؤدی اور نازبو کے ہرے ہرے پتے اُوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہُوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔ مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا۔ جن کا مطلب اسکی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چُھو کردیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اُسے آرہا تھا۔ بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کَس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اُس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آگیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اُٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہَوا بھی چل رہی تھی، مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کوراحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شِیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اسکے پٹھوں میں ہلکی ہلکی سی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصّے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہُوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اسکا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔ دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اُٹھا اور باورچی خانہ سے ہوتا ہوا صحن میں آنکلا۔ نہ کوئی باورچی خانہ میں تھا اور نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رُک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پرلگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی۔

’’کون؟‘‘

’’جی میں ہُوں مسعود!‘‘

اندر سے آواز آئی۔

’’کیا کررہے ہو؟‘‘

’’جی کھیل رہا ہوں۔ ‘‘

’’کھیلو۔ ‘‘

پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا۔

’’تمہاری ماں میرا سردبا رہی ہے۔ زیادہ شور نہ مچانا۔ ‘‘

یہ سُن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اسکا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا۔ مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔ بملا کے بلاؤز کے بٹن کُھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ میں دُھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا۔ جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کردی۔ بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پرہاکی میں خم پیدا ہوجائے گا، اور زیادہ زور لگانے پر ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زورلگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کُشتی لڑتا رہا۔ جب وہ تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔

سعادت حسن منٹو

دوقومیں

مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر کوٹھے پر کٹا ہوا پتنگ لینے گیا تو اسے جھرنوں میں سے ایک جھلک دکھائی دی۔ سامنے والے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی تھی۔ ایک لڑکی ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی۔ مختار کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکی کہاں سے آگئی، کیونکہ سامنے والے مکان میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ جو تھیں، بیاہی جا چکی تھیں۔ صرف روپ کور تھی۔ اس کا پلپلا خاوند کالو مل تھا۔ اس کے تین لڑکے تھے اور بس۔ مختار نے پتنگ اٹھایا اور ٹھٹھک کے رہ گیا۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی اس کے ننگے بدن پر سنہرے روئیں تھے۔ ان میں پھنسی ہوئی پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں چمک رہی تھیں۔ اس کا رنگ ہلکا سانولا تھا، سانولا بھی نہیں۔ تانبے کے رنگ جیسا، پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں ایسی لگتی تھیں جیسے اس کا بدن پگھل کر قطرے قطرے بن کر گر رہا ہے۔ مختار نے جھرنے کے سوراخوں کے ساتھ اپنی آنکھیں جما دیں اور اس لڑکی کے جو ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی، دلچسپی اور غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی تھی گیلے سینے پر اس کی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں جن پر پانی کے قطرے پھسل رہے تھے بڑی دلفریب تھیں۔ اس کو دیکھ کر مختار کے دل و دماغ میں سفلی جذبات پیدا نہ ہوئے۔ ایک جوان، خوبصورت، اور بالکل ننگی لڑکی اس کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مختار کے اندر شہوانی ہیجان برپا ہو جاتا، مگر وہ بڑے ٹھنڈے انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی مصور کی تصویر دیکھ رہا ہے۔ لڑکی کے نچلے ہونٹ کے اختتامی کونے پر بڑا سا تل تھا۔ بے حد متین، بے حد سنجیدہ، جیسے وہ اپنے وجود سے بے خبر ہے، لیکن دوسرے اس کے وجود سے آگاہ ہیں، صرف اس حد تک کہ اسے وہیں ہونا چاہیے تھا جہاں کہ وہ تھا۔ بانھوں پر سنہرے روئیں پانی کی بوندوں کے ساتھ لپٹے ہوئے چمک رہے تھے اس کے سر کے بال سنہرے نہیں، بھوسلے تھے جنہوں نے شاید سنہرے ہونے سے انکار کردیا جسم سڈول اورگدرایا ہوا تھا لیکن اس کو دیکھنے سے اشتعال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مختار دیر تک جھرنے کے ساتھ آنکھیں جمائے رہا۔ لڑکی نے بدن پر صابن ملا۔ مختار تک اس کی خوشبو پہنچی۔ سلونے، تانبے جیسے رنگ والے بدن پر سفید سفید جھاگ بڑے سہانے معلوم ہوتے تھے۔ پھر جب یہ جھاگ پانی کے بہاؤ سے پھسلے تو مختار نے محسوس کیا جیسے اس لڑکی نے اپنا بلبلوں کا لباس بڑے اطمینان سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ غسل سے فارغ ہو کر لڑکی نے تولیے سے اپنا بدن پونچھا۔ بڑے سکون اور اطمینان سے آہستہ آہستہ کپڑے پہنے۔ کھڑکی کے ڈنڈے پر دونوں ہاتھ رکھے اور سامنے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھیں شرماہٹ کی جھیلوں میں غرق ہو گئیں اس نے کھڑکی بند کردی۔ مختار بے اختیار ہنس پڑا۔ لڑکی نے فوراً کھڑکی کے پٹ کھولے اور بڑے غصے میں جھرنے کی طرف دیکھا۔ مختار نے کہا

’’میں قصور وار بالکل نہیں۔ آپ کیوں کھڑکی کھول کر نہا رہی تھیں۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ غیض آلود نگاہوں سے جھرنے کو دیکھا اور کھڑکی بند کرلی۔ چوتھے دن روپ کور آئی۔ اس کے ساتھ یہی لڑکی تھی۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں سلائی اور کروشیے کے کام کی ماہر تھیں، گلی کی اکثر لڑکیاں ان سے یہ کام سیکھنے کیلیے آیا کرتی تھیں۔ روپ کور بھی اس لڑکی کو اسی غرض سے لائی تھی کیونکہ اس کو کروشیے کے کام کا بہت شوق تھا۔ مختار اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا تو اس نے روپ کور کو پرنام کیا۔ لڑکی پر اس کی نگاہ پڑی تو وہ سمٹ سی گئی۔ مختار مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔ لڑکی روزانہ آنے لگی۔ مختار کو دیکھتی تو سمٹ جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ رد عمل دور ہوا اور اس کے دماغ سے یہ خیال کسی قدر محو ہوا کہ مختار نے اسے نہاتے دیکھا تھا۔ مختار کو معلوم ہوا کہ اس کا نام شاردرا ہے۔ روپ کور کے چچا کی لڑکی ہے یتیم ہے۔ چیچو کی ملیاں میں ایک غریب رشتہ دار کے ساتھ رہتی تھی۔ روپ کور نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔ انٹرنس پاس ہے۔ بڑی ذہین ہے، کیونکہ اس نے کروشیے کا مشکل سے مشکل کام یوں چٹکیوں میں سیکھ لیا تھا۔ دن گزرتے تھے۔ اس دوران میں مختار نے محسوس کیا کہ وہ شاردا کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ دھیرے دھیرے ہوا۔ جب مختار نے اس کو پہلی بار جھرنے میں سے دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سامنے ایک نظارہ تھا بڑا فرحت ناک نظارہ۔ لیکن اب شاردا آہستہ آہستہ اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی، مختار نے کئی دفعہ سوچا تھا کہ یہ محبت کا معاملہ بالکل غلط ہے، اس لیے کہ شاردا ہندو ہے۔ مسلمان کیسے ایک ہندو لڑکی سے محبت کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ مختار نے اپنے آپ کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے محبت کے جذبے کو مٹا نہ سکا۔ شاردا اب اس سے باتیں کرنے لگی تھی مگر کھل کے نہیں اس کے دماغ میں مختار کو دیکھتے ہی یہ احساس بیدار ہو جاتا تھا کہ وہ ننگی نہا رہی تھی اور مختار جھرنے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک روز گھر میں کوئی نہیں تھا۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں کسی عزیز کے چالیسویں پر گئی ہوئی تھیں۔ شاردا حسب معمول اپنا تھیلا اٹھائے صبح دس بجے آئی۔ مختار صحن میں چارپائی پر لیٹا اخبار پڑھ رہا تھا۔ شاردا نے اس سے پوچھا۔

’’بہن جی کہاں ہیں۔ ‘‘

مختار کے ہاتھ کانپنے لگے۔

’’وہ۔ وہ کہیں باہر گئی ہے۔ ‘‘

شاردا نے پوچھا۔

’’ماتا جی؟‘‘

مختار اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’وہ۔ وہ بھی اس کے ساتھ ہی گئی ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘ یہ کہہ کر شاردا نے کسی قدر گھبرائی ہوئی نگاہوں سے مختار کو دیکھا اور نمستے کرکے چلنے لگی۔ مختار نے اس کو روکا

’’ٹھہرو شاردا!‘‘

شاردرا کو جیسے بجلی کے کرنٹ نے چھو لیا۔ چونک کر رک گئی۔

’’جی؟‘‘

مختار چارپائی پر سے اٹھا

’’بیٹھ جاؤ۔ وہ لوگ ابھی آجائیں گے!‘‘

’’جی نہیں۔ میں جاتی ہوں‘‘

یہ کہہ کر بھی شاردرا کھڑی رہی۔ مختار نے بڑی جرات سے کام لیا۔ آگے بڑھا۔ اس کی ایک کلائی پکڑی اور کھینچ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مختار اور شادرا دونوں کو ایک لخطے کے لیے بالکل پتا نہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد دونوں لرزنے لگے۔ مختار نے صرف اتنا کہا۔

’’مجھے معاف کردینا!‘‘

شاردرا خاموش کھڑی رہی۔ اس کا تانبے جیسا رنگ سرخی مائل ہو گیا۔ ہونٹوں میں خفیف سی کپکپاہٹ تھی جیسے وہ چھیڑے جانے پر شکایت کررہے ہیں۔ مختار اپنی حرکت اور اس کے نتائج بھول گیا۔ اس نے ایک بار پھر شاردرا کو اپنی طرف کھینچا اور سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ شاردا نے مزاحمت نہ کی۔ وہ صرف مجسمہ حیرت بنی ہوئی تھی۔ وہ ایک سوال بن گئی تھی۔ ایک ایسا سوال جو اپنے آپ سے کیا گیا ہو۔ وہ شاید خود سے پوچھی رہی تھی یہ کیا ہوا ہے۔ یہ کیا ہورہا ہے؟۔ کیا اسے ہونا چاہیے تھا۔ کیا ایسا کسی اور سے بھی ہوا ہے؟ مختار نے اسے چارپائی پر بٹھا لیا اور پوچھا

’’تم بولتی کیوں نہیں ہو شادرا؟‘‘

شادرا کے دوپٹے کے پیچھے اس کا سینہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مختار کو اس کا یہ سکوت بہت پریشان کن محسوس ہوا۔

’’بولو شاردرا۔ اگر تمہیں میری یہ حرکت بری لگی ہے تو کہہ دو۔ خدا کی قسم میں معافی مانگ لوں گا۔ تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا میں نے کبھی ایسی جرات نہ کی ہوتی، لیکن جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔ دراصل۔ دراصل مجھے تم سے محبت ہے۔ ‘‘

شاردرا کے ہونٹ ہلے جیسے انھوں نے لفظ

’’محبت‘‘

ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختار نے بڑی گرمجوشی سے کہنا شروع کیا۔

’’مجھے معلوم نہیں تم محبت کا مطلب سمجھتی ہو کہ نہیں۔ میں خود اس کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا، صرف اتنا جانتا ہوں کہ تمہیں چاہتا ہوں۔ تمہاری ساری ہستی کو اپنی اس مٹھی میں لے لینا چاہتا ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں اپنی ساری زندگی تمہارے حوالے کردوں گا۔ شاردا تم بولتی کیوں نہیں ہو؟‘‘

شاردا کی آنکھیں خواب گو ہو گئیں۔ مختار نے پھر بولنا شروع کردیا۔

’’میں نے اس روز جھرنے میں سے تمہیں دیکھا۔ نہیں۔ تم مجھے خود دکھائی دیں۔ وہ ایک ایسا نظارہ تھا جو میں تا قیامت نہیں بھول سکتا۔ تم شرماتی کیوں ہو۔ میری نگاہوں نے تمہاری خوبصورت چرائی تو نہیں۔ میری آنکھوں میں صرف اس نظارے کی تصویر ہے۔ تم اسے زندہ کردو تو میں تمہارے پاؤں چوم لوں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر مختار نے شادرا کا ایک پاؤں چوم لیا۔ وہ کانپ گئی۔ چارپائی پر سے ایک دم اٹھ کر اس نے لرزاں آواز میں کہا۔

’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟۔ ہمارے دھرم میں۔ ‘‘

مختار خوشی سے اچھل پڑا۔

’’دھرم ورم کو چھوڑے۔ پریم کے دھرم میں سب ٹھیک ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے شاردا کو چومنا چاہا۔ مگر وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹی اور بڑے شرمیلے انداز میں مسکراتی بھاگ گئی۔ مختار نے چاہا کہ وہ اڑ کر ممٹی پر پہنچ جائے۔ وہاں سے نیچے صحن میں کودے اور ناچنا شروع کردے۔ مختار کی والدہ اور بہن آگئیں تو شاردا آئی۔ مختار کو دیکھ کر اس نے فوراً نگاہیں نیچی کرلیں۔ مختار وہاں سے کھسک گیا کہ راز افشا نہ ہو۔ دوسرے روز اوپر کوٹھے پر چڑھا۔ جھرنے میں سے جھانکا تو دیکھا کہ شاردا کھڑکی کے پاس کھڑی بالوں میں کنگھی کررہی ہے۔ مختار نے اس کو آواز دی۔

’’شاردا۔ ‘‘

شادرا چونکی۔ کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گلی میں جاگری۔ مختار ہنسا۔ شاردرا کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ مختار نے اس سے کہا

’’کتنی ڈرپوک ہو تم۔ ہولے سے آواز دی اور تمہاری کنگھی چھوٹ گئی۔ ‘‘

شاردرا نے کہا۔

’’اب لا کے دیجیے نئی کنگھی مجھے۔ یہ تو موری میں جاگری ہے۔ ‘‘

مختار نے جواب دیا۔

’’ابھی لاؤں۔ ‘‘

شاردرا نے فوراً کہا۔

’’نہیں نہیں۔ میں نے تو مذاق کیا ہے۔ ‘‘

’’میں نے بھی مذاق کیا تھا۔ تمہیں چھوڑ کر میں میں کنگھی لینے جاتا؟۔ کبھی نہیں!‘‘

شاردرا مسکرائی۔

’’میں بال کیسے بناؤں۔ ‘‘

مختار نے جھرنے کے سوراخوں میں اپنی انگلیاں ڈالیں۔

’’یہ میری انگلیاں لے لو!‘‘

شاردرا ہنسی۔ مختار کا جی چاہا کہ وہ اپنی ساری عمر اس ہنسی کی چھاؤں میں گزار دے۔

’’شاردا، خدا کی قسم، تم ہنسی ہو، میرا رؤاں رؤاں شادماں ہو گیا ہے۔ تم کیوں اتنی پیاری ہو؟۔ کیا دنیا میں کوئی اور لڑکی بھی تم جتنی پیاری ہو گی۔ یہ کم بخت جھرنے۔ یہ مٹی کے ذلیل پردے۔ جی چاہتا ہے ان کو توڑ پھوڑ دوں۔ ‘‘

شاردا پھر ہنسی۔ مختار نے کہا۔

’’یہ ہنسی کوئی اور نہ دیکھے، کوئی اور نہ سنے۔ شاردا صرف میرے سامنے ہنسنا۔ اور اگر کبھی ہنسنا ہو تومجھے بلا لیا کرو۔ میں اس کے اردگرد اپنے ہونٹوں کی دیواریں کھڑی کردوں گا۔ ‘‘

شاردرا نے کہا۔

’’آپ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں۔ ‘‘

’’تو مجھے انعام دو۔ محبت کی ایک ہلکی سی نگاہ ان جھرنوں سے میری طرف پھینک دو۔ میں اسے اپنی پلکوں سے اٹھا کر اپنی آنکھوں میں چھپا لوں گا۔ ‘‘

مختار نے شاردا کے عقب میں دور ایک سایہ سا دیکھا اور فوراً جھرنے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو کھڑکی خالی تھا۔ شاردرا جا چکی تھی۔ آہستہ آہستہ مختار اور شاردرا دونوں شیر و شکر ہو گئے۔ تنہائی کا موقعہ ملتا تو دیر تک پیار محبت کی باتیں کرتے رہتے۔ ایک دن روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالو مل کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ مختار گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اس کو ایک کنکر لگا۔ اس نے اوپر دیکھا شاردا تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ مختار اس کے پاس پہنچ گیا۔ پورا تخلیہ تھا۔ خوب گھل مل کے باتیں ہوئیں۔ مختار نے اس سے کہا۔

’’اس روز مجھ سے گستاخی ہوئی تھی اور میں نے معافی مانگ لی تھی۔ آج پھر گستاخی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن معافی نہیں مانگوں گا‘‘

اور اپنے ہونٹ شاردرا کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پررکھ دیے۔ شاردرا نے شرمیلی شرارت سے کہا۔

’’اب معافی مانگئے۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ اب یہ ہونٹ آپ کے نہیں۔ میرے ہیں۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نے نگاہیں نیچی کرکے کہا۔

’’یہ ہونٹ کیا۔ میں ہی آپ کی ہوں۔ ‘‘

مختار ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔

’’دیکھو شاردا۔ ہم اس وقت ایک آتش فشاں پہاڑ پر کھڑے ہیں تم سوچ لو، سمجھ لو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا کہ تمہارے سوا میری زندگی میں اور کوئی عورت نہیں آئے گی۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ زندگی بھر میں تمہارا رہوں گا۔ میری محبت ثابت قدم رہے گی۔ کیا تم بھی اس کا عہد کرتی ہو!‘‘

شاردرا نے اپنی نگاہیں اٹھا کر مختار کی طرف دیکھا۔

’’میرا پریم سچا ہے۔ ‘‘

مختار نے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور کہا۔

’’زندہ رہو۔ صرف میرے لیے، میری محبت کے لیے وقف رہو۔ خدا کی قسم شاردا۔ اگر تمہارا التفات مجھے نہ ملتا تو میں یقیناً خود کشی کرلیتا۔ تم میری آغوش میں ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی خوشیوں سے میری جھولی بھری ہوئی ہے۔ میں بہت خوش نصیب ہوں۔ ‘‘

شاردا نے اپنا سر مختار کے کندھے پر گرا دیا۔

’’آپ باتیں کرنا جانتے ہیں۔ مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی جاتی۔ ‘‘

دیر تک دونوں ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ جب مختار وہاں سے گیا تو اس کی روح ایک نئی اور سہانی لذت سے معمور تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا دوسرے دن کلکتے چلا گیا جہاں اس کا باپ کاروبار کرتا تھا۔ آٹھ دن کے بعد واپس آیا۔ شاردا حسبِ معمول کروشیے کا کام سیکھنے مقررہ وقت پر آئی۔ اس کی نگاہوں نے اس سے کئی باتیں کیں۔ کہاں غائب رہے اتنے دن؟۔ مجھ سے کچھ نہ کہا اور کلکتے چلے گئے؟۔ محبت کے بڑے دعوے کرتے تھے؟۔ میں نہیں بولوں گی تم سے۔ میری طرف کیا دیکھتے ہو، کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے؟۔ مختار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تنہائی نہیں تھی۔ وہ کافی طویل گفتگو اس سے کرنا چاہتا تھا۔ دو دن گزر گئے، موقعہ نہ ملا۔ نگاہوں ہی نگاہوں میں گونگی باتیں ہوتی رہیں۔ آخر تیسرے روز شاردا نے اسے بلایا۔ مختار بہت خوش ہوا۔ روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالہ مل گھر میں نہیں تھے۔ شاردا سیڑھیوں میں ملی۔ مختار نے وہیں اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگانا چاہا، وہ تڑپ کر اوپر چلی گئی۔ ناراض تھی۔ مختار نے اس سے کہا۔

’’دیکھ میری جان، میرے پاس بیٹھو، میں تم سے بہت ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

شاردا اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’تم بات ٹالو نہیں۔ بتاؤ مجھے بتائے بغیر کلکتے کیوں گئے۔ سچ میں بہت روئی۔ ‘‘

مختار نے بڑھ کر اس کی آنکھیں چومیں۔

’’اس روز میں جب سے گیا تو ساری رات سوچتا رہا۔ جو کچھ اس روز ہوا اس کے بعد یہ سوچ بچار لازمی تھی۔ ہماری حیثیت میاں بیوی کی تھی۔ میں نے غلطی کی۔ تم نے کچھ نہ سوچا۔ ہم نے ایک ہی جست میں کئی منزلیں طے کرلیں اور یہ غور ہی نہ کیا کہ ہمیں جانا کس طرف ہے۔ سمجھ رہی ہو نا شاردرا۔ ‘‘

شاردا نے آنکھیں جھکالیں۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’میں کلکتے اس لیے گیا تھا کہ ابا جی سے مشورہ کروں۔ تمہیں سن کر خوشی ہو گی میں نے ان کو راضی کرلیا ہے۔

’’مختار کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ شاردا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے کہا۔

’’میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے۔ میں اب تم سے شادی کرسکتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نے ہولے سے کہا۔

’’شادی۔ ‘‘

’’ہاں شادی۔ ‘‘

شاردرا نے پوچھا۔

’’کیسے ہو سکتی ہے ہماری شادی؟‘‘

مختار مسکرایا۔

’’اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ تم مسلمان ہو جانا!‘‘

شاردرا ایک دم چونکی۔

’’مسلمان۔ ‘‘

مختار نے بڑے اطمینان سے کہا۔

’’ہاں ہاں۔ اس کے علاوہ اور ہوہی کیا سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر والے بڑا ہنگامہ مچائیں گے لیکن میں نے اس کا انتظار کرلیا ہے۔ ہم دونوں یہاں سے غائب ہو جائینگے سیدھے کلکتے چلیں گے۔ باقی کام ابا جی کے سپرد ہے جس روز وہاں پہنچیں گے اسی روز مولوی بلا کر تمہیں مسلمان بنا دیں گے۔ شادی بھی اسی وقت ہو جائے گی۔ ‘‘

شاردا کے ہونٹ جیسے کسی نے سی دیے۔ مختار نے اس کی طرف دیکھا۔

’’خاموش کیوں ہو گئیں۔ ‘‘

شاردا نہ بولی۔ مختار کو بڑی الجھن ہوئی۔

’’بتاؤ شاردا کیا بات ہے؟‘‘

شاردا نے بہ مشکل اتنا کہا۔

’’تم ہندو ہو جاؤ۔ ‘‘

’’میں ہندو ہو جاؤں؟‘‘

مختار کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ ہنسا

’’میں ہندو کیسے ہو سکتا ہوں۔ ‘‘

’’میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں۔ ‘‘

شاردا کی آوار مدھم تھی۔

’’تم کیوں مسلمان نہیں ہوسکتیں۔ میرا مطلب ہے کہ۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اس کے علاوہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے۔ ہندو مذہب بھی کوئی مذہب ہے۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔ بت پوجتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے اپنی جگہ یہ مذہب بھی۔ مگر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

’’مختار کے خیالات پریشان تھے۔ ‘‘

تم مسلمان ہو جاؤ گی تو بس۔ میرا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

شاردرا کے چہرے کا تانبے جیسا زرد رنگ زرد پڑ گیا۔

’’آپ ہندو نہیں ہونگے؟‘‘

مختار ہنسا۔

’’پاگل ہو تم؟‘‘

شاردا کا رنگ اور زرد پڑ گیا۔

’’آپ جائیے۔ وہ لوگ آنے والے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پلنگ پر سے اٹھی۔ مختار متحیر ہو گیا۔ ‘‘

لیکن شاردا۔ ‘‘

’’نہیں نہیں جائیے آپ۔ جلدی جائیے۔ وہ آجائیں گے۔ ‘‘

شاردا کے لہجے میں بے اعتنائی کی سردی تھی۔ مختار نے اپنے خشک حلق سے بہ مشکل یہ الفاظ نکالے

’’ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔

’’شاردا تم ناراض کیوں ہو گئیں؟‘‘

’’جاؤ۔ چلے جاؤ۔ ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے۔ تم مسلمان بہت اچھے ہو۔

’’شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔

سعادت حسن منٹو

دودا پہلوان

اسکول میں پڑھتا تھا تو شہر کا حسین ترین لڑکامتصور ہوتا تھا۔ اس پر بڑے بڑے امرد پرستوں کے درمیان بڑی خونخوار لڑائیاں ہوئیں۔ ایک دو اسی سلسلے میں مارے بھی گئے۔ وہ واقعی حسین تھا۔ بڑے مالدار گھرانے کا چشم و چراغ تھا اس لیے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر جس میدان وہ کود پڑا تھا اس کو ایک محافظ کی ضرورت تھی جو وقت پر اس کے کام آسکے۔ شہر میں یوں تو سینکڑوں بدمعاش اور غنڈے موجود تھے جو حسین و جمیل صلاحو کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کو تیار تھے، مگر دودے پہلوان میں ایک نرالی بات تھی۔ وہ بہت مفلس تھا، بہت بدمزاج اور اکھڑ طبیعت کا تھا، مگر اس کے باوجود اس میں ایسا بانکپن تھا کہ صلاحو نے اس کو دیکھتے ہی پسند کرلیا اور ان کی دوستی ہو گئی۔ صلاحو کو دودے پہلوان کی رفاقت سے بہت فائدے ہوئے۔ شہر کے دوسرے غنڈے جو صلاحو کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے تھے، دودے کی وجہ سے خاموش رہے۔ اسکول سے نکل کر صلاحو کالج میں داخل ہوا تو اس نے اوپر پر پرزے نکالے اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی سرگرمیاں نیا رخ اختیار کرگئیں۔ اس کے بعد خدا کر کرنا ایسا ہوا کہ صلاحو کا باپ مر گیا۔ اب وہ اس کی تمام جائیداد، املاک کا واحد مالک تھا۔ پہلے تو اس نے نقدی پر ہاتھ صاف کیا۔ پھر مکان گروی رکھنے شروع کیے۔ جب دو مکان بک گئے تو ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں صلاحو کے نام سے واقف تھیں۔ معلوم نہیں اس میں کہاں تک صداقت ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ہیرا منڈی میں بوڑھی نائکائیں اپنی جوان بیٹیوں کو صلاحو کی نظروں سے چُھپا چُھپا کر رکھتی تھیں۔ مبادا وہ اس کے حسن کے چکر میں پھنس جائیں۔ لیکن ان احتیاطی تدابیر کے باوجود جیاس کہ سننے میں آیا ہے، کئی کنواری طوائف زادیاں اس کے عشق میں گرفتار ہوئیں اور الٹے رستے پر چل کر اپنی زندگی کے سنہرے ایام اس کے تلون کی نذر کر بیٹھیں۔ صلاحو کُھل کھیل رہا تھا۔ دودے کو معلوم تھا کہ یہ کھیل دیر تک جاری نہیں رہے گا۔ وہ عمر میں صلاحو سے دگنا بڑا تھا۔ اس نے ہیرا منڈی میں بڑے بڑے سیٹھوں کی خاک اڑتے دیکھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہیرا منڈی ایک ایسا اندھا کنواں ہے جس کو دنیا بھر کے سیٹھ مل کر بھی اپنی دولت سے نہیں بھر سکتے۔ مگر وہ اس کو کوئی نصیحت نہیں دیتا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ جہاندیدہ ہونے کے باعث اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جو بھوت اس کے حسین و جمیل بابو کے سر پر سوار ہے، اسے کوئی ٹونا ٹوٹکا اتار نہیں سکتا۔ دودا پہلوان ہر وقت صلاحو کے ساتھ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں جب صلاحو نے ہیرا منڈی کا رخ کیا تو اس کا خیال تھا کہ دودا بھی اس کے عیش میں شریک ہو گا مگر آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوا کہ اس کو اس قسم کے عیش سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جس میں وہ دن رات غرق رہتا تھا۔ وہ گانا سنتا تھا، شراب پیتا تھا۔ طوائفوں سے فحش مذاق بھی کرتا تھا۔ مگر اس سے آگے کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کا بابو رات رات بھر اندر کسی معشوق کو بغل میں دبائے پڑا رہتا اور وہ باہر کسی پہرے دار کی طرح جاگتا رہتا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ دودے نے اپنا گھر بھر لیا ہے۔ دولت کی لوٹ مچی ہے۔ اس میں اس نے یقیناً اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صلاحو داد عیش دینے کو نکلتا تھا ہزاروں نوٹ دودے ہی کی تحویل میں ہوتے تھے۔ مگر یہ صرف اسی کو معلوم تھا کہ پہلوان نے ان میں سے ایک پائی بھی کبھی اِدھر اُدھر نہیں کی۔ اس کو صرف صلاحو سے دلچسپی تھی، جس کو اپنا آقا سمجھتا تھا اور یہ لوگ بھی جانتے تھے کہ دودا کس حد تک اس کا غلام ہے۔ صلاحو اس کو ڈانٹ ڈپٹ لیتا تھا۔ بعض اوقات شراب کے نشے میں اسے مار پیٹ بھی لیتا تھا مگر وہ خاموش رہتا۔ حسین و جمیل صلاحو اس کا معبود تھا۔ وہ اس کے حضور کوئی گستاخی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے دو دا بیمار تھا۔ صلاحو رات کو حسب معمول عیش کرنے کے لیے ہیرا منڈی پہنچا۔ وہاں کسی طوائف کے کوٹھے پر گانا سننے کے دوران میں اس کی جھڑپ ایک تماش بین سے ہو گئی اور ہاتھا پائی میں اس کے ماتھے پر ہلکی سی خراش آگئی۔ دودے کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے دیوار کے ساتھ ٹکر مار مار کر اپنا سارا سر زخمی کرلیا۔ خود کو بے شمار گالیاں دیں۔ بہت برا بھلا کہا۔ اس کو اتنا افسوس ہوا کہ دس پندرہ دن تک صلاحو کے سامنے اس کا سرجھکا رہا۔ ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا۔ اس کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ چنانچہ لوگوں کا بیان ہے کہ وہ بہت دیر تک نمازیں پڑھ پڑھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا۔ صلاحو کی وہ اس طرح خدمت کرتا تھا جس طرح پرانے قصے کہانیوں کے وفادار نوکر کرتے ہیں۔ وہ اس کے جوتے پالش کرتا تھا۔ اس کے پاؤں دابتا تھا۔ اس کے چمکیلے بدن پر مالش کرتا تھا۔ اس کے ہر آرام اور آسائش کا خیال رکھتا تھا جیسے اس کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ کبھی کبھی صلاحو ناراض ہو جاتا۔ یہ وقت دودے پہلوان کے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہوتا تھا۔ دنیا سے بیزار ہو جاتا۔ فقیروں کے پاس جا کر تعویذ گنڈے لے لیتا۔ خود کو طرح طرح کی جسمانی تکلیف پہنچاتا۔ آخر جب صلاحو موج میں آکر اسے بلاتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ دونوں جہان مل گئے ہیں۔ دودے کو اپنی طاقت پر ناز نہیں تھا، اسے یہ بھی گھمنڈ نہیں تھا کہ وہ چھری مارنے کے فن میں یکتا ہے۔ اس کو اپنی ایمانداری اور اپنے خلوص پر بھی کوئی فخر نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی اس بات پر بہت نازاں تھا کہ لنگوٹ کا پکا ہے۔ وہ اپنے دوستوں، یاروں کو بڑے فخر و امتیاز سے بتایا کرتا تھا کہ اس کی جوانی میں سینکڑوں مرد عورتیں آئیں، چلتروں کے بڑے بڑے منتر اس پر پھونکے مگر وہ۔ شاباش ہے اس کے استاد کو، لنگوٹ کا پکا رہا۔ یہ بڑ نہیں تھی۔ ان لوگوں کو جو دودے پہلوان کے لنگوٹیے تھے، اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا دامن عورت کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ متعدد بار کوشش کی گئی کہ وہ گمراہ ہو جائے مگر ناکامی ہوئی۔ وہ ثابت قدم رہا۔ خود صلاحو نے کئی بار اس کا امتحان لیا۔ اجمیر کے عرس پر اس نے میرٹھ کی ایک کافر ادا طوائف انوری کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ دودے پہلوان پر ڈورے ڈالے۔ اس نے اپنے تمام گُر استعمال کرڈالے مگر دودے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ عرس ختم ہونے پر جب وہ لاہور روانہ ہوئی تو گاڑی میں اس نے صلاحو سے کہا۔

’’باؤ! بس اب میرا کوئی امتحان نہ لینا۔ یہ سالی انوری بہت آگے بڑھ گئی تھی۔ تمہارا خیال تھا ورنہ گلا گھونٹ دیتا حرام زادی کا۔ ‘‘

اس کے بعد صلاحو نے اس کا اور کوئی امتحان نہ لیا۔ دودے کے یہ تنبیہی الفاظ کافی تھے جو اس نے بڑے سنگین لہجے میں ادا کیے تھے۔ صلاحو عیش و عشرت میں بدستور غرق تھا۔ اس لیے کہ ابھی تین چار مکان باقی تھے۔ ہیرا منڈی کی تمام قابل ذکر طوائفیں ایک ایک کرکے اس کے پہلو میں آچکی تھیں۔ اب اس نے چھوٹے جاموں کا دور شروع کردیا تھا۔ اسی دوران میں ایک دم کہیں سے ایک طوائف الماس پیدا ہو گئی جو ایک دم ساری ہیرا منڈی پر چھا گئی۔ ہاتھ لگائے میلی ہوتی ہے۔ پانی پیتی ہے تو اس کے شفاف حلق میں سے نظر آتا ہے۔ ہرنی کی سی آنکھیں ہیں جن میں خدا نے اپنے ہاتھ سے سرمہ لگایا ہے۔ بدن ایسا ملائم ہے کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی ہیں۔ صلاحو جہاں بھی جاتا ہے، اس پری چہرہ اور حور شمائل معشوقہ کے حسن و جمال کی باتیں سنتا تھا۔ دودے پہلوان نے فوراً پتہ لگایا اور اپنے بابو کو بتایا کہ یہ الماس کشمیر سے آئی ہے۔ واقعی خوب صورت ہے، ادھیڑ عمر کی ماں اس کے ساتھ ہے جو اس پر بہت کڑی نگرانی رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ لاکھوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ جب الماس کا مجرا شروع ہوا تو اس کے کوٹھے پر صرف وہی صاحب ثروت جاتے تھے جن کا لاکھوں کا کاروبار تھا۔ صلاحو کے پاس اب اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ ان تکڑے دولت مند عیاشوں کا مقابلہ خم ٹھونک کے کرسکے۔ آٹھ دس مجروں ہی میں اس کی حجامت ہوجاتی۔ چنانچہ وہ اسی خیال کے تحت خاموش رہا اور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دودا پہلوان اپنے بابو کی یہ بے چارگی دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ مگر وہ کیا کرسکتا تھا۔ اس کے پاس تھا ہی کیا۔ ایک صرف اس کی جان تھی مگر وہ اس معاملے میں کیا کام دے سکتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر دودے نے ایک ترکیب سوچی جو یہ تھی کہ صلاحو، الماس کی ماں اقبال سے رابطہ پیدا کرے۔ اس پر یہ ظاہر ہے کہ وہ اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے۔ اس طرح جب موقع ملے تو الماس کو اپنے قبضے میں کرلے۔ صلاحو کو یہ ترکیب پسند آئی۔ چنانچہ فوراً اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اقبال بہت خوش ہوئی کہ اس ڈھلتی عمر میں اسے صلاحو جیسا خوبرو چاہنے والا مل گیا۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ اس دوران سینکڑوں مرتبہ الماس صلاحو کے سامنے آئی۔ بعض اوقات اس کے پاس بیٹھ کر باتیں بھی کرتی رہی اور اس کے حسن سے کافی متاثر ہوئی۔ اس کو حیرت تھی کہ وہ اس کی ماں سے کیوں دلچسپی لے رہا ہے جب کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ لیکن اس کی یہ حیرت بہت دیر تک قائم نہ رہی۔ جب اس کو صلاحو کی حرکات و سکنات سے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ چال چل رہا ہے، اس انکشاف سے اسے خوشی ہوئی۔ اندرونی طور پر اس کے احساس جوانی کو بڑی ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ باتوں باتوں میں ایک دن صلاحو کا ذکر آیا تو الماس نے اس کی خوبصورتی کی تعریف ذرا چٹخارے کے ساتھ بیان کی جو اس کی ماں اقبال کو بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ چنانچہ ان دونوں میں خوب چخ چخ ہوئی۔ الماس نے اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ صلاحو اسے بیوقوف بنا رہا ہے۔ اقبال کو بہت دکھ ہوا۔ یہاں اب بیٹی کا سوال نہیں تھا بلکہ رقیب کا یا موت کا۔ چنانچہ دوسرے روز جب صلاحو آیا تو اس نے سب سے پہلے اس سے پوچھا۔

’’آپ کسے پسند کرتے ہیں، مجھے یا میری بیٹی الماس کو؟‘‘

صلاحو عجب مخمصے میں گرفتار ہو گیا۔ سوال بڑا ٹیڑھا تھا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس کو بآلاخر یہی کہنا پڑا

’’تمہیں، میں تو صرف تمہیں پسند کرتا ہوں‘‘

اور پھر اسے اقبال کو مزید یقین دلانے کے لیے اور بہت سی باتیں گھڑنا پڑیں۔ اقبال یوں تو بہت چالاک تھی مگر اس کو کسی حد تک یقین آہی گیا۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنی عمر کے ایسے موڑ پر پہنچ چکی تھی جہاں اسے چند جھوٹی باتوں کو بھی سچا سمجھنا ہی پڑتا تھا۔ جب یہ بات الماس تک پہنچی تو وہ بہت جزبز ہوئی۔ جونہی اسے موقع ملا، اس نے صلاحو کو پکڑ لیا اور اس سے سچ اگلوانے کی کوشش کی۔ صلاحو زیادہ دیر تک اس کی جرح برداشت نہ کرسکا۔ آخر اسے ماننا ہی پڑا کہ اسے اقبال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اصل میں تو الماس کا حصول ہی اس کے پیش نظر ہے۔ یہ قبولوانے پر الماس کی تسلی ہوئی، مگر وہ لگاؤ جو اس کے دل و دماغ میں صلاحو کے متعلق پیدا ہوا تھا، غائب ہو گیا اور اس نے ٹھیٹ طوائف بن کر اپنی ماں کو سمجھایا کہ بچپنا چھوڑ دو اوراس سے میرے دام وصول کرو، تمہیں وہ کیا دے گا۔ اپنی لڑکی کی یہ عقل والی بات اقبال کی سمجھ میں آگئی اور وہ صلاحو کو دوسری نظر سے دیکھنے لگی۔ صلاحو بھی سمجھ گیا کہ اس کا وار خالی گیا ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ نیلام میں الماس کی سب سے بڑھ کر بولی دے۔ دودے پہلوان نے ادھر ادھر سے کرید کر معلوم کیا کہ الماس کی نتھنی اتر سکتی ہے اگر صلاحو پچیس ہزار روپے اس کی ماں کے قدموں میں ڈھیر کردے۔ صلاحو اب پوری طرح جکڑا جا چکا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ اس نے دو مکان بیچے اور پچیس ہزار روپے حاصل کرکے اقبال کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی رقم پیدا نہیں کرسکے گا۔ جب وہ لے آیا، تو وہ بوکھلا سی گئی۔ الماس سے مشورہ کیا تو اس نے کہا اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے اس سے کہو کہ ہمارے ساتھ کلیر شریف کے عرس پر چلے۔ صلاحو کو جانا پڑا اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پورے پندرہ ہزار روپے مجروں میں اڑ گئے۔ اس کی ان تماش بینوں پر جو عرس میں شریک ہوئے تھے، دھاک تو بیٹھ گئی مگر اس کے پچیس ہزار روپوں کو دیمک لگ گئی۔ واپس آئے تو باقی کا روپیہ آہستہ آہستہ الماس کی فرمائشوں کی نذر ہو گیا۔ دودا اندر ہی اندر غصے سے کھول رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اقبال اور الماس، دونوں کا سر اڑا دے۔ مگر اسے اپنے بابو کا خیال تھا۔ اس کے دل میں بہت سی باتیں تھیں جو وہ صلاحو کو بتانا چاہتا تھا، مگر بتا نہیں سکتا تھا۔ اس سے اسے اور بھی جھنجھلاہٹ ہوتی۔ صلاحو بہت بری طرح الماس پر لٹو تھا۔ پچیس ہزار روپے ٹھکانے لگ چکے تھے۔ اب وہ دس ہزار روپے اس مکان کو گروی رکھ کر اجاڑ رہا تھا جس میں اس کی نیک سیرت ماں رہتی تھی۔ یہ روپیہ کب تک اس کا ساتھ دیتا۔ اقبال اور الماس دونوں جونک کی طرح چمٹی ہوئی تھی۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب اس پر نالش ہوئی اور عدالت نے اسے قرقی کا حکم دے دیا۔ صلاحو بہت پریشان ہوا، اسے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی ایسا آدمی جو اسے قرض دیتا۔ لے دے کر ایک مکان تھا، سو وہ بھی گروی تھا اور قرقی آئی ہوئی تھی، اور بیلف صرف دودے پہلوان کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے جس نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد روپے کا بندوبست کردے گا۔ صلاحو بہت ہنسا تھا کہ دودا کہاں سے روپے کا بندوبست کرے گا۔ سو دو سو روپے کی بات ہوتی تو اسے یقین آجاتا۔ مگر سوال پورے دس ہزار روپے کا تھا۔ چنانچہ اس نے پہلوان کا بڑی بے دردی سے مذاق اڑایا تھا کہ وہ اس کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔ پہلوان نے یہ لعن طعن خاموشی سے برداشت کی اور چلا گیا۔ دوسرے روز آیا تو اس کا شنگرف ایسا چہرہ زرد تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ بستر علالت پر سے اٹھ کر آیا ہے۔ سرنیوڑھا کر اس نے اپنے ڈب میں سے رومال نکالا جس میں سوسو کے کئی نوٹ تھے اور صلاحو سے کہا

’’لے باؤ۔ لے آیا ہوں۔ ‘‘

صلاحو نے نوٹ گنے۔ پورے دس ہزار تھے۔ ٹکر ٹکر پہلوان کا منہ دیکھنے لگا۔

’’یہ روپیہ کہاں سے پیدا کیا تم نے؟‘‘

دودے نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔

’’ہو گیا پیدا کہیں سے۔ ‘‘

صلاحو قرقی کو بھول گیا۔ اتنے سارے نوٹ دیکھے تو اس کے قدم پھر الماس کے کوٹھے کی طرف اٹھنے لگا۔ مگر پہلوان نے اسے روکا۔

’’نہیں باؤ۔ الماس کے پاس نہ جاؤ۔ یہ روپیہ قرقی والوں کو دو۔ ‘‘

صلاحو نے بگڑے ہوئے بچے کی مانند کہا۔

’’کیوں؟۔ میں جاؤں گا الماس کے پاس۔ ‘‘

دودے نے کڑے لہجے میں کہا۔

’’تو نہیں جائے گا!‘‘

صلاحو طیش میں آگیا۔

’’تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا!‘‘

دودے کی آواز نرم ہو گئی۔

’’میں تیرا غلام ہوں باؤ۔ پر اب الماس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ‘‘

دودے کی آواز میں لرزش پیدا ہو گئی۔

’’نہ پوچھ باؤ۔ یہ روپیہ مجھے اسی نے دیا ہے۔ ‘‘

صلاحو قریب قریب چیخ اٹھا۔

’’یہ روپیہ الماس نے دیا ہے۔ تمہیں دیا ہے؟‘‘

’’ہاں باؤ۔ اسی نے دیا ہے۔ مجھ پر بہت دیر سے مرتی تھی سالی، پر میں اس کے ہاتھ نہیں آتا تھا۔ تجھ پر تکلیف کا وقت آیا تو میرے دل نے کہا دودے چھوڑ اپنی قسم کو۔ تیرا باؤ تجھ سے قربانی مانگتا ہے۔ سو میں کل رات اس کے پاس گیا اور۔ اور۔ اور اس سے یہ سودا کرلیا۔ ‘‘

دودے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

سعادت حسن منٹو

دس روپے

وہ گلی کے اس نکڑ پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کی ماں اسے چالی (بڑے مکان جس میں کئی منزلیں اور کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں) میں ڈھونڈ رہی تھی۔ کشوری کو اپنی کھولی میں بٹھا کر اور باہر والے سے کافی چائے لانے کے لیے کہہ کروہ اس چالی کی تینوں منزلوں میں اپنی بیٹی کو تلاش کر چکی تھی۔ مگر جانے وہ کہاں مر گئی تھی۔ سنڈاس کے پاس جا کر بھی اس نے آواز دی۔

’’اے سریتا۔ سریتا!‘‘

مگر وہ تو چالی میں تھی ہی نہیں اور جیسا کہ اس کی ماں سمجھ رہی تھی۔ اب اسے پیچش کی شکایت بھی نہیں تھی۔ دوا پِیے بغیر اس کو آرام آچکا تھا۔ اور وہ باہر گلی کے اس نکڑ پر جہاں کچرے کا ڈھیر پڑا رہتا ہے، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں سے کھیل رہی تھی اور ہر قسم کے فکر و تردّد سے آزاد تھی۔ اس کی ماں بہت متفکر تھی۔ کشوری اندر کھولی میں بیٹھا تھا۔ اور جیسا کہ اس نے کہا تھا، دو سیٹھ باہر بڑے بازار میں موٹر لیے کھڑے تھے لیکن سریتا کہیں غائب ہی ہو گئی تھی۔ موٹر والے سیٹھ ہر روز تو آتے ہی نہیں، یہ تو کشوری کی مہربانی ہے کہ مہینے میں ایک دو بار موٹی اسامی لے آتا ہے۔ ورنہ ایسے گندے محلے میں جہاں پان کی پیکوں اور جلی ہوئی بیڑیوں کی ملی جلی بو سے کشوری گھبراتا ہے، سیٹھ لوگ کیسے آسکتے ہیں۔ کشوری چونکہ ہوشیار ہے اس لیے وہ کسی آدمی کو مکان پر نہیں لاتا بلکہ سریتا کو کپڑے وپڑے پہنا کر باہر لے جایا کرتا ہے اور ان لوگوں سے کہہ دیا کرتا ہے کہ

’’صاحب لوگ آج کل زمانہ بڑا نازک ہے۔ پولیس کے سپاہی ہر وقت گھات میں لگے رہتے ہیں۔ اب تک دو سو دھندا کرنے والی چھوکریاں پکڑی جاچکی ہیں۔ کورٹ میں میرا بھی ایک کیس چل رہا ہے۔ اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

سریتا کی ماں کو بہت غصہ آرہا تھا۔ جب وہ نیچے اتری تو سیڑھیوں کے پاس رام دئی بیٹھی بیڑیوں کے پتے کاٹ رہی تھی۔ اس سے سریتا کی ماں نے پوچھا۔

’’تو نے سریتا کو کہیں دیکھا ہے۔ جانے کہاں مر گئی ہے، بس آج مجھے مل جائے وہ چار چوٹ کی مار دوں کہ بند بند ڈھیلا ہو جائے۔ لوٹھا کی لوٹھا ہو گئی ہے پر سارا دن لونڈوں کے ساتھ کدکڑے لگاتی رہتی ہے۔ ‘‘

رام دئی بیڑیوں کے پتے کاٹتی رہی۔ اور اس نے سریتا کی ماں کو جواب نہ دیا۔ دراصل رام دئی سے سریتا کی ماں نے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا۔ وہ یونہی بڑبڑاتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی۔ جیسا کہ اس کا عام دستور تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن اسے سریتا کو ڈھونڈنا پڑتا تھا اور رام دئی کو جو کہ سارا دن سیڑھیوں کے پاس پٹاری سامنے رکھے بیڑیوں پر لال اور سفید دھاگے لپیٹی رہتی تھی مخاطب کرکے یہی الفاظ دہرایا کرتی تھی۔ ایک اور بات وہ چالی کی ساری عورتوں سے کہا کرتی تھی۔

’’میں تو اپنی سریتا کا کسی بابو سے بیاہ کروں گی۔ اسی لیے تو اس سے کہتی ہوں کہ کچھ پڑھ لکھ لے۔ یہاں پاس ہی ایک اسکول منسی پالٹی(میونسپلٹی) نے کھولا ہے۔ سوچتی ہوں اس میں سریتا کو داخل کرادوں، بہن اس کے پِتا کو بڑا شوق تھا کہ میری لڑکی لکھی پڑھی ہو۔ ‘‘

اس کے بعد وہ ایک لمبی آہ بھر کر عام طور پر اپنے مرے ہوئے شوہر کا قصہ چھیڑ دیتی تھی۔ جو چالی کی ہر عورت کو زبانی یاد تھا۔ رام دئی سے اگر آپ پوچھیں کہ اچھا جب سریتا کے باپ کو جو ریلوائی میں کام کرتا تھا۔ بڑے صاحب نے گالی دی تو کیا ہوا تو رام دئی فوراً آپ کو بتا دے گی کہ سریتا کے باپ کے منہ میں جھاگ بھر آیا۔ اور وہ صاحب سے کہنے لگا۔

’’میں تمہارا نوکر نہیں ہوں۔ سرکار کا نوکر ہوں۔ تم مجھ پر رعب نہیں جما سکتے۔ دیکھو اگر پھر گالی دی تو یہ دونوں جبڑے حلق کے اندر کردوں گا۔ ‘‘

بس پھر کیا تھا۔ صاحب تاؤ میں آگیا، اور اس نے ایک اور گالی سنا دی۔ اس پر سریتا کے باپ نے غصے میں آکر صاحب کی گردن پر دھول جما دی کہ اس کا ٹوپ دس گزپر جا گرا اور اس کو دن میں تارے نظر آگئے۔ مگر پھر بھی وہ بڑا آدمی تھا آگے بڑھ کر اس نے سریتا کے باپ کے پیٹ میں اپنے فوجی بوٹ سے اس زور کی ٹھوکر ماری کہ اس کی تلی پھٹ گئی اور وہیں لائنوں کے پاس گر کر اس نے جان دے دی۔ سرکار نے صاحب پر مقدمہ چلایا۔ اور پورے پانچ سو روپے سریتا کی ماں کو اس سے دلوائے مگر قسمت بُری تھی۔ اس کو سٹہ کھیلنے کی چاٹ پڑ گئی۔ اور پانچ مہینے کے اندر اندر سارا روپیہ برباد ہو گیا۔ سریتا کی ماں کی زبان پر ہرقت یہ کہانی جاری رہتی تھی لیکن کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ۔ چالی میں سے کسی آدمی کو بھی سریتا کی ماں سے ہمدردی نہ تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ سب کے سب خود ہمدردی کے قابل تھے، کوئی کسی کا دوست نہیں تھا۔ اس بلڈنگ میں اکثر آدمی ایسے رہتے تھے جو دن بھر سوتے تھے اور رات کو جاگتے تھے۔ کیونکہ انھیں رات کو پاس والی مل میں کام پر جانا ہوتا تھا۔ اس بلڈنگ میں سب آدمی بالکل پاس رہتے تھے۔ لیکن کسی کو ایک دوسرے سے دلچسپی نہ تھی۔ چالی میں قریب قریب سب لوگ جانتے تھے کہ سریتا کی ماں اپنی جوان بیٹی سے پیشہ کراتی ہے لیکن چونکہ وہ کسی کے ساتھ اچھا بُرا سلوک کرنے کے عادی ہی نہ تھے، اس لیے سریتا کی ماں کو کوئی جھٹلانے کی کوشش نہ کرتا تھا جب وہ کہا کرتی تھی میری بیٹی کو تو دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں۔ البتہ ایک روز صبح سویرے نل کے پاس جب تکا رام نے سریتا کو چھیڑا تھا تو سریتا کی ماں بہت چیخی چلائی تھی۔ اس موئے گنجے کو تو کیوں سنبھال کے نہیں رکھتی۔ پرماتما کرے دونوں آنکھوں سے اندھا ہو جائے۔ جن سے اس نے میری کنواری بیٹی کی طرف بُری نظروں سے دیکھا۔ سچ کہتی ہوں۔ ایک روز ایسا فساد ہو گا کہ اس تیری سوغات کا مارے جوتوں کے سر پلپلا کردوں گی۔ باہر جو چاہے کرتا پھرے یہاں اسے بھلے مانسوں کی طرح رہنا ہو گا۔ سنا!‘‘

اور یہ سن کر تکا رام کی بھینگی بیوی دھوتی باندھتے باندھتے باہر نکل آئی۔

’’خبردار موئی چڑی جو تو نے ایک لفظ بھی اور زبان سے نکالا۔ یہ تیری دیوی تو ہوٹل کے چھوکروں سے بھی آنکھ مچولی کھیلتی ہے اور تو کیا ہم سب کو اندھا سمجھتی ہے کیا ہم سب جانتے نہیں کہ تیرے گھر میں نت نئے بابو کس لیے آتے ہیں۔ اور یہ تیری سریتا آئے دن بن سنور کر باہر کیوں جاتی ہے۔ بڑی آئی عزت آبرو والی۔ جا جا دور دفان ہو یہاں سے۔ ‘‘

تکارام کی بھینگی بیوی کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ لیکن یہ بات خاص طور پر سب لوگوں کو معلوم تھی کہ گھانسلیٹ والا(مٹی کا تیل بیچنے والا) تیل دینے کے لیے آتا ہے تو وہ اسے اندر بلا کر دروازہ بند کرلیا کرتی ہے۔ چنانچہ سریتا کی ماں نے اس خاص بات پر بہت زور دیا۔ وہ بار بار نفرت بھرے لہجے میں اس سے کہتی۔

’’وہ تیرا یار گھانسلیٹ۔ دو دو گھنٹے اسے کھولی میں بٹھا کر کیا تو اس کا گھانسلیٹ سونگھتی رہتی ہے؟‘‘

تکا رام کی بیوی سے سریتا کی ماں کی بول چال زیادہ دیر تک بند نہ رہی تھی کیونکہ ایک روز سریتا کی ماں نے رات کو اپنی اس پڑوسن کو گھپ اندھیرے میں کسی سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے پکڑ لیا تھا اور دوسرے ہی روز تکا رام کی بیوی نے جب وہ رات کو پانے دھونی کی طرف سے آرہی تھی۔ سریتا کو ایک جنٹلمین آدمی کے ساتھ موٹر میں بیٹھے دیکھ لیا۔ چنانچہ ان دونوں کا آپس میں سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اسی لیے سریتا کی ماں نے تکا رام کی بیوی سے پوچھا۔

’’تو نے کہیں سریتا کو نہیں دیکھا؟‘‘

تکا رام کی بیوی نے بھینگی آنکھ سے گلی کے نکڑ کی طرف دیکھا۔

’’وہاں گھورے کے پاس پٹواری کی لونڈیا سے کھیل رہی ہے۔ ‘‘

پھر اس نے آواز دھیمی کرکے اس سے کہا۔

’’ابھی ابھی کشوری اوپر گیا تھا کہ تجھ سے ملا؟‘‘

سریتا کی ماں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ہولے سے کہا۔

’’اوپر بٹھا آئی ہوں پر یہ سریتا ہمیشہ وقت پر کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ کچھ سوچتی نہیں۔ بس دن بھر کھیل کود چاہیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ گھورے کی طرف بڑھی اور جب سیمنٹ کی بنی ہوئی موتری(پیشاب گاہ) کے پاس آئی تو سریتا فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے چہرے پر افسردگی کے آثار پیدا ہو گئے۔ جب اس کی ماں نے خشم آلود لہجے میں اس کا بازو پکڑ کر کہا۔

’’چل گھرمیں چل کے مَر۔ تجھے تو سوائے اچھل کود کے اور کوئی کام ہی نہیں۔ ‘‘

پھر راستے میں اس نے ہولے سے کہا۔

’’کشوری بڑی دیر سے آیا بیٹھا ہے، ایک موٹر والے سیٹھ کو بلایا ہے۔ چل تو بھاگ کے اوپر چل اور جلدی جلدی تیار ہو جا۔ اور سن۔ وہ نیلی جارجٹ کی ساڑھی پہن۔ اور دیکھ یہ تیرے بال بھی بہت بُری طرح بکھر رہے ہیں۔ تو جلدی تیار ہو۔ کنگھی میں کردوں گی۔ ‘‘

یہ سن کر کہ موٹر والے سیٹھ آئے ہیں، سریتا بہت خوش ہوئی۔ اسے سیٹھ سے اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی کہ موٹر سے تھی۔ موٹر کی سواری اسے بہت پسند تھی۔ جب موٹر فراٹے بھرتی کھلی کھلی سڑکوں پر چلتی اور اس کے منہ پر ہوا کے طمانچے پڑتے، تو اس کے دل میں ایک ناقابلِ بیان مسرت ابلنا شروع ہو جاتی۔ موٹر میں بیٹھ کر اس کو ہر شے ایک ہوائی چکر دکھائی دیتی اور سمجھتی کہ وہ خود ایک بگولا ہے جو سڑکوں پر اڑتا چلا جارہا ہے۔ سریتا کی عمر زیادہ سے زیادہ پندرہ برس کی ہو گی۔ مگر اس میں بھنپا تیرہ برس کی لڑکیوں کا سا تھا۔ عورتوں سے ملنا جلنا اور ان سے باتیں کرنا بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ سارا دن چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ اونٹ پٹانگ کھیلوں میں مصروف رہتی۔ ایسے کھیل جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو۔ مثال کے طور پر وہ گلی کے کالے لُک پھرے فرش پر کھریا مٹی سے لکیریں کھینچنے میں بہت دلچسپی لیتی تھی اور اس کھیل میں وہ اس انہماک سے مصروف رہتی۔ جیسے سڑک پر یہ ٹیڑھی بنگی لکیریں اگر نہ کھینچی گئیں تو آمدورفت بند ہو جائے گی، اور پھر کھولی سے پرانے ٹاٹ اٹھا کروہ اپنی ننھی ننھی سہیلیوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے ان کو فٹ پاتھ پر جھٹکنے صاف کرنے، بچھانے اور ان پر بیٹھنے کے غیر دلچسپ کھیل میں مشغول رہتی تھی۔ سریتا خوبصورت نہیں تھی۔ رنگ اس کا سیاہی مائل گندمی تھا۔ بمبئی کے مرطوب موسم کے باعث اس کے چہرے کی جلد ہر وقت چکنی رہتی تھی۔ اورپتلے پتلے ہونٹوں پر جو چیکو( ایک پھل جس کا رنگ گندمی ہوتا ہے) کے چھلکے دکھائی دیتے تھے، ہر وقت خفیف سی لرزش طاری رہتی تھی۔ اوپر کے ہونٹ پر پسینے کی تین چار ننھی ننھی بوندیں ہمیشہ کپکپاتی رہتی تھیں۔ اس کی صحت اچھی تھی۔ غلاظت میں رہنے کے باوجود اس کا جسم سڈول اور متناسب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ا س پر جوانی کا حملہ بڑی شدت سے ہوا ہے جس نے مخالف قوتوں کو دبا کے رکھ دیاہے۔ قد چھوٹا تھا جو اس کی تندرستی میں اضافہ کرتا تھا۔ سڑک پر پھرتی سے ادھر ادھر چلتے ہوئے جب اس کی میلی گھگری اوپر کو اٹھ جاتی تو کئی راہ چلنے والے مردوں کی نگاہیں اس کی پنڈلیوں کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ جن میں جوانی کے باعث تازہ رندہ کی ہوئی ساگوان کی لکڑی جیسی چمک دکھائی دیتی تھی۔ ان پنڈلیوں پر جو بالوں سے بالکل بے نیاز تھیں۔ مساموں کے ننھے ننھے نشان دیکھ کر ان سنگتروں کے چھلکے یاد آجاتے تھے جن کے چھوٹے چھوٹے خلیوں میں تیل بھرا ہوتا ہے اور جو تھوڑے سے دباؤ پر فوارے کی طرح اوپر اٹھ کر آنکھوں میں گھس جایا کرتا ہے۔ سریتا کی باہیں بھی سڈول تھیں۔ کندھوں پر ان کی گولائی موٹے اور بڑے بیڈھب طریقے پر سلے ہوئے بلاؤز کے باوجود باہر جھانکتی تھی۔ بال بڑے گھنے اور لمبے تھے۔ ان میں سے کھوپرے کے تیل کی بو آتی رہتی تھی۔ ایک موٹے کوڑے کے مانند اس کی چوٹی پیٹھ کو تھپکتی رہتی تھی۔ سریتا اپنے بالوں کی لمبائی سے خوش نہیں تھی کیونکہ کھیل کود کے دوران میں اس کی چوٹی اسے بہت تکلیف دیا کرتی تھی اور اسے مختلف طریقوں سے اس کو قابو میں رکھنا پڑتا تھا۔ سریتا کا دل و دماغ ہر قسم کے فکر و تردّد سے آزاد تھا۔ دونوں وقت اسے کھانے کو مل جاتا تھا۔ اس کی ماں گھر کا سب کام کاج کرتی تھی۔ صبح کو سریتا دو بالٹیاں بھر کر اندر رکھ دیتی اور شام کو ہر روز لیمپ میں ایک پیسے تیل بھروالاتی۔ کئی برسوں سے وہ یہ کام بڑی باقاعدگی سے کررہی تھی۔ چنانچہ شام کو عادت کے باعث خود بخود اس کا ہاتھ اس پیالے کی طرف بڑھتا جس میں پیسے پڑے رہتے تھے اور لیمپ اٹھا کر وہ نیچے چلی جاتی۔ کبھی کبھی یعنی مہینے میں چار پانچ بار جب کشوری سیٹھ لوگوں کو لاتا تھا۔ تو ان کے ساتھ ہوٹل میں یا باہر اندھیرے مقاموں پر جانے کو وہ تفریح خیال کرتی تھی۔ اس نے اس باہر جانے کے سلسلے کے دوسرے پہلوؤں پرکبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ شاید یہ سمجھتی تھی کہ دوسری لڑکیوں کے گھر میں بھی کشوری جیسے آدمی آتے ہوں گے اور ان کو سیٹھ لوگوں کے ساتھ باہر جانا پڑتا ہو گا۔ اوروہاں رات کو ورلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے بنچوں پر یا جوہو کی گیلی ریت پر جو کچھ ہوتا ہے سب کے ساتھ ہوتا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ایک بار اپنی ماں سے کہا تھا۔

’’ماں اب تو شانتا بھی کافی بڑی ہو گئی۔ اس کو بھی میرے ساتھ بھیج دو نا۔ یہ سیٹھ جو اب آئے ہیں۔ ابلے انڈے کھانے کو دیا کرتے ہیں۔ اور شانتا کو انڈے بہت بھاتے ہیں۔ ‘‘

اس پر اس کی ماں نے بات گول مول کردی تھی۔

’’ہاں ہاں کسی روز اس کو بھی تمہارے ساتھ بھیج دوں گی۔ اس کی ماں پونہ سے واپس تو آجائے۔ ‘‘

اور سریتا نے دوسرے روز ہی شانتا کو جب وہ سنڈاس سے نکل رہی تھی، یہ خوش خبری سنائی تھی۔

’’تیری ماں پُونہ سے آجائے تو سب معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔ تو بھی میرے ساتھ ورلی جایا کرے گی۔ ‘‘

اور اس کے بعد سریتا نے اس کو رات کی بات کچھ اس طریقے پر سنانا شروع کی تھی جیسے اس نے ایک ہی پیارا سپنا دیکھا ہے۔ شانتا کو جو سریتا سے دو برس چھوٹی تھی یہ باتیں سن کر ایسا لگا تھا جیسے اس کے سارے جسم کے اندر ننھے ننھے گھنگھرو بج رہے ہیں۔ سریتا کی سب باتیں سن کر بھی اس کو تسلی نہ ہوئی تھی اور اس کا بازو کھینچ کر اس نے کہا تھا۔

’’چل نیچے چلتے ہیں۔ وہاں باتیں کریں گے۔ ‘‘

اور نیچے اس موتری کے پاس جہاں گردھاری بنیا نے بہت سے ٹاٹوں پر کھوپرے کے میلے ٹکڑے سکھانے کے لیے ڈال رکھے تھے، وہ دونوں دیر تک کپکپی کرنے والی باتیں کرتی رہی تھیں۔ اس وقت بھی جب کہ سریتا دھوتی کے پردے کے پیچھے نیلی جارجٹ کی ساڑھی پہن رہی تھی۔ کپڑے کے مس ہی سے اس کے بدن پر گدگدی ہورہی تھی اور موٹر کی سیر کا خیال اس کے دماغ میں پرندوں کی سی پھڑپھڑاہٹیں پیدا کررہا تھا۔ اب کی بار سیٹھ کیسا ہو گا اور اسے کہاں لے جائے گا۔ یہ اور اسی قسم کے اور سوال اس کے دماغ میں نہیں آرہے تھے۔ البتہ جلدی جلدی کپڑے بدلتے ہوئے اس نے ایک دو مرتبہ یہ ضرور سوچا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ موٹر چلے اور چند ہی منٹوں میں کسی ہوٹل کے دروازے پر ٹھہر جائے اور ایک بند کمرے میں سیٹھ شراب پینا شروع کردیں اور اس کا دم گھٹنا شروع ہو جائے۔ اسے ہوٹلوں کے بند کمرے پسند نہیں تھے۔ جن میں عام طور پر لوہے کی دو چارپائیاں اس طور بچھی ہوتی تھیں گویا ان پر جی بھر کے سونے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ جلدی جلدی اس نے جارجٹ کی ساڑھی پہنی اور اس کی شکنیں درست کرتی ہوئی ایک لمحے کے لیے کشوری کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

’’کشوری، ذرا دیکھو۔ پیچھے سے ساڑھی ٹھیک ہے نا؟‘‘

اور جواب کا انتظار کیے بغیر وہ لکڑی کے اس ٹوٹے ہوئے بکس کی طرف بڑھی جس میں اس نے جاپانی سرخی رکھی ہوئی تھی۔ ایک دھندلے آئینے کو کھڑکی کی سلاخوں میں اٹکا کر اس نے دوہری ہو کر اپنے گالوں پر پوڈر لگایا۔ اور سرخی لگا کر جب بالکل تیار ہو گئی تو مسکرا کر کشوری کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ شوخ رنگ کی نیلی ساڑھی میں، ہونٹوں پر بے ترتیبی سے سرخی کی دھڑی جمائے اور سانولے گالوں پر پیازی رنگ کا پوڈر ملے وہ مٹی کا ایک ایسا کھلونا معلوم ہوئی جو دیوالی پر کھلونے بیچنے والوں کی دکان میں سب سے زیادہ نمایاں دکھائی دیا کرتاہے۔ اتنے میں اس کی ماں آگئی۔ اس نے جلدی جلدی سریتا کے بال درست کیے اور کہا۔

’’دیکھو بٹیا اچھی اچھی باتیں کرنا۔ اور جو کچھ وہ کہیں مان لینا۔ یہ سیٹھ جو آئے ہیں نا بڑے آدمی ہیں موٹر ان کی اپنی ہے۔ ‘‘

پھر کشوری سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’اب تو جلدی سے لے جا اسے۔ بچارے کب کے کھڑے راہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ‘‘

باہر بڑے بازار میں جہاں ایک کارخانے کی لمبی دیوار دور تک چلی گئی ہے۔ ایک پیلے رنگ کی موٹر میں تین حیدرآبادی نوجوان اپنی اپنی ناک پر رومال رکھے کشوری کا انتظار کررہے تھے۔ وہ موٹر آگے لے جاتے مگر مصیبت یہ ہے کہ دیوار دور تک چلی گئی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی پیشاب کا سلسلہ بھی۔ جب گلی کے موڑ سے ان نوجوان کو جو موٹر کا ہینڈل تھامے بیٹھا تھا۔ کشوری نظر آیا تو اس نے اپنے باقی دو ساتھیوں سے کہا۔

’’لو بھئی آگئے۔ یہ ہے کشوری۔ اور۔ اور۔ ‘‘

اس نے موٹر کی طرف نگاہیں جمائے رکھیں۔ اور۔ اور۔ ارے یہ تو بالکل ہی چھوٹی لڑکی ہے۔ ذرا تم بھی دیکھو نا۔ ارے بھئی وہ۔ وہ نیلی ساڑھی میں۔ ‘‘

جب کشوری اور سریتا دونوں موٹر کے پاس آگئے تو پچھلی سیٹ پر جو دو نوجوان بیٹھے تھے۔ انھوں نے درمیان میں سے اپنے ہیٹ وغیرہ اٹھا لیے۔ اور جگہ خالی کردی کشوری نے آگے بڑھ کے موٹر کے پچھلے حصے کا دروازہ کھولا اور پھرتی سے سریتا کو اندر داخل کردیا۔ دروازہ بند کرکے کشوری نے اس نوجوان سے جو موٹر کا ہینڈل تھامے تھا۔ کہا۔

’’معاف کیجیے گا دیر ہو گئی۔ یہ باہر اپنی کسی سہیلی کے پاس گئی ہوئی تھی۔ تو۔ تو؟‘‘

نوجوان نے مڑ کر سریتا کی طرف دیکھا۔ اور کشوری سے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ لیکن دیکھو۔ ‘‘

سرک کر موٹر کی اس کھڑی میں سے اس نے اپنا سر باہر نکالا اور ہولے سے کشوری کے کان میں کہا۔

’’شور وور تو نہیں مچائے گی؟‘‘

کشوری نے اس کے جواب میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا۔

’’سیٹھ، آپ مجھ پر بھروسہ رکھیے۔ ‘‘

یہ سن کر اس نوجوان نے جیب میں سے دو روپے نکالے اور کشوری کے ہاتھ میں تھما دیے۔

’’جاؤ عیش کرو۔ ‘‘

کشوری نے سلام کیا اور موٹر اسٹارٹ ہوئی۔ شام کے پانچ بجے تھے۔ بمبئی کے بازاروں میں گاڑیوں، ٹراموں، بسوں اور لوگوں کی آمدورفت بہت زیادہ تھی۔ سریتا خاموشی سے دو آدمیوں کے بیچ میں دبکی بیٹھی رہی۔ بار بار اپنی رانوں کو جوڑ کراوپر ہاتھ رکھ دیتی اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو جاتی۔ وہ دراصل موٹر چلانے والے نوجوان سے کہنا چاہتی تھی۔

’’سیٹھ جلدی جلدی موٹر چلاؤ۔ میرا تویوں دم گھٹ جائے گا۔ ‘‘

بہت دیر تک موٹر میں کسی نے ایک دوسرے سے بات نہ کی۔ موٹر والا موٹر چلاتا رہا۔ اور پچھلی سیٹ پر دونوں حیدرآبادی نوجوان اپنی اچکنوں میں وہ اضطراب چھپاتے رہے جو پہلی دفعہ ایک نوجوان لڑکی کو بالکل اپنے پاس دیکھ کر انھیں محسوس ہورہا تھا۔ ایسی نوجوان لڑکی جو کچھ عرصے کے لیے ان کی اپنی تھی یعنی جس سے وہ بلا خوف و خطر چھیڑ چھاڑ کر سکتے تھے۔ وہ نوجوان جوموٹر چلا رہا تھا۔ دو برس سے بمبئی میں قیام پذیر تھا اور سریتا جیسی کئی لڑکیاں دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں دیکھ چکا تھا۔ اس کی پیلی موٹر میں مختلف رنگ و نسل کی چھوکریاں داخل ہو چکی تھیں۔ اس لیے اسے کوئی خاص بے چینی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ حیدر آباد کے اس کے دو دوست آئے تھے، ان میں سے ایک جس کا نام شہاب تھا۔ جو بمبئی میں پوری طرح سیر و تفریح کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کفایت نے یعنی موٹر کے مالک نے ازراہ دوست نوازی کشوری کے ذریعہ سے سریتا کا انتظام کردیا تھا۔ دوسرے دوست انور سے کفایت نے کہا کہ بھئی تمہارے لیے بھی ایک رہے تو کیا ہرج ہے۔ مگر اس میں چونکہ اخلاقی قوت کم تھی۔ اس لیے شرم کے مارے وہ یہ نہ کہہ سکا کہ ہاں بھئی میرے لیے بھی ایک رہے۔ کفایت نے سریتا کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیونکہ کشوری بہت دیر کے بعد یہ نئی چھوکری نکال کر لایا تھا۔ لیکن اس نئے پن کے باوجود اس نے ابھی تک اس سے دلچسپی نہ لی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک کام کرسکتا تھا۔ موٹر چلانے کے ساتھ ساتھ وہ سریتا کی طرف دھیان نہیں دے سکتا تھا۔ جب شہر ختم ہو گیا اور موٹر مضافات کی سڑک پر چلنے لگی تو سریتا اچھل پڑی۔ وہ دباؤ جو اب تک اس نے اپنے اوپر ڈال رکھا تھا، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں اور اڑتی ہوئی موٹر نے ایک دم اٹھا دیا۔ اور سریتا کے اندر بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ وہ سر تا پا حرکت بن گئی۔ اس کی ٹانگیں تھرکنے لگیں۔ بازو ناچنے لگے، انگلیاں کپکپانے لگیں اور وہ اپنے دونوں طرف بھاگتے ہوئے درختوں کو دوڑتی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ اب انور اور شہاب آرام محسوس کررہے تھے۔ شہاب نے جو سریتا پر اپنا حق سمجھتا تھا۔ ہولے سے اپنا بازو اس کی کمر میں حائل کرنا چاہا۔ ایک دم سریتا کے گدگدی اٹھی۔ تڑپ کر وہ انور پر جا گری۔ اور پیلی موٹر کی کھڑکیوں میں سے دور تک سریتا کی ہنسی بہتی گئی۔ شہاب نے جب ایک بار پھر اس کی کمر کی طرف ہاتھ بڑھایا تو سریتا دوہری ہو گئی اور ہنستے ہنستے اس کا بُرا حال ہو گیا۔ انور ایک کونے میں دبکا رہا اور منہ میں تھوک پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ شہاب کے دل و دماغ میں شوخ رنگ بھر گئے۔ اس نے کفایت سے کہا۔

’’واللہ بڑی کراری لونڈیا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے زور سے سریتا کی ران میں چٹکی بھری۔ سریتا نے اس کے جواب میں انور کا ہولے سے کان مروڑ دیا۔ اس لیے کہ وہ اس کے بالکل پاس تھا۔ موٹر میں قہقہے ابلنے لگے۔ کفایت بار بار مڑ مڑ کر دیکھتا تھا۔ حالانکہ اسے اپنے سامنے چھوٹے سے آئینے میں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ قہقہوں کے زور کا ساتھ دینے کی خاطر اس نے موٹر کی رفتاربھی تیز کردی۔ سریتا کا جی چاہا کہ باہر نکل کر موٹر کے منہ پر بیٹھ جائے جہاں لوہے کی اُڑتی ہوئی پری لگی تھی۔ وہ آگے بڑھی۔ شہاب نے اسے چھیڑا، سو سنبھلنے کی خاطر اس نے کفایت کے گلے میں اپنی باہیں حمائل کردیں۔ کفایت نے غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ چوم لیے۔ ایک سنسنی سی سریتا کے جسم میں دوڑ گئی اور پھاند کر اگلی سیٹ پر کفایت کے پاس بیٹھ گئی۔ اور اس کی ٹائی سے کھیلنا شروع کردیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے کفایت سے پوچھا۔

’’میرا نام!‘‘

کفایت نے پوچھا۔

’’میرا نام کفایت ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ سریتا نے اس کے نام کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور نوٹ اپنی چولی میں اڑس کر بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔

’’تم بہت اچھے آدمی ہو۔ تمہاری یہ ٹائی بہت اچھی ہے۔ ‘‘

اس وقت سریتا کو ہر شے اچھی نظر آرہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جو بُرے بھی ہیں اچھے ہو جائیں۔ اور۔ اور۔ پھر ایسا ہو، ایسا ہو۔ کہ موٹر تیز دوڑتی رہے اور ہر شے ہوائی بگولا بن جائے۔ ایک دم اس کا جی چاہا کہ گائے، چنانچہ اس نے کفایت کی ٹائی سے کھیلنا بند کرکے گانا شروع کردیا ؂ تمہیں نے مجھ کو پریم سکھایا سوئے ہوئے ہر دے کو جگایا کچھ دیر یہ فلمی گیت گانے کے بعد سریتا ایک دم پیچھے مڑی اور انور کو خاموش دیکھ کر کہنے لگی۔

’’تم کیوں چپ چاپ بیٹھے ہو۔ کوئی بات کرو۔ کوئی گیت گاؤ۔ ‘‘

یہ کہتی ہوئی وہ اچک کر پچھلی سیٹ پر چلی گئی اور شہاب کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگی۔

’’آؤ ہم دونوں گائیں۔ تمہیں یاد ہے وہ گانا جو دیویکا رانی نے گایا تھا۔ میں بن کے چڑیا بن کے بولوں رے۔ دیویکا رانی کتنی اچھی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنی تھوڑی کے نیچے رکھ لیے اور آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ اشوک کمار اور دیویکا رانی پاس پاس کھڑے تھے۔ دیویکا رانی کہتی تھی۔ میں بن کی چڑیا بن کے بن بن بولوں رے۔ اور اشوک کمار کہتا تھا۔ تم کہو نا۔ ‘‘

سریتا نے گانا شروع کردیا۔ میں بن کی چڑیا بن کے بولوں رے۔ شہاب نے بھدی آواز میں گایا۔

’’میں بن کا پنچھی بن کے بن بن بولوں رے۔ ‘‘

اور پھر باقاعدہ ڈؤٹ شروع ہو گیا۔ کفایت نے موٹر کا ہارن بجا کرتال کا ساتھ دیا۔ سریتا نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ سریتا کا باریک سر، شہاب کی پھٹی ہوئی آواز، ہارن کی پوں پوں، ہوا کی سائیں سائیں اور موٹر کے انجن کی پُھرپھراہٹ یہ سب مل جل کر ایک آرکسٹرا بن گئے۔ سریتا خوش تھی، شہاب خوش تھا، کفایت خوش تھا۔ ان سب کو خوش دیکھ کر انور کو بھی خوش ہونا پڑا۔ وہ دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ خواہ مخواہ اس نے اپنے کو قید کر رکھا ہے۔ اس کے بازوؤں میں حرکت پیدا ہوئی۔ اس کے سوئے ہوئے جذبات نے انگڑائیاں لیں اور وہ سریتا، شہاب اور کفایت کی شور افشاں خوشی میں شریک ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔ گاتے گاتے سریتا نے انور کے سر سے اس کا ہیٹ اتار کر اپنے سر پہن لیا اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے سر پر کیسا لگتا ہے، اچک کر اگلی سیٹ پر چلی گئی اور ننھے سے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔ انور سوچنے لگا کہ کیا موٹر میں وہ شروع ہی سے ہیٹ پہنے بیٹھا تھا۔ سریتا نے زور سے کفایت کی موٹی ران پر طمانچہ مارا۔

’’اگر میں تمہاری پتلون پہن لوں۔ اور قمیض پہن کر ایسی ٹائی لگالوں تو کیا پورا صاحب نہ بن جاؤں؟‘‘

یہ سن کر شہاب کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ چنانچہ اس نے انور کے بازوؤں کو جھنجھوڑ دیا۔

’’واللہ تم نرے چغد ہو۔ ‘‘

اور انور نے تھوڑی دیر کے لیے محسوس کیا کہ وہ واقعی بہت بڑا چغد ہے۔ کفایت نے سریتا سے پوچھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’میرا نام‘‘

سریتا نے ہیٹ کے فیتے کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے جماتے ہوئے کہا۔

’’میرا نام سریتا ہے۔ ‘‘

شہاب پچھلی سیٹ سے بولا۔

’’سریتا تم عورت نہیں پھلجھڑی ہو۔ ‘‘

انور نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر سریتا نے اونچے سروں میں گانا شروع کردیا۔ ؂ پریم نگر میں بناؤں گی گھر میں تج کے سب سن سا آ آر کفایت اور شہاب کے دل میں بیک وقت یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ موٹر یونہی ساری عمر چلتی رہے۔ انور پھر سوچ رہا تھا کہ وہ چغد نہیں ہے تو کیا ہے۔ ؂ پریم نگر میں بناؤں گی گھر میں تج کے سب سن سا آ آر سنسار کے ٹکڑے دیر تک اڑتے رہے۔ سریتا کے بال جو اس کی چوٹی کی گرفت سے آزاد تھے۔ یوں لہرا رہے تھے جیسے گاڑھا دھواں ہوا کے دباؤ سے بکھر رہا ہے۔ وہ خوش تھی۔ شہاب خوش تھا، کفایت خوش تھا اور اب انور بھی خوش ہونے کا ارادہ کررہا تھا۔ گیت ختم ہو گیا۔ اور سب کو تھوڑی دیر کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ جو زور کی بارش ہورہی تھی۔ ایکا ایکی تھم گئی ہے۔ کفایت نے سریتا سے کہا۔

’’کوئی اور گیت گاؤ۔ ‘‘

شہاب پچھلی سیٹ سے بولا۔

’’ہاں ہاں ایک اور رہے۔ یہ سینما والے بھی کیا یاد کریں گے۔ ‘‘

سریتا نے گانا شروع کردیا ؂ مورے آنگنا میں آئے آلی میں چال چلوں متوالی موٹر بھی متوالی چال چلنے لگی۔ آخر کار سڑک کے سارے پیچ ختم ہو گئے اور سمندر کا کنارا آگیا۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اور سمندر سے آنے والی ہوا خنکی اختیار کررہی تھی۔ موٹر رُکی۔ سریتا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور ساحل کے ساتھ ساتھ دور تک بے مقصد دوڑتی چلی گئی۔ کفایت اور شہاب بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ کھلی فضا میں، بے پایاں سمندر کے پاس، تاڑ کے اونچے اونچے پیڑوں تلے گیلی گیلی ریت پر سریتا سمجھ نہ سکی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ بیک وقت فضا میں گُھل مل جائے، سمندر میں پھیل جائے، اتنی اونچی ہو جائے کہ تاڑ کے درختوں کو اوپر سے دیکھے۔ ساحل کی ریت کی ساری نمی پیروں کے ذریعے سے اپنے اندر جذب کرلے اور پھر۔ اور پھر۔ وہی موٹر ہو اور وہی اڑانیں وہی تیز تیز جھونکے اور وہی مسلسل پوں پوں۔ وہ بہت خوش تھی۔ جب تینوں حیدرآبادی نوجوان ساحل کی گیلی گیلی ریت پر بیٹھ کر بیئر پینے لگے تو کفایت کے ہاتھ سے سریتا نے بوتل چھین لیا۔

’’ٹھہرو میں ڈالتی ہوں۔ ‘‘

سریتا نے اس انداز سے گلاس میں بیئر انڈیلی کہ جھاگ ہی جھاگ پیدا ہو گئے۔ سریتا یہ تماشا دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ سانولے سانولے جھاگوں میں اس نے اپنی انگلی کھبوئی۔ اور منہ میں ڈال لی۔ جب کڑوی لگی تو بہت بُرا منہ بنایا۔ کفایت اور شہاب بے اختیار ہنس پڑے جب دونوں کی ہنسی بند ہوئی تو کفایت نے مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا۔ انور بھی ہنس رہا تھا۔ بیئر کی چھ بوتلیں کچھ تو جھاگ بن کر ساحل کی ریت میں جذب ہو گئیں اور کچھ کفایت، شہاب اور انور کے پیٹ میں چلی گئیں۔ سریتا گاتی رہی۔ انور نے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور خیال کیا کہ سریتا بیئر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے سانولے گال سمندر کی نم آلود ہوا کے مس سے گیلے ہورہے تھے۔ وہ بے حد مسرور تھی۔ اب انور بھی خوش تھا۔ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ سمندر کا سب پانی بیئر بن جائے اور وہ اس میں غوطے لگائے، سریتا بھی ڈبکیاں لگائے۔ دو خالیں بوتلیں لے کر سریتا نے ایک دوسرے سے ٹکرا دیں، جھنکار پیدا ہوئی اور سریتا نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ کفایت، شہاب اور انور بھی ہنسنے لگے۔ ہنستے ہنستے سریتا نے کفایت سے کہا۔

’’آؤ موٹر چلائیں۔ ‘‘

سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالی بوتلیں گیلی گیلی ریت پر اوندھی پڑی رہیں اور وہ سب بھاگ کر موٹر میں بیٹھ گئے۔ پھر وہی ہوا کے تیز تیز جھونکے آنے لگے۔ وہی مسلسل پوں پوں شروع ہوئی اور سریتا کے بال پھر دھوئیں کی طرح بکھرنے لگے۔ گیتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ موٹر ہوا میں آرے کی طرح چلتی رہی۔ سریتا گاتی رہی۔ پچھلی سیٹ پر شہاب اور انور کے درمیان سریتا بیٹھی تھی۔ انور اونگھ رہا تھا۔ سریتا نے شرارت سے شہاب کے بالوں میں کنگھی کرنا شروع کی۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو گیا، سریتا نے جب انور کی طرف رخ کیا تو اسے ویسا ہی سویا ہوا پایا۔ ان دونوں کے بیچ میں سے اٹھ کر وہ اگلی سیٹ پر کفایت کے پاس بیٹھ گئی اور آواز دبا کر ہولے سے کہنے لگے۔ آپ کے دونوں ساتھیوں کو سُلا آئی ہوں۔ اب آپ بھی سو جائیے۔ ‘‘

کفایت مسکرایا۔

’’پھر موٹر کون چلائے گا۔ ‘‘

سریتا بھی مسکرائی۔

’’چلتی رہے گی۔ ‘‘

دیر تک کفایت اور سریتا آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں وہ بازار آگیا۔ جہاں کشوری نے سریتا کو موٹر کے اندر داخل کیا تھا۔ جب وہ دیوار آئی جس پر

’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘

کے کئی بورڈ لگے تھے۔ تو سریتا نے کفایت سے کہا۔

’’بس یہاں روک لو۔ ‘‘

موٹر رُکی۔ پیشتر اس کے کہ کفایت کچھ سوچنے یا کہنے پائے۔ سریتا موٹر سے باہر تھی اس نے اشارے سے سلام کیا اور چل دی۔ کفایت ہینڈل پر ہاتھ رکھے غالباً سارے واقعہ کو ذہن میں تازہ کرنے کی کوشش کررہا تھاکہ سریتا کے قدم رُکے۔ مڑی اور چولی میں سے دس روپے کا نوٹ نکال کر کفایت کے پاس سیٹ پر رکھ دیا۔ کفایت نے حیرت سے نوٹ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

’’سریتا یہ کیا؟‘‘

’’یہ۔ یہ روپے میں کس بات کے لوں؟‘‘

کہہ کر سریتا پُھرتی سے دوڑ گئی اور کفایت سیٹ کے گدے پر پڑے ہوئے نوٹ کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ اس نے مڑ کر پچھلی سیٹ کی طرف دیکھا۔ شہاب اور انور بھی نوٹ کی طرح سو رہے تھے۔

سعادت حسن منٹو

خوشیا

خوشیا سوچ رہا تھا۔ بنواری سے کالے تمباکو والا پان لے کر وہ اس کی دکان کے ساتھ اُس سنگین چبوترے پر بیٹھا تھا۔ جو دن کے وقت ٹائروں اور موٹروں کے مختلف پرزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب موٹر کے پُرزے اور ٹائر بیچنے والوں کی یہ دکان بند ہو جاتی ہے۔ اور اس کا سنگین چبوترہ خوشیا کے لیے خالی ہو جاتا ہے۔ وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی تمباکو ملی پیک اس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں ادھر اُدھر پھسل رہی تھی۔ اور اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے خیالی دانتوں تلے پیس کر اس کی پیک میں گھل رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتا تھا۔ خوشیا پان کی پیک منہ میں پلپلا رہا تھا۔ اور اس واقعہ پر شور کر رہا تھا جو اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔ وہ اسے سنگین چبوترے پر حسبِ معمول بیٹھنے سے پہلے کھیت واڑی کی پانچویں گلی میں گیا تھا۔ بنگلور سے جو نئی چھوکری کانتا آئی تھی۔ اُسی گلی کے نکڑ پر رہتی تھی۔ خوشیاسے کسی نے کہا تھا کہ وہ اپنا مکان تبدیل کر رہی ہے چنانچہ وہ اسی بات کا پتہ لگانے کے لیے وہاں گیا تھا۔ کانتا کی کھولی کا دروازہ اس نے کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی

’’کون ہے؟‘‘

اس پر خوشیا نے کہا۔

’’میں خوشیا‘‘

آواز دوسرے کمرے سے آئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھُلا خوشیا اندر داخل ہُوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا۔ تو خوشیا نے مُڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا۔ بالکل ننگا۔ ہی سمجھو۔ کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہُوئے تھی چھپائے ہُوئے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں۔

’’کہو خوشیا کیسے آئے؟ ۔۔۔۔۔ میں بس اب نہانے والی ہی تھی۔ بیٹھو بیٹھو۔۔۔۔۔۔ باہر والے سے اپنے لیے چائے کا تو کہہ آئے ہوتے۔۔۔۔۔۔ جانتے تو ہو وہ مواراما یہاں سے بھاگ گیا ہے۔ ‘‘

خوشیا جس کی آنکھوں نے کبھی عورت کو یوں، چاتک طور پر ننگا نہیں دیکھا تھا۔ بہت گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ اس کی نظریں جو ایک دم عریانی سے دو چار ہو گئی تھیں۔ اپنے آپ کو کہیں چھپانا چاہتی تھیں۔ اس نے جلدی جلدی صرف اتنا کہا۔

’’جاؤ۔ جاؤ تم سنا لو، پھر ایک دم اس کی زبان کھل گئی۔

’’پر جب تم ننگی تھیں تو دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اندر سے کہہ دیا ہوتا میں پھر آ جاتا۔ لیکن جاؤ۔ تم نہا لو۔ ‘‘

کانتا مسکرائی جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا۔ کیا ہرج ہے۔ اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو۔ ‘‘

کانتا کی یہ مسکراہٹ، بھی تک خوشیا کے دل و دماغ میں تیر رہی تھی۔ اس وقت بھی کانتا کا ننگا جسم موم کے پتلے کی مانند اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اس کے اندر جارہا تھا۔ اس کا جسم خوبصورت تھا۔ پہلی مرتبہ خوشیا کو معلوم ہوا کہ جسم بیچنے والی عورتیں بھی ایسا سڈول بدن رکھتی ہیں۔ اس کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی۔ پر سب سے زیادہ تعجب اسے اس بات پر ہوا تھا کہ ننگ دھڑنگ وہ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اور اس کو لاج تک نہ آئی۔ کیوں؟ اس کا جواب کانتا نے یہ دیا تھا۔

’’جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے اپنا خوشیا ہی تو ہے۔ آنے دو۔ ‘‘

کانتا اور خوشیا ایک ہی پیشے میں شریک تھے۔ وہ اس کا دلال تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسی کا تھا۔ پر یہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس کے سامنے ننگی ہو جاتی۔ کوئی خاص بات تھی۔ کانتا کے الفاظ میں خوشیا کوئی اور ہی مطلب کرید رہا تھا۔ یہ مطلب بیک وقت اس قدر صاف اور اس قدر مبہم تھا کہ خوشیا کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا، جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا۔ اس کی لڑھکتی ہوئی نگاہوں سے بالکل بے پروا! کئی بارحیرت کے عالم میں بھی اس نے اس کے سانولے سلونے بدن پر ٹوہ لینے والی نگاہیں گاڑی تھیں مگر اس کا ایک رواں تک بھی نہ کپکپایا تھا۔ بس سانولے پتھر کی مُورتی کی مانند کھڑی رہی۔ جو احساس سے عاری ہو۔

’’بھئی! ایک مرد اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مرد جس کی نگاہیں کپڑوں، میں بھی عورت کے جسم تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پرماتما جانے خیال ہی خیال میں کہاں کہاں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہ ذرا بھی نہ گھبرائی اور۔ اور اس کی آنکھیں ایسا سمجھ لو کہ ابھی لانڈری سے دُھل کر آئی ہیں۔ اس کو تھوڑی سی لاج تو آنی چاہیے تھی۔ ذرا سی سُرخی تو اس کے دیدوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ مان لیا۔ کیسی تھی۔ پر کسبیاں یوں ننگی تو نہیں کھڑی ہو جاتیں۔ ‘‘

دس برس اُس کو دلالی کرتے ہو گئے تھے۔ اور ان دس برسوں میں وہ پیشہ کرانے والی لڑکیوں کے تمام رازوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر اُسے یہ معلوم تھا کہ پائے دھونی کے آخری سرے پر جو چھوکری ایک نوجوان لڑکے کو بھائی بنا کر رہتی ہے۔ اس لیے اچھوت کنیا کا ریکارڈ ہے کرتا مورکھ پیار پیار‘‘

اپنے ٹوٹے ہوئے باجے پر بجایا کرتی ہے کہ اُسے اشوک کمار سے بہت بُری طرح عشق ہے۔ کئی من چلے لونڈے اشوک کمار سے اُس کی ملاقات کرانے کا جھانسہ دے کر اپنا اُلّو سیدھا کر چکے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا۔ کہ داور میں جو پنجابن رہتی ہے صرف اس لیے کوٹ پتلون پہنتی ہے کہ اُس کے ایک یار نے اس سے کہا تھا کہ تیری ٹانگیں تو بالکل اس انگریز ایکٹرس کی طرح ہیں جس نے

’’مراکو عرف خونِ تمنّا‘‘

میں کام کیا تھا۔ یہ فلم اُس نے کئی بار دیکھی۔ اور جب اس کے یار نے کہا کہ مارلین ڈیٹرچ اس لیے پتلون پہنتی ہے کہ اس کی ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں۔ اور ان ٹانگوں کا اس نے دو لاکھ کا بیمہ کرا رکھا ہے۔ تو اس نے بھی پتلون پہننی شروع کر دی۔ جو اس کے چوتڑوں میں بہت پھنس کر آتی تھی۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ

’’مز گاؤں‘‘

والی دکھشنی چھوکری صرف اس لیے کالج کے خوبصورت لونڈوں کو پھانستی ہے کہ اسے ایک خوبصورت بچے کی ماں بننے کا شوق ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کبھی اپنی خواہش پوری نہ کر سکے گی، اس لیے کہ بانجھ ہے۔ اور اس کالی مدراسن کی بابت جو ہر وقت کانوں میں ہیرے کی بوٹیاں پہنے رہتی تھی اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اس کا رنگ کبھی سفید نہیں ہو گا۔ اور وہ ان دواؤں پر بیکار روپیہ برباد کر رہی ہے۔ جو آئے دن خریدتی رہتی ہے۔ اس کو ان تمام چھوکریوں کا اندر باہر کا حال معلوم تھا۔ جو اس کے حلقے میں شامل تھیں۔ مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز کانتا کماری جس کا اصلی نام اتنا مشکل تھا کہ وہ عمر بھر یاد نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے سامنے ننگی کھڑی ہو جائیگی۔ اور اس کو زندگی کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار کرائے گی۔ سوچتے سوچتے اس کے منہ میں پان کی پیک اس قدر جمع ہو گئی تھی۔ کہ اب وہ مشکل سے چھالیا کے ان ننھے ننھے ریزوں کو چبا سکتا تھا۔ جو اس کے دانتوں کی ریخوں میں سے ادھر اُدھر پھسل کر نکل جاتے تھے۔ اس کے تنگ ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں۔ جیسے ململ میں پنیر کو آہستہ سے دبا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے مردانہ وقار کو دھکا سا پہنچا تھا جب وہ کانتا کے ننگے جسم کو اپنے تصور میں لاتا تھا۔ اُسے محسوس ہوتا تھا۔ جیسے اُس کا اپمان ہوا ہے۔ ایک دم اُس نے اپنے دل میں کہا۔

’’بھئی یہ اپمان نہیں ہے تو کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک چھوکری ننگ دھڑنگ سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور کہتی ہے اس میں حرج ہی کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ تم خوشیا ہی تو ہو۔۔۔۔۔۔۔ خوشیا نہ ہوا، سالا وہ بلا ہو گیا۔ جو اُس کے بستر پر ہر وقت اُونگھتا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟‘‘

اب اسے یقین ہونے لگا کہ سچ مچ اس کی ہتک ہوئی ہے۔ وہ مرد تھا۔ اور اس کو اس بات کی غیر محسوس طریق پر توقع تھی۔ کہ عورتیں خواہ شریف ہوں یا بازاری اُس کو مرد ہی سمجھیں گی۔ اور اس کے اور اپنے درمیان وہ پردہ قائم رکھیں گی جو ایک مدت سے چلا آ رہا ہے۔ وہ تو صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کانتا کے یہاں گیا تھا کہ وہ کب مکان تبدیل کر رہی ہے؟ اور کہاں جا رہی ہے؟ کانتا کے پاس اُس کا جانا یکسر بزنس سے متعلق تھا۔ اگر خوشیا کانتا کی بابت سوچتا کہ جب وہ اس کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ تو وہ اندر کیا کر رہی ہو گی۔ تواس کے تصّور میں زیادہ سے زیادہ اتنی باتیں آ سکتی تھیں۔ سر پر پٹی باندھے لیٹ رہی ہو گی۔ بّلے کے بالوں میں سے پِسّو نکال رہی ہو گی۔ اُس بال صفا پوڈر سے اپنی بغلوں کے بال اڑا رہی ہو گی۔ جو اتنی باس مارتا تھا کہ خوشیا کی ناک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ پلنگ پر اکیلی بیٹھی تاش پھیلائے پبشینس کھیلنے میں مشغول ہو گی۔ بس اتنی چیزیں تھیں جو اس کے ذہن میں آتیں۔ گھر میں وہ کسی کو رکھتی نہیں تھی۔ اس لیے اس بات کا خیال ہی نہیں آ سکتا تھا۔ پر خوشیا نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو کام سے وہاں گیا تھا۔ کہ اچانک کانتا۔۔۔۔۔ یعنی کپڑے پہننے والی کانتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ کانتا جس کو وہ ہمیشہ کپڑوں میں دیکھا کرتا تھا۔ اس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔ بالکل ننگی ہی سمجھو۔ کیونکہ ایک چھوٹا سا تولیہ سب کچھ تو چھپا نہیں سکتا۔ خوشیا کو یہ نظارہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا جیسے چھلکا اس کے ہاتھ میں رہ گیا ہے اور کیلے کا گوداپُرچ کر کے اُس کے سامنے آ گرا ہے۔ نہیں اُسے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔ جیسے۔۔۔۔۔ جیسے وہ خود ننگا (ہو) گیا ہے۔ اگر بات یہاں تک ہی ختم ہو جاتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ خوشیا اپنی حیرت کو کسی نہ کسی حیلے سے دُور کر دیتا۔ مگر یہاں مصیبت یہ آن پڑی تھی کہ اُس لونڈیا نے مُسکرا کر یہ کہا تھا۔

’’جب تم نے کہا۔ خوشیا ہے تو میں نے سوچا اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو‘‘

۔۔۔۔۔۔ یہ بات اُسے کھائے جا رہی تھی۔

’’سالی مُسکرا رہی تھی‘‘

۔۔۔۔۔۔ وہ بار بار بڑبڑاتا جس طرح کانتا ننگی تھی اسی طرح کی مسکراہٹ خوشیا کو ننگی نظر آئی تھی یہ مسکراہٹ ہی نہیں اسے کانتا کا جسم بھی اس حد تک نظر آیا تھا۔ گویا اس پر رندا پھرا ہوا ہے۔ اسے بار بار بچپن کے وہ دن یاد آ رہے تھے۔ جب پڑوس کی ایک عورت اس سے کہا کرتی تھی۔

’’خوشیا بیٹا جا دوڑ کے جا، یہ بالٹی پانی سے بھر لا جب وہ بالٹی بھرکے لایا کرتا تھا تو وہ دھوتی سے بنائے پردے کے پیچھے سے کہا کرتی تھی‘‘

اندر آکے یہاں میرے پاس رکھ دے۔ میں نے منہ پر صابن ملا ہُوا ہے۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا‘‘

وہ دھوتی کا پردہ ہٹا کر بالٹی اس کے پاس رکھ دیا کرتا تھا۔ اس وقت صابن کے جھاگ میں لپٹی ہوئی ننگی عورت اُسے نظر آیا کرتی تھی مگر اس کے دل میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا۔

’’بھئی میں اُس وقت بچہ تھا۔ بالکل بھولا بھالا۔ بچے اور مرد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں سے کون پردہ کرتا ہے۔ مگر اب تو میں پورا مرد ہوں۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس کے قریب ہے۔ اور اٹھائیس برس کے جوان آدمی کے سامنے تو کوئی بوڑھی عورت بھی ننگی کھڑی نہیں ہوتی۔ ‘‘

کانتا نے اسے کیا سمجھا تھا۔ کیا اس میں وہ تمام باتیں نہیں تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہوتی ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرایا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی اُن چیزوں کا جائزہ نہیں لیا۔ جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں۔ اور کیا تعجب کے ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ دس روپے میں کانتا بالکل مہنگی نہیں۔ اور دسہرے کے روز بنک کا وہ منشی جو دو روپے کی رعایت نہ ملنے پر واپس چلا گیا تھا۔ بالکل گدھا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ ان سب کے اوپر، کیا ایک لمحے کے لیے اس کے تمام پٹھوں میں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ پیدا نہیں ہو گیا تھا۔ اور اس نے ایک ایسی انگڑائی نہیں لینا چاہی تھی۔ جس سے اُس کی ہڈیاں چٹخنے لگیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا وجہ تھی کہ منگلور کی اس سانولی چھوکری نے اس کو مرد نہ سمجھا اور صرف۔۔۔۔۔۔۔ صرف خوشیا سمجھ کر اس کو اپنا سب کچھ دیکھنے دیا؟ اُس نے غصّے میں آکر پان کی گاڑھی پیک تھوک دی جس نے فٹ پاتھ پر کئی بیل بوٹے بنا دیے۔ پیک تھوک کر وہ اٹھا اور ٹرام میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ گھر میں اس نے نہا دھو کر نئی دھوتی پہنی جس بلڈنگ میں رہتا تھا اس کی ایک دکان میں سیلون تھا۔ اس کے اندر جا کر اُس نے آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا۔ تو کُرسی پر بیٹھ گیا۔ اور بڑی سنجیدگی سے اس نے داڑھی مونڈنے کے لیے حجام سے کہا۔

’’آج چونکہ وہ دوسری مرتبہ داڑھی منڈوا رہا تھا۔ اس لیے حجام نے کہا۔

’’ارے بھئی خوشیا بھول گئے کیا؟ صبح ہی میں نے ہی تو تمہاری داڑھی مونڈی تھی اس پر خُوشیا نے بڑی متانت سے داڑھی پر الٹا ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا۔

’’کھونٹی اچھی طرح نہیں نکلی۔۔۔۔۔۔‘‘

اچھی طرح کھونٹی نکلوا کر اور چہرے پر پوڈر ملوا کر وہ سیلون سے باہر نکلا۔ سامنے ٹیکسیوں کا اڈا تھا۔ بمبے کے مخصوس انداز میں اُس نے

’’چھی چھی‘‘

کرکے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور انگلی کے اشارے سے اُسے ٹیکسی لانے کے لیے کہا۔ جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے مڑ کر اس سے پوچھا۔

’’صاحب کہاں جانا ہے صاحب؟‘‘

ان چار لفظوں نے اور خاص طور پر

’’صاحب‘‘

نے خوشیا کو بہت مسرُور کیا۔ مُسکرا کر اس نے بڑے دوستانہ لہجہ میں جواب دیا۔

’’بتائیں گے، پہلے تم‘‘

اکپرا ہاؤس کی طرف چلو۔۔۔۔۔۔ لیمنگٹن روڈ سے ہوتے ہوئے۔ سمجھیے!‘‘

ڈرائیور نے میٹر کی لال جھنڈی کا سر نیچے دبا دیا۔ ٹن ٹن ہوئی اور ٹیکسی نے لیمنگٹن روڈ کا رخ کیا۔ لیمنگٹن روڈ کا جب آخری سرا آ گیا۔ تو خوشیا نے ڈرائیور کو ہدایت دی

’’بائیں ہاتھ موڑ لو‘‘

ٹیکسی بائیں ہاتھ مڑ گئی۔ ابھی ڈرائیور نے گیئر بھی نہ بدلا تھا کہ خوشیا نے کہا یہ سامنے والے کھمبے کے پاس روک لیناذرا۔ ‘‘

ڈرائیور نے عین کھمبے کے پاس ٹیکسی کھڑی کر دی۔ خوشیا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ اور ایک پان والے کی دکان کی طرف بڑھا۔ یہاں سے اُس نے ایک پان لیا۔ اور اس آدمی سے جو کہ دکان کے پاس کھڑا تھا۔ چند باتیں کیں۔ اور اُسے اپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھاکر ڈرائیور سے کہا۔

’’سیدھے لے چلو۔ ‘‘

دیر تک ٹیکسی چلتی رہی۔ خوشیا نے جدھر اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے ادھر ہینڈل پھرا دیا۔ مختلف پُررونق بازاروں میں سے ہوتے ہوئے ٹیکسی ایک نیم روشن گلی میں داخل ہوئی۔ جس میں آمدورفت بہت کم تھی۔ کچھ لوگ سڑک پر بستر جمائے لیٹے تھے۔ ان میں سے کچھ بڑے اطمینان سے چمپی کرا رہے تھے۔ جب ٹیکسی ان چمپی کرانے والوں کے آگے نکل گئی۔ اور ایک کاٹھ کے بنگلہ نما مکان کے پاس پہنچی۔ تو خوشیا نے ڈرائیور کو ٹھیرنے کے لیے کہا۔

’’بس اب یہاں رک جاؤ۔ ٹیکسی ٹھہر گئی۔ تو خوشیا نے اس آدمی سے جس کو وہ پان والے کی دکان سے اپنے ساتھ لیا تھا۔ آہستہ سے کہا۔

’’جاؤ۔۔۔۔۔ میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔ ‘‘

وہ آدمی بیوقوفوں کی طرح خوشیا کی طرف دیکھتا ہوا ٹیکسی سے باہر نکلا۔ اور سامنے والے چوبی مکان میں داخل ہو گیا۔ خوشیا جم کر ٹیکسی کے گدے پر بیٹھ گیا۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر اس نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی اور ایک دو کش لے کر باہر پھینک دی۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس لیے اسے ایسا لگا۔ کہ ٹیکسی کا انجن بند نہیں ہُوا اس کے سینے میں چونکہ پھڑپھڑاہٹ سی ہو رہی تھی۔ اس لیے وہ سمجھا کہ ڈرائیور نے بل بڑھانے کی غرض سے پٹرول چھوڑ رکھا ہے چنانچہ اس نے تیزی سے کہا۔

’’یوں بیکار انجن چالو رکھ کر تم کتنے پیسے اور بڑھا لو گے؟‘‘

ڈرائیور نے مُڑ کر خوشیا کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’سیٹھ انجن تو بند ہے۔ ‘‘

جب خوشیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ تو اس کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا اور اس نے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ چبانے شروع کر دیے۔ پھر ایکا ایکی سر پر وہ کشتی نما کالی ٹوپی پہن کر جو اب تک اس کی بغل میں دبی ہوئی تھی۔ اس نے ڈرائیور کا شانہ ہلایا اور کہا۔

’’دیکھو، ابھی ایک چھوکری آئے گی۔ جونہی اندر داخل ہو تم موٹر چلا دینا۔۔۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ معاملہ ایسا ویسا نہیں۔ ‘‘

اتنے میں سامنے چوبی مکان سے دو آدمی باہر نکلے۔ آگے آگے خوشیا کا دوست تھا اور اس کے پیچھے کا نتا جس نے شوخ رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ خوشیا جھٹ اُس طرف کو سرک گیا۔ جدھر اندھیرا تھا۔ خوشیا کے دوست نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور کانتا کو اندر داخل کرکے دروازہ بند کر دیا۔ فوراً ہی کانتا کی حیرت بھری آواز سنائی دی۔ جو چیخ سے ملتی جلتی تھی

’’خوشیا تم‘‘

’’ہاں میں۔۔۔۔۔۔ لیکن تمہیں روپے مل گئے ہیں نا؟‘‘

خوشیا کی موٹی آواز بُلند ہُوئی۔

’’دیکھو ڈرائیور۔۔۔۔ جو ہولے چلو۔ ‘‘

ڈرائیور نے سلف دبایا۔ انجن پھڑپھڑانا شروع ہوا۔ وہ بات جو کانتا نے کہی۔ سنائی نہ دے سکی ٹیکسی ایک دھچکے کے ساتھ آگے بڑھی۔ اور خوشیا کے دوست کو سڑک کے بیچ حیرت زدہ چھوڑ کر نیم روشن گلی میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد کسی نے خوشیا کو موٹروں کی دکان کے سنگین چبوترے پر نہیں دیکھا۔

سعادت حسن منٹو

خوشبو دار تیل

’’آپ کا مزاج اب کیسا ہے؟‘‘

’’یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ اچھا بھلا ہوں۔ مجھے کیا تکلیف تھی۔ ‘‘

’’تکلیف تو آپ کو کبھی نہیں ہوئی۔ ایک فقط میں ہوں جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی تکلیف یا عارضہ چمٹا رہتا ہے۔ ‘‘

’’یہ تمہاری بد احتیاطیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ورنہ آدمی کو کم از کم سال بھر میں دس مہینے تو تندرست رہنا چاہیے۔ ‘‘

’’آپ تو بارہ مہینے تندرست رہتے ہیں ٗ ابھی پچھلے دنوں دو مہینے ہسپتال میں رہے۔ میرا خیال ہے اب پھر آپ کا وہیں جانے کا ارادہ ہو رہا ہے۔ ‘‘

’’ہسپتال میں جانے کا ارادہ کون کرتا ہے؟‘‘

’’آپ ایسے آدمی۔ اور کس کا دماغ پھرا ہے کہ وہ بیمار ہو کر وہاں پر جائے اور اپنے عزیزوں کی جان کا عذاب بن جائے۔ ‘‘

’’تو گویا میں اپنے سب رشتہ داروں کی جان کا عذاب بنا بیٹھا ہوں۔ میرا تو یہ نظریہ ہے کہ ہر رشتہ دار خود جان کا بہت بڑا عذاب ہوتا ہے‘‘

’’آپ کو تو رشتہ داروں کی کوئی پروا نہیں۔ حالانکہ وہی ہمیشہ آپ کے آڑے وقت میں کام آتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’کون سے آڑے وقت میں کام آتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’پچھلے برس جب آپ بیمار ہوئے۔ تو کس نے آپ کے علاج پر روپیہ خرچ کیا تھا۔ ‘‘

’’مجھے معلوم نہیں۔ میرا خیال ہے تمہیں نے کیا ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے۔ یا آپ جان بوجھ کر اپنے رشتہ داروں کی مدد کو فراموش کررہے ہیں۔ ‘‘

’’میں اپنے کسی رشتہ دار کی امداد کا محتاج نہیں رہا‘ اور نہ رہوں گا۔ اچھا خاصا کما لیتا ہوں۔ کھاتا ہوں۔ پیتا ہوں۔ ‘‘

’’جتنا کھا سکتا ہوں کھاتا ہوں۔ جتنی پی سکتا ہوں پیتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کو معلوم نہیں کہ پینا حرام ہے۔ ‘‘

’’معلوم ہے۔ آج کل تو جینا بھی حرام ہے۔ مگر چچا غالبؔ کہہ گئے ہیں۔ ‘‘

مئے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

’’یہ چچا غالبؔ کون تھے۔ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں نے تو آج پہلی مرتبہ ان کا نام سنا ہے۔ ‘‘

’’وہ سب کے چچا تھے۔ بہت بڑے شاعر۔ ‘‘

’’شاعروں پر خدا کی لعنت۔ بیڑا غرق کرتے ہیں لوگوں کا۔ ‘‘

’’بیگم! یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ انہی کے دم سے تو زندگی کی رونق قائم ہے۔ یہ نہ ہوں تو چاروں طرف خشکی خشکی ہی نظر آئے۔ یہ لوگ پھول ہوتے ہیں۔ صاف و شفاف پانی کے دھارے ہوتے ہیں جو انسانوں کے ذہن کی آبیاری کرتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو ہماری زندگی بے نمک ہو جائے‘‘

’’بے نمک ہو جائے۔ کیسے بے نمک ہو جائے۔ یہاں نمک کی کوئی کمی ہے۔ جتنا چاہے ٗ لے لیجیے۔ اور وہ بھی سستے داموں پر۔ ان لوگوں کو جنہیں آپ شاعر کہتے ہیں۔ میں تو چاہتی ہوں کہ ان کو کھیوڑے کی کسی کان میں زندہ دفن کر دیا جائے ٗ تاکہ وہ بھی نمک بن جائیں اور آپ ان کو چاٹتے رہیں۔ ‘‘

’’یہ آج تم نے کیسے پر پرزے نکال لیے۔ ‘‘

’’پر پرزوں کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی۔ میں تو اتنا جانتی ہوں۔ کہ جب آپ سے کوئی معاملے کی بات کرے تو آپ بھِنّا جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں۔ میں نے کبھی آپ کی ذات پر تو حملہ نہیں کیا۔ ہمیشہ سیدھی سادی بات کر دی۔ ‘‘

’’تمہاری سیدھی باتیں ہمیشہ ٹیڑھی ہوتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ دو برس سے تم ہر وقت میرے سر پر سوار رہتی ہو۔ ‘‘

ان برسوں میں مجھے آپ نے کیا سکھ پہنچایا ہے۔ ‘‘

’’بھئی معاف کرو مجھے۔ میں سونا چاہتا ہوں۔ ساری رات ہی جاگتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’کیا تکلیف تھی آپ کو؟ مجھے بھی تو کچھ اس کا علم ہو۔ ‘‘

’’تمہیں اگر اس کا علم بھی ہو جائے۔ تو اس کا مداوا کیا کرو گی۔ ‘‘

’’میں تو سخت نا اہل ہوں۔ کسی کام کی بھی نہیں۔ بس ایک صرف آپ ہیں جو دنیا کی ساری حکمت جانتے ہیں۔ ‘‘

’’بھئی میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن عورت ذات ہمیشہ خود کو افضل سمجھتی ہے۔ حالانکہ وہ عام طور پر کم عقل ہوتی ہے۔ ‘‘

’’دیکھیے، آپ طعن طروز پر اتر آئے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ ‘‘

’’میں معافی چاہتا ہوں۔ تم نے چونکہ مجھے اُکسایا تو یہ لفظ میری زبان سے نکل گئے ٗ ورنہ تم جانتی ہو کہ میں گفتگو کے معاملے میں بڑا محتاط رہتا ہوں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ رہتے ہوں گے۔ مجھ سے تو آپ نے ہمیشہ ہی نو کرانیوں کا سا سلوک کیا۔ ‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے۔ تُم تُو میری ملکہ ہو۔ ‘‘

’’آپ بادشاہ کیسے بن بیٹھے۔ آپ کی سلطنت کہاں ہے؟‘‘

’’میری سلطنت یہ میرا گھر ہے۔ ‘‘

’’اور آپ یہاں کے شہنشاہ ہیں۔ ‘‘

’’اس میں کیا شک ہے۔ تم نے طنزاً کہا ہے ٗ لیکن حقیقت میں اس سلطنت کا حکمران میں ہی ہوں۔ ‘‘

’’حکمران تو میں ہوں۔ اس لیے کہ اس گھر کا سارا بندوبست مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ سب دیکھ بھال مجھے ہی کرنا پڑتی ہے۔ ‘‘

’’تم میری ملکہ ہو۔ اور ملکہ کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہنا چاہیے۔ اپنی ملکیت کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اس لیے تم بھی یہاں کی حکمران ہوٗ اس لیے کہ تم اس کا نظم بر قرار رکھتی ہو۔ نوکروں کی دیکھ بھال وغیرہ ٗ اچھے سے اچھا کھانا پکوانا۔ سارا دن پلنگ پر لیٹی آرام کرتی رہتی ہو۔ ‘‘

’’میں تو جو آرام کرتی ہوں ٗ سو کرتی ہوں۔ پر آپ مجھے یہ بتائیے۔ ‘‘

’’کیا۔ ‘‘

’’کچھ نہیں۔ آپ اس گھر کے حکمران ہیں۔ اب میں آپ سے کیا کہوں۔ ‘‘

’’تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ٗ بلا خوف و خطر کہو۔ تمہیں اندیشہ کس بات کا ہے۔ ‘‘

’’کہیں جہاں پناہ بگڑ نہ جائیں۔ ‘‘

’’مذاق برطرف رکھو۔ یہ بتاؤ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’کہنا تو میں بہت کچھ چاہتی ہوں۔ مگر آپ میں ٹھنڈے دل سے سننے کا مادہ ہی کہاں ہے۔ ‘‘

’’مادہ تو تم ہو۔ میں نر ہوں۔ ‘‘

’’اب آپ نے واہیات قسم کی گفتگو شروع کر دی۔ ‘‘

’’کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ایسی باتیں بھی کر لینی چاہئیں۔ اس لیے کہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔ ‘‘

’’آپ کی طبیعت میں کئی دنوں سے انقباض ہے۔ سیدھے منہ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ ‘‘

’’میں تو چنگا بھلا ہوں۔ مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے نفس نے بہت اونچی پرواز کی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو کوئی مسہل تجویز کر دو تاکہ تمہاری تشفی ہوجائے۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’بھئی پوچھ لو جو کچھ پوچھنا ہے۔ مجھے اب زیادہ تنگ نہ کرو۔ ‘‘

’’آپ تو ذراسی بات پر تنگ آ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ ذرا سی بات ہے کہ تم نے مجھ سے اتنی بکواس کرائی۔ یہی وقت میں کہیں صرف کرتا تو کچھ فائدہ بھی ہوتا۔ ‘‘

’’کیا فائدہ ہوتا۔ بڑے لاکھوں کما لیے ہیں آپ نے ٗ بغیر اس بکواس کے۔ ‘‘

’’کمائے تو ہیں۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ کہنا کیا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’میں کہنا چاہتی تھی کہ جب سے نئی نوکرانی آئی ہے ٗ آپ کی طبیعت کیوں خراب رہنے لگی ہے۔ ‘‘

’’نئی نوکرانی کو کوئی بیماری ہے۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ بیماری تو نہیں۔ لیکن میں نے اسے آج رخصت کر دیا ہے۔ ‘‘

’’کیوں۔ وہ تو بڑی اچھی تھی۔ ‘‘

’’آپ کی نظروں میں ہو گی۔ میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ وہ بیس روپے ماہوار میں اتنے اچھے کپڑے کیسے پہن سکتی تھی۔ بالوں میں خوشبودار تیل کہاں سے ڈالتی تھی۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ ‘‘

’’آپ کو سب کچھ معلوم ہے۔ آپ کے بالوں سے بھی اسی تیل کی خوشبو آتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تیل آپ نے کہاں چھپا رکھا ہے !‘‘

سعادت حسن منٹو

خورشٹ

ہم دلی میں تھے۔ میرا بچہ بیمار تھا۔ میں نے پڑوس کے ڈاکٹر کاپڑیا کو بلایا وہ ایک کبڑا آدمی تھا۔ بہت پست قد، لیکن بے حد شریف۔ اس نے میرے بچے کا بڑے اچھے طریقے پر علاج کیا۔ اس کو فیس دی تو اس نے قبول نہ کی۔ یوں تو وہ پارسی تھا لیکن بڑی شستہ ور فتہ اردو بولتا تھا، اس لیے کہ وہ دلی ہی میں پیدا ہوا تھا اور تعلیم اس نے وہیں حاصل کی تھی۔ ہمارے سامنے کے فلیٹ میں مسٹر کھیش والا رہتا تھا۔ یہ بھی پارسی تھا۔ اسی کے ذریعے سے ہم نے ڈاکٹر کاپڑیا کو بلایا تھا۔ تین چار مرتبہ ہمارے یہاں آیا تو اس سے ہمارے تعلقات بڑھ گئے۔ ڈاکٹر کے ہاں میرا اور میری بیوی کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے ہماری ملاقات اپنے لڑکے سے کرائی اس کا نام ساوک کاپڑیا تھا۔ وہ بہت ہی ملنسار آدمی تھا۔ رنگ بے حد زرد ایسا لگتا تھا کہ اس میں خون ہے ہی نہیں۔ سنگر مشین کمپنی میں ملازم تھا۔ غالباً پانچ چھ سو روپے ماہوار پاتا تھا۔ بہت صاف ستھرا رہتا تھا۔ اس کا گھر جو ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا بہت نفاست سے سجا ہوا تھا۔ مجال ہے کہ گردوغبار کا ایک ذرہ بھی کہیں نظر آجائے۔ جب میں اور میری بیوی شام کو ان کے ہاں جاتے تو وہ اس کی بیوی خورشید جس کو پارسیوں کی زبان میں خورشٹ کہا جاتا تھا۔ بڑے تپاک سے پیش آتے اور ہماری خوب خاطر تواضع کرتے۔ خورشید یعنی خورشٹ لمبے قد کی عورت تھی۔ عام پارسیوں کی طرح اس کی ناک بدنما نہیں تھی، لیکن خوبصورت بھی نہیں۔ موٹی پکوڑا ایسی ناک تھی، لیکن رنگ سفید تھا اس لیے گوارا ہو گئی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے۔ چہرہ گول تھا۔ خوش پوش تھی اس لیے اچھی لگی تھی۔ میری بیوی سے چند ملاقاتوں ہی میں دوستی ہو گئی۔ چنانچہ ہم ان کے ہاں اکثر جانے لگے۔ وہ دونوں میاں بیوی بھی ہر دوسرے تیسرے روز ہمارے ہاں آجاتے تھے اور دیر تک بیٹھے رہتے تھے۔ ہم جب بھی ساوک کے ہاں گئے، ایک سکھ کو ان کے ہاں دیکھا۔ یہ سکھ ایک تنومند آدمی تھا۔ بہت خوش خلق۔ ساوک نے مجھے بتایا کہ سردار زور آور سنگھ اس کا بچپن کا دوست ہے۔ دونوں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ایک ساتھ انھوں نے بی اے پاس کیا۔ لیکن شکل و صورت کے اعتبار سے سردار زور آور سنگھ، ساوک کے مقابلے میں زیادہ معمر نظر آتا تھا۔ ساوک شاید خون کی کمی کے باعث بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی عمر اٹھارہ برس سے زیادہ نہیں، لیکن سردار زور آور سنگھ چالیس کے اوپر معلوم ہوتا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کنوارا تھا۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ اس نے گورنمنٹ سے کئی ٹھیکے لے رکھے تھے۔ اس کا باپ بہت پرانا گورنمنٹ کنٹریکٹر تھا۔ لیکن باپ بیٹے میں بنتی نہیں تھی۔ سردار زور آور سنگھ آزاد خیال تھا لیکن وہ اپنے باپ ہی کے ساتھ رہتا تھا پر وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ البتہ اس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ماں کا اکلوتا لڑکا تھا۔ تین لڑکیاں تھیں، وہ اپنے گھر میں آباد ہو چکی تھیں۔ اب اس کی خواہش تھی کہ وہ شادی کرلے اور اس کے کلیجے کوٹھنڈک پہنچائے، مگر اس وہ کے متعلق بات کرنے کیلیے تیار ہی نہیں تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے دریافت کیا۔

’’سردار صاحب آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

اس نے مونچھوں کے اندر ہنس کر جواب دیا۔

’’اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘

اس نے کہا۔

’’آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرے خیال کے مطابق آپ کی عمر غالباً چالیس برس ہو گی۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’آپ کا اندازہ غلط ہے!‘‘

’’آپ فرمائیے، آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘

سردار زور آور سنگھ پھر مسکرایا۔

’’میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بھی۔ میں ابھی پرسوں انتیس اگست کو پچیس برس کا ہوا ہوں۔ ‘‘

میں نے اپنے غلط اندازے کی معافی چاہی۔

’’لیکن آپ کی شکل صورت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی عمر پچیس برس ہے۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ ہنسا۔

’’میں سکھ ہوں۔ اور بڑا غیر معمولی سکھ۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے غور سے مجھے دیکھا،

’’منٹو صاحب آپ حجامت کیوں نہیں کراتے۔ اتنے بڑے بالوں سے آپ کو وحشت نہیں ہوتی۔ ‘‘

میں نے گردن پر ہاتھ پھیرا۔ بال واقعی بہت بڑھے ہوئے تھے۔ غالباًتین مہینے ہو گئے تھے جب میں نے بال کٹوائے تھے۔ سردار زور آور سنگھ نے بات کی تو مجھے سر پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔

’’یاد ہی نہیں رہا۔ اب آپ نے کہا ہے تو مجھے وحشت محسوس ہوئی ہے۔ خدا معلوم مجھے کیوں بال کٹوانے یاد نہیں رہتے۔ یہ سلسلہ ہے ہی کچھ واہیات۔ ایک گھنٹہ نائی کے سامنے سرنیوڑھائے بیٹھے رہو۔ وہ اپنی خرافات بکتا ر ہے اور آپ مجبوراً کان سمیٹے سنتے رہیں۔ فلاں ایکٹرس ایسی ہے، فلاں ایکٹرس ویسی ہے۔ امریکہ نے ایٹم بم ایجا کرلیا ہے۔ روس کے پاس اس کا بہت ہی تکڑا جواب موجود ہے۔ یہ ایٹلی کون ہے؟۔ اور وہ مسولینی کہاں گیا۔ اب میں اگر اس سے کہوں کہ جہنم میں گیا ہے تو وہ ضرور پوچھتا کہ صاحب کیسے گیا، کس راستے سے گیا۔ کون سے جہنم میں گیا۔ ‘‘

میری اتنی لمبی چوڑی بات سن کر سردار زور آور سنگھ نے اپنی سفید پگڑی اتاری۔ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ اس کے کیس ندارد تھے۔ ان کے بجائے ہلکے خسخسی بال تھے۔ لیکن وہ پگڑی کچھ اس انداز سے باندھتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے کیس ہیں اور ثابت و سالم ہیں۔ بڑی صفائی سے پگڑی اتار کر اس نے میری تپائی پر رکھی اور مسکرا کرکہا۔

’’میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

میں نے اس کے بالوں کے متعلق کوئی بات نہ کی؛، اس لیے کہ میں نے مناسب خیال نہ کیا۔ اس نے بھی ان کے متعلق کوئی بات نہ چھیڑی۔ پگڑی تپائی پر رکھ دینے کے بعد اس نے صرف اتنا کہا تھا۔

’’میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اس کے بعد اُس نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔ اور کہا۔

’’منٹو صاحب، خورشید کے لیے آپ کچھ کیجیے؟‘‘

میں کچھ نہ سمجھا۔

’’کون خورشید؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے پگڑی اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔

’’خورشید کاپڑیا کے لیے۔ ‘‘

’’میں ان کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’اس کو گانے کا بہت شوق ہے۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں تھا۔ کہ خورشٹ گاتی ہے۔

’’کیسا گاتی ہیں؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے خورشٹ کی گائگی کے بارے میں اتنی تعریف کی کہ مجھے یہ سب مبالغہ معلوم ہوا۔

’’منٹو صاحب بہت اچھی آواز پائی ہے۔ خصوصاً ٹھمری ایسی اچھی گاتی ہے کہ آپ وجد میں آجائیں گے۔ آپ کو ایسا معلوم ہو گا کہ خاص صاحب عبدالکریم کو سن رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ خورشید نے کسی کی شاگردی نہیں کی۔ بس جو ملا ہے قدرت سے ملا ہے۔ آپ آج شام کو آئیے۔ مسز منٹو بھی ضرور تشریف لائیں۔ میں خورشید کو بلاؤں گا۔ آپ ذرا اسے سنئے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ضرور، ضرور۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ گاتی ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے سفارش کے طور پر کہا۔

’’آپ ریڈیو اسٹیشن میں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ خورشید کو ہر مہینے کچھ پروگرام مل جایا کریں۔ روپئے کی اس کو کوئی خواہش نہیں ہے۔ ‘‘

’’لیکن اگر ان کو پروگرام ملے گا تو معاوضہ بھی ضرور ملے گا۔ گورنمنٹ ان کا معاوضہ کس کھاتے میں ڈالے گی؟‘‘

یہ سن کر سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’تو ٹھیک ہے۔ لیکن اسے پروگرام ضرور دلوائیے گا۔ مجھے یقین ہے کہ سننے والے اسے بہت پسند کریں گے۔ ‘‘

اس گفتگو کے بعد ہم تیسرے روز ساوک کے ہاں گئے۔ وہ موجود نہیں تھا لیکن ڈرائنگ روم میں سردار زور آور سنگھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ پارسیوں میں سگرٹ پینا منع ہے، سکھ بھی سگرٹ نہیں پیتے، لیکن وہ بڑے اطمینان اور ٹھاٹ سے کش پہ کش لے رہا تھا۔ میں اور میری بیوی کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے سگرٹ پینا بند کردیا۔ ایش ٹرے میں اس کی گردن مروڑ کر اس نے ہمیں خالص اسلامی انداز میں سلام کیا اور کہا۔

’’خورشید کی طبیعت آج کچھ ناساز ہے۔ ‘‘

خورشید کچھ دیر کے بعد آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت قطعاً ناساز نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ تو اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کرکے کہا۔

’’ذرا زکام تھا۔ ‘‘

مگر اس کو زکام نہیں تھا۔ سردار زور آور سنگھ نے بڑے زور دار انداز میں خورشید سے اس کا حال پوچھا، زکام کے لیے کم از کم دس دوائیں تجویز کیں، پانچ ڈاکٹروں کے حوالے دیے، مگر وہ خاموش رہی، جیسے وہ اس قسم کی بکواس سننے کی عادی ہے۔ اتنے میں خورشید کا خاوند ساوک کاپڑیا آگیا۔ دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اسے دیر ہو گئی تھی۔ مجھ سے اورمیری بیوی سے اس نے معذرت چاہی، سردار زور آور سنگھ سے کچھ دیر مذاق کیا اور ہم سے چند منٹ کی رخصت لے کر اندر چلا گیا، اس لیے کہ اسے اپنی بچی کو دیکھنا تھا۔ اس کی پلوٹھی کی بچی بہت پیاری تھی۔ میاں بیوی کی بس یہی ایک اولاد تھی۔ قریباً ڈیڑھ سال کی تھی۔ رنگ باپ کی طرح زرد۔ کچھ نقش ماں پر تھے۔ باقی معلوم نہیں کس کے تھے۔ بہت ہنس مکھ تھی۔ ساوک اس کو گود میں اٹھا کر لایا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ اس کو اپنی بچی سے بے حد پیار تھا۔ دفتر سے واپس آکر وہ سارا وقت اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ میرا خیال ہے قریب قریب ہر ہفتے وہ اس کے لیے کھلونے لاتا تھا۔ شیشوں والی بڑی الماری تھی۔ جو ان کھلونوں سے بھری ہوئی تھی۔ سردار زور آور سنگھ کے متعلق بات چھڑی تو ساوک نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس نے مجھ سے اور میری بیوی سے کہا۔

’’سردار زور آور میرا بہت پرانا دوست ہے۔ ہم دونوں لنگوٹیے ہیں۔ اس کے والد صاحب اور میرے والد صاحب اسی طرح لنگوٹیے تھے۔ دونوں اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ پہلی جماعت سے لیکر اب تک ہم دونوں ہر روز ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ ہم اسکول ہی میں پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘

سردارزور آور سنگھ مسکراتارہا۔ اس کے سر پر سکھوں کی بہت بڑی پگڑی تھی، مگر مجھے اس کے ہوتے ہوئے اس کے سر کی خسخسی بال نظر آرہے تھے۔ اور مجھے اپنے سر اپنے بالوں کا بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کے پیہم اصرار پر خورشید نے باجا منگا کر ہمیں گانا سنایا۔ وہ کن سُری تھی، لیکن خورشید، اس کے خاوند، اور سردار زور آور سنگھ کی خاطر مجھے اس کے گانے کی مجبوراً تعریف کرنا پڑی۔ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’ماشاء اللہ آپ خوب گاتی ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے بڑے زور سے تالی بجائی اور کہا۔

’’خورشید، آج تو تم نے کمال کردیا ہے۔ ‘‘

پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’اس کو آفتابِ موسیقی کا خطاب مل چکا ہے منٹو صاحب۔ ‘‘

میں نے تو کچھ نہ کہا، لیکن میری بیوی نے پوچھا۔

’’کب؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے کہا۔

’’اخبار کا وہ کٹنگ لانا۔ ‘‘

خورشید اخبار کا کٹنگ لائی۔ کوئی خوشامدی قسم کا رپورٹر تھا جس نے چھ مہینے پہلے ایک پرائیویٹ محفل میں خورشید کا گانا سن کر اسے آفتابِ موسیقی کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ میں یہ کٹنگ پڑھ کر مسکرایا اور شرارتاً خورشید سے کہا۔

’’آپ کا یہ خطاب غلط ہے!‘‘

سردار زور آور سنگھ نے مجھ سے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

میں نے پھر شرارتاً کہا۔

’’عورت کے لیے آفتاب نہیں۔ آفتابہ ہونا چاہیے۔ خورشید صاحبہ، آفتابِ موسیقی نہیں۔ آفتابہ موسیقی ہیں۔ ‘‘

میرا مذاق سب کے سر پرسے گزر گیا۔ میں نے خدا کا شکر کیا، کیونکہ یہ مذاق کرنے کے بعد میں نے فوراً ہی سوچا تھا کہ اور کوئی نہیں تو سردار زور آور سنگھ ضرور اس کو سمجھ جائے گا، مگر وہ مسکرایا۔

’’یہ اخبار والے ہمیشہ غلط زبان لکھتے ہیں۔ آفتاب کی جگہ آفتابہ ہونا چاہیے تھا۔ آپ بالکل صحیح فرماتے ہیں۔ ‘‘

میں نے اور کچھ نہ کہا، اس لیے کہ مجھے احساس تھا کہ کہیں میرا مذاق فاش نہ ہو جائے۔ ساوک کچھ اور ہی خیالات میں غرق تھا۔ اس کو سردار زور آور سنگھ کی دوستی کے واقعات یاد آرہے تھے۔

’’مسٹر منٹو، ایسا دوست مجھے کبھی نہیں ملے گا۔ اس نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی خلوص برتا ہے پچھلے دنوں میں ہسپتال میں بیمار تھا۔ اس نے نرسوں سے بڑھ کر میری خدمت کی۔ میرے گھر بار کا خیال رکھا۔ خورشید اکیلی گھبرا جاتی، مگر اس نے ہر طرح اس کی دلجوئی کی۔ میری بچی کو گھنٹوں کھلاتا رہا۔ اس کے علاوہ میرے پاس بیٹھ کر کئی اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ میں اس کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔ ‘‘

یہ سن کر سردار زور آور سنگھ مسکرایا اور خورشید سے مخاطب ہوا۔

’’خورشید آج تمہارا خاوند بہت سنٹی مینٹل ہورہا ہے۔ میں نے کیا کیا تھا جو یہ میری اتنی تعریف کررہا ہے۔ ‘‘

ساوک نے کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ تمہاری تعریف میں کر ہی نہیں سکتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری دوستی پر مجھے ناز ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بچپن سے لے کر اب تک تم ایک سے رہے۔ میرے ساتھ تمہارے سلوک میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ‘‘

میں نے سردار زور آور سنگھ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ تعریفی کلمات یوں سن رہا تھا۔ جیسے ریڈیو سے خبریں۔ جب ساوک بول چکا تو اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’تو خورشید کو پروگرام مل جائیں گے نا؟‘‘

میں نے چونک کر جواب دیا۔

’’جی؟۔ میں کوشش کروں گا۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے ذرا حیرات سے کہا۔

’’کوشش؟۔ یعنی ان کے لیے پروگرام حاصل کرنے کے لیے آپ کوکوشش کرنی پڑے گی۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ کل صبح ان کو اپنے ساتھ لے جائیے۔ میرا خیال ہے ان کا گانا سنتے ہی میوزک ڈائریکٹر اسی مہینے میں ان کو کم از کم دو پروگرام دے دے گا۔ ‘‘

میں نے اس کی دل شکنی مناسب نہ سمجھی اور کہا۔

’’یقیناً۔ ‘‘

لیکن خورشید نے سردار زور آور سے کہا۔

’’میں صبح نہیں جاسکتی۔ بے بی صبح کو میرے بغیر گھر میں نہیں رہ سکتی۔ دوپہر کو البتہ جاسکتی ہوں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو صاحب، واقعی بچی اس کو صبح بہت تنگ کرتی ہے۔ میں خود سے روز خورشید کو دوپہر کے وقت ریڈیو اسٹیشن لے آؤں گا۔ ‘‘

خورشید کو دوپہر کے وقت ریڈیو اسٹیشن لانے کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ میں نے دوسرے روز ہی ایک دم ارادہ کیا کہ میں دلی چھوڑ کر بمبئی چلا جاؤں گا، چنانچہ میں اس سے اگلے دن استعفےٰ دے کربمبئی روانہ ہو گیا۔ میری بیوی مجھ سے کچھ دن بعد چلی آئی۔ ہم مسز خورشٹ کاپڑیا اور سردار زور آور سنگھ کو بھول گئے۔ میں ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا۔ بیماری کے باعث اتفاق سے ایک روز میں وہاں نہ گیا۔ دوسرے روز وہاں پہنچا تو گیٹ کیپر نے مجھے ایک کاغذ دیا کہ کل ایک صاحب آپ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ یہ دے گئے ہیں۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ سردار زور آور سنگھ کا تھا۔ مختصر سی تحریر تھی، میں اور میری بیوی آپ سے ملنے یہاں آئے، مگر آپ موجود نہیں تھے۔ ہم تاج ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ اگر آپ تشریف لائیں تو ہمیں بڑی خوشی ہو گی۔ مسز منٹو کو ضرور ساتھ لائیے گا۔ ‘‘

کمرے کا نمبر وغیرہ درج تھا۔ میں اور میری بیوی اسی شام ٹیکسی میں تاج ہوٹل گئے۔ کمرہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ سردار زور آور سنگھ وہاں موجود تھا۔ ہم جب اندر کمرے میں داخل ہوتے تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے خسخسی بالوں میں کنگھی کررہا تھا۔ بڑے تپاک سے ملا۔ میری بیوی اس کی بیوی دیکھنے کے لیے بے قرار تھی، چنانچہ اس نے پوچھا۔

’’سردار صاحب، آپ کی مسز کہاں ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’ابھی آتی ہیں۔ باتھ روم میں ہیں۔ ‘‘

اس نے یہ کہا اور دوسرے کمرے سے خورشٹ نمودار ہوئی۔ میری بیوی اٹھ کر اس سے گلے ملی اور سب سے پہلا سوال اس سے یہ کیا۔

’’بچی کیسی ہے خورشید۔ ‘‘

خورشٹ نے جواب دیا۔

’’اچھی ہے۔ ‘‘

پھر میری بیوی نے اس سے پوچھا۔

’’ساوک کہاں ہیں؟‘‘

خورشٹ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ اور میری بیوی پاس پاس بیٹھ گئیں تو میں نے سردار زور آور سنگھ سے پوچھا۔

’’سردار صاحب، آپ اپنی بیوی کو تو باہر نکالیے۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔ خورشٹ کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔

’’خورشید میری بیوی کو باہر نکالو۔ ‘‘

خورشٹ میری بیوی سے مخاطب ہو کر مسکرائیں۔

’’میں نے سردار زور آور سنگھ سے شادی کرلی ہے۔ ہم یہاں ہنی مون منانے آئے ہیں۔ ‘‘

میری بیوی نے یہ سنا تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

’’چلیے سعادت صاحب‘‘

۔ اور ہم کمرے سے باہر تھے۔ خدا معلوم سردار زور آور سنگھ اور خورشٹ نے ہماری اس بدتمیزی کے متعلق کیا کہا ہو گا۔ 28جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

خودکشی کا اقدام

اقبال کے خلاف یہ الزام تھا کہ اُس نے اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنے کی کوشش کی، گو وہ اس میں ناکام رہا۔ جب وہ عدالت میں پہلی مرتبہ پیش کیا گیا تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موت سے مڈبھیڑ ہوتے وقت اس کی رگوں میں تمام خون خشک ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام طاقت سلب ہو گئی ہے۔ اقبال کی عمر بیس بائیس برس کے قریب ہو گی مگر مُرجھائے ہوئے چہرے پر کھنڈی ہوئی زردی نے اُس کی عمر میں دس سال کااضافہ کر دیا تھا اور جب وہ اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ رکھتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ واقعی بوڑھا ہے۔ سُنا گیا ہے کہ جب شباب کے ایوان میں غربت داخل ہوتی ہے تو تازگی بھاگ جایا کرتی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں سے یہ عیاں تھا کہ وہ غربت کا شکار ہے اور غالباً حد سے بڑھی ہوئی مفلسی ہی نے اسے اپنی پیاری جان کو ہلاک کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کا قد کافی لمبا تھا جو کاندھوں پر ذرا آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس جھکاؤ میں اُس کے وزنی سر کو بھی دخل تھا جس پر سخت اور موٹے بال، جیل خانے کے سیاہ اور کھر درے کمبل کا نمونہ پیش کررہے تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں جو بہت گہری اور اتھاہ معلوم ہوتی تھیں۔ جھکی ہوئی نگاہوں سے یہ پتا چلتا تھا کہ وہ عدالت کے سنگین فرش کی موجودگی کو غیر یقینی سمجھ رہا ہے اور یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ ناک پتلی اور تیکھی، اس کے ماتھے پر تھوڑا سا چکنا میل جما ہوا تھا جس کو دیکھ کر زنگ آلود تلوار کا تصور آنکھوں میں پھر جاتا تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو کناروں پر ایک لکیر بن کر رہ گئے تھے۔ آپس میں سلے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ شاید اس نے ان کو اس لیے بھینچ رکھا تھا کہ وہ اپنے سینے کی آگ اور دُھوئیں کو باہر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ میلے پائجامے میں اُس کی سوکھی ہوئی ٹانگیں اوپر کے دھڑکے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا دو خشک لکڑیاں تنور کے منہ میں ٹھنسی ہوئی ہیں۔ سینہ چوڑا چکلا تھا مگر ہڈیوں کے ڈھانچے پر جس کی پسلیاں پھٹے ہوئے گریبان میں سے جھانک رہی تھیں گوشت سانولے رنگ کی جھلی معلوم ہوتا تھا سانس کی آمد و شد سے یہ جھلی بار بار پھولتی اور دبتی تھی۔ پیروں میں کپڑے کا جاپانی جوتا تھا جو جگہ جگہ سے بے حد میلا ہورہا تھا۔ دونوں جوتے انگوٹھوں کے مقام پر سے پھٹے ہوئے تھے ان سوراخوں میں سے اُس کے انگوٹھوں کے بڑھے ہوئے ناخن نمایاں طور پر نظر آرہے تھے وہ کوٹ پہنے ہوئے تھا جو اُس کے بدن پر بہت ڈھیلا تھا اس میلے اور سال خوردہ کوٹ کی خالی پھٹی ہوئی جیبیں بے جان مردوں کی طرح منہ کھولے ہوئے تھیں۔ وہ کٹہرے کے ڈنڈے پر ہاتھ رکھے اور سر جھکائے جج کے سامنے بالکل خاموش اور بے حس و حرکت کھڑا تھا۔

’’تم نے ۲۰ جون کو ہفتے کے دن مانا نوالہ اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر اپنی جان ہلاک کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ایک شدید جرم کے مرتکب ہوئے۔ جج نے ضمنی کاغذات پڑھتے ہوئے کہا ٗ بتاؤ یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘

’’جرم!‘‘

اقبال اپنے گہرے خواب سے گویا چونک سا پڑا لیکن فوراً ہی اس کا وزنی سر جو ایک لمحے کے لیے اُٹھا تھا پھر بیل کی پتلی ٹہنی کے بوجھل پھل کی طرح لٹک گیا۔

’’بتاؤ یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘

جج نے سکول کے استاد کی طرح وہی سوال دہرایا جو وہ اس سے پہلے ہزار ہا لوگوں سے پوچھ چکا تھا۔ اقبال نے اپنا سر اُٹھایا اور جج کی طرف اپنی بے حس آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دیا پھر تھوڑی دیر کے بعد دھیمے لہجے میں کہا

’’میں نے آج تک کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا‘‘

عدالت کے کمرے میں کامل سکوت طاری تھا شاید اس کا باعث اقبال کا دشت نما سراپا تھا جس میں بلا کی ہیبت تھی، جج اُس کی نگاہوں کے خوفناک خلا سے خوف کھا رہا تھا۔ کورٹ انسپکٹر نے جو جنگلے سے باہر بلند کرسی پر بیٹھا تھا کمرے کے سکوت کے دہشت ناک اثر کو دور کرنے کے لیے یوں ہی دو تین مرتبہ اپنا گلا صاف کیا ریڈر نے جو پلیٹ فارم پر بچھے ہوئے تخت پر جو جج کے قریب بیٹھا تھا مثلوں کے کاغذات اِدھر اُدھر رکھتے ہوئے اپنی پریشانی اور ڈر دُور کرنے کی سعی کی۔ جج نے ریڈر کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور ریڈر نے کورٹ انسپکٹر کی طرف اور کورٹ انسپکٹر جواب میں اپنا حلق صاف کرنے کے لیے دو مرتبہ کھانسا جب کمرے کا خوف آمیز سکوت ٹُوٹا تو جج نے میز پر کہنیاں ٹکا کر سامنے پڑے ہوئے قلم دان کے ایک خانے میں سے لوہے کی چمکتی ہوئی پن نکال کر اپنے دانتوں کی ریخ میں گاڑتے ہوئے اقبال سے کہا :

’’کیا تم نے خودکشی کا اقدام کیا تھا؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

یہ جواب اقبال نے ایسے لہجے میں دیا کہ اس کی آواز ایک لرزاں سرگوشی معلوم ہوئی۔ جج نے فوراً ہی کہا

’’تو پھر اپنے جرم کا اقبال کرتے ہو؟‘‘

’’جرم!‘‘

وہ پھر چونک پڑا اور تیز لہجے میں بولا‘‘

آپ کس جرم کا ذکر کررہے ہیں؟ اگر کوئی خدا ہے تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ہمیشہ اس سے پاک رہا ہوں۔ ‘‘

جج نے اپنے لبوں پر زور دے کر ایک بیمار مسکراہٹ پیدا کی تم نے خودکشی کا اقدام کیا اور یہ جرم ہے۔ اپنی یا کسی غیر کی جان لینے میں کوئی فر ق نہیں۔ ہر صورت میں وار انسان پر ہوتا ہے۔ اقبال نے جواب دیا اس جرم کی سزا کیا ہے؟ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر ایک طنزیہ تبسم ناچ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سان پر چاقو کی دھار تیز کرتے وقت چنگاریوں کی پھوار گر رہی ہے۔ جج نے جلدی سے کہا

’’ایک دو یا تین ماہ کی قید۔ ‘‘

اقبال نے یہی لفظ تول تول کر دہرائے، گویا وہ اپنے پستول کے میگزین کی تمام گولیوں کو بڑے اطمینان سے ایک نشانے پر خالی کرنا چاہتا ہے

’’ایک دو یا تین ماہ کی قید!۔ ‘‘

یہ لفظ دہرانے کے بعد وہ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد تیز و تند لہجے میں بولا

’’آپ قانون صریحاً موت کو طویل بنانا چاہتا ہے ایک آدمی جو چند لمحات کے اندر اپنی دکھ بھری زندگی کو موت کے سکون میں تبدیل کرسکتا ہے آپ اُسے مجبور کرتے ہیں وہ کچھ عرصے تک اور دُکھ کے تلخ جام پیتا رہے۔ جو آسمان سے گرتا ہے آپ اُسے کھجور پر لٹکا دیتے ہیں آگ سے نکال کر کڑاہی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ کیا قانون اسی ستم ظریفی کا نام ہے؟‘‘

جج نے بارعب لہجے میں جواب دیا

’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی‘‘

’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی، تو بتائیے وہ کن متین اور سنجیدہ سوالوں کا جواب دے سکتی ہے؟ اقبال کے ماتھے پر پسینے کے سرد قطرے لرزنے لگے‘‘

کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ عدالت کے معنی کیا ہے؟۔ کیا عدالت بتا سکتی ہے کے ججوں اور مسجد کے مُلاؤں میں کیا فرق ہے جو مرنے والوں کے سرہانے رٹی ہوئی سورہ ءِ یٰسین کی تلاوت کرتے ہیں؟ کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ اس کے قوانین اور مٹی کے کھلونوں میں کیا فرق ہے؟۔ عدالت اگر ان فضول سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی تو اس سے کہیے کہ وہ ان معقول سوالوں کا جواب دے؟‘‘

جج کے تیوروں پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے اور اس نے تیزی سے کہا

’’اس قسم کی بے باکانہ گفتگو عدالت کی توہین ہے جو ایک سنگین جرم ہے‘‘

اقبال نے کہا

’’تو گفتگو کا کوئی ایسا انداز بتائیے جس سے آپ کی نیک چلن عدالت کی توہین نہ ہو‘‘

جج نے جھلا کر جواب دیا

’’جو سوال تم سے کیا جائے صرف اُسی کا جواب دو، عدالت تمہاری تقریر سننا نہیں چاہتی‘‘

’’پوچھیے! آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘

اقبال کے چہرے پر یاس کی دُھند چھارہی تھی اور اس کی آواز اس گجر کی ڈوبتی ہوئی گونج معلوم ہوتی تھی جو رات کی تاریکیوں میں لوگوں کو وقت سے باخبر رکھتا ہے۔ یہ سوال کچھ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ جج کے چہرے پر گھبراہٹ سی پیدا ہو گئی اور اُس نے ایسے ہی میز پر سے کاغذات اُٹھائے اور پھر وہیں کے وہیں رکھ دئیے اور دانت کی ریخ میں سے پن نکال کر

’’پن کُشن میں گاڑتے ہوئے کہا

’’تم نے اپنی جان لینے کی کوشش کی اس لیے تم ازروئے قانون مستو جب سزا ہو۔ کیا اپنی صفائی میں تم کوئی بیان دینا چاہتے ہو؟‘‘

اقبال کے بے جان اور نیلے ہونٹ فرط حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے اُس نے کہا بیان! آپ کس قسم کا بیان لینا چاہتے ہیں؟ کیا میں سراپا بیان نہیں ہوں؟۔ کیا میرے گالوں کی اُبھری ہوئی ہڈیا ں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ غربت کی دیمک میرے گوشت کو چاٹتی رہی ہے؟۔ کیا میری بے نُور آنکھیں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ میری زندگی کی بیشتر راتیں لکڑی اور تیل کے دُھوئیں کے اندر گزری ہیں؟ کیا میرا سوکھا ہوا جسم یہ بیان نہیں دے رہا کہ اُس نے کڑے سے کڑا دُکھ برداشت کیا ہے؟۔ کیا میری زرد بے جان اور کانپتی ہوئی اُنگلیاں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ وہ ساز حیات کے تاروں میں اُمید افزا نغمہ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں؟۔ بیان!۔ بیان!۔ صفائی کا بیان!۔ کس صفائی کا بیان؟۔ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہا تھا اس لیے کہ مجھے جینے کی خواہش نہ تھی اور جسے جینے کی خواہش نہ ہو جوہر جینے والے کو تعجب سے دیکھتا ہو کیا آپ اس سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس سنگین عمارت میں آ کر دو تین برس کی قید سے بچنے کے لیے جھوٹ بولے؟۔ جج صاحب آپ اُس سے بات کررہے ہیں جس کی زندگی قید سے بد تر رہی ہے!‘‘

جج پر زرد رُو اقبال کی بے جوڑ جذباتی گفتگو کچھ اثر نہ کرسکی اور چار پانچ پیشیؤں کی یک آہنگ سماعت کے بعد اسے دو ماہ قید محض کا حکم سُنا دیا گیا سزا کا حکم مجرم نے بڑے اطمینان سے سُنا لیکن یکا یک اُس کے استخوانی چہرے پر زہریلی طنز کے آثار نمودار ہوئے اور اُس کے باریک ہونٹوں کے سرے بھنچ گئے، مسکراتے ہوئے اُس نے جج کو مخاطب کر کے کہا:

’’آپ نے مقدمے کی تمام کارروائی میں بہت محنت کی ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مقدمہ کی روئداد کو آپ نے جس نفاست سے ان لمبے لمبے کاغذوں پر اپنے ہاتھوں سے ٹائپ کیا ہے وہ بھی داد کے قابل ہے اور آپ نے بات بات میں تعزیرات کی بھاری بھر کم کتاب سے دفعات کا حوالہ جس پھرتی سے دیا ہے اس سے آپ کے حافظے کی خوبی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ قانون جہاں تک میں نے اندازہ کیا ہے ایک پردہ نشین خاتون ہے جس کی عصمت کے تحفظ کے لیے آپ لوگ مقرر کیے گئے ہیں اور مجھے اعتراف ہے کہ آپ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک ایسی عورت کی حفاظت کررہے ہیں جسے ہرچالاک آدمی اپنی داشتہ بنا کر رکھ سکتا ہے۔ ‘‘

’’یہ لفظ عدالت کی توہین خیال کیے گئے اور اس جرم کے ارتکاب میں اقبال کی زندانی میں دو ماہ اور بڑھا دئیے گئے۔ یہ حکم سُن کر اقبال کے پتلے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اقبال نے زیرِ لب کہا

’’پہلے دو ماہ تھے، اب چار ہو گئے‘‘

اور پھر جج سے مخاطب ہو کر پوچھا آپ کو تعزیرات ہند کے تمام دفعات از بریاد ہیں۔ کیا آپ مجھے کوئی اسی توہین کی قسم کا بے ضرر جرم بتا سکتے ہیں۔ جس کے ارتکاب سے آپ کی عدالت میری گردن جلاد کے حوالے کرسکے۔ میں اس دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ جہاں غریبوں کو جینے کے لیے ہوا کے چند پاکیزہ جھونکے بھی نصیب نہیں ہوتے اور جس کے بنائے قانون میری سمجھ سے بالاتر ہیں کیا آپ کا یہ قانون عجیب و غریب نہیں جس نے اس بات کی تحقیق کیے بغیر کہ میں نے خودکشی کا اقدام کیوں کیا، مجھے جیل میں ٹھونس دیا ہے؟۔ مگر ایسے سوال پوچھنے سے فائدہ ہی کیا۔ تعزیراتِ ہند میں غالباً ان کا کوئی جواب نہیں۔ ‘‘

اقبال نے اپنے تھکے ہوئے مُردہ کاندھوں کو ایک جنبش دی اور خاموش ہو گیا۔ عدالت نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔

سعادت حسن منٹو

خودکشی

زاہد صرف نام ہی کا زاہد نہیں تھا‘ اس کے زہد و تقویٰ کے سب قائل تھے‘ اس نے بیس پچیس برس کی عمر میں شادی کی‘ اس زمانے میں اُس کے پاس دس ہزار کے قریب روپے تھے‘ شادی پر پانچ ہزار صرف ہو گئے‘ اتنی ہی رقم باقی رہ گئی۔ زاہد بہت خوش تھا‘ اُس کی بیوی بڑی خوش خصلت اور خوبصورت تھی‘ اُس کو اُس سے بے پناہ محبت ہو گئی‘ وہ بھی اُس کو دل و جان سے چاہتی تھی‘ دونوں سمجھتے تھے کہ جنت میں آباد ہیں۔ ایک برس کے بعد اُن کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو ماں پر تھی‘ یعنی ویسی ہی حسین‘ بڑی بڑی غلافی آنکھیں‘ ان پر لمبی پلکیں‘ مہین ابرو‘ چھوٹا سا لب دہن۔ اس لڑکی کا نام سوچنے میں کافی دیر لگ گئی۔ زاہد اور اُس کی بیوی کو دوسروں کے تجویز کیے ہوئے نام پسند نہیں آتے تھے‘ وہ چاہتی تھی کہ خود زاہد نام بتائے۔ زاہد دیر تک سوچتا رہا لیکن اُس کے دماغ میں ایسا کوئی موزوں و مناسب نام نہ آیا جو وہ اپنی بیٹی کے لیے منتخب کرتا۔ اُس نے اپنی بیوی سے کہا

’’اتنی جلدی کیا ہے۔ نام رکھ لیا جائے گا‘‘

بیوی مصر تھی کہ نام ضرور رکھا جائے

’’میں اپنی بیٹی کو اتنی دیر بے نام نہیں رکھنا چاہتی‘‘

وہ کہتا

’’اس میں کیا حرج ہے۔ جب کوئی اچھا سا نام ذہن میں آئے گا تو اس گل گوتھنی کے ساتھ ٹانک دیں گے‘‘

’’پر میں اسے کیا کہہ کر پکاروں؟۔ مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے‘‘

’’فی الحال بیٹا کہہ دینا کافی ہے‘‘

’’یہ کافی نہیں ہے۔ میری بٹیا کا کوئی نام ہونا چاہیے‘‘

’’تم خود ہی کوئی منتخب کر لو‘‘

تو تھوڑے دن انتظار کرو۔ میں اُردو کی لغت لاتا ہوں۔ اس کو پہلے صفحے سے آخری صفحے تک غور سے دیکھوں گا۔ یقیناًکوئی اچھا نام مل جائے گا‘‘

’’میں نے آج تک یہ کبھی نہیں سُنا تھا کہ لوگ اپنے بچوں بچیوں کے نام ڈکشنریوں سے نکالتے ہیں‘‘

’’نہیں میری جان‘ نکالتے ہیں۔ میرا ایک دوست ہے‘ اُس کے جب بچی پیدا ہوئی تو اس نے فوراً اُردو کی لغت نکالی اور اس کی ورق گردانی کرنے کے بعد ایک نام چن لیا‘‘

’’کیا نام تھا‘‘

’’نکہت‘‘

’’اس کے معنی کیا ہیں‘‘

’’خوشبو‘‘

’’بڑا اچھا نام ہے۔ نکہت۔ یعنی خوشبو‘‘

’’تو یہی نام رکھ لو‘‘

زاہد کی بیوی نے اپنی بچی کو جو سو رہی تھی‘ ایک نظر دیکھا اور کہا

’’نہیں۔ میں اپنی بٹیا کے لیے پُرانا نام نہیں چاہتی۔ کوئی نیا نام تلاش کیجیے۔ جائیے ڈکشنری لے آئیے‘‘

’’زاہد مسکرایا‘‘

لیکن میرے پاس پیسے کہاں ہیں‘‘

زاہد کی بیوی بھی مسکرائی

’’میرا پرس الماری میں پڑا ہے ‘ اس میں جتنے روپے آپ کو چاہئیں ‘ نکال لیجیے‘‘

زاہد نے

’’بہت بہتر‘‘

کہا اور الماری کھول کر اُس میں سے اپنی بیوی کا پرس نکالا اور دس روپے کا ایک نوٹ لے کر بازار روانہ ہو گیا کہ لغت خرید لے۔ وہ کئی کتب فروش دکانوں میں گیا۔ کئی لغت دیکھے‘ بعض تو بہت قیمتی تھے جن کی تین تین جلدیں تھیں۔ کچھ بڑے ناقص۔ آخر اُس نے ایک لغت جس کی قیمت واجبی تھی خرید لیا اور راستے میں اُس کی ورق گردانی کرتا رہا تاکہ نام کا مسئلہ جلد حل ہو جائے۔ جب وہ انارکلی میں سے گزر رہا تھا تو اُس کو ایک دوست مل گیا‘ وہ اُسے اپنی بوٹوں کی دکان میں لے گیا۔ وہاں اُسے قریب قریب ایک گھنٹے تک بیٹھنا پڑا کیونکہ بہت دیر کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی تھی جب اُس کے دوست کو دورانِ گفتگو میں پتہ چلا کہ زاہد کے ہاں لڑکی ہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوا۔ تجوری میں سے گیارہ روپے نکالے اور زاہد سے کہا :

’’یہ اُس بچی کو دے دینا کہنا تمہارے چچا نے دیے ہیں۔ نام کیا رکھا ہے اس کا؟‘‘

زاہد نے لغت کی طرف دیکھا جس کی جلد لال رنگ کی تھی

’’ابھی تک کوئی اچھا نام سوجھا نہیں‘‘

اُس کے دوست نے جوتے کو کپڑ ے سے صاف کرتے ہوئے کہا :

’’یار نام رکھنے میں دقّت ہی کیا پیش آتی ہے۔ ثمینہ ہے‘ شاہینہ ہے‘ نسرین ہے‘ الماس ہے‘‘

زاہد نے جواب دیا

’’یہ سب بکواس ہے‘‘

اُس کے دوست نے جوتا ڈبے میں رکھا

’’تو اب جو بکواس تم کرو گے وہ بھی ہم سُن لیں گے‘‘

اس کے بعد اُٹھ کر اُس نے زاہد کو گلے سے لگایا۔ خدا اُس کی عمر دراز کرے۔ نام ہو نہ ہو‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘

زاہد جب دکان سے باہر نکلا تو اُس نے سوچنا شروع کیا کہ واقعی نام میں کیا رکھا ہے۔ خیراتی کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ بڑی خیرات کرتا ہے‘ عیدن کیا بلا ہے۔ اور گھسیٹا۔ کیا اسے لوگ گھسیٹنا شروع کر دیں۔ اور یہ رُلدو۔ شبراتی؟ اُس کے جی میں آئی کہ لغت کسی گندی موری میں پھینک دے اور گھر جا کر اپنی بیوی سے کہے

’’میری جان! نام میں کچھ نہیں پڑا‘ بس یہ دُعا کرو کہ بچی کی عمر دراز ہو۔ ‘‘

وہ مختلف خیالات میں غرق تھا۔ لیکن معلوم نہیں کیوں اس کا دل غیرمعمولی طور پر دھڑک رہا تھا‘ اُس نے سوچا کہ شاید یہ اُس کی پراگندہ خیالی کا باعث ہے۔ تھوڑی دُور چلنے کے بعد اس کی طبیعت بہت زیادہ مضطرب ہو گئی‘ وہ چاہتا تھا کہ اُڑ کر گھر پہنچے اور اپنی بچی کی پیشانی چومے۔ بغل میں لغت تھی۔ اِس کو اُس نے کئی بار دیکھنے کی کوشش کی مگر اُس کا دل و دماغ متوازن نہیں تھا۔ اُس نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ مگر تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی بہت بُری طرح ہانپنے لگا اور ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک خالی تانگہ آیا اُس نے اس کو ٹھہرایا اور اس میں بیٹھ کر تانگے والے سے کہا :

’’چلو مزنگ لے چلو۔ لیکن جلدی پہنچاؤ ‘ مجھے وہاں ایک بڑا ضروری کام ہے‘‘

مگر گھوڑا بہت ہی سست رفتار تھا‘ یا شاید زاہد کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کو عجلت تھی۔ وہ برق رفتاری سے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ اُس نے کئی مرتبہ تانگے والے سے سخت سست الفاظ کہے جو وہ برداشت کرتا گیا‘ آخر جب اس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس نے زاہد کو تانگے سے اُتار دیا۔ ہائیکورٹ کے قریب‘ اس نے زاہد سے کرایہ بھی طلب نہ کیا۔ زاہد اور زیادہ پریشان ہوا‘ وہ جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا‘ وہ کچھ دیر چوک میں کھڑا رہا‘ اتنے میں ایک پشاوری تانگہ آیا اس میں بیٹھ کر وہ مزنگ پہنچا۔ کرایہ ادا کیا اور گھر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ صحن میں کئی عورتیں کھڑی ہیں جو غالباً ہمسائی تھیں‘ وہ دروازے کے پاس رُک گیا‘ ایک عورت دوسری عورت سے کہہ رہی تھی‘ مشکل ہی سے بچے گی بیچاری۔ تشنج کے یہ دورے بڑے خطرناک ہیں‘‘

زاہد اُن عورتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دیوانہ وار اندر بھاگا اور اُس کے کمرے میں پہنچا جہاں وہ اور اُس کی بیوی رہتے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کی فلک شگاف چیخ سنی۔ اُس کی بٹیا دم توڑ چکی تھی‘ اور اُس کی بیوی بیہوش پڑی تھی۔ زاہد نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ ہمسائیاں پردے کو بھول کر بے اختیار اندر چلی آئیں اور زاہد کو اُس کمرے سے باہر نکال دیا۔ ایک ہمسائی کے شوہر کے پاس موٹر تھی وہ ایک ڈاکٹر لے آیا۔ اس نے زاہد کی بیوی کو ایک دو انجکشن لگائے جن سے وہ ہوش میں آ گئی۔ زاہد ایک ایسے عالم میں تھا کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی تمام قوتیں معطل ہو گئی تھیں۔ وہ صحن میں ایک کرسی پر بیٹھا بغل میں لغت دبائے خلا میں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اپنی بچی کے لیے کوئی نام تلاش کرنے میں محو ہے۔ بچی کو دفنانے کا وقت آیا تو زاہد باہوش ہو گیا‘ اُس نے کوئی آنسو نہ بہایا۔ کفن میں پڑی بچی کو اُٹھایا اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ہمراہ قبرستان روانہ ہو گیا۔ وہاں قبر پہلے ہی سے تیار کرا لی گئی تھی۔ اُس میں اُس نے خود اُسے لٹایا اور اُس کے ساتھ لغت رکھ دی۔ لوگوں نے سمجھا‘ قرآن مجید ہے ‘ انھیں بڑی حیرت ہوئی کہ مُردوں کے ساتھ قرآن کون دفن کرتا ہے‘ یہ تو سراسر کفر ہے‘ لیکن ان میں سے کسی نے بھی زاہد سے اس کے متعلق کچھ نہ کہا‘ بس آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ بچی کو دفنا کر جب گھر آیا تو اُسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کو بہت تیز بخار ہے‘ سرسام کی کیفیت ہے۔ فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا‘ اُس نے اچھی طرح دیکھا اور زاہد سے کہا

’’حالت بہت نازک ہے۔ میں علاج تجویز کیے دیتا ہوں ‘ لیکن میں صحت کی بحالی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘

زاہد کو ایسا محسوس ہوا کہ اس پر بجلی آن گری ہے لیکن اُس نے سنبھل کر ڈاکٹر سے پوچھا

’’تکلیف کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر نے جواب دیا

’’بہت سی تکلیفیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھیں بہت صدمہ پہنچا‘ دوسری یہ کہ ان کا دل بہت کمزور ہے۔ تیسری یہ کہ انھیں ایک سو پانچ ڈگری بخار ہے‘‘

ڈاکٹر نے چند ٹیکے تجویز کیے ‘ دو نسخے پلانے والی دواؤں کے لکھے اور چلا گیا۔ زاہد فوراً یہ سب چیزیں لے آیا‘ ٹیکے لگائے‘ دوائیں بڑی مشکل سے حلق میں ٹپکائی گئیں۔ لیکن مریضہ کی حالت بہتر نہ ہوئی۔ دس پندرہ روز کے بعد اسے تھوڑا سا ہوش آیا‘ ہذیانی کیفیت بھی دُور ہو گئی۔ زاہد نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی پیاری حسین بیوی نے اُسے بلایا اور بڑی نحیف آواز میں کہا

’’میرا اب آخری وقت آ گیا ہے۔ میں چند گھڑیوں کی مہمان ہوں۔ ‘‘

زاہد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘

’’کیسی باتیں کرتی ہو تم۔ تمھیں خدانخواستہ اگر کچھ ہو گیا تو میں کہاں زندہ رہوں گا۔ زاہد کی بیوی نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا

’’یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ میں مر گئی‘ کل دوسری آ جائے گی۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے۔ اور۔ اور۔ ‘‘

اُس نے ہچکی لی اور ایک سیکنڈ کے اندر اندر اُس کی رُوح پرواز کر گئی۔ زاہد نے بڑے صبر وتحمل سے کام لیا ‘ اس کے کفن دفن سے فارغ ہو کر وہ رات کو گھر سے باہر نکلا اور ریلوے ٹائم ٹیبل دیکھ کر ریلوے لائن کا رُخ کیا۔ رات کو ساڑھے نو بجے کے قریب ایک گاڑی آتی تھی‘ وہ مغل پورہ کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وہاں پٹڑی پر لیٹ جائے اور اُسے کوئی دیکھ نہ سکے۔ گاڑی آئے گی تو اُس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مجھے لمبی عمر کی کوئی خواہش نہیں۔ یہ جتنی جلدی مختصر ہو ‘ اتنا ہی اچھا ہے‘ میں اب اور زیادہ صدمے برداشت نہیں کر سکتا۔ جب وہ ریلوے لائن کے پاس پہنچا تو اُسے گاڑی کی تیز روشنی جو انجن کی پیشانی پر ہوتی ہے‘ دکھائی دی۔ لیکن ابھی وہ دُور ہی تھی۔ اُس نے انتظار کیا کہ جب قریب آئے گی تو وہ پٹڑی پر لیٹ جائے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی قریب آ گئی۔ زاہد آگے بڑھا مگر اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی کہیں سے نمودار ہوا اور پٹڑی کے عین درمیان کھڑا ہو گیا۔ گاڑی بڑی تیزرفتار سے آ رہی تھی اور قریب تھا کہ وہ آدمی اُس کی جھپٹ میں آ جائے‘ وہ تیزی سے لپکا اور اُس آدمی کو دھکا دے کر پٹڑی کے اُس طرف گرا دیا۔ گاڑی دندناتی ہوئی گزر گئی۔ اُس آدمی سے زاہد نے کہا

’’کیا تم خودکشی کرنا چاہتے تھے؟‘‘

اُس نے جواب دیا :

’’جی ہاں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس۔ صدمے اُٹھاتے اُٹھاتے اب جینے کو جی نہیں چاہتا‘‘

زاہد ناصح بن گیا

’’بھائی میرے! زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے‘ اس کو اچھی طرح استعمال کرو‘ خودکشی بہت بڑی بزدلی ہے۔ اپنی جان خود لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اُٹھو‘ اپنے صدموں کو بھول جاؤ۔ انسان کی زندگی میں صدمے نہ ہوں تو خوشیوں سے کیا حظ اُٹھائے گا۔ چلو میرے ساتھ‘‘

۲۵، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

خود فریب

ہم نیوپیرس اسٹور کے پرائیویٹ کمرے میں بیٹھے تھے۔ باہر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کا مالک غیاث اٹھ کر دوڑا۔ میرے ساتھ مسعود بیٹھا تھا اس سے کچھ دور ہٹ کر جلیل دانتوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں کے ناخن کاٹ رہا تھا اس کے کان بڑے غور سے غیاث کی باتیں سن رہے تھے وہ ٹیلی فون پر کسی سے کہہ رہا تھا۔

’’تم جھوٹ بولتی ہو۔ اچھا خیر آج دیکھ لیں گے۔ تو یہ کیا کہا، تمہارے لیے تو ہماری جان حاضر ہے۔ اچھا تو ٹھیک پانچ بجے۔ خدا حاف٭۔ کیا کہا؟۔ بھئی کہہ تو دیا کہ تمہیں مل جائے گی۔ ‘‘

جلیل نے میری طرف دیکھا۔

’’منٹو صاحب عیش کرتا ہے یہ غیاث!‘‘

میں جواب میں مسکرا دیا۔ جلیل انگلیوں کے ناخن اب تیزی سے کاٹنے لگا۔

’’کئی لڑکیوں کے ساتھ اس کا ٹانکہ ملا ہوا ہے۔ میں تو سوچتا ہوں ایک اسٹور کھول لوں۔ لیڈیز اسٹور۔ خواہ مخواہ پریس کے چکر میں پڑا ہوں۔ عورت کا سایہ تک بھی وہاں نہیں آتا۔ سارا دن گڑگڑاہٹیں سنو۔ اُلّو کے پٹھے قسم کے گاہکوں سے مغز ماری کرو۔ یہ زندگی ہے؟‘‘

میں پھر مسکرا دیا۔ اتنے میں غیاث آگیا۔ جلیل نے زور سے اس کے چوتڑوں پر دھپا مارا اور کہا۔

’’سنائیے، کون تھی یہ جس کے لیے تو اپنی جان حاضر کررہا تھا۔ ‘‘

غیاث بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’منٹو صاحب کے سامنے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ ‘‘

جلیل نے اپنی عینک کے موٹے شیشوں میں سے گھور کرغیاث کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’منٹو صاحب کو سب معلوم ہے۔ تم بتاؤ کون تھی؟‘‘

غیاث نے اپنی نیلے شیشے والی عینک اتار کر اس کی کمانی ٹھیک کرنی شروع کی۔

’’ایک نئی ہے۔ پرسوں آئی تھی، ٹیلی فون کرنے۔ کسی سے ہنس ہنس کے باتیں کررہی تھی۔ فون کرچکی تومیں نے اس سے کہا، جناب فیس ادا کیجیے۔ یہ سن کر مسکرنے لگی۔ پرس میں ہاتھ ڈالکر اس نے دس روپے کا نوٹ نکالا اورکہا۔

’’حاضر ہے‘‘

۔ میں نے کہا

’’شکریہ۔ آپ کا مسکرا دینا ہی کافی ہے۔ بس دوستی ہو گئی۔ ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھی رہی، جاتے ہوئے دس رومال لے گئی۔ ‘‘

مسعود جو بالکل خاموش تھاغالباً اپنی بے کاری کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اٹھا۔

’’بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے‘‘

یہ کہہ کر اس نے مجھے سلام کیا اور چلا گیا۔ غیاث اپنی باتوں سے بہت خوش تھا۔ مسعود جب یکلخت بولا تو اس کا چہرہ کسی قدر مرجھا گیا۔ جلیل تھوڑی دیر کے بعد غیاث سے مخاطب ہوا۔

’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘

غیاث چونکا

’’کیا کہا؟‘‘

جلیل نے پھر پوچھا۔

’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘

غیاث نے کچھ توقف کے بعد کہا

’’میڈن فورم بریسٹر‘‘

جلیل کی آنکھیں عینک کے موٹے شیشوں کے عقب سے چمکیں۔

’’سائز کیا ہے۔ ‘‘

غیاث نے جواب دیا

’’تھرٹی فور!‘‘

جلیل مجھ سے مخاطب ہوا

’’منٹو صاحب یہ کیا بات ہے انگیا دیکھتے ہی میرے اندرہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

میں نے مسکرا کر اس سے کہا

’’آپ کی قوت متخیلہ بہت تیز ہے۔ ‘‘

جیلیل کچھ نہ سمجھا اور نہ وہ سمجھناچاہتا تھا۔ اس کے دماغ میں کھدبد ہورہی تھی وہ اس لڑکی کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا جس کے ساتھ غیاث نے ٹیلی فون پرباتیں کی تھیں۔ چنانچہ میرا جواب سن کر نے اس غیاث سے کہا۔

’’یار ہم سے بھی تو ملاؤ اسے‘‘

غیاث نے کمانی ٹھیک کرکے عینک لگائی

’’کبھی یہاں آئے گی تو مل لینا‘‘

کچھ نہیں یار تم ہمیشہ یہی غچہ دیتے رہتے ہو۔ پچھلے دنوں جب وہ یہاں آئی تھی۔ کیا نام تھا اس کا؟۔ جمیلہ۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے بات کرنی چاہی تو تم نے ہاتھ جوڑ کر مجھے منع کردیا۔ میں اُسے کھا تو نہ جاتا‘‘

یہ کہہ کر جمیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ لیں۔ جلیل اور غیاث دونوں میں بچپنا تھا۔ دونوں ہر وقت لڑکیوں کے متعلق سوچتے رہتے تھے، خوبصورت، موٹی، دبلی، بھدی لڑکیوں کے متعلق۔ ٹانگے میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کے متعلق۔ پیدل چلتی اور سائیکل سوار لڑکیوں کے متعلق۔ جلیل اس معاملے میں غیاث سے بازی لے گیا تھا۔ دفتر سے کسی ضروری کام پر موٹر میں نکلتا، راستے میں کوئی ٹانگے میں بیٹھی یا موٹر میں سوار لڑکی نظر آجاتی تو اس کے پیچھے اپنی موٹر لگا دیتا۔ یہ اس کا محبوب ترین شغل تھا لیکن اس نے کبھی بدتمیزی نہ کی تھی۔ چھیڑ چھاڑ سے اسے ڈر لگتا تھا۔ جہاں تک گفتار کا تعلق ہے اسے غازی کہنا چاہیے۔ بڑے بڑے مضبوط قلعے سر کرچکا تھا۔ پرائیویٹ کمرے میں جب باہر اسٹور سے کوئی نسوائی آواز آتی تو غیاث اچھل پڑتا اور پردہ ہٹا کر ایک دم باہر نکل جاتا۔ مرد گاہکوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ان سے اس کا ملازم نبٹتا تھا۔ دونوں اپنے کام میں ہوشیار تھے۔ اسٹور کس طرح چلایا جاتا ہے اس کو کیوں کر مقبول بنایا جاتا ہے، اس کا غیاث کو بڑا اچھا سلیقہ تھا اسی طرح جلیل کو پریس کے تمام شعبوں پر کامل عبور تھا لیکن فرصت کے اوقات میں وہ صرف لڑکیوں کے متعلق سوچتے تھے۔ خیالی اور اصلی لڑکیوں کے متعلق۔ اسٹور میں کسی دن جب کوئی بھی لڑکی نہ آتی تو غیاث اداس ہو جاتا۔ یہ اداسی وہ جلیل سے ٹیلی فون پر ان لڑکیوں کے متعلق باتیں کرکے دور کرتا جو بقول اسکے جال میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جلیل اسے اپنے معرکے سناتا۔ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے۔ اسٹور میں کوئی گاہک آتا یا ادھر پریس میں کسی کوجلیل کی ضرورت ہوتی تو یہ دلچسپ سلسلہ گفتگو منقطع ہو جاتا۔ اس لحاظ سے نیو پیرس اسٹور بڑی دلچسپ جگہ تھی۔ جلیل دن میں دو تین مرتبہ ضرور آتا۔ پریس سے کسی کام کے لیے نکلتا تو چند منٹوں ہی کے لیے اسٹور سے ہو جاتا۔ غیاث سے کسی لڑکی کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کرتا اور انگلی میں موٹر کی چابی گھماتا چلا جاتا۔ جلیل کوغیاث سے یہ گلہ تھا کہ وہ

’’اپنی لڑکیوں‘‘

کے متعلق انتہائی رازداری سے کام لیتا ہے ان کا نام تک نہیں بتاتا۔ چھپ چھپ کر اُن سے ملتا ہے اُن کو تحفے تحائف دیتا ہے اور اکیلے اکیلے عیش کرتا ہے یہی گلہ غیاث کو جلیل سے تھا۔ لیکن دونوں کے دوستانہ تعلقات ویسے کے ویسے قائم تھے۔ ایک روز اسٹور میں ایک سیاہ برقعے والی عورت آئی۔ نقاب الٹا ہوا تھا۔ چہرہ پسینے سے شرابور تھا آتے ہی اسٹول پربیٹھ گئی۔ غیاث جب اسکی طرف بڑھا تو اس نے برقعہ سے پسینہ پونچھ کر اس سے کہا۔

’’پانی پلائیے ایک گلاس‘‘

غیاث نے فوراً نوکرکوبھیجا ایک ٹھنڈا لیمن لے آئے۔ عورت نے چھت کے ساکن پنکھوں کو دیکھا اورغیاث سے پوچھا

’’پنکھا کیوں نہیں چلاتے آپ؟‘‘

غیاث نے سرتاپا معذرت بن کر کہا

’’دونوں خراب ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں کیا ہوا۔ میں نے آدمی بھیجا ہوا ہے‘‘

عورت اسٹول پر سے اٹھی

’’میں تو یہاں ایک منٹ نہیں بیٹھ سکتی‘‘

یہ کہہ کر وہ شوکیسوں کو دیکھنے لگی

’’آدمی خاک شوپنگ کرسکتا ہے اس دوزخ میں۔ ‘‘

غیاث نے اٹک اٹک کرکہا

’’مجھے افسوس ہے۔ آپ۔ آپ اندر تشریف لے چلیے۔ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہو گی میں لا کر دوں گا۔ عورت نے غیاث کی طرف دیکھا

’’چلیے‘‘

غیاث تیز قدمی سے آگے بڑھا۔ پردہ ہٹایا اور اس عورت سے کہا

’’تشریف لائیے۔ ‘‘

عورت اندر کمرے میں داخل ہو گئی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ غیاث نے پردہ چھوڑ دیا۔ دونوں میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ چند لمحات کے بعد غیاث نکلا۔ میرے پاس آکر اس نے ہولے سے کہا

’’منٹو صاحب کیا خیال ہے آپ کا اس لڑکی کے بارے میں؟‘‘

میں مسکرا دیا۔ غیاث نے ایک خانے سے مختلف اقسام کی لپ اسٹکیں نکالیں اور اندرکمرے میں لے گیا۔ اتنے میں جلیل کی موٹر کا ہارن بجا اور وہ انگلی پر چابی گھماتا نمودار ہوا۔ آتے ہی اس نے پکارا

’’غیاث۔ غیاث، آؤ بھئی سنو وہ کل والا معاملہ میں نے سب ٹھیک کردیا ہے۔ ‘‘

پھر اس نے میری طرف دیکھا۔ اوہ منٹو صاحب، آداب عرض۔ غیاث کہاں ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا

’’اندر کمرے میں‘‘

’’وہ میں نے سب ٹھیک کردیا منٹو صاحب۔ ابھی ابھی پٹرول پمپ کے پاس ملی۔ پیدل جارہی تھی میں نے موٹر روکی اور کہا جناب یہ موٹر آخر کس مرض کی دوا ہے اسے مزنگ چھوڑ کر آرہا ہوں۔ ‘‘

پھر اس نے کمرے کے پردے کی طرف منہ کرکے آواز دی۔

’’غیاث باہر نکل بے!‘‘

جلیل نے انگلی پر زور سے چابی گھمائی

’’مصروف ہے۔ اب اس نے اندر مصروف ہونا شروع کردیا ہے‘‘

کہہ کر اس نے آگے بڑھ کر پردہ اٹھایا۔ ایک دم اس کے جیسے بریک سی لگ گئی۔ پردہ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

’’سوری‘‘

کہہ کر وہ الٹے قدم واپس آیا اور گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس نے مجھ سے پوچھا

’’منٹو صاحب کون ہے؟‘‘

میں نے دریافت کیا

’’کہاں کون؟‘‘

’’یہ۔ یہ جو اندر بیٹھی لبوں پر لپ اسٹک لگا رہی ہے‘‘

میں نے جواب

’’معلوم نہیں گاہک ہے!‘‘

جلیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے آنکھیں سکیڑیں اور پردے کی طرف دیکھنے لگا۔ غیاث باہر نکلا۔ جلیل سے

’’ہلو جلیل‘‘

کہا اور آئینہ اٹھا کر واپس کمرے میں چلا گیا۔ دونوں دفعہ جب پردہ اٹھا تو جلیل کو اس عورت کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ میری طرف مڑ کر اس نے کہا۔ عیش کرتا ہے پٹھا، پھر اضطراب کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پردہ اٹھا۔ عورت ہونٹوں کو چوستی ہوئی نکلی۔ جلیل کی نگاہوں نے اسکو اسٹور کے باہر تک پہنچایا پھر اس نے پلٹ کر کمرے کا رخ کیا۔ غیاث باہر نکلا۔ رومال سے ہونٹ صاف کرتا۔ دونوں ایک دوسرے سے قریب قریب ٹکرا گئے۔ جلیل نے تیز لہجے میں اس سے پوچھا

’’یہ کیا قصہ تھا بھئی‘‘

غیاث مسکرایا

’’کچھ نہیں‘‘

یہ کہہ کر اس نے رومال سے ہونٹ صاف کیے۔ جلیل نے غیاث کے چٹکی بھری

’’کون تھی؟‘‘

’’یار تم ایسی باتیں نہ پوچھا کرو‘‘

غیاث نے اپنا رومال ہوا میں لہرایا۔ جلیل نے چھین لیا غیاث نے جھپٹا مار کرواپس لینا چاہا۔ جلیل پینترہ بدل کر ایک طرف ہٹ گیا۔ رومال کھول کر اس نے غور سے دیکھا جگہ جگہ سرخ نشان تھے۔ عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکیڑ کر اس نے غیاث کو گھورا۔

’’یہ بات ہے۔ ‘‘

غیاث ایسا چور بن گیا۔ جس کو کسی نے چوری کرتے کرتے پکڑ لیا ہے

’’جانے دو یار۔ ادھر لاؤ رومال۔ ‘‘

جلیل نے رومال واپس کردیا۔

’’بتاؤ تو سہی کون تھی‘‘

اتنے میں نوکر لیمن لے کر آگیا۔ غیاث نے اسکو اتنی دیر لگانے پر جھڑکا

’’کوئی مہمان آئے تو تم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہو۔ ‘‘

غیاث نے جلیل سے پوچھا۔

’’یہ لیمن اسی کے لیے منگوایا گیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں یار۔ اتنی دیر میں آیا ہے کم بخت۔ دل میں کہتی ہو گی پیاسا ہی بھیج دیا۔ ‘‘

غیاث نے رومال جیب میں رکھ لیا۔ جلیل نے شوکیس پر سے لیمن کا گلاس اٹھایا اور غٹا غٹ پی گیا۔

’’ہماری پیاس تو بجھ گئی۔ لیکن یاربتاؤنا تھی کون؟۔ پہلی ہی ملاقات میں تم نے ہاتھ صاف کردیا۔ غیاث نے رومال نکال کر اپنے ہونٹ صاف کیے اور آنکھیں چمکا کر کہا۔

’’چمٹ ہی گئی۔ میں نے کہا دیکھو ٹھیک نہیں۔ دکان ہے۔ زبردستی میرے ہونٹوں کا چما لے گئی۔ ‘‘

ایک دم مسعود کی آواز آئی

’’سب بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے۔ ‘‘

غیاث چونک پڑا۔ مسعود اسٹور کے باہر کھڑا تھا اس نے مجھے سلام کیا اورچل دیا۔ جلیل فوراً ہی غیاث سے مخاطب ہوا۔

’’چھوڑو یار تم یہ بتاؤ پھر کیا ہوا؟۔ یار چیز اچھی تھی۔ کیا نام ہے؟‘‘

غیاث نے جواب نہ دیا۔ مسعود کی آواز کے اچانک حملے سے وہ بوکھلا سا گیا تھا۔ جلیل کو ایک دم یاد آیا کہ وہ تو ایک بہت ہی ضروری کام پر نکلا ہے۔ انگلی پر چابی گھما کر اس نے غیاث سے کہا

’’لڑکی کے متعلق پھر پوچھوں گا۔ اچھا منٹو صاحب السلام علیکم‘‘

اور چلا گیا۔ میں نے مسکرا کرغیاث سے پوچھا

’’غیاث صاحب اتنی جلدی پہلی ہی ملاقات میں آپ نے۔ ‘‘

غیاث جھینپ گیا میری بات کاٹ کر اس نے کہا

’’چھوڑئیے منٹو صاحب۔ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔ چلیے اندر بیٹھیں۔ یہاں گرمی ہے۔ ‘‘

ہم اندر کمرے کی طرف چلنے لگے تو اسٹور کے باہر جلیل کی موٹر رکی۔ اس نے زور زور سے ہارن بجایا۔ غیاث نہ گیا تو وہ خود اندر آیا۔

’’غیاث اندر آؤ۔ بس اسٹینڈ کے پاس ایک بڑی خوبصورت لڑکی کھڑی ہے۔ ‘‘

غیاث اس کے ساتھ چلا گیا۔ میں مسکرانے لگا۔ اس دوران میں جلیل نے بڑی مشکلوں سے اپنے باپ کو راضی کرکے ایک کرسچین لڑکی ملازم رکھ لی۔ اس کو وہ اپنی اسٹینو کہتا تھا۔ کئی بار موٹر میں اسکو اپنے ساتھ لایا، لیکن اس کو موٹر ہی میں بٹھائے رکھا۔ غیاث کو اس بات کا بہت غصہ تھا۔ ایک بار اس اسٹینو کے سامنے غیاث نے جلیل کو مذاق کیا تو وہ بہت سٹ پٹایا، اس کے کان کی لویں سرخ ہو گئیں۔ نظریں جھکا کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ بقول جلیل کے یہ اسٹینو شروع شروع میں تو بڑی ریزرو رہی۔ لیکن آخر اس سے کھل ہی گئی۔

’’بس اب چند دنوں ہی میں معاملہ پٹا سمجھو۔ ‘‘

غیاث اب زیادہ ترجلیل سے اس اسٹینو کی باتیں کرتا۔ جلیل اس سے اس لڑکی کے متعلق پوچھتا جس نے چمٹ کر اس کو چوم لیا تھا تو غیاث عموماً یہ کہتا

’’کل اس کا ٹیلی فون آیا۔ پوچھنے لگی آؤں؟۔ میں نے کہا یہاں نہیں۔ تم وقت نکالو تو میں کسی اور جگہ کا انتظام کرلوں گا۔ ‘‘

جلیل اس سے پوچھتا

’’کیا کہا اس نے؟‘‘

غیاث جواب دیتا۔

’’تم اپنی اسٹینو کی سناؤ‘‘

اسٹینو کی باتیں شروع ہو جاتیں۔ ایک دن میں اورغیاث دونوں جلیل کے پریس گئے مجھے اپنی کتاب کے گردوپوش کے ڈیزائن کے بارے میں دریافت کرنا تھا۔ دفترمیں اسٹینو ایک کونے میں بیٹھی تھی لیکن جلیل نہیں تھا۔ اسٹینو سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی ابھی باہر نکلا ہے۔ میں نے نوکرکو بھیجا کہ اس کو ہماری آمد کی اطلاع دے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد جلیل آگیا۔ چک اٹھا کر اس نے مجھے سلام کیا اورغیاث سے کہا۔

’’ادھر آؤ غیاث‘‘

ہم دونوں باہر نکلے غیاث کو ایک کونے میں لے جا کر جلیل نے اُچھل کرغیاث سے کہا

’’میدان مار لیا۔ ابھی ابھی تمہارے آنے سے تھوڑی دیر پہلے‘‘

یہ کہہ کر وہ رک گیا اور مجھ سے مخاطب ہوا

’’معاف کیجیے گا منٹو صاحب‘‘

پھر اس نے غیاث کو زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔

’’میں نے آج اس کو پکڑ لیا۔ بالکل اسی طرح۔ اور اسی جگہ۔ اس ٹریڈل کے پاس۔ ‘‘

غیاث نے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

جلیل جھنجھلا گیا

’’ابے اپنی اسٹینو کو۔ قسم خدا کی مزا آگیا۔ یہ دیکھو‘‘

اس نے اپنا رومال پتلون کی جیب سے نکال کر ہوا میں لہرایا۔ اس پر سرخی کے دھبے تھے۔ ایک دم مسعود کی آواز آئی

’’بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے۔ ‘‘

جلیل اور غیاث چونک اٹھے۔ میں مسکرایا۔ ٹریڈل کے توے پر سرخ روغن کی پتلی سی ہموار تہ پھیلی ہوئی تھی۔ ایک جگہ پونچھنے کے باعث کچھ خراشیں پڑ گئی تھیں۔ 8جون1950ء

سعادت حسن منٹو

خوابِ خرگوش

ثُریا ہنس رہی تھی۔ بے طرح ہنس رہی تھی۔ اُس کی ننھی سی کمر اس کے باعث دہری ہو گئی تھی۔ اُس کی بڑی بہن کو بڑا غصہ آیا۔ آگے بڑھی تو ثُریا پیچھے ہٹ گئی۔ اور کہا

’’جا میری بہن، بڑے طاق میں سے میری چوڑیوں کا بکس اُٹھالا۔ پر ایسے کہ امی جان کو خبر نہ ہو۔ ‘‘

ثُریا اپنی بڑی بہن سے پانچ برس چھوٹی تھی۔ بلقیس اُنیس کی تھی۔ ثریا نے جھنجھلاہٹ سے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اور جو میں نہ لاؤں تو؟‘‘

بلقیس نے جل کر اُسے کہا۔

’’ایک فقط تو مجھ اللہ ماری کا کام نہیں کرے گی نگوڑیاں ہمسائیاں چاہے تم سے اُپلے تک تھپوالیں‘‘

ثریا کو اپنی بہن پر پیار آگیا۔ اُس کے گلے سے چمٹ گئی۔

’’نہیں باجی، ہمسائیاں جائیں جہنم میں۔ میں تو تمہاری خدمت کے لیے بھی تیار ہوں۔ میں چوڑیوں کا بکس ابھی لاتی ہوں۔ ‘‘

ثریا یوں چٹکیوں میں بکس اُٹھا لائی اور بلقیس سے بڑے جاسوسانہ انداز میں کہا۔

’’آپ ضرور سنیما دیکھنے جارہی ہیں۔ ‘‘

’’ثریا تو اب زیادہ بک بک نہ کر۔ تیری قسم میں سنیما نہیں جارہی۔ ‘‘

ثریا نے بچپنے کے سے انداز سے پوچھا۔

’’تو پھر یہ تیاریاں کیوں ہو رہی ہیں۔ ؟‘‘

’’یہ تو میرا امتحان لینے کیا بیٹھ گئی ہے۔ اور میں بے وقوف نہیں جو تیری ہر بات کا جواب دیے چلی جاؤں۔ سُن ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔ نئی چوڑیاں جائیں جہنم میں، نہیں پہنوں گی تو کون سا آفت کا پہاڑ ٹُوٹ پڑے گا۔ تیری بحث تو پھر ختم نہیں ہو گی کم بخت۔ ‘‘

ثریا بے حد افسردہ ہو گئی۔ ننھی جان تھی۔ اُس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑلیا

’’آپ ناراض ہو گئیں مجھ سے۔ ؟‘‘

’’چل دُور ہو۔ ‘‘

بلقیس اپنے آپ سے بلکہ ہر چیز سے بیزار ہو رہی تھی۔

’’آج مجھے ضروری ایک کام سے باہر جانا ہے۔ پر مصیبت یہ ہے کہ امی جان اجازت نہیں دیں گی۔ کہیں گی متواتر تین شاموں سے تو باہر جارہی ہے۔ اور میں اُن سے وعدہ کرچکی ہوں کہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘

ثریا نے پوچھا

’’کس سے؟‘‘

بلقیس نے غیر ارادی طور پر جواب دیا۔

’’لطیف صاحب سے‘‘

یہ کہہ کر وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ ثریا سوچنے لگی کہ یہ لطیف صاحب کون ہیں۔ اُن کے ہاں تو کبھی اس نام کا آدمی نہیں آیا تھا۔ ثریا نے اس شش و پنج میں اپنی بہن سے پوچھا

’’یہ لطیف صاحب کون ہیں باجی۔ ؟‘‘

’’لطیف صاحب۔ مجھے کیا معلوم۔ کون ہیں ار۔ ار۔ سچ مچ یہ کون ہیں۔ ‘‘

ایک دم سنجیدہ ہوکر

’’ثُریا۔ تو نے آج کا سق یاد کیا؟ تو بہت وہ۔ ہو گئی ہے۔ اس لیے تو اوٹ پٹانگ سوال کرتی رہتی ہے۔ ‘‘

ثُریا کی معصومیت کوٹھیس پہنچی۔

’’باجی میں نے کبھی کوئی واہیات بات نہیں کی۔ آپ نے کس لطیف صاحب سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ‘‘

بلقیس اُس کی معصومیت سے تنگ آگئی۔ جھنجھلا کر بولی۔

’’خاموش رہ۔ ‘‘

اتنے میں اندر صحن سے بلقیس کی ماں کی آواز سنائی دی

’’بلقیس۔ بلقیس۔ ‘‘

بلقیس کی آواز دب گئی۔ اُس نے ہولے لہجے میں اپنی بہن سے کہا

’’لے یہ اکنی‘‘

پرس میں سے اُس نے ایک اکنی نکال کر اُس کو دی

’’املی لے لینا۔ ہر روز ایک آنہ دیا کروں گی تجھے املی کے لیے۔ اور دیکھ آدھی آج میرے لیے رکھ چھوڑنا۔ امی مجھے بُلا رہی ہیں۔ اور دیکھ جو باتیں ہوئی ہیں۔ ان کو نہ بتانا، لے وہ خود ہی آرہی ہیں‘‘

صحن کے آگے جہاں برآمدہ کے فرش پر بلقیس اپنی ماں کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور ثُریا سے کہتی ہے۔

’’لے بھاگ اب یہاں سے۔ ‘‘

بلقیس کی ماں آتی ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت بہت غصیلی۔ اُس کے چہرے کے خدوخال سے صاف عیاں ہے کہ وہ ایک جابر ماں ہے۔ آتے ہی بلقیس کو ڈانتی ہے۔

’’یہ جو میں دو گھنٹے سے تجھے بلا رہی ہوں تُو نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا؟‘‘

بلقیس مسکین بلی کی سی آواز میں جواب دیتی ہے۔

’’نہیں تو۔ ‘‘

بلقیس کی ماں کی آواز اور زیادہ بُلند ہوجاتی ہے۔

’’اور یہ میں نے کیا سنا ہے۔ ‘‘

’’کیا امی جان؟‘‘

’’کہ تو پھر آج باہر جانا چاہتی ہے۔ شریف بہو بیٹیوں کی طرح تیرا گھر میں جی ہی نہیں لگتا۔ دیدے کا پانی ہی ڈھل گیا ہے۔ ‘‘

بلقیس نے آنکھیں جھکا کر بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔

’’آپ تو ناحق بگڑ رہی ہیں۔ ‘‘

بلقیس کی ماں جہاں آرا غضبناک ہو گئی اور کہا

’’ابھی ابھی ایک آدمی تمہاری کسی سہیلی کے یہاں سے آیا تھا۔ کہتا تھا کہ بی بی تیار رہیں۔ کالج کے جلسے میں جانا ہے۔ ‘‘

بلقیس نے یوں جھوٹ موٹ کا اظہار کیا۔

’’ہائے۔ جلسے میں؟۔ میں تو بالکل بھول ہی گئی تھی۔ یہ جلسہ بہت ضروری ہے امی جان۔ میں نہ گئی تو پرنسپل صاحبہ بہت بُرا مانیں گی۔ میرا خیال ہے مجھے فوراً تیار ہوجانا چاہیے۔ ‘‘

ماں کو اس سے کام کرانا تھا۔ اُسے کالج کے جلسے جلوسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

’’تو چل میرے ساتھ اور بیٹھ کے میرے ساتھ آٹا گوندھ۔ ‘‘

بلقیس نے اپنی سجاوٹ ایک نظر دیکھی اور بڑی پُردرد لہجے میں کہا۔

’’لیکن امی جان‘‘

ماں کا لہجہ کڑا ہو گیا۔

’’نہیں آج میری ساتھ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ سمجھیں۔ ؟‘‘

بلقیس نے ہار مان کر اپنی ماں سے کہا۔

’’آٹا گوندھنے کے بعد تو مجھے اجازت مل جائیگی۔ ؟‘‘

ماں زیرِلب مسکرائی۔

’’دیکھوں گی۔ چل بیٹھ جا میرے سامنے۔ ‘‘

بلقیس وہیں کمرے میں بیٹھنے لگی۔ مگر اُسے ایک دم خیال آیا کہ باورچی خانہ اور صحن باہر ہیں۔ یہاں وہ اپنی ماں کا سر آٹا گوندھے گی۔

’’چلیے امی جان۔ ‘‘

دونوں باورچی خانے میں داخل ہوئیں۔ کچھ اس طرح جیسے آگے آگے پولیس کا سپاہی اور پیچھے ہتھکڑی لگا ملزم۔ اُس کی ماں ایک پیڑھی پر اپنا بھاری بھرکم جسم ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھ گئیں کہ پیڑھی کو ضرب نہ پہنچے۔ پھر اُس نے بلقیس کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’ٹکر ٹکر میرا منہ کیا دیکھتی ہے، بیٹھ جا یہاں میرے سامنے!‘‘

بلقیس گندے فرش پر ہی پیروں کے بل بیٹھ گئی اور منہ بنا کر پوچھا۔

’’پانی کہاں ہے؟‘‘

پانی پاس ہی پڑا تھا۔ اصل میں اُسے سجھائی کم دینے لگا تھا۔ سامنے پرات میں آٹے کی چھوٹی سی ڈھیری پڑی تھی۔ اس نے ڈھیری میں پاس پڑی گڑوی سے تھوڑا سا پانی بادل ناخواستہ ڈالا اور آٹے پانی کو ملا کر جلدی جلدی مکیاں مانے لگی۔ لیکن اُس نے دیکھا کہ سامنے صحن میں لگے کلاک کی سوئیاں بتا رہی تھی کہ آٹھ بجنے والے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اُس کی مُکیاں تیز ہو جائیں مگر وہ اس سوچ میں غرق تھی کہ جہاں اُسے ساڑھے آٹھ بجے پہنچنا ہے کیا وہ یہ آٹا گوندھنے کے بعد پہنچ سکے گی۔ اُس کی ماں اُس کے سر پر کھڑی تھی۔ ایک دم چلائی۔

’’بلقیس یہ مکیاں ماررہی ہے یا کسی کا سر سہلا رہی ہے۔ ‘‘

بلقیس ابھی سوچ ہی رہی تھی کیا کہے اصل میں وہ یہ چاہتی تھی کہ اپنا گیلے آٹے سے بھرا ہاتھ مکا بنا کر یا اپنی ماں کے سر پر دے مارے یا اپنے سر پر۔ خود کو اتنا پیٹے کہ بے ہوش ہو جائے۔ لیکن اُسے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچنا تھا۔ اس لیے اُس نے جلدی جلدی آٹا گوندھا اور فارغ ہو گئی۔ ہاتھ دھو کر اُس نے ثُریاسے کہا۔

’’جاؤ ایک ٹانگہ لے آؤ۔ ‘‘

ثُریا چلی گئی۔ بلقیس نے آئینے میں خود کو دیکھا۔ لپ اسٹک دوبارہ لگائی۔ کسی قدر بکھرے ہوئے بالوں کو دُرست کیا اور کرسی پر بیٹھ کر بڑے اضطراب میں ٹانگ ہلانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ثُریا آگئی۔ اس نے اپنی بڑی بہن سے کہا۔

’’باجی ٹانگہ آگیا ہے۔ ‘‘

بلقیس کی ٹانگ ہلنا بند ہو گئی۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بُرقع اُٹھایا ہی تھا کہ باہر صحن سے اُس کے بھائی کی آواز آئی۔

’’بلی۔ بلی۔ ‘‘

بلقیس نے کہا۔

’’کیا ہے بھائی جان؟‘‘

اُس کا بھائی خود اندر تشریف لے آیا اور اُس کے ہاتھوں میں اپنی قمیص دے کر کہا۔

’’دھوبی کم بخت نے پھر دو بٹن غارت کر دیئے۔ مہربانی کر کے۔ ‘‘

بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ دو بٹن اُس کے سر پر دو پہاڑ بن کر ٹُوٹ پڑے ہیں۔

’’نہیں بھائی جان مجھے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے کالج کے جلسے میں پہنچناہے۔ ‘‘

اُس کے بھائی نے بڑے اطمینان اور برادرانہ محبت سے کہا۔

’’تم وقت پر پہنچ جاؤ گی۔ لو یہ دو بٹن ہیں۔ تم تو یُوں چٹکیوں میں ٹانگ دو گی۔ ‘‘

’’نہیں بھائی جان۔ وقت ہو گیا ہے۔ سوا آٹھ ہوچکے ہیں۔ ‘‘

’’امی جان نے تمھیں اجازت دے دی ہے۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’تو بٹن ٹانک دو۔ اجازت میں لے دُوں گا۔ ‘‘

’’سچ۔ ؟‘‘

’’میں نے آج تک تم سے کوئی جھوٹی بات کہی ہے۔ ‘‘

’’لائیے۔ ‘‘

بلقیس نے بٹن لیے اور سوئی میں دھاگہ پرو کر بٹن ٹانکنے شروع کردیے۔ اُس کی انگلیوں میں بلا کی پھرتی تھی۔ دو منٹ سے کم عرصے میں اُس نے اپنے بھائی کی قمیص میں دو بٹن لگا دیے۔ وہ بہت ممنون وہ متشکر ہوا۔ باہر جا کر اُس نے اپنی ماں سے سفارش کی کہ وہ بلقیس کو کالج کے جلسے میں جانے کی اجازت دے دے۔ اس کی یہ سفارش سُن کر اُس کی ماں اُس پر برس پڑی۔

’’تم دونوں آوارہ گرد ہو۔ گھر میں تمہارا جی ہی نہیں لگتا۔ تم کہاں جانے کی تیاریاں کررہے ہو؟۔ دیکھو میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ نہ بلقیس کہیں جائے گی نہ تم۔ گھر میں بیٹھو اور کام کرو۔ ‘‘

’’لیکن امی جان، میں تو آپ ہی کے لیے باہر جارہا ہوں۔ ‘‘

’’مجھے کیا تکلیف ہے کہ تم میرے لیے باہر جارہے ہو۔ میرے لیے جب بھی تم گئے ڈاکٹر بُلانے کے لیے گئے۔ ‘‘

’’لیکن امی جان۔ آپ کے زیوروں کا بھی تو پتہ لینا ہے۔ جس سُنار کو آپ نے بننے کے لیے دیے تھے، وہ چار روز سے غائب ہے۔ ‘‘

’’ہائیں۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہ کہا۔ کہاں غائب ہو گیا ہے؟‘‘

’’اب جاؤں گا تو معلوم کروں گا۔ ‘‘

’’جاؤ جلدی جاؤ۔ اور مجھے اطلاع دو کہ وہ واپس آگیا ہے کہ نہیں۔ میرا سونا اُس سے واپس لے آنا۔ ساڑھے چار تولے دو ماشے اور چار رتیاں ہے۔ ‘‘

’’بہت بہتر۔ بلقیس کو اب آپ اجازت دیجیے۔ ‘‘

اُس کی ماں نے بادلِ ناخواستہ کہا کہ چلی جائے۔ مگر مجھے اس کا یہ ہر روز شام کا گھر سے باہر رہنا پسند نہیں۔ بلقیس کا بھائی زیرِ لب مسکرایا اور اندر جاکر اپنی بہن کو خوشخبری سُنائی کے امی جان سے جو اُس نے فراڈ کیا وہ چل گیا اور اُس کو اجازت مل گئی۔ بلقیس بہت خوش ہوئی۔ آٹھ بج کر بیس منٹ ہوئے تھے۔ اُس نے اپنا برقعہ پہنا۔ باہر نکلنے ہی والی تھی کہ اُس کی ماں نے اُسے بُلایا اور اُس سے کہا۔

’’دیکھو بلقیس تم جا تو رہی ہو، لیکن میرا ایک کام کرتی جاؤ۔ ‘‘

بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ اُس کا ریشمی برقع لوہے کی چادر بن گیا ہے۔

’’بتائیے امی جان۔ ‘‘

’’ایک خط لکھوانا تھا تم سے‘‘

بلقیس نے ایک شکست خوردہ اور غلام کے مانند بدرجہ مجبوری ٹھنڈی سانس بھر کے کہا۔

’’لائیے لکھ دیتی ہوں۔ ‘‘

بلقیس کی آنکھیں تو نہیں بلکہ اُس کے جسم کا رواں رواں رو رہا تھا۔ اُس نے خط مکمل کیا۔ باہر تانگہ کھڑا تھا۔ اُس میں بیٹھی اور اُسے جہاں پہنچنا تھا پہنچی۔ اُس نے دروازے پر دستک دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ کواڑوں کو غصے میں آکر زور سے دھکیلا۔ ! وہ کھلے تھے، بلقیس گرتے گرتے بچی۔ اندر اُس کا دوست جس سے وہ ملنے آئی تھی۔ خوابِ خرگوش میں تھا۔ اُس نے اُس کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ بیدار نہ ہوا۔ آخری وہ جلی بھنی، بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی

’’میری جوتی کو کیا غرض پڑی ہے کہ یہاں ٹھہروں۔ میں اتنی مصیبت سے یہاں آئی اور جناب معلوم نہیں بھنگ پی کر سو رہے ہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

خط اور اُس کا جواب

منٹو بھائی ! تسلیمات! میرا نام آپ کے لیے بالکل نیا ہو گا۔ میں کوئی بہت بڑی ادیبہ نہیں ہوں۔ بس کبھی کبھار افسانہ لکھ لیتی ہوں اور پڑھ کر پھاڑ پھینکتی ہوں۔ لیکن اچھے ادب کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ اس کوشش میں کامیاب ہوں۔ میں اور اچھے ادیبوں کے ساتھ آپ کے افسانے بھی بڑی دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔ آپ سے مجھے ہر بار نئے موضوع کی اُمید رہی اور آپ نے درحقیقت ہر بار نیا موضوع پیش کیا۔ لیکن جو موضوع میرے ذہن میں ہے وہ کوئی افسانہ نگار پیش نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ سعادت حسن منٹو بھی جو نفسیات اور جنسیات کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ موضوع آپ کی کہانیوں کے موضوعات کی قطارمیں ہو اور کسی وقت بھی آپ اسے اپنی کہانی کے لیے منتخب کرلیں۔ لیکن پھرسوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے، سعادت حسن منٹو ایسا بے رحم افسانہ نگار بھی اس موضوع سے چشم پوشی کر جائے۔ اس لیے کہ اس موضوع کو ننگا کرنے سے ساری قوم ننگی ہوتی ہے اور شاید منٹو قوم کو ننگا دیکھ نہیں سکتا۔ آپ کی عدیم الفرصتی کے پیش نظر میں اس خط کو الجھانا نہیں چاہتی اور صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتی ہوں کہ وہ موضوع ہے۔

’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق۔ ‘‘

مختصر الفاظ میں آپ کوئی بھی اصطلاح لے سکتے ہیں۔ میرا لبِ لباب یہی تھا۔ میں بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کہ اس بارے میں آپ کو خط لکھوں اور آخر جرأت کرلی۔ سوائے منٹو کے اور کوئی اس موضوع کو بے نقاب نہیں کرسکتا۔ اگر میرے قلم میں زور ہوتا تو میں نے کبھی کی کہانی لکھی ہوتی۔ والسلام! آپ کی بہن( میں یہاں اصل نام نہیں دے رہا) نزہت شیریں بی، اے۔ جب مجھے یہ خط ملا تو میں سوچنے لگا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ میں کہاں کا ماہر نفسیات اور جنسیات ہوں کہ اس نے مجھ سے رجوع کیا۔ جب یہ خط ملا تو اتفاق سے میرے دست جو علمِ نجوم اور دوست شناسی میں شغف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمل اور جفر کے علم کے بھی طالب ہیں تو میں نے انہیں یہ خط پڑھنے کے لیے دیا اور کہا۔

’’و ارثی صاحب! میں نے اس کے متعلق جورائے قائم کی ہے وہ محفوظ ہے۔ ‘‘

میرے ایک اور دوست جن کا نام دوست محمد ہے۔ ان سے میں اپنی رائے بیان کرچکا تھا۔ وارثی صاحب نے یہ خط پڑھا اور اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہا۔

’’یہ عورت اگر واقعی عورت ہے اور شادی شدہ ہے۔ جوکہ ہونا چاہیے تو اس کے خاوند کو اغلام بازی کا شوق ہے۔ ‘‘

میں نے دوست محمد سے یہی کہا تھا۔ اپنی بیوی سے بھی۔ مگر وہ مانتے نہیں تھے۔ میری بہت سی باتیں لوگ نہیں مانتے۔ میں پیغمبر نہیں ہوں، کوئی ولی بھی نہیں۔ لیکن اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کوسمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ میں نے بھی وہی نتیجہ اخذ کیا تھا جو میرے دوست وارثی صاحب نے کیا۔ میں نے اُن سے اور دوست محمد سے مشورہ کیا کہ میں اس عورت کے خط کا کیا جواب دوں۔ وارثی صاحب نے کہا۔

’’منٹو صاحب۔ آپ ہم سے پوچھتے ہیں؟ ایسے خطوں کا جواب دینا آپ ہی کا کام ہے۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’وارثی صاحب! میرے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ میں کوئی ڈاکٹر حکیم نہیں۔ میں تو صاف صاف لفظوں میں، جو کچھ مجھے کہنا ہو گا، لکھ دُوں گا۔ ‘‘

انہوں نے کہا۔

’’تو لکھ دو‘‘

’’عورت ذات ہے۔ کیسے لکھوں؟‘‘

’’جب وہ لکھتی ہے کہ مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق ہوتا ہے۔ تو آپ کیوں اس کے جواب میں ایسے ہی الفاظ میں مناسب و موزوں جواب نہیں دیتے‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’مجھے ایسے مناسب و موزوں الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کا جواب لکھ سکوں۔ ‘‘

اور یہ حقیقت ہے کہ میں خود کو عاجز سمجھ رہا تھا۔ دوست محمد نے کہا۔

’’منٹو صاحب، آپ تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ قلم پکڑیے اور جوابی خط لکھ ڈ الیے۔ ‘‘

میں نے قلم پکڑا اور لکھنا شروع کردیا۔

’’خاتون محترم! میں آپ کو اپنی بہن بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کہ مجھ پر بہت سے فرائض عائد ہو جائیں گے۔ آپ میرے لیے خاتون محترم ہی رہیں گی۔ اس لیے کہ یہ رشتہ زیادہ مناسب و موزوں ہے۔ مجھے عورتوں سے ڈرلگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی مرد کے بھیس میں عورت بنی ہوں۔ لیکن میں آپ کی تحریر پر اعتبارکرکے آپ کو ایک عورت تسلیم کرتا ہوں۔ آپ کے خط سے جو کچھ میں نے اخذ کیا ہے۔ وہ میں مختصراً عرض کیے دیتا ہوں۔ میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں۔ میرے سامنے لاکھوں موضوعات پڑے ہیں اور جب تک میں زندہ ہوں، پڑے رہیں گے۔ سڑک کے ہر پتھر پر ایک افسانہ کندہ ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ اگر کسی خاص جیتے جاگتے موضوع پرلکھوں تو مقدمے کا خوف لاحق ہے۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ مجھ پر اب تک چھ مقدمے چل چکے ہیں۔ فحش نگاری کے سلسلے میں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ فحش نگار کیسے قرار دیا جاتا ہوں۔ جب کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک بھی گالی کسی کو نہیں دی۔ کسی کی ماں بہن کی طرف بُری نظروں سے نہیں دیکھا۔ خیر یہ میرا اور قانون کا آپس کا جھگڑا ہے۔ آپ کو اس سے کیا واسطہ۔ میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں( جن معنوں میں آپ نے

’’بے رحم‘‘

استعمال کیا ہے) آپ نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ میں شاید آپ کے پیش نظر موضوع سے چشم پوشی کر جاؤں تویہ غلط ہے۔ میں علامہ اقبال مرحوم کے اس قول کا قائل ہوں کہ ؂ اگر خواہی حیات اندر خطرزی میں نے تو اپنی ساری زندگی اس شعر کی تولید سے پہلے خطروں میں گزاری ہے اور اب بھی گزار رہا ہوں۔ جو موضوع آپ کے ذہن میں ہے، کوئی نیا نہیں ہے۔ اس پر عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے

’’لحاف‘‘

میں لکھ چکی ہے کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی۔ اس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس عورت نے دوسری عورتوں سے ہم جنسی شروع کردی۔ جہاں مردوں میں ہم جنسیت ہے، وہاں عورتوں میں بھی ہے۔ میں آپ کو ایک زندہ مثال پیش کرتا ہوں۔ بیگم پارہ (فلم ایکٹرس) کو تو آپ جانتی ہوں گی۔ اس کا تعلق پروتماواس گپتا سے ہے۔ آپ لکھتی ہیں۔

’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیر فطری تعلق۔ ‘‘

میں آپ سے عرض کروں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کوئی چیز غیر فطری نہیں ہوتی۔ انسان کی فطرت میں بُرے سا بُرا اور اچھے سے اچھا فعل موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا نا درست ہے کہ انسان کا فلاں فعل غیر فطری ہے۔ انسان کبھی فطرت کے خلاف جا ہی نہیں جاسکتا، جو اس کی فطرت ہے، وہ اسی کے اندر رہ کر تمام اچھائیاں اور برائیاں کرتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں، آپ شادی شدہ ہیں یا کنواری۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی تلخ تجربہ ہوا ہے، جس کی بِنا پر آپ نے مجھے یہ خط لکھا۔ امرد پرستی آج سے نہیں، ہزار ہا سال سے قائم ہے۔ لیکن آج کل اس کارجحان قریب قریب غائب ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں میدانِ عمل میں آگئی ہیں۔ جب امردپرستی زوروں پر تھی، تو اس وقت عورتیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔ مرد بھٹکتے بھٹکتے بقول آپ کے کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلقات قائم کر لیتے تھے۔ مگر اب یہ رجحان بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ آپ عورت ہیں۔ اس لیے آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کم عمر لونڈے اب آپ کے رقیب نہیں رہے۔ میں آپ سے ایک اور بات کہوں۔ جس چیز کی طلب ہو وہی منڈی میں آتی ہے۔ پہلے طلب چھوکروں کی تھی، اب چھوکریوں کی ہے۔ آپ یقیناً جانتی ہوں گی کہ آج کل حوّا کی بیٹیاں ٹانگے میں سوار شکار میں مصروف ہوتی ہیں؟۔ میں آپ کو ایک اور بات بتاؤں۔ ایک زمانہ تھا( آج سے بیس بائیس برس پیچھے) جب لاہور میں ایک سکھ لڑکا ٹینی سنگھ ہوتا تھا۔ بڑا خوبصورت۔ اس کے خدوخال کے سامنے کسی بھی حسین لڑکی کے نقش ماند پڑ جاتے۔ اُس نے لاہور میں ایک قیامت بپا کررکھی تھی۔ اس کے عاشق نے اس کو ایک موٹر کار لے دی، تاکہ اسے گورنمنٹ کالج جانے اورگھر تک آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ میں اب آپ کوکتنے قصّے سناؤں۔ امرتسر میں( جہاں کا میں رہنے والا ہوں) میرا ایک ہندو دوست ہے۔ اچھی شکل وصورت کا تھا۔ ہم دونوں بیٹھک میں باتیں کررہے تھے جو اندر گلی میں تھی۔ اس نے ایک دم مجھ سے چونک کر کہا۔

’’یار باہر بہت شور ہورہا ہے۔ چلو‘‘

میں کانوں سے ذرا بہرا ہوں۔ مجھے شور وور کوئی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ بہر حال میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم باہر نکلے تو بازار کی تمام دکانیں بند تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کانگرس کی کسی تحریک کے باعث ہڑتال ہو گئی ہے۔ چند غنڈے ہاتھ میں ہاکیاں لیے پھر رہے تھے۔ وہ ہمارے پاس آئے، ایک غنڈے کو میں نے پہچان لیا۔ بڑا خطرناک تھا۔ اس نے بڑی نرمی سے میرے ہندو دوست منوہر سے کہا۔

’’باؤ جی۔ آپ اندر چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کوکوئی نقصان پہنچ جائے۔ ‘‘

منوہر اور میں واپس گھر چلے آئے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ

’’یہ قصّہ کیا ہے، تو اس نے مجھے بتایا کہ دو آدمی اس سے عشق کرتے ہیں‘‘

۔ بڑا صاف گو تھا۔ ایک پٹرنگوں کے محلے کا تھا۔ دوسرا فرید کے چوک کا۔ منوہر پٹرنگ سے راضی تھا۔ اس لیے ان دونوں میں لڑائی ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شام تک گیارہ آدمی زخمی ہو کر ہسپتال میں تھے اور منوہر بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ اب مجھے آپ سے یہ کہنا ہے۔ بلکہ پوچھنا ہے کہ آپ نے

’’مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلق کیسے جانا؟‘‘

جیسا کہ میں نے اور میرے دوست وارثی صاحب نے سوچا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ آپ کا شوہر ایسے شغل کرتا ہو گا۔ آپ مجھے اس کے متعلق ضرور لکھیے گا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ شادی شُدہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی اور بات ہو۔ دیکھیے میں آپ سے ایک بات عرض کروں۔ قریب قریب ہر لڑکا اپنی جوانی کے ایام میں ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ نے اپنے لڑکے کے متعلق ہی لکھا ہو۔ اسے تنبیہہ کردینا کافی ہے۔ یا اُس کی شادی کردینا چاہیے۔ کیونکہ ہر عادت پک کر طبیعت بن جاتی ہے۔ اور یہ ایک خوفناک چیز ہے۔ جنس کا احساس صرف بالغ آدمیوں ہی میں نہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی ہوتا ہے۔ میں اس کے متعلق تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا، اس لیے کہ کہ اردو زبان اس کی متحمل نہیں ہو گی۔ آپ نے جو مجھے چیلنج دیا ہے، قبول ہے۔ میں عر صے سے سوچ رہا تھا کہ جو موضوع آپ نے بتایا ہے، اس پر کوئی افسانہ لکھوں۔ اب یقیناً لکھوں گا، چاہے ایک مقدمہ اور چل جائے۔ آپ مجھے اپنے متعلق تفصیل سے لکھیے، تاکہ میں کوئی اندازہ کرسکوں۔ خاکسار سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو

خدا کی قسم

ادھر سے مسلمان اور ادھر سے ہندو ابھی تک آجارہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں ضرب المثل کے مطابق تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جارہے تھے۔ غلہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس کا ہوش کس کو تھا۔ ایک افراط و تفریط کا عالم تھا۔ سن اڑتالیس کا آغاز تھا۔ غالباً مارچ کا مہینہ۔ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف رضا کاروں کے ذریعے سے

’’مغویہ‘‘

عورتوں اور بچوں کی برآمدگی کا مستحسن کام شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی تھیں۔ میں جب ان کو سرگرم عمل دیکھتا تو مجھے بڑی تعجب خیز مسرت حاصل ہوتی، یعنی خود انسان انسان کی برائیوں کے آثار مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو عصمتیں لٹ چکی تھیں۔ ان کو مزید لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا تھا۔ کس لیے؟۔ اس لیے کہ اس کا دامن مزید دھبوں اور داغوں سے آلودہ نہ ہو؟۔ اس لیے کہ وہ جلدی جلدی اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹ لے اور ہم اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر روٹی کھائے؟۔ اس لیے کہ وہ انسانیت کا سوئی دھاگا لے کر جب تک دوسرے آنکھیں بند کیے ہیں، عصمتوں کے چاک رفو کردے؟۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ان رضا کاروں کی جدوجہد پھر بھی قابل قدر معلوم ہوتی تھی۔ ان کو سینکڑوں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہزاروں کھیکڑے تھے جو انھیں اٹھانے پڑتے تھے کیونکہ جنہوں نے عورتیں اور لڑکیاں اڑائی تھیں، سیماب پاتھے، آج اِدھر، کل اُدھر، ابھی اس محلے میں، ابھی اُس محلے میں اور پھر آس پاس کے آدمی بھی ان کی مدد نہیں کرتے تھے۔ عجیب عجیب داستانیں سننے میں آتی تھیں۔ ایک لیا ژاں افسر نے مجھے بتایا کہ سہارن پور میں دو لڑکیوں نے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس جانے سے انکارکردیا۔ دوسرے نے بتایا کہ جب جالندھر میں زبردستی ہم نے ایک لڑکی کو نکالا تو قابض کے سارے خاندان نے اسے یوں الوداع کہی جیسے وہ ان کی بہوہے، اور کسی دور دراز سفر پر جارہی ہے۔ کئی لڑکیوں نے راستہ میں والدین کے خوف سے خود کشی کرلی، بعض صدموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہوچکی تھیں، کچھ ایسی بھی تھیں جن کو شراب کی لت پڑ چکی تھی، ان کو پیاس لگتی تو پانی کی بجائے شراب مانگتیں اور ننگی ننگی گالیاں بکتیں۔ میں ان برآمد کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق سوچتا تو میرے ذہن میں صرف پُھولے ہوئے پیٹ ابھرتے۔ ان پیٹوں کا کیا ہو گا؟ ان میں جوکچھ بھرا ہے اس کا مالک کون ہے؟ پاکستان یا ہندوستان؟ اور وہ نو مہینوں کی بار برداری۔ اس کی اُجرت پاکستان ادا کرے گا یا ہندوستان؟ کیا یہ سب ظالم فطرت یہ بہی کھاتے میں درج ہو گا؟۔ مگر کیا اس میں کوئی صفحہ خالی رہ گیا ہے؟ برآمدہ عورتیں آرہی تھیں، برآمدہ عورتیں جارہی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ یہ عورتیں مغویہ کیوں کہلائی جاتی تھیں؟۔ انھیں اغوا کب کیا گیا ہے؟۔ اغوا تو ایک بڑا رومانٹک فعل ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک ایسی کھائی ہے جس کو پھاندنے سے پہلے دونوں روحوں کے سارے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں، لیکن یہ اغوا کیسا ہے کہ ایک نہتی کو پکڑ کر کوٹھری میں قید کرلیا۔ لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ منطق، استدلال اور فلسفہ بیکار چیزیں تھیں۔ ان دنوں جس طرح گرمیوں میں بھی دروازے اور کھڑکیاں بند کرتے سوتے تھے اسی طرح میں نے بھی، اپنے دل و دماغ کی بھی سب کھڑکیاں دروازے بند کردیے تھے، حالانکہ انھیں کُھلا رکھنے کی زیادہ ضرورت اسی وقت تھی۔ لیکن میں کیا کرتا۔ مجھے کچھ سوجھتا نہیں تھا۔ برآمدہ عورتیں آرہی تھیں، برآمدہ عورتیں جارہی تھیں۔ یہ درآمد اور برآمد جاری تھی۔ تمام تاجرانہ خصوصیات کے ساتھ! صحافی، افسانہ نگار اور شاعر اپنے قلم اٹھائے شکارمیں مصروف تھے۔ لیکن افسانوں اور نظموں کا ایک سیلاب تھا جو اُمڈا چلا آرہا تھا۔ فلموں کے قدم اُکھڑ اُکھڑ جاتے تھے۔ اتنے صید تھے کہ سب بوکھلا گئے تھے۔ ایک لیاژاں افسر مجھ سے ملا، کہنے لگا۔

’’تم کیوں گُم سُم رہتے ہو؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مجھے ایک داستان سنائی۔ مغویہ عورتوں کی تلاش میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک شہر، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں۔ پھر تیسرے گاؤں، پھر چوتھے۔ گلی گلی، محلے محلے۔ کوچے کوچے۔ بڑی مشکلوں سے گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔ میں نے دل میں کہا۔

’’کیسے گوہر۔ کیسے زاسفتہ۔ یا سفتہ؟ تمہیں معلوم نہیں، ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں تمہیں ایک بات بتلانے والا تھا۔ ہم بارڈر کے اس پار سینکڑوں پھیرے کرچکے ہیں عجیب بات ہے کہ میں نے ہر پھیرے میں ایک مسلمان بڑھیا کو دیکھا۔ اُدھیر عمر کی تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے جالندھرکی بستیوں میں دیکھا، پریشان حال۔ ماؤف دماغ، ویران ویران آنکھیں۔ گردوغبار سے اٹے ہوئے بال، پھٹے ہوئے کپڑے، اسے تن کا ہوش تھا نہ من کا۔ لیکن اس کی نگاہوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ مجھے۔ بہن نے بتایا کہ یہ عورت صدمہ کے باعث پاگل ہو گئی ہے۔ پٹیالہ کی رہنے والی ہے۔ اس کی اکلوتی لڑکی تھی جو اسے نہیں ملتی، ہم نے بہت جتن کیے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے ناکام رہے ہیں۔ غالباً بلوؤں میں ماری گئی ہے لیکن یہ بڑھیا نہیں مانتی۔ دوسری مرتبہ میں نے اس پگلی کو سہارن پور کے لاریوں کے اڈے پر دیکھا، اس کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور خستہ تھی۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی موٹی پپڑیاں جمی تھیں، بال سادھوں کے سے بنے تھے۔ میں نے اس سے بات چیت کی اور چاہا کہ وہ اپنی موہوم تلاش چھوڑ دے۔ چنانچہ میں نے اس سے بہت سنگ دل بن کر کہا۔

’’مائی تیری لڑکی قتل کردی گئی تھی۔ ‘‘

پگلی نے میری طرف دیکھا۔

’’قتل؟۔ نہیں نہیں۔ ‘‘

اس کے بعد لہجے میں فولادی تیقن پیدا ہو گئی۔

’’اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ میری بیٹی کوکوئی قتل نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اور وہ چلی گئی، اپنی موہوم تلاش میں۔ میں نے سوچا ایک تلاش اور پھر موہوم!۔ لیکن پگلی کوکیوں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیٹی پر کوئی کرپان نہیں اٹھ سکتی۔ کوئی تیز دھار یا چُھرا اس کی گردن کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کیا وہ امر تھی یا اس کی مامتا امر تھی۔ مامتا توخیر امرہوتی ہے۔ پھر کیا وہ اپنی ممتا ڈھونڈ رہی تھی۔ کیا اس نے اسے کہیں کھو دیا۔ ؟ تیسرے پھیرے پر پھر میں نے اسے دیکھا۔ اب وہ بالکل چیتھڑوں میں تھی، قریب قریب ننگی، میں نے اسے کپڑے دیے۔ لیکن اس نے قبول نہ کیے۔ میں نے اس سے کہا۔

’’مائی میں سچ کہتا ہوں، تیری لڑکی پٹیالہ ہی میں قتل کردی گئی تھی۔ ‘‘

اس نے پھر اسی فولادی تیقن کے ساتھ کہا۔

’’تو جھوٹ کہتا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے اپنی بات منوانے کی خاطر۔

’’نہیں میں سچ کہتا ہوں، کافی رو پیٹ لیا ہے تم نے۔ چلو میرے ساتھ میں تم کو پاکستان لے چلوں گا۔ ‘‘

اس نے میری بات نہ سنی اور بڑبڑانے لگی۔ بڑبڑاتے بڑبڑاتے وہ ایک دم چونکی، اب اس کے لہجے میں تیقن فولاد سے بھی زیادہ ٹھوس تھا۔

’’نہیں میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کرسکتا!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

بڑھیا نے ہولے ہولے کہا۔

’’وہ خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت کہ اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا۔ ‘‘

میں سوچنے لگ

’’کیا وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی۔ ؟ ہر ماں کی آنکھوں میں اس کی اولاد چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ لڑکی در حقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کون سی خوبصورتی ہے جو انسان کے کُھر درے ہاتھوں سے بچی ہے۔ ہو سکتا ہے پگلی اس خیال خام کو دھوکا دے رہی ہے۔ فرار کے لاکھوں راستے ہیں۔ دکھ ایک ایسا چوک ہے جو اپنے گرد لاکھوں بلکہ کروڑوں سڑکوں کا جال بُن دیکھا ہے۔ ‘‘

بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی، ٹٹول کر چلتی تھی، مگر اس کی تلاش جاری تھی بڑی شدومد سے۔ اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے، اس لیے کہ اسے کوئی مار نہیں سکتا۔ ۔ بہن نے مجھ سے کہا کہ

’’اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتر یہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اور پا گل خانہ میں داخل کرادو۔ ‘‘

میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں اس کی موہوم تلاش جو اس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، میں اس سے چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ میں اسے ایک وسیع و عریض پاگل خانے سے، جس میں وہ میلوں کی مسافت طے کرکے، اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھا سکتی تھی، اٹھا کر ایک مختصر سی چار دیواری میں قید کرانا نہیں چاہتا تھا۔ آخری بار میں نے اسے امرتسر میں دیکھا۔ اس کی شکستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اسے پاکستان لے جاؤں گا اور پاگل خانے میں داخل کرادوں گا۔ وہ فرید کے چوک میں کھڑی اپنی نیم اندھی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ چوک میں کافی چہل پہل تھی۔ میں بہن کے ساتھ ایک دکان پر بیٹھا ایک مغویہ لڑکی کے متعلق بات چیت کررہا تھا، جس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ بازار صبونیاں میں ایک ہندو بنیے کے گھر موجود ہے۔ یہ گفتگو ختم ہوئی تو میں اٹھا کہ اس پگلی سے جھوٹ سچ کہہ کر اسے پاکستان جانے کے لیے آمادہ کروں کہ ایک جوڑا ادھر سے گزرا۔ عورت نے گھونگٹ کاڑھا ہوا تھا۔ چھوٹا سا گھونگٹ۔ اس کے ساتھ ایک سکھ نوجوان تھا۔ بڑا چھیل چھبیلا، بڑا تندرست اور تیکھے تیکھے نقشوں والا۔ جب یہ دونوں اس پگلی کے پاس سے گزرے تو نوجوان ایک دم کھٹک گیا۔ دو قدم پیچھے ہٹ کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا، کچھ اس اچانک طور پر کہ لڑکی نے اپنا چھوٹا سا گھونگٹ اٹھایا لٹھے کی دھلی ہوئی چادر پہ چوکھٹے میں مجھے ایک ایسا گلابی چہرہ نظر آیا جس کا حسن بیان کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔ میں ان کے بالکل پاس تھا، سکھ نوجوان نے اس حسن و جمال کی دیوی سے اس پگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔

’’تمہاری ماں!‘‘

لڑکی نے ایک لحظے کے لیے پگلی کی طرف دیکھا اور گھونگٹ چھوڑ لیا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھینچے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’چلو!‘‘

اور وہ دونوں سڑک سے ادھر ذرا ہٹ کر تیزی سے آگے نکل گئے۔ پگلی چلائی۔

’’بھاگ بھری۔ بھاگ بھری۔ ‘‘

وہ سخت مضطرب تھی۔ میں نے پاس جا کر پوچھا

’’کیا بات ہے مائی؟‘‘

وہ کانپ رہی تھی۔

’’میں نے اس کو دیکھا ہے۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

اس کے ماتھے کے نیچے دو گڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھلے متحرک تھے۔

’’اپنی بیٹی کو۔ بھاگ بھری کو!‘‘

۔ میں نے پھر سے کہا۔

’’وہ مر کھپ چکی ہے مائی‘‘

اس نے چیخ کر کہا۔

’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ !‘‘

میں نے اسم مرتبہ اس کو پورا یقین دلانے کی خاطر کہا۔

’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، وہ مر چکی ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی وہ پگلی چوک میں ڈھیر ہو گئی۔

سعادت حسن منٹو

خالی بوتلیں، خالی ڈبے

یہ حیرت مجھے اب بھی ہے کہ خاص طور پر خالی بوتلوں اور ڈبوں سے مجرد مردوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟۔ مجرد مردوں سے میری مراد ان مردوں سے ہے جن کو عام طور پر شادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یوں تو اس قسم کے مرد عموماً سنکی اور عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھیں خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کیوں اتنا پیار ہوتا ہے؟۔ پرندے اور جانور اکثر ان لوگوں کے پالتو ہوتے ہیں۔ یہ میلان سمجھ میں آسکتا ہے کہ تنہائی میں ان کا کوئی تو مونس ہونا چاہیے، لیکن خالی بوتلیں اور خالی ڈبے ان کی کیا غمگساری کرسکتے ہیں؟ سنک اور عجیب و غریب عادات کا جواز ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں کہ فطرت کی خلاف ورزی ایسے بگاڑ پیدا کرسکتی ہے، لیکن اس کی نفسیاتی باریکیوں میں جانا البتہ بہت مشکل ہے۔ میرے ایک عزیز ہیں۔ عمر آپ کی اس وقت پچاس کے قریب قریب ہے آپ کو کبوتر اور کتے پالنے کا شوق ہے اور اس میں کوئی عجیب و غریب پن نہیں لیکن آپ کو یہ مرض ہے کہ بازار سے ہر روز دودھ کی بالائی خرید کر لاتے ہیں۔ چولھے پر رکھ کر اس کا روغن نکالتے ہیں اور اس روغن میں اپنے لیے علیحدہ سالن تیار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح خالص گھی تیار ہوتا ہے۔ پانی پینے کے لیے اپنا گھڑا الگ رکھتے ہیں۔ اس کے منہ پر ہمیشہ ململ کا ٹکڑا بندھا رہتاہے۔ تاکہ کوئی کیڑا مکوڑا اندر نہ چلا جائے، مگر ہوا برابر داخل ہوتی رہے۔ پاخانے جاتے وقت سب کپڑے اتار کر ایک چھوٹا سا تولیہ باندھ لیتے ہیں اور لکڑی کی کھڑاؤں پہن لیتے ہیں۔ اب کون ان کی بالائی کے روغن، ؍ گھڑے کی ململ، انگ کے تولیے اور لکڑی کی کھڑاؤں کے نفسیاتی عقدے کو حل کرنے بیٹھے! میرے ایک مجرو دوست ہیں۔ بظاہر بڑے ہی نورمل انسان۔ ہائی کورٹ میں ریڈر ہیں۔ آپ کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کا رومال سدا ان کی ناک سے چپکا رہتا ہے۔ آپ کو خرگوش پالنے کا شوق ہے۔ ایک اور مجرد ہیں۔ آپ کو جب موقعہ ملے تو نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا دماغ بالکل صحیح ہے۔ سیاسیاتِ عالم پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے۔ طوطوں کو باتیں سکھانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ملٹری کے ایک میجر ہیں۔ سن رسیدہ اور دولت مند۔ آپ کو حُقّے جمع کرنے کا شوق ہے۔ گڑگڑیاں، پیچواں، چموڑے، غرضیکہ ہر قسم کا حقہ ان کے پاس موجود ہے۔ آپ کئی مکانوں کے مالک ہیں، مگر ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے کررہتے ہیں۔ بٹیریں آپ کی جان ہیں۔ ایک کرنل صاحب ہیں۔ ریٹائرڈ۔ بہت بڑی کوٹھی میں۔ اکیلے دس بارہ چھوٹے بڑے کتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر برانڈ کی وسکی ان کے یہاں موجود رہتی ہے۔ ہر روز شام کو چار پیگ پیتے ہیں اور اپنے ساتھ کسی نہ کسی لاڈلے کتے کو بھی پلاتے ہیں۔ میں نے اب تک جتنے مجردوں کا ذکر کیا ہے، ان سب کو حسبِ توفیق خالی بوتلوں اور ڈبوں سے دلچسپی ہے۔ میرے، دودھ کی بالائی سے خالص گھی تیار کرنے والے عزیز، گھر میں جب بھی کوئی خالی بوتل دیکھیں تو اسے دھو دھا کر اپنی الماری میں سجا دیتے ہیں کہ ضررت کے وقت کام آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ریڈر جن کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے صرف ایسی بوتلیں اور ڈبے جمع کرتے ہیں، جن کے متعلق وہ اپنا پورا اطمینان کرلیں کہ اب ان سے بدبو آنے کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ جب موقعہ ملے، نماز پڑھنے والے، خالی بوتلیں آب دست کے لیے اور ٹین کے خالی ڈبے وضو کے لیے درجنوں کی تعداد میں جمع رکھتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ دونوں چیزیں سستی اور پاکیزہ رہتی ہیں۔ قسم قسم کے حقے جمع کرنے والے میجر صاحب کو خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کرکے ان کو بیچنے کا شوق ہے اور ریٹائرڈ کرنل صاحب کو صرف وسکی کی بوتلیں جمع کرنے کا۔ آپ کرنل صاحب کے ہاں جائیں تو ایک چھوٹے، صاف ستھرے کمرے میں کئی شیشے کی الماریوں میں آپ کو وسکی کی خالی بوتلیں سجی ہوئی نظر آئیں گی۔ پرانے سے پرانے برانڈ کی وسکی کی خالی بوتل بھی آپ کو ان کے اس نادر مجموعے میں مل جائے گی۔ جس طرح لوگوں کو ٹکٹ اور سکے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، اسی طرح ان کو وسکی کی خالی بوتلیں جمع کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا شوق بلکہ خبط ہے۔ کرنل صاحب کا کوئی عزیز، رشتہ دار نہیں۔ کوئی ہے تو اس کا مجھے علم نہیں۔ دنیا میں تن تہا ہیں۔ لیکن وہ تنہائی بالکل محسوس نہیں کرتے۔ دس بارہ کتے ہیں ان کی دیکھ بھال وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح شفیق باپ اپنی اولاد کی کرتے ہیں۔ سارا دن ان کا ان پالتو حیوانوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ فرصت کے وقت وہ الماریوں میں اپنی چہیتی بوتلیں سنوارتے رہتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے، خالی بوتلیں تو ہوئیں۔ یہ تم نے خالی ڈبے کیوں ساتھ لگا دیے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تجرو پسند مردوں کو خالی بوتلوں کے ساتھ ساتھ خالی ڈبوں کے ساتھ بھی دلچسپی ہو؟۔ اور پھر ڈبے اور بوتلیں، صرف خالی کیوں؟ بھری ہوئی کیوں نہیں؟۔ میں آپ سے شاید پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مجھے خود اس بات کی حیرت ہے۔ یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے سوال اکثر میرے دماغ میں پیدا ہو چکے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں ان کا جواب حاصل نہیں کرسکتا۔ خالی بوتلیں اور خالی ڈبے، خلا کا نشان ہیں اور خلا کا کوئی منطقی جوڑ تجرو پسند مردوں سے غالباً یہی ہو سکتا ہے کہ خود ان کی زندگی میں ایک خلا ہوتا ہے، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا وہ اس خلا کو ایک اور خلا سے پُر کرتے ہیں؟۔ کتوں بلیوں خرگوشوں اور بندروں کے متعلق آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ خالی خولی زندگی کی کمی ایک حد تک پوری کرسکتے ہیں کہ وہ بدل بہلا سکتے ہیں، ناز نخرے کرسکتے ہیں۔ دل چسپ حرکات کے موجب ہو سکتے ہیں، پیار کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن خالی بوتلیں اور ڈبے دلچسپی کا کیا سامان بہم پہنچاتے ہیں؟ بہت ممکن ہے آپ کو ذیل کے واقعات میں ان سوالوں کا جواب مل جائے۔ دس برس پہلے میں جب بمبئی گیا تو وہاں ایک مشہور فلم کمپنی کا ایک فلم تقریباً بیس ہفتوں سے چل رہا تھا۔ ہیروئن پرانی تھی، لیکن ہیرو نیا تھا جو اشتہاروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں نوخیز دکھائی دیتا تھا۔ اخباروں میں اس کی کردار نگاری کی تعریف پڑھی تو میں نے یہ فلم دیکھا۔ اچھا خاصا تھا۔ کہانی جاذب توجہ تھی اور اس نئے ہیرو کا کام بھی اس لحاظ سے قابل تعریف تھا کہ اس نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ پردے پر کسی ایکٹر یا ایکٹرس کی عمر کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ میک اپ جوان کو بوڑھا اور بوڑھے کو جوان بنا دیتا ہے، مگر یہ نیا ہیرو بلاشبہ نوخیز تھا۔ کالج کے طالب علم کی طرح تروتازہ اور چاق و چوبند۔ خوبصورت تو نہیں تھا مگر اس کے گٹھے ہوئے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھا۔ اس فلم کے بعد اس ایکٹر کے میں نے اور کئی فلم دیکھے۔ اب وہ منجھ گیا تھا۔ چہرے کے خط و خال کی طفلانہ نرمائش، عمر اور تجربے کی سختی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا شمار اب چوٹی کے اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں ایکٹر کا فلاں ایکٹرس سے تعلق ہو گیا ہے۔ فلاں ایکٹرس، فلاں ایکٹر کو چھوڑ کر فلاں ڈائریکٹر کے پہلو میں چلی گئی ہے۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ہر ایکٹرس کے ساتھ کوئی نہ کوئی رومان جلد یا بدیر وابستہ ہو جاتا ہے، لیکن اس نئے ہیرو کی زندگی جس کا میں ذکرکررہا ہوں ان بکھیڑوں سے پاک تھی، مگر اخباروں میں اس کا چرچا نہیں تھا۔ کسی نے بھولے سے حیرت کا بھی اظہار نہیں کیا تھا کہ فلمی دنیا میں رہ کر رام سروپ کی زندگی جنسی آلائشوں سے پاک ہے۔ میں نے سچ پوچھئے تو اس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی نجی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ فلم دیکھا۔ اس کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی اور بس۔ لیکن جب رام سروپ سے میری ملاقات ہوئی تو مجھے اس کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ یہ ملاقات اس کا پہلا فلم دیکھنے کے تقریباً آٹھ برس بعد ہوئی۔ شروع شروع میں تو وہ بمبئے سے بہت دور ایک گاؤں میں رہتا تھا، مگر اب فلمی سرگرمیاں بڑھ جانے کے باعث اس نے شیواجی پارک میں سمندر کے کنارے ایک متوسط درجے کا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اس سے میری ملاقات اسی فلیٹ میں ہوئی جس کے چار کمرے تھے، باورچی خانے سمیت۔ اس فلیٹ میں جو کنبہ رہتا تھا۔ اس کے آٹھ افراد تھے۔ خود رام سروپ۔ اس کا نوکر جو باورچی بھی تھا۔ تین کتے۔ دو بندر اور ایک بلی۔ رام سروپ اور اس کا نوکر مجرد تھے۔ تین کتوں اور ایک بلی کے مقابلے میں ان کی مخالف جنس نہیں تھی، ۔ ایک بندر تھا اور ایک بندریا۔ دونوں اکثر اوقات ایک جالی دار پنجرے میں بند رہتے تھے۔ ان نصف درجن حیوانوں کے ساتھ رام سروپ کو والہانہ محبت تھی۔ نوکر کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا تھا مگر اس میں جذبات کا دخل بہت کم تھا۔ بندھے کام تھے جو مقررہ وقت پر مشین کی سی بے روح باقاعدگی کے ساتھ گویا خود بخود ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رام سروپ نے اپنے نوکر کو اپنی زندگی کے تمام قواعد و ضوابط ایک پرچے پر لکھ کر دے دیے تھے جو اس نے حفظ کرلیے تھے۔ اگر رام سروپ کپڑے اتار کر، نیکر پہننے لگے تو اس کا نوکر فوراً تین چار سوڈے اور برف کی فلاسک شیشے والی تپائی پر رکھ دیتا تھا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ صاحب رَم پی کر اپنے کتوں کے ساتھ کھیلیں گے اور جب کسی کا ٹیلی فون آئے گا تو کہہ دیا جائیگا کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ رم کی بوتل یا سگریٹ کا ڈبہ جب خالی ہو گا تو اسے پھینکا یا بیچا نہیں جائیگا، بلکہ احتیاط سے اس کمرے میں رکھ دیا جائے گا جہاں خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار لگے ہیں۔ کوئی عورت ملنے کے لیے آئیگی تو اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کر واپس کردیا جائے گا کہ رات صاحب کی شوٹنگ تھی، اس لیے سو رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والی شام کو یا رات کو آئے تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ صاحب شوٹنگ پر گئے ہیں۔ رام سروپ کا گھر تقریباً ویسا ہی تھا جیسا کہ عام طور پر اکیلے رہنے والے مجرد مردوں کا ہوتا ہے، یعنی وہ سلیقہ، قرینہ اور رکھ رکھاؤ غائب تھا جو نسائی لمس کا خاصا ہوتا ہے۔ صفائی تھی مگر اس میں کُھرا پن تھا۔ پہلی مرتبہ جب میں اس کے فلیٹ میں داخل ہوا تو مجھے بہت شدت سے محسوس ہوا کہ میں چڑیا گھر کے اس حصے میں داخل ہو گیا ہوں۔ جو شیر، چیتے اور دوسرے حیوانوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ کیونکہ ویسی ہی بو آرہی تھی۔ ایک کمرا سونے کا تھا، دوسرا بیٹھنے کا، تیسرا خالی بوتلوں اور ڈبوں کا۔ اس میں رَم کی وہ تمام بوتلیں اور سگریٹ کے وہ تمام ڈبے موجود تھے جو رام سروپ نے پی کر خالی کیے تھے۔ کوئی اہتمام نہیں تھا۔ بوتلوں پر ڈبے اور ڈبوں پر بوتلیں اوندھی سیدھی پڑی ہیں۔ ایک کونے میں قطار لگی ہے تو دوسرے کونے میں انباہ گرد جمی ہوئی ہے، اور باسی تمباکو اور باسی رَم کی ملی جلی تیز بو آرہی ہے۔ میں نے جب پہلی مرتبہ یہ کمرہ دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ ان گنت بوتلیں اور ڈبے تھے۔ سب خالی ہیں۔ میں نے رام سروپ سے پوچھا۔

’’کیوں بھئی، یہ کیا سلسلہ ہے؟‘‘

اس نے پوچھا۔

’’کیسا سلسلہ؟‘‘

میں نے کہا۔

’’یہ۔ یہ کباڑ خانہ؟‘‘

اس نے صرف اتنا کہا۔

’’جمع ہو گیا ہے!‘‘

یہ سن کر میں نے بولتے ہوئے سوچا۔

’’اتنا!۔ اتنا کوڑا جمع ہونے میں کم از کم سات آٹھ برس چاہئیں۔ ‘‘

میرا اندازہ غلط نکلا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا یہ ذخیرہ پورے دس برس کا تھا۔ جب وہ شیوا جی پارک رہنے آیا تھا تو وہ تمام بوتلیں اور ڈبے اٹھوا کے اپنے ساتھ لے آیا تھا جو اس کے پرانے مکان میں جمع ہو چکے تھے۔ ایک بار میں نے اس سے کہا۔

’’سروپ، تم یہ بوتلیں اور ڈبے بیچ کیوں نہیں دیتے؟۔ میرا مطلب ہے، اول تو ساتھ ساتھ بیچتے رہنا چاہئیں۔ پر اب کہ اتنا انبار جمع ہو چکا ہے اور جنگ کے باعث دام بھی اچھے مل سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تمہیں یہ کباڑخانہ اٹھوا دینا چاہیے!‘‘

اس نے جواب میں صرف اتنا کہا۔

’’ہٹاؤ یار۔ کون اتنی بک بک کرے!‘‘

اس جواب سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اسے خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن مجھے نوکر سے معلوم ہوا کہ اگر اس کمرے میں کوئی بوتل یا ڈبہ اِدھر کا اُدھر ہو جائے تو رام سروپ قیامت برپا کردیتا تھا۔ عورت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری، اس کی بہت بے تکلفی ہو گئی تھی۔ باتوں باتوں میں مَیں نے کئی بار اس سے دریافت کیا۔

’’کیوں بھئی شادی کب کرو گے؟‘‘

اور ہر بار اس قسم کا جواب ملا۔

’’شادی کرکے کیا کروں گا؟‘‘

میں نے سوچا، واقعی رام سروپ شادی کرکے کیا کرے گا؟۔ کیا وہ اپنی بیوی کو خالی بوتلوں اور ڈبوں والے کمرے میں بند کردے گا؟۔ یا سب کپڑے اتار، نیکر پہن کر رم پیتے اس کے ساتھ کھیلا کرے گا؟۔ میں اس سے شادی بیاہ کا ذکر تو اکثر کرتا تھا مگر تصور پر زور دینے کے باوجود اسے کسی عورت سے منسلک نہ دیکھ سکتا۔ رام سروپ سے ملتے ملتے کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی مرتبہ میں نے اڑتی اڑتی سنی کہ اسے ایک ایکٹرس سے جس کا نام شیلا تھا، عشق ہو گیا ہے۔ مجھے اس افواہ کا بالکل یقین نہ آیا۔ اول تو رام سروپ سے اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ دوسرے شیلا سے کسی بھی ہوش مند نوجوان کو عشق نہیں ہوسکتا تھا، کیونکہ وہ اس قدر بیجان تھی کہ دق کی مریض معلوم ہوتی تھی۔ شروع شروع میں جب وہ ایک دو فلموں میں آئی تھی تو کسی قدر گوارا تھی مگر بعد میں تو وہ بالکل ہی بے کیف اور بے رنگ ہو گئی تھی اور صرف تیسرے درجے کے فلموں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔ میں نے صرف ایک مرتبہ اس شیلا کے بارے میں رام سروپ سے دریافت کیا تو اس نے مسکرا کر کہا۔

’’میرے لیے کیا یہی رہ گئی تھی!‘‘

اس دوران میں اس کا سب سے پیارا کتا اسٹالن نمونیہ میں گرفتار ہو گیا۔ رام سروپ نے دن رات بڑی جانفشانی سے اس کا علاج کیا مگر وہ جانبر نہ ہوا۔ اس کی موت سے اسے بہت صدمہ ہوا۔ کئی دن اس کی آنکھیں اشک آلود رہیں، اور جب اس نے ایک روز باقی کتے کسی دوست کو دے دیے تو میں نے خیال کہ اس نے اسٹالن کی موت کے صدمے کے باعث ایسا کیا ہے، ورنہ وہ ان کی جدائی کبھی برداشت نہ کرتا۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس نے بندر اور بندریا کو بھی رخصت کردیا تو مجھے کسی قدر حیرت ہوئی، لیکن میں نے سوچا کہ اس کا دل اب اور کسی کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ اب وہ نیکر پہن کر رم پیتے ہوئے صرف اپنی بلی نرگس سے کھیلتا تھا۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرنے لگی تھی، کیونکہ رام سروپ کا سارا دن التفات اب اسی کے لیے موقوف ہو گیا تھا۔ اب اس کے گھر سے شیر، چیتوں کی بو نہیں آتی تھی۔ صفائی میں کسی قدر نظر آجانے والا سلیقہ اور قرینہ بھی پیدا ہو چلا تھا، اس کے اپنے چہرے پر ہلکا سا نکھار آگیا تھا مگر یہ سب کچھ اس قدر آہستہ آہستہ ہوا تھا کہ اس کے نقطہ آغا کا پتا چلانا بہت مشکل تھا۔ دن گزرتے گئے۔ رام سروپ کا تازہ فلم ریلیز ہوا تو میں نے اس کی کردار نگاری میں ایک نئی تازگی دیکھی۔ میں نے اسے مبارک باد دی تو وہ مسکرا دیا

’’لو، وسکی پیو!‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’وسکی؟‘‘

اس لیے کہ وہ صرف رَم پینے کا عادی تھا۔ پہلی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں ذرا سکیڑتے ہوئے اس نے جواب دیا۔

’’رم پی پی کر تنگ آگیا ہوں۔ ‘‘

میں نے اس سے اور کچھ نہ پوچھا۔ آٹھویں روز جب اس کے ہاں شام کو گیا تو وہ قمیض پانجامہ پہنے، رم۔ نہیں، وسکی پی رہا تھا۔ دیر تک ہم تاش کھیلتے اور وسکی پیتے رہ۔ اس دوران میں مَیں نے نوٹ کیا کہ وسکی کا ذائقہ اس کی زبان اور تالو پر ٹھیک نہیں بیٹھ رہا، کیونکہ گھونٹ بھرنے کے بعد وہ کچھ اس طرح منہ بناتا تھا جیسے کسی ان چکھی چیز سے اس کا واسطہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’تمہاری طبیعت قبول نہیں کررہی وسکی کو؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’آہستہ آہستہ قبول کرلے گی۔ ‘‘

رام سروپ کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ ایک روز میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ دیکھا، نیچے گراج کے پاس خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار کے انبار پڑے ہیں۔ سڑک پر دو چھکڑے کھڑے ہیں جن میں تین چار کباڑیئے ان کو لاد رہے ہیں، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، کیونکہ یہ خزانہ رام سروپ کے علاوہ اور کس کا ہو سکتا تھا۔ آپ یقین جانئے۔ اس کو جدا ہوتے دیکھ کر میں نے اپنے دل میں ایک عجیب قسم کا درد محسوس کیا۔ دوڑا اوپر گیا۔ گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو نوکر نے خلافِ معمول راستہ روکتے ہوئے کہا۔

’’صاحب، رات شوٹنگ پر گئے تھے۔ اس وقت سو رہے ہیں۔ ‘‘

میں حیرت سے اور غصے سے بوکھلا گیا۔ کچھ بڑبڑایا اور چل دیا۔ اسی روز شام کو رام سروپ میرے ہاں آیا۔ اس کے ساتھ شیلا تھی، نئی بنارسی ساڑھی میں ملبوس۔ رام سروپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہا۔

’’میری دھرم پتنی سے ملو۔ ‘‘

اگر میں نے وسکی کے چار پیگ نہ پئے ہوئے تو یقیناً یہ سن کر بے ہوش ہو گیا ہوتا۔ رام سروپ اور شیلا صرف تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ بنارسی ساڑھی میں شیلا کس سے مشابہ تھی۔ دبلے پتلے بدن ہلکے بادامی رنگ کی کاغذی سی ساڑھی۔ کسی جگہ پھولی ہوئی، کسی جگہ دبی ہوئی۔ ایک دم میری آنکھوں کے سامنے ایک خالی بوتل آگئی، باریک کاغذ میں لپٹی ہوئی۔ شیلا عورت تھی۔ بالکل خالی، لیکن ہو سکتا ہے ایک خلا نے دوسرے خلا کو پر کردیا ہو۔

سعادت حسن منٹو

خالد میاں

ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہو گئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی بیوی باہر صحن میں سورہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔ ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔ ممتاز کو صفائی کا خبط ہو گیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کواس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بداحتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیارہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔ اپنے اس خوفناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا۔

’’آپ اور ایسے وہم۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ‘‘

یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آکر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا۔

’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔ ‘‘

یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی

’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال ہی قدرتی لال ہیں۔ ‘‘

سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہو گئے تھے اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کردیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔ وہ سوچتا

’’خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا یہ کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔ کیوں مرے گا؟۔ اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔ میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت دراصل اس وہم کا باعث ہے۔ لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے؟۔ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیا ہر بات کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے؟۔ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے۔ ؟ ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔ لیٹ کروہ سوچنے لگا۔

’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔ اگر یہ بغیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتہً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ یا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا

’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔ ‘‘

خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو!‘‘

ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا۔

’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔ ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔

’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔ آپ کانپتے کیوں تھے۔ ‘‘

خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کردیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہو گی، یہ سب سوچ لیا تھا۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہو گیا ہو۔ خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔ ‘‘

خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پررکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی

’’جیتے رہو۔ ‘‘

لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ خالد سلام کرکے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتارہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی۔

’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔ اِدھر آئیے۔ ‘‘

آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانھوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا

’’کیا ہوا؟‘‘

اس کی بیوی نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

’’معلوم نہیں۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔ میں نے ناک صاف کی تو دوہرا ہو گیا۔ ‘‘

ممتاز کی بانھوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکا یا، چوما، پانی کے چھپنٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہو گئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ختم ہو گیا۔ ‘‘

وہ چلائی۔

’’لا حول ولا۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی۔ ختم ہو گئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہو گئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا۔

’’کیوں خالد بیٹا۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔ دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا۔

’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

’’خالد میاں، اٹھو نا۔ چلو پھرو‘‘

’’خالدی۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا۔

’’بیٹے، گلو کھائیں گے آپ؟‘‘

تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا۔

’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بیجان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا۔

’’تردو کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آجائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔ ‘‘

ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہو گئی تو ممتاز نے سوچا۔

’’شاید اب اللہ کا فضل ہو گیا ہے۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔ ‘‘

ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی۔

’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔ ‘‘

رات کو چونکہ مقررہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا۔ کانپ کانپ کر بار بارجاگتا تھا۔ حرارت بھی تیز تھی۔ صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرما میٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا

’’تردو کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آجائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوالایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔ ممتاز کے نوکر نے کہا۔

’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔ خالد میاں کو نظرلگ گئی ہے میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔ ‘‘

سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی۔ وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک ر شتے دار آیا۔ ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا۔

’’ملیریا ہے۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس میں برف کا پانی ڈالیے۔ میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔ ‘‘

برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہو گیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آگیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہو گیا۔ ممتاز نے تھرما میٹرلگا کر دیکھا۔ درجہ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔ ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا

’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔ ‘‘

ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے ہسپتال فون کیا۔ ہسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور ہسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہو گیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ و ہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہو گیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ ہسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ وہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا

’’ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائیگا۔ ‘‘

ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا۔

’’یہ کیا حماقت ہے۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آسکتی ہے۔ ‘‘

ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا۔

’’نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔ ٹانگے والے نے گُھور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اسکی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا۔

’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘

یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادر اک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی۔ کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کے منطق اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آجاتی تھی۔ ٹانگہ ہسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔ ہسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کرلیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا۔

’’برونگو نمونیا ہے۔ حالت مخدوش ہے۔ ‘‘

خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اسکو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا

’’ممتاز، یہ کیا کررہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش ہسپتال کے آہنی پلنگ پرپڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔ اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی کہ وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔ اورکون تھا؟۔ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خالد ضرور اچھا ہو جائیگا۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔ لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی

’’خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا‘‘

۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑلے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیداہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی۔ ممتاز اس قدر تنگ آگیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا۔

’’خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو!‘‘

شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جارہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتہً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی

’’تم یہاں سے چلے جاؤ۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ ہسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کردیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کردی۔ یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کیلیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔ شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کرکے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ ہسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا؟

’’مت جاؤ ادھر۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

وہ لوٹ آیا۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی۔ اس پر لیٹ گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں ہسپتال کا روشن کلاک تھا۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا۔

’’کیا وہ بچ جائے گا۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ خالد ضرور۔ ‘‘

ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کروہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا۔

’’خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کررہا ہے تو‘‘

دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دور آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔ ‘‘

’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔ ‘‘

’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔ ‘‘

’’بیچاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔ ‘‘

’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔ ‘‘

’’بچنا محال ہے۔ ‘‘

’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی۔

’’اے، کیا کررہا ہے تو۔ اِدھر آ‘‘

ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا۔

’’میں ایک مریض۔ ‘‘

ڈاکٹر نے سختی سے کہا۔

’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔ یہاں میدان میں ڈنٹر کیوں پیلتے ہو؟‘‘

ممتاز نے کہا۔

’’جی، میرا بچہ ہے۔ اُدھر اس وارڈ میں۔ ‘‘

’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ شاید آپ اسی کی باتیں کررہے تھے۔ وہ میرا بچہ ہے۔ خالد‘‘

’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا۔

’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر نے کہا۔

’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔ ‘‘

جی اچھا۔ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کرکے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا۔

’’صاحب خالد میاں فوت ہو گئے۔ ‘‘

ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا۔

’’خالد میاں۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کا سر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا۔ ‘‘

خالد میاں۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سر ہلا کر ہاں کی ہے۔

سعادت حسن منٹو

حسن کی تخلیق

کالج میں شاہد ہ حسین ترین لڑکی تھی۔ اس کو اپنے حسن کا احساس تھا۔ اسی لیے وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتی اور خود کو مغلیہ خاندان کی کوئی شہزادی سمجھتی۔ اس کے خدوخال واقعی مغلئی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ نور جہاں کی تصویر جو اس زمانے کے مصوروں نے بنائی تھی، اس میں جان پڑگئی ہے۔ کالج کے لڑکے اسے شہزادی کہتے تھے، لیکن اس کے سامنے نہیں، پر اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ اسے یہ لقب دیا گیا ہے۔ وہ اور بھی مغرور ہو گئی۔ کالج میں مخلوط تعلیم تھی۔ لڑکے زیادہ تھے اور لڑکیاں کم۔ آپس میں ملتے جلتے، لیکن بڑے تکلف کے ساتھ۔ شاہدہ الگ الگ رہتی۔ اس لیے کہ اس کو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا۔ وہ اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے بھی بہت ہم گفتگو کرتی تھی۔ کلاس میں آتی تو ایک کونے میں بیٹھ جاتی اور بت سی بنی رہتی۔ بڑا حسین بت۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن پر گھنی پلکوں کی چھاؤں رہتی تھی، ساکت وصامت رہتیں۔ لڑکے اسے دیکھتے اور جی ہی جی میں بہت کڑھتے کہ یہ حسن خاموش کیوں ہے، اس قدر منجمد کس لیے ہے اسے تو متحرک ہونا چاہیے۔ اس کا رنگ گورا تھا۔ بہت گورا جس میں تھوڑی سی غلط روی بھی گھلی ہوئی تھی۔ اگر یہ نہ ہوتی تو شکر کی بنی ہوئی پتلی تھی جو دیوالی کے تہوار پر بکا کرتی ہیں۔ اس میں مٹھاس تھی، لیکن وہ ظاہر یہ کرنا چاہتی تھی کہ بڑی کڑویلی کسیلی ہے۔ کالج میں اس کا رویہ ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ ہر وقت نیم کی نبولی بنی رہتی تھی۔ ایک دن اس کے ایک ہم جماعت لڑکے نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔

’’حضور۔ خاکساری میں اپنی جگہ دے کرکبھی کسی کو سرفراز توکریں!‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن اس طالب علم کو پرنسپل نے بلایا اور اسے نکال باہر کیا۔ اس حادثے کے بعد تمام لڑکے محتاط ہو گئے۔ انھوں نے شاہدہ کودیکھنا ہی چھوڑ دیا کہ مبادا ان کا وہی حشر ہو، جو اس طالب علم کا ہوا۔ شاہدہ اب بی۔ اے میں تھی۔ خوبصورت ہونے کے علاوہ کافی ذہین تھی۔ اس کے پروفیسر اس کی ذہانت اور خوبصورت سے بڑے مرعوب تھے۔ پرنسپل کی چہیتی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کی بڑی بہن کے بڑے لڑکے کی بیٹی تھی۔ کالج میں چہ میگوئیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ شاہدہ کے متعلق قریب قریب ہر روز طالب علموں میں باتیں ہوتی تھیں۔ وہ اس کے متعلق کوئی بری رائے قائم نہیں کر پاتے تھے، اس لیے کہ اس کا کریکٹر بڑا مضبوط تھا۔ ٹک شاپ میں باتیں ہوتیں اور شاہدہ کا حسن زیر بحث ہوتا۔ سب سوچتے کہ یہ حسین قلعہ کون سر کرے گا۔ شاہدہ کو، جیسا کہ سب کو معلوم تھا، صرف خوبصورت چیزیں پسند تھیں۔ وہ کسی بدصورت چیز کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ ایک دن کلاس میں ایک لڑکے کی رینٹھ بہہ رہی تھی۔ شاہدہ نے جب اس کی طرف دیکھا تو فوراً اٹھ کر چلی گئی۔ وہ بڑی نفاست پسند تھی۔ اس کو وہ ہرچیز کھلی تھی جو بدنما ہو۔ کالج میں ایک لڑکی جمیلہ تھی۔ بڑی بدصورت، مگر شاہدہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہین۔ اس کو وہ نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی۔ ویسے وہ اس کی ذہانت کی قائل تھی اور کوئی رشک محسوس نہیں کرتی تھی۔ کالج کے سب لڑکے سوچتے تھے کہ شاہدہ اگر حسین نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ وہ اس سے بات چیت تو کرسکتے۔ مگر وہ اپنے حسن کے غرور میں سرشار رہتی اور کسی کومنہ ہی نہیں لگاتی تھی۔ ایک دن کالج میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ایک لڑکا جس کے والد کی تبدیلی ہو گئی تھی، اس کالج میں داخلہ لینے کے لیے آیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں نے اسے دیکھا اور ششدر رہ گئے۔ وہ شاہدہ سے زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کا نام شاہد تھا۔ اس کو داخلہ مل گیا۔ جس کلاس میں شاہدہ تھی، اسی میں شاہد تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب شاہد پہلے روز کلاس روم میں آیا تو شاہدہ موجود نہیں تھی۔ اس کو زکام ہو گیا تھا اور اس کے باعث اس نے دو روز کے لیے چھٹی لے لی تھی۔ دو دن کے بعد جب شاہد کالج کے باغ میں ٹہل رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت، مگر بے جان سی مورت آرہی ہے۔ اس نے اپنی کتابیں بینچ پر رکھیں اور آگے بڑھا۔ شاہدہ نے اسے دیکھا۔ وہ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئی اور تھوڑی دیر کے لیے اس کے قدم رک گئے۔ زمین گیلی تھی، کیچڑ سی ہورہی تھی۔ شاہد جب اس کی طرف بڑھا تو وہ گھبرا سی گئی۔ اس گھبراہٹ میں اس کا پاؤں پھسلا اور وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑی۔ شاہد نے لپک کر اسے اٹھایا۔ شاہدہ کے ٹخنے میں موچ آگئی تھی، مگر اس نے مسکرا کر کہا۔

’’شکریہ۔ آپ کون ہیں؟‘‘

شاہد نے جواب دیا۔

’’خادم!‘‘

’’آپ خادم تو دکھائی نہیں دیتے۔ ‘‘

’’کیا دکھائی دیتا ہوں۔ بعض اوقات صحیح شکلیں غلط دکھائی دیا کرتی ہیں۔ ‘‘

شاہدہ کو یہ بات پسند آئی۔ اس کے ٹخنے میں درد ہورہا تھا مگر وہ اسے چند لمحوں کے لیے بھول گئی۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’شاہد!‘‘

شاہدہ نے سوچا کہ شاید وہ اس کا نام سن چکا ہے اور شرارت کے طور پر شاہد بن رہا ہے۔

’’آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

’’آپ کالج کے رجسٹر سے اس کی تصدیق کرسکتی ہیں۔ ‘‘

’’آپ اس کالج میں پڑھتے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ آپ یہاں کیسے چلی آئیں؟‘‘

’’واہ۔ میں بھی تو یہیں پڑھتی ہوں۔ ‘‘

’’کس کلاس میں؟‘‘

’’بی اے میں؟‘‘

’’میں بھی تو بی اے میں ہوں۔ ‘‘

’’جھوٹ۔ آپ تو مالی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’اس شکل کے آدمی واقعی مالی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ میں نے ابھی تک کوئی پھول نہیں توڑا۔ ‘‘

’’پھول کیا توڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ انھیں تو صرف سونگھنا چاہیے۔ ‘‘

شاہد ایک لحظہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا۔

’’میں آپ کو سونگھ رہا ہوں۔ ‘‘

شاہدہ بھنا گئی۔

’’آپ بڑے بدتمیزہیں۔ ‘‘

شاہد نے بینچ پرسے کتابیں اٹھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

’’میں نے آپ کو توڑا تو نہیں۔ صرف سونگھ لیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی پنکھڑیوں میں سے غرور کی بو آتی ہے۔ اوہ، معاف کیجیے گا، غرور میں کرسکتا ہوں لیکن مردوں کے ساتھ۔ میں بھی ایک پھول ہوں، پر آپ کلی ہیں۔ میں آپ سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

شاہدہ اپنا ٹخنہ پکڑے بیٹھی تھی۔ ایک دم کراہنے لگی۔

’’ہائے۔ ہائے، بڑا درد ہورہا ہے۔ ‘‘

شاہد نے اس سے اجازت طلب کی۔

’’کیا میں اسے دبا دوں؟‘‘

’’دبائیے۔ خدا کے لیے دبائیے۔ ‘‘

شاہد نے اس کے موچ آئے ہوئے ٹخنے پر اس طور پر مساس کیا کہ پندرہ منٹ کے اندر اندر شاہدہ کا درد دور ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد کالج میں وہ دونوں خالی پیریڈوں میں اکٹھے باہر جاتے اور باغ میں بیٹھ کر جانے کیا باتیں کرتے رہتے۔ شاید وہ یہ کوشش کررہے تھے کہ دونوں گیلی زمین پر پھسلیں اور ان کے دل کے ٹخنوں میں موچ آجائے اور وہ ساری زندگی ان کو سہلاتے رہیں۔ دونوں نے بی۔ اے پاس کرلیا۔ بڑے اچھے نمبروں پر۔ شاہدہ کے نمبر شاہد کے مقابلے میں پانچ زیادہ تھے۔ اس نے اس کا بدلہ لینا چاہا۔

’’شاہدہ! میں یہ پانچ نمبر ابھی لیے لیتا ہوں۔ ‘‘

’’کیسے‘‘

شاہد نے اس کو پہلی مرتبہ اپنی گود میں اٹھایا اور اس کو پانچ مرتبہ چوم لیا۔ شاہدہ نے کوئی اعتراض نہ کیا، وہ بہت خوش ہوئی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے شاہد سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’ہمارے نمبر پورے ہو گئے۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آپ کی میری شادی ہوجانی چاہیے۔ میں اپنے ہونٹ اب کسی اور کے ہونٹوں سے آلودہ نہیں کروں گی۔ ‘‘

شاہد بہت خوش ہوا۔ اسے یقین ہی نہیں تھا کہ اس کی دلی آرزو کبھی پوری ہو گی۔ اس نے اسی خوشی میں پانچ نمبراور حاصل کرلیے اور شاہدہ سے کہا۔

’’میری جان! میں اسی امید میں تو اب تک جیتا رہا ہوں۔ ‘‘

شاہدہ کے والدین نے اس کی شادی کی ایک جگہ بات چیت کی، مگر شاہدہ نے صاف صاف انکار کردیا کہ وہ کسی بدصورت مرد سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بہت جھگڑے ہوئے۔ آخر شاہدہ نے بتایا کہ وہ اپنے ہم جماعت شاہد کو، جو بہت خوش شکل ہے، پسند کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مرد کو اپنی رفاقت میں نہیں لے گی۔ اس کے ماں باپ شاہد کے والدین سے ملے۔ بڑے شریف اور متمول آدمی تھے۔ روشن خیال بھی۔ شاہد کو جب انھوں نے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت جارہا تھا، لیکن اس کی خواہش تھی کہ پہلے شادی کرے اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر جائے تاکہ وہ بھی باہر کی دنیا دیکھے۔ جب والدین رضا مند ہو گئے تو ان کی شادی ہو گئی۔ وہ بہت خوش تھا۔ پہلی رات شاید نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ہمارا بچہ۔ لڑکی ہو یا لڑکا۔ جب پیدا ہو گا تو اسے دنیا دیکھنے آئے گی۔ ‘‘

شاہدہ نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

شاہد ہنسا۔

’’میری جان! تم اتنی حسین ہو۔ میں بھی کچھ بدشکل نہیں۔ ہمارا بچہ یقیناً ہم دونوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا۔ ‘‘

ہنی مون منانے کے لیے وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ وہ یہاں چار مہینے رہے۔ اس کے بعد لندن چلے گئے۔ جہاں شاہد کو پی، ایچ، ڈی کی ڈگری لینا تھی۔ شاہد کے باپ میاں ہدایت اللہ کی وہاں ایک کوٹھی تھی جو ان کی آمد سے پہلے ہی خالی کرالی گئی۔ شاہدہ بہت خوش تھی اور شاہد بھی، اس لیے کہ وہ ایک بچے کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ شاہدکہتا تھا۔

’’ہمارا بچہ اتنا حسین اور خوبصورت ہو گا کہ اس کا جواب نہ ہو گا۔ ‘‘

شاہدہ کہتی۔

’’خدا نظر بد سے بچائے۔ ضرور گل گوتھنا سا ہو گا۔ ‘‘

پورے دن ہوئے تو بچہ ہونے کے آثار پیدا ہوئے۔ شاہد نے اپنی بیوی کو میٹرنٹی ہوم میں داخل کرادیا۔ لیبر وارڈ کے باہر شاہد بڑے اضطراب میں ادھرسے ادھر ٹہل رہا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے ایک ایسے بچے کی تصویر تھی جس کے خدوخال اس کے اور اس کی بیوی کے آپس میں بڑے حسین طور پر مدغم ہو گئے ہوں۔ لیبر وارڈ سے نرس باہر آئی۔ شاہد نے لپک کر اس سے پوچھا۔

’’خیریت ہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’لڑکا ہوا یا لڑکی؟‘‘

نرس پریشان سی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا۔

’’پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی۔ پر ہم نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

شاہد نے خوش ہو کرپوچھا۔

’’بہت خوبصورت ہے نا؟‘‘

نرس نے منہ بنا کر جواب دیا۔

’’بڑی اگلی ہے۔ اس کے سر پر ایسا معلوم ہوتا ہے سینگ ہیں۔ دانت بھی ہیں۔ ناک بڑی ٹیڑھی ہے۔ دو آنکھیں ہیں پر ایک آنکھ ایسا لگتا ہے ماتھے پر بھی ہے۔ تم لوگ اتنے خوبصورت ہو کر کیسے بچے پیدا کرتا ہے؟‘‘

شاہد اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے نہ گیا۔ لیکن دوسرے دن میٹرنٹی ہوم میں ٹکٹ لگا دی گئی کہ جو آدمی چاہے، اس عجیب الخلقت بچے کودیکھ سکتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

حجامت

’’میری تو آپ نے زندگی حرام کر رکھی ہے۔ خدا کرے میں مر جاؤں‘‘

’’اپنے مرنے کی دعائیں کیوں مانگتی ہو۔ میں مر جاؤں تو سارا قصہ پاک ہو جائے گا۔ کہو تو میں ابھی خود کشی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں پاس ہی افیم کا ٹھیکہ ہے۔ ایک تولہ افیم کافی ہو گی۔ ‘‘

’’جاؤ، سوچتے کیا ہو۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ تم اٹھو اور مجھے۔ معلوم نہیں ایک تولہ افیم کتنے میں آتی ہے۔ تم مجھے اندازاً دس روپے دے دو۔ ‘‘

’’دس روپے؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ اپنی جان گنوانی ہے۔ دس روپے زیادہ تو نہیں۔ ‘‘

’’میں نہیں دے سکتی۔ ‘‘

’’ضرور آپ کو افیم کھاکے ہی مرنا ہے؟‘‘

’’سنکھیا بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’کتنے میں آئے گا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ میں نے آج تک کبھی سنکھیا نہیں کھایا۔ ‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے۔ بنتے کیوں ہیں؟‘‘

’’بنا تم مجھے رہی ہو۔ بھلا مجھے زہروں کی قیمتوں کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘

’’تمہارے متعلق تو میں ابھی تک کچھ بھی نہ جان سکا‘‘

’’اس لیے کہ آپ نے میرے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں‘‘

’’یہ صریحاً تمہاری زیادتی ہے۔ پانچ برس ہو گئے ہیں۔ تم ان میں سے کوئی ایسا دن پیش کرو جب میں نے تمہارے متعلق نہ سوچا ہو‘‘

’’ہٹائیے۔ ان پانچ برسوں کے جتنے دن ہوتے ہیں، ان میں آپ مجھ سے یہی خرافات کہتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’تم حقیقت کو خرافات کہتی ہو؟۔ میں اب کیا کہوں‘‘

’’جو کہنا چاہتے ہیں کہہ ڈالیے۔ آپ کی زبان میں لگام ہی کہاں ہے‘‘

’’پھر تم نے بد زبانی شروع کردی‘‘

’’بد زبان تو آپ ہیں۔ میں نے ان پانچ برسوں میں، آپ سر پر قرآن اٹھا کرکہیے، کب آپ سے اس قسم کی گستاخی کی ہے؟ گستاخ ہوں گے آپ کے۔ ‘‘

’’رک کیوں گئی ہو۔ جو کہنا چاہتی ہو کہہ دو‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ آپ سے کوئی کیا کہے۔ آپ تو یہ چاہتے ہیں کہ آدمی کو تکلیف پہنچے، لیکن وہ اف بھی نہ کرے۔ میں تو ایسی زندگی سے گھبرا گئی ہوں‘‘

’’تم چاہتی کیا ہو، یہ بھی تو پتا چلے‘‘

’’میں کچھ نہیں چاہتی‘‘

’’پھر یہ گلے شکوے کیا معنی رکھتے ہیں؟‘‘

’ ان کے معنی آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ انجان کیوں بنتے ہیں؟ ان گلے شکوؤں کے پیچھے کوئی بات تو ہو گی‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں کیا جانوں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ خود ہی پھاڑتی ہو خود ہی رفو کرتی ہو۔ جو صحیح بات ہے اس کو بتاتی کیوں نہیں ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ ہر روز کے جھگڑے ہمیں کہاں لے جائیں گے‘‘

’’جہنم میں‘‘

’’وہاں بھی تو ہمارا ساتھ ہو گا‘‘

’’میں تو وہاں بالکل نہیں جاؤں گی‘‘

’’تو کہاں ہو گی تم؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں‘‘

’’تمہیں بہت سی باتیں معلوم نہیں ہوتیں۔ سب سے بڑی بات میری محبت ہے، جس کا احساس تمہیں ابھی تک نہیں ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یا میں نے اس کے اظہار میں بخل کیا ہے، یا تم میں وہ حس نہیں جو اس جذبے کو پہچان سکے‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یہ بھی کوئی بات ہے۔ ان پانچ برسوں میں ہر روز۔ ہر روز۔ ‘‘

’’یہی تو میری محبت کا ثبوت ہے۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی محبت سے کہ آدمی تنگ آجائے‘‘

’’محبت سے کون تنگ آسکتا ہے؟‘‘

’’میری مثال موجود ہے‘‘

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اقرار کیا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟‘‘

’’میں نے کب اقرار کیا ہے‘‘

’’یہ اقرارہی تو تھا‘‘

’’ہو گا‘‘

’’ہو گا نہیں۔ تھا۔ لیکن تم مانو گی نہیں۔ اس لیے کہ ضدی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کی نفسیات کیا ہیں۔ جب ان سے پیار کیا جائے تو گھبرا جاتی ہیں، اور جب ان سے ذرا بے اعتنائی برتی جائے تو برہم ہو جاتی ہیں‘‘

’’محض بکواس ہے‘‘

’’اس لیے کہ یہ پر خلوص خاوند کی زبان سے نکلی ہے‘‘

’’ہٹائیے۔ آپ کا خلوص میں دیکھ چکی ہوں‘‘

’’جب دیکھ چکی ہو تو ایمان کیوں نہیں لاتی ہو؟‘‘

’’مجھے تنگ نہ کیجیے، میری طبیعت خراب ہے۔ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ ‘‘

’’اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں سمجھتی؟‘‘

’’خدا کی قسم۔ آج نہیں‘‘

’’کل تو اچھا سمجھو گی‘‘

’’مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘

’’یہ عجیب بات ہے کہ تمہیں سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگر تمہیں معلوم نہیں ہوتا۔ یہ کیا سلسلہ ہے؟۔ تم صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ تم مجھ سے نفرت کرتی ہو‘‘

’’تو سن لیجیے۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں‘‘

’’مجھے یہ سن کر بڑا دُکھ ہوا ہے۔ میں نے تمہاری ہر آسائش کا خیال رکھا۔ ‘‘

’’لیکن ایک بات کا خیال نہیں رکھا‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’آپ عقل مند ہیں۔ خود سمجھیے۔ میں کیوں بتاؤں‘‘

’’کوئی اشارہ تو کردو‘‘

’’میں ایسی اشارہ بازیاں نہیں جانتی‘‘

’’تم نے ایسی گفتگو کہاں سے سیکھی ہے؟‘‘

’’آپ سے‘‘

’’مجھ سے؟۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ الزام تم نے مجھ پر کیوں لگایا ہے‘‘

’’آپ پر تو ہر الزام لگ سکتا ہے‘‘

’’مثال کے طور پر؟‘‘

’’میں آپ کو مثال نہیں دے سکتی۔ خدا کے لیے یہ گفتگو بند کیجیے، میں تنگ آگئی ہوں۔ بس، میں نے کہہ دیا ہے کہ مجھے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یااللہ میری توبہ!۔ مجھے زیادہ تنگ نہ کیجیے۔ میرا جی چاہتا ہے اپنے سرکے بال نوچنا شروع کردوں‘‘

’’میرا سر موجود ہے۔ تم اس کے بال بڑے شوق سے نوچ سکتی ہو‘‘

’’آپ کو تو اپنے بال بڑے عزیز ہیں‘‘

’’انسان کو اپنی ہر چیز عزیز ہوتی ہے‘‘

’’لیکن مردوں کے سر پر بالوں کے چھتے بھڑوں کے چھتے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ معلوم نہیں بال کٹوانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں‘‘

’’میں پرہیزی آدمی ہوں‘‘

’’اس قدر جھوٹ۔ ابھی پرسوں آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ نے ایک پارٹی میں شراب پی تھی‘‘

’’لاحول ولا۔ میں نے تو صرف شیری کا ایک گلاس پیا تھا‘‘

’’وہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘

’’بڑی بے ضرر قسم کی چیز ہے‘‘

’’تمہاری بد زبانیاں کہیں مجھے بھی بد زبان نہ بنا دیں‘‘

’’جیسے آپ بدزبان نہیں ہیں‘‘

’’بدزبان تمہارا باپ تھا۔ جانتی ہو۔ وہ ہر بات میں مغلظات بکتا تھا‘‘

’’میں کہتی ہوں میرے موئے باپ کے متعلق کچھ نہ کہئے۔ آپ بڑے واہیات ہوتے جارہے ہیں‘‘

’’واہیات کیسے ہوتا جارہا ہوں؟‘‘

’’میں نہیں جانتی‘‘

’’جاننے کے بغیر تم نے یہ فتویٰ کیسے عائد کردیا‘‘

’’میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اتنے بال کیوں بڑھا رکھے ہیں، مجھے وحشت ہوتی ہے‘‘

’’بس اتنی سی بات تھی جس کو تم نے بتنگڑ بنا دیا۔ میں جارہا ہوں۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’بس جارہا ہوں‘‘

’’خدا کے لیے مجھے بتا دیجیے۔ میں خود کشی کرلوں گی‘‘

’’میں نُصرت ہیئر کٹنگ سیلون میں جارہا ہوں‘‘

سعادت حسن منٹو

حجِ اکبر

امتیاز اور صغیر کی شادی ہوئی تو شہر بھر میں دھوم مچ گئی۔ آتش بازیوں کا رواج باقی نہیں رہا تھا مگر دولہے کے باپ نے اس پرانی عیاشی پر بے دریغ روپیہ صرف کیا۔ جب صغیر زیوروں سے لدے پھندے سفید براق گھوڑے پر سوار تھا، تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے۔ مہتابیاں اپنے رنگ برنگ شعلے بکھیر رہی تھیں۔ پٹاخے پھوٹ رہے تھے۔ صغیر خوش تھا۔ بہت خوش کہ اس کی شادی امتیاز سے طے پا گئی تھی جس سے اس کو بے پناہ محبت تھی۔ صغیر نے امتیاز کو ایک شادی کی تقریب میں دیکھا۔ اس کی صرف ایک جھلک اسے دکھائی دی تھی۔ مگر وہ اس پر سو جان سے فریفتہ ہو گیا۔ اور اس نے دل میں عہد کرلیا کہ وہ اس کے علاوہ اور کسی کو اپنی رفیقہ ءِ حیات نہیں بنائے گا، چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر نہ ہو جائے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر نہ ہوئی۔ صغیر نے امتیاز سے ملنے کے راستے ڈھونڈ لیے۔ شروع شروع میں اس خوبرو لڑکی کے حجاب آڑے آیا، لیکن بعد میں صغیر کو اس کا التفات حاصل ہو گیا۔ صغیر بہت مخلص دل نوجوان تھا۔ اس میں ریا کاری نام کو بھی نہ تھی۔ اس کو امتیاز سے محبت ہو گئی تو اس نے یہ سمجھا کہ اسے اپنی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ اس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ امتیاز اسے قبول کرے گی یا نہیں۔ وہ اس قسم کا آدمی تھا کہ اپنی محبت کے جذبے ہی کے سہارے ساری زندگی بسر کردیتا۔ اِس کو جب امتیاز سے پہلی مرتبہ بات کرنے کا موقعہ ملا تو اس نے گفتگو کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی،

’’دیکھو لالی، میں ایک نامحرم آدمی ہوں۔ میں نے مجبور کیا ہے کہ تم مجھ سے ملو۔ اب اس ملاپ کا انجام نیک ہونا چاہیے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے علاوہ اور کوئی عورت زندگی میں نہیں آئے گی۔ یہ میرے ضمیر اور دل کی اکٹھی آواز ہے۔ تم بھی وعدہ کرو کہ جب تک میں زندہ ہوں مجھے کوئی آزار نہیں پہنچاؤ گی اور میری موت کے بعد بھی مجھے یاد کرتی رہو گی۔ اس لیے کہ قبر میں بھی میری سوکھی ہڈیاں تمہارے پیار کی بھوکی ہوں گی‘‘

امتیاز نے دھڑکتے ہوئے دل سے وعدہ کیا کہ وہ اس عہد پر قائم رہے گی۔ اس کے بعد ان دونوں میں چھپ چھپ کے ملاقاتیں رہیں۔ صغیر اس کو نکاح سے پہلے ہاتھ لگانا بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا۔ ان ملاقاتوں میں ان کا موضوع عشق و محبت نہیں ہوتا تھا۔ صغیر مطمئن تھا کہ امتیاز اس کی محبت کی دعوت قبول کر چکی ہے۔ اس پر اب اور زیادہ گفتگو کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ویسے وہ اپنی محبوبہ سے ملنا اس لیے ضروری سمجھتا تھا کہ وہ اس کے عادات و خصائل سے واقف ہو جائے اور وہ بھی اس کو اچھی طرح جان پہچان لے تاکہ وہ اس کی جبلت کا اندازہ کرسکے، اور اس کو شکایت کا کوئی موقع نہ دے۔ اس نے ایک دن امتیاز سے بڑے غیر عاشقانہ انداز میں کہا

’’تازی میں اب بھی تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ میں کوئی خامی دیکھی ہے، اگر میں تمہارے معیار پر پورا نہیں اترا تو مجھ سے صاف صاف کہہ دو، تم کسی بندھن میں گرفتار نہیں ہو۔ تم مجھے دُھتکار دو تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ میری محبت میرے لیے کافی ہے۔ میں اس کے اور ان ملاقاتوں کے سہارے کافی دیر تک جی سکتا ہوں‘‘

امتیاز اس سے بہت متاثر ہوئی اس کا جی چاہا کہ صغیر کو اپنے گلے سے لگا کر رونا شروع کردے، مگر وہ اسے ناپسند کرتا۔ اس لیے اس نے اپنے جذبات اندر ہی اندر مسل ڈالے۔ وہ چاہتی تھی کہ صغیر اس سے فلسفیانہ باتیں نہ کرے۔ لیکن کبھی کبھی اس طور پر بھی اس سے پیش آئے، جس طرح فلموں میں ہیرو، اپنی ہیروئن سے پیش آتا ہے۔ مگر صغیر کو ایسی عامیانہ حرکات سے نفرت تھی۔ بہر حال ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ پہلی رات کو حجلہ ءِ عروسی میں جب صغیر داخل ہوا تو امتیاز چھینک رہی تھی۔ وہ بہت متفکر ہوا۔ امتیاز کو بلاشبہ زکام ہورہا تھا، لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا خاوند اس معمولی سے عارضے کی طرف اتنا متوجہ ہو کہ اس کی تمام امنگوں کو فراموش کردے۔ وہ سر تا پا سپردگی تھی۔ مگر صغیر کو اس بات کی تشویش تھی کہ امتیاز اس کی جان سے زیادہ عزیز ہستی علیل ہے، چنانچہ اس نے فوراً ڈاکٹر بلوایا۔ جو دوائیاں اس نے تجویز کیں بازارسے خرید کر لایا اور اپنی نئی نویلی دلہن کو جس کوڈاکٹر کی آمد سے کوئی دلچسپی تھی نہ اپنے خاوند کی تیمار داری سے، اسے مجبور کیا کہ وہ انجکشن لگوائے اور چار چار گھنٹے کے بعد دوا پِیے۔ زکام کچھ شدید قسم کا تھا، اس لیے چار دن اور چار راتیں صغیر اپنی دلہن کی تیمارد اری میں مصروف رہا۔ امتیاز چڑ گئی۔ وہ جانے کیا سوچ کر عروسی جوڑا پہنے صغیر کے گھر آئی تھی۔ مگر وہ بے کار اس کے زکام کو درست کرنے کے پیچھے پڑا ہوا تھا، جیسے دولہا دلہن کے لیے بس ایک یہی چیز اہم ہے، باقی اور باتیں فضول ہیں۔ تنگ آکر ایک دن اس نے اپنے ضرورت سے زیادہ شریف شوہر سے کہا

’’آپ چھوڑیے میرے علاج معالجے کو۔ میں اچھی بھلی ہوں‘‘

پھر اس نے دعوت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں دُلہن ہوں۔ آپ کے گھر آئی ہوں، اور آپ نے اسے ہسپتال بنا دیا ہے‘‘

صغیر نے بڑے پیار سے اپنی دلہن کا ہاتھ دبایا اور مسکرا کر کہا

’’تازی، خدا نہ کرے کہ یہ ہسپتال ہو۔ یہ میرا گھر نہیں تمہارا گھر ہے‘‘

اس کے بعد امتیاز کو جو فوری شکایت تھی رفع ہو گئی۔ اور وہ شیروشکر ہو کر رہنے لگے۔ صغیر اس سے محبت کرتا تھا، لیکن اس کو ہمیشہ امتیاز کی صحت، اس کے جسم کی خوبصورتیوں اور اس کو تروتازہ دیکھنے کا خیال رہتا۔ وہ اسے کانچ کے نازک پھولدان کی طرح سمجھتا تھا جس کے متعلق ہر وقت یہ خدشہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی سے ٹُوٹ جائے گا۔ امتیاز اور صغیر کا رشتہ دوہرا تھا۔ دوبھائی اصغر حسین اور امجد حسین تھے۔ کھاتے پیتے تاجر۔ صغیر بڑے بھائی اصغر حسین کا لڑکا تھا، اور امتیاز امجد حسین کی بیٹی۔ اب یہ دونوں میاں بیوی تھے۔ شادی سے پہلے دونوں بھائیوں میں کچھ اختلاف تھے جو اس کے بعد دور ہو گئے تھے۔ امتیاز کی دو بہنیں اور تھیں جو اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ امتیاز کا بیاہ ہوا تو ان دونوں کی باری قدرتی طور پر آگئی۔ وہ اپنے گھروں میں آباد بہت خوش تھیں۔ کبھی کبھی امتیاز سے ملنے آتیں اور صغیر کے اخلاق سے بہت متاثر ہوتیں۔ ان کی نظر میں وہ آئیڈیل شوہر تھا۔ دو برس گزر گئے، امتیاز کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا۔ دراصل صغیر چاہتا تھا اتنی چھوٹی عمر میں وہ اولاد کے بکھیڑوں میں نہ پڑے۔ ان دونوں کے دن ابھی تک کھیلنے کودنے کے تھے۔ صغیر اسے ہر روز سینما لے جاتا، باغ کی سیر کراتا۔ نہر کے کنارے کنارے اس کے ساتھ چہل قدمی کرتا۔ اس کی ہر آسائش کا اسے خیال تھا۔ بہترین سے بہترین کھانے، اچھے سے اچھے باورچی۔ اگر امتیاز کبھی باورچی خانے کا رخ کرتی تو وہ اس سے کہتا

’’تازی انگیٹھیوں پر پتھر کے کوئلے جلتے ہیں۔ اُن کی بُو بہت بُری ہوتی ہے اور صحت کے لیے بھی نامفید۔ میری جان تم اندر نہ جایا کرو، دو نوکر ہیں۔ کھانے پکانے کا کام جب تم نے ان کے سپرد کر رکھا ہے تو پھر اس زحمت کی کیا ضرورت؟‘‘

امتیاز مان جاتی۔ سردیوں میں صغیر کا بڑا بھائی اکبر جو نیروبی میں ایک عرصہ سے مقیم تھا اور ڈاکٹر تھا کسی کام کے سلسلے میں کراچی آیا تو اس نے سوچا کہ چلو لاہور صغیرسے مل آئیں۔ بذریعہ ہوائی جہاز پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرا۔ وہ صرف چار روز کے لیے آیا کہ ہوائی جہاز میں اس کی سیٹ پانچویں روز کے لیے بک تھی۔ مگر جب اس کی بھابھی نے جو اس کی آمد پر بہت خوش ہوئی تھی اصرار کیا تو چھوٹے بھائی صغیر نے اس سے کہا

’’بھائی جان آپ اتنی دیر کے بعد آئے ہیں کچھ دن اور ٹھہر جایئے۔ میری شادی میں آپ شریک نہیں ہوئے تھے، جتنے دن آپ فالتو ٹھہریں گے، انہیں جرمانہ سمجھ لیجیے گا‘‘

امتیاز مسکرائی اور اکبر سے مخاطب ہوئی

’’اب تو آپ کو ٹھہرانا ہی پڑے گا۔ اور پھر مجھے آپ نے شادی پر کوئی تحفہ بھی تو نہیں دیا۔ میں جب تک وصول نہیں کر لُوں گی، آپ کیسے جاسکتے ہیں اور آپ کو میں جانے بھی کب دوں گی‘‘

دوسرے روز اکبر اس کو ساتھ لے کر گیا اور سچے موتیوں کا ایک ہار لے دیا۔ صغیر نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کیا۔ اس لیے کہ ہار بہت قیمتی تھا، کم از کم پانچ ہزار روپے کا ہو گا۔ اسی دن اکبر نے واپس نیروبی جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور صغیر سے کہا کہ وہ ہوائی جہاز میں اس کے ٹکٹ کا بندوبست کرے۔ اس لیے کہ اس کی لاہور شہر میں کافی واقفیت تھی۔ اکبر نے اس کو روپے دیے مگر اس نے برخوردارانہ انداز میں کہا

’’آپ ابھی اپنے پاس رکھیے میں لے لوں گا‘‘

اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے چلا گیا۔ اسے کوئی دقت نہ ہوئی، اس لیے کہ ہوائی جہاز سروس کا جنرل منیجر اس کا دوست تھا۔ اس نے فوراً ٹکٹ لے دیا۔ صغیر کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھا گپ لڑاتا رہا اس کے بعد گھر کا رُخ کیا۔ موٹر گراج میں بند کرکے وہ اندر داخل ہوا، لیکن فوراً باہر نکل آیا۔ گراج سے موٹر نکالی اور اس میں بیٹھ کر جانے کہاں روانہ ہو گیا۔ اکبر اور امتیاز دیر تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیا۔ انہوں نے موٹر کے آنے اور گراج میں بند کیے جانے کی آواز سنی تھی مگر انہوں نے سوچا کہ شاید ان کے کانوں کو دھوکا ہوا تھا۔ اس لیے کہ صغیر موجود تھا نہ اس کی موٹر۔ مگر وہ غائب کہاں ہو گیا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا مگر اس نے پورا ایک ہفتہ انتظار کیا۔ ادھر ادھر کئی جگہ پوچھ گچھ کی۔ پولیس میں رپورٹ لکھوائی مگر صغیر کی کوئی سن گن نہ ملی۔ آخری دن جب کہ اکبر جارہا تھا، پولیس اسٹیشن سے اطلاع ملی کہ پی بی ایل کے 10059 نمبر کی موٹر کار جس کے ایک خانے میں صغیر اختر کے نام کا لائسنس نکلا ہے، ہوائی اڈے کے باہر کئی دنوں سے پڑی ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اکبر امجد حسین نام کے ایک آدمی نے آٹھ روز پہلے ہوائی جہاز میں نیروبی کا سفر کیا ہے۔ اکبر کی سیٹ نیروبی کے لیے بُک تھی۔ امتیاز سے رخصت لے کر جب وہ کینیا پہنچا تو اسے بڑی مشکلوں کے بعد صرف اتنا معلوم ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام اکبر امجد تھا ہوائی جہاز کے ذریعے سے یہاں پہنچے تھے۔ ایک ہوٹل میں دو روز ٹھہرے اس کے بعد چلے گئے۔ اکبر نے بہت کوشش کی مگر پتہ نہ چلا۔ اس دوران میں اس کو امتیاز کے کئی خط آئے۔ پہلے دو تین خطوں کی تو اس نے رسید بھیجی، اس کے بعد جو بھی خط آتا پھاڑ دیتا کہ اس کی بیوی نہ پڑھ لے۔ دس برس گزر گئے۔ امجد حسین، یعنی امتیاز کا باپ بہت پریشان تھا۔ بہت لوگوں کا خیال تھا کہ صغیر مر کھپ چکا ہے مگر امجد کا دل نہیں مانتا تھا۔ کہیں اس کی لاش ہی مل جاتی۔ خود کشی کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟۔ بڑا نیک، شریف اور برخوردار لڑکا تھا۔ امجد کو اس سے بہت محبت تھی۔ ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آتی تھی کہ اس کی بیٹی امتیاز نے کہیں اس جیسے ذکی الحس آدمی کو ایسی ٹھیس نہ پہنچائی ہو کہ وہ شکستہ دل ہوکر کہیں رُوپوش ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے امتیاز سے کئی مرتبہ اس بارے میں پوچھا مگر وہ صاف مُنکر ہو گئی۔ خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اس نے اپنے باپ کی تشفی کردی کہ اس سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہیں ہوئی۔ اکثر اوقات وہ روتی بھی تھی۔ اس کو صغیر یاد آتا تھا۔ اس کی نرم و نازک محبت یاد آتی تھی۔ اس کا وہ دھیما دھیما، نسیم سحری کا سلوک یاد آتا تھا جو اس کی فطرت تھی۔ امجد حسین کا ایک دوست حج کو گیا۔ واپس آیا تو اس نے اس کو یہ خوش خبری سنائی کہ صغیر زندہ ہے اور ایک عرصے سے مکے میں مقیم ہے۔ امجد حسین بہت خوش ہوا۔ اس کو اس کے دوست نے صغیر ہندی کا اتا پتا بتا دیا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی امتیاز کو تیار کیا کہ وہ اس کے ساتھ حجاز چلے۔ فوراً ہوائی جہاز کے سفر کا انتظام ہو گیا۔ امتیاز جانے کے لیے تیار نہیں تھی، اس کو جھجک سی محسوس ہورہی تھی۔ بہر حال باپ بیٹی سرزمینِ حجاز پہنچے۔ ہر مقدس مقام کی زیارت کی۔ امجد حسین نے ایک ایک کونہ چھان مارا مگر صغیر کا پتہ نہ چلا۔ چند آدمیوں سے جو اس کو جانتے تھے، صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ آپ کی آمد سے دس روز پہلے، کیونکہ اسے کسی نہ کسی طریق سے معلوم ہو چکا تھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں، کھڑکی سے کودا اور گِر کر ہلاک ہو گیا۔ مرنے سے چند لمحات پہلے اس کے ہونٹوں پر ایک لفظ کانپ رہا تھا۔ غالباً امتیاز تھا۔ اس کی قبر کہاں تھی۔ وہ کب اور کیسے دفن ہوا، اس کے متعلق صغیر کے جاننے والوں نے کچھ نہ بتایا۔ یہ ان کے علم میں نہیں تھا۔ امتیاز کو یقین آگیا کہ اس کے خاوند نے خود کشی کرلی ہے۔ اس کو شاید اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا باپ یہ ماننے سے یکسر منکر تھا۔ چنانچہ اس نے کئی بار اپنی بیٹی سے کہا

’’میرا دل نہیں مانتا۔ وہ زندہ ہے۔ وہ تمہاری محبت کی خاطر اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک خدا اس کو موت کے فرشتے کے حوالے نہ کردے۔ میں اس کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تمہاری جگہ اگر وہ میرا بیٹا ہوتا تو میں خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا‘‘

یہ سن کر امتیاز خاموش رہی۔ وہ سرزمین حجاز سے بے نیلِ مرام واپس آگئے۔ ایک برس اور گزر گیا۔ اس دوران میں امجد حسین بڑی مہلک بیماری، یعنی دل کے عارضے میں گرفتار ہوا اور وفات پاگیا۔ مرتے وقت اس نے اپنی بیٹی سے کچھ کہنا چاہا، مگر وہ بات شاید بڑی اذیت دہ تھی کہ وہ خاموش رہا اور صرف سرزنش بھری نگاہوں سے امتیاز کو دیکھتے دیکھتے مر گیا۔ اس کے بعد امتیاز اپنی بہن ممتاز کے پاس راولپنڈی چلی گئی۔ ان کی کوٹھی کے سامنے ایک اور کوٹھی تھی۔ جس میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد جو بہت تھکا تھکا سا دکھائی دیتا تھا دھوپ تاپتا اور کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ ممتاز اس کو ہر روز دیکھتی۔ ایک دن اس نے امتیاز سے کہا

’’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ صغیر ہے۔ کیا تم نہیں پہچان سکتی ہو۔ وہی ناک نقشہ ہے، وہی متانت وہ سنجیدگی‘‘

امتیاز نے اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا، اور ایک دم چِلائی

’’ہاں ہاں وہی ہے‘‘

پھر فوراً رُک گئی

’’لیکن وہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ تو وفات پا چکے ہیں‘‘

انہیں دنوں ان دونوں کی چھوٹی بہن شہناز بھی آگئی۔ ممتاز اور امتیاز نے اس کو یہ قبل از وقت مُرجھایا اور افسردہ مرد دکھایا جس کی داڑھی کھچڑی تھی۔ اور اس سے پوچھا۔

’’تم بتاؤ، اس کی شکل صغیر سے ملتی ہے یا کہ نہیں؟‘‘

شہناز نے اس کو بڑی گہری نظروں سے دیکھا اور فیصلہ کن لہجے میں کہا

’’شکل ملتی ہے۔ یہ خود صغیر ہے۔ سو فی صدی صغیر‘‘

اور یہ کہہ کر وہ سامنے والی کوٹھی میں داخل ہو گئی۔ وہ شخص جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھا، چونکا۔ شہناز جس نے شادی کے موقعے پر اس کی جوتی چرائی تھی، اسی پرانے انداز میں کہا

’’جناب! آپ کب تک چھپے رہیں گے‘‘

اس شخص نے شہناز کی طرف دیکھا اور بڑی سنجیدگی اختیارکرتے ہوئے پوچھا

’’آپ کون ہیں؟‘‘

شہناز طرار تھی۔ اس کے علاوہ اس کو یقین تھا کہ جس سے وہ ہم کلام ہے وہ اس کا بہنوئی ہے۔ چنانچہ اس نے بڑے نوکیلے لہجے میں کہا

’’جناب، میں آپ کی سالی شہناز ہوں‘‘

اس شخص نے شہناز کو سخت ناامید کیا۔ اس نے کہا

’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘

اس کے بعد شہناز نے اور بہت سی باتیں کیں مگر اس نے بڑے ملائم انداز میں اس سے جو کچھ کہا، اس کا یہ مطلب تھا کہ تم ناحق اپنا وقت ضائع کررہی ہو۔ میں تمہیں جانتا ہوں نہ تمہاری بہن کو جس کے متعلق تم کہتی ہو کہ میری بیوی ہے۔ میری بیوی، میری اپنی زندگی ہے اور میں ہی اس کا خاوند۔ شہناز اور ممتاز نے لاکھ سر پٹکا، مگر وہ شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا، مانتا ہی نہیں تھا کہ وہ صغیر ہے۔ اس کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی، سوائے کتابوں کے۔ لیکن شہناز اور ممتاز کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ امتیاز کے متعلق تمام معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا، اس پر اسرار مرد کے نوکر کے ذریعے سے کہ وہ راتوں کو اکثر روتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور دُعائیں مانگتا ہے وہ زندہ رہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو جو اذّیت پہنچی ہے اس سے دیر تک لطف اندوز ہوتا رہے۔ نوکر حیران تھا کہ انسان کی زندگی میں ایسی کون سی تکلیف ہو سکتی ہے جس سے وہ لُطف اٹھا سکتا ہے۔ سب باتیں امتیاز سنتی تھی اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ مر جائے۔ چنانچہ اس نے جب یہ سنا کہ وہ شخص جس کو امتیاز اچھی طرح پہچانتی تھی، اس کے نام سے قطعاً ناآشنا ہے تو اس نے ایک روز تولہ افیم کھالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اکیلی آرام کرنا چاہتی ہے۔ وہ آرام کرنے چلی گئی۔ لیکن شہناز نے جب اس کو غنودگی کے عالم میں دیکھا تو اسے کچھ شبہ ہوا۔ اس نے ممتاز سے بات کی۔ اس کا ماتھا بھی ٹھنکا کمرے میں جا کر دیکھا تو امتیاز بالکل بے ہوش تھی۔ اس کو جھنجھوڑا مگر وہ نہ جاگی۔ شہناز دوڑی دوڑی سامنے والی کوٹھی میں گئی اور اس شخص سے جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو معلوم نہیں تھا، سخت گھبراہٹ میں یہ اطلاع دی کہ اس کی بیوی نے زہر کھا لیا ہے، اور مرنے کے قریب ہے۔ یہ سن کر صرف اس نے اتنا کہا

’’آپ کو غلط فہمی ہے، وہ میری بیوی نہیں ہے۔ لیکن میرے ہاں اتفاق سے ایک ڈاکٹر آیا ہوا ہے۔ آپ چلیے میں اسے بھیج دیتا ہوں‘‘

شہناز گئی تو وہ اندر کوٹھی میں گیا، اور اپنے بھائی اکبر سے کہا

’’یہ کوٹھی جو سامنے ہے، اس میں کسی عورت نے زہر کھالیا ہے۔ بھائی جان آپ جلدی جائیے اور کوشش کیجیے کہ بچ جائے‘‘

اس کا بھائی جو نیروبی میں بہت بڑا ڈاکٹر تھا امتیاز کو نہ بچا سکا۔ دونوں نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو اس کا ردِّ عمل بہت مختلف تھا۔ امتیاز فوراً مر گئی اور اکبر اپنا بیگ لے کر واپس چلا گیا۔ صغیر نے اس سے پوچھا۔

’’کیا حال ہے مریضہ کا؟‘‘

اکبر نے جواب دیا۔

’’مر گئی‘‘

صغیر نے اپنے ہونٹ بھینچ کر بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’میں زندہ رہوں گا‘‘

لیکن ایک دم سنگین فرش پر لڑکھڑانے کے بعد گرا اور۔ جب اکبر نے اس کی نبض دیکھی تو وہ ساکت تھی۔

سعادت حسن منٹو

حامد کا بچہ

لاہورسے بابوہرگوپال آئے تو حامد گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ انھوں نے آتے ہی حامد سے کہا۔

’’لو بھئی فوراً ایک ٹیکسی کا بندوبست کرو۔ ‘‘

حامد نے کہا۔

’’آپ ذرا تو آرام کرلیجئے۔ اتنا لمبا سفر طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ تھکاوٹ ہو گی۔ ‘‘

بابوہرگوپال اپنی دھن کے پکے تھے۔ نہیں بھائی مجھے تھکاوٹ واوٹ کچھ نہیں۔ میں یہاں سیر کی غرض سے آیا ہوں۔ آرام کرنے نہیں آیا۔ بڑی مشکل سے دس دن نکالے ہیں۔ یہ دس دن تم میرے ہو۔ جو میں کہوں گا تمہیں ماننا ہو گا میں اب کے عیاشی کی انتہا کردینا چاہتا ہوں۔ سوڈا منگواؤ۔ ‘‘

حامد نے بہت منع کیا کہ دیکھئے بابوہرگوپال صبح سویرے مت شروع کیجیے مگر وہ نہ مانے۔ بکس کھو کر جونی واکر کی بوتل نکالی اور اسے کھولنا شروع کردیا۔

’’سوڈا نہیں منگواتے تو لاؤ تھوڑا سا پانی لاؤ۔ کیا پانی بھی نہیں دو گے۔ ‘‘

بابوہرگوپال، حامد سے عمر میں بڑے تھے۔ حامد تیس کا تھا تو وہ چالیس کے تھے۔ حامد ان کی عزت کرتا تھا اس لیے کہ اس کے مرحوم باپ سے بابو صاحب کے مراسم تھے۔ اس نے فوراً سوڈا منگوایا اور بڑی لجاجت سے کہا۔

’’دیکھئے مجھے مجبور نہ کیجیے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ میری بیوی بڑی سخت گیر ہے۔ ‘‘

مگر بابوہرگوپال کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اوراسے ساتھ دینا ہی پڑا۔ جیسی کہ امید تھی، چار پیگ پینے کے بعد بابوہرگوپال نے حامد سے کہا۔

’’لو بھئی اب چلیں گھومنے۔ مگر دیکھو کوئی ایسی ٹیکسی پکڑنا جو ذرا شاندار ہو۔ پرائیویٹ ٹیکسی ہو تو بہت اچھا ہے۔ مجھے ان میٹروں سے نفرت ہے۔ ‘‘

حامد نے پرائیویٹ ٹیکسی کا بندوبست کردیا۔ نئی فورڈ تھی۔ ڈرائیور بھی بہت اچھا تھا۔ بابوہرگوپال بہت خوش ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنا چوڑا بٹوا نکالا کھول کر دیکھا۔ سوسو کے کئی نوٹ تھے اور اطمینان کا سانس لیا اور اپنے آپ سے کہا۔

’’کافی ہیں۔ لوبھئی ڈرائیور اب چلو۔ ‘‘

ڈرائیور نے اپنے سر پر ٹوپی کو ترچھا کیا اور پوچھا۔

’’کہاں سیٹھ۔ ‘‘

بابوہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے

’’بولو بھئی تم۔ ‘‘

حامد نے کچھ دیر سوچ کر ایک ٹھکانہ بتایا۔ ٹیکسی نے ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بمبئی کا سب سے بڑا دلال ان کے ساتھ تھا۔ اس نے مختلف مقامات سے مختلف لڑکیاں نکال نکال کر پیش کیں مگر حامد کو کوئی پسند نہ آئی وہ نفاست پسند تھا۔ صفائی کا شیدا تھا۔ یہ لڑکیاں سرخی پاؤڈر کے باوجود اس کو گندی دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ ان کے چہروں پر کسبیت کی مہر تھی۔ یہ اسے بہت گھناؤنی معلوم ہوتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ عورت کو کسبی ہونے پر بھی عورت ہی رہنا چاہیے۔ اپنے عورت پن کو اپنے پیشے کے نیچے دبا نہیں دینا چاہیے۔ اس کے برعکس بابوہرگوپال غلاظت پسند تھا۔ لاکھوں میں کھیلتا تھا۔ چاہتا تو بمبئی کا پورا شہر صابن پانی سے دھلوا دیتا مگر اپنی ذاتی صفائی کا اسے کچھ خیال نہیں تھا۔ نہاتا تھا تو بہت ہی تھوڑے پانی سے۔ کئی کئی شیو نہیں کرتا تھا۔ گلاس چاہے میلا چکٹ ہو، اٹھا کر اس میں فرسٹ کلاس وسکی انڈیل دیتا تھا۔ غلیظ بہکارن کو سینے کے ساتھ چمٹا کر سو جاتا تھا اور کہتا تھا

’’لطف آگیا۔ کیا چیز تھی۔ ‘‘

حامد کو حیرت ہوتی تھی کہ یہ بابو کس قسم کا انسان ہے۔ اوپر نہایت ہی قیمتی شیروانی ہے نیچے ایسی بنیان ہے کہ اس کو دیکھنے سے ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ رومال پاس ہیں لیکن کرتے کے دامن سے ناک کا بہتا ہوا رینٹھ صاف کررہا ہے۔ غلیط پلیٹ میں چاٹ کھا کر خوش ہورہا ہے۔ تکیے کے غلاف میلے ہو کر بدبو چھوڑ رہے ہیں مگر اسے ان کو بدلوانے کا خیال تک نہیں آتا۔ حامد نے اس کے متعلق بہت غور کیا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچا۔ اس نے کئی مرتبہ بابوہرگوپال سے کہا۔

’’بابو جی آپ کو غلاظت سے گھن کیوں نہیں آتی۔ ‘‘

یہ سن کر بابوہرگوپال مسکرا دیتے۔

’’کیوں نہیں آتی۔ لیکن تمہیں تو ہر جگہ غلاظت ہی غلاظت نظر آتی ہے۔ اب اس کا کیا علاج ہے۔ ‘‘

حامد خاموش ہو جاتا اور دل ہی دل میں بابوہرگوپال کی غلاظت پسندی پر کڑھتا رہتا۔ ٹیکسی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔ دلال نے جب دیکھا کہ حامد انتخاب کے معاملے میں بہت کڑا ہے تو اس نے دل میں کچھ سوچا اور ڈرائیور سے کہا۔

’’شیوا جی پارک کی طرف دباؤ۔ وہ بھی پسند نہ آئی تو قسم خدا کی بھڑواگیری چھوڑ دوں گا۔ ‘‘

ٹیکسی شوا جی پارک کی ایک بنگلہ نما بلڈنگ کے پاس رکی۔ دلال اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور بابوہرگوپال اور حامد کو اپنے ساتھ لے گیا۔ بڑا صاف ستھرا کمرہ تھا۔ فرش کی ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ فرنیچر پر گرد کا ذرہ تک نہیں تھا۔ ادھر دیوار پر سوامی وولیکانند کی تصویر لٹک رہی تھی۔ سامنے گاندھی جی کی تصویر سوبھاش کا فوٹو بھی تھا۔ میز پر مرہٹی کی کتابیں پڑی تھیں۔ دلال نے ان کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ حامد گھر کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ چیزیں مختصر تھیں مگر قرینے سے رکھی گئی تھیں۔ فضا بڑی سنجیدہ تھی اس میں کسبیوں کا وہ بے شرم تیکھا پن نہیں تھا۔ حامد بڑی بے صبری سے لڑکی کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ دوسرے کمرے سے ایک مرد نمودار ہوا۔ اس نے ہولے ہولے سرگوشیوں میں دلال سے باتیں کیں۔ بابوہرگوپال اور حامد کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’ابھی آتی ہے۔ نہا رہی تھی، کپڑے پہن رہی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلاگیا۔ حامد نے غورسے کمرے کی چیزیں دیکھنا شروع کی۔ میز کے پاس کونے میں بڑی خوبصورت رنگین چٹائی پڑی تھی۔ میز پر کتابوں کے ساتھ دس پندرہ رسالے تھے۔ نیچے بڑے نازک چپل چمکیلے فرش پرپڑے تھے۔ کچھ اس انداز سے کہ ابھی ابھی ان سے پاؤں نکل کر گئے ہیں۔ سامنے شیشوں والی الماری میں قطار در قطار کتابیں تھیں۔ بابوہرگوپال نے فرش پر جب اپنے سگرٹ کا آخری حصہ اپنی گرگابی کے نیچے دبایا تو حامد کو بہت غصہ آیا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے کہ دوسرے کمرے کے دروازے سے اس کے کانوں میں ریشمیں سرسراہٹ پہنچی۔ اس نے زاویہ بدل کر دیکھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی، بالکل نئے کاشٹے میں ملبوس ننگے پیر آرہی تھی۔ ۔ کاشٹے کا پلو اس کے سر سے کھسکا۔ سیدھی مانگ تھی۔ جب قریب آکر اس نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا تواس کے چمکیلے جوڑے میں حامد نے ایک پتا اڑسا ہوا دیکھا۔ پتے کا رنگ سفیدی مائل تھا۔ موٹے جوڑے میں جو بڑی صفائی سے کیا گیا تھا یہ پتا بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ حامد نے پرنام کا جواب اٹھ کر دیا۔ لڑکی شرماتی لجاتی ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی عمر حامد کے اندازے کے مطابق سترہ برس سے اوپر نہیں تھی۔ قد درمیانہ، رنگ گورا جس میں ہلکی ہلکی پیاری جھلک تھی۔ جس طرح اس کی ساڑھی نئی تھی اسی طرح وہ خود نئی معلوم ہوتی تھی۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھکالیں۔ حامد کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کے وجود میں سرایت کررہی ہے۔ لڑکی بڑی صاف ستھری، بڑی اجلی تھی۔ بابوہرگوپال نے حامد سے کچھ کہا تو وہ چونک پڑا جیسے اس کو کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہے

’’کیا کہابابوہرگوپال؟‘‘

بابوہرگوپال نے کہا۔

’’بات کرو بھئی۔ ‘‘

پھر آواز دھیمی کردی۔

’’مجھے تو کوئی خاص پسند نہیں۔ ‘‘

حامد کباب ہو گیا۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ دھلا ہوا شباب اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ نکھری ہوئی بے دماغ جوانی۔ ریشم میں لپٹی ہوئی اس کی نظروں کے سامنے تھی جس کو وہ حاصل کرسکتا تھا۔ ایک رات کے لیے نہیں، کئی راتوں کے لیے، کیونکہ وہ قیمت ادا کرکے اپنائی جاسکتی تھی، لیکن حامد نے جب یہ سوچا تو اسے دکھ ہوا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ لڑکی بکاؤ مال ہرگز نہیں ہونی چاہیے تھی۔ پھر اسے خیال کہ آیا اگر ایسا ہوتا تو اس کو حاصل کیسے کرتا۔ بابوہرگوپال نے بڑے بھونڈے انداز میں پوچھا۔

’’کیا خیال ہے بھئی۔ ‘‘

’’خیال؟‘‘

حامد پھر چونکا۔ آپ کو تو پسند نہیں، لیکن میں۔ ‘‘

وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بابوہرگوپال بڑے دوست نواز تھے۔ اٹھے اور دلال سے کاروباری انداز میں پوچھا۔

’’کیوں بھئی کیا دینا پڑے گا؟‘‘

دلال نے جواب دیا۔

’’چھوکری دیکھ لیجئے۔ ابھی تازہ تازہ دھندا شروع کیا ہے۔ ‘‘

بابوہرگوپال نے اس کی بات کاٹی۔

’’تم اسے چھوڑے۔ معاملے کی بات کرو۔ ‘‘

دلال نے بیڑی سلگائی، سو روپے ہوں گے۔ پورا دن رکھئے یا پوری رات رکھئے۔ ایک ڈیڑھیا کم نہیں ہو گا۔ ‘‘

بابوہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے۔

’’کیوں بھئی۔ ‘‘

حامد کو بابوہرگوپال اور دلال کی گفتگو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس لڑکی کی توہین ہورہی ہے۔ سو روپے میں یہ دھڑکتا ہوا شباب یہ دہکتی ہوئی جوانی۔ اس کو یہ سن کر بہت کوفت ہوئی کہ مرہٹی حسن کا جو یہ نادر نمونہ اس کے سامنے سانس لے رہا تھا اس کی قیمت صرف سو روپے ہے۔ مگر اس کوفت کے ساتھ ہی اس خیال نے اس کے دل میں چٹکی للی کہ سوروپے دے کر آدمی اس کو حاصل تو کرسکتا ہے۔ ایک دن یا ایک رات کے لیے لیکن پھر اس نے سوچا۔

’’صرف ایک دن یا ایک رات کیلیے۔ اس کے ساتھ تو آدمی کو اپنی ساری عمر بتا دینی چاہیے۔ اس کی ہستی میں اپنی ہستی مدغم کردینی چاہیے۔ ‘‘

بابوہرگوپال نے پھر پوچھا۔

’’کیوں بھئی کیا خیال ہے؟‘‘

حامد اپنا خیال ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بابوہرگوپال مسکرایا۔ جیب سے بٹوہ نکالا اور سو کا ایک نوٹ دلال کو دے دیا۔

’’ایک ڈیڑھیا کم نہ ایک ڈیڑھیا زیادہ۔ پھر وہ حامد سے مخاطب ہوا۔

’’چلو بھئی۔ معاملہ طے ہو گیا۔ ‘‘

حامد خاموش ہو گیا۔ دونوں نیچے اتر کر ٹیکسی میں بیٹھے۔ دلال لڑکی لے کر آگیا۔ وہ شرماتی لجاتی ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ہوٹل میں ایک کمرے کا بندوبست کرکے بابوہرگوپال اپنے لیے کوئی لڑکی تلاش کرنے چلا گیا۔ لڑکی پلنگ پر آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی۔ حامد کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ بابوہرگوپال وسکی کی بوتل چھوڑ گیا تھا۔ آدھی کے قریب باقی تھی۔ حامد نے سوڈا منگوا کر ایک بہت بڑا پیگ لگایا۔ اس سے اس میں کچھ جرأت پیدا ہوئی۔ اس نے لڑکی کے پاس بیٹھ کر پوچھ۔

’’آپ کا نام؟‘‘

لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر جواب دیا۔

’’لتا منگلاؤں کر۔ ‘‘

بڑی پیاری آواز تھی۔ حامد نے ایک بڑا پیگ اپنے اندر انڈیلا اور لتا کے سر سے کاشٹے کا پلوہٹا کر اس کے چمکیلے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ لتا نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھپکائیں۔ حامد نے ساڑھی کا پلو بالکل نیچے گرا دیا۔ چست چولی کے کھلے گریبان سے اس کو لتا کے سینے کی ابھار کی ننھی سی دھڑکتی ہوئی جھلک دکھائی دی۔ حامد کا سارا وجود تھرا گیا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ چولی بن کر لتا کے ساتھ چمٹ جائے۔ اس کی میٹھی میٹھی گرمی محسوس کرے اور سو جائے۔ لتا ہندوستانی نہیں جانتی تھی۔ اس کومنگلاؤں سے آئے صرف دومہینے ہوئے تھے۔ مرہٹی بولتی تھی۔ بڑی کرخت زبان ہے لیکن اس کے منہ میں یہ بڑی ملائم ہو گئی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی میں حامد کی باتوں کا جواب دیتی تو وہ اس سے کہتا

’’نہیں لتا، تم مرہٹی میں بات کرو۔ مجھے بہت چانگلی لگتی۔ ‘‘

لفظ

’’چانگلی‘‘

سن کر لتا ہنس پڑتی اور صحیح تلفظ اس کو بتاتی، لیکن حامد چے اور سے کی درمیانی آواز پیدا نہ کرسکتا۔ اس پر دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگتے۔ حامد اس کی باتیں نہ سمجھتا لیکن اس نہ سمجھنے میں اس کو لطف آتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کے ہونٹ چوم لیتا اور اس سے کہتا۔

’’یہ پیارے پیارے بول جو تم اپنے منہ سے نکال رہی ہو میرے منہ میں ڈال دو۔ میں انھیں پینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

وہ کچھ نہ سمجھتی اور ہنس دیتی۔ حامد اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔ لتا کی بانھیں بڑی سڈول اور گوری گوری تھیں ان پر چولی کی چھوٹی چھوٹی آستینیں پھنسی ہوئی تھیں۔ حامد نے ان کو بھی کئی بار چوما لتا کا ہر عضو حامد کو پیارا لگتا تھا۔ رات کو نو بجے حامد نے لتا کو اس کے گھر چھوڑا تو اپنے اندر ایک خلا سا محسوس کیا۔ اس کے ملائم جسم کا لمس جیسے ایک دم چھال کی طرح اترکر اس سے جدا ہو گیا۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح بابوہرگوپال آئے۔ انھوں نے تخلیے میں اس سے پوچھا

’’کیوں کیسی رہی؟‘‘

حامد نے صرف اتنا کہا۔

’’ٹھیک تھی۔ ‘‘

’’چلتے ہو پھر؟‘‘

’’نہیں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ ‘‘

’’بکواس نہ کرو۔ میں نے تم سے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دس دن تم میرے ہو۔ ‘‘

حامد نے بابوہرگوپال کو یقین دلایا کہ اسے واقعی بہت ضروری کام ہے۔ پونے جارہا ہوں۔ وہاں اس کو ایک آدمی سے مل کر اپنا کام کرانا ہے۔ بابوہرگوپال انجام کار مان گئے اور اکیلے عیاشی کرنے چلے گئے۔ حامد نے ٹیکسی لی۔ بینک سے روپے نکلوائے اور سیدھا لتا کے ہاں پہنچا۔ وہ اندر نہا رہی تھی۔ کمرے میں ایک مرد بیٹھا تھا، وہی جس نے پہلے دن کہا تھا۔

’’ابھی آتی ہے۔ نہا رہی تھی، کپڑے بدل رہی ہے۔ ‘‘

حامد نے اس سے کچھ دیر باتیں کیں اور سو کا ایک نوٹ اس کے حوالے کردیا۔ لتا آئی پہلے سے بھی زیادہ صاف ستھری اور نکھری ہوئی۔ ہاتھ جوڑ کر اس نے پرنام کیا۔ حامد اٹھا اور اس مرد سے مخاطب ہوا۔

’’میں چلتا ہوں۔ تم لے آؤ انھیں۔ وقت پر چھوڑ جاؤں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا، لتا آئی اور حامد کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا لمس محسوس کرکے حامد کو بڑی راحت ہوئی۔ وہ اس کو وہیں ٹیکسی میں اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا مگر لتا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔ شام کے ساڑھے سات بجے تک وہ اس کے ساتھ رہی۔ جب اس کے گھر چھوڑا تو ایسا محسوس کیا کہ اس کے دل کی راحت اس سے جدا ہو گئی ہے۔ رات بھر وہ بے چین رہا۔ حامد شادی شدہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کا باپ تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ سخت حماقت کررہا ہے۔ اگر اس کی بیوی کو پتہ چل گیا تو آفت برپا ہو جائے گی۔ ایک بار سلسلہ ہو گیا ٹھیک ہے، مگر یہ سلسلہ تو اب دراز ہونے کی طرف مائل تھا۔ اس نے عہد کرلیا کہ اب شوا جی پارک کا رخ نہیں کریگا۔ مگر صبح دس بجے وہ پھر لتا کے ساتھ ہوٹل میں لیٹا تھا۔ پندرہ روز تک حامد بلاناغہ لتا کے ہاں جاتا رہا۔ اس کے بینک کے اکاؤنٹ میں سے دو ہزار روپے اڑ چکے تھے۔ کاروبار الگ اس کی غیر موجودگی کے باعث نقصان اٹھا رہا تھا۔ حامد کواس کا کامل احساس تھا مگر لتا اس کے دل و دماغ پر بری طرح چھا چکی تھی۔ لیکن حامد نے ہمت سے کام لیا اور ایک یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ اس دوران میں بابوہرگوپال اپنی میلی اور غلیظ عیاشیاں ختم کرکے لاہور واپس جا چکا تھا۔ حامد نے خود کو زبردستی اپنے کاروباری کاموں میں مصروف کردیا اور لتا کو بھولنے کی کوشش کی۔ چار مہینے گزر گئے۔ حامد ثابت قدم رہا۔ لیکن ایک دن اتفاق سے اس کا گزر شیوا جی پارک سے ہوا۔ حامد نے غیر ارادی طور پر ٹیکسی والے سے کہا۔

’’روک لو یہاں۔ ‘‘

ٹیکسی رکی۔ حامد سوچنے لگا۔

’’نہیں یہ ٹھیک نہیں۔ ٹیکسی والے سے کہو چلے!‘‘

مگر دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا اور اوپر چلا گیا۔ لتا آئی تو حامد نے دیکھا کہ وہ پہلے سے موٹی ہے۔ چھاتیاں زیادہ بڑھی ہیں۔ چہرے پر گوشت بڑھ گیا ہے۔ حامد نے سو روپے دیے اور اس کو ہوٹل میں لے گیا۔ یہاں اس کو جب معلوم ہوا کہ لتا حاملہ ہے تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے پوچھا۔

’’یہ۔ یہ حمل کس کا ہے۔ ؟‘‘

لتا کچھ نہ سمجھی۔ حامد نے اس کو بڑی مشکل سے سمجھایا تو اس نے سر ہلا کر کہا۔

’’ہم کو مالوم نہیں۔ ‘‘

حامد پسینہ پسینہ ہو گیا۔

’’تمہیں بالکل معلوم نہیں۔ ‘‘

لتا نے سر ہلایا۔

’’نہیں۔ ‘‘

حامد نے تھوک نگل کر پوچھا۔

’’کہیں۔ میرا تو نہیں؟‘‘

’’مالوم نہیں۔ ‘‘

حامد نے مزید استفسار کیا۔ بہت ہی باتیں کیں تو اسے معلوم ہوا کہ لتا کے لواحقین نے حمل گروانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ کوئی دوا اثر نہیں کرتی تھی۔ ایک دوا نے تو اسے بیمار کردیا چنانچہ ایک مہینہ وہ بستر پر پڑی رہی۔ حامد نے بہت سوچا۔ ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آئی کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کرے اور بہت جلدی کرے کیونکہ بچے کی خاطر لتا کو گاؤں بھیجا جارہا تھا۔ حامد نے اس کو گھر چھوڑا اور ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جو اس کا دوست تھا اس نے حامد سے کہا۔

’’دیکھو یہ معاملہ بڑا خطرناک ہے۔ زندگی اور موت کا سوال درپیش ہوتا ہے۔ ‘‘

حامد نے اس سے کہا۔

’’یہاں میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ نطفہ یقیناً میرا ہے۔ میں نے اچھی طرح حسات لگایا ہے۔ اس سے بھی اچھی طرح دریافت کیا ہے۔ خدا کے لیے آپ سوچئے میری پوزیشن کیا ہے۔ میری اولاد۔ میں تو یہ سوچتے ہی کانپ کانپ جاتا ہوں۔ آپ میری مدد نہیں کریں گے تو سوچتا سوچتا پاگل ہو جاؤں گا۔ ‘‘

ڈاکٹر نے اس کو دوا دے دی۔ حامد نے لتا کو پہنچا دی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ حامد خوشخبری سننے کے لیے بے قرار تھا مگر لتا نے اس سے کہا کہ اس پر پہلے بھی کسی دوا نے اثر نہیں کیا تھا۔ حامد بڑی مشکلوں سے ایک اور دوا لایا مگر یہ بھی کارثر ثابت نہ ہوئی۔ اب لتا کا پیٹ صاف نمایاں تھا۔ اس کے لواحقین اسے گاؤں بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن حامد نے ان سے کہا۔

’’نہیں ابھی ٹھہر جاؤ۔ میں کچھ اور بندوبست کرتا ہوں۔ ‘‘

بندوبست کچھ بھی نہ ہوا۔ سوچ سوچ کر حامد کا دماغ عاجز آگیا۔ کیا کرے کیا نہ کرے۔ کچھ اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ بابوہرگوپال پر سو لعنتیں بھیجتا تھا۔ اپنے آپ کوکوستا تھا کہ کیوں اس نے حماقت کی۔ یہ سوچا تو لرز جاتا کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو وہ بھی اپنی ماں کی طرف پیشہ کریگی۔ ڈوب مرنے کی بات ہے۔ اس کو لتا سے نفرت ہو گئی۔ اس کا حسن اس کے دل میں اب پہلے سے جذبات پیدا نہ کرنا۔ غلطی سے اس کا ہاتھ لتا سے چھو جاتا تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے انگاروں میں ہاتھ جھونک دیا ہے۔ اس کو اب لتا کی کوئی ادا پسند نہیں تھی۔ اس کی زبردست خواہش تھی کہ وہ اس کا بچہ جننے سے پہلے پہلے مر جائے۔ وہ اور مردوں کے پاس بھی جاتی رہی تھی، کیا اسے حامد ہی کا نطفہ قبول کرنا تھا؟ حامد کے جی میں آئی کہ وہ اس کے سوجھے ہوئے پیٹ میں چھرا پھونک دے یا کوئی ایسا حیلہ کرے کہ اس کا بچہ پیٹ ہی میں مر جائے۔ لتا بھی کافی فکر مند تھی۔ اس کی کبھی خواہش نہیں تھی کہ بچہ ہو۔ اس کے علاوہ اس کو بہت بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس کو الٹیوں نے نڈھال کردیا تھا۔ اب ہر وقت اس کے پیٹ میں اینٹھن سی رہتی تھی۔ مگر حامد سمجھتا تھا کہ وہ فکر مند نہیں ہے۔

’’اور کچھ نہیں تو کم بخت میری حالت دیکھ کر ہی ترس کھا کر بچہ قے کردے۔ ‘‘

دوائیں چھوڑ کر ٹونے ٹوٹکے بھی کیے مگر بچہ اتنا ہٹ دھرم تھا اپنی جگہ پر قائم رہا۔ تھک ہار کر حامد نے لتا کو گاؤں جانے کی اجازت دے دی لیکن خود وہاں جا کر مکان دیکھ آیا۔ حساب کے مطابق بچہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پیدا ہونا تھا۔ حامد نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی طرح مروا ڈالے گا، چنانچہ اس غرض سے اس نے بمبئی سے ایک بہت بڑے دادا سے راہ و رسم پیدا کی، اس کو خوب کھلاتا پلاتا رہا۔ اس پراس کا کافی روپیہ خرچ ہوا۔ مگر حامد نے کوئی خیال نہ کیا۔ ‘‘

وقت آیا تو اس نے اپنی ساری اسکیم دادا کریم کو بتادی۔ ایک ہزارروپے طے ہوئے۔ حامد نے فوراً دے دیے۔ دادا کریم نے کہا۔

’’اتنا چھوٹا بچہ مجھ سے نہیں مارا جائے گا۔ میں لاکرتمہارے حوالے کردوں گا۔ آگے تم جانو اور تمہارا کام۔ ویسے یہ راز میرے سینے میں دفن رہے گا۔ اس کی تم کچھ فکر نہ کرو۔ ‘‘

حامد مان گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ بچے کو گاڑی کی پٹڑی پر رکھ دے گا۔ اپنے آپ کچلا جائے گا یا کسی اور ترکیب سے اس کا خاتمہ کردے گا۔ دادا کریم کو ساتھ لے کر وہ لتا کے گاؤں آپہنچا۔ دادا کریم نے بتایا کہ بچہ پندرہ روز ہوئے پیدا ہو چکا ہے۔ حامد کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا جو اپنے پہلے لڑکے کی پیدائش پر اس کو محسوس ہوا تھا مگر اس نے اس کو وہیں دبا دیا اور کریم سے کہا۔

’’دیکھو آج رات یہ کام ہو جائے۔ ‘‘

رات کے بارہ بجے ایک اجاڑ جگہ پر حامد کھڑا انتظار کررہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک عجیب طوفان برپا تھا۔ وہ خود کو بڑی مشکلوں سے قاتل میں تبدیل کرچکا تھا۔ وہ پتھر جو اس کے سامنے پڑام تھا۔ بچے کا سر کچلنے کے لیے کافی تھا۔ کئی بار اسے اٹھا کر وہ اس کے وزن کا اندازہ کر چکا تھا۔ ساڑھے بارہ ہوئے تو حامد کو قدموں کی آواز آئی۔ حامد کا دل اس زور سے دھڑکنے لگا جیسے سینے سے باہر آجائے گا۔ دادا کریم اندھیرے میں نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ پاس آکر اس نے حامد کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں دے دی اور کہا۔

’’میرا کام ختم ہوا۔ میں چلا۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا۔ حامد بہت بری طرح کانپ رہا تھا۔ بچہ کپڑے کے اندر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ حامد نے اسے زمین پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر اپنے لرزے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ جب یہ کچھ کم ہوا تو اس نے و زنی پتھر اٹھایا۔ ٹٹول کر سر دیکھا۔ پتھر زور سے پٹکنے ہی والا تھاکہ اس نے سوچا، بچے کو ایک نظر دیکھ تو لوں۔ پتھر ایک طرف رکھ کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دیا سلائی نکالی اور ایک تیلی سلگائی۔ یہ اس کی انگلیوں ہی میں جل گئی۔ اس کی ہمت نہ پڑی۔ کچھ دیر سوچا۔ دل مضبوط کیا۔ دیا سلائی کی تیلی جلائی۔ کپڑا ہٹایا۔ پہلے سرسری نظر سے پھر ایک دم غور سے دیکھا۔ تیلی بجھ گئی۔ یہ کس کی شکل تھی؟۔ اس نے کہیں دیکھی تھی۔ کہاں؟۔ کب؟ حامد نے جلدی جلدی ایک تیلی جلائی اور بچے کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے اس مرد کا چہرہ آگیا جس کے ساتھ لتا شیواجی پارک میں رہتی تھی۔ ہٹ تیری ایسی کی تیسی۔ ہوبہو وہی شکل۔ وہی ناک نقشہ! حامد نے بچے کو وہیں چھوڑا اور قہقہے لگاتا چلا گیا۔

سعادت حسن منٹو

حافظ حسین دین

حافظ حسین دین جو دونوں آنکھوں سے اندھاتھا، ظفر شاہ کے گھر میں آیا۔ پٹیالے کا ایک دوست رمضان علی تھا، جس نے ظفر شاہ سے اُس کا تعارف کرایا۔ وہ حافظ صاحب سے مل کر بہت متاثر ہوا۔ گو اُن کی آنکھیں دیکھتی نہیں تھیں مگر ظفر شاہ نے یوں محسوس کیا کہ اُس کو ایک نئی بصارت مل گئی ہے۔ ظفر شاہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اُس کو پیروں فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جب حافظ حسین دین اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو اپنے فلیٹ کے نیچے موٹر گراج میں ٹھہرایا۔ اُس کو وہ وائٹ ہاؤس کہتا تھا۔ ظفر شاہ سید تھا۔ مگر اُس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مکمل سید نہیں ہے۔ چنانچہ اُس نے حافظ حسین دین کی خدمت میں گزارش کی کہ وہ اس کی تکمیل کردیں۔ حافظ صاحب نے تھوڑی دیر بعد اپنی بے نُور آنکھیں گھما کر اُس کو جوا ب دیا۔

’’بیٹا۔ تو پورا بننا چاہتا ہے تو غوث اعظم جیلانی سے اجازت لینا پڑے گی۔ ‘‘

حافظ صاحب نے پھر اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں۔

’’اُن کے حضور میں تو فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ ‘‘

ظفر شاہ کو بڑی نااُمیدی ہوئی۔

’’آپ صاحبِ کشف ہیں۔ کوئی مداوا تو ہو گا۔ ‘‘

حافظ صاحب نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی۔

’’ہاں چلہ کاٹنا پڑے گا مجھے۔ ‘‘

’’اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو اپنے اس خادم کے لیے کاٹ لیجیے۔ ‘‘

’’سوچوں گا۔ ‘‘

حافظ حسین دین ایک مہینے تک سوچتا رہا۔ اس دوران ظفر شاہ نے اُن کی خاطر و مدارات میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ حافظ صاحب کے لیے صبح اٹھتے ہی ڈیڑھ پاؤ بادام توڑتا۔ ان کے مغز نکا ل کر سردائی تیار کرتا۔ دوپہر کو ایک سیر گوشت بھنوا کے اُس کی خدمت میں پیش کرتا۔ شام کو بالائی ملی ہوئی چائے پلاتا۔ رات کو ایک مُرغ مسلم حاضر کرتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آخر حافظ حسین نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’اب مجھے آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ ‘‘

ظفر شاہ نے پوچھا۔

’’کیسی آوازیں قبلہ۔ ‘‘

’’تمہارے متعلق۔ ‘‘

’’کیا کہتی ہیں۔ ‘‘

’’تم ایسی باتوں کے متعلق مت پوچھا کرو۔ ‘‘

’’معافی چاہتا ہوں۔ ‘‘

حافظ صاحب نے ٹٹول ٹٹول کر مرغ کی ٹانگ اُٹھائی اور اُسے دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہا۔

’’تم اصل میں منکر ہو۔ آزمانا چاہتے ہو تو کسی کنوئیں پر چلو۔ ‘‘

ظفر شاہ تھرتھرا گیا۔

’’حضور میں آپ کو آزمانا نہیں چاہتا۔ آپ کا ہر لفظ صداقت سے لبریز ہے۔ ‘‘

حافظ صاحب نے سر کو زور سے جنبش دی۔

’’نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں آزماؤ۔ کھانا کھالیں تو ہمیں کسی بھی کنوئیں پر لے چلو۔ ‘‘

’’وہاں کیا ہو گا قبلہ۔ ‘‘

’’میرا معمول آواز دے گا۔ وہ کنواں پانی سے لبا لب بھر جائے گا اور تمہارے پاؤں گیلے ہوئے جائیں گے۔ ڈرو گے تو نہیں؟‘‘

ظفر شاہ ڈر گیا تھا۔ حافظ حسن دین جس لہجے میں باتیں کررہا تھا بڑا پر ہیبت تھا۔ لیکن اُس نے اس خوف پر قابو پاکر حافظ صاحب سے کہا۔

’’جی نہیں۔ آپ کی ذاتِ اقدس میرے ساتھ ہو گی تو ڈر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب سارا مرغ ختم ہو گیا تو حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’میرے ہاتھ دُھلواؤ۔ اور کسی کنوئیں پر لے چلو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے اُس کے ہاتھ دُھلوائے تولیے سے پونچھے اور اُسے ایک کنوئیں پر لے گیا جو شہر سے کافی دُور تھا ظفر شاہ چادر لپیٹ کر اُس کی منڈیر کے پاس بیٹھ گیا۔ مگر حافظ صاحب نے چلا کر کہا۔

’’پانچ قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں پڑھنے والا ہوں۔ کنوئیں کا پانی لبا لب بھر جائے گا۔ تم ڈر جاؤ گے۔ ‘‘

ظفر شاہ ڈر کر دس قدم پیچھے ہٹ گیا۔ حافظ صاحب نے پڑھنا شروع کردیا۔ رمضان علی بھی ساتھ تھا جس نے ظفر شاہ سے حافظ صاحب کا تعارف کرایا تھا۔ وہ دُور بیٹھا مونگ پھلی کھا رہا تھا۔ حافظ صاحب نے کنوئیں پر آنے سے پہلے ظفر شاہ سے کہا تھا کہ دو سیر چاول، ڈیڑھ سیر شکر اور پاؤ بھر کالی مرچوں کی ضرورت ہے جواس کا معمول کھا جائے گا۔ یہ تمام چیزیں حافظ صاحب کی چادر میں بندھی تھیں۔ دیر تک حافظ حسین دین معلوم نہیں کس زبان میں پڑھتا رہا۔ مگر اُس کے معمول کی کوئی آواز نہ آئی۔ نہ کنوئیں کا پانی اوپر چڑھا۔ حافظ نے چاول، شکر اور مرچیں کنوئیں میں پھینک دیں۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ چند لمحات سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد حافظ پر جذب کی سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ بُلند آواز میں بولا۔

’’ظفر شاہ کو کراچی لے جاؤ۔ اُس سے پانچ سو روپے لو اور گوجرانوالہ میں زمین الاٹ کرالو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے پانچ سو روپے حافظ کی خدمت میں پیش کردیے۔ اس نے یہ روپے اپنی جیب میں ڈال کر اُس سے بڑے جلال میں کہا۔

’’ظفر شاہ۔ تو یہ روپے دے کر سمجھتا ہے مجھ پر کوئی احسان کیا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے سرتا پا عجز بن کر کہا۔

’’نہیں حضور میں نے تو آپ کے ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ ‘‘

حافظ حسین دین کا لہجہ ذرا نرم ہو گیا۔

’’دیکھو سردیوں کا موسم ہے، ہمیں ایک دُھسّے کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’چلیے ابھی خرید لیتے ہیں۔ ‘‘

’’دو گھوڑے کی بوسکی کی قمیص اور ایک پمپ شو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے غلاموں کی طرح کہا۔

’’حضور آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ ‘‘

حافظ صاحب کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ پانچ سو روپے کا دُھسّہ۔ پچاس روپے کی قراقلی کی ٹوپی۔ بیس روپے کا پمپ شو۔ ظفر شاہ خوش تھا کہ اُس نے ایک پہنچے ہوئے بزرگ کی خدمت کی۔ حافظ صاحب وائٹ ہاؤس میں سو رہے تھے کہ اچانک بڑبڑانے لگے۔ ظفر شاہ فرش پر لیٹا تھا۔ اُس کی آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ چونک کر سننے لگا۔ حافظ صاحب کہہ رہے تھے

’’حکم ہوا ہے۔ ابھی ابھی حکم ہوا ہے کہ حافظ حسین دین تم دریا راوی جاؤ اوروہاں چلہ کاٹو۔ چلہ کاٹو۔ وہاں تم اپنے معمول سے بات کرسکوگے۔ ‘‘

ظفرشاہ، حافظ کو ٹیکسی میں دریائے راوی پر لے گیا۔ وہاں حافظ چھیالیس گھنٹے معلوم نہیں کیا کچھ پڑھتا رہا۔ اُس کے بعد اُس نے ایسی آواز میں جو اُس کی اپنی نہیں تھی کہا۔

’’ظفر شاہ سے تین سو روپیہ اور لو۔ اپنے بھائی کی آنکھوں کا علاج کرو۔ تم اتنے غافل کیوں ہو۔ اگر تم نے علاج نہ کرایا تو وہ بھی تمہاری طرح اندھا ہوجائے گا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے تین سو روپے اوردیدیے۔ حافط حسین دین نے اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں جس میں مسرت کی جھلک نظر آسکتی تھی۔ اور کہا

’’ڈاک خانے میں میرے بارہ سو روپے جمع ہیں۔ تم کچھ فکر نہ کرو پہلے پانچ سو اور یہ تین سو۔ کُل آٹھ سو ہوئے۔ میں تمھیں ادا کر دُوں گا۔ ‘‘

ظفر شاہ بہت متاثر ہوا۔

’’جی نہیں۔ ادائیگی کی کیا ضرورت ہے۔ آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔ ‘‘

ظفر شاہ دیر تک حافظ کی خدمت کرتا رہا۔ اس کے عوض حافظ نے چالیس دن کا چلہ کاٹا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ظفر شاہ نے ویسے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ پورا سید بن گیا ہے اور اُس کی تطہیر ہو گئی ہے مگر بعد میں اُس کو مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اپنے میں کوئی فرق نہ دیکھتا اس کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے سمجھا کہ شاید اُس نے حافظ صاحب کی خدمت پوری طرح ادا نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اُس کی اُمید برنہیں آئی۔ چنانچہ اُس نے حافظ صاحب کو روزانہ ایک مرغ کھلانا شروع کر دیا۔ باداموں کی تعداد بڑھا دی۔ دودھ کی مقدار بھی زیادہ کر دی۔ ایک دن اُس نے حافظ صاحب سے کہا۔

’’پیر صاحب۔ میرے حال پر کرم فرمائیے میری مراد کبھی توپوری ہو گی یا نہیں۔ ‘‘

حافظ حسین دین نے بڑے پیرانہ انداز میں جواب دیا

’’ہو گی۔ ضرور ہو گی۔ ہم اتنے چلے کاٹ چکے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تم سے ناراض ہیں۔ تم نے ضرور اپنی زندگی میں کوئی گناہ کیا ہو گا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔

’’حضور۔ میں نے۔ ایسا کوئی گناہ نہیں کیا جو۔ ‘‘

حافظ صاحب نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔

’’نہیں ضرور کیا ہو گا۔ ذرا سوچو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔

’’ایک مرتبہ اپنے والد صاحب کے بٹوے سے آٹھ آنے چرائے تھے۔ ‘‘

’’یہ کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں۔ اور سوچو۔ کبھی تم نے کسی لڑکی کو بُری نگاہوں سے دیکھا تھا؟‘‘

ظفر شاہ نے ہچکچاہٹ کے بعدجواب دیا۔

’’ہاں پیرو مُرشد۔ صرف ایک مرتبہ۔ ‘‘

’’کون تھی وہ لڑکی؟‘‘

’’جی میرے چچا کی۔ ‘‘

’’کہاں رہتی ہے ؟‘‘

’’جی اسی گھر میں۔ ‘‘

حافظ صاحب نے حکم دیا۔

’’بُلاؤ اُس کو۔ کیا تم اُس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی ہاں۔ ہماری منگنی قریب قریب طے ہوچکی ہے۔ ‘‘

حافظ صاحب نے بڑے پر جلال لہجے میں کہا۔

’’ظفر شاہ۔ بُلاؤ اس کو۔ تم نے مجھ سے پہلے ہی یہ بات کہہ دی ہوتی تو مجھے بیکار اتنا وقت ضائع نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘

ظفر شاہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ حافظ صاحب کا حکم ٹال نہیں سکتا تھا اور پھر اپنی ہونے والی منگیتر سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ حافظ صاحب کو ملے۔ بادلِ ناخواستہ اُوپر گیا۔ بلقیس بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔ ظفر شاہ کودیکھ کر ذرا سمٹ گئی اور کہا۔

’’آپ میرے کمرے میں کیسے آگئے۔ ‘‘

ظفر شاہ نے دبے دبے لہجے میں جواب دیا۔

’’وہ۔ جو حافظ صاحب آئے ہوئے ہیں نا۔ ‘‘

بلقین نے ناول ایک طرف رکھ دیا۔

’’ہاں ہاں۔ میں نے انھیں کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ کیا بات ہے۔ ‘‘

’’بات یہ ہے کہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

بلقیس نے حیرت کااظہار کیا۔

’’وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اُن کی توآنکھیں ہی نہیں۔ ‘‘

وہ تم سے چند باتیں کرناچاہتے ہیں۔ بڑے صاحب کشف بزرگ ہیں۔ اُن کی بات سے ممکن ہے ہم دونوں کا بھلا ہو جائے۔ ‘‘

بلقیس مسکرائی۔

’’معلوم نہیں۔ آپ اتنے ضعیف الاعتقاد کیوں ہیں۔ لیکن چلیے۔ اندھا ہی تو ہے۔ اُس سے کیا پردہ ہے۔ ‘‘

بلقیس ظفر شاہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں گئی۔ حافظ حسین دین بیٹھا چلغوزے کھا رہا تھا۔ جب اُس نے قدموں کی چاپ سُنی تو بولا

’’آ گئے ظفر شاہ۔ ‘‘

ظفر شاہ نے تعظیماً جواب دیا

’’جی ہاں حضور۔ ‘‘

’’لڑکی آئی ہے۔ ؟

’’جی ہاں‘‘

حافظ صاحب نے اپنی بے نُور آنکھوں سے بلقیس کو دیکھنے کی کوشش کی اور کہا۔

’’بیٹھ جاؤمیرے سامنے۔ ‘‘

بلقیس سامنے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’اب تمہاری مراد بر آئیگی۔ ہم لڑکی کو وظیفہ بتائیں گے۔ انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘

ظفر شاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے فوراً پھل منگوائے اور بلقیس سے کہا۔ حافظ صاحب معلوم نہیں کتنی دیر لگائیں۔ ان کی خدمت کرنا نہ بھولنا۔ ‘‘

حافظ صاحب نے کہا۔

’’دیکھو ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ آج ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ تمیں بھی خوش کردیں۔ جاؤ بازار سے چار تولے نوشادر، ایک تولہ چونا، دس تولے شنگرف اور ایک مٹی کا کُوزا لے آؤ۔ جتنااس کا وزن ہے اتنا ہی سونا بن جائے گا۔ ‘‘

ظفر شاہ بھاگا بھاگا بازار گیا۔ اور یہ چیزیں لے آیا۔ جب اپنے وائٹ ہاؤس پہنچا تو کواڑ کھلے تھے اور اس میں کوئی نہیں تھا۔ اُوپر گیا تو معلوم ہوا کہ بی بی بلقیس بھی نہیں ہے۔

سعادت حسن منٹو

چوہے دان

شوکت کوچُوہے پکڑنے میں بہت مہارت حاصل ہے۔ وہ مجھ سے کہا کرتا ہے یہ ایک فن ہے جس کو باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے اور سچ پوچھیے تو جو جو ترکیبیں شوکت کوچُوہے پکڑنے کے لیے یاد ہیں، ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کافی محنت کی ہے۔ اگر چوہے پکڑنے کا کوئی فن نہیں ہے تو اس نے اپنی ذہانت سے اسے فن بنا دیا ہے۔ اس کو آپ کوئی چوہا دکھا دیجیے، وہ فوراً آپ کو بتا دے گا کہ اس ترکیب سے وہ اتنے گھنٹوں میں پکڑا جائے گا اور اس طریقے سے اگر آپ اسے پکڑنے کی کوشش کریں تو اتنے دن لگ جائیں گے۔ چوہوں کی نسلوں اور ان کی مختلف عادات و اطوار کا شوکت بہت گہرا مطالعہ کرچکا ہے۔ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس ذات کے چوہے جلدی پھنس جاتے ہیں اور کِس نسل کے چوہے بڑی مشکل کے بعد قابو میں آتے ہیں اور پھر ہر قسم کے چوہوں کو پھانسنے کی ایک سو ایک ترکیب شوکت کو معلوم ہے۔ موٹے موٹے اصول اس نے ایک روز مجھے بتائے تھے کہ چھوٹی چھوٹی چوہیاں اگر پکڑنا ہوں تو ہمیشہ نیا چوہے دان استعمال کرنا چاہیے۔ چوہے دان کی ساخت کسی قسم کی بھی ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں خیال اس بات کا رکھنا چاہیے کہ چوہے دان ایسی جگہ پر نہ رکھا جائے جہاں آپ نے چوہیا یا چوہیاں دیکھی تھیں۔ ٹرنکوں کے پیچھے۔ الماریوں کے نیچے، کہیں بھی جہاں آپ نے چوہیا نہ دیکھی ہو۔ چوہے دان رکھ دیا جائے اور اس میں تلی ہوئی مچھلی کا چھوٹا سا ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ ٹکڑا بڑا نہ ہو۔ اگر چوہے دان کھٹ سے بند ہونیوالا ہے تو اس میں خاص طور پر بڑا ٹکرا نہیں لگانا چاہیے کہ چوہیا اندر آکر اس ٹکرے کا کچھ حصہ کتر کر باہر چلی جائے گی۔ ٹکڑا چھوٹا ہو گا تو وہ اسے اتارنے کی کوشش کرے گی اور یوں جھٹ پٹ پنجرے میں قید ہو جائے گی۔ ایک چوہیا پکڑنے کے بعد چوہے دان کو گرم پانی سے دھو لینا چاہیے۔ اگر آپ اسے اچھی طرح نہ دھوئیں گے تو پہلی چوہیا کی بُو اس میں رہ جائے گی جو دوسری چوہیوں کے لیے خطرے کے الارم کا کام دے گی۔ اس لیے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ ہر چوہے یا چوہیا کو پکڑنے کے بعد چوہے دان کو دھو لینا چاہیے۔ اگر گھر میں زیادہ چوہے چوہیاں ہوں اور ان سب کو پکڑنا ہو تو ایک چوہے دان کام نہیں دے گا۔ تین چار چوہے دان پاس رکھنے چاہئیں جو بدل بدل کر کام میں لائے جائیں چوہے کی ذات بڑی سیانی ہوتی ہے، اگر ایک ہی چوہے دان گھر میں رکھا جائے گا تو چوہے اس سے خوف کھانا شروع کردینگے اور اس کے نزدیک تک نہیں آئیں گے۔ بعض اوقات ان تمام باتوں کا خیال رکھنے پر بھی چوہے چوہیاں قابو میں نہیں آتیں۔ اس کی بہت سی وجہیں ہوتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ سے پہلے جو مکان میں رہتا تھا اس نے اسی قسم کا چوہے دان استعمال کیا تھا جیسا کہ آپ کررہے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے چوہے پکڑ کر باہر گلی یا بازار میں چھوڑ دیا ہو اور وہ چند دنوں کے بعد پھر واپس گھر آگیا ہے۔ ایسے چوہے جو ایک بار چوہے دان میں پھنس کر پھر اپنی جگہ پر واپس آجائیں اس قدر ہوشیار ہو جاتے ہیں کہ بڑی مشکل سے قابو میں آتے ہیں۔ یہ چوہے دوسرے چوہوں کو بھی خبردار کردیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں اور چوہے بڑے اطمینان سے اِدھر اُدھر دوڑتے رہتے ہیں اور آپ کا اور آپکے چوہے دان کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔ چوہے کے بِل کے پاس تو چوہے دان ہرگز ہرگز نہیں رکھنا چاہئے، اس لیے کہ اتنی بڑی چیز اپنے گھر کے پاس دیکھ کر جو پہلے کبھی نہیں ہوتی تھی چوہا فوراً چوکنا ہو جاتا ہے اور اس کو دال میں کالا کالا نظرآجاتا ہے۔ جب کسی حیلے سے چوہے نہ پکڑے جائیں تو گردوپیش کی فضا کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آس پاس کے لوگ کیسے ہیں، کس قسم کی چیزیں کھاتے ہیں اور ان کے گھروں کے چوہے کس چیز پر جلدی گرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں معلوم کرکے آپکو تجربے کرنا پڑیں گے اور ایسی ترکیب ڈھونڈنا پڑے گی جسکے ذریعہ سے آپ اپنے گھر کے چوہے گرفتار کرسکیں۔ شوکت چوہے پکڑنے کے فن پر ایک طویل لکچر دے سکتا ہے۔ کتاب لکھ سکتا ہے مگر چونکہ وہ طبعاً خاموشی پسند ہے اس لیے اس کے متعلق زیادہ بات چیت نہیں کرتا۔ صرف مجھے معلوم ہے کہ وہ اس فن میں کافی مہارت رکھتا ہے، محلے کے دوسرے آدمیوں کو اس کی مطلق خبر نہیں، البتہ اس کے پڑوسی اس کے یہاں سے کبھی کبھی چوہے دان عاریتاً ضرور منگایا کرتے ہیں اور اس نے اس غرض کے لیے ایک پرانا چوہے دان مخصوص کررکھا ہے۔ پچھلی برسات کی بات ہے۔ میں شوکت کے یہاں بیٹھا تھا کہ اس کے پڑوسی خواجہ احمد صادق صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کا بڑا لڑکا ارشد صادق آیا، میں نے جب اٹھ کر دروازہ کھولا تو اس نے کہنا شروع کیا۔

’’ان کم بخت چوہوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ابا جی سے بار ہا کہہ چکا ہوں کہ زہر منگوائیے ان کو مارنے کے لیے مگر انھیں اپنے کاموں ہی سے فرصت نہیں ملتی اور یہاں ہر روز میری کتابوں کا ستیاناس ہورہا ہے۔ آج الماری کھولی تو یہ بڑا چوہا میرے سر پر آن گرا۔ تمہیں کیا بتاؤں ان چوہوں نے مجھے کتنا تنگ کیا ہے۔ کسی کتاب کی جلد سلامت نہیں۔ بعض بڑی کتابوں کی جلد تو اس صفائی سے ان کم بختوں نے کتری ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی نے آری سے کاٹ دی ہے۔ ‘‘

میں ارشد کو شوکت کے پاس لے گیا اور کہا۔

’’ارشد صاحب تشریف لائے ہیں۔ چوہوں کی شکایت لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

ارشد کرسی پر بیٹھ گیا اور پیشانی پر سے پسینہ پونچھ کر کہنے لگا۔

’’شوکت صاحب، میں کیا عرض کروں۔ ابھی الماری کی تمام کتابیں میں باہر نکال کر آیا ہوں۔ ایک بھی ان میں ایسی نہیں جس پرچوہوں نے اپنے دانت تیز نہ کیے ہوں۔ باورچی خانہ موجود ہے، دوسری الماریاں ہیں جن میں ہر وقت کھانے پینے کی چیزیں پڑی رہتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ میری کتابیں کُترنے میں ان کو کیا مزا آتا ہے۔ یعنی کاغذ اور دفنی بھلا کوئی غذا ہے۔ اجی صاحب ایک انبار کُترے ہوئے گتے اور دُھنکے ہوئے کاغذوں کا میں نے الماری میں سے نکالا ہے۔ ‘‘

شوکت مسکرایا۔

’’ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے گھر میں چوہے ہر روز سیندھ لگاتے پھریں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

ارشد نے اس مذاق سے لُطف نہ اُٹھایا اس لیے کہ وہ واقعی بہت پریشان تھا۔

’’شوکت صاحب، وہ معمولی چوہے تھوڑے ہیں۔ موٹے موٹے سنڈے ہیں جو کھلے بندوں پھرتے رہتے ہیں۔ میرے پرسرپر ایک آن پڑا۔ خدا کی قسم ابھی تک درد ہورہا ہے۔ ‘‘

شوکت اور میں دونوں کِھلکِھلا کر ہنس پڑے۔ ارشد بھی مسکرا دیا۔

’’آپ تو دل لگی کررہے ہیں اور یہاں غصہ کے مارے میرا بُرا حال ہورہا ہے۔ ‘‘

شوکت نے اٹھ کر ارشد کو سگرٹ پیش کیا۔

’’اپنے دل کا غبار اس کے دھوئیں کے ساتھ باہر نکالیے اور مجھے بتائیے کہ میں آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ ‘‘

ارشد نے سگرٹ سلگایا اور کہا۔

’’میں آپ سے چوہے دان مانگنے آیا تھا۔ امی جان نے مجھ سے کہا تھا کہ شوکت کے گھر میں میں نے دو تین پڑے دیکھے ہیں۔ ‘‘

شوکت نے فوراً نوکر کو آواز دی اور اُس ے کہا۔

’’وہ چوہے دان جو تم نے کل گرم پانی سے دھوکر خوب صاف کیا تھا ارشد صاحب کے گھر دے آؤ اور دیکھو ان کے نوکر سے کہنا کہ اس الماری کے نیچے اس کونہ میں رکھے جہاں ارشد صاحب اپنی کتابیں رکھتے ہیں۔ اس الماری سے دور بھی نہیں۔ اس میں مچھلی یا تیل میں تلی ہوئی کسی چیز کا ٹکڑا لگا کر رکھ دیا جائے۔ ‘‘

پھر ارشد سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’آپ بھی اچھی طرح سُن لیجیے گا۔ بازار سے اگرپکوڑے مل جائیں تو ایک پکوڑا کافی رہے گا۔ اور جب چوہا پکڑا جائے تو خدا کے لیے اسے میرے گھر کے پاس نہ چھوڑ دیجیے گا اور بہت جگہیں آپکو مل جائیں گی جہاں سے وہ پھر واپس نہ آسکے۔ ‘‘

دیر تک ارشد ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ شوکت اسکو مزید ہدایات دیتا رہا۔ جب نوکر چوہے دان اس کے گھر پہنچا کر واپس آگیا تو اس نے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ اس واقعہ کے چار روز بعد ارشد میرے گھر آیا۔ میں اور وہ چونکہ اکٹھے کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ اسی لیے وہ میرے بے تکلف دوست ہیں، شوکت سے اس کا تعارف میں نے ہی کرایا تھا۔ آتے ہی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے مجھ سے کوئی راز کی بات تخلیہ میں کہنا چاہتا ہے۔ میں نے پوچھا۔

’’کیا بات ہے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘

’’میں تمہیں ایک بڑی دلچسپ بات سنانے آیا ہوں مگر یہاں نہیں سناؤں گا تم باہر چلو۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور باہر لے گیا۔ راستے میں اس نے مجھے اپنی داستان سنانا شروع کی۔

’’عجیب وغریب کہانی ہے جو میں تمہیں سنانے والا ہوں۔ بخدا ایسی بات ہُوئی کہ میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ یعنی کسے یقین تھا کہ اتنی ضدی اور نفاست پسند لڑکی ایک چوہے دان کے ذریعہ سے میرے قابو میں آجائے گی۔ اُسی چوہے د ان کے ذریعہ سے جو اس روز تمہارے سامنے میں نے شوکت سے لیا تھا۔ ‘‘

میں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔

’’کون سی لڑکی اُس چوہے دان میں پھنس گئی۔ لڑکی نہ ہوئی چوہیا ہو گئی۔ آخر بتاؤ تو سہی لڑکی کون ہے۔ ‘‘

’’اماں وہی سلیمہ جس کی نفاست پسندیوں کی بڑی دھوم ہے اور جس کی ضدی طبیعت کے بڑے چرچے ہیں۔ ‘‘

میری حیرت اور زیادہ بڑھ گئی۔

’’سلیمہ۔ جھوٹ؟‘‘

’’خدا کی قسم۔ جھوٹ بولنے والے پر لعنت۔ اور بھلا میں تم سے جھوٹ کیوں کہنے لگا۔ یہی سلیمہ، شوکت کے دئے ہُوئے چوہے دان کے ذریعہ سے میرے قابو میں آگئی اور بخدا یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ایسی آسانی سے پھنس جائے گی۔ ‘‘

میں نے پھر اس سے حیرت بھرے لہجہ میں کہا۔

’’لیکن یہ ہوا کیوں کر۔ تم مجھے پوری داستان سناؤ توکچھ پتا چلے۔ چوہے دانوں سے بھی کبھی کسی نے لڑکیاں پھانسی ہیں۔ بڑی بے تُکی سی بات معلوم ہوتی ہے مجھے۔ ‘‘

میں سلیمہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ہمارے یہاں اس کا اکثر آنا جانا ہے۔ وہ صرف نفاست پسند ہی نہیں بلکہ بڑی ذہین لڑکی ہے۔ انگریزی زبان پر اسے خوب عبورحاصل ہے۔ تین چار مرتبہ اُس سے مجھے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا تو میں نے معلوم کیا کہ ادب اور شعر کے متعلق اس کی معلومات بہت وسیع ہیں۔ مصور بھی ہے، پیانو بجانے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔ اس کی ضدی اور نفاست پسند طبیعت کے بارے میں بھی چونکہ مجھے بہت کچھ معلوم ہے، اسی لیے مجھے ارشد کی یہ بات سن کر سخت تعجب ہوا۔ وہ تو کسی کو خاطر ہی میں لانیوالی نہیں۔ ارشد جیسے چُغد کو اُس نے کیسے پسند کرلیا۔ یہ معّمہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ارشد بے حد خوش تھا۔ اس نے میری طرف فتحمند نظروں سے دیکھا اور کہا۔

’’میں تمہیں ساراواقعہ سنا دیتا ہوں۔ اس کے بعد کسی قسم کی وضاحت کی ضرورت نہ رہے گی۔ قصّہ یہ ہے کہ پرسوں رات کو امی جان اور ابا جی اور دوسرے لوگ سب سینما دیکھنے چلے گئے۔ میں گھر میں اکیلا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ آرام کرسی میں ٹانگیں پھیلائے لیٹا یہی سوچ رہا تھا کہ ایک موٹا سا چوہا مجھے نظر آیا۔ اس کو دیکھنا تھا کہ مارے غصہ کے میرا خون کھولنے لگا۔ فوراً اٹھا اور اس کو پکڑنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ اسے ہاتھ سے پکڑنا تو ظاہر ہے۔ بالکل محال تھا، میں کسی طریقے سے اس کو مار بھی نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ کمرے میں بے شمار فرنیچر اور ٹرنک وغیرہ پڑے تھے۔ میں نے شوکت کے دیئے ہُوئے چوہے دان کا خیال کیا جس سے آٹھ چوہے ہم لوگ پکڑ چکے تھے مگر شوکت کی ہدایات کے مطابق اس کو گرم پانی سے دھونا ضروری تھا۔ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں اور وقت بھی کافی تھا، چنانچہ میں نے خود ہی سما وار میں پانی گرم کیا اور چوہے دان کو دھونا شروع کردیا۔ ابھی میں نے لوٹے سے گرم پانی کی دھار اس کے آہنی تاروں پر ڈالی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سلیمہ کھڑی ہے۔ میں نے کہا۔

’’آئیے، آئیے۔ ‘‘

وہ اندر چلی آئی اور کہنے لگی۔

’’کیا کررہے ہیں آپ؟‘‘

میں نے جھینپ کر جواب دیا۔

’’جی چوہے دان دھو رہا ہوں۔ ‘‘

وہ بے اختیار ہنس پڑی۔

’’چوہے دان دھو رہے ہیں۔ یہ صفائی آخر کس لیے ہورہی ہے۔ کوئی بڑا چوہا انسپکشن کے لیے تو نہیں آرہا۔ ‘‘

یہ سُن کر میری جھینپ دُور ہو گئی اور میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔

’’جی ہاں۔ ایک بہت بڑا چوہا انسپکشن کے لیے آنا چاہتا ہے یہ صفائی اسی سلسلے میں ہورہی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد خاموش ہو گیا۔ اس پر میں نے اس سے کہا۔

’’سناتے جاؤ۔ رُکو نہیں۔ تمہاری داستان بہت دلچسپ ہے۔ ہاں تو پھر سلیمہ نے کیا کہا۔

’’کچھ نہیں۔ میری بات سن کروہ صحن ہی میں چوکی پر بیٹھ گئی اور کہنے۔

’’آپ صفائی کیجیے۔ اس صفائی کی انسپکشن میں کروں گی۔ ہاں یہ تو بتائیے آج یہ سب لوگ کہاں گئے ہیں۔ ‘‘

میں نے جواب دیا

’’سینما گئے ہیں، میں بے کار بیٹھا تھا کہ ایک چوہا اپنے کمرے میں مجھے نظر آیا۔ میں کیا عرض کروں ہمارے گھر میں کس طرح بڑے بڑے موٹے سنڈے چوہے سیندھ مارتے پھرتے ہیں۔ میری کتابوں کا تو انھوں نے ستیاناس کردیا ہے۔ اب ان کے ظلم و ستم سے میرے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ چوہے دان لے آیا ہوں اس سے ہر روز دو تین چوہے پکڑتا ہوں اور ان کو کالے پانی بھیج دیتا ہوں۔ ‘‘

سلیمہ نے میری گفتگو میں دلچسپی ظاہر کی۔

’’خوب، خوب۔ لیکن یہ تو بتائیے کالا پانی یہاں سے کتنی دور ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت دور نہیں۔ کوتوالی پاس ہی جو گندہ نالا بہتا ہے اسی کو فی الحال میں نے کالا پانی بنا لیا ہے۔ چوہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ اس موری کا پانی کالا ہی ہے۔ ‘‘

ہم دونوں خوب ہنسے۔ پھر میں نے لوٹا اٹھایا اور چوہے دان کو برش کے ساتھ دھونا شروع کردیا۔ جب چھینٹے اڑے تو میں نے سلیمہ سے کہا۔

’’آپ یہاں سے اُٹھ جائیے، چھینٹے اُڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی یہ میری بڑی بدتمیزی ہے کہ میں آپ کے سامنے ایسی غلیظ چیز صاف کرنے بیٹھ گیا ہوں۔ ‘‘

اس نے فوراً ہی کہا۔ آپ تکلف نہ کیجیے اور اپنا کام کرتے چلے جائیے۔ چھینٹوں کے متعلق بھی آپ کوئی فکر نہ کریں۔ ‘‘

جب میں نے چوہے دان اچھی طرح دھو کر صاف کرلیا تو سلیمہ نے پوچھا۔

’’اچھا، اب آپ یہ بتائیے کہ اس کو دھونے کی کیا ضرورت تھی، بغیر دھوئے کیا آپ اس ظالم چوہے کو نہیں پکڑ سکتے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جی نہیں۔ اس سے پہلے چونکہ اس چوہے دان میں ہم ایک چوہا پکڑ چکے ہیں اور اُس کی بو اس میں ابھی تک باقی ہے اس لیے دھونا ضروری ہے۔ گرم پانی سے پہلے چوہے کی بُو غائب ہو جائے گی۔ اس لیے دوسرا چوہا آسانی کے ساتھ پھنس جائے گا۔ ‘‘

میری یہ بات سن کر سلیمہ نے بالکل بچوں کی طرح کہا۔

’’اگر چوہے دان میں چوہے کی بو رہ جائے تو دوسرا چوہا نہیں آتا۔ ‘‘

میں نے اسکول ماسٹروں کا سا انداز اختیار کرلیا۔

’’بالکل نہیں، اس لیے کہ چوہوں کی ناک بڑی تیز ہوتی ہے۔ آپ نے سنا نہیں عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی کی تو چوہے کی ناک ہے۔ یعنی اس کی قوتِ شامہّ بڑی تیز ہے۔ سمجھیں آپ؟‘‘

سلیمہ نے میری طرف جب دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے ایک بہت بڑی بات اس سے کہہ دی ہے جس کو سن کر وہ بہت مرعوب ہو گئی ہے۔ اس کی نگاہوں میں مجھے اپنے متعلق قدرو منزلت کی جھلک نظر آئی۔ اس سے مجھے شہ مل گئی۔ چنانچہ وہ تمام باتیں جو میں نے شوکت سے اس روز سُنی تھیں۔ ایک لیکچر کی صورت میں دہرانا شروع کردیں اور وہ۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔

’’یہ سب مجھے افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ تم جھوٹ کہتے ہو۔ ‘‘

’’تم بھی عجیب قسم کے منکر ہو۔ ‘‘

ارشد نے بگڑ کر کہا۔

’’بھئی قسم خدا کی، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تمہیں حیرت ضرور ہو گی، اس لیے کہ میں خود بہت متحیر ہُوں۔ سلیمہ جیسی پڑھی لکھی اور ذہین لڑکی ایسی فضول باتوں سے متاثر ہو گئی۔ یہ بات مجھے ہمیشہ متحیرّ رکھے گی، مگر بھئی حقیقت سے تو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس نے میری اوٹ پٹانگ باتیں بڑے غور سے سنیں جیسے اُسے دنیا کا کوئی راز نہفتہ بتا رہا ہُوں۔ واللہ یہ ذہین لڑکیاں بھی پرلے درجے کی سادہ لوح ہوتی ہیں۔ سادہ لوح نہیں کہنا چاہیے۔ خدا معلوم کیا ہوتی ہے۔ تم اُن سے کوئی عقل کی بات کہوتو بس بگڑ جائیں گی یہ سمجھیں گی کہ ہم نے اُن کی عقل و دانش پر حملہ کردیا ہے اور جب اُن سے کوئی معمولی سی بات کہو جس سے ذہانت کا دُور سے تعلق بھی نہ ہو تو وہ یہ سمجھیں گی کہ اُن کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تم کسی فلسفہ دان اور بال کی کھال اُتارنے والی عورت سے کہوکہ خدا ایک ہے تو وہ نکتہ چینی شروع کردے گی۔ اگر اُس سے یہ کہو دیکھو میں نے تمہارے سامنے ماچس کی ڈبیا سے یہ ایک تیلی نکالی ہے، یہ ہُوئی ایک تیلی، اب میں دوسری نکالتا ہُوں۔ میز پر ان تیلیوں کو پاس پاس رکھ کر جب تم اس سے یہ کہو گے، دیکھو، اب یہ دو تیلیاں ہو گئی ہیں تو وہ اس قدر خوش ہو گی کہ اٹھ کر تمہیں چُومنا شروع کردے گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد خوب ہنسا۔ مجھے بھی ہنسنا پڑا اس لیے کہ بات ہی ہنسی پیدا کرنے والی تھی۔ جب ہم دونوں کی ہنسی کم ہوئی میں نے اُس سے کہا۔

’’اب تم نے اپنی بقایا کہانی سناؤ اور ہنسی مذاق کو چھوڑو۔ ‘‘

’’ہنسی مذاق میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں بھائی‘‘

ارشد نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’میں تو اس سے ہنسی مذاق ہی میں باتیں کررہا تھا مگر وہ بڑی سنجیدگی سے سن رہی تھی۔ ہاں تو جب میں نے چوہے پکڑنے کے اصول اس کو بتا دیئے تو اور زیادہ بچہ بن کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’ارشد صاحب آپ تو فوراً چوہے پکڑ لیتے ہوں گے؟‘‘

میں نے بڑے فخر کے ساتھ جواب دیا۔

’’جی ہاں، کیوں نہیں‘‘

اس پر سلیمہ نے بڑے اشتیاق کے ساتھ کہا۔

’’کیا آپ اس چوہے کو جو آپ نے ابھی ابھی دیکھا تھا میرے سامنے پکڑ سکتے ہیں؟‘‘

اجی یہ بھی کوئی مشکل بات ہے، یوں چٹکیوں میں اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

سلیمہ اُٹھ کھڑی ہُوئی۔

’’تو چلیے، میرے سامنے اسے گرفتار کیجیے۔ میں سمجھتی ہوں آپ کبھی اس چوہے کو پکڑ نہیں سکیں گے۔ ‘‘

میں یہ سُن کر یونہی مسکرا دیا۔

’’آپ غلط سمجھتی ہیں۔ پندرہ نہیں تو بیس منٹ میں وہ چوہا اس چوہے دان میں ہو گا۔ اور آپ کی نظروں کے سامنے بشرطیکہ آپ اتنے عرصہ تک انتظار کرسکیں۔ ‘‘

سلیمہ نے کہا۔

’’میں ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھنے کے لیے تیار ہوں مگر میں آپ سے پھر کہتی ہوں کہ آپ ناکام رہیں گے؟۔ وقت مقرر کرکے آپ چوہے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں؟‘‘

۔ میں اس وقت عجیب و غریب موڈ میں تھا۔ اگر کوئی مجھ سے یہ کہتا کہ تم خدا دکھا سکتے ہو تو میں فوراً کہتا، ہاں دکھا سکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے بڑے فخریہ لہجہ میں سلیمہ سے کہا۔

’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ میں ابھی آپکو وہ چوہا پکڑ کے دکھا دیتا ہوں مگر شرط باندھیے۔ ‘‘

اس نے کہا میں ہر شرط باندھنے کے لیے تیار ہُوں، اس لیے کہ ہار آپ ہی کی ہو گی۔ اس پر خدا معلوم مجھ میں کہاں سے جرأت آگئی جو میں نے اس سے کہا۔

’’تو یہ وعدہ کیجیے کہ اگر میں نے چوہا پکڑ لیا تو آپ سے جو چیز طلب کروں گا آپ بخوشی دے دیں گی۔ ‘‘

سلیمہ نے جواب دیا۔

’’مجھے منظور ہے۔ ‘‘

چنانچہ میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چوہے دان میں صبح کی تلی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا لگایا اور اس کو اپنی کتابوں کی الماری سے دور صوفے کے پاس رکھ دیا۔ شرط ورط کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن میں دل میں یہ دعا ضرور مانگ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی چوہا ضرور پھنس جائے تاکہ میری سرخروئی ہو۔ نہ جانے کس جذبہ کے ماتحت میں نے گپ ہانک دی۔ بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ شرمندہ ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ایک بار میرے جی میںآئی کہ اس سے کہہ دوں، میں تو آپ سے یونہی مذاق کررہا تھا۔ چوہا پندرہ منٹ میں کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کا ستیہ گرہ ہی ہوتا تو اُسے جب چاہے پکڑ لیتے مگر یہ تو چوہا ہے۔ آپ خود ہی غور فرمائیں۔ مگر میں اس سے یہ نہ کہہ سکا۔ اس لیے کہ اس میں میری شکست تھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگایا اور مجھ سے پوچھا۔

’’کیا خیال ہے تمہارا اس داستان کے متعلق؟‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت دلچسپ ہے، مگر اس کا دلچسپ ترین حصّہ تو ابھی باقی ہے۔ جلدی جلدی وہ بھی سنا دو۔ ‘‘

’’کیا پوچھتے ہو دوست۔ وہ پندرہ منٹ جو میں نے انتظار میں گزارے ساری عمر مجھے یاد رہیں گے۔ میں اور سلیمہ کمرے کے باہر کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ وہ خدا معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ مگر میری بری حالت تھی۔ سلیمہ نے میری جیب گھڑی اپنی ران پرر کھی ہوئی تھی۔ میں بار بار جھک کر اس میں وقت دیکھ رہا تھا۔ دس منٹ گزر گئے مگر پاس والے کمرہ میں چوہے دان بند ہونے کی کھٹ نہ سنائی دی۔ گیارہ منٹ گزر گئے۔ کوئی آواز نہ آئی۔ ساڑھے گیارہ منٹ ہو گئے۔ خاموشی طاری رہی۔ بارہ منٹ گزرنے پر بھی کچھ نہ ہُوا۔ سوا بارہ منٹ ہو گئے، ساڑھے بارہ ہُوئے کہ دفعتاً کھٹ کی آواز بُلند ہُوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ چوہے دان میرے سینے میں بند ہُوا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے میرے دل کی دھڑکن بند سی ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی ہم دونوں اُٹھے۔ دوڑ کر کمرے میں گئے اور چوہے دان کے تاروں میں سے جب مجھے ایک موٹے چوہے کی تھوتھنی اور اس کی لمبی لمبی مونچھیں نظر آئیں تو میں خوشی سے اچھل پڑا۔ پاس ہی سلیمہ کھڑی تھی، اس کی طرف میں نے فتح مند نظروں سے دیکھا اور جھٹ پٹ اس کے حیرت سے کھلے ہُوئے ہونٹوں کو چُوم لیا۔ یہ سب کچھ اس قدرجلدی میں ہوا کہ سلیمہ چند لمحات تک بالکل خاموش رہی، لیکن اس کے بعد اس نے خفگی آمیز لہجہ میں مجھ سے کہا

’’یہ کیا بیہودگی ہے؟‘‘

اُس وقت خدا معلوم میں کیسے موڈ میں تھاکہ ایک بار میں نے پھر اسی افراتفری میں اس کا بوسہ لے لیا اور کہا۔

’’اجی مولانا آپ نے شرط ہاری ہے۔ ‘‘

اور۔ تیسری مرتبہ اس نے اپنے ہونٹ بوسے کے لیے خود پیش کردیے۔ جس طرح چوہا ہاتھ آیا اسی طرح سلیمہ بھی ہاتھ آگئی، مگر بھئی میں شوکت کا بہت ممنون ہُوں۔ اگر میں نے چوہے دان کو گرم پانی سے نہ دھویا ہوتا توچوہا کبھی نہ پھنستا۔ ‘‘

یہ داستان سُن کر مجھے بہت لطف آیا۔ لیکن افسوس بھی ہُوا، اس لیے کہ شوکت اس لڑکی سلیمہ کی محبت میں بُری طرح گرفتار ہے۔

سعادت حسن منٹو

چوری

سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کربیٹھ گئے۔ اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے تھا کہنے لگے

’’بابا جی کوئی کہانی سنائیے؟‘‘

مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔

’’کہانی!۔ میں خود ایک کہانی ہُوں مگر۔ ‘‘

اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ ہی میں بڑبڑائے۔ شاید وہ اس جملے کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جن کی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ فلسفیانہ نکات حل کرسکیں۔ لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر آتشیں شکم کو پُر کررہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کررہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب اُلٹ اُلٹ کر حیرت میں سربُلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کرکہا۔

’’کہانی۔ ہرروز کہانی!۔ کل سناؤں گا۔ ‘‘

لڑکوں کے تمتماتے ہُوئے چہروں پر افسردگی چھاگئی۔ ناامیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے۔

’’آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہو گا۔ ‘‘

یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی بہ نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا الاؤ کے قریب سر ک کر بلند آواز میں بولا۔ مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں۔ کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں ہے جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جایا کرتا تھا۔ ‘‘

’’درست!۔ میں بھول گیا تھا۔ ‘‘

بوڑھے آدمی نے یہ کہہ کر اپنا سر جھکا لیا۔ جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کرکے مسکرایا۔

’’میرے بچے! مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کردو۔ مگر میں کون سی کہانی سُناؤں؟۔ ٹھہرو۔ مجھے یاد کرلینے دو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ سر جُھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ اسے جِن اور پریوں کی لایعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ بچوں کو ایسی کہانیاں سُنایا کرتا تھا۔ جو ان کے دل و دماغ کی اصلاح کرسکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے بچپن میں سُنے تھے۔ یا کتابوں میں پڑھے تھے۔ مگر اس وقت وہ اپنے بربط پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔ لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگے۔ غالباً اس لڑکے کی بابت جسے کتاب چُرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔

’’ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چُرالی تھی۔ مگر اسے سزا ذرا نہ ملی۔ ‘‘

’’کتاب چُرا لی تھی۔ ‘‘

ان چار لفظوں نے جوبلند آواز میں ادا کیے گئے تھے۔ بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعہ کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے بُھولی بسری داستان کو انگڑائیاں لیتے پایا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہُوئی۔ مگر وہیں غرق ہو گئی۔ اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اس کے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا۔ کہ وہ کسی واقعہ کو دوبارہ یاد کرکے بہت تکلیف محسوس کررہا ہے۔ الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔ دفعتاً بوڑھے نے آخری ارادہ کرتے ہوئے کہا:

’’بچو! آج میں اپنی کہانی سُناؤں گا۔ ‘‘

لڑکے فوراً اپنی باتیں چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ الاؤ کی چٹختی ہوئی لکڑیاں ایک شورکے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو گئیں۔ ایک لمحہ کے لیے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔

’’بابا جی اپنی کہانی سنائیں گے؟‘‘

ایک لڑکے نے خوش ہوکرکہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔

’’ہاں، اپنی کہانی۔ ‘‘

یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہُوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکوں سے پھرمخاطب ہُوا۔

’’میں آج تمہیں اپنی پہلی چوری کی داستان سُناؤں گا۔ ‘‘

لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ انھیں اِس بات کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کہ بابا جی کسی زمانہ میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔ بابا جی جو ہر وقت انھیں بُرے کاموں سے بچنے کے لیے نصیحت کیا کرتے ہیں۔ لڑکا جو اِن میں دلیر تھا۔ اپنی حیرت نہ چُھپا سکا۔

’’پر کیا آپ نے واقعی چوری کی؟‘‘

’’واقعی!‘‘

’’آپ اُس وقت کس جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟‘‘

’’نویں میں۔ ‘‘

یہ سُن کر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پارہا تھا وہ اس سے عمرمیں دوگنا بڑا تھا۔ اس کی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اس عمر کا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔ اس کی عقل اس معمہ کو حل نہ کرسکی۔ چنانچہ اس نے پھر سوا ل کیا۔

’’آپ نے چوری کیوں کی؟‘‘

اس مشکل سوال نے بڈھے کو تھوڑی دیر کے لیے گھبرا دیا۔ آخر وہ اس کا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اس کا جواب یہی ہوسکتا تھا۔

’’اس لیے کہ اس وقت اس کے دماغ میں یہی خیال آیا۔ ‘‘

اس نے دل میں یہی جواب سوچا۔ مگر اس نے مطمئن نہ ہو کر یہ بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کردے۔

’’اس کا جواب میری کہانی ہے۔ جو میں اب تمہیں سنانے والا ہوں۔ ‘‘

’’سُنائیے؟‘‘

لڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کے لیے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے۔ جو الاؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کررہا تھا۔ اور جیسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔ بڈھا کچھ عرصے تک اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا۔ پھر اس بُھولے ہوئے واقعہ کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کرکے بولا:۔

’’ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی میں سب سے بُرا فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ رک گیا۔ اس کی آنکھیں جو ہمیشہ چمکتی رہتی تھیں۔ دُھندلی پڑ گئیں۔ اس کے چہرے کی تبدیلی سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہُوئے زبردست ذہنی تکلیف کا سامنا کررہا ہے۔ چند لمحات کے توقف کے بعد وہ پھر بولا:۔

’’سب سے مکروہ فعل کتاب کی چوری ہے۔ یہ میں نے ایک کتب فروش کی دکان سے چُرائی۔ یہ اس زمانہ کا ذکر ہے۔ جب میں نویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا۔ قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمہیں کہانی سننے کا شوق ہے مجھے افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ دوستوں سے مانگ کر یا خود خرید کر میں ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور پڑھا کرتا تھا۔ وہ کتابیں عموماً عشق و محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہُوا کرتے تھے۔ یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا۔ والدین کو اس بات کا علم نہ تھا۔ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ مجھے ایسا ہرگز ہرگز نہ کرنے دیتے۔ اس لیے کہ اس قسم کی کتابیں اسکول کے لڑکے کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میں ان کے مہلک نقصان سے غافل تھا۔ چنانچہ مجھے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔ میں نے چوری کی اور پکڑا گیا۔ ‘‘

ایک لڑکے نے حیرت زدہ ہو کرکہا۔

’’آپ پکڑے گئے؟‘‘

’’ہاں پکڑا گیا۔ چونکہ میرے والدین اس واقعہ سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ عادت پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے ہیں انھیں جوڑ جوڑ کر بازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کردیتا۔ اسکول کی پڑھائی سے رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ ہر وقت میرے دل میں یہی خیال سمایا رہتا کہ فلاں کتاب جو فلاں ناول نویس نے لکھی ہے ضرور پڑھنی چاہیے۔ یا فلاں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا جو ذخیرہ موجود ہے۔ ایک نظر ضرور دیکھنا چاہیے۔ شوق کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی ہے۔ اس حالت میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ یا کیا کررہا ہے۔ اس وقت وہ بے عقل بچے کے مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش کرنے یا شوق پورا کرنے کے لیے جلتی ہوئی آگ میں بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اس کا ہاتھ جلا دے گی۔ ٹھیک یہی حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بغیر سمجھے بُوجھے بُری سے بُری حرکت کربیٹھتا ہے مگر میں نے عقل کا مالک ہوتے ہُوئے چوری ایسے مکروہ جُرم کا ارتکاب کیا۔ یہ آنکھوں کی موجودگی میں میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔ میں ہرگز ایسا کام نہ کرتا۔ اگر میری عادت مجھے مجبور نہ کرتی۔ ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے۔ جو وقتاً فوقتاً اسے بُرے کاموں پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب آیا جبکہ سوچنے کے لیے میرے پاس بہت کم وقت تھا۔ خیر‘‘

لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیں گاڑے ان کی داستان سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتا دیکھ کر جب کہ اصل مقصد بیان کیا جانے والا تھا۔ وہ بڑی بے قراری سے بقایا تفصیل کا انتظار کرنے لگے۔

’’مسعود بیٹا! یہ سامنے والا دروازہ تو بند کردینا۔ سرد ہوا آرہی ہے۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنا کمبل گھٹنوں پرڈال لیا۔ مسعود،

’’اچھا بابا جی۔ ‘‘

کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

’’ہاں تو ایک دن جبکہ والد گھر سے باہر تھے۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنی داستان کا بقایا حصہ شروع کیا۔

’’مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا۔ اور وہ کتاب جو میں ان دنوں پڑھ رہا تھا ختم ہونے کے قریب تھی۔ اس لیے میرے جی میںآئی کہ چلو اس کتب فروش تک ہو آئیں۔ جس کے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی تھیں۔ میری جیب میں اس وقت اتنے پیسے موجود تھے۔ جو ایک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کے لیے کافی ہوں۔ چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب فروش کی دکان پر گیا۔ یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت سی اچھی اچھی ناولیں موجود رہتی تھیں۔ مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر تختے پر رکھا تھا۔ ان کتابوں کے رنگ برنگ سرِورق دیکھ کر میری طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا۔ دل میں اس خواہش نے گدگدی کی کہ وہ تمام میری ہو جائیں۔ میں دکاندار سے اجازت لے کر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر کتاب کے شوخ رنگ سرورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہُوئی تھی۔

’’ناممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی طاری نہ کردے۔ ‘‘

’’مصور اسرار کا لاثانی شاہکار۔ ‘‘

’’تمثیل!ہیجان!!رومان!!!۔ سب یکجا۔ ‘‘

اس قسم کی عبارتیں شوق بڑھانے کے لیے کافی تھیں۔ مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس لیے کہ میری نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکے تھے۔ میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کردیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں چوری کرنے کا خیال مطلقاً نہ تھا۔ بلکہ میں نے خریدنے کے لیے ایک کم قیمت کی ناول چن کر الگ بھی رکھ لی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کرکے میں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوبارہ دیکھنے آؤں گا۔ میں نے اپنی چُنی ہُوئی کتاب اُٹھائی۔ کتاب کا اٹھانا تھا کہ میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سرِ ورق کے کونے پر میرے محبوب ناولسٹ کا نام سُرخ لفظوں میں چھپا تھا۔ اس کے ذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔

’’منتقم شعاعیں۔ کس طرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ ‘‘

یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں طغیانی سی آگئی۔ کتاب کا مصنف وہی تھا۔ جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ ناول کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک گروہ داخل ہو گیا۔

’’منتقم شعاعیں۔ دیوانے ڈاکٹرکی ایجاد۔ کیسا دلچسپ افسانہ ہو گا!‘‘

’’لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟‘‘

’’اس مصنف نے فلاں فلاں کتابیں کتنی سنسنی خیز لکھی ہیں!‘‘

’’یہ کتاب ضرور ان سب سے بہتر ہو گی!‘‘

میں خاموش اشتیاق کے ساتھ اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیالات یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں شور برپا کررہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اُٹھایا اور کھول کر دیکھا توپہلے ورق پر یہ عبارت نظر آئی۔

’’مصنف اس کتاب کو اپنی بہترین تصنیف قرار دیتاہے۔ ‘‘

’’ان الفاظ نے میرے اشتیاق میں آگ پر ایندھن کا کام دیا۔ ایکا ایکی میرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا۔ وہ یہ کہ میں اس کتاب کو اپنے کوٹ میں چھپا کر لے جاؤں۔ میری آنکھیں بے اختیار کتب فروش کی طرف مڑیں۔ جو کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دوکان کی دوسری طرف دو نوجوان کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔ میں سر سے پیر تک لرز گیا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعہ کی یاد سے کانپا۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کردی۔

’’ایک لحظہ کے لیے میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوری کرنا بہت بُرا کام ہے مگر ضمیر کی آواز سرورق پر بنی ہوئی لانبی لانبی شعاعوں میں غرق ہو گئی۔ میرا دماغ

’’منتقم شعاعیں‘‘

’’منتقم شعاعیں‘‘

کی گردان کررہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل میں دبا لی مگر میں کانپنے لگا۔ اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا۔ اور اُس کتاب کے دام ادا کردیئے۔ جو میں نے پہلے خریدی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور روپے میں سے باقی پیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر سے کام لیا۔ میری طرف اس نے گُھور کربھی دیکھا۔ جس سے میری طبیعت سخت پریشان ہو گئی۔ جی میں بھی آئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کروہاں سے بھاگ نکلوں۔ میں نے اس دوران میں کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے اُبھری ہُوئی تھی نگاہ ڈالی۔ اور شاید اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھی کی۔ میری ان عجیب و غریب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہُوا۔ اسے لیے کہ وہ بار بار کچھ کہنے کی کوشش کرکے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔ میں نے باقی پیسے جلدی سے لیے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر میں نے کسی کی آواز سنی۔ مڑ کر دیکھا تو کتب فروش ننگے پاؤں چلا آرہا تھا اور مجھے ٹھہرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ میں نے اندھا دھند بھاگناشروع کردیا۔ مجھے معلوم نہ تھا میں کدھر بھاگ رہاہوں۔ میرا رخ اپنے گھر کی جانب نہ تھا۔ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ رہا تھا جدھر بازار کا اختتام تھا۔ اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ ‘‘

بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوں پر پھیرنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔

’’مسعود! پانی کا ایک گھونٹ پلوانا۔ ‘‘

مسعود خاموشی سے اُٹھا۔ اورکوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گلاس لیتے ہی منہ سے لگا لیا اور ایک گھونٹ میں سارا پانی پی گیا۔ اور خالی گلاس زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں میں کیا بیان کررہا تھا؟‘‘

ایک لڑکے نے جواب دیا۔

’’آپ بھاگے جارہے تھے۔ ‘‘

’’میرے پیچھے کتب فروش

’’چور چور‘‘

کی آواز بلند کرتا چلا آرہا تھا جب میں نے دو تین آدمیوں کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ جیل کی آہنی سلاخیں، پولیس اور عدالت کی تصویریں ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ بے عزتی کے خیال سے میری پیشانی عرق آلود ہو گئی۔ میں لڑکھڑایا اور گِر پڑا۔ اُٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی۔ ایک تُند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرطِ خوف سے اُبل رہی تھیں۔ اورکانوں میں ایک زبردست شور برپا تھا۔ جیسے بہت سے لوگ آہنی چادریں ہتھوڑوں سے کوٹ رہے ہیں۔ میں ابھی اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ کتب فروش اور اسکے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ اس وقت میری کیا حالت تھی۔ اس کا بیان کرنا بہت دشوار ہے۔ سینکڑوں خیالات پتھروں کی طرح میرے دماغ سے ٹکرا ٹکرا کر مختلف آوازیں پیدا کررہے تھے۔ جب انھوں نے مجھے پکڑا تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجہ نے میرے دل کو مسل ڈالا ہے۔ میں بالکل خاموش تھا۔ وہ مجھے دُکان کی طرف کشاں کشاں لے گئے۔ جیل خانے کی کوٹھڑی اور عدالت کا منہ دیکھنا یقین تھا۔ اس خیال پر میرے ضمیر نے لعنت ملامت شروع کردی۔ چونکہ اب جوہونا تھا ہو چکا تھا۔ اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے کے لیے کوئی الفاظ موجود نہ تھے۔ اس لیے میری گرم آنکھوں میں آنسو اُتر آئے اور میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دُھندلی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔

’’کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا۔ اپنی کتاب لے لی اور نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنے آنسو کُھردرے کمبل سے خشک کیے۔

’’خدا اُس کو جزائے خیر دے۔ میں عدالت کے دروازے سے تو بچ گیا۔ مگر اس واقعہ کی والد اور اسکول کے لڑکوں کو خبر ہو گئی۔ والد مجھ پر سخت خفا ہُوئے لیکن انھوں نے بھی اخیر میں مجھے معاف کردیا۔ دو تین روز مجھے اس ندامت کے باعث بخار آتا رہا اس کے بعد جب میں نے دیکھا میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں۔ تو میں شہر چھوڑ کروہاں سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف شہروں کی خاک چھانی ہے۔ ہزاروں مصائب برداشت کیے ہیں۔ صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے جومجھے تا دمِ مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔ اس آوارہ گردی کے دوران میں، میں نے اور بھی بہت سی چوریاں کیں۔ ڈاکے ڈالے اور ہمیشہ پکڑا گیا۔ مگر اُن پر نادم نہیں ہُوں۔ مجھے فخر ہے۔ ‘‘

بوڑھے کی دُھندلی آنکھوں میں پھر پہلی سی چمک نمودار ہو گئی۔ اور اس نے الاؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی باندھ کردیکھنا شروع کردیا۔

’’ہاں مجھے فخر ہے۔ ‘‘

یہ لفظ اس نے تھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔ الاؤمیں آگ کا ایک شعلہ بُلند ہوا۔ اور ایک لمحہ فضا میں تھرتھرا کر وہیں سو گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأت دیکھی اور مسکرا دیا۔ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔

’’کہانی ختم ہو گئی اب تم جاؤ۔ تمہارے ماں باپ انتظار کرتے ہونگے۔ ‘‘

مسعود نے سوال کیا۔

’’مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر کیوں فخر ہے؟‘‘

’’فخر کیوں ہے؟‘‘

۔ بوڑھا مسکرا دیا۔

’’اس لیے کہ وہ چوریاں نہیں تھیں۔ اپنی مسروقہ چیزوں کودوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں ہوتی میرے عزیز! بڑے ہو کرتمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔ ‘‘

’’ہروہ چیز جو تم سے چُرا لی گئی ہے، تمہیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقہ سے اپنے قبضہ میں لے آؤ۔ پر یاد رہے تمہاری کوشش کامیاب ہونی چاہیے۔ ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اُٹھانا عبث ہے۔ ‘‘

لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازہ سے باہر چلے گئے۔ بوڑھے کی نگاہیں ان کو تاریکی میں گم ہوتے دیکھتی رہیں۔ تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا:۔

’’کاش کہ یہ بڑے ہو کر اپنی کھوئی ہُوئی چیز واپس لے سکیں۔ ‘‘

بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی؟‘‘

سعادت حسن منٹو

چور

مجھے بے شمار لوگوں کا قرض ادا کرنا تھا اور یہ سب شراب نوشی کی بدولت تھا۔ رات کو جب میں سونے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو میرا ہر قرض خوا میرے سرہانے موجود ہوتا۔ کہتے ہیں کہ شرابی کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ساتھ میرے ضمیر کا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ ہر روز مجھے سرزنش کرتا اور میں خفیف ہوکے رہ جاتا۔ واقعی میں نے بیسیوں آدمیوں سے قرض لیا تھا۔ میں نے ایک رات سونے سے پہلے بلکہ یوں کہیے کہ سونے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے حساب لگایا تو قریب قریب ڈیڑھ ہزار روپے میرے ذمے نکلے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے سوچا یہ ڈیڑھ ہزار روپے کیسے ادا ہوں گے۔ بیس پچیس روزانہ کی آمدن ہے لیکن وہ میری شراب کے لیے بمشکل کافی ہوتے ہیں۔ آپ یوں سمجھیے کہ ہر روز کی ایک بوتل۔ تھرڈ کلاس رم کی۔ دام ملاحظہ ہوں۔ سولہ روپے۔ سولہ روپے تو ایک طرف رہے، ان کے حاصل کرنے میں کم از کم تین روپے ٹانگے پر صرف ہوجاتے تھے۔ کام ہوتا نہیں تھا، بس پیشگی پر گزارہ تھا۔ لیکن جب پیشگی دینے والے تنگ آگئے تو اُنھوں نے میری شکل دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیا یا اس سے پیشتر کہ میں ان سے ملوں کہیں غائب ہو گئے۔ آخر کب تک وہ مجھے پیشگی دیتے رہتے۔ لیکن میں مایوس نہ ہوتا اور خدا پر بھروسہ رکھ کر کسی نہ کسی حیلے سے دس پندرہ روپے اُدھار لینے میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا تھا۔ لوگ میری عزت کرتے تھے مگر اب وہ میری شکل دیکھتے ہی بھاگ جاتے تھے۔ سب کو افسوس تھا کہ اتنا اچھا مکینک تباہ ہورہاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بہت اچھا مکینک تھا۔ مجھے کوئی بگڑی مشین دے دی جاتی تو میں اُس کو سرسری طورپر دیکھنے کے بعد یوں چٹکیوں میں ٹھیک کردیتا۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں میری یہ ذہانت صرف شراب ملنے کی اُمید پرقائم تھی، اس لیے کہ میں پہلے طے کرلیا کرتا تھا کہ اگر کام ٹھیک ہو گیا تو وہ مجھے اتنے روپے ادا کردیں گے جن سے میرے دو روز کی شراب چل سکے۔ وہ لوگ خوش تھے۔ مجھے وہ تین روز کی شراب کے دام ادا کردیتے۔ اس لیے کہ جو کام میں کردیتا وہ کسی اور سے نہیں ہوسکتا تھا۔ لوگ مجھے لُوٹ رہے تھے۔ میری ذہانت وذکاوت پر میری اجازت سے ڈاکے ڈال رہے تھے۔ اور لُطف یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ میں اُنھیں لُوٹ رہا ہوں۔ اُن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کررہا ہوں۔ اصل میں مجھے اپنی صلاحتیوں کی کوئی قدر نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ میکنزم بالکل ایسی ہے جیسے کھانا کھانا یا شراب پینا۔ میں نے جب بھی کوئی کام ہاتھ میں لیا مجھے کوفت محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ جب شام کے چھ بجنے لگتے تو میری طبعیت بے چین ہوجاتی۔ کام مکمل ہو چکا ہوتا مگر میں ایک دو پیچ غائب کردیتا تاکہ دوسرے روز بھی آمدن کا سلسلہ قائم رہے۔ یہ شراب حرامزادی کتنی بُری چیز ہے کہ آدمی کو بے ایمان بھی بنادیتی ہے۔ میں قریب قریب ہر روز کام کرتا تھا۔ میری مانگ بہت زیادہ تھی اس لیے کہ مجھ ایسا کاریگر ملک بھر میں نایاب تھا۔ تار باجا اور راگ بوجھا والاحساب تھا۔ میں مشین دیکھتے ہی سمجھ جاتا تھا کہ اس میں کیا قصور ہے۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں۔ مشینری کتنی ہی بگڑی ہوئی کیوں نہ ہو اُس کو ٹھیک کرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں نئے پرزوں کی ضرورت ہو اور آسانی سے دستیاب نہ ہورہے ہوں تو اُس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میں بلا ناغہ شراب پیتا تھا اور سوتے وقت بلا ناغہ اپنے قرض کے متعلق سوچتا تھا، جو مجھے مختلف آدمیوں کو ادا کرنا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا۔ پینے کے باوجود اضطراب کے باعث مجھے نیند نہ آتی۔ دماغ میں سینکڑوں اسکیمیں آتی تھیں۔ بس میری یہ خواہش تھی کہ کہیں سے دس ہزار روپے آجائیں تو میری جان میں جان آئے۔ ڈیڑھ ہزار روپیہ قرض کا فی الفور ادا کر دُوں۔ ایک ٹیکسی لُوں اور ہر قرض خواہ کے پاس جاکر معذرت طلب کروں اور جیب سے روپے نکال کر اُن کو دے دُوں۔ جو روپے باقی بچیں اُن سے ایک سیکنڈ ہینڈ موٹر خرید لوں اور شراب پینا چھوڑ دُوں۔ پھر یہ خیال آتا کہ نہیں دس ہزار سے کام نہیں چلے گا۔ کم از کم پچاس ہزار ہونے چاہئیں۔ میں سوچنے لگتا کہ اگراتنے روپے آجائیں، جو یقیناً آنے چاہئیں تو سب سے پہلے میں ایک ہزار نادار لوگوں میں تقسیم کر دُوں گا۔ ایسے لوگوں میں جو روپیہ لے کر کچھ کاروبار کرسکیں۔ باقی رہے انچاس ہزار۔ اس رقم میں سے میں نے دس ہزار اپنی بیوی کو دینے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ فکسڈ ڈیپازٹ ہونا چاہیے۔ گیارہ ہزار ہوئے باقی رہے انتالیس ہزار۔ میرے لیے بہت کافی تھے۔ میں نے سوچا یہ میری زیادتی ہے چنانچہ میں نے بیوی کا حصّہ دوگنا کردیا، یعنی بیس ہزار۔ اب بچے انتیس ہزار۔ میں نے سوچا کہ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو دے دُوں گا۔ اب میرے پاس چودہ ہزار رہے۔ ان میں سے آپ سمجھیے کہ دو ہزار قرض کے نکل گئے۔ باقی بچے بارہ ہزار۔ ایک ہزار رُوپے کی اچھی شراب آنی چاہیے۔ لیکن میں نے فوراً تھو کردیا اور یہ سوچا کہ پہاڑ پر چلا جاؤں گا اور کم از کم چھ مہینے رہوں گا تاکہ صحت درست ہوجائے۔ شراب کے بجائے دُودھ پیا کروں گا۔ بس ایسے ہی خیالات میں دن رات گزر رہے تھے۔ پچاس ہزار کہاں سے آئیں گے یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ ویسے دو تین اسکیمیں ذہن میں تھیں۔ شمع دہلی کے معمے حل کروں اور پہلا انعام حاصل کر لُوں۔ ڈربی کی لاٹری کا ٹکٹ خرید لُوں۔ چوری کروں اور بڑی صفائی سے۔ میں فیصلہ نہ کرسکا کہ مجھے کون سا قدم اُٹھاناچاہیے۔ بہرحال یہ طے تھا کہ مجھے پچاس ہزار وپے حاصل کرنا ہیں۔ یُوں ملیں یا وُوں ملیں۔ اسکیمیں سوچ سوچ کر میرا دماغ چکرا گیا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی جو بہت بڑاعذاب تھا۔ قرض خواہ بے چارے تقاضا نہیں کرتے تھے لیکن جب اُن کی شکل دیکھتا تو ندامت کے مارے پسینہ پسینہ ہوجاتا۔ بعض اوقات تو میرا سانس رُکنے لگتا اور میرا جی چاہتا کہ خودکشی کر لُوں اور اس عذاب سے نجات پاؤں۔ مجھے معلوم نہیں کیسے اور کب میں نے تہیہ کرلیا کہ چوری کروں گا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ۔ محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی ہے جس کے پاس بے اندازہ دولت ہے۔ اکیلی رہتی ہے۔ میں وہاں رات کے دو بجے پہنچا۔ یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا وہ دوسری منزل پر رہتی ہے۔ نیچے پٹھان کا پہرہ تھا میں نے سوچا کوئی اور ترکیب سوچنی چاہیے اوپر جانے کے لیے۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ میں نے خود کو اس پارسی لیڈی کے فلیٹ کے اندر پایا۔ میرا خیال ہے کہ میں پائپ کے ذریعے اُوپر چڑھ گیا تھا۔ ٹارچ میرے پاس تھی۔ اُس کی روشنی میں میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک بہت بڑا سیف تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سیف کھولا تھا نہ بند کیا تھا لیکن اس وقت جانے مجھے کہاں سے ہدایت ملی کہ میں نے ایک معمولی تار سے اُسے کھول ڈالا۔ اندر زیور ہی ز یور تھے۔ بہت بیش قیمت۔ میں نے سب سمیٹے اور مکے مدینے والے زرد رومال میں باندھ لیے۔ پچاس ساٹھ ہزارروپے کا مال ہو گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اتناہی چاہیے تھا۔ کہ اچانک دوسرے کمرے سے ایک بُڑھیا پارسی عورت نمودار ہوئی۔ اُس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر پوپلی سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ میں نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول نکال کرتان لیا۔ اس کی پوپلی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔ اُس نے مجھے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘

میں نے سیدھا سا جواب دیا۔

’’چوری کرنے۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

بُڑھیا کے چہرے کی جھریاں مسکرانے لگیں۔

’’تو بیٹھو۔ میرے گھر میں تو نقدی کی صورت میں صرف ڈیڑھ روپیہ ہے۔ تم نے زیور چرایا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم پکڑے جاؤ گے کیونکہ ان زیوروں کو صرف کوئی بڑا جوہری ہی لے سکتا ہے۔ اور ہر بڑا جوہری انھیں پہچانتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کُرسی پر بیٹھ گئی۔ میں بہت پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ سلسلہ کیا ہے۔ میں نے چوری کی ہے اور بڑی بی مسکرا مسکرا کر مجھ سے باتیں کررہی ہے۔ کیوں؟ لیکن فوراً اس کیوں کا مطلب سمجھ میں آگیا جب ماتا جی نے آگے بڑھ کر میرے پستول کی پروانہ کرتے ہُوئے میرے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا اور اپنی بانھیں میری گردن میں ڈال دیں۔ اس وقت خدا کی قسم میرا جی چاہا کہ گٹھڑی ایک طرف پھینکوں اور وہاں سے بھاگ جاؤں۔ مگر وہ تسمہ پا عورت نکلی اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں مطلقاً ہل جل نہ سکا۔ اصل میں میرے ہر رگ و ریشے میں ایک عجیب و غریب قسم کا خوف سرایت کرگیا تھا۔ میں اسے ڈائن سمجھنے لگا تھا جو میرا کلیجہ نکال کرکھانا چاہتی تھی۔ میری زندگی میں کسی عورت کا دخل نہیں تھا۔ میں غیر شادی شدہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس برسوں میں کسی عورت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر پہلی رات جب کہ میں چوری کرنے کے لیے نکلا تو مجھے یہ پھپھا کُٹنی مل گئی جس نے مجھ سے عشق کرنا شروع کردیا۔ آپ کی جان کی قسم میرے ہوش و حواس غائب ہو گئے۔ وہ بہت ہی کریہہ المنظر تھی میں نے اُس سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

’’ماتا جی مجھے بخشو۔ یہ پڑے ہیں آپ کے زیور۔ مجھے اجازت دیجیے۔ ‘‘

اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’تم نہیں جاسکتے۔ تمہارا پستول میرے پاس ہے۔ اگر تم نے ذرا سی بھی جنبش کی تو ڈز کردوں گی۔ یاٹیلی فون کرکے پولیس کو اطلاع دے دُوں گی کہ وہ آکر تمھیں گرفتار کرلے۔ لیکن جانِ من میں ایسا نہیں کروں گی۔ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ میں ابھی تک کنواری رہی ہوں۔ اب تم یہاں سے نہیں جاسکتے۔ ‘‘

یہ سُن کر قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں کہ ٹن ٹن شروع ہوئی۔ دُور کوئی کلاک صبح کے پانچ بجنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ میں نے بڑی بی کی ٹھوڑی پکڑی اور اُس کے مُرجھائے ہوئے ہونٹوں کا بوسہ لے کر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔

’’میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں عورتیں دیکھی ہیں لیکن خدا واحد شاہد ہے کے تم ایسی عورت سے میرا کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ تم کسی بھی مرد کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی چوری تمہارے مکان سے شروع کی۔ یہ زیور پڑے ہیں۔ میں کل آؤنگا بشرطیکہ تم وعدہ کرو کہ مکان میں اور کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘

بڑھیا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی۔

’’ضرور آؤ۔ تم اگر چاہو گے تو گھر میں ایک مچھر تک بھی نہیں ہو گا جو تمہارے کانوں کو تکلیف دے۔ مجھے افسوس ہے کہ گھر میں صرف ایک روپیہ اور آٹھ آنے تھے۔ کل تم آؤ گے تو میں تمہارے لیے بیس پچیس ہزار بنک سے نکلوالوں گی۔ یہ لو اپنا پستول۔ ‘‘

میں نے اپنا پستول لیا اور وہاں سے دُم دبا کر بھاگا۔ پہلا وار خالی گیا تھا۔ میں نے سوچا کہیں اور کوشش کرنی چاہیے۔ قرض ادا کرنے ہیں اورجو میں نے پلان بنایا ہے اُس کی تکمیل بھی ہوناچاہیے۔ چنانچہ میں نے ایک جگہ اور کوشش کی۔ سردیوں کے دن تھے صبح کے چھ بجنے والے تھے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب سب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ایک مکان کا پتہ تھا کہ اس کا جو مالک ہے بڑا مالدار ہے۔ بہت کنجوس ہے۔ اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھتا۔ گھر میں رکھتا ہے۔ میں نے سوچا اُس کے ہاں چلنا چاہئے۔ میں وہاں کن مشکلوں سے اندر داخل ہوا میں بیان نہیں کرسکتا۔ بہرحال پہنچ گیا۔ صاحب خانہ جو ماشاء اللہ جوان تھے۔ سورہے تھے۔ میں نے اُن کے سرہانے سے چابیاں نکالیں اور الماریاں کھولنا شروع کردیں۔ ایک الماری میں کاغذات تھے اور کچھ فرنچ لیدر۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ شخص جو کنوارا ہے فرنچ لیدر کہاں استعمال کرتا ہے۔ دوسری الماری میں کپڑے تھے۔ تیسری بالکل خالی تھی معلوم نہیں اس میں تالا کیوں پڑا ہوا تھا۔ اور کوئی الماری نہیں تھی۔ میں نے تمام مکان کی تلاشی لی لیکن مجھے ایک پیسہ بھی نظر نہ آیا۔ میں نے سوچا اس شخص نے ضرور اپنی دولت کہیں دبا رکھی ہو گی۔ چنانچہ میں نے اس کے سینے پر بھرا ہوا پستول رکھ کر اُسے جگایا۔ وہ ایساچونکا اور بدکا کہ میرا پستول فرش پر جاپڑا۔ میں نے ایک دم پسول اٹھایا اور اُس سے کہا۔

’’میں چور ہوں۔ یہاں چوری کرنے آیا ہوں۔ لیکن تمہاری تین الماریوں سے مجھے ایک دمڑی بھی نہیں ملی۔ حالانکہ میں نے سُنا تھا کہ تم بڑے مالدار آدمی ہو۔ ‘‘

وہ شخص جس کا نام مجھے اب یاد نہیں مسکرایا۔ انگڑائی لے کر اُٹھا اور مجھے سے کہنے لگا۔

’’یار تم چور ہو تو تم نے مجھے پہلے اطلاع دی ہوتی۔ مجھے چوروں سے بہت پیار ہے۔ یہاں جو بھی آتا ہے وہ خود کو بڑا شریف آدمی کہتا ہے حالانکہ وہ اوّل درجے کا کالا چور ہوتا ہے۔ مگر تم چور ہو۔ تم نے اپنے آپ کو چھیایا نہیں ہے۔ میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اُس نے مجھے سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد ریفریجریٹر کھولا۔ میں سمجھا شاید میری تواضع شربت وغیرہ سے کرے گا۔ لیکن اُس نے مجھے بُلایا اور کھلے ہوئے ریفریجریٹر کے پاس لے جاکر کہا۔

’’دوست میں اپنا سارا روپیہ اس میں رکھتا ہوں۔ یہ صندوقچی دیکھتے ہو۔ اس میں قریب قریب ایک لاکھ روپیہ پڑا ہے۔ تمھیں کتنا چاہیے؟‘‘

اُس نے صندوقچی باہر نکالی جو یخ بستہ تھی۔ اُسے کھولا۔ اندر سبز رنگ کے نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں۔ ایک گڈی نکال کر اس نے میرے ہاتھ میں تھمادی اور کہا۔

’’بس اتنے کافی ہوں گے۔ دس ہزار ہیں۔ ‘‘

میری سمجھ میں نہ آیا کہ اُسے کیا جواب دُوں۔ میں تو چوری کرنے آیا تھا۔ میں نے گڈی اُس کو واپس دی اور کہا۔

’’صاحب! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے معافی دیجیے۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔ ‘‘

میں وہاں سے آپ سمجھیے کہ دُم دبا کر بھاگا گھر پہنچا تو سورج نکل چکا تھا۔ میں نے سوچا کہ چوری کا ارادہ ترک کردینا چاہیے۔ دوجگہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ دوسری رات کو کوشش کرتا تو کامیابی یقینی نہیں تھی۔ لیکن قرض بدستور اپنی جگہ پر موجود تھا جو مجھے بہت تنگ کررہا تھا۔ حلق میں یوں سمجھیے کہ ایک پھانس سی اٹک گئی تھی۔ میں نے بالآخر یہ ارادہ کرلیا کہ جب اچھی طرح سوچکوں گا تو اُٹھ کر خود کشی کر لُوں گا۔ سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اُٹھا۔ دروازہ کھولا۔ ایک بزرگ آدمی کھڑے تھے۔ میں نے اُن کو آداب عرض کیا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا۔

’’لفافہ دینا تھا اس لیے آپ کو تکلیف دی۔ معاف فرمائے گا، آپ سورہے تھے۔ ‘‘

میں نے اُس سے لفافہ لیا۔ وہ سلام کر کے چلے گئے۔ میں نے درواز بند کیا۔ لفافہ کافی وزنی تھا۔ میں نے اُسے کھولا اور دیکھا کہ سو سو روپے کے بے شمار نوٹ ہیں۔ گنے تو پچاس ہزار نکلے۔ ایک مختصر سا رقعہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ آپ کے یہ روپے مجھے بہت دیر پہلے ادا کرنے تھے۔ افسوس ہے کہ میں اب ادا کرنے کے قابل ہوا ہوں‘‘

میں نے بہت غور کیا کہ یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے قرض لیا۔ سوچتے سوچتے میں نے آخر سوچا کہ ہوسکتا ہے کسی نے مجھ سے قرض لیا ہو جو مجھے یاد نہ رہا ہو۔ بیس ہزار اپنی بیوی کو۔ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو۔ دو ہزار قرض کے۔ باقی بچے تیرہ ہزار۔ ایک ہزار میں اچھی شراب کے لیے رکھ لیے۔ پہاڑ پر جانے اور دُودھ پینے کا خیال میں نے چھوڑ دیا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اُٹھ کر باہر گیا۔ دروزہ کھولا تو میرا ایک قرض خواہ کھڑا تھا۔ اُس نے مجھ سے پانچ سو روپے لینا تھے۔ میں لپک کر اندر گیا۔ تکیے کے نیچے نوٹوں کا لفافہ دیکھا مگر وہاں کچھ موجود ہی نہیں تھا۔

سعادت حسن منٹو

چودھویں کا چاند

اکثر لوگوں کا طرزِ زندگی، ان کے حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بعض بیکار اپنی تقدیر کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ اس سے حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر حالات بہتر ہوتے تو وہ ضرور دنیا میں کچھ کر دکھاتے۔ بیشتر ایسے بھی ہیں جو مجبوریوں کے باعث قسمت پر شاکر رہتے ہیں۔ ان کی زندگی ان ٹرام کاروں کی طرح ہے جو ہمیشہ ایک ہی پٹڑی پر چلتی رہتی ہیں۔ جب کنڈم ہو جاتی ہیں تو انہیں محض لوہا سمجھ کر کسی کباڑی کے پاس فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایسے انسان بہت کم ہیں۔ جنہوں نے حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے زندگی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھال لی۔ ٹامسن ولسن بھی اسی قبیل سے تھا۔ اس نے اپنی زندگی بدلنے کیلیے انوکھا قدم اُٹھایا۔ پر اُس کی منزل کا چونکہ کوئی پتا نہیں تھا، اس لیے اس کی کامیابی کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کے اس انوکھے پن کے متعلق میں نے بہت کچھ سنا۔ سب سے پہلے لوگ یہی کہتے کہ وہ خلوت پسند ہے لیکن میں نے دل میں تہیّہ کرلیا کہ کسی نہ کسی حیلے اُسے اپنی داستانِ زندگی بیان کرنے پر آمادہ کرلوں گا کیونکہ مجھے دوسرے آدمیوں کے بیان کی صداقت پر اعتماد نہیں تھا۔ میں چند روز کے لیے ایک صحت افزا مقام پر گیا، وہیں اس سے ملاقات ہوئی۔ میں دریا کنارے اپنے میزبان کے ساتھ کھڑا تھا کہ وہ ایک دم پُکار اُٹھا۔

’’ولسن‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کہاں ہے؟‘‘

میرے میزبان نے جواب دیا۔

’’ارے بھئی! وہی جو منڈیر پر نیلی قمیص پہنے ہماری طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہے۔ ‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا اورمجھے نیلی قمیص اور سفید بالوں والا سر نظر آیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ وہ مڑ کر دیکھے اور ہم اسے سیر و تفریح کے لیے ساتھ لے جائیں۔ اُس وقت سورج کا عکس دریا میں ڈُوب رہا تھا۔ سیر کرنے والے چہچہا رہے تھے۔ اتنے میں گرجے کی یک آہنگ گھنٹیاں بجنے لگیں۔ میں اُس وقت قدرت کی دل فریبیوں سے اس قدر مسحور ہو چکا تھا کہ ولسن کو اپنی طرف آتے نہ دیکھ سکا۔ جب وہ میرے پاس سے گزرا تو میرے دوست نے اسے روک لیا اور اس کا مجھ سے تعارف کرایا۔ اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا، لیکن کسی قدر بے اعتنائی سے۔ میرے دوست نے اس کو محسوس کیا اور اس کو شراب کی دعوت دی۔ مدعو کیے جانے پر وہ مسکرایا۔ اگرچہ اس کے دانت خوبصورت نہ تھے پھر بھی اس کی مسکراہٹ دلکش تھی۔ وہ نیلی قمیص اور خاکستری پتلون پہنے تھا جو کسی حد تک میلی تھی۔ اس کے لباس کو اس کے جسم کی ساخت سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ اس کا چہرہ لمبوترا، پتلے ہونٹ اور آنکھیں بھورے رنگ کی تھیں۔ چہرے کے خطوط نمایاں، جن سے نمایاں تھا کہ جوانی میں وہ ضرور قبول صورت ہو گا۔ وضع قطع کے اعتبار سے وہ کسی بیمہ کمپنی کا ایجنٹ معلوم ہوتا تھا۔ ہم چہل قدمی کرتے، ایک ریستوران میں پہنچ کر، اس سے ملحقہ باغیچے میں بیٹھ گئے اور بیرے کو شراب لانے کے لیے کہا۔ ہوٹل والے کی بیوی بھی وہاں موجود تھی۔ ادھیڑ پن کی وجہ سے اب اس میں وہ بات نہیں رہی تھی لیکن چہرے کا نکھار اب بھی گزری ہوئی کراری جوانی کی چغلیاں کھا رہا تھا۔ تیس سال پہلے بڑے بڑے آرٹسٹ اس کے دیوانے تھے، اس کی بڑی بڑی شرابی آنکھوں اور شہد بھری مسکراہٹوں میں عجب دل کشی تھی۔ ہم تینوں بیٹھے یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ چونکہ موضوع دلچسپ نہیں تھے۔ اس لیے ولسن تھوڑی دیر کے بعد رخصت مانگ کر چلا گیا۔ ہم بھی اس کے رخصت ہونے پر اداس ہو گئے۔ راستے میں میرے دوست نے ولسن کے بارے میں کہا۔

’’مجھے تو تمہاری سنائی ہوئی کہانی بے سروپا معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’وہ اس قسم کی حرکت کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

اس نے کہا

’’کوئی شخص کسی کی فطرت کے متعلق صحیح اندازہ کیسے لگا سکتا ہے؟‘‘

’’مجھے تو وہ عام انسان دکھائی دیتا ہے۔ جوچند محفوظ کفالتوں کے سہارے کاروبار سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’تم یہی سمجھوٖ، ٹھیک ہے۔ ‘‘

دوسرے دن دریا کنارے ولسن ہمیں پھر دکھائی دیا۔ بھورے رنگ کا لباس پہنے، دانتوں میں پائپ دبائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے چہرے کی جھریوں اور سفید بالوں سے بھی جوانی پھوٹ رہی ہے۔ ہم کپڑے اتار کر پانی کے اندر چلے گئے۔ جب میں نہا کر باہر نکلا توولسن زمین پر اوندھے منہ لیٹا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میں سگریٹ سلگا کر اس کے پاس گیا۔ اس نے کتاب سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا

’’بس، نہا چکے۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’ہاں۔ آج تو لُطف آگیا۔ دُنیا میں اس سے بہتر نہانے کی اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ تم یہاں کتنی مدت سے ہو۔ ‘‘

اُس نے جواب دیا۔

’’پندرہ برس سے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ دریا کی مچلتی ہوئی نیلی لہروں کی طرف دیکھنے لگا، اس کے باریک ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

’’پہلی بار یہاں آتے ہی مجھے اس جگہ سے محبت ہو گئی۔ تمہیں اس جرمن کا قصّہ معلوم ہے، جو ایک بار یہاں لنچ کھانے آیا اور یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ وہ چالیس سال یہاں رہا۔ میرا بھی یہی حال ہو گا۔ چالیس برس نہیں تو پچیس تو کہیں نہیں گئے۔ ‘‘

میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی گفتگو جاری رکھی۔ اس کے الفاظ سے ظاہر تھا کہ اس کے افسانے کی حقیقت ضرور کچھ ہے۔ اتنے میں میرا دوست بھیگا ہوا ہماری طرف آیا۔ بہت خوش تھا کیونکہ وہ دریا میں ایک میل تیر کر آرہا تھا۔ اس کے آتے ہی ہماری گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ اور بات ادھوری رہ گئی۔ اس کے بعد ولسن سے متعدد بار ملاقات ہوئی، اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ وہ اس جزیرے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ ایک دن چاندنی رات کا لُطف اٹھانے کے بعد، میں نے اور میرے دوست نے سوچا کہ چلو مونٹی سلارو کی پہاڑی کی سیر کریں۔ میں نے ولسن سے کہا کہ

’’آؤ یار تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ ‘‘

ولسن نے میری دعوت قبول کرلی۔ لیکن میرا دوست ناسازی طبع کا بہانہ کرکے ہم سے جدا ہو گیا۔ خیر، ہم دونوں پہاڑی کی جانب چل دیے اور اس سیر کا خوب لُطف اُٹھایا۔ شام کے دُھندلکے میں تھکے ماندے، بھوکے سرائے میں آئے۔ کھانے کا انتظام پہلے ہی کررکھا تھا جو بہت لذیذ ثابت ہوا۔ شراب، انگور کی تھی۔ پہلی بوتل تو سویاں کھانے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ دوسری کے آخری جام پینے کے بعد میرے اور ولسن کے دماغ میں بیک وقت یہ خیال سمانے لگا کہ زندگی کچھ ایسی دشوار نہیں۔ ہم اس وقت باغیچے میں انگوروں سے لدی ہوئی بیل کے نیچے بیٹھے تھے۔ رات کی خاموش فضا میں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سرائے کی خادمہ ہمارے لیے پنیر اور انجیریں لے آئی۔ ولسن تھوڑے سے وقفے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’ہمارے چلنے میں ابھی کافی دیر ہے۔ چاند کم از کم ایک گھنٹے تک پہاڑی کے اوپر آئے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ہمارے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ یہاں آکر کوئی انسان بھی عجلت کے متعلق نہیں سوچ سکتا۔ ‘‘

ولسن مسکرایا۔

’’فرصت۔ کاش لوگ اس سے واقف ہوتے۔ ہر انسان کو یہ چیز مفت میسر ہوسکتی ہے۔ لیکن لوگ کچھ ایسے بے وقوف ہیں کہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ کام؟۔ کم بخت، اتنا سمجھنے کے بھی اہل نہیں کہ کام کرنے سے غرض صرف فرصت حاصل کرنا ہے۔ ‘‘

شراب کا اثر عموماً بعض لوگوں کو غورو فکر کی طرف لے جاتا ہے۔ ولسن کا خیال اپنی جگہ درست تھا۔ مگر کوئی اچھوتی اور انوکھی بات نہیں تھی۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگا۔

’’جب میں پہلی بار یہاں آیا، تو چاندنی رات کا سماں تھا۔ آج بھی وہی چودھویں کا چاند آسمان پر نظر آئے گا۔ ‘‘

میں مسکرا دیا۔

’’ضرور نظر آئے گا‘‘

وہ بولا۔

’’دوست، میرا مذاق نہ اڑاؤ۔ جب میں اپنی زندگی کے پچھلے پندرہ برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ طویل عرصہ ایک مہینے کا دُھندلکا وقفہ سا لگتا ہے۔ آہ، وہ رات، جب پہلی بار، میں نے چبوترے پر بیٹھ کر چاند کا نظارہ کیا۔ کرنیں دریا کی سطح پر چاندی کے پترے چڑھا رہی تھیں۔ میں نے اس وقت شراب ضرور پی رکھی تھی۔ لیکن دریا کے نظارے اور آس پاس کی فضا نے جو نشہ پیدا کیا۔ وہ شراب کبھی پیدا نہ کرسکتی۔ ‘‘

اس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اس نے اپنا گلاس اُٹھایا، مگر وہ خالی تھا، ایک بوتل منگوائی گئی، ولسن نے دو چار بڑے بڑے گھونٹ پِیے اور کہنے لگا۔

’’اگلے دن میں دریا کنارے نہایا اور جزیرے میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ بڑی رونق تھی۔ معلوم ہوا کہ حسن و عشق کی دیوی افرو ڈائٹ کا تیوہار ہے۔ مگر میری تقدیر میں سدا بینک کا منتظم ہونا ہی لکھا ہوتا تو یقیناً مجھے ایسی سیر کبھی نصیب نہ ہوتی۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا تم کسی بینک کے منیجر تھے؟‘‘

’’ہاں بھائی تھا۔ وہ رات میرے قیام کی آخری رات تھی کیونکہ پیر کی صبح مجھے بینک میں حاضرہونا تھا۔ پر جب میں نے چاند دریا اور کشتیوں کو دیکھا تو ایسا بے خود ہوا کہ واپس جانے کا خیال میرے ذہن سے اتر گیا۔ ‘‘

اس کے بعد اس نے اپنے گزشتہ واقعات تفصیل سے بتائے اور کہا کہ وہ جزیرے میں پندرہ سال سے مقیم ہے اور اب اس کی عمر انچاس برس کی تھی۔ پہلی بارجب وہ یہاں آیا تو اس نے سوچا کہ ملازمت کا طوق گلے سے اُتار دینا چاہیے اور زندگی کے باقی ایام یہاں کی مسحور کن فضاؤں میں گزارنے چاہئیں۔ جزیرے کی فضا اور چاند کی روشنی ولسن کے دماغ پر اس قدر غالب آئی کہ اس نے بینک کی ملازمت ترک کردی۔ اگر وہ چند برس اوروہاں رہتا تو اسے معقول پنشن مل جاتی۔ مگر اس نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ البتہ بینک والوں نے اسے اس کی خدمات کے عوض انعام دیا۔ ولسن نے اپنا گھر بیچا اور جزیرے کا رخ کیا۔ اس کے اپنے حساب کے مطابق وہ پچیس برس تک زندگی بسر کرسکتا تھا۔ میری اس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا اعتدال پسند ہے۔ اسے کوئی ایسی بات گوارا نہیں جو اس کی آزادی میں خلل ڈالے، اسی وجہ سے عورت بھی اس کو متاثر نہ کرسکی۔ وہ صرف قدرتی مناظر کا پرستار تھا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد صرف اپنے لیے خوشی تلاش کرنا تھا اور اسے یہ نایاب چیز مل گئی تھی۔ بہت کم انسان خوشی کی تلاش کرنا جانتے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا وہ سمجھدار تھا یا بے وقوف۔ اتنا ضرور ہے کہ اپنی ذات کے ہر پہلو سے بخوبی واقف تھا۔ آخری ملاقات کے بعد میں نے اپنے میزبان دوست سے رخصت چاہی اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ اس دوران میں جنگ چھڑ گئی اور میں تیرہ برس تک اس جزیرے پر نہ جاسکا۔ تیرہ برس کے بعد جب میں جزیرے پر پہنچا تو میرے دوست کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی۔ میں نے ایک ہوٹل میں کمرے کرائے پر لیا کھانے پر اپنے دوست سے ولسن کے متعلق بات ہوئی۔ وہ خاموش رہا۔ اس کی یہ خاموشی بڑی افسردہ تھی۔ میں نے بے چین ہو کرپوچھا۔

’’کہیں اس نے خود کشی تو نہیں کرلی۔ ‘‘

میرے دوست نے آہ بھری۔

’’یہ درد بھری داستان میں تمہیں کیا سناؤں۔ ولسن کی اسکیم معقول تھی کہ وہ پچیس برس آرام سے گزار سکتا ہے۔ پر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آرام کے پچیس برس گزارنے کے ساتھ ہی اس کی قوتِ ارادی ختم ہو جائے گی۔ قوتِ ارادی کو زندہ رکھنے کے لیے کشمکش ضروری ہے۔ ہموار زمین پر چلنے والے پہاڑیوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ اس کا تمام روپیہ ختم ہو گیا۔ ادھار لیتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا۔ قرض خواہوں نے اسے تنگ کرنا شروع کیا۔ آخر ایک روز اس نے اپنی جھونپڑی کے اس کمرے میں جہاں وہ سوتا تھا، بہت سے کوئلے جلائے اور دروازہ بند کردیا۔ صبح جب اس کی نوکرانی ناشتہ تیار کرنے آئی تو اسے بے ہوش پایا۔ لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔ بچ گیا پر اس کا دماغ قریب قریب ماؤف ہو گیا۔ میں اس سے ملنے گیا لیکن وہ کچھ اس طرح حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے مجھے پہچان نہیں سکا۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔

’’اب کہاں رہتا ہے۔ ‘‘

’’گھر بار تو اس کا نیلام ہو گیا ہے۔ پہاڑیوں پر آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ میں نے ایک دو مرتبہ اسے پکارا، مگر وہ میری شکل دیکھتے ہی جنگلی ہرنوں کی طرح قلانچیں بھرتا دوڑ گیا۔ ‘‘

دو تین دن کے بعد جب میں اور میرا دوست چہل قدمی کررہے تھے کہ میرا دوست زور سے پکارا۔

’’ولسن‘‘

میری نگاہوں نے اسے زیتون کے درخت کے پیچھے چھپتا دیکھا۔ ہمارے قریب پہنچنے پر اس نے کوئی حرکت نہ کی، بس ساکت و صامت کھڑا رہا۔ پھر ایکا ایکی جوانوں کے مانند بے تحاشا بھاگنا شروع کردیا۔ اس کے بعد میں نے پھر اس کو کبھی نہ دیکھا۔ گھر واپس آیا تو ایک برس کے بعد میرے دوست کا خط آیا کہ ولسن مرگیا۔ اس کی لاش پہاڑی کے کنارے پڑی تھی۔ چہرے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ سوتے میں دم نکل گیا ہے۔ اس رات چودھویں کا چاند تھا۔ میرا خیال ہے، شاید یہ چودھویں کا چاند ہی اس کی موت کا سبب ہو۔

سعادت حسن منٹو

چند مکالمے

’’السلام و علیکم‘‘

’’وعلیکم السلام‘‘

’’کہیے مولانا کیا حال ہے‘‘

’’اللہ کا فضل و کرم ہے ہر حال میں گزر رہی ہے‘‘

’’حج سے کب واپس تشریف لائے‘‘

’’جی آپ کی دُعا سے ایک ہفتہ ہو گیا ہے‘‘

’’اللہ اللہ ہے آپ نے ہمت کی تو خانہ کعبہ کی زیارت کر لی۔ ہماری تمنا دل ہی میں رہ جائے گی دُعا کیجیے یہ سعادت ہمیں بھی نصیب ہو۔ ‘‘

’’انشاء اللہ ورنہ میں گنہگار کس قابل ہوں۔ ‘‘

’’میرے لائق کوئی خدمت‘‘

’’کسی تکلیف کی ضرورت نہیں ہاں دیکھیے ذرا کان کیجیے ادھر میرے ہاں کھانڈ کی دو بوریاں ہیں۔ میری بے شمار لوگوں سے جان پہچان ہے کسی کو ضرورت ہو تو مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ دام واجبی ہوں گے‘‘

۔۔۔۔۔

’’لیجیے جناب ہماری خدمات کا صِلہ مل گیا‘‘

’’کیا۔ ویسے مبارک ہو‘‘

’’سو سو مبارک۔ کمپنی نے نوکری سے جواب دیا۔ ‘‘

’’ہائیں۔ یہ کب کی بات ہے‘‘

’’ایک مہینہ ہو گیا ہے‘‘

’’لاحول ولا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ ‘‘

’’دو سو ملازموں کی چھانٹی ہوئی تھی نا۔ ‘‘

’’بہت افسوس کی بات ہے کوئی احتجاج وغیرہ ہوا تھا۔ ‘‘

’’سینکڑوں ہڑتالیں ہوئیں جلوس نکلے کئی مرتبہ لوگوں نے بھوک ہڑتال کی، وعدے ہوئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ‘‘

’’تعجب ہے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘‘

’’اللہ رحم کرے۔ ‘‘

’’اللہ رحم نہیں کرے گا۔ وہ دن لد گئے۔ جب وہ مائل بہ کرم ہوا کرتا تھا۔ اتنے آدمی ہیں وہ کس کس کی حاجت روائی کرے۔ میرا تو خیال ہے اُوپر آسمانوں پر بھی راشننگ سسٹم ہو گیا ہے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میں اس بد ذات سے کیا کہوں صاف مجھے دغا دے گیا۔ ‘‘

’’کیسے۔ ؟‘‘

’’حرامزادے نے وعدہ کیا۔ اور دونوں گاڑیاں ٹھکانے لگا دیں۔ ‘‘

’’اس کی وجہ‘‘

’’میں نے اُس کا ایک کام کیا تھا اس کے عوض میں اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ایک بیوک کار جو اس کے پاس آنے والی تھی آدھی قیمت پر دے دے گا‘‘

’’اور جو تم نے اُس کا کام کیا تھا وہ لاکھوں کا تھا۔

’’اسی لیے تو کہتا ہوں بلڈی سوائن نے میرے ساتھ دھوکا کیا لیکن میں اس سے بدلہ لوں گا۔ خود بیوک میرے گھر پہنچا کے جائے گا۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔

’’باورچی کو بلاؤ۔ جلدی بلاؤ۔ ہم اس سے بات کرنا مانگتا ہے۔ ‘‘

’’حضور حاضر ہوں‘‘

’’یہ تم نے آج کیسے واہیات کھانے پکائے ہیں‘‘

’’حضور۔ ‘‘

’’حضور کے بچے اس پلیٹ سے بیگم صاحب نے ایک ہی نوالہ اُٹھایا تھا کہ انھیں متلی آگئی۔ ‘‘

’’حضور ممکن ہے کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہو۔ معافی چاہتا ہوں‘‘

’’معافی کے بچے۔ اُٹھاؤ سالن باہر پھینک آؤ۔ ‘‘

’’ہم نوکر کھالیں گے سرکار۔ ‘‘

’’نہیں باہر ڈسٹ بن میں ڈال دو۔ اور تم سزا کے طور پر بھوکے رہو۔ ‘‘

’’اٹھیے بیگم ہم کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اماں۔ اب گزارا کیسے ہو گا یہاں لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔ ‘‘

’’تو ٹھیک کہتی ہے بیٹا‘‘

’’سارا بازار ہی مندا ہے‘‘

’’کیوں۔ ؟‘‘

’’لوگوں کے پاس روپیہ جو نہیں‘‘

’’لیکن جو سڑکوں پر اتنی شاندار موٹریں چلتی ہیں۔ یہ جو عورتیں تن پر زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں یہ کہاں سے آتا ہے (اماں )‘‘

’’ان لوگوں کے پاس ہے‘‘

’’تو پھر بازار کیوں مندا ہے‘‘

’’اب ان لوگوں نے اپنے آپس ہی میں ہمارا دھندا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘

’’ڈارلنگ۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘

’’ساری دکانیں چھان ماریں مگر تمہارے سائز کی میدم فورم بریز ر نہ مل سکی‘‘

’’اوہ ! ہاؤ سیڈ۔ میرا سائز ہی کیا واہیات سا ہے۔ ‘‘

’’دعوت تو جناب ایسی ہو گی کہ یہاں کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ لیکن ایک افسوس ہے کہ فرانس سے جو میں نے شمپیئن منگوائی تھی وقت پر نہ پہنچ سکے گی‘‘

’’اجی سُنیے تو۔ ‘‘

’’اوہ آپ۔ مجھے بڑا ضروری کام ہے۔ معاف فرمائیے۔ ‘‘

’’معافیاں تم لاکھ مرتبہ مانگ چکے ہو۔ وہ میرا سو روپے کا قرض ادا کرو جو تم نے آج سے قریب قریب ایک سال ہوا لیا تھا۔ ‘‘

’’میں پھر معافی چاہتا ہوں میری بیوی بیمار ہے دوا لینے جارہا ہوں‘‘

’’میں ان گھسوں میں آنے والا نہیں خدا کی قسم اگر آج میرا قرض ادا نہ ہوا تو سر پھوڑ دوں گا تمہارا۔ ‘‘

’’آپ کیوں اتنی زحمت اُٹھائیں میں خود ہی اس دیوار کے ساتھ ٹکر مار کے اپنا سر پھوڑ ے لیتا ہوں۔ یہ لیجیے۔ ‘‘

’’یہ چرس کی لت تمھیں کہاں سے پڑی‘‘

’’کیا بتاؤں یار اب تو اس کے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔ ‘‘

’’میں نے تم سے پوچھا تھا کہ لت کہاں سے پڑی تم نے کچھ اور ہی ہانکتا شروع کر دیا ہے‘‘

’’بھائی یہ لت مجھے جیل میں لگی‘‘

’’جیل میں۔ وہاں تو ایک مکھی بھی اندر نہیں جاسکتی‘‘

’’بھائی میرے وہاں مگر مچھ بھی جاسکتے ہیں ہاتھی بھی جاسکتے ہیں اگر تمہارے پاس دولت ہے تو آپ وہاں ایک دو ہاتھی بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں‘‘

’’پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ یہ چرس وہاں کیسے پہنچ سکتی ہے‘‘

’’ویسے ہی جیسے ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں میرے عزیز جیل خانہ صرف اُن لوگوں کے لیے جیل خانہ ہے جو صاحبِ استطاعت نہیں جو دولت مند مجرم ہیں اُن کو وہاں ہر قسم کی مراعات مل سکتی ہیں اور ملتی ہیں‘‘

’’اگر تم چاہو تو تمھیں وہاں شراب مل سکتی ہے گانجہ مل سکتا ہے افیون دستیاب ہو سکتی ہے۔ اگر تم بڑے رئیس ہو تو اپنی بیوی کو بھی وہاں بُلا سکتے ہو۔ جو رات بھر تمہاری مٹھی چاپی کرتی رہے گی۔ ‘‘

’’جیل خانوں میں ایک

’’خاکی‘‘

مارکیٹ ہوتی ہے جو بلیک مارکیٹ سے زیادہ ایماندار ہے۔ ‘‘

’’کرنل صاحب آپ کی عمر کتنی ہو گی۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے پینسٹھ کے قریب ہو گی۔ آپ کی‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں۔ میری عُمر۔ میری عمر یہی پچیس چھبیس برس کے قریب ہو گی۔ ‘‘

’’تو ہم دونوں سچ بول رہے ہیں‘‘

مجھے لپ اسٹک سے نفرت ہے معلوم نہیں عورتیں اسے کیوں استعمال کرتی ہیں اس سے ہونٹوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

’’مجھے خود اس سے نفرت ہے‘‘

’’لیکن تمہارے ہونٹوں پر تو یہ واہیات چیز موجود ہے خون کی طرح سُرخ ہو رہے ہیں۔ ‘‘

’’یہ سرخی میرے اپنے ہونٹوں کی ہے۔ یعنی مصنوعی نہیں‘‘

’’تو آؤ ایک بوسہ لے لُوں۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے‘‘

’’پرے ہٹیے اب مجھے نہیں معلوم تھا کہ مرد بھی لپ اسٹک استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ کیسے‘‘

’’ذرا آئینے میں اپنے ہونٹ ملاحظہ فرمائیے‘‘

’’صاحب آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘

’’کہہ دو صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘

’’بہت اچھا جناب۔ ‘‘

چلا گیا۔ ‘‘

’’جی نہیں چلی گئی۔ ‘‘

’’کیا مطلب۔ ‘‘

’’جی وہ ایک ایکٹریس تھی جس کا نام۔ ‘‘

’’بھاگو بھاگو جلدی اُس کو بُلا کے لاؤ اور کہو تم نے جھوٹ بولا تھا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ ‘‘

’’آپ آج کل کہاں غائب رہتے ہیں‘‘

’’بیگم ایک یتیم بچہ ہے اُس کو دیکھنے کبھی کبھی چلا جاتا ہوں‘‘

’’اُس یتیم بچے سے آپ کو اتنی دلچسپی کیوں ہے‘‘

’’یتیم جو ہوا۔ ‘‘

’’آپ کی جیب میں اس کا فوٹو بھی موجود رہتا ہے‘‘

’’اس لیے۔ اس لیے۔ ‘‘

’’کہ وہ آپ کا یتیم بچہ ہے‘‘

’’نون سنس۔ ‘‘

’’آپ کی قمیص پر سرخ دھبہ کیسے لگا۔ ‘‘

’’میری قمیص پر۔ کہاں ہے‘‘

’’داہنے ہاتھ۔ گریبان کے قریب۔ ‘‘

’’اوہ۔ میں جب دفتر میں کسی ضروری مسئلے پر غور کر رہا ہوتا ہو ں‘‘

تو مجھے کسی بات کا ہوش نہیں رہتا یہ لال پنسل کا نشان ہے جس سے میں نے کھجلا لیا ہو گا۔

’’جی ہاں لیکن اس میں سے تو میکس فیکٹر کی خوشبو آرہی ہے۔ ‘‘

’’تم آج کل کس کی بیوی ہو‘‘

’’کل تو مسٹر۔ کی تھی آج چھٹی پر ہوں‘‘

’’آپ میدان جنگ میں جارہے ہیں خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو لیکن مجھے کوئی نشانی دیتے جائیے۔ ‘‘

’’میری نشانی تو تم خود ہو‘‘

’’نہیں کوئی ایسی چیز دیتے جائیے جس کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتی رہوں‘‘

’’میں وہاں سے بھیج دُوں گا۔ ‘‘

’’کیا چیز۔ ‘‘

’’وہ زخم جو مجھے لڑنے کے دوران آئیں گے‘‘

’’آپ کی بیگم کیسی ہیں‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہو گا۔ اپنی بیگم کے بارے میں مجھ سے دریافت فرما سکتے ہیں‘‘

’’وہ کیسی ہیں‘‘

’’پہلے سے بہتر اور خوش ہیں۔ اُن کی طبیعت بہت پسند آئی۔ ‘‘

’’یار تم اتنی عورتوں سے یارانہ کیسے گانٹھ لیتے ہو‘‘

’’یارانہ کہاں گانٹھتا ہوں باقاعدہ شادی کرتا ہوں‘‘

’’شادی کرتے ہو‘‘

’’ہاں بھائی میں حرام کاری کا قائل نہیں شادی کرتا ہوں اور جب اُکتا جاتا ہوں تو حقِ مہر ادا کر کے اُس سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہوں‘‘

’’اسلام زندہ باد۔ !‘‘

سعادت حسن منٹو

چغد

لڑکوں اور لڑکیوں کے معاشقوں کا ذکر ہورہا تھا۔ پر کاش جو بہت دیر سے خاموش بیٹھا اندر ہی اندر بہت شدت سے سوچ رہا تھا، ایک دم پھٹ پڑا۔

’’سب بکواس ہے، سو میں سے ننانوے معاشقے نہایت ہی بھونڈے اور لچر اور بے ہودہ طریقوں سے عمل میں آتے ہیں۔ ایک باقی رہ جاتا ہے، اس میں آپ اپنی شاعری رکھ لیجیے یا اپنی ذہانت اور ذکاوت بھر دیجیے۔ مجھے حیرت ہے۔ تم سب تجربہ کار ہو۔ اوسط آدمی کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار ہو۔ جو حقیقت ہے، تمہاری آنکھوں سے اوجھل بھی نہیں۔ پھر یہ کیا حماقت ہے کہ تم برابر اس بات پر زور دیے جا رہے ہو کہ عورت کو راغب کرنے کے لیے نرم و نازک شاعری، حسین و جمیل شکل اور خوش وضع لباس، عطر، لونڈر اور جانے کس کس خرافات کی ضرورت ہے اور میری سمجھ سے یہ چیز تو بالکل بالاتر ہے کہ عورت سے عشق لڑانے سے پہلے تمام پہلو سوچ کر ایک اسکیم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

چودھری نے جواب دیا۔

’’ہر کام کرنے سے پہلے آدمی کو سوچنا پڑتا ہے۔ ‘‘

پرکاش نے فوراً ہی کہا۔

’’مانتا ہوں۔ لیکن یہ عشق لڑانا میرے نزدیک بالکل کام نہیں۔ یہ ایک۔ بھئی تم کیوں غور نہیں کرتے۔ کہانی لکھنا ایک کام ہے۔ اسے شروع کرنے سے پہلے سوچنا ضروری ہے لیکن عشق کو آپ کام کیسے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک۔ یہ ایک۔ یہ ایک۔ ۔ میرا مطلب ہے۔ عشق مکان بنانا نہیں جو آپ کو پہلے نقشہ بنوانا پڑے۔ ایک لڑکی یا عورت اچانک آپ کے سامنے آتی ہے۔ آپ کے دل میں کچھ گڑ بڑ سی ہوتی ہے۔ پھر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ساتھ لیٹی ہو۔ اسے آپ کام کہتے ہیں۔ یہ ایک۔ یہ ایک حیوانی طلب ہے جسے پورا کرنے کے لیے حیوانی طریقے ہی استعمال کرنے چاہئیں۔ جب ایک کتا کتیا سے عشق لڑانا چاہتا ہے تو وہ بیٹھ کر اسکیم تیار نہیں کرتا۔ اسی طرح سانڈ جب بُو سُونگھ کر گائے کے پاس جاتا ہے تو اسے بدن پر عطر لگانا نہیں پڑتا۔ بنیادی طور پر ہم سب حیوان ہیں۔ اس لیے عشق و محبت میں جو دنیا کی سب سے پرانی طلب ہے، انسانیت کا زیادہ دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ شعر و شاعری، مصوری، صنم تراشی یہ سب فنون لطیفہ محض بے کار ہیں؟‘‘

پرکاش نے سگریٹ سلگایا اوراپنا جوش بقدر کفایت استعمال کرتے ہوئے کہا۔

’’محض بے کار نہیں۔ میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتے ہو، تمہارا مطلب یہ تھا کہ فنون لطیفہ کے وجود کا باعث عورت ہے، پھر یہ بے کار کیسے ہُوئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کے وجود کا باعث خود عورت نہیں ہے، بلکہ مرد کی عورت کے متعلق حد سے بڑھی ہُوئی خوش فہمی ہے۔ مرد جب عورت کے متعلق سوچتا ہے تو اور سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عورت کو عورت نہ سمجھے۔ عورت کو محض عورت سمجھنے سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے! چنانچہ وہ چاہتا ہے اسے خوبصورت سے خوبصورت روپ میں دیکھے۔ یورپی ممالک میں جہاں عورتیں فیشن کی دلدادہ ہیں، ان سے جا کر پوچھو کہ ان کے بالوں، ان کے کپڑوں، ان کے جوتوں کے نت نئے فیشن کون ایجاد کرتا ہے۔ ‘‘

چودھری نے اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں پرکاش کے کاندھے پر ہولے سے طمانچہ مارا۔

’’تم بہک ہو گئے ہو یار۔ جوتوں کے ڈیزائن کون بناتا ہے، سانڈ گائے کے پاس جاتا ہے تو اسے لونڈر لگانا نہیں پڑتا۔ یہاں باتیں ہورہی تھیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے وہی رومان کامیاب ہوتے ہیں جو شریفانہ خطوط پر شروع ہوں۔ ‘‘

پرکاش کے ہونٹوں کے کونے طنز سے سکڑ گئے۔

’’چودھری صاحب قبلہ! آپ بالکل بکواس کرتے ہیں۔ شرافت کو رکھیے آپ اپنے سگریٹ کے ڈبے میں، اور ایمان سے کہیے وہ لونڈیا جس کے لیے آپ پورا ایک برس رومالوں کو بہترین لونڈر لگا کر اسکیمیں بناتے رہے، کیا آپ کو مل گئی تھی؟‘‘

چودھری صاحب نے کسی قدر کھسیانہ ہو کر جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’وہ۔ وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ ‘‘

’’کس سے۔ کس اُلو کے پٹھے سے۔ ایک پھیری والے بزار سے جس کو نہ تو غالب کے شعر یاد تھے نہ کرشن چندر کے افسانے۔ جو آپ کے مقابلے میں لونڈر لگے رومال سے نہیں بلکہ اپنے میلے تہمد سے ناک صاف کرتا تھا۔ ‘‘

پرکاش ہنسا۔

’’چودھری صاحب قبلہ، مجھے یاد ہے آپ بڑی محبت سے اسے خط لکھا کرتے تھے۔ ان میں آسمان کے تمام تارے نوچ کر آپ نے چپکا دیے۔ چاند کی ساری چاندنی سمیٹ کر ان میں پھیلا دی مگر اس پھیری والے بزار نے آپ کی لونڈیا کو جس کی ذہنی رفعت کے آپ ہر وقت گیت گاتے تھے، جس کی نفاست پسند طبیعت پر آپ مرمٹے تھے، ایک آنکھ مار کر اپنے تھانوں کی گٹھڑی میں باندھا اور چلتا بنا۔ اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟ ؟ چودھری منمنایا:

’’میرا خیال ہے جن خطوط پر میں چل رہا تھا، غلط تھے۔ اس کا نفسیاتی مطالعہ بھی جو میں نے کیا تھا درست ثابت نہ ہوا۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا:

’’چودھری صاحب قبلہ! جن خطوط پر آپ چل رہے تھے، یقیناً غلط تھے۔ اس کا نفسیاتی مطالعہ بھی جو آپ نے کیا تھا، سو فیصد نا درست تھا اور جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ کو خط کشی اور نفسیاتی مطالعے کی زحمت اٹھانی ہی نہیں چاہیے تھی۔ نوٹ بک نکال کر اس میں لکھ لیجیے کہ سو میں سو مکھیاں شہد کی طرف بھاگی آئیں گی اور سو میں ننانوے لڑکیاں بھونڈے پن سے مائل ہوں گی۔ ‘‘

پرکاش کے لہجے میں ایک ایسا طنز تھا جس کا رخ چودھری کی طرح اتنا نہیں تھا جتنا خود پرکاش کی طرف تھا۔ چودھری نے سر کو جنبش دی اور کہا:

’’تمہارا فلسفہ میں کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ ‘‘

آسان بات کو تم نے مشکل بنا دیا ہے۔ تم آرٹسٹ ہو اور نوٹ بک نکال کر یہ بھی لکھ لو کہ آرٹسٹ اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ مجھے بہت ترس آتا ہے ان پر کم بختوں کی بے وقوفی میں بھی خلوص ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مسئلے حل کردیں گے پر جب کسی عورت سے مڈبھیڑ ہو گی تو جناب ایسے چکر میں پھنس جائیں گے کہ ایک گز دُور کھڑی عورت تک پہنچنے کے لیے پشاور کا ٹکٹ لیں گے اور وہاں پہنچ کر سوچیں گے وہ عورت آنکھوں سے اوجھل کیسے ہو گئی۔ چودھری صاحب قبلہ، نکالیے اپنی نوٹ بک اور یہ لکھ لیجیے کہ آپ اوّل درجے کے چغد ہیں۔ ‘‘

چودھری خاموش رہا اور مجھے ایک بار پھر محسوس ہوا کہ پرکاش، چودھری کو آئینہ بنا کر اس میں اپنی شکل دیکھ رہا ہے اور خود کو گالیاں دے رہا ہے۔ میں نے اسے کہا۔

’’پرکاش ایسا لگتا ہے چودھری کے بجائے تم اپنے آپ کو گالیاں دے رہے ہو۔ ‘‘

خلاف توقع اس نے جواب دیا۔

’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، اس لیے کہ میں بھی ایک آرٹسٹ ہوں، یعنی میں بھی۔ جب دو اور دو چاربنتے ہیں تو خوش نہیں ہوتا۔ میں بھی قبلہ چودھری صاحب کی طرح امرتسر کے کمپنی باغ میں عورت سے مل کر فرنٹیئرمیل سے پشاور جاتا ہوں اور وہاں آنکھیں مل مل کر سوچتا ہوں میری محبوبہ غائب کہاں ہو گئی۔ ‘‘

یہ کہہ کر پرکاش خوب ہنسا۔ پھر چودھری سے مخاطب ہوا۔

’’چودھری صاحب قبلہ، ہاتھ ملائیے۔ ہم دونوں پھسڈی گھوڑے ہیں۔ اس دوڑ میں صرف وہی کامیاب ہو گا جس کے ذہن میں صرف ایک ہی چیز ہو کہ اسے دوڑنا ہے، یہ نہیں کہ کام اور وقت کا سوال حل کرنے بیٹھ جائے۔ اتنے قدموں میں اتنا فاصلہ طے ہوتا ہے تو اتنے قدموں میں کتنا فاصلہ طے ہو گا۔ عشق جو میٹری ہے نہ الجبرا۔ پس بکواس ہے۔ چونکہ بکواس ہے اس لیے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہیے۔ ‘‘

’’چودھری نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’کیا بکواس کرتے ہو؟‘‘

’’توسنو!‘‘

پرکاش جم کر بیٹھ گیا۔

’’میں تمہیں ایک سچا واقعہ سُناتا ہوں۔ میرا ایک دوست ہے، میں اس کا نام نہیں بتاؤں گا۔ دو برس ہُوئے وہ ایک ضروری کام سے چمبہ گیا۔ دو روز کے بعد لوٹ کر اسے ڈلہوزی چلا آنا تھا۔ اس کے فوراً بعد امرتسرپہنچنا تھا مگر تین مہینے تک وہ لاپتہ رہا۔ نہ اس نے گھر خط لکھا نہ مجھے جب واپس آیا تو اس کی زبانی معلوم ہُوا کہ وہ تین مہینے چمبہ ہی میں تھا۔ وہاں کی ایک خوبصورت لڑکی سے اسے عشق ہو گیا تھا۔ ‘‘

چودھری نے پوچھا۔

’’ناکام رہا ہو گا۔ ‘‘

پرکاش کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’نہیں، نہیں۔ وہ کامیاب رہا۔ زندگی میں اسے ایک شاندار تجربہ حاصل ہوا۔ تین مہینے وہ چمبہ کی سردیوں میں ٹھٹھرتا اور اس لڑکی سے عشق کرتا رہا۔ واپس ڈلہوزی آنے والا تھا کہ پہاڑی کی ایک پگڈنڈی پر اس کافر جمال حسینہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہُوئی۔ تمام کائنات سکڑ کر اس کی لڑکی میں سما گئی اور وہ لڑکی پھیل کر والہانہ وسعت اختیار کرگئی۔ اس کو محبت ہو گئی تھی۔ قبلہ چودھری صاحب! سُنیے۔ پندرہ دنوں تک متواتر وہ غریب اپنی محبت کو چمبہ کی یخ بستہ فضا میں دل کے اندر دبائے چھپ چھپ کر دور سے اس لڑکی کو دیکھتا رہا مگر اس کے پاس جا کر اس سے ہم کلام ہونے کی ہمت نہ کرسکا۔ ہر دن گزرنے پر وہ سوچتا کہ دوری کتنی اچھی چیز ہے۔ اونچی پہاڑی پر وہ بکریاں چرا رہی ہے۔ نیچے سڑک پر اس کا دل دھڑک رہا ہے۔ آنکھوں کے سامنے یہ شاعرانہ منظر لائیے اور داد دیجیے۔ اس پہاڑی پر عاشق صادق کھڑا ہے۔ دوسری پہاڑی پر اس کی سیمیں بدن محبوبہ۔ درمیان میں شفاف پانی کا نالہ بہہ رہا ہے۔ سبحان اللہ کیسا دلکش منظر ہے، چودھری صاحب قبلہ۔ ‘‘

چودھری نے ٹوکا۔

’’بکواس مت کرو جو واقعہ ہے، اسے بیان کرو۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا۔ تو سنیے۔ پندرہ دن تک میرا دوست عشق کے زبردست حملے کے اثرات دُور کرنے میں مصروف رہا اور سوچتا رہا کہ اسے جلدی واپس چلا جانا چاہیے۔ ان پندرہ دنوں میں اس نے کاغذ پنسل لے کر تو نہیں لیکن دماغ ہی دماغ میں اس لڑکی سے اپنی محبت کا کئی بار جائزہ لیا۔ لڑکی کے جسم کی ہر چیز اسے پسند تھی۔ لیکن یہ سوال درپیش تھا کہ اسے حاصل کیسے کیا جائے۔ کیا ایک دم بغیر کسی تعارف کے وہ اس سے باتیں کرنا شروع کردے؟ بالکل نہیں، یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ کیوں، ہو کیسے نہیں سکتا۔ مگر فرض کرلیا جائے اس نے منہ پھیر لیا۔ جواب دیے بغیر اپنی بکریوں کوہانکتی، پاس سے گزر گئی۔ جلد بازی کبھی بار آور نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے بات کیے بغیر اسے حاصل کیے کیا جاسکتا ہے؟ ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اس کے دل میں اپنی محبت پیدا کی جائے۔ اس کو اپنی طرف راغب کیا جائے۔ ہاں ہاں، ٹھیک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے راغب کیسے کیا جائے۔ ہاتھ سے، اشارہ۔ نہیں، بالکل پوچ ہے۔ سو قبلہ چودھری صاحب! ہمارا ہیرو ان پندرہ دنوں میں یہی سوچتا رہا۔ سولہویں دن اچانک باؤلی پر اس لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ ہمارے ہیرو کے دل کی باچھیں کھل گئیں، لیکن ٹانگیں کانپنے لگیں۔ آپ نے اب ٹانگوں کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ لیکن جب مسکراہٹ کا خیال آیا تو اپنی ٹانگیں الگ کردیں اور اس لڑکی کی پنڈلیوں کے متعلق سوچنے لگا جو اٹھی ہوئی گھگھری میں سے اسے نظر آئی تھیں۔ کتنی سڈول تھیں۔ لیکن وہ دن دُور نہیں جب وہ ان پر بہت آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر سکے گا۔ پندرہ دن اور گزر گئے۔ ادھر وہ مسکرا کر پاس سے گزرتی رہی۔ ادھر ہمارے ہیرو صاحب جوابی مسکراہٹ کی ریہرسل کرتے رہے۔ سوا مہینہ ہو گیا اور ان کا عشق صرف ہونٹوں پر ہی مسکراتا رہا۔ آخر ایک دن خود اس لڑکی نے مہر خاموشی توڑی اور بڑی ادا سے ایک سگریٹ مانگا۔ آپ نے ساری ڈبیا حوالے کردی اور گھر آکر ساری رات کپکپاہٹ پیدا کرنے والے خواب دیکھتے رہے۔ دوسرے دن ایک آدمی کو ڈلہوزی بھیجا اور وہاں سے سگریٹوں کے پندرہ پیکٹ منگوا کر ایک چھوٹے سے لڑکے کے ہاتھ اپنی محبوبہ کو بھجوا دیے۔ جب اس نے اپنی جھولی میں ڈالے تو آپ کے دل کو دور کھڑے بہت مسرت محسوس ہوئی۔ ہوتے ہوتے وہ دن بھی آگیا۔ جب دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ کیسی باتیں؟ قبلہ چودھری صاحب بتائیے، ہمارا ہیرو کیا باتیں کرتا تھا اس سے؟‘‘

چودھری نے اس کو اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’مجھے کیا معلوم۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا۔

’’مجھے معلوم ہے قبلہ چودھری صاحب۔ گھر سے چلتے وقت وہ باتوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست تیار کرتا تھا۔ میں اس سے یہ کہوں گا، میں اس سے یہ کہوں گا جب وہ نالے کے پاس کپڑے دھوتی ہو گی تو میں آہستہ آہستہ جا کر اس کی آنکھیں میچ لوں گا پھر اس کی بغلوں میں گدگدی کروں گا لیکن جب اس کے پاس پہنچتا اور آنکھیں میچنے اور گدگدی کرنے کا خیال آتا تو اسے شرم آجاتی۔ کیا بچپنا ہے۔ اور وہ اس سے کچھ دور ہٹ کر بیٹھ جاتا اور بھیڑ بکریوں کی باتیں کرتا رہتا۔ کئی دفعہ اسے خیال آیا کب تک یہ بھیڑ بکریاں اس کی محبت چرتی رہیں گی۔ دو مہینے سے کچھ دن اوپر ہو گئے اور ابھی تک وہ اس کے ہاتھ تک نہیں لگا سکا۔ مگر وہ سوچتا کہ ہاتھ لگائے کیسے، کوئی بہانہ تو ہونا چاہیے لیکن پھر اسے خیال آتا بہانے سے ہاتھ لگانا بالکل بکواس ہے، لڑکی کی طرف سے اسے خاموش اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اس کے بدن کے جس حصے کو بھی چاہے ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اب خاموش اجازت کا سوال آجاتا۔ اسے کیسے پتہ چل سکتا ہے اس نے خاموش اجازت دے دی ہے۔ قبلہ چودھری صاحب، اس کا کھوج لگاتے لگاتے پندرہ دن اور گزر گئے۔ ‘‘

پرکاش نے سگریٹ سلگایا اور منہ سے دھواں نکالتے ہوئے کہنے لگا۔

’’اس دوران میں وہ کافی گھل مل گئے تھے۔ لیکن اس کا اثر ہمارے ہیرو کے حق میں بُرا ہوا۔ دوران گفتگو میں اس نے لڑکی سے اپنے اونچے خاندان کا کئی بار ذکر کیا تھا، اپنے اوباش دوستوں پر کئی بار لعنتیں بھیجی تھیں جو پہاڑی دیہاتوں میں جا کر غریب لڑکیوں کوخراب کرتے تھے۔ کبھی دبی زبان میں، کبھی بلند بانگ اپنی تعریف بھی کی تھی۔ اب وہ کیسے اس لڑکی پر اپنی شہوانی خواہش ظاہر کرتا۔ ظاہر تھا کہ معاملہ بہت ٹیڑھا اور پیچدار ہو گیا ہے۔ مگر اس کا جذبہ عشق سلامت تھا اس لیے اسے اُمید تھی کہ ایک روز خود لڑکی ہی اپنا آپ تھالی میں ڈال کر اس کے حوالے کردے گی۔ اس اُمید میں چنانچہ کچھ دن اور بیت گئے ایک روز کپڑے دھوتے دھوتے لڑکی نے جب کہ ہاتھ صابن سے بھرے ہوئے تھے اس سے کہا۔

’’تمہاری ماچس ختم ہو گئی ہے میری جیب سے نکال لو۔ یہ جیب عین اس کی چھاتی کے ابھار کے اوپر تھی۔ ہمارا ہیرو جھینپ گیا۔ لڑکی نے کہا۔

’’نکال لونا‘‘

۔ تھوڑی سی ہمت کرکے اس نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ بڑھایا اور دو انگلیاں بڑی احتیاط سے اس کی جیب میں ڈالیں۔ ماچس بہت نیچے تھی۔ گھبرایا۔ کہیں اور نہ جا ٹکرائیں۔ چنانچہ باہر نکال لیں اور اپنی خالی ماچس سے تیلی نکال کر سگریٹ سلگایا اور لڑکی سے کہا

’’تمہاری جیب سے ماچس پھر کبھی نکالوں گا۔ ‘‘

یہ سن کر لڑکی نے شریر شریر نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ ہمارے ہیرو نے آدھا میدان مار لیا۔ دوسرا آدھا مارنے کے لیے وہ اسکیمیں سوچنے لگا۔ ایک روز صبح سویرے نالے کے اس طرف بیٹھا، دوسری طرف ندی پر اس لڑکی کو بکریاں چراتے دیکھ رہا تھا اور اس کی اُبھری ہوئی جیب کے مال پر غور کررہا تھا کہ نیچے سڑک پر باؤلی کے پاس ایک موٹر لاری رکی۔ سکھ ڈرائیور نے باہر نکل کر پانی پیا اور اس لڑکی کی طرف دیکھا۔

’’میرے دل میں ایک جلن سی پیدا ہوئی۔ باؤلی کی منڈیر پر کھڑے ہو کر اس موبل آئل سے لتھڑے ہوئے سکھ ڈرائیور نے پھر ایک بار ساوتری کی طرف دیکھا اور اپنا غلیظ ہاتھ اٹھا کر اسے اشارہ کیا۔ میرے جی میں آئی پاس پڑا ہوا پتھر اس پر لڑھکا دوں۔ اشارہ کرنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ منہ کے ادھر ادھر رکھ کر نہایت ہی بھونڈے طریقے سے پکارا۔

’’او جانی۔ میں صدقے۔ آؤں؟۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سکھ ڈرائیور نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ میرا دل گھٹنے لگا۔ چند منٹوں ہی میں وہ حرام زادہ اس کے پاس کھڑا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر اس نے کوئی بدتمیزی کی تو وہ چھڑی سے اس کی ایسی مرمت کرے گی کہ ساری عمر یاد رکھے گا۔ میں ادھر سے نگاہ ہٹا کر اس مرمت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک دم دونوں میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ میں بھاگا نیچے، سڑک کی طرف باؤلی کے پاس پہنچ کر سوچا کیا حماقت ہے۔ تشویش کیسی؟ لیکن پھر خیال آیا کہیں وہ الو کا پٹھا دراز دستی نہ کر بیٹھے۔ اس لیے پہاڑی پر تیزی سے چڑھنا شروع کیا۔ بڑی مشکل چڑھائی تھی۔ جگہ جگہ خار دار جھاڑیاں تھیں۔ ان کو پکڑ کر آگے بڑھنا پڑتا تھا۔ بہت دُور اوپر چلا گیا پر وہ دونوں کہیں نظر نہ آئے۔ ہانپتے ہانپتے میں نے اپنے سامنے کی جھاڑی پکڑ کر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ کیا دیکھتا ہوں جھاڑی کے دوسری طرف پتھروں پر ساوتری لیٹی ہے اور اس غلیظ ڈرائیور کی داڑھی اس کے چہرے پر بکھری ہوئی ہے۔ میری۔ میرے جسم کے سارے بال جل گئے۔ ایک کروڑ گالیاں ان دونوں کے لیے میرے دل میں پیدا ہوئیں۔ لیکن ایک لحظے کے لیے سوچا تو محسوس ہوا کہ دنیا کا سب سے بڑا چغد میں ہوں۔ ۔ اسی وقت نیچے اترا اور سیدھا لاریوں کے اڈے کا رخ کیا۔ ‘‘

پرکاش کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگیں۔

سعادت حسن منٹو

جُھوٹی کہانی

کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہورہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں تھیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کردی تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن۔ حجاموں کی انجمن۔ کلرکوں کی انجمن۔ اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن۔ ہر اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے۔ ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصر ے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اقلیت کے طرف دار موافقت۔ غرضیکہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی، مگر ایک روز جب اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے گنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہو گئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے۔ پر جب بعد میں اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک باقاعدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ گنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے متحد اور منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کرچکے ہیں۔ اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں، ان کو روداد اخباروں میں شائع ہوچکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود ہو جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔ اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ گنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرے گی۔ کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو گنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے اس لیے کہ اس سے ان کی ذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کرلیتے۔ مگر اس خیال کہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری، ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ، افعال قبیجہ کے بجائے فنونِ لطیفہ میں شمار ہونے چاہئیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو برا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔ ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکر ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گھڑی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرے گی۔ وہ حکامِ وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوروں کا برقی الارم نہ لگانے دے اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں، اسی طرح یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا بھی ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہوجانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے گی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کریملن سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار درخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراً کچل دے، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقعہ دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔ خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے مگر حیرت یہ کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہو گئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔ اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آکر اس ننگِ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا کہ یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو اپنے آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا موٹو بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔ اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے سے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے۔ قانون اس کی پشت پر ہے، مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے وہ کوشش کررہی ہے کہ بہت سی رقم دے کرکچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کرلے۔ یہ پوسٹر ملک کے درودیوار پر نمودار ہوا، تو فوراً بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں گنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں اصلاحی پہلو کریدناشروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔ پہلے ان دو اخباروں کی اشاعت ہونے نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کے بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، ٹانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دوگنے ہو جاتے تھے۔ جودُختِ رز کے رسیا تھے، ان کو مفت پر مٹ ملتا تھا اور بہترین سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اس کے گھرمیں کبھی چورئی ہوئی، یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔ ان دو اخباروں کی اشاعت سے دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئے۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو ا س معاملے میں بالکل خاموش ہو گئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جاپہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔ ان کے علمی و ادبی اڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے، یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے۔ بلیک مارکیٹ کے فوائد۔ معاشیات کی روشنی میں معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت۔ دروغ گورا حافظہ باشد۔ جدید سائنٹفک تحقیق بچوں میں قتل وغارت گری کے فطری رجحانات۔ سیادت پر سیر حاصل تبرہ دنیا کے خوف ناک ڈاکو اور تقدیسِ مذہب اشتہار بھی کم عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی مختصر لفظوں میں ادا کردی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں۔ چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔ بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخٹ کیے جاتے ہیں۔ جو تفریح کا بہترین سامان پیش کرتا ہے۔ دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی مطالعہ فرمائیے۔ ٹونے، ٹوٹکے، گنڈے اور تعویذ، عملِ ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکا دینے کے بجائے معشوق کو دھوکا دیجیے۔ کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خیریدیے جن میں ضرر رساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہوا۔ ایک الگ کالم میں

’’بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ‘‘

کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چھپے چوری، چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انھیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔ گنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو اربابِ بست وکشاد کی تشویش دو چند ہو گئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پربہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیر زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدن کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابل غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اسکی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جارہی تھی۔ اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوئے تھے، مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرنو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی معزز ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا کہ اتفاق رائے سے گنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ، آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی ومجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔ جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے بلاتبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔ آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و معظم ہستیاں جمع تھیں۔ امراء و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلیٰ اعلیٰ افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقہ نظر سے گنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کردیاگیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہر قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے بااثر الفاظ پر مشتمل تھا اتفاق رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں میں ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’صاحبِ صدر، اجازت ہو تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا

’’میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟‘‘

اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا۔ تعظیم کے ساتھ کہا۔

’’ملک وملت کا ایک ادنیٰ ترین خادم‘‘

اور کورنش بجالایا۔ صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا۔

’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا۔

’’کہ۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ‘‘

اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر خصوصاً سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا۔

’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کربڑے پارلیمانی انداز میں گویا ہوا۔

’’صاحب صدر اور معزز حضرات‘‘

۔ ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا۔

’’معافی کا طلبگار ہوں۔ محترمہ بیگم مرزبان خلافِ معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں۔ صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات!‘‘

بیگم مرزبان نے دے نیسٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔

’’حریفِ مطلب مشکل نہیں فسونِ نیاز دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز کچھ دیر رک کر وہ ایک ادا سے مسکرایا۔

’’حضرت غالب!۔ اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر فشانی کی گئی ہے، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔ ‘‘

سارے ہال میں کُھسر پُھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا۔

’’آپ ہیں کون؟‘‘

سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا۔

’’ملک و ملت کا ایک ادنیٰ خادم۔ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے!‘‘

ہال میں کسی نے زور سے

’’واہ‘‘

کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور گنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا۔

’’کیا عرض کروں۔ کچھ کہا نہیں جاتا۔ واں گیا بھی میں تو اُن کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے اس قدر گالیاں دی گئی ہیں۔ اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے لو وہ بھی کہتے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے صاحبِ صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات! بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی۔ بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا۔

’’محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرف دار ہو۔ دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرے چارہ گری نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس گلے میں پان دبا کر بولے۔

’’مکرر!‘‘

صدر نے جب ان کی طرف سرزنش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے۔ چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’میں اپنی مختصریر تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا۔ حضرت غالب کا ہو گا!‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا۔

’’آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

بولنے والا کورنش بجایا لیا اور مسکرا کر کہنے لگا۔

’’سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!‘‘

سارا ہال قہقوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے پھر بولنا شروع کیا۔

’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات ؂ گرچہ ہے کس کس برائی سے دلے باایں ہمہ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی کہ اسے معلون و مطعون قرار دے کر خارج از سماج کردیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کیا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں ؂ ؂

’’آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے‘‘

صدر نے دفعتہً گرج کر کہا۔

’’خاموش۔ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘

مقرر نے مسکرا کر کہا۔

’’حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے ؂ دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخاست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور گنڈوں کی یونین کے نمائندے کی تقریر ختم ہو جائے تو کارروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاس نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن مبں رائے عامہ کے سامنے انھیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔ اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اورکہنا شروع کیا۔

’’ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی طرف سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، رہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری رد عمل کس قسم کا تھا، میں اس کا تصور بھی کرسکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقو ق کیا نہیں ہوتے؟ یا نہیں ہوسکتے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ جس طرح سب سے پہلے انسان ہیں، بعد میں سیٹھ ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ۔ اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہے۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقفِ نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا اور ہونے چاہئیں۔ جن نعمتوں سے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں ان سے وہ بھی مستفیض ہونے کا حق رکھتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے۔ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبحِ بناس اور شامِ اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے۔ وہ بھی ہوتا ہے۔ سرتال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ صرف پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا۔ کسی حسینہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو بھی صدمہ پہنچتا ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلورگیر ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے، معاف کیجیے آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا ؂

’’نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!‘‘

سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہو گئی تھیں مسکرائیں۔ مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا۔

’’مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں!‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا۔

’’اور وہ رہزن بھی کہاں؟‘‘

مقرر نے تسلیم کیا۔

’’آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوسناک حقیقت کا کامل احساس ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن بنا ڈالی ہے۔ مردر زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور کیب کترے قریب قریب سب اپنی پرانی روش اور وضعداری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انھوں نے کیا کیا ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چوری اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے، مگر وہ لوگ کیا ہیں۔ کچھ اس عالت مرتبت ڈ ائس پر بھی بیٹھے ہیں جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔ ‘‘

ہال میں

’’شیم شیم‘‘

کے نعرے بلند ہوئے۔ مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔

’’ہم چور ی کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی اور نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدتریں قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھتی ہے۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض اور بھاری بھر کم شہتیرکو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کیوں؟۔ یہ بڑا گستاخ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو۔ ‘‘

تھوڑے توقف کے بعد وہ مسکرایا۔

’’وزیر صاحبان اپنی مسندِ و زارت کی سان پر اُسترا تیز کرکے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں، لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوہ چرانے والا قابل تعزیر ہے۔ تعزیر کو چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں۔ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔ ‘‘

ڈائس پربہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگا۔ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔ مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھر کہنا شروع کیا۔

’’تمام محکموں میں اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ کبھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے کہ خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خردماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوسناک حالات موجود نہیں کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب کریگا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعائتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اُس کا امتحان ہے جو اس کو فوراً نتیجے سے باخبر کردیتا ہے۔ ‘‘

ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے تقریر سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی۔

’’میں بدکاری معاف کرسکتا ہوں۔ لیکن خامکاری ہرگز ہرگز معاف نہیں کرسکتا۔ وہ لوگ یقیناً قابل مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت کو لولٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے۔ نہیں ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں۔ جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدیس و طہارت، دین و نیا، سب کو ایک پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ۔ میں سوال کرتا ہوں، از منہ، عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کو کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسری اجناس کی طرح ملاوٹ کرکے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟‘‘

ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا۔

’’صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات مجھے معاف فرمائیے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے۔ ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا یا ہے ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انھیں نہایت ہی مشکل وقت میں ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا۔ مگر میں انسانوں کی بات کررہا ہوں۔ معاف کیجیے۔ میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہو گئی ؂

’’رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘

یہ کہتا وہ ڈائس کی طرف بڑھا۔

’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات! میں اپنی یونین کی طرف سے آپ کا سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقعہ دیا۔ ‘‘

ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

’’میں اب ایک دوست کی حیثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔ ‘‘

صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اُس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

’’اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ ‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے اپنا ہاتھ پیش کردیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا۔ لیکن فوراً ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدرکی میز پر ایک ایک کرکے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا۔

’’ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔ آج صرف ازراہِ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کردیا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا۔

’’خاتون مکرم معاف کیجیے۔ آپ کے وینسیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی۔ مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

جُھمکے

سُنار کی اُنگلیاں جھمکوں کو برش سے پالش کر رہی ہیں جھمکے چمکنے لگتے ہیں ستار کے پاس ہی ایک آدمی بیٹھا ہے جھمکوں کی چمک دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اُٹھتی ہیں بڑی بے تابی سے وہ اپنے ہاتھ ان جھمکوں کی طرف بڑھاتا ہے اور سُنار کہتا ہے

’’بس اب رہنے دو مجھے‘‘

سُنار اپنے گاہک کو اپنی ٹُوٹی ہوئی عینک میں سے دیکھتا ہے اور مسکرا کرکہتا ہے

’’چھ مہینے سے الماری میں بنے پڑے تھے آج آئے ہو تو کہتے ہو کہ ہاتھوں پر سرسوں جما دُوں‘‘

گاہک جس کا نام چرنجی ہے کچھ شرمندہ ہو کر کہتا ہے

’’کیا بتاؤں لالہ کروڑی مل۔ اتنی رقم جمع ہونے میں آتی ہی نہیں تھی تم سے الگ شرمندہ جورو سے الگ شرمندہ عجب آفت میں جان پھنسی ہوئی تھی۔ جانے اس سونے میں کیا کشش ہے کہ عورتیں اس پر جان دیتی ہیں۔ سُنار پالش کرنے کے بعد جھمکے بڑی صفائی سے کاغذ میں لپیٹتا ہے اور چرنجی کے ہاتھوں میں رکھ دیتا ہے۔ چرنجی کا غذ کھول کر جھمکے نکالتا ہے جب وہ جھُمر جھمر کرتے ہیں تو وہ مسکراتا ہے۔ بھئی کیا کاریگری کی ہے لالہ کروڑی مل۔ دیکھے گی تو پھڑک اُٹھے گی۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے اور سُنار سے یہ کہہ کر

’’کھرے کر لو بھائی‘‘

دکان سے باہر نکلتا ہے۔ ۔ دکان کے باہر ایک تانگہ کھڑا ہے گھوڑا ہنہناتا ہے تو چرنجی اس کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے‘‘

تمھیں بھی دو جھمکے بنوا دُوں گا میری جان فکر مت کرو‘‘

یہ کہہ کر وہ خوش خوش گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے

’’چل میری جان ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے‘‘

چرنجی خوش خوش اپنے طویلے پہنچتا ہے دھیمے دھیمے سروں میں کوئی گیت گنگناتا اور یُوں اپنی خوشی کا اظہارکرتا وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا اور کہتا ہے:

’’ابھی چھٹی نہیں ملے گی میری جان تیری مالکن یہ جھُمکے پہن کر کیا باغ کی سیر کو نہیں جائے گی۔ ‘‘

چرنجی جلدی جلدی گھر کا زینہ طے کرتا ہے اور زور سے آواز دیتا ہے۔ مُنی مُنی ایک چھوٹی سی لڑکی بھاگتی ہوئی اندر سے نکلتی ہے اور چرنجی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے چرنجی جھمکے نکال کر اس کی کان کی لوؤں کے ساتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے‘‘

ماں کہاں ہے تیری۔ جواب کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کے سارے کمروں میں ہاتھ میں جھمکے لیے پھرتا ہے مُنی کی ماں۔ مُنی کی ماں کہتا۔ لڑکی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے۔

’’مُنی ماں کہاں ہے تیری۔ لڑکی جواب دیتی ہے۔ وہاں گئی ہے: لڑکی کا اشارہ سامنے بلڈنگ کی طرف تھا۔ چرنجی اُدھر دیکھتا ہے کھڑکی کے شیشوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت کا سایہ نظر آتا ہے مرد عورت کے کانوں میں بُندے پہنا رہا ہے لمبے لمبے بُندے یہ منظر دیکھ کر چرنجی کے منہ سے دبی ہوئی چیخ سی نکلتی ہے وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی ننھی بچی کو اُٹھا کر سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بچی اس خوفناک سائے کو دیکھے سینے کے ساتھ اس طرح اپنی بچی کو بھینچے وہ آہستہ آہستہ نیچے اُترتا ہے وہ جھمکے جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اس کے ہاتھوں سے فرش پر گر پڑتے ہیں۔ نیچے طویلے میں آ کر وہ اپنی بچی کو جو کہ سخت پریشان ہو رہی ہے تانگے میں بٹھاتا ہے اور خود گھوڑے کی باگیں تھام کر تانگے کو باہر نکالتا ہے۔ چرنجی بالکل خاموش ہے جیسے اسے سانپ سُونگھ گیا ہے اُس کی ننھی بچی سہمے ہُوئے لہجے میں بار بار پوچھتی ہے

’’ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پِتا جی۔ ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پتا جی۔ ؟ چرنجی کی بیوی اپنے گھر واپس آگئی ہے اور ایک آئینہ سامنے رکھے اپنے جھمکوں کو پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور گارہی ہے۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ اپنی بچی کو آواز دیتی ہے مُنی ادھر آ تجھے ایک چیز دکھاؤں۔ کوئی جواب نہیں ملتا کہاں چلی گئی تو۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھتی ہے اور اِدھر اُدھر اُسے ڈھونڈتی ہے جب وہ نہیں ملتی تو باہر نکلتی ہے سیڑھیوں کے اختتامی سرے پر جو چبوترہ سا بنا ہے اس پر کھلے ہوئے کاغذ میں دو جھمکے دکھائی دیتے ہیں چرنجی کی بیوی ان کو اُٹھاتی ہے ایک دم اسے خوفناک حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ اِن جھمکوں کو مٹھی میں بھینچ کر وہ چیختی ہے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے دیوانوں کی طرح دوڑی دوڑی اندر جاتی ہے سب کمروں میں پاگلوں کی طرح چکراتی ہے اور مُنی کو آوازیں دیتی ہے جب اس کے دماغ کا طوفان کچھ کم ہوتا ہے تو وہ وہیں بیٹھ جاتی ہے جہاں پہلے بیٹھی تھی۔ سامنے اس کے سامنے آئینہ پڑا ہے اس میں وہ غیر ارادی طور پر اپنی شکل دیکھتی ہے۔ پرنجی کی بیوی جب اپنی شکل اس زاویے میں دیکھتی ہے تو اس سے متنفر ہو کر آئینہ اُٹھاتی ہے اور زمین پر پٹک دیتی ہے آئینہ چکنا چور ہوجاتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی باہر نکلتی ہے۔ ۔ سامنے والی بلڈنگ کا ایک کمرہ۔ یہ کمرہ پُرتکلف طریقے سے سجا ہوا ہے ایک لڑکی اور ایک لڑکا جس کی عُمر میں تقریباً دو برس کا فرق ہے لڑکی چھ برس کی اور لڑکا آٹھ برس کا ہے دونوں اپنے باپ کے پاس بیٹھے ہیں اور اس سے کھیل رہے ہیں اتنے میں دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوتی ہے پہلی بار جب دستک ہوتی ہے تو بچوں کا باپ نہیں سنتا۔ جب دوسری بار پھر ہوتی ہے تو وہ چونکتا ہے بچوں کی طرف دیکھتا ہے پھر ان کی آیا کی طرف اور کہتا ہے ان کو باہر لے جاؤ۔ کوئی میرا ملنے والا آیا ہےٗ جلدی جلدی بچوں کو نکال کر دروازہ بند کرتا ہے دوسرے دروازے کی طرف بڑھتا ہے جب دروازہ کھلتا ہے تو چرنجی کی بیوی اندر داخل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بچوں کے باپ کو سخت حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے

’’تم تو کہہ رہی تھیں مجھے جلدی گھر جانا ہے اب واپس کیسے آگئیں۔ چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی۔ ساکت جامد کھڑی رہتی ہے اُس کو خاموش دیکھ کر وہ پھر اُس سے پوچھتا ہے‘‘

وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ‘‘

چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی وہ پھر اس سے سوال کرتا ہے۔ تم خاموش کیوں ہو۔ جُھمکے پسند نہیں آئے۔ چرنجی کی بیوی کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے کیوں نہیں آئے۔ بہت پسند آئے۔ کیا اور لا دو گے مجھے۔ ؟ بچوں کا باپ مسکراتا ہے جتنے کہو ٗ بس یہی بات تھی۔

’’بڑے تلخ لہجے میں چرنجی کی بیوی کہتی ہے بس یہی بات تھی لیکن مجھے صرف جھُمکے ہی نہیں چاہئیں ناک کے لیے کیل۔ ہاتھوں کے لیے کنگنیاں کڑے گلے کے لیے ہار ٗ ماتھے کے لیے جھومر پاؤں کے لیے پازیب مجھے اتنے زیور چاہئیں کہ میرا پاپ ان کے بوجھ تلے دب جائے اپنی عصمت کا زیور تو اُتار چکی ہُوں اب یہ گہنے نہ پہنوں گی تو لوگ کیا کہیں گے۔ بچوں کا باپ یہ گفتگو سن کر سخت متحیر ہوتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ چرنجی کی بیوی سے کہتا ہے۔ یہ تو کیا بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔ چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ بہکی پہلے تھے اب تو ہوش کی باتیں کر رہی ہوں سنو۔ میں تمہارے پاس اس لیے آئی ہوں کہ وہ چلا گیا ہے میری بچی کو بھی ساتھ لے گیا ہے اُسے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا جس طرح میری لٹی ہوئی آبرو واپس نہیں آئے گی۔ بولو مجھے پناہ دیتے ہو۔ میں تمھیں اس پاپ کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ جو تم نے اور میں نے مل کر لیا ہے کہ مجھے پناہ دو۔ بچوں کا باپ چرنجی کی بیوی کی سب التجائیں سنتا ہے مگر وہ کیسے اس عورت کو پناہ دے سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو جھُمکے کے بدلے بیچا۔ ایک سودا تھا جو ختم ہو گیا چرنجی کی بیوی کو یہ سُن کر بہت صدمہ ہوتا ہے ناکام اور مایوس ہو کر وہ چلی جاتی ہے۔ چرنجی اب ایک نئے گھر میں ہے رات کا وقت ہے۔ وہ اپنی بچی مُنی کو سُلانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ سوتی نہیں بار بار اپنی ماں کے بارے میں پوچھتی ہے چرنجی اس کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے مگر بچی کی معصوم باتیں اُسے پریشان کر دیتی ہیں آخر میں گھبرا کر اُس کے منہ سے یہ نکلتا ہے

’’مُنی تمہاری ماتا جی مر گئی ہیں راستہ بھول کر وہ ایسی جگہ چلی گئی ہیں جہاں سے واپس آنا بڑا مشکل ہوتا ہے دروازہ کھلتا ہے۔ چرنجی فوراً منی کا چہرہ کمبل سے ڈھانپ دیتا ہے چرنجی کی بیوی داخل ہوتی ہے چرنجی اُٹھتا ہے اور اسے باہر دھکیل کر اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیتا ہے

’’چلی جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

وہ اُس سے کہتا ہے چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔

’’چلی جاتی ہوں میری بچی مجھے دیدو‘‘

چرنجی غصے اور نفرت بھرے لہجے میں اُس سے کہتا ہے وہ عورت جو مرد کی بیوی نہیں بن سکتی اولاد کی ماں کیسے ہوسکتی ہے اپنے پاپ بھرے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہو کیا تمھیں منی کی ماں کہلانے کا حق حاصل ہے کیا اس دن کے بعد جب تم نے یہ جھمکے لے کر ایک غیر مرد تو ہاتھ لگانے دیا تم اپنی اولاد کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر سکتی ہو کیا تمہاری مامتا اُس دن جل کر راکھ نہیں ہو گئی تھی جب تمہارے قدم ڈگمگائے تھے اپنی بچی لینے آئی ہو وہ جھمکے پہن کر جنہوں نے تمہاری زندگی کے سب سے قیمتی زیور کو اُتار کر گندی موری میں پھینک دیا ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں جب یہ جھمکے ہلتے ہیں تو تمہارے کانوں میں یہ آواز نہیں آتی کہ نہ تم ماں رہی ہو نہ بیوی۔ جاؤ تمہاری مانگ سیندور سے اور تمہاری گود اولاد سے ہمیشہ خالی رہے گی۔ جن قدموں سے آئی ہو انہی قدموں سے واپس چلی جاؤ۔ چرنجی اپنی بیوی کی التجاؤں کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ چلی جاتی ہے افسردہ اور خاموش۔ ۔ تانگے کا پہیہ گھوم رہا ہے یہ بتانے کے لیے کہ وقت گزر رہا ہے اور کئی سال بیت رہے ہیں تانگے کا پہیہ مڑتا ہے اور بڑے دروازے میں داخل ہوتا ہے یہ دروازہ گورنمنٹ کالج کا ہے جس میں کئی لڑکے اور لڑکیاں گزر رہی ہیں تانگہ کالج کے کمپاؤنڈ میں ٹھہرتا ہے چرنجی اب کافی بڈھا ہو چکا ہے۔ تقریباً آدھے بال سفید ہیں۔ اس کی ننھی بچی اب جوان ہے تانگے کی پچھلی نشست پر سے جب اُٹھتی ہے تو چرنجی اس کو بہت نصیحتیں کرتا ہے۔ بڑے صاحب کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کہنا جو سوال پوچھیں ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔ وغیرہ وغیرہ لڑکی اپنے باپ کی ان باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے اور اچھا اچھا کہتی وہاں سے چلتی ہے لیکن فوراً ہی چرنجی اس کو روکتا ہے اور جیب سے برفی نکال کر اس کو دیتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلا دن ہے منہ میٹھا کر لو زبردستی وہ اپنی لڑکی کے ہاتھ میں برفی رکھ دیتا ہے۔ ۔ سامنے کالج کے برآمدے میں دو تین لڑکے کھڑے ہیں جو آنے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو گھور رہے ہیں جب کرشنا کماری (چرنجی کی بیٹی) برآمدے کی طرف آتی ہے تو ایک لڑکا جس کا نام جگدیش ہے اپنے ساتھی کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھونکا دیتاہے اور کہتا ہے۔

’’لو بھئی ایک فرسٹ کلاس چیز آئی ہے۔ طبیعت صاف ہو جائے گی تمہاری۔ یہ کہہ کر جب وہ کرشنا کماری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُس کے دوست سب اُدھر متوجہ ہوتے ہیں مگر انھیں بجائے ایک دیہاتی لڑکا نظر آتا ہے جو بڑا انہماک سے اپنے فارم کا مطالعہ کرتا ہوا ان کی طرف چلا آرہا ہے سب لڑکے اس دیہاتی کو دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھئی کیا چیز ہے طبیعت واقعی صاف ہو گئی۔ کرشنا کماری اس دوران میں ایک طرف ہو گئی تھی۔ یہ دیہاتی لڑکا جس کا نام کرشن کمار ہے کا لج کے اِن پرانے شریر طالبعلموں کی طرف بڑھتا ہے جگدیش سے وہ بڑے سادہ لہجے میں پوچھتا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے جگدیش ذرا پیچھے ہٹ کر اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے چڑیا گھر۔ ‘‘

کرشن کمار اسی طرح سادہ لوحی سے جواب دیتا ہے جی نہیں چڑیا گھر میں کل جاؤں گا میں یہاں داخل ہونے آیا ہوں۔ سب لڑکے بے چارے کرشن کمار کا مذاق اُڑاتے ہیں اُسے چھیڑتے ہیں اتنے میں ایک لڑکی کرشنا کماری کو ساتھ لیے ان لڑکوں کے پاس آتی ہے اور ان میں سے ایک لڑکے کو جس کا نام ستیش ہے مخاطب کر کے کہتی ہے ستیش میرا پیریڈ خالی نہیں تم انھیں بتا دو کہ کہاں داخلہ ہو رہا ہے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دے کر وہ تیز قدمی سے چلی جاتی ہے ستیش فارم دیکھتا ہے اور کہتا ہے آپ کا نام کرشنا کماری ہے۔ کرشن کمار بول اُٹھتا ہے جی نہیں میرا نام کرشن کمار ہے سب ہنستے ہیں ستیش کرشن کمار کا فارم بھی لے لیتا ہے اور دونوں سے کہتا ہے آئیے کمار اور کماری صاحبہ میں آپ کو راستہ بتا دوں سب چلتے ہیں۔ اس کمرے کے باہر جہاں داخلہ ہو رہا ہے ستیش ٹھہر جاتا ہے اور ایک فارم کرشن کمار اور دوسرا کرشنا کو دے کر کہتا ہے۔

’’اندر چلے جائیں۔ ‘‘

کرشن کماری اور کرشنا کمار دونوں اندر داخل ہوتے ہیں کرشن کمار ایک میز کی طرف بڑھتا ہے کرشن کماری دوسرے میز کی طرف اِدھر کرشنا کماری کا انٹرویو شروع ہوتا ہے اُدھر کرشن کمار کا۔ کرشن کماری کا نام پڑھ کر پروفیسر کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتے ہیں۔ کشتی لڑتے ہیں، گولہ پھینکتے ہیں۔ ادھر دوسرا پروفیسر کرشن کمار سے کہتا ہے

’’آپ کو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائی کے کام کا شوق ہے کرشن کمار اور کرشنا حیران رہ جاتے ہیں کرشن کماری پروفیسر سے کہتی ہے جی نہیں مجھے تو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائیوں کا شوق ہے اُدھر کرشن کمار پریشان ہو کر پروفیسر سے کہتا ہے جی نہیں مجھے تو کبڈی کھیلنے گولہ پھینکنے اور کشتی لڑنے کا شوق ہے دونوں کے فارم تبدیل ہو گئے تھے ہال میں قہقہے بلند ہوتے ہیں ہال کی کھڑکیوں کے باہر جگدیش اور ستیش اور ان کی پارٹی کھڑی یہ سب تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ ۔ بازار میں تانگہ کھڑا ہے چرنجی اس کو صاف کر رہا ہے اتنے میں ایک پٹھان آتا ہے اور چرنجی سے ان دو سو روپوں کا تقاضہ شروع کر دیتا ہے جو اُس نے قرض لے رکھے ہیں پٹھان روز روز کے وعدوں سے تنگ آیا ہوا ہے چنانچہ وہ چرنجی سے بڑے دُرشت لہجے میں باتیں کرتا ہے چرنجی پٹھان سے معافی مانگتا ہے اور کہتا کہ وہ بہت جلد اس کا قرضہ ادا کر دے گا پٹھان چرنجی سے کہتا ہے کہ وہ تانگہ گھوڑا بیچ کر قرض ادا کر دے گا اس سے چرنجی کو صدمہ ہوتا ہے تانگہ گھوڑا وہ کبھی بیچنے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ وہ اسے بہت عزیز ہے اتنے میں کرشنا کماری کی آواز آتی ہے

’’پتا جی‘‘

میری کتابیں آپ ساتھ لے گئے ہیں نا۔ چرنجی اپنی لڑکی جواب دیتا ہے۔ ہاں بیٹی لے آیا ہوں اپنے ساتھ۔ یہ کہہ کر وہ پٹھان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے خان میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے میری لڑکی کے سامنے اپنے روپوں کا تقاضہ نہ کرنا۔ خان کا دل کچھ پسیجتا ہے چنانچہ جب کرشن کماری آتی ہے اور تانگے میں بیٹھتی ہے تو چرنجی سے کچھ نہیں کہتا ٗ خان کو سلام کر کے چرنجی تانگہ چلاتا ہے۔ ۔ دیہاتی لڑکے کرشن کمار کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، جگدیش نے اس کے پرانی وضح کے کوٹ کے ساتھ فرسٹ ائیر فول کی چٹ لگا رکھی ہے جدھر سے وہ بے چارہ گزرتا ہے لڑکے اُس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں کرشن کمار جب سب کو ہنستے دیکھتا ہے تو خود بھی ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران میں چرنجی کا تانگہ اور ایک موٹر آتی ہے اس میں سے ستیش اور اس کی بہن آ نکلتی ہے یہ وہ لڑکی ہے جس نے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دیا تھا ٗ کرشن کماری جب ستیش کی بہن نرملا کو دیکھتی ہے تو اُن کو نمستے کرتی ہے نرملا نمستے کا جواب دیتی ہے اور اپنے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے یہ میرے بھائی ستیش ہیں مگر آپ کی ایک بار پہلے ملاقات ہو چکی ہے ستیش کرشنا کماری کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتی ہیں، کشتی لڑتی ہیں اور گولہ پھینکتی ہیں، کرشنا کماری اس روزکا واقعہ یاد کر کے شرما جاتی ہے مگر ساتھ ہی ہنس پڑتی ہے تینوں کالج کی طرف بڑھتے ہیں کچھ دُور جاتے ہیں تو ایک شور سُنائی دیتا ہے۔ جُگدیش اور اُس کے ساتھیوں نے کرشن کمار کو کیچڑ بھرے گڑھے میں دھکا دیکر گرا دیا تھا کیچڑ میں بے چارہ لت پت ہے لڑکے چھیڑ رہے ہیں جگدیش آگے بڑھ کر جب اُسے اُٹھانے لگتا ہے تو اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے کرشن کمار سے اب برداشت نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کوٹ اسے بے حد عزیز ہے یہ اُس کے مرحوم باپ کا تھا جو اُس کی ماں نے سنبھال کر اُس کے لیے رکھا ہوا تھا جب اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے تو وہ دیوانوں کی طرح اُٹھتا ہے اور جُگدیشن کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے کالج میں جُگدیشن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ بہت لڑاکا ہے کوئی اس کے مقابل میں نہیں ٹھہر سکتا مگر جب کرشن کمار اسے بری طرح لتاڑتا ہے تو سب لڑکے حیران رہ جاتے ہیں اور جُگدیش اور کرشن کمار دونوں کشتی لڑتے لڑتے ستیش کرشنا کماری اور نرملا کے پاس آ جاتے ہیں تو زبردست گھونسہ مار کر جب کرشن کمار جُگدیش کو گراتا ہے تو بے اختیار کرشنا کماری کے منہ سے نکلتا ہے

’’یہ کیا وحشیانہ پن ہے‘‘

کرشن کمار یہ آواز سنتا ہے اور اپنا ہاتھ روک لیتا ہے ستیش جُگدیشن کو اُٹھا کر ایک طرف لے جاتا ہے اتنے میں گھنٹی بجتی ہے سب لوگ چلے جاتے ہیں صرف کرشن کمار۔ کرشنا کماری اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں چند لمحات خاموش کھڑے رہتے ہیں آخر میں کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں کرشنا کماری سے کہتا ہے

’’مجھے معاف کر دو۔ آئندہ مجھ سے کبھی ایسی وحشیانہ حرکت نہیں ہو گی کرشنا کماری اس کی سادگی سے بہت متاثر ہوتی ہے جب وہ اس سے کہتا ہے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا ٗ لیکن یہ لڑکے میری طرف دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستے ہیں۔ کیوں چھیڑتے ہیں کیوں تنگ کرتے ہیں۔ مجھے کیچڑ میں لت پت کر دیا ہے۔ یہ میرا کوٹ پھاڑ دیا ہے۔ جو میرے باپ کا ہے۔ کرشنا کماری اُس سے ہمدردی کرتی ہے اور اُسے بتاتی ہے کہ لڑکے اس کو صرف اس لیے چھیڑتے ہیں کہ اس کا لباس پرانی وضح کا ہے۔ اگر وہ اس طرح کا لباس پہننا شروع کر دے جیسا کہ دوسرے پہنتے ہیں تو اسے کوئی نہیں ستائے گا۔ کرشنا کماری کی باتیں کرشن کمار کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں جُگدیش اور اُس کے ساتھی جھاڑیوں کے پیچھے سے ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیتے ہیں۔ ۔ ہوسٹل۔ کرشن کمار اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہے اور سُوٹ کا معائنہ کررہا ہے اس دوران میں وہ ایک گانا گاتا ہے بڑے جذبات بھرے انداز میں، اُس کے گانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے۔ ساتھ والے کمرے میں جُگدیش ڈنٹر پیل رہا ہے اور ڈسیل پھیر رہا ہے جب اُسے گانے کی آواز آتی ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلتا ہے اور یہ معلوم کرتا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں کوئی گا رہا ہے باہر نکلتا ہے اور کمرے کے دروازے پر دستک دیتا ہے اندر سے آواز آتی ہے آ جاؤ۔

’’جُگدیش دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ کرشن کمار نیا سوٹ پہنے کھڑا ہے جب دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو کرشن کمار کہتا ہے۔ آپ لڑنے آئے ہیں تو مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیے کیونکہ میں اب کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا۔ جُگدیش مسکراتا ہے اور اپنے تیل لگے بدن کی طرف دیکھتا ہے۔ نہیں نہیں میں لڑنے نہیں آیا صلح کرنے آیا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ بڑھاتا ہے جسے کرشن کمار قبول کر لیتا ہے اس کے بعد جگدیش اس کے گانے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے دوست ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل کو لگی ہے آواز میں بہت درد ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ضرور کسی کی ترچھی نظر نے تمھیں گھائل کیا ہے۔ کرشن کمار بہت سادہ لوح ہے فوراً ہی اپنے دل کا راز جگدیش کو بتا دیتا ہے

’’اب تم نے دوست کہا ہے تو تم سے پردہ۔ اُس لڑکی کرشنا کماری نے ایسی پیاری پیاری باتیں کی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے دل کو کیا ہو گیا ہے بڑی شریف اور بڑی ہمدرد لڑکی ہے اُس نے مجھے بتایا کہ تم لوگ مجھے کیوں چھیڑتے ہو اب دیکھ لو اُس کے کہنے پر میں نے تین سُوٹ بنوا لیے ہیں۔ جُگدیش اس کا ہمراز بن جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے تمھیں عشق ہو گیا ہے سمجھے یعنی تمہارا دل جو ہے نا وہ اس لڑکی پر آگیا ہے اب تمھیں یہ چاہئیے کہ تم اس لڑکی پر اپنے عشق کا اظہار کر دو اگر تم نے اپنی محبت کو اپنے پہلو میں دبائے رکھا تو اسے زنگ لگ جائے گا اور دیکھو عورت کو اپنی طرف مائل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ تم اُسے کوئی تحفہ دو انگوٹھی بُندے جھمکے کچھ بھی۔ سادہ لوح کرشن کمار جگدیش کی یہ سب باتیں اپنے پلے باندھ لیتا ہے۔ ۔ کالج کے باغیچے میں کرشنا کماری ایک بنچ پر بیٹھی ہے کرشن کمار آہستہ آہستہ اُس کے پاس جاتا ہے جس طرح جگدیش نے کہا تھا اس طرح وہ اس پر اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے بڑے خام انداز میں۔ اس کے بعد وہ اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو سونے کے جھمکے تحفے کے طور پر پیش کرتا ہے کرشنا کماری یہ ڈبیا غصے میں آ کر ایک طرف پھینک دیتی ہے۔ کرشن کمار کو صدمہ پہنچتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے چونکہ وہ بے حد سادہ لوح ہے اس لیے وہ ساری بات کرشنا کو بتا دیتا ہے مجھے جُگدیش نے کہا تھا کہ دل میں کوئی بات نہیں رکھنی چاہیے، مجھے کئی راتوں سے نیند نہیں آئی میں ہر وقت تمہارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔ تم نے کیوں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اگر میرے دل میں تمہارے لیے محبت پیدا ہوئی ہے تو یہ تمہار اقصور ہے میرا نہیں۔ یہ جھمکے تو میں نے تمھیں دینے ہیں ان سے میری محبت ظاہر نہیں ہوتی یہ تو مجھ سے جُگدیش نے کہا تھا کہ ایسے موقوں پر تحفہ ضرور دینا چاہیے میں تو اپنی ساری زندگی تمھیں تحفے کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوں۔ جب کرشنا کماری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جگدیش نے اسے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ کرشن کمار کی صاف گوئی سے متاثر ہوتی ہے تو وہ جھمکوں کی ڈبیا اُٹھا لیتی ہے اور اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور اس سے کہتی ہے مجھے تمہارا یہ تحفہ قبول ہے۔

’’کرشن کمار بہت خوش ہوتا ہے جھمکے لے کر کرشن کماری کچھ اور کہے سُنے بغیر چلی جاتی ہے کرشن کمار چند لمحات خاموش کھڑا رہتا ہے اتنے میں جُگدیش اور ستیش دونوں جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلتے ہیں اور کرشن کمار کو مبارکباد دیتے ہیں کرشن کمار بہت جھینپتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ جُگدیش سے کہتا ہے۔ مگر یار تم نے تو کہا تھا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتلاؤں گا۔ ستیش کی طرف دیکھ کر وہ پھر کہتا ہے ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے جُگدیش کرشن کمار کو تسلی دیتا ہے کہ ستیش اپنا آدمی ہے وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گا چنانچہ ستیش بھی کرشن کمار کو ہر ممکن تسلی دیتا ہے کہ وہ اس کے عشق کا راز کسی کو نہیں بتائے گا۔ طویلے میں چرنجی ساز پالش کررہا ہے۔ تانگے کی پیتل کی چیزیں پالش کررہا ہے گھوڑے کو مالش کررہا ہے جب مالش کرتا ہے تو اُس سے پیار و محبت کی باتیں کرتا ہے۔ دوست تم نے میری بہت خدمت کی ہے اگر تم نہ ہوتے تو جانے زندگی کتنی کٹھن ہو جاتی تم نے اور میں نے دونوں نے مل کر مُنی کو پڑھایا ہے اتنے میں اس کے دو تین دوست جو تانگے والے ہیں، آتے ہیں ان میں ایک چرنجی سے کہتا ہے یہ تم گھوڑے سے کیا باتیں کر رہے ہو جیسے یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ چرنجی گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے اور کہتا ہے انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی۔ انھیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔ غلام محمد تیری جان کی قسم سچ کہتا ہوں اس جانور نے میری بڑی خدمت کی ہے تانگے میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جوتے رکھا ہے غریب۔ اتنے میں پٹھان آتا ہے چرنجی اس کو سلام کرتا ہے اور اپنے تہمند کے ڈب سے نوٹ نکالتا ہے اور کہتا ہے۔

’’خان صاحب یہ رہے آپ کے سو روپے کھر ے کر لیجیے۔ باقی رہے سو ا س کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔ یہ میرا گھوڑا سلامت رہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بڑے فخر سے اپنے گھوڑے کی طرف دیکھتا ہے پٹھان نوٹ لے کر چلا جاتا ہے اتنے میں ایک تانگے والا چرن جی سے کہتا ہے تم لڑکی کو پڑھانا شروع کر کے خواہ مخواہ ایک جنجال میں پھنس گئے ہو۔ کوئی نہ کوئی قرض خواہ تمہارے پیچھے لگا ہی رہتا ہے۔ چرنجی ہنستا ہے سب سے بڑی قرض خواہ میری بیٹی ہے اس کا قرض ادا ہو جائے تو ایسے لاکھ قرض لینے والے میرے پیچھے پھرتے ہیں مجھے کوئی پروانہ نہیں تم میں سے کوئی افیم کا نشہ کرتا ہے کوئی شراب کا مجھے بھی ایک نشہ ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میری لڑکی دولت مند آدمیوں کی لڑکیوں کی طرح پڑھ رہی ہے تو میرا دل و دماغ ایک عجیب نشے سے جھومنے لگتا ہے عورت کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے میرے بھائی اس کے قدم مضبوط ہو جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے اور خوش خوش باہر نکلتا ہے تاکہ گھر جائے۔ اندر آئینہ سامنے رکھے کرشنا کماری اپنے کانوں میں کرشن کمار کے دئیے ہوئے جھمکے پہنے بیٹھی ہے اور انھیں پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے گیت گا رہی ہے اور جیسے بے خود سی ہو رہی ہے جھمکے اسے بہت پسند آئے ہیں اس پسندیدگی کا اظہار اُس کی ہر حرکت سے معلوم ہوتا ہے۔ ۔ چرنجی آتا ہے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی وہ گانے کی آواز سنتا ہے۔ ۔ کرشنا کماری بدستور گانے میں مشغول ہے۔ دفعتاً پاگلوں کی طرح چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشن کماری ایک دم گانا بند کر کے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو ڈھانپ لیتی ہے چرنجی آگے بڑھتا ہے زور سے کرشنا کماری کے دونوں ہاتھ نیچے جھٹک دیتا ہے۔ قریب ہے کہ جھمکوں کو اس کے کانوں سے نوچ لے۔ کرشن کماری خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتی ہے چرنجی پاگلوں کی طرح اُس کی طرف بڑھتا ہے اور چلانا شروع کر دیتا ہے کہاں سے لیے ہیں تو نے جھمکے۔ کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔

’’وہ اس قدر زور سے چلاتا ہے کہ ایک دم اسے چکر آ جاتا ہے۔ جذبات سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا ہے اس کی بلند آواز بالکل دھیمی ہو جاتی ہے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔ سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے اس کی لڑکی فوراً پنکھا لے کر جھلنا شروع کر دیتی ہے۔ چند لمحات کی خاموشی کے بعد وہ ایک گلاس پانی مانگتا ہے۔ کرشن کماری اس کو پانی پلاتی ہے پانی پینے کے بعد وہ کرشنا کماری سے پھر پوچھتا ہے منی یہ جھمکے تو نے کہاں سے لیے ہیں کرشنا کماری تھوڑے سے توقف کے بعد ذرا حکمت سے جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیتی ہے

’’کالج کی ایک سہیلی نے دئیے ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے اپنی سہیلی کو واپس دے آؤ۔ لڑکی پوچھتی ہے کیوں پتا جی چرنجی جواب دیتا ہے۔ تمہاری ماں کو یہ زیور پسند نہیں تھا یہ کہہ کر وہ اُٹھتا ہے اور بیماروں کی طرح قدم اُٹھاتا باہر چلا جاتا ہے اُس کی لڑکی اُس سے پوچھتی ہے۔

’’کھانا نہیں کھائیں گے آپ؟‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے۔

’’نہیں۔ ‘‘

باہر نکل کر چرنجی گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے۔ اور تانگہ چلاتا ہے اور (گھوڑے کو) مخاطب کر کے اُس سے کہتا ہے آج میری لڑکی نے پہلی بار جھوٹ بولا ہے اور افسردگی کے عالم میں وہ تانگے پر کئی بازاروں کے چکر لگاتا ہے حتیٰ کہ رات ہو جاتی ہے۔ ایک نیم روشن بازار میں سے اُس کا تانگہ گزر رہا ہے اچانک ایک عورت چند مردوں کی جھپٹ سے نکل کر تیزی سے چرنجی کے تانگے کی جانب بڑھتی ہے وہ لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے بھاگتی تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ جاتی ہے یہ عورت شراب کے نشے میں چور ہے۔ زیورات سے لدی ہوئی ہے تانگے میں بیٹھتے ہی وہ چرنجی سے باتیں شروع کر دیتی ہے۔ ‘‘

مجھے چھیڑتے تھے اُلو کے پٹھے پر میں دام لیے بغیر کسی کو ہاتھ لگانے دیتی ہوں۔ کیوں تانگے والے تمہارا کیا خیال ہے۔ دنیا میں پیسہ ہی تو ہے تم کچھ بولتے نہیں۔ مجھے یاد آیا میرا پتی ایک تانگے والا ہی تھا پر اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ مجھے نگوڑے جھمکے لا دیتا لیکن اب دیکھو میری طرف یہ کڑے ٗ یہ گُلوبند ٗ یہ انگوٹھیاں۔ ایک سے ایک بڑھ کر۔ یہ کہہ کر وہ درد بھرے انداز میں ہنستی ہے۔ عصمت کا گہنا اتر جائے تو یہ زیور پہننے ہی چاہئیں۔ چرنجی پہچان لیتا ہے کہ یہ عورت کون ہے اُس کی بیوی تھی جو اس حالت کو پہنچ چکی تھی۔ چرنجی کمبل سے اپنا چہرہ قریب قریب چھپا لیتا ہے اس پر طوائف اُس سے کہتی ہے تم کیوں اپنا چہرہ چھپاتے ہو چھپانا تو مجھے چاہیے یہ چہرہ جس پر کئی پھٹکاریں پڑی ہیں یہ کہہ کر وہ پھر ہنستی ہے تم خاموش کیوں ہو تانگہ روک دو میرا گھر آگیا ہے چرنجی تانگہ روک دیتا ہے طوائف پائیدان پر پاؤں رکھ کر اُترنے لگتی ہے کہ لڑکھڑا کر گرتی ہے اوندھے منہ چرنجی دوڑ کر اُسے اُٹھاتا ہے طوائف ہنستی ہے گرنے والوں کو اُٹھایا نہیں کرتے میری جان یہ کہہ کر جب وہ گھر کی طرف چلنے لگتی ہے تو لڑکھڑا کر پھر گرتی ہے۔ چرنجی اس کو تھام لیتا ہے اور اُس کو اُس کے گھر تک چھوڑ آتا ہے جب چلنے لگتا ہے تو طوائف اس کو کرایہ دیتی ہے چرنچی کرایہ لے لیتا ہے طوائف اس کا بازو پکڑ کر اندر گھسیٹتی ہے

’’آؤ میری جان آؤ۔ آج کی رات میرے مہمان رہو۔ میں تم سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گی۔ آؤ شراب کی پوری بوتل پڑی ہے اوپر۔ آؤ۔ ‘‘

چرنجی تانگے میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ طوائف ہنستی ہے اور کہتی ہے بیوقوف کہیں کا۔ مفت کی قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔ ۔ چرنجی گھر پہنچتا ہے جب اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے کمرے میں جا کر دیکھتا ہے کہ اس کی لڑکی بستر پر اوندھے منہ لیٹی ہے اور زار زار رو رہی ہے چرنجی اُس کے پاس جاتا ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور رونے کا سبب پوچھتا ہے اس کی لڑکی اور زیادہ رونا شروع کر دیتی ہے جب چرنجی دوبارہ اس سے رونے کا سبب پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے مجھے ماں یاد آرہی ہے اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو میں۔ میں۔ وہ اس کے آگے کچھ نہیں کہہ سکی اور باپ کے پاؤں پکڑ کر کہتی ہے مجھے معاف کر دیجیے پتا جی میں نے آج آپ سے جھوٹ بولا ہے۔ چرنجی کہتا ہے مجھے معلوم ہے۔ اس پر اس کی لڑکی کہتی ہے اگر آج میری ماتا جی ہوتیں تو میں نے یہ جھوٹ کبھی نہ بولا ہوتا بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لڑکیاں صرف اپنی ماؤں کو ہی بتا سکتی ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کو اُٹھاتا ہے اور اپنے پاس بٹھاتا ہے میں تمہاری ماں ہوں۔

’’بولو کیا بات ہے۔ شرماؤ نہیں۔ کرشنا کماری جھینپ جاتی ہے اور شرما کر کہتی ہے

’’یہ جھمکے مجھے کالج کے ایک لڑکے نے دئیے ہیں پتا جی۔ وہ بہت ہی اچھا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے سسکیاں لیتی ہوئی۔ چرنجی بستر پر پڑے ہوئے جھمکوں کو اُٹھاتا ہے اور اُن کی طرف دیکھتا ہے۔ ۔ چرنجی کا تانگہ کالج کے دروازے میں داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اپنی کتابیں لے کر نیچے اُترتی ہے چرنجی اپنی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور لڑکی کو دے کر کہتا ہے اسے آج واپس کر دینا

’’کرشنا کماری ڈبیا لے کر خاموشی سے چلی جاتی ہے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی وہ کالج کے باغیچے کی طرف بڑھتی ہے۔ باغیچے میں ایک بنچ پر کرشن کمار بیٹھا ہے اور ایک خط پڑھ رہا ہے کرشنا کماری کو دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس سے باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ماتا جی کا خط آیا ہے لو پڑھو۔ نہیں ٹھہرو۔ میں پڑھ کے سُناتا ہوں۔ پر تم ہنسنا نہیں، میری ماں بے چاری سیدھی سادی دیہاتی ہے میں نے ان کو تمہاری بات لکھی ہے میں اُن سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتا سُنو انھوں نے کیا لکھا ہے۔ بیٹا کمار۔ ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اس لڑکی کی بدنامی ہو اس کے ماں باپ سے ملو اور کہو جیسی وہ ان کی بیٹی ہے ویسے ہی تم ان کے بیٹے ہو میری طرف سے اُس کو آشیرواد دینا تم جُگ جُگ جیو۔ اور باقی احوال یہ ہے کہ میں نے خالص گھی کی اپنے ہاتھ سے یہ مٹھائی بنائی ہے جو تمھیں بھیج رہی ہوں اس میں آدھا حصہ تمہاری کرشنا کماری کا ہے۔ کہنا تمہاری ماتا جی نے بھیجا ہے۔ کرشنا کماری دم بخود یہ باتیں سنتی رہتی ہے کرشن کمار اس رو میں باتیں کرتا رہتا ہے اور کرشنا کماری کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ دیکھا میری ماں کتنی سیدھی سادھی ہے انھوں نے مٹھائی بھیجی ہے بالکل خراب تھی۔ پر میں ساری کی ساری کھا گیا ہوں۔ کیا کرتا اگر نہ کھاتا تو ناراض ہو جاتیں۔ میں بھی بالکل ان جیسا ہوں۔ اگر تم نے اس روز میرا تحفہ قبول نہ کیا ہوتا تو میرا دل ٹوٹ جاتا جانے میں کیا کر بیٹھتا۔ کرشنا کماری کچھ کہنا چاہتی ہے مگر اس کی آواز رندھ جاتی ہے جھمکے واپس دینا چاہتی ہے نہیں دے سکتی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں ایک دم تیزی سے مڑتی ہے اور کرشن کمار کو وہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ کرشنا کماری تیزی سے جارہی ہے کہ اس کی مڈ بھیڑ جُگدیش اور ستیش سے ہوتی ہے دونوں اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں کرشنا کماری چلی جاتی ہے جگدیش اور ستیش ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اُس طرف بڑھتے ہیں جدھر کرشن کمار بیٹھا ہے۔ ۔ جُگدیش اور ستیش دونوں کمار سے ملتے ہیں جُگدیش اُس سے کہتا ہے

’’کمار۔ تم نے یہ کیا غضب کر دیا بے چاری رو رہی تھی۔ بھئی یہ رومانس اچھا رہا مارا وارا تو نہیں تم نے۔ ‘‘

کرشن کمار سادہ لوحی کے ساتھ مسکراتا ہے اور کہتا ہے ایک خاص بات تھی جُگدیش نے اُس سے یہ خاص بات دریافت کی تو کرشن کمار کہتا ہے ایک خاص بات تھی۔ جگدیش پھر اُس سے یہ خاص بات دریافت کرتا ہے کرشن کمار کہتا ہے۔ بھئی سب باتیں تمھیں نہیں بتا سکتا۔ کہہ جو دیا ایک خاص بات تھی یہ کہہ کر وہ چلا جاتا ہے جگدیش اور ستیش دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں اور کرشنا کماری کے متعلق باتیں شروع کر دیتے ہیں جُگدیش کہتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ فلرٹ ہے اُس کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تانگے والے سے بات چیت کی جائے وہ اُس کے سارے بھید جانتا ہو گا باہر ہی باہر معاملہ طے ہو جائے گا اور یہاں کالج میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ ستیش کو یہ بات پسند آتی ہے چنانچہ طے ہوتا ہے کہ جگدیشن تانگے والے سے بات چیت کرے۔ چرنجی کالج کے باہر تانگہ لیے کھڑا ہے پاس ہی پان سگریٹ والے کی دُوکان ہے یہاں جُگدیش کھڑا ہے پان والے سے پان اور سگریٹ لیتا ہے اور چرنجی کی طرف بڑھتا ہے گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے پھر اس کی تعریف کرتا ہے اس طرح وہ چرنجی سے آہستہ آہستہ گفتگو شروع کر دیتا ہے آخر میں وہ باتوں باتوں میں چرنجی سے کہتا ہے

’’استاد ہر عیش کرتے ہو ہر روز ایک پٹاخہ سی لونڈیا اس تانگے میں بٹھا کر لاتے ہو اور لے جاتے ہو۔ اچھا میں نے کہا۔ کچھ ہماری دال گل سکتی ہے اور اُستاد تم چاہو تو سب کچھ کرسکتے ہو تمہارے دائیں ہاتھ کا کام ہے ایسا ہی ایک تانگہ گھوڑا بن جائے گا۔ اگر ہمارا کام ہو جائے، چرنجی ہنستا رہتا ہے جگدیش کو اور شہہ ملتی ہے

’’اماں ہم سب جانتے ہیں کہ لونڈیا ایسی نہیں کہ ہاتھ نہ آسکے۔ کالج میں اس کا ایک لڑکے سے سلسلہ جاری ہے۔ چرنجی اب کچھ دلچسپی لیتا ہے اور جگدیش سے چند باتیں دریافت کرتا ہے جگدیش اسے بتاتا ہے کہ اس لڑکی کرشنا کماری پر کالج میں ایک لڑکا جو بہت بدمعاش ہے ڈورے ڈال رہا ہے اور اُس لڑکے سے وہ کانوں کے جھمکے بھی لے چکی ہے۔ یہ سب باتیں بتانے کے بعد جگدیش چرنچی سے کہتا ہے‘‘

دیکھو اگر اس کو زیوروں کا ہی شوق ہے تو ہم بڑھیا بڑھیا چیز دے سکتے ہیں تم یہ باتیں اپنے طور سے اس کے ساتھ کرنا سمجھے۔ اس قسم کی چند باتیں ہونے کے بعد طے ہوتا ہے کہ جگدیش شام کو کمپنی باغ کے پاس فلاں فلاں مقام پر چرنجی کا انتظار کرے جب لڑکی جھٹ مان جانے والی ہے تو چرنجی سارا معاملہ ٹھیک کر دے گا۔ ۔ اسی روز شام کو جُگدیش مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا ہے کھمبے کے ساتھ کھڑا سگریٹ پی رہا ہے اتنے میں عین وقت پر چرنجی کا ٹانگہ سڑک پر نمودار ہوتا ہے چرنجی کھمبے کے پاس اپنا تانگہ روکتا ہے جگدیش بہت خوش ہو کر چرنجی سے کہتا ہے۔ ‘‘

بھئی بالکل انگریز ہو۔ ٹھیک وقت پر آئے ہو نہ ایک منٹ اُدھر نہ ایک منٹ ادھر۔ چرنجی مسکراتا ہے اور کہتا ہے، اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے اور بیٹھ جائیے تانگے میں میں آپ کو سیدھا راستہ بتا دُوں جُگدیش خوش خوش تانگے میں بیٹھ جاتا ہے اور چرنجی کو ایک سگریٹ پیش کرتا ہے تانگہ چلتا ہے۔ جُگدیش چرنجی کے ساتھ لڑکی کی باتیں کرتا رہتا ہے تانگہ مختلف سڑکیں طے کرنے کے بعد ایک ویران سی جگہ پر پہنچتا ہے چرنجی باگیں کھینچ کر گھوڑا ٹھہرا تا ہے بڑے اطمینان سے اپنا کمبل اور پگڑی اتار کر اگلی نشست پر رکھتا ہے اور آستینیں چڑھا کر جگدیش سے کہتا ہے آئیے آپ کی لڑکی سے ملاقات کرا دوں

’’جُگدیش چرنجی کی طرف شک کی نظروں سے دیکھتا ہے مگر چرنجی اس کا بازو پکڑ تا ہے اور کھینچ کر جھاڑیوں کے پیچھے لے جاتا ہے چند لمحوں کے بعد جُگدیش کا ہیٹ سڑک پر آگرتا ہے۔ ۔ کالج کا ہوسٹل۔ جُگدیش کا کمرہ۔ باہر دروازے پر جُگدیش کا نام پیتل کے بورڈ پر لکھا ہوا ہے ستیش آتا ہے اور دروازے پر دستک دیتا ہے دروازہ کھلتا ہے ستیش اندر داخل ہوتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ جُگدیش کا سر منہ سُوجا ہوا ہے اور کئی پٹیاں اس کے جسم پر بندھی ہیں۔ ستیش اس سے پوچھتا ہے یہ کیا ہو گیا ہے تمھیں۔ جُگدیش اسے کرسی پر بٹھاتا ہے اور سارا قصہ سُناتا ہے بھئی یہ تو برسوں کی ورزش کام آگئی ورنہ بندے کا تو کل کام تمام ہو گیا ہوتا۔ میں نے تانگے والے سے تمام معاملہ طے کر لیا چنانچہ وہ مجھے کمپنی باغ میں ملا لڑکی وہاں موجود تھی اُس سے باتیں بھی ہوئیں لیکن ستیش کے ہمراہ وہاں تین چار اور چاہنے والے آگئے۔ مجھے اُس کے ساتھ دیکھ کر جل ہی تو گئے اُن میں سے ایک نے مجھ پر کوئی ریمارکس کسا۔ لڑکی میرے ساتھ تھی میں نے دل میں کہا جُگدیش یہاں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ میں اُٹھا اور ایک ایسا گھونسہ اُس سالے کی ٹھوڑی کے نیچے جمایا کہ دن کو تارے ہی نظر آ گئے ہوں گے بچہ جی کو ٗ بس پھر کیا تھا۔ باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ چاروں مجھ پر پل پڑے مگر ستیش میں نے بھی وہ ہاتھ دکھائے کہ یاد ہی کرتے ہوں گے ایک ایک کو فرش کر کے رکھ دیا۔ کچھ چوٹیں مجھے بھی آگئیں ساتھ والے کمرے میں یہ سب باتیں کرشن کمار سنتا ہے کیونکہ دونوں کمروں کے درمیان لکڑی کا ایک پردہ ہے جو اوپر سے خالی ہے ستیش جُگدیش کی سب باتیں سُن کر کہتا ہے اور بھائی ایسے موقعوں پر کون کس کی مدد کرتا ہے تم کیا بچوں ایسی باتیں کرتے ہو اتنے میں جُگدیش کے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور کرشن کمار غصے میں بھرا ہوا داخل ہوتا ہے جُگدیش سے کہتا ہے۔

’’تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ ہے تم ایک شریف لڑکی پر بہتان باندھ رہے ہو جُگدیش سنتا ہے اور کہتا ہے

’’میرا کچومر نکل گیا ہے اور تم کہتے ہو بہتان باندھ رہا ہوں۔ یقین نہ ہو تو تانگے والے سے پوچھ لو جو مجھے لے گیا تھا غصے میں آکر چونکہ اُس کی محبوبہ کی عزت پر حملہ کیا گیا ہے کرشن کمار زور سے ایک چانٹا جُگدیش کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے بکواس مت کرو۔ لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے

’’مجھے معاف کر دو جُگدیش یہ چانٹا تمہارے منہ پر نہیں اس تانگے والے کے منہ پر مارنا چاہیے تھا جو اس کی زندگی تباہ کررہا ہے۔ یہ کہہ کر چلا جاتا ہے۔ ‘‘

کرشن کمار اپنے کمرے میں آتا ہے میز پر بیٹھتا ہے کاغذ لے کر خط لکھنا شروع کر دیتا ہے مگر چند سطریں لکھ کر کاغذ پھاڑ دیتا ہے کرسی پر سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کمرے میں اضطراب کے ساتھ ادھر ادھر زور سے ٹہلتا ہے سامنے کھونٹی پر اپنا سُوٹ دیکھتا ہے اُسے اُتار کر اپنے پیروں میں روند دیتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تو پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر درد بھری دھن میں کوئی گیت گاتا ہے چرنجی کھانا کھا رہا ہے پاس ہی اس کے اس کی لڑکی بیٹھی ہے چرنجی منہ میں نوالہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آتی ہے چنانچہ وہ اپنی لڑکی سے پوچھتا ہے

’’مُنی تم نے جھمکے واپس کیے، کرشنا کماری جھوٹ نہیں بولتی‘‘

پتا جی میں اس کو واپس دینے گئی پر دے نہ سکی۔ چرنجی نوالہ وہیں تھال میں رکھ دیتا ہے اور پوچھتا ہے

’’کیوں؟ کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں وہ صرف اتنا کہہ سکتی ہے مجھے معلوم نہیں

’’چرنجی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانا کھائے بغیر باہر چلا جاتا ہے۔ ایک آدمی عینک لگائے ڈیسک کے ساتھ بیٹھا ہے چرنجی سے کہتا ہے یہاں انگوٹھا لگاؤ۔ چرنجی اپنا انگوٹھا آگے بڑھا دیتا ہے اس پر وہ آدمی سیاہی لگاتاہے اور پکڑ کر کاغذ پر جما دیتا ہے انگوٹھا لگانے کے بعد وہ ڈیسک سے نوٹ نکالتا ہے اور چرنجی کے حوالے کر دیتا ہے چرنجی نوٹ لے کر باہر نکلتا ہے۔ ۔ باہر ایک شیڈ کے نیچے اس کا ایک تانگہ گھوڑا کھڑا ہے چرنجی اپنے انگوٹھے کی سیاہی دیکھتا اس کی جانب بڑھتا ہے ایک ہاتھ میں اس نے نوٹ پکڑے ہوئے ہیں آہستہ آہستہ گھوڑے کے پاس جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر گلو گیر آواز میں کہتا ہے

’’بیچ آیا ہوں تجھے دوست۔ یہ دیکھ اپنی قیمت‘‘

یہ کہہ کر وہ گھوڑے کے منہ کے آگے اپنا وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے جس میں نوٹ ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو ہیں لوگ اپنا ایمان بیچتے ہیں میں تجھے بیچ آیا ہوں تو جو کہ میرا سچا دوست تھا آواز چرنجی کے گلے میں رندھ جاتی ہے تو بول نہیں سکتا تو تیری زبان ہوتی تو میں تیرے منہ سے سُنے بغیر کبھی نہ جاتا کہ چرنجی تو جھوٹا ہے مطلبی ہے۔ دغا باز ہے جس طرح وقت پڑنے پر لوگ گلے کا کنٹھا اُنگلی کی انگوٹھی بیچ دیتے ہیں اس طرح تو نے مجھے بیچ دیا ہے لعنت ہے تجھ پر یہ کہہ کر وہ اپنا انگوٹھا دیکھتا ہے اور گھوڑے سے کہتا ہے یہ سیاہی دیکھی تم نے اس سودے کی مالک ہے مگر میں تیرے ساتھ کیوں باتیں کروں تو اب میرا نہیں مجھے تجھ پر کوئی حق نہیں رہا۔ آخری بار چرنجی منہ پر ے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے۔ رات کا وقت ہے چرنجی کمبل اوڑھے پیدل چلا آرہا ہے راستے میں ایک تانگے والا تانگہ ٹھہرا کر اس سے پوچھتا ہے

’’آج تانگہ گھوڑا نہیں جوتا چرنجی۔ چرنجی جواب دیتا ہے آج نہیں جوتا۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ یہ کہہ کر وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ گھر میں چرنجی کی لڑکی کرشنا کماری لالٹین جلائے انتظار کررہی ہے۔ کبھی اُٹھتی ہے کبھی بیٹھتی ہے اسے کسی پہلو چین نہیں اتنے میں دروازہ پر دستک ہوتی ہے وہ اُٹھ کر دروازہ کھولتی ہے چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اُس سے پوچھتی ہے پتا جی آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں کہاں چلے گئے تھے۔ چرنجی اپنے کمبل سے ایک پوٹلی نکالتا ہے اور اُسے کھول کر اپنی لڑکی کو دیتا ہے یہ زیور لانے گیا تھا تیرے لیے تجھے شوق جو ہے ان کا اب تو تیرا دل نہیں للچائے گا تو کہے گی تو میں ایسے اور زیور بھی لا دوں گا اپنا آپ بھی بیچ ڈالوں گا تیرے دل میں للچاہٹ پیدا نہ ہونے دُوں گا۔ کرشنا کماری کبھی زیوروں کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے باپ کی طرف۔ آخر میں کہتی ہے کوئی چیز بیچی ہے آپ نے یہ گہنے خریدنے کے لیے اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو سخت غلطی کی ہے یہ کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے زیور فرش پر گر پڑتے ہیں پتا جی میں نے کبھی ان چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے ان چیزوں کا شوق ہے چرنجی اُس سے کہتا ہے تو نے وہ جھمکے واپس کیوں نہیں کیے۔ ‘‘

کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کاش میری ماں ہوتی اور میری بات سمجھ سکتیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں سونے چاندی کے لیے اپنا آپ بیچ دُوں گی آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میرے قدم مضبوط کیے ہیں پتا جی میں آپ کی بیٹی ہُوں آپ نے میرا نہیں اپنا اپمان کیا ہے یہ کہہ کر وہ روتی روتی پاس پڑے ہوئے صندوقچے سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتی ہے اور اپنے باپ کو دے کر کہتی ہے

’’لیجیے یہ جھمکے جس نے مجھے دیے تھے اُس کو آپ ہی واپس دے آئیے اگر آپ کہیں گے تو میں اُس کی یاد کو بھی اپنے دل سے نکال کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گی یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ چرنجی فرش پر پڑے ہوئے زیوروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ۔ کالج کا صدر دروازہ کرشن کمار خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اُس کی نظریں دروازہ پر جمی ہوئی ہیں جُگدیش اور ستیش آتے ہیں ستیش اس سے پوچھتا ہے بڑی دیر سے یہاں خاموش کھڑے ہوکیا بات ہے۔ کرشن کمار ایک عزم کے ساتھ جواب دیتا ہے اُس بدمعاش تانگے والے کا انتظار کررہا ہوں آج اُس کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ ساری عُمر یاد رکھے گا۔ جُگدیش کرشن کمار کو تانگے والے کے خلاف اور زیادہ مشتعل کرتا ہے دفعتاً سب کی نظریں دروازے کی طرف اُٹھتی ہیں تانگے والا چرنجی کرشنا کماری دونوں پیدل اندر داخل ہوتے ہیں جُگدیش یہ دیکھ کر کہتا ہے آج تانگہ کہاں گیا اور کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر چرنجی اپنی لڑکی کو کتابیں دیتا ہے کرشنا کماری دُور سے کرشن کمار کو دیکھتی ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ چرنجی سر ہلا دیتا ہے کرشن کمار کرشنا کماری کا اشارہ دیکھ لیتا ہے کرشنا کماری ایک طرف چلی جاتی ہے کرشن کمار غصے میں بھرا سیدھا تانگے والے کی طرف بڑھتا ہے چرنجی بھی اُس کی طرف آرہا ہوتا ہے چرنجی کے پاس پہنچ کر کرشن کمار نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کھینچ کر ایک چانٹا چرن جی کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ اشارے ہو رہے تھے میری طرف کیا مجھے بھی تم اپنے جیسا بدمعاش سمجھتے ہو۔ ایک چانٹا وہ چرنجی کے منہ پر جما دیتا ہے۔ اُلو کے پٹھے۔ شرم نہیں آتی تجھے پرائی لڑکیوں کو بُرے راستے پر لگاتے ہوئے کیا تیری کوئی لڑکی نہیں جو پیسے کے لالچ میں آ کر بھڑوے بنے ہوئے ہو چرنجی کے منہ سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے وہ آگے بڑھتا ہے کرشن کمار یہ سمجھ کر کہ وہ اُسے مارنا چاہتا ہے گھونسے بازی شروع کر دیتا ہے چرنجی اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے کرشن کمار گھونسے چلاتا رہتا ہے اتنے میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جن میں جُگدیش بھی شامل ہے ایک دو پٹیاں ابھی تک اسی کے سر پر بندھی ہوئی ہیں کرشنا کماری چیختی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور کرشن کمار سے کہتی ہے

’’کمار۔ یہ تم کیا کررہے ہو۔ یہ میرے پتا جی ہیں

’’کرشن کمار متحیر ہو کر کہتا ہے

’’پتا جی۔ چرنجی کے منہ سے خون جاری ہے وہ مسکراتا ہے ہاں بیٹا میں اس کا پِتا ہوں اور تمہارا بھی یہ کہہ کر وہ کرشن کمار کو سینے سے لگا لیتا ہے جیتے رہو۔ میں نے تم سے مار کھائی ہے لیکن اس جوان سے پوچھو کہ وہ جُگدیش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میرے بازوؤں میں کتنا بل ہے جُگدیش وہاں سے کھسک جاتا ہے کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں چرنجی سے معافی مانگتا ہے اپنی لڑکی اورکرشن کمار کے سر پر پیار کا ہاتھ پھیر کر چرنجی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو دے کر کہتا ہے لو اسے اپنے پاس رکھو۔ ‘‘

شہنائیاں بج رہی ہیں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو چکی ہے چرن جی اپنی لڑکی اور کرشن کمار کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہا ہے اپنی لڑکی سے کہتا ہے تم اپنی ماں کو یاد کیا کرتی تھیں تمھیں ماں بھی مل گئی ہے یہ کہہ کر وہ کرشنا کماری کی ماں کی طرف دیکھتا ہے جو ایک سیدھی سادھی دیہاتن ہے وہ مسکراتی ہے اور کرشنا کماری کی طرف ہاتھ بڑھا کر سر پر ہاتھ پھیرتی ہے اور بڑی سادہ لوحی کے ساتھ کہتی ہے بیٹی میں نے تیرے لیے اپنے ہاتھ سے مٹھائی بنا کر بھیجی تھی کیا تو نے کھائی تھی۔ کرشنا کماری ذرا جھینپ کر کہتی ہے کھائی تھی ماتا جی۔ بہت ہی مزے دار تھی۔ ایک تانگے میں چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں دُھت بیٹھی ہے تانگہ چل رہا ہے اُس کے ساتھ ہی ایک مرد بیٹھا ہے۔ چرنجی کی بیوی پان تھوک دیتی ہے بہت بد مزہ ہے۔ اتنے میں تانگہ وہاں پہنچتا ہے جہاں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو رہی ہے۔ تانگے والا تانگہ ٹھہرا دیتا ہے اور اپنے گاہک سے کہتا ہے معاف کیجیے گا میں ابھی حاضر ہوا۔ چرن جی کی بیوی پوچھتی ہے کہاں جارہے ہو تم تانگے والا کہتا ہے جرنجی تانگے والے کی لڑکی کی شادی ہو رہی ہے میں اُسے مبارکباد دے آؤں۔ یوں چٹکیوں میں آیا۔ یہ کہہ کر تانگے والا چلا جاتا ہے۔ چرنجی کی بیوی چند لمحات کے لیے پتھر کی مورتی سی بن جاتی ہے لیکن لڑکھڑاتی ہوئی اُٹھتی ہے اور تانگے سے اُتر کر اُدھر جاتی ہے جہاں سے شہنائیوں کی آواز آتی ہے۔ بارش ہو رہی ہے چرنجی کی بیوی جو شراب کے نشے میں مدہوش ہے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شادی منڈل کی طرف بڑھتی ہے بارش ہو رہی ہے باہر تماشائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ دولہا دُلہن کو دیکھتی ہے اچھی طرح دیکھنے کے لیے جب وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے تو ایک آدمی اسے پیچھے ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے اے کیا دیکھ رہی ہے تُو۔ تیری ماں نے کبھی شادی نہیں کی ہو گی۔ چرنجی کی بیوی اس آدمی سے جھگڑنا شروع کر دیتی ہے۔ میں ماں ہوں۔ تو نہیں جانتا میں ماں ہوں۔ سارے تماشائی ہنستے ہیں چرنجی کی بیوی دیکھ رہی ہے کرشنا کماری بھی کسی بات پر ہنس رہی ہے چرنجی کی بیوی کی مامتا جاگ اُٹھتی ہے وہ چلانا شروع کر دیتی ہے مجھے اندر جانے دو مجھے اندر جانے دو۔ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے اتنے میں چرنجی باہر نکلتا ہے اور اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کیا چاہتی ہو۔ تم چرنجی کی بیوی کہتی ہے میں اپنی لڑکی سے ملنا چاہتی ہوں چرنجی کہتا ہے آؤ میں تمھیں اُس سے ملا دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ اُسے ایک طرف لے جاتا ہے جہاں اس کا تانگہ کھڑا ہے چرنجی اسے تانگے تک لے جاتا ہے۔ ۔ تانگہ چلا جارہا۔ چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں بار بار چرنجی سے پوچھتی ہے مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ میں اُس کی ماں ہوں میں اُسے ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔ چرنجی خاموش رہتا ہے تانگے کی رفتار تیز ہوتی رہتی ہے ایک بار تنگ آ کر وہ چرنجی سے پوچھتی ہے کہاں لے جارہے ہو مجھے‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے جہاں پتی اور پتنی کو جانا چاہیے، گھوڑا سرپٹ دوڑتا ایک کھائی میں گرتا ہے۔ ۔ تانگے کے پُرزے اُڑ جاتے ہیں کھائی کے نیچے چرنجی اور اس کی بیوی پڑے ہیں اور دونوں بُری طرح زخمی ہوئے ہیں چرنجی مرچکا ہے مگر اُس کی بیوی ابھی زندہ ہے وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے اُسے اپنی جوانی کا وہ دن یاد آتا ہے جب جھمکے پہنے گا رہی تھی۔ وہ جوان ہے اور جھمکے اپنے کانوں میں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے اور گا رہی ہے اپنی بچی کو آواز دیتی ہے۔ اور کہتی ہے مُنی۔ منی آ تجھے ایک چیز دیکھاؤں۔ اس کی بند مُٹھی کھلتی ہے اُس کی ہتھیلی پر وہی جھمکے نظر آتے ہیں جو چرنجی اس کے لیے لایا تھا۔

سعادت حسن منٹو

جنٹلمینوں کا بُرش

یہ غالباً آج سے بیس برس پیچھے کی بات ہے۔ میری عمر یہی کوئی بائیس برس کے قریب ہو گی، یا شاید اس سے دو برس کم۔ کیونکہ تاریخوں اور سنوں کے معاملے میں میرا حافظہ بالکل صفر ہے۔ میری دوستی کا حلقہ ان نوجوان پر مشتمل تھا جو عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے۔ حفیظ پینٹر کی دُکان میں جو بجلی والے چوک سے بائیں ہاتھ ہال بازار کے پاس ہی واقع تھی، ہم سب بیٹھتے اور گھنٹوں گپ بازی ہوتی رہتی۔ میں پڑھائی وڑھائی قریب قریب چھوڑ چکا تھا۔ اسی طرح مبارک اپنی ملازمت پر لات مار کر امرتسر واپس چلا آیا تھا۔ وہ کسی ریاست میں ملازم تھا۔ حفیظ پینٹر کی اپنے باپ سے چخ ہو گئی تھی، اس لیے اس نے علیحدہ ایک بڑی دُکان لے لی جس میں کچھ عرصہ پہلے ایک کمیونسٹ سکھ کی دکان تھی، جو گرامو فون ڈیلر تھا۔ خیر دین کی مسجد سے ملحقہ دکان ہال بازار میں تھی مگر اچھے موقع پر تھی۔ یعنی عین ہال بازار کے وسط میں اورمسجد کے زیر سایہ خرابات مروجہ اصولوں کے ماتحت ہونی ہی چاہیے۔ اس لیے وہ اسے بہت پسند آگئی تھی۔ ادھر اذان ہوتی تو ادھر ریکارڈ بجتے۔ لیکن کوئی دنگا فساد اس بات پر وہاں کبھی نہ ہوا۔ البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سینکڑوں خون ہوتے رہتے۔ امروپرستی غنڈوں، رنڈی بازی پر، گنڈوں کی دو مخالف پارٹیوں پر، ایسے مسلم مسلم اور مسلم ہندو فساد عام تھے۔ جو ایک دو دن اپنی دھاک بٹھا کر جھاگ کے مانند غائب ہو جاتے۔ گرمی کی پہلی پیلی بھڑوں کے مانند جو اپنے اردگرد جالا تن لیتی ہیں اوربظاہر بالکل مردہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن معلوم نہیں پھر موافق موسم آنے پر زندہ ہو جاتی ہیں، اور بے قصور آدمیوں کو کاٹنے کے شغل میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ امرتسر ایک عجیب و غریب شہر ہے۔ یہاں ہر ایک قسم کی شے اس زمانے میں پائی جاتی تھی۔ بھنگنوں کی لڑائی سے لے کر گورنمنٹ سے پنجہ کشی کرنے تک۔ لوگ بھی بھانت بھانت کے تھے۔ لالے جو اپنی بزازی کی دکانوں پر پادتے رہتے اور کچھ ایسے من چلے بھی تھے جو چھوٹے چھوٹے پٹاخے بنا کر چلاتے تھے کہ لوگوں کے دل ایک لحظے کے لیے دہل جاتے۔ دہشت پسند بھی تھے اور امن پسند بھی۔ نمازی اور پرہیزگار بھی تھے اور اول درجے کے اوباش اور گناہ گار بھی۔ مسجدیں تھیں اور مندر بھی۔ ان میں گناہ کے کام بھی ہوتے تھے اور ثواب کے بھی۔ غرضیکہ انسانی زندگی کے یہ سب دھارے ساتھ ساتھ متواتر بہا کرتے تھے۔ کئی سیاسی تحریکیں ہوئیں۔ کئی غنڈوں کا آپس میں کشت و خون ہوا۔ مسلمانوں اور قادیانیوں میں کئی مباہلے ہوئے، جن میں بڑے جغادری علمائے کرام نے حصہ لیا۔ قحط پڑے، وبائیں آئیں۔ جلیاں والا کا تاریخی حادثہ ہوا، ہزاروں انسان، جن میں مسلمان، سکھ، ہندو سب شامل تھے، موت کے گھاٹ اتارے گئے، لیکن امرتسر جوں کا توں رہا۔ حفیظ پینٹر کی دکان پر یوں تو دنیا بھر کے سیاسی، مجلسی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیالات اور بحث ہوتی رہتی، مگر بڑے خام انداز میں۔ اصل میں وہ سب کے سب آرٹسٹ تھے۔ گو نیم رس۔ ان کو دراصل موسیقی سے شغف تھا۔ کوئی طبلے کی جوڑی اٹھا لیتا، کوئی ستار، کوئی سارنگی اور کوئی تانبورہ ہاتھ میں لے کر میاں کی ٹوڈی، مالکونس یا بھاگیری کا الاپ شروع کردیتا۔ یہاں بھانگ بھی گھوٹی جاتی، چرس بھرے سگریٹ بھی پِیے جاتے، شراب کے دور اکثر چلتے۔ اس لیے کہ دن اتنا بڑا بے باک نہیں تھا۔ ساڑھے آٹھ روپے میں ایک پوری بوتل بڑھیا سے بڑھیا اسکاچ وسکی کی آجاتی تھی۔ حفیظ شام کو اپنی دکان کے بھاری بھر کم کواڑ بند کردیتا اور ہم چٹائیوں پر بیٹھ کر اس مشروب سے آہستہ آہستہ لطف اندوز ہوتے۔ پھر آدھی رات کو جب آس پاس کی ساری دکانیں بند ہوتیں، ہم موسیقی کا دورشروع کردیتے۔ یہاں قریب قریب سب گویّے، بڑے اور چھوٹے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اس لیے کہ زندہ دل نوجوانوں کی محفل تھی۔ پھکڑ بازی بھی ہوتی تو کوئی برا نہ مانتا تھا۔ ایک دن میں صبح دس بجے کے قریب حفیظ پینٹر کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ذرا آگے چل کر ایک کیمسٹ کی دکان سے اپنے کان کے لیے دوا لینی تھی کہ حفیظ نے برش کان میں اڑس کر مجھے باآواز بلند پکارا اور اسی کان میں اڑے ہوئے برش کو نکال کر اس سے مجھے اشارہ کیا، جس کا یہ مطلب تھا کہ میں اس کی بات سنتا جاؤں۔ میں اس کی دکان کے تھڑے کے پاس کھڑا ہو گیا، اور اس سے پوچھا

’’کیا بات ہے حفیظ صاحب؟‘‘

حفیظ نے برش پھر کان میں اڑس لیا اور جواب دیا

’’بات یہ ہے میری جان کہ آج تو کل کا گانا ہو گا۔ اس کے ساتھ مچھر خان اور بسے خان بھی ہوں گے۔ وہ معاملہ بھی ہو گا۔ چھ بجے سے پہلے پہلے ہی آجانا۔ میں نے تمام دوستوں کو اطلاع دے دی ہے۔ توکل کو میں نے سنا تو نہیں لیکن نئے خیال کے لوگ اسے بہت پسند کررہے ہیں۔ نوجوان ہے۔ کہتے ہیں کہ خاں صاحب عاشق کے مانند بے ڈار گاتا ہے اور حق ادا کرتا ہے۔ ‘‘

میں بہت خوش ہوا

’’آؤں گا اور ضرور آؤں گا۔ مگر یہ مچھر خان کیا بلاہے۔ کیا تم اسے کسی مچھردانی کے اندر بٹھاؤ گے؟‘‘

حفیظ پینٹر کھکھلا کر ہنسا

’’ارے نہیں یار، اس کی عادت ہے کہ جب کوئی تان لیتا ہے اور واپس سم پر آتا ہے اور بڑے زور سے اپنی رانوں پر دوہتڑ مارتا ہے۔ اس لیے اس کا نام مچھر خان پڑ گیا ہے۔ جیسے وہ گا نہیں رہا، بلکہ اپنے بدن پر کاٹنے والے مچھر مار رہا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا

’’چلو، اس کا تماشا بھی دیکھ لیں گے۔ پر اگر اس نے آج رات کوئی مچھر نہ مارا تو یہ طے ہے کہ تمہارے آرٹ اسٹوڈیو سے وہ زندہ باہر نہیں نکلے گا۔ ‘‘

حفیظ کھکھلا کر ہنسا، کان میں سے اُڑسا ہوا برش نکالا اور سائن بورڈ پینٹ کرنے لگا

’’جاؤ یار جاؤ۔ میرا وقت ہرج کررہے ہو۔ مجھے یہ کام وقت پر مکمل کرنا ہے۔ ‘‘

میں وہاں سے چلا گیا۔ کیمسٹ کی دکان سے دوائی لی۔ باہر نکلا تو شیخ صاحب جو وہاں کے بہت بڑے رئیس تھے، ان سے دو آدمی دکان کے پاس کھڑے باتیں کررہے تھے۔ میں نے شیخ صاحب کو سلام کیا۔ انہوں نے جیسا کہ ان کی عادت تھی، چھڑی بجلی کے کھمبے کے ساتھ ماری۔ جب آواز پیدا ہوئی تو ان کا اطمینان ہو گیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’’کہو بھئی سعادت کیا حال ہے۔ ‘‘

میں نے عرض کی

’’جناب کی دُعا سے سب ٹھیک ہے۔ ‘‘

جن دو آدمیوں سے شیخ صاحب باتیں کررہے تھے، وہ سیاہ فام تھے، لیکن اچکن کا رنگ ان کے رنگ سے کہیں زیادہ کالا۔ دبلا پتلا، لیکن چہرے کے نقش تیکھے۔ شیخ صاحب چلنے لگے تو اس آبنوسی گوشت پوست کے ٹکڑے نے تیزی سے بڑھ کر شیخ صاحب کے کوٹ کی پیٹھ جھاڑنی شروع کی، بڑی نفاست سے، شیخ صاحب نے گرما کر اس سے پوچھا

’’کیا بات تھی؟‘‘

اس آبنوسی آدمی نے بڑی پتلی آواز میں جواب دیا

’’چندبال تھے اور تھوڑی سی گرد۔ ‘‘

شیخ صاحب نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا

’’اچھا تم کل صبح گھر پہ آنا‘‘

اور وہ پھر بجلی کے کھمبے کو اپنی چھڑی سے بجاتے ہوئے غالباً کمپنی باغ کی طرف نکل گئے۔ ایک دن میں نے پھر اسے دیکھا۔ اپنے کٹڑے کے بازار میں وہ دو لالوں کی مصاحبی میں مصروف تھا۔ اس نے صاف ستھرے کوٹوں پر سے کئی مرتبہ غیر مرئی چیزیں جدا کیں۔ اس دن بھی وہ اپنی کالی اچکن پہنے تھا۔ حالانکہ کالے کپڑے پر گردوغبار فوراً نمایاں ہوتا ہے، مگر میں نے غور سے دیکھا، کہ اس پرایسی کوئی چیز بھی نہیں تھی۔ میرا خیال ہے وہ جنٹل مینوں کے برش کے علاوہ اپنا برش خود بھی تھا۔ مجھے راستے میں ایک دوست مل گیا۔ میں نے اس سے پوچھا

’’یہ آبنوسی آدمی کون ہے؟‘‘

اس نے حیرت سے پوچھا

’’کون سا آبنوسی آدمی۔ بن مانس سنے تھے، مگر آبنوسی کہاں سے تم نے گھڑ لیا۔ ‘‘

میں نے اس سے ذرا تیز لہجے میں کہا

’’ارے یہ آدمی جو ہمارے آگے آگے جارہا ہے۔ چغد ہو پرلے درجے کے۔ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ آبنوس ایک لکڑی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تو کیا یہ لکڑی ہے جو چل پھر رہی ہے؟‘‘

’’ابے نہیں۔ آبنوس کا رنگ کالا ہوتا ہے، چونکہ اس نے کالی اچکن پہنی ہے اور رنگ بھی اس کا خدا کے فضل و کرم سے خاصا کالا ہے، تو میں نے اسے آبنوسی کہہ دیا۔ ‘‘

میرا دوست ہنسا

’’ارے، تم اسے نہیں جانتے، اس کا نام جنٹل مینوں کا برش ہے۔ ‘‘

’’اتنا تو میں جانتا ہوں۔ ‘‘

’’تو اس سے زیادہ تم اور کیا جاننا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے چِڑ کر کہا

’’یہی کہ اس کا محل وقوع کیا ہے۔ اس کا پیشہ کیا ہے؟‘‘

میرا دوست مسکرایا

’’یہ ذات کا رُبابی ہے، جو دربارصاحب میں چوکی کرتے ہیں۔ مگر یہ وہاں نہیں جاتا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس اس کو امیروں کی صحبت حاصل ہے۔ ان ہی میں اٹھتا بیٹھتا ہے، اور ان کے کوٹوں پر برش کرتا رہتا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا

’’کھاتا پیتا کہاں سے ہے؟‘‘

جواب ملا

’’جن کی مصاحب داری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گاتا بہت اچھا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا

’’تم نے کبھی سنا ہے اس کو؟‘‘

’’نہیں، البتہ تعریف بہت سنی ہے۔ ‘‘

ہم باتوں میں مشغول پیچھے رہ گئے اور وہ جنٹل مینوں کا آبنوسی برش ان دو لالوں کے کوٹ جھاڑتا بہت دور نکل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میرا دوست بھی مجھ سے جدا ہو گیا۔ اس کو کوئی ضروری کام تھا ورنہ میں اس شخص کے متعلق کچھ اور معلومات حاصل کرتا۔ اتفاق سے مجھے اپنے بہنوئی( جو امرتسر کے آنریری مجسٹریٹ تھے اور خدا معلوم کیا کیا تھے) کے ساتھ ایک تقریب پر جانا پڑا۔ اب مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ تقریب تھی جو نئے ڈپٹی کمشنر کے تقرر کے سلسلے میں تھی۔ وہ شخص وہی کالی اچکن پہنے معزز اور رئیس لوگوں کے اردگرد چکر لگا رہا تھا۔ اس نے بلا مبالغہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر چن چن کر کئی رؤسا کے کوٹ صاف کیے۔ اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے۔ کسی کے کالر پر سے اس نے بال اٹھائے، کس کے کوٹ کی پیٹھ پر سے۔ بعضوں کے کوٹوں کو، جب اس کی سمجھ میں نہ آیا وہ گرد اپنے رومال سے جھاڑ دی اور ہر ایک سے شکریہ وصول کیا۔ بڑی جرأت سے کام لے کر وہ ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس بھی جا پہنچا، اور اس کی پتلون صاف کردی۔ وہ انگریز تھا۔ اس نے جنٹل مینوں کے برش کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد ایک رات جب کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی اور حفیظ پینٹر کی دکان میں ہم معشوق علی فوٹو گرافر سے اس کا گانا سن کر محظوظ ہورہے تھے، اور ساتھ ساتھ وسکی بھی پی رہے تھے، کہ اچانک دکان کا پھاٹک نما دروازہ کھلا اور جنٹل مینوں کا برش نمودار ہوا۔ اس نے ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا

’’میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ گانے کی آواز سنائی دی۔ ماشاء اللہ بڑی سریلی تھی۔ ہے تو یہ تہذیب کے خلاف کہ میں بِن بُلائے چلا آیا۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا تھوڑی دیر کے لیے آپ کی محفل میں شریک ہو سکتا ہوں۔ ‘‘

حفیظ پینٹر اور معشوق علی فوٹو گرافربیک وقت بولے

’’ہاں، ہاں تشریف رکھیے۔ ‘‘

مبارک نے کہا،

’’سر آنکھوں پر۔ یہاں میرے پاس بیٹھیے۔ آپ تو خود بڑے معرکے کے گانے والے ہیں۔ کچھ نوش فرمائیے گا۔ ‘‘

مبارک کی مراد وسکی سے تھی، مگر جنٹل مینوں کے بُرس نے بڑی شائستگی سے کہا

’’جی نہیں۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔ ‘‘

سب کے اصرار پر اس نے گانا شروع کیا۔ میاں کی ٹوڈی تھی جو اس نے ایسی خوش الحانی سے گائی کہ مزے آگئے۔ اس کے بعد اس نے اجازت چاہی۔ سب نشے میں چور تھے، اس لیے ان کو یہ خبر نہیں تھی کہ باہر زوروں کی بارش ہورہی ہے۔ لیکن جب جنٹل مینوں کے برش نے دروازہ کھولا تو اس نے کہا

’’حضور، باہر بہت بارش ہورہی ہے، کیسے جائیے گا۔ ‘‘

آبنوسی برش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’آپ فکر نہ کریں، ابھی لالہ جگت نارائن کمبل والے کی گاڑی مجھے لینے کے لیے آجائے گی۔ آپ اپنا شغل جاری رکھیے۔ شکریہ!‘‘

یہ کہہ کر اس نے دکان کا پھاٹک نما دروازہ بند کردیا۔ ایک گھنٹے کے بعد بارش تھمی تو محفل برخاست کردی گئی۔ باہر نکل کر ہم نے دیکھا کہ کوئی آدمی بدرو میں اوندھے گرا پڑا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو چلایا

’’ارے یہ تو وہی جنٹل مینوں کا برش ہے۔ ‘‘

حفیظ نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا

’’جنٹل مینوں کی ایسی تیسی۔ چلو اپنے اپنے گھر۔ ‘‘

سب نے اس فیصلے پر صاد کیا۔ جب وہ چلے گئے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص جو بے داغ کالی اچکن پہنتا تھا اور رؤسا کے کوٹ صاف کیا کرتا ہے، ہوش میں آیا۔ اس کی اچکن کیچڑ سے اٹی ہوئی تھی، مگر اسے صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

سعادت حسن منٹو

جسم اور رُوح

مجیب نے اچانک مجھ سے سوال کیا:

’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ دنیا میں ایسے کئی اشخاص موجود ہیں جو ایک منٹ کے اندر اندر لاکھوں اور کروڑوں کو ضرب دے سکتے ہیں، ان کی تقسیم کرسکتے ہیں۔ آنے پائی کا حساب چشم زدن میں آپ کو بتا سکتے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران میں مغنی یہ کہہ رہا تھا :

’’انگلستان میں ایک آدمی ہے جو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد فوراً بتا دیتا ہے کہ اس قطعہ زمین کا طول و عرض کیا ہے۔ رقبہ کتنا ہے۔ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنی اس خداداد صلاحیت سے تنگ آ گیا ہے۔ وہ جب بھی کہیں باہر ٗ کھلے کھیتوں میں نکلتا ہے تو ان کی ہریالی اور ان کا حسن اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور وہ اس قطعہ زمین کی پیمائش اپنی آنکھوں کے ذریعے شروع کر دیتا ہے۔ ایک منٹ کے اندر وہ اندازہ کر لیتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا کتنا رقبہ رکھتا ہے ٗ اس کی لمبائی کتنی ہے چوڑائی کتنی ہے ٗ پھر اسے مجبوراً اپنے اندازے کا امتحان لینا پڑتا ہے۔ فیٹر سٹیپ کے ذریعے سے اس خطہ ءِ زمین کو ماپتا اور وہ اس کے اندازے کے عین مطابق نکلتا۔ اگر اس کا اندازہ غلط ہوتا تو اسے بہت تسکین ہوتی۔ بعض اوقات فاتح اپنی شکست سے بھی ایسی لذت محسوس کرتا ہے جو اسے فتح سے نہیں ملتی۔ اصل میں شکست دوسری شاندار فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ میں نے مغنی سے کہا:

’’تم درست کہتے ہو۔ دنیا میں ہر قسم کے عجائبات موجود ہیں۔ ‘‘

میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ مجیب نے جو اس گفتگو کے دوران کافی پی رہا تھا، اچانک مجھ سے سوال کیا :

’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

میں سوچنے لگا کہ مجیب کس آدمی کے متعلق مجھ سے پوچھ رہا ہے ٗ حامد۔ نہیں ٗ وہ آدمی نہیں میرا دوست ہے۔ عباس ٗ اس کے متعلق کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوسکتی تھی۔ شبیر ٗ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آخر یہ کس آدمی کا حوالہ دیا گیا تھا۔ میں نے مجیب سے کہا:

’’تم کس آدمی کا حوالہ دے رہے ہو؟‘‘

مجیب مسکرایا :

’’تمہارا حافظہ بہت کمزور ہے۔ ‘‘

’’بھئی ٗ میرا حافظہ تو بچپن سے ہی کمزور رہا ہے۔ تم پہیلیوں میں باتیں نہ کرو۔ بتاؤ وہ کون آدمی ہے جس سے تم میرا تعارف کرانا چاہتے ہو۔ ‘‘

مجیب کی مسکراہٹ میں اب ایک طرح کا اسرار تھا۔

’’بوجھ لو!‘‘

’’میں کیا بوجھوں گا جبکہ وہ آدمی تمہارے پیٹ میں ہے۔ ‘‘

عارف ٗ اصغر اور مسعود بے اختیار ہنس پڑے۔ عارف نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا :

’’وہ آدمی اگر مجیب کے پیٹ میں ہے تو آپ کو اس کی پیدائش کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

میں نے مجیب کی طرف ایک نظر دیکھا اور عارف سے مخاطب ہوا: میں اپنی ساری عمر اس مہدی کی ولادت کا انتظار نہیں کرسکتا ہوں۔ ‘‘

مسعود نے اپنے سگریٹ کو ایش ٹرے کے قبرستان میں دفن کرتے ہوئے کہا:

’’دیکھیے صاحبان! ہمیں اپنے دوست مسٹرمجیب کی بات کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے‘‘

یہ کہہ کر وہ مجیب سے مخاطب ہوا

’’مجیب صاحب فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔ ہم سب بڑے غور سے سنیں گے۔ ‘‘

مجیب تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اس کے بعد اپنا بُجھا ہوا چرٹ سُلگا کر بولا:

’’معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے اس آدمی کے متعلق آپ سے پوچھا جسے آپ جانتے نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا :

’’مجیب تم کیسی باتیں کرتے ہو ٗ بہر حال ٗ تم اس آدمی کو جانتے ہو۔ ‘‘

مجیب نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا!

’’بہت اچھی طرح۔ جب ہم دونوں برما میں تھے تو دن رات اکٹھے رہتے تھے۔ عجیب و غریب آدمی تھا۔ ‘‘

مسعود نے پوچھا !

’’کس لحاظ سے؟‘‘

مجیب نے جواب دیا:

’’ہر لحاظ سے۔ اس جیسا آدمی آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ‘‘

میں نے کہا:

’’بھئی مجیب اب بتا بھی دو وہ کون حضرت تھے۔ ‘‘

’’بس حضرت ہی تھے۔ ‘‘

عارف مسکرایا: چلو ٗ قصہ ختم ہوا۔ وہ حضرت تھے ٗ اور بس۔ ‘‘

مسعود یہ جاننے کیلیے بیتاب تھا کہ وہ حضرت کون تھا۔

’’بھئی مجیب ٗ تمہاری ہر بات نرالی ہوتی ہے۔ تم بتاتے کیوں نہیں ہو کہ وہ کون آدمی تھا جس کا ذکر تم نے اچانک چھیڑ دیا!‘‘

مجیب طبعاً خاموشی پسند تھا۔ اس کے دوست احباب ہمیشہ اس کی طبیعت سے نالاں رہتے۔ لیکن اس کی باتیں جچی تلی ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا:

’’معذرت خواہ ہوں کہ میں نے خواہ مخواہ آپ کو اس مخمصے میں گرفتار کر دیا۔ بات در اصل یہ ہے کہ جب یہ گفتگو شروع ہوئی تو میں کھو گیا۔ مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ‘‘

میں نے پوچھا:

’’وہ ایسا زمانہ کونسا تھا؟‘‘

مجیب نے ایک لمبی کہانی بیان کرنا شروع کر دی:

’’اگر آپ سمجھتے ہوں کہ اس زمانے سے میری زندگی کے کسی رومان کا تعلق ہے تو میں آپ سے کہوں گا کہ آپ کم فہم ہیں۔ ‘‘

میں نے مجیب سے کہا:

’’ہم تو آپ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کم فہم ہیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن وہ آدمی۔ ‘‘

مجیب مسکرایا :

’’وہ آدمی آدمی تھا۔ لیکن اس میں خدا نے بہت سی قوتیں بخشی تھیں۔ ‘‘

مسعود نے پوچھا:

’’مثال کے طور پر۔ ‘‘

’’مثال کے طور پر یہ کہ وہ ایک نظر دیکھنے کے بعد بتا سکتا تھا کہ آپ نے کس رنگ کا سوٹ پہنا تھا ٗ ٹائی کیسی تھی۔ آپ کی ناک ٹیڑھی تھی یا سیدھی۔ آپ کے کس گال پرکہاں اور کس جگہ تل تھا۔ آپ کے ناخن کیسے ہیں۔ آپ کی داہنی آنکھ کے نیچے زخم کا نشان ہے۔ آپ کی بھنویں منڈی ہوئی ہیں۔ موزے فلاں ساخت کے پہنے ہوئے تھے ٗ قمیص پوپلین کی تھی مگر گھر میں دُھلی ہوئی۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے واقعتا محسوس کیا کہ جس شخص کا ذکر مجیب کر رہا ہے عجیب و غریب ہستی کا مالک ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا :

’’بڑا معرکہ خیز آدمی تھا۔ ‘‘

’’جی ہاں ٗ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس کو اس بات کا زعم تھا کہ اگر وہ کوئی منظر کوئی مرد ٗ کوئی عورت صرف ایک نظر دیکھ لے تو اسے من و عن اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ہے جو کبھی غلط نہیں ہوں گے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اندازہ ہمیشہ درست ثابت ہوتا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا کیا یہ واقعی درست تھا۔

’’سو فیصد۔ ‘‘

ایک مرتبہ میں نے اس سے بازار میں پوچھا یہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے ٗ کیا تم اس کے متعلق بھی تفصیلات بیان کرسکتے ہو؟‘‘

میں اس لڑکی سے ایک گھنٹہ پہلے مل چکا تھا۔ وہ ہمارے ہمسائے مسٹر لوجوائے کی بیٹی تھی۔ اور میری بیوی سے سلائی کے مستعار لینے آئی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اس لیے بغرض امتحان میں نے مجیب سے یہ سوال کیا تھا۔ مجیب مسکرایا :۔

’’تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو۔ ‘‘

’’نہیں۔ نہیں۔ یہ بات نہیں۔ میں۔ میں۔ ‘‘

’’نہیں تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو۔ خیرٗ سنو ! وہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے اور جسے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا، مگر لباس کے متعلق کچھ کہنا فضول ہے اس لیے کہ ہروہ شخص جس کی آنکھیں سلامت ہوں اور ہوش و حواس درست ہوں کہہ سکتا ہے کہ وہ کس قسم کا تھا۔ ویسے ایک چیز جو مجھے اس میں خاص طور پر دکھائی دی ٗ وہ اس کے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا تھی۔ اس میں کسی قدر خم ہے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن مضروب تھا۔ اس کے لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آرائش کے فن سے محض کوری ہے۔ ‘‘

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس نے ایک معمولی سی نظر میں یہ سب چیزیں کیسے بھانپ لیں۔ میں ابھی اس حیرت میں غرق تھا کہ مجیب نے اپنا سلسلہ ءِ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا

’’اس میں جو خاص چیز مجھے نظر آئی وہ اس کے داہنے گال کا داغ تھا۔ غالباً کسی پھوڑے کا ہے۔ ‘‘

مجیب کا کہنا درست تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ سب باتیں جو تم اتنے وثوق سے کہتے ہو ٗ تمہیں کیونکر معلوم ہو جاتی ہیں؟‘‘

مجیب مسکرایا:

’’میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کو صاحبِ نظر ہونا چاہیے۔ صاحبِ نظر سے میری مردا ہر اس شخص سے ہے جو ایک ہی نظر میں دوسرے آدمی کے تمام خدو خال دیکھ لے۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا:

’’خدوخال دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’بہت کچھ ہوتا ہے۔ خدو خال ہی تو انسان کا صحیح کردار بیان کرتے ہیں‘‘

’’کرتے ہوں گے۔ میں تمہارے اس نظریے سے متفق نہیں ہوں۔ ‘‘

’’نہ ہو۔ مگر میرا نظریہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔ ‘‘

’’رہے۔ مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہر حال ٗ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان غلطی کا پُتلا ہے۔ ہو سکتا ہے تم غلطی پر ہو۔ ‘‘

’’یار ٗ غلطیاں درستیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں‘‘

’’یہ تمہارا عجیب فلسفہ ہے۔ ‘‘

’’فلسفہ گائے کا گوبر ہے۔ ‘‘

’’اور گوبر؟‘‘

مجیب مسکرایا:

’’وہ۔ وہ۔ اُپلا کہہ لیجیے ٗ جو ایندھن کے کام آتا ہے۔ ‘‘

ہمیں معلوم ہوا کہ مجیب ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے پہلی ہی نگاہ میں اس نے اس کے جسم کے ہر خدوخال کا صحیح جائزہ لے لیا تھا۔ وہ لڑکی بہت متاثر ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہیں جو صرف ایک نظر میں سب چیزیں دیکھ جاتے ہیں تو وہ مجیب سے شادی کرنے کیلیے رضا مند ہو گئی۔ ان کی شادی ہو گئی۔ دلہن نے کیسے کپڑے پہنے تھے ٗ اس کی دائیں کلائی میں کس ڈیزائن کی دست لچھی تھی۔ اس میں کتنے نگینے تھے۔ یہ سب تفصیلات اس نے ہمیں بتائیں۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں میں طلاق ہو گئی۔

سعادت حسن منٹو

جاو حنیف جاو

چودھری غلام عباس کی تازہ ترین تقریر و تبادلہ خیالات ہورہا تھا۔ ٹی ہاؤس کی فضا وہاں کی چائے کی طرح گرم تھی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم کشمیر لے کررہیں گے، اور یہ کہ ڈوگرہ راج کا فی الفور خاتمہ ہونا چاہیے۔ سب کے سب مجاہد تھے۔ لڑائی کے فن سے نابلد تھے، مگر میدان جنگ میں جانے کے لیے سربکف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ایک دم ہلہ بول دیا جائے تو یوں چٹکیوں میں کشمیر سرہو جائیگا، پھر ڈاکٹر گراہموں کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، نہ یو این او میں ہر چھٹے مہینے گڑگڑانا پڑے گا۔ ان مجاہدوں میں، میں بھی تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح میں بھی کشمیری ہوں، اس لیے کشمیر میری زبردست کمزوری ہے۔ چنانچہ میں نے باقی مجاہدوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور آخرمیں طے یہ ہوا کہ جب لڑائی شروع ہو تو ہم سب اس میں شامل ہوں اور صف اول میں نظر آئیں۔ حنیف نے یوں تو کافی گرم جوشی کا اظہار کیا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ افسردہ سا ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر مجھے اس ا فسردگی کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ چائے پی کر باقی سب چلے گئے، لیکن میں اور حنیف بیٹھے رہے۔ اب ٹی ہاؤس قریب قریب خالی تھا۔ ہم سے بہت دور ایک کونے میں دو لڑکے ناشتہ کررہے تھے۔ حنیف کو ایک عرصے سے جانتا تھا۔ مجھ سے قریب قریب دس برس چھوٹا تھا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اردو کا ایم۔ اے کروں یا انگریزی کا۔ کبھی کبھی اس کے دماغ پر یہ سنک بھی سوار ہو جاتی کہ ہٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی کرنی چاہیے۔ میں نے حنیف کو غور سے دیکھا۔ وہ ایش ٹرے میں سے ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کررہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، وہ افسردہ تھا۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پروہی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’تم خاموش کیوں ہو؟‘‘

حنیف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ماچس کی تیلی کے ٹکڑے کرکے ایک طرف پھینکے اور جواب دیا۔

’’ایسے ہی۔ ‘‘

میں نے سگریٹ سلگایا۔

’’ایسے ہی، تو ٹھیک جواب نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ تم غالباً کسی بیتے ہوئے واقعات کے متعلق سوچ رہے ہو!‘‘

حنیف نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’ہاں!‘‘

’’اور وہ واقعہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘

حنیف چونکا۔

’’آپ نے کیسے جانا؟‘‘

میں نے مسکرا کرکہا۔

’’شرلک ہومز ہوں میں بھی۔ ارے بھئی کشمیر کی باتیں جو ہورہی تھیں۔ جب تم نے مان لیا کہ سوچ رہے ہو۔ کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو تو میں فوراً اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس بیتے ہوئے واقعے کا تعلق کشمیر کے سوا اور کسی سرزمین سے نہیں ہوسکتا۔ کیا وہاں کوئی رومان لڑا تھا تمہارا؟‘‘

’’رومان۔ معلوم نہیں۔ جانے کیا تھا؟۔ بہر حال، کچھ نہ کچھ ہوا تھا جس کی یاد اب تک باقی ہے۔ ‘‘

میری خواہش تھی کہ میں حنیف سے اس کی داستان سنوں۔

’’اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کچھ نہ کچھ کیا تھا؟‘‘

حنیف نے مجھ سے سگریٹ مانگ کر سلگایا اور کہا۔

’’منٹو صاحب! کوئی خاص دلچسپ واقعہ نہیں۔ لیکن اگر آپ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور مجھے ٹوکیں گے نہیں تو میں آج سے تین برس پہلے جو کچھ ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا۔ میں افسانہ گو نہیں۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔ ‘‘

میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کے تسلسل کو نہیں توڑوں گا۔ اصل میں وہ اب دل و دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چاہتا تھا۔ حنیف نے تھوڑے توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب! آج سے دو برس پہلے کی بات ہے جب کہ بٹوارہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میری طبیعت اداس تھی۔ معلوم نہیں کیوں۔ میرا خیال ہے کہ ہر کنوارا نوجوان اس قسم کے موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا ہے۔ خیر۔ میں نے ایک روز کشمیر جانے کا ارادہ کرلیا۔ مختصر سا سامان لیا اور لاریوں کے اڈے پر جا پہنچا۔ لاری جب کد پہنچی تو میرا ارادہ بدل گیا۔ میں نے سوچا سری نگر میں کیا دھرا ہے، بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ اگلے اسٹیشن بٹوت پر اتر جاؤں گا۔ سنا ہے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ تپ دق کے مریض یہیں آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ چنانچہ میں بٹوت اتر گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ ہوٹل بس ایک ہی واجبی سا تھا۔ بہر حال، ٹھیک تھا۔ ۔ مجھے بٹوت پسند آگیا۔ صبح چڑھائی کی سیر کو نکل جاتا۔ واپس آکر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔ دن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر رہے تھے۔ آس پاس جتنے دکاندار تھے سب میرے دوست بن گئے تھے، خاص طور پر سردار لہنا سنگھ جو درزیوں کا کام کرتا تھا۔ میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ عشق و محبت کے افسانے سننے اور سنانے کا اسے قریب قریب خبط تھا۔ مشین چلتی رہتی تھی اور وہ یا تو کوئی داستان عشق سنتا رہتا تھا یا سناتا رہتا تھا۔ اس کو بٹوت سے متعلق ہر چیز کا علم تھا۔ کون کس سے عشق لڑا رہا ہے۔ کس کس کی آپس میں کھٹ پٹ ہوئی۔ کون کون سی لونڈیا پر پرزے نکال رہی ہے۔ ایسی تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی رہتی تھیں۔ شام کو میں اور وہ اترائی کی طرف سیر کو جاتے تھے اور بانہال کے درے تک پہنچ کر پھر آہستہ آہستہ واپس چلے آتے تھے۔ ہوٹل سے اترائی کی طرف پہلے موڑ پر سڑک کے داہنے ہاتھ مٹی کے بنے ہوئے کوارٹر سے تھے۔ میں نے ایک دن سردار سے پوچھا کہ یہ کوارٹر کیا رہائش کے لیے ہیں؟ یہ میں نے اس لیے دریافت کیا تھا کہ مجھے وہ پسند آگئے تھے۔ سردار جی نے مجھے بتایا کہ ہاں، رہائش ہی کے لیے ہیں۔ آج کل اس میں سرگودھے کے ایک ریلوے بابو ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دھرم پتنی بیمار ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دق ہو گی۔ خدا معلوم میں دق سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں۔ اس دن کے بعد جب کبھی میں ادھر سے گزرا، ناک اورمنہ پر رومال رکھ کے گزرا۔ میں داستان کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔ قصہ مختصر یہ کہ ریلوے بابا جن کا نام کندن لال تھا، سے میری دوستی ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی بیمار بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس فرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کررہا ہے۔ وہ اس کے پاس بہت کم جاتا تھا اور دوسرے کوارٹر میں رہتا تھا جس میں وہ دن میں تین مرتبہ فنائل چھڑکتا تھا۔ مریضہ کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی بہن سمتری کرتی تھی۔ دن رات یہ لڑکی جس کی عمر بمشکل چودہ برس کی ہو گی اپنی بہن کی خدمت میں مصروف رہتی تھی۔ میں نے سمتری کو پہلی مرتبہ مگونالے پر دیکھا۔ میلے کپڑوں کا بڑا انبار پاس رکھے وہ نالے کے پانی سے غالباً شلوار دھو رہی تھی کہ میں پاس سے گزرا۔ آہٹ سن کر وہ چونکی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔ میں نے اس کا جواب دیا اور اس سے پوچھا۔ تم مجھے جانتی ہو؟۔ سمتری نے باریک آواز میں کہا۔ جی ہاں۔ آپ بابو جی کے دوست ہیں۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ مظلومیت جو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس سے باتیں کروں اور کچھ کپڑے دھو ڈ الوں تاکہ اس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر پہلی ملاقات میں ایسی بے تکلفی نامناسب تھی۔ دوسری ملاقات بھی اسی نالے پر ہوئی۔ وہ کپڑوں پر صابن لگا رہی تھی تو میں نے اس کو نمستے کی اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں کے بستر پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو اس کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور اتنی بے تکلف ہو گئی کہ اس نے مجھے اپنے گھر کے تمام معاملات سنانے شروع کردیے۔ بابو جی یعنی کندن لال سے اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چلے تھے۔ پہلے برس میں بابو جی کا سلوک اپنی بیوی سے ٹھیک رہا، لیکن جب رشوت کے الزام میں وہ نوکری سے معطل ہوا تو اس نے اپنی بیوی کا زیور بیچنا چاہا۔ زیور بیچ کر وہ جوا کھیلنا چاہتا تھا کہ دگنے روپے ہو جائیں گے۔ بیوی نہ مانی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند رکھتا اور کھانے کو کچھ نہ دیتا۔ اس نے مہینوں ایسا کیا۔ آخر ایک دن عاجز آکر اس کی بیوی نے اپنے زیور اس کے حوالے کردیے۔ لیکن زیور لے کر وہ ایسا غائب ہوا کہ چھ مہینے تک اس کی شکل نظر نہ آئی۔ اس دوران میں سمتری کی بہن فاقہ کشی کرتی رہی۔ وہ اگر چاہتی تو اپنے میکے جاسکتی تھی۔ اس کا باپ مالدار تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا، مگر اس نے مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کو دق ہو گئی۔ کندن لال چھ مہینے کے بعد اچانک گھر آیا تو اس کی بیوی بستر پر پڑی تھی۔ کندن لال اب نوکری پر بحال ہو چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا تو وہ گول کرگیا۔ سمتری کی بہن نے اس سے زیوروں کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس کا پتی گھر واپس آ گیا تھا، وہ بہت خوش تھی کہ بھگوان نے اس کی سن لی۔ اس کی صحت کسی قدر بہتر ہو گئی، مگر یہ، ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق، والا معاملہ تھا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ اس اثناء میں سمتری کے ماں باپ کو پتہ چل گیا۔ وہ فوراً وہاں پہنچے اور کندن لال کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً کسی پہاڑ پر لے جائے۔ خرچ وغیرہ کا ذمہ انھوں نے کہا، ہمارا ہے۔ کندن لال نے کہا چلو سیر ہی سہی، سمتری کو دل بہلاوے کے لیے ساتھ لیا اور بٹوت پہنچ گیا۔ یہاں وہ اپنی بیوی کی قطعاً دیکھ بھال نہیں کرتا تھا۔ سارا دن باہر تاش کھیلتا رہتا۔ سمتری پرہیزی کھانا پکاتی تھی، اس لیے وہ صبح شام ہوٹل سے کھانا کھاتا۔ ہر مہینے سسرال لکھ دیتا کہ خرچ زیادہ ہورہا ہے، چنانچہ وہاں سے رقم میں اضافہ کردیا جاتا۔ میں داستان لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ سمتری سے میری ملاقات اب ہرروز ہونے لگی۔ نالے پر وہ جگہ جہاں وہ کپڑے دھوتی تھی۔ بڑی ٹھنڈی تھی۔ نالے کا پانی بھی ٹھنڈا تھا۔ سیب کے درخت کی چھاؤں بہت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چاہتا تھا کہ سارا دن انھیں اٹھا اٹھا کر نالے کے شفاف پانی میں پھینکتا رہوں۔ یہ تھوڑی سی بھونڈی شاعری میں نے اس لیے کی ہے کہ مجھے سمتری سے محبت ہو گئی تھی، اور مجھے یہ معلوم تھا کہ اس نے اسے قبول کرلیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور آنکھیں بند کرلیں۔ سیب کے درختوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مگونالے کا پانی گنگناتا ہوا بہہ رہا تھا۔ وہ خوبصورت تھی، گو دبلی تھی مگر اس طور پر کہ غور کرنے پر آدمی اس نتیجے پر پہنچتا تھا کہ اسے دبلی ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ذرا موٹی ہوتی تو اتنی خطرناک طور پر خوبصورت نہ ہوتی۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ جن میں قدرتی سرمہ لگا رہتا تھا۔ ٹھمکا سا قد۔ گھنے سیاہ بال جو اس کی کمر تک آتے تھے۔ چھوٹا سا کنوارا جوبن۔ منٹو صاحب! میں اس کی محبت میں سر تا پا غرق ہو گیا۔ ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی، میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اس سے کہی کہ دیکھو سمتری! میں مسلمان ہوں، تم ہندو۔ بتاؤ انجام کیا ہو گا۔ میں کوئی اوباش نہیں کہ تمہیں خراب کرکے چلتا بنوں۔ میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ سمتری نے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا حنیف! میں مسلمان ہو جاؤں گی۔ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ طے ہوا کہ جونہی اس کی بہن اچھی ہو گی، وہ میرے ساتھ چل دے گی۔ اس کی بہن کو کہاں اچھا ہونا تھا۔ کندن لال نے مجھے بتایا کہ وہ اس کی موت کا منتظر ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی تھی، گو اس طرح سوچنا اور اس کا علاج کرنا کچھ مناسب نہیں تھا۔ بہرحال، حقیقت سامنے تھی۔ کم بخت مرض ہی ایسا تھا کہ بچنا محال تھا۔ سمتری کی بہن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی۔ کندن لال کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چونکہ اب سسرال سے روپے زیادہ آنے لگے تھے اور خرچ کم ہو گیا تھا یا خود کم کردیا گیا تھا، اس نے ڈالے بنگلے جا کر شراب پینا شروع کردی اور سمتری سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ منٹو صاحب! جب میں نے یہ سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اتنی جرأت نہیں تھی ورنہ میں بیچ سڑک کے اس کی مرمت جوتوں سے کرتا۔ میں نے سمتری کو اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے آنسو پونچھے اور دوسری باتیں شروع کردیں جو پیار محبت کی تھیں۔ ایک دن میں صبح سویرے نکلا۔ جب ان کوارٹروں کے پاس پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سمتری کی بہن اللہ کو پیاری ہو چکی ہے، چنانچہ میں نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کندن لال کو آواز دی۔ میرا خیال درست تھا۔ بے چاری نے رات گیارہ بجے آخری سانس لیا تھا۔ کندن لال نے مجھ سے کہا کہ میں تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہوں تاکہ وہ کریا کرم کے لیے بندوبست کرآئے۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے سمتری کا خیال آیا۔ وہ کہاں تھی۔ جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔ میں ساتھ والے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اندر جھانک کر دیکھا۔ سمتری چارپائی پرگٹھڑی بنی لیٹی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ اس کا کندھا ہلا کر میں نے کہا، سمتری!سمتری۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار بڑے بڑے دھبوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے پھر اس کا کندھا ہلایا مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا، کیا بات ہے سمتری۔ سمتری نے رونا شروع کردیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیا بتا ہے سمتری۔ سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی۔ جاؤ، حنیف۔ جاؤ۔ میں نے کہا، کیوں۔ افسوس ہے کہ تمہاری بہن کا انتقال ہو گیا ہے، مگر تم تو اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا۔ اس کے حلق سے آواز نہیں نکلتی تھی۔ وہ مر گئی ہے، پر میں اس کا غم نہیں کرسکتی۔ میں خود مر چکی ہوں۔ اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ تم کیوں مرو۔ تمہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ جاؤ حنیف جاؤ۔ میں اب کسی کام کی نہیں رہی۔ کل رات۔ کل رات بابو جی نے میرا خاتمہ کردیا۔ میں چیخی۔ ادھر دوسرے سے کوارٹر سے جیجی چیخی اور مر گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ہائے، کاش! میں نہ چیختی ہوتی۔ وہ مجھے کیا بچا سکتی تھی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی، دیوانہ وار میرا بازو پکڑا اور گھسیٹتی باہر لے گئی۔ پھر دوڑ کر کواٹر میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حرامزادہ کندن لال آیا۔ اس کے ساتھ چار پانچ آدمی تھے خدا کی قسم! اکیلا ہوتا تو میں پتھر مار مار کر اسے جہنم واصل کردیتا۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ سمتری کی کہانی، جس کے یہ الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں، جاؤ حنیف جاؤ۔ کس قدر دکھ ہے ان تین لفظوں میں۔ حنیف کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا تھا۔ تم نے سمتری کو قبول کیوں نہ کیا؟‘‘

حنیف نے آنکھیں جھکا لیں۔ خود کو ایک موٹی گالی دے کر اس نے کہا۔

’’کمزوری۔ مرد عموماً ایسے معاملوں میں بڑا کمزور ہوتا ہے۔ لعنت ہے اس پر۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

جانکی

پونہ میں ریسوں کا موسم شروع ہونے والا تھا کہ پشاور سے عزیز نے لکھا کہ میں اپنی ایک جان پہچان کی عورت جانکی کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں، اس کو یا تو پونہ میں یا بمبئی میں کسی فلم کمپنی میں ملازمت کرادو۔ تمہاری واقفیت کافی ہے، امید ہے تمہیں زیادہ دقت نہیں ہو گی۔ وقت کا تو اتنا زیادہ سوال نہیں تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ میں نے ایسا کام کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ فلم کمپنیوں میں اکثر وہی آدمی عورتیں لے کر آتے ہیں جنہیں ان کی کمائی کھانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں بہت گھبرایا لیکن پھر میں نے سوچا عزیز اتنا پرانا دوست ہے، جانے کس یقین کے ساتھ بھیجا ہے، اس کومایوس نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سوچ کر بھی ایک گونہ تسکین ہوئی کہ عورت کے لیے، اگر وہ جوان ہو، ہر فلم کمپنی کے دروازے کھلے ہیں۔ اتنی تردّد کی بات ہی کیا ہے، میری مدد کے بغیر ہی اسے کسی نہ کسی فلم کمپنی میں جگہ مل جائے گی۔ خط ملنے کے چوتھے روز وہ پونہ پہنچ گئی۔ کتنا لمبا سفر طے کرکے آئی تھی، پشاور سے بمبئی اور بمبئی سے پونہ۔ پلیٹ فارم پر چونکہ اس کو مجھے پہچاننا تھا، اس لیے گاڑی آنے پر میں نے ایک سرے سے ڈبوں کے پاس سے گزرنا شروع کیا۔ مجھے زیادہ دُور نہ چلنا پڑا کیونکہ سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے ایک متوسط قدکی عورت جس کے ہاتھ میں میری تصویر تھی اُتری۔ میری طرف وہ پیٹھ کرکے کھڑی ہو گئی اور ایڑیاں اونچی کرکے مجھے ہجوم میں تلاش کرنے لگی۔ میں نے قریب جا کر کہا، جسے آپ ڈھونڈ رہی ہیں وہ غالباً میں ہی ہُوں۔ وہ پلٹی۔

’’اوہ، آپ!‘‘

ایک نظر میری تصویر کی طرف دیکھا اور بڑے بے تکلّف انداز میں کہا۔

’’سعادت صاحب! سفر بہت ہی لمبا تھا۔ بمبئی میں فرنٹیر میل سے اُتر کر اس گاڑی کے انتظار میں جو وقت کاٹا۔ اس نے طبیعت صاف کردی۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اسباب کہاں ہے آپ کا؟‘‘

’’لاتی ہُوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ ڈبے کے اندر داخل ہوئی۔ دو سوٹ کیس اور ایک بستر نکالا۔ میں نے قُلی بلوایا۔ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا۔

’’میں ہوٹل میں ٹھہروں گی۔ ‘‘

میں نے اسٹیشن کے سامنے ہی اس کے لیے ایک کمرے کا بندوبست کردیا۔ اسے غسل وسل کرکے کپڑے تبدیل کرنے تھے اور آرام کرنا تھا، اس لیے میں نے اسے اپنا ایڈریس دیا اور یہ کہہ کر کہ صبح دس بجے مجھ سے ملے، ہوٹل سے چل دیا۔ صبح ساڑھے دس بجے وہ پربھات نگر، جہاں میں ایک دوست کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا، آئی جگہ تلاش کرتے ہوئے اسے دیر ہو گئی تھی۔ میرا دوست اس چھوٹے سے فلیٹ میں، جو نیا نیا تھا موجود نہیں تھا۔ میں رات دیر تک لکھنے کا کام کرنے کے باعث صبح دیر سے جاگا تھا، اس لیے ساڑھے دس بجے نہا دھو کر چائے پی رہا تھا کہ وہ اچانک اندر داخل ہُوئی۔ پلیٹ فارم پر اور ہوٹل میں تھکاوٹ کے باوجود وہ جاندار عورت تھی مگر جونہی وہ اس کمرے میں جہاں میں صرف بنیان اور پاجامہ پہنے چائے پی رہا تھا داخل ہُوئی تو اس کی طرف دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بہت ہی پریشان اور خستہ حال عورت مجھ سے ملنے آئی ہے۔ جب میں نے اسے پلیٹ فارم پر دیکھا تھا تو وہ زندگی سے بھرپور تھی لیکن جب پربھات نگر کے نمبر گیارہ فلیٹ میں آئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یا تو اس نے خیرات میں اپنا دس پندرہ اونس خون دے دیا ہے یا اس کا اسقاط ہو گیا ہے۔ جیسا کہ میں آپ سے کہہ چکا ہوں، گھرمیں اور کوئی موجود نہیں تھا، سوائے ایک بے وقوف نوکر کے۔ میرے دوست کا گھر جس میں ایک فلمی کہانی لکھنے کے لیے میں ٹھہرا ہوا تھا، بالکل سنسان تھا اور مجید ایک ایسا نوکر تھا جس کی موجودگی ویرانی میں اضافہ کرتی تھی۔ میں نے چائے کی ایک پیالی بنا کر جانکی کو دی اور کہا۔

’’ہوٹل سے تو آپ ناشتہ کرکے آئی ہوں گی، پھر بھی شوق فرمائیے!‘‘

اس نے اضطراب سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہُوئے چائے کی پیالی اُٹھائی اور پینا شروع کی اس کی داہنی ٹانگ بڑے زور سے ہل رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ سے مجھے معلوم ہُوا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن ہچکچاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید ہوٹل میں رات کو کسی مسافر نے اسے چھیڑا ہے چنانچہ میں نے کہا۔

’’آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہُوئی ہوٹل میں؟‘‘

’’جی، جی نہیں!‘‘

میں یہ مختصر جواب سُن کر خاموش رہا۔ چائے ختم ہُوئی تومیں نے سوچا اب کوئی بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے پوچھا۔

’’عزیز صاحب کیسے ہیں؟‘‘

اس نے میرے سوال کا جواب نہ دیا۔ چائے کی پیالی تپائی پررکھ کر اُٹھ کھڑی ہُوئی اور لفظوں کو جلدی جلدی ادا کرکے کہا۔

’’منٹو صاحب آپ کسی اچھے ڈاکٹر کو جانتے ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’پونہ میں تو میں کسی کو نہیں جانتا۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں، بیمار ہیں آپ؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں نے دریافت کیا۔

’’کیا تکلیف ہے؟‘‘

اس کے تیکھے ہونٹ جو مسکراتے وقت سکڑ جاتے تھے یا سکیڑ لیے جاتے تھے واہوئے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی اور اُٹھ کھڑی ہوئی پھر میرا سگریٹ کا ڈبہ اٹھایا اور ایک سگریٹ سلگا کر کہا۔

’’معاف کیجیے گا میں سگریٹ پیا کرتی ہُوں۔ ‘‘

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صرف سگریٹ پیا ہی نہیں کرتی بلکہ پھونکا کرتی تھی۔ بالکل مردوں کی طرح سگریٹ انگلیوں میں دبا کر وہ زور زور سے کش لیتی اور ایک دن میں تقریباً پچھتر سگریٹوں کا دھواں کھینچتی تھی۔ میں نے کہا۔

’’آپ بتاتی کیوں نہیں کہ آپ کو تکلیف کیا ہے؟‘‘

اس نے کنواری لڑکیوں کی طرح جھنجھلا کر اپنا ایک پاؤں فرش پر مارا۔

’’ہائے اللہ! میں کیسے بتاؤں آپ کو‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرائی۔ مسکراتے ہوئے تیکھے ہونٹوں کی محراب میں سے مجھے اس کے دانت نظر آئے جو غیر معمولی طور پر صاف اور چمکیلے تھے۔ وہ بیٹھ گئی اور میری آنکھوں میں اپنی ڈگمگاتی آنکھوں کو نہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’’بات یہ ہے کہ پندرہ بیس دن اوپر ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ۔ ‘‘

پہلے تو میں مطلب نہ سمجھا لیکن جب وہ بولتے بولتے رک گئی تو میں کسی قدر سمجھ گیا

’’ایسا اکثر ہوتا ہے۔ ‘‘

اس نے زور سے کش لیا اور مردوں کی طرح زور سے دھویں کو باہر نکالتے ہُوئے کہا۔

’’نہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کچھ ٹھہر نہ گیا ہو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اوہ!‘‘

اس نے سگریٹ کا آخری کش لے کر اس کی گردن چائے کی طشتری میں دبائی۔

’’اگر ایسا ہو گیا ہے تو بڑی مصیبت ہو گی۔ ایک دفعہ پشاور میں ایسی ہی گڑ بڑ ہو گئی تھی۔ لیکن عزیز صاحب اپنے ایک حکیم دوست سے ایسی دوا لائے تھے جس سے چند دن ہی میں سب صاف ہو گیا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’آپ کو بچے پسند نہیں؟‘‘

وہ مسکرائی۔

’’پسند ہیں۔ لیکن کون پالتا پھرے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’آپ کو معلوم ہے اس طرح بچے ضائع کرنا جرم ہے۔ ‘‘

وہ ایک سنجیدہ ہو گئی۔ پھر اس نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’مجھ سے عزیز صاحب نے بھی یہی کہا تھا۔ لیکن سعادت صاحب میں پوچھتی ہُوں اس میں جرم کی کونسی بات ہے۔ اپنی ہی تو چیز ہے اور ان قانون بنانے والوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بچہ ضائع کراتے ہوئے تکلیف کتنی ہوتی ہے۔ بڑا جرم ہے!‘‘

میں بے اختیار ہنس پڑا۔

’’عجیب و غریب عورت ہو تم جانکی!‘‘

جانکی نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔

’’عزیز صاحب بھی یہی کہا کرتے ہیں۔ ‘‘

ہنستے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرا مشاہدہ ہے جو آدمی پُر خلوص ہوں۔ ہنستے ہوئے اس کی آنکھوں میںآنسو ضرور آجاتے ہیں۔ اس نے اپنا بیگ کھول کر رومال نکالا اور آنکھیں خشک کرکے بھولے بچوں کے انداز میں پوچھا۔

’’سعادت صاحب! بتائیے، کیا میری باتیں دلچسپ ہوتی ہیں؟‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت۔ ‘‘

’’جھوٹ!‘‘

’’اس کا ثبوت؟‘‘

اس نے سگریٹ سلگانا شروع کردیا۔

’’بھئی شاید ایسا ہو۔ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ کچھ کچھ بے قوف ہوں۔ زیادہ کھاتی ہوں، زیادہ بولتی ہوں، زیادہ ہنستی ہوں۔ اب آپ ہی دیکھیے نا زیادہ کھانے سے میرا پیٹ کتنا بڑھ گیا ہے۔ عزیز صاحب ہمیشہ کہتے رہے جانکی کم کھایا کرو پر میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ سعادت صاحب بات یہ ہے کہ میں کم کھاؤں تو ہر وقت ایسا لگتا ہے کہ میں کسی سے کوئی بات کہنا بھول گئی ہوں۔ ‘‘

اس نے پھر ہنسنا شروع کیا۔ میں بھی اس کے ساتھ شریک ہو گیا۔ اس کی ہنسی بالکل الگ قسم کی تھیں۔ بیچ بیچ میں گھنگھرو سے بجتے تھے۔ پھر وہ اسقاط حمل کے متعلق باتیں کرنے ہی والی تھی کہ میرا دوست، جس کے یہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، آگیا۔ میں نے جانکی سے اس کا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم لائن میں آنے کا شوق رکھتی ہے۔ میرا دوست اسے اسٹوڈیو لے گیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ وہ ڈائریکٹر جس کے ساتھ وہ بحیثیت اسسٹنٹ کے کام کررہا تھا، اپنے نئے فلم میں جانکی کو ایک خاص رول کے لیے ضرور لے لے گا۔ پونہ میں جتنے سٹوڈیو تھے، میں نے مختلف ذرائع سے جانکی کے لیے کوشش کی۔ کسی نے اس کا ساؤنڈ ٹسٹ لیا، کسی نے کیمرہ ٹسٹ۔ ایک فلم کمپنی میں اس کو مختلف قسم کے لباس پہنا کر دیکھا گیا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ایک تو جانکی ویسے ہی دن اوپر ہو جانے کے باعث پریشان تھی، چار پانچ روز متواتر جب اسے مختلف فلم کمپنیوں کے اکتا دینے والے ماحول میں بے نتیجہ گزارنے پڑے تو وہ اور زیادہ پریشان ہو گئی۔ بچہ ضائع کرنے کے لیے وہ ہر روز بیس بیس گرین کونین کھاتی تھی۔ اس سے بھی اس کی طبیعت پر گرانی سی رہتی تھی۔ عزیز صاحب کے دن پشاور میں اس کے بغیر کیسے گزرتے ہیں، اس کے متعلق بھی اس کو ہر وقت فکر رہتی تھی۔ پونہ پہنچتے ہی اس نے ایک تار بھیجا تھا۔ اس کے بعد وہ بلاناغہ ہر روز ایک خط لکھ رہی تھی۔ ہر خط میں یہ تاکید ہوتی تھی کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور دوا باقاعدگی کے ساتھ پیتے رہیں۔ عزیز صاحب کو کیا بیماری تھی، اس کا مجھے علم نہیں۔ لیکن جانکی سے مجھے اتنا معلوم ہوا کہ عزیز صاحب کو چونکہ اس سے محبت ہے، اس لیے وہ فوراً اس کا کہنا مان لیتے ہیں گھر میں کئی بار بیوی سے اس کا جھگڑا ہوا کہ وہ دوا نہیں پیتے لیکن جانکی سے اس معاملے میں انھوں نے کبھی چوں بھی نہ کی۔ شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ جانکی عزیز کے متعلق جو اتنی فکر مند رہتی ہے، محض بکواس ہے، بناوٹ ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ میں نے اس کی بے تکلف باتوں سے محسوس کیا کہ اسے حقیقتاً عزیز کا خیال ہے۔ اس کا جب خط آیا، جانکی پڑھ کرضرور روئی۔ فلم کمپنیوں کے طواف کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ لیکن ایک روز جانکی کو یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی کہ اس کا اندیشہ غلط تھا۔ دن واقعی اوپر ہو گئے تھے لیکن وہ بات جس کا اسے کھٹکا تھا، نہیں تھی۔ جانکی کو پونہ آئے بیس روز ہو چلے تھے۔ عزیز کو وہ خط پر خط لکھ رہی تھی۔ اس کی طرف سے بھی لمبے لمبے محبت نامے آتے تھے۔ ایک خط میں عزیز نے مجھ سے کہا تھا کہ پونہ میں اگر جانکی کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو میں بمبئی میں کوشش کروں کیونکہ وہاں بے شمار اسٹوڈیو ہیں۔ بات معقول تھی لیکن میں سیزیو لکھنے میں مصروف تھا، اس لیے جانکی کے ساتھ بمبئی جانا مشکل تھا، لیکن میں نے پونہ سے اپنے دوست سعید جو کو ایک فلم میں ہیرو کا پارٹ ادا کررہا تھا، ٹیلی فون کیا اتفاق سے وہ اس وقت اسٹوڈیو میں موجود نہ تھا۔ آفس میں نرائن کھڑا تھا اسے جب معلوم ہوا کہ میں پونہ سے بول رہا ہوں تو ٹیلی فون لے لیا اور زور سے چلایا۔

’’ہلو، منٹو۔ نرائن اسپیکنگ فرام دس انڈ۔ کہو، بات کیاہے۔ سعید اس وقت اسٹوڈیو میں نہیں ہے۔ گھر میں بیٹھا رضیہ سے آخری حساب کتاب کررہا ہے۔ میں نے پوچھا

’’کیا مطلب؟‘‘

نرائن نے ادھر سے جواب دیا، کھٹ پٹ ہو گئی ہے اصل میں رضیہ نے ایک اور آدمی سے ٹانکا ملا لیا ہے۔ میں نے کہا۔

’’لیکن یہ حساب کتاب کیسا ہورہا ہے؟‘‘

نرائن بولا۔

’’بڑا کمینہ ہے یار، سعید۔ اس سے کپڑے لے رہے ہیں جو اس نے خرید کر دیے تھے۔ ‘‘

بات یہ ہے کہ پشاور سے میرے ایک عزیز نے ایک عورت یہاں بھیجی ہے۔ جسے فلموں میں کام کرنے کا شوق ہے۔ ‘‘

جانکی میرے پاس ہی کھڑی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے مناسب و موزوں لفظوں میں اپنا مدعا بیان نہیں کیا۔ میں تصحیح کرنے ہی والا تھا کہ نرائن کی بلند آواز کانوں کے اندر گھسی۔

’’عورت! پشاور کی عورت خو، بیجو اس کو جلدی۔ خو ہم بھی قصور کا پٹھان ہے۔ میں نے کہا

’’بکواس نہ کرو نرائن سنو، کل دکن کوئن سے میں انھیں بمبئی بھیج رہا ہوں۔ سعید یا تم کوئی بھی اسے اسٹیشن پر لینے کے لیے آجانا، کل دکن کوئن سے۔ یاد رہے۔ نرائن کی آواز آئی۔

’’پر ہم اسے پہچانیں گے کیسے؟‘‘

میں نے جوا بدیا۔

’’وہ خود تمہیں پہچان لے گی۔ لیکن دیکھو کوشش کرکے اسے کسی نہ کسی جگہ ضرور رکھوا دینا۔ ‘‘

تین منٹ گزر گئے۔ میں نے ٹیلی فون بند کیا اور جانکی سے کہا۔

’’کل دکن کوئن سے تم بمبئی چلی جانا۔ سعید اور نرائن دونوں کی تصویریں دکھاتا ہوں۔ لمبے ترنگے خوبصورت جوان ہیں۔ تمہیں پہچاننے میں دقت نہیں ہو گی۔ ‘‘

میں نے البم میں جانکی کو سعید اور نرائن کے مختلف فوٹو دکھائے۔ دیر تک وہ انھیں دیکھتی رہی۔ میں نے نوٹ کیاکہ سعید کا فوٹو اس نے زیادہ غورسے دیکھا۔ البم ایک طرف رکھ کر میری آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالنے کی ڈگمگاتی کوشش کرتے ہوئے، اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’دونوں کیسے آدمی ہیں؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ دونوں کیسے آدمی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ فلموں میں اکثر آدمی بُرے ہوتے ہیں۔ ‘‘

اس کے لہجے میں ایک ٹوہ لینے والی سنجیدگی تھی۔ میں نے کہا۔

’’یہ تو دُرست ہے لیکن فلموں میں نیک آدمیوں کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک قسم ان انسانوں کی ہے جو اپنے زخموں سے درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان کی ہے جو دوسروں کے زخم دیکھ کر درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ تمہارا خیال ہے، کون سی قسم کے انسان زخم کے درد اور اس کی تہ کی جلن کو صحیح طور پرمحسوس کرتے ہیں۔ ‘‘

اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔

’’وہ جن کے زخم لگے ہوتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’بالکل درست۔ فلموں میں اصل کی اچھی نقل وہی اتار سکتا ہے جسے اصل کی واقفیت ہو۔ ناکام محبت میں دل کیسے ٹوٹتا ہے، یہ ناکامِ محبت ہی اچھی طرح بتا سکتا ہے۔ وہ عورت جو پانچ وقت جا نماز بچھا کر نماز پڑھتی ہے اور عشق و محبت کو سُور کے برابر سمجھتی ہے، کیمرے کے سامنے کسی مرد کے ساتھ اظہارِ محبت کیا خاک کرے گی!‘‘

اس نے پھر سوچا۔

’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلم لائن میں داخل ہونے سے پہلے عورت کو سب چیزیں جاننی چاہئیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’یہ ضروری نہیں۔ فلم لائن میں آکر بھی وہ چیزیں جان سکتی ہے۔ ‘‘

اس نے میری بات پر غور نہ کیا اور جو پہلا سوال کیا تھا، پھر اسے دہرایا۔

’’سعید صاحب اور نرائن صاحب کیسے آدمی ہیں؟‘‘

’’تم تفصیل سے پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘

’’تفصیل سے آپ کا کیا مطلب؟‘‘

’’یہ کہ دونوں میں سے آپ کے لیے کون بہتر رہے گا!‘‘

جانکی کو میری یہ بات ناگوار گزری۔

’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟‘‘

’’جیسی تم چاہتی ہو۔ ‘‘

’’ہٹائیے بھی۔ ‘‘

یہ کہہ وہ مسکرائی۔

’’میں اب آپ سے کچھ نہیں پوچھوں گی۔ ‘‘

میں نے مسکراتے ہُوئے کہا۔

’’جب پوچھو گی تو میں نرائن کی سفارش کروں گا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ سعید کے مقابلے میں بہتر ا نسان ہے۔ ‘‘

میرا اب بھی یہی خیال ہے۔ سعید شاعر ہے، ایک بہت بے رحم قسم کا شاعر۔ مرغی پکڑے گا تو ذبح کرنے کی بجائے اس کی گردن مروڑ دے گا۔ گردن مروڑ کراس کے پر نوچے گا۔ پر نوچنے کے بعد اس کی یخنی نکالے گا۔ یخنی پی کر اور ہڈیاں چبا کر وہ بڑے آرام اور سکون سے ایک کونے میں بیٹھ کر اس کی مرغی کی موت پر ایک نظم لکھے گا جو اس کے آنسوؤں میں بھیگی ہو گی۔ شراب پیے گا تو کبھی بہکے گا نہیں۔ مجھے اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ شراب کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے۔ صبح بہت آہستہ آہستہ بستر پر سے اُٹھے گا۔ نوکر چائے کی پیالی بنا کر لائے گا۔ اگر رات کی بچی ہُوئی رم سرہانے پڑی ہے تو اسے چائے میں انڈیل لے گا اور اس مکسچر کو ایک ایک گھونٹ کرکے ایسے پیے گا جیسے اس میں ذائقے کی کوئی حس ہی نہیں۔ بدن پرکوئی پھوڑا نکلا ہے۔ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے، مگر مجال ہے جو وہ اس کی طرف متوجہ ہو۔ پیپ نکل رہی ہے، گل سڑ گیا ہے، ناسور بننے کا خطرہ ہے، لیکن سعید کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائے گا۔ آپ اس سے کچھ کہیں گے تو یہ جواب ملے گا۔

’’اکثر اوقات بیماریاں انسان کی جزو بدن ہو جاتی ہیں۔ جب مجھے یہ زخم تکلیف نہیں دیتا تو علاج کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

اور یہ کہتے ہوئے وہ زخم کی طرف اس طرح دیکھے گا جیسے کوئی اچھا شعر نظر آگیا ہے۔ ایکٹنگ وہ ساری عمر نہیں کرسکے گا، اس لیے کہ وہ لطیف جذبات سے قریب قریب عاری ہے۔ میں نے اسے ایک فلم میں دیکھا جو ہیروئن کے گانوں کے باعث بہت مقبول ہوا تھا۔ ایک جگہ اس نے اپنی محبوبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر محبت کا اظہار کرنا تھا۔ خدا کی قسم اس نے ہیروئن کا ہاتھ کچھ اس طرح اپنے ہاتھ میں لیا جیسے کتے کا پنجہ پکڑا جاتا ہے۔ میں اس سے کئی بار کہہ چکا ہوں ایکٹر بننے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو، اچھے شاعر ہو، گھر بیٹھو اور نظمیں لکھا کرو۔ مگر اس کے دماغ پر ابھی تک ایکٹنگ کی دُھن سوار ہے۔ نرائن مجھے بہت پسند ہے۔ اسٹوڈیو کی زندگی کے جو اصول اس نے اپنے لیے وضع کر رکھے ہیں، مجھے اچھے لگتے ہیں۔ 1۔ ایکٹر جب تک ایکٹر ہے، اسے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ شادی کرلے تو فوراً فلم کو طلاق دے کر دودھ دہی کی دکان کھول لے۔ اگر مشہور ایکٹر رہا تو کافی آمدنی ہو جایا کرے گی۔ 2۔ کوئی ایکٹرس تمہیں بھیا یا بھائی صاحب کہے تو فوراً اس کے کان میں کہو، آپ کی انگیا کا سائز کیا ہے۔ 3۔ کسی ایکٹرس پر اگر تمہاری طبیعت آگئی ہے تو تمہیدیں باندھنے میں وقت ضائع نہ کرو۔ اس سے تخلیے میں ملو اور کہو کہ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، اس کا یقین نہ آئے تو پوری جیب باہر نکال کر دکھا دو۔ 4۔ اگرکوئی ایکٹرس تمہارے حصے میں آجائے تو اس کی آمدنی میں سے ایک پیسہ بھی نہ لو ایکٹرسوں کے شوہروں اور بھائیوں کے لیے یہ پیسہ حلال ہے۔ 5۔ اس بات کا خیال رکھنا کہ ایکٹرس کے بطن سے تمہاری کوئی اولاد نہ ہو۔ سوراج ملنے کے بعد البتہ تم اس کی اولاد پیدا کرسکتے ہو۔ 6۔ یاد رکھو کہ ایکٹر کی بھی عاقبت ہوتی ہے۔ اسے ریزر اور کنگھی سے سنوارنے کے بجائے کبھی کبھی غیر مہذب طریقے سے بھی سنوارنے کی کوشش کیا کرو، مثال کے طور پر کوئی نیک کام کرکے۔ 7۔ اسٹوڈیو میں سب سے زیادہ احترام پٹھان چوکیدار کا کرو۔ صبح اسٹوڈیو میں آتے وقت اسے سلام کرنے سے تمہیں فائدہ ہو گا۔ یہاں نہیں تو دوسری دنیا میں، جہاں فلم کمپنیاں نہیں ہوں گی۔ 8۔ شراب اور ایکٹرس کی عادت ہرگز نہ ڈالو۔ بہت ممکن ہے کہ کسی روز کانگرس گورنمنٹ لہر میں آکر یہ دونوں چیزیں ممنوع قرار دے دے۔ 9۔ سوداگر، مسلمان سوداگر ہوسکتا ہے۔ لیکن ایکٹر ہندو ایکٹر، یا مسلم ایکٹر نہیں ہوسکتا۔ 10۔ جھوٹ نہ بولو۔ یہ سب باتیں

’’نرائن کے دس احکام‘‘

کے عنوان تلے اس نے اپنی ایک نوٹ بک میں لکھ رکھی ہیں جن سے اس کے کیریکٹر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان سب پر عمل نہیں کرتا۔ مگر یہ حقیقت نہیں۔ سعید اور نرائن کے متعلق جو میرے خیالات تھے۔ میں نے جانکی کے پوچھے بغیر اشارۃً بتا دیے اور آخر میں اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر تم اس لائن میں آگئیں تو کسی نہ کسی مرد کا سہارا تمہیں لینا پڑے گا۔ نرائن کے متعلق میرا خیال ہے کہ اچھا دوست ثابت ہو گا۔ میرا مشورہ اس نے سُن لیا اور بمبئی چلی گئی۔ دوسرے روز خوش خوش واپس آئی کیونکہ نرائن نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک سال کے لیے پانچ سو روپے ماہوار پر اسے ملازم کرادیا تھا۔ یہ ملازمت اسے کیسی ملی، دیر تک اس کے متعلق باتیں ہوئیں۔ جب اور کچھ سننے کو نہ رہا تو میں نے اس سے پوچھا۔

’’سعید اور نرائن، دونوں سے تمہاری ملاقات ہوئی، ان میں سے کس نے تم کو زیادہ پسند کیا؟‘‘

جانکی کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ لغزش بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہُوئے اس نے کہا۔

’’سعید صاحب!‘‘

یہ کہہ کروہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

’’سعادت صاحب آپ نے کیوں اتنے پُل باندھے تھے۔ نرائن کی تعریفوں کے؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں‘‘

’’بڑا ہی واہیات آدمی ہے۔ شام کو باہر کرسیاں بچھا کر سعید صاحب اور وہ شراب پینے کے لیے بیٹھے تو باتوں باتوں میں میں نے نرائن بھیا کہا۔ اپنا منہ میرے کان کے پاس لاکرپوچھا۔

’’تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے۔ ‘‘

’’بھگوان جانتا ہے میرے تن بدن میں تو آگ ہی لگ گئی کیسا لچر آدمی ہے۔ ‘‘

جانکی کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس نے تیزی سے کہا۔

’’آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟‘‘

’’اس کی بے وقوفی پر۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں نے ہنسنا بند کردیا۔ تھوڑی دیر نرائن کو برا بھلا کہنے کے بعد جانکی نے عزیز کے متعلق فکر مند لہجے میں باتیں شروع کردیں۔ کئی دنوں سے اس کا خط نہیں آیا تھا۔ اس لیے طرح طرح کے خیال اسے ستا رہے تھے۔ کہیں انھیں پھر زکام نہ ہو گیا ہو۔ اندھا دھند سائیکل چلاتے ہیں، کہیں حادثہ ہی نہ ہو گیا ہو۔ پونہ ہی نہ آرہے ہوں، کیونکہ جانکی کورخصت کرتے وقت انھوں نے کہا تھا ایک روز میں چپ چاپ تمہارے پاس چلا آؤں گا۔ باتیں کرنے کے بعد اس کا تردّد کم ہوا تو اس نے عزیز کی تعریفیں شروع کردیں۔ گھر میں بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہر روز صبح ان کو ورزش کراتے ہیں اور نہلا دھلا کر سکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ بیوی بالکل پھوہڑ ہے، اس لیے رشتہ داروں سے سارا رکھ رکھاؤ خود انہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ جانکی کو ٹائی فائڈ ہو گیا تھا تو بیس دن تک متواتر نرسوں کی طرح اس کی تیمار داری کرتے رہے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے روز مناسب و موزوں الفاظ میں میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ بمبئی چلی گئی۔ جہاں اس کے لیے ایک نئی اور چمکیلی دنیا کے دروازے کھل گئے تھے۔ پونہ میں مجھے تقریباً دو مہینے کہانی کا منظر نامہ تیار کرنے میں لگے۔ حقِ خدمت وصول کرکے میں نے بمبئی کا رخ کیا جہاں مجھے ایک نیا کنٹریکٹ مل رہا تھا۔ میں صبح پانچ بجے کے قریب اندھیری پہنچا جہاں ایک معمولی بنگلے میں سعید اور نرائن دونوں اکٹھے رہتے تھے۔ برآمدے میں داخل ہوا تو دروازہ بند پایا۔ میں نے سوچا سو رہے ہوں گے، تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ پچھلی طرف ایک دروازہ ہے۔ جو نوکروں کے لیے اکثر کھلا رہتا ہے، میں اس میں سے اندر داخل ہُوا۔ باورچی خانہ اور ساتھ والا کمرہ جس میں کھانا کھایا جاتا ہے، حسبِ معمول بے حد غلیظ تھے۔ سامنے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ میں نے اس کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرے میں دو پلنگ تھے۔ ایک پر سعید اور اسکے ساتھ کوئی اور لحاف اوڑھے سو رہا تھا۔ مجھے سخت نیند آرہی تھی۔ دوسرے پلنگ پر میں کپڑے اُتارے بغیر لیٹ گیا پائنتی پر کمبل پڑا تھا، یہ میں نے ٹانگوں پر ڈال لیا۔ سونے کا ارادہ ہی کررہا تھاکہ سعید کے پیچھے سے ایک چوڑیوں والا ہاتھ نکلا اور پلنگ کے پاس رکھی ہوئی کرسی کی طرف بڑھنے لگا۔ کرسی پر لٹھے کی سفید شلوار لٹک رہی تھی۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ سعید کے ساتھ جانکی لیٹی تھی۔ میں نے کرسی پر سے شلوار اٹھائی اور اس کی طرف پھینک دی۔ نرائن کے کمرے میں جا کر میں نے اسے جگایا۔ رات کے دو بجے اس کی شوٹنگ ختم ہوئی تھی، مجھے افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ اس غریب کو جگایا۔ لیکن وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ کسی خاص موضع پر نہیں۔ مجھے اچانک دیکھ کر بقول اس کے وہ کچھ بے ہودہ بکواس کرنا چاہتا تھا، چنانچہ صبح نو بجے تک ہم بے ہودہ بکواس میں مشغول رہے جس میں بار بار جانکی کا بھی ذکر آیا۔ جب میں نے انگیا والی بات چھیڑی تو نرائن بہت ہنسا۔ ہنستے ہنستے اس نے کہا سب سے مزے دار بات تو یہ ہے کہ جب میں نے اس کے کان کے ساتھ منہ لگا کر پوچھا۔ تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے تو اس نے بتا دیا کہا۔

’’چوبیس۔ ‘‘

اس کے بعد اچانک اسے میرے سوال کی بے ہودگی کا احساس ہوا۔ مجھے کوسنا شروع کردیا۔ بالکل بچی ہے۔ جب کبھی مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو سینے پر دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔ لیکن منٹو! بڑی وفادار عورت ہے۔ میں نے پوچھا۔

’’یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’عورت، جو ایک بالکل اجنبی آدمی کو اپنی انگیا کا صحیح سائز بتا دے، دھوکے باز ہرگز نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

عجیب و غریب منطق تھی۔ لیکن نرائن نے مجھے بڑی سنجیدگی سے یقین دلایا کہ جانکی بڑی پُر خلوص عورت ہے۔ اس نے کہا منٹو۔

’’تمہیں معلوم نہیں سعید کی کتنی خدمت کررہی ہے۔ ایسے انسان کی خبر گیری جو پرلے درجے کا بے پروا ہو آسان کام نہیں۔ لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ جانکی اس مشکل کو بڑی آسانی سے نبھا رہی ہے۔ عورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک پر خلوص اور ایماندار آیا بھی ہے۔ صبح اٹھ کر اس خرذات کو جگانے میں آدھ گھنٹہ صرف کرتی ہے۔ اس کے دانت صاف کراتی ہے، کپڑے پہناتی ہے، ناشتہ کراتی ہے اور رات کو جب وہ رم پی کر بستر پر لیٹتا ہے تو سب دروازے بند کرکے اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہے اور جب اسٹوڈیو میں کسی سے ملتی ہے تو صرف سعید کی باتیں کرتی ہیں۔ سعید صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ سعیدصاحب بہت اچھا گاتے ہیں۔ سعید صاحب کا وزن بڑھ گیا ہے۔ سعید صاحب کا پل اوور تیار ہو گیا ہے۔ سعید صاحب کے لیے پشاور سے پوٹھوہاری سینڈل منگوائی ہے۔ سعید صاحب کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہے۔ اسپرو لینے جارہی ہوں۔ سعید صاحب نے آج مجھ پر ایک شعر کہا۔ اور جب مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو انگیا والی بات یاد کرکے تیوری چڑھا لیتی ہے۔ ‘‘

میں تقریباً دس دن سعید اور نرائن کا مہمان رہا۔ اس دوران میں سعید نے جانکی کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ ان کا معاملہ کافی پرانا ہو چکا تھا۔ جانکی سے البتہ کافی باتیں ہوئیں۔ وہ سعید سے بہت خوش تھی لیکن اسے اس کی بے پروا طبعیت کا بہت گلہ تھا۔

’’سعادت صاحب! اپنی صحت کا بالکل ہی خیال نہیں رکھتے۔ بہت بے پرواہ ہیں۔ ہر وقت سوچنا، جو ہوا اس لیے کسی بات کا خیال ہی نہیں رہتا۔ آپ ہنسنے لگے، لیکن مجھے ہر روز ان سے پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ سنڈاس گئے تھے یا نہیں۔ ‘‘

نرائن نے مجھ سے جو کچھ کہا تھا، ٹھیک نکلا۔ جانکی ہر وقت سعید کی خبر گیری میں منہمک رہتی تھی۔ میں دس دن اندھیری کے بنگلے میں رہا۔ ان دس دنوں میں جانکی کی بے لوث خدمت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ لیکن یہ خیال بار بار آتا رہا کہ عزیز کو کیا ہوا۔ جانکی کو اس کا بھی تو بہت خیال رہتا ہے۔ کیا سعید کو پا کروہ اس کو بھول چکی تھی۔ میں نے اس سوال کا جواب جانکی ہی سے پوچھ لیا ہوتا اگر میں کچھ دن اور وہاں ٹھہرتا۔ جس کمپنی سے میرا کنٹریکٹ ہونے والا تھا، اس کے مالک سے میری کسی بات پر چخ ہو گئی اور میں دماغی تکدر دُور کرنے کے لیے پونہ چلا گیا۔ دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ بمبئی سے عزیز کا تار آیا کہ میں آرہا ہوں۔ پانچ چھ گھنٹے کے بعد وہ میرے پاس تھا۔ اور دوسرے روز صبح سویرے جانکی میرے کمرے پر دستک دے رہی تھی۔ عزیز اور جانکی جب ایک دوسرے سے ملے تو انھوں نے دیر سے بچھڑے ہُوئے عاشق معشوق کی سرگرمی ظاہر نہ کی۔ میرے اور عزیز کے تعلقات شروع سے بہت سنجیدہ اور متین رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ دونوں معتدل رہے۔ عزیز کا خیال تھا ہوٹل میں اُٹھ جائے لیکن میرا دوست جس کے یہاں میں ٹھہرا تھا آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے کولہا پور گیا تھا، اس لیے میں نے عزیز اور جانکی کو اپنے پاس ہی رکھا۔ تین کمرے تھے۔ ایک میں جانکی سو سکتی تھی دوسرے میں عزیز۔ یوں تو مجھے ان دونوں کو ایک ہی کمرہ دینا چاہیے تھا لیکن عزیز سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس نے جانکی سے اپنے تعلق کو مجھ پر ظاہر بھی نہیں کیا تھا۔ رات کو دونوں سینما دیکھنے چلے گئے۔ میں ساتھ نہ گیا، اس لیے کہ میں فلم کے لیے ایک نئی کہانی شروع کرنا چاہتا تھا۔ دو بجے تک میں جاگتا رہا۔ اس کے بعد سو گیا۔ ایک چابی میں نے عزیز کو دے دی تھی۔ اس لیے مجھے ان کی طرف سے اطمینان تھا۔ رات کو میں چاہے بہت دیر تک کام کروں، ساڑھے تین اور چار بجے کے درمیان ایک دفعہ ضرور جاگتا ہوں اور اٹھ کر پانی پیتا ہوں۔ حسب عادت اس رات کو بھی میں پانی پینے کے لیے اٹھا۔ اتفاق سے جو کمرہ میرا تھا، یعنی جس میں میں نے اپنا بستر جمایا ہوا تھا، عزیز کے پاس تھا اور اس میں میری صراحی پڑی تھی۔ اگر مجھے شدت کی پیاس نہ لگی ہوتی تو عزیز کو تکلیف نہ دیتا۔ لیکن زیادہ وسکی پینے کے باعث میرا حلق بالکل خشک ہورہا تھا، اس لیے مجھے دستک دینی پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ جانکی نے آنکھیں ملتے ملتے دروازہ کھولا اور کہا

’’سعید صاحب!‘‘

اور جب مجھے دیکھا تو ایک ہلکی سی

’’اوہ‘‘

اس کے منہ سے نکل گئی۔ اندر کے پلنگ پر عزیز سو رہا تھا۔ میں بے اختیار مسکرایا۔ جانکی بھی مسکرائی اور اس کے تیکھے ہونٹ ایک کونے کی طرف سکڑ گئے۔ میں نے پانی کی صراحی لی اور چلا آیا۔ صبح اُٹھا تو کمرے میں دُھواں جمع تھا۔ باورچی خانے میں جا کر دیکھا تو جانکی کاغذ جلا جلا کر عزیز کے غسل کے لیے پانی گرم کررہی تھی۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور انگیٹھی میں پھونکیں مارتی ہوئی کہنے لگی۔

’’عزیز صاحب ٹھنڈے پانی سے نہائیں تو انھیں زکام ہو جاتا ہے۔ میں نہیں تھی پشاور میں تو ایک مہینہ بیماررہے، اور رہتے بھی کیوں نہیں جب دوا پینی ہی چھوڑ دی تھی۔ آپ نے دیکھا نہیں کتنے دبلے ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اور عزیز نہا دھو کر جب کسی کام کی غرض سے باہر گیا تو جانکی نے مجھ سے سعید کے نام تار لکھنے کے لیے کہا۔

’’مجھے کل یہاں پہنچتے ہی انھیں تار بھیجنا چاہیے تھا۔ کتنی غلطی ہوئی مجھ سے انھیں بہت تشویش ہورہی ہو گی۔ ‘‘

اس نے مجھ سے تار کا مضمون بنوایا جس میں اپنی بخیریت پہنچنے کی اطلاع تو تھی لیکن سعید کی خیریت دریافت کرنے کا اضطراب زیادہ تھا۔ انجکشن لگوانے کی تاکید بھی تھی۔ چار روز گزر گئے۔ سعید کو جانکی نے پانچ تار روانہ کیے پر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ بمبئی جانے کا ارادہ کررہی تھی کہ اچانک شام کو عزیز کی طبیعت خراب ہو گئی۔ مجھ سے سعید کے نام ایک اور تار لکھوا کر وہ ساری رات عزیز کی تیمار داری میں مصروف رہی۔ معمولی بخار تھا لیکن جانکی کو بے حد تشویش تھی۔ میرا خیال ہے اس تشویش میں سعید کی خاموشی کا پیدا کردہ وہ اضطراب بھی شامل تھا۔ وہ مجھ سے اس دوران میں کئی بار کہہ چکی تھی۔

’’سعادت صاحب میرا خیال ہے سعید صاحب ضرور بیمار ہیں ورنہ وہ مجھے میرے تاروں اور خطوط کا جواب ضرورلکھتے۔ ‘‘

پانچویں روز شام کو عزیز کی موجودگی میں سعید کا تار آیا جس میں لکھا تھا میں بہت بیمار ہُوں فوراً چلی آؤ۔ تار آنے سے پہلے جانکی میری کسی بات پر بے تحاشا ہنس رہی تھی۔ لیکن جب اس نے سعید کی بیماری کی خبر سنی تو ایک دم خاموش ہو گئی۔ عزیز کو یہ خاموشی بہت ناگوار معلوم ہوئی کیونکہ جب اس نے جانکی کومخاطب کیا تو اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ میں اُٹھ کرچلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی اور عزیز کچھ اس طرح علیحدہ علیحدہ بیٹھے تھے جیسے ان میں کافی جھگڑا ہوا تھا۔ جانکی کے گالوں پر آنسوؤں کا میل تھا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جانکی نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور عزیز سے کہا۔

’’میں جاتی ہُوں، لیکن بہت جلد واپس آجاؤں گی۔ ‘‘

پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’سعادت صاحب ان کا خیال رکھیے، ابھی تک بخار دُور نہیں ہُوا۔ ‘‘

میں اسٹیشن تک اس کے ساتھ گیا۔ بلیک مارکیٹ سے ٹکٹ خرید کر اسے گاڑی پر بٹھایا اور گھر چلا آیا۔ عزیز کو ہلکا ہلکا بخار تھا۔ ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے لیکن جانکی کا ذکر نہ آیا۔ تیسرے روز صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب مجھے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد جانکی کی۔ لفظوں کو اوپر تلے کرتی ہُوئی وہ عزیز سے پوچھ رہی تھی کہ اس کی طبیعت اب کیسی ہے اور کیا اس کی غیر موجودگی میں اس نے باقاعدہ دوا پی تھی یا نہیں۔ عزیز کی آواز میرے کانوں تک نہ پہنچی لیکن آدھ گھنٹے بعد جب کہ نیند سے میری آنکھیں مندرہی تھیں، عزیز کی خفگی آمیز باتوں کا دبا دبا شور سُنائی دیا۔ سمجھ میں تو کچھ نہ آیا لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ جانکی سے اپنی ناراضی کا اظہار کررہا تھا۔ صبح دس بجے عزیز نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور جانکی کا گرم کیا ہوا پانی ویسے ہی غسل خانے میں پڑا رہا۔ جب میں نے جانکی سے اس بات کا ذکر کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نہا دھو کر عزیز باہر چلا گیا۔ جانکی کمرے میں پلنگ پر لیٹی رہی۔ سہ پہر کو تین بجے کے قریب جب میں اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ اسے بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر بلانے کے لیے باہر نکلا تو عزیز تانگے میں اسباب رکھوا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کہا جارہے ہو۔ تو اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایااور کہا، بمبئی! انشاء اللہ پھر ملاقات ہو گی۔ یہ کہہ کروہ اکے میں بیٹھا اور چلا گیا۔ مجھے یہ بتانے کا موقع ہی نہ ملا کہ جانکی کو بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر نے جانکی کو اچھی طرح دیکھا اور مجھے بتایا کہ اسے برونکائٹس ہے، اگر احتیاط نہ برتی تو نمونیا ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈ اکٹر نسخہ دے کر چلا گیا تو جانکی نے عزیز کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے نہ بتاؤں لیکن چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا، اس لیے میں نے کہہ دیا کہ چلا گیا ہے۔ یہ سُن کر اسے بہت صدمہ ہوا۔ دیر تک وہ تکیے میں سر دے کر روتی رہی۔ دوسرے روز صبح گیارہ بجے کے قریب جب کہ جانکی کا بخار ایک ڈگری ہلکا تھا اور طبیعت بھی کسی قدر درست تھی، بمبئی سے سعید کا تار آیا جس میں بڑے درشت لفظوں میں لکھا تھا

’’یاد رہے کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ‘‘

میں بہت منع کرتا رہا لیکن وہ تیز بخار ہی میں پونہ ایکسپریس سے بمبئی روانہ ہو گئی۔ پانچ چھ دنوں کے بعد نرائن کا تار آیا

’’ایک ضروری کام ہے، فوراً بمبئی چلے آؤ۔ ‘‘

میرا خیال تھا کہ کسی پروڈیوسر سے اس نے میرے کنٹریکٹ کی بات کی ہو گی، لیکن بمبئی پہنچ کر معلوم ہوا کہ جانکی کی حالت بہت نازک ہے۔ برونکائٹس بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جب وہ پونہ سے بمبئی پہنچی تھی تو اندھیری جانے کے لیے چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے گر پڑی تھی جس کے باعث اس کی دونوں رانیں بہت بری طرح چھل گئی تھیں۔ جانکی نے اس جسمانی تکلیف کو بڑی بہادری سے برداشت کیا۔ لیکن جب وہ اندھیری پہنچی اور سعید نے اس کے بندھے ہوئے اسباب کی طرف اشارہ کرکے کہا

’’مہربانی کرکے یہاں سے چلو جاؤ‘‘

تو اسے بہت روحانی تکلیف ہوئی۔ نرائن نے مجھے بتایا!

’’سعید کے منہ سے یہ برف جیسے ٹھنڈے لفظ سن کر وہ ایک لحظے کے لیے بالکل پتھر ہو گئی میرا خیال ہے اس نے تھوڑی دیر کے بعد یہ ضرور سوچا ہو گا میں گاڑی کے نیچے آکر کیوں نہ مر گئی۔ سعادت تم کچھ بھی کہو مگر سعید عورتوں سے جیسا سلوک کرتا ہے بہت ہی نامردانہ ہے۔ بے چاری کو بخار تھا۔ چلتی ریل سے گر پڑی تھی اور وہ بھی اس خر ذات کے پاس جلدی پہنچنے کے باعث۔ لیکن اس نے ان باتوں کا خیال ہی نہ کیا اور ایک بار پھر اس سے کہا۔ مہربانی کرکے یہاں سے چلی جاؤ۔ اس کے لہجے میں منٹو کسی جذبے کا اظہار نہیں تھا۔ بس ایسا تھا جیسے لنوٹائپ مشین سے اخبار کی ایک سطر ڈھل کر باہر نکل آئے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، چنانچہ میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی موجود نہیں تھی لیکن سعید پلنگ پر بیٹھا، رم کا گلاس سامنے رکھے ایک نظم لکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور اپنے کمرے میں چلا گیا دوسرے روز اسٹوڈیو سے معلوم ہوا کہ جانکی ایک اکسٹرا لڑکی کے گھر خطرناک حالت میں پڑی ہے۔ میں نے اسٹوڈیو کے مالک سے بات کی اور اسے ہسپتال بھجوا دیا۔ کل سے وہیں ہے، بتاؤ اب کیا کیا جائے۔ میں تو اسے دیکھنے جا نہیں سکتا اس لیے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔ تم جاؤ اور دیکھ کر آؤ کس حالت میں ہے۔ میں ہسپتال گیا تو اس نے سب سے پہلے عزیز اور سعید کے متعلق پوچھا۔ جو سلوک ان دونوں نے اس کے ساتھ کیا تھا، اس کے بعد اس کے پرخلوص استفسار نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی حالت نازک تھی۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ دونوں پھیپھڑوں پر ورم ہے اور جان کا خطرہ ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ جانکی اتنی بڑی تکلیف مردانہ وار برداشت کررہی تھی۔ ہسپتال سے لوٹا اور اسٹوڈیو میں نرائن کو تلاش کیا تو معلوم ہوا وہ صبح ہی سے غائب ہے۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تو اس نے مجھے تین چھوٹی چھوٹی شیشیاں دکھائیں جن کا منہ ربڑ سے بند تھا۔

’’جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔

’’معلوم نہیں۔ انجکشن سے لگتے ہیں۔ ‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’انجکشن ہی ہیں لیکن پنسلین کے۔ ‘‘

مجھے سخت حیرت ہوئی کیونکہ پنسلین اس وقت بہت ہی قلیل مقدار میں تیار ہوتی تھی۔ امریکہ اور انگلستان میں جتنی بنتی ہے، تھوڑی تھوڑی ملٹری ہسپتالوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ چنانچہ میں نے نرائن سے پوچھا۔

’’یہ تو بالکل نایاب چیز ہے، تمہیں کیسے مل گئی؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’بچپن میں گھر کی تجوری کھول کر روپے چرانا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ آج دائیں ہاتھ سے ملٹری ہوسپٹل کا ریفریجریٹر کھول کر میں نے یہ تین بلب چرائے ہیں۔ چلو جلدی کرو جانکی کو ہسپتال سے ہوٹل میں لے چلیں۔ ‘‘

ٹیکسی لے کر میں ہسپتال گیا اور جانکی کو اس ہوٹل میں لے گیا جس میں نرائن دو کمروں کا پہلے ہی بندوبست کر چکا تھا۔ جانکی نے مجھ سے کئی بار نحیف آواز میں پوچھا کہ میں اسے ہوٹل میں کیوں لایا ہوں۔ ہر بار میں نے یہی جواب دیا۔

’’تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘

اور جب اسے معلوم ہوا۔ یعنی جب نرائن سرنج ہاتھ میں لیے اسے ٹیکہ لگانے کے لیے اس کمرے میں آیا تو نفرت سے ایک طرف اس نے منہ پھیر لیا اور مجھ سے کہا۔

’’سعادت صاحب اس سے کہئے چلا جائے یہاں سے۔ ‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’جانِ من غصّہ تھوک دو۔ یہاں تمہاری جان کا سوال ہے۔ ‘‘

جانکی کو طیش آگیا۔ نقاہت کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’سعادت صاحب! میں جاتی ہوں یہاں سے یا آپ اس حرام خور کو نکالیے باہر۔ ‘‘

نرائن نے دھکا دے کر اسے الٹا دیا اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’یہ حرام زادہ تمہیں انجکشن لگا کر ہی رہے گا۔ خبردار جو تم نے مزاحمت کی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ جانکی کا بازو پکڑا، سرنج مجھے دے کر اس نے اسپرٹ میں روئی بھگوئی اور اس کا ڈنڑ صاف کیا۔ اس کے بعد روئی مجھے دے کر اس نے سرنج کی سوئی اس کے بازو کی مچھلی میں داخل کردی وہ چیخی، لیکن پنسلین اس کے جسم میں جا چکی تھی۔ جب نرائن نے جانکی کا بازو اپنی مضبوط گرفت سے علیحدہ کیا تو اس نے رونا شروع کردیا۔ نرائن نے اس کی بالکل پروا نہ کی اور اسپرٹ لگی روئی سے انجکشن والا حصّہ پونچھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پہلا انجکشن رات کے نو بجے دیا تھا۔ دوسرا تین گھنٹے بعد دینا تھا۔ نرائن نے مجھے بتایا اگر تین کے ساڑھے تین گھنٹے ہو گئے تو پنسلین کا اثر بالکل زائل ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ جاگتا رہا تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اس نے اسٹوو جلایا، سرنج ابالی اور اس میں دوا بھری۔ جانکی خرخراہٹ بھرے سانس لے رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ نرائن نے دوسرے بازو کو اسپرٹ سے صاف کیا اورسرنج کی سوئی اندرکھبو دی۔ جانکی کے ہونٹوں سے پتلی سی چیخ نکلی۔ نرائن نے دوا جسم کے اندر بھیج کر سوئی باہر نکالی اور اسپرٹ سے انجکشن والی جگہ صاف کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’اب تیسرا تین بجے۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں اس نے تیسرا چوتھا انجکشن کب دیا۔ لیکن جب بیدار ہوا تو اسٹوو جلنے کی آواز آرہی تھی اور نرائن ہوٹل کے بیرے سے برف کے لیے کہہ رہا تھا کیونکہ اسے پنسلین کو ٹھنڈا رکھنا تھا۔ نو بجے پانچواں انجکشن دینے کے لیے جب ہم دونوں جانکی کے کمرے میں گئے تو وہ آنکھیں کھولے لیٹی تھی۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے نرائن کی دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ نرائن مسکرایا۔

’’کیوں جان من! کیا حال ہے؟‘‘

جانکی خاموش رہی۔ نرائن اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔

’’یہ انجکشن جو میں تمہیں دے رہا ہوں عشق کے انجکشن نہیں۔ تمہارا نمونیہ دُور کرنے کے انجکشن ہیں جو میں نے ملٹری ہوسپٹل سے بڑی صفائی کے ساتھ چرائے ہیں۔ لو، اب ذرا الٹی لیٹ جاؤ اور کولہے پر سے شلوار کو ذرا نیچے کھسکا دو۔ کبھی لیا ہے یہاں انجکشن؟‘‘

یہ کہہ کر اس نے جانکی کے کولہے پر ایک جگہ گوشت کے اندر انگلی کھبوئی جانکی کی آنکھوں میں مرعوب سی نفرت پیدا ہُوئی۔ جب اس نے کروٹ بدلی تو نرائن نے کہا۔

’’شاباش!‘‘

پیشتر اس کے کہ جانکی کوئی مزاحمت کرے نرائن نے ایک ہاتھ سے اس کی شلوار نیچے کھسکائی اور مجھ سے کہا۔

’’اسپرٹ لگاؤ!‘‘

جانکی نے ٹانگیں چلانا شروع کیں تو نرائن نے کہا۔

’’جانکی! ٹانگیں وانگیں مت چلاؤ۔ میں انجکشن لگاکے رہوں گا۔ ‘‘

غرض کہ پانچواں انجکشن دے دیا گیا۔ پندرہ اور باقی تھے جو نرائن کو ہر تین گھنٹے کے بعد دینے تھے اور یہ پینتالیس گھنٹے کا کام تھا۔ پانچ انجکشن سے گو جانکی کو بظاہر کوئی نمایاں فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ لیکن نرائن کو پنسلین کے اعجاز کا یقین تھا اور اسے پوری پوری امید تھی کہ وہ بچ جائے گی۔ ہم دونوں بہت دیر تک اس نئی دوا کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ گیارہ بجے کے قریب نرائن کا نوکر میرے نام ایک تار لے کر آیا۔ پونہ سے تھا۔ ایک فلم کمپنی نے مجھے فوراً بلایا تھا اس لیے مجھے جانا پڑا۔ دس پندرہ دنوں کے بعد کمپنی ہی کے کام سے میں بمبئی آیا۔ کام ختم کرکے جب میں اندھیری پہنچا تو سعید سے معلوم ہوا کہ نرائن ابھی تک ہوٹل ہی میں ہے۔ ہوٹل بہت دور، شہر میں تھا اس لیے رات میں وہیں اندھیری میں رہا۔ صبح آٹھ بجے وہاں پہنچا تو نرائن کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ اندر داخل ہوا تو کمرہ خالی پایا۔ دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک دم آنکھوں کے سامنے کچھ ہوا۔ جانکی مجھے دیکھتے ہی لحاف کے اندر گھس گئی۔ اور نرائن جو اس کے ساتھ لیٹا تھا، مجھے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔

’’آؤ منٹو آؤ۔ میں ہمیشہ دروازہ بند کرنا بھول جاتا ہوں۔ آؤ یار۔ بیٹھو اس کرسی پر، لیکن یہ جانکی کی شلوار دے دینا!‘‘

سعادت حسن منٹو

جان محمد

میرے دوست جان محمد نے، جب میں بیمار تھا‘ میری بڑی خدمت کی۔ میں تین مہینے ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں وہ باقاعدہ شام کو آتا رہا‘ بعض اوقات جب میرے نوکر علیل ہوتے تو وہ رات کو بھی وہیں ٹھہرتا‘ تاکہ میری خبرگیری میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ جان محمد بہت مخلص دوست ہے‘ میں قریب قریب بیس روز تک بیہوش رہا تھا‘ اس دوران میں وہ آتا۔ لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا‘ جب مجھے ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت پریشان تھا‘ روتا بھی تھا‘ اس لیے کہ میری حالت بہت نازک تھی۔ جب میں اس قابل ہو گیا کہ بات چیت کر سکوں تو اس نے مجھ سے پوچھا

’’آپ کو تھکاوٹ تو محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘

میرے اعضا بالکل مفلوج ہو چکے تھے‘ معلوم نہیں کتنی دیر ہو گئی تھی مجھے بستر پر پڑے ہوئے۔ میں نے اس سے کہا

’’جان محمد۔ میرا انگ انگ دُکھتا ہے‘‘

اس نے فوراً میری بیوی سے کہا

’’کل زیتون کا تیل منگوا دیجیے۔ میں صبح آ کے مالش کر دیا کروں گا‘‘

زیتون کا تیل آ گیا اور جان محمد بھی۔ اُس نے میرے سارے بدن پر مالش کی‘ قریب قریب آدھ گھنٹا اس کا اس مشقت میں صرف ہوا‘ مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی۔ اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ ہر روز دفتر جانے سے پہلے ہسپتال میں آتا اور میرے بدن پر مالش کرتا۔ مجھے راحت ضرور ہوتی تھی لیکن وہ اس زور سے اپنے ہاتھ چلاتا کہ میری ہڈیاں تک دُکھنے لگتیں۔ چنانچہ میں اس سے اکثر بڑے درشت لہجے میں کہتا:

’’جان محمد! تم تو میر جان لے لو گے‘‘

یہ سن کر وہ مسکرا دیتا:

’’منٹو صاحب! آپ تو بڑے سخت جان ہیں۔ اس مٹھی چاپی سے گھبرا گئے؟‘‘

میں خاموش ہو جاتا‘ اس لیے اس کی مٹھی چاپی میں کوئی جارحانہ چیز نہیں تھی‘ بلکہ سر تا پا خلوص تھا۔ تین مہینے ہسپتال میں کاٹنے کے بعد گھر آ گیا۔ جان محمد بدستور ہر روز آتا رہا۔ میری اس کی دوستی اتفاقاً ہو گئی تھی۔ ایک روز میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک ناٹے قد کے چھوٹی چھوٹی مونچھوں والے جواں سال مرد نے دروازے پر دستک دی۔ میں جب اس کو اندر کمرے میں داخل کیا تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ میرا مدّاح ہے۔

’’منٹو صاحب۔ میں نے آپ کو صر ف اس لیے تکلیف دی ہے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے قریب قریب آپ کی سب تصانیف پڑھی ہیں‘‘

میں نے اس کا مناسب و موزوں الفاظ میں رسمی طور پر شکریہ ادا کیا تو اس کو بڑی حیرت ہوئی‘

’’منٹو صاحب۔ آپ تو رسوم و قیود کے قائل ہی نہیں‘ پھر یہ تکلّف کیوں؟‘‘

میں نے کہا

’’نوواردوں سے بعض اوقات یہ تکلف برتنا ہی پڑتا ہے‘‘

جان محمد کی مہین مونچھوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

’’مجھ سے آپ یہ تکلّف نہ برتیے‘‘

چنانچہ یہ تکّلف فوراً دُور ہو گیا۔ اس کے بعد جان محمد نے ہر روز میرے گھر آنا شروع کر دیا۔ شام کو وہ جب دفتر سے فارغ ہوتا تو سیدھا میرے یہاں چلا آتا۔ میری عادت ہے کہ میں کسی دوست کا حسب نسب دریافت نہیں کرتا‘ اس لیے کہ میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔ میں تو کسی سے ملوں تو اس سے اس کا نام بھی نہیں پوچھتا۔ یہ تمہید کافی لمبی ہو گئی‘ حالانکہ میں اختصار پسند ہوں۔ جان محمد دیر تک میرے یہاں آتا رہا‘ اس کی معلومات خاصی اچھی تھیں۔ ادب سے بھی اسے خاصا شغف ہے مگر میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ زندگی سے کسی قدر بیزار ہے۔ مجھے زندگی سے پیار ہے لیکن اس کو اس سے کوئی رغبت نہیں تھی‘ ہم دونوں جب باتیں کرتے تو وہ کہتا:

’’منٹو صاحب! آپ میرے لباس کو دیکھتے ہیں‘ یہ شلوار اور قمیص جو ملیشیا کی ہے‘ آپ یقیناً نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں گے۔ مگر مجھے اچھے لباس کی کوئی خواہش نہیں۔ مجھے کسی خوبصورت چیز کی خواہش نہیں‘‘

میں نے اس سے پوچھا:

’’کیوں؟‘‘

’’بس۔ میرے اندر یہ حسّ ہی نہیں رہی۔ میں ننگے فرش پر سوتا ہوں۔ نہایت واہیات ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہوں۔ یہ دیکھیے۔ میرے ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں کتنا میل بھرا ہوا ہے۔ میرے پاؤں ملاحظہ فرمائیے۔ ایسا نہیں لگتا کہ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ مگر مجھے ان غلاظتوں کی کچھ پروا نہیں۔ ‘‘

میں نے اُس کی غلاظتوں کے متعلق اُس سے کچھ نہ کہا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت میلا کچیلا رہتا تھا۔ اُس کو صفائی کے متعلق کبھی خیال ہی نہیں آتا تھا۔ ایک دن حسبِ معمول جب وہ شام کو میرے پاس آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اُس کی طبیعت مضمحل ہے۔ میں نے اُس سے پُوچھاکیوں جان محمد!کیا بات ہے آج۔ تھکے تھکے سے معلوم ہوتے ہو‘‘

اُس نے اپنی جیب سے ’بگلے‘ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگریٹ سُلگا کر جواب دیا

’’تھکاوٹ ہو ہی جاتی ہے۔ کوئی خاص بات نہیں‘‘

اس کے بعد ہم دیر تک غالبؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے رہے۔ اُس کو یہ فارسی کا شعر بہت پسند آیا۔ ؂ مابنوویم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گردوفِن ما ہم غالبؔ کی شاعری پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے ایک ہمسائے کی لڑکی میری بیوی سے ملنے چلی آئی۔ چونکہ وہ پردہ نہیں کرتی تھی اس لیے وہ ہمارے درمیان بیٹھ گئی۔ جان محمد نے آنکھیں جھکا لیں اور خاموش ہو گیا۔ اس لڑکی کا نام شمیم تھا۔ دیر تک وہ بیٹھی میری بیوی اور مجھ سے باتیں کرتی رہی، لیکن اس دوران میں جان محمد اُسی طرح آنکھیں جھکائے خاموش رہا۔ کچھ اس طرح کہ اُسے کوئی پہچان نہ لے۔ اس کے بعد دوسرے دن رات کے دس بجے میرے دروازے پر دستک ہوئی‘ نوکر اُوپر سورہا تھا‘ میں دروازہ کھولا تو دیکھا کہ جان محمد ہے۔ نہایت خستہ حالت میں۔ میں بہت پریشان ہوا اور اُس سے پوچھا:

’’کیوں جان محمد۔ خیریت تو ہے‘‘

اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہوئی، جس سے میں بالکل ناآشنا تھا، خیریت ہے۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لیے میں آپ کے پاس چلا آیا‘‘

مجھے سخت نیند آ رہی تھی‘ مگر جان محمد ایسے مخلص دوست کے لیے میں اِسے قربان کرنے کے لیے تیار تھا‘ مگر جب اُس نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مجھے وحشت ہونے لگی۔ اس کا دماغ غیرمتوازن تھا‘ کبھی وہ آسمان کی بات کرتا‘ کبھی زمین کی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اچانک اسے ہو کیا گیا۔ ایک دن پہلے جب وہ مجھ سے ملا تو اچھا بھلا تھا۔ ایک دم اس میں اتنی تبدیلی کیسے پیدا ہو گئی؟ ساری رات اُس نے مجھے جگائے رکھا۔ آخر صبح میں نے اُس کو غسل کرنے کے لیے کہا۔ اپنے کپڑے اُسے پہننے کے لیے دیے کہ اُس کے میلے چکٹ تھے۔ پھر اُس کو لاریوں کے اڈے پر لے گیا کہ وہ سیالکوٹ اپنے والدین کے پاس چلا جائے۔ غلطی میں نے یہ کی کہ اُس کو لاری میں نہ بٹھایا۔ کرایہ وغیرہ میں نے اُسے دے دیا تھا۔ میں مطمئن تھا کہ وہ اپنے گھر چلاجائے گا، مگر اُسی دن رات کے تین بجے دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی۔ میں باہر صحن میں سو رہا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھا، سوچا کہ شاید کوئی تار آیا ہو۔ دروازہ کھولا تو سامنے جان محمد۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ سیالکوٹ کیوں نہیں گیا۔ اُس نے اِس سوال کاکوئی معقول جواب نہ دیا۔ اُس کا دماغ پہلے سے زیادہ غیر متوازن تھا۔ فرش پر لیٹ کر اپنی کنپٹیوں پر زور زور سے گھونسے مارنے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیا کروں۔ وہ یقیناً جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے سوچا، پیار محبت سے کام لینا چاہیے، چنانچہ بہت دیر تک میں اُس کا سر سہلاتا رہا۔ اس کے بعد اُس سے پوچھا،

’’جان محمد تمھیں کیا تکلیف ہے؟‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیااور فرش پر میری بچیوں کے جو ماربل پڑے ہوئے تھے‘ اُن سے کھیلنے لگا۔ اس کے بعد اُس نے ہر ماربل کو سجدہ کیا اور رونے لگا۔ میں نے پھر اُس سے بڑی محبت سے پوچھا،

’’جان محمد! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے‘‘

اس کی آنکھیں سرخ انگارہ تھیں جیسے کئی دنوں سے شراب کے نشے میں دُھت ہے۔ اس نے مجھے ان آنکھوں سے دیکھا اور پُوچھا،

’’تم اتنے بڑے نفسیات نگار بنتے ہو۔ کیا یہ نہیں جان سکتے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘

’’میں اپنی کم مائیگی تسلیم کرتا ہوں۔ اب تم خود بتادو‘‘

جان محمد مسکرایا

’’مجھے شمیم ہو گیاہے‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’اب بھی مطلب پوچھتے ہیںآپ‘‘

میں نے اُس سے کہا

’’بھئی شمیم کوئی بیماری تو نہیں‘‘

جان محمد ہنسا

’’بہت بڑی بیماری ہے منٹو صاحب۔ یہ کئی لوگوں کو ہوچکی ہے۔ اُن میں سے میں بھی ایک ہوں۔ پہلے ڈلہوزی میں ہوتی تھی۔ اب یہاں لاہور چلی آئی ہے‘‘

میں سمجھ گیا۔ جان محمد کئی برس ڈلہوزی میں رہ چکا تھا اور شمیم بھی‘ لیکن میں نے اُس سے کہا۔

’’میں ابھی تک نہیں سمجھا۔ تم اب سو جاؤ۔ چلو آؤ۔ اندر صوفے پرلیٹ جاؤ۔ خبردار جو تم نے شور مچایا‘‘

وہ اندر چلاآیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔ میں صبح جلدی اُٹھنے کا عادی ہوں۔ ساڑھے چار بجے کے قریب اُٹھا تو دیکھا کہ جان محمد غائب ہے۔ سات بجے پتہ چلا کہ شمیم بھی اپنے فلیٹ میں نہیں ہے۔ کہیں غائب ہو گئی۔ ۱۳ مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

تین میں، نہ تیرہ میں

’’میں تین میں ہوں نہ تیرہ میں، نہ ستلی کی گرہ میں‘‘

’’اب تم نے اُردو کے محاورے بھی سیکھ لیے۔ ‘‘

’’آپ میرا مذاق کیوں اُڑاتے ہیں۔ اردو میری مادری زبان ہے‘‘

’’پدری کیا تھی؟ تمہارے والد بزرگوار تو ٹھیٹھ پنجابی تھے۔ اللہ اُنھیں جنت نصیب کرے بڑے مرنجاں مرنج بزرگ تھے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اتنی دیر لکھنؤمیں رہے، وہاں پچیس برس اُردو بولتے رہے لیکن مجھ سے ہمیشہ انھوں نے پنجابی ہی میں گفتگو کی۔ کہا کرتے تھے اُردو بولتے بولتے میرے جبڑے تھک گئے ہیں اب ان میں کوئی سکت باقی نہیں رہی۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘

’’میں تو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں۔ کوئی بات بھی تم سے کہوں تم یہی سمجھو گی کہ جھوٹ ہے حالانکہ جھوٹ بولنا عورت کی فطرت ہے۔ ‘‘

’’آپ عورت ذات پر ایسے رکیک حملے نہ کیا کریں۔ مجھے بڑی ہی کوفت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’بہت بہتر آئندہ محتاط رہنے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘

’’صرف کوشش کریں گے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ اپنی زبان ایسے معاملوں میں قطعی طور پر بند رکھیں گے۔ ‘‘

’’یہ وعدہ میں نہیں کرسکتا۔ بندہ بشر ہے۔ ہوسکتا ہے سہواً میرے منہ سے کچھ نکل جائے جسے تم حملہ قرار دے دو۔ ‘‘

’’میں یہ سوچتی ہوں آپ۔ آپ کس قسم کے شوہر ہیں بس ہر بات کو مذاق میں اُڑا دیتے ہیں۔ پرسوں میں نے آپ سے کہا کہ منجھلی کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے تو آپ نے مسکرا کر کہا فکر نہ کرو ٹھیک ہو جائے گی۔ لڑکا ہوتا تو فکر و تردّد کی بات تھی، لڑکیاں نہیں مرا کرتیں۔ ‘‘

’’میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ سب سے چھوٹی اُوپر کی منزل سے نیچے گری اور بچ گئی۔ دو مرتبہ اسے ہیضہ ہوا، چیچک نکلی، نمونیا ہوا مگر وہ زندہ ہے اور اپنی بڑی بہنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تندرست ہے۔ ‘‘

’’آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی‘‘

’’یہ میری منطق نہیں میری جان۔ قدرت کو یہی منظور ہے کہ مرد دُنیا میں کم ہو جائیں اور عورتیں زیادہ۔ تمھارا پہلا بچہ جو لڑکا تھا، اسے معمولی سا زُکام ہوا اور وہ دوسرے دن اللہ کو پیارا ہو گیا۔ تمھاری بڑی لڑکی کو تو تین بار ٹائیفائیڈ ہوا لیکن وہ زندہ ہے۔ میرا خیال ہے وہ وقت آنے والا ہے جب اس دنیا میں کوئی مرد نہیں رہے گا ٗ صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں گی۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ مردوں کے بغیر تم عورتوں کا گزارا کیسے ہو گا۔ ‘‘

’’یعنی جیسے آپ لوگوں کے بغیر ہمارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم بہت خوش رہیں گی۔ مردوں کا خاتمہ ہو گیا تو یہ سمجھیے کہ ہمارے تمام دُکھ درد کا خاتمہ ہو گیا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ‘‘

’’تم آج محاوروں کو بہت استعمال کر رہی ہو۔ ‘‘

’’آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘

’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض ہو بھی کیا سکتا ہے۔ محاورے میری املاک نہیں۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ تم آج محاورے زیادہ استعمال کررہی ہو۔ ‘‘

’’دو ہی تو کیے ہیں، یہ زیادہ ہیں کیا؟‘‘

’’زیادہ تو نہیں۔ لیکن اندیشہ ہے کہ تم دس پندرہ اور مجھ پر ضرور لڑھکادو گی۔ ‘‘

’’تھوتھا چنا باجے گھنا۔ آج اتنا کیوں گرج رہے ہو۔ آپ کو معلوم نہیں کہ جو گرجتے ہیں برستے نہیں۔ ‘‘

’’دو محاورے اور آ گئے۔ خدا کے لیے ان کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آج ناراضی کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’ناراضی کا باعث آپ کا وجود ہے۔ مجھے آپ کی ہر حرکت بُری معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں اگر تم سے پیار محبت کی باتیں کرتا ہوں تو وہ بھی تمھیں بُری لگتی ہیں۔ ‘‘

’’مجھے آپ کی پیار محبت کی باتیں نہیں چاہئیں۔ ‘‘

’’تو اور کیا چاہیے‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ میں کیا جانوں۔ شوہر کو اپنی بیوی کو سمجھنا چاہیے۔ وہ کیا چاہتی ہے، کیا نہیں چاہتی۔ اس کو اس کا علم پوری طرح ہونا چاہیے۔ آپ تو بالکل غافل ہیں۔ ‘‘

’’میں کوئی قیافہ گیر، رمزشناس اور نفسیات کا ماہر نہیں کہ تمھیں پوری طرح سمجھ سکوں۔ اور تمھارے دماغ کے تلوّن کی ہر سلوٹ کے معنی نکال سکوں۔ میں اس معاملے میں گدھا ہوں۔ ‘‘

’’آپ اونٹ ہیں اونٹ‘‘

’’کس لحاظ سے؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ‘‘

’’اچھا بھلا ہوں۔ میری کل سیدھی ہے۔ ابھی تم نے مجھ سے پرسوں کہا تھا کہ آپ چالیس برس کے ہونے کے باوجود ماشاء اللہ جوان دکھائی دیتے ہیں۔ تم نے میرے بدن کی بھی بہت تعریف کی تھی۔ ‘‘

’’وہ تو میں نے مذاق کیا تھا۔ ورنہ آپ تو ایسا جھڑوس ہو چکے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو ایسی بدزبانی مجھے پسند نہیں۔ تم بعض اوقات ایسی بکواس شروع کر دیتی ہو، جو کوئی شریف عورت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’تو گویا میں شریف نہیں۔ فاحشہ ہوں۔ بازاری عورت ہوں۔ میں نے آپ کو کیا گالی دی جس پر آپ کو اتنا طیش آ گیا کہ آپ نے مجھ کو بدزبان کہہ دیا۔ ‘‘

’’بھئی، میں اب جھڑوس ہو چکا ہوں۔ مجھ سے بات نہ کرو۔ ‘‘

’’میں آپ سے بات نہ کروں گی تو اور کس سے کروں گی۔ ‘‘

’’میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں۔ تم اپنے بھنگی سے گفتگو کر سکتی ہو۔ اس سے یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ میں جھڑوس ہو گیا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کو شرم نہیں آتی۔ آپ نے یہ کیسی بات کہی ہے؟‘‘

’’بھنگی اور مجھ میں کیا فرق ہے! جس طرح تم اس غریب سے پیش آتی ہو، اسی طرح کا سلوک مجھ سے کرتی ہو۔ ‘‘

’’بڑے بیچارے غریب بنے پھرتے ہیں اور اب مجھ سے کہتے ہیں کہ میں بھنگی کے ساتھ بات کیا کروں۔ غیرت کا مادہ تو آپ میں رہا ہی نہیں۔ ‘‘

’’میں نر ہوں۔ مادہ تم ہو۔ ‘‘

’’اس سے کیا ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد عورتوں کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں۔ ہم میں کیا برائی ہے۔ کیا عیب ہے۔ یہی نا کہ ہمارے والدین نے غلطی سے آپ کے ساتھ میری شادی کر دی۔ ‘‘

’’شادی تو آخر کسی جگہ ہونی ہی تھی۔ تم کیا کرتیں اگر نہ ہوتی؟‘‘

’’میں بہت خوش رہتی۔ شادی میں آخر پڑا ہی کیا ہے؟‘‘

’’کیا پڑا ہے۔ خاک!۔ میں تو کنواری رہتی تو اچھا تھا۔ اس بک بک میں تو نہ پڑتی۔ ‘‘

’’کس بک بک میں؟‘‘

’’یہی جو آئے دن ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ روز روز کی چخ صرف تمہاری وجہ سے ہوتی ہے ورنہ میں نے ان پندرہ برسوں میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہاری خدمت کروں۔ ‘‘

’’خدمت؟‘‘

’’خدمت نہ کہو، میں اپنا فرض ادا کرتا رہا ہوں۔ خاوند کو یہی کرنا چاہیے۔ تمھیں مجھ سے کس بات کا گلہ ہے؟‘‘

’’ہزار گلے ہیں، ایک ہو تو بتاؤں‘‘

’’ان ہزار گلوں میں سے ایک گلہ تو مجھے بتا دو تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں۔ ‘‘

’’آپ کی اصلاح اب ہو چکی۔ آپ تو ازل سے بگڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’یہ اطلاع تمھیں کہاں سے ملی تھی؟۔ میں تو اس سے بالکل بے خبر ہوں۔ ‘‘

’’آپ کی بے خبری کا تو یہ عالم ہے کہ آپ کو خود اپنی خبر نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’غالب کا ایک شعر ہے: ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی خود اپنی خبر نہیں آتی!‘‘

’’غالب جائے جہنم میں۔ اس وقت تو آپ مجھ پر غالب ہیں۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ میں تو جھڑوس ہو چکا ہوں۔ ازل سے بگڑا ہوا ہوں۔ ‘‘

’’آپ میری ہر بات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ‘‘

’’میں یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں مجھ میں اتنی طاقت ہے نہ مجال۔ لیکن میں کیا پوچھ سکتا ہوں کہ آج آپ کی ناراضی کا باعث کیا ہے؟‘‘

’’میری ناراضگی کا باعث کیا ہو سکتا ہے، یہی کہ آپ۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ خود سوچیے۔ بڑے سمجھدار ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں؟‘‘

’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے کانوں کے لیے ’ٹوپس‘ لے کر آؤں گا۔ مگر میں جس دوکان میں گیا وہاں مجھے دل پسند ٹوپس نہ ملے۔ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ لٹھے کا ایک تھان لے کر آؤ۔ میں نے شہر بھر میں ہر جگہ کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تمہارے ریشمی کپڑے جو لانڈری میں دُھلنے کے لیے گئے تھے۔ میں ان کو وصول کرنے گیا۔ مگر لانڈری والے نے کہا کہ اُس کے دھوبی بیمار ہیں، اس لیے دو دن انتظار کیجیے۔ تمہاری گھڑی جو خراب ہو گئی تھی۔ اس کے متعلق بھی میں نے پوچھا۔ گھڑی ساز نے کہا کہ اس کا ایک پرزہ بنانا پڑے گا جو وہ بنا رہا ہے۔ ‘‘

’’آپ بہانے بنانا خوب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’خدا کی قسم سچ کہہ رہا ہوں۔ تمہاری قمیضیں کل درزی سے آ جائیں گی، اس کو میں نے بہت ڈانٹا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کر دی۔ اس نے کہا، حضور کل لے جائیے گا۔ ‘‘

’’قمیصیں جائیں بھاڑ میں۔ ‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’آپ کو توکچھ ہوش ہی نہیں‘‘

’’میں کیا بے ہوش رہتا ہوں۔ تمھیں جو کہنا ہے کہہ ڈالو۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’ضرورت اس لیے تھی کہ آپ پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اگر میں نے ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کیا ہوتا۔ ‘‘

’’تو ازراہِ کرم اب تم ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کردو تاکہ میری خلاصی ہو۔ ‘‘

’’میری داڑھ اتنی تکلیف دے رہی ہے۔ کئی مرتبہ سے آپ سے کہہچکی ہوں۔ کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلیے مجھے، مگر۔ ‘‘

’’ابھی چلو!۔ داڑھ کیا، تم چاہو تو میں سب دانت نکلوا دوں گا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

تین موٹی عورتیں

ایک کا نام مسز رچمین اور دوسری کا نام مسز ستلف تھا۔ ایک بیوہ تھی تو دوسری دو شوہروں کو طلاق دے چکی تھی۔ تیسری کا نام مس ہیکن تھا۔ وہ ابھی ناکتخدا تھی۔ ان تینوں کی عُمر چالیس کے لگ بھگ تھی۔ اور زندگی کے دن مزے سے کٹ رہے تھے۔ مسز ستلف کے خدوخال موٹاپے کی وجہ سے بھدے پڑ گئے تھے۔ اس کی باہیں کندھے اور کولھے بھاری معلوم ہوتے تھے۔ لیکن اس ادھیڑ عمر میں بھی وہ بن سنور کر رہتی تھی۔ وہ نیلا لباس صرف اس لیے پہنتی تھی کہ اُس کی آنکھوں کی چمک نمایاں ہو اور بناوٹی طریقوں سے اس نے اپنے بالوں کی خوبصورتی بھی قائم رکھی تھیں۔ اسے مسز رچمین اور مس ہیکن اس لیے پسند تھیں کہ وہ دونوں اس کی نسبت موٹی تھیں۔ اور چونکہ وہ عمر میں بھی ان سے قدرے چھوٹی تھی اس لیے وہ اسے اپنی بچی کی طرح خیال کرتیں۔ یہ کوئی ناپسندیدہ بات نہ تھی۔ وہ دونوں خوش طبیعت تھیں۔ اکثر تفریحاً اس کے ہونے والے منگیتر کا ذکر چھیڑ دیتی۔ وہ خود تو اس عشق و محبت کی اُلجھن سے کوسوں دُور تھیں۔ لیکن اس معاملے میں انھیں مسز ستلف سے پور ی ہمدردی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ وہ دنوں ہی میں کوئی نیا گل کھلانے والی ہے۔ وہ اس کے لیے کسی اچھے بر کی تلاش میں تھیں۔ کوئی پنشن یافتہ ایڈمیرل جو گاف بھی کھیلناجانتا ہو یا کوئی ایسا رنڈوا جو گھر بار کے جنجال سے آزاد ہو۔ بہرحال یہ ضروری تھا کہ اس کی آمدنی معقول ہو۔ وہ بڑے غور سے اُن کی باتیں سنتی اور دل ہی دل میں ہنس دیتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بار پھر شادی کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن شوہر کے انتخاب میں اُس کا مزاج مختلف تھا۔ اُسے کسی سیاہ رنگ چھریرے بدن کے اطالوی کی چاہت تھی، جس کی آنکھیں حد درجہ چمکیلی ہوں یا کوئی ہسپانوی جو اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اور اُس کی عمر کسی صورت میں تیس برس سے ایک دن بھی زیادہ نہ ہو۔ یہ سچ ہے کہ تینوں ایک دوسری پر جان دیتی تھیں۔ اور اُن کی آپس میں محبت کی وجہ صرف موٹاپا تھا۔ اور متواتر اکٹھے برج کھیلنے سے دوستی اور گہری ہو گئی تھی۔ اُن کی پہلی ملاقات کر بساد میں ہوئی، جہاں یہ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری تھیں اور ایک ڈاکٹر کے زیرِعلاج تھیں مسز رچمین خوش شکل بھی تھی۔ اُس کی نشیلی آنکھیں، کھردرے گال اور رنگین ہونٹ بہت ہی دلفریب اور دلکشی تھے۔ اُسے ہر وقت کھانے پینے کی فکر رہتی۔ مکھن، بالائی، آلو اورچربی ملی پڈنگ اُس کا من بھاتا کھانا تھا وہ سال میں گیارہ مہینے توجی بھر کر کافی کھاتی اور پھر علاج کے ذریعے دُبلی ہونے کے لیے ایک مہینہ کر بساد چلی جاتی۔ وہ دن بہ دن پھولتی جارہی تھی۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ اگر اُسے من مرضی کی خوراک کھانے کو نہ ملے تو زندگی بے کار ہے۔ مگر اُس کے ڈاکٹروں کو اس بات سے اتفاق نہ تھا۔ مسز رچمین کا خیال تھا کہ ڈاکٹر کچھ ایسا قابل نہیں ورنہ کیا عجیب تھا کہ وہ ذرا دُبلی ہو جاتی۔ اُس نے مس ہیکن سے اس بات کا ذکر کیا۔ وہ بس ایک قہقہہ لگا کر خاموشی ہو گئی۔ اس کی آواز بہت گہری تھی۔ اور چپٹا سا چہرہ! اس کی دونوں آنکھوں میں بلی کی آنکھوں ایسی چمک تھی۔ اُسے مردانہ پوشاک زیادہ پسند تھی۔ اور صرف اُس کی خوش مزاجی کی وجہ سے تینوں سہلیاں ایک دوسری سے بہت قریب ہو گئی تھیں۔ وہ تینوں ایک ہی وقت پر کھانا کھاتیں، اکٹھی سیر کو جاتیں اور ٹینس کھیلنے کے وقت بھی ایک دوسری سے کبھی جدا نہ ہوتیں۔ اُس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا وزن کرتیں تو اپنے موٹاپے میں کوئی فرق نہ پاکر اُداس سی ہوجاتیں۔ مس ہیکن کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری کہ بیئرس رچمین طبی علاج سے اپنا وزن بیس پاؤنڈ گھٹا کر بد پرہیزی کی وجہ سے دنوں میں پھر اُسی طرح موٹی ہوجائے اور اُس کے کہنے پر تینوں کربساد چھوڑ کر چند ہفتوں کے لیے کہیں اور چلی جائیں۔ بیئرس کمزور طبیعت تھی اور اُسے ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو اُسے بداعتدالی سے بچا سکے۔ اُسے یقین تھا کہ اب اُسے ورزش کرنے کا خوب موقع ملے گا۔ نہ صرف یہی بلکہ وہاں گھر میں اپنی باورچن رکھ لینے سے اُسے چربی ملی چیزیں کھانے سے نجات مل جائے گی۔ اور کوئی وجہ نہ تھی کہ ان سب کا وزن دنوں میں کم ہو جائے۔ مسزستلف اپنے گھر میں انوکھے ارادے باندھ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہاں دنوں میں اُس کا رنگ نکھر جائے گا۔ اور اپنے لیے کوئی چھیلا بانکا اطالوی فرانسیسی یا انگریز تلاش کرے گی۔ وہ تینوں ہفتہ میں صرف دو دن اُبلے ہوئے انڈے اور ٹماٹر کھاتیں اور ہر صبح اُٹھ کر اپنا وزن کرتیں۔ مسز ستلف کا وزن ابھی صرف ۱۵۴ پونڈ رہ گیا اور وہ تو گویا اپنے آپ کو ایک جواں سال لڑکی سمجھنے لگی۔ مسز ہیکن اور مسز رچمین کے موٹاپے میں بھی کافی فرق پڑ گیا۔ وہ تینوں مطمئن نظر آتی تھیں۔ لیکن برج کھیلنے کے لیے ایک چوتھے کھلاڑی کی ضرورت نے اُنھیں ایک حد تک پریشان سا کردیا۔ وہ صبح سویرے ڈھیلے ڈھالے پاجامے پہنے چبوترے پر بیٹھی دودھ میں کھانڈ ملائے بغیر چائے پی رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر برٹ کے تیار کیے ہوئے بسکٹ بھی کھا رہی تھیں، جن کے متعلق یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ وہ چربی سے بالکل پاک ہیں۔ ناشتے کے وقت مس ہیکن نے اتفاقاً لینا کا ذکر کیا۔

’’وہ کون ہے۔ ؟ مسز ستلف نے پوچھا۔

’’وہ میرے اس چچیرے بھائی کی بیوی ہے، جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں اعصاب شکنی کا شکار رہی۔ کیوں نہ اُسے دو ہفتے کے لیے یہاں بُلا لیں؟‘‘

’’کیاوہ برج کھیلنا جانتی ہے۔ ؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ اس کے یہاں آنے سے کسی دوسرے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔ ‘‘

بات طے ہو گئی۔ لینا کو بلانے کے لیے تار بھیجا گیا اور وہ تیسرے دن آ پہنچی۔ مس ہیکن اُسے سٹیشن پر لینے گئی۔ شوہر کی موت کی وجہ سے لینا کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے۔ مس ہیکن نے اسے دو سال سے نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے بڑی گرم جوشی سے اُس کا منہ چوم لیا۔

’’تم بہت دُبلی ہو۔ ‘‘

اس نے کہا۔ لینا مسکرا دی۔

’’گزشتہ دنوں میری طبیعت علیل رہی۔ اور اب تو وزن بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ ‘ مس ہیکن نے ایک سرد آہ بھری، لیکن یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ اس کی وجہ رشک تھی یا لینا سے ہمدردی۔ وہ اُسے ایک پُر فضا ہوٹل میں لے گئی۔ جہاں دونوں سہیلیوں سے اُس کا تعارف کرایا گیا۔ اُس کی بیکسی دیکھ کر مسز رچمین کا دل بھر آیا۔ اور اُس کے چہرے کی زردی نے مسز ستلف کو بھی بہت متاثر کیا۔ ہوٹل میں تھوڑی دیر تفریح کے بعد وہ لنچ کے لیے اپنی قیام گاہ کو چل دیں۔

’’مجھے کچھ روٹی چاہیے۔ ‘‘

لینا کے یہ الفاظ سہیلیوں کے کانوں پر بہت گراں گزرے۔ وہ تو دس سال ہوئے اُسے چھوڑ چکی تھی حالانکہ مسز رچمین ایسی لالچی عورت بھی روٹی سے پرہیز کرتی تھی۔ مسز ہیکن نے ازراہ مہمان نوازی خانساماں سے کہاکہ فوراً حکم کی تعمیل کرے۔

’’تھوڑا مکھن بھی۔ ‘‘

کسی غیر مرئی قوت نے ایک لمحے کے لیے ان سب کے ہونٹ سی دیے۔

’’غالباً گھر میں مکھن موجود نہیں۔ ابھی خانساماں سے پوچھتی ہوں۔ ‘‘

مس ہیکن نے کسی قدر توقف سے جواب دیا۔

’’مکھن روٹی بہت پسند ہے۔ ‘‘

لینا نے مسز رچمین سے مخاطب ہوکر کہا۔ اور خانساماں سے روٹی لے کر بڑے اطمینان سے اس پر مکھن لگایا۔ مس ہیکن بولی۔

’’ہم یہاں بہت سادہ غذا کی عادی ہیں۔ ‘‘

لینا نے مچھلی کے ٹکڑے پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔

’’مجھے جب تک مکھن، روٹی آلو اور بالائی ملتی رہے بہت مطمئن رہتی ہوں۔

’’افسوس کہ یہاں کہیں بالائی نہیں ملتی۔ ‘‘

مسز رچمین نے کہا۔

’’اوہ۔ ‘‘

لینا بولی۔ لنچ پر بغیر چربی کے کباب چنے گئے۔ اس کے علاوہ پالک تھی اور دم بخت ناشپاتیاں بھی۔ ناشپاتی کھاتے ہی لینا نے متجسس نظروں سے خانساماں کی طرف دیکھا اور اشارہ پاتے ہی خانساماں کھانڈ لے کر حاضر ہو گیا۔ اُس نے اپنی قہوہ کی پیالی میں تین چمچے کھانڈ ڈال دی۔

’’تمہیں کھانڈ بہت پسند ہے۔ ‘‘

مسز ستلف نے کہا۔

’’ہمیں تو سکرین زیادہ مرغوب ہے۔ ‘‘

مس ہیکن نے ایک ٹکیہ اپنی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’یہ تو ایک بے لذت شے ہے۔ ‘‘

لینا نے جواب دیا۔ مسز رچمین منہ بنا کر اور للچائی ہوئی نظروں سے کھانڈ کی طرف دیکھنے لگی۔ مس ہیکن نے اُسے زور سے پکارا اور ایک سرد آہ بھر کر اس نے بھی مجبوراً سکرین کی ٹکیہ اُٹھالی۔ لنچ سے فارغ ہونے کے بعد وہ برج کھیلنے لگیں۔ لینا خوب کھیلی۔ سب نے کھیل کا لطف اٹھایا۔ مسز ستلف اور مسز رچمین کے دل میں معزز مہمان کے لیے گہری ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ مس ہیکن کے دل کی مراد بھی برآئی۔ اور وہ یہی تو چاہتی تھی کہ لینا ان کے ساتھ دو ہفتے خوشی سے بسر کرے۔ چند ساعت بعد مس ہیکن اور مسز رچمین گالف کھیلنے چلی گئیں اورمسز ستلف ایک جوان سال، خوش شکل پرنس روکا میر کے ساتھ سیر کو نکل گئی۔ لیکن کچھ دیر سستانے کے خیال سے لیٹ گئی۔ ڈنر سے تھوڑا سا وقت پہلے سب لوٹ آئیں۔

’’لینا پیاری کہو وقت کیسے گزرا۔

’’مس ہیکن نے کہا۔

’’گاف کھیلتے وقت دھیان تمہاری ہی طرف تھا۔ ‘‘

’’اوہ میں تو بڑے مرے سے بستر پر ہی پڑی رہی اور جا کر کاک ٹیل بھی پی اور سنو۔ آج ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ میری نظر پڑا۔ جہاں بڑی اچھی بالائی بھی مل سکتی ہے۔ میں نے روزانہ مکان پر با لائی منگوانے کا انتظام کرلیا ہے۔ ‘‘

اُس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور اُسے یقین تھا کہ وہ تینوں اُس کی بات کو سراہیں گی۔

’’تم کتنی اچھی ہو۔ لینا‘‘

مسز ہیکن نے کہا۔

’’لیکن افسوس کہ ہمیں بالائی پسند نہیں۔ ایسی آب و ہوا میں یہ ہمیں راس نہیں آ سکتی۔ ‘‘

’’نہ سہی، میں جو سلامت ہوں۔ ‘‘

لینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’تمھیں کیا اپنی شکل و صورت کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘

مسز ستلف نے منہ بنا کر کہا۔

’’مجھے تو ڈاکٹر نے بالائی کھانے کو کہا ہے۔ ‘‘

’’کیا اُس نے مکھن، روٹی، آلو اور چاروں ہی چیزیں تجویز کی ہیں؟‘‘

’’بے شک، تمہاری سادی غذا سے میں یہی مُراد لیتی ہوں۔ ‘‘

’’تم یقیناًبہت موٹی ہو جاؤ گی۔ ‘‘

لینا کھلکھلا کر ہنس دی۔ رات کو اُس کے سو جانے پر دیر تک تینوں نکتہ چینی کرتی رہیں۔ آج شام اُن کی طبیعت کتنی شگفتہ تھی لیکن اب مسز رچمین بیزار سی نظر آنے لگی۔ مسز ستلف الگ جلی بیٹھی تھی۔ اور مس ہیکن کا مزاج بھی برہم ہوچکا تھا۔

’’میں قطعاً برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ میرا من بھاتا کھانا میری آنکھوں کے سامنے بیٹھ کر اُڑائے۔ ‘‘

مسز رچمین نے ذرا تلخی سے کہا۔

’’یہ تو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

مس ہیکن نے جواب دیا۔

’’آخر تم نے اُسے یہاں بُلایا ہی کیوں۔ ؟

’’مجھے اس بات کی کیا خبر تھی۔ ‘‘

’’اگر اس کے دل میں اپنے مرحوم شوہر کا ذرابھی خیال ہوتا تو وہ کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتی۔ اُسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے تو گزرے ہیں۔ ‘‘

’’عجیب مہمان ہے کہ اسے ہماری مرضی کا کھانا ہی پسند نہیں۔ ‘‘

’’سُنا، وہ کل کیا کہہ رہی تھی اُسے ڈاکٹر نے مکھن روٹی، آلو اور بالائی کھانے کو کہا ہے۔ ‘‘

’’اسے تو پھر کسی سینوٹوریم کا رُخ کرناچاہیے۔ ‘‘

’’وہ مہمان ہے تو تمہاری۔ ہمارا تو اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ میں تو متواتر دو ہفتے تک اُس پیٹو کا تماشا دیکھتی رہی ہوں۔ ‘‘

’’صرف کھانے پینے کو زندگی کا مقصد سمجھ لینا بڑی بے ہودگی ہے۔ ‘‘

’’تم کیا مجھے بیہودہ پکار رہی ہو۔ ‘‘

مسز ستلف نے کہا۔

’’آپس میں بدگمانی سے فائدہ۔ ؟‘‘

مسز رچمین نے بات کاٹ کر کہا۔

’’میں ہر گز برداشت نہیں کرسکتی کہ تم ہمارے سوتے میں باورچی خانہ میں گھس کر کھاتی پیتی رہو۔ ‘‘

ان الفاظ نے مس ہیکن کے تن بدن میں ایک آگ لگا دی۔ وہ اُچھل کر کھڑی ہو گئی۔

’’مسز ستلف اپنی زبان سنبھالو۔ تم کیا مجھے اتنا ہی کمینہ خیال کرتی ہو۔ ‘‘

’’آخر تمہا را وزن کیوں نہیں کم ہوتا۔ ‘‘

’’بالکل غلط، میرا تو سیروں وزن کم ہو گیا ہے۔ ‘‘

وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اور آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر چھاتی پر گرنے لگے۔

’’پیاری تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر مسز ستلف گھٹنوں کے بل جھکی اور اُس کے جسم کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کی۔ اُس کا بھی دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہو گئی۔

’’تو کیا میں دُبلی دکھائی نہیں دیتی۔ ‘‘

مس ہیکن نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔

’’ہاں بے شک۔ ‘‘

مستز ستلف نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ مسز رچمین بھی جو فطرتاً نہایت کمزور طبعیت واقع ہوئی تھی، اب رونے لگیں۔ یہ منظر بہت رقت خیز تھا۔ مس ہیکن ایسی عورت کو آنسو بہاتے دیکھ کر سنگ دل انسان بھی موم ہو جاتا۔ بالآخر اُنھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور ایک نے برانڈی اور پانی کے چند گھونٹ پیے۔ وہ اب اس بات پر متفق تھیں کہ لینا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنی من مرضی کی غذا کھائے۔ آخر وہ ان کی مہمان ٹھہری۔ ان کا فرض تھا کہ ہر طرح اس کا کلیجہ ٹھنڈا کریں۔ انھوں نے ایک دوسری کا گرم جوشی سے منہ چوما اور اپنی اپنی خوابگاہوں میں چلی گئیں۔ یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت بہت کمزور ہے اور اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ غذا کے معاملے میں اب ہر ایک اپنی مرضی کی مالک تھی۔ اُنھوں نے مچھلی کے کباب شروع کیے تو لینا کی سویاں مکھن اور پنیر پر بسر ہونے لگی۔ وہ ہفتے میں دو بار اُبلے ہوئے انڈے اور کچے ٹماٹر کھاتیں۔ لینا مٹر کے دانے بالائی میں ملا کر کھاتی۔ اسے اُب ٹماٹر کو مختلف مسالوں میں پکا کر کھانے کا شوق چرایا تھا۔ اُس کا خانساماں بھی بڑا بامذاق تھا۔ وہ ہر بار ایک بہتر چیز تیار کرکے میز پر چن دیتا۔ لینا نے ایک موقع پر یہ بھی کہا۔ کہ ڈاکٹر نے اُسے لنچ پر برگنڈی کی ارغوانی شراب اور ڈنر پر شمپئن استعمال کرنے کو کہا ہے۔ ان الفاظ نے تینوں سہلیوں کو دم بخود کردیا۔ وہ ابھی ابھی ہنس کھیل رہی تھیں۔ لیکن یکا یک کیفیت بدل گئی۔ مسز رچمین کا تو گویا رنگ زرد پڑ گیا۔ مسز ستلف کی نیلی آنکھوں میں ایک خوفناک سی چمک پیدا ہو گئی۔ اور مس ہیکن کی آوازبھراگئی۔ برج کھیلتے وقت وہ بڑے نرم لہجے میں ایک دوسرے سے بات کیا کرتیں۔ لیکن اب بات بات پر بگڑنے لگیں۔ لینا نے انھیں بہتیرا سمجھایا بجھایا کہ کھیل کے وقت آپس میں تکرار مناسب نہیں۔ لیکن بے سُود۔ وہ خوش تھی کہ کھیل میں شروع ہی سے اس کا پلہ بھاری رہا ہے۔ اور دنوں میں اس نے ایک بڑی رقم جیت لی ہے۔ تینوں موٹی سہیلیوں کو اب ایک دوسری سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اپنے مہمان سے بھی بدظن ہوچکی تھیں۔ اس کے باوجود اکثر ایک دوسری کے خلاف کان بھرتیں۔ لینا کے سامنے وہ ایک دوسری سے ظاہراً ملتی رہیں، لیکن پھر یہ بات بھی نہ رہی۔ وہ ایک دوسری سے بہت مایوس ہوچکی تھیں مس ہیکن لینا کو رخصت کرنے سٹیشن پر گئی۔ گاڑی پر سوار ہوتے وقت وہ بولی۔

’’میرے پاس الفاظ نہیں کہ تمہاری مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرسکوں۔ ‘‘

’’تمہاری صحبت بہت پُر لُطف رہی۔ ‘‘

مس ہیکن نے جواب دیا۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو اُس نے اس زور سے آہ بھری کہ پلیٹ فارم اُس کے پاؤں کے نیچے کانپ کانپ گیا۔ اور وہ

’’اُف اُف‘‘

کا شور بُلند کرتی گھر لوٹی۔ اس نے غسل کرنے کا لباس پہنا اور ہوٹل کی طرف آنکلی۔ ایکا ایکی وہ مچل سی گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مسز رچمین نیا پائیجامہ اور گلے میں موتیوں کی مالا پہنے، بناؤ سنگھار کیے بیٹھی تھی۔ وہ اُس کی طرف بڑھی۔

’’کیا کررہی ہو؟‘‘

اس کے یہ الفاظ دو پہاڑوں میں بادل کی گرج کی طرح سنا ئی دیے۔

’’کچھ کھا رہی ہوں۔ ‘‘

اس کے سامنے مکھن، سیب کا مربہ قہوہ اور بالائی وغیرہ چنے ہوئے تھے، وہ گرم روٹی پر مکھن کی موٹی تہ جما کر اس پر مربہ اور بالائی ڈال رہی تھی۔

’’تم کھانے کی لالچ میں اپنی جان دے دو گی۔ ‘‘

’’کوئی پروانھیں۔ ‘‘

مسز رچمین نے ایک بڑا لقمہ چباتے ہوئے کہا۔

’’تم اور بھی موٹی ہو جاؤ گی۔ ‘‘

بس خاموش، اُس نا بکار کو خدا سمجھے جسے میں متواتر دو ہفتے سے حلق میں رنگا رنگ کے نوالے ٹھونستے دیکھتی رہی ہوں۔ ایک انسان تو اتنا ہضم نہیں کرسکتا۔ ‘‘

مس ہیکن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بالکل بے جان سی ہو گئی۔ اُسے اس وقت شاید ایک مضبوط مرد کی ضرورت تھی جو اُسے گھٹنے پر لگا کر پچکارے۔ وہ خاموشی سے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔ خادم حاضر ہوا۔ اور اُس نے قہوے کی طرف اشارہ کرکے اُسے لانے کو کہا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر کریم رول اٹھانے لگی۔ لیکن مسز رچمین نے رکابی ایک طرف رکھ دی۔ مس ہیکن جل بھن گئی اور اُسے ایک ایسے نام سے مخاطب کیا جو خاص طور پر عورتوں کے شایان شان نہ تھا۔ اتنے میں خادم اُس کے لیے مکھن، مربہ اور قہوہ لیے آیا۔

’’پگلے بالائی لانا بھول گیا‘‘

۔ وہ شیرنی کی طرح بپھر کر بولی۔ اُس نے کھانا شروع کیا اور حلق میں مکھن، مربہ ٹھونسنے لگی۔ ہوٹل میں اب رنگا رنگ کے انسانوں کی چہل پہل نظر آنے لگی۔ مسز ستلف بھی پرنس روکا میر کے ساتھ چہل قدمی کرتی ادھر آ نکلی۔ وہ پہلے اپنے گرد ایک ریشمی لبادہ مضبوطی سے لپیٹے ہوئی تھی۔ تاکہ اس طرح وہ کچھ دبلی دکھائی دے۔ اپنی ٹھوڑی کانقص چھپانے کے لیے اُس نے سر کو اُوپر اُٹھایا ہوا تھا۔ وہ بہت مسرور تھی۔ ایک دوشیزہ کی طرح۔ پرنس اس سے اجازت لے کرپانچ منٹ کے لیے مردانہ کمرے میں اپنے بال سنوارنے گیا اور وہ بھی اپنے رخساروں کو غازہ چمکانے کے لیے زنانہ کمرے کی طرف آئی۔ ایکا ایکی اُس کی نظر اپنی دونوں سہلیوں پر پڑی وہ رُک گئی۔

’’تم پیٹو حیوان۔ ‘‘

وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور خادم کو آواز دی۔ اس کے ذہن سے اب پرنس کا خیال بھی اُتر چکا تھا۔ آنکھ جھپکتے میں خادم حاضر ہو گیا۔

’’میرے کھانے کو بھی یہی لاؤ۔ ‘‘

’’اور میرے لیے سویاں۔ ‘‘

’’مس ہیکن!۔ ‘‘

مسز رچمین پکار اُٹھی۔

’’بس خاموش۔ ‘‘

تو میں بھی یہی کھاؤں گی۔ ‘‘

قہوہ لایا گیا اور کریم رول اور بالائی بھی۔ وہ گرم روٹی پر بالائی تہ جما کر کھانے لگیں۔ مربے کے بڑے چمچے حلق میں ٹھونس لیے۔ وہ گویا ایک خاص اہتمام سے کھا رہی تھیں۔ ایسے موقع پر مسز ستلف کے لیے پرنس سے لگاؤ ایک بے معنی بات تھی۔

’’میں نے پچیس سال سے آلو نہیں کھائے‘‘

مس ہیکن نے دھیمی آواز میں کہا۔ مسز رچمین نے فوراً خادم کو تینوں کے لیے بھنے ہوئے آلو لانے کو کہا۔ ایک لمحہ کے بعد بھنے ہوئے آلو اُن کے سامنے تھے اور وہ بڑے چٹخارے لے کر کھانے لگیں تینوں سہیلیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سرد آہیں بھرنے لگیں۔ اب اِن کے درمیان غلط فہمی رفع ہوچکی تھی۔ اور دلوں میں انتہائی محبت کا جذبہ موجزن تھا۔ انھیں یقین نہ آتا تھا کہ آج سے پہلے وہ ایک دوسرے سے قطع تعلق پرآمادہ ہوچکی تھیں۔ آلو اب ختم ہوچکے تھے۔

’’ہوٹل میں چاکلیٹ تو ضرور ہونگے۔ ‘‘

مسزرچمین نے کہا۔

’’کیو ں نہیں۔ ‘‘

ایک لمحہ بعد مس ہیکن اپنا منہ کھولے حلق میں چاکلیٹ ٹھونس رہی تھی۔ اُس نے دوسرے پر ہاتھ ڈالا۔ اور منہ میں ڈالنے سے پہلے دونوں سہلیوں کی طرف نظر اُٹھائے نابکار لینا کو کوسنے لگی۔ ’‘’ تم جو چاہو کہو۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ برج کھیلنا نہیں جانتی۔ ‘‘

’’بے شک۔ ‘‘

مسز ستلف نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ مسز رچمین کا ذہن اس وقت کسی لذیذ کیک کی فکر میں تھا۔

سعادت حسن منٹو

تقی کاتب

ولی محمد جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ لکھنو اور ولی کے جاہل اور خود سرکاتبوں سے میرا جی جلا ہوا تھا۔ ایک تھا اس کو جاو بے جا پیش ڈالنے کی بُری عادت تھی۔ موت کو مُوت اور سوت کو سُوت بنا دیتا تھا۔ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا۔ اسکو اپنے اہل زبان ہونے کا بہت زعم تھا۔ میں نے جب بھی اس کو پیش کے معاملہ میں ٹوکا اس نے اپنی داڑھی کو تاؤ دے کرکہا۔

’’میں اہلِ زبان ہوں صاحب۔ اسکے تیس سپاروں کا حافظ ہوں۔ اعراب کے معاملہ میں آپ مجھ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘

میں نے اسے اور کچھ نہ کہا اور رخصت کردیا۔ اسکی جگہ ایک دلی کے کاتب نے لے لی۔ اور سب ٹھیک ہو گیا مگر اس کو اصلاح کرنے کا خبط تھا، اور اصلاح بھی ایسی کہ میری آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ کوئی مضمون تھا۔ میں نے اس میں یہ لکھا۔

’’اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، اس نے یہ اصلاح فرمائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں کے طوطے اڑ گئے۔ ‘‘

میں نے اس کا مذاق اڑایا تو وہ خالص دہلوی لب و لہجہ میں بڑبڑاتا ملازمت سے علیحدہ ہو گیا۔ رام پور کا ایک کاتب تھا۔ بہت ہی خوش خط تھا مگر اس کو اختصار کے دورے پڑتے تھے۔ سطریں کی سطریں اور پیرے کے پیرے غائب کرتا تھا۔ جب اسکو پورا صفحہ دوبارہ لکھنے کو کہتا تو وہ جواب دیتا۔

’’اتنی محنت مجھ سے نہ ہو گی صاحب۔ پوٹ میں لکھ دوں گا‘‘

پوٹ میں لکھوانا مجھے سخت ناپسند تھا چنانچہ رام پوری کاتب بھی زیادہ دن دفتر میں نہ ٹِک سکے۔ ولی محمد ہیڈ کاتب جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ خط کا نمونہ دیکھا۔ خاص اچھا نہیں تھا۔ دائروں میں پختگی ہی نہیں تھی۔ میں گنجان لکھائی کا قائل ہوں۔ وہ چھدرا لکھتا تھا۔ کم عمر تھا۔ اندازِ گفتگو میں عجیب قسم کی بوکھلاہٹ تھی بات کرتے وقت اس کا ایک بازو ہلتا رہتا تھا۔ جیسے کلاک کا پنڈولم۔ رنگ سفید تھا۔ بالائی ہونٹ پر بھورے بھورے مہین بال تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے خود کتابت کی سیاہی سے یہ ہلکی ہلکی مونچھیں بنائی ہیں۔ میں نے اسے چند روز کے لیے رکھا۔ مگر اس نے اپنی شرافت، محنت اور تابعداری سے دفتر میں اپنے لیے مستقل جگہ پیدا کرلی۔ ولی محمد سے میرے تعلقات بہت بے تکلف تھے۔ جنسیات کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے وہ اکثر مجھ سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ اس دوران میں محمد نقی خاموش رہتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں آتا تو اسکے کان کی لویں سرخ ہوجاتیں۔ ولی محمد جو کہ شادی شدہ تھا، اس کو خالص پنجابی انداز میں چھیڑتا۔

’’منٹو صاحب اس کا مردہ خراب ہورہاہے اس سے کہیے کہ شادی کرلے۔ جب بھی کوئی فلم دیکھ کر آتا ہے۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ ‘‘

تقی عام طور پر جھینپتے ہوئے کہتا

’’منٹو صاحب جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘

ولی محمد کی سیاہ نوکیلی مونچھیں تھرکنے لگیں

’’اور یہ بھی جھوٹ ہے منٹو صاحب کہ یہ چالی بلڈنگ کی یہودی چھوکریوں کی ننگی ٹانگیں دیکھ کر ان کی نقشہ کشی کیا کرتا ہے۔ ‘‘

تقی کی ناک کی چونچ پر پسینے کے قطرے نمودار ہو جاتے

’’میں تو۔ میں تو ڈرائنگ سیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

ولی محمد اسے اور چھیڑتا

’’ڈرائنگ چہرے کی سیکھو۔ یہ کس ڈرائنگ ہسٹر نے تم سے کہا کہ پہلے ننگی ٹانگوں سے شروع کرو۔ ‘‘

محمد تقی قریب قریب رو دیتا، چنانچہ میں ولی محمد کومنع کرتا کہ وہ اسے نہ چھیڑا کرے۔ اس پر ولی محمد کہتا۔

’’منٹو صاحب، میں اس کے والد صاحب سے کہہ چکا ہوں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اس لونڈے کی شادی کرادیجیے، ورنہ اس کا مردہ بالکل خراب ہو جائے گا۔ ‘‘

محمد تقی کے باپ سے میری ملاقات ہوئی۔ داڑھی والے بزرگ تھے۔ نماز روزے کے پابند۔ ماتھے پر محراب۔ جھنڈی بازار میں ولی محمد کی شراتک میں گھی کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔ محمد تقی سے ان کو بہت محبت تھی۔ باتیں کرتے ہوئے آپ نے مجھ سے کہا

’’تقی دو برس کا تھا کہ اسکی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ خدا اسکو غریقِ رحمت کرے۔ بہت ہی نیک بی بی تھی۔ منٹو صاحب یقین جانیے اس کی موت کے بعد عزیزوں اور دوستوں نے بہت زور دیا کہ میں دوسری شادی کرلوں مگر مجھے تقی کا خیال تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ میں اسکی طرف سے غافل ہوجاؤں۔ چنانچہ دوسری شادی کے خیال کو میں نے اپنے قریب تک نہ آنے دیا اور اسکی پرورش خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کوسرخرو کیا۔ خدا اس کو زندگی اور نیکی کی ہدایت دے!‘‘

محمد تقی اپنے باپ کے اس ایثار کی ہمیشہ تعریف کیا کرتا۔

’’بہت کم باپ اتنی بڑی قربانی کرسکتے ہیں۔ اباّ جوان تھے۔ اچھا کھاتے تھے۔ چاہتے تو چٹکیوں میں ان کو اچھی سے اچھی بیوی مل جاتی، لیکن میری خاطر انھوں نے تجرد کی زندگی بسرکی۔ اتنی محبت اور اتنے پیار سے میری پرورش کی کہ مجھے ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہونے دی۔ ‘‘

ولی محمد بھی تقی کے باپ کا معترف تھا۔ مگر اسے صرف یہ شکایت تھی کہ مولانا ذرا سنکی ہیں۔

’’منٹو صاحب آدمی بہت اچھا ہے کاروبار میں سولہ آنے کھرا ہے۔ تقی سے بہت پیار کرتا ہے۔ لیکن یہ پیار۔ میں اب اپنے احساسات کن الفاظ میں پیش کروں۔ اس کا پیار حد سے بڑھا ہوا ہے۔ یعنی وہ اس طرح پیار کرتا ہے جس طرح کوئی حاسد عاشق اپنے معشوق سے کرتا ہے۔ ‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا۔

’’تمہارا مطلب؟‘‘

ولی محمد نے اپنی مونچھوں کی نوکیں درست کیں

’’مطلب وطلب میں نہیں سمجھا سکتا۔ آپ خود سمجھ لیجیے۔ ‘‘

میں نے مسکرا کہا۔

’’بھائی تم ذرا وضاحت سے کام لو، تو میں سمجھ جاؤں گا۔ ‘‘

ولی محمد نے سرخیاں لکھنے والے قلم کو کپڑے کے چیتھڑے سے صاف کرتے ہوئے کہا۔

’’مولانا سنکی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔ تقی کہتا ہے کہ پہلے ان کے پیار اور ان کی شفقت کا یہ رنگ نہیں تھا جو اب ہے۔ یعنی پچھلے چند برسوں سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند سے پوچھ گچھ کا لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ متناہی ٹھیک استعمال ہے نا منٹو صاحب؟‘‘

’’ٹھیک استعمال ہوا ہے۔ ہاں یہ پوچھ گچھ کا سلسلہ کیا ہے؟‘‘

’’یہی تم رات کو دیر سے کیوں آئے؟۔ سفید گلی میں کیا کرنے گئے تھے۔ وہ یہودن تم سے کیا بات کررہی تھی؟۔ اتنے فلم کیوں دیکھتے ہو۔ پچھلے ہفتے تم نے کتابت کی اجرت میں سے چار آنے کہاں رکھے؟۔ ولی محمد سے تم بائی کلمہ کے پل پر بیٹھے کیا باتیں کررہے تھے؟۔ کیا وہ تمہیں ورغلا تو نہیں رہا تھا کہ شادی کرلو۔ ‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا۔

’’ورغلانا کیا ہوا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ لیکن مولانا سمجھتے ہیں کہ تقی کا ہر دوست اسے شادی کے لیے ورغلاتا ہے۔ میں اس کو ورغلاتا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں اور اکثر کہتا ہوں کہ جانِ من شادی کرلو ورنہ تمہارا مردہ خراب ہو جائے گا۔ اور منٹو صاحب میں آپ کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے۔ ‘‘

چار پانچ برس گزر چکے تھے۔ محمد تقی کی مونچھوں کے بھورے بال اب مہین نہیں تھے ہر روز داڑھی مونڈتا تھا۔ ٹیڑھی مانگ بھی نکالتا تھا اور دفتر میں جب جذبات کے متعلق گفتگو چھڑتی تو وہ قلم دانتوں میں دبا کر غور سے سنتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تو اسکے کانوں کی لویں سرخ نہ ہوتیں۔ محمد تقی کو بیوی کی ضرورت ہو سکتی تھی۔ ایک دن جبکہ اور کوئی دفتر میں نہیں تھا اور اکیلا تقی تخت پر دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے پرچے کی آخری کاپی مکمل کررہا تھا۔ میں نے اس کے خدوخال کا غور سے معائنہ کرتے ہوئے پوچھا۔

’’تقی تم شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

سوال اچانک کیا گیا تھا۔ تقی چونک پڑا۔

’’جی؟‘‘

’’میرا خیال ہے تم شادی کرلو۔ ‘‘

تقی نے قلم کان میں اڑسا اور کسی قدر شرما کر کہا۔

’’میں نے ابا سے بات کی ہے۔ ‘‘

’’کیا کہا انھوں نے؟‘‘

تقی تفصیل سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر نہ کہہ سکا

’’جی وہ۔ کچھ نہیں۔ وہ کہتے ہیں ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’جو اُن کا ہے۔ ‘‘

اس جواب کے بعد گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تقی نے پرچے کی آخری کاپی مکمل کی اور اسے جوڑ کر چلا گیا۔ چند دن کے بعد ولی محمد نے تقی کی موجودگی میں مجھ سے کہا۔ منٹو صاحب۔ کل بڑا لفڑا ہوا۔ مولانا اور تقی میں دھیں پٹاس ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ‘‘

ولی محمد یوں تو اردو بولتا تھا۔ لیکن پنجابی اور بمبئی کی اردو کے کئی الفاظ مزاح پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا عادی تھا۔ تقی نے اسکی بات سنی اور خاموش رہا۔ ولی محمد نے اپنی تھرکتی ہوئی نوکیلی مونچھوں کو آنکھوں کا زاویہ بدل کر دیکھا، پھر اس زاویے کو بدل اس نے تقی کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا

’’لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے، لیکن باپ اس ضرورت کو مانتا ہی نہیں۔ اس نے بہت سمجھایا منٹو صاحب مگر مولانا نے ایک نہ سنی۔ منٹو صاحب یہ کیا محاورہ ہے ایک نہ سنی۔ مولانا نے سنی تو ہزار تھیں۔ لیکن سنی ا ن سنی کردیں۔ یہ محاورے بھی خوب چیز ہیں!۔ اور مولانا بھی۔ اپنے وقت کے ایک لاجواب محاورے ہیں۔ ‘‘

تقی بھنا کر مجھ سے مخاطب ہوا

’’منٹو صاحب اس سے کہیے خاموش رہے۔ ‘‘

ولی محمد بولا۔

’’منٹو صاحب اس سے کہیے کہ مولانا کے سامنے خاموش رہا کرے۔ وہ شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ ٹھیک ہے۔ باپ ہیں وہ اس کا نفع نقصان سوچ سکتے ہیں۔ ‘‘

باپ بیٹے کی چخ ضرور ہوئی تھی۔ تقی نے مولانا سے درخواست کی تھی کہ وہ اسکی شادی کسی اچھے گھرانے میں کر دیں یہ سُن کر وہ چڑ گئے اور تقی کو دوستوں پر برسنے لگے۔

’’تمہارے دوستوں نے تمہاری جڑوں میں پانی پھیر دیا ہے۔ جب میں تمہاری عمر کا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ شادی بیاہ کس جانور کا نام ہے؟‘‘

یہ سن کر تقی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’لیں۔ آپ کی شادی تو چودہ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ ‘‘

مولانا نے اسے ڈانٹا

’’تمہیں کیا معلوم ہے؟‘‘

تقی خاموش ہو گیا۔ وہ بہت ہی کم گو اور فرمانبردار قسم کا لڑکا تھا۔ دو چار مرتبہ اس نے بے تکلف گفتگو کی اور اس کے کھلنے کا موقع دیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اسکو بیوی کی واقعتاً ضرورت ہے۔ اس نے مجھ سے ایک روز جھینپتے ہوئے کہا میرے خیالات آج کل بہت پراگندے رہتے ہیں۔ ولی محمد شادی شدہ ہے۔ وہ جب اپنی بیوی کے ساتھ باہر جاتا ہے تو میرے دل کو جانے کیا ہوتا ہے۔ آپ نے ایک دفعہ احساس کمتری کے متعلق باتیں کی تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں عنقریب اس کا شکار ہونے والا ہوں۔ مگر کیا کروں۔ ابا مانتے ہی نہیں۔ میں شادی کی بات کرتا ہوں تو وہ چڑ جاتے ہیں۔ جیسے۔ جیسے شادی کرنا کوئی گناہ ہے۔ وہ اپنی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو تمہاری ماں کے مرنے کے بعد اب تک میں نے شادی نہیں کی۔ لیکن منٹو صاحب۔ اس مثال کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انھوں نے شادی کی اللہ کو یہ منظور نہیں تھا۔ کہ ان کی بیوی زندہ رہتی انھوں نے بہت بڑی قربانی کی جو میری خاطر دوسری شادی نہ کی۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں کنوارا ہی رہوں‘‘

میں نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

تقی نے جواب دیا

’’معلوم نہیں منٹو صاحب۔ وہ میری شادی کے بارے میں کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن کل باتوں باتوں میں جذبات سے مغلوب ہو کر میں گستاخی کر بیٹھا۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

تقی نے انتہائی ندامت کے ساتھ کہا۔

’’میں منت سماجت کرتے کرتے اور سمجھاتے سمجھاتے تنگ آگیا تھا۔ کل جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ میری شادی کے متعلق کچھ سننے کو تیار نہیں تو میں نے غصے میں آکر ان سے کہہ دیا۔ آپ نہیں سنیں گے تو میں اپنی شادی کا بندوبست خود کرلوں گا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ سن کر انھوں نے کیا کہا۔ ‘‘

ابھی ابھی گھر سے نکل جاؤ۔ چنانچہ کل رات میں یہاں دفتر ہی میں سویا۔ میں نے شام کو ولی محمد کے ذریعے سے مولانا کو بلوایا۔ چند جذباتی باتیں ہوئیں تو انھوں نے تقی کو گلے لگا کر رونا شروع کردیا۔ پھر شکوے ہونے لگے۔ مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا جس کی خاطر میں نے تجرد برداشت کیا ایک روز میرے ساتھ ایسی گستاخی سے پیش آئے گا۔ میں نے ماؤں کی طرح اسے پالا پوسا آپ سوکھی کھائی پر اس کے لیے خود اپنے ہاتھوں گھی میں گوندھ گوندھ کر پراٹھے پکائے۔ ‘‘

میں نے بات کاٹ کر کہا۔

’’مولانا، یہ کب آپ کے ان احسانات کو نہیں مانتا۔ آپ کی تمام قربانیاں اس کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔ آپ نے اتنا کچھ کیا۔ کیا آپ اس کی شادی نہیں کرسکتے۔ ماں باپ کی تو سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھیں۔ آپ کے گھر میں بہو آئے گی۔ بال بچے ہوں گے۔ دادا جان بن کر آپ کو پُر فخر مسرت نہ ہو گی؟۔ میرا خیال ہے تقی کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ آپ شادی کے خلاف ہیں۔ ‘‘

مولانا لاجواب ہو گئے۔ رومال سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگے۔ تھوڑے توقف کے بعد بولے۔

’’پر کوئی ایسا رشتہ ہوتو۔ ‘‘

’’آپ ہاں کردیجیے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

ولی محمد نے یہ کچھ ایسے انداز میں کہا۔

’’چلیے انگوٹھا لگائیے۔ ‘‘

مولانا بدل گئے۔

’’لیکن ایسی جلدی بھی کیا ہے؟‘‘

اس پر میں نے بزرگوں کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔

’’کار خیر میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اوروں کو چھوڑیئے، خود اپنی پسند کا رشتہ ڈھونڈھیے۔ ماشاء اللہ ڈونگری میں سب لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ یہاں بمبئی میں پسند نہ ہو تو اپنے پنجاب میں سہی۔ کون سا گالے کوسوں دور ہے۔ ‘‘

مولانا نے سر ہلا کر صرف اتنا کہا۔

’’جی ہاں!‘‘

میں نے تقی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا

’’لو بھئی تقی۔ فیصلہ ہو گیا۔ مولانا کو تم ضدی بچوں کی طرح اب تنگ نہ کرنا۔ میں خود اس معاملے میں ان کی مدد کروں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں مولانا سے مخاطب ہوا۔

’’یہاں کچھ خاندان ہیں۔ ان سے میری جان پہچان ہے۔ میں اپنی بیوی سے کہوں گا وہ لڑکیاں دیکھ لے گی۔ ‘‘

تقی نے ہولے سے کہا۔

’’آپ کی بہت مہربانی۔ ‘‘

کئی مہینے گزر گئے مگر تقی کی شادی کی بات چیت کہیں بھی شروع نہ ہوئی۔ ولی محمد اس دوران میں اسے برابر اکساتا رہا۔ وہ اپنے باپ کے پیچھے پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز مولانا میرے پاس آئے اور کہا

’’سانگٹی اسٹریٹ کی تیسری گلی میں نکڑ کی بلڈنگ میں۔ شاید آپ جانتے ہی ہوں۔ یوپی کا ایک خاندان رہتا ہے۔ ‘‘

میں نے فوراً کہا۔

’’آپ کہیے۔ میں جانتا ہوں!‘‘

مولانا نے پوچھا

’’کیسے لوگ ہیں؟‘‘

’’بے حد شریف‘‘

’’جو سب سے بڑا بھائی ہے۔ اسکی بڑی لڑکی۔ ‘‘

میں نے سنا ہے خاصی اچھی ہے!

’’میں پیغام بھجوا دیتا ہوں۔ ‘‘

مولانا گھبرا گئے نہیں نہیں۔ اتنی جلدی نہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ لڑکی شکل و صورت کی کیسی ہے؟‘‘

’’میں اپنی بیوی کے ذریعہ سے معلوم کرلوں گا۔ ‘‘

میری بیوی نے اس لڑکی کو دیکھا تو پسند کیا۔ قبول صورت تھی۔ تعلیم انٹرنس تک تھی طبیعت کی بہت ہی اچھی تھی۔ یہ سب خوبیاں مولانا سے بیان کردی گئیں۔ وہ لڑکی کے باپ سے ملے جہیز اور حق مہر کے متعلق بات چیت ہوئی۔ یہ ابتدائی مراحل بخیر و خوبی طے ہو گئے۔ تقی بہت خوش تھا۔ لیکن تین مہینے گزر گئے اور بات وہیں کی وہیں رہی۔ آخر ایک روز معلوم ہوا کہ لڑکی والوں نے مزید گفتگوسے انکار کردیا ہے کیونکہ وہ تقی کے باپ کی مین میخ سے تنگ آچکے ہیں۔ بار بار وہ ان سے جا جا کر یہ کہتا تھا۔ دیکھیے لڑکی کے جہیز میں اتنے جوڑے ہوں برتنوں کی تعداد یہ ہو۔ لڑکی نے اگر میری حکم عدولی کی تو اس کی سزا طلاق ہو گی۔ فلم دیکھنے ہرگز نہ جائے گی۔ پردے میں رہے گی۔ میں نے جب ان بے جا باتوں کا ذکر تقی سے کیا۔ تو وہ اپنے باپ کی طرف ہو گیا۔

’’نہیں منٹو صاحب۔ لڑکی والے ٹھیک نہیں۔ ابا کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ وہ مجھے رن مُرید بنانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا

’’ایسا ہے تو چھوڑو۔ کسی اور جگہ سہی۔ ‘‘

تقی نے کہا۔

’’ابا کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘

مولانا نے ڈونگری میں اپنے ایک واقف کار کے ذریعے سے بات چیت شروع کی سب کچھ طے ہو گیا۔ نکاح کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی۔ مگر ایک دم کچھ ہوا اور سب کچھ ڈھے گیا۔ لڑکی والوں کو تقی پسند تھا، لیکن جب مولانا سے اچھی طرح ملنے جلنے کا اتفاق ہوا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ پکا کردیا۔ تقی نے پھر اپنے باپ کی طرفداری کی اور مجھ سے کہا۔

’’یہ لوگ بڑے لالچی تھے منٹو صاحب۔ ایک دولت مند کا لڑکا مل گیا تو اپنی بات سے پھر گئے۔ ابا شروع ہی سے کہتے تھے کہ یہ لوگ مجھے ایماندار معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن میں خواہ مخواہ ان کے پیچھے پڑا رہا۔ کہ جلدی معاملہ طے کیجیے۔ ‘‘

کچھ عرصے کے بعد تیسری جگہ کوشش شروع ہوئی۔ یہاں بھی نتیجہ صفر۔ چوتھی جگہ بات چیت شروع ہوئی تو تقی نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب، وہ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے ملیں۔ ‘‘

میں ان سے ملا۔ آدمی شریف تھے۔ مولانا سے ان کی چند مختصر باتیں ہوئیں۔ میں نے تقی کی تعریف کی۔ معاملے طے ہو گیا۔ لیکن چند ہی دنوں میں گڑ بڑ پیدا ہو گئی۔ لڑکی کے بڑے بھائی نے کسی سے سنا کہ مولانا دکان پر اپنے ایک دوست سے کہہ رہے تھے۔ لڑکی میرے کہنے پر نہ چلی تومیں تقی کی دوسری شادی کردوں گا۔ ‘‘

وہ یہ سن کر میرے پاس آیا۔ میں نے مولانا کو بلوایا۔ ان سے پوچھا تو داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگے۔

’’میں نے کیا برا کہا۔ میں ایسی بہو گھر میں نہیں لانا چاہتا جو میرا کہا نہ مانے۔ میں تقی کی شادی اس لیے کررہا ہوں کہ مجھے آرام پہنچے۔ ‘‘

عجیب و غریب منطق تھی۔ میں نے پوچھا

’’آپ کو آرام ضرور پہنچنا چاہیے۔ مگر آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاوند اور بیوی کا رشتہ آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘

مولانا نے کسی قدر خفگی کے ساتھ کہا

’’میں خاوند رہ چکا ہوں منٹو صاحب۔ آپ کے خیالات میرے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔ آپ کے ساتھ کام کرکے مجھے افسوس ہے میرے لڑکے کے خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ تقی سے مخاطب ہوئے۔

’’سنا تم نے۔ میں ایسی لڑکی گھر میں لانا چاہتا ہوں جو میری اور تمہاری خدمت کرے۔ ‘‘

اس کے بعد دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان سے جو میں نے نتیجہ نکالا وہ میں نے تقی کو بتایا دیا۔

’’دیکھو بھئی۔ بات یہ ہے کہ تمہارے والد صاحب تمہاری شادی نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار کوئی نہ کوئی شوشہ چھیڑ دیتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں تاکہ معاملہ آگے نہ بڑھنے پائے۔ ‘‘

مولانا خاموش اپنی داڑھی پرہاتھ پھیرتے رہے۔ تقی نے مجھ سے پوچھا

’’کیوں۔ یہ میری شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے۔ ‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

’’مولانا کا دماغ خراب ہے۔ ‘‘

مولانا کو اس قدر طیش آیا کہ منہ میں جھاگ بھر کر واہی تباہی بکنے لگے۔ میں نے تقی سے کہا

’’جاؤ، مولانا کو کسی ذہنی شفاخانہ میں لے جاؤ۔ اور میری یہ بات یاد رکھو۔ جب تک ان کا دماغ درست نہیں ہو گا۔ تمہاری شادی ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ ان کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو انھوں نے تمہارے لیے کی۔ ‘‘

مولانا نے تقی کا بازو زور سے پکڑا اور مجھے صلواتیں سناتے چلے گئے۔ ولی محمد میرے پاس بیٹھا سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا۔ اتنی دیر وہ اپنی نوکیلی مونچھوں کے وجود سے بالکل غافل رہا۔ جب مولانا اور تقی چلے گئے تو اس نے آنکھوں کا زاویہ درست کرکے ان کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’مردہ خراب ہورہا ہے بیچارے کا۔ لیکن منٹو صاحب آپ نے باون تولہ اور پاؤ رتی کی بات کہی۔ محاورہ درست استعمال ہوا ہے نا؟‘‘

’’تم نے محاورہ درست استعمال ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مولانا کی طبیعت صاف کرتے ہوئے میں نے مناسب و موزوں الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ‘‘

’’بڑا ملعون آدمی ہے!‘‘

ولی محمد نے یہ کہہ کر اپنی مونچھ کا ہٹیلا بال بڑے زور سے اکھیڑا اور بڑی سنجیدگی اختیارکرکے مجھ سے پوچھا۔

’’منٹو صاحب، کیا مطلب تھا آپ کا اس سے کہ مولانا کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو اس نے تقی کے لیے کی۔ بات ضرور باون تولہ اور پاؤ رتی کی ہے لیکن پوری طرح میرے ذہن میں بیٹھی نہیں۔ ‘‘

میں نے اس کو سمجھایا

’’بیوی کی موت کے بعد ایک وقتی جذبہ تھا جس کے تحت مولانا نے تجرد کے دن گزارنے کا تہیہ کیا۔ یہ جذبہ اپنی طبعی موت مرا تو آپ کے لیے دو سوگ ہو گئے، ایک بیوی کی موت کا، دوسرا اس جذبے کی موت کا۔ وقت گزرتا گیا اور مولانا نیم کے کریلے بنتے گئے۔ مجھے تو بھئی ولی محمد بہت ترس آتا ہے غریب پر۔ ایک شخص جس نے پچیس برس تک اپنے اور عورت کے درمیان ایک دیوار حائل رکھی ہو، وہ کس طرح اپنے جوان بیٹے کے پہلو میں ایک جوان عورت دیکھ سکتا ہے۔ اور وہ بھی نظروں کے بہت قریب!‘‘

دوسرے دن تقی نہ آیا۔ ولی محمد کے ہاتھ اُس نے کتابت کا بل بھجوا دیا جو ادا کردیا گیا۔ تقی کو بہت افسوس تھا کہ میں نے اسکے باپ کو بُرا بھلا کہا۔ میں نے ولی محمد سے کہہ دیا

’’مجھے کوئی افسوس نہیں۔ تقی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کا باپ ذہنی اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ لیکن مجھے یہ افسوس ضرور ہے کہ اس نے کام چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘

ولی محمد نے تقی سے واپس آنے کو کہا۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس نے کسی اور دفتر میں ملازمت نہ کی اور دکان پر بیٹھ کر گھی بیچنے لگا۔ ولی محمد نے جب زور دیا تو اس نے وہیں کتابت کا کام بھی شروع کردیا۔ میں ایک کام سے دہلی چلا گیا۔ تین چار مہینے وہاں رہ کر بمبئی لوٹا۔ تو ولی محمد نے پلیٹ فارم ہی پر یہ خبر سنائی کہ تقی کی شادی ایک ہفتہ پہلے بخیرو خوبی ہو چکی ہے۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن ولی محمد نے قرآن کی قسم کھا کر کہا

’’منٹو صاحب، میں جھوٹ نہیں کہتا۔ نکاح کے چھوارے میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی شادی نہ ہوتی ہو۔ اس کے لیے اکسیر ثابت ہوں گے‘‘

میں نے تقی کو بلایا، مگر وہ نہ آیا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد ایک دن علی الصبح ولی محمد آیا۔ اسکی نوکیلی مونچھیں تھرک رہی تھیں۔ کہنے لگا منٹو صاحب۔ کل دھیں پٹاس ہو گئی باپ بیٹے میں۔ تقی اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا کہیں۔

’’کہاں؟‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

یہ کہہ کر آنکھوں کا زاویہ بدل کر ولی محمد نے اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب۔ لڑائی کا باعث معلوم نہیں ہوسکا۔ مولانا بالکل خاموش ہیں۔ ‘‘

مولانا بہت دیر تک خاموش رہے اور ان کا بیٹا محمد تقی بھی۔ بمبئی میں ولی محمد اور اس کے ساتھیوں نے تقی کو بہت تلاش کیا۔ مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ بہت دنوں کے بعد دلی سے مجھے تقی کا ایک خط وصول ہوا۔ لکھا تھا

’’۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو خط لکھوں اور حالات سے آگاہ کروں۔ مگر جرأت ساتھ نہ دیتی تھی۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ خط کسی اور کو نہ دکھائیے گا۔ آپ نے میرے والد کے متعلق جو کچھ کہا تھا ٹھیک نکلا۔ میں نے آپکی باتوں کا برا مانا تھا۔ اس لیے کہ مجھے اصلیت کا علم نہیں تھا جو مجھے شادی کے بعد معلوم ہوئی۔ میرے والد کا دماغ واقعی درست نہیں۔ ہو سکتا ہے پہلے ٹھیک ہو۔ لیکن میری شادی کے بعد تو قطعاً انکی دماغی حالت درست نہ تھی۔ ان کی یہی کوشش تھی کہ میں اپنی بیوی سے دور رہوں۔ مجھ اور اس میں دوری پیدا کرنے کے لیے وہ عجیب و غریب طریقے ایجاد کرتے تھے۔ جو ایک دیوانہ ہی کرسکتا ہے۔ میں نے بہت دیر تک برداشت کیا۔ مجھے تمام واقعات بیان کرتے ہوئے بہت شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایک روز میری بیوی غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ آپ نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھنا شروع کردیا۔ میں اور کیا لکھوں۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے۔ خدا ان کی حالت پر رحم کرے۔ ‘‘

’’میں یہاں دہلی میں ہوں اور بہت خوش ہوں۔ ‘‘

میں یہ خط پڑھ رہا تھا کہ ولی محمد آیا۔ اس کے پاس تقی کا ایک خط تھا۔ میری طرف بڑھا کر اس نے کہا۔

’’یہ خط تقی نے دہلی سے اپنے باپ کو لکھا ہے۔ صرف چند الفاظ ہیں۔ ‘‘

’’میں نے پوچھا کیا؟‘‘

’’ولی محمد نے کہا پڑھ لیجیے۔ ‘‘

میں نے یہ الفاظ پڑھے۔

’’قبلہ والد صاحب۔ میں یہاں خیریت سے ہوں۔ آپ نے میرا گھر آباد ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی اپنا گھر آباد کرلیں۔ ‘‘

۔ ولی محمد نے آنکھوں کا زاویہ بدل کر اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا اور کہا۔

’’منٹو صاحب۔ لڑکا ہوشیار ہو گیا ہے۔ لیکن مولانا تو اپنی بات پکی کر چکے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں‘‘

ولی محمد کی مونچھیں تھرکیں

’’ایک گھی بیچنے والی سے۔ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ محاورہ ٹھیک استعمال کیا نہ منٹو صاحب‘‘

میں ہنس پڑا۔ یکم جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

تصویر

’’بچے کہاں ہیں؟‘‘

’’مر گئے ہیں‘‘

سب کے سب؟‘‘

’’ہاں، سب کے سب۔ آپ کو آج ان کے متعلق پوچھنے کا کیا خیال آگیا۔ میں اُن کا باپ ہوں‘‘

’’آپ ایسا باپ خدا کرے کبھی پیدا ہی نہ ہو‘‘

’’تم آج اتنی خفا کیوں ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا‘گھڑی میں رتی گھڑی میں ماشہ ہو جاتی ہو۔ دفتر سے تھک کر آیا ہوں اور تم نے یہ چخ چخ شروع کردی ہے۔ بہتر تھا کہ میں وہاں دفتر ہی میں پنکھے کے نیچے آرام کرتا۔ ‘‘

’’پنکھا یہاں بھی ہے۔ آپ آرام طلب ہیں۔ یہیں آرام فرما سکتے ہیں‘‘

’’تمہارا طنز کبھی نہیں جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ چیز تمہیں جہیز میں ملی تھی‘‘

’’میں کہتی ہوں، کہ آپ مجھ سے اس قسم کی خرافات نہ بکا کیجیے۔ آپ کے دیدوں کا تو پانی ہی ڈھل گیا ہے‘‘

’’یہاں تو سب کچھ ڈھل گیا ہے۔ تمہاری وہ جوانی کہاں گئی؟۔ میں تو اب ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے سو برس کا بڈھا ہوں‘‘

’’یہ آپ کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ میں نے تو خود کو کبھی عمر رسیدہ محسوس نہیں کیا‘‘

’’میرے اعمال اتنے سیاہ تو نہیں۔ اور پھر میں تمہارا شوہر ہوتے ہوئے کیا اتنا بھی محسوس نہیں کر سکتا کہ تمہارا شباب اب روبہ تنزل ہے‘‘

’’مجھ سے ایسی زبان میں گفتگو کیجیے جس کو میں سمجھ سکوں۔ یہ تروبہ نزل کیا ہوا‘‘

چھوڑو اسے۔ آؤ محبت پیار کی باتیں کریں!‘‘

آپ نے ابھی ابھی تو کہا تھا کہ آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سو برس کے بڈھے ہیں‘‘

بھئی دل تو جوان ہے‘‘

آپ کے دل کو میں کیا کہوں۔ آپ اسے دل کہتے ہیں مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گی کہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس شخص نے اپنے پہلو میں دبا رکھا ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ اس میں محبت بھری ہوئی ہے۔ آپ محبت کرنا کیا جانیں۔ محبت تو صرف عورت ہی کر سکتی ہے‘‘

’’آج تک کتنی عورتوں نے مردوں سے محبت کی ہے۔ ذرا تاریخ کا مطالعہ کرو۔ ہمیشہ مردوں ہی نے عورتوں سے محبت کی اور اسے نبھایا۔ عورتیں تو ہمیشہ بے وفا رہی ہیں‘‘

’’جھوٹ۔ اس کا اوّل جھوٹ ‘ اس کا آخر جھوٹ۔ بیوفائی تو ہمیشہ مردوں نے کی ہے‘‘

اور وہ جو انگلستان کے بادشاہ نے ایک معمولی عورت کے لیے تخت و تاج چھوڑ دیا تھا؟۔ وہ کیا جھوٹی اور فرضی داستان ہے‘‘

’’بس ایک مثال پیش کر دی اور مجھ پر رعب ڈال دیا‘‘

’’بھئی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ مرد جب کسی عورت سے عشق کرتا ہے تو وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتا‘ کم بخت اپنی جان قربان کر دیگا مگر اپنی محبوبہ کو ذرا سی بھی ایزا پہنچنے نہیں دے گا‘ تم نہیں جانتی ہو مرد میں جبکہ وہ محبت میں گرفتار ہو کتنی طاقت ہوتی ہے‘‘

’’سب جانتی ہوں۔ آپ سے تو کل الماری کا جما ہوا دروازہ بھی نہیں کھل سکا۔ آخر مجھے ہی زور لگا کر کھولنا پڑا‘‘

’’دیکھو‘ جانم۔ تم زیادتی کر رہی ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ میرے داہنے بازو میں ریح کا درد تھا‘ میں اُس دن دفتر بھی نہیں گیا تھا اور سارا دن اور ساری رات پڑا کراہتا رہا تھا۔ تم نے میرا کوئی خیال نہ کیا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ سنیما دیکھنے چلی گئیں‘‘

’’آپ تو بہانہ کر رہے تھے‘‘

’’لا حول و لا۔ یعنی میں بہانہ کر رہا تھا‘ درد کے مارے میرا بُرا حال ہو رہا ہے اور تم کہتی ہو کہ میں بہانہ کر رہا تھا۔ لعنت ہے ایسی زندگی پر‘‘

’’یہ لعنت مجھ پر بھیجی گئی ہے!‘‘

’’تمہاری عقل پر تو پتھر پڑ گئے ہیں۔ میں اپنی زندگی کا رونا رو رہا تھا‘‘

’’آپ تو ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں‘‘

’’تم تو ہنستی رہتی ہو۔ اس لیے کہ تمھیں کسی کی پرواہ ہی نہیں۔ بچے جائیں جہنم میں‘ میرا جنازہ نکل جائے۔ یہ مکان جل کر راکھ ہو جائے مگر تم ہنستی رہو گی۔ ایسی بے دل عورت میں نے آج تک اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی‘‘

’’کتنی عورتیں دیکھی ہیں آپ نے اب تک؟‘‘

’’ہزاروں‘ لاکھوں۔ سڑکوں پر تو آج کل عورتیں ہی عورتیں نظر آتی ہیں‘‘

’’جھوٹ نہ بولیے۔ آپ نے کوئی نہ کوئی عورت خاص طور پر دیکھی ہے‘‘

’’خاص طور پر سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’میں آپ کے راز کھولنا نہیں چاہتی۔ میں اب چلتی ہوں‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’ایک سہیلی کے یہاں۔ اس سے اپنا دکھڑا بیان کروں گی ‘ خود روؤں گی‘ اُس کو بھی رلاؤں گی۔ اس طرح کچھ جی ہلکا ہو جائے گا‘‘

وہ دکھڑا جو تمھیں اپنی سہیلی سے بیان کرنا ہے‘ مجھے ہی بتا دو۔ میں تمہارے غم میں شریک ہونے کا وعدہ کرتا ہوں۔

’’آپ کے وعدے؟۔ کبھی ایفا ہوئے ہیں؟‘‘

’’تم بہت زیادتی کر رہی ہو۔ میں نے آج تک تم سے جو بھی وعدہ کیا پورا کیا۔ ابھی پچھلے دنوں تم نے مجھ سے کہا کہ چائے کا ایک سیٹ لا دو۔ میں نے ایک دوست سے روپے قرض لے کر بہت عمدہ سیٹ خرید کر تمھیں لا دیا۔

’’بڑا احسان کیا مجھ پر۔ وہ تو دراصل آپ اپنے دوستوں کے لیے لائے تھے۔ اس میں سے دو پیالے کس نے توڑے تھے؟ ذرا یہ تو بتائیے؟‘‘

’’ایک پیالہ تمہارے بڑے لڑکے نے توڑا۔ دوسرا تمہاری چھوٹی بچی نے‘‘

’’سارا الزام آپ ہمیشہ انھیں پر دھرتے ہیں۔ اچھا اب یہ بحث بند ہو۔ مجھے نہا دھو کر کپڑے پہننا اور جُوڑا کرنا ہے۔

’’دیکھو‘ میں نے آج تک کبھی سخت گیری نہیں کی‘ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نرمی سے پیش آتا رہا ہوں مگر آج میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ باہر نہیں جا سکتیں‘‘

’’اجی واہ۔ بڑے آئے‘ مجھ پر حکم چلانے والے۔ آپ ہیں کون؟‘‘

’’اتنی جلدی بھول گئی ہو۔ میں تمہارا خاوند ہوں‘‘

’’میں نہیں جانتی ‘ خاوند کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ میں باہر جاؤں گی اور ضرور جاؤں گی‘ دیکھتی ہوں‘ مجھے کون روکتا ہے‘‘

’’تم نہیں جاؤ گی۔ بس یہ میرا فیصلہ ہے‘‘

’’فیصلہ اب عدالت ہی کرے گی‘‘

’’عدالت کا یہاں کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آج تم کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہو‘ تک کی بات کرو۔ جاؤ نہا لو تاکہ تمہارا دماغ کسی حد تک ٹھنڈا ہو جائے‘‘

’’آپ کے ساتھ رہ کر میں تو سر سے پیر تک برف ہو چکی ہوں‘‘

کوئی عورت اپنے خاوند سے خوش نہیں ہوتی‘ خواہ وہ بیچارہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو۔ اس میں کیڑے ڈالنا اس کی سرشت میں داخل ہے۔ میں نے تمہاری کئی خطائیں اورغلطیاں معاف کی ہیں‘‘

’’میں نے خدانخواستہ کون سی خطا کی ہے؟‘‘

’’پچھلے برس تم نے شلجم کی شب دیگ بڑے ٹھاٹ سے پکانے کا ارادہ کیا۔ شام کو چولہے پر ہنڈیا رکھ کر تم ایسی سوئیں کہ اُٹھ کر جب میں باورچی خانے میں گیا تو دیکھا کہ دیگچی میں سارے شلجم کوئلے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو نکال کر میں نے انگیٹھی سلگائی اور چائے تیار کی۔ تم سو رہی تھیں‘‘

’’میں یہ بکواس سننے کے لیے تیار نہیں‘‘

’’اس لیے کہ اس میں جھوٹ کا ایک ذرّہ بھی نہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ عورت کو سچ اور حقیقت سے کیوں چڑ ہے۔ میں اگر کہہ دُوں کہ تمہارا بایاں گال تمہارے دائیں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ موٹا ہے تو شاید تم مجھے ساری عمر نہ بخشو۔ مگر یہ حقیقت ہے جسے شاید تم بھی اچھی طرح محسوس کرتی ہو۔ دیکھو یہ پیپر ویٹ وہیں رکھ دو۔ اٹھا کے میرے سر پر دے مارا تو تھانہ تھنول ہو جائے گا‘‘

’’میں نے پیپر ویٹ اس لیے اُٹھایا تھا کہ یہ آپ کے چہرے کے عین مطابق ہے۔ اس کے اندر جو ہوا کے بلبلے سے ہیں وہ آپ کی آنکھیں ہیں۔ اور یہ جو لال سی چیز ہے وہ آپ کی ناک ہے جو ہمیشہ سُرخ رہتی ہے۔ میں نے جب آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے ایسا لگا تھا جیسے آپ کی آنکھوں کے نیچے جو گائے کی آنکھیں ہیں‘ ایک کاکروچ اوندھے منہ بیٹھا ہے‘‘

’’تمہارا جی ہلکا ہو گیا؟‘‘

’’میرا جی کبھی ہلکا نہیں ہو گا۔ مجھے آپ جانے دیجیے۔ نہا دھو کر میں شاید یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں‘‘

’’جانے سے پہلے یہ تو بتا جاؤ کہ یہ جانا کس بنا پر ہے؟‘‘

’’میں بتانا نہیں چاہتی۔ آپ تو اوّل درجے کے بے شرم ہیں‘‘

’’بھئی ‘ تمہاری اس ساری گفتگو کا مطلب ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ معلوم نہیں ‘ تمھیں مجھ سے کیا شکایت ایک دم پیدا ہو گئی ہے‘‘

’’ذرا اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالیے‘‘

’’میرا کوٹ کہاں ہے؟‘‘

’’لاتی ہوں۔ لاتی ہوں‘‘

’’میرے کوٹ میں کیا ہو سکتا ہے۔ وہسکی کی بوتل تھی۔ وہ تو میں نے باہر ہی ختم کر کے پھینک دی تھی۔ لیکن ہو سکتا ہے رہ گئی ہو‘‘

’’لیجیے ‘ آپ کا کوٹ یہ رہا‘‘

’’اب میں کیا کروں؟‘‘

’’اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈالیے۔ اور اُس لڑکی کی تصویر نکالیے جس سے آپ آج کل عشق لڑا رہے ہیں‘‘

’’لا حول و لا‘‘

تم نے میرے اوسان خطا کر دیے تھے۔ یہ تصویر ‘ میری جان‘ میری بہن کی ہے جس کو تم نے ابھی تک نہیں دیکھا‘ افریقہ میں ہے۔ تم نے یہ خط نہیں دیکھا۔ ساتھ ہی تو تھا۔ یہ لو‘‘

’’ہائے‘ کتنی خوبصورت لڑکی ہے۔ میرے بھائی جان کے لیے بالکل ٹھیک رہے گی‘‘

۱۸، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

تانگے والے کا بھائی

سید غلام مرتضیٰ جیلانی میرے دوست ہیں۔ میرے ہاں اکثر آتے ہیں۔ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ کافی پڑھے لکھے ہیں۔ ان سے میں نے ایک روز کہا !

’’شاہ صاحب ! آپ اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ تو سنائیے!‘‘

شاہ صاحب نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’منٹو صاحب۔ میری زندگی دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کون سا واقعہ آپ کو سناؤں۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا!

’’جو بھی آپ کے ذہن میں آ جائے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرائے۔

’’آپ مجھے بڑا پرہیز گار آدمی سمجھتے ہوں گے۔ آپ کو معلوم نہیں میں نے دس برس تک دن رات شراب پی ہے اور خوب کھل کھیلا ہوں۔ اب چونکہ دل اچاٹ ہو گیا ہے اس لیے میں نے شغل چھوڑ رکھے ہیں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کہیں آپ نے شادی تو نہیں کر لی؟‘‘

’’حضرت ٗ میں پانچ برس سے لاہور میں ہوں۔ اگر میں نے شادی کی ہوتی تو آپ کو اس کی اطلاع مل جاتی۔ ‘‘

’’تو کیا آپ ابھی تک کنوارے ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’بڑے تعجب کی بات ہے !‘‘

شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔

’’چلیے۔ آپ کو ایک داستان سنا دوں۔ آپ اسے لکھ کر اپنے پیسے کھرے کر لیجیے گا‘‘

مجھے پیسے کھرے کرنے تو تھے، پھر بھی میں نے ان سے کہا :

’’نہیں شاہ صاحب۔ آپ اپنی داستان سنائیے ٗ دیکھیں اس کا افسانہ بنتا بھی ہے کہ نہیں۔ ویسے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کی داستان کو افسانے میں ڈھال لیا تو مجھے جو معاوضہ ملے گا، سب کا سب آپ کا ہو گا۔ ‘‘

شاہ صاحب ہنسے۔

’’چھوڑو یار۔ میں اپنی بیتی ہوئی زندگی کے ٹکڑوں کی قیمت وصول نہیں کرنا چاہتا۔ تم افسانہ نگار لوگ عجیب ذہن کے ہوتے ہو۔ داستان سن لو۔ باقی تم جانو۔ مجھے معاوضے وغیرہ سے کوئی سرو کار نہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب کے لب و لہجہ سے یہ صاف ظاہر تھا کہ انہیں میری بات پسند نہیں آئی اس لیے میں نے اس کے بارے میں مزید گفتگو کرنا مناسب نہ سمجھی اور ان سے کہا :

’’آپ اپنی داستان بیان کرنا شروع کر دیں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے میرے سگریٹ کیس سے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اس لیے کہ میں نے انہیں چار پانچ برس کے عرصے میں کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا :

’’شاہ صاحب آپ سگریٹ پیتے ہیں !‘‘

شاہ صاحب کے ہونٹوں پر جن میں سگریٹ اٹکا ہوا تھا ٗ عجیب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’منٹو صاحب! آپ نے اپنی زندگی میں اتنے سگریٹ نہیں پِیے ہوں گے۔ جتنے میں پی چکا ہوں۔ آج آپ نے ایسی بات چھیڑ دی کہ خود بخود میرے ہاتھ آپ کے سگریٹ کیس کی طرف اٹھ گئے۔ وِسکی ہے آپ کے پاس؟‘‘

میں نے جواب دیا :

’’جی ہاں۔ ہے۔ ‘‘

’’تو لاؤ۔ ایک پٹیالہ پیگ۔ میں دس برس کا رکھا ہوا روزہ توڑوں گا۔ تم نے آج ایسی باتیں کی ہیں کہ میرا سارا جسم ماضی میں چلا گیا ہے۔ ‘‘

میں نے اپنی الماری سے وسکی کی بوتل نکالی اور شاہ صاحب کے لیے ایک پٹیالہ پیگ بنا کر حاضر کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی جُرعے میں گلاس خالی کر دیا۔ آستین سے ہونٹ صاف کرنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئے

’’ہاں تو اب کہانی سنو۔ لیکن یہ بوتل یہاں سے غائب کر دو۔ ‘‘

میں نے وسکی کی بوتل اٹھائی اور اندر جا کر الماری میں رکھ دی۔ واپس آیا تو دیکھا شاہ صاحب دوسرا سگریٹ سلگا رہے ہیں۔ میں کرسی اٹھا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ مسکرائے۔ لیکن یہ مسکراہٹ کچھ زخمی سی تھی۔ انھوں نے اسی زخمی مسکراہٹ سے کہنا شروع کیا۔

’’جو واقعہ میں اب بیان کرنے والا ہوں۔ آج سے قریب قریب دس برس پہلے کا ہے۔ ہمارا حلقہ ءِ احباب زیادہ تر کھاتے پیتے اور کافی مالدار ہندوؤں کا تھا۔ بڑے اچھے لوگ تھے۔ ہر روز پینے پلانے کا شغل رہتا۔ اس حلقے میں میرے علاوہ کئی اور دوستوں کو شراب کے علاوہ عورتوں کی بھی ضرورت محسوس ہوا کرتی۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ضرورت پوری کرتے۔ مجھ سے کہتے کہ تم بھی آؤ۔ مگر میں انکار کر دیتا۔ اپنی مرضی کے خلاف۔ میرا دل ویسے چاہتا تھا کہ کسی عورت کی قربت نصیب ہو۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے کہا :

’’آپ نے شادی کیوں نہ کر لی۔ ‘‘

’’شاہ صاحب نے جواب دیا :

’’میں نے۔ سچ پوچھو تو اس کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ‘‘

’’کیوں۔ ‘‘

’’کبھی خیال ہی نہ آیا۔ ‘‘

’’خیر۔ آپ اپنی داستان جاری رکھیے !‘‘

شاہ صاحب نے سگریٹ کوایش ٹرے میں دبایا۔

’’پیارے منٹو! میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب نوشی کے سوا کسی اور شغل میں نہ پھنسوں۔ لیکن ان کم بختوں نے آخر ایک دن مجھے آمادہ کر ہی لیا اور یہ طے پایا کہ کسی دلال کے ذریعے خوش شکل لونڈیا منگوائی جائے۔ ہم چار دوست فلیٹ سے باہر نکلے تو ایک تانگے والا جو کہ میرا واقف تھا مجھے دیکھ کر پکار اٹھا۔

’’شاہ جی۔ شاہ جی۔ آؤ۔ آؤ:‘‘

ہم چاروں دوست اس کے تانگے بیٹھ گئے۔ اس وقت میں پورا پورا قائل ہو چکا تھا کہ شراب کے ساتھ عورت ضرور ہونی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی ساری شرافت اپنی جیب میں ڈال کے اس کے کان میں کہا کہ وہ کسی لونڈیا کا بندوبست کر دے۔ جب اس نے یہ سنا تو وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں کبھی ایسی واہیات بات کروں گا۔ لیکن جب میں نے اس کے کان میں پھر کہا کہ مجھے واقعی ایک لڑکی کی اشد ضرورت ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا:

’’شاہ جی : تُسیں جو حکم دیو۔ بندہ حاضر اے۔ ایسی تگڑی کُڑی لے کے آواں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے۔ ‘‘

تانگے والا چلا گیا اور ہم واپس اپنے فلیٹ میں آ گئے۔ شام کا وقت تھا جب وہ یہ مہم سر کرنے کے لیے گیا تھا۔ ہم دیر تک انتظار کرتے رہے۔ طرح طرح کے خیالات میرے دل میں آتے تھے وہ لڑکی کس قسم کی ہو گی ٗ کہیں کوئی بازاری عورت تو نہ نکل آئے گی۔ ہم جب انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو تاش کھیلنا شروع کر دی۔ رات کے بارہ بج گئے۔ ہم مایوس ہو کر باہر نکلے تو دیکھا کہ تانگے والا گھوڑے کے چابک لگاتا چلا آرہا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ تانگے والے نے مجھ سے کہا:

’’شاہ جی! جو مال میں لینے گیا تھا وہ دِساور چلا گیا ہے۔ اب یہ دوسرا مال بڑی کوششوں سے ڈھونڈ کر لایا ہوں۔ ‘‘

میں نے اس کو پانچ روپے دیے۔ پھر ہم چاروں دوست سوچنے لگے کہ اس برقع پوش عورت کو کہاں لے جائیں۔ اپنے فلیٹ میں لے جانا ٹھیک نہیں تھا اس لیے کہ ذمہ داری تھی۔ لوگ چہ میگوئیاں کرتے۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا۔ خواہ مخواہ ایک فضیحتا ہو جاتا۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے دوست رحمان کے پاس چلیں۔ رات کے ایک بجے کے قریب ہم اس برقع پوش عورت کے ہمراہ رحمن کے مکان پر پہنچے۔ بہت دیر تک دستک دینے کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ کمبل اوڑھے تھا اسے غالباً بخار تھا۔ میں نے ساری بات دبی زبان میں بتائی تو اس نے بھی دبی زبان ہی میں کہا:

’’شاہ جی۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ میرا مکان حاضر ہے ٗ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ اس مہینے کی بیس تاریخ کو میری شادی ہونے والی ہے۔ میرا سالا اندر ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ سلسلہ جو آپ چاہتے ہیں ٗ کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘

کچھ دیر۔ میری سمجھ میں نہ آیا اس سے کیا کہوں۔ لیکن تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس کو ڈانٹا۔

’’یار! تم نرے کھرے بے وقوف ہو۔ اپنے سالے کو چلتا کرو۔ ہم اتنی دور سے تمہارے پاس آئے ہیں۔ کیا تم میں اتنی مروّت بھی باقی نہیں رہی۔ بیس تاریخ کو تمہاری شادی آ رہی ہے ٗ ٹھیک ہے۔ لیکن آج میری شادی ہے۔ یہ میری دلہن برقع پہنے تانگے میں بیٹھی ہے۔ تمہیں اپنے دوستوں کا کچھ تو خیال آنا چاہیے۔ ‘‘

رحمان کو میری حالت پر کچھ ترس آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے سالے کو جگایا اور اس کو اپنے بخار کیلیے کوئی ضروری دوا لینے کے لیے باہر بھیج دیا ٗ شہر میں قریب قریب کیمسٹوں کی سب دکانیں بند تھیں۔ لیکن اس نے اپنے سالے سے کہا :

’’شہر کی دکانیں دیکھو جہاں سے بھی تمہیں یہ دوا ملے لے کر آؤ !‘‘

لڑکا برخوردار قسم کا تھا۔ نسخہ لے کر آنکھیں ملتا چلا گیا ! اس غریب کو تانگہ بھی شاید نظر نہ آیا۔ جس میں برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میں نے سوچا۔ کہ ہجوم ٹھیک نہیں ہو گا۔ معلوم نہیں میرے دوست کیا حرکتیں کریں ٗ چنانچہ میں نے ان کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ تانگے میں واپس چلے جائیں۔ پانچ روپے تانگے والے کو اور دے دئیے مگر اس نے برقع پوش سواری اتاری تو کہا:

’’حضور: اس کی فیس تو دیتے جائیے۔ ‘‘

میں نے پوچھا کتنی ہے۔

’’پچیس روپے‘‘

میں نے جیب سے نوٹ نکالے اور گن کر پانچ پانچ کے پانچ نوٹ اس کے حوالے کر دئیے اور اس برقع پوش عورت کو اپنے دوست کے مکان میں لے آیا۔ ‘‘

رحمان کو بخار تھا۔ وہ علیحدہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا میں بہت دیر تک اس برقع پوش عورت سے گفتگو کرتا رہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اپنے چہرے سے نقاب ہی ہٹایا۔ میں تنگ آگیا۔ اس کو ٹٹولا۔ تو وہ بالکل سپاٹ تھی۔ آخر میں نے زبردستی اس کا برقع الٹ دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب دیکھا کہ وہ عورت نہیں۔ ہیجڑا تھا۔ نہایت مکروہ قسم کا۔ ! مجھے سخت غصّہ آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ٗ

’’یہ کیا واہیات پن ہے۔ ‘‘

اس ہیجڑے نے جس کے چہرے پر روؤں کا نیلا نیلا غبار موجود تھا ٗ بڑے نسوانی انداز میں جواب دیا ٗ

’’میں۔ تانگے والے کا بھائی ہوں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اس کے بعد مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب ! اس دن کے بعد مجھے اس سلسلے سے کوئی رغبت نہیں رہی۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پیرن

یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بے حد مفلس تھا۔ بمبئی میں نو روپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کا نل تھا نہ بجلی۔ ایک نہایت ہی غلیظ کوٹھڑی تھی جس کی چھت پر سے ہزار ہا کھٹمل میرے اوپر گرا کرتے تھے۔ چوہوں کی بھی کافی بہتات تھی۔ اتنے بڑے چوہے میں نے پھر کبھی نہیں دیکھے۔ بلیاں ان سے ڈرتی تھیں۔ چالی یعنی بلڈنگ میں صرف ایک غسل خانہ تھا۔ جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صبح سویرے چالی کی عورتیں پانی بھرنے کے لیے اس غسل خانے میں جمع ہوتی تھیں۔ یہودی، مرہٹی، گجراتی، کرسچین۔ بھانت بھانت کی عورتیں۔ میرا یہ معمول تھا کہ ان عورتوں کے اجتماع سے بہت پہلے غسل خانے میں جاتا، دروازہ بھیڑتا اور نہانا شروع کردیتا۔ ایک روز میں دیر سے اٹھا۔ غسل خانے میں پہنچ کر نہانا شروع کیا تو تھوڑی دیر کے بعد کھٹ سے دروازہ کھلا۔ میری پڑوسن تھی۔ بغل میں گاگر دبائے اس نے معلوم نہیں کیوں ایک لحظے کے لیے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر ایک دم پلٹی۔ گاگر اس کی بغل سے پھسلی اور فرش پر لڑھکنے لگی۔ ایسی بھاگی جیسے کوئی شیر اس کا تعاقب کررہا ہے۔ میں بہت ہنسا، اٹھ کر دروازہ بند کیا اور نہانا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ برج موہن تھا۔ میں نہا کے فارغ ہو چکا تھا اور کپڑے پہن رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’بھئی منٹو آج اتوار ہے۔ ‘‘

مجھے یاد آگیا کہ برج موہن کو باندرہ جانا تھا، اپنی دوست پیرن سے ملنے کے لیے۔ وہ ہر اتوار کو اس سے ملنے جاتا تھا۔ وہ ایک معمولی سی شکل و صورت کی پارسی لڑکی تھی جس سے برج موہن کا معاشقہ قریباً تین برس سے چل رہا تھا۔ ہر اتوار کوبرج موہن مجھ سے آٹھ آنے ٹرین کے کرائے کے لیے لیتا۔ پیرن کے گھرپہنچتا۔ دونوں آدھے گھنٹے تک آپس میں باتیں کرتے برج موہن اسٹرٹیڈ ویکلی کے کراس ورڈ پزل کے حل اس کو دیتا اور چلا آتا۔ وہ بیکار تھا۔ سارا دن سرنیوڑھائے یہ پزل اپنی دوست پیرن کے لیے حل کرتا رہتا تھا۔ اس کو چھوٹے چھوٹے کئی انعام مل چکے تھے مگر وہ سب پیرن نے وصول کیے تھے۔ برج موہن نے ان میں سے ایک دمڑی بھی اس سے نہ مانگی تھی۔ برج موہن کے پاس پیرن کی بے شمار تصویریں تھیں۔ شلوار قمیض میں چست پاجامے میں، ساڑھی میں، فراک میں، بیڈنگ کسٹیوم میں، فینسی ڈریس میں۔ غالباً سو سے اوپر ہو گی۔ پیرن قطعاًٰ خوبصورت نہیں تھی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت ہی ادنیٰ شکل و صورت کی تھی لیکن میں نے اپنی اس رائے کا اظہار برج موہن سے کبھی نہیں کیا تھا۔ میں نے پیرن کے متعلق کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے، کیا کرتی ہے، برج موہن سے اس کی ملاقات کیسے ہوئی، عشق کی ابتدا کیوں کر ہوئی۔ کیا وہ اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟۔ برج موہن نے بھی اس کے بارے میں مجھ سے کبھی بات چیت نہ کی تھی۔ بس ہر اتوار کو وہ ناشتے کے بعد مجھ سے آٹھ آنے کرائے کے لیتا اور اس سے ملنے کے لیے باندرہ روانہ ہو جاتا اور دوپہر تک لوٹ آتا۔ میں نے کھولی میں جا کر اس کو آٹھ آنے دیے، وہ چلا گیا۔ دوپہرکو لوٹا تو اس نے خلافِ معمول مجھ سے کہا۔

’’آج معاملہ ختم ہو گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کونسا معاملہ؟‘‘

مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس معاملے کی بات کررہا ہے۔ برج موہن نے سوچا جیسے اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔

’’مجھ سے کہا۔ پیرن سے آج دو ٹوک فیصلہ ہو گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا۔ جب بھی تم سے ملنا شروع کرتا ہوں مجھے کام نہیں ملتا۔ تم بہت منحوس ہو۔ اس نے کہا بہتر ہے، ملنا چھوڑ دو۔ دیکھوں گی تمہیں کیسے کام ملتا ہے۔ میں منحوس ہوں، مگر تم اول درجے کے نکھٹو اور کام چور ہو۔ سو اب یہ قصہ ختم ہو گیا ہے اور میرا خیال ہے انشاء اللہ کل ہی مجھے کام مل جائے گا۔ صبح تم مجھے چار آنے دینا۔ میں سیٹھ نانو بھائی سے ملوں گا، وہ مجھے ضرور اپنا اسسٹنٹ رکھ لے گا۔ ‘‘

یہ سیٹھ نانو بھائی جو فلم ڈائریکٹر تھا متعدد مرتبہ برج موہن کو ملازمت دینے سے انکار کر چکا تھا۔ کیونکہ اس کا بھی پیرن کی طرح یہی خیال تھا کہ وہ کام چور اور نکما ہے لیکن دوسرے روز جب برج موہن مجھ سے چار آنے لے کر گیا تو دوپہر کو اس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ سیٹھ نانو بھائی نے بہت خوش ہو کر اسے ڈھائی سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے۔ کنٹریکٹ ایک برس کا ہے جس پر دستخط ہو چکے ہیں پھر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو روپے نکالے اور مجھے دکھائے۔

’’یہ ایڈوانس ہے۔ جی تو میرا چاہتا ہے کنٹریکٹ اور سوروپے لے کر باندرہ جاؤں اور پیرون سے کہوں کہ لو دیکھو، مجھے کام مل گیا ہے، لیکن ڈر ہے کہ نانو بھائی مجھے فوراً جواب دے دے گا۔ میرے ساتھ ایک نہیں کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔ ادھرملازمت ملی، ادھر پیرن سے ملاقات ہوئی۔ معاملہ صاف۔ کسی نہ کسی بہانے مجھے نکال باہر کیا گیا۔ خدا معلوم اس لڑکی میں یہ نحوست کہاں سے آگئی۔ اب میں کم از کم ایک برس تک اس کا منہ نہیں دیکھوں گا۔ میرے پاس کپڑے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک برس لگا کر کچھ بنوالوں تو پھر دیکھا جائے گا۔ ‘‘

چھ مہینے گزر گئے۔ برج موہن برابر کام پر جارہا تھا۔ اس نے کئی نئے کپڑے بنوا لیے تھے۔ ایک درجن رومال بھی خرید لیے تھے۔ اب وہ تمام چیزیں اس کے پاس تھیں جو ایک کنوارے آدمی کے آرام و آسائش کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ایک روز وہ اسٹوڈیو گیا ہوا تھا کہ اس کے نام ایک خط آیا۔ شام کو جب وہ لوٹا تومیں اسے یہ خط دینا بھول گیا۔ صبح ناشتے پر مجھے یاد آیا تو میں نے یہ خط اس کے حوالے کردیا۔ لفافہ پکڑتے ہی وہ زور سے چیخا۔

’’لعنت!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

وہی پیرن۔ اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے چمچ سے لفافہ کھول کر خط کا کاغذ نکالا اور مجھ سے کہا۔

’’وہی کم بخت ہے۔ میں کبھی اس کا ہینڈرائٹنگ بھول سکتا ہوں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا لکھتی ہے؟‘‘

’’میرا سر۔ کہتی ہے مجھ سے اس اتوار کو ضرور ملو۔ تم سے کچھ کہنا ہے۔

’’یہ کہہ کر برج موہن نے خط لفافے میں ڈ الا اور جیب میں رکھ لیا۔ لو بھئی منٹو، نوکری سے انشاء اللہ کل ہی جواب مل جائے گا۔ ‘‘

’’کیا بکواس کرتے ہو۔ ‘‘

موہن نے بڑے وثوق سے کہا۔

’’نہیں منٹو تم دیکھ لینا۔ کل اتوار ہے۔ پرسوں منٹو بھائی کو ضرور مجھ سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہو گی اور وہ مجھے فوراً نکال باہر کرے گا۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’اگر تمہیں اتنا وثوق ہے تو مت جاؤ اس سے ملنے۔ ‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بلائے تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ملازمت کرتے کرتے کچھ میں بھی اکتا چکا ہوں۔ چھ مہینے سے اوپر ہو گئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور چلا گیا۔ دوسرے روز ناشتہ کرکے وہ باندرہ چلا گیا۔ پیرن سے ملاقات کرکے لوٹا۔ تو اس نے اس ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’مل آئے اپنے منحوس ستارے سے؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ اس سے کہہ دیا کہ ملازمت سے بہت جلد جواب مل جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کھاٹ پر سے اٹھا۔

’’چلو آؤ کھانا کھائیں۔ ‘‘

ہم دونوں نے حاجی کے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران میں پیرن کی کوئی بات نہ ہوئی۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے صرف اتنا کہا۔

’’اب دیکھیے کل کیا گل کھلتا ہے۔ ‘‘

میرا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مگر دوسرے روز برج موہن خلافِ معمول اسٹوڈیو سے جلدی لوٹ آیا مجھ سے ملا تو خوب زور سے ہنسا

’’اور دونوں بھائی۔ میں نے سمجھا مذاق کررہا ہے۔

’’ہٹاؤ جی۔ ‘‘

’’جو ہٹنا تھا وہ تو ہٹ گیا۔ اب میں کیسے ہٹاؤں۔ سیٹھ نانو بھائی پر ٹانچ آگئی ہے۔ اسٹوڈیو سیل ہو گیا ہے۔ میری وجہ سے خواہ مخواہ بیچارے نانو بھائی پر بھی آفت آئی۔ ‘‘

یہ کہہ کر برج موہن پھر ہنسنے لگا۔ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’یہ عجیب سلسلہ ہے!‘‘

’’دیکھ لو۔ اسے کہتے ہیں ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ ‘‘

برج موہن نے سگریٹ سلگایا اور کیمرہ اٹھا کر باہر گھومنے چلا گیا۔ برج موہن اب بیکار تھا۔ جب اس کی جمع پونجی ختم ہو گئی تو اس نے ہر اتوار کو پھرمجھ سے باندرہ جانے کے لیے آٹھ آنے مانگنے شروع کر دیے۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں آدھ پون گھنٹے میں وہ پیرن سے کیا باتیں کرتا تھا۔ ویسے وہ بہت اچھی گفتگو کرنے والا تھا۔ مگر اس لڑکی سے جس کی نحوست کا اس کو مکمل طور پر یقین تھا وہ کس قسم کی باتیں کرتا تھا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا۔

’’برج، کیا پیرن کو بھی تم سے محبت ہے؟‘‘

’’نہیں، وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔ ‘‘

’’تم سے کیوں ملتی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ میں ذہین ہوں، اس کے بھدے چہرے کو خوبصورت بنا کر پیش کرسکتا ہوں۔ اس کے لیے کراس ورڈ پزل حل کرتا ہوں۔ کبھی کبھی اس کو انعام بھی دلوا دیتا ہوں۔ منٹو، تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ میں خوب پہچانتا ہوں انھیں۔ جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس میں جو کمی ہے، مجھ سے مل کر پوری کرلیتی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔

’’بڑی چار سوبیس ہے!‘‘

میں نے قدرے حیرت سے پوچھا۔

’’مگر تم کیوں اس سے ملتے ہو؟‘‘

برج موہن ہنسا، چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ کر اس نے کہا۔

’’مجھے مزا آتا ہے۔ ‘‘

’’کس بات کا۔ ‘‘

’’اس نحوست کا۔ میں اس کا امتحان لے رہا ہوں۔ اس کی نحوست کا امتحان۔ یہ نحوست اپنے امتحان میں پوری اتری ہے۔ میں نے جب بھی اس سے ملنا شروع کیا، مجھے اپنے کام سے جواب ملا۔ اب میری ایک خواہش ہے کہ اس کے منحوس اثر کو چکمہ دے جاؤں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

برج موہن نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ملازمت سے جواب ملنے سے پہلے ملازمت سے علیحدہ ہو جاؤں، یعنی خود اپنے آقا کو جواب دے دوں اس سے بعد میں کہوں، جناب مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے برطرف کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں نے آپ کو زحمت نہ دی اور خود علیحدہ ہو گیا اور آپ مجھے برطرف نہیں کررہے تھے، یہ میری دوست پیرن تھی جس کی ناک کیمرے میں اس طرح گھستی ہے جیسے تیر!‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’یہ میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے، دیکھو پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’عجیب و غریب خواہش ہے۔ ‘‘

’’میری ہر چیز عجیب و غریب ہوتی ہے۔ پچھلے اتوارمیں نے پیرن کے اس دوست کے لیے جس سے وہ محبت کرتی ہے، ایک فوٹو تیار کرکے دیا۔ الو کی دم اسے کمپی ٹیشن میں بھیجے گا۔ یقینی طور پر انعام ملے گا اسے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔ برج موہن واقعی عجیب و غریب آدمی تھا۔ وہ پیرن کے دوست کو کئی بار فوٹو تیار کرکے دے چکا ہے۔ السٹریٹڈویکلی میں یہ فوٹو اس کے نام سے چھپتے تھے اور پیرن بہت خوش ہوتی تھی۔ برج موہن ان کو دیکھتا تھا تو مسکرا دیتا تھا۔ وہ پیرن کے دوست کی شکل صورت سے ناآشنا تھا، پیرن نے برج موہن سے اس کی ملاقات تک نہ کرائی تھی۔ صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کسی مل میں کام کرتا ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ ایک اتوار کو برج باندرہ سے واپس آیا تو اس نے مجھ سے کہا۔

’’لو بھئی منٹو، آج معاملہ ختم ہو گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’پیرن والا؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ کپڑے ختم ہو رہے تھے، میں نے سوچا کہ یہ سلسلہ ختم کرو۔ اب انشاء اللہ دنوں ہی میں کوئی نہ کوئی ملازمت مل جائے گی۔ میرا خیال ہے سیٹھ نیاز علی سے ملوں۔ اس نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کل ہی جاؤں گا۔ تم یار ذرا اس کے دفتر کا پتا لگا لینا۔ میں نے اس کے دفتر کا نیا فون ایک دوست سے پوچھ کر برج موہن کو بتا دیا۔ وہ دوسرے روز وہاں گیا۔ شام کو لوٹا۔ اس کے مطمئن چہرے پرمسکراہٹ تھی۔

’’لو بھئی منٹو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے جیب سے ٹائپ شدہ کاغذ نکالا اور میری طرف پھینک دیا۔

’’ایک پکچر کا کنٹریکٹ۔ تنخواہ دو سو روپے ماہوار۔ کم ہے۔، لیکن سیٹھ نیاز علی نے کہا ہے، بڑھا دوں گا۔ ٹھیک ہے!‘‘

میں ہنسا۔

’’اب پیرن سے کب ملو گے؟‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’کب ملوں گا؟‘‘

میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے اس سے کب ملنا چاہیے۔ منٹو یار، میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک میری چھوی سی خواہش ہے، بس وہ پوری ہو جائے۔ میرا خیال ہے مجھے اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ذرا میرے تین چار جوڑے بن جائیں۔ پچاس روپے ایڈوانس لے کر آیا ہوں پچیس تم رکھ لو۔ ‘‘

پچیس میں نے لیے۔ ہوٹل والے کا قرض تھا جو فوراً چکا دیا گیا۔ ہمارے دن بڑی خوشحالی میں گزرنے لگے۔ سو روپیہ ماہوار میں کما لیتا تھا۔ دو سو روپے ماہانہ برج موہن لے آتا تھا۔ بڑے عیش تھے۔ پانچ مہینے گزر گئے کہ اچانک ایک روز پیرن کا خط برج موہن کو وصول ہوا۔

’’لو بھئی منٹو، عزرائیل صاحب تشریف لے آئے۔ ‘‘

صحیح بات ہے کہ میں نے اس وقت خط دیکھ کر خوف سا محسوس کیا مگر برج موہن نے مسکراتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ خط کا کاغذ نکال کر پڑھا۔ بالکل مختصر تحریر تھی۔ میں نے برج سے پوچھا۔

’’کیا فرماتی ہیں؟‘‘

’’فرماتی ہیں، اتوار کو مجھ سے ضرور ملو۔ ایک اشد ضروری کام ہے۔ ‘‘

برج موہن نے خط لفافے میں واپس ڈال کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’جاؤگے؟‘‘

’’جانا ہی پڑے گا۔ ‘‘

پھر اس نے یہ فلمی گیت گانا شروع کردیا۔

’’مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا!‘‘

مت نے اس سے کہا۔

’’برج مت جاؤ اس سے ملنے۔ بڑے اچھے دن گزر رہے ہیں ہمارے۔ تم نہیں جانتے، میں خدا معلوم کس طرح تمہیں آٹھ آنے دیا کرتا تھا۔ ‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’مجھے سب معلوم ہے، لیکن افسوس ہے کہ اب وہ دن پھرآنے والے ہیں۔ جب تم خدا معلوم کس طرح مجھے ہر اتوار آٹھ آنے دیا کرو گے!‘‘

اتوار کو برج، پیرن سے ملنے باندرہ گیا۔ واپس آیا تو اس نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔

’’میں نے اس سے کہا، یہ بارھویں مرتبہ ہے مجھے تمہاری نحوست کی وجہ سے برطرف ہونا پڑے گا۔ تم پر زحمت ہو زرتشت کی!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’اس نے یہ سن کر کچھ کہا۔ ‘‘

برج نے جواب دیا۔

’’فقط یہ۔ تم سلی ایڈیٹ ہو!‘‘

’’تم ہو؟‘‘

’’سو فی صدی!‘‘

یہ کہہ کر برج ہنسا۔

’’اب میں کل صبح دفتر جاتے ہی استعفیٰ پیش کردینے والا ہوں۔ میں نے وہیں پیرن کے ہاں لکھ لیا تھا۔ ‘‘

برج موہن نے مجھے استعفے کا کاغذ دکھایا۔ دوسرے روز خلافِ معمول اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو لوٹا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ مجھے ہی بالآخر اس سے پوچھنا پڑا۔

’’کیوں برج، کیا ہوا؟‘‘

اس نے بڑی امیدی سے سر ہلایا،

’’کچھ نہیں۔ سارا قصہ ہی ختم ہو گیا۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں نے سیٹھ نیاز علی کو اپنا استعفےٰ پیش کیا تو اس نے مسکرا کر مجھے ایک آفیشل خط دیا۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ میری تنخواہ پچھلے مہینے سے دو سو کے بجائے تین سو روپے ماہوار کردی گئی ہے؟‘‘

پیرن سے برج موہن کی دلچسپی ختم ہو گئی اس نے مجھ سے ایک روز کہا

’’پیرن کی نحوست ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی ختم ہو گئی۔ اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب کون مجھے بیکار رکھنے کاموجب ہو گا!‘‘

27جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

پہچان

ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایک ایسی عورت تلاش کی جائے جو ہوٹل اور وسکی کے پیدا کردہ تکدّر کو دُور کر سکے۔ کوئی ایسی عورت ڈھونڈی جائے جو ہوٹل کی کثافت کے مقابلے میں نفاست پسند اور بدذائقہ وسکی کے مقابلہ میں لذیذ ہو۔ فخر نے ہوٹل کی غلیظ فضا سے باہر نکلتے ہی مجھ سے اور مسعودسے کہا۔

’’کوئی دانے دار عورت ہو۔۔۔۔۔۔ اچھے گویّے کے گلے کی طرح اس میں بڑے بڑے دانے ہوں۔۔۔۔ خدا کی قسم طبیعت صاف ہو جائے۔ ‘‘

وسکی دانوں سے بالکل خالی تھی۔ سوڈا بھی بالکل بے جان تھا۔ غالباً اسی وجہ سے فخر دانے دار عورت کا قائل ہو رہا تھا۔ ہم تینوں عورت چاہتے تھے۔ فخر دانے دار عورت چاہتا تھا۔ مجھے ایسی عورت مطلوب تھی جو بڑے سلیقے سے واہیات باتیں کرے۔۔۔۔۔۔ اور مسعود کو ایسی عورت کی ضرورت تھی۔ جس میں بنیا پن نہ ہو۔ اپنی فیس کے روپے لے کر ٹرنک میں جہاں اس کا جی چاہے رکھے اور کچھ عرصے کے لیے بھول جائے کہ سودا کر رہی ہے۔ اس بازار کا راستہ ہم جانتے تھے۔ جہاں عورتیں مل سکتی ہیں۔ کالی، نیلی پیلی، لال اور جامنی رنگ کی عورتیں۔ پیڑوں کی طرح ان کے مکان ایک قطار میں دُور تک دوڑتے چلے گئے ہیں۔ یہ رنگ برنگی عورتیں ان پکے ہوئے پھلوں کے مانند لٹکی رہتی ہیں۔ آپ نیچے سے ڈھیلا مار کر اسے گرا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ عورتیں مطلوب نہیں تھیں۔ دراصل ہم اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتے تھے۔ ہم ایسی عورت یا عورتیں چاہتے تھے۔ جو عرفِ عام میں پرائیویٹ ہوں یعنی جو منڈی کے ہجوم سے نکل کر علیحدہ شریف محلوں میں اپنا کاروبار چلا رہی ہوں۔ ہم تینوں میں فخر سب سے زیادہ تجربہ کار تھا۔ قوتِ ارادی بھی اس میں ہم سب سے زیادہ تھی۔ ایک تانگے والا جب ہمارے پاس سے گزرا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔ اور بغیر کسی جھجک کے معنی خیز لہجے میں اُس سے کہا ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟‘‘

تانگے والے نے جو سنجیدہ اور متین آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ہم تینوں کی طرف باری باری دیکھا۔ میں جھینپ سا گیا۔ خاموشی ہی خاموشی میں وہ ہم سے کہہ گیا تھا۔

’’تم جوانوں کو شراب پی کر یہ کیا ہو جاتا ہے؟‘‘

’’فخر نے دوبارہ اس سے کہا: ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟ پھرتو واقعی اسے کچھ خیال آیا اور اپنا مطلب اور زیادہ واضح کر دیا۔

’’کوئی مال وال ہے تمہاری نگاہ میں؟‘‘

مسعوداور میں دونوں ایک طرف کھسک گئے مسعود نے گھبرا کر مجھ سے کہا۔

’’یہ فخر کیسا آدمی ہے اسے کچھ سمجھاؤ۔ ‘‘

مسعود سے میں کچھ کہنے ہی والا تھا۔ کہ فخر نے آواز دی۔

’’آؤ بھئی آؤ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو تانگے میں۔ ‘‘

ہم تینوں تانگے میں بیٹھ گئے۔ مجھے اگلی نشست پر جگہ ملی۔ دسمبر کے آخری دن تھے۔ وقت کے آٹھ بج چکے تھے۔ وسکی پینے کے باوجود ہمیں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ (میں) چونکہ اگلی نشست پر تھا۔ اور تینوں میں سے سب سے کمزور تھا۔ اس لیے میرے کان سُن ہو رہے تھے۔ جب تانگہ ڈفرن برج کے نیچے اُترا تو میں نے مفلر نکال کر کانوں اور سر پر لپیٹ لیا۔ اور اوورکوٹ کا کالر بھی اونچا کر لیا۔ سانس گھوڑے کے نتھنوں سے بھاپ بن کر باہر نکل رہا تھا ہم تینوں خاموش تھے۔ تانگے والا موٹے اور کُھردرے کمبل میں لپٹا خاموشی سے اپنا تانگہ چلا رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ سنجیدگی اس کے چہرے پر ٹھٹھر سی رہی تھی۔ جو مجھے بہت بُری معلوم ہوئی۔ چنانچہ میں نے فخر سے کہا۔ فخر یہ آدمی کیسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کاسٹرول پی کر بیٹھا ہے۔ ‘‘

تانگے والا میرے اس ریمارک پر بھی خاموش رہا۔ فخر نے کہا۔ زیادہ باتیں کرنے والے آدمی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہمارا مطلب سمجھ گیا ہے۔ لے چلے گا۔ جہاں اچھی چیز ہوئی۔ ‘‘

مسعود سگریٹ سُلگا رہا تھا۔ ایک دم بولا۔ ‘‘

واللہ عورت کتنی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت عورت کم ہے چیز زیادہ ہے۔ میں نے اس کو ذرا اور خوبصورت بنا کر کہا۔

’’مسعود چیز نہیں۔۔۔۔۔۔ چیز سی۔ ‘‘

شاعر آدمی تھا بھڑک اُٹھا۔ واللہ کیا بات پیدا کی ہے۔ چیز نہیں چیز سی۔۔۔۔۔سو میاں تانگے والے چیز اور چیز سی میں جو فرق ہے۔ اس کا دھیان رکھنا۔ ‘‘

تانگے والا خاموش رہا۔ اب میں نے اس کی طرف زیادہ غور سے دیکھا۔ مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ عمر پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ پتلی پتلی مونچھیں تھیں۔ جن کے بال نیچے کو جھکے ہوئے تھے۔ سردی کے باعث چونکہ اس نے کمبل کا ڈھاٹا سا بنا رکھا تھا۔ اس لیے اس کا پورا چہرہ نظر نہ آتا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر فخر سے پوچھا۔ کہاں لے جا رہا ہے ہمیں؟َ‘‘

فخر نے جو زیادہ سوچ بچار کا عادی نہیں تھا۔ جواب دیا۔ اتنے بیتاب کیوں ہوتے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر کے بعد چیز تمہارے سامنے آ جائے گی۔ ‘‘

مسعود نے اس پر فخر سے کہا۔

’’تم سے کیا بات ہوئی ہے اس کی؟‘‘

فخر نے جواب دیا۔

’’روشن آراروڈ پر۔۔۔۔۔۔۔ کچھ میمیں رہتی ہیں۔ کہتا ہے ہمارے کام کی ہیں۔ ‘‘

میموں کا نام سُن کر مسعود کو اپنے ایک دوست کی نظم یاد آ گئی۔ اس کا حوالہ دیکر اُس نے کہا۔ تو چلو آج لگے ہاتھوں اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔ واللہ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تانگے والا صاحبِ ذوق ہے۔ وہ نظم ضرور پڑھی ہو گئی اُس نے۔ ‘‘

اس کے بعد دیر تک میموں کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ میں اور مسعود میموں کے بالکل قائل نہیں تھے۔ لیکن فخر کو عورتوں کی یہ قسم پسند تھی‘‘

ان کا علم سائنٹیفک ہوتا ہے یعنی یہ عورتیں بڑے سائنٹیفک طریقے پر اپنا کاروبار چلاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مشرقی عورتوں کو رکھیے تو وہی نظر آئے گا جو ہمارے یہاں کی ریوڑی اور وہاں کی ٹافی میں ہے۔ بھئی دراصل بات یہ ہے کہ ان میموں کا پیکنگ بڑا اچھا ہوتا ہے‘‘

میں نے کہا۔ فخر! ممکن ہے تمہارا نظریہ درست ہو مگر بھائی میں ایسے موقعوں پر زبان کی مشکلات برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنے دفتر میں بڑے صاحب کے ساتھ انگریزی بول سکتا ہوں۔ میں یہاں دہلی میں رہ کر اس تانگے والے سے اُردو میں بات چیت کرنا گوارہ کر سکتا ہوں۔ مگر اس موقعہ پر انگریزی میں گفتگو نہیں کر سکتا۔ میری پتلون انگریزی، میری ٹائی انگریزی، میرا شو انگریزی۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں انگریزی میں ہو سکتی ہیں۔ مگر خدا کے لیے وہ چیز مجھ سے انگریزی میں کیسے ہو سکتی ہے‘‘

فخر اپنا نظریہ بھول کر ہنسنے لگا۔ مسعود شاید ابھی تک اپنے دوست کی لکھی ہوئی نظم پر غور کر رہا تھا۔ جس میں شاعر نے ایک فرنگی عورت کے ہونٹ چُوس کر اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دفعتہ چونک کر اُس نے کہا۔ ‘‘

کیوں بھئی یہ تانگہ کب تک چلتا رہے گا؟‘‘

تانگے والے نے ایک دم باگیں کھینچ کر تانگہ ٹھہرا دیا۔ اور فخر سے کہا‘‘

وہ جگہ آ گئی صاحب۔ آپ اکیلے چلیے گا یا۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ہم تینوں تانگے والے کے پیچھے پیچھے چل دئیے۔ ایک نیم روشن گلی میں وہ ہمیں لے گیا۔ دلی کی دوسری گلیوں سے یہ گلی کچھ مختلف تھی۔ اس لیے کہ بہت چوڑی تھی۔ دائیں ہاتھ کو ایک منزلہ مکان تھا۔ جس کی کھڑکیوں، دروازوں پر چقیں لٹکی ہوئی تھیں۔ ایک دروازے کی چق اٹھا کر تانگے والا اندر داخل ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد باہر آیا۔ اور ہمیں اندر لے گیا۔ کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے جب کہا۔

’’بھائی ہم کہیں اوندھے منہ نہ گر پڑیں‘‘

تو دوسرے کمرے سے کسی عورت کی بھدّی آواز سنائی دی۔ لالٹین تو لے گیا ہوتا تو‘‘

اور تھوڑی ہی دیر کے بعد تانگے والا ایک اندھی سی لالٹین لے کر نمودار ہوا۔ چلیے اندر تشریف لے چلیے۔ ‘‘

ہم تینوں اندر تشریف لے گئے۔ دو کالی بھجنگی انتہائی بدصورت عورتیں نظر آئیں۔ جنہوں نے ڈھیلے ڈھیلے فراک پہن رکھے تھے۔۔۔۔یہ میمیں تھیں۔ میں نے اپنی ہنسی روک کر فخر سے کہا۔

’’کیا لذیذ ٹافیاں ہیں‘‘

میری یہ بات سن کر ان میموں میں سے ایک جس کا سیاہ چہرہ سُرخی لگانے کے باعث زیادہ پکّی ہوئی اینٹ کی سی رنگت اختیار کر گیا تھا۔ ہنسی۔۔۔۔۔ میں بھی ہنس دیا اور بڑے پیار سے پوچھا

’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘

بولی۔

’’لوسی‘‘

شاعر مسعود نے آگے بڑھ کر دوسری سے پوچھا۔

’’آپ کا؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’میرؔ ی۔ ‘‘

فخر بھی آگے بڑھ آیا۔

’’کیوں صاحب آپ کام کیا کرتی ہیں؟‘‘

دونوں لجا گئیں۔ ایک نے ادا سے کہا۔

’’کیسا بات کرتا ہے تم؟‘‘

دوسری نے کہا۔ چلو جلدی کرو۔ رہنا مانگتا ہے یا نہیں ہمیں روٹی پکانا ہے‘‘

میں نے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ تو گیلے آٹے سے بھرے ہوئے تھے۔ اور وہ اس کی مروڑیاں بنا رہی تھی۔ تانگے والا قطعی طور ہمیں غلط جگہ لے آیا تھا مروڑیاں اس کے ہاتھوں سے کچّے فرش پر گر رہی تھیں۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اناج رو رہا ہے اور یہ مروڑیاں اس کے آنسو ہیں۔ ہم تینوں کے تینوں اس مکان میں آکر سخت پریشان ہو گئے۔ مگر ہم اپنی پریشانی ان دو عورتوں پر ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں سخت نااُمیدی ہوئی تھی۔ اگر ہم ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیتے کہ تم ہمارے مطلب کی نہیں ہو تو ضرور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی۔ عورت جس کے ہاتھ آٹے سے لتھڑے ہوں ایسے جذبات سے عاری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اُن دونوں کی تعریف کی۔ فخر نے بھی میرا ساتھ دیا۔ پھر ہم تینوں جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے وہاں سے نکل آئے۔ تانگے والا ہمارا مطلب سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ اسے چند لمحات کے لیے وہاں ٹھہرنا پڑا۔ جب وہ باہر نکلا۔ تو فخر نے اس سے کہا۔

’’تم انھیں میمیں کہتے ہو؟‘‘

تانگے والے نے بڑی متانت کے ساتھ جواب دیا۔

’’لوگ یہی کہتے ہیں صاحب‘‘

لوگ جھک مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خیال کیا تھا کہ تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خدا کے لیے کسی ایسی جگہ لے چلو، جہاں ہم چند گھڑیاں اپنا دل بہلا سکیں۔ ‘‘

مسعود نے تینوں کا اجتماعی مقصد اور زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی۔ دیکھو ہم ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں۔ جہاں کچھ عرصے کے لیے بیٹھ سکیں۔۔۔۔۔ ہمیں ایسی عورت کے پاس لے چلو جو باتیں کرنے کا سلیقہ رکھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی ہم کورے نہیں ہیں کسی فوج کے سپاہی نہیں ہیں۔ تین شریف آدمی ہیں۔ جنہیں عورت سے بات چیت کیے برسوں گزر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’تو چلیے بیٹھیے آپ کو صدر بازار لے چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘

فخر نے پوچھا

’’کون ہے وہاں؟‘‘

تانگے والے نے گھوڑے کی باگیں تھام کر جواب دیا۔ ایک پنجابن ہے بہت لوگ آتے ہیں اُس کے پاس۔ ‘‘

تانگے نے پنجابن کے گھر کا رُخ کیا۔ راستے میں ان دو میموں کا ذکر چھڑ گیا۔ ہم میں سے ہر ایک کو وہاں جانے کا افسوس تھا۔ اس لیے کہ ہم سب سے زیادہ وہ نااُمید ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو کچھ روپے دے دئیے ہوتے۔ مگر یہ بھیک ہو جاتی۔۔۔۔۔ فخر نے ہماری اس گفتگو میں زیادہ حصّہ نہ لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔ لیکن جب تک تانگہ پنجابن کے گھر تک، نہ پہنچا ان کا ذکر ہوتا رہا۔ تانگہ ایک فراخ بازار میں فٹ پاتھ کے پاس رُکا۔ طویلے کے ساتھ والا مکان تھا۔ جدھر کا ہم چاروں نے رُخ کیا۔ زینہ طے کرکے ہم اوپر پہنچے۔ سامنے پیخانہ تھا۔ دروازے سے بے نیاز۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی پرانی وضع کا مغلئی کمرہ تھا۔ جس میں ہم چاروں داخل ہوئے۔ اس کمرے کے آخری سرے پر چار آدمی بیٹھے فلاش کھیلنے میں مصروف تھے۔ جو ہماری آمد سے غافل رہے۔ البتہ وہ عورت جو ان کے پاس کھڑی تھی۔ اور ایک آدمی کے پتّوں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ آہٹ پاکر ہماری طرف آئی۔ یہاں بھی لالٹین کی مدھم روشنی تھی۔ جس کو فلاش کھیلنے والے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ جب وہ فخر کے پاس آئی اور کولھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ تو میں نے غور سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی عمر کم از کم پینتیس برس کے قریب تھی۔ چھاتیاں بڑی بڑی تھیں۔ جو اس نے بیہودہ اور فحش انداز سے اوپر کو اٹھا رکھی تھیں۔ تنگ ماتھے پر نیلے رنگ کا چاند کھُداہوا تھا جب وہ مسعود کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ تو مجھے اس کے سامنے کے دو دانتوں میں سونے کی کیلیں نظر آئیں۔۔۔۔۔ بڑی خوفناک عورت تھی۔ اس کا منہ کچھ اس انداز سے کھلتا تھا۔ جیسے لیموں نچوڑنے والی مشین کا کھلتا ہے۔ اس نے فخر کو آنکھ ماری اور پوچھا۔

’’کہو کیا بات ہے؟‘‘

فخر نے بچے کی طرح کہا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

اس نے کولھے پر ہاتھ رکھے ہم تینوں کو باری باری دیکھا۔

’’گلزار‘‘

فخر نے فوراً ہی معذرت کی۔

’’ہم گلاب کے یہاں آئے تھے۔ غلطی سے ادھر چلے آئے۔ معاف کر دیجیے گا۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ فخر کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر کش لگاتی فلاش کھیلنے والوں کے پاس چلی گئی۔ جو ابھی تک ہماری آمد سے غافل تھے۔ نیچے اتر کر ہم تینوں نے تانگے والے کو پھر اپنا مطلب سمجھایا اور اس کو بتایا کہ ہم کس قسم کی عورت چاہتے ہیں۔ اس نے ہم تینوں کا لکچر سُنا اور کہا۔

’’آپ تھوڑے لفظوں میں مجھے بتائیے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے تنگ آ کر فخر سے کہا۔

’’بھئی تم ہی اُسے ان تھوڑے لفظوں میں سمجھاؤ جو تمہارے پاس باقی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

فخر نے اسے سمجھایا

’’دیکھو ہمیں کسی لڑکی کے پاس لے چلو۔۔۔۔ ایسی عورت کے پاس جو سولہ سترہ برس کی ہو۔ اس سے زیادہ ہر گز نہ ہو۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے کمبل کی بُکل مار کے باگیں تھامیں اور کہا۔

’’آپ نے پہلے ہی کہہ دیا ہوتا۔ چلیے۔۔۔۔ اب آپ کو ٹھیک جگہ پر لے چلوں گا۔ ‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد وہ ٹھیک جگہ بھی آ گئی۔۔۔۔۔۔ خدا معلوم کونسا بازار تھا دوسری منزل پر ایک بیٹھک سی تھی جس کے دروازے پر موٹا اور میلا ٹاٹ لٹک رہا تھا۔ جب ہم اندر داخل ہُوئے تو سامنے آنگن میں ایک دیہاتی بڑھیا چولھا جھونک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ مٹی کے کُونڈے میں گُندھا ہوا آٹا پاس ہی پڑا تھا۔ دُھواں اس قدر تھا۔ کہ اندر داخل ہوتے ہی ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بڑھیا نے چولھے میں لکڑیاں جھاڑ کر ہماری طرف دیکھا۔ اور تانگے والے سے دیہاتی لہجے میں کہا۔

’’انھیں اندر لے جاؤ۔ ‘‘

تانگے والے نے اندھیرے کمرے میں دیا سلائی جلا کر ہمیں داخل کیا اور کیل سے لٹکی ہوئی لالٹین کو روشن کرکے باہر چلا گیا۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ کونے میں ایک بہت بڑا پلنگ تھا جس کے پائے رنگین تھے۔ اس پر میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی۔ تکیہ بھی پڑا تھا۔ جس پر سُرخ رنگ کے پُھول کڑھے ہوئے تھے۔ پلنگ کے ساتھ والی دیوار کی کانس پر ایک میلی بوتل اور لکڑی کی کنگھی پڑی تھی۔ اس کے دانتوں پر سر کا میل اور کئی بال پھنسے ہُوئے تھے۔ پلنگ کے نیچے ایک ٹُوٹا ہوا ٹرنک تھا۔ جس پر ایک کالی گرگابی رکھی تھی۔ مسعود اور فخر دونوں پلنگ پر بیٹھ گئے۔ میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک پست قد لڑکی اپنے سے دوگنا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کرتی اندر داخل ہوئی۔ فخر اور مسعود اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ جب وہ لالٹین کی روشنی میں آئی۔ تو میں نے اسے دیکھا۔ اس کی عمر بمشکل چودہ برس کے قریب ہو گی۔ چھاتیاں آڑو کے برابر تھیں مگر اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے جسم کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل چکی ہے، بہت آگے۔ جہاں شاید اس کی ماں بھی نہیں پہنچ سکی۔ جو باہر آنگن میں چولھا جھونک رہی تھی۔ اس کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔ اور اس انداز سے اپنا ایک ہاتھ ہلا رہی تھی۔ جیسے مکار دوکاندار کی طرح ڈنڈی مارے گی۔ اور کبھی پورا تول نہیں تولے گی۔ ہم تینوں اُس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ فخر شرم بھی محسوس کر رہا تھا۔ مسعود کی ساری شاعری سمٹ کر شاید اُس کے ناخنوں میں چلی آئی۔ کیونکہ وہ بُری طرح انھیں دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھا۔ جیسے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ٹھنگنی سی لڑکی تھی۔ جو ایک بہت بڑا میلا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ رنگ گہرا سانولا۔ بدن کی ساخت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بڑی تیزی سے چلی ہوئی گاڑی ہے۔ جو اب ایک دم رُک گئی ہے۔ اس پہّیوں میں بریک لگ گئے ہیں۔ اور وہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ وروغن دُھوپ اور بارش میں اُڑ گیا ہے۔ اس عمر میں بھدّی سے بھدّی لڑکی کے جسم پر جو ایک قسم کی شوخ جاذبیت ہوتی ہے اس میں بالکل نہیں تھی۔ کپڑوں کے باوجود وہ ننگی دکھائی دیتی تھی۔ بہت ہی بیہودہ اور ناواجب طریقے پر ننگی۔۔۔۔۔۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ میں اس سے کچھ کہنے ہی والا تھاکہ اس کے عقب سے ایک بڈھا نمودار ہوا۔ بالکل سفید داڑھی۔ سرضعف کے باعث ہل رہا تھا۔ لڑکی نے دیہاتی زبان میں اس سے کچھ کہا۔ جس کا مطلب میں صرف اس قدر سمجھا کہ وہ بڈھا اس کا نانا ہے۔ ہم تینوں صحیح معنوں میں اُٹھ بھاگے۔ نیچے بازار میں پہنچے تو ہمارا تکدّر کچھ دُور ہُوا۔ بڈھے اور لڑکی کو دیکھ کر ہمارے جمالیاتی ذوق کو بہت ہی شدید صدمہ پہنچا تھا۔ دیر تک ہم چُپ چاپ رہے۔ فخر ٹہلتا رہا۔ مسعود ایک کونے میں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھ گیا۔ میں اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اوپر آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ جہاں نامکمل چاند بالکل اس زرد بیسوا لونڈیا کی طرح جس کے جسم کا نچلا حصّہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ بادل کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اس سے کچھ دور چھوٹا سفید ٹکڑا اس کے نانا کے ضعیف سر کی طرح لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ! میرے بدن پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ ہم غالباً دس بارہ منٹ تک بازار میں کھڑے رہے۔ اس کے بعد تانگے والا نیچے اُترا۔ فخر کے پاس جا کر اس نے کہا۔

’’آپ نے آٹھ بجے تانگہ لیا تھا۔۔۔۔۔۔ اب گیارہ بج چکے ہیں۔ تین گھنٹوں کے پیسے دے دیجیے۔ ‘‘

فخر نے کچھ کہے بغیر دو روپے اُس کو دے دئیے۔ روپے لے کر وہ مُسکرایا

’’بابو جی آپ کو کچھ پہچان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی کراری لونڈیا تو شہر بھر میں نہیں ملے گی آپ کو۔۔۔۔۔۔ خیر آپ کو اختیار۔۔۔۔۔۔ تانگے میں بیٹھیے میں ابھی آیا۔ ‘‘

اُس کو اوپر جانے کی زحمت نہ اُٹھانا پڑی۔ کیونکہ سفید ریش بڈھا اُس کے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔ اور موری کے پاس کھڑا اپنا ضعیف سر ہلا رہا تھا۔ اُس کو دو روپے دے کر جب ٹانگے والے نے باگیں تھامیں تو اس کی سنجیدگی غائب تھی۔ ‘‘

چل بیٹا۔ کہہ کر اس نے اپنی بھدّی مگر مسّرت بھری آواز میں گانا شروع کر دیا۔

’’ساون کے نظارے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لالا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پُھولوں کی سازش

باغ میں جتنے پھول تھے۔ سب کے سب باغی ہو گئے۔ گلاب کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کی ایک ایک رگ آتشیں جذبہ کے تحت پھڑک رہی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کانٹوں بھری گردن اٹھائی اور غور و فکرکو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:۔

’’کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ ہمارے پسینے سے اپنے عیش کا سامان مہیا کرے۔ ہماری زندگی کی بہاریں ہمارے لیے ہیں اور ہم اس میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرسکتے!‘‘

گلاب کا منہ غصہ سے لال ہورہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں تھرتھرارہی تھیں۔ چنبلی کی جھاڑی میں تمام کلیاں یہ شور سن کر جاگ اٹھیں اور حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ گلاب کی مردانہ آواز پھر بلند ہوئی۔

’’ہر ذی روح کو اپنے حقوق کی نگرانی کا حق حاصل ہے اور ہم پھول اس سے مستثنےٰ نہیں ہیں۔ ہمارے قلوب زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا ہماری دنیائے رنگ و بو کو جلا کر خاکستر کرسکتا ہے اور شبنم کا ایک بے معنی قطرہ ہماری پیاس بجھا سکتا ہے۔ کیا ہم اس کانے مالی کے کھردرے ہاتھوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس پر موسموں کے تغیر و تبدل کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا؟‘‘

موتیا کے پھول چلائے

’’ہرگز نہیں‘‘

لالہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور کہنے لگا اس کے ظلم سے میرا سینہ داغدار ہورہا ہے۔ میں پہلا پھول ہوں گا جو اس جلاد کے خلاف بغاوت کا سُرخ جھنڈا بلند کرے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ غصہ سے تھرتھر کانپنے لگا۔ چنبیلی کی کلیاں متحیر تھیں کہ یہ شور کیوں بلند ہورہا ہے۔ ایک کلی ناز کے ساتھ گلاب کے پودے کی طرف جھکی اور کہنے لگی

’’تم نے میری نیند خراب کردی ہے۔ آخر گلا پُھلا پُھلا کر کیوں چلاّ رہے ہو؟‘‘

گلِ خیرا جو دُور کھڑا گُلاب کی قائدانہ تقریر پر غور کررہا تھا بولا۔

’’قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ گو ہم ناتواں پھول ہیں لیکن اگر ہم سب مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی جان کے دشمن کو پیس کر نہ رکھ دیں۔ ہماری پتیاں اگر خوشبو پیدا کرتی ہیں تو زہریلی گیس بھی تیار کر سکتی ہیں۔ بھائیو! گلاب کا ساتھ دو اور ا پنی فتح سمجھو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اخوت کے جذبے کے ساتھ ہر پھول کی طرف دیکھا۔ گلاب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ چنبیلی کی کلی نے اپنے مرمریں جسم پر ایک تھرتھری پیدا کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ آؤ تم مجھے شعر سناؤ، میں آج تمہاری گود میں سونا چاہتی ہوں۔ تم شاعر ہو، میرے پیارے آؤ ہم بہار کے ان خوشگوار دنوں کو ایسی فضول باتوں میں ضائع نہ کریں اور اس دنیا میں جائیں جہاں نیند ہی نیند ہے۔ میٹھی اور راحت بخش نیند!‘‘

گُلاب کے سینے میں ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ اس کی نبض کی دھڑکن تیز ہو گئی اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی اتھاہ گہرائی میں اُتر رہا ہے۔ اسی نے کلی کی گفتگو کے اثر کو دور کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا۔

’’نہیں میں میدانِ جنگ میں اُترنے کی قسم کھا چکا ہوں۔ اب یہ تمام رومان میرے لیے مہمل ہیں۔ ‘‘

کلی نے اپنے لچکیلے جسم کو بل دے کر خواب گوں لہجہ میں کہا۔

’’آہ، میرے پیارے گلاب ایسی باتیں نہ کرو، مجھے وحشت ہوتی ہے۔ چاندنی راتوں کا خیال کرو۔ جب میں اپنا لباس اتار کر اس نورانی فوارے کے نیچے نہاؤں گی تو تمہارے گالوں پر سُرخی کا اُتار چڑھاؤ مجھے کتنا پیارا معلوم ہو گا اور تم میرے سیمیں لب کس طرح دیوانہ وار چومو گے۔ چھوڑو ان فضول باتوں کو میں تمہارے کاندھے پر سر رکھ کر سونا چاہتی ہُوں۔ ‘‘

اور چنبیلی کی نازک ادا کلی گُلاب کے تھراّتے ہُوئے گال کے ساتھ لگ کر سو گئی۔ گلاب مدہوش ہو گیا۔ چاروں طرف سے ایک عرصہ تک دوسرے پھولونکی کی صدائیں بُلند ہوتی رہیں مگر گُلاب نہ جاگا۔ ساری رات وہ مخمور رہا۔ صبح کانا مالی آیا۔ اس نے گلاب کے پھول کی ٹہنی کے ساتھ چنبیلی کی کلی چمٹی ہُوئی پائی۔ اس نے اپنا کُھر درا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کو توڑ لیا۔

سعادت حسن منٹو

پھوجا حرام دا

ٹی ہاؤس میں حرامیوں کی باتیں شروع ہوئیں تو یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ ہر ایک نے کم از کم ایک حرامی کے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے جس سے اس کو اپنی زندگی میں واسطہ پڑ چکا تھا۔ کوئی جالندھر کا تھا۔ کوئی لدھیانے کا اور کوئی لاہور کا۔ مگر سب کے سب اسکول یا کالج کی زندگی کے متعلق تھے۔ مہر فیروز صاحب سب سے آخر میں بولے۔ آپ نے کہ۔ امرت سر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پھوجے حرامدے کے نام سے ناواقف ہو۔ یوں تو اس شہر میں اور بھی کئی حرام زادے تھے مگر اس کے پلے کے نہیں تھے۔ وہ نمبر ایک حرام زادہ تھا۔ اسکول میں اُس نے تمام ماسٹروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا ہیڈ ماسٹر جس کو دیکھتے ہی بڑے بڑے شیطان لڑکوں کا پیشاب خطا ہو جاتا پھوجے سے بہت گھبراتا تھا اس لیے کہ اس پر اُن کے مشہور بید کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انھوں نے اُس کو مارنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دسویں جماعت کی بات ہے۔ ایک دن یار لوگوں نے اُس سے کہا دیکھو پھوجے ! اگر تم کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ اسکول کا ایک چکر لگاؤ تو ہم تمھیں ایک روپیہ دیں گے۔ پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اڑسا کپڑے اُتار کر بستے میں باندھے اور سب کے سامنے چلنا شروع کر دیا، جس کلاس کے پاس سے گزرتا وہ زعفران زار بن جاتا۔ چلتے چلتے وہ ہیڈماسٹر صاحب کے دفتر کے پاس پہنچ گیا پتی اُٹھائی اور غڑاپ سے اندر۔ معلوم نہیں کیا ہوا ہیڈ ماسٹر صاحب سخت بوکھلائے ہوئے باہر نکلے اور چپڑاسی کو بُلا کر اُس سے کہا جاؤ بھاگ کے جاؤ پھوجے حرامدے کے گھر، وہاں سے کپڑے لاؤ اُس کے لیے۔ کہتا ہے میں مسجدکے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ میرے کپڑے کوئی چور اُٹھا کر لے گیا۔ دینیات کے ماسٹر مولوی پوٹیٹو تھے۔ معلوم نہیں انھیں پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے، کیونکہ آلوؤں کے تو داڑھی نہیں ہوتی۔ ان سے پھوجا ذرا دبتا تھا مگر ایک دن ایسا آیا کہ انجمن کے ممبروں کے سامنے مولوی صاحب نے غلطی سے اس سے ایک آیت کا ترجمہ پوچھ لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خاموش رہتا مگر پھوجا حرامدا کیسے پہچانا جاتا۔ جو منہ میں آیا اول جلول بک دیا۔ مولوی پوٹیٹو کے پسینے چھوٹ گئے ممبر باہر نکلے تو انھوں نے غصہ میں تھر تھر کانپتے ہوئے اپنا عصا اٹھایا اور پھوجے کو دو چار چور کی مار دی کہ بلبلا اُٹھا مگر بڑے ادب سے کہتا رہا کہ مولوی صاحب میرا قصور نہیں مجھے کلمہ ٹھیک سے نہیں آتا اور آپ نے ایک پوری آیت کا مطلب پوچھ لیا۔ مارنے سے بھی مولوی پوٹیٹو صاحب کا جی ہلکا نہ ہوا۔ چنانچہ وہ پھوجے کے باپ کے پاس گئے اور اس سے شکایت کی پھوجے کے باپ نے اُن کی سب باتیں سنیں اور بڑے رحم ناک لہجے میں کہا

’’مولوی صاحب ! میں خود اس سے عاجز آگیا ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے میں پاخانے گیا تو اس نے باہر سے کنڈی چڑھا دی میں بہت گرجا بے شمار گالیاں دیں مگر اُس نے کہا

’’اٹھنی دینے کا وعدہ کرتے ہو تو دروازہ کھلے گا اور دیکھو اگر وعدہ کر کے پھر گئے تو دوسری مرتبہ کنڈی میں تالا بھی ہو گا‘‘

ناچار اٹھنی دینی پڑی اب بتائیے میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔ ‘‘

اللہ ہی بہتر جانتا تھا کہ اس کا کیا ہو گا۔ پڑھتا وڑھتا خاک بھی نہیں تھا انٹرنس کے امتحان ہوئے تو سب کو یقین تھا کہ بہت بری طرح فیل ہو گا مگر نتیجہ نکلا تو سکول میں اس کے سب سے زیادہ نمبر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کالج میں داخل ہو مگر باپ کی خواہش تھی کہ کوئی ہنر سیکھے، چنانچہ یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دو برس تک آوارہ پھرتا رہا اس دوران اُس نے جو حرامزدگیاں کیں ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ تنگ آ کر اُس کے باپ نے بالآخر اُسے کالج میں داخل کروا دیا پہلے دن ہی اُس نے یہ شرارت کی کہ میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اُٹھا کر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی۔ سب حیران کہ سائیکل وہاں پہنچی کیونکر۔ مگر وہ لڑکے جو اسکول میں پھوجے کے ساتھ پڑھ چکے تھے۔ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کارستانی اس کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس ایک شرارت ہی سے اُس کا پورے کالج سے تعارف ہو گیا۔ اسکول میں اُس کی سرگرمیوں کا میدان محدود تھا۔ مگر کالج میں یہ بہت وسیع ہو گیا۔ پڑھائی میں کھیلوں میں مشاعروں میں اور مباحثوں میں ہر جگہ پھوجے کا نام روشن تھا اور تھوڑی دیر میں اتنا روشن ہوا کہ شہر میں اس کے گنڈپنے کی دھاک بیٹھ گئی۔ بڑے بڑے جگادری بد معاشوں کے کان کاٹنے لگا۔ ناٹا قد مگر بدن کستری تھا اُس کی بھیڈ و ٹکر بہت مشہور تھی۔ ایسے زور سے مد مقابل کے سینے میں یا پیٹ میں اپنے سر ٹکر مارتا کہ اُس کے سارے وجود میں زلزلہ سا آجاتا۔ ایف۔ اے کے دوسرے سال میں اُس نے تفریحاً پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں چار آنے کی شکر ڈال دی جس نے کاربن بن کر سارے انجن کو غارت کر دیا پرنسپل کو کسی نہ کسی طریقے سے معلوم ہو گیا کہ یہ خطرناک شرارت پھوجے کی ہے مگر حیرت ہے کہ اُنھوں نے اس کو معاف کر دیا بعد میں معلوم ہوا کہ پھوجے کو اُن کے بہت سے راز معلوم تھے۔ ویسے وہ قسمیں کھاتا کہ اس نے ان کو دھمکی وغیرہ بالکل نہیں دی تھی کہ انھوں نے سزا دی تو وہ انھیں فاش کر دے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کا بہت زور تھا۔ انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جلسے ہوتے تھے۔ حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی تھی۔ گرفتاریوں کی بھرمار تھی۔ سب جیل باغیوں سے پُر تھے۔ آئے دن ریل کی پٹڑیاں اُکھاڑی جاتی تھیں۔ خطوں کے بھبکوں میں آتش گیر مادہ ڈالا جاتا تھا۔ بم بنائے جارہے تھے پستول برآمد ہوتے تھے غرض کہ ایک ہنگامہ برپا تھا اور اس میں اسکول اور کالجوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ پھوجا سیاسی آدمی بالکل نہیں تھا۔ میرا خیال ہے اُس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مہاتما گاندھی کون ہے۔ لیکن جب اچانک ایک روز اُسے پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بھی ایک سازش کے سلسلے میں تو سب کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس سے پہلے کئی سازشیں پکڑی جا چکی تھیں۔ سانڈرس کے قتل کے سلسلے میں بھگت سنگھ اور دت کو پھانسی بھی ہو چکی تھی اس لیے یہ نیا معاملہ بھی کچھ سنگین ہی معلوم ہوتا تھا الزام یہ تھا کہ مختلف کالجوں کے لڑکوں نے مل کر ایک خفیہ جماعت بنا لی تھی جس کا مقصد ملک معظم کی سلطنت کا تختہ اُلٹنا تھا۔ ان میں سے کچھ لڑکوں نے کالج کی لیبارٹری سے پکرک ایسڈ چرایا تھا جو بم بنانے کے کام آتا ہے۔ پھوجے کے بارے میں شُبہ تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا اور اس کو تمام خفیہ باتوں کا علم تھا۔ ! اس کے ساتھ کالج کے دو اور لڑکے بھی پکڑے گئے تھے ان میں ایک مشہور بیرسٹر کا لڑکا تھا اور دوسرا رئیس زادہ۔ ان کا ڈاکٹری معائنہ کرایا گیا تھا اس لیے پولیس کی مار پیٹ سے بچ گئے مگر شامت غریب پھوجے حرامدے کی آئی۔ تھانے میں اُس کو الٹا لٹکا کر پیٹا گیا۔ برف کی سلوں پرکھڑا کیاگیا۔ غرض کہ ہر قسم کی جسمانی اذّیت اُسے پہنچائی گئی کہ راز کی باتیں اُگل دے مگر وہ بھی ایک کتے کی ہڈی تھا، ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلکہ یہاں بھی کم بخت اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ ایک مرتبہ جب وہ مار برداشت نہ کرسکتا اُس نے تھانے دار سے ہاتھ روک لینے کی در خواست کی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ بتا دے گا۔ بالکل نڈھال تھا اس کے لیے اُس نے گرم گرم دُودھ اور جلیبیاں مانگیں۔ طبیعت قدرے بحال ہوئی تو تھانیدار نے کاغذ قلم سنبھالا اور اُس سے کہا لو بھئی بتاؤ۔ پھوجے نے اپنے مار کھائے ہوے اعضاء کا جائزہ انگڑائی لے کر کیا اور جواب دیا

’’اب کیا بتاؤں طاقت آگئی ہے چڑھالو پھر مجھے اپنی ٹکٹکی پر۔ ‘‘

ایسے اور بھی کئی قصے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے مگر وہ بہت پُرلطف تھے۔ ملک حفیظ ہمارا ہم جماعت تھا، اُس کی زبان سے آپ سُنتے تو اور ہی مزا آتا۔ ایک دن پولیس کے دوسپاہی پھوجے کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے لے جارہے تھے۔ ضلع کچہری میں اُس کی نظر ملک حفیظ پر پڑی، جو معلوم نہیں کس کام سے وہاں آیا تھا۔ اُس کو دیکھتے ہی وہ پکارا۔

’’السلام علیکم ملک صاحب۔ ‘‘

ملک صاحب چونکے۔ پھوجا ہتھکڑیوں میں اُن کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

’’ملک صاحب بہت اُداس ہو گیا ہوں، جی چاہتا ہے آپ بھی آجائیں میرے پاس۔ بس میرا نام لے دینا کافی ہے۔ ‘‘

ملک حفیظ نے جب یہ سُنا تو اُس کی رُوح قبض ہو گئی۔ پھوجے نے اُس کو ڈھارس دی۔

’’گھبراؤ نہیں ملک، میں تو مذاق کر رہا ہوں۔ ویسے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔ ‘‘

اب آپ ہی بتائیے کہ وہ کس لائق تھا۔ ملک حفیظ گھبرا رہا تھا۔ کنی کتراکے بھاگنے ہی والا تھا کہ پھوجے نے کہا

’’بھئی اور تو ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا کہو تو تمہارے بدبودار کنویں کی گار نکلوادیں۔ ‘‘

ملک حفیظ ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ پھوجے کو اس کنوئیں سے کتنی نفرت تھی۔ اس کے پانی سے ایسی بساند آتی تھی جیسے مرنے ہوئے چوہے سے۔ معلوم نہیں لوگ اسے صاف کیوں نہیں کراتے تھے۔ ایک ہفتے کے بعد جیساکے ملک حفیظ کا بیان ہے وہ باہر نہانے کے لیے نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو تین ٹوبے کنوئیں کی گندگی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بہت حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔ اُنھیں بلایا کس نے ہے؟ پڑوسیوں کا یہ خیال تھا کہ بڑے ملک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آگیا ہو گا کہ چلو کنوئیں کی صفائی ہو جائے، یہ لوگ بھی کیا یاد رکھیں گے لیکن جب اُنھیں معلوم ہوا کہ چھوٹے ملک کو اس بارے میں کچھ علم نہیں اور یہ کہ بڑے تو شکار پر گئے ہوئے ہیں تو انھیں حیرت ہوئی۔ پولیس کے بے وردی سپا ہی دیکھے تو معلوم ہوا کہ پھوجے حرامدے کی نشاندہی پر وہ کنویں میں سے بم نکال رہے ہیں۔ بہت دیر تک گندگی نکلتی رہی۔ پانی صاف شفاف ہو گیا مگر بم کیا ایک چھوٹا سا پٹاخہ بھی برآمد نہ ہو گا۔ پولیس بہت بھنائی چنانچہ پھوجے سے باز پُرس ہوئی۔ اُس نے مسکراکر تھانیدار سے کہا

’’بھولے بادشاہو! ہمیں تو اپنے یار کا کنواں صاف کرانا تھا سو کرالیا۔ ‘‘

بڑی معصوم سی شرارت تھی مگر پولیس نے اسے وہ مارا وہ مارا کہ مار مار کر ادھ موا کردیا۔ اور ایک دن یہ خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا ہے اُس نے وعدہ کر لیا ہے کہ سب کچھ بک دے گا۔ کہتے ہیں اس پر بڑی لعن طعن ہوئی اُس کے دوست ملک حفیظ نے بھی جو حکومت سے بہت ڈرتا تھا اُس کو بہت گالیاں دیں کہ حرام زادہ ڈر کے غدار بن گیا ہے معلوم نہیں اب کس کس کو پھنسائے گا۔ بات اصل میں یہ تھی کہ وہ مار کھا کھا کے تھگ گیا۔ جیل میں اُس سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا، مرغن غذائیں کھانے کو دی جاتی تھیں مگر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ کم بخت کو نیند بہت پیاری تھی اس لیے تنگ آ کر اُس نے سچے دل سے وعدہ کر لیا کہ بم بنانے کی سازش کے جملہ حالات بتا دے گا۔ یوں تو وہ جیل ہی میں تھا مگر اب اس پر کوئی سختی نہ تھی کئی دن تو اُس نے آرام کیا کہ اُس کے بند بند ڈھیلے ہو چکے تھے اچھی خوراک ملی بدن پر مالشیں ہوئیں تو وہ بیان لکھوانے کے قابل ہو گیا۔ صبح لسی کے دو گلاس پی کر وہ اپنی داستان شروع کر دیتا تھوڑی دیر کے بعد ناشتا آتا۔ اس سے فارغ ہو کر پندرہ بیس منٹ آرام کرتا اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنا بیان جاری رکھتا۔ آپ محمد حسین اسٹینو گرافر سے پوچھیے جس نے اس کا بیان ٹائپ کیا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ پھوجے حرامدے نے پورا ایک مہینہ لیا اور وہ سارا جال کھول کر رکھ دیا جو سازشیوں نے ملک کے اس کونے سے اُس کونے تک بچھایا تھا یا بچھانے کا ارادہ رکھتے تھے اس نے سینکڑوں آدمیوں کے نام لیے۔ ایسی ہزاروں جگہوں کا پتا بتایا جہاں سازشی لوگ چھپ کے ملتے تھے اور حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔ یہ بیان محمد حسین اسٹینو گرافر کہتا ہے فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحوں پر پھیلا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تھا تو پولیس نے اُسے سامنے رکھ کر پلان بنایا۔ چنانچہ فوراً نئی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ایک بار پھر پھوجے کی ماں بہن پُنی جانے لگی۔ اخباروں نے بھی دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ اکثر حکام کے خلاف تھی اس لیے اُس کی غداری کی ہر جگہ مذمت ہوتی تھی۔ وہ جیل میں تھا جہاں اُس کی خوب خاطر تواضح ہو رہی تھی۔ بڑی طرّے والی کلف لگی پگڑی سر پر باندھے دوگھوڑے بوسکی کی قمیص اور چالیس ہزار لٹھے کی گھیرے دار شلوار پہنے وہ جیل میں یوں ٹہلتا تھا جیسے کوئی افسر معائنہ کررہا ہے۔ جب ساری گرفتاریاں عمل میں آگئیں اور پولیس نے اپنی کارروائی مکمل کر لی تو، سازش کا یہ معرکہ انگیز کیس عدالت میں پیش ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ پولیس کی حفاظت میں جب پھوجا نمودار ہوا تو غصے سے بھرے ہوئے نعرے بلند ہوئے۔

’’پھوجا حرام دا امردہ باد۔ پھوجا غدار مردہ باد۔ ‘‘

ہجوم بہت مشتعل تھا خطرہ تھا کہ پھوجے پر نہ ٹُوٹ پڑے اس لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا جس کے باعث کئی آدمی زخمی ہو گئے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ پھوجے سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس بیان کے متعلق کیا کہنا چاہتا ہے جو اُس نے پولیس کو دیا تھا تو اُس نے لا علمی کا اظہار کیا۔

’’جناب میں نے کوئی بیان ویان نہیں دیا۔ ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط کروا لیے تھے۔ ‘‘

یہ سُن کر انسپکٹر پولیس کی بقول پھوجے کے

’’بھنبھیری بھول گئی‘‘

اور جب یہ خبر اخباروں میں چھپی تو سب چکرا گئے کہ پھوجے حرامدے نے یہ کیا نیا چکر چلایا ہے۔ چکر نیا ہی تھا کیونکہ عدالت میں اُس نے ایک نیا بیان لکھوانا شروع کیا جو پہلے بیان سے بالکل مختلف تھا یہ قریب قریب پندرہ دن جاری رہا جب ختم ہوا۔ تو فل اسکیپ کے ۱۵۸ صفحے کالے ہو چکے تھے۔ پھوجے کا کہنا ہے کہ اس بیان سے جو حالت پولیس والوں کی ہوئی ناقابلِ بیان ہے۔ انھوں نے جو عمارت کھڑی کی تھی کم بخت نے اُس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر رکھ دی۔ سارا کیس چوپٹ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سازش میں جتنے گرفتار ہوئے تھے ان میں سے اکثر بری ہو گئے۔ دو تین کو تین تین برس کی اور چار پانچ کو چھے چھے مہینے کی سزائے قید ہوئی۔ جو سُن رہے تھے ان میں سے ایک نے پوچھا۔

’’اور پھوجے کو؟‘‘

مہر فیروز نے کہا۔

’’پھوجے کو کیا ہونا تھا وہ تو وعدہ معاف یعنی سلطانی گواہ تھا‘‘

سب نے پھوجے کی حیرت انگیز ذہانت کو سراہا کہ اُس نے پولیس کو کس صفائی سے غچہ دیا۔ ایک نے جس کے دل و دماغ کو اس کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا تھا مہر فیروز سے پوچھا

’’آج کل کہاں ہوتا ہے؟‘‘

’’یہیں لاہور میں۔ آڑھت کی دُکان ہے‘‘

اتنے میں بیرہ بل لے کر آیا اور پلیٹ بھر فیروز کے سامنے رکھ دی، کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اُسی نے دیا تھا۔ پھوجے کی شخصیت سے متاثر شدہ صاحب نے بل دیکھا اور اُن کا آگے بڑھنے والا ہاتھ رُک گیا کیونکہ رقم زیادہ تھی چنانچہ ایسے ہی مہر فیروز سے مخاطب ہوئے۔

’’آپ کے اس پھوجے حرامدے سے کبھی ملنا چاہیے‘‘

مہر فیروز اُٹھا

’’آپ اس سے مل چکے ہیں۔ یہ خاکسار ہی پھوجا حرامدا ہے۔ بل آپ ادا کر دیجیے گا۔ السلام علیکم‘‘

یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

پُھندنے

کوٹھی سے ملحقہ وسیع و عریض باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بلی نے بچے دیے تھے، جو بِلّا کھا گیا تھا۔ پھر ایک کتیا نے بچے دیے تھے جو بڑے بڑے ہو گئے تھے اور دن رات کوٹھی کے اندر باہر بھونکتے اور گندگی بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کو زہر دے دیا گیا۔ ا یک ایک کرکے سب مر گئے تھے۔ ان کی ماں بھی۔ ان کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی یقینی تھی۔ جانے کتنے برس گزر چکے تھے۔ کوٹھی سے ملحقہ باغ کی جھاڑیاں سینکڑوں ہزاروں مرتبہ کتری بیونتی، کاٹی چھانٹی جا چکی تھیں۔ کئی بلیوں اور کتیوں نے ان کے پیچھے بچے دیے تھے جن کا نام و نشان بھی نہ رہا تھا۔ اس کی اکثر بدعادت مرغیاں وہاں انڈے دے دیا کرتی تھیں جن کو ہرصبح اٹھا کر وہ اندر لے جاتی تھی۔ اسی باغ میں کسی آدمی نے ان کی نوجوان ملازمہ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کا پھندنوں والا سرخ ریشمی ازار بند جو اس نے دو روز پہلے پھیری والے سے آٹھ آنے میں خریدا تھا، پھنسا ہوا تھا۔ اس زور سے قاتل نے پیچ دیے تھے کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ اس کو دیکھ کر اس کو اتنا تیز بخار چڑھا تھا کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور شاید ابھی تک بے ہوش تھی۔ لیکن نہیں، ایسا کیوں کر ہوسکتا تھا، اس لیے کہ اس قتل کے دیر بعد مرغیوں نے انڈے، نہ ہی بلیوں نے بچے دیے تھے اور ایک شادی ہوئی تھی۔ کتیا تھی جس کے گلے میں لال دوپٹہ تھا۔ مکیشی۔ جھلمل جھلمل کرتا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں، اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ باغ میں بینڈ بجا تھا۔ سرخ وردیوں والے سپاہی آئے تھے جو رنگ برنگی مشکیں بغلوں میں دبا کر منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی وردیوں کے ساتھ کئی پھندنے لگے تھے۔ جنھیں اٹھا اٹھا کر لوگ اپنے ازار بندوں میں لگاتے جاتے تھے۔ پر جب صبح ہوئی تھی تو ان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کو زہر دے دیا گیا تھا۔ دلہن کو جانے کیا سوجھی، کم بخت نے جھاڑیوں کے پیچھے نہیں، اپنے بستر پر صرف ایک بچہ دیا۔ جو بڑا گل گوتھنا، لال پھندنا تھا۔ اس کی ماں مر گئی۔ باپ بھی۔ دونوں کو بچے نے مارا۔ اس کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی ان دونوں کے ساتھ ہوتی۔ سرخ وردیوں والے سپاہی بڑے بڑے پھندنے لٹکائے جانے کہاں غائب ہوئے کہ پھر نہ آئے۔ باغ میں بلے گھومتے تھے، جو اسے گھورتے تھے، اس کو چھیچھڑوں کی بھری ہوئی ٹوکری سمجھتے تھے حالانکہ ٹوکری میں نارنگیاں تھیں۔ ایک دن اس نے اپنی دو نارنگیاں نکال کر آئینے کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے پیچھے ہوکے اس نے ان کو دیکھا مگر نظر نہ آئیں۔ اس نے سوچا اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی ہیں۔ مگر وہ اس کے سوچتے سوچتے ہی بڑی ہو گئیں اور اس نے ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آتش دان پر رکھ دیں۔ اب کتے بھونکنے لگے۔ نارنگیاں فرش پر لڑھکنے لگیں۔ کوٹھی کے فرش پر اچھلیں، ہر کمرے میں کودیں اور اچھلتی کودتی بڑے بڑے باغوں میں بھاگنے دوڑنے لگیں۔ کتے ان سے کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔ جانے کیا ہوا، ان کتوں میں دو زہر کھا کے مر گئے۔ جو باقی بچے وہ ان کی ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کھا گئی۔ یہ اس نوجوان ملازمہ کی جگہ آئی تھی، جس کو کسی آدمی نے قتل کردیا تھا، گل میں اس کے پھندنوں والے ازار بند کا پھندا ڈال کر۔ اس کی ماں تھی۔ ادھیڑ عمر کی ملازمہ سے عمر میں چھ سات بڑی بڑی۔ اس کی طرح ہٹی کٹی نہیں تھی۔ ہر روز صبح شام موٹر میں سیر کو جاتی تھی۔ اور بدعادت مرغیوں کی طرح دور دراز باغوں میں جھاڑیوں کے پیچھے انڈے دیتی تھی۔ ان کو وہ خود اٹھا کرلاتی تھی نہ ڈرائیور۔ اوملیٹ بناتی تھی۔ جس کے داغ کپڑوں پر پڑ جاتے تھے۔ سوکھ جاتے تو ان کو باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی جہاں سے چیلیں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔ ایک دن اس کی سہیلی آئی۔ پاکستان میل، موٹر نمبر9612 پی ایل بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنا بلاؤز اتارا اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے دودھ ابلے ہوئے تھے جو آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے دودھ ٹھنڈے تھے جو آہستہ آہستہ ابلنے لگے۔ آخر دونوں دودھ ہل ہل کے کنگنے ہو گئے اور کھٹی لسی بن گئی۔ اس سہیلی کا بینڈ بج گیا۔ مگر وہ وردی والے سپاہی پھندنے نچانے نہ آئے۔ اس کی جگہ پیتل کے برتن تھے، چھوٹے اور بڑے، جن سے آوازیں نکلتی تھیں۔ گرجدار اور دھیمی۔ دھیمی اور گرجدار۔ یہ سہیلی جب پھر ملی تو اس نے بتایا کہ وہ بدل گئی ہے۔ سچ مچ بدل گئی تھی۔ اس کے اب دو پیٹ تھے۔ ایک پرانا، دوسرا نیا۔ ایک کے اوپر دوسرا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے دودھ پھٹے ہوئے تھے۔ پھر اس کے بھائی کا بینڈ بجا۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ بہت روئی۔ اس کے بھائی نے اس کو بہت دلاسا دیا۔ بیچاری کو اپنی شادی یاد آگئی تھی۔ رات بھر اس کے بھائی اور اس کی دلہن کی لڑائی ہوتی رہی۔ وہ روتی رہی، وہ ہنستا رہا۔ صبح ہوئی تو ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ اس کے بھائی کو دلاسا دینے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ دلہن کو نہلایا گیا۔ اس کی شلوار میں اس کا لال پھندنوں والا ازار بند پڑا تھا۔ معلوم نہیں یہ دلہن کے گلے میں کیوں نہ باندھا گیا۔ اس کی آنکھیں بہت موٹی تھیں۔ اگر گلا زور سے گھونٹا جاتا تو وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی آنکھوں کی طرح باہر نکل آتیں۔ اور اس کوبہت تیز بخار چڑھتا۔ مگر پہلا تو ابھی تک اترا نہیں۔ ہو سکتا ہے اتر گیا ہو اور یہ نیا بخار ہو جس میں وہ ابھی تک بے ہوش ہے۔ اس کی ماں موٹر ڈرائیوری سیکھ رہی ہے۔ باپ ہوٹل میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی آتا ہے اور اپنے لڑکے سے مل کر چلا جاتا ہے۔ لڑکا کبھی کبھی اپنی بیوی کو گھر بلا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کو دو تین روز کے بعد کوئی یاد ستاتی ہے تو رونا شروع کردیتی ہے۔ وہ اسے دلاسا دیتا ہے، وہ اسے پچکارتی ہے اور دلہن چلی جاتی ہے۔ اب وہ اور دلہن بھابھی، دونوں سیر کو جاتی ہیں۔ سہیلی بھی، پاکستان میل۔ موٹر نمبر9612پی ایل۔ سیر کرتے کرتے اجنتا جا نکلتی ہیں، جہاں تصویریں بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔ تصویریں دیکھ کرتینوں تصویر بن جاتے ہیں۔ رنگ ہی رنگ، لال، پیلے، ہرے، نیلے۔ سب کے سب چیخنے والے ہیں۔ ان کو رنگوں کا خالق چپ کراتا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں اوورٹ کوٹ پہنتا ہے۔ اچھی شکل و صورت کا ہے۔ اندر باہر ہمیشہ کھڑاؤں استعمال کرتا ہے۔ اپنے رنگوں کو چپ کرانے کے بعد خود چیخنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو یہ تینوں چپ کراتی ہیں اور بعد میں خود چلانے لگتی ہیں۔ تینوں اجتنا میں مجرد آرٹ کے سینکڑوں نمونے بناتی رہیں۔ ایک کی ہر تصویر میں عورت کے دو پیٹ ہوتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے۔ دوسری کی تصویروں میں عورت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے۔ ہٹی کٹی۔ تیسری کی تصویروں میں پھندنے ہی پھندنے۔ ازار بندوں کا گچھا۔ مجرد تصویریں بنتی رہیں۔ مگر تینوں کے دودھ سوکھتے رہے۔ بڑی گرمی تھی، اتنی کہ تینوں پسینے میں شرابور تھیں۔ خس لگے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے بلاؤز اتارے اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئیں۔ پنکھا چلتا رہا۔ دودھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوئی نہ گرمی۔ اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔ ڈیڈی ہوٹل میں تھا جہاں اس کی لیڈی سٹینوگرافر اس کے ماتھے پر یوڈی کلون مل رہی تھی۔ ایک دن اس کا بھی بینڈ بج گیا۔ اجاڑ باغ پھر بارونق ہو گیا۔ گملوں اور دروازوں کی آرائش اجنتا اسٹوڈیو کے مالک نے کی تھی۔ بڑی بڑی گہری لپ اسٹکیں اس کے بکھرے ہوئے رنگ دیکھ کر اڑ گئیں۔ ایک جو زیادہ سیاہی مائل تھی، اتنی اڑی کہ وہیں گر کراس کی شاگرد ہو گئی۔ اس کے عروسی لباس کا ڈیزائن بھی اس نے تیار کیا تھا۔ اس نے اس کی ہزاروں کی سمتیں پیدا کردی تھیں۔ عین سامنے سے دیکھو تو وہ مختلف رنگ کے ازار بندوں کا بنڈل معلوم ہوتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ جاؤ تو پھلوں کی ٹوکری تھی۔ ایک طرف ہو جاؤ تو کھڑکی پر پڑا ہوا پھلکاری کا پردہ۔ عقب میں چلے جاؤ۔ کچلے ہوئے تربوزوں کا ڈھیر۔ ذرا زاویہ بدل کر دیکھو ٹماٹو ساس سے بھرا ہوا مرتبان۔ اوپر سے دیکھو تو یگانہ آرٹ۔ نیچے سے دیکھو تو میرا جی کی مبہم شاعری۔ فن شناس نگاہیں عش عش کر اٹھیں۔ دولہا اس قدرمتاثر ہوا تھا کہ شادی کے دوسرے روز ہی اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ بھی مجرد آرٹسٹ بن جائے گا۔ چنانچہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اجنتا گیا۔ جہاں انھیں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ چند روز سے اپنی ہونے والی دلہن ہی کے پاس رہتا ہے۔ اس کی ہونے والی دلہن وہی گہرے رنگ کی لپ اسٹک تھی جو دوسری لپ اسٹکوں کے مقابلے میں زیادہ سیاہی مائل تھی۔ شروع شروع میں چند مہینے تک اس کے شوہر کو اس سے اور مجرد آرٹ سے دلچسپی رہی، لیکن جب اجنتا اسٹوڈیو بن ہو گیا اور اس کے مالک کی کہیں سے بھی سن گن نہ ملی تو اس نے نمک کا کاروبار شروع کردیا۔ جو بہت نفع بخش تھا۔ اس کا کاروبار کے دوران میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ جس کے دودھ سوکھے ہوئے نہیں تھے۔ یہ اس کو پسند آگئے۔ بینڈ نہ بجا لیکن شادی ہو گئی۔ پہلی اپنے برش اٹھا کر لے گئی اور الگ رہنے لگی۔ یہ ناچاقی پہلے تو دونوں کے لیے تلخی کا موجب ہوئی لیکن بعد میں ایک عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی سہیلی نے جو دوسرا شوہر تبدیل کرنے کے بعد سارے یورپ کا چکر لگا کر آئی تھی اور اب دق کی مریض تھی، اس مٹھاس کو کیوبک آرٹ میں پینٹ کیا۔ صاف شفاف چینی کے بے شمار کیوب تھے جو تھوہر کے پودوں کے درمیان اس انداز سے اوپر تلے رکھے تھے کہ ان سے دو شکلیں بن گئیں تھی۔ اس پر شہید کی مکھیاں بیٹھی رس چوس رہی تھیں۔ اس کی دوسری سہیلی نے زہر کھا کر خود کشی کرلی۔ جب اس کو یہ المناک خبر ملی تو وہ بے ہوش ہو گئی۔ معلوم نہیں بے ہوشی نئی تھی یا وہی پرانی جو بڑے تیز بخار کے بعد ظہور میں آئی تھی۔ اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا۔ جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی سٹینو گرافر کا سرسہلاتا تھا۔ اس کی ممی نے گھر کا سارا حساب کتاب ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کے حوالے کردیا تھا۔ اب اس کو ڈرائیونگ آگئی تھی مگر بہت بیمار ہو گئی تھی۔ مگر پھر بھی اس کو ڈرائیور کے بن ماں کے پلے کا بہت خیال تھا۔ وہ اس کو اپنا موبل آئل پلاتی تھی۔ اس کی بھابھی اور اس کے بھائی کی زندگی بہت ادھیڑ اور ہٹی کٹی ہو گئی تھی۔ دونوں آپس میں بڑے پیار سے ملتے تھے کہ اچانک ایک رات جب کہ ملازمہ اور اس کا بھائی گھر کا حساب کتاب کررہے تھے، اس کی بھابھی نمودار ہوئی، وہ مجرد تھی۔ اس کے ہاتھ میں قلم تھانہ برش۔ لیکن اس نے دونوں کا حساب صاف کردیا۔ صبح کمرے میں سے جمے ہوئے لہو کے دو بڑے بڑے پھندنے نکلے جو اس کی بھابھی کے گلے میں لگا دیے گئے۔ اب وہ قدرے ہوش میں آئی۔ خاوند سے ناچاقی کے باعث اس کی زندگی تلخ ہو کر بعد میں عجیب وغریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے اس کو تھوڑا سا تلخ بنانے کی کوشش کی اور شراب پینا شروع کی، مگر ناکام رہی۔ اس لیے کہ مقدار کم تھی۔ اس نے مقدار بڑھا دی حتیٰ کہ وہ اس میں ڈبکیاں لینے لگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اب غرق ہوئی مگر وہ سطح پر ابھر آتی تھی۔ منہ سے شراب پونچھتی ہوئی اور قہقہے لگاتی ہوئی۔ صبح کو جب اٹھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ رات بھر اس کے جم کا ذرہ ذرہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ہے۔ اس کے وہ سب بچے جو پیدا ہوسکتے تھے، ان قبروں میں جو ان کے لیے بن سکتی تھیں، اس دودھ کے لیے جو ان کا ہو سکتا تھا، بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ مگر اس کے دودھ کہاں تھے۔ وہ تو جنگلی بلے پی چکے تھے۔ وہ زیادہ پیتی کہ اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ ذہین تھی۔ پڑی لکھی تھی۔ جنسی موضوعات پر بغیر کسی تصنع کے بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ مردوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی، مگر پھر بھی کبھی کبھی رات کی تنہائی میں اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی کسی بدعادت مرغی کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جائے اور ایک انڈہ دے آئے۔ بالکل کھوکھلی ہو گئی۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تو اس سے لوگ دور رہنے لگے۔ وہ سمجھ گئی، چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہ بھاگی اور اکیلی گھر میں رہنے لگی۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، شراب پیتی اور جانے کیا سوچتی رہتی۔ رات کو بہت کم سوتی تھی۔ کوٹھی کے اردگرد گھومتی رہتی تھی۔ سامنے کوارٹرمیں ڈرائیور کا بن ماں کا بچہ موبل آئل کے لیے روتا رہتا تھا مگر اس کی ماں کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ ڈرائیور نے ایکسیڈنٹ کردیا تھا۔ موٹر گیراج میں اور اسکی ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔ جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی، دوسری کاٹی جانے والی تھی۔ وہ کبھی کبھی کوارٹر کے اندر جھانک کر دیکھتی تو اس کو محسوس ہوتا کہ اس کے دودھوں کی تلچھت میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی ہے، مگر اس بدذائقہ سے تو اس کے بچے کے ہونٹ بھی تر نہ ہوتے۔ اس کے بھائی نے کچھ عرصے سے باہر رہنا شروع کردیا تھا۔ آخر ایک دن اس کا خط سوئیٹزرلینڈ سے آیا کہ وہ وہاں اپنا علاج کرا رہا ہے، نرس بہت اچھی ہے۔ ہسپتال سے نکلتے ہی وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ نے تھوڑا زیور، کچھ نقدی اور بہت سے کپڑے جو اس کی ممی کے تھے، چرائے اور چند روز کے بعد غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماں آپریشن ناکام ہونے کے باعث ہسپتال میں مر گئی۔ اس کا باپ جنازے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اس نے اس کی صورت نہ دیکھی۔ اب وہ بالکل تنہا تھی۔ جتنے نوکر تھے، اس نے علیحدہ کردیے، ڈرائیور سمیت۔ اس کے بچے کے لیے اس نے ایک آیا رکھ دی۔ کوئی بوجھ سوائے اس کے خیالوں کے باقی نہ رہا تھا۔ کبھی کبھار اگر کوئی اس سے ملنا آتا تو وہ اندر سے چلا اٹھی تھی۔

’’چلے جاؤ۔ جوکوئی بھی تم ہو، چلے جاؤ۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔ ‘‘

سیف میں اس کو اپنی ماں کے بے شمار قیمتی زیورات ملے تھے۔ اس کے اپنے بھی تھے جن سے ان کو کوئی رغبت نہ تھی۔ مگر اب وہ رات کو گھنٹوں آئینے کے سامنے ننگی بیٹھ کر یہ تمام زیور اپنے بدن پر سجاتی اور شراب پی کر کن سری آواز میں فحش گانے گاتی تھی۔ آس پاس اور کوئی کوٹھی نہیں تھی اس لے اسے مکمل آزادی تھی۔ اپنے جسم کو تو وہ کئی طریقوں سے ننگا کر چکی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اپنی روح کو بھی ننگا کردے۔ مگر اس میں وہ زبردست حجاب محسوس کرتی تھی۔ اس حجاب کو دبانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آیا تھا کہ پیے اور خوب پیے اور اس حالت میں اپنے ننگے بدن سے مدد لے۔ مگر یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ وہ آخری حد تک ننگا ہو کر سترپوش ہو گیا تھا۔ تصویریں بنا بنا کر وہ تھک چکی تھی۔ ایک عرصے سے اس کا پینٹنگ کا سامان صندوقچے میں بند پڑا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے سب رنگ نکالے اور بڑے بڑے پیالوں میں گھولے۔ تمام برش دھو دھا کر ایک طرف رکھے اور آئینے کے سامنے ننگی کھڑی ہو گئی اور انے جسم پر نئے نئے خدوخال بنانے شروع کیے۔ اس کی یہ کوشش اپنے وجود کو مکمل طور پر عریاں کرنے کی تھی۔ وہ اپنا سا منا حصہ ہی پینٹ کرسکتی تھی۔ دن بھر وہ اس میں مصروف رہی۔ بن کھائے پیے، آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بدن پرمختلف رنگ جماتی اور ٹیڑھے بنگے خطوط بناتی رہی۔ اس کے برش میں اعتماد تھا۔ آدھی رات کے قریب اس نے دور ہٹ کر اپنا بغور جائزہ لے کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد اس نے تمام زیورات ایک ایک کرکے اپنے رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسم پر سجائے اور آئینے میں ایک بار پھر غور سے دیکھا کہ ایک دم آہٹ ہوئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک آدمی چھرا ہاتھ میں لیے، منہ پر ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر جب وہ مڑی تو حملہ آور کے حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ چھرا اس کے ہاتھ سے گر پڑا افراتفری کے عالم میں کبھی ادھر کا رخ کیا کبھی ادھر۔ آخر جو رستہ ملا، اس میں سے بھاگ نکلا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی۔ چیختی، پکارتی۔

’’ٹھہرو۔ ٹھہرو میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔ ٹھہرو!‘‘

مگر چور نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوار پھاند کر غائب ہو گیا۔ مایوس ہو کر واپس آئی۔ دروازے کی دہلیز کے پاس چور کا خنجرپڑا تھا۔ اس نے اٹھا لیا اور اندرچلی گئی۔ اچانک اس کی نظریں آئینے سے دو چار ہوئیں۔ جہاں اس کا دل تھا، وہاں اس نے میان نما چمڑے کے رنگ کا خول سا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اس پر خنجر رکھ کر دیکھا۔ خول بہت چھوٹا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور بوتل میں سے شراب کے چار پانچ بڑے بڑے گھونٹ پی کر ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ کئی بوتلیں خالی کر چکی تھی۔ کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔ دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ پھر آئینے کے سامنے آئی۔ اس کے گلے میں ازار بند نما گلوبند تھا جس کے بڑے بڑے پھندنے تھے۔ یہ اس نے برش سے بنایا تھا۔ دفعتاً اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ گلوبند تنگ ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے گلے کے اندر دھنستا جارہا ہے۔ وہ خاموش کھڑی آئینے میں آنکھیں گاڑی رہی جو اسی رفتار سے باہر نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کی تمام رگیں پھولنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اس نے چیخ ماری اور اوندھے منہ فرش پر گر پڑی۔

سعادت حسن منٹو

پھسپھسی کہانی

سخت سردی تھی۔ رات کے دس بجے تھے۔ شالامار باغ سے وہ سڑک جو ادھر لاہور کو آتی ہے، سنسان اور تاریک تھی۔ بادل گھرے ہوئے تھے اور ہوا تیز چل رہی تھی۔ گردوپیش کی ہر چیز ٹھٹھری ہوئی تھی۔ سڑک کے دو رویہ پست قد مکان اور درخت دھندلی دھندلی روشنی میں سکڑے سکڑے دکھائی دے رہے تھے۔ بجلی کے کھمبے ایک دوسرے سے دور دور ہٹے، روٹھے اور اکتائے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ ساری فضا میں بدمزگی کی کیفیت تھی۔ ایک صرف تیز ہوا تھی جو اپنی موجودگی منوانے کی بیکار کوشش میں مصروف تھی۔ جب دو سائیکل سوار نمودار ہوئے اور ہوا کے تیز و تند جھونکے ان کے کانوں سے ٹکرائے تو انھوں نے اپنے اپنے اوورکوٹ کا کالر اونچا کرلیا۔ دونوں خاموش تھے۔ مخالف ہوا کے باعث انھیں پیڈل چلانے میں کافی زور صرف کرنا پڑرہا تھا۔ مگر وہ اس کے احساس سے غافل ایک دوسرے کا سایہ بنے شالامار باغ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اگر کوئی انھیں دور سے دیکھتا تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ سڑک جو لوہے کی زنگ آلود چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی، ان کی سائیکلوں کے ساکت پہیوں کے نیچے ہولے ہوئے کھسک رہی ہے۔ بہت دیر تک وہ دونوں سنسان فاصلہ خاموشی میں طے کرتے رہے۔ آخر ان میں سے سائیکل سے اتر کر اپنے سرد ہاتھ منہ کی بھاپ سے گرم کرنے لگا۔

’’سخت سردی ہے۔ ‘‘

اس کے ساتھی نے بریک لگائی اور ہنسنے لگا۔

’’بھائی جان!وہ۔ وہ وہسکی کہاں گئی؟‘‘

’’جہنم میں۔ جہاں ساری شام غارت ہوئی، وہاں وہ بھی نہ ہوئی۔ ‘‘

دونوں بھائی تھے، مگر ایسے بھائی جو چاروں عیب شرعی اکٹھے مل جل کے کرتے تھے۔ دونوں نے صبح یہ پروگرام بنایا تھا کہ دفتر سے فارغ ہو کررشوت کے اس روپے کا جو انہیں دو بجے کے قریب ملنا تھا، جائز استعمال سوچیں گے۔ روپیہ انھیں دو بجے سے پہلے ہی مل گیا تھا، اس لیے کہ رشوت دینے والا بہت بے قرار تھا۔ بڑے بھائی نے روپیہ جیب میں رکھنے سے پہلے تمام نوٹ اچھی طرح دیکھ کر اطمینان کرلیا کہ وہ نشان زدہ نہیں تھے۔ رقم زیادہ نہیں تھی۔ دو سو ایک روپے تھے۔ انھوں نے دو سو طلب کیے تھے مگر ایک کا اضافہ رشوت دینے والے نے شگن کے لیے تھا جو بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی سے مشورہ کرکے ایک اندھے بھکاری کو دے دیا تھا۔ اب وہ دونوں ہیرا منڈی کی طرف جارہے تھے۔ چھوٹے بھائی کی جیب میں اسکاچ کی بوتل تھی۔ بڑے کی جیب میں تھری فائیو کے دو ڈبے عام طور پر دونوں گولڈ فلیک پیتے تھے، مگر جب رشوت ملتی تو ایسا برانڈ پیتے تھے جس کے د ام زیادہ ہوں۔ ہیرا منڈی میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے کہ بادشاہی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ بڑے نے چھوٹے سے کہا۔

’’چلو یار، نماز پڑھ لیں!‘‘

چھوٹے نے اپنی پھولی ہوئی جیب کی طرف دیکھا۔

’’اس کا کیا کریں بھائی جان؟‘‘

بڑے نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا۔

’’اس کا انتظام کرلیتے ہیں۔ اپنا یار بٹ جو ہے!‘‘

بٹ پان فروش کی دکان قریب ہی تھی۔ چھوٹے نے مہین کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل اس کے حوالے کی۔ بڑے نے اپنی اور اپنے بھائی کی سائیکل دکان کے تھڑے کے ساتھ ٹکائی اور بٹ سے کہا۔

’’ہم ابھی آئے نماز پڑھ کے!‘‘

بٹ نے قہقہہ لگایا۔

’’دو نفل شکرانے کے بھی!‘‘

دونوں بھائیوں نے بادشاہی مسجد میں نماز ادا کی اور دو نفل شکرانے کے بھی پڑھے۔ واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بٹ کی دکان بند ہے۔ ساتھ والے دکاندار سے پوچھا تو اس نے کہا۔ ‘‘

نماز پڑھنے گیا ہے۔ ‘‘

دونوں بھائیوں کو سخت تعجب ہوا۔

’’نماز!‘‘

دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’سال چھ ماہ ہی میں کبھی کبھی پڑھ لیا کرتا ہے۔ ‘‘

دونوں بہت دیر تک بٹ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ جب وہ نہ آیا تو بڑے نے چھوٹے سے کہا۔

’’جاؤ یار۔ ایک بوتل اور لے آؤ۔ میں نے خواہ مخواہ اس حرامزادے بٹ پر اعتبار کیا۔ ‘‘

چھوٹے نے روپے لیے اور بڑے سے کہا۔

’’جیب ہی میں پڑی رہتی تو کیا حر ج تھی؟‘‘

’’چھوڑو یار۔ ہٹاؤ اس قصے کو۔ مجھے بوتل جانے کا اتنا افسوس نہیں۔ کہیں گر کر بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑی بے دردی سے پی رہا ہو گا کم بخت۔ ‘‘

چھوٹے نے پیڈل پر پاؤں رکھا اور پوچھا۔

’’آپ یہیں ہوں گے؟‘‘

بڑے نے بڑے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’ہاں بھئی، یہیں کھڑا رہوں گا۔ شاید بہک کر ادھر آنکلے۔ لیکن تم جلدی آجانا!‘‘

چھوٹا جلدی واپس آگیا مگر اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو کیریئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ بڑا تاڑ گیا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ لیکن اسے زیادہ دیر تک ذہنی کشمکش میں مبتلا نہ رہنا پڑا کیوں کہ چھوٹے نے سائیکل سے اترتے ہی اس کو سارا قصہ سنا دیا۔ شراب کی دکان سے دوسری بوتل لے کر جونہی وہ باہر نکلا تو بارش ہو چکی تھی۔ اسے جلد واپس پہنچنا تھا۔ افراتفری میں اس نے سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر وہ ایسی پھسلی کہ سنبھالے نہ سنبھلی۔ سڑک پر اوندھے منہ گرا اور دوسری بوتل بھی جہنم میں چلی گئی۔ چھوٹے نے ساری داستان تفصیل کے ساتھ سنا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

’’میں بچ گیا بھائی جان۔ بوتل کا کوئی ٹکڑا اگر کپڑے چیر کر گوشت تک پہنچ جاتا تو اس وقت کسی ہسپتال میں پڑا ہوتا۔ ‘‘

بڑے نے اللہ کا شکر ادا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ شراب کی دکان سے جو آدمی اس کے بھائی کے ساتھ آیا تھا، اس کو تیسری بوتل کے پیسے دے کر اس نے بٹ پان فروش کی بند دکان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں ایک بہت ہولناک قسم کی گالی دے کر اس کی دکان کو بھسم کر ڈ الا۔ دونوں کو معلوم تھا کہ انھیں کہاں جانا ہے۔ چوک کے اس طرف نان کباب والے کے اوپر جو بالا خانہ تھا، اسی میں ان دونوں بھائیوں کی بالائی آمدنی کا جائز نکاس تھا، لونڈیا کم گو تھی۔ کھانے پینے والی تھی۔ عادات و اطوار کے لحاظ سے طوائف کم اور کلرک زیادہ تھی۔ اسی لیے ان کو پسند تھی کہ وہ خود بھی کلرک تھے۔ جب دونوں خوب پی جاتے تو دفتری گفتگو شروع کردیتے۔ ہیڈ کلرک کیسا ہے، صاحب کیسا ہے، اس کی گھر والی کی طبیعت کیسی ہے۔ گھنٹوں اپنے اپنے ماتحتوں اور اپنے افسروں کے ماضی اور حال پر تبصرہ کرتے رہتے۔ اور وہ بڑے انہماک سے سنتی رہتی۔ بہت کن سری تھی، مگر دونوں بھائی اس کا گانا سن کر یوں جھومتے تھے جیسے وہ ان کے کانوں میں شہد ٹپکا رہی ہے۔ لیکن آج جب وہ گانے لگی تو ان کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ وہ سر میں ہے نہ تال میں۔ چنانچہ اس کا گانا بند کراکے انھوں نے باقی بچی ہوئی شراب پینا شروع کردی۔ طوائف کا نام شیداں تھا، بہت کم پینے والی، مگر جانے اسے کیا ہوا کہ جب دونوں بھائیوں نے اس کا گانا بند کراکے پینا شروع کیا تو وہ بہک گئی اور ایسی بہکی کہ بوتل اٹھا کر ساری کی ساری سوکھی پی گئی۔ بڑے کو بہت غصہ آیا، مگر وہ اسے پی گیا کیوں کہ چھوٹا مزے میں تھا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس پر یہ کیف طاری نہ رہا کیوں کہ جب اس نے اور پینے کے لیے بوتل اٹھائی تو وہ خالی تھی۔ اب دونوں یکساں طور پر بے مزا تھے۔ بڑے نے چھوٹے سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا۔ شیداں کے استاد مانڈو کو روپے دے کر اس نے کہا۔

’’جاؤ، بھاگ کر جاؤاور ایک بوتل جمخانہ وسکی لے آؤ!‘‘

استاد نے روپے گن کر جیب میں رکھے اور کہا۔

’’سرکار! بلیک میں ملے گی۔ ‘‘

بڑا جو پہلے ہی بھنایا ہوا تھا، چلا کر بولا۔

’’ہاں، ہاں۔ جانتا ہوں۔ اسی لیے تو میں نے پانچ زیادہ دیے ہیں۔ ‘‘

جمخانہ آئی۔ دو دور چلے تو بڑے نے محسوس کیا کہ پانی ملی ہے۔ امتحان لینے کی خاطر اس نے تھوڑی سی رکابی میں ڈالی اور اس کو دیا سلائی دکھائی۔ ایک لحظہ کے لیے نیم جان نیلگوں سا دھواں اٹھا اور دیا سلائی شوں کرکے رکابی میں بجھ گئی۔ دونوں بھائیوں کو اس قدر کوفت ہوئی کہ غصے میں بھرے ہوئے اٹھے۔ بڑے نے پانی ملی بوتل ہاتھ میں لی۔ اس کا ارادہ تھا کہ یہ وہ اس شراب فروش کے سر پر دے مارے گا جس نے بے ایمانی کی تھی۔ مگر فوراً اسے خیال آیا کہ ان کے پاس پرمٹ نہیں تھا، اس لیے مجبوراً گالیاں دے کر خاموش ہو گئے۔ چھوٹے کی کوششوں سے بدمزگی کسی حد تک دور ہو گئی تھی کہ شیداں نے جو اس کی مدد کررہی تھی، سب کھایا پیا اگلنا شروع کردیا۔ اب دونوں بھائیوں نے مناسب خیال کیا کہ چلا جائے۔ چنانچہ استاد کی تحویل سے سائیکلیں لے کر وہ ہیرا منڈی کی گلیوں میں دیر تک بے مقصد گھومتے رہے۔ مگر اس آوارہ گردی کے باعث ان کی کوفت دور نہ ہوئی۔ واپس گھر جانے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ انھیں بٹ دکھائی دیا۔ نشے میں دھت تھا اور کوٹھوں کی طرف گردن اٹھا اٹھا کر واہی تباہی بک رہا تھا۔ دونوں بھائیوں کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیں۔ مگر ان سے پہلے ایک سپاہی نے اس کو پکڑ لیا اور تھانے لے لیا۔ چھوٹے نے بڑے سے کہا۔

’’چلیے بھائی جان۔ ذرا تماشہ دیکھیں۔ ‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’کس کا؟‘‘

’’بٹ اور کس کا!‘‘

بڑے کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’پاگل ہوئے ہو۔ تھانے میں اگر اس نے ہمیں پہچان لیا یا کسی نے ہمارے منہ کی بو سونگھ لی تو ہمیں اپنا تماشہ بھی ساتھ ساتھ دیکھنا پڑے گا۔ ‘‘

چھوٹے نے دل ہی دل میں بڑے کی دور اندیشی کی د اد دی اور کہا۔

’’تو چلیے۔ گھر چلیں۔ ‘‘

دونوں اپنی اپنی سائیکل پر سوار ہوئے۔ بارش تھم چکی تھی۔ لیکن سرد ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔ ابھی وہ ہیرا منڈی سے باہر نکلے تھے کہ انھیں اس تانگے میں جوان کے آگے آگے چل رہا تھا، اپنے دفتر کا بڑا افسر نظر آیا۔ دونوں نے ایک دم اس کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ کیوں کہ وہ انھیں دیکھ چکا تھا۔

’’ہلو!‘‘

انھوں نے اس ہلو کا جواب نہ دیا۔

’’ہلو!‘‘

اس ہلو کے جواب میں انھوں نے اپنی اپنی سائیکل روک لی۔ افسر نے تانگہ ٹھہرا لیا اور ان سے بڑے مربیّانہ انداز میں کہا۔

’’کہو مسٹر! عیش ہورہے ہیں؟‘‘

چھوٹے نے

’’جی ہاں!‘‘

اور بڑے نے

’’جی نہیں !‘‘

میں جواب دیا۔ اس پر افسر نے قہقہہ لگایا۔

’’میرا عیش تو ادھورا رہا۔ ‘‘

پھر اس نے افسرانہ انداز میں پوچھا۔

’’تمہارے پاس کچھ روپے ہیں؟‘‘

اس مرتبہ بڑے نے

’’جی ہاں!‘‘

اور چھوٹے نے

’’جی نہیں!‘‘

میں جواب دیا جس پر افسر نے دوسرا قہقہہ بلند کیا جو ٹھیٹ افسرانہ تھا۔

’’ایک سو روپے کافی ہوں گے اس وقت!‘‘

بڑے نے بڑے میکانکی انداز میں اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اپنے چھوٹے بھائی کی طرف بڑھا دیا۔ چھوٹے نے پکڑ کر افسر کے حوالے کردیا جس نے

’’تھینک یو!‘‘

کہا اور تانگے سے اتر کر لڑکھڑاتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ دونوں بھائی تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ بڑے نے تمام حالات پیش نظر رکھ کر اپنے سر کو زور سے جنبش دی۔

’’معلوم نہیں آج صبح صبح کس کا منہ دیکھا تھا۔ ‘‘

چھوٹے کے منہ سے یہ بڑی گالی نکلی۔

’’اسی۔ کا، جس نے دو سو ایک روپے دیے۔ ‘‘

بڑے نے بھی اس کومناسب و موزوں گالی سے یاد کیا۔

’’ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں سارا قصور اس فالتو روپے کا ہے جو اس نے اپنی ماں کی رواں سے شگن کے طور پر دیا تھا۔ ‘‘

’’اس نماز کا بھی جو ہم نے پڑھی!‘‘

’’اور اس حرامی بٹ کا بھی!‘‘

’’میں تو شکر کرتا ہوں کہ پولیس نے اس کو پکڑ لیا، ورنہ میں نے آج ضرور اس کا خون کردیا ہوتا۔ ‘‘

’’اور لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ‘‘

’’لینے کے دینے تو پڑ ہی گئے۔ خدا معلوم یہ ہمارا افسر کہاں سے آن ٹپکا۔ ‘‘

’’لیکن میں سمجھتا ہوں اچھا ہی ہوا۔ سو روپے میں سالا کانا تو ہو گیا۔ ‘‘

’’یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن آج کی شام بہت بری طرح غارت ہوئی۔ ‘‘

’’چلو چلیں۔ ایسا نہ ہو کوئی اور آفت آجائے۔ ‘‘

دونوں پھر اپنی اپنی سائیکل پر سوار ہوئے اور ہیرا منڈی سے نکل آئے۔ بڑے نے دفتر سے نکلتے ہی یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اسکاچ کے دو تین دور ہونے کے بعد وہ شیداں سے کہے گا کہ وہ اپنی چھوٹی بہن کو بلائے۔ اس کی وہ بہت تعریفیں کیا کرتی تھی۔ کم عمر اور الہڑ تھی۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس نے گاؤں کی صحت مند فضا میں گزارا تھا اور دھندا شروع کیے اسے بمشکل چند مہینے ہوئے تھے۔ اسکاچ وسکی اور شیداں کی چھوٹی اور طبیعت اس سے بڑھ کر اور کیا عیاشی ہو سکتی تھی۔ مگر اس کا یہ سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور صرف کوفت باقی رہ گئی۔ چھوٹے نے بھی کُھل کھیلنے کی سوچی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ وسکی اور شیداں یقینی طور پر اسے اور بھی خوشگوار بنا دیتے اور وہ اس قدر محظوظ ہوتا کہ پندرہ بیس روز تک اسے اور کسی عیش کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ مگر سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا۔ دونوں کے سر بھاری اور دل کڑوے کسیلے تھے۔ دونوں کی ہر بات الٹی ثابت ہوئی تھی۔ اسکاچ کی پہلی بوتل بٹ پان فروش لے اڑا۔ دوسری سڑک کے پتھروں پر ٹوٹ کر بہہ گئی۔ تیسری عین اس وقت داغ مفارقت دے گئی جب کہ سرورگٹھ رہے تھے۔ چوتھی کفایت کی خاطر دیسی منگوائی تو اس میں آدھا پانی نکلا اور سوکا آخری نوٹ افسر نے ہتھیا لیا۔ بڑے کی کوفت زیادہ تھی، یہی وجہ تھی کہ اس کے دماغ میں عجیب عجیب سے خیال آرہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اور بھی کچھ ہو۔ کوئی ایسی بات ہو کہ وہ کتوں کی طرح زور زور سے بھونکنا شروع کردے۔ یا ایسا زچ بچ ہو کہ اپنی سائیکل کے پرزے اڑا دے، اپنے تمام کپڑے اتار کر پھینک دے اور ننگ دھڑنگ کسی کنویں میں چھلانگ لگا دے۔ جس طرح حالات نے اس کا مضحکہ اڑایا تھا، اسی طرح وہ ان کا مضحکہ اڑانا چاہتا تھا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ حالات پیدا ہو کر وہیں ہیرا منڈی میں وفات پاگئے تھے۔ اب نئے حالات اور وہ بھی ایسے حالات پیدا ہوں جن کا وہ حسب منشا مضحکہ اڑا سکے۔ اس کے متعلق سوچنے سے وہ خود کو عاری پاتا تھا۔ ایک صرف گھر تھا جہاں لحاف اوڑھ کر سو سکتے تھے۔ مگر خالی خولی لحاف اوڑھ کر سو جانے میں کیا رکھا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ سو سو کے دو نوٹوں میں چرس ملا تمباکو کو بھرتے اور پی کر انٹاغفیل ہو جاتے اور صبح اٹھ کر شگن کے ایک روپے کا کسی پیر فقیر کے مزار پر چڑھاوا چڑھا دیتے۔ سوچتے سوچتے بڑے نے زور کا نعرہ بلند کیا۔

’’ہٹ تیری ایسی کی تیسی!‘‘

چھوٹے نے گھبرا کر پوچھا۔

’’پنکچر ہو گیا؟‘‘

بڑنے نے جھنجھلا کر جواب دیا۔

’’نہیں یار۔ میں نے اپنا دماغ پنکچر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ‘‘

چھوٹا سمجھ گیا۔

’’اب جلدی گھر پہنچ جائیں۔ ‘‘

بڑے کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہو گیا۔

’’وہاں کیا کریں گے۔ بطخوں کے بال مونڈیں گے؟‘‘

چھوٹا بے اختیار ہنسنے لگا۔ بڑے کو یہ ہنسی بہت ناگوار گزری۔

’’خاموش رہو جی!‘‘

دیر تک دونوں خاموشی سے گھر کا فاصلے طے کرتے رہے۔ اب وہ اس سڑک پر تھے جو لوہے کی زنگ آلود چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی، اور ایسا لگتا تھا کہ ان کی سائیکلوں کے پہیوں کے نیچے ہولے ہولے کھسک رہی ہے۔ بڑے نے جب اپنے سرد ہاتھ منہ کی بھاپ سے گرم کیے اور کہا۔

’’سخت سردی ہے۔ ‘‘

تو چھوٹے نے ازارہ مذاق پوچھا۔

’’بھائی جان!وہ۔ وہ وسکی کہاں گئی؟‘‘

بڑے کے جی میں آئی کہ چھوٹے کو سائیکل سمیت اٹھا کر سڑک پر پٹک دے، مگر اس قدر کہہ سکا۔

’’جہنم میں۔ جہاں ساری شام غارت ہوئی، وہاں وہ بھی ہوئی۔ ‘‘

یہ کہہ وہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ اتنے میں چھوٹے نے آواز دی

’’بھائی جان!وہ دیکھیے کون آرہا ہے۔ ‘‘

بڑے نے مڑ کر دیکھا۔ ایک لڑکی تھی جو سردی میں ٹھٹھرتی، کانپتی، قدموں سے راستہ ٹٹولتے ان کی جانب آرہی تھی۔ جب پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اندھی ہے، آنکھیں کھلی تھیں مگر اس کو سجھائی نہیں دیتا تھا کیوں کہ کھمبے کے ساتھ وہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ بڑے نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ جوان تھی۔ عمر یہی سولہ سترہ بس کے قریب ہو گی۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھی اس کا سڈول بدن جاذب توجہ تھا۔ چھوٹے نے اس سے پوچھا۔

’’کہاں جارہی ہے تو؟‘‘

اندھی نے ٹھٹھرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’راستہ بھول گئی ہوں۔ گھرسے آگ لینے کے لیے نکلی تھی۔ ‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘

اندھی بولی۔

’’پتہ نہیں۔ کہیں پیچھے رہ گیاہے۔ ‘‘

بڑے نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

’’چل میرے ساتھ!‘‘

اور وہ اسے سڑک کے اس پار لے گیا جہاں اینٹوں کا پرانا بھٹہ تھا جو ویرانے کی شکل میں بکھرا ہوا تھا۔ اندھی سمجھ گئی کہ اس کو راستہ بتانے والااسے کس راستے پر لے جارہا ہے، مگر اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ شاید وہ ایسے راستوں پر کئی مرتبہ چل چکی تھی۔ بڑا خوش تھا کہ چلو کوفت دور کرنے کا سامان مل گیا۔ کسی مداخلت کا کھٹکا بھی نہیں تھا۔ اوورکوٹ اتار کر اس نے زمین پر بچھایا وہ اور اندھی دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اندھی جنم کی اندھی نہیں تھی۔ فسادات سے پہلے وہ اچھی بھلی تھی۔ لیکن جب سکھوں نے اس کے گاؤں پر حملہ کیا تو بھگدڑ میں اس کے سر پر گہری چوٹ لگی جس کے باعث اس کی بصارت چلی گئی۔ بڑے نے اوپرے دل سے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس کو اس کے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دو روپے جیب سے نکال کر اس نے اس کی ہتھیلی پر رکھے اور کہا۔

’’کبھی کبھی ملتی رہا کرنا۔ میں تمہیں کپڑے بھی بنوا دوں گا۔ ‘‘

اندھی بہت خوش ہوئی۔ بڑے نے جب اس کو روشن آنکھوں اور پھرتیلے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹولا تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔ اس کی کوفت کافی حد تک دور ہو گئی، لیکن ایک دم اسے اپنے چھوٹے بھائی کی بھنچی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’بھائی جان۔ بھائی جان!‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’کیا ہے؟‘‘

چھوٹا سامنے آیا۔ بڑے خوف زدہ لہجے میں اس نے کہا۔

’’دو سپاہی آرہے ہیں!‘‘

بڑے نے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے اپنا اوورکوٹ کھینچا جس پر اندھی بیٹھی ہوئی تھی۔ جھٹکے سے وہ اس خندق میں گر پڑی جس میں سے پکی ہوئی اینٹیں نکال لی گئی تھیں۔ گرتے وقت اس کے منہ سے بلند چیخ نکلی۔ مگر دونوں بھائی وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ چیخ سن کرسپاہی آئے تو انھوں نے بے ہوش اندھی کو خندق سے باہر نکالا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے سپاہیوں کو یوں دیکھنا شروع کیا جیسے وہ بھوت ہیں۔ پھر ایک دم دیوانہ وار چِلانے لگی۔

’’میں دیکھ سکتی ہوں۔ میں دیکھ سکتی ہوں۔ میری نظر واپس آگئی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی۔ اس کے ہاتھ سے جو دو روپے گرے، وہ سپاہیوں نے اٹھا لیے۔

سعادت حسن منٹو

پھاہا

گوپال کی ران پر جب یہ بڑا پھوڑا نکلا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ آم خُوب ہُوئے تھے۔ بازاروں میں، گلیوں میں، دکانداروں کے پاس، پھیری والوں کے پاس، جدھر دیکھو، آم ہی آم نظر آتے۔ لال، پیلے، سبز، رنگا رنگ کے۔۔۔۔۔۔۔ سبزی منڈی میں کھول کے حساب سے ہر قسم کے آم آتے تھے۔ اور نہایت سستے داموں فروخت ہو رہے تھے۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے برس کی کسر پوری ہو رہی تھی۔ اسکول کے باہر چھوٹو رام پھل فروش سے گوپال نے ایک روز خوب جی بھر کے آم کھائے۔ اور جیب میں سے ایک مہینے کے بچائے ہوئے جتنے پیسے جمع تھے سب کے سب ان آموں پر خرچ کر دیے۔ جن کے گودے اور رس میں شہد گھلا ہوا تھا۔ اس روز چھٹی کے وقت آم کھانے کے بعد انگلیاں چاٹتے ہوئے گوپال کو اسکول کے حلوائی سے دودھ کی لسّی پینے کا خیال آیا تھا۔ اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس نے گنڈا رام حلوائی سے پاؤ بھر دودھ کی لسّی بنانے کو کہا بھی تھا۔ مگر حلوائی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا۔

’’بابو گوپال، پہلا حساب چُکا دو تو اور اُدھار دوں گا، ورنہ نہیں۔ ‘‘

گوپال نے اگر آم نہ کھائے ہوتے، یا اگر اس کی جیب میں تھوڑے بہت پیسے ہوتے۔ تو وہ وہیں کھڑے کھڑے گنڈا رام کا حساب چکا دیتا۔ اور کچھ نہیں تو نقد دام دے کر لسّی کا وہ گلاس لے لیتا جس میں برف کا ٹکڑا اڈبکیاں لگا رہا تھا۔ اور جسے حلوائی نے بُرا سا منہ بنا کر اپنے پیچھے لوہے کے تھال پر رکھ دیا تھا۔ مگر گوپال کچھ بھی نہ کر سکا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھے روز اس کی ران پر یہ بڑا پھوڑا نکل آیا۔ اور تین چار روز تک اُبھرتا رہا۔ گوپال کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کہ کیا کرے۔ وہ پھوڑے سے اتنا پریشان نہیں تھا۔ جتنا اس کے درد سے۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پھوڑا دن بدن لال ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور اس کے منہ پر بدن کی جھلی پھٹنا شروع ہو گئی تھی۔ بعض اوقات گوپال کو یہ معلوم ہوتا کہ پھوڑے کے اندر کوئی ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ اور اس کے اندر سب کچھ ایک ہی اُبال میں نکلنا چاہتا ہے۔ یہ چیز اسے بہت پریشان کر رہی تھی۔ اور پھوڑے کی جسامت دیکھ کر ایک مرتبہ تو اسے ایسا معلوم ہوا تھا کہ اس کی جیب میں سے کانچ کی گولی نکل کر اس کی ران میں گھس گئی ہے۔ گوپال نے گھر میں پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر پتا جی کو اس کا پتہ چل گیا۔ تو وہ اپنے تھانے کی مکھیوں کا سارا غصہ اسی پر نکالیں گے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اُسے اس چھڑی سے پیٹنا شروع کر دیں۔ جو تھوڑے روز ہوئے گردھاری وکیل کے منشی نے وزیر آباد سے انھیں تحفے کے طور پر لا کر دی تھی۔ ماں کا مزاج بھی کم گرم نہ تھا۔ وہ اگر اسے آم کھانے کے جُرم کی سزا نہ دیتی تو اس غلطی پر اس کے کان کھینچ کھینچ کر ضرور لال کر دیتی کہ اس نے گھر کے باہر اکیلے اکیلے آم کیوں اڑائے۔ اس کی ماں کا اصول تھا۔ کہ

’’گوپال اگر تجھے زہر بھی کھانا ہو تو گھر میں کھانا‘‘

گوپال اچھی طرح جانتا تھا کہ اس اصول کے پیچھے اس کی ماں کی صرف یہ خواہش تھی کہ گوپال کے منہ کے ساتھ اس کا منہ بھی چلتا رہے۔ کچھ بھی ہو گوپال کی ران پر پھوڑا نکلنا تھا، نکل آیا۔ اس کا باعث جہاں تک گوپال سمجھ سکا تھا، وہی آم تھے۔ اس نے پھوڑے کی بابت گھر میں کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ اس کو اپنے پتا جی کی وہ ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی جو غسل خانے کے اندر بتائی گئی تھی۔ اس کے پتا جی لالہ پرشو تم داس تھانے دار لنگوٹ باندھے نل کی دھار کے نیچے اپنی گنجی چندیا رکھے اور بڑی توند بڑھائے مونچھوں میں سے آم کا رس چوس رہے تھے۔ سامنے بالٹی میں ایک درجن کے قریب آم پڑے تھے جو انھوں نے صبح سویرے ایک ٹھیلے والے سے اس کا چالان کاٹ کر حاصل کیے تھے۔ گوپال باپ کی پیٹھ مل رہا تھا اور میل کی مروڑیاں بنا رہا تھا۔ جب اس نے ہاتھ صاف کرنے کے لیے بالٹی میں ڈالے تھے۔ اور چپکے سے ایک آم اڑانا چاہا تھا۔ تو لالہ جی نے بڑے زور سے اس کا ہاتھ جھٹک کر چھوٹے سے آم کو مونچھوں سمیت منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔

’’بے شرم۔۔۔۔۔۔ تجھے بڑوں کا لحاظ کرنا، جانے کب آئے گا؟‘‘

اور جب گوپال نے رونی صورت بنا کر کہا تھا۔ ‘‘

پتا جی۔۔۔۔۔ آم کھانے کو میرا بھی تو جی چاہتا ہے۔ ‘‘

تو تھانیدار صاحب نے آم کی گٹھلی چُوس کر موری میں پھینکتے ہوئے کہا تھا۔ ‘‘

گوپو، تیرے لیے یہ آم بہت گرم تھا۔ پھوڑے پھنسیاں چاہتا ہے تو بیشک کھا لے۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین بارشیں اور ہو لینے دے، پھر خوب ٹھاٹ سے کھائیو تیری ماں سے کہوں گا وہ لسّی بنا دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ چل اب پیٹھ مل اور گوپال نے یہ رکاوٹ کی بات سُن کر خاموشی سے اپنے پتا کی پیٹھ ملنا شروع کر دی تھی اور آم کی مٹھاس نے جو پانی اس کے منہ میں بھر دیا تھا۔ اسے دیر تک نگلتا رہا تھا۔ اس کے دوسرے روز اس نے آم کھائے اور چوتھے روز اس کی ران پر پھوڑا نکل آیا۔ اس کے پتا کی بات سچی ثابت ہُوئی۔ اب اگر گوپال گھر میں کسی سے اس پھوڑے کی بات کرتا تو ظاہر ہے کہ خوب پٹتا، یہی وجہ ہے کہ خاموش رہا۔ اور پھوڑے کا بڑھاؤ بند کرنے کی تدبیریں سوچتا رہا۔ ایک روز اس کے پتا جی تھانے سے واپسی پر جب گھر آئے۔ تو ان کے ہاتھ میں ایک لمبی سی بتّی تھی۔ گوپال کی ماں کو آواز دے کر انھوں نے یہ بتّی اس کے ہاتھ میں میں دے کر کہا۔ ‘‘

لے آج بڑے کام کی چیز لایا ہوں۔ بمبئی کا مرہم ہے سو دوائیوں کی ایک دوا ہے۔۔۔۔ پھوڑے پھنسی کی بہار ہے۔ ذرا سا پھاہا پھوڑے پر لگا دو گی۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔۔۔۔ یوں۔۔۔۔۔۔۔۔ بمبئی کا خالص مرہم ہے۔ سنبھال کے رکھ۔ ‘‘

گوپال اپنی بہن نرملا کے ساتھ صحن میں گیند بلا کھیل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب تھانیدار جی مرہم دے کر اپنی پتنی کو کچھ سمجھا رہے تھے۔ تو نرملا نے زور سے گیند پھینکی۔ گوپال کا دھیان باپ کی طرف تھا۔ گیند پھوڑے پر زور سے لگی۔ گوپال بلبلا اٹھا۔ لیکن درد کو اندر ہی اندر پی گیا۔ وہ اسکول میں ماسٹر ہری رام کے مشہور بید کی مار کھا کر درد سہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ ادھر گوپال کے پھوڑے پر گیند لگی۔ ادھر اس کے باپ کی آواز بلند ہوئی۔

’’ذرا سا پھاہے پر لیپ کرکے لگا دو گی۔۔۔۔۔۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں‘‘

اور یوں کے ساتھ اس کے باپ کی چٹکی نے گویا گوپال کے سوئے ہوئے دماغ کی چٹکی بھر لی۔ اس کو اپنے درد کا علاج معلوم ہو گیا۔ اس کی ماں نے مرہم کی بتّی سامنے دالان میں سلائی کی پٹاری میں رکھ دی۔ گوپال کو اچھی طرح معلوم تھا۔ کہ اس کی ماں عام طور پر سلائی کی پٹاری ہی میں سب سنبھالنے والی چیزیں رکھا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ سنبھالنے والی چیز وہ موچنا تھا۔ جس سے اس کی ماں ہر دسویں پندرھویں روز اپنے تنگ ماتھے کے بال صاف کیا کرتی تھی۔ یہ بلاشک و شبہ سلائی کی پٹاری میں اس پڑیا سمیت موجود تھا جس میں کوئلوں کی سفید راکھ جمع رہتی تھی۔ جو اس کی ماں بال نوچ کر ماتھے پر لگایا کرتی تھی۔ تاہم گوپال نے اپنا اطمیان کرنے کے لیے گیند دالان میں پھینک دی اور اس کو پلنگ کے نیچے سے نکالتے ہوئے اپنی ماں کو سلائی کی پٹاری میں مرہم رکھتے دیکھ لیا۔ دوپہر کو اس نے اپنی بہن نرملا کو ساتھ مِلا کر چھوٹی قینچی جس سے اُس کا باپ انگلیوں کے ناخن کاٹتا تھا، مرہم کی بتّی اور اپنے باپ کے پاجامے سے بچا ہوا لٹھے کا وہ ٹکڑا حاصل کر لیا جس سے اس کی ماں ایک اور ٹکڑے کو ساتھ ملا کر شلوار کی میانی بنانا چاہتی تھی۔ دونوں یہ چیزیں لے کر اوپر کوٹھے پر چلے گئے۔ اور برساتی کے نیچے کوئلوں کی بوریوں کے پاس بیٹھ گئے۔ نرملا نے اپنی جیب سے لٹھے کا ٹکڑا نکال کر اپنی ران پر شلوار کے پھسلتے ہوئے ریشمی کپڑے پر پھیلا کر جب گوپال کی طرف اپنی ناچتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ تو اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ گیارہ برس کی یہ کمسن لڑکی جو دریائی سرکنڈے کی طرح نازک اور لچکیلی تھی۔ ایک بہت بڑے کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے۔ اس کا ننھا سا دل جو اس وقت تک صرف ماں باپ کی جھڑکیوں اور اپنی گڑیوں کے میلے ہوتے ہوئے چہروں کی فکر سے دھڑکا کرتا تھا۔ اب اپنے بھائی کی ران پر پھوڑا دیکھنے کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے کان کی لویں لال اور گرم ہو گئی تھیں۔ گوپال نے گھر میں اپنے پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ لیکن اب اُسے نرملا کو ساری بات سُنانا پڑی۔ کہ کس طرح اس نے چوری چوری آم کھائے اور لسّی پینا بھول گیا۔ اور اس کی ران پر پیسے کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ جب اس نے اپنی رام کہانی سنا کر نرملا سے راز دارانہ لہجے میں کہا تھا۔

’’دیکھ نرملا! گھر میں یہ بات کسی سے نہ کہیو۔ ‘‘

تو نرملا نے بڑی متین صورت بنا کر جواب دیا تھا کہ میں پاگل تھوڑی ہوں‘‘

گوپال کو یقین تھا کہ نرملا یہ بات اپنے تک ہی رکھے گی۔ چنانچہ اس نے پاجامے کو اوپر اڑس لیا، نرملا کا دل دھک دھک کرنے لگا، جب گوپال نے بیٹھ کر اپنا پھوڑا دکھایا۔ اور نرملا نے دور ہی سے اپنی انگلی سے اسے چُھوا تو ان کے بدن پر ایک جھرجھری سی طاری ہو گئی۔ سی سی کرتے ہوئے اس نے اُبھرے لال پھوڑے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کتنا لال ہے۔ ‘‘

’’ابھی تو اور ہو گا۔ ‘‘

گوپال نے اپنے مردانہ حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔ نرملا نے حیرت سے کہا۔ ‘‘

سچ؟‘‘

’’ابھی تو کچھ لال نہیں ہے، جو پھوڑا میں نے چرنجی کے منہ پر دیکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بڑا اور لال تھا‘‘

گوپال نے پھوڑے پر دو انگلیاں پھیریں۔

’’تو ابھی اور بڑھے گا؟‘‘

نرملا آگے سرک آئی۔

’’کیا پتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو اور بڑھتا چلا جا رہا ہے‘‘

گوپال نے جیب میں سے مرہم کی بتّی نکال کر کہا، نرملا سہم سی گئی۔ ‘‘

اس مرہم سے تو آرام آ جائے گا نا؟‘‘

گوپال نے بتّی کے ایک سرے پر سے کاغذ کی تہ جدا کی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’اس کا پھاہا لگانے ہی سے پھٹ جائے گا۔ ‘‘

’’پھٹ جائے گا۔ ‘‘

نرملا کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے کان کے پاس ربڑ کا غبارہ پھٹ گیا ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

’’اور اس کے اندر جو کچھ ہے پُھوٹ بہے گا! گوپال نے مرہم کو انگلی پر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ نرملا کا گلابی رنگ اب بمبئی کی مرہم کی طرح پیلا پڑ گیا تھا، اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔ مگر یہ پھوڑے کیوں نکلتے ہیں بھیّا؟‘‘

’’گرم چیزیں کھانے سے !‘‘

گوپال نے ایک ماہر طبیب کے سے انداز میں جواب دیا۔ نرملا کو وہ دو انڈے یاد آ گئے۔ جو اس نے دو ماہ پہلے کھائے تھے۔ وہ کچھ سوچنے لگی۔ گوپال اور نرملا کے درمیان چند باتیں اور ہوئیں۔ اس کے بعد وہ اصلی کام کی طرف متوجہ ہوئے، نرملا نے لٹھے کا ایک گول پھاہا کاٹا، بڑی نفاست سے، یہ روپے کے برابر تھا۔ اور اس کی گولائی میں مجال ہے ذرا سا نقص بھی ہو، اسی طرح گول تھا جس طرح نرملا کی ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی گول ہوتی تھی۔ گوپال نے اس پھاہے پر تھوڑا سا مرہم لگا دیا۔ اور اسے اچھی طرح پھیلانے کے بعد پھوڑے کی طرف غور سے دیکھا۔ نرملا گوپال کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ اور گوپال کی ہر حرکت کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ گوپال نے جب پھاہا اپنے پھوڑے کے اُوپر جما دیا۔ تو وہ کانپ گئی جیسے اس کے بدن پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہے۔

’’اب آرام آ جائے گا نا؟‘‘

نرملا نے نیم سوالیہ انداز میں کہا۔ گوپال جواب دینے بھی نہ پایا تھا کہ برساتی کے برابر والی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز سنائی دی۔ یہ ان کی ماں تھی۔ جو غالباً کوئلے لینے کے لیے آ رہی تھی۔ گوپال اور نرملا نے بیک وقت ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا اورکچھ کہے سُنے بغیر سب چیزیں اکٹھی کرکے اس پرانے صندوق کے پیچھے چھپا دیں جہاں ان کی بلی سندری بچے دیا کرتی تھی۔ اور چپکے سے بھاگ گئے۔ یہاں سے بھاگ کر گوپال نیچے گیا۔ تو اس کے باپ نے اُسے باہر فالودہ لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب واپس آیا تو اسے گلی میں نرملا ملی، فالودے کا گلاس اس کے حوالے کرکے وہ چرنجی کے گھر چلا گیا۔ اور اس طرح ان چیزوں کو اپنی جگہ پر رکھنا بھول گیا۔ جو ماں کے اچانک آ جانے سے اس نے اور نرملا نے صندوق کے پیچھے چھپا دی تھیں۔ چرنجی کے یہاں وہ دیر تک تاش کھیلتا رہا۔ کھیل سے فارغ ہو کر جب وہ چرنجی کی بغل میں ہاتھ ڈالے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ تو کسی بات پر اس کا دوست ہنسا اور اس کے داہنے گال پر پھوڑے کا نشان لمبی سی لکیر بن گیا۔ اُس کو دیکھ کر فوراً ہی اپنے پھوڑے کا گوپال کو خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ ہی اُسے وہ چیزیں یاد آگئیں جو صندوق کے پیچھے پڑی تھیں۔ چرنجی کی بغل سے ہاتھ نکال کر وہ بھاگا۔ گھر پہنچ کر اُس نے وہاں کی فضا دیکھی، اس کی ماں صحن میں بیٹھی اس کے باپ سے

’’ملاپ‘‘

اخبار کی خبریں سُن رہی تھی۔ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ گوپال ان کے پاس سے گزرا۔ دونوں نے اس کی طرف دیکھا، مگر اس سے کوئی بات نہ کی، گوپال کو اطمینان ہو گیا کہ ابھی تک اس کی ماں نے اپنی سلائی کی پٹاری نہیں دیکھی۔ چنانچہ وہ چپکے سے کوٹھے پر چلا گیا۔ بڑے کوٹھے کو طے کرکے دروازے کے اندر داخل ہونے والا ہی تھا۔ کہ اس کے قدم رُک گئے۔ صندوق کے پاس بیٹھی نرملا کچھ کر رہی تھی۔ گوپال پیچھے ہٹ گیا۔ اور چھُپ کر دیکھنے لگا۔ نرملا بڑے انہماک سے پھاہا تراش رہی تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں قینچی سے بڑا نفیس کام لے رہی تھیں۔ پھاہا کاٹنے کے بعد اس نے تھوڑا سا مرہم نکال کر اس پر پھیلایا اور گردن جھکا کر اپنے کُرتے کے بٹن کھولے، سینے کے داہنی طرف چھوٹا سا ابھار تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نلکی پر صابن کا چھوٹا سا نامکمل بُلبلہ اٹکا ہوا ہے۔ نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اسے اس ننھے سے اُبھار پر جما دیا۔

سعادت حسن منٹو

پھاتو

تیز بخار کی حالت میں اُسے اپنی چھاتی پر کوئی ٹھنڈی چیز رینگتی محسوس ہوئی۔ اُس کے خیالات کاسلسلہ ٹُوٹ گیا۔ جب وہ مکمل طور پر بیدار ہوا تو اُس کا چہرہ بخار کی شدت کے باعث تمتما رہا تھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا پھاتوفرش پر بیٹھی، پانی میں کپڑا بھگو کر اس کے ماتھے پر لگا رہی ہے۔ جب پھاتو نے اُس کے ماتھے سے کپڑا اُتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اُسے پکڑ لیا۔ اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کردیا۔ اُس کی سُرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک پھاتو کو دیکھتی رہیں۔ وہ اس دہکتی ہوئی ٹکٹکی کی تاب نہ لاسکی اورہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ اس پر وہ اُٹھ کر بستر میں بیٹھ گیا۔ پھاتو سے، جس کا اصل نام فاطمہ تھا، اُس کو غیر محسوس طور پر محبت ہو گئی تھی حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کردارو اطوار کی اچھی نہیں۔ محلے میں جتنے لونڈے ہیں اُس سے عشق لڑا چکے ہیں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس کو پھاتو سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ اگر بخار میں مبتلا نہ ہوتا تو یقیناًاُس سے اپنے اس جذبے کا اظہار کبھی نہ کیا ہوتا۔ مگر تیز بخار کے باعث اُس کو اپنے دل و دماغ پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے اونچی آواز میں پھاتو کو پکارنا شروع کیا۔

’’اِدھر آؤ۔ میری طرف دیکھو۔ جانتی ہو، میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں، بہت بُری طرح تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ اس طرح تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوں، جیسے کوئی دلدل میں پھنس جائے۔ میں جانتاہوں تم کیا ہو۔ میں جانتا ہوں تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔ مگر یہ سب کچھ جانتے بھوجھتے تم سے محبت کرتا ہوں۔ لعنت ہو مجھ پر۔ لیکن چھوڑ ان باتوں کو۔ اور میری طرف دیکھو۔ میں بخار کے علاوہ تمہاری محبت میں بھی پھنکا جارہاہوں۔ پھاتو۔ پھاتو۔ میں۔ میں‘‘

اس کے خیالات کا سلسلہ ٹُوٹ گیا اور اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ سے کونین کے نقصانات پر بحث شروع کردی۔ چند لمحات کے بعد وہ اپنی ماں سے جو وہاں موجودنہیں تھی، مخاطب ہوا

’’بی بی جی میرے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ آپ حیران کیوں ہوتی ہیں۔ مجھے پھاتو سے محبت ہے، اسی پھاتو سے جو ہمارے پڑوس میں پنج بندوں کے ہاں ملازم تھی اور جواب آپ کی ملازم ہے۔ آپ نہیں جانتیں اس لڑکی نے مجھے کتنا ذلیل کرادیا ہے۔ یہ محبت نہیں خسرہ ہے، نہیں خسرے سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کاکوئی علاج نہیں۔ مجھے تمام ذلتیں برداشت کرنی ہوں گی۔ ساری گلی کاکوڑا کرکٹ اپنے سر پر اُٹھانا ہو گا۔ یہ سب کچھ ہوکے رہے گا، یہ سب کچھ ہو کے رہے گا۔ ‘‘

آہستہ آہستہ اُس کی آواز کمزور ہوتی گئی اور اُس پر غنودگی طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس کی پلکوں پر بوجھ سا آن پڑا ہے۔ پھاتو پلنگ کے پاس فرش پر بیٹھی اس کی بے جوڑ ہذیانی گفتگو سُنتی رہی۔ مگر اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ ایسے بیماروں کی کئی مرتبہ تیمارداری کرچکی تھی۔ بخار کی حالت میں جب اُس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو پھاتو نے اُس کے متعلق کیا محسوس کیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس کا گوشت بھرا چہرہ جذبات سے بالکل عاری تھا۔ ممکن ہے کہ اُس کے دل کے کسی گوشے میں ہلکی سی سرسراہٹ پیدا ہوئی ہو۔ مگر یہ چربی کی تہوں سے نکل کر باہر نہ آسکی۔ پھاتو نے رومال نچوڑ کر تازہ پانی میں بھگویا اور اس کے ماتھے پر رکھنے کے لیے اُٹھی۔ اب کی بار اُسے اس لیے اُٹھنا پڑا کہ اُس نے کروٹ بدلی تھی۔ جب اُس نے آہستہ سے اُدھر سے مڑ کر اُس کے ماتے پر گیلا رومال جمایا تو اُس کی نیم وا آنکھیں یُوں کھلیں جیسے لال لال زخموں کے منہ ٹانکے ادھڑجانے سے کھل جاتے ہیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے پھاتو کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے گال تھوڑے سے نیچے لٹک آئے تھے پھر ایک دم جانے اُس پر کیا وحشت سوار ہوئی اُس نے پھاتو کو اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر اس زور سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچا کہ اُس کی ریڑھ کی ہڈی کڑ کڑ بول اُٹھی۔ پھر اُس نے اُس کو اپنی رانوں پر لٹا کر اُس کے موٹے اور گدگدے ہونٹوں پر اس زور سے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ پیوست کیے جیسے وہ انھیں داغنا چاہتاہے۔ اُس کی گرفت اس قدر زبردست تھی کہ پھاتو کوشش کے باوجود خود کو آزاد نہ کرسکی۔ اُس کے ہونٹ دیر تک اُس کے ہونٹوں پر استری کرتے رہے۔ پھر اچانک ہانپتے ہوئے اُس نے پھاتو کو ایک جھٹکے سے الگ کردیا اور اُٹھ کر بستر میں یوں بیٹھ گیا جیسے اُس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ پھاتو ایک طرف سمٹ گئی۔ وہ سہم گئی تھی۔ اس کے لبوں پر ابھی تک اس کی پپڑی جمے ہونٹ سرک رہے تھے۔ جب پھاتو نے کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس پر برس پڑا۔

’’تم یہاں کیا کررہی ہوں۔ تم بھوتنی ہو۔ ڈائن ہو۔ میرا کلیجہ نکال کر چبانا چاہتی ہو۔ جاؤ۔ جاؤ۔ ‘‘

یہ کہتے کہتے اُس نے اپنے وزنی سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا، جیسے وہ گر پڑے گا۔ اور ہولے ہولے بڑبڑانے لگا۔

’’پھاتو مجھے معاف کردو۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں بس صرف ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے تم سے دیوانگی کی حدتک محبت ہے، اس لیے کہ تم سے محبت کی جائے، میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ تم نفرت کے قابل ہو۔ تم عورت نہیں ہو۔ ایک سالم مکان ہو۔ ایک بہت بڑی بلڈنگ ہو۔ مجھے تمہارے سب کمروں سے محبت ہے۔ اس لیے کہ وہ غلیظ ہیں۔ شکستہ ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟‘‘

پھاتو خاموش رہی اُس پر ابھی تک اُس آہنی گرفت اور اُس کے خوفناک بو سے کا اثر موجود تھا۔ وہ اُٹھ کر کمرے سے باہرجانے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ اُس نے پھر ہذیانی کیفیت سے میں بڑبرانا شروع کردیا۔ پھاتو نے اُس کی طرف دیکھا اور وہ کسی غیر مرئی آدمی سے باتیں کررہاتھا۔ بستر پر اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی، پھاتو کو اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا۔

’’کیا کہہ رہی ہو تم۔ ‘‘

اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہی۔ پھاتو کی خاموشی سے اُسے خیال آیا کہ ہذیانی کیفیت میں وہ بے شمار باتیں کرچکا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اپنی محبت کااظہار بھی اس سے کرچکا ہے تو اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آیا۔ اسی غصے میں وہ پھاتو سے مخاطب ہوا۔

’’میں نے تم سے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل غلط ہے۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

پھاتو نے صرف اتنا کہا۔

’’جی ٹھیک ہو گا‘‘

وہ کڑکا

’’صرف ٹھیک ہی نہیں۔ سو فیصد حقیقت ہے۔ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ جاؤ، چلی جاؤ میرے کمرے سے۔ خبر دار جو کبھی اِدھر کا رُخ کیا۔ ‘‘

پھاتو نے حسبِ معمول نرم لہجے میں جواب دیا۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ جانے لگی کہ اُس نے اُسے روک لیا۔

’’ٹھہرو۔ ایک بات سنتی جاؤ۔ ‘‘

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ تم جاسکتی ہو۔ ‘‘

پھاتو نے کہا۔

’’میں جاتو رہی تھی۔ آپ نے خود مجھے روکا‘‘

۔ یہ کہہ اُس نے برتن اُٹھائے اور کمرے سے نکلنے لگی۔ مگر اُس نے پھر اُسے آواز دے کر روکا۔

’’ٹھہرو۔ میں ایک بات تم سے کہنا بھول گیا ہوں۔ ‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے اور اُس سے کہا۔

’’کیا بات ہے۔ بتادیجیے۔ مجھے اور کام کرنے ہیں۔ ‘‘

وہ سوچنے لگا کہ اُس نے پھاتو کو روکا کیوں تھا۔ اُسے اس سے ایسی کون سی اہم بات کرنا تھی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ پھاتو نے اُس سے کہا۔

’’میاں صاحب میں کھڑی انتظار کررہی ہوں۔ ۔ آپ کو مجھ سے کیا کہنا ہے۔ ‘‘

وہ بوکھلا گیا۔

’’مجھے کیا کہنا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں کہنا تھا۔ میرا مطلب ہے ‘ کہنا تو کچھ تھا مگر بھول گیا ہوں۔ ‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے۔

’’آپ یاد کرلیجیے۔ میں یہاں کھڑی ہوں۔ ‘‘

اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور یاد کرنے لگا۔ اسے پھاتو سے یہ کہنا تھا۔ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات تھے۔ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ پھاتو اس کے گھرسے چلی جائے۔ اس لیے کہ وہ اس سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ وہ نفرت بے پناہ محبت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اُس نے تھوڑے عرصہ کے بعد آنکھیں کھولیں۔ پھاتو تپائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ اُس نے سمجھا کہ شاید یہ سب خواب ہے، پر جب اُس نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو اُسے معلوم ہوا کہ خواب نہیں حقیقت ہے، لیکن اُس کی سمجھ میں نہیںآتا تھا کہ پھاتو کیوں بُت کی مانند اس کی چارپائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس نے کہا۔

’’تو یہاں کھڑی کیا کررہی ہے۔ ‘‘

پھاتو نے جواب دیا۔

’’آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کہنی ہے۔ ‘‘

وہ چڑ گیا، جھنجھلا کر بولا۔

’’تم سے مجھے کون سی ضروری بات کہنا تھی۔ جاؤ۔ دور ہٹ جاؤ میری نظروں سے۔ ‘‘

پھاتو نے تشویش ناک نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’’ایسا لگتا ہے آپ کا بخار تیز ہو گیا ہے۔ میں بی بی جی سے کہتی ہوں کہ ڈاکٹر کو بُلالیں۔ ‘‘

وہ اور زیادہ چڑ گیا۔

’’ڈاکٹر آیا تو میں اُسے گولی مادوں گا۔ اور تمہارا تو میں ان دوہاتھوں سے گلا گھونٹ دُوں گا۔ ‘‘

پھاتو نے اپنے لہجے کو اور زیادہ نرم بنا کر کہا۔

’’آپ ابھی گھونٹ ڈالیے۔ میں اپنی زندگی سے اُکتا چکی ہوں۔ ‘‘

اُس نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

’’بس اب جی نہیں چاہتا زندہ رہنے کو۔ میاں صاحب آپ کو معلوم نہیں میں یہ دن کیسے گزار رہی ہوں۔ اللہ کی قسم۔ ایک ایک پل زہر کا گھونٹ ہے۔ ۔ خدا کے لیے آپ میرا گلا گھونٹ کر مجھے ماردیجیے!‘‘

وہ لحاف کے اندر کانپنے لگا۔

’’پھاتو۔ جاؤ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

پھاتو نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’میں جانے لگتی ہوں۔ پر آپ مجھے روک لیتے ہیں۔ ‘‘

اُس نے بھنا کر کہا۔

’’کون حرامزادہ تجھے روکتا ہے۔ جا۔ دُور ہوجا۔ ‘‘

پھاتو جانے لگی تو اُس نے اُسے پھر روک لیا۔

’’ٹھہرو‘‘

’’وہ ٹھہر گئی۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’تم نہایت واہیات عورت ہو۔ خدا تمیں غارت کرے۔ جاؤ اب میری نظروں سے غائب ہو جاؤ‘‘

۔ پھاتو برتن اُٹھا کر چلی گئی۔ ایک مہینے بعد محلے میں شور مچا کہ پھاتو کسی کے ساتھ بھاگ گی ہے۔ سب اُس کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ عورتیں خاص طور پر اُس کے کردار میں کیڑے ڈال رہی تھیں اور پھاتو اپنے میاں صاحب کے ساتھ کلکتے میں ازدواجی زندگی بسر کررہی تھی۔ اُس کا شوہر ہر روز اُس سے کہتا تھا۔

’’فاطمہ، مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

اور وہ مسکرا کر جواب دیتی۔

’’یہ نفرت اگر نہ ہوتی تو میری زندگی کیسے سنورتی۔ آپ مجھ سے ساری عمر نفرت ہی کرتے رہیئے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پڑھے کلمہ

لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ آپ مسلمان ہیں یقین کریں میں جو کچھ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ پاکستان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ قائداعظم جناح کے لیے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن میں سچ کہتا ہوں اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ اتنی جلدی نہ کیجیے۔ مانتا ہوں۔ ان دنوں ہلڑ کے زمانے میں آپ کو فرصت نہیں، لیکن آپ خدا کے لیے میری پوری بات تو سن لیجیے۔ میں نے تکا رام کو ضرور مارا ہے، اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں تیز چھری سے اس کا پیٹ چاک کیا ہے، مگر اس لیے نہیں کہ وہ ہندو تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اس لیے نہیں مارا تو پھر کس لیے مارا۔ لیجیے میں ساری د استان ہی آپ کو سُنا دیتا ہوں۔ پڑھئے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ کس کافر کو معلوم تھا کہ میں اس لفڑے میں پھنس جاؤں گا۔ پچھلے ہندو مسلم فساد میں میں نے تین ہندو مارے تھے۔ لیکن آپ یقین مانئے وہ مارنا کچھ اور ہے، اور یہ مارنا کچھ اور ہیے۔ خیر، آپ سنئے کہ ہوا کیا، میں نے اس تکا رام کو کیوں مارا۔ کیوں صاحب عورت ذات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ میں سمجھتا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے۔ اس کے چلتروں سے خدا ہی بچائے۔ پھانسی سے بچ گیا تو دیکھیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ پھر کبھی کسی عورت کے نزدیک نہیں جاؤں گا۔ لیکن صاحب عورت بھی اکیلی سزاوار نہیں۔ مرد سالے بھی کم نہیں ہوتے۔ بس، کسی عورت کو دیکھا اور ریشہ خطمی ہو گئے۔ خدا کو جان دینی ہے۔ انسپکٹر صاحب! رکما کو دیکھ کر میرا بھی یہی حال ہوا تھا۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے۔ بندہ خدا تو ایک پینتیس روپے کا ملازم، تجھے بھلا عشق سے کیا کام۔ کرایہ وصول کر اور چلتا بن۔ لیکن آفت یہ ہوئی صاحب کہ ایک دن جب میں سولہ نمبر کی کھولی کا کرایہ وصول کرنے گیا اور دروازہ ٹھوکا تو اندرسے رکما بائی نکلی۔ یوں تو میں رکما بائی کوکئی دفعہ دیکھ چکا تھا لیکن اس دن کم بخت نے بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور ایک پتلی دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ جانے کیا ہوا مجھے، جی چاہا اس کی دھوتی اتار کر زور زور سے مالش کردوں۔ بس صاحب اسی روز سے اس بندہ نابکار نے اپنا دل، دماغ سب کچھ اس کے حوالے کردیا۔ کیا عورت تھی۔ بدن تھا پتھر کی طرح سخت مالش کرتے کرتے ہانپنے لگ گیا تھا مگر وہ اپنے باپ کی بیٹی یہی کہتی رہی

’’تھوڑی دیر اور‘‘

شادی شدہ۔ جی ہاں شادی شدہ تھی اور خان چوکیدار نے کہا تھا کہ اس کا ایک یار بھی ہے۔ لیکن آپ سارا قصہ سُن لیجیے۔ یار وار سب ہی اس میں آجائیں گے۔ جی ہاں، بس اس روز سے عشق کا بھوت میرے سر پر سوار ہو گیا۔ وہ بھی کچھ کچھ سمجھ گئی تھی کیونکہ کبھی کبھی کن اکھیوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی۔ لیکن خدا گواہ ہے جب بھی وہ مسکرائی، میرے بدن میں خوف کی ایک تھرتھری سی دوڑ گئی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ معشوق کو پاس دیکھنے کا۔ وہ۔ ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا۔ لیکن آپ شروع ہی سے سُنیے۔ وہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ رکما بائی سے میری آنکھ لڑ گئی تھی۔ اب دن رات میں سوچتا تھا کہ اسے پٹایا کیسے جائے۔ کم بخت، اس کا خاوند ہر وقت کھولی میں بیٹھا لکڑی کے کھلونے بناتا رہتا، کوئی چانس ملتا ہی نہیں تھا۔ ایک دن بازار میں نے اس کے خاوند کو جس کا نام۔ خدا آپ کا بھلا کرے کیا تھا جی ہاں۔ گردھاری۔ لکڑی کے کھلونے چادر میں باندھے لے جاتے دیکھا تو میں نے جھٹ سے سولہ نمبر کی کھولی کا رخ کیا۔ دھڑکتے دل سے میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھولا۔ رکما بائی نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ خدا کی قسم میری روح لرز گئی۔ بھاگ گیا ہوتا وہاں سے، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ جب اندر گیا تو اس نے کھولی کا دروازہ بند کرکے مجھ سے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ!‘‘

میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے پاس آکر کہا۔

’’دیکھو میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ لیکن جب تک گردھاری زندہ ہے، تمہاری مراد پوری نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسے پاس دیکھ کر میرا خون گرم ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں ٹھک ٹھک کررہی تھیں۔ کم بخت نے آج بھی بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور وہی پتلی دھوتی لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ لیا اور دبا کر کہا۔

’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ‘‘

اف! اس کے بازوؤں کے پٹھے کس قدر سخت تھے۔ عرض کرتا ہوں۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی۔ خیر، آپ داستان سنیے۔ میں اور زیادہ گرم ہو گیا اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔

’’گردھاری جائے جہنم میں۔ تمہیں میری بننا ہو گا۔ ‘‘

رکما نے مجھے اپنے جسم سے الگ کیا اور کہا۔

’’دیکھو تیل لگ جائے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’لگنے دو۔ ‘‘

اور پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ یقین مانیے اگر اس وقت آپ مارے کوڑوں کے میری پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دیتے، تب بھی میں اسے علیحدہ نہ کرتا۔ لیکن کم بخت نے ایسا پچکارا کہ جہاں اس نے مجھے پہلے بیٹھایا تھا، خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم تھا وہ سوچ کیا رہی ہے۔ گردھاری سالا باہر ہے، ڈر کس بات کا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اس سے کہا۔

’’رکما! ایسا اچھا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ ‘‘

اس نے بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا۔

’’اس سے بھی اچھا موقع ملے گا۔ لیکن تم یہ بتاؤ جو کچھ میں کہوں گی کرو گے۔ ‘‘

۔ صاحب میرے سر پر تو بھوت سوار تھا۔ میں نے جوش میں آکر جواب دیا۔

’’تمہارے لیے میں پندرہ آدمی قتل کرنے کو تیار ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر وہ مسکرائی۔

’’مجھے وشواس ہے۔ ‘‘

خدا کی قسم ایک بار پھر میری روح لرز گئی۔ لیکن میں نے سوچا شاید زیادہ جوش آنے پر ایسا ہوا ہے۔ بس وہاں میں تھوڑی دیر اور بیٹھا، پیار اور محبت کی باتیں کیں، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے بھجئے کھائے اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ گو وہ سلسلہ نہ ہوا، لیکن صاحب ایسے سلسلے پہلے ہی دن تھوڑے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا، پھر سہی! دس دن گزر گئے۔ ٹھیک گیارہویں دن، رات کے دو بجے ہاں دو ہی کا عمل تھا۔ کسی نے مجھے آہستہ سے جگایا۔ میں نیچے سیڑھیوں کے پاس جو جگہ ہے نا، وہاں سوتا ہوں۔ آنکھیں کھول میں نے دیکھا۔ ارے رکما بائی۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔

’’کیا ہے۔ ‘‘

اس نے ہولے کہا۔

’’آؤ میرے ساتھ‘‘

۔ میں ننگے پاؤں اس کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے اور کچھ نہ سوچا اور وہیں کھڑے کھڑے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ اس نے میرے کان میں کہا۔

’’ابھی ٹھہرو۔ ‘‘

پھر بتی روشن کی میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سامنے چٹائی پر کوئی سو رہا ہے۔ منہ پر کپڑا ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا۔

’’یہ کیا؟‘‘

رکما نے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

میں الو کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس آئی اور بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اس نے ایسی بات کہی جس کو سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بالکل برف ہو گیا۔ صاحب۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ جانتے ہیں رکما نے مجھ سے کیا کہا۔ پڑھیے کلمہ! لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی۔ کم بخت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’میں نے گردھاری کو مار ڈالا ہے۔ ‘‘

۔ آپ یقین کیجیے اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہٹے کٹے آدمی کو قتل کیا تھا۔ کیا عورت تھی صاحب۔ مجھے جب بھی وہ رات یاد آتی ہے، قسم خداوند پاک کی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس نے مجھے وہ چیز دکھائی جس سے اس ظالم نے گردھاری کا گلا گھونٹا تھا۔ بجلی کے تاروں کی گندھی ہوئی ایک مضبوط رسی سی تھی۔ لکڑی پھنسا کر اس نے زور سے کچھ ایسے پیچ دیے تھے کہ بے چارے کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ کہتی تھی بس یوں چٹکیوں میں کام تمام ہو گیا تھا۔ کپڑا اُٹھا کر جب اس نے گردھاری کی شکل دکھائی تو میری ہڈیاں تک برف ہو گئیں۔ لیکن وہ عورت جانے کیا تھی۔ وہیں لاش کے سامنے اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قرآن کی قسم! میرا خیال تھا کہ ساری عمر کے لیے نامرد ہو گیا ہوں۔ مگر صاحب جب اس کا گرم گرم پنڈا میرے بدن کے ساتھ لگا اور اس نے ایک عجیب و غریب قسم کا پیار کیا تو اللہ جانتا ہے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ زندگی بھر وہ رات مجھے یاد رہے گی۔ سامنے لاش پڑی تھی لیکن رکما اور میں دونوں اس سے غافل ایک دوسرے کے اندر دھنسے ہُوئے تھے۔ صبح ہُوئی تو ہم دونوں نے مل کر گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے اوزار اس کے موجود تھے، اس لیے زیادہ تکلیف نہ ہُوئی۔ ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی پر لوگوں نے سمجھا ہو گا گردھاری کھلونے بنا رہا ہے۔ آپ پوچھیں گے بندہ ءِ خدا تم نے ایسے گھناؤنے کام میں کیوں حصہ لیا۔ پولیس میں رپٹ کیوں نہ لکھوائی۔ صاحب، عرض یہ ہے کہ اس کم بخت نے مجھے ایک ہی رات میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اگر وہ مجھ سے کہتی تو شاید میں نے پندرہ آدمیوں کا خون بھی کرہی دیا ہوتا۔ یاد ہے نا! میں نے ایک دفعہ اس سے جوش میں آکر کیا کہا تھا۔ اب مصیبت یہ تھی کہ لاش کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ رکما کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات تھی۔ میں نے اس سے کہا جان من تم کچھ فکر نہ کرو۔ فی الحال ان ٹکڑوں کو ٹرنک میں بند کردیتے ہیں۔ جب رات آئے گی تو میں اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا صاحب کہ اس روز ہلڑ ہو ا۔ پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی۔ گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ میں نے کہا عبدالکریم! کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگا دو۔ چنانچہ دو بجے اُٹھا۔ اوپر سے ٹرنک لیا۔ خدا کی پناہ! کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی میں دھرلے گا۔ مگر صاحب، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے جس بازار سے گزرا، اس میں سناٹا تھا۔ ایک جگہ۔ بازار کے پاس مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈیوڑھی میں ڈال دیے اور واپس چلا آیا۔ قربان اس کی قدرت کے صبح پتہ چلا کہ ہندوؤں نے اس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا۔ کیونکہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ اب صاحب، بقول شخصے میدان خالی تھا۔ میں نے رکما سے کہا چالی میں مشہور کردو کہ گردھاری باہر کام گیا ہے۔ میں رات کو دو ڈھائی بجے آجایا کروں گا اور عیش کیا کریں گے۔ مگر اس نے کہا نہیں عبدل، اتنی جلدی نہیں۔ ابھی ہم کو کم از کم پندرہ بیس روز تک نہیں ملنا چاہیے۔ بات معقول تھی، اس لیے میں خاموش رہا۔ سترہ روز گزر گئے۔ کئی بار ڈراؤنے خوابوں میں گردھاری آیا۔ لیکن میں نے کہا۔ سالے مر کھپ چکا ہے۔ اب میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اٹھارہویں روز صاحب میں اسی طرح سیڑھیوں کے پاس چارپائی پر سو رہا تھا کہ رکما رات کے بارہ۔ بارہ نہیں تو ایک ہو گا۔ آئی اور مجھے اوپر لے گئی۔ چٹائی پر ننگی لیٹ کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’عبدل میرا بدن دُکھ رہا ہے، ذرا چمپی کردو۔ میں نے فوراً تیل لیا اور مالش کرنے لگا لیکن آدھے گھنٹے میں ہی ہانپنے لگا۔ میرے پسینے کی کئی بوندیں اس کے چکنے بدن پر گریں۔ لیکن اس نے یہ نہ کہا، بس کر عبدل۔ تم تھک گئے ہو۔ آخر مجھے ہی کہنا پڑا۔

’’رکما بھئی، اب خلاص۔ ‘‘

وہ مسکرائی۔ میرے خدا کیا مسکراہٹ تھی۔ تھوڑی دیر دم لینے کے بعد میں چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے اٹھ کر بتی بجھائی اور میرے ساتھ لیٹ گئی۔ چمپی کر کر کے میں اس قدر تھک گیا تھا کہ کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ رکما کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سو گیا۔ جانے کیا بجا تھا۔ میں ایک دم ہڑبڑا کے اٹھا۔ گردن میں کوئی سخت سخت سی چیز دھنس رہی تھی۔ فوراً مجھے اس تار والی رسی کا خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرسکوں، رکما میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ ایک دو ایسے مروڑے دیے کہ میری گردن کڑ کڑ کر بول اُٹھی۔ میں نے شور مچانا چاہا، لیکن آواز میرے پیٹ میں رہی۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔ میرا خیال ہے چار بجے ہوں گے۔ آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوا۔ گردن میں بہت زور کا درد تھا۔ میں ویسے ہی دم سادھے پڑا رہا اور ہولے ہولے ہاتھ سے رسی کے مروڑے کھولنے شروع کیے۔ ایک دم آوازیں آنے لگیں۔ میں نے سانس روک لیا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی پر کچھ نظر نہ آیا۔ جو آوازیں آرہی تھیں، ان سے معلوم ہوتا تھا دو آدمی کشتی لڑ رہے ہیں۔ رکما ہانپ رہی تھی۔ ہانپتے ہانپتے اس نے کہا۔

’’تکا رام! بتی جلا دو‘‘

۔ تکا رام نے ڈرتے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’نہیں نہیں، رکما نہیں۔ ‘‘

رکما بولی۔ بڑے ڈرپوک ہو۔ صبح اس کے تین ٹکڑے کر کے لے جاؤ گے کیسے!‘‘

۔ میرا بدن بالکل ٹھنڈا ہو گیا۔ تکا رام نے کیا جواب دیا۔ رکما نے پھر کیا کہا۔ اس کا مجھے کچھ ہوش نہیں۔ پتہ نہیں کب ایک دم روشنی ہوئی اور میں آنکھیں جھپکتا اٹھ بیٹھا۔ تکا رام کے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔ رکما نے جلدی سے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ صاحب میں آپ سے کیا بیان کروں، میری حالت کیا تھی۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ دیکھ رہا تھا۔ سن رہا تھا لیکن ہلنے جلنے کی بالکل سکت نہیں تھی۔ یہ تکا رام میرے لیے کوئی نیا آدمی نہیں تھا۔ ہماری چالی میں اکثر آم بیچنے آیا کرتا تھا۔ رکما نے اس کو کیسے پھنسایا، اس کا مجھے علم نہیں۔ رکما میری طرف گھور گھور کے دیکھ رہی تھی جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں۔ وہ مجھے مار چکی تھی۔ لیکن میں اس کے سامنے زندہ بیٹھا تھا۔ خیر وہ مجھ پر جھپٹنے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہُوئی اور بہت سے آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ رکما نے جھٹ سے میرا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر مجھے غسل خانے کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھولا، پڑوس کے آدمی تھے۔ انھوں نے رکما سے پوچھا۔

’’خیریت ہے۔ ابھی ابھی ہم نے چیخ کی آواز سُنی تھی۔ ‘‘

رکما نے جواب دیا۔

’’خیریت ہے۔ مجھے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو دیوار کے ساتھ ٹکرا گئی اور ڈر کر منہ سے چیخ نکل گئی۔ ‘‘

پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے۔ رکما نے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ اب مجھے اپنی جان کی فکر ہوئی۔ آپ یقین مانئے یہ سوچ کر کہ وہ ظالم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی، ایک دم میرے اندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آگئی۔ بلکہ میں نے ارادہ کرلیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اُوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ یہ سب یوں چٹکیوں میں ہوا۔ دھپ سی آواز آئی اور میں دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ ساری رات میں چارپائی پر لیٹا اپنی گردن پر جو بہت بُری طرح زخمی ہورہی تھی۔ آپ نشان دیکھ سکتے ہیں۔ تیل مل مل کر سوچتا رہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ اس نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ اسے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ مکان کے اس طرف جہاں میں نے اسے گرایا تھا جب اس کی لاش دیکھی جائے گی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ سوتے میں چلی ہے اور کھڑکی سے باہر گر پڑی ہے۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ گردن پر میں نے رومال باندھ لیا تاکہ زخم دکھائی نہ دیں۔ نو بج گئے بارہ ہو گئے مگر رکما کی لاش کی کوئی بات ہی نہ ہُوئی۔ جدھر میں نے اس کو گرایا تھا۔ ایک تنگ گلی ہے۔ دو بلڈنگوں کے درمیان دو طرف دروازے ہیں تاکہ لوگ اندر داخل ہو کر پیشاب پاخانہ نہ کریں۔ پھر بھی دو بلڈنگوں کی کھڑکیوں میں سے پھینکا ہوا کچرا کافی جمع ہوتا ہے جو ہر روز صبح سویرے بھنگن اُٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید بھنگن نہیں آئی، آئی ہوتی تو اس نے دروازہ کھولتے ہی رکما کی لاش دیکھی ہوتی اور شور برپا کردیا ہوتا۔ قصّہ کیا تھا! میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو جلد اس بات کا پتہ چل جائے۔ دو بج گئے تو میں نے جی کڑا کرا کے خود ہی دروازہ کھولا۔ لاش تھی نہ کچرا یا مظہر العجائب! رکما گئی کہاں۔ قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اس پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا اتنا تعجب نہیں ہو گا جتنا کہ رکما کے غائب ہونے کا ہے۔ تیسری منزل سے میں نے اُسے گرایا تھا، پتھروں کے فرش پر۔ بچی کیسے ہو گی۔ لیکن پھر سوال ہے کہ اس کی لاش کون اُٹھا کر لے گیا۔ عقل نہیں مانتی، لیکن صاحب کچھ پتہ نہیں وہ ڈائن زندہ ہو۔ چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا تو کسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یار مار ڈالا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مار ڈالا ہے تو اچھا کیا ہے۔ گھر ڈال لیا ہے تو جو حشر اس غریب کا ہو گا آپ جانتے ہی ہیں۔ خدا بچائے صاحب۔ اب تکا رام کی بات سنئے۔ اس واقعے کے ٹھیک بیس روز بعد وہ مجھ سے ملا اور پوچھنے لگا۔

’’بتاؤ! رکما کہاں ہے‘‘

۔ میں نے کہا۔

’’مجھے کچھ علم نہیں۔ ‘‘

کہنے لگا۔

’’نہیں، تم جانتے ہو۔ ‘‘

۔ میں نے جواب دیا۔

’’بھائی قرآن مجید کی قسم! مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘

۔ بولا

’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے اُسے مار ڈالا ہے۔ میں پولیس میں رپٹ لکھوانے والا ہوں کہ پہلے تم نے گردھاری کو مارا پھر رکما کو‘‘

۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ لیکن صاحب میرے پسینے چھوٹ گئے۔ بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا کیاکروں۔ ایک ہی بات سوجھی کہ اس کو ٹھکانے لگا دوں۔ آپ ہی سوچیے اس کے علاوہ اور علاج بھی کیا تھا۔ چنانچہ صاحب اسی وقت چھپ کر چھری تیز کی اور تکارام کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اتفاق کی بات ہے شام کو چھ بجے وہ مجھے۔ اسٹریٹ کے ناکے پر موتری کے پاس مل گیا۔ موسمبیوں کی خالی ٹوکری باہر رکھ کر وہ پیشاب کرنے کے لیے اندر گیا۔ میں بھی لپک کر اس کے پیچھے۔ دھوتی کھول ہی رہا تھا کہ میں نے زور سے پکارا۔

’’تکارام‘‘

۔ پلٹ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ چھری میرے ہاتھ ہی میں تھی۔ ایک دم اس کے پیٹ میں بھونک دی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی باہر نکلتی ہوئی انتڑیاں تھامیں اور دوہرا ہو گر پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باہر نکل کر نو دو گیارہ ہو جاتا مگر بے وقوفی دیکھئے بیٹھ کر اس کی نبض دیکھنے لگا کہ آیا مرا ہے یا نہیں۔ میں نے اتنا سنا تھا کہ نبض ہوتی ہے، انگوٹھے کی طرف یا دوسری طرف، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر لگ گئی۔ اتنے میں ایک کانسٹیبل پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان۔ پڑھیے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ! جو میں نے رتی بھربھی جھوٹ بولا ہو۔

سعادت حسن منٹو

پشاور سے لاہور تک

وہ انٹر کلاس کے زنانہ ڈبے سے نکلی‘ اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا۔ جاوید پشاور سے اُسے دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ راولپنڈی کے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر ٹھہری تو وہ ساتھ والے زنانہ ڈبے کے پاس سے کئی مرتبہ گزرا۔ لڑکی حسین تھی‘ جاوید اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا‘ اس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹا سا تل تھا‘ گالوں میں ننھے ننھے گڑھے تھے جو اس کے چہرے پر بہت بھلے لگتے تھے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر اُس لڑکی نے کھانا منگوایا‘ بڑے اطمینان سے ایک ایک نوالہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتی رہی۔ جاوید دُور کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا‘ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جائے اور دونوں مل کر کھانا کھائیں۔ وہ یقیناًاُس کے پاس پہنچ جاتا مگر مصیبت یہ تھی کہ ڈبہ زنانہ تھا۔ عورتوں سے بھرا ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ جرأت نہ کر سکا۔ لڑکی نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے جو بہت نازک تھے۔ لمبی لمبی مخروطی اُنگلیاں جن کو اس نے اچھی طرح صاف کیا اور اٹیچی کیس سے تولیہ نکال کر اپنے ہاتھ پونچھے‘ پھر اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جاوید گاڑی چلنے تک اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا اور اُسی لڑکی کے خیالوں میں غرق ہو گیا۔ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ بڑے اچھے گھرانے کی ہے۔ دونوں کلائیوں میں قریب قریب بارہ بارہ سونے کی چوڑیاں ہوں گی۔ کانوں میں ٹاپس بھی تھے‘ دو انگلیوں میں‘ اگر میرا اندازہ غلط نہیں‘ ہیرے کی انگوٹھیاں ہیں‘ لباس بہت عمدہ‘ ساٹن کی شلوار‘ ٹفٹیا کی قمیص‘ شنون کا دوپٹہ۔ حیرت ہے کہ گھٹیا درجے میں کیوں سفر کر رہی ہے؟ پشاور سے آئی ہے۔ وہاں کی عورتیں تو سخت پردہ کرتی ہیں۔ لیکن یہ برقعے کے بغیر وہاں سے گاڑی میں سوار ہوئی اور اس کے ساتھ کوئی مرد بھی نہیں۔ نہ کوئی عورت ‘ اکیلی سفر کر رہی ہے‘ آخر یہ قصہ کیا ہے؟ میرا خیال ہے پشاور کی رہنے والی نہیں۔ وہاں کسی عزیز سے ملنے گئی ہو گی۔ مگر اکیلی کیوں؟ کیا اسے ڈر نہیں لگا کہ اُٹھا کر لے جائے گا کوئی۔ ایسے تنہا حسن پر تو ہر مرد جھپٹا مارنا چاہتا ہے۔ پھر جاوید کو ایک اندیشہ ہوا کہ شادی شدہ تو نہیں؟ وہ دراصل دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اس لڑکی کا پیچھا کرے گا اور رومان لڑا کر اُس سے شادی کرے گا‘ وہ حرام کاری کا بالکل قائل نہیں تھا۔ کئی سٹیشن آئے اور گزر گئے۔ اُسے صرف راولپنڈی تک جانا تھا کہ وہاں ہی اُس کا گھر تھا مگر وہ بہت آگے نکل گیا۔ ایک اسٹیشن پر چیکنگ ہوئی جس کے باعث اُسے جرمانہ ادا کرنا پڑا مگر اُس نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ ٹکٹ چیکر نے پوچھا

’’آپ کو کہاں تک جانا ہے‘‘

جاوید مسکرایا

’’جی‘ ابھی تک معلوم نہیں۔ آپ لاہور کا ٹکٹ بنا دیجیے کہ وہی آخری سٹیشن ہے‘‘

ٹکٹ چیکر نے اُسے لاہور کا ٹکٹ بنا دیا‘ روپے وصول کیے اور دوسرے سٹیشن پر اُتر گیا‘ جاوید بھی اُترا کہ ٹرین کو ٹائم ٹیبل کے مطابق پانچ منٹ ٹھہرنا تھا۔ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا‘ وہ لڑکی کھڑکی کے ساتھ لگی دانتوں میں خلال کر رہی تھی‘ جاوید کی طرف جب اُس نے دیکھا تو اس کے دل و دماغ میں چیونٹیاں دوڑنے لگیں‘ اُس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی موجودگی سے غافل نہیں ہے‘ سمجھ گئی ہے کہ وہ بار بار صرف اُسے ہی دیکھنے آتا ہے۔ جاوید کو دیکھ کر وہ مسکرائی‘ اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ مگر جاوید فرط جذبات کی وجہ سے فوراً وہاں سے ہٹ کر اپنے ڈبے میں چلا گیا اور رومانوں کی دنیا کی سیر کرنے لگا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں مسکرا رہی ہیں۔ ٹرین کا پنکھا مسکرا رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر تار کے کھمبے مسکرا رہے ہیں۔ انجن کی سیٹی مسکرا رہی ہے‘ اور وہ بدصورت مسافر جو اُس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ اُس کے موٹے موٹے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ ہے۔ اس کے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی لیکن اس کا دل مسکرا رہا تھا۔ اگلے اسٹیشن پر جب وہ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا‘ کہاں چلی گئی؟ کہیں پچھلے اسٹیشن پر تو نہیں اُتر گئی جہاں اُس نے ایک مسکراہٹ سے مجھے نوازا تھا؟۔ نہیں نہیں غسل خانے میں ہو گی۔ وہ واقعی غسل خانے ہی میں تھی۔ ایک منٹ کے بعد وہ کھڑکی میں نمودار ہوئی۔ جاوید کو دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اُس کو بلایا۔ جاوید کانپتا لرزتا کھڑکی کے پاس پہنچا اُس لڑکی نے بڑی مہین اور سریلی آواز میں کہا

’’ایک تکلیف دینا چاہتی ہوں آپ کو۔

’’مجھے دو سیب لا دیجیے‘‘

یہ کہہ کر اُس نے اپنا پرس نکالا اور ایک روپے کا نوٹ جاوید کی طرف بڑھا دیا۔ جاوید نے جو اس غیرمتوقع بلاوے سے قریب قریب برق زدہ تھا‘ ایک روپے کا نوٹ پکڑ لیا لیکن فوراً اُس کے ہوش و حواس برقرار ہو گئے۔ نوٹ واپس دے کر اُس نے اُس لڑکی سے کہا

’’آپ یہ رکھیے۔ میں سیب لے آتا ہوں‘‘

اور پلیٹ فارم پر اُس ریڑھی کی طرف دوڑا جس میں پھل بیچے جاتے تھے‘ اُس نے جلدی جلدی چھ سیب خریدے کیونکہ وسل ہو چکی تھی۔ دوڑا دوڑا وہ اُس لڑکی کے پاس آیا‘ اُس کو سیب دیے اور کہا

’’معاف کیجیے گا۔ وسل ہو رہی تھی اس لیے میں اچھے سیب چن نہ سکا‘‘

لڑکی مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ گاڑی حرکت میں آئی۔ جاوید اپنے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے کانپ رہا تھا لیکن بہت خوش تھا‘ اُس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کو دونوں جہان مل گئے ہیں‘ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے محبت نہیں کی تھی‘ لیکن اب وہ اس کی لذّت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ اُس کی عمر پچیس برس کے قریب تھی‘ اُس نے سوچا کہ اتنی دیر میں کتنا خشک رہا ہوں۔ آج معلوم ہوا ہے کہ محبت انسان کو کتنی تروتازہ بنا دیتی ہے۔ وہ سیب کھا رہی ہو گی۔ لیکن اُس کے گال تو خود سیب ہیں‘ میں نے جو سیب اُس کو دیے ہیں کیا وہ اُن کو دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ وہ میری محبت کے اشاروں کو سمجھ گئی جب ہی تو وہ مسکرائی اور اُس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بُلایا اور کہا کہ میں اسے سیب لا دُوں۔ مجھ سے اگر وہ کہتی کہ گاڑی کا رخ پلٹ دُوں تو اُس کی خاطر یہ بھی کر دیتا۔ گو مجھ میں اتنی طاقت نہیں لیکن محبت میں آدمی بہت بڑے بڑے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کاٹ کر نہر نہیں کھودی تھی؟ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں اُس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی پوچھ لیا ہوتا کہ تمھیں کہاں تک جانا ہے۔ خیر میں لاہور تک کا ٹکٹ تو بنوا چکا ہوں۔ ہر اسٹیشن پر دیکھ لیا کروں گا۔ ویسے وہ اب مجھے بن بتائے جائے گی بھی نہیں۔ شریف خاندان کی لڑکی ہے۔ میرے جذبہ محبت نے اُسے کافی متاثر کیا ہے۔ سیب کھا رہی ہے‘ کاش کہ میں اُس کے پاس بیٹھا ہوتا‘ ہم دونوں ایک سیب کو بیک وقت اپنے دانتوں سے کاٹتے۔ اُس کا منہ میرے منہ سے کتنا قریب ہوتا۔ میں اس کے گھر کا پتہ لُوں گا۔ ذرا اور باتیں کر لوں ‘ پھر راولپنڈی پہنچ کر امّی سے کہوں گا کہ میں نے ایک لڑکی دیکھ لی ہے اُس سے میری شادی کر دیجیئے ‘ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گی۔ بس ایک دو مہینے کے اندر اندر شادی ہو جائے گی۔ اگلے سٹیشن پر جب جاوید اُسے دیکھنے گیا تو وہ پانی پی رہی تھی‘ وہ جرأت کر کے آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا

’’آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیے‘‘

لڑکی مسکرائی۔ دلفریب مسکراہٹ

’’مجھے سگریٹ لا دیجیے‘‘

جاوید نے بڑی حیرت سے پوچھا

’’آپ سگریٹ پیتی ہیں‘‘

’’وہ لڑکی پھر مسکرائی‘‘

جی نہیں۔ یہاں ایک عورت ہے‘ پردہ دار‘ اُس کو سگریٹ پینے کی عادت ہے‘‘

’’اوہ !۔ میں ابھی لایا۔ کس برانڈ کے سگریٹ ہوں؟‘‘

’’میرا خیال ہے وہ گولڈ فلیگ پیتی ہے‘‘

’’میں ابھی حاضر کیے دیتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر جاوید اسٹال کی طرف دوڑا ‘ وہاں سے اُس نے دو پیکٹ لیے اور اُس لڑکی کے حوالے کر دیے‘ اُس نے شکریہ اُس عورت کی طرف سے ادا کیا جو سگریٹ پینے کی عادی تھی۔ جاوید اب اور بھی خوش تھا کہ اس لڑکی سے ایک اور ملاقات ہو گئی مگر اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا‘ اُس نے کئی مرتبہ خود کو کوسا کہ اُس نے نام کیوں نہ پوچھا‘ اتنی باتیں ہوتی رہیں لیکن وہ اُس سے اتنا بھی نہ کہہ سکا

’’آپ کا نام؟‘‘

اُس نے ارادہ کر لیا کہ اگلے سٹیشن پر جب گاڑی ٹھہرے گی تو وہ اُس سے نام ضرور پوچھے گا اُسے یقین تھا کہ وہ فوراً بتا دے گی کیونکہ اس میں قباحت ہی کیا تھی۔ اگلا سٹیشن بہت دیر کے بعد آیا‘ اس لیے کہ فاصلہ بہت لمبا تھا۔ جاوید کو بہت کوفت ہو رہی تھی‘ اُس نے کئی مرتبہ ٹائم ٹیبل دیکھا‘ گھڑی بار بار دیکھی۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ انجن کو پر لگ جائیں تاکہ وہ اُڑ کر جلدی اگلے اسٹیشن پر پہنچ جائے۔ گاڑی ایک دم رُک گئی‘ معلوم ہوا کہ انجن کے ساتھ ایک بھینس ٹکرا گئی ہے۔ وہ اپنے کمپارٹمنٹ سے اُتر کر ساتھ والے ڈبے کے پاس پہنچا مگر لڑکی اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھی۔ مسافروں نے مری کٹی ہوئی بھینس کو پٹڑی سے ہٹانے میں کافی دیر لگا دی۔ اتنے میں وہ لڑکی جو غالباً دوسری طرف تماشا دیکھنے میں مشغول تھی‘ آئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی‘ جاوید پر جب اُس کی نظر پڑی تو مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ جاوید کھڑکی کے پاس گیا ‘ مگر اس کا نام پوچھ نہ سکا۔ لڑکی نے اُس سے کہا

’’یہ بھینسیں کیوں گاڑی کے نیچے آ جاتی ہیں؟‘‘

جاوید کو کوئی جواب نہ سوجھا ‘ گاڑی چلنے والی تھی‘ اس لیے وہ اپنے کمپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کئی اسٹیشن آئے مگر وہ نہ اُترا۔ آخر لاہور آ گیا‘ پلیٹ فارم پر جب گاڑی رُکی تو وہ جلدی جلدی باہر نکلا ‘ لڑکی موجود تھی‘ جاوید نے اپنا سامان نکلوایا اور اُس سے جس نے ہاتھ میں اٹیچی کیس پکڑا ہوا تھا‘ کہا

’’لائیے ! یہ اٹیچی کیس مجھے دے دیجیئے‘‘

اُس لڑکی نے اٹیچی کیس جاوید کے حوالے کر دیا۔ قلی نے جاوید کا سامان اٹھایا اور دونوں باہر نکلے ‘ تانگہ لیا۔ جاوید نے اُس سے پوچھا

’’آپ کو کہاں جانا ہے‘‘

لڑکی کے ہونٹوں پر وہی دلفریب مسکراہٹ پیدا ہوئی

’’جی ہیرا منڈی‘‘

جاوید بوکھلا سا گیا

’’کیا آپ وہاں رہتی ہیں؟‘‘

لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔ جی ہاں۔ میرا مکان دیکھ لیں ‘ آج رات میرا مجرا سننے ضرور آئیے گا‘‘

جاوید پشاور سے لے کر لاہور تک اپنا مجرا سُن چکا تھا‘ اُس نے اس طوائف کو اُس کے گھر چھوڑا اور اس تانگے میں سیدھا لاریوں کے اڈے پہنچا اور راولپنڈی روانہ ہو گیا۔ ۲۶، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

پسینہ

’’میرے اللہ!۔ آپ تو پسینے میں شرابور ہورہے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ کوئی اتنا زیادہ تو پسینہ نہیں آیا۔ ‘‘

’’ٹھہریے میں تولیہ لے کر آؤں۔ ‘‘

’’تو لیے تو سارے دھوبی کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’تو میں اپنے دوپٹے ہی سے آپ کا پسینہ پونچھ دیتی ہوں۔ ‘‘

’’تمہارا دوپٹہ ریشمیں ہے۔ پسینہ جذب نہیں کرسکے گا۔ ‘‘

’’پسینے کے یہ قطرے مجھ سے نہیں دیکھے جاتے۔ آپ کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ ریشمیں کپڑا پانی جذب نہیں کرسکتا۔ لیکن میں آپ کا تولیہ ہوں۔ کیا میں آپ کا پسینہ خشک نہیں کرسکتی۔ ‘‘

’’آج گرمی زیادہ تھی۔ سائیکل پر یہاں آتے آتے میں قریب قریب بیہوش ہو گیا تھا۔ ‘‘

’’ہائے اللہ!‘‘

’’نہیں۔ بس میں چند منٹوں میں ٹھیک ہو گیا۔ ایک دوست تھا، اس نے مجھے آموں کا شربت پلا دیا۔ ‘‘

’’آموں کا شربت بھی ہوتا ہے؟‘‘

’’ہرشے کا شربت بنایا جاسکتا ہے۔ ‘‘

’’میرا بھی؟‘‘

’’تمہارا شربت تو میں ہر روز پیتا ہوں۔ لیکن اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’شریر کہیں کے۔ ‘‘

’’شرارت تو تمہاری ہوتی ہے کہ تم مٹھاس میں کھٹائی ڈال دیتی ہو۔ ‘‘

’’کھٹائی تو آپ ڈ التے ہیں۔ میں تو مصری کی ڈلی ہوں۔ ‘‘

’’مانتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے وہ زیادہ نہ کیجیے۔ اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اُتاروں۔ ‘‘

’’آج اتنا تکلف کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘

’’آپ محبت کو تکلف کہتے ہیں؟‘‘

’’اس کے متعلق میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ ویسے میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اتنی محبت کا اظہار تم نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ ‘‘

’’آپ محبت کو کیا جانیں۔ ‘‘

’’انسان اگر محبت ہی کو جان پہچان نہیں سکتا تو میں سمجھتا ہوں وہ حیوان بھی نہیں۔ کوئی بے حِس چیز ہے۔ پتھر ہے۔ سڑک پر گِرا ہوا روڑا ہے۔ ‘‘

’’اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اتاروں۔ ‘‘

’’اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ تکلف کی بات کیوں کرتے ہیں۔ میں نے کبھی آپ سے تکلف برتا ہے؟‘‘

’’آج پہلی مرتبہ۔ ‘‘

’’آپ اتنے ذہین ہیں۔ بتائیے اس تکلف کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’میں اتنا ذہین نہیں ہوں۔ ‘‘

’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘

’’جناب میں کسر نفسی سے کام نہیں لے رہا۔ ایک حقیقت تھی جو میں نے بیان کردی؟‘‘

’’میرے پاس تو آئیے، میں آپ کا پسینہ پونچھ دوں۔ گرمی میں بے حال ہوکے آرہے ہیں۔ ‘‘

’’کوئی اتنی زیادہ بے حالی نہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ آج دس آدمی اس حدت کے باعث مر گئے ہیں۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں، آپ اتنے روپے خرچ کرتے ہیں۔ کیوں نہیں گھر میں ایک

’’کولر‘‘

لے آتے۔ ‘‘

’’کولر کی کیا ضرورت ہے؟ تم خود بہت بڑی کولر ہو۔ اتنی گرمی میں گھر آیا ہوں۔ تمہاری باتوں ہی نے مجھے ایسی ٹھنڈک پہنچا دی ہے جو سب سے بڑا کولر بھی نہیں پہنچا سکتا۔ ‘‘

’’آپ نے اب میرا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ ‘‘

’’تمہاری قسم۔ میں ایسی گستاخی کبھی نہیں کرسکتا۔ ‘‘

’’میری قسم آپ نے کیوں کھائی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ بڑی لذیذ ہے۔ ‘‘

’’یعنی آدمی کو وہی قسمیں کھانی چاہئیں جو مزیدار ہوں۔ ‘‘

’’یقینا‘‘

’’آپ سے میں کبھی جیت نہیں سکتی۔ ‘‘

’’میں تو ہمیشہ ہارتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کب ہارے ہیں۔ ہار تو ہمیشہ میری ہی ہوتی رہی ہے۔ ‘‘

’’اچھا، اب ذرا میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میری شلوار قمیص نکال دو‘‘

’’الماری میں صرف ایک پائجامہ موجود ہے‘‘

’’بنیان ہو گی‘‘

’’جی نہیں۔ تین میلی پڑی ہیں جو نوکر نے ابھی تک نہیں دھوئیں‘‘

’’ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو تمہیں خود دھولینا چاہئیں‘‘

’’آپ کو کیا معلوم کہ صابن کتنا واہیات ہوتا ہے؟۔ چھالے پڑ جاتے ہیں ہاتھوں میں۔ ‘‘

’’نوکروں کے ہاتھوں میں بھی یقیناً چھالے پڑتے ہوں گے۔ ‘‘

’’آپ ہمیشہ نوکروں کی طرف د اری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا وہ انسان نہیں؟‘‘

’’خیر چھوڑیئے اس قصّے کو۔ اِدھر آئیے۔ میں آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کون سی اتنی بڑی مہم ہے، جو آپ سر کرنا چاہتی ہیں۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ یہ بتائیے کہ آپ کو چلنے میں تکلیف کیوں محسوس ہورہی ہے؟‘‘

’’جوتا ذرا تنگ ہے؟‘‘

’’یہ وہی ہے نا جو آپ نے پچھلے مہینے لیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں، وہی ہے۔ آج پہلی مرتبہ پہنا ہے۔ ‘‘

’’دیکھ کے نہیں لیا تھا۔ ‘‘

’’دیکھ کر ہی لیا تھا۔ پہنا بھی تھا۔ پر۔ ‘‘

’’چھوٹا کیسے ہو گیا۔ ‘‘

’’جو چیز استعمال نہ کی جائے، سکڑ جاتی ہے۔ ‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ ‘‘

’’عورتوں کو اپنے خاوندوں کی ہربات عجیب منطق معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں نے کہا: اِدھر آئیے، آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’پہلے تو میں یہ تکلیف دہ جوتے اُتارنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’بیٹھ جائیے۔ میں اُتار دیتی ہوں۔ ‘‘

’’آج تم اتنی مہربان کیوں ہو؟۔ پہلے تو۔ ‘‘

’’اب نخرے نہ بگھاریے۔ بیٹھیے کرسی پر۔ ‘‘

’’یہاں سب کرسیاں اس قابل کہاں ہیں کہ اُن پر آدمی بیٹھے۔ ‘‘

’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ جب ان کا بید بالکل ناکارہ ہو جائے گا تو میں سب کی سب ٹھیک کرادوں گی۔ ‘‘

’’یہ تمہاری عجیب منطق تھی جس کے متعلق میں نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا تھا کہ مبادا تم ناراض ہو جاؤ۔ ‘‘

’’بات دراصل یہ ہے کہ میں چاہتی تھی کہ جب تک یہ کرسیاں کام دیتی ہیں، ان کی مرمت نہ کرائی جائے۔ کیونکہ انہیں مقررہ وقت پر پھر مرمت طلب ہونا ہے۔ جتنے دن نکل جائیں ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے، تم بھی مرمت طلب ہو۔ ‘‘

’’دیکھیے۔ میں ایسی باتیں پسند نہیں کرتی۔ آپ بڑے بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ ‘‘

’’چلیے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’‘‘

’’‘‘

’’‘‘

’’آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘

’’تم ہی نے تو مجھ سے کہا تھا کہ آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھ رہیں۔ ‘‘

’’تم مجھے کچھ کھانے کے لیے دو‘‘

’’میں کیا دُوں۔ آپ باہر سے کھا کر آرہے ہیں۔ ‘‘

’’تم نے کیسے جانا؟‘‘

’’آپ کی پتلون بتا رہی ہے۔ سالن کے داغ لگے ہیں۔ ضرور آپ نے کسی ہوٹل میں اپنے دوست کے ساتھ عیاشی کی ہو گی۔ ‘‘

’’عیاشی تو خیر نہیں کی، لیکن مجبوراً اپنے افسر کے ساتھ ایک دعوت میں شریک ہونا پڑا۔ اور تم جانتی ہو۔ اچھی طرح جانتی ہو کہ میں صرف اپنے گھر کا پکا ہوا کھانا پسند کرتا ہوں۔ وہاں میں نے صرف چند لقمے منہ میں ڈالے اور ہاتھ اٹھا لیا۔ اس لیے کہ کھانا بڑا واہیات تھا۔ اس میں تمہارے ہاتھوں کا نمک نہیں تھا۔ ‘‘

’’لیکن یہ پتلون پر دھبے کیسے پڑے؟‘‘

’’اس لیے کہ سالن واہیات تھا۔ مجھ سے دو مرتبہ چاول نیچے گرگئے۔ ‘‘

’’چاول تو آپ سے ہمیشہ نیچے گرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ فرش پر شربت کِس نے گرایا تھا۔ اور۔ اور۔ یہ گلاس۔ جگ۔ کوئی مہمان آیا تھا؟‘‘

’’ہاں۔ میری ایک سہیلی آئی تھی۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’آپ اسے نہیں جانتے۔ کوئٹے کی تھی، جو میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ اس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ ؒ‘‘

’’اس سے کیا باتیں ہوئیں؟‘‘

’’میں آپ کو کیوں بتاؤں۔ ویسے وہ اپنے خاوند سے بہت خوش تھی۔ ‘‘

’’ہر عورت کو اپنے خاوند سے خوش ہونا چاہیے۔ اس میں اس کی کیا برتری ہے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ایسی ایسی باتیں سُنائیں جو۔ جو مجھے معلوم ہی نہیں تھیں۔ شاید آپ کو بھی معلوم نہ ہوں۔ ‘‘

’’اس گفتگو کو چھوڑیے۔ آئیے میں آپ کے جوتے اتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کام میں خود بھی کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں میں آج خود کروں گی۔ پہلے ٹائی اتارنے دیجیے۔ ‘‘

’’اتار لیجیے۔ ‘‘

’’آپ آج کتنے اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کی وجہ کیا ہے؟۔ پہلے تو میں تمہیں کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔ آج یک بیک یہ انقلاب کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘

’’انقلاب کیسا؟۔ میں شروع ہی سے آپ سے محبت کرتی ہوں۔ میرا سارا دوپٹہ گیلا ہو گیا ہے۔ توبہ، آپ کو اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے؟‘‘

’’چلیے اندر‘‘

’’چلو‘‘

’’یہاں باہر کی بہ نسبت گرمی کس قدر کم ہے؟‘‘

’’ہاں۔ !‘‘

’’اس شُو نے تو آپ کے پاؤں کی انگلیوں پر چنڈیاں ڈال دی ہیں۔ ‘‘

’’ہر تنگ چیز راحت کا باعث ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں بھی آج سے تنگ ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’مجھ سے‘‘

’’نہیں۔ میری سہیلی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا خاوند۔ خیر آپ اس قصے کو چھوڑیے۔ اس نے بڑی تنگ اور چُست چولی پہنی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’میں نے اب دیکھا ہے کہ تم بھی اسی قسم کا بلاؤز پہنے ہو۔ کہاں سے لیا تم نے؟‘‘

’’آج ہی اس کے درزی سے سلوایا ہے۔ ‘‘

’’اور میں جو ساڑھی لایا ہوں۔ ‘‘

’’وہ اس سے میچ نہیں کرتی۔ خیر میں آپ کے ساتھ چلوں گی اور اس د کان میں کوئی اور ساڑھی پسند کرلوں گی۔ ‘‘

’’اُس سہیلی سے تم نے کیا باتیں کیں؟‘‘

’’آپ لیٹ جائیے، ۔ پھر آپ کو پسینہ آرہا ہے۔ میں آپ کو اس کی تمام باتیں سنا دوں گی۔ ‘‘

235 235 235 235

’’تم اپنی سہیلی سے ایسی باتیں ہر روز سنا کرو۔ تاکہ ہماری زندگی خوشگوار رہے۔ اور تم میرے پسینے کو اپنے دوپٹے سے اسی طرح پونچھتی رہو۔ ‘‘

’’آپ کا پسینہ تو اب میرا لہو بن گیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پریشانی کا سبب

نعیم میرے کمرے میں داخل ہوا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور اخبار کی آخری کاپی کے لیے جو مضمون لکھ رہا تھا اسکو جاری رکھنے ہی والا تھا کہ معًا مجھے نعیم کے چہرے پر ایک غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ میں نے چشمہ اتار کر اس کی طرف پھر دیکھا اور کہا۔

’’کیا بات ہے نعیم۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘

نعیم نے اپنے خُشک لبوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔

’’کیا بتاؤں، عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے۔ بیٹھے بٹھائے ایک ایسی بات ہوئی ہے کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ‘‘

میں نے کاغذ کی جتنی پرچیاں لکھی تھیں جمع کرکے ایک طرف رکھ دیں اور زیادہ دلچسپی لے کر اس سے پوچھا۔

’’کوئی حادثہ پیش آگیا۔ فلم کمپنی میں کسی ایکٹرس سے۔ ‘‘

نعیم نے فوراً ہی کہا۔

’’نہیں بھائی، ایکٹرس و یکٹرس سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک اور ہی مصیبت میں جان پھنس گئی ہے۔ تمہیں فرصت ہو تو میں ساری داستان سناؤں۔ ‘‘

نعیم میرا دوست ہے۔ جب سے وہ بمبئی سے آیا ہے اس سے میری دوستی چلی آرہی ہے۔ وہ یوں کہ بمبئی آتے ہی اس نے میرے اخبار میں کام کیا اور خود کو بہت سی اہلیتوں کا مالک ثابت کیا۔ پھر آہستہ آہستہ جب مجھے اس کے اعلیٰ خاندان کا پتا چلا اور اسی قسم کی دوسری واقفیتیں نکلتی آئیں تو میر دل میں اسکی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی، چنانچہ چھ مہینے کے مختصر عرصے ہی میں وہ میرا بے تکلف دوست بن گیا۔ نعیم نے میرے اخبار کو دلچسپ بنانے کے لیے مجھ سے زیادہ کوششیں کیں۔ ہر ہفتے جب اس نے ایک نئی کہانی لکھنا شروع کی اور میں نے اس کی تیار چار کہانیاں پڑھیں تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اخبارمیں اگر نعیم پڑا رہاتو اس کی تمام ذکاوتیں تباہ ہو جائیں گی، چنانچہ میں نے موقعہ ملتے ہی ایک فلم کمپنی میں اسکی سفارش کی اور وہ مکالمہ نگار کی حیثیت سے فوراً ہی وہاں ملازم ہو گیا۔ فلم کمپنی کی ملازمت کے دوران میں نعیم نے وہاں کے سیٹھوں اور ڈائریکٹروں پر کیسا اثر ڈالا، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ میں بے حد مصروف آدمی ہوں۔ لیکن نعیم سے ایک دو بار مجھے اتنا ضرور معلوم ہوا تھا کہ وہاں اس کا کام پسند کیا گیا ہے۔ اب ایکا ایکی نہ جانے کیا حادثہ پیش آیا تھا جو اس کا رنگ یوں ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا تھا۔ نعیم بے حد شریف آدمی ہے۔ اس سے کسی نامعقول حرکت کی توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی، میں سخت متحیر ہوا کہ ایسی کون سی افتاد پڑی جو نعیم کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ میں نے اُس سے اجازت لیکر جلدی جلدی آخری کاپی کے لیے مضمون کا بقایا حصہ مکمل کیا اور تمام پرچیاں کاتب کو دیکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’’بھئی معاف کرنا میں فوراً ہی تمہاری داستان نہ سُن سکا۔ لیکن میں پوچھتا ہوں یہ داستان آخر بنی کیسے۔ تم۔ تم۔ خیرچھوڑو اس قصّے کو، تم مجھے سارا واقعہ سناؤ۔ ‘‘

نعیم نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔

’’اب میں تمہیں کیا بتاؤں، جوکچھ ہُوا، میری اپنی بیوقوفی کی بدولت ہوا۔ ہماری فلم کمپنی میں ایک ایکٹر ہے۔ عاشق حسین اوّل درجے کا چُغد ہے۔ چونکہ دوسروں کی طرح میں اسے ستاتا نہیں ہُوں اس لیے وہ مجھ پر بُری طرح فریفتہ ہے، یہ فریفتہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ وہ مجھ سے اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح خوبصورت عورتوں سے کی جاتی ہیں۔ ‘‘

میں ہنس پڑا۔

’’پر تم اتنے خوبصورت تو نہیں ہو۔ ‘‘

نعیم کے پیلے چہرے پر بھی ہنسی کی لال لال دھاریاں پھیل گئی۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا ہے۔ دراصل وہ اپنے اخلاص اور اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اسے ایسا کرنے کا طریقہ نہیں آتا اس لیے اسکا پیار وہی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اس کو غالباً اپنی بیوی سے ہو گا۔ ہاں تو یہ عاشق حسین صاحب جو اوّل درجے کے رقاص ہیں اور رقص کے سوا اور کچھ بھی نہیں جانتے۔ پرسوں شوٹنگ کے بعد مجھے ملے۔ سیٹ پر میں نے اُن کے مکالمے درست کرنے میں کافی محنت کی تھی۔ اس کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے فوراً ہی کچھ سوچا اور کہا۔

’’نعیم صاحب، میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہُوں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

انھوں نے پھر کچھ سوچا اور کہا۔

’’دن بھر کام کرنے کے بعد میں تھک گیا ہوں آپ بھی ضرور تھک گئے ہوں گے۔ چلیے، کہیں گھوم آئیں‘‘

۔ اب میں یہاں اپنی ایک کمزوری بتا دوں۔ موسم اگر خوشگوار ہو تو میں عموماً بہک جاتا ہوں۔ شام کا جھٹپٹا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور فضا میں ایک عجیب قسم کی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ جوان کنوارے آدمیوں کے دل میں ایسی اداسی ضرور موجود ہوتی ہے جو پھیل کر ایسے موقعوں پر بہت وسعت اختیار کرلیا کرتی ہے۔ میرے بدن پر ایک کپکپی سی طاری ہو گئی جب میں نے جوہو کے سمندری کنارے کا تصور کیا جہاں شام کو نم آلود ہوائیں یوں چلتی ہیں جیسے بھاری بھاری ریشمی ساڑھیاں پہن کر عورتیں چلتی ہیں۔ میں فوراً تیار ہو گیا۔

’’چلیے، مگر کہاں جائیے گا۔ ‘‘

اب عاشق حسین نے پھر سوچا اور کہا۔

’’کہیں بھی چلے چلیں گے۔ یہاں سے باہر تو نکلیں‘‘

۔ ہم دونوں گیٹ سے باہر نکلے اور موڑ پر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘

یہاں تک کہہ کر نعیم رک گیا۔ اس کے چہرے کی زردی اب دُور ہورہی تھی۔ میں نے اس کے پیکٹ سے ایک سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔

’’تم دونوں گیٹ سے باہر نکل کر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘

نعیم نے سرہلایا

’’اور شامتِ اعمال اُدھر سے عاشق حسین کے ایک مارواڑی دوست کا گُزر ہوا۔ وہ موٹر میں جارہا تھا کہ اچانک عاشق حسین کی نظر اس پر پڑی۔ فوراً ہی اس نے مارواڑی زبان میں اپنے دوست کو ٹھہرنے کے لیے کہا۔ موٹر رُکی عاشق حسین نے اس سے مارواڑی زبان میں چند باتیں کیں پھر دوڑ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا

’’چلیے، کام بن گیا۔ موٹر مل گئی اسی میں چلتے ہیں۔ ‘‘

میں چل پڑا۔ موٹر میں داخل ہونے سے پہلے عاشق نے اپنے مارواڑی دوست سے جو شکل و صورت کے اعتبار سے ڈرائیور معلوم ہوتا تھا تعارف کرایا اور حسبِ معمول مبالغے سے کام لیتے ہوئے کہا۔

’’یہ مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ ہیں۔ یہاں ایک کاروبار کے سلسلے میں آئے ہیں۔ میرے بہت مہربان دوست ہیں۔ ‘‘

اور میرے متعلق اپنے دوست سے کہا۔

’’یہ ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر ہیں۔ ‘‘

ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر اور مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ نے ہاتھ ملائے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ رسمی طور پر خوش ہُوئے اور موٹر چلی۔ ‘‘

یہ سُن کر میں مسکرایا۔

’’نعیم، اس مارواڑی سیٹھ کے متعلق تمہاری رائے بہت خراب معلوم ہوتی ہے۔ کیا آگے چل کر یہ ولن کا پارٹ ادا تو نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’تم پہلے پوری داستان سُن لو۔ پھر سوچنا کہ ولن کون ہے اور ہیرو کون۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کہانی کی ہیروئن زہرہ ہے۔ زہرہ جس کو میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کل۔ داور کی ایک فوجداری عدالت میں دیکھا ہے۔ ایک مجرم کی حیثیت میں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے نعیم کے کان کی لویں شرم کے باعث سرخ ہو گئیں۔ داستان سُننے کے دوران میں پہلی مرتبہ زہرہ کے اچانک ذکر سے مجھے سخت تعجب ہوا۔ میں نے کہا۔

’’نعیم۔ یہ تو بالکل الگزنڈرپو کا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ زہرہ بالکل پو کے افسانوں کے غیر متوقع انجام کی طرح اس داستان میں آئی ہے۔ یہ عورت کون ہے۔ ؟‘‘

’’میں قطعاً نہیں جانتا، یعنی اگر مجھے اس عورت کے متعلق کچھ علم ہوتو مجھ پر لعنت۔ خدا معلوم کون ہے، پر اب میں اتنا جانتا ہوں کہ اس نے ہم لوگوں پر فوجداری مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ جرم ڈاکہ اورچوری ہے۔ ‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’ڈاکہ اور چوری۔ ‘‘

نعیم کے لہجہ نے ایسی متانت اختیار کر لی جس میں روحانی اذّیت کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ کہنے لگا۔

’’ہاں، ڈاکہ اور چوری۔ مجھے دفعات اچھی طرح یاد نہیں مگر ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے مداخلت بیجاکی، زہرہ کے گھر پر ڈاکہ ڈالا۔ اور اس کی چند قیمتی اشیا چرا کر لے گئے، لیکن یہ تو داستان کا انجام ہے۔ پہلے کے واقعات تمہیں سُنا لوں پھر اس طرف آتا ہُوں۔ میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’یہ کہ تم اس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ ‘‘

’’ہاں میں عاشق حسین کے کہنے پر اس منحوس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گیا۔ موٹر وہ خود چلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اگلی سیٹ پر ایک اورآدمی بیٹھا تھا جو اس سے کم منحوس نہیں تھا۔ عاشق حسین نے شاید اسکے متعلق کہا تھا کہ وہ موٹریں بنانے کا کام کرتا ہے۔ خیر موٹر مختلف بازاروں سے ہوتی ہوئی داور کی طرف جانکلی۔ ظاہر تھا کہ ہم جوہو جائیں گے، چنانچہ میں بہت خوش تھا۔ جوہو کی گیلی گیلی ریت سے مجھے بے حد پیار ہے کبھی کبھی اُدھر جا کر میں گیلی ریت پر ضرور لیٹا کرتا ہُوں اور دیر تک کھلے آسمان کی طرف دیکھا کرتا ہوں جو اتنا ہی پراسرار اور ناقابلِ رسا دکھائی دیتا ہے جتنا کہ ایک اجنبی عورت کا تصور۔ سامنے رات کی سرمئی روشنی میں سمندر کروٹیں لیتا ہے، اوپر گدلے آسمان پر تارے یوں چمکتے ہیں جیسے انہوئی باتیں کسی جوان آدمی کے دل میں ٹمٹما رہی ہیں۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ دُور، اس پار جہاں آسمان اور سمندر کوئی واضح خط بنائے بغیر آپس میں گھل مل جاتے ہیں، ایک ایسی دُھندلی روشنی نظر آیا کرتی ہے جو خوبصورت شعروں کی طرح مصنوعی ہوتی ہے۔ میں جوہو کی سیر کے خیال میں مگن تھا کہ عاشق حسین نے موٹر کو داور ہی میں ایک جگہ ٹھہرا لیا اور مجھ سے کہا۔

’’چلیے، کچھ پی لیں‘‘

جیسا کہ تمہیں معلوم ہے، بیئر مجھے پیاری ہے۔ عاشق حسین کو خدا معلوم کہاں سے اس بات کا پتا چلا تھا کہ میں پیا کرتا ہُوں۔ خیر، ہم چاروں یار بار میں داخل ہُوئے۔ ایک بوتل بیئر کی میں نے پی اور ایک عاشق حسین نے۔ مارواڑی سیٹھ اور موٹریں بنانے والے نے کچھ نہ پیا۔ ہم جلدی ہی فارغ ہو گئے۔ پھر موٹر میں بیٹھے اور جوہو کا رخ کیا مگر فوراً ہی عاشق حسین کو ایک کام یاد آگیا۔

’’اوہ مجھے تو اپنی شاگرد زہرہ کے ہاں جانا ہے۔ آج اُس سے ملنے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ نعیم صاحب اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو پانچ منٹ لگیں گے۔ اس کا مکان بالکل قریب ہے۔ ‘‘

مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، چنانچہ اس نے موٹر ایک گلی میں ٹھہرا لی اور اکیلا سامنے والے مکان کی طرف بڑھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’یہ گلی کس طرف ہے۔ ‘‘

نعیم نے جواب دیا۔

’’داور ہی میں ہے۔ اُدھر جہاں پارسیوں کے بے شمار مکان ہیں، غالباً اس محلے کو پارسی کالونی کہتے ہیں۔ ۔ ہاں تو عاشق حسین موٹر سے نکل کر سامنے مکان کی طرف بڑھا۔ ایک چھوٹا سا دومنزلہ مکان تھا۔ بغیچہ طے کرکے عاشق نے دروازہ پر دستک دی۔ جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو عاشق نے دوسری بار زور سے دستک دی۔ اندر سے کسی عورت کی آواز آئی کون ہے۔ ‘‘

عاشق حسین نے بلند آواز میں جواب دیا۔

’’عاشق۔ ‘‘

اندر سے خشم آلود آواز آئی۔

’’عاشق کی۔ ‘‘

عاشق حسین نے یہ گالی سُن کر ہماری طرف دیکھا اور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا اور یہ کہنا شروع کیا۔

’’دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے کہا۔

’’اس عورت نے شاید عاشق کا غلط مطلب سمجھا، ورنہ جیسا کہ تم ابھی کہہ چکے ہو وہ عاشق کی شاگرد تھی۔ ‘‘

’’جانے بلا، کیا تھی اور کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عاشق حسین نے جھوٹ ہی بولا ہو اور بیئر کی ایک بوتل پینے کے بعد زہرہ کا خیال اسکے دماغ میں آگیا ہو۔ کسی نے اس سے کبھی کہا ہو گا کہ فلاں نمبر کے فلیٹ میں ایک عورت زہرہ رہتی ہے۔ لیکن اس سے کیا بحث ہے۔ عاشق حسین نے اودھم مچانا شروع کردی۔ اندر سے گالیاں آتی رہیں اور پیشتر اس کے کہ میں اسے منع کرسکتا، تین چار دھکے مار اس نے دروازہ توڑا اور زبردستی اندر داخل ہو گیا۔ جب یہ شور ہوا تو آس پاس کے رہنے والے پارسی اکٹھے ہو گئے۔ میں بے حد پریشان ہوا، چنانچہ اسی پریشانی میں موٹر سے باہر نکلا اور عاشق کو باہر لانے کی خاطر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ میرے پیچھے پیچھے عاشق کے دونوں ساتھی بھی چلے آئے۔ میں نے اس فلیٹ کے تینوں کمرے دیکھے مگر نہ عاشق نظر آیا نہ اسکی شاگرد زہرہ۔ خدا معلوم کہاں غائب ہو گئے تھے۔ گھر کے پرلی طرف دوسرا راستہ تھا، ممکن ہے وہ اُدھر سے باہر نکل گئے ہوں۔ میں چند منٹ ان تین کمروں میں رہا۔ جب کوئی سراغ نہ ملا تو باہر نکل کر موٹر میں بیٹھ گیا۔ وہ پارسی جو گلی میں جمع ہو گئے تھے گُھور گُھور کر میری طرف دیکھنے لگے۔ میں اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ بیئر کا سارا نشہ جو دماغ میں تھا اُتر کر میری ٹانگوں میں چلا آیا۔ میرے جی میں آئی کہ عاشق اس کے ساتھیوں اور ان کی موٹر کو وہیں چھوڑ کر بھاگ جاؤں مگر۔ عجب مشکل میں میری جان پھنس گئی تھی۔ اگر بھاگنے کی کوشش کرتا تو یقیناً وہ پارسی جو مجھے چڑیا گھر کا بندر سمجھ کر گُھور رہے تھے پکڑ لیتے۔ دس بارہ منٹ اسی شش و پنج میں گزرے۔ اس کے بعد عاشق اور اسکے دونوں دوست مکان میں سے باہر نکلے اور موٹر میں بیٹھ گئے۔ میں نے عاشق سے کوئی بات نہ پوچھی۔ موٹرچلی اور جب دادر کا حلقہ آیا تو میں نے اس سے کہا۔

’’مجھے یہیں اتار دو، میں بس میں گھر چلا جاؤں گا۔ ‘‘

عاشق کے دماغ سے جوہو کی سیر کا خیال نکل گیا تھا، اس نے اپنے مارواڑی دوست سے موٹر روکنے کے لیے کہا، چنانچہ میں ان سے رخصت لے کر گھر چلا آیا اور اس واقعہ کو بھول گیا۔ ‘‘

نعیم نے ایک سگرٹ اور سلگایا اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا۔

’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

’’مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ ‘‘

نعیم نے بڑی تلخی کے ساتھ کہا۔

’’اس بیوقوف کے بچے عاشق حسین سے جب پولیس والوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون تھا تو اس نے اپنے مارواڑی دوست، اس موٹر بنانے والے کا اور میرا نام لے دیا۔ ہم تینوں ایک گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرلیے گئے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’یہ کب کی بات ہے؟۔ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘

نعیم نے جوا ب دیا۔

’’کل دو ڈھائی بجے کے قریب ہماری گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ میں نے تمہیں ٹیلی فون پر ضرور مطلع کیا ہوتا اگر میرے حواس بجا ہوتے۔ بخدا میں سخت پریشان تھا۔ پولیس انسپکٹر ٹیکسی میں ہم سب کو تھانے میں لے گیا۔ وہاں بیانات قلم بند ہُوئے تو مجھے پتلا چلا کہ عاشق حسین کے وہ مارواڑی دوست جو کسی کاروبار کے سلسلے میں یہاں آئے تھے زہرہ کا پنکھا اٹھا کر اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ بجلی کا یہ پنکھا پولیس نے ان سے حاصل کرلیا تھا۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے تشویشناک لہجہ میں کہا۔

’’اس سے تو چوری صاف ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’چوری ثابت ہوتی ہے جبھی تو میں اس قدر پریشان ہوں اور سچ پوچھو تو اگر یہ ثابت نہ بھی ہوتی تو میری پریشانی اسی قدر رہتی۔ تھانے اور عدالت میں جانا بے حد شرمناک ہے، پر اب کیا کیا جائے۔ جو ہونا ہے ہو چکا ہے۔ اس خفت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا جو مجھے اٹھانا پڑے گی اور اٹھانا پڑ رہی ہے۔ میں بالکل بے گناہ ہوں یعنی ظاہر ہے کہ زہرہ کو میں بالکل نہیں جانتا، اس کے مکان پر میں اگر گیا تو محض عاشق حسین کی وجہ سے، اس چُغد کے کہنے پر جو ایک بوتل بیئر بھی ہضم نہیں کرسکتا۔ ‘‘

نعیم کے چہرے پر نفرت اور غصے کے مِلے جُلے جذبات دیکھ کر مجھے بے اختیارہنسی آگئی۔

’’بھئی، بہت بُرے پھنسے۔ ‘‘

نعیم نے اسی انداز میں کہا۔

’’ہنسی میں پھنسی اسی کو کہتے ہیں۔ کل۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے عدالت کا منہ دیکھا اور زہرہ بھی پہلی مرتبہ مجھے نظر آئی۔ ‘‘

میں نے فوراً ہی پوچھا۔

’’کیسی ہے؟‘‘

نعیم نے بے پروائی سے جواب دیا۔

’’بُری نہیں، یعنی شکل صورت کے اعتبار سے خاصی ہے۔ بیضوی چہرہ ہے جس پر کیلوں اور مہاسوں کے داغ نظر آتے ہیں۔ لمبے لمبے کالے بال ہیں۔ پیشانی تنگ ہے۔ جوان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں اس نے یہ دھندا شروع کیا ہے۔ ‘‘

میں نے بغیر کسی مطلب کے یوں ہی پوچھا۔

’’کیسا دھندا؟‘‘

نعیم شرما سا گیا۔

’’ارے بھئی، وہی جو عورتیں کرتی ہیں۔ زہرہ کے چہرے پر اس کی چھاپ دُور سے نظر آسکتی ہے۔ مجھے اس عورت پر اتنا غصہ کبھی نہ آتا مگر جب مجسٹریٹ نے میری طرف اشارہ کرکے پوچھا۔

’’تم اسکو پہچانتی ہو۔ ‘‘

تو زہرہ نے میری طرف اپنی بڑی بڑی دُھلی ہُوئی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔

’’ہاں صاحب پہچانتی ہوں۔ اسی نے میرا چاندی کا ٹی سیٹ اٹھایا تھا۔ ‘‘

جب اس نے یہ جھوٹ بولا تو خدا کی قسم جی میں آئی ملعونہ کے حلق میں کٹہرے کا ایک ڈنڈا نکال کر ٹھونس دوں۔ اتنا بڑا جھوٹ!!‘‘

اس پر میں نے کہا۔

’’بھئی جھوٹ تو بولے گی۔ اس کے بغیر کام کیسے چلے گا اسے اپنا کیس مضبوط بھی تو بنانا ہے۔ اب تو تمہیں قہردرویش برجاں درویش سب کچھ سننا پڑے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

نعیم نے بڑی پریشانی کے ساتھ کہا۔

’’جوکچھ ہو گا اسے ہر حالت میں سہنا ہی پڑے گا مگر۔ مگر۔ میں کیا بتاؤں میں کس قدر پریشان ہو گیا ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کسی مرد نے مجھ پر ایسا مقدمہ دائر کیا ہوتا تومجھے اتنی پریشانی نہ ہوتی مگر ذرا غور تو کرو، وہ عورت ہے۔ اور میں عورتوں کی تعظیم کرتا ہُوں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔ کیوں؟ نعیم نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔

’’اس لیے کہ میں عورتوں کو جانتا ہی نہیں۔ کسی عورت سے ملنے اور اس سے کھل کر بات چیت کرنے کا مجھے کبھی موقعہ ہی نہیں ملا۔ اب زندگی میں پہلی مرتبہ عورت آئی ہے تو مدعی بن کر۔ ‘‘

میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ نعیم نے اس پر بگڑ کر کہا۔

’’تم ہنستے ہو مگر یہاں میری جان پر بنی ہے۔ دو دن سے میں کمپنی نہیں جارہا۔ وہاں یہ بات ضرور پہنچ چکی ہو گی۔ سیٹھ صاحب کے سامنے میں کیا منہ لے کے جاؤں گا۔ انھوں نے اگر کچھ پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جواصل بات ہے اُن کو بتا دینا۔ ‘‘

’’وہ تو میں بتا ہی دوں گا مگر خدا کے لیے سوچو تو سہی کہ میری پوزیشن کیا ہے۔ میں سیٹھ صاحب کی بے حد عزت کرتا ہُوں اس لیے کہ وہ میرے آقا ہیں، اگر انھوں نے مجھے بدکردار سمجھ کر برطرف کردیا تو عمر بھر کے لیے میں داغدار ہو جاؤں گا۔ ملازمت کھونے کا مجھے اتنا افسوس نہیں ہو گا مگر یہاں سوال عزت و ناموس کا ہے۔ وہ ضرور بدگمان ہو جائیں گے۔ میں ان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہُوں، میری سچی باتوں کو بھی وہ جھوٹا ہی سمجھیں گے۔ فلم کمپنی میں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے۔ وہ خود بھی ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

میں نے ہر ممکن طریقے سے نعیم کی اخلاقی جرأت بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ بے حد ڈرپوک ہے۔ خاص کر عورتوں کے معاملے میں تو اس کی بزدلی بہت ہی زیادہ ہے۔ دراصل معاملہ بھی سنگین تھا، اگر برقی پنکھا برآمد نہ ہوتا تو کیس بالکل معمولی رہ جاتا۔ مگر پولیس اس مارواڑی سے پنکھا حاصل کرچکی تھی اس لیے ظاہر ہے کہ زہرہ ایک حد تک سچی تھی۔ نعیم زیادہ دیر تک میرے پاس نہ ٹھہرا اور چلا گیا۔ دوسرے روز شام کو وہ پھرآیا۔ اُس کی پریشانی اور بھی زیادہ بڑھی ہُوئی تھی۔ آتے ہی کہنے لگا۔

’’بھائی ایک مصیبت میں تو جان پھنسی تھی، اب ایک اور آفت گلے پڑ گئی ہے۔ ‘‘

میں نے تشویش کے ساتھ کہا۔

’’کیا ہوا!۔ کیا کوئی اور کیس کھڑا ہو گیا۔ ‘‘

’’نہیں، کیس وہی ہے، مگر ایک ایسی بات ہُوئی ہے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ‘‘

نعیم نے کرسی پر بیٹھ کر اضطراب کے ساتھ ٹانگ ہلانا شروع کی۔

’’آج صبح سیٹھ صاحب نے مجھے بُلانے کے لیے موٹر بھیجی۔ مجھے جانا ہی پڑا حالانکہ میں ارادہ کرچکا تھا کہ کبھی نہیں جاؤں گا۔ بخدا فلم کمپنی میں داخل ہوتے وقت میری حالت وہی تھی جو حساس مُلزموں کی ہوتی ہے۔ شرم کے مارے میرا حلق سوکھ رہا تھا۔ سربھاری ہو گیا تھا۔ نیچی نظریں کیے جب میں سیٹھ صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ بڑے تپاک کے ساتھ انھوں نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ ہینڈ شیک کیا اور ہنس کر کہنے لگے۔

’’منشی صاحب، آپ نے کمال کردیا۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ بیٹھیے تشریف رکھیے۔ ‘‘

میں ندامت میں غرق کرسی پربیٹھ گیا۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر انھوں نے ایسی باتیں شروع کیں کہ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ کہنے لگے۔

’’آپ گھبراتے کیوں ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا آپ بتائیے کہ یہ زہرہ ہے کیسی؟۔ کچھ اچھی ہے؟۔ بھئی آپ نے تو کمال کردیا۔ میں سنتا ہوں کہ آپ نے پی کر وہ دھمال مچائی کہ پارسی کالونی کے سب آدمی اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ زہرہ کی ساڑھی اتارکرلے گئے۔ پہلے بھی تو آپ اس کے ہاں آتے جاتے ہوں گے، پھر حرامزادی نے پولیس میں رپورٹ کیوں لکھوائی، پر کیا پتا ہے آپ نے بہت زیادہ شرارتیں کی ہوں‘‘

۔ ایسی ہی بے شمار باتیں انھوں نے مجھ سے کیں۔ میں خاموش رہا۔ اس کے بعد انھوں نے چائے منگوائی۔ ایک پیالہ میرے لیے بنایا اور پھر وہی گفتگو شروع کر دی۔

’’چاندی کا ٹی سٹ جو آپ اُٹھا کر لے گئے تھے، مجھے اگر آپ پریزنٹ کردیں تو میں ابھی آپ کو اپنے وکیل کے پاس لے چلتا ہوں، ایسی اچھی وکالت کرے گا کہ زہرہ کی طبیعت صاف ہو جائے گا۔ میں سُنتا ہوں زہرہ شکل صورت کی اچھی ہے، تو بھئی اس مقدمے کے بعد اسے لے آؤنا اپنی فلم میں اسے کوئی چھوٹا سال رول دے دیں گے۔ اور ہاں، یہ آپ نے اچھا کیا کہ اسی کی شراب پی اور اسی کی چیزیں اُڑا کر لے گئے!۔ پر آپ ایک درجن آدمی اپنے ساتھ کیوں لے گئے تھے؟ بیچاری اتنے آدمی دیکھ کر گھبرا گئی ہو گی۔ ‘‘

بات بات پر وہ ہنستے تھے جیسے گفتگو کے لیے انھیں ایک نہایت ہی دلچسپ موضوع مل گیا ہے۔ تعجب ہے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی میرے سلام کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو کیا ہوا۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ تم پر ناراض نہ ہُوئے۔ ‘‘

نعیم بگڑ کر کہنے لگا۔

’’یہ بھی تم نے خوب کہا کہ مجھے خوش ہونا چاہیے۔ وہ مجھے مُجرم سمجھ رہے تھے جو کہ میں نہیں ہُوں۔ میں کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے خزانچی کو بُلایا اور مجھے سو روپے ایڈوانس دلوائے حالانکہ دو مہینے سے کسی ملازم کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو کیا بُرا ہُوا؟‘‘

’’ارے بھئی تم ساری بات تو سُن لو۔

’’نعیم کِھچ گیا۔

’’سو روپے دلوا کر انھوں نے کہا یہ آپ اپنے پاس رکھیے آپ کو مقدمہ کے لیے ضرورت ہو گی۔ وکیل کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ ‘‘

ٹیلی فون پر انھوں نے فوراً ہی وکیل سے بات کی۔ پھر مجھے اپنی موٹر میں بٹھا کر اسکے پاس لے گئے۔ ساری باتیں اس کو سمجھائیں اور کہا۔

’’دیکھیے، اس مقدمہ میں جان لڑا دیجیے گا۔ بات بالکل معمولی ہے، اس لیے کہ منشی صاحب سے زہرہ کے تعلقات بہت پُرانے ہیں‘‘

۔ میں کیا کہتا۔ وہاں بھی خاموش رہا۔

’’میں نے ہنس کر نعیم سے کہا۔

’’اب بھی خاموش رہو۔ تمہارا کیا بگڑ گیا ہے؟‘‘

نعیم اُٹھ کھڑا ہُوا اور اضطراب کے ساتھ ٹہلنے لگا۔

’’ابھی کچھ بگڑا ہی نہیں۔ عدالت میں مجھے بیان دینا پڑے گا کہ زہرہ میری داشتہ ہے اور میں اسے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ اور۔ اور۔ سیٹھ صاحب نے آج شام مجھے مدعو کیا ہے۔ کہتے تھے گرین چلیں گے۔ وہاں کچھ شغل رہے گا۔ میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا ہورہا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پری

کشمیری گیٹ دہلی کے ایک فلیٹ میں انور کی ملاقات پرویز سے ہوئی۔ وہ قطعاً متاثر نہ ہوا۔ پرویز نہایت ہی بے جان چیز تھی۔ انور نے جب اس کی طرف دیکھا اور اس کو آداب عرض کہا تو اس نے سوچا

’’یہ کیا ہے عورت ہے یا مولی‘‘

پرویز اتنی سفید تھی کہ اس کی سفیدی بے جان سی ہو گئی تھی جس طرح مولی ٹھنڈی ہوتی ہے اسی طرح اس کا سفید رنگ بھی ٹھنڈا تھا۔ کمر میں ہلکا سا خم تھا جیسا کہ اکثر مولیوں میں ہوتا ہے۔ انور نے جب اس کو دیکھا تو اس نے سبز دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس کو پرویز ہوبہو مولی نظر آئی جس کے ساتھ سبز پتے لگے ہوں۔ انور سے ہاتھ ملا کر پرویز اپنے ننھے سے کتے کو گود میں لے کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے سرخی لگے ہونٹوں پر جو اس کے سفید ٹھنڈے چہرے پر ایک دہکتا ہوا انگارہ سا لگتے تھے۔ ضعیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی کتے کے بالوں میں اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اس نے دیوار کے ساتھ لٹکتی ہوئی انور کے دوست جمیل کی تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘

انور کو اس کے ساتھ مل کر قطعاً خوشی نہیں ہوئی تھی۔ رنج بھی نہیں ہوا۔ اگر وہ سوچتا تو یقینی طور پر اپنے صحیح رد عمل کو بیان نہ کرسکا۔ دراصل پرویز سے مل کر وہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ ایک لڑکی سے ملا ہے یا اسکی ملاقات کسی لڑکے سے ہوئی ہے۔ یا سردیوں میں کرکٹ کے میچ دیکھتے ہوئے اس نے ایک مولی خرید لی ہے۔ انور نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں خوبصورت تھیں۔ بس ایک صرف یہی چیز تھی۔ جس کے متعلق تعریفی الفاظ میں کچھ کہا جاسکتا تھا۔ ان آنکھوں کے علاوہ پرویز کے جسم کے ہرحصے پر نکتہ چینی ہوسکتی تھی۔ باہیں بہت پتلی تھیں۔ جو چھوٹی آستینوں والی قمیض میں سے بہت ہی یخ آلود انداز میں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ اگر اس کے سر پر سبز ڈوپٹہ نہ ہوتا تو انور نے یقیناً اس کو فرجڈیر سمجھا ہوتا جس کا رنگ عام طور پر اکتا دینے والا سفید ہوتا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر جیتے جیتے لہو جیسی سرخی بہت گھل رہی تھی۔ برف کے ساتھ آگ کا کیا جوڑ؟۔ اس کی چھوٹی آستینوں والی قمیض سفید کمبرک کی تھی۔ شلوار سفید لٹھے کی تھی۔ سینڈل بھی سفید تھے۔ اس تمام سفیدی پر اس کا سبز ڈوپٹہ اتنا انقلاب انگیز نہیں تھا۔ مگر اس کے سرخی لگے ہونٹ ایک عجیب سا ہنگامہ خیز تضاد بن کر اسکے چہرے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ صحن میں جب وہ چند قدم چل کر جمیل کی طرف اپنے ننھے سے کتے کو دیکھتی ہوئی بڑھی تھی۔ تو انور نے محسوس کیا تھا کہ یہ عورت جو کہ آرہی ہے عورت نہیں ننکاری ہے۔ اس سے ہاتھ ملاتے وقت اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کا ہا تھ کسی لاش نے پکڑ لیا ہے۔ مگر جب اس نے باتیں شروع کیں تو وہ ٹھنڈی گرنت جو اس کے ہاتھ کے ساتھ چھٹی ہوئی تھی کچھ گرم ہونے لگی۔ وہ آوارہ خیال تھی۔ اس کی باتیں سب کی سب بے جوڑ تھیں۔ موسم کا ذکر کرتے کرتے وہ اپنے درزی کی طرف لڑھک گئی۔ درزی کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ اس کو اپنے کتے کی چھینکوں کا خیال آگیا۔ کتے نے چھینکا تو اس نے اپنے خاوند کے متعلق یہ کہنا شروع کردیا۔

’’وہ بالکل میراخیال نہیں رکھتے۔ دیکھیے ابھی تک دفترسے نہیں آئے۔ ‘‘

انور کے لیے پرویز اور اس کا خاوند دونوں بالکل نئے تھے۔ وہ پرویز کو جانتا تھا نہ اسکے خاوند کو۔ گفتگو کے دوران میں صرف اس کو اس قدر معلوم ہوا کہ پرویز کا خاوند جمیل کا پڑوسی ہے اور ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے البتہ اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ پرویز گفتگو کے آغاز سے گفتگو کے اختتام تک اس کو ایسی نظروں سے دیکھتی تھی جن میں جنسی بلاوا تھا۔ انور کو حیرت تھی کہ ایک ٹھنڈی مولی میں یہ بلاوا کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ اٹھ کر جانے لگ تو اس نے گود سے اپنے ننھے کتے کو اتارا اور اس سے کہا

’’چلو ٹینی چلیں‘‘

پھر مسز جمیل سے جیگروول کے بارے میں کچھ پوچھ کر اپنے سرخ ہونٹوں پر چھدری سی مسکراہٹ پیدا کرکے انور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس نے کہا۔

’’میرے ہزبنڈ سے مل کر آپ کو بہت خوشی ہو گی۔ ‘‘

ایک بار پھر انور نے فرجڈیٹر میں اپنا ہاتھ دھویا اور سوچا

’’مجھے اس کے ہزبنڈ سے مل کر کیا خوشی ہو گی۔ جب کہ یہ خود اس سے ناخوش ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ میرا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ‘‘

دیر تک وہ جمیل اور اس کی بیوی سے باتیں کرتا رہا۔ کہ شاید ان میں سے کوئی پرویز کے متعلق بات کرے گا اور اس کو اس عورت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوں گی جس کو اس نے ٹھنڈی مولی سمجھا تھا۔ مگر کوئی ایسی بات نہ ہوئی۔ جو پرویز کی شخصیت پر روشنی ڈالتی۔ جیگرودل کا ذکر آیا تو مسز جمیل نے صرف اتنا کہا۔

’’صرف کا ٹیسٹ رنگوں کے بارے میں بہت اچھا ہے۔ ‘‘

’’پرویز۔ پری‘‘

انور نے سوچا

’’کتنی غلط تخفیف ہے یہ خستہ سی ریڑھ کی ہڈی والی عورت جس کا رنگ اکتا دینے والی حد تک سفید ہے۔ اس کو پری کہا جائے کیا یہ کوہ قاف کی توہین نہیں؟‘‘

جب پرویز کے متعلق اور کوئی بات نہ ہوئی تو انور نے جمیل سے رخصت چاہی

’’اچھا بھائی میں چلتا ہوں‘‘

پھروہ مسز جمیل سے مخاطب ہوا۔

’’بھابھی آپ کی پری بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ‘‘

مسز جمیل مسکرائی۔

’’کیوں‘‘

انور نے یونہی کہہ دیا تھا۔ مسز جمیل نے کیوں کہا تواس کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ مسکرایا۔

’’کیا آپ کے نزدیک وہ دلچسپ نہیں؟ کون ہیں یہ محترمہ؟‘‘

مسز جمیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جمیل نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔ جمیل مسکرا کر اٹھا اور انور کے کاندھے کو دبا کر اس نے گٹک کر کہا۔ چلو تمہیں بتاتا ہوں کون ہیں یہ محترمہ۔ بڑی و اجبِ تعظیم ہستی ہیں‘‘

’’آپ کو تو بس کوئی موقعہ ملنا چاہیے‘‘

مسز جمیل کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔ جمیل ہنسا۔

’’کیا میں غلط کہتا ہوں کہ پری واجبِ تعظیم ہستی نہیں‘‘

’’میں نہیں جانتی‘‘

یہ کہہ کر مسز جمیل اٹھی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ جمیل نے پھر انور کا کندھا دبایا اور اس سے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ تمہاری بھابھی نے ہمیں پری کے متعلق باتیں کرنے کا موقعہ دے دیا ہے۔ ‘‘

انور بیٹھ گیا۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور اس سے پوچھا۔

’’تمہیں پری میں کیا دلچسپی نظر آئی؟‘‘

انور نے کچھ دیر اپنے دماغ کو کریدا

’’دلچسپی؟۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا میرا خیال ہے اس کا غیر دلچسپ ہونا ہی شاید اس دلچسپی کا باعث ہے۔ ‘‘

جمییل نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی۔

’’لفظوں کا اُلٹ پھیر نہیں چلے گا۔ صاف صاف بتاؤ تمہیں اس میں کیا دلچسپی نظر ائی؟‘‘

انور کو یہ جرح پسند نہ آئی

’’مجھے جو کچھ کہنا تھا۔ میں نے کہہ دیا ہے۔ ‘‘

جمیل ہنسا، پھر ایک دم سنجیدہ کر اس نے سامنے کمرے کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا۔

’’بڑی خطرناک عورت ہے انور‘‘

انور نے حیرت سے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ محترمہ دو آدمیوں کا خون کرا چکی ہے۔ ‘‘

انور کی آنکھوں کے سامنے معاً پرویز کا سفید رنگ آگیا۔ مسکرا کر کہنے لگا۔

’’اسکے باوجود لہو کی ایک چھینٹ بھی نہیں اس میں‘‘

لیکن فوراً ہی اس کو معاملے کی سنگینی کا خیال آیا تو اس نے سنجیدہ ہو کر جمیل سے پوچھا

’’کیا کہا تم نے؟۔ دو آدمیوں کا خون؟‘‘

انور نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی

’’جی ہاں۔ ایک کیپٹن تھا۔ دوسرا سربہاؤالدین کالڑ کا‘‘

’’کون سربہاؤالدین؟‘‘

’’اماں وہی۔ جو ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ میں خدا معلوم کیا تھے‘‘

انور کو کچھ پتہ نہ چلا۔ بہاؤالدین کو چھوڑ کر اس نے جمیل سے پوچھا۔

’’کیسے خون ہوا ان دونوں کا؟‘‘

’’جیسے ہوا کرتا ہے۔ کالج میں کیپٹن صاحب سے پری کا یارا نہ تھا۔ شادی کرکے جب وہ بمبئی گئی تو وہاں سر بہاؤالدین کے لڑکے سے راہ و رسم پیدا ہو گئی۔ اتفاق سے ٹرنینگ کے سلسلے میں کپتان صاحب وہاں پہنچے۔ پرانے تعلقات قائم کرنا چاہے تو سربہاؤالدین کے لڑکے آڑے آئے۔ ایک پارٹی میں دونوں کی چخ ہوئی۔ دوسرے روز کپتان صاحب نے پستول داغ دیا۔ رقیب وہیں ڈھیر ہو گئے پری کو بہت افسوس ہوا۔ سربہاؤالدین کے لڑکے کی موت کے غم میں اس نے کئی دن سوگ میں کاٹے۔ جب کپتان صاحب کو پھانسی ہوئی تو لوگ کہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں نے ہزار ہا اصلی آنسو بہائے۔ اس کے بعد ایک نوجوان پارسی اس کے دامِ محبت میں گرفتار ہو گیا۔ وصل کی رات جب اُسے پتہ چلا کہ اس کی محبوبہ شادی شدہ ہے تو اس نے اپنے باپ کی ڈسپنسری سے زہر لے کر رکھا لیا‘‘

انور نے کہا

’’یہ تین خون ہوئے‘‘

جمیل مسکرایا۔

’’نوجوان پارسی خوش قسمت تھا اس کے باپ نے اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔ ‘‘

’’بڑی عجیب وغریب عورت ہے‘‘

یہ کہہ کر انور سوچنے لگا کہ پرویز جس میں کشش نام کو بھی نہیں کیسے ان ہنگاموں کا باعث ہوئی۔ کپتان نے اس میں کیا دیکھا۔ سر بہاؤالدین کے لڑکے کو اس میں کیا چیز نظر آئی؟۔ اور اس نوجوان پارٹی نے اس ڈھیلی ڈھالی عورت میں کیا دلکشی دیکھی؟ انور نے پرویز کو تصور میں ننگا کرکے دیکھا۔ ڈھیلی ڈھالی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ جس پر سفید سفید گوشت منڈھا ہوا تھا۔ خون کے بغیر کوہلے دبلے پتلے لڑکے کے کولہوں جیسے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی دم نہیں تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ اگر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کسی نے دبایا تو وہ دونیم ہو جائے گی۔ بال کٹے ہوئے تھے جو ہائیڈروجن پراکسائڈ کے استعمال سے اپنا قدرتی رنگ کھو چکے تھے۔ کیا تھا اس کے سراپا میں؟۔ ایک فقط اس کی آنکھیں کچھ غنیمت تھیں۔ انور نے سوچا۔ صرف آنکھیں کون چاٹتا پھرتاہے۔ کوئی بات ہونی چاہیے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ٹھنڈی مولی نے اتنے بڑے ہنگامے پیدا کیے۔ مجھ سے تو جب اس نے ہاتھ ملایا تھا۔ تو میں نے خیال کیا تھا کہ مجھے بدبودارڈکاریں آنی شروع ہو جائیں گی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے ضرور اس پری میں‘‘

جمیل نے اسے بتایا کہ راولپنڈی میں پرویز کے کالج کے رومانس مشہور ہیں۔ اس زمانے میں اس کے بیک وقت تین تین چار چار لڑکوں سے رومان چلتے تھے۔ چھ لڑکے اسی کے باعث کالج بدر ہوئے۔ ایک کو بیمار ہوکر سینے ٹوریم میں داخل ہونا پڑا۔ انور کی حیرت بڑھ گئی۔ اس نے جمیل سے پوچھا۔ کون ہے اس کا خاوند؟۔ اورخود کس کی لڑکی ہے؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’بہت بڑے باپ کی۔ کسی زمانے میں احمد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، آجکل ریٹائرڈ ہیں۔ خاوند اس کا ہندو ہے۔ ‘‘

’’ہندو؟‘‘

’’نہیں، اب عیسائی ہو چکا ہے؟‘‘

’’کیا کرتا ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے شروع میں اس کا ذکر آیا تھا۔ کہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے۔ ‘‘

انور کو یاد آگیا۔

’’ہاں، ہاں کچھ ایسی بات ہوئی تھی۔ شاید بھابی جان نے بتایا تھا؟‘‘

جمیل اور انور تھوڑی دیر خاموش رہے۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور ادھر ادھر دیکھ کر اسکی بیوی نہ سن رہی ہو۔ انور کا کاندھا دبا کر سرگوشی میں کہا۔

’’تم پری سے ضرور ملو۔ دیکھنا کیا ہوتا ہے؟‘‘

انور نے خود سے پوچھا مگر جمیل سے کہا

’’کیا ہو گا؟‘‘

جمیل کے ہونٹوں میں ایک شریر سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’وہی ہو گا جومنظورِ خدا ہو گا‘‘

پھر اس نے آواز دبا کر کہا۔

’’کل شام چائے وہیں پئیں گے۔ اس کا خاوند رات کو آتا ہے۔ ‘‘

پروگرام طے ہو گیا۔ پرویز کے متعلق اتنی باتیں سن کر اسکے دماغ میں کھدبد سی ہورہی ہے۔ وہ بار بار سوچتا تھا۔ ملاقات پر کیا ہو گا۔ کوئی غیر معمولی چیز وقوع پذیر ہو گی۔ ہو سکتا ہے جمیل نے مذاق کیا ہو۔ ہو سکتا ہے جمیل نے جو کچھ بھی اسکے بارے میں کہا سرتاپا غلط ہو۔ لیکن پھر اسے خیال آتا۔ جمیل کو خواہ مخواہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘

دوسرے روز شام کو جمیل اور وہ دونوں پری کے ہاں آگئے وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ نوکر نے ان کو بڑے کمرے میں بٹھا دیا۔ انورووگ کی ورق گردانی کرنے لگا۔ دفعتہً جمیل اٹھا۔

’’میں سگریٹ بھول آیا۔ ابھی آتا ہوں‘‘

یہ کہہ کروہ چلا گیا۔ انور

’’ووگ‘‘

میں چھپی ہوئی ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ اسے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ نظریں اٹھا کر اس نے دیکھا تو پرویز تھی۔ انور سٹ پٹا گیا۔ اس نے سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا جو جا بجا گیلا تھا۔ ململ کا کرتہ اس کے پانی سے تر بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ مسکرا کر اس نے انور سے کہا۔

’’آپ بڑے انہماک سے تصویریں دیکھ رہے تھے۔ ‘‘

پرچہ چھوڑ کر انور اٹھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر پرویز اسکے پاس آگئی۔ پرچہ اٹھا کر اس نے ایک ہاتھ سے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک طرف کیا۔ اور مسکرا کر کہا

’’مجھے معلوم ہے کہ آپ آئے ہیں تو میں ایسے ہی چلی آئی‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے ململ کے گیلے کرتے کودیکھا۔ جس میں دو کالے دھبے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس نے انور کا ہاتھ پکڑا

’’چلیے اندر چلیں۔ ‘‘

انور منمنایا

’’جمیل۔ جمیل بھی ساتھ تھا میرے۔ سگریٹ بھول آیا تھا۔ لینے گیا ہے۔ ‘‘

پرویز نے انور کو کھینچا۔

’’وہ آجائے گا۔ چلیے۔ ‘‘

انور کو جانا ہی پڑا۔ جس کمرے میں وہ داخل ہوئے اس میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ دو اسپرنگوں والے ساگوانی پلنگ تھے۔ ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی۔ اسکے ساتھ ایک اسٹول پڑا تھا۔ پری اس اسٹول پر بیٹھ گئی اور ایک پلنگ کی طرف اشارہ کرکے انور سے کہا۔

’’بیٹھیے‘‘

انور ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گیا۔ اس نے چاہا کہ جمیل آجائے کیونکہ اسے بے حد الجھن ہورہی تھی۔ پرویز کے گیلے کرتے کے ساتھ چمٹے ہوئے دو کالے دھبے اس کو دواندھی آنکھیں لگتے تھے جو اس کے سینے کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہیں۔ انور نے اٹھ کر جانا چاہا

’’میرا خیال ہے میں جمیل کو بلا لاؤں‘‘

مگر وہ اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی۔ ڈرسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے فریم کی طرف اشارہ کرکے اس نے انور سے کہا۔

’’یہ میرے ہذبنڈ ہیں۔ بہت ظالم آدمی ہے جمیل صاحب۔ ‘‘

انور منمنایا۔

’’آپ مذاق کرتی ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ میرے اور اس کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اصل میں شادی سے پہلے مجھے دیکھ لینا چاہیے تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ نہیں۔ جس چیز کا مجھے شوق ہو اُسے بالکل پسند نہیں ہوتی۔ آپ بتائیے یہ کہتی ہوئی وہ اوٹ لگا کر پلنگ پر اوندھی لیٹ گئی۔

’’اس طرح لیٹنے میں کیا ہرج ہے۔ ‘‘

انور ایک کونے میں سرک گیا۔ اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے صرف اتنا سوچا

’’اس کا درمیانی حصہ کتنا غیر نسوانی ہے۔ ‘‘

پرویز اوندھی لیٹی رہی

’’آپ نے جواب نہیں دیا مجھے۔ بتائیے اس طرح لیٹنے میں کیا حرج ہے؟‘‘

انور کا حلق سوکھنے لگا۔

’’کوئی حرج نہیں۔ ‘‘

’’لیکن اس کو ناپسند ہے۔ خدا معلوم کیوں‘‘

یہ کہہ کر پرویز نے گردن ٹیڑھی کرکے انور کی طرف دیکھا۔

’’آدمی اس طرح لیٹتے تو معلوم ہوا ہے تیر رہا ہے۔ میں لیٹوں تو اوپربڑا تکیہ رکھ لیا کرتی ہوں۔ ذرا اٹھائیے نا وہ تکیہ اور میرے اوپر رکھ دیجیے۔ ‘‘

انور کا حلق بالکل خشک ہو گیا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے۔ اٹھنے لگا تو پرویز نے اپنی پتلی ٹانگ سے اس کو روکا

’’بیٹھ جائیے نا‘‘

’’جی میں جمیل۔ ‘‘

وہ مسکرائی

’’جمیل بے وقوف ہے ایک دن مجھ سے باتیں کررہا تھا۔ میں نے اس سے کہا

’’اپنے خاوند کے سوا میرا اور کسی سے وہ تعلق نہیں رہا جو ایک مرد اور عورت میں ہوتا ہے۔ تو وہ ہنسنے لگا۔ مجھے تو ویسے بھی اس کا تعلق سے نفرت ہے‘‘

۔ ذرا تکیہ اٹھا کر رکھ دیجیے نا میرے اوپر!‘‘

انور اسی بہانے اٹھا۔ تکیہ دوسرے کونے میں پڑا تھا۔ اُسے اٹھایا اور پرویز کے درمیانی حصہ پر جوکہ بہت ہی غیر نسوانی تھا رکھ دیا۔ پرویز مسکرائی

’’شکریہ۔ بیٹھیے اب باتیں کریں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ آپ تکیے سے باتیں کریں۔ میں چلا۔ ‘‘

یہ کہہ کر انور پسینہ پونچھتا باہر نکل گیا۔ 7جون1950ء

سعادت حسن منٹو

پانچ دن

جموں توی کے راستے کشمیر جائیے تو کد کے آگے ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں بٹوت آتا ہے۔ بڑی پر فضا جگہ ہے۔ یہاں دق کے مریضوں کے لیے ایک چھوٹا سا سینے ٹوریم ہے۔ یوں تو آج سے آٹھ نو برس پہلے بٹوت میں پورے تین مہینے گزار چکا ہوں، اور اس صحت افزا مقام سے میری جوانی کا ایک ناپختہ رومان بھی وابستہ ہے مگر اس کہانی سے میری کسی بھی کمزوری کا تعلق نہیں۔ چھ سات مہینے ہوئے مجھے بٹوت میں اپنے ایک دوست کی بیوی کو دیکھنے کے لیے جانا پڑا جو وہاں سینے ٹوریم میں زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی۔ میرے وہاں پہنچتے ہی ایک مریض چل بسا اور بے چاری پدما کے سانس جو پہلے اکھڑے ہوئے تھے اور بھی غیر یقینی ہو گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا وجہ کیا تھی لیکن میرا خیال ہے کہ محض اتفاق تھا کہ چار روز کے اندر اندر اس چھوٹے سے سینے ٹوریم میں تین مریض اوپر تلے مر گئے جونہی کوئی بستر خالی ہوتا یا تیمار داری کرتے کرتے تھکے ہوئے انسانوں کی تھکی ہوئی چیخ پکار سنائی دیتی، سارے سینی ٹوریم پر ایک عجیب قسم کی خاکستری اداسی چھا جاتی اور وہ مریض جو امید کے پتلے دھاگے کے ساتھ چمٹے ہوتے تھے، یاس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے۔ میرے دوست کی بیوی تو پدما بالکل دم بخود ہو جاتی۔ اس کے پتلے ہونٹوں پر موت کی زردیاں کانپنے لگتیں اور اس کی گہری آنکھوں میں ایک نہایت ہی رحم انگیز استفسار پیدا ہوجاتا۔ سب سے آگے ایک

’’خوف زدہ کیوں؟‘‘

اور اس کے پیچھے بہت سے ڈرپوک

’’نہیں‘‘

تیسرے مریض کی موت کے بعد میں باہر برآمدے میں بیٹھ کرزندگی اور موت کے متعلق سوچنے لگا۔ سینے ٹوریم ایک مرتبان سا لگتا ہے جس میں یہ مریض پیاز کی طرح سرکے میں ڈلے ہُوئے ہیں۔ ایک کانٹا آتا ہے اور جو پیاز اچھی طرح گل گئی ہے، اسے ڈھونڈتا ہے اور نکال کر لے جاتا ہے۔ یہ کتنی مضحکہ خیز تشبیہ تھی۔ لیکن جانے کیوں بار بار یہی میرے ذہن میں آئی۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ سوچ سکا کہ موت ایک بہت ہی بھونڈی چیز ہے۔ یعنی آپ اچھے بھلے جی رہے ہیں، ایک مرض کہیں سے آن چمٹتا ہے اور مرجاتے ہیں۔ افسانوی نقطہ نظر سے بھی زندگی کی کہانی کا یہ انجام کچھ چست معلوم نہیں ہوتا۔ برآمدے سے اٹھ کر اندر داخل ہُوا۔ دس پندرہ قدم اٹھائے ہوں گے کہ پیچھے سے آواز آئی۔

’’دفنا آئے آپ نمبر بائیس کو!‘‘

میں نے مڑ کر دیکھا۔ سفید بستر پر دو کالی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ یہ آنکھیں جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ ایک بنگالی عورت کی تھیں جو دوسرے مریضوں سے بالکل الگ طریقے پر اپنی موت کا انتظار کررہی تھی۔ اس نے جب یہ کہا

’’دفنا آئے آپ نمبر بائیس کو؟‘‘

تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم انسان کو نہیں بلکہ ایک عدد دفنا کر آرہے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو اس مریض کو قبر کے سپرد کرتے ہوئے میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں بھی یہ احساس پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک انسان تھا، اور اس کی موت سے دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ میں جب مزید گفتگو کرنے کے لیے اس بنگالی عورت کے پاس بیٹھا جس کی سیاہ فام آنکھیں ایسی ہولناک بیماری کے باوجود تروتازہ اور چمکیلی تھیں تو اس نے ٹھیک اسی طرح مسکرا کر کہا۔

’’میرا نمبرچار ہے۔ ‘‘

پھر اس نے اپنی سفید چادرکی چند سلوٹیں اپنے استخوانی ہاتھ سے درست کیں اور بڑے بے تکلف انداز میں کہا۔

’’آپ مردوں کو جلانے دفنانے میں کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ ‘‘

میں نے یونہی سا جواب دیا۔

’’نہیں تو‘‘

۔ اس کے بعد یہ مختصر گفتگو ختم ہو گئی اور میں اپنے دوست کے پاس چلا گیا۔ دوسرے روز میں حسب معمول سیر کو نکلا۔ ہلکی ہلکی پھوارگررہی تھی۔ جس سے فضا بہت ہی پیاری اور معصوم ہو گئی تھی، یعنی جیسے اس کو ان مریضوں سے کوئی سروکار ہی نہیں جو اس میں جراثیم بھرے سانس لے رہے تھے۔ چیڑ کے لانبے لانبے درخت، نیلی نیلی دُھند میں لپٹی ہوئی پہاڑیاں، سڑک پر لڑھکتے ہُوئے پتھر۔ پست قد مگرصحت مند بھینسیں۔ ہر طرف خوبصورتی تھی۔ ایک پراعتماد خوبصورتی جسے کسی چور کا کھٹکا نہیں تھا۔ میں سیر سے لوٹ کر سینے ٹوریم میں داخل ہوا تو مریضوں کے اترے ہوئے چہروں ہی سے مجھے معلوم ہو گیا کہ ایک اور عدد چل بسا ہے۔ گیارہ نمبر، یعنی پدما۔ اس کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں جو کھلی رہ گئی تھیں میں نے بہت سے خوفزدہ

’’کیوں‘‘

اور ان کے پیچھے بے شمار ڈرپوک

’’نہیں‘‘

منجمد پائے۔ بے چاری! پانی برس رہا تھا، اس لیے خشک ایندھن جمع کرنے میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال، اس غریب کی لاش کو آگ کے سپرد کردیا گیا۔ میرا دوست وہیں چتا کے پاس بیٹھا رہا اور میں اس کا سامان ٹھیک کرنے کے لیے سینے ٹوریم آگیا۔ اندر داخل ہوتے ہُوئے مجھے پھر اس بنگالی عورت کی آواز آئی۔

’’بہت دیرلگ گئی آپ کو!‘‘

’’جی ہاں بارش کی وجہ سے خشک ایندھن نہیں مل رہا تھا اس لیے دیر ہو گئی۔ ‘‘

’’اور جگہوں پر تو ایندھن کی دکانیں ہوتی ہیں، پر میں نے سنا ہے یہاں اِدھر اُدھر سے خود ہی لکڑیاں کاٹنی اور چننی پڑتی ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’ذرا بیٹھ جائیے۔ ‘‘

میں اس کے پاس اسٹول پر بیٹھ گیا۔ تو اس نے ایک عجیب سا سوال کیا۔

’’تلاش کرتے کرتے جب آپ کو خشک لکڑی کا ٹکرا مل جاتا ہو گا تو آپ بہت خوش ہوتے ہوں گے؟‘‘

اس نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا اور اپنی چمکیلی آنکھوں سے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

’’موت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میں نے کئی بار سوچا ہے لیکن سمجھ نہیں سکا۔ ‘‘

وہ داناؤں کی طرح مسکرائی اور بچوں کے سے انداز میں کہنے لگی۔

’’میں کچھ کچھ سمجھ سکی ہوں۔ اس لیے کہ بہت موتیں دیکھ چکی ہوں۔ اتنی کہ آپ شاید ہزار برس بھی زندہ رہ کر نہ دیکھ سکیں۔ میں بنگال کی رہنے والی ہوں جہاں کا قحط آج کل بہت مشہور ہے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہو گا۔ لاکھوں آدمی وہاں مر چکے ہیں۔ بہت سی کہانیاں چھپ چکی ہیں۔ سینکڑوں مضمون لکھے جا چکے ہیں۔ پھر بھی سنا ہے کہ انسان کی اس بپتا کا اچھی طرح نقشہ نہیں کھینچا جاسکا۔ موت کی اسی منڈی میں موت کے متعلق میں نے سوچا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا؟‘‘

اس نے اسی انداز سے جواب دیا۔

’’میں نے سوچا کہ ایک آدمی کا مرنا موت ہے۔ ایک لاکھ آدمیوں کا مرنا تماشاہے۔ سچ کہتی ہوں موت کا وہ خوف جو کبھی مرے دل پر ہُوا کرتا تھا، بالکل دور ہو گیا۔ ہر بازارمیں دس بیس ارتھیاں اور جنازے نظر آئیں تو کیا موت کا اصلی مطلب فوت نہیں ہو جائے گا۔ میں صرف اتنا سمجھ سکی ہُوں کہ ایسی بے تحاشا موتوں پر رونا بیکار ہے۔ بیوقوفی ہے۔ اوّل تو اتنے آدمیوں کا مرناہی سب سے بڑی حماقت ہے۔ ‘‘

میں نے فوراً ہی پوچھا۔

’’کس کی۔ ‘‘

’’کسی کی بھی ہو۔ حماقت، حماقت ہے۔ ایک بھرے شہر پر آپ اوپر سے بم گرا دیجیے۔ لوگ مر جائیں گے۔ کنوؤں میں زہر ڈال دیجیے۔ ۔ جو بھی ان کا پانی پیے گا۔ مر جائے گا۔ یہ کال، قحط، جنگ اور بیماریاں سب واہیات ہیں۔ ان سے مرجانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اوپر سے چھت آگرے۔ لیکن دل کی ایک جائز خواہش کی موت بہت بڑی موت ہے۔ انسان کو مارنا کچھ نہیں، لیکن اس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہو گئی۔ لیکن پھر کروٹ بدل کر کہنے لگی۔

’’میرے خیالات پہلے ایسے نہیں تھے۔ سچ پوچھیے تو مجھے سوچنے کا وقوف ہی نہیں تھا۔ لیکن اس قحط نے مجھے ایک بالکل نئی دنیا میں پھینک دیا۔ ‘‘

رک کر ایک دم وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔ میں اپنی کاپی میں یاداشت کے طور پر اس کی چند باتیں نوٹ کررہا تھا۔

’’یہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘

میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور کہا۔

’’میں افسانہ نگار ہوں۔ جو باتیں مجھے دلچسپ معلوم ہوں، نوٹ کرلیا کرتا ہوں۔ ‘‘

’’اوہ! تو پھر میں آپ کو اپنی پوری کہانی سناؤں گی۔ ‘‘

تین گھنٹے تک نحیف آواز میں وہ مجھے اپنی کہانی سناتی رہی۔ میں اب اپنے الفاظ میں اسے بیان کرتا ہوں۔ غیر ضروری تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بنگال میں جب قحط پھیلا اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے تو سکینہ کو اس کے چچا نے ایک اوباش آدمی کے پاس پانچ سو روپے میں بیچ دیا جو اسے لاہور لے آیا۔ اور ایک ہوٹل میں ٹھہرا کر اس سے روپیہ کمانے کی کوشش کرنے لگا۔ پہلا آدمی جو اس کے پاس اس غرض سے لایا گیا ایک خوبصورت اور تندرست نوجوان تھا۔ قحط سے پہلے جب روٹی کپڑے کی فکر نہیں تھی، وہ ایسے ہی نوجوان کے خواب دیکھا کرتی تھی جو اس کا شوہر بنے۔ مگر یہاں اس کا سودا کیا جارہا تھا۔ ایک ایسے فعل کے لیے اسے مجبور کیا جارہا تھا جس کے تصور ہی سے وہ کانپ کانپ اٹھتی تھی۔ جب وہ کلکتہ سے لاہور لائی گئی تو اسے معلوم تھاکہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ وہ باشعور لڑکی تھی۔ اچھی طرح جانتی تھی کہ چند ہی روز میں اسے ایک سکہ بنا کر جگہ جگہ بھنایا جائے گا۔ اس کو یہ سب کچھ معلوم تھا لیکن اس قیدی کی طرح جو رحم کی امید نہ ہونے پربھی آس لگائے رہتا ہے، وہ کسی ناممکن حادثے کی متوقع تھی۔ یہ حادثہ تو نہ ہوا لیکن خود اس میں اتنی ہمت پیدا ہو گئی کہ وہ رات کوکچھ اپنی ہوشیاری سے اور کچھ اس نوجوان کی خامکاری کی بدولت ہوٹل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب لاہور کی سڑکیں تھیں اور ان کے نئے خطر۔ قدم قدم پر ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کی نظریں اسے کھا جائیں گی۔ لوگ اسے کم دیکھتے تھے، لیکن اس کی جوانی کو جو چھپنے والی چیز نہیں تھی، کچھ اتنا زیادہ گھورتے تھے، جیسے برمے سے اس کے اندر سوراخ کررہے ہیں۔ سونے چاندی کا کوئی زیور یا موتی ہوتا تو وہ شاید لوگوں کی نظروں سے بچا لیتی۔ مگر وہ ایک ایسی چیز کی حفاظت کررہی تھی جس پر کوئی بھی آسانی کے ساتھ ہاتھ مار سکتا تھا۔ تین دن اور تین راتیں وہ کبھی ادھر کبھی ادھر گھومتی بھٹکتی رہی۔ بھوک کے مارے اس کا بُرا حال تھا مگر اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اس کا یہ پھیلا ہوا ہاتھ اس کی عصمت سمیت کسی اندھیری کوٹھری میں کھینچ لیا جائے گا۔ دکانوں میں سجی ہوئی مٹھائیاں دیکھتی تھی۔ بھٹیار خانوں میں لوگ بڑے بڑے نوالے اٹھاتے تھے۔ اس کے ہر طرف کھانے پینے کی چیزوں کا بڑی بیدردی سے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن جیسے دنیا میں اس کے مقسوم کا کوئی دانہ ہی نہیں رہا تھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار کھانے کی اہمیت معلوم ہوئی۔ پہلے اس کو کھانا ملتا تھا، اب وہ کھانے سے ملنا چاہتی تھی۔ چار روز کے فاقوں نے اسے اپنی ہی نظروں میں ایک بہت بڑا شہید تو بنا دیا۔ لیکن اس کے جسم کی ساری بنیادیں ہل گئیں۔ وہ جو روحانی تسکین ہوتی ہے ایک وقت آگیا کہ وہ بھی سکڑنے لگی۔ چوتھے روز شام کو وہ ایک گلی میں سے گزر رہی تھی۔ جانے کیا جی میں آئی کہ ایک مکان کے اندر گھس گئی۔ اندر چل کر خیال آیا کہ نہیں، کوئی پکڑ لے گا۔ اور تمام کیے کرائے پر پانی پھر جائیگا۔ اب اس میں اتنی طاقت بھی تو نہیں۔ لیکن سوچتے سوچتے وہ صحن کے پاس پہنچ چکی تھی۔ ملگجے اندھیرے میں اس نے گھڑونچیوں پر دو صاف گھڑے دیکھے۔ اورانکے ساتھ ہی پھلوں سے بھرے ہوئے دو تھال۔ سیب۔ ناشپاتیاں۔ انار۔ اس نے سوچا انار بکواس ہے۔ سیب اور ناشپاتیاں ٹھیک ہیں۔ گھڑے کے اوپر چینی کے بجائے ایک پیالہ پڑا تھا۔ اس نے طشتری اٹھا کر دیکھا تو ملائی سے پُر تھا۔ اس نے اٹھا لیا اور بیشتر اس کے کہ وہ کچھ سوچ سکے، جلدی جلدی اس نے نوالے اٹھانے شروع کیے ساری ملائی اس کے پیٹ میں تھی۔ کتنا راحت بخش لمحہ تھا۔ بھول گئی کہ کسی غیر کے مکان میں ہے۔ وہیں بیٹھ کر اس نے سیب اور ناشپاتیاں کھانا شروع کردیں۔ گھڑونچی کے نیچے کچھ اور بھی تھا۔ یخنی۔ ٹھنڈی تھی لیکن اس نے ساری پتیلی ختم کردی۔ ایک دم جانے کیا ہوا۔ پیٹ کی گہرائیوں سے غبار سا اٹھا اور اس کاسر چکرانے لگا۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کہیں سے کھانسی کی آواز آئی۔ بھاگنے کی کوشش کی مگر چکرا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو وہ ایک صاف ستھرے بستر میں لیٹی تھی۔ سب سے پہلے اسے خیال آیا۔ کہیں میں لوٹی تو نہیں گئی۔ لیکن فوراً ہی اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ صحیح سلامت تھی۔ کچھ اور سوچنے ہی لگی تھی کہ پتلی پتلی کھانسی کی آواز آئی۔ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ کمرے میں داخل ہوا۔ سکینہ نے اپنے گاؤں میں بہت سے قحط کے مارے انسان دیکھے تھے مگر یہ انسان ان سے بہت مختلف تھا۔ بے چارگی اس کی آنکھوں میں بھی تھی مگر اس میں وہ اناج کی ترسی ہوئی خواہش نہیں تھی۔ اس نے پیٹ کے بھوکے دیکھے تھے جن کی نگاہوں میں ایک ننگی اور بھونڈی للچاہٹ تھی لیکن اس کی مرد کی نگاہوں میں اسے ایک چلمن سی نظر آئی۔ ایک دھندلا پردہ جس کے پیچھے سے وہ ڈر ڈر کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خوفزدہ سکینہ کو ہونا چاہیے لیکن سہما ہوا وہ تھا۔ اس نے رک رک کر کچھ جھینپتے ہوئے عجیب قسم کا حجاب محسوس کرتے ہوئے اس سے کہا۔

’’جب تم کھا رہی تھیں تو میں تم سے دور کھڑا تھا۔ اف! میں نے کن مشکلوں سے اپنی کھانسی روکے رکھی کہ تم آرام سے کھا سکو اور میں یہ خوبصورت منظر زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ بھوک بڑی پیاری چیز ہے۔ لیکن ایک میں ہوں کہ اس نعمت سے محروم ہُوں۔ نہیں، محروم نہیں کہنا چاہیے کیونکہ میں نے خود اس کو ہلاک کیا ہے۔ سکینہ کچھ بھی سمجھ نہ سکی۔ وہ ایک پہیلی تھی۔ جو بوجھتے بوجھتے ایک اور پہیلی بن جاتی تھی لیکن اس کے باوجود سکینہ کو اس کی باتیں اچھی لگیں جن میں انسانیت کی گرمی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی ساری آپ بیتی اسکو سنا دی۔ وہ خاموش سنتا رہا جیسے اس پر اثر ہی نہیں ہوا۔ لیکن جب سکینہ اس کا شکریہ ادا کرنے لگی تو اس کی آنکھیں جو آنسوؤں سے بے نیاز معلوم ہوتی تھیں ایک دم نمناک ہو گئیں اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’یہیں رہ جاؤ سکینہ۔ میں دق کا بیمار ہوں۔ مجھے کوئی کھانا۔ کوئی پھل اچھا نہیں لگتا۔ تم کھایا کرنا اور میں تمہیں دیکھا کروں گا۔ ‘‘

لیکن فوراً ہی وہ مسکرانے لگا۔

’’کیا حماقت ہے۔ کوئی اور سنتا تو کیا کہتا۔ یعنی دوسرا کھایا کرے اور میں دیکھا کروں گا۔ نہیں سکینہ۔ ویسے میری دلی خواہش ہے کہ تم یہیں رہو۔ ‘‘

سکینہ کچھ سوچنے لگی۔

’’جی نہیں۔ میرا مطلب ہے آپ اس گھر میں اکیلے ہیں اور میں۔ نہیں نہیں۔ بات یہ ہے کہ میں۔ ‘‘

یہ سن کر اس کو کچھ ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ تھوڑی دیر کے بالکل کھو سا گیا۔ جب بولا تو اس کی آواز کھوکھلی تھی۔

’’میں دس برس تک سکول میں لڑکیاں پڑھاتا رہا ہُوں ہمیشہ میں نے ان کو اپنی بچیاں سمجھا۔ تم۔ تم ایک اور ہو جاؤ گی۔ ‘‘

سکینہ کے لیے کوئی اور جگہ ہی نہیں تھی! چنانچہ اس پروفیسر کے ہاں ٹھہر گئی۔ وہ ایک برس اور چند مہینے زندہ رہا۔ اس دوران میں بجائے اس کے کہ سکینہ اس کی خبر گیری کرتی، الٹا وہ جو کہ بیمار تھا، اس کی آرائش و آرام پہنچانے میں کچھ اس بے کلی سے مصروف رہا جیسے ڈاک جانے والی ہے اور وہ جلدی جلدی ایک خط میں جو بات اس کے ذہن میں آتی ہے لکھتا جارہا ہے۔ اس کی اس توجہ نے سکینہ کو جسے توجہ کی ضرورت تھی۔ چند مہینوں میں نکھار دیا۔ اب پروفیسر اس سے کچھ دور رہنے لگا۔ مگر اس کی توجہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری دنوں میں اچانک اس کی حا لت خراب ہو گئی۔ ایک رات جب کہ سکینہ اس کے پاس ہی سو رہی تھی، وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور زور سے چلانے لگا۔

’’سکینہ سکینہ۔ ‘‘

یہ چیخیں سُن کر سکینہ گھبرا گئی۔ پروفیسر کی دھنسی ہوئی آنکھوں جو چلمن سی ہوا کرتی تھی موجود نہیں تھی۔ اب ایک اتھاہ دکھ سکینہ کو ان میں نظر آیا۔ پروفیسر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سکینہ کے ہاتھ پکڑے اور کہا۔

’’میں مر رہا ہوں۔ لیکن اس موت کا مجھے دُکھ نہیں۔ کیونکہ بہت سی موتیں میرے اندر واقع ہو چکی ہیں۔ تم سُننا چاہتی ہو میری داستان۔ جاننا چاہتی ہو میں کیا ہوں۔ سنو۔ ایک جھوٹ ہوں۔ بہت بڑا جھوٹ۔ میری ساری زندگی اپنے آپ سے جھوٹ بولنے اور پھر اسے سچ بنانے میں گزری ہے۔ اف کتنا تکلف دہ غیر فطری اور غیر انسانی کام تھا۔ میں نے ایک خواہش کو مارا تھا۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس قتل کے بعد مجھے اور بہت سے خون کرنے پڑیں گے۔ سکینہ! یہ میں جو کچھ کہہ رہا ہُوں فلسفیانہ بکواس ہے، سیدھی بات یہ ہے کہ میں اپنا کیریکٹر اونچا کرتا رہا اور خود انتہائی پستیوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ میں مر جاؤں گا اور یہ کیریکٹر۔ یہ بے رنگ پھریرا میری خاک پر اُڑتا رہے گا۔ وہ تمام لڑکیاں جنہیں میں سکول میں پڑھایا کرتا تھا۔ کبھی مجھے یاد کریں گی تو کہیں گی ایک فرشتہ تھا جو انسانوں میں چلا آیا تھا۔ تم بھی میری نیکیوں کو نہیں بھولو گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سے تم اس گھرمیں آئی ہو۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہاری جوانی کو دزدیدہ نگاہوں سے نہ دیکھا ہو۔ میں نے تصور میں کئی بار تمہارے ہونٹوں کو چوما ہے۔ کئی بار میں نے تمہاری انھوں پر اپنا سر رکھا ہے۔ لیکن ہر بار مجھے ان تصویروں کو پُرزے پُرزے کرنا پڑا۔ پھر ان پرزوں کو جلا کر میں نے راکھ بنائی کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ میں مر جاؤں گا۔ کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی کہ اپنے اس اونچے کیریکٹر کو ایک لمبے بانس پر لنگور کی طرح بٹھا دیتا۔ اور ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اکٹھا کرتا کہ آؤ دیکھو اورعبرت حاصل کرو۔ ‘‘

اس واقعہ کے بعد پروفیسر صرف پانچ روز زندہ رہا۔ سکینہ کا بیان ہے کہ مرنے سے پہلے وہ بہت خوش تھا۔ جب وہ آخری سانس لے رہا تھا تو اس نے سکینہ سے صرف اتنا کہا۔

’’سکینہ! میں لالچی نہیں۔ زندگی کے یہ آخری پانچ دن میرے لیے بہت ہیں۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بیمار

عجب بات ہے کہ جب بھی کسی لڑکی یا عورت نے مجھے خط لکھا بھائی سے مخاطب کیا اور بے ربط تحریر میں اس بات کا ضرور ذکر کیا کہ وہ شدید طور پر علیل ہے۔ میری تصانیف کی بہت تعریفیں کیں۔ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لڑکیاں اور عورتیں جو مجھے خط لکھتی ہیں بیمار کیوں ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ میں خود اکثر بیمار رہتا ہوں۔ یا کوئی اور وجہ ہو گی۔ جو اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ میری ہمدردی چاہتی ہیں۔ میں ایسی لڑکیوں اور عورتوں کے خطوط کا عموماً جواب نہیں دیا کرتا، لیکن بعض اوقات دے بھی دیا کرتا ہوں آخر انسان ہوں۔ خط اگر بہت ہی دردناک ہو تو اس کا جواب دینا انسانی فرائض میں شامل ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ایک خط موصول ہوا، جو کافی لمبا تھا۔ اس میں بھی ایک خاتون نے جس کا نام میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا یہ لکھا تھا کہ وہ میری تحریروں کی شیدائی ہے لیکن ایک عرصے سے بیمار ہے۔ اس کا خاوند بھی دائم المریض ہے۔ اس نے اپنا خیال ظاہر کیا تھا کہ جو بیماری اسے لگی ہے اس کے خاوند کی وجہ سے ہے۔ میں نے اس خط کا جواب نہ دیا لیکن اس کی طرف سے دوسرا خط آیا جس میں یہ گلہ تھا کہ میں نے اُس کے پہلے خط کی رسید تک نہ بھیجی۔ چنانچہ مجھے مجبوراً اس کو خط لکھنا پڑا۔ مگر بڑی احتیاط کے ساتھ۔ میں نے اس خط میں اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ اور بھی زیادہ علیل ہو گئی ہے اور مرنے کے قریب ہے۔ یہ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا۔ چنانچہ اسی تاثر کے ماتحت میں نے بڑے جذباتی انداز میں اُسے یہ خط لکھا اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے اس سے مایوس ہو جانا موت ہے اگر تم خود میں اتنی قوت ارادی پیدا کر لو تو بیماری کا نام و نشان تک نہ رہے گا میں پچھلے دنوں موت کے منہ میں تھا۔ سب ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔ لیکن میں نے کبھی موت کا خیال بھی نہیں کیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ڈاکٹر حیرت میں گُم ہوکے رہ گئے اور میں ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ میں نے اُس کو یہ بھی لکھا کہ قوتِ ارادی ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر ناممکن چیز کو ممکن بنا دیتی ہے۔ تم اگر بیمار ہو تو خود کو یقین دلا دو کہ نہیں تم بیمار نہیں اچھی بھلی تندرست ہو۔ میرے اس خط کے جواب میں اُس نے جو کچھ لکھا اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس پر میرے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بڑا طویل خط تھا۔ پانچ صفحوں پر مشتمل۔ اس کی منطق اور اس کا فلسفہ عجیب قسم کا تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھی کہ خدا کو یہ منظور نہیں کہ وہ زیادہ دیر تک اس دنیا میں زندہ رہے۔ اُس کے علاوہ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ میں اپنی تازہ کتابیں اُسے بھیجوں۔ میں نے دو نئی کتابیں اس کو بھیج دیں۔ ان کی رسید آگئی۔ بہت بہت شکریہ ادا کیا گیا تھا اور میری تعریفیں ہی تعریفیں تھیں۔ مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ جو کتابیں میں نے اس کو بھیجی تھیں، میری نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ صرف ہر روز کچھ کمانے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے اُسے لکھا کہ تم نے میری دو کتابوں کی جو اتنی تعریف کی ہے، غلط ہے۔ یہ کتابیں محض بکواس ہیں تم میری پرانی کتابیں پڑھو۔ اس میں تم پوری طرح مجھے جلوہ گر پاؤ گی۔ میں نے اس خط میں افسانہ نویسی کے فن پر بہت کچھ لکھ دیا تھا۔ بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ جھک کیوں ماری۔ اگر لکھنا ہی تھا تو کسی رسالے یا پرچے کے لیے لکھتا۔ یہ کیا ہے ایک عورت کو جس کے تم صورت آشنا بھی نہیں اتنا طویل اور پُر مغز خط لکھ دیا ہے۔ بہر حال جب لکھ دیا تھا تو اُسے پوسٹ کرنا ہی تھا۔ اس کا جواب تیسرے روز آگیا۔ اب کے مجھے پیارے بھائی جان سے مخاطب کیا گیا تھا۔ اُس نے میری پرانی تصنیفات منگوالی تھیں اور وہ انھیں پڑھ رہی تھی۔ لیکن بیماری روز بروز بڑھ رہی تھی اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کسی حکیم کا علاج کیوں نہ کرائے، کیونکہ وہ ڈاکٹروں سے بالکل نا اُمید ہو چکی تھی۔ میں نے اُسے جواب میں لکھا، علاج تم کسی سے بھی کراؤ۔ خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا حکیم۔ لیکن یاد رکھو سب سے زیادہ اچھا معالج خود آدمی آپ ہوتا ہے۔ اگر تم اپنی ذہنی پریشانیاں دُور کر دو تو چند روز میں تندرست ہو جاؤ گی۔ میں نے اس موضوع پر ایک طویل لیکچر لکھ کر اُس کو بھیجا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی رسید پہنچی، جس میں یہ لکھا تھا کہ اُس نے میری نصیحت پر عمل کیا۔ لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور یہ کہ وہ مجھ سے ملنے آرہی ہے۔ دو تین روز میں حیدر آباد سے بمبئی پہنچ جائے گی اور چند روز میرے ہاں ٹھہرے گی۔ میں بہت پریشان ہوا، چھڑا چھٹانک تھا۔ مگر ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ جس میں دو کمرے تھے۔ میں نے سوچا اگر یہ محترمہ آ گئیں تو میں ایک کمرہ اُن کو دے دوں گا۔ اس میں وہ چند دن گزارنا چاہیں گزار لیں۔ علاج کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ وہاں کا ایک بڑا حکیم میرا بڑا مہربان تھا۔ چھ روز تک آپ یہ سمجھیے کہ میں سولی پر لٹکا رہا۔ اخبار والے نے دروازے پردستک دی تو میں یہ سمجھا کہ وہ محترمہ تشریف لے آئیں۔ باورچی خانے میں نوکر نے اگر کسی برتن پر راکھ ملنا شروع کی تو میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ شاید یہ آواز اس عورت کے سینڈلوں کی ہے۔ میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں یہ سمجھا کہ دُودھ والا ہے۔ چنانچہ میں نے نوکر کو آواز دی

’’دیکھو رحیم کون ہے؟‘‘

رحیم چائے بنا رہا تھا۔ وہ اُبلتی ہوئی کیتلی کو وہیں چولھے پر چھوڑ کر باہر نکلا اور دروازہ کھولا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا

’’ایک عورت آئی ہے‘‘

میں حیرت زدہ ہو گیا

’’عورت؟‘‘

’’جی ہاں۔ ایک عورت باہر کھڑی ہے۔ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘‘

میں سمجھ گیا کہ یہ عورت وہی ہو گی۔ بیمار، جو مجھے خط لکھتی رہی ہے چنانچہ میں نے رحیم سے کہا اُس کو اندر لے آؤ اور بڑے کمرے میں بٹھا دو اور کہہ دو کہ صاحب ابھی آ جائیں گے۔ ‘‘

جی اچھا یہ کہہ کر رحیم چلا گیا۔ میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ یہ عورت کس قسم کی ہو گی۔ دق کی ماری ہوئی یا فالج زدہ۔ میرے پاس کیوں آئی ہے؟۔ نہیں مجھ سے ملنے آئی ہے، غالباً یہاں کسی طبیب سے اپنا علاج کرانے آئی ہے۔ میں اُٹھا اور غسل خانے میں چلا گیا۔ وہاں دیر تک نہاتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ عورت جو اُس کو اتنے لمبے چوڑے خط لکھتی رہی اور جس کو کوئی خطرناک بیماری چمٹی ہوئی ہے کس شکل و صورت کی ہو گی؟ بے شمار شکلیں میرے تصور میں آئیں۔ پہلے میں نے سوچا اپاہج ہو گی اور مجھے اس کو کچھ دینا پڑے گا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تین تاریخ تھی جب وہ آئی۔ میرے پاس تنخواہ کے تین سو روپے تھے جو اِدھر اُدھر کے بِل ادا کرنے کے بعد بچ گئے تھے۔ اس لیے میری پریشانی میں اضافہ نہ ہوا۔ میں نے نہاتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر اسے مدد کی ضرورت ہے تو میں اُسے ایک سو روپے دے دُوں گا۔ لیکن فوراً مجھے خیال آیا کہ شاید اس کو دق ہو اور مجھے اس کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑے۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا اس لیے کہ میرے کئی دوست جے جے ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ میں ان میں کسی ایک سے بھی کہہ دُوں کہ اس معذور عورت کو داخل کر لو تو وہ کبھی انکار نہ کریں گے۔ میں کافی دیر تک نہاتا اور اس عورت کے متعلق سوچتا رہا۔ عورتوں سے ملتے ہوئے بڑی اُلجھن محسوس ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح تو کر لیا لیکن ڈیڑھ برس تک یہی سوچتا رہا کہ اُسے اگر اپنے گھر لے آؤں تو کیا ہو گا؟‘‘

جو ہونا تھا وہ تو خیر ہو ہی جاتا اگر سب سے بڑا مسئلہ جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھا یہ تھا کہ جس نے ساری زندگی میں کسی عورت کی قربت حاصل نہیں کی تھی اپنی بیوی سے کس طرح پیش آتا۔ اب ایک عورت ساتھ والے کمرے میں بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی اور میں ڈونگے پہ ڈونگے بھر کے اپنے بدن پر بیکار ڈال رہا تھا میں اصل میں خود کو اس عورت سے ملاقات کرنے کے لیے تیار کررہا تھا۔ کافی دیر نہانے کے بعد میں غسل خانے سے باہر نکلا۔ کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے۔ بالوں میں تیل لگایا۔ کنگھی کی اور سوچتے سوچتے پلنگ پر لیٹ گیا۔ چندلمحات کے بعدرحیم آیا اور اُس نے مجھ سے کہا

’’وہ عورت پوچھتی ہے کہ آپ کب فارغ ہوں گے؟‘‘

میں نے رحیم سے کہا

’’ان سے کہہ دو بس پانچ منٹ میں آتے ہیں۔ کپڑے تبدیل کر رہے ہیں‘‘

رحیم

’’جی اچھا‘‘

کہہ کر چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ اب اور زیادہ سوچنا فضول ہے۔ چلو اُس سے مل ہی لیں۔ اتنی خط و کتابت ہوتی رہی ہے اور پھر وہ اتنی دُور سے ملنے آئی ہے بیمار ہے۔ انسانی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس کی خاطر داری اوردل جوئی کی جائے۔ میں نے پلنگ پر سے اُٹھ کر سلیپر پہنے اور دوسرے کمرے میں جہاں وہ عورت تھی داخل ہوا۔ وہ برقع پہنے تھی میں سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اس کے بُرقعے کے سیاہ نقاب میں صرف اس کی ناک دکھائی دی جو کافی تیکھی تھی۔ میں بہت اُلجھن محسوس کر رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بہر حال میں نے گفتگو کا آغاز کیا

’’مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔ در اصل میں اپنی عادت کی وجہ سے۔ ‘‘

اُس عورت نے میری بات کاٹ کر کہا

’’جی کوئی بات نہیں۔ آپ خواہ مخواہ تکلیف کرتے ہیں۔ میں تو انتظار کی عادی ہو چکی ہوں۔ ‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا میں کیا کہوں۔ بس جو لفظ زبان پر آئے اُگل دیے آپ کس کا انتظار کرتی رہی ہیں اُس نے اپنے چہرے پر نقاب تھوڑی سی اُٹھائی۔ اس لیے کہ وہ اپنے ننھے سے رومال سے اپنے آنسو پونچھنا چاہتی تھی۔ آنسو پونچھنے کے بعد اُس نے مجھ سے پوچھا

’’آپ نے کیا کہا تھا مجھ سے؟‘‘

اُس کی ٹھوڑی بڑی پیاری تھی جیسے بنارسی آم کی کیسری۔ جب اس کی نقاب اُٹھی تھی تو میں نے اُس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔ میں تو اس کے سوال کا جواب نہ دے سکا اس لیے کہ میں اس کی ٹھوڑی میں گم ہو گیا تھا۔ آخر اُسے ہی بولنا پڑا

’’آپ نے پوچھا تھا تم کس کا انتظار کرتی رہی ہو۔ جواب سننا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

’’جی ہاں۔ فرمائیے۔ لیکن دیکھیے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے قنوطیت کا اظہار ہو‘‘

اُس عورت نے اپنی نقاب اُلٹ دی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کالی بدلیوں میں چاند نکل آیا ہے۔ اس نے نیچی نگاہوں سے مجھ سے کہا

’’جانتے ہیں آپ میں کون ہوں‘‘

میں نے جواب دیا

’’جی نہیں‘‘

اُس نے کہا

’’میں آپ کی بیوی ہوں۔ جس سے آپ نے آج سے ڈیڑھ برس پہلے نکاح کیا تھا۔ میں آپ کو لکھتی رہی ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ میں بیمار نہیں لیکن اگر آپ نے اسی طرح مجھے انتظار میں رکھا تو یقیناًمر بھی جاؤں گی۔ ‘‘

میں دوسرے روز ہی اُس کو گھر لے آیا بڑے ٹھاٹ سے۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ یہ واقعہ مجھے میرے ایک دوست نے جو افسانہ نگار اور شاعر ہے سُنایا تھا جسے میں نے اپنے انداز میں رقم کر دیا۔ سعادت حسن منٹو ۶اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

بیگو

’’تسلیاں اور دلاسے بیکار ہیں۔ لوہے اورسونے کے یہ مرکب میں چھٹانکوں پھانک چکا ہُوں۔ کون سی دوا ہے جو میرے حلق سے نہیں اتاری گئی میں آپ کے اخلاق کا ممنون ہوں مگر ڈاکٹر صاحب میری موت یقینی ہے۔ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں دق کا مریض نہیں۔ کیا میں ہر روز خون نہیں تھوکتا؟ آپ یہی کہیں گے کہ میرے گلے اور دانتوں کی خرابی کا نتیجہ ہے مگر میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میرے دونوں پھیھپڑے خانہ ءِ زنبور کی طرح مشبک ہو چکے ہیں۔ آپ کے انجکشن مجھے دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتے۔ دیکھیے میں اس وقت آپ سے باتیں کررہا ہوں۔ مگرسینے پر ایک وزنی انجن دوڑتا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک تاریک گڑھے میں اتر رہا ہوں۔ قبر بھی تو ایک تاریک گڑھا ہے۔ آپ میری طرف اس طرح نہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب، مجھے اس چیز کا کامل احساس ہے کہ آپ اپنے ہسپتال میں کسی مریض کا مرنا پسند نہیں کرتے مگر جو چیز اٹل ہے وہ ہوکے رہے گی۔ آپ ایسا کیجیے کہ مجھے یہاں سے رخصت کردیجیے۔ میری ٹانگوں میں تین چار میل چلنے کی قوت ابھی باقی ہے کسی قریب کے گاؤں میں چلا جاؤں گا۔ اور۔ مگر میں تو رو رہا ہوں۔ نہیں نہیں۔ ڈاکٹرصاحب یقین کیجیے۔ میں موت سے خائف نہیں۔ یہ میرے جذبات ہیں، جو آنسوؤں کی شکل میں باہر نکل رہے ہیں۔ آہ! آپ کیا جانیں۔ اس مدقوق کے سینے سے کیا کچھ باہر نکلنے کومچل رہا ہے۔ میں اپنے انجام سے باخبر ہوں۔ آج سے پانچ برس پہلے بھی میں اس وحشت ناک انجام سے باخبر تھا۔ جانتا تھا۔ اور اچھی طرح جانتا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد میری زندگی کی دوڑ ختم ہو جائے گی۔ میں نے اس گیند کو جسے آپ زندگی کے نام سے پکارتے ہیں، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر کاٹا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں اس کھیل میں لذت محسوس کررہا ہوں۔ لذت۔ ہاں لذت۔ میں نے اپنی زندگی کی کئی راتیں حسن فروش عورتوں کے تاریک اڈوں پرگزاری ہیں۔ شراب کے نشے میں چورمیں نے کس بیدردی سے خود کو اس حالت میں پہنچایا۔ مجھے یاد ہے، انہی اڈوں کی سیاہ پیشہ عورت۔ کیا نام تھا اس کا؟۔ ہاں گلزار، مجھے اس بُری طرح اپنی جوانی کو کیچڑ میں لت پت کرتے دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کرنے لگ گئی تھی۔ بیوقوف عورت، اس کو کیا بتاتا کہ میں اس کیچڑ میں کس کا عکس دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے گلزار اور اس کی دیگر ہم پیشہ عورتوں سے نفرت تھی اور اب بھی ہے لیکن کیا آپ مریضوں کو زہر نہیں کھلاتے اگر اس سے اچھے نتائج کی اُمید ہو۔ میرے درد کی دوا ہی تاریک زندگی تھی۔ میں نے بڑی کوشش اور مصیبتوں کے بعد اس انجام کو بُلایا ہے جس کی کچھ روئداد آپ نے میرے سرہانے ایک تختی پر لکھ کر لٹکا رکھی ہے۔ میں نے اس کے انتظار میں ایک ایک گھڑی کس بیتابی سے کاٹی ہے، آہ! کچھ نہ پوچھیے! لیکن اب مجھے دِلی تسکین حاصل ہو چکی ہے۔ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔ میں دِق اور سِل کا مریض ہُوں اس مرض نے مجھے کھوکھلا کردیا ہے۔ آپ حقیقت کا اظہارکیوں نہیں کردیتے۔ بخدا اس سے مجھے اور تسکین حاصل ہو گی۔ میرا آخری سانس آرام سے نکلے گا۔ ہاں ڈاکٹر صاحب یہ تو بتائیے، کیا آخری لمحات واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں میری جان آرام سے نکلے۔ آج میں واقعی بچوں کی سی باتیں کررہا ہوں۔ آپ اپنے دل میں یقیناًمسکراتے ہوں گے کہ میں آج معمول سے بہت زیادہ باتونی ہو گیا ہُوں۔ دیا جب بجھنے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی روشنی تیز ہو جایا کرتی ہے۔ کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟۔ آپ تو بولتے ہی نہیں اور میں ہوں کہ بولے جارہا ہوں۔ ہاں ہاں۔ بیٹھیے میرا جی چاہتا ہے۔ آج کسی سے باتیں کیے جاؤں۔ آپ نہ آتے تو خدا معلوم میری کیا حالت ہوتی۔ آپ کا سفید سُوٹ آنکھوں کو کس قدر بھلا معلوم ہورہا ہے۔ کفن بھی اسی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے پھر آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ میں مرنے کے لیے کس قدر بے تاب ہوں۔ اگر مرنے والوں کو کفن خود پہننا ہو تو آپ دیکھتے میں اس کو کتنی جلدی اپنے گرد لپیٹ لیتا۔ میں کچھ عرصہ اور زندہ رہ کرکیا کروں گا؟ جب کہ وہ مر چکی ہے۔ میرا زندہ رہنا فضول ہے۔ میں نے اس موت کو بہت مشکلوں کے بعد اپنی طرف آمادہ کیا ہے اور اب میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔ وہ مر چکی ہے اور اب میں بھی مررہا ہوں۔ میں نے اپنی سنگدلی۔ وہ مجھے سنگدل کے نام سے پکارا کرتی تھی، کی قیمت ادا کردی ہے۔ اور خداگواہ ہے کہ اس کا کوئی بھی سکہ کھوٹا نہیں۔ میں پانچ سال تک ان کو پرکھتا رہا ہوں، میری عمر اس وقت پچیس برس کی ہے۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ آہ ان سات برسوں کی روئداد کتنی حیرت افزا ہے اگر کوئی شخص اس کی تفصیل کاغذوں پرپھیلا دے تو انسانی دلوں کی داستانوں میں کیسا دلچسپ اضافہ ہو۔ دنیا ایک ایسے دل کی دھڑکن سے آشنا ہو گی۔ جس نے اپنی غلطی کی قیمت خون کی ان تھوکوں میں ادا کی ہے۔ جنہیں آپ ہر روز جلاتے رہتے ہیں کہ ان کے جراثیم دوسروں تک نہ پہنچیں۔ آپ میری بکواس سُنتے سُنتے کیا تنگ تو نہیں آگئے۔ خدا معلوم کیا کیا کچھ بکتا رہوں۔ تکلف سے کام نہ لیجیے، آپ واقعی کچھ نہیں سمجھ سکتے، میں خود نہیں سمجھ سکا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ بٹوت سے واپس آکر میرے دل و دماغ کا ہر جوڑ ہل گیا تھا۔ اب یعنی آج جب کہ میرے جنون کا دورہ ختم ہو چکا ہے اور موت کو چند قدم کے فاصلے پر دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ وزن جو میری چھاتی کو دابے ہوئے تھا ہلکا ہو گیا ہے اور میں پھرزندہ ہورہا ہوں۔ موت میں زندگی۔ کیسی دلچسپ چیز ہے ! آج میرے ذہن سے دُھند کے تمام بادل اُٹھ گئے ہیں میں ہر چیز کو روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔ سات برس پہلے کے تمام واقعات اس وقت میری نظروں کے سامنے ہیں۔ دیکھیے۔ میں لاہور سے گرمیاں گزارنے کے لیے کشمیر کی تیاریاں کررہا ہوں۔ سوٹ سلوائے جارہے ہیں۔ بوٹ ڈبوں میں بند کیے جارہے ہیں۔ ہولڈرال اور ٹرنک کپڑوں سے پُر کیے جارہے ہیں۔ میں رات کی گاڑی سے جموں روانہ ہوتا ہوں۔ شمیم میرے ساتھ ہے۔ گاڑی کے ڈبے میں بیٹھ کر ہم عرصہ تک باتیں کرتے رہتے ہیں۔ گاڑی چلتی ہے۔ شمیم چلا جاتا ہے۔ میں سو جاتا ہوں۔ دماغ ہر قسم کے فکر سے آزاد ہے۔ صبح جموں کی اسٹیشن پر جاگتا ہوں۔ کشمیر کی حسین وادی کی ہونے والی سیر کے خیالات میں مگن لاری پر سوار ہوتا ہوں۔ بٹوت سے ایک میل کے فاصلے پر لاری کا پہیہ پنکچر ہو جاتا ہے۔ شام کا وقت ہے اس لیے رات بٹوت کے ہوٹل میں کاٹنی پڑتی ہے۔ اس ہوٹل کا کمرہ بے حد غلیظ معلوم ہوتا ہے مگر کیا معلوم تھا کہ مجھے وہاں پورے دو مہینے رہنا پڑے گا۔ صبح سویرے اُٹھتا ہُوں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاری کے انجن کا ایک پرزہ بھی خراب ہو گیا ہے۔ اس لیے مجبوراً ایک دن اور بٹوت میں ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ سُن کر میری طبیعت کس قدر افسردہ ہو گئی تھی! اس افسردگی کو دُور کرنے کے لیے میں۔ میں اس روز شام کو سیر کے لیے نکلتا ہوں۔ چیڑ کے درختوں کا تنفس، جنگلی پرندوں کی نغمہ سرائیاں سیب کے لدے ہُوئے درختوں کا حسن اور غروب ہوتے ہوئے سورج کا دلکش سماں، لاری والے کی بے احتیاطی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے والی تقدیر کی گستاخی کا رنج افزا خیال محو کردیتا ہے۔ میں نیچر کے مسرت افزا مناظر سے لطف اندوز ہوتا سڑک کے ایک موڑ پر پہنچتا ہوں۔ دفعتہً میری نگاہیں اس سے دو چار ہوتی ہیں۔ بیگو مجھ سے بیس قدم کے فاصلے پر اپنی بھینس کے ساتھ کھڑی ہے۔ جس داستان کا انجام اس وقت آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ وہ جوان تھی۔ اس کی جوانی پر بٹوت کی فضا پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک دراز قد بوٹا معلوم ہورہی تھی چہرے کے تانبے ایسے تاباں رنگ پر اس کی آنکھوں کی چمک نے ایک عجیب کیفیت پیدا کردی تھی۔ جو چشمے کے پانی کی طرف صاف اور شفاف تھیں۔ میں اس کو کتنا عرصہ دیکھتا رہا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے دفعتاً اپنا سینہ موسیقی سے لبریز پایا۔ اور پھرمیں مسکرا دیا۔ اس کی بہکی ہوئی نگاہوں کی توجہ بھنیس سے ہٹ کر میرے تبسم سے ٹکرائی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے ایک تیز تجسس سے میری طرف دیکھا۔ جیسے وہ کسی بھولے ہوئے خواب کو یاد کررہی ہے۔ پھر اس نے اپنی چھڑی کو دانتوں میں دبا کر کچھ سوچا اور مسکرا دی، اس کا سینہ چشمے کے پانی کی طرح دھڑک رہا تھا۔ میرا دل بھی میرے پہلو میں انگڑائیاں لے رہا تھا۔ اور یہ پہلی ملاقات کس قدر لذیذ تھی۔ اس کا ذائقہ ابھی میرے جسم کی ہر رگ میں موجود ہے۔ وہ چلی گئی۔ میں اس کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھتا رہا۔ وہ اس انداز سے چل رہی تھی جیسے کچھ یاد کررہی ہے۔ کچھ یاد کرتی ہے مگر پھر بھول جاتی ہے۔ اس نے جاتے ہوئے پانچ چھ مرتبہ میری طرف مڑ کر دیکھا۔ لیکن فوراً سر پھیر لیا۔ جب وہ اپنے گھرمیں داخل ہو گئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ میں اپنی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اس احساس نے مجھے سخت متحیر کیا۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔ کالج میں اپنے ہم جماعت طلبہ کی زبانی میں محبت کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ عشقیہ داستانیں بھی اکثر میرے زیرمطالعہ رہی تھیں۔ مگر محبت کے حقیقی معانی میری نظروں سے پوشیدہ تھے۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے ایک ناقابل بیان تلخی اپنے دل کی دھڑکنوں میں حل ہوتی ہوئی محسوس کی تو میں نے خیال کہ شاید اسی کا نام محبت ہے۔ یہ محبت ہی تھی۔ عورت سے محبت کرنے کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ہو جائے یعنی وہ اس سے شادی کرلے اور آرام سے اپنی بقایا زندگی گزار دے۔ شادی کے بعد یہ محبت کروٹ بدلتی ہے۔ پھر مرد اپنی محبوبہ کے کاندھوں پر ایک گھر تعمیر کرتا ہے۔ میں نے جب بیگو سے اپنے دل کو وابستہ ہوتے محسوس کیا تو فطری طور پر میرے دل میں اس رفیقہ حیات کا خیال پیدا ہوا جس کے متعلق میں اپنے کمرے کی چار دیواری میں کئی خواب دیکھ چکا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی میرے دل سے یہ صدا اٹھی۔

’’دیکھو سعید یہ لڑکی ہی تمہارے خوابوں کی پری ہے۔ ‘‘

چنانچہ میں تمام واقعے پر غور کرتا ہوا ہوٹل واپس آیا اور ایک ماہ کے لیے ہوٹل کا وہ کمرہ کرائے پر اٹھا لیا جو مجھے بے حد غلیظ محسوس ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہوٹل کا مالک میرے اس ارادے کو سن کر بہت متحیر ہوا تھا۔ اس لیے کہ میں صبح اس کی غلاظت پسندی پر ایک طویل لیکچر دے چکا تھا۔ داستان کتنی طویل ہوتی جارہی ہے۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ آپ اُسے غور سے سن رہے ہیں۔ ہاں ہاں آپ سگریٹ سلگا سکتے ہیں۔ میرے گلے میں آج کھانسی کے آثار محسوس نہیں ہوتے۔ آپ کی ڈبیا دیکھ کر میرے ذہن میں ایک اور واقعہ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ بیگو بھی سگریٹ پیا کرتی تھی میں نے کئی بار اسے گولڈ فلیک کی ڈبیاں لا کردی تھیں۔ وہ بڑے شوق سے ان کو منہ میں دبا کر دھوئیں کے بادل اڑایا کرتی تھیں۔ دُھواں۔ ! میں اس نیلے نیلے دُھوئیں کو اب بھی دیکھ رہا ہوں جو اس کے گیلے ہونٹوں پر رقص کیا کرتا تھا۔ ہاں تو دوسرے روز میں شام کو اسی وقت ادھر سیر کو گیا۔ جہاں مجھے وہ سڑک پر ملی تھی۔ دیر تک سڑک کے ایک کنارے پتھروں کی دیوار پر بیٹھا رہا مگر وہ نظر نہ آئی۔ اٹھا اور ٹہلتا ٹہلتا آگے نکل گیا۔ سڑک کے دائیں ہاتھ ڈھلوان تھی۔ جس پر چیڑ کے درخت اُگے ہُوئے تھے۔ بائیں ہاتھ بڑے بڑے پتھروں کے کٹے پھٹے سر اُبھر رہے تھے۔ ان پر جمی ہوئی مٹی کے ڈھیلوں میں گھاس اُگی ہوئی تھی۔ ہوا ٹھنڈی اور تیز تھی۔ چیڑ کے تاگانماپتوں کی سرسراہٹ کانوں کوبہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جب موڑ مڑا تو دفعتہً میری نگاہیں سامنے اُٹھیں مجھ سے سو قدم کے فاصلے پر وہ اپنی بھینس کو ایک سنگین حوض سے پانی پلا رہی تھی۔ میں قریب پہنچا مگر اس کو نظر بھر کے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اور آگے نکل گیا اور جب واپس مڑا تو وہ گھر جا چکی تھی۔ اب ہر روز اس طرف سیر کو جانا میرا معمول ہو گیا مگر بیس روز تک میں اس سے ملاقات نہ کرسکا۔ میں نے کئی بار باؤلی پر پانی پیتے وقت اس سے ہم کلام ہونے کا ارادہ کیا۔ مگر زبان گنگ ہو گئی۔ کچھ بول نہ سکا۔ قریباً ہر روز میں اس کو دیکھتا۔ مگررات کو جب میں تصور میں اس کی شکل دیکھنا چاہتا۔ تو ایک دھندسی چھا جاتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں اس کی شکل کو اس کے باوجود کہ اسے ہر روز دیکھتا تھا بھول جاتا تھا۔ بیس دنوں کے بعد ایک روز چار بجے کے قریب جب کہ میں ایک باؤلی کے اوپر چیڑ کے سائے میں لیٹا تھا۔ وہ خورد سال لڑکے کو لے کر اُوپر چڑھی۔ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا۔ دل میں یہی آئی کہ وہاں سے بھاگ جاؤں لیکن اس کی سکت بھی نہ رہی۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر آگے نکل گئی۔ چونکہ اس کے قدم تیز تھے۔ اس لیے لڑکا پیچھے رہ گیا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ دفعتہً لڑکے نے ایک چیخ ماری اور چشم زدن میں چیڑ کے خشک پتوں پر سے پھسل کر نیچے آرہا۔ میں فوراً اُٹھا اور بھاگ کر اسے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ چیخ سن کر وہ مڑی اور دوڑنے کے لیے بڑھے ہوئے قدم روک کر آہستہ آہستہ میری طرف آئی۔ اپنی جوان آنکھوں سے مجھے دیکھا اور لڑکے سے یہ کہا۔

’’خدا جانے تم کیوں گِرپڑتے ہو؟‘‘

میں نے گفتگو شروع کرنے کا ایک موقع پا کر اس سے کہا۔

’’بچہ ہے اس کی انگلی پکڑ لیجیے۔ ان پتوں نے خود مجھے کئی بار اوندھے منہ گرا دیا ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ کھکھلا کر ہنسی پڑی۔

’’آپ کے ہیٹ نے تو خوب لڑھکنیاں کھائی ہوں گی۔ ‘‘

’’آپ ہنستی کیوں ہیں؟ کسی کو گرتے دیکھ کر آپ کی طبیعت اتنی شاد کیوں ہوتی ہے اور جوکسی روز آپ گر پڑیں تو۔ وہ گھڑا جو ہر روز شام کے وقت آپ گھر لے جاتی ہے کس بری طرح زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میں نہیں گر سکتی۔ ‘‘

یہ کہتے ہُوئے اس نے دفعتہً نیچے باؤلی کی طرف دیکھا۔ اس کی بھینس نالے پر بندھے ہوئے پل کی طرف خراماں خراماں جارہی تھی یہ دیکھ کر اس نے اپنے حلق سے ایک عجیب قسم کی آواز نکالی۔ اس کی گونج ابھی تک میرے کانوں میں محفوظ ہے۔ کس قدر جوان تھی یہ آواز۔ اس نے بڑھ کر لڑکے کو کاندھے پر اُٹھا لیا۔ اور بھینس کو

’’اے چھلاں، اے چھلاں‘‘

کے نام سے پکارتی ہوئی چشم زدن میں نیچے اتر گئی۔ بھینس کو واپس موڑ کر اس نے میری طرف دیکھا اور گھر کو چل دی۔ اس ملاقات کے بعد اس سے ہم کلام ہونے کی جھجھک دُور ہو گئی۔ ہر روز شام کے وقت باؤلی پر یا چیڑ کے درختوں تلے میں اس سے کوئی نہ کوئی بات شروع کردیتا۔ شروع شروع میں ہماری گفتگو کا موضوع بھینس تھا۔ پھرمیں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا اور اس نے میرا۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ اصل مطلب کی طرف آگیا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جب وہ نالے میں ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھی اپنے کپڑے دھو رہی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ مجھے کسی خاص بات کا اظہار کرنے پر تیار دیکھ کر اس نے جنگلی بلی کی طرح میری طرف گھور کر دیکھا۔ اور زور زور سے اپنی شلوار کو پتھر پر جھٹکتے ہوئے کہا۔

’’آپ کشمیر کب جارہے ہیں۔ یہاں بٹوت میں کیا دھرا ہے جو آپ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ‘‘

یہ سُن کر میں نے مستفسرانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ گویا میں اس کے سوال کا جواب خود اس کی زبان سے چاہتا ہُوں۔ اس نے نگاہیں نیچی کرلیں اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’آپ سیر کرنے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے سُنا ہے کشمیر میں بہت سے باغ ہیں۔ آپ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘

موقع اچھا تھا۔ چنانچہ میں نے دل کے تمام دروازے کھول دیئے۔ وہ میرے جذبات کے بہتے ہوئے دھارے کا شور خاموشی سے سُنتی رہی۔ میری آواز نالے کے پانی کی گنگناہٹ میں جو ننھے ننھے سنگریزوں سے کھیلتا ہوا بہہ رہا تھا ڈوب ڈوب کر اُبھر رہی تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر اخروٹ کے گھنے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ہوا اس قدر تروتازہ اور لطیف تھی کہ اس کا ہر جھونکا بدن پر ایک خوشگوار کپکپی طاری کردیتا تھا۔ میں اس سے پورا ایک گھنٹہ گفتگو کرتا رہا اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کا خواہشمند ہوں یہ سُن کروہ بالکل متحیر نہ ہوئی۔ لیکن اس کی نگاہیں جو دُور پہاڑیوں کی سیاہی اور آسمان کی نیلاہٹ کو آپس میں ملتا ہوا دیکھ رہی تھیں اس بات کی مظہر تھیں کہ وہ کسی گہرے خیال میں مستغرق ہے۔ کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد اس نے میرے اصرار پر صرف اتنا جواب دیا۔

’’اچھا آپ کشمیر نہ جائیں۔ ‘‘

یہ جواب اختصار کے باوجود حوصلہ افزا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ہم دونوں بے تکلف ہو گئے۔ اب پہلا سا حجاب نہ رہا۔ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔ ایک روز میں نے اس سے نشانی کے طور پر کچھ مانگا تو اس نے بڑے بھولے انداز میں اپنے سر کے کلپ اتار کر میری ہتھیلی پر رکھ دیئے اور مسکرا کر کہا۔

’’میرے پاس یہی کچھ ہے۔ ‘‘

یہ کلپ میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔ خیر کچھ دنوں کی طول طویل گفتگوؤں کے بعد میں نے اس کی زبان سے کہلوا لیا کہ وہ مجھ سے شادی کرنے پر رضا مند ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس روز شام کو اس نے اپنے گھڑے کو سر پر سنبھالتے ہُوئے اپنی رضا مندی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ

’’ہاں میں چاہتی ہوں۔ ‘‘

تو میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہوٹل کو واپس آتے ہوئے میں کچھ گایا بھی تھا۔ اس پُر مسرت شام کے چوتھے روز جب کہ میں آنے والی ساعتِ سعید کے خواب دیکھ رہا تھا۔ یکا یک اس مکان کی تمام دیواریں گرپڑیں جن کو میں نے بڑے پیار سے استوار کیا تھا۔ بستر میں پڑا تھا کہ صبح سیالکوٹ کے ایک صاحب جو بغرض تبدیلی آب و ہوا بٹوت میں قیام پذیر تھے۔ اور ایک حد تک بیگو سے میری محبت کو جانتے تھے۔ میری۔ چارپائی پر بیٹھ گئے اور نہایت ہی مفکرانہ لہجہ میں کہنے لگے۔

’’وزیر بیگم سے آپ کی ملاقاتوں کا ذکر آج بٹوت کے ہر بچے کی زبان پر ہے۔ میں وزیر بیگم کے کیریکٹر سے ایک حد تک واقف تھا۔ اس لیے کہ سیالکوٹ میں اس لڑکی کے متعلق بہت کچھ سُن چکا ہوں۔ مگر یہاں بٹوت میں اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے یہاں کا قصائی اس کے متعلق ایک طویل حکایت سُنا رہا تھا۔ پرسوں پان والا آپ سے ہمدردی کا اظہار کررہا تھا کہ آپ عصمت باختہ لڑکی کے دام میں پھنس گئے ہیں۔ کل شام کو ایک اور صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ ٹوٹی ہوئی ہنڈیا خرید رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ بعض لوگ ا س سے آپ کی گفتگو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ جب سے۔ آپ بٹوت میں آئے ہیں وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ میں نے آپ سے حقیقت کا اظہار کردیا ہے۔ اب آپ بہتر سوچ سکتے ہیں۔ عصمت باختہ لڑکی، ٹُوٹی ہوئی ہنڈیا، لوگ اس سے میری گفتگو کو پسند نہیں کرتے، مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آتا تھا۔ بیگو اور۔ اس کا خیال ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب دوسرے روز مجھے ہوٹل والے نے نہایت ہی راز دارانہ لہجے میں چند باتیں کہیں تو میری آنکھوں کے سامنے تاریک دُھند سی چھا گئی۔

’’بابو جی، آپ بٹوت میں سیر کے لیے آئے ہیں مگر دیکھتا ہوں کہ آپ یہاں کی ایک حسن فروش لڑکی کی محبت میں گرفتار ہیں اس کا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے۔ میرا اس لڑکی کے گھر آنا جانا ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس کو کچھ کپڑے بھی خرید دیئے ہیں۔ آپ نے یقیناًاور بھی کئی روپے خرچ کیے ہونگے معاف کیجیے مگر یہ سراسر حماقت ہے۔ میں آپ سے یہ باتیں ہرگز نہ کرتا کیونکہ یہاں بیسیوں عیش پسند مسافر آتے ہیں مگر آپکا دل ان سیاہیوں سے پاک نظر آتا ہے۔ آپ بٹوت سے چلے جائیں اس قماش کی لڑکی سے گفتگو کرنا اپنی عزت خطرے میں ڈالنا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ ان باتوں نے مجھے بے حد افسردہ بنا دیا تھا وہ مجھ سے سگریٹ، مٹھائی اور اسی قسم کی دوسری معمولی اشیا طلب کیا کرتی تھی اور میں بڑے شوق اور محبت سے اس کی یہ خواہش پوری کیا کرتا تھا۔ اس میں ایک خاص لطف تھا۔ مگراب ہوٹل والے کی بات نے میرے ذہن میں مہیب خیالات کا ایک تلاطم برپا کردیا۔ گزشتہ ملاقاتوں کے جتنے نقوش میرے دل و دماغ میں محفوظ تھے اور جنھیں میں ہرروز بڑے پیار سے اپنے تصور میں لا کر ایک خاص قسم کی مٹھاس محسوس کیا کرتا تھا دفعتہً تاریک شکل اختیار کرگئے مجھے اس کے نام ہی سے عفونت آنے لگی۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ میرا دل جو ایک کالج کے طالب علم کے سینے میں دھڑکتا تھا، اپنے خوابوں کی یہ بُری اور بھیانک تعمیر دیکھ کرچلا اٹھا۔ اس کی باتیں جو کچھ عرصہ پہلے بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں ریا کاری میں ڈُوبی ہوئی معلوم ہونے لگیں۔ میں نے گزشتہ واقعات، بیگو کی نقل و حرکت، اس کی جنبش اور اپنے گردوپیش کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر عمیق مطالعہ کیا تو تمام چیزیں روشن ہو گئیں، اس کا ہرشام کو ایک مریض کے ہاں دودھ لیکر جانا اور وہاں ایک عرصہ تک بیٹھی رہنا۔ باؤلی پر ہرکس و ناکس سے بیباکانہ گفتگو، دوپٹے کے بغیر ایک پتھر سے دوسرے پر اچھل کود، اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں زیادہ شوخ اور آزاد روی۔ وہ یقیناًعصمت باختہ لڑکی ہے۔ ‘‘

میں نے یہ رائے مرتب تو کرلی۔ مگر آنسوؤں سے میری آنکھیں گیلی ہو گئیں۔ خوب رویا مگر دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک بار آخری بار اس سے ملوں اوراس کے منہ پر اپنے تمام غصے کو تھوک دُوں یہی صورت تھی جس سے مجھے کچھ سکون حاصل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میں شام کوباؤلی کی طرف گیا۔ وہ پگڈنڈی پر انار کی جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی۔ اس کو دیکھ کر میرا دل کسی قدر کڑھا۔ میرا حلق اس روز کی تلخی کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اس کے قریب پہنچا اور پاس ہی ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ چھلاں اس کی بھینس اور اس کا بچھڑا چند گزوں کے فاصلے پر بیٹھے جگالی کررہے تھے۔ میں گفتگو کا آغاز کرنا چاہا مگر کچھ نہ کہہ سکا۔ غصے اور افسردگی نے میری زبان پر قفل لگا دیا تھا مجھے خاموش دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی، جیسے چشمے کے پانی میں کسی نے اپنے مٹی بھرے ہاتھ دھو دیئے ہیں۔ پھر وہ مسکرائی، یہ مسکراہٹ مجھے کسی قدرمصنوعی اور پھیکی معلوم ہُوئی۔ میں نے سر جھکا لیا اور سگریزوں سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ شاید میرارنگ زرد پڑ گیا تھا۔ اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا

’’آپ بیمار ہیں؟‘‘

اس کا یہ کہنا تھا کہ میں برس پڑا

’’ہاں بیمار ہوں، اور یہ بیماری تمہاری دی ہُوئی ہے، تمہیں نے یہ روگ لگایا ہے بیگو! میں تمہارے چال چلن کی سب کہانی سُن چکا ہوں اور تمہارے سارے حالات سے باخبر ہوں۔ ‘‘

میری چبھتی ہُوئی باتیں سُن کر اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر وہ بھونچکا سی رہ گئی اور کہنے لگی۔

’’اچھا تو میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ آپ کو میرے چال چلن کے متعلق سب کچھ معلوم ہو چکا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آپ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ ‘‘

میں چلایا۔

’’گویا تم کو معلوم ہی نہیں۔ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تو اپنی سیہ کاریوں کا سارا نقشہ تمہاری آنکھوں تلے گھوم جائے گا۔ ‘‘

میں طیش میں آگیا۔ کتنی بھولی بنتی ہو۔ جیسے کچھ جانتی ہی نہیں۔ پروں پر پانی پڑنے ہی نہیں دیتیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں بھلا تم کیا سمجھو جاؤ جاؤ بیگو، تم نے مجھے سخت دُکھ پہنچایا ہے۔ یہ کہتے کہتے میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ وہ بھی سخت مضطرب ہو گئی اور جل کر بول اٹھی۔

’’آخر میں بھی تو سنوں کہ آپ نے میرے بارے میں کیا کیا سُنا ہے۔ پر آپ تو رو رہے ہیں۔

’’ہاں۔ رو رہا ہُوں۔ اس لیے کہ تمہارے افعال ہی اتنے سیاہ ہیں کہ ان پر ماتم کیا جائے۔ تم پاکبازوں کی قدر کیا جانو۔ اپنا جسم بیچنے والی لڑکی محبت کیا جانے۔ تم صرف اتنا جانتی ہو کہ کوئی مرد آئے اور تمہیں اپنی چھاتی سے بھینچ کر چومنا چاٹنا شروع کردے اور جب سیر ہو جائے تو اپنی راہ لے۔ کیا یہی تمہاری زندگی ہے۔ ‘‘

میں غصے کی شدت سے دیوانہ ہو گیا تھا جب اس نے میری زبان سے اس قسم کے سخت کلمات سنے تو اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کی نظر میں یہ سب گفتگو ایک معمہ ہے۔ اس وقت طیش کی حالت میں میں نے اس کی حالت کو نمائشی خیال کیا اور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ! میری نظروں سے دُور ہو جاؤ۔ تم ناپاک ہو۔ ‘‘

یہ سُن کر اس نے ڈری ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’آپ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘

مجھے کیا ہو گیا۔ کیا ہو گیا ہے۔

’’میں پھر برس پڑا۔ ‘‘

اپنی زندگی کی سیاہ کاریوں پر نظر دوڑاؤ۔ تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ تم میری بات اس لیے نہیں سمجھتی ہو کہ میں تم سے شادی کرنے کا خواہشمند تھا۔ اس لیے کہ میرے سینے میں شہوانی خیالات نہیں، اس لیے کہ میں تم سے صرف محبت کرتا ہُوں۔ جاؤ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ ‘‘

جب میں بول چکا۔ تو اس نے تھوک نگل کر اپنے حلق کو صاف کیا اور تھرتھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ شاید آپ یہ خیال کرتے ہونگے کہ جان بوجھ کر انجان بن رہی ہوں۔ مگر سچ جانیے مجھے کچھ معلوم نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام آپ سڑک پر سے گزر رہے تھے آپ نے میری طرف دیکھا تھا اور مسکرا دیئے تھے۔ یہاں بیسیوں لوگ ہم لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور مسکرا کر چلے جاتے ہیں۔ پھر آپ متواتر باؤلی کی طرف آتے رہے۔ مجھے معلوم تھا آپ میرے لیے آتے ہیں مگر اسی قسم کے کئی واقعے میرے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ایک روز آپ نے میرے ساتھ باتیں کیں اور اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ آپ نے شادی کے لیے کہا میں۔ مان گئی۔، مگر اسی سے پہلے اس قسم کی کئی درخواستیں سُن چکی ہوں۔ جو مرد بھی مجھ سے ملتا ہے دوسرے تیسرے روز میرے کان میں کہتا ہے۔

’’بیگو دیکھ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں۔ رات دن تو ہی میرے دل و دماغ میں بستی رہتی ہے۔ آپ نے بھی مجھ سے یہی کہا۔ اب بتائیے محبت کیا چیز ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ آپ نے دل میں کیا چھپا رکھا ہے۔ یہاں آپ جیسے کئی لوگ ہیں جو مجھ سے یہی کہتے ہیں۔ ‘‘

بیگو تمہاری آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں جی چاہتا ہے کہ صدقے ہو جاؤں۔ تمہارے ہونٹ کس قدر پیارے ہیں جی چاہتا ہے ان کو چوم لُوں۔ وہ مجھے چومتے رہے ہیں کیا یہ محبت نہیں ہے؟ کئی بار میرے دل میں خیال آیا ہے کہ محبت کچھ اور ہی چیز ہے مگر میں پڑھی لکھی نہیں، اس لیے مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے۔ میں نے قاعدہ پڑھنا شروع کیا مگر چھوڑ دیا۔ اگرمیں پڑھوں تو پھر چھلاں اور اس کے بچھڑے کا پیٹ کون بھرے آپ اخبار پڑھ لیتے ہیں اس لیے آپکی باتیں بڑی ہوتی ہیں۔ میں کچھ نہیں سمجھ سکتی چھوڑیئے اس قصے کو آئیے کچھ اورباتیں کریں مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہُوئی ہے۔ میری ماں کہہ رہی تھیں کہ بیگو تو ہیٹ والے بابو کے پیچھے دیوانی ہو گئی ہے۔ ‘‘

میری نظروں کے سامنے سے وہ تاریک پردہ اٹھنے لگا تھا جو اس انجام کا باعث تھا۔ مگر دفعتہً میرے جوش اور غصے نے پھر اسے گرا دیا۔ بیگو کی گفتگو بے حد سادہ اور معصومیت سے پُر تھی مگر مجھے اس کا ہر لفظ بناوٹ میں لپٹا نظر آیا۔ میں ایک لمحہ بھی اس کی اہمیت پر غور نہ کیا۔

’’بیگو، میں بچہ نہیں ہُوں کہ تم مجھے چکنی چیڑی باتوں سے بیوقوف بنالوگی‘‘

میں نے غصہ میں اس سے کہا۔

’’یہ فریب کسی اور کو دینا۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تم نے ابھی ابھی اپنی زبان سے اس بات کا اعتراف کیا ہے اب میں کیا کہوں۔ ‘‘

’’نہیں نہیں کہیے!‘‘

اُس نے کہا۔

’’کئی لوگ تمہارے منہ کو چومتے رہے ہیں۔ تمہیں شرم آنی چاہیے!‘‘

’’ہاں آپ تو سمجھتے ہی نہیں۔ اب میں کیا جھوٹ بولتی ہُوں۔ میں خود تھوڑا ہی ان کے پاس جاتی ہوں اور منہ بڑھا کر چومنے کو کہتی ہُوں۔ اگر آپ اس روز میرے بالوں کو چومنا چاہتے جبکہ آپ ان کی تعریف کررہے تھے، تو کیا میں انکار کردیتی! میں کس طرح انکار کرسکتی ہوں مجھے چھلاں بہت پیاری لگتی ہے اور میں ہر روز اس کو چومتی ہوں اس میں کیا ہرج ہے میں چاہتی ہوں کہ لوگ میرے بالوں، میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کی تعریف کریں اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے خبر نہیں کیوں؟ میں صبح سویرے اُٹھتی ہُوں اور چھلاں کو لے کر گھاس چرانے کے لیے باہر چلی جاتی ہوں، دوپہر کوروٹی کھا کر پھر گھر سے نکل آتی ہوں۔ شام کو پانی بھرتی ہُوں۔ ہر روز میرا یہی کام ہے، مجھے یاد ہے کہ آپ نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھاکہ میں پانی بھرنے نہ آیا کروں۔ بھینس نہ چرایا کروں۔ شاید آپ اسی وجہ سے ناراض ہورہے ہیں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ میں گھر پر رہوں تو پھر آپ ملاقات کیونکر کرسکیں گے؟ میں نے سُنا ہے کہ پنجاب میں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں مگر ہم پہاڑی لوگ ہیں ہمارا یہی کام ہے۔

’’تمہارا یہی کام ہے کہ ہر رہگذر سے لپٹنا شروع کردو۔ تم پہاڑی لوگوں کے چلن مجھ سے چھپے ہوئے نہیں، یہ تقریر کسی اور کو سُنانا۔ گھر پر رہو یا باہر رہو۔ اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان پہاڑیوں میں رہ کر جو سبق تم نے سیکھا ہے وہ مجھے پڑھانے کی کوشش نہ کرو‘‘

’’آپ بہت تیز ہو جاتے جارہے ہیں بہت چل نکلے ہیں۔ ‘‘

اس نے قدرے بگڑ کر کہا۔ معلوم ہوتا ہے لوگوں نے آپ کے بہت کان بھرے ہیں۔ مجھے بھی تو پتہ لگے کہ وہ کون

’’مرن جوگے‘‘

ہیں جو میرے متعلق آپ کو ایسی باتیں سناتے رہے ہیں۔ آپ خواہ مخواہ اتنے گرم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں مردوں کے ساتھ باتیں کرتی ہوں ملتی ہوں مگر۔ یہ کہتے ہوئے اس کے گال سرخ ہو گئے۔ مگر میں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بُری لڑکی ہوں یہ غلط ہے۔ میں پگلی ہوں۔ سچ مچ پگلی ہوں۔ کل آپکے چلے جانے کے بعد میں پتھر پر بیٹھ کر دیر تک روتی رہی۔ جانے کیوں۔ ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ میں گھنٹوں رویا کرتی ہُوں۔ آپ ہنسیں گے مگر اس وقت بھی میرا جی چاہتا ہے کہ یہاں سے اُٹھ بھاگوں اور اس پہاڑی کی چوٹی پر بھاگتی ہوئی چڑھ جاؤں اور پھر کودتی پھاندتی نیچے اُتر جاؤں۔ میرے دل میں ہر وقت ایک بے چینی سی رہتی ہے۔ بھینس چراتی ہوں پانی بھرتی ہوں۔ لکڑیاں کاٹتی ہوں۔ لیکن یہ سب کام میں اوپرے دل سے کرتی ہوں۔ میرا جی کسی کو ڈھونڈتا ہے۔ معلوم نہیں کس کو۔ میں دیوانی ہوں۔ ‘‘

بیگو کی یہ عجیب و غریب باتیں جو درحقیقت اس کی زندگی کا ایک نہایت اُلجھا ہوا باب تھیں اور جسے بغور مطالعہ کرنے کے بعد سب راز حل ہو سکتے تھے اس وقت مجھے کسی مجرم کا غیر مربوط بیان معلوم ہُوئیں، بیگو اور میرے درمیان اس قدر تاریک اور موٹا پردہ حائل ہو گیا تھا کہ حقیقت کی نقاب کشائی بہت مشکل تھی۔

’’تم دیوانی ہو۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’کیا مردوں کے ساتھ بیٹھ کر جھاڑیوں کے پیچھے پہروں باتیں کرتے رہنا بھی اس دیوانگی ہی کی ایک شاخ ہے؟۔ بیگو، تم پگلی ہو مگر اپنے کام میں آٹھوں گانٹھ ہوشیار!‘‘

’’میں باتیں کرتی ہُوں، ان سے ملتی ہُوں، میں نے اس سے کب انکار کیا ہے ابھی ابھی میں نے آپ سے اپنے دل کی سچی بات کہی تو آپ نے مذاق اُڑانا شروع کردیا اب اگرمیں کچھ اور کہوں تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ آپ کبھی مانیں گے ہی نہیں۔ ‘‘

’’نہیں، نہیں، کہو، کیا کہتی ہو، تمہارا نیا فلسفہ بھی سن لوں۔ ‘‘

’’سُنیے پھر‘‘

یہ کہہ کر اس نے تھکی ہوئی ہرنی کی طرح میری طرف دیکھا اور آہ بھر کربولی۔

’’یہ باتیں جو میں آج آپ کو سُنانے لگی ہوں میری زبان سے پہلے کبھی نہیں نکلیں میں یہ آپ کو بھی نہ سُناتی۔ مگر مجبوری ہے۔ آپ عجیب و غریب آدمی ہیں۔ میں بہت سے لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ مگر آپ بالکل نرالے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے آپ سے۔

’’وہ ہچکچائی۔ ‘‘

ہاں آپ سے پیار ہو گیا ہے۔ آپ نے کبھی مجھ سے غیر بات نہیں کہی۔ حالانکہ میں جس سے ملتی رہی ہُوں وہ مجھ سے کچھ اور ہی کہتا تھا۔ میری اماں جانتی ہے کہ میں گھر میں ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی رہتی ہوں میرا منہ تھکتا ہی نہیں۔ آپ نے نہیں کہا۔ پر میں نے گاہکوں کے پاس دُودھ لے جانا چھوڑ دیا۔ لوگوں سے باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ پانی بھرنے کے لیے بھی زیادہ چھوٹی بہن ہی کو بھیجتی رہی ہُوں۔ آپ کے آنے سے پہلے میں لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ان سے کیوں ملتی تھی۔ مجھے کوئی مرد بھی بلاتا تو میں اسی سے باتیں کرنے لگتی تھی۔ اس لیے۔ نہیں نہیں میں نہیں بتاؤں گی۔ میرا دل جو چاہتا تھا وہ ان لوگوں کے پاس نہیں تھا، میں بُری نہیں، اللہ کی قسم، بے گناہ ہُوں، خدا معلوم لوگ مجھے بُرا کیوں کہتے ہیں۔ آپ بھی مجھے بُرا کہتے ہیں جس طرح آپ نے آج میرے منہ پر اتنی گالیاں دی ہیں اگر آپ کے بجائے کوئی اور ہوتا تو میں اس کا منہ نوچ لیتی مگر آپ۔ اب میں کیا کہوں، میں بہت بدل گئی ہوں، آپ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میں خیال کرتی تھی کہ آپ مجھے کچھ سکھائیں گے مجھے اچھی اچھی باتیں بتائیں گے۔ لیکن آپ مجھ سے خواہ مخواہ لڑ رہے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتی ہُوں۔ میں نے آپ کے سامنے کبھی گالی نہیں دی۔ حالانکہ ہمارے گھر سارا دن گالی گلوچ ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ڈاکٹر صاحب! اس پہاڑی لڑکی کی گفتگو کس قدر سادہ تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس وقت میرے کانوں میں روئی ٹھنسی ہُوئی تھی۔ اس کے ہر لفظ سے مجھے عصمت فروشی کی بو آرہی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔

’’بیگو! تم ہزار قسمیں کھاؤ۔ مگر مجھے یقین نہیں آتا۔ اب جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ میں کل بٹوت چھوڑ کر جا رہا ہوں میں نے تم سے محبت کی، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ تم نے میرے دل کو بہت دُکھ دیا ہے۔ خیر اب جاتا ہوں، مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ ‘‘

مجھے جاتا دیکھ کر وہ سخت مضطرب ہو گئی اور میرا بازو پکڑ کر اور پھر اسے فوراً ڈرتے ہوئے چھوڑ کرتھرائی ہُوئی آواز میں صرف اس قدر کہا۔

’’آپ جارہے ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا

’’ہاں جارہا ہوں تاکہ تمہارے چاہنے والوں کے لیے میدان صاف ہو جائے‘‘

آپ نہ جائیے، اللہ کی قسم میرا کوئی چاہنے والا نہیں۔

’’یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھیں نمناک ہو گئیں نہ جانئے، نہ جائیے نہ۔ ‘‘

آخری الفاظ اس کی گلوگیر آواز میں دب گئے۔ اس کا رونا میرے دل پر کچھ اثر نہ کرسکا۔ میں چل پڑا۔ مگر اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور روتی ہوئی آواز میں کہا۔

’’آپ خفا کیوں ہو گئے ہیں۔ میں آئندہ کسی آدمی سے بات نہ کرونگی۔ اگر آپ نے مجھے کسی مرد کے ساتھ دیکھا تو آپ اس چھڑی سے جتنا چاہیے پیٹ لیجیے گا۔ آئیے گھر چلیں۔ میں آپ کے لیے حقہ تازہ کرکے لاؤں گی۔ ‘‘

میں خاموش رہا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر پھر چل پڑا۔ اسوقت بیگو سے ایک منٹ کی گفتگو کرنا بھی مجھے گراں گزر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی میری نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے میں نے بمشکل دو گز کا فاصلے طے ہو گا کہ وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کے بال پریشان تھے آنکھوں کے ڈورے سرخ اور ابھرے ہوئے تھے سینہ آہستہ آہستہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے پوچھا۔

’’کیا آپ واقعی جارہے ہیں؟‘‘

میں نے تیزی سے جواب دیا۔

’’تو اور کیا جھوٹ بک رہا ہوں۔ ‘‘

’’جائیے۔ ‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور گال آنسوؤں کی وجہ سے میلے ہورہے تھے مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک ناچ رہی تھی۔

’’جائیے‘‘

یہ کہہ کر وہ اُلٹے پاؤں مڑی۔ اس کا قد پہلے سے لمبا ہو گیا تھا۔ میں نے نیچے اُترنا شروع کردیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے جھاڑیوں کے پیچھے سے رونے کی آواز سنی۔ وہ رو رہی تھی۔ وہ تھرائی ہوئی آواز ابھی تک میرے کانوں میں آرہی ہے۔ یہ ہے میری داستان ڈاکٹر صاحب، میں نے اس پہاڑی لڑکی کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ اس غلطی کا احساس مجھے پورے دو سال بعد ہُوا۔ جب میرے ایک دوست نے مجھے یہ بتایا کہ بیگو نے میرے جانے کے بعد اپنے شباب کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا اور دق کے مریضوں سے ملنے کی وجہ سے وہ خود اس کا شکار ہو گئی۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس مرض نے بالآخر اسے قبر کی گود میں سُلا دیا۔ اس کی موت کا باعث میرے سوا اور کون ہو سکتا ہے وہ زندگی کی شاہراہ پر اپنا راستہ تلاش کرتی تھی مگر میں اسکو بھول بھلیوں میں چھوڑ کر بھاگ آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھٹک گئی میں مجرم تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے لیے وہی موت تجویز کی جس سے وہ دوچار ہوئی۔ وہ وزن جو میں پانچ سال اپنی چھاتی پر اٹھائے پھرتا رہا ہوں، خدا کا شکر ہے کہ اب ہلکا ہو گیا ہے۔ میں مریض کی داستان خاموشی سے سنتا رہا۔ وہ بول چکا تو پھر بھی خاموش رہا میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے جذبات پررائے زنی کروں۔ چنانچہ وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ مجھے کئی مریضوں کی داستانیں سننے کا اتفاق ہوا ہے مگر یہ نہایت عجیب و غریب اور پر اثر۔ داستان تھی گو مریض بیماری کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ اس نے اپنے طویل بیان کو کس طرح جاری رکھا۔ صبح کے وقت میں اس کا ٹمپریچر دیکھنے کے لیے آیا۔ مگر وہ مر چکا تھا۔ سفید چادر اوڑھے وہ بڑے سکون سے سو رہا تھا۔ جب اس کو غسل دینے لگے تو ہسپتال کے ایک نوکر نے مجھے بُلایا۔

’’ڈاکٹر صاحب اس کی مٹھی میں کچھ ہے‘‘

میں نے اس کی بند مٹھی کو آدھا کھول کر دیکھا، لوہے کے دو کلپ تھے۔ اس کی بیگو کی یادگار!

’’ان کو نکالنا نہیں، یہ اس کے ساتھ ہی دفن ہوں گے۔ میں نے غسل دینے والوں سے کہا اور دل میں غم کی ایک عجیب و غریب کیفیت لیے دفتر چلا گیا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بی زمانی بیگم

زمین شق ہورہی ہے۔ آسمان کانپ رہا ہے۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہے۔ آگ کے شعلوں میں دنیا ابل رہی ہے۔ زلزلے پر زلزلے آرہے ہیں۔ یہ کیا ہورہا ہے؟

’’تمہیں معلوم نہیں؟‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’لو سنو۔ دنیا بھر کو معلوم ہے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’وہی زمانی بیگم۔ وہ موٹی چڈر۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، کیا ہوا اسے!‘‘

’’وہی جو ہوتا ہے لیکن اس عمرمیں شرم نہیں آئی بدبخت کو۔ ‘‘

’’یہ بدبخت زمانی بیگم ہے کون؟‘‘

’’ہائیں وہی اسکندر کی ہوتی سوتی۔ موئی نکھیائی چنگیز کے پاس رہی۔ ہلاکو کی داشتہ بنی۔ کچھ دن اس لنگڑے تیمور کے ساتھ منہ کالا کرتی رہی۔ وہاں سے نکلی تو نپولین کی بغل میں جاگھسی۔ اب یہ موا ہٹلر باقی رہ گیا تھا۔ ‘‘

’’تو کیا اب ہٹلر کے گھر ہے؟‘‘

’’ہوا گھر گھاٹ کیسا۔ نباہ ہو سکتا ہے کبھی ایسی عورت کا۔ ‘‘

’’طلاق ہو گئی ہے کیا؟‘‘

’’تم کیسی باتیں کرتی ہو بُوا۔ طلاق تو وہاں ہو جو سہرے جلوؤں کی بیاہی ہو اور پھر ایسے مردوں کا کیا اعتبار ہے۔ دو دن مزے کیے اور چلو چھٹی۔ ‘‘

’’تو اب ہو کیا رہا ہے۔ یہ فضیحتہ کس بات کا۔ ‘‘

’’فضیحتہ کیا ہے پورے دنوں سے ہے۔ بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ ‘‘

’’تو ہو کیوں نہیں چکتا۔ ‘‘

’’ہاں سچ تو یہ کوئی پلوٹھی کا تو ہے نہیں۔ ‘‘

’’ڈاکٹر آرہے ہیں۔ دیکھو آج نہ کل ہو جائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر آتے رہے۔ لیکن بی زمانی کے بچہ پیدا نہ ہوا۔ درد و کرب کی لہروں میں اضافہ ہو گیا۔ زلزلے اور زیادہ زور سے آنے لگے۔ شعلوں کی زبانیں اور زیادہ تیز ہو گئیں۔ ڈاکٹروں نے کانفرنس کی۔ حکمت کی ساری کتابیں چھانی گئیں۔ طے ہوا کہ حاملہ کو طہران لے جائیں۔ وہاں روس کے ماہر ڈاکٹرکو بلایا جائے اور اس سے مشورہ کیا جائے۔ طہران میں خاص طور پر جلدی جلدی ایک میٹرنٹی ہوم تیار کیا گیا۔ بی زمانی بیگم درد سے تڑپتی رہی اور دنیا کے تین بڑے ڈاکٹر مشورہ کرتے رہے۔ ایک بولا۔

’’صاحبان اس میں کوئی شک نہیں کہ ہونے والا بچہ ہمارا نہیں لیکن انسانیت کے نام پر ہمیں مریضہ کو اس مشکل سے نجات دلانا ہی پڑے گی۔ ‘‘

دوسرا بولا۔

’’ہم تین بڑے ڈاکٹر تین قسم کے طریقہ علاج کے ماہر ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک طریقہ علاج پر متفق ہوں۔ اگر ایسا ہو گیا تو بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔ ‘‘

تیسرا بولا۔

’’بالکل درست ہے۔ آئیے ہم فوراً یہ نیک کام شروع کردیں۔ ‘‘

تینوں طریقے ملا کر ایک اور طریقہ بنایا گیا۔ جس پر تینوں بڑے ڈاکٹر متفق ہو گئے۔ دنیا کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ مگر بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا نہ ہوا۔

’’یہ کیا ہورہا ہے۔ بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا ابھی تک۔ ‘‘

’’بچہ تو پیدا ہورہا تھا مگر اسے روک دیا گیا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ڈاکٹر سوچ رہے ہیں کہ اسے گود کون لے گا۔ ‘‘

’’ہوں!‘‘

’’تو فیصلہ کیا ہوا؟‘‘

’’تم کیسی باتیں کرتی ہو بُوا۔ ایسے معاملوں کا اتنی جلدی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ خیر چھوڑو اس قصے کو۔ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ جس کے ہاں اولاد نہیں وہ غریب گود لے لے گا۔ اولاد ہر ایک کے تھی۔ کسی کے ہاں چار بچے تھے۔ کسی کے ہاں پانچ اور کسی کے ہاں سات۔ اب فیصلہ کیسے ہو۔ ایک اور کانفرنس ہوئی۔ ڈمبارٹن اوکس میں ایک اور میٹرنٹی ہوم افراتفری میں بنایا گیا۔ تینوں بڑے ڈاکٹر وہاں جمع ہوئے۔ ہر ایک نے سوچا۔ ہر ایک نے معاملہ کی اہمیت سمجھنے کی کوشش کی۔ اور بی زمانی بیگم بستر پر پڑی درد سے کراہتی رہی۔ ایک بولا۔

’’صاحبان۔ ہم صاحب اولاد ہیں۔ اس بچے کے وجود کے ہم ذمہ دار نہیں۔ لیکن انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی پیدائش میں ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔ آخر اس میں ہونے والے بچے کا کیا قصور ہے۔ ‘‘

دوسرا۔

’’ہم ڈاکٹر ہیں۔ ہمارا مذہب دوا ہے۔ ہم چاہیں تو اس ہونے والے ناخلف بچے ہی کو جس سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں۔ ایک فرمانبردار۔ اطاعت شعار۔ آزادی پسند اور انسانیت دوست نوجوان بنا سکتے ہیں۔ ‘‘

تیسرا بولا۔ ’بالکل درست ہے۔ اس بچے کی پیدائش سے دنیا کا ایک بہت بڑا بوجھ دور ہو جائے گا۔ ہم ڈاکٹر ہیں۔ اپنے فرض سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ‘‘

طے ہو گیا۔ ایک دستاویز پر انگوٹھے لگا دیے گئے کہ ہونے والے بچے کو یہ تینوں ڈاکٹر گود لیں گے۔ تینوں ملکر اس کی پرورش کریں گے۔ لیکن بی زمانی بیگم کی تکلیف پھر بھی رفع نہ ہوئی۔ وہ پڑی درد سے کراہتی رہی۔

’’آخر یہ مصیبت کیا ہے؟‘‘

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

’’قصہ یہ ہے کہ بچے کو گود لینے کا تو فیصلہ ہو گیا ہے لیکن اس بی زمانی کا بھی تو کچھ بندوبست ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’میں تو کہتی ہوں۔ سات جھاڑو اور حقہ کا پانی۔ ‘‘

’’لعنت بھیجیں موئی حرافہ پر۔ ‘‘

’’نہیں بوا۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کم بخت کہیں پھر‘‘

’’اوہ۔ ‘‘

ایک اور کانفرنس ہوئی۔ تینوں بڑے ڈاکٹر آخری بار پوٹسڈم میں جمع ہوئے۔ جلدی جلدی ایک میٹرنٹی ہوم تیار کیا گیا۔ بی زمانی بیگم درد سے پیچ و تاب کھاتی رہی اور ادھر کانفرنس ہوتی رہی۔ ایک بولا۔

’’صاحبان‘‘

دنیا کی فلاح اور بہبودی کے لیے آج اس بات کا قطعی طور پر فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ بی زمانی بیگم کا یہ بچہ اس کا آخری بچہ ہو۔ ‘‘

دوسرا بولا۔

’’دنیا کے تھن اس عورت کے لاتعداد حرامی بچوں کو دودھ پلا پلا کر سوکھ گئے ہیں۔ اب ہمیں اس کو بانجھ کرنا ہی پڑے گا۔ ‘‘

تیسرا بولا۔

’’بالکل درست ہے۔ ہونے والے بچے کی صحت اور تندرستی کا خیال رکھتے ہوئے بھی ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ‘‘

طے ہو گیا کہ بچہ فوراً پیدا کیا جائے اور بی زمانی بیگم کو ہمیشہ کے لیے بانجھ کردیا جائے۔ عمل جراحی شروع ہوا۔ میٹرنٹی ہوم کے باہر دنیا کی ساری قومیں جمع ہو گئیں۔ بہت دیر تک سناٹا چھایا رہا۔ اس کے بعد میٹرنٹی ہوم کا دروازہ پھٹ سے کھلا۔ ایک سفید پوش نرس باہر نکلی اور اس نے اپنی باریک آواز میں اعلان کیا۔

’’مبارک ہو بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ زچہ اور بچہ دونوں بیہوش ہیں۔ ‘‘

دنیا کی ساری قومیں فکر و تردو میں غرق ہو گئیں۔ ایک بوڑھا لنگوٹی پہنے کھانستا کھنکارتا نرس کی طرف بڑھا۔ نرس نے پوچھا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

۔ بوڑھے نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور لرزاں آواز کہا۔

’’میرا نام ہندوستان ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ کیا چاہتے ہو تم؟‘‘

’’میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ لڑکا ہوا ہے یا لڑکی؟‘‘

دنیا کی ساری قومیں بے اختیار کھکھلا کر ہنس پڑیں۔ (اے۔ آئی۔ آر۔ بمبئی سے منشور)

سعادت حسن منٹو

بھنگن

’’پرے ہٹیے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے آپ سے بوآتی ہے۔ ‘‘

’’ہر انسان کے جسم کی ایک خاص بو ہوتی ہے۔ آج بیس برسوں کے بعد تمہیں اس سے تنفر کیوں محسوس ہونے لگا؟‘‘

’’بیس برس۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ میں نے اتنا طویل عرصہ کیسے بسر کیا ہے۔ ‘‘

’’میں نے کبھی آپ کو اس عرصے میں تکلیف پہنچائی؟‘‘

’’جی کبھی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر آج اچانک آپ کو مجھ سے ایسی بو کیوں آنے لگی جس سے آپ کی ناک جو ماشاء اللہ کافی بڑی ہے، اتنی غضب ناک ہورہی ہے؟‘‘

’’آپ اپنی ناک تو دیکھیے۔ پکوڑاسی ہے۔ ‘‘

’’میں اس سے انکار نہیں کرتا۔ پکوڑے، تم جانتی ہو، مجھے بہت پسند ہیں۔ ‘‘

’’آپ کو تو ہر واہیات چیز پسند ہوتی ہے۔ کوڑے کرکٹ میں بھی آپ دلچسپی لیتے ہیں۔ ‘‘

’’کوڑا کرکٹ ہمارا ہی تو پھیلا یا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی دلچسپی کیوں نہ لے۔ اور تم جانتی ہو، آج سے دس سال پہلے جب تمہاری ہیرے کی انگوٹھی گم ہو گئی تھی تو اسی کوڑے کے ڈھیر سے میں نے تمہیں تلاش کرکے دی تھی۔ ‘‘

’’بڑا کرم کیا تھا آپ نے مجھ پر۔ ‘‘

’’بھئی کرم کا سوال نہیں۔ فارسی کا ایک شعر ہے ؂ خاکساراں را بہ حقارت منگر توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشند

’’میں خاک بھی نہیں سمجھی۔ ‘‘

’’یہی وجہ ہے کہ تم نے ابھی تک مجھے نہیں سمجھا۔ ورنہ بیس برس ایک آدمی کو پہچاننے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’ان بیس برسوں میں آپ نے کون سا سکھ پہنچایا ہے مجھے؟‘‘

’’تم دکھ کی بات کرو۔ بتاؤ میں نے کون سا دکھ تمہیں اس عرصے میں پہنچایا؟‘‘

’’ایک بھی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر یہ کہنے کا کیا مطلب تھا۔ ان بیس برسوں میں آپ نے کون سا سکھ پہنچایا ہے مجھے؟‘‘

’’آپ میرے قریب نہ آئیے۔ میں سونا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’اس غصے میں نیند آجائے گی تمہیں؟‘‘

’’خاک آئے گی۔ بہر حال۔ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہوں گی اور۔ ‘‘

’’اور کیا کریں گی؟‘‘

’’لیٹی اس روز پر آنسو بہاؤں گی جب میں آپ کے پلّے باندھی گئی۔ ‘‘

’’تمہیں یاد ہے وہ دن کیا تھا۔ سن کیا تھا۔ وقت کیا تھا؟‘‘

’’میں کبھی وہ دن بھول سکتی ہوں۔ خدا کرے وہ کسی لڑکی پر نہ آئے۔ ‘‘

’’تم بتا تو دو۔ میں تمہاری یادداشت کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’اب آپ میرا امتحان کیا لیں گے۔ پرے ہٹیے۔ مجھے آپ سے بو آرہی ہے۔ ‘‘

’’بھی حد ہو گئی ہے۔ تمہاری اتنی لمبی ناک جو کہیں ختم ہونے ہی میں نہیں آتی، اس کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ مجھ سے تو اس کو بڑی بھینی بھینی خوشبو آنا چاہیے۔ تم نے مجھ سے ان بیس برسوں میں ہزاروں مرتبہ کہا کہ آپ جب کسی کمرے میں داخل ہوں اور وہاں سے نکل جائیں تو میں پہچان جایا کرتی ہوں کہ آپ وہاں آئے تھے۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک جھوٹ نہیں بولا۔ تم مجھ پر یہ الزام نہ دھرو۔ ‘‘

’’واہ جی واہ، بڑے آئے آپ کہیں کے سچے۔ میرا سو روپے کا نوٹ آپ نے چرایا اور صاف مکر گئے۔ ‘‘

’’یہ کب کی بات ہے؟‘‘

’’دو جون سن انیس سو بیالیس کو۔ جب سلمیٰ میرے پیٹ میں تھی۔ ‘‘

’’یہ تاریخ تمہیں خوب یاد رہی۔ ‘‘

’’کیوں یاد نہ رہتی۔ جب آپ سے میری اتنی زبردست لڑائی ہوئی تھی۔ میں اندر کمرے میں پڑی تھی۔ آپ نے چابی بڑی صفائی سے میرے تکیے کے نیچے سے نکالی۔ دوسرے کمرے میں جا کر الماری کھولی اور اس میں جو سات سو پڑے تھے، ان میں سے ایک نوٹ اڑا کر لے گئے۔ میں نے جب دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد اٹھ کر دیکھا تو آپ سے چخ ہوئی، مگر آپ تھے کہ پروں پر پانی ہی نہیں لیتے تھے۔ آخر میں خاموش ہو گئی۔ ‘‘

’’یہ دو جون سن انیس سو بیالیس کی بات ہے۔ آج کل سن چون چل رہا ہے۔ اب اس کے ذکر کا کیا فائدہ؟‘‘

’’فائدہ تو ہر حالت میں آپ ہی کا رہتا ہے۔ میری ایک نیلم کی انگوٹھی بھی آپ نے غائب کردی تھی، لیکن میں نے آپ سے کچھ نہیں کہا تھا۔ ‘‘

’’دیکھو، میں تمہاری جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ اس نیلم کی انگوٹھی کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ ‘‘

’’اور اس سو روپے کے نوٹ کے متعلق۔ ‘‘

’’اب تمہاری جان کی قسم کھائی توسچ بتانا ہی پڑے گا۔ میں نے۔ میں نے چرایا ضرور تھا، مگر صرف اس لیے کہ اس مہینے مجھے تنخواہ دیر سے ملنے والی تھی اور تمہاری سالگرہ تھی۔ تمہیں کوئی تحفہ تو دینا تھا۔ ان بیس برسوں میں تمہاری ہر سالگرہ پر میں اپنی استطاعت کے مطابق کوئی نہ کوئی تحفہ پیش کرتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’بڑے تحفے تحائف دیے ہیں آپ نے مجھے۔ ‘‘

’’ناشکری تو نہ بنو!‘‘

’’میں کئی دفعہ کہہ چکی ہوں، آپ پرے ہٹ جائیے۔ مجھے آپ سے بو آتی ہے۔ ‘‘

’’کس کی؟‘‘

’’یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’میں نے خود کو کئی مرتبہ سونگھا ہے، مگر میری پکوڑا ایسی ناک میں ایسی کوئی بُو نہیں گھسی جس پر کسی بیوی کو اعتراض ہو سکے۔ ‘‘

’’آپ باتیں بنانا خوب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’اور باتیں بگاڑناتم۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، آج تم اس قدر ناراض کیوں ہو۔ ‘‘

’’اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیے!‘‘

’’میں اس وقت قمیض پہنے نہیں ہوں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’سخت گرمی ہے۔ ‘‘

’’سخت گرمی ہو یا نرم۔ آپ کو قمیض تو نہیں اتارنا چاہیے تھی۔ یہ کوئی شرافت نہیں۔ ‘‘

’’محترمہ! آپ نے بھی تو قمیض اتار رکھی ہے۔ اپنے ننگے بدن کو ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘

’’اوہ۔ یہ میں نے کیا واہیات پن کیا ہے!‘‘

’’یہ واہیات پن تو آپ گرمیوں میں بیس بر س سے کررہی ہوں۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ ‘‘

’’خیر، جھوٹ تو ہر مرد کی عادت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے دور ہی رہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’توبہ۔ لاکھ بار کہہ چکی ہوں کہ مجھے آپ سے بہت گندی بو آرہی ہے۔ ‘‘

’’پہلے صرف بو تھی۔ اب گندی ہو گئی۔ ‘‘

’’خبردار! جو آپ نے مجھے ہاتھ لگایا!‘‘

’’اس قدر بیزاری آخر کیوں؟‘‘

’’میں اب آپ سے قطعاً بیزار ہو چکی ہوں۔ ‘‘

’’ان بیس برسوں میں تم نے کبھی ایسی بیزاری کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ‘‘

’’اب تو کردیا ہے!‘‘

’’لیکن مجھے معلوم تو ہو کہ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’میں کہتی ہوں، مجھے مت چھوئیے!‘‘

’’تمہیں مجھ سے اتنی کراہت کیوں ہورہی ہے؟‘‘

’’آپ ناپاک ہیں۔ بے حد ذلیل ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو، تم بہت زیادتی کررہی ہو۔ ‘‘

’’آپ نے کم کی ہے۔ کوئی شریف آدمی آپ کی طرح ایسی ذلیل حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ ‘‘

’’کون سی؟‘‘

’’آج صبح کیا ہوا تھا؟‘‘

’’آج صبح۔ بارش ہوئی تھی۔ ‘‘

’’بارش ہوئی تھی۔ لیکن اس بارش میں آپ نے کس کو اپنی آغوش میں دبایا ہوا تھا؟‘‘

’’اوہ، ‘‘

’’بس اس کا جواب اب’اوہ‘ ہی ہو گا۔ میں نے پکڑ جو لیا تھا آپ کو۔ ‘‘

’’دیکھو میری جان۔ ‘‘

’’مجھے اپنی جان وان مت کہیے۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ ‘‘

’’کس بات پر۔ کس گناہ پر؟‘‘

’’میں کہتی ہوں آدمی گناہ کرے۔ لیکن ایسی گندگی میں نہ کرے۔ ‘‘

’’میں کس گندگی میں گرا ہوں؟‘‘

آج صبح آپ نے اس۔ اس۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’اس بھنگن کو۔ جوان بھنگن کو جو مٹھائی والے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ تم بھی عجیب عورت ہو۔ وہ غریب حاملہ ہے۔ بارش میں جھاڑو دیتے ہوئے اس کو غش آیا اور گر پڑی۔ میں نے اس کو اٹھایا اور اس کے کوارٹر میں لے گیا۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’تمہیں معلوم نہیں کہ وہ مر گئی؟‘‘

’’ہائے۔ بے چاری۔ میں تو ٹھنڈی برف ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’میرے قریب آجاؤ۔ میں قمیض پہن لوں؟‘‘

’’اس کی کیا ضرورت ہے، تمہاری قمیض میں ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بُڈّھا کھوسٹ

یہ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعدکی بات ہے جب میرا عزیز ترین دوست لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیم شیخ ( اب ) ایران ٗ عراق اور دوسرے محاذوں سے ہوتا ہوا بمبئے پہنچا۔ اُس کو اچھی طرح معلوم تھا، میرا فلیٹ کہاں ہے۔ ہم میں گاہے گاہے خط و کتابت بھی ہوتی رہتی تھی لیکن اس سے کچھ مزا نہیں آتا تھا اس لیے کہ ہر خط سنسر ہوتا ہے۔ ادھر سے جائے یا اُدھر سے آئے عجیب مصیبت تھی۔ مگر اب ان مصیبتوں کا ذکر کیا کرنا۔ اس کی بمبئی کے بی بی اینڈ سی آئی اے کے ٹریسینس پر پوسٹنگ ہوئی۔ اُس وقت وہ صرف لیفٹیننٹ تھا ہم دونوں وسیع و عریض ریلوے اسٹیشن کے بُوفے میں بیٹھ گئے اور دوپہر کے بارہ ایک بجے تک ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر پیتے رہے اُس نے اُس دوران میں مجھے کئی کہانیاں سنائیں جن میں سے ایک خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اُس نے ایران، عراق اور خدا معلوم کن کن ملکوں کے اپنے معاشقے سنائے، میں سنتا رہا پیشہ ور عاشق تو کالج کے زمانے سے تھا اُس کی داستانیں اگر میں سُناؤں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ بہر حال آپ کو اتنا بتانا ضروری ہے کہ اسے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا گر معلوم تھا۔ گورڈن کالج راولپنڈی میں وہ راجہ اندر تھا۔ اس کے دربار میں وہاں کی تمام پریاں مجرا عرض کرتی تھیں۔ خوبصورت تھا کافی خوبصورت مگر اُس کا حسن مردانہ حسن تھا۔ پتلی نوکیلی ناک جو یقیناً اپنا کام کر جاتی ہو گی چھوٹی چھوٹی گہرے بھوسلے رنگ کی آنکھیں جو اُس کے چہرے پر سج گئی تھیں بڑی ہوتیں تو شاید اس کے چہرے کی ساری کشش ماری جاتی۔ وہ کھلنڈرا تھا جس طرح لارڈ بائرن صرف کچھ عرصے کے لیے کسی سے دلچسپی لیتا تھا اور اُسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا، جیسے وہ اُس کی زندگی میں کبھی آئی ہی نہیں اسی طرح کا سلوک وہ اپنے جال میں پھنسی ہوئی لڑکیوں سے کرتا، مجھے اُس کا یہ روّیہ پسند نہیں تھا کہ یہ میری نظر میں بہت ظالمانہ ہے مگر وہ بے پروا تھا کہا کرتا اُلو کے پٹھے۔ غالبؔ پڑھو وہ کیا کہتا۔ اسے متن یاد کبھی نہیں رہتا تھا مگر اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں ادا کر دیا کرتا۔ وہ کہتا ہے، وہی شاخِ طوبیٰ اور جنت میں وہی ایک حور۔ واللہ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ شہد کی مکھی بنو ٗ کلی کلی کا رس چوسو۔ مکھی لکھی مصری کی نہ بنو جووہیں چپک کر رہ جائے

’’پھر اُس نے اقبال کے ایک شعر کا حوالہ اپنا بیئر کا گلاس خالی کرتے ہوئے دیا

’’کیا کہا ہے اقبال نے ؂ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا ثابت ہوا کہ تم نہ صرف ناداں ہو بلکہ درجہ اوّل بناسپتی گھی کی طرح درجہ اوّل چغد بھی ہو۔ اب ہٹاؤ اس بکواس کو۔ ‘‘

میں نے یہ بکواس اس طرح ہٹائی جس طرح بیرے نے میری بیئر کی خالی بوتل پیشتر اس کے کہ میں اصل کہانی کی طرف آؤں۔ میں آپ کو شیخ سلیم سے متعلق ایک بہت دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ ہم گورڈن کالج میں بی اے فائنل میں پڑھتے تھے کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ایک رکمنی کی شادی کی اُڑتی اُڑتی افواہ ہمیں ملی۔ یہ رکمنی ہماری ہی کسی کلاس میں پڑھتی تھی اور کچھ عرصہ پہلے بُری طرح شیخ سلیم پر فریفتہ شکل صورت اُس کی واجبی تھی مگر میرا دوست شہد کی مکھی تھا چنانچہ دو مہینے ان کا معاشقہ چلتا رہا اُس کے بعد وہ اس سے بالکل اجنبی ہو گیا۔ جب اُس کو بتایا گیا کہ رکمنی جو تمہاری محبوبہ تھی اور جس کی خاطر تم نے اتنے جھگڑے اپنی کلاس کے طالب علموں سے کیے

’’وہ اگر دوسری جگہ بیاہی جائے تو ڈوب مرو۔ لیکن تم تیرنا جانتے ہو۔ ڈوبنے کا کام ہم اپنے ذمے لیتے ہیں‘‘

شیخ سلیم کو اس قسم کی باتیں عموماً کھا جاتی تھیں۔ اس نے اپنی مہین مہین مونچھوں کو تاؤ دینے کی کوشش کی اور کہا

’’اچھا، تم دیکھ لینا کیا ہو گا‘‘

اُس کی پارٹی کے ایک قوی ہیکل لڑکے نے پوچھا کیا ہو گا؟‘‘

شیخ سلیم نے اس کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا

’’ہو گا تمہاری ماں کا سر۔ جب شادی کا دن آئے گا، دیکھ لینا۔ چلو آؤ میرے ساتھ مجھے تم سے چند باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

شادی کا دن آگیا۔ بارات جب دولہا والوں کے گھر کے پاس پہنچی تو کوئی شخص سر پر سہرے باندھے بڑے اچھے گھوڑے پر سوار اندر داخل ہو گیا دولہا موٹر میں جس پر پھولوں کا جال بنا ہوا تھا۔ گھوڑا سوار سہرے سے لدا پھندا شامیانے کے پاس تھا۔ گھوڑاخود دولہا بنا ہوا تھا۔ دولہن کا باپ اور اس کے رشتہ دار آگے بڑھے۔ گھوڑے کا مالک بھاگا بھاگا آگیا تھا اس سہرے سے لدے ہوئے آدمی کو اس جگہ بٹھا دیا گیا، جہاں دولہن کو بھی ساتھ بیٹھا تھا۔ بیچ میں ہون کنڈ تھا جس میں چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کے ٹکڑے جل رہے تھے۔ انھوں نے ننگے بدن اُٹھ کر دلہن کو اشیروادی اور دولہن سے کہا

’’سردار جی دولہن کو جلد بُلائیے مہورت ہو گیا ہے‘‘

فوراً رکمنی پہنچ گئی اور کچھ عرصے کے لیے دولہا کے ساتھ بٹھا دی گئی۔ پنڈت جی نے کچھ پڑھا جس کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا۔ لیکن ایک دم شادی کے اُس جلسے میں ایک ہڑبونگ سی مچ گئی جب کار سے ایک دولہا نکل کر سامنے آگیا اور بلند آواز میں تمام حاضرین کو مخاطب کیا میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ میں دعویٰ دائر کروں گا‘‘

وہ دولہا جو ہاتھ پکڑ کر دُولہن کو اُٹھا رہا تھا بڑی خوفناک آواز میں چلایا

’’ابے، جا بے دعوٰے دائر کرنے کے کچھ لگتے‘‘

یہ کہہ کر اُس نے اپنے پھولوں کا گھونگھٹ اُٹھا دیا اور ان ہزار کے قریب آدمیوں سے جو شامیانے کے نیچے تھے کچھ کہنا چاہا۔ مگر قہقہوں کا ایک سمندر موجیں مارنے لگا۔ دوسری پارٹی کے آدمی بھی ان قہقہوں میں شریک ہوئے کیونکہ جب یہ پھولوں کا پردہ علیحدہ ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ شیخ سلیم ہے۔ رکمنی بڑی خفیف ہوئی، مگر شیخ سلیم نے بڑی جرأت سے کام لے کر اُس سے بلند آواز میں پوچھا

’’تم اس چغد کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہو‘‘

رکمنی خاموش رہی۔

’’اچھا جاؤجہنم میں۔ لیکن ایک دن نہیں پورے تین مہینے تم ہمیں پوجتی رہی ہو‘‘

یہ کہہ کر وہ صحیح دولہا کی طرف بڑھا جس کے منہ سے غصے کے مارے جھاگ نکل رہے تھے آگے بڑھ کر اُس نے اپنے سارے ہار اُس کے گلے میں ڈال دیے۔ سب براتی بُت بنے بیٹھے تھے۔ ہنستا، قہقہے لگاتا وہ اپنے گھوڑے پر بڑی صفائی سے سوار ہوا اور ایڑھ لگا کر کوٹھی سے باہر نکل گیا۔ گھوڑے سے اُتر کر (ہم دُور نکل گئے تھے۔ اس لیے کہ میں اس کے پیچھے گھوڑے کی سی تیز رفتاری سے بھاگا تھا ) اُس نے میرا کاندھا بڑے زور سے ہلایا کیوں بیٹے میں نے تم سے کیا کہا تھا اب دیکھ لیا؟‘‘

ہوا تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر مجھے ڈر تھا کہیں شیخ سلیم گرفتار نہ ہو جائے میں نے اُس سے کہا

’’جو تم نے کیا وہ اور کوئی نہیں کرسکتا، لیکن بھائی میرے کہیں ہنسی میں پھنسی نہ ہو جائے فرض کرو اگر رکمنی کے باپ نے تمھیں گرفتار کرا دیا؟‘‘

وہ اکڑ کر بولا

’’اس کے باپ کا باپ بھی نہیں کرسکتا۔ کون اپنی بیٹی کو عدالت چڑھائے گا۔ میں تو اسی وقت گرفتار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ لے جائے مجھے تھانے۔ اس سالی کے سارے پول کھول دُوں گا۔ میرے پاس اس کے درجنوں خطوط پڑے ہیں‘‘

سارے شہر میں یہی افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ رکمنی کا باپ شیخ سلیم کو ضرور اُس کی گستاخی کی سزا دلوائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے مگر کچھ نہ ہوا جب کئی دن گزر گئے تو میرے پاس گاتا ہوا آیا۔ تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا اب میں اصل کہانی کی طرف پلٹتا ہوں، جو اس واقعے سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ خود اُس نے مجھے سُنائی جس کی صداقت پر مجھے سو فیصد یقین ہے۔ اس لیے کہ شیخ سلیم جھوٹا کبھی نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا

’’میں ایران میں تھا۔ وہاں کی لڑکیاں عام یورپین لڑکیوں کی طرح ہوتی ہیں وہی لباس وہی وضع قطع، البتہ ناک نقشے کے لحاظ سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔ جتنی خرافات وہاں ہوتی ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتی ہے۔ میں نے وہاں کئی شکار کیں۔ وہاں میرے ایک بڑے افسر کرنل عثمانی تھے۔ حالانکہ اُن کا عہدہ جیسا کہ ظاہر ہے مجھ سے بہت بڑا تھا۔ لیکن وہ میرے بڑے مہربان تھے۔ میس میں جب بھی مجھے دیکھتے، زور سے پکارتے۔ ادھر آؤ شیخ، میرے پاس بیٹھو، اور وہ میرے لیے ایک کرسی منگواتے۔ وسکی کا دور چلتا تو اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتے، کرنل عثمان کو مجھ سے چھیڑ خانی کرنے میں خاص مزا آتا۔ جب وہ کوئی فقرہ مجھ پر چست کرتے تو بہت خوش ہوتے۔ کافی معمر آدمی تھا۔ اس کے علاوہ بڑا افسر، میں خاموش رہتا۔ ان کو ان پولستانی نرسوں سے بڑی دلچسپی تھی جو وہاں ایمبولنس کور میں کام کرتی تھیں۔ یہ پولستانی لڑکیاں بلا کی تنومند ہوتی ہیں۔ یہ موٹی موٹی سفید پنڈلیاں۔ بڑی مضبوط چھاتیاں بڑی بڑی اور صحت مند کوکھے چوڑے اور گوشت سے بھرے ہوئے جن میں سختی ہو۔ لوہے ایسی سخت۔ میری کئی دوست تھیں۔ پر جب میں آئرن سے ملا تو سب کو بھول گیا۔ سارے ایران کو بھول گیا۔ بڑی صفتیں تھیں۔ نقش سب چھوٹے چھوٹے تھے اگر تم اُس کی چھاتیوں اور پنڈلیوں کو پیشِ نظر رکھتے تو یہی سمجھتے کہ اس کے ہاتھ ڈبل روٹی کے مانند ہوں گے۔ اُس کی اُنگلیاں اتنی موٹی ہوں گی جیسے کسی درخت کی ٹہنی۔ مگر نہیں دوست، اس کے ہاتھ بڑے نرم و نازک تھے اور اُس کی اُنگلیاں تم یہ سمجھ لو کہ چغتائی کی بنائی تصویروں کی مخروطی لانبی نہیں، مگر پتلی پتلی تھیں۔ میں تو اُس پر فریفتہ ہو گیا۔ چند روز کی ملاقاتوں ہی میں اُس کے میرے تعلقات بے تکلفی کی حد تک بڑھ گئے۔ یہاں تک پہنچ کر شیخ رُک گیا ایک نیا پیگ گلاس میں ڈالا اور سوڈا ملا کر غٹا غٹ پی گیا

’’نہ یاد کراؤ یہ قصہ‘‘

میں نے اُس سے کہا

’’لیفٹیننٹ صاحب، آپ نے خود ہی تو شروع کیا تھا‘‘

اُس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر میری طرف دیکھا اور ایک پیگ اپنے گلاس میں تین چار پیگ جو بوتل میں باقی بچ گئے تھے انتقاماً میرے گلاس میں ڈالے اور خود سوکھی جسے انگریزی میں نِیٹ کہتے ہیں پی گیا اور کھانس کھانس کر اپنا بُرا حال کر لیا

’’لعنت ہو تم پر !‘‘

’’یعنی یہ کیا موقعہ تھا مجھ پر لعنت بھیجنے کا‘‘

اُس کی کھانسی اب بند ہو گئی تھی اور وہ رومال سے اپنا منہ پونچھ رہا تھا کہ نہ پوچھو میری جان۔ دوسرے روز رات کو کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑے طنز سے کہا کہو صاحبزادے مجھے بُڈھا سمجھتے ہو۔ وہ تم نے ضرب المثل نہیں سُنی۔ نیا ایک دن پُرانا سو دن۔ میں نے اُن سے عرض کی کرنل صاحب آپ کا میرا کیا مقابلہ۔ مگر میں دل ہی دل میں سوچا کہ یہ کمبخت اس حقیقت سے اب تک غافل ہے کہ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور عشق فرما رہا ہے۔

’’میں تو خدا کی قسم جب اس عمر کو پہنچوں گا تو خودکشی کر لوں گا۔ اُس منہ کے ساتھ جس میں آدھے دانت مصنوعی ہیں میری آئرن پر نگاہیں لگائے بیٹھا ہے۔ کرنل ہو گا تو اپنے گھر میں اُس نے کبھی پھر اُس کی بات کی تو ایک ایسا گھونسہ جماؤں گا اس کی سُوکھی گردن پر کہ منکا باہر آ جائے گا۔ دیر تک اس بڈھے کھوسٹ سے آئرن۔ نہایت ہی پیاری آئرن کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور وہ طنز کرنے سے باز نہ آیا۔ وسکی کا چوتھا دور چل رہا تھا میں نے اپنے ہونٹوں پر بڑی فرمانبردار قسم کی مسکراہٹ پیدا کیاور اُس سے کہا کرنل صاحب جو آپ کو بڈھا کہے وہ خود بڈھا ہے آپ تو ماشاء اللہ دھان پان ہیں‘‘

یہ محفل ختم ہوئی تو میں بہت خوش ہوا۔ آئرن نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ دوسرے روز فلاں فلاں ہوٹل میں شام کو سات بجے ملے گی اُس میں فوجیوں کو اجازت تھی اتوار تھا اس لیے میں وردی کے بجائے نہایت اعلیٰ سوٹ پہن کر وہاں پہنچا سات بجنے میں ابھی نو منٹ باقی تھے میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو میرے پاؤں وہیں کے وہیں جم گئے۔ کرنل عثمانی صاحب آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے غافل آئرن کا بڑا لمبا بوسہ لے رہے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اُس کرنل سے کہیں زیادہ بڈھا کھوسٹ بن گیا ہوں۔ (۳۱؍ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

بُو

برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگ دار پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے تھوڑا ادھر سرکا دیا گیا تھا ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چپٹی ہُوئی تھی۔ کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے نہائے ہُوئے پتے رات کے دودھیا اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔ اور شام کے وقت جب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی ساری خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد کچھ سُنانے کے لیے وہ بالکنی میں آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے پیڑ کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھانس کر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اوپر بُلا لیا تھا۔ وہ کئی دن سے شدید قسم کی تنہائی سے اُکتا گیا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی تقریباً تمام کرسچین چھوکریاں جو سستے داموں مل جایا کرتی تھیں عورتوں کی انگریزی فوج میں بھرتی ہو گئی تھیں، ان میں سے کئی ایک نے فورٹ کے علاقے میں ڈانس اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔ رندھیر بہت اداس ہو گیا تھا۔ اس کی انا کا سب تو یہ تھا کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہو گئی تھیں اور دوسرا یہ کہ فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ اور خوبصورت نوجوان اس پر فورٹ کے لگ بھگ تمام کلبوں کے دروازے بند کردیے تھے۔ اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔ جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج محل ہوٹل کی کئی مشہور و معروف کرسچین لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس قسم کے تعلقات کی کرسچین لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معلومات رکھتا تھا جن سے یہ چھوکریاں عام طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی بیوقوف سے شادی کرلیتی ہیں۔ رندھیر نے بس یوں ہی ہیجل سے بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے پر بلایا تھا۔ ہیجل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح وردی پہن کر کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویئے سے جما کر باہر نکلتی تھی اور لڑکپن سے چلتی تھی جیسے فٹ پاتھ پر چلنے والے سبھی لوگ ٹاٹ کی طرح اس کے راستے میں بچھے چلے جائیں گے۔ رندھیر سوچتا تھا کہ آخر کیوں وہ ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا زیادہ مائل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام دکھائی جاسکنے والی اشیا کو نمائش کرتی ہیں۔ کسی قسم کی جھجک محسوس کیے بغیر اپنے کارناموں کا ذکر کردیتی ہیں۔ اپنے بیتے پرانے رومانسوں کا حال سُنا دیتی ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن کسی دوسری لڑکی میں بھی تو یہ خاصیتیں ہوسکتی ہیں۔ رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بُلایا تو اسے کسی طرح بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ سُلالے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیچاری کو نمونیا ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا۔

’’یہ کپڑے اُتار دو۔ سردی لگ جائے گی۔ ‘‘

وہ رندھیر کی اس بات کا مطلب سمجھ گئی تھی کیوں کہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا لہنگا اتار دیا۔ جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہو گیا تھا۔ لہنگا اتار کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی تنگ بھنچی بھنچی چولی اتارنے کی کوشش کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ وہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے لیکن سمٹیلے گڑھے میں چھپ گئی تھی۔ دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گانٹھ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بھیگنے کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک ہار کر بیٹھ گئی تو اس نے مراٹھی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا۔

’’میں کیا کروں۔ نہیں نکلتی۔ ‘‘

رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔ جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر، نرم نرم گندھی ہُوئی مٹی کو ماہر کمھار کی طرح دو پیالوں کی شکل بنا دی ہے۔ اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدگداہٹ، وہی دھڑکن، وہی گولائی، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔ مٹمیلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھیں۔ ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہُوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح کپکپارہے تھے۔ لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی میں شرابور ہو چکے تھے ایک گدلے ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے اور وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی ہوئی تھی۔ اس کے ننگے بدن کی گرمی اس کے جسم میں ایسی ہلچل سی پیدا کر رہی تھی جو سخت جاڑے کے دنوں میں نائیوں کے گرم حماموں میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔ دن بھر وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی رہی۔ دونوں جیسے ایک دوسرے کے مڈ ہو گئے تھے۔ انھوں نے بہ مشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی۔ کیوں کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہورہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری کی چھاتیوں پر ہوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے گول دانے جو چاروں طرف ایک سیاہ دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے ہوائی جھونکوں سے جاگ اٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے پورے بدن میں ایک سرسراہٹ پیدا ہو جاتی کہ خود رندھیر بھی کپکپا اٹھتا۔ ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں بار واسطہ پڑ چکا تھا۔ وہ ان کو بخوبی جانتا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم و نازک اور سخت سینوں سے اپنا سینہ ملا کر کئی کئی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ ساری باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی تعلق قائم کر چکا تھا جو ساری محنت کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں۔ لیکن یہ گھاٹن لڑکی جو پیڑ کے نیچے بھیگی ہُوئی کھڑی تھی اور جسے اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا۔ مختلف قسم کی لڑکی تھی۔ ساری رات رندھیر کو اس کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بُو آتی رہی تھی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو بھی تھی اور بدبُو بھی۔ وہ ساری رات پیتا رہا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، جسم کے ہر حصّے سے یہ جو بدبُو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے پورے سراپا میں بس گئی تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی قریب نہ ہوتی اگر اس کے جسم سے یہ بُو نہ اُڑتی۔ یہ بو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رینگ رہی تھی۔ اس کے تمام نئے پرانے محسوسات میں رچ گئی تھی۔ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو جیسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ ان بیکراں گہرائیوں میں اُتر گئے تھے جہاں پہنچ کر انسان ایک خالص انسانی تسکین سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایسی تسکین جو لمحاتی ہونے پر بھی جاوداں تھی۔ مسلسل تغیر پذیر ہونے پر بھی مضبوط اور مستحکم تھی۔ دونوں ایک ایسا جواب بن گئے تھے جو آسمان کے نیلے خلا میں مائل پرواز رہنے پر بھی دکھائی دیتا رہے۔ اس بُو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی رندھیر بخوبی سمجھتا تھا لیکن سمجھتے ہُوئے بھی وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ جس طرح کبھی مٹی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بُو نکلتی ہے۔ لیکن نہیں، وہ بُو کچھ اور طرح کی تھی۔ اس میں لونڈر اور عطر کی آمیزش نہیں تھی، وہ بالکل اصلی تھی۔ عورت اور مرد کے جسمانی تعلقات کی طرح اصلی اور مقدس۔ رندھیر کو پسینے کی بُو سے سخت نفرت تھی۔ نہانے کے بعد وہ ہمیشہ بغلوں وغیرہ میں پاؤڈر چھڑکتا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے وہ بدبو جاتی رہے لیکن تعجب ہے کہ اس نے کئی بار۔ ہاں کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گھن نہیں آئی بلکہ عجیب قسم کی تسکین کا احساس ہوا۔ رندھیر کو ایسا لگتا تھاکہ وہ اسے پہچانتا ہے۔ اس کے معنی بھی سمجھتا ہے لیکن کسی اور کو نہیں سمجھا سکتا۔ برسات کے یہی دن تھے۔ یوں ہی کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تو پیپل اسی طرح نہا رہے تھے۔ ہوا میں سرسراہٹیں اور پھڑپھڑاہٹیں گھلی ہُوئی تھیں۔ اس میں دبی دبی دُھندلی سی روشنی سمائی ہُوئی تھی۔ جیسے بارش کی بوندوں کا ہلکا پھلکا غبار نیچے اُتر آیا ہو۔ برسات کے یہی دن تھے جب میرے کمرے میں ساگوان کا صرف ایک ہی پلنگ تھا۔ لیکن اب اس کے ساتھ ایک اور پلنگ بھی تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔ دن لمبے تھے۔ موسم بھی بالکل ویسا ہی تھا۔ بارش کی بوندوں کے ہمراہ ستاروں کی طرح اس کا غبار سا اسی طرح اتر رہا تھا لیکن فضا میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔ دوسرا پلنگ خالی تھا۔ اس پلنگ پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے پتوں پر بارش کی بوندوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی جسم کو چادر میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے قریب قریب سو گئی۔ اس کی سرخ ریشمی شلوار دوسرے پلنگ پر پڑی تھی جس کے گہرے سرخ رنگ کا ایک پھندنا نیچے لٹک رہا تھا۔ پلنگ پر اس کے دوسرے اُتارے کپڑے بھی پڑے تھے۔ سنہری پھول دار جمپر، انگیا، جانگیا اور دوپٹہ۔ سرخ تھا۔ گہرا سرخ اور ان سب میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہُوئی تھی۔ لڑکی کے سیاہ بالوں میں مکیش کے ذرّے دُھول کے ذرّوں کی طرح جمے ہُوئے تھے۔ چہرے پر پاؤڈر، سرخی اور مکیش کے ان ذرّوں نے مل جل کر ایک عجیب رنگ بکھر دیا تھا۔ بے نام سا اُڑا اُڑا رنگ اور اس کے گورے سینے پر کچے رنگ کے جگہ جگہ سرخ دھبے بنا دیے تھے۔ چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ ان میں ہلکا ہلکا نیلا پن بھی تھا۔ بغلوں کے بال منڈے ہُوئے تھے جس کی وجہ سے وہاں سرمئی غبار سا پیداہو گیا تھا۔ رندھیر اس لڑکی کی طرف دیکھ دیکھ کر کئی بار سوچ چکا تھا۔ کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اس کو لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہو۔ کتابوں اور چینی کے برتنوں پر ہلکی ہلکی خراشیں پڑ جاتی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر بھی کئی نشان تھے۔ جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں تو اس کی پیٹھ پر اور سامنے سنیے پر نرم نرم گوشت پر جھریاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے چاروں طرف کس کر باندھے ہوئے ازار بند کا نشان۔ وزنی اور نکیلے جڑاؤ نیکلس سے اس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پڑ گئی تھیں۔ جیسے ناخنوں سے بڑے زور سے کھجایا گیا ہو۔ برسات کے وہی دن تھے۔ پیپل کے نرم نرم پتوں پر بارش کی بوندیں گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہورہی تھی جیسی رندھیر اس دن ساری رات سنتا رہا تھا۔ موسم بے حد سہانا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن اس میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو گھلی ہُوئی تھی۔ رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اس گوری چٹی لڑکی کے کچے دودھ کی طرح سفید سینے پر ہُوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے تھے۔ اس کی انگلیوں نے اس گورے گورے بدن میں کئی چنگاریاں دوڑتی ہُوئی محسوس کی تھیں۔ اس نازک بدن میں کئی جگہوں پر سمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی اسے پتہ چلا تھا جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہررونگٹے نے اس لڑکی کے بدن کے چھڑے ہُوئے تاروں کی بھی آواز سُنی تھی۔ مگر وہ آواز کہاں تھی؟ وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے بدن میں دیکھی تھی۔ وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچے کے رونے سے زیادہ ہوتی ہے، وہ پکار جو حلقہ ءِ خواب سے نکل کر بے آواز ہو گئی تھی۔ رندھیر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بالکل قریب ہی پیپل کے نہاتے ہُوئے پتے تھرتھرارہے تھے۔ وہ ان کی مستی بھر کپکپاہٹوں کے اس پار کہیں بہت دُور دیکھنے کی کوشش کررہا تھا جہاں مٹھیلے بادلوں میں عجیب و غریب قسم کی روشنی گھلی ہُوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ٹھیک ویسے ہی جیسی اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اُسے نظر آتی تھی۔ ایسی پراسرار گفتگو کی طرح دبی لیکن واضح تھی۔ رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چٹی لڑکی۔ جس کا جسم دودھ اور گھی میں گندھے میدے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی۔ اس کے نیند سے ماتے بدن سے حنا کے عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ جو اب تھکی تھکی سی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور جنوں کی ہوئی خوشبو بہت بُری معلوم ہوئی۔ اس میں کچھ کھٹاس تھی۔ ایک عجیب قسم کی جیسی بدہضمی کے ڈکاروں میں ہوتی ہے۔ اداس۔ بے رنگ۔ بے چین۔ رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہُوئی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جس طرح پھوٹے ہُوئے دودہ کے بے رنگ پانی میں سفید مردہ پھٹکیاں تیرنے لگتی ہیں اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر خراشیں اور دھبے تیر رہے تھے اور وہ حنا کے عطر کی اوٹ پٹانگ خوشبو۔ رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بُو بسی ہُوئی تھی جو اس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بنا کسی کوشش کے از خود نکل رہی تھی۔ وہ بو جو حنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دبی ہوئی تھی۔ جس میں سونگھے جانے کی کوشش شامل نہیں تھی۔ وہ خود بخود ناک کے اندر گھس کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ جاتی تھی۔ رندھیر نے آخری کوشش کے طور پر اس لڑکی کے دودھیا جسم پر ہاتھ پھیرا لیکن کپکپی محسوس نہ ہُوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو ایک فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیوی تھی، جس نے بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور جو اپنے کالج کے سینکڑوں لڑکوں کے دلوں کی دھڑکن تھی۔ رندھیر کی کسی بھی حسّ کو نہ چھو سکی۔ وہ حنا کی خوشبو میں اُس بُو کو تلاش کررہا تھا جو انھیں دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے۔ اس گھاٹن لڑکی کے میلے بدن سے آئی تھی۔

سعادت حسن منٹو

بلونت سنگھ مجیٹھیا

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورًا بے تکلف ہو گئے۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سیّد ہیں اور میرے دور دراز کے رشتہ دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ سیّد تھے اور میں ایک محض کشمیری۔ بہر حال، ان سے میری بے تکلفی بہت بڑھ گئی۔ ان کو ادب سے کوئی شغف نہیں تھا۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ میں افسانہ نگار ہوں تو انھوں نے مجھ سے میری چند کتابیں مستعار لیں اور پڑھیں۔ یہ کتابیں جو افسانوں کے مجموعے تھیں، انھوں نے پڑھیں، اور مجھے بہت تعجب ہوا کہ انھوں نے چند افسانوں کی بہت تعریف کی۔ اتفا ق سے یہ افسانے ایسے تھے جو دنیا میں شاہکار تسلیم کیے جاچکے تھے۔ شاہ صاحب میرے پڑوسی تھے۔ انھوں نے ایک مکان الاٹ کر ا رکھا تھا، لیکن خاندان کے افراد چونکہ زیادہ تھے اس لیے انھوں نے اپنے فلیٹ کے نیچے موٹر گیراج پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس میں انھوں نے اپنی بیٹھک کا انتظام کیا تھا۔ اوپر زنانہ تھا۔ شاہ صاحب کے دوست بے شمار تھے اس لیے اس گیراج میں وہ ان کی خاطر مدارت کرتے تھے۔ ایک دن ان سے افسانوں کے بارے میں باتیں ہوئیں تو انھوں نے مجھ سے کہا:

’’میری زندگی میں ایسی کئی حقیقتیں ہیں جن کو تم افسانے بنا کر پیش کرسکتے ہوں۔ ‘‘

میں ہر وقت افسانوں کی تلاش میں رہتا ہوں، چنانچہ میں فوراً متوجہ ہوا اور شاہ صاحب سے کہا:

’’مجھے امید ہے کہ آپ اچھا مواد دیں گے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے جواباً کہا:

’’میں افسانہ نگار نہیں۔ لیکن میری زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جو قابل ذکر ہے۔ میں نے قابل ذکر اس لیے کہا ہے کہ آپ بہت بڑے افسانہ نگار ہیں، ورنہ یہ واقعہ جو اب میں بیان کرنے والا ہوں، میرے نزدیک بے حد حیرت انگیز ہے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے کہا:

’’ایسا بھی کیا حیرت انگیز ہو گا!‘‘

پھر تھوڑے سے وقفے کے بعد اس میں تھوڑی سی اصلاح کی:

’’لیکن ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے وہ واقعی حیرت انگیز ہو۔ ‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’جی! میں نہیں کہہ سکتا کہ جو واقعہ میں آپ کو سنانے والا ہوں، ہر شخص کے لیے حیرت کا باعث ہو گا۔ میں اپنی ذات کے متعلق آپ سے عرض کررہا ہوں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں جو داستان آپ کو سناؤں گا، اس وقت تک میری زندگی میں محیر العقول حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے

’’نیل کٹر‘‘

سے اپنے ناخن کاٹنے شروع کیے۔ میں ان کی داستان سننے کے لیے بے تاب تھا، مگر شاید وہ آغاز کے متعلق سوچ رہے تھے کہ اپنی داستان کو کہاں سے شروع کریں۔ میرا خیال درست تھا کہ جو کچھ ان پر بیتا تھا، اس کو کئی برس ہوچکے تھے۔ وہ تمام واقعات کی یاد اپنے ذہن میں تازہ کررہے تھے۔ میں نے سگریٹ سلگایا۔ انھوں نے اپنی دس انگلیوں کے ناخن کاٹ کر

’’نیل کٹر‘‘

تپائی پر رکھا اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’’میں ان دنوں کابل میں تھا۔ ‘‘

یہ کہہ کر چند لمحات خاموش رہے، اس کے بعد بولے۔

’’میری وہاں بہت بڑی دکان تھی جس میں بڑھیا سے بڑھیا سامان موجود رہتا تھا۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’آپ جنرل مرچنٹ تھے؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ کابل کا سب سے بڑا جنرل مرچنٹ۔ میری دکان میں کابل کی قریب قریب ہر عورت سودا لینے آتی تھی۔ آپ سے ایک بات عرض کروں۔ ساتھ کے دکاندار جب یہ دیکھتے تھے کہ کسی روز عورتوں کی بجائے میری دکان میں مرد گاہک آئے ہیں تو وہ مجھ سے فارسی زبان میں افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ آغا آج یہ کیا ہوا۔ کابل کی عورتیں اور لڑکیاں مر گئیں یا تمہارے نصیب سو گئے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرا دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اور وہ کیا جواب دے سکتے تھے۔ لیکن ان کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ ان کی دکان میں گاہکوں کی اکثریت عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے، اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب ان کی چرب زبانی کا معجزہ ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب! میں بہترین سیلز مین ہوں۔ خاص طور پر عورتوں کے ساتھ تو میں اس طرح سودا کرسکتا ہوں کہ یہاں لاہور میں کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ بی اے ہوں۔ تھوڑی بہت سائیکالوجی بھی میں نے پڑھی ہے، اس لیے مجھے معلوم ہے کہ عورتوں سے کس طرح

’’ڈیل‘‘

کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سارے کابل میں ایک میری دکان ہی ایسی تھی جس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی گاہک موجود ہوتا تھا۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب کی یہ خود تعریفی سنی اور ان سے کہا۔

’’یقیناً آپ بہترین سیلز مین ہیں کہ آپ کی گفتگو کا انداز ہی اس کا ثبوت ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرائے۔

’’مگر مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی داستان بہترین سیلز مین کے انداز بیان میں بیان نہیں کرسکوں گا۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’آپ شروع تو کیجیے!‘‘

شاہ صاحب نے چند لمحات اپنے حافظے کو پھر ٹٹولا اور اپنی داستان شروع کی

’’منٹو صاحب! جیسا کہ میں آپ سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میں کابل میں تھا۔ یہ کوئی دس برس پہلے کی بات ہے جب میری صحت بہت اچھی تھی۔ یوں تو میں اب بھی تنومند کہلاتا ہوں، مگر اس زمانے میں میرا جسم آج مقابلے میں دگنا تھا۔ ہر روز ورزش کرتا تھا سینکڑوں ڈنڈ پیلتا تھا، مگدر گھماتا تھا۔ سگریٹ پیتا تھا نہ شراب، بس ایک اچھا کھانے کی عادت تھی۔ افغانی نہیں، ہندوستانی۔ چنانچہ میں امرتسر سے اپنے ساتھ ایک بہت اچھا کشمیری باورچی لے گیا تھا جو ہر روز میرے لیے لذیذ سے لذیذ کھانے تیار کرکے میز پررکھتا تھا۔ میری زندگی بڑی ہموار گزرتی تھی۔ آمدن بہت معقول تھی۔ بینک میں لاکھوں افغانی روپے جمع تھے۔ لیکن۔ ‘‘

شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ میں نے ان سے پوچھا۔

’’لیکن کہہ کر آپ چپ ہو گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آپ پھر بھی ناخوش تھے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اعتراف کیا

’’جی ہاں!میں ان تمام آسائشوں کے باوجود ناخوش تھا۔ اس لیے کہ میں اکیلا تھا۔ مجرد تھا۔ اگر میری دکان میں عورتیں اور لڑکیاں زیادہ نہ آتیں تو بہت ممکن ہے کہ مجھے اپنے تجرد کا احساس نہ ہوتا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔ کابل کی ہر صاحب ثروت عورت میری دکان میں آتی تھی۔ دکان میں داخل ہوتے ہی یہ عورتیں اور لڑکیاں اپنا برقع اتار کر ایک طرف رکھتیں اور سودا خریدنے میں مصروف ہو جاتیں۔ منٹو صاحب! آپ کا شاید یہ خیال ہو کہ وہ بڑا شرعی قسم کا لباس پہنتی ہوں گی، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یوں تو وہاں کی عورتیں اور لڑکیاں پردہ کرتی ہیں مگر لباس ٹھیٹ یورپین پہنتی ہیں۔ سکرٹ، کٹے ہوئے بال، رنگے ہوئے ناخن، پنڈلیاں ننگی۔ جب وہ میری دکان میں آتی تھیں تو اپنے برقعے اتار کر ایک طرف رکھ دیتی تھیں اور مال دیکھنے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے بولنا بند کیا تو میں نے ان سے پوچھا۔

’’آپ کو ان میں سے کسی سے محبت تو یقیناً ہو گئی ہو گی؟‘‘

شاہ صاحب بہت سنجیدہ ہو گئے۔

’’جی ہاں! ایک لڑکی سے ہو گئی تھی جو اپنا برقع نہیں اتارتی تھی، حتیٰ کہ نقاب بھی نہیں اٹھاتی تھی۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’کون تھی وہ؟‘‘

انھوں نے جواب دیا۔

’’ایک بہت بڑے گھرانے سے متعلق تھی۔ اس کا باپ فوج کا اعلیٰ افسر تھا۔ بڑا سخت گیر۔ مجھے اس سے صرف اس لیے محبت ہوئی کہ وہ ہاتھوں کے علاوہ اپنے جسم کا کوئی حصہ نہیں دکھاتی تھی۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’اس کی کیا وجہ؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں، اور نہ میں نے اس سے کبھی اس بارے میں استفسار ہی کیا۔ لیکن میرے تصور میں وہ انتہا درجے کی حسین تھی۔ گوری چٹی۔ جسم خواہ برقع میں لپٹا ہو، لیکن اس کے تناسب کے متعلق اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ میں نے چور آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ وہ جوانی کا آدرش مجسمہ ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ چند منٹوں کے لیے میری دکان میں آتی تھی۔ چیزیں خریدنے اور ان کی قیمتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں چند منٹ صرف کرتی تھی اور چلی جاتی تھی۔ میں نے شاہ صاحب سے کہا۔

’’یہ سلسلہ کب تک جاری رہا۔ ‘‘

قریب کے چھ مہینے تک مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کروں۔ میں اس سے بہت مرعوب تھا اس لیے وہ دوسروں سے مختلف تھی۔ اس میں ایک عجیب قسم کی رعونت تھی۔ میں اس کو بے طرح گھورتا تھا، حالانکہ یہ شائستگی نہیں تھی لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ منٹو صاحب! ایک دن میں دکان میں بیٹھا تھا اس کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نوکر نے ریسیور اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی خاتون آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ کوئی گاہک ہو گی اور نئے مال کے متعلق پوچھنا چاہتی ہو گی۔ اٹھ کر میں نے ریسیور ہاتھ میں لیا اور پوچھا۔ مادام! آپ کیا چاہتی ہیں؟ ادھر سے آواز آئی کیا آپ سید مظفر علی ہیں؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ ارشاد! اب میں نے آواز پہچان لی تھی۔ یہ اسی کی تھی۔ اسی کی جو میری دکان میں برقع نہیں اتارتی تھی۔ میں گھبرا گیا۔ منٹو صاحب! یہ عاشق ہونا بھی ایک عجیب لعنت ہے۔ ‘‘

یہ سن کر میں مسکرا دیا۔

’’آپ ٹھیک فرماتے ہیں شاہ صاحب۔ لیکن افسوس ہے کہ میں اس لعنت میں ابھی تک گرفتار نہیں ہوا۔ ‘‘

شاہ صاحب کو بہت افسوس ہوا۔

’’حد ہو گئی۔ انسان اپنی جوانی میں کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور عشق میں گرفتار ہوتا ہے۔ خیر، آپ کو ابھی تک عشق نہیں ہوا تو خدا کرے کہ بہت جلد ہو جائے، کیوں کہ یہ مرض بہت دلچسپ ہے۔ ‘‘

میں نے مسکراکر شاہ صاحب سے کہا۔

’’آپ اپنی داستان بیان کیجیے۔ مجھے عشق ہو گا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اس کی پوری روداد سنا دوں گا۔ ‘‘

شاہ صاحب کرسی پر سے اٹھ کر پلنگڑی پر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کرلیں۔

’’منٹو صاحب۔ میں اس لڑکی کے عشق میں اس بری طرح گرفتار ہوا کہ ورزش کرنا بھول گیا۔ وہ میری دکان پر اکثر آتی تھی۔ میں اس کو گھورتا تھا۔ لیکن دیکھیے میرا دماغ کتنا خراب ہو گیا ہے، یہ اسی عشق خانہ خراب کا باعث ہے۔ میں آپ سے اس کے ٹیلی فون کی بات کررہا تھا۔ جب میں نے ریسیور اٹھایا اور اس کی آواز پہچان لی تو اس نے مجھ سے کہا۔

’’دیکھو میں جب بھی تمہاری دکان پر آتی ہوں، تم مجھے گھورتے ہو۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو، تو ٹھیک ہو جاؤ ورنہ تمہارے حق میں برا ہو گا۔ منٹو صاحب! میں جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع کردیا۔ میں دیر تک گونگے ریسیور کو کان کے ساتھ لگائے کھڑا رہا، اور سوچتا رہا کہ اس دھمکی کا مطلب کیا ہے؟‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’کیا وہ دھمکی اصلی تھی؟‘‘

’’جی ہاں۔ چوتھے روز وہ میری دکان میں آئی تو میں نے اس کی نقاب کی طرف پھر انہی نگاہوں سے دیکھا تو اس نے جھنجھلا کر میرے ملازموں کے سامنے مجھ سے کہا۔

’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم مجھے اس طرح دیکھتے ہو‘‘

۔ میں سُن ہو گیا۔ لیکن اس نے چند چیزیں خریدیں۔ دام دیے اور اپنی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔ ‘‘

میں شاہ صاحب کی داستان میں کافی دلچسپی لے رہا تھا۔

’’عجیب لڑکی تھی۔ آپ سے اسے نفرت بھی تھی، مگر اس کے باوجود آپ کی دکان میں آتی تھی۔ ‘‘

شاہ صاحب نے آنکھیں کھولیں۔

’’منٹو صاحب! یہی وجہ تھی کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کی نفرت و حقارت مصنوعی ہے دراصل وہ میری محبت سے متاثر ہو چکی ہے اور محض بناوٹ کے طور پر غصے کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن جب ایک روز اس نے مجھے بہت زور سے لعن طعن کی تو میں سرد ہو گیا۔ پر اس کی محبت تھی جو میرے دل سے جاتی ہی نہیں تھی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس کو بھول جاؤں۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ تم عجیب بے وقوف ہو۔ ایک لڑکی جس کی تم نے شکل نہیں دیکھی۔ جو تم سے نفرت کرتی ہے، تم اس سے عشق فرما رہے ہو۔ باز آؤ، تمہارا کاروبار ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ سارے افغانستان میں تمہاری ساکھ ہے۔ یہ کیا جھک مار رہے ہو۔ لیکن منٹو صاحب! عشق بہت بری بلا ہے۔ میں اس سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکا۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’آپ خواہ مخواہ داستان طویل بناتے جارہے ہیں۔ انجام پر پہنچیے۔ ‘‘

شاہ صاحب پلنگڑی پر سے اٹھے اور کرسی پر بیٹھ گئے۔

’’حضرت! ایسی داستانیں اکثر طویل ہوا کرتی ہیں۔ عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا۔ محض ایک مذاق ہوتا ہے۔ خیر! اب جب کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی داستان طویل نہ بناؤں تو مختصر طورپر عرض کرتا ہوں کہ میرا عشق جب بہت شدت اختیار کرگیا تو ایک روز میں بے اختیار رونے لگا۔ میرے شہر امرتسر کا ایک باشندہ سردار بلونت سنگھ تھا جو مجیٹھ کے ایک اچھے خاندان کا فرد تھا۔ وہ کابل میں ایک انجینئرنگ فرم میں ملازم تھا۔ کھانے پینے والا آدمی تھا، اس لیے وہ ہر مہینے مجھ سے پچاس ساٹھ روپے قرض لے جاتا تھا۔ مزید قرض لینے کی غرض ہی سے وہ اس وقت میری دکان میں آیا، جب کہ میری آنکھیں نمناک تھیں۔ وہ میرے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے معلوم نہیں مجھ سے کیا پوچھا اور میں نے جانے کیا جواب دیا۔ لیکن جب اس نے مجھ سے یہ کہا۔

’’دوست! تم کو کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ‘‘

تو میں چونک پڑا، نہیں نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا اپنی گھنی مونچھوں کے اندر مسکرایا۔ تم جھوٹ بولتے ہو، صاف صاف بتاؤ، تمہیں یہاں کسی سے عشق ہوا ہے۔ میں خاموش رہا تو وہ پھر بولا، دیکھو اگر کوئی مشکل درپیش ہے تو ہم سب ٹھیک کردیں گے۔ جب اس نے اسی قسم کی چند اور باتیں کیں تو میں نے سارا معاملہ اس کو بتا دیا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’تو اس نے مشکل آسان کرنے کا کیا گُر بتایا؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’اس نے مجھے ایک منتر بتایا۔ ‘‘

’’منتر!‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’آپ سیّد ہیں۔ کیا آپ منتر جنتر یر ایمان لا سکتے ہیں؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’لانا تو نہیں چاہیے تھا کہ یہ ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن اس وقت سردار بلونت سنگھ کا مشورہ ماننا ہی پڑا، اس لیے کہ عشق بری بلا ہے۔ اس نے مجھے ایک منتر بتایا کہ سات رنگوں کے پھول لو۔ ان میں سے ہر ایک پر یہ منتر پڑھ کر پھونکو اور منگل کے روز اسی لڑکی کو کسی نہ کسی طریقے سے سنگھا دو۔ یہ منتر مجھے ابھی تک یاد ہے۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’ذرا سنائیے تو!‘‘

شاہ صاحب نے ایک لحظے کے لیے اپنے حافظے کو ٹٹولا اور کہا: کو رو دس مکھیا دیوی پُھل کِھڑے پُھل ہسے پُھل چگے نا ہر سنگھ پیارے جو کوئی لے پھولوں کی باس کبھی نہ چھوڑے ہمارا ساتھ ہمیں چھوڑا کسی اور کو کرے پیٹ پُھول بھسم ہو مرے دہائی سلیمان پیر پیغمبرکی! میں نے یہ منتر سنا تو مجھے اپنا لڑکپن یاد آگیا جب میں نے منتروں کی ایک کتاب خریدی تھی اور اس میں سے ایک منتر ازبر اس غرض سے کیا تھا کہ میں اسکول کے تمام امتحانوں میں پاس ہوتا چلا جاؤں۔ یہ منتر مجھے اب تک یاد ہے۔ اونگ نما کامشیری اُٰتما دے بھرینگ پراسواہ۔ لیکن اس کے پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نویں جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ میں نے اس منتر کا ذکر شاہ صاحب سے نہ کیا اور ان سے پوچھا۔

’’تو آپ نے سات رنگ کے پھولوں پر یہ منتر پڑھا؟‘‘

’’جی ہاں۔ میں نے سات رنگ کے پھول سوموار کو اکٹھے کیے۔ ان پر یہ منتر پڑھا اور اس لڑکی کو ٹیلی فون کیا کہ میری دکان میں چیکوسلوا کیا سے بہت اچھا مال آیا ہے۔ منگل کو وہ آکے دیکھ لے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’کیا وہ آئی؟‘‘

’’جی ہاں۔ وہ آئی۔ اس نے مجھے ٹیلی فون پر کہہ دیا تھا کہ وہ آئے گی۔ شام کو پانچ بجے کے قریب۔ میں اس کا انتظار کرتا رہا۔ وہ ٹھیک پانچ بج کر پانچ منٹ پر آئی اور اس نے چیکوسلواکیا کے مال کے متعلق استفسار کیا۔ غرض یہ ہے کہ مال وال کا قصہ بالکل فراڈ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ملازموں نے ابھی تک پیٹیاں نہیں کھولیں، آپ کل تشریف لائیے گا۔ وہ بہت جز بز ہوئی۔ میں منتر پڑھے پھولوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس نے بھی ان پھولوں کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا یہ پھول تمہاری میز پر کہاں سے آگئے؟۔ میں نے جواب دیا یہ میں نے آپ کے لیے خریدے تھے۔ اگر آپ کو پسند ہوں۔ میرا مطلب ہے اگر آپ کو ان کی خوشبو پسند ہوتو آپ انھیں قبول فرمائیں۔ اس نے وہ سات پھول اٹھائے اور انھیں سونگھا۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’اس لڑکی کا رد عمل کیا تھا؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’اس نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ یہ پھول ہیں؟ ان میں نہ تو خوشبو ہے نہ بدبو۔ بہر حال، اس نے وہ پھول سونگھے۔ چند چیزیں خریدیں اور چلی گئی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا میری دکان پر آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہو، وہ پھول سنگھا دیے؟۔ میں نے اس سے کہا سنگھا تو دیے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ مجھے معلوم نہیں۔ سردار بلونت سنگھ ہنسا۔ اس نے بڑے زور سے میرا ہاتھ دبایا اور کہا دوست! اب تمہارا کام سمجھو کہ پندرہ آنے ہو گیا ہے۔ ‘‘

مجھے بڑی حیرت تھی کہ منتر کے ذریعے ایسا کام پندرہ آنے کیوں کر ہوسکتا ہے، مگر سیّد صاحب نے کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب! آپ یقین مانیے کہ میرا کام پندرہ آنے مکمل ہو گیا۔ دوسرے دن کوکو جان کا ٹیلی فون آیا کہ وہ کچھ چیزیں خریدنے کے لیے آرہی ہے۔ میں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ کوئی چیز خریدنا نہیں چاہتی تھی۔ بہت دیر تک وہ میری دکان میں ادھر ادھر پھرتی رہی۔ اس کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئی، تم سے میں کئی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ مجھے گھورا نہ کرو۔ اور وہ جو تم نے پھول سنگھائے تھے، اس کا کیا مطلب تھا۔ ؟‘‘

میں نے کوکو جان سے لکنت بھرے لہجے میں کہا۔

’’میں۔ میں۔ وہ پھول جو تھے۔ پھول تھے۔ میں نے۔ میں نے۔ مال جو چیکوسلواکیہ سے آیا تھا، کھلا ہوا نہیں تھا، اس لیے میں نے وہ پھول آپ کی خدمت میں پیش کردیے۔ کو کو جان برقع میں سخت مضطرب تھی۔ اس نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔

’’تم نے مجھے پھول کیوں سنگھائے؟‘‘

۔ میں نے اس سے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا۔

’’کیا آپ کو اس سے کوئی تکلیف ہوئی۔ ‘‘

وہ بڑے گرم انداز میں بولی

’’تکلیف۔ ؟ میں ساری رات وہ سات پھول دیکھتی رہی ہوں۔ پھول آتے تھے اور جب میں انھیں حاصل کرنا چاہتی تھی تو وہ مجھ سے پرے ہٹ جاتے تھے۔ یہ کیسے پھول تھے؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’میرے وطن کے تھے۔ چونکہ میرے وطن کے تھے، اس لیے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ وہ رات بھر آپ کو کیوں نظر آتے اور ستاتے رہے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’یہ پھول آپ نے کہاں سے منگوائے تھے؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’جی! منگوائے کہاں سے تھے، وہیں افغانستان کے تھے۔ نہایت واہیات قسم کے پھول جن میں خوشبو نام کو بھی نہیں تھی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ آیا، مزید قرض لینے کے لیے۔ اس نے مجھ سے قرض لینے سے پہلے دریافت کیا۔

’’کہیے شاہ صاحب! اس معاملے کا کیا ہوا؟‘‘

میں نے اس کو ساری بات بتا دی۔ وہ قرض لینا بھول گیا۔ اپنا بالوں بھرا ہاتھ میرے کندھے پر زور سے مار کر چلایا۔

’’شاہ جی! آپ کا کام سولہ آنے ہو گیا ہے۔ وسکی کی ایک بوتل منگائیے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ انھوں نے وسکی کی بوتل کے علاوہ ایک ڈبہ سگریٹوں کا بھی منگوایا، جس میں سے سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا تمباکو نوشوں کے ٹھیٹ انداز میں پے در پے کئی سگریٹ پھونکتے رہے۔ جب جانے لگے تو انھوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ دیکھو ابھی توڑی سی کسر باقی ہے۔ اگلے منگل کو تم اور سات پھول لو اور ان پر وہی منتر پڑھ کر اس لڑکی کو سنگھا دو۔ بیڑا پار ہو جائے گا۔ شاہ صاحب بہت پریشان ہوئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اب کی کوکو جان کو پھول کیسے سنگھاسکیں گے جب کہ وہ اس معاملے کے متعلق شاکی تھی۔ لیکن معاملہ عشق کا تھا، اس لیے شاہ صاحب موت کے منہ میں جانے کے لیے بھی تیار تھے۔ شاہ صاحب نے پشاور سے پھول منگوائے۔ ان میں سے سات منتخب کیے اور ہر ایک پر منتر پڑھا اور اپنے میز کے گلدان میں رکھ دیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی دکان میں جا بجا گلدان رکھوائے اور ان میں پھول سجا دیے۔ پیر کو صاحب نے کوکو جان کو ٹیلی فون کیا اور اس سے پھر جھوٹ بولا کہ چیکوسلواکیہ کا مال کھل گیا ہے۔ آپ آئیے اور دیکھ لیجیے۔ کوکو جان آئی، مگر مال وال موجود نہیں تھا۔ شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے بوکھلائے، پھر ذرا ہوش سنبھال کر اپنے نوکروں کو لعن طعن کی کہ تم نے ابھی تک مال کیوں نہیں کھولا۔

’’کوکو جان کے ساتھ اس کی والدہ بوبو جان بھی تھی۔ وہ ایک طرف ٹائلٹ کا سامان دیکھنے میں مصروف تھی۔ کوکو جان نے جب دکان میں جا بجا پھول دیکھے تو وہ متعجب ہونے کے علاوہ مضطرب بھی ہوئی۔ ‘‘

میری میز پر وہ خاص پھول پڑے تھے۔ وہ ان کے پاس آئی، گلدان میں سے اٹھا کر اس نے انھیں سونگھا اور مجھ سے کہا۔

’’یہ افغانستان کے پھول نہیں۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ یہ میرے وطن کے ہیں۔ اور میں نے خاص آپ کے لیے منگوائے ہیں۔ بوبو جان خرید و فروخت میں مشغول تھی۔ اس دوران میں کوکو جان سے میں نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ وہ سخت ناراض ہوئی اور اپنی ماں کے ساتھ چلی گئی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا آیا۔ اس سے بات چیت ہوئی۔ میں نے اس کو دس روپے قرض دیے۔ جب اس نے روپے اپنی جیب میں ڈالے تو مجھ سے پوچھا آج منگل ہے۔ وہ پھول سنگھا دیے تھے آپ نے؟ میں نے سارا واقعہ بیان کردیا۔ سردار بلونت سنگھ نے اپنا بالوں بھرا ہاتھ زور سے میرے ہاتھ پرمارا اور کہا شاہ جی، اب کام سترہ آنے پورا ہو گیا ہے۔ وسکی کی ایک بوتل منگاؤ۔ ‘‘

شاہ صاحب نے وسکی کی بوتل منگوائی۔ سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا نے آدھی دکان میں پی اور آدھی اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’دوسری دفعہ پھول سنگھانے سے کیا نتیجہ برآمد ہوا؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’وہ بہت بے چین ہو گئی۔ اسے دن رات اتنے پھول نظر آنے لگے کہ ایک دن وہ سخت اضطراب کی حالت میں آئی۔ برقع جو اس نے کبھی اتارا نہیں تھا، کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’دیکھو شاہ! تم نے مجھ پر کوئی جادو کردیا ہے۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو مجھے پہلی بار نظر آیا تھا منٹو صاحب! میں نے اپنی زندگی میں اس جیسی حسین لڑکی اب تک نہیں دیکھی۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ اس نے بڑے تیز و تند لہجے میں کہا۔

’’تم نے مجھے پھول کیوں سنگھائے تھے۔ میں پاگل ہوئی جارہی ہوں۔ دن ہو یا رات، ہر وقت مجھے وہ تمہارے پھول دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہوں۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک شریف گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میرے والدین عنقریب میری شادی کررہے ہیں۔ تم نے مجھ پر کیا جادو پھونکا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے میرے میز پر سے گلدان میں سے پھول نکالے اور فرش پر پھینک کر اپنی سینڈل سے مسل دیے۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ ناراض ہونے کے باوجود ناراض نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ میں اس سے باتیں کروں۔ لیکن مجھے اس کا یقین نہیں تھا اس لیے خاموش رہا۔ وہ کچھ دیر غصے کی حالت میں کھڑی رہی۔ اس کے بعد اس نے برقع پہنا اور چلی گئی۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’تو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا کا منتر کام کرگیا!‘‘

’’جی ہاں، کام کر گیا۔ اس کو پھول ہی پھول نظر آتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ سب بکواس ہے، مگر کوکو جان کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ منتر اپنا اثر کر گیا ہے، حالانکہ جو منتر آپ سن چکے ہیں، اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ اثر کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ جب پھر میری دکان میں آئی تو برقع اتار کر مجھ سے بغل گیر ہو گئی اور رونا شروع کردیا۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ چوما۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری میز پر گلدان میں جو پھول پڑے تھے، اس نے نکالے اور انھیں نوچ کر ایک طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ برقع پہن کر تیزی سے باہر نکل گئی۔ داستان کافی طوالت پکڑ رہی تھی۔ میں نے صاحب سے کہا۔

’’آپ مختصر فرمائیے کہ انجام کیا ہوا۔ کیا وہ لڑکی آپ کو مل گئی؟‘‘

شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔

’’جی نہیں۔ اس کی شادی ہو گئی۔ مگر حجلہء عروسی میں داخل ہوتے ہی معلوم نہیں کیا ہوا کہ وہ گری اور گرتے ہی مر گئی۔ اس کے ہاتھ میں سات پھول تھے مختلف رنگوں کے۔ میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب کی پلنگڑی کے ساتھ تپائی پر پیتل کے پھولدان میں سات مختلف رنگوں کے پھول اڑسے ہوئے تھے۔

سعادت حسن منٹو

بلاؤز

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا وجود کچّا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے حتیٰ کہ سوچنے پر بھی اُسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو وہ بیان بھی کرنا چاہتا۔ تو نہ کر سکتا۔ بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دُھندلے دُھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں۔ مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے باعث اُسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدّت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے۔

’’مجھے کوٹنا شروع کر دو۔ ‘‘

باورچی خانہ میں گرم مصالحہ کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی۔ تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ پیروں کے ذریعے سے یہ لرزش اُس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی، جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔ مومن کی عمر پندرہ برس کی تھی۔ شاید سولھواں بھی لگا ہو۔ اُسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکاتھا۔ جس کا لڑکپن تیز قدمی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا۔ اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی تھی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر ناکام رہتا تھا۔ اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی۔ اب موٹی ہو گئی تھی۔ انھوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی تہ موٹی ہو گئی تھی۔ اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں۔ جگہ اُبھر آئی تھی۔ جیسے کسی نے ایک ایک برنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دوران میں غیرارادی طور پر جب اس کا ہاتھ ان گولیوں سے چھُو جاتا۔ تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھُردرے کپڑے سے بھی اس کو تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہو مومن اپنی قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا تھا۔ ہاتھوں سے مسلتا تھا۔ درد ہوتا ٹیسیں اٹھتیں۔ اس کا سارا جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح جسے زور سے ہلایا گیا ہو کانپ کانپ جاتا۔ مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا تھا کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے لیسدار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا۔ وہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے سامنے نہ کر سکتا ہو۔ اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا۔ تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کر لیتا۔ کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اس کھیل میں مشغول ہو جاتا۔ مومن سے گھر والے سب خوش تھے۔ وہ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ سب ہر کام وقت پر کر دیتا تھا اور کسی شکایت کا موقعہ نہ دیتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اُسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اُس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبیعت سے متاثر کر لیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر وہ نوکر ہوا تھا۔ مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دیے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی۔ مگر وہ اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے۔ یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔ اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہیں کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر اُدھر کے کام لیتی تھی۔ اور کبھی کبھی اُسے ڈانٹتی بھی تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے۔ جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا۔ شکیلہ اُس سے آٹھ بلاوز مانگ کر لائی تھی۔ اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی۔ چنانچہ اُس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے۔ یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی۔ زیادہ تر باورچی خانے کا کام یہی کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اُس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو۔ مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اور وہ انقلاب جس میں سے مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا۔ اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ اس لیے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکتی تھی اور پھر مومن نوکر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے؟ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آ نکلا تھا۔ جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا۔ مگر بے حد پُر خطر تھا۔ اس راستے پر اُس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے۔ کبھی ہولے ہولے۔ وہ دراصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہیے۔ انھیں جلدی طے کر جانا چاہیے۔ یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہیے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنیوالے شباب کی گول گول چکنی بٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا۔ اور اُس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اُسے کوئی، اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔ غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو۔۔۔۔۔ کیا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔ بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چُنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اُچھلنا شروع کر دیں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکنا پانی کے ایک ہی اُبال سے اُوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نالی پر دباؤ ڈالے۔ تو وہ دُہری ہو جائے۔ اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھُوٹ نکلے۔ اُسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔۔۔۔۔ کوئی ایسی بات وقوع پزیر ہو۔ جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی فلمی طرزیں سیکھنے میں مشغول تھی۔ اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نمونے اتار رہی تھی۔ اور جب اس نے یہ کام ختم کر لیا۔ تو وہ نمونہ جو ان میں سب سے اچھا تھا۔ سامنے رکھ کر اپنے لیے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجا اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پُر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افراتفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح ہوتی تھی۔ اس لیے کہ وہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی۔ یوں وقت زیادہ صرف ہوتا تھا۔ مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔ شکیلہ بھرے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی۔ اُس کے ہاتھ بہت گدگدے تھے گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا۔ جب وہ مشین چلاتی تھی یہ ننھے ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب بھی ہو جاتے تھے۔ شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی رعنائی کے ساتھ مشین کی ہتھی کو گھماتی تھی اُس کی کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا اس طرف کو جھُک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لِٹ جسے شاید اپنے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔ جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلا کر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا اپنا ٹیپ گھِس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا۔ مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاوز موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لیے ساری پیمائشیں دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔ قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا۔

’’جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔ ‘‘

مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان کے ساتھ ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رُخ دوسری طرف پھیر لیا۔ اور گھبراہٹ میں کہا۔

’’کیسا گز بی بی جی‘‘

شکیلہ نے جواب دیا۔

’’کپڑے کا گز۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے جو کپڑے کا بنا ہوتا ہے۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔ ‘‘

چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے یہ گز اس کے ہاتھ سے لیا اور کہا۔

’’یہیں ٹھیر جاؤ۔ اسے ابھی واپس لے جانا‘‘

پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی۔

’’ان لوگوں کی کوئی چیز زیادہ دیر اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کرکرکے پریشان کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر آؤ اور یہ گز لو اور یہاں سے میرا ناپ لو‘‘

رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ناپ لینا شروع کیا۔ تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئی۔ مومن دروازے کی دہلیز میں کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔ رضیہ تم گز کو کھینچ کر ناپ کیوں نہیں لیتیں۔۔۔۔۔۔ پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ تم نے ناپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہو گیا۔ اوپر کے حصّہ پر اگر کپڑا فِٹ نہ آئے تو ادھر اُدھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں کالوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ناپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کر لو۔۔۔۔۔۔۔ ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی‘‘

’’بھئی واہ۔۔۔۔۔۔۔ چیز کے فٹ ہونے میں تو ساری خوبصورتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔ لو اب تم ناپ کو۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے سے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھُول گیا۔ تو سانس روک کر اُس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔

’’لو اب جلدی کرو‘‘

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا۔ اس کے اندر کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ گز لائیے بی بی جی۔۔۔۔۔ میں دے آؤں‘‘

شکیلہ نے اسے جھڑک دیا۔

’’ذرا ٹھہر جاؤ۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اُگ رہے تھے۔ مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اُس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی۔ کہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بھٹوں کے کالے اور سنہرے بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو اُسے سرسراہٹ اُسے محسوس ہوا کرتی تھی۔ اُسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔ شکیلہ کا بازو اب نیچے جھُک گیا تھا۔ اور اُس کی بغل چھُپ گئی تھی۔ مگر مومن اب بھی کالے کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا۔ اور بغل میں اُس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا۔

’’جاؤ، اُسے واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیا ہے‘‘

مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اُس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے سے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک وہ ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ تو اُس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا جس میں اُس نے عید کے لیے نئے کپڑے بنوا کر رکھے تھے۔ جب ٹرنک کا ڈھکنا کھلا۔ اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر اور یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔۔۔۔۔ اُس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی۔ اور اس کی رومی ٹوپی۔۔۔۔۔۔‘‘

رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا۔ اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا۔ جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا۔ کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔

’’مومن۔ ‘‘

مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا۔ اور اندر چلا گیا۔ جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘

مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔

’’نہیں بی بی جی۔ ‘‘

’’تو کیا کر رہے تھے؟‘‘

’’کچھ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں؟‘‘

’’کچھ تو ضرور کرتے ہو گے

’’شکیلہ یہ سوال کیے جا رہی تھی۔ مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا۔ جسے ا ب اُسے کچّا کرنا تھا۔ مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔

’’ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔ شکیلہ کھکھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب سی تسکین ہوئی۔ اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے۔ چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اُس نے کہا۔

’’بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لاؤں گا‘‘

شکیلہ نے ہنستے ہوئے اُس سے پوچھا۔

’’کیا کرو گے اس رومال کو؟‘‘

مومن نے جھینپ کر جواب دیا۔

’’گلے میں باندھ لوں گا بی بی جی۔۔۔۔۔۔ بڑا اچھا معلوم ہو گا۔ ‘‘

یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔

’’گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا میں اسی سے پھانسی دے دوں گی تمھیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی۔ اور رضیہ سے کہا

’’کمبخت نے مجھے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟‘‘

رضیہ نے جواب نہ دیا۔ اور وہ نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آ گیا۔ کہ اس نے مومن کو کیوں بلایا تھا۔ دیکھو مومن۔ میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کی دوکان کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہی جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کا وہ کیا لے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہنا ہم پوری چھ لیں گے۔ اس لیے کچھ رعایت ضرور کرے۔۔۔۔۔ سمجھ لیا نا؟‘‘

مومن نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’اب تم پرے ہٹ جاؤ۔ ‘‘

مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آکر گرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی۔

’’کہنا ہم اسی قسم، اسی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا۔ جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی ہٹا لیا ہو۔ بدن کی بُو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔ وہ اس بنیان کو جو بلّی کے بچے کی طرح ملائم تھا۔ اپنے ہاتھوں میں مسلتا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ واؤ دریافت کرکے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس سیاہی مائل ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچکدار تھی۔ یہ بلاؤز شاید عید کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ کیونکہ عید اب بالکل قریب آ گئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کے لیے، استری نکالنے کے لیے۔ سُوئی ٹوٹی تو نئی سوئی لانے کے لیے۔ شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اُودی ساٹن کی بیکار کتریں اٹھانے کے لیے بھی اُسے بلایا گیا۔ مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر اودی ساٹن کی چمکدار کتریں اپنی جیب میں رکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔ بالکل بے مطلب کیونکہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کو کیا کرے گا؟ ! دوسرے روز اس نے جیب سے کتریں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی۔ جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا چھوٹا سا گُچھا دیکھا تھا۔ اُس دن بھی اُسے شکیلہ نے اُسے کئی بار بلایا۔۔۔۔۔۔ کالی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔ پہلے جب اُسے کچّا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جابجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری کی گئی۔ جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں۔ اور چمک بھی دو بالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچیحالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھا رمیز کے پاس جا کر آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی طرح دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا، جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا۔ وہاں نشان بنائے، اور اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا۔ جب بالکل فِٹ ہو گیا تو پکّی سلائی شروع کی۔ ادھر اودی ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا۔ ادھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے جیسے ٹانکے سے ادھڑ رہے تھے۔۔۔۔۔ جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھُو کر اُسے دیکھے۔ صرف چھُو کر ہی نہیں دیکھے ۔۔۔۔۔ بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔۔۔۔۔۔ اپنے کھُردرے ہاتھ۔ اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمی کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اُس نے ان کا گُچھا بنایا تھا تو دباتے وقت اُسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑ سی لچک بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ جب اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا اس کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال مومن سوچتا تھا۔ کیا وہ بھی اس ساٹن ہ کی طرح ملائم ہوں گے۔ بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا۔ جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سِلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہُک لگائے اور آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ مومن نے فرش صاف کرتے کرتے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی۔ جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری۔ بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی مومن سے نہ رہا گیا۔ چنانچہ اُس نے کہا۔

’’بی بی جی۔ آپ نے تو درزیوں کو بھی مات کر دیا!‘‘

شکیلہ اپنی تعریف سُن کر خوش ہوئی۔ مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ اس لیے وہ صرف اچھا سِلا ہے نا؟‘‘

کہہ کر باہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔ رات کو جب وہ پھر اُس کمرے میں صُراحی رکھنے کے لیے آیا۔ تو اُس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اُس نے غور سے دیکھا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے اُسے یہ محسوس ہوا۔ کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روئیں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔ رات کو جب وہ سویا تو اُس نے کئی اُوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔۔۔۔۔۔۔ ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اُسے کوٹنے کو کہا۔ جب اُس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ایک ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے۔ جن کا گولہ بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنا شروع ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ پھندنے کی تلاش میں وہ نکلا۔۔۔۔۔۔ دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نئے لٹھے کی بُو بھی کہیں سے آنا شروع ہوئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ ایک کالی ساٹن کے بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر وہ اس دھڑکتی ہوئی چیز پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتاً ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اُسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی۔۔۔۔۔۔ پہلے اُسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی تھی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اُس کے جسم پر رینگنے لگی۔

سعادت حسن منٹو

بغیر اجازت

نعیم ٹہلتا ٹہلتا ایک باغ کے اندر چلا گیا۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پُر فضا جگہ ہے۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے اوجھل رہی۔ نظریں۔ اوجھل۔ اتنا کہہ کر وہ مسکرایا۔ نظر ہو تو چیزیں نظر بھی نہیں آتیں۔ آہ کہ نظر کی بے نظری! دیر تک وہ گھاس کے اس تختے پر لیٹا اور ٹھنڈک محسوس کرتا رہا۔ لیکن اس کی خود کلامی جاری تھی۔

’’یہ نرم نرم گھاس کتنی فرحت ناک ہے! آنکھیں پاؤں کے تلووں میں چلی آئیں۔ اور یہ پھول۔ یہ پھول اتنے خوبصورت نہیں جتنی ان کی ہرجائی خوشبو ہے۔ ہر شے جوہر جائی ہو۔ خوبصورت ہوتی ہے۔ ہر جائی عورت۔ ہر جائی مرد۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ خوبصورت چیزیں پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ یا خوبصورت خیال۔ ہر خیال خوبصورت ہوتا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر پھول خوبصورت نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہ پھول۔ اس نے اٹھ کر ایک پھول کی طرف دیکھا اور اپنی خود کلامی جاری رکھی۔ یہ اس ٹہنی پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ کتنا سفلہ دکھائی دیتا ہے بہر حال ٗ یہ جگہ خوب ہے۔ ایک بہت بڑا دماغ معلوم ہوتی ہے۔ روشنی بھی ہے۔ سائے بھی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں نہیں بلکہ یہ جگہ سوچ رہی ہے۔ یہ پُرفضا جگہ جو اتنی دیر میری نظروں سے اوجھل رہی۔ اس کے بعد نعیم فرطِ مُسرت میں کوئی غزل گانا شروع کر دیتا ہے۔ کہ اچانک موٹر کے ہارن کی کرخت آواز اس کے سازِ دل کے سارے تار جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ چونک کر اٹھتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ ایک موٹر پاس کی روش پر کھڑ ی ہے اور ایک لمبی لمبی مونچھوں والا آدمی اس کی طرف قہرآلود نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس مونچھوں والے آدمی نے گرج کر کہا :

’’اے تم کون ہو۔ ‘‘

نعیم جو اپنے ہی نشے میں سر شار تھا ٗ چونکا۔

’’یہ موٹر اس باغ میں کہاں سے آگئی۔ ‘‘

مونچھوں والا جو اس باغ کا مالک تھا بڑ بڑایا۔

’’وضع قطع سے تو آدمی شریف معلوم ہوتا ہے مگر یہاں کیسے گھس آیا۔ کس اطمینان سے لیٹا تھا جیسے اس کے باوا کا باغ ہے۔ ‘‘

پھر اس نے بلند آواز میں للکار کے نعیم سے کہا :

’’اماں۔ کچھ سنتے ہو۔ ‘‘

نعیم نے جواب دیا :

’’حضور سن رہا ہوں۔ تشریف لے آئیے۔ یہاں بہت پُر فضا جگہ ہے۔ ‘‘

باغ کا مالک بھِنّا گیا:

’’تشریف کا بچہ۔ اِدھر آؤ۔ ‘‘

نعیم لیٹ گیا۔

’’بھئی مجھ سے نہ آیا جائے گا تم خود ہی چلے آؤ۔ واللہ ! بڑی دلفریب جگہ ہے تمہاری سب کوفت دُور ہو جائے گی۔ ‘‘

باغ کا مالک موٹر سے نکلا۔ اور غصے میں بھرا ہوا نعیم کے پاس آیا :

’’اُٹھو یہاں سے۔ ‘‘

نعیم کے کانوں میں اس کی تیکھی آواز بہت ناگوار گزری۔ ‘‘

اتنے اونچے نہ بولو۔ آؤ ٗ میرے پاس لیٹ جاؤ۔ بالکل خاموش جس طرح کہ میں لیٹا ہوا ہوں۔ آنکھیں بند کر لو۔ اپنا سارا جسم ڈھیلا چھوڑ دو۔ دماغ کی ساری بتیاں گل کر دو۔ پھر جب تم اس اندھیرے میں چلو گے تو ٹٹولتی ہوئی تمہاری انگلیاں غیر ارادی طور پر ایسے قمقمے روشن کریں گی جن کے وجود سے تم بالکل غافل تھے۔ آؤ میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔ ‘‘

باغ کے مالک نے ایک لحظہ سوچا۔ نعیم سے کہا

’’دیوانے معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘

نعیم مسکرایا :

’’نہیں۔ تم نے کبھی دیوانے دیکھے ہی نہیں۔ میری جگہ یہاں اگر کوئی دیوانہ ہوتا تو وہ ان بکھری ہوئی جھاڑیوں اور ٹہنیوں پر بچوں کے گالوں کے مانند لٹکے ہوئے پھولوں سے کبھی مطمئن نہ ہوتا۔ دیوانگی اطمینان کا نام نہیں میرے دوست۔ لیکن آؤ ! دیوانگی کی باتیں کریں۔ ‘‘

’’بکواس بند کرو۔ نکل جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

باغ کے مالک کو طیش آگیا۔ اس نے اپنے ڈرائیورکو بلایا اور کہا کہ نعیم کو دھکے مار کر باہر نکال دے۔

’’ارے تم کون ہو ٗ بڑے بد تمیز معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘

جب نعیم باہر جارہا تھا تو اس نے گیٹ پر ایک بورڈ دیکھا جس پر یہ لکھا تھا

’’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے۔ ‘‘

وہ مسکرایا۔ حیرت ہے کہ یہ میری نظروں سے اوجھل رہا۔ نظر ہو تو بعض چیزیں نظر نہیں بھی آتیں۔ آہ نظر کی یہ بے نظری۔ یہاں سے نکل کر وہ ایک آرٹ کی نمائش میں چلا گیا تاکہ اپنا ذہنی تکدر دور کرسکے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی اس کو عورتوں اور مردوں کا جھرمٹ نظر آیا جو دیواروں پر لگی پینٹنگز دیکھ رہا تھا۔ ایک مرد کسی پارسی عورت سے کہہ رہا تھا :

’’مسز فوجدار۔ یہ پینٹنگ دیکھی آپ نے۔ ‘‘

مسز فوجدار نے تصویر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ایک عورت شیریں کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور اس مرد سے جو غالباً اس کا ہونے والا شوہر تھا کہا:

’’تم نے دیکھا، شیریں کتنی سج بن کر آئی ہے !‘‘

ایک نوجوان عورت ایک نو عمر لڑکی سے کہہ رہی تھی:

’’ثریا ! ادھر آ کے تصویریں دیکھ۔ تو وہاں کھڑی کیا کر رہی ہے۔ ‘‘

ثریا کو تصویروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اصل میں اس کو ایک بوائے فرینڈ سے ملنا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا مرد جسے پینٹنگ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ٗ اپنے ادھیڑ عمر کے دوست سے کہہ رہا تھا:

’’زکام کی وجہ سے نڈھال ہے ٗ ورنہ ضرور آتی۔ آپ جانتے ہی ہیں پینٹنگز سے اسے کتنی دلچسپی ہے ٗ اب تو وہ بہت اچھی تصویریں بنا لیتی ہے ٗ پرسوں اس نے پنسل کاغذ لے کر اپنے چھوٹے بھائی کی سائیکل کی تصویراتاری۔ میں تو دنگ رہ گیا۔ ‘‘

نعیم پاس کھڑا تھا۔ اس نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا :

’’ہو بہو سائیکل معلوم ہوتی ہو گی !‘‘

دونوں دوست بھونچکے سے ہو کر رہ گئے کہ یہ کون بد تمیز ہے ٗ چنانچہ ان میں سے ایک نے نعیم سے پوچھا:

’’آپ کون۔ ‘‘

نعیم بوکھلا گیا

’’میں۔ میں۔ ‘‘

’’میں میں کیا کرتے ہو۔ بتاؤ تم کون ہو!‘‘

نعیم نے سنبھل کر کہا : آپ ذرا آرام سے پوچھیے۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ‘‘

’’تم یہاں آئے کیسے!‘‘

نعیم کا جواب بڑا مختصر تھا،

’’جی پیدل۔ ‘‘

عورتوں اور مردوں نے جو آس پاس کھڑے تصویریں دیکھنے کی بجائے خدا معلوم کن کن چیزوں پر تبصرہ کر رہے تھے ہنسنا شروع کر دیا۔ اتنے میں اس نمائش کا ناظم آیا۔ اس کو نعیم کی گستاخی کے متعلق بتایا گیا تو اس نے بڑے کڑے انداز میں اس سے پوچھا

’’تمہارے پاس کارڈ ہے؟‘‘

’’بغیر اجازت تم اندر چلے آئے۔ جاؤ بھاگ جاؤ یہاں سے !‘‘

نعیم ایک تصویر کو دیر تک دیکھنا چاہتا تھا مگر اسے بادل نخواستہ وہاں سے نکلنا پڑا۔ سیدھا اپنے گھر گیا دروازے پر دستک دی اس کا نوکر فضلو باہر نکلا نعیم نے اس سے درخواست کی :

’’کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ ‘‘

فضلو بوکھلا گیا۔

’’حضور۔ حضور۔ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔ اجازت کیسی‘‘

نعیم نے کہا :

’’نہیں فضلو۔ یہ میرا گھر نہیں۔ یہ گھر جو مجھے راحت بخشتا ہے ٗ کیسے میرا ہوسکتا ہے۔ مجھے اب ایک نئی بات معلوم ہوئی ہے۔ ‘‘

فضلو نے بڑے ادب سے پوچھا :

’’کیا سرکار؟‘‘

نعیم نے کہا:

’’یہی کہ یہ میرا گھر نہیں۔ البتہ اس کا گرد و غبار۔ اس کی تمام غلاظتیں میری ہیں۔ وہ تمام چیزیں جن سے مجھے کوفت ہوتی ہے میری ہیں لیکن وہ تمام چیزیں جن سے مجھے راحت پہنچتی ہے کسی اور کی۔ خدا جانے کس کی۔ میں اب ڈرتا ہوں۔ کسی اچھی چیز کو اپنانے سے خوف لگتا ہے۔ یہ پانی میرا نہیں۔ یہ ہوا میری نہیں۔ یہ آسمان میرا نہیں۔ وہ لحاف جو میں سردیوں میں اوڑھتا ہوں ٗ میرا نہیں۔ اس لیے کہ میں اس سے راحت طلب کرتا تھا۔ فضلو جاؤ۔ تم بھی میرے نہیں۔ ‘‘

نعیم نے فضلو کو کوئی بات کرنے نہ دی۔ وہ چلا گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ ہیرا منڈی کے ایک کوٹھے سے

’’پیابن ناہیں آوت چین‘‘

کے بول باہر اڑ اڑ کے آرہے تھے نعیم اس کوٹھے پر چلا گیا۔ اندر مجرا سننے والے تین چار مردوں کی طرف دیکھا۔ اور طوائف سے کہا

’’ان اصحاب کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔ ‘‘

طوائف مسکرائی:

’’انہیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ادھر مسند پر بیٹھیے گاؤ تکیہ لے لیجیے!‘‘

نعیم بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا اور اس طوائف سے کہا :

’’یہ کتنی اچھی جگہ ہے !‘‘

طوائف سنجیدہ ہو گئی:

’’آپ کیا میرا مذاق اُڑانے آئے ہیں۔ یہ اچھی جگہ ہے۔ جسے تمام شرفا حد سے زیادہ گندی جگہ سمجھتے ہیں۔ ‘‘

نعیم نے اس سے کہا:

’’یہ اچھی جگہ اس لیے ہے کہ یہاں

’’بغیر اجازت کے آنا منع ہے‘‘

کا بورڈ آویزاں نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر طوائف اور اس کا مُجرا سننے والے تماش بین ہنسنے لگے۔ نعیم نے ایسا محسوس کیا کہ دنیا ایک اس قسم کی طوائف ہے جس کا مُجرا سننے کے لیے اس قسم کے چغد آتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو

بسم اللہ

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی۔ سعید بہت متاثر ہوا۔ بمبئی میں اس نے ظہیر کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر مفصل ملاقات پہلی مرتبہ لاہور میں ہوئی۔ لاہور میں یوں تو بے شمار فلم کمپنیاں تھیں مگر سعید کو اس تلخ حقیقت کا علم تھا کہ ان میں سے اکثر کا وجود صرف ان کے نام کے بورڈوں تک ہی محدود ہے۔ ظہیر نے جب اس کو اکرم کی معرفت بلایا تو اس کو سو فیصدی یقین تھا کہ ظہیر بھی دوسرے فلم پروڈیوسروں کی طرح کھوکھلا ہے جو لاکھوں کی باتیں کرتے ہیں۔ آفس قائم کرتے ہیں۔ کرائے پر فرنچیر لاتے ہیں اور آخر میں آس پاس کے ہوٹلوں کے بل مار کر بھاگ جاتے ہیں۔ ظہیر نے بڑی سادگی سے سعید کو بتایا کہ وہ کم سے کم سرمائے سے فلم بنانا چاہتا ہے۔ بمبئی میں وہ اسٹنٹ فلم بنانے والے ڈائریکٹر کا اسسٹنٹ تھا۔ پانچ برس تک وہ اس کے ماتحت کام کرتا رہا۔ اس کو خود فلم بنانے کا موقعہ ملنے ہی والا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور اسے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں وہ تقریباً ڈھائی سال بیکار رہا مگر اس دوران میں اس نے چند آدمی ایسے تیار کرلیے جو روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے سعید سے کہا

’’دیکھیے جناب میں کوئی فرسٹ کلاس فلم بنانا نہیں چاہتا۔ کم فلم آدمی ہوں۔ اسٹنٹ فلم بنا سکتا ہوں اور انشاء اللہ اچھا اسٹنٹ فلم بناؤں گا۔ پچاس ہزار روپوں کے اندر اندر سو فیصدی نفع تو یقینی ہے۔ آپ کا خیال ہے؟‘‘

سعید نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔

’’ہاں، اتنا نفع تو ہونا چاہیے۔ ‘‘

ظہیر نے کہا

’’جو آدمی روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ حساب کتاب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ یہ آپ کا کام ہے۔ باقی سب چیزیں میں سنبھال لوں گا۔ ‘‘

سعید نے پوچھا

’’مجھ سے آپ کیا خدمت چاہتے ہیں؟‘‘

ظہیر نے بڑی سادگی سے کہا۔

’’پاکستان کے تقریباً تمام ڈسٹری بیوٹر آپ کو جانتے ہیں۔ میری یہاں ان لوگوں سے واقفیت نہیں۔ بڑی نوازش ہو گی اگر آپ میری فلم کی ڈسٹری بیوشن کا بندوبست کردیں۔ ‘‘

سعید نے کہا۔

’’آپ فلم تیار کرلیں۔ انشاء اللہ ہو جائے گا۔ ‘‘

’’آپ کی بڑی مہربانی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ظہیر نے میز پر پڑے ہوئے پیڈ پر پنسل سے ایک پھول سا بنایا

’’سعید صاحب، مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ میں کامیاب رہوں گا۔ ہیروئن میری بیوی ہو گی۔ ‘‘

سعید نے پوچھا۔

’’آپ کی بیوی؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’پہلے کسی فلم میں کام کر چکی ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔ ‘‘

ظہیر نے پیڈ پر پھول کے ساتھ شاخ بناتے ہوئے کہا۔

’’میں نے شادی یہاں لاہور میں آکر کی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ اسے فلم لائن میں لاؤں مگر اس کو شوق ہے۔ بہت شوق ہے۔ ہر روز ایک فلم دیکھتی ہے۔ میں آپ کو اس کا فوٹو دکھاتا ہوں۔ ‘‘

ظہیر نے میز کا دروازہ کھول کر ایک لفافہ نکالا اور اس میں سے اپنی بیوی کا فوٹو سرکا کر سعید کی طرف بڑھا دیا۔ سعید نے فوٹو دیکھا۔ معمولی خدوخال کی جوان عورت تھی۔ تنگ ماتھا۔ باریک ناک موٹے موٹے ہونٹ۔ آنکھیں بڑی بڑی اور اداس۔ یہ آنکھیں ہی تھیں جو اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کے مقابلے میں سب سے نمایاں تھیں۔ سعید نے غور سے ان کو دیکھنا چاہا مگر معیوب سمجھا اور فوٹو میز پر رکھ دیا۔ ظہیر نے پوچھا۔

’’کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید کے پاس اس سوال کا جواب تیار نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ پر دراصل وہ آنکھیں چھائی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ غیر ارادی طور پر اس نے میز پر سے فوٹو اٹھایا اور ایک نظر دیکھ کر پھر وہیں رکھ دیا۔ اور کہا

’’آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘

ظہیر نے پیڈ پر ایک اور پھول بنانا شروع کیا۔

’’یہ فوٹو اچھی نہیں۔ ذرا سی ہلی ہوئی ہے۔ ‘‘

اتنے میں پچھلے دروازے کا پردہ ہلا اور ظہیر کی بیوی داخل ہوئی۔ وہی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ ظہیر اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

’’عجیب و غریب نام ہے اس کا۔ بسم اللہ!‘‘

پھر سعید کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ میرے دوست سعید صاحب۔ ‘‘

بسم نے کہا۔

’’آداب عرض۔ ‘‘

سعید نے اس کا جواب اٹھ کر دیا۔

’’تشریف رکھیے۔ ‘‘

بسم اللہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سعید کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار چغلیاں کھا رہا تھا۔ سعید نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ ظہیر نے فوٹو واپس لفافے میں رکھا اور سعید سے کہا۔

’’مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ بسم اللہ پہلے ہی فلم میں کامیاب ثابت ہو گی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا فلمی نام کیا رکھوں۔ بسم اللہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید نے بسم اللہ کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ ایک لحظے کے لیے جیسے ڈوب سا گیا۔ فوراً ہی نگاہ اس طرف سے ہٹا کر اس نے ظہیر سے کہا۔

’’جی ہاں۔ بسم اللہ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے۔ ‘‘

تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بسم اللہ خاموش تھی۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں بھی خاموش تھیں۔ سعید نے اس دوران میں ان آنکھوں کے اندر کئی بار ڈبکیاں لگائیں۔ ظہیر اور وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ بسم اللہ خاموش بیٹھی اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں پر چھائی ہوئی سیاہ پلکیں جھپکاکی۔ اس کے ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار برابر چغلیاں کھاتا رہا۔ سعید ادھر دیکھتا تو ایک دھکے کے ساتھ اس کی نظریں دوسری طرف پلٹ جاتیں۔ بسم اللہ کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ فوٹو میں اس رنگت کاپتا نہیں چلتا تھا۔ اس گہرے سانولے رنگ پر اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اور بھی زیادہ اداس ہو گئی تھیں۔ سعید نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس اداسی کا باعث کیا ہے؟۔ اس کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ اداس دکھائی دیتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ کوئی معقول بات سعید کے ذہن میں نہ آئی۔ ظہیر بمبئی کی باتیں شروع کرنے والا تھا کہ بسم اللہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کی چال میں بے ڈھنگا پن تھا، جیسے اس نے اونچی ایڑھی کے چپل نئے نئے استعمال کرنے شروع کیے۔ غرارے کی نشست بھی ٹھیک نہیں تھی۔ سلوٹوں کا گراؤ بھدا تھا۔ اس کے علاوہ سعید نے یہ بھی محسوس کیا کہ ادب آداب سے بسم اللہ محض کررہی ہے۔ لیکن اس کے گہرے سانولے چہرے پر دو بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، اداس ہونے کے باوجود کس قدر جذبات انگیز تھیں! چند ہی ملاقاتوں میں ظہیر سے سعید کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے۔ ظہیر بے حد سادہ دل تھا۔ اس خاص چیز سے سعید بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کی کسی بھی بات میں بناوٹ نہیں ہوتی تھی۔ خیال جس شکل میں پیدا ہوتا تھا سادہ الفاظ میں تبدیل ہو کر اس کی زبان پر آجاتا تھا۔ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی وہ سادگی پسند تھا۔ جب بھی سعید اس کے یہاں جاتا۔ ظہیر اس کی خاطر تواضع کرتا۔ سعید نے اس سے کئی بارکہا کہ تم یہ تکلیف نہ کیا کرو مگروہ نہ مانا۔ وہ اکثر کہا کرتا

’’اس میں کیا تکلیف ہے، آپ کا اپنا گھر ہے۔ ‘‘

سعید نے جب تقریباً ہر روز ظہیر کے ہاں جانا شروع کیا تو اس نے سوچا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ وہ میری اتنی عزت کرتا ہے۔ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اورمیں اس سے صرف اس لیے ملتا ہوں کہ مجھے اس کی بیوی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے۔ اس کے ضمیر نے کئی دفعہ اسے ٹوکا مگر وہ برابر ظہیر کے ہاں جاتا رہا۔ بسم اللہ اکثر آجاتی تھی۔ شروع شروع میں وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے باتوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ لیکن گفتگو کے لحاظ سے وہ خام تھی۔ سعید کو دکھ ہوتا تھا کہ وہ اچھی اچھی باتیں کرنا کیوں نہیں جانتی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ظہیر گھر سے باہر تھا۔ سعید نے آواز دی تو بسم اللہ بولی۔

’’باہر گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر سعید کچھ دیر کھڑا رہا کہ شاید وہ اس سے کہے، اندر آجائیے۔ ابھی آتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ظہیر کے فلم کا چکر چل رہا تھا۔ اس کا ذکر قریب قریب ہر روز ہوتا۔ ظہیر کہتا مجھے اتنی جلدی نہیں ہے۔ ہر ایک چیز آرام سے ہو گی۔ اور اپنے وقت پر ہو گی۔ سعید کو ظہیر کے فلم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو اگر دلچسپی تھی تو بسم اللہ سے جس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ کئی بار غوطے لگا چکا تھا۔ اور اس کی یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ جس کا احساس اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ یہ کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ اپنے دوست ظہیر کی بیوی سے جسمانی رشتہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا۔ دن گزرتے گئے۔ ظہیر کے فلم کا کام وہیں کا وہیں تھا۔ سعید ایک دن اس سے ملنے گیا تو وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ چلنے ہی والا تھا کہ بسم اللہ نے کہا۔

’’اندر آجائیے وہ کہیں دور نہیں گئے۔ ‘‘

سعید کا دل دھڑکنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ بسم اللہ میز کے پاس کھڑی تھی۔ سعید نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔

’’بیٹھئے۔ ‘‘

بسم اللہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر خاموش رہی اس کے بعد سعید نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’ظہیر آئے نہیں ابھی تک؟‘‘

بسم اللہ نے مختصر جواب دیا۔

’’آجائیں گے۔ ‘‘

تھوڑی دیر پھر خاموش رہی۔ اس دوران میں کئی مرتبہ سعید نے بسم اللہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اٹھ کر ان کو چومنا شروع کردے۔ اس قدر چومے کہ ان کی ساری اداسی دھل جائے مگر سعید نے اس خواہش پر قابو پا کر اس سے کہا۔

’’آپ کو فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے؟‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی اور جواب۔

’’ہے تو سہی۔ ‘‘

سعید ناصح بن گیا۔

’’یہ لائن اچھی نہیں۔ میرا مطلب ہے بڑی بدنام ہے۔ ‘‘

اس کے بعد اس نے فلم لائن کی تمام برائیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ ظہیر کا خیال آیا تو اس نے رخ بدل لیا۔

’’آپ کو شوق ہے تو خیر دوسری بات ہے۔ کیریکٹر مضبوط ہو تو آدمی کسی بھی لائن میں ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ پھرظہیر خود اپنا فلم بنا رہا ہے لیکن آپ کسی دوسرے کے فلم میں کام ہرگز نہ کیجیے گا۔ ‘‘

بسم اللہ خاموش رہی۔ سعید کو اس کی یہ خاموشی بہت بری معلوم ہوئی۔ پہلی مرتبہ اس کو تنہائی میں اس سے ملنے کا موقعہ ملا تھا مگر وہ بولتی ہی نہیں تھی۔ سعید نے ایک دو مرتبہ ڈرتے ڈرتے ٹوہ لینے والی نگاہوں سے اسے دیکھا مگر کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’اچھا تو پان ہی کھلائیے۔ ‘‘

بسم اللہ اٹھی۔ ریشمی قمیض کے پیچھے اس کے سینے کا نمایاں ابھار ہلا۔ سعید کی نگاہوں کو دھکا سا لگا۔ بسم اللہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہ ڈر ڈر کے تیکھی تیکھی باتیں سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پان لے کر آئی اور سعید کے پاس کھڑی ہو گئی۔

’’لیجئے۔ ‘‘

سعید نے شکریہ کہہ کر پان لیا تو اس کی انگلیاں بسم اللہ کی انگلیوں سے چھوئیں اس کے سارے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمیر کا کانٹا اس کے دل میں چُھبا۔ بسم اللہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے گہرے سانولے چہرے سے سعید کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ سعید نے سوچا

’’کوئی اور عورت ہوتی تو فوراً سمجھ جاتی کہ میں اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ شاید سمجھ گئی ہو۔ شاید نہ بھی سمجھی ہو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

سعید کا دماغ بے حد مضطرب تھا۔ ایک طرف بسم اللہ کا ستانے والا وجود تھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار۔ دوسری طرف ظہیر کا خیال، اس کے ضمیر کا کانٹا۔ سعید عجب الجھن میں پھنس گیا تھا۔ بسم اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ جو چیز سعید سوچ رہا ہے ناممکن ہے۔ مگر وہ پھر اس کو انہی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’ظہیر نہیں آئے میرا خیال ہے۔ میں چلتا ہوں۔ ‘‘

بسم اللہ نے خلافِ توقع کہا۔

’’نہیں نہیں بیٹھئے۔ ‘‘

’’آپ تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔ ‘‘

یہ کہہ کرسعید اٹھا۔ بسم اللہ نے پوچھا۔

’’چلے؟‘‘

سعید نے اس کی طرف ٹوہ لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔

’’جی نہیں، بیٹھتا ہوں۔ آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو۔ ‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی۔

’’مجھے کیا اعتراض ہو گا۔ ‘‘

بسم اللہ کی آنکھوں میں خمار سا پیدا ہو گیا۔ سعید نے کہا۔

’’آپ کو شاید نیند آرہی ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں رات جاگتی رہی۔ ‘‘

سعید نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا۔

’’کیوں!‘‘

بسم اللہ نے ایک اور جمائی لی۔

’’کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ‘‘

سعید بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بسم اللہ سو گئی۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار ریشمی قمیض کے پیچھے سانس کے زیرو بم سے ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں اب بند تھیں۔ دایاں بازو ایک طرف ڈھک گیا تھا۔ آستین اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ سعید نے دیکھا گہرے سانولے رنگ کی کلائی پر ہندی کے حروف کھدے ہوئے تھے۔ اتنے میں ظہیر آگیا۔ سعید اس کی آمد پر سٹپٹا سا گیا۔ ظہیر نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اپنی بیوی بسم اللہ کی طرف دکھا۔

’’ارے سو رہی ہے۔ ‘‘

سعید نے کہا۔

’’میں جارہا تھا۔ کہنے لگیں ظہیر صاحب ابھی آجائیں گے۔ آپ بیٹھئے۔ میں بیٹھا تو آپ سو گئیں۔ ‘‘

ظہیر ہنسا۔ سعید بھی ہنسنے لگا۔

’’بھئی واہ، اٹھو اٹھو۔ ‘‘

ظہیر نے بسم اللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بسم اللہ نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی بڑی بڑی اداس آنکھیں کھول دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اب ان میں ویرانی سی بھی تھی۔

’’چلو چلو، اٹھو۔ ایک ضروری کام پر جانا ہے۔ ‘‘

بسم اللہ سے یہ کہہ کر ظہیر سعید سے مخاطب ہوا۔

’’معاف کیجیے گا سعید صاحب، میں ایک کام سے جارہا ہوں۔ انشاء اللہ کل ملاقات ہو گی۔ ‘‘

سعید چلا گیا۔ دوسرے روز اس نے ظہیر کے ہاں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ وہ گھر پر نہ ہو۔ وہاں پہنچا تو باہر کئی آدمی جمع تھے۔ سعید کو ان سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ ظہیر کی بیوی نہیں تھیں۔ وہ ایک ہندو لڑکی تھی جو فسادوں میں یہاں رہ گئی تھی۔ ظہیر اس سے پیشہ کراتا تھا۔ پولیس ابھی ابھی اسے برآمد کرکے لے گئی ہے۔ وہ بڑی بڑی سیاہ اور اداس آنکھیں اب سعید کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو

بس اسٹینڈ

وہ بس اسٹینڈ کے پاس کھڑی اے روٹ والی بس کا انتظار کر رہی تھی‘ اس کے پاس کئی مرد کھڑے تھے‘ ان میں ایک اسے بہت بُری طرح گھور رہا تھا‘ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ شخص برمے سے اس کے دل و دماغ میں چھید بنا رہا ہے۔ اس کی عمر یہی بیس بائیس برس کی ہو گی لیکن اس پختہ سالی کے باوجود وہ بہت گھبرا رہی تھی‘ جاڑوں کے دن تھے‘ پر اس کے باوجود اس نے کئی مرتبہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا ‘ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کرے‘ بس سٹینڈ سے چلی جائے‘ کوئی تانگہ لے لے یا واپس اپنی سہیلی کے پاس چلی جائے۔ اس کی یہ سہیلی نئی نئی بنی تھی‘ ایک پارٹی میں ان کی ملاقات ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی گرویدہ ہو گئیں۔ یہ پہلی بار تھی کہ وہ اپنی اس نئی سہیلی کے بُلاوے پر اس کے گھر آئی تھی۔ نوکر بیمار تھا مگر جب اس سہیلی نے اتنا اصرار کیا تھا تو وہ اکیلی ہی اس کے ہاں چلی گئی‘ دو گھنٹے میں گپ لڑاتی رہیں۔ یہ وقت بڑے مزے میں کٹا‘ اُس کی سہیلی جس کا نام شاہدہ تھا اس سے جاتے وقت کہا :

’’سلمیٰ! اب تمہاری شادی ہو جانی چاہیے‘‘

سلمیٰ شرما سی گئی‘ کیسی باتیں کرتی ہو شاہدہ۔ مجھے شادی نہیں کرانا ہے‘‘

’’تو کیا ساری عمر کنواری رہو گی‘‘

’’کنواری رہنے میں کیا حرج ہے‘‘

شاہدہ مسکرائی

’’میں بھی یہی کہا کرتی تھی۔ لیکن جب شادی ہو گئی تو دنیا کی تمام لذتیں مجھ پر آشکارا ہو گئیں۔ یہی تو عمر ہے جب آدمی پوری طرح شادی کی لطافتوں سے حظ اندوز ہو سکتا ہے۔ تم میرا کہا مانو۔ بس ایک دو مہینے کے اندر دلہن بن جاؤ۔ تمہارے ہاتھوں میں مہندی میں خود لگاؤں گی‘‘

’’’ہٹاؤ ‘ اس چھیڑ خانی کو‘‘

شاہدہ نے سلمیٰ کے گال پر ہلکی سی چپت لگائی

’’یہ چھیڑ خانی ہے؟۔ اگر یہ چھیڑ خوانی ہے تو ساری دنیا چھیڑ خانی ہے۔ مرداور عورت کا رشتہ بھی فضول ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم ایک ازلی اور ابدی رشتے سے منکر کیوں ہو؟۔ دیکھوں گی کہ تم مرد کے بغیر کیسے زندہ رہو گی۔ خدا کی قسم پاگل ہو جاؤ گی۔ پاگل !‘‘

’’اچھا ہے‘ جو پاگل ہو جاؤں۔ کیا پاگلوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اتنے سارے پاگل ہیں‘ آخر وہ جوں توں جی ہی رہے ہیں‘‘

’’جوں توں جینے میں کیا مزا ہے‘ پیاری سلمیٰ۔ میں تم سے کہتی ہوں کہ جب سے میری شادی ہوئی ہے ‘ میری کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ میرا خاوند بہت پیار کرنے والا ہے‘‘

’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

’’مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی ان کا کام ہے۔ ویسے اﷲ کا دیا بہت کچھ ہے۔ میرا ہاتھ انھوں نے کبھی تنگ ہونے نہیں دیا‘‘

سلمیٰ نے یوں محسوس کیا کہ اس کا دل تنگ ہو گیا ہے۔

’’شاہدہ مجھے تنگ نہ کرو‘ مجھے شادی نہیں کرنا ہے۔ مجھے مردوں سے نفرت ہے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس ہے!‘‘

’’اب میں تم سے کیا کہوں۔ مردوں سے مجھے بھی نفرت تھی لیکن جب میری شادی ہوئی اور مجھ سے میرے خاوند نے پیار محبت کیا تو میں نے پہلی مرتبہ جانا کہ مرد‘ عورت کے لیے کتنا لازمی ہے‘‘

’’ہوا کرے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں‘‘

شاہدہ ہنسی‘ سلمیٰ ! ایک دن تم ضرور اس بات کی قائل ہو جاؤ گی کہ مردعورت کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بغیر وہ ایسی گاڑی ہے جس کے پہیے نہ ہوں۔ میری شادی کو ایک برس ہوا ہے‘ اس ایک برس میں مجھے جتنی مسرتیں اور راحتیں میرے خاوند نے پہنچائی ہیں‘ میں بیان نہیں کر سکتی۔ خدا کی قسم وہ فرشتہ ہے۔ فرشتہ‘ مجھ پر جان چھڑکتا ہے‘‘

سلمیٰ نے یہ سُن کر یوں محسوس کیا کہ جیسے اس کے سر پر فرشتوں کے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ اس نے سوچنا شروع کیا کہ شاید مرد عورت کے لیے لازمی ہی ہو۔ لیکن فوراً بعد اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اس کی عقل نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ مرد کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ کیا عورت اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جیسا کہ شاہدہ نے اس کو بتایا تھا کہ اس کا شوہر بہت پیار کرنے والا ہے‘ بہت نیک خصلت ہے۔ لیکن اس سے یہ ثابت تو نہیں ہوتا کہ وہ شاہدہ کے لیے لازمی تھا۔ سلمیٰ حسین تھی‘ اُبھرا اُبھرا جوبن ‘ بھرے بھرے ہاتھ پاؤں‘ کشادہ پیشانی‘ گھٹنوں تک لمبے کالے بال‘ ستواں ناک اور اس کی پھننگ پر ایک تل۔ جب وہ اپنی سہیلی سے اجازت مانگ کر غسل خانے میں گئی تو اُس نے آئینے میں خود کو بڑے غور سے دیکھا اور اُسے بڑی اُلجھن محسوس ہوئی ‘ جب اس نے سوچا کہ آخر یہ جسم‘ یہ حسن‘ یہ ابھار کس لیے ہوتے ہیں۔ قدرت کی ساری کاریگری اکارت جا رہی ہے۔

’’گندم پیدا ہوتا ہے تو آدمی اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ اس کی جوانی بھی تو کسی کھیت میں اُگی تھی۔ اگر اسے کوئی کھائے گا نہیں تو گل سڑ نہیں جائے گی؟‘‘

وہ بہت دیر تک غسل خانے میں آئینے کے سامنے سوچتی رہی‘ ا س کے ذہن میں اس کی سہیلی کی تمام باتیں گونج رہی تھیں۔ مرد‘ عورت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ! اس کا خاوند اس سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ فرشتہ ہے۔ سلمیٰ نے ایک لمحے کے لیے محسوس کیا کہ اس کی شلوار اور اس کا دوپٹہ فرشتوں کے پَر بن گئے ہیں۔ وہ گھبرا گئی اور جلدی فارغ ہو کر باہر نکل آئی‘ باہر برآمدے میں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ سلمیٰ کو ایسا لگا کہ یہ بھی فرشتے ہیں جو بھیس بدل کر آئے ہیں۔ پھر جب اس کی سہیلی اپنی کوٹھی سے ملحقہ باغ میں اسے لے گئی اور وہاں اس نے چند تتلیاں دیکھیں تو وہ بھی اسے فرشتے دکھائی دیے۔ لیکن اُس نے کئی مرتبہ سوچا کہ ایسے رنگین اور ایسے ننھے منے فرشتے کیسے ہو سکتے ہیں۔ اسے بہت دیر تک فرشتے ہی فرشتے دکھائی دیتے رہے جو اس کے قریب آتے اس سے پیار کرتے‘ اس کا منہ چومتے‘ اس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے‘ جس سے اس کو بڑی راحت ملتی لیکن ان فرشتوں کے ہاتھ بڑی تندہی سے ایک طرف جھٹک دیتی اور ان سے کہتی :

’’جاؤ۔ چلے جاؤ یہاں سے۔ تمہارا گھر تو آسمان پر ہے۔ یہاں کیا کرنے آئے ہو؟‘‘

وہ فرشتے اس سے کہتے

’’ہم فرشتے نہیں حضرتِ آدمؑ کی اولاد ہیں۔ وہی بزرگ جو جنت سے نکالے گئے تھے۔ پر ہم تمھیں پھر جنت میں پہنچا دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ چلو ہمارے ساتھ‘ وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں اور شہد کی بھی‘‘

سلمیٰ نے یوں محسوس کیا کہ اس کے سینے میں سے دودھ کے ننھے منے قطرے نکلنے شروع ہو گئے ہیں اور اس کے ہونٹ مٹھاس میں لپٹے ہوئے ہیں۔ شاہدہ ‘ اُس سے بار بار اپنے خاوند کی تعریف کرتی‘ اصل میں اُس کا مدعا یہ تھا کہ اس کے بھائی کے ساتھ سلمیٰ کا رشتہ قائم کر دے۔ مگر گھر پر یہ پہلی ملاقات تھی‘ اس لیے وہ کھل کے بات نہ کر سکی۔ بہرحال اس نے اشاروں کنایوں میں سلمیٰ پر یہ واضح کر دیا کہ اس کا خاوند جو بہت شریف اور محبت کرنے والا آدمی ہے اُس کا بھائی اُس سے بھی کہیں زیادہ شریف النفس ہے۔ سلمیٰ نے یہ اشارہ نہ سمجھا ‘ اس لیے کہ وہ بہت سادہ لوح تھی‘ اُس نے صرف اتنا کہہ دیا

’’آج کل کے زمانے میں شریف آدمیوں کا ملنا محال ہے۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمھیں ایسا خاندان مل گیا جہاں ہر آدمی نیک اور شریف ہے‘‘

’’افسوس ہے کہ اس وقت میرے خاوند گھر میں موجود نہیں ورنہ میں تم سے انھیں ضرور ملاتی‘‘

’’کبھی پھر سہی۔ کیا کام کرتے ہیں‘‘

’’ہائے‘ انھیں کیا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں روپے کی جائیداد ہے۔ مکانوں اور دکانوں سے کرایہ ہی ہر مہینے دو ہزار کے قریب وصول ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماشاء اﷲ زمینیں ہیں‘ وہاں کی آمدن الگ ہے۔ اناج کی کوئی دقّت نہیں۔ منوں گندم گھر میں پڑا رہتا ہے۔ چاول بھی۔ ہر قسم کی ترکاری بھی ہر وقت میسر ہو سکتی ہے۔ اﷲ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی جو آج کل لندن میں ہے‘ زراعت کے متعلق جانے کیا سیکھ رہا ہے۔ ایک مہینے تک واپس آ رہا ہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہے۔ تم اُسے دیکھو گی۔ تو۔ ‘‘

سلمیٰ نے گھبراتے ہوئے لہجے میں کہا

’’ہاں ‘ ہاں۔ جب وہ آئیں گے تو ان سے ملنے کا اتفاق ہو جائے گا‘‘

شاہدہ نے کہا

’’بڑا شریف لڑکا ہے۔ بالکل اپنے بڑے بھائی کی مانند‘‘

’’جی ہاں۔ ضرور ہو گا‘ آخر شریف خاندان سے تعلق ہے‘‘

’’وہ بس آنے ہی والا ہے۔ تم مجھے اپنی ایک تصویر دے دو‘‘

’’کیا کرو گی‘‘

’’بس شہد لگا کے چاٹا کروں گی‘‘

یہ کہہ کر شاہدہ نے سلمیٰ کا منہ چوم لیا‘ اور پھر اپنے خاوند کی تعریفیں شروع کر دیں۔ سلمیٰ تنگ آ گئی ‘ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد کوئی بہانہ بنا کر رخصت چاہی اور بس اسٹینڈ پر پہنچ گئی‘ جہاں اسے

’’اے روٹ‘‘

کی بس پکڑنا تھی۔ وہ جب وہاں پہنچی تو ایک مرد نے اُسے بہت بُری نگاہوں سے گھورنا شروع کر دیا۔ وہ پریشان ہو گئی‘ جاڑوں کے دن تھے مگر اس نے کئی مرتبہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسٹینڈ پر ایک بس آئی‘ اس نے اس کا نمبر نہ دیکھا اور جب چند مسافر اُترے تو وہ فوراً اس میں سوار ہو گئی۔ وہ آدمی بھی اس بس میں داخل ہو گیا‘ اس کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بس کے انجن میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی‘ جس کے باعث اسے رکنا پڑا‘ سب مسافروں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اُتر جائیں کیونکہ کافی دیر تک یہ بس نہیں چل سکے گی۔ سلمیٰ نیچے اُتری تو وہ آدمی جو اُسے بہت بری طرح گھور رہا تھا وہ بھی اس کے ساتھ باہر نکلا۔ سڑک پر ایک کار جا رہی تھی اُس نے اس کے ڈرائیور کو آواز دی

’’امام دین‘‘

امام دین نے موٹر ایک دم روک لی۔ اس آدمی نے سلمیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اس سے کہا : چلیے۔ یہ میری کار ہے۔ جہاں بھی آپ جانا چاہتی ہیں‘ آپ کو چھوڑ آؤں گا‘‘

سلمیٰ انکار نہ کر سکی‘ موٹر میں بیٹھ گئی‘ اُس کو ماڈل ٹاؤن جانا تھا مگر وہ اسے کہیں اور لے گیا۔ اور۔ ! سلمیٰ نے محسوس کیا کہ مرد واقعی عورت کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کا بہترین دن گزارا۔ گو اُس نے پہلے بہت حیل و حجت اور احتجاج کیا مگر اُس آدمی نے اسے رام کر ہی لیا۔ تین چار گھنٹوں کے بعد جب سلمیٰ نے اُس شخص کا بٹوہ کھول کر یونہی دیکھا تو اُس میں ایک طرف شاہدہ کا فوٹو تھا۔ اُس نے ہچکچاہٹ کے ساتھ پوچھا :

’’یہ۔ یہ۔ عورت کون ہے؟‘‘

’’اُس شخص نے جواب دیا:

’’میری بیوی‘‘

سلمیٰ کے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی‘ آپ کی بیوی؟‘‘

شاہدہ کا خاوند مسکرایا

’’کیا مردوں کی بیویاں نہیں ہوتیں؟‘‘

۲۰، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

برمی لڑکی

گیان کی شوٹنگ تھی۔ اس لیے کفایت جلدی سو گیا۔ فلیٹ میں اور کوئی نہیں تھا بیوی بچے راولپنڈی چلے گئے تھے ہمسایوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یوں بھی بمبئی میں لوگوں کو اپنے ہمسایوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کفایت نے اکیلے برانڈی کے چار پیگ پیے۔ کھانا کھایا۔ نوکروں کو رخصت کیا اور دروازہ بند کرکے سو گیا۔ رات کے پانچ بجے کے قریب کفایت کے خمار آلود کانوں کو دھک کی آواز سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ نیچے بازار میں ایک ٹریم دندناتی ہوئی گزری۔ چند لمحات کے بعد دروازے پر بڑے زوروں کی دستک ہوئی۔ کفایت اٹھا۔ پلنگ پر اترا تو اس کے ننگے پیر ٹخنوں تک پانی میں چلے گئے اس کو سخت حیرت ہوئی کہ کمرے میں اتنا پانی کہاں سے آیا اور باہر کوڑی ڈور میں اس سے بھی زیادہ پانی تھا۔ دروازے پر دستک جاری تھا اس نے پانی کے متعلق سوچنا چھوڑا اور دروازہ کھولا۔ گیان نے زور سے کہا

’’یہ کیا ہے؟‘‘

کفایت نے جواب دیا۔

’’پانی‘‘

’’پانی نہیں۔ عورت!‘‘

یہ کہہ کر گیان نیم اندھیرے کوری ڈور میں داخل ہوا اس کے پیچھے ایک چھوٹے سے قد کی لڑکی تھی۔ گیان کو فرش پر پھیلے ہوئے پانی کا کچھ احساس نہ ہوا۔ لڑکی نے پائیجامہ اوپر اٹھا لیا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گیان کے پیچھے چلی گئی۔ کفایت کے ذہن میں پہلے پانی تھا۔ اب یہ لڑکی اس میں داخل ہو گئی اور ڈبکیاں لگانے لگی سب سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ کون ہے شکل صورت اور لباس کے اعتبار سے برمی معلوم ہوتی۔ لیکن گیان اسے کہاں سے لے آیا؟۔ گیان اندر کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے بغیر پلنگ پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے صرف ہوں ہاں میں جواب دیا اور آنکھیں نہ کھولیں۔ کفایت نے اس لڑکی کی طرف ایک نظر دیکھا جو سامنے والے پلنگ پر بیٹھی تھی اور باہر نکل گیا۔ باورچی خانے میں جا کر اسے معلوم ہوا کہ ربڑ کا وہ پائپ جو رات کو بڑا ڈرم بھرا کرتا تھا باہر نکلا ہوا ہے۔ تین بجے جب نل میں پانی آیا تو اس نے تمام کمرے سیر آب کردیے۔ تینوں نوکر باہر گلی میں سو رہے تھے کفایت نے ان کو جگا دیا اور پانی خارج کرنے کے کام پر لگا دیا وہ خود بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ سب چلووؤں سے پانی اٹھاتے تھے اور بالٹیوں میں ڈالتے جاتے تھے اس برمی لڑکی نے جب ان کو یہ کام کرتے دیکھا تو جھٹ پٹ۔ سینڈل اتار کر ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے گورے ہاتھ انگلیوں کے ناخن بڑھائے ہوئے اور سرخی لگے نہیں تھے چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال تھے جن میں ہلکی ہلکی لہریں تھیں۔ مردار موضع کا مگر کھلا ریشمی پاجامہ پہنے تھی۔ اس پر سیاہ رنگ کا ریشمی کرتا تھا جس میں اسکی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں چھپی ہوئی تھیں۔ جب اس نے ان لوگوں کا ہاتھ بنانا شروع کیا تو کفایت نے اسے منع کیا۔

’’آپ تکلیف نہ کیجیے یہ کام ہو جائے گا۔ ‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ چھوٹے چھوٹے سرخی لگے ہونٹوں سے مسکرائی اور کام میں لگی رہی۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر تینوں کمروں سے پانی نکل گیا۔ کفایت نے سوچا چلو یہ بھی اچھا ہوا اسی بہانے سارا گھر دھل کرصاف ہو گیا۔ ‘‘

وہ برمی لڑکی ہاتھ دھونے کے لیے غسل خانے میں چلی گئی کفایت کمر سیدھی کرنے کے لیے بستر پرلیٹا نیند پوری نہیں ہوئی تھی، سو گیا۔ تقریباً نو بجے وہ جاگا اور جاگتے ہی اسے سب سے پہلے پانی کا خیال آیا۔ پھر اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچا جو گیان کے ساتھ آئی تھی۔

’’کہیں خواب تو نہیں تھا لیکن یہ سامنے گیان سو رہا ہے اور فرش بھی دھلا ہوا ہے۔ ‘‘

کفایت نے غور سے گیان کی طرف دیکھا۔ وہ پتلون کوٹ بلکہ جوتے سمیت اوندھا سو رہا تھا۔ کفایت نے اس کو جگایا اس نے ایک آنکھ کھولی اور پوچھا

’’کیا ہے؟‘‘

’’یہ لڑکی کون ہے؟‘‘

گیان ایک دم چونکا

’’لڑکی۔ کہاں ہے‘‘

پھر فوراً ہی چٹ لیٹ گیا۔ اوہ۔ بکواس نہ کرو۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘

کفایت نے اسے پھر جگانے کی کوشش کی مگر وہ خاموش سویا رہا۔ اسکو ساڑھے نو بجے اپنے کام پر جانا تھا اس نے جلدی جلدی غسل کیا۔ شیو بھی غسل خانے کے اندر ہی کرلیا۔ باہر نکل کر ڈرائنگ روم میں گیا تو اس کو میز سجی ہوئی نظر آئی۔ صبح ناشتہ پر عام طور پر کفایت کے ہاں بہت سی مختصر چیزیں ہوتی تھیں۔ دو ابلے ہوئے انڈے۔ دو توس۔ مکھن اور چار۔ مگر آج میز رنگین تھی اس غور سے دیکھا چِھلے ہوئے انڈے عجیب وغریب انداز میں کٹے ہوئے تھے کہ پھول معلوم ہوتے تھے۔ سلاد تھا بڑے خوبصورت طریقے سے پلیٹ میں سجا ہوا۔ توسوں پر بھی مینا کاری کی ہوئی تھی۔ کفایت چکرا گیا۔ باورچی خانے میں گیا تو وہ برمی لڑکی چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے کہہ رہی تھی تینوں نوکر اس کے اردگرد تھے اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کررہے تھے۔ کفایت کو دیکھ کروہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ برمی لڑکی نے آنکھیں گھما کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ کیسے کرتا۔ اس سے کیا کہتا وہ اس کو جانتا تک نہیں تھا اس نے اپنے ایک نوکر سے صرف اتنا پوچھا

’’یہ ناشتہ آج کس نے تیار کیا ہے بشیر؟‘‘

بشیر نے اس برمی لڑکی کی اشارہ کیا۔

’’بائی جی نے‘‘

وقت بہت کم تھا۔ کفایت نے جلدی بانکا سجیلا ناشتہ کھایا اور کپڑے پہن کر انپے دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو واپس آیا تو وہ برمی لڑکی اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پاجامہ پہنے اپنا کرتہ استری کررہی تھی۔ کفایت پیچھے ہٹ گیا، کیونکہ وہ صرف پائجامہ پہنے تھی۔

’’آجائیے۔ ‘‘

لہجہ بڑا صاف ستھرا تھا۔ کفایت نے سوچا کہ برمی لڑکی کی بجائے شاید کوئی اور بولا ہے۔ جب وہ اندر گیا تو اس لڑکی نے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کرکے اس کو سلام کیا۔ کفایت کی موجودگی میں اس نے کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔ بڑے سکون سے وہ اپنا سیاہ کرتا استری کرتی رہی۔ کفایت نے دیکھا اسکی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیوں کے درمیانی حصے میں استری کی گرمی کے باعث پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جمع ہو گئی تھیں۔ کفایت نے گیان کے بارے میں پوچھنے کے لیے بشیر کو آواز دینا چاہی مگر رک گیا۔ اس نے مناسب خیال نہ کیا کیونکہ وہ لڑکی آدھی ننگی تھی اس نے ہیٹ اتار کر ایک طرف رکھا۔ تھوڑی دیر اس نیم عریانی کو دیکھا مگر کوئی ہیجان محسوس نہ کیا۔ لڑکی کا بدن بے داغ تھا۔ جلد نہایت ہی ملائم تھی اتنی ملائم کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ کرتا استری ہو گیا تو اس نے سوئچ اوف کیا ایک کرتا اور بھی تھا سفید بوسکی کا جو تہہ کیا ہوا استری شدہ پائجامے پر رکھا اس نے یہ سب کپڑے اٹھائے اور کفایت سے مخاطب ہوئی

’’میں نہانے چلی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ کفایت ٹوپی اتار کرسر کھجلانے لگا۔

’’کون ہے یہ؟‘‘

اس کے دماغ میں بڑی کُھدبُد ہورہی تھی جب وہ اس لڑکی کے متعلق سوچتا سارا واقعہ اسکے سامنے آجاتا۔ رات کو اس کا اٹھنا۔ پانی ہی پانی۔ اس کا دروازہ کھولا اور

’’کہنا پانی‘‘

اور گیان کا یہ جواب دینا’ پانی نہیں عورت‘‘

اور ایک ننھی سی گڑیا کا چھم سے اندر آجانا۔ کفایت نے دل میں کہا

’’ہٹاؤ جی۔ گیان آئے گا تو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ لونڈیا ہے دلچسپ۔ اتنی چھوٹی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ آدمی جیب میں رکھ لے۔ چلو برانڈی پئیں۔ بشیر نے گلاس، برانڈی اور برف وغیرہ سب کچھ علاقائی کمرے میں تپائی پر رکھ دیا تھا۔ کفایت نے کپڑے بدلے اور پینا شروع کردی۔ پہلا پیگ ختم کیا تو اسے غسل خانے کا دروازہ کھلنے کی

’’چوں‘‘

سنائی دی۔ دوسرا پیگ ڈال کر وہ انتظار کرنے لگا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ برمی لڑکی ضرور ادھر آئے گی۔ اس کے مقررہ چار پیگ ختم ہو گئے مگر وہ نہ آئی۔ گیان بھی نہ آیا۔ کفایت جھنجھلا گیا۔ اندر بیڈ روم میں جا کر اس نے دیکھا وہ لڑکی استری کیے ہوئے کپڑے پہنے اپنی گول گول چھاتیوں پر ہاتھ رکھے بڑے اطمینان سے سو رہی تھی۔ استری والی میز پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ بڑی اچھی طرح تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔ کفایت نے واپس جا کربرانڈی کا ایک ڈبل پیگ گلاس میں ڈالا اور نیٹ ہی چڑھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا سر گھومنے لگا۔ اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچنے کی کوشش کی مگر اس نے ایسا محسوس کیا کہ وہ چلوؤں میں پانی بھر بھر کے اس کے دماغ میں ڈال رہی ہے کھانا کھائے بغیر وہ صوفے پر لیٹ گیا اور اس برمی لڑکی کے متعلق کچھ سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے سو گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ صوفے کی بجائے اندر اپنے پلنگ پر ہے اس نے حافظے پر زور دیا۔

’’میں رات کب آیا یہاں۔ کیا میں نے کھانا کھایا تھا؟‘‘

کفایت کو کوئی جواب نہ ملا۔ سامنے والا پلنگ خالی تھا۔ اس نے زور سے بشیر کو آواز دی۔ وہ بھاگا اندر آیا۔ کفایت نے اس سے پوچھا

’’گیان صاحب کہاں ہیں؟‘‘

بشیر نے جواب دیا

’’رات کو نہیں آئے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’معلوم نہیں صاحب‘‘

’’وہ بائی جی کہاں ہیں‘‘

’’مچھی تل رہی ہیں‘‘

کفایت کے دماغ میں مچھلیاں تلی جانے لگیں اٹھ کر باورچی خانے میں گیا تو وہ چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے مچھی تل رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کراسکے ہونٹوں پر ایک چھوٹی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ہاتھ اٹھا کر اس نے سلام کیا اوراپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ کفایت نے دیکھا تینوں نوکر بے حد مسرور تھے اور بڑی مستعدی سے اس لڑکی کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بشیر کو کچھ دنوں کی چھٹی پر اپنے وطن جانا تھا کئی دنوں سے وہ بار بار کہتا تھا کہ صاحب مجھے تنخواہ دے دیجیے، مجھے گھرسے کئی خط آچکے ہیں۔ و الدہ بیمار ہے۔ رات کو وہ اُسے تنخواہ دینا بھول گیا تھا اب اُسے یاد آیا تو اس نے بشیر سے کہا

’’ادھر آؤ بشیر۔ اپنی تنخواہ لے لو۔ میں کل دفتر سے روپے لے آیا تھا۔ بشیر نے تنخواہ لے لی۔ کفایت نے اس سے پوچھا

’’نو بجے گاڑی جاتی ہے۔ اُس سے چلے جاؤ۔ ‘‘

’’اچھا جی!‘‘

یہ کہہ کر بشیر چلا گیا۔ ناشتہ بے حد لذیذ تھا خاص طور پر مچھی کے ٹکڑے۔ اس نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بشیر کے ذریعہ سے اس برمی لڑکی کو بلا بھیجا مگر وہ نہ آئی۔ بشیر نے کہا

’’جی وہ کہتی ہیں کہ بعد میں کریں گی وہ ناشتہ‘‘

کفایت کی مالی حالت بہت پتلی تھی۔ گیان بھی آسودہ حال نہیں تھا دونوں ادھر ادھر سے پکڑ کر گزارہ کررہے تھے۔ برانڈی کا بندوبست گیان کردیتا تھا باقی کھانے پینے کا سلسلہ بھی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہا تھا۔ جس فلم کمپنی میں گیان کام کررہا تھا اسکا دیوالہ نکلنے کے قریب تھا مگر اس کو یقین تھا کہ کوئی معجزہ ضروررونما ہو گا اور اسکی کمپنی سنبھل جائے گی۔ شوٹنگ ہورہی تھی غالباً اسی لیے گیان رات کو نہ آسکا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد کفایت نے جھانک کر باورچی خانے میں دیکھا۔ لڑکی اپنے کام میں مشغول تھی۔ تینوں ملازم لڑکے اس سے ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ کفایت نے بشیر نے سے کہا۔

’’مچھلی بہت اچھی تھی۔ ‘‘

لڑکی نے مڑ کر دیکھا اس کے ہونٹوں پر چھوٹی سی مسکراہٹ تھی۔ کفایت دفتر چلا گیا اس کو امید تھی کہ کچھ روپوں کا بندوبست ہو جائے گا لیکن خالی جیب واپس آیا۔ برمی لڑکی اندر بیڈ روم میں لیٹی تصویروں والا رسالہ دیکھ رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کر بیٹھ گئی اور سلام کیا۔ کفایت نے سلام کا جواب دیا اور اس سے پوچھا

’’گیان صاحب آئے تھے‘‘

’’آئے تھے دوپہر کو۔ کھانا کھا کر چلے گئے۔ پھر شام کو آئے چند منٹوں کے لیے

’’یہ کہہ کر اس نے ایک طرف ہٹ کرتکیہ اٹھایا اور کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل نکالی‘‘

یہ دے گئے تھے کہ میں آپ کو دیدوں‘‘

میں نے بوتل پکڑی۔ کاغذ پر گیان کے یہ چند الفاظ تھے

’’کم بخت یہ چیز کسی نہ کسی طرح مل جاتی ہے لیکن پیسہ نہیں ملتا۔ بہر حال عیش کرو۔ تمہارا گیان‘‘

اس نے کاغذ کھولا۔ برانڈی کی بوتل تھی۔ برمی لڑکی نے کفایت کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔ کفایت بھی مسکرا دیا۔

’’آپ پیتی ہیں؟‘‘

لڑکی نے زور سے اپنا سر ہلایا۔

’’نہیں!‘‘

کفایت نے نظر بھر کر اس کو دیکھا اور سوچا

’’کیا چھوٹی سی ننھی منھی گڑیا ہے!‘‘

اس کا جی چاہا کہ وہ اسکے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے چنانچہ اس سے مخاطب ہوا

’’آئیے، ادھر دوسرے کمرے میں بیٹھتے ہیں‘‘

’’نہیں۔ میں کپڑے دھوؤں گی۔ ‘‘

’’اس وقت؟‘‘

’’اسوقت اچھا ہوتا ہے۔ رات دھوئے، صبح سوکھ گئے۔ اٹھتے ہی استری کرلیے۔ ‘‘

کفایت تھوڑی دیر کھڑا رہا اسے کوئی بات نہ سوجھی تو ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینا شروع کردی۔ کھانے کا وقت ہو گیا۔ اس نے برمی لڑکی کو بلایا مگر اس نے کہا

’’میں گیان صاحب کے ساتھ کھاؤں گی۔ ‘‘

کفایت نے کھانا کھایا اور اپنے پلنگ پر سو گیا۔ رات کے تقریباً ایک بجے اسکی آنکھ کھلی چاندنی رات تھی۔ ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا بھی بڑے مزے کی چل رہی تھی۔ کروٹ بدلی تو دیکھا سامنے پلنگ پر ایک چھوٹی سی سڈول گڑیا گیان کے چوڑے بالوں بھرے سینے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے کفایت نے آنکھیں بند کرلیں۔ تھوڑے وقفے کے بعد گیان کی آواز آئی

’’جاؤ اب مجھے سونے دو۔ کپڑے پہن لو۔ ‘‘

اسپرنگوں والے پلنگ کی آواز کے ساتھ ساتھ ریشم کی سراہٹیں کفایت کے کانوں میں داخل ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کفایت سو گیا۔ صبح چھ بجے اٹھا، کیونکہ وہ رات کو یہ سوچ کر سویا تھا کہ صبح جلدی اٹھے گا اسے ٹرام کا بہت لمبا سفر طے کرکے ایک آدمی کے پاس جانا تھا جس سے اُسے کچھ ملنے کی امید تھی۔ پلنگ پر سے اترا تو اس دیکھا کہ برمی ننگے فرش پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ پہنے اپنے چھوٹے سے سڈول بازو کو سر کے نیچے رکھے بڑے سکون سے سو رہی ہے۔ کفایت نے اس کو جگایا۔ اس نے اپنی کالی کالی آنکھیں کھولیں۔ کفایت نے اس سے کہا

’’آپ یہاں کیوں لیٹی ہیں‘‘

اسکے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر ننھی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اٹھ کر اس نے جواب دیا۔

’’گیان کو عادت نہیں کسی کو اپنے ساتھ سلانے کی۔ ‘‘

کفایت کو گیان کی اس عادت کا علم تھا۔ اس نے لڑکی سے کہا

’’جائیے میرے پلنگ پر لیٹ جائیے۔ ‘‘

لڑکی اٹھی اور کفایت کے پلنگ پر لیٹ گئی۔ کفایت غسل خانے میں گیا وہاں رسی پر برمی لڑکی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔ کفایت صابن مل کر نہانے لگا تو اس کا خیال اس لڑکی کے ملائم جسم کی طرف چلا گیا۔ جس پرسے نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ غسل سے فارغ ہوکرکفایت نے کپڑے پہنے چونکہ جلدی میں تھا اس لیے گیان کو جگا کر اس سے کوئی بات نہ کرسکا۔ صبح کا نکلا رات کے گیارہ بجے واپس آیا۔ جیبیں خالی تھیں۔ بیڈ روم میں گیا تو گیان اور برمی لڑکی دونوں اکٹھے لیٹے ہوئے تھے۔ کفایت نے ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینی شروع کردی بہت تھکا ہوا تھا۔ مایوس واپس آیا تھا۔ برمی لڑکی کے متعلق سوچتے سوچتے وہیں صوفے پر سو گیا۔ صبح پانچ بجے اٹھا۔ تپائی پر اس کا چوتھا پیگ پانی میں پڑا باسی ہورہا تھا۔ کفایت اٹھا بیڈ روم کے ننگے فرش پر برمی لڑکی سو رہی تھی۔ گیان الماری کے آئینے کے ساتھ کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔ ٹائی کی گرہ ٹھیک کرکے اس نے دونوں ہاتھوں میں لڑکی کو اٹھایا اور اپنے پلنگ پر لٹا دیا۔ مڑا تو اس نے کفایت کو دیکھا

’’کیوں بھئی۔ کچھ بندوبست ہوا روپوں کا‘‘

کفایت نے بڑی مایوسی سے کہا

’’نہیں‘‘

’’تو میں جاتا ہوں۔ دیکھو شاید کچھ ہو جائے۔ ‘‘

پیشتر اس کے کہ کفایت اسے روکے گیان تیزی سے باہر نکل گیا۔ دروازہ کھلا تو اسکی آوازئی

’’تم بھی کوشش کرنا کفایت‘‘

کفایت نے پلٹ کر پلنگ کی طرف دیکھا۔ لڑکی بڑے سکون کے ساتھ سو رہی تھی۔ اسکے ننھے سے سینے پر چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں چمک رہی تھیں۔ کفایت کمرے سے نکل کر غسل خانے میں چلا گیا۔ اندر رسی پر لڑکی کے دھلے ہوئے کپڑے لٹک رہے تھے۔ غسل خانے سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی نوکروں کے ساتھ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ ناشتہ کرکے باہر نکل گیا۔ چار روز اسی طرح گزر گئے۔ کفایت کو اس لڑکی کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ گیان کبھی رات کو دیر سے آتا تھا۔ کبھی دن کو بہت جلدی نکل جاتا تھا۔ یہی حال کفایت کا تھا۔ دونوں پریشان تھے۔ پانچویں روز جب وہ صبح اٹھا تو بشیر نے کفایت کو گیان کا رقعہ دیا۔ اس میں لکھا تھا

’’خدا کے لیے کسی نہ کسی طرح دس روپے پیدا کرکے برمی لڑکی کو دیدو‘‘

لڑکی کھڑی استری کررہی تھی۔ بلاؤز کی صرف ایک آستین باقی رہ گئی تھی جس پر وہ بڑے سلیقے سے استری پھیر رہی تھی۔ کفایت نے اس کی طرف دیکھا جب اس کی نگاہیں چار ہوئیں تو لڑکی مسکرادی۔ کفایت سوچنے لگا کہ وہ دس روپے کہاں سے پیدا کرے۔ بشیر پاس کھڑا تھا۔ اس نے کفایت سے صاحب

’’صاحب ادھر آئیے‘‘

کفایت نے پوچھا

’’کیا بات ہے‘‘

’’جی کچھ کہنا ہے‘‘

بشیر نے ایک طرف ہٹ کر دس روپے کا نوٹ نکالا اور کفایت کو دیدیا۔

’’میں نہیں گیا ابھی تک صاحب۔ ‘‘

کفایت نوٹ لے کر سوچنے لگا۔

’’نہیں نہیں۔ تم رکھو۔ لیکن تم گئے کیوں نہیں ابھی تک!‘‘

’’صاحب چلا جاؤں گا کل پرسوں۔ آپ رکھیے یہ روپے‘‘

کفایت نے نوٹ جیب میں ڈال لیا۔

’’اچھا میں شام کو لوٹا دوں گا تمہیں‘‘

کپڑے وپڑے پہن کر جب برمی لڑکی ناشتہ کر چکی تو کفایت نے اس کو دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا

’’گیان صاحب نے دیا تھا کہ آپ کو دیدوں‘‘

لڑکی نے نوٹ لے لیا اور بشیر کو آواز دی۔ بشیر آیا تو اس سے کہا

’’جاؤ ٹیکسی لے آؤ۔ ‘‘

بشیر چلا گیا تو کفایت نے اس سے پوچھا۔

’’آپ جارہی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھی اور بیڈ روم میں چلی گئی وہ اپنا رومال استری کرنا بھول گئی تھی کفایت نے اس سے باتیں کرنے کا ارادہ کیا تو ٹیکسی آگئی رومال ہاتھ میں لے کر وہ روانہ ہونے لگی۔ کفایت کو سلام کیا اور کہا

’’اچھا جی۔ میں چلتی ہوں۔ گیان کو میرا سلام بول دینا۔ ‘‘

پھر اس نے تینوں نوکروں سے ہاتھ ملایا اور چلی گئی۔ سب کے چہروں پر اُداسی چھا گئی۔ پونے گھنٹے کے بعد گیان آیا۔ وہ کچھ لے کر آیا تھا۔ آتے ہی اس نے کفایت سے پوچھا

’’کہاں ہے وہ برمی لڑکی؟‘‘

’’چلی گئی‘‘

’’کیسے؟ دس روپے دیے تھے تم نے اسے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’تو ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے!‘‘

گیان کرسی پر بیٹھ گیا۔ کفایت نے پوچھا

’’کون تھی یہ لڑکی‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

کفایت سرتاپا حیرت بن گیا

’’کیا مطلب؟‘‘

گیان نے جواب دیا

’’مطلب یہ کہ میں نہیں جانتا کون تھی‘‘

’’جھوٹ!‘‘

’’تمہاری قسم سچ کہتا ہوں‘‘

کفایت نے پوچھا

’’کہاں سے مل گئی تمہیں‘‘

گیان نے ٹانگیں میز پررکھ دیں اور مسکرایا

’’عجیب داستان ہے یار۔ پانی کا سیلاب آنے والی رات میں شنکر کے ہاں چلا گیا۔ وہاں بہت پی۔ اندھیری اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوا تو سو گیا۔ گاڑی مجھے سیدھی چرچ گیٹ لے گئی وہاں مجھے چوکیدار نے جگایا کہ اٹھو۔ میں نے کہا بھئی مجھے گرانٹ روڈ جانا ہے۔ چوکیدار ہنسا آپ پانچ اسٹیشن آگے چلے آئے ہیں۔ اترا دوسرا پلیٹ فارم پر اندھیری جانے والی آخری گاڑی کھڑی تھی۔ اس میں سوار ہو گیا۔ گاڑی چلی تو پھرمجھے نیند آگئی۔ سیدھی اندھیری پہنچ گئی۔ ‘‘

کفایت نے پوچھا

’’مگر اس سے لڑکی کا کیا تعلق‘‘

تم سن تو لو، گیان نے سگریٹ سلگایا

’’اندھیری پہنچا یعنی جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں میں ایک چھوٹی سی لونڈیا کے ساتھ چمٹا ہوں۔ پہلے تو میں ڈرا وہ جاگ رہی تھی میں نے پوچھا، کون ہو تم؟۔ وہ مسکرائی۔ میں نے پھر پوچھا، کون ہو بھئی تم۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی لو اتنی دیر سے مجھے چومتے اور اب پوچھتے ہو، میں کون ہوں۔ میں نے حیرت سے کہا، اچھا۔ وہ ہنسنے لگی میں نے دماغ پر زور دیکر سوچنا مناسب خیال نہ کیا اور اس کو اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ صبح تین بجے تک ہم دونوں۔ پلیٹ فارم کی ایک بنچ پر سوئے رہے ساڑھے تین کی پہلی گاڑی آئی تو اس میں سوار ہو گئے۔ میرا ارادہ تھا کہ بندوبست کرکے اس کو کچھ روپے دوں گا۔ یہاں پہنچے تو پانی کا طوفان آیا ہوا تھا۔ ہے نا دل چسپ داستان۔ ‘‘

کفایت نے کہا

’’خاصی دلچسپی ہے۔ مگر وہ اتنے دن کیوں رہی یہاں؟‘‘

گیان نے سگریٹ فرش پر پھینکا

’’وہ کہاں رہی۔ میں نے اسے رکھا۔ اصل میں وہ یوں رہی کہ میرے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو اسے دیتا۔ بس دن گزرتے تھے۔ میں بے حد شرمندہ تھا کل رات میں نے اس سے صاف کہہ دیا کہ دیکھو بھئی، دن بڑھتے جارہے ہیں۔ تم ایسا کرو مجھے اپنا ایڈریس دے دو، میں تمہارا حق وہاں پہنچا دوں گا۔ آج کل میرا حال بہت پتلا ہے۔ ‘‘

کفایت نے پوچھا

’’یہ سن کر اس نے کیا کہا؟‘‘

گیان نے سر کو جنبش دی

’’عجیب ہی لڑکی تھی۔ کہنے لگی، یہ کیا کہتے ہو۔ میں نے تم سے کب مانگا ہے۔ لیکن دس روپے مجھے دیدینا۔ میرا گھر یہاں سے بہت دور ہے ٹیکسی میں جاؤنگی۔ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں‘‘

کفایت نے سوال کیا

’’نام کیا تھا اس کا؟‘‘

گیان سوچنے لگا۔

’’بھول گئے؟‘‘

گیان نے اپنی ٹانگیں میز پر سے ہٹائیں

’’نہیں یار۔ میں نے اس سے نام نہیں پوچھا۔ حد ہو گئی۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔ 10جون1950ء

سعادت حسن منٹو

بُرقعے

ظہیر جب تھرڈ ایئر میں داخل ہوا تو ایک اس نے محسوس کیا کہ اسے عشق ہو گیا ہے۔ اور عشق بھی بہت اشد قسم کا۔ جس میں اکثر انسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ وہ کالج سے خوش خوش واپس آیا کہ تھرڈایئر میں یہ اس کا پہلا دن تھا۔ جونہی وہ اپنے گھر میں داخل ہونے لگا، اس نے ایک برقع پوش لڑکی دیکھی جو ٹانگے میں سے اتر رہی تھی۔ اس نے ٹانگے میں سے اترتی ہوئی ہزار ہا لڑکیاں دیکھی تھیں۔ مگر وہ لڑکی جس کے ہاتھ میں چند کتابیں تھیں، سیدھی اس کے دل اتر گئی۔ لڑکی نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا اور ظہیر کے ساتھ والے مکان میں چلی گئی۔ ظہیر نے سوچنا شروع کردیا کہ اتنی دیر وہ اس کی موجودگی سے غافل کیسے رہا؟ اصل میں ظہیر آوارہ منش نوجوان نہیں تھا، اس کو صرف اپنی ذات سے دلچسپی تھی۔ صبح اٹھے، کالج گئے، لیکچر سُنے، گھر واپس آئے، کھانا کھایا، تھوڑی دیر آرام کیا، اور آموختہ دہرانے میں مصروف ہو گئے۔ یوں تو کالج میں کئی لڑکیاں تھیں، اس کی ہم جماعت، مگر ظہیر نے کبھی ان سے بات چیت نہیں کی تھی۔ یہ نہیں کہ وہ بڑا رُوکھا پھیکا انسان تھا۔ اصل میں وہ ہر وقت اپنی پڑھائی میں مشغول رہتا تھا۔ مگر اس روز جب اس نے اس لڑکی کو ٹانگے پر سے اترتے دیکھا تو وہ پولیٹیکل سائنس کا تازہ سبق بالکل بھول گیا۔ خواجہ حافظ کے تمام نئے اشعار کے معانی اس کے ذہن سے پھسل گئے اور وہ ان ہاتھوں کے متعلق سوچنے لگا جن میں کتابیں تھیں۔ پتلی پتلی سفید انگلیاں۔ ایک انگلی میں انگوٹھی۔ دوسرا ہاتھ جس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا وہ بھی ویسا ہی خوبصورت تھا۔ ظہیر نے اس کی شکل دیکھنے کی کوشش کی، مگر نقاب اتنی موٹی تھی کہ اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی، اس کے ساتھ والے مکان میں داخل ہو گئی اور ظہیر کھڑا دیر تک سوچتا رہا کہ اتنا کم فاصلہ ہونے کے باوجود وہ کیوں اس کی موجودگی سے غافل رہا۔ اپنے گھر میں جا کر اس نے پہلا سوال اپنی ماں سے یہ کیا۔

’’ہمارے پڑوس میں کون رہتے ہیں؟‘‘

اس کی ماں کے لیے یہ سوال بہت تعجب خیز تھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’میں نے ایسے ہی پوچھا ہے۔ ‘‘

اس کی ماں نے کہا۔

’’مہاجر ہیں، ہماری طرح۔ ‘‘

ظہیر نے پوچھا۔

’’کون ہیں، کیا کرتے ہیں؟‘‘

ماں نے جواب دیا۔

’’باپ بیچاروں کا مر چکا ہے۔ ماں تھی، وہ عمر کے ہاتھوں معذور تھی۔ اب تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ بھائی سب سے بڑا ہے۔ وہی باپ سمجھو، وہی ماں۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ اس نے اپنی شادی بھی اس لیے نہیں کہ اتنا بوجھ اس کے کاندھوں پر ہے!‘‘

ظہیر کو تین بہنوں کے اس بوجھ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جو اس کے اکلوتے بھائی کے کاندھوں پر تھا۔ وہ صرف اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا جوہاتھ میں کتابیں لیے ساتھ والے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ یہ تو ظاہر تھا کہ وہ ان تین بہنوں میں سے ایک تھی۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ پنکھے کے نیچے لیٹ گیا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ گرمیوں میں کھانے کے بعد ایک گھنٹے تک ضرور سویا کرتا تھا۔ مگر اس روز اسے نیند نہ آئی۔ وہ اس لڑکی کے متعلق سوچتا رہا جو اس کے پڑوس میں رہتی تھی۔ کئی دن گزر گئے، مگر ان کی مڈبھیڑ نہ ہوئی۔ کالج سے آکر اس نے سینکڑوں مرتبہ کوٹھے پرگھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہ کر اس کی آمد کا انتظار کیا۔ مگر وہ نہ آئی۔ ظہیر مایوس ہو گیا۔ وہ بہت جلد مایوس ہوجانے والا آدمی تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ سب بیکار ہے۔ مگر عشق کہتا تھا کہ یہ بیکاری ہی سب سے بڑی چیز ہے۔ عشق میں سب سے پہلے عاشق کو اس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، جو گھبرایا، وہ گیا۔ چنانچہ ظہیر نے اپنے دل میں عہد کرلیا کہ پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو وہ گھبرائے گا نہیں، اپنے عشق میں ثابت قدم رہے گا۔ بہت دنوں کے بعد جب وہ سائیکل پر کالج سے واپس آرہا تھا، اس نے اپنے آگے ایک ٹانگہ دیکھا، جس میں ایک بُرقع پوش لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کا قیاس بالکل درست نکلا، کیونکہ یہ وہی لڑکی تھی۔ ٹانگہ رُکا۔ ظہیر سائیکل پر سے اتر پڑا۔ لڑکی کے ایک ہاتھ میں کتابیں تھیں، دوسرے ہاتھ سے اس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا اور چل پڑی۔ مگر ٹانگے والا پکارا۔

’’اے بی بی جی۔ یہ کیا دیا تم نے؟‘‘

اس کے لہجے میں بدتمیزی تھی۔ لڑکی رکی، پلٹ کر اس نے ٹانگے والے کو اپنے برقعے کی نقاب میں سے دیکھا۔

’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘

ٹانگے والا نیچے اتر آیا اور ہتھیلی پر اٹھنی دکھا کر کہنے لگا۔

’’یہ آٹھ آنے نہیں چلیں گے۔ ‘‘

لڑکی نے مہین لرزاں آواز میں کہا۔

’’میں ہمیشہ آٹھ آنے ہی دیا کرتی ہوں۔ ‘‘

ٹانگے والا بڑا واہیات قسم کا آدمی تھا، بولا۔

’’وہ آپ سے رعایت کرتے ہوں گے۔ مگر۔ ‘‘

یہ سن کر ظہیر کو طیش آگیا، سائیکل چھوڑ کر آگے بڑھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک مُکا ٹانگے والے کی تھوڑی کے نیچے جما دیا، وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ ایک اور اس کی داہنی کنپٹی پر۔ اس زور کا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اس کے بعد ظہیر اس لڑکی سے جو ظاہر ہے کہ گھبرا گئی تھی، مخاطب ہوا۔

’’آپ تشریف لے جائیے، میں اس حرامزادے سے نبٹ لوں گا۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ کہنا چاہا، شاید شکریے کے الفاظ تھے جو اُس کی زبان کی نوک پر آکر واپس چلے گئے۔ وہ چلی گئی۔ دس قدم ہی تو تھے، مگر ظہیر کو پورے بیس منٹ اس ٹانگے والے سے نبٹنے میں لگے۔ وہ بڑا ہی لیچڑ قسم کا ٹانگے والا تھا۔ ظہیر بہت خوش تھا کہ اس نے اپنی محبوبہ کے سامنے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ٹانگے والے کو خوب پیٹا تھا اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ وہ برقع پوش لڑکی اپنے گھر سے، چق لگی کھڑکی کے پیچھے سے اس کو دیکھ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر ظہیر نے دو گھونسے اور اس کوچوان کی تھوڑی کے نیچے جما دیے تھے۔ اس کے بعد ظہیر سر سے پیر تک اس برقع پوش کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے اپنی والدہ سے مزید استفسار کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا نام یاسمین ہے۔ تین بہنیں ہیں، باپ ان کا مر چکا ہے، ماں زندہ ہے، معمولی سی جائیداد ہے جس کے کرائے پر ان سب کا گزارہ ہورہا ہے۔ ظہیر کو اب اپنی معشوقہ کا نام معلوم ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس نے یاسمین کے نام کئی خط کالج میں بیٹھ کر لکھے، مگر پھاڑ ڈالے۔ لیکن ایک روز اس نے ایک طویل خط لکھا اور تہیہ کرلیا کہ وہ اس تک ضرور پہنچا دے گا۔ بہت دنوں کے بعد جب کہ ظہیر سائیکل پر کالج سے واپس آرہا تھا اس نے یاسمین کو ٹانگے میں دیکھا۔ وہ اتر کر جارہی تھی، لپک کر وہ آگے بڑھا، جیب سے خط نکالا اور ہمت اور جرأت سے کام لے کر اس نے کاغذ اس کی طرف بڑھا دیے۔

’’یہ آپ کے کچھ کاغذ ٹانگے میں رہ گئے تھے۔ ‘‘

یاسمین نے وہ کاغذ لے لیے۔ نقاب کا کپڑا سرسرایا۔

’’شکریہ!‘‘

یہ کہہ کروہ چلی گئی۔ ظہیر نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن اس کا دل دھک دھک کرہا تھا۔ اس لیے کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے خط کا کیا حشر ہونے والا ہے، وہ ابھی اس حشر کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور ٹانگہ اس کی سائیکل کے پاس رکا، اس میں سے ایک برقع پوش لڑکی اتری۔ اس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا۔ یہ ہاتھ جس سے کرایہ ادا کیا گیا تھا، ویسا ہی تھا، جیسا اس لڑکی کا تھا، جس کو پہلی مرتبہ ظہیر نے دیکھا تھا۔ کرایہ ادا کرنے کے بعد، یہ لڑکی اس مکان میں چلی گئی جہاں یاسمین گئی تھی۔ ظہیرسوچتا رہ گیا۔ لیکن اس کو معلوم تھا کہ تین بہنیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی یاسمین کی چھوٹی بہن ہو۔ خط دے کر ظہیر نے یہ سمجھا تھا کہ آدھا میدان مار لیا ہے۔ پر جب دوسرے روز اسے کالج جاتے وقت ایک چھوٹے سے لڑکے نے کاغذ کا ایک پُرزدہ دیا تو اسے یقین ہو گیا کہ پورا میدان مار لیا گیا ہے۔ لکھا تھا:

’’آپ کا محبت نامہ ملا۔ جن جذبات کا اظہار آپ نے کیا ہے، اس کے متعلق میں آپ سے کیا کہوں۔ میں۔ میں۔ میں اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے۔ ‘‘

یہ رقعہ پڑھ کر ظہیر کی باچھیں کِھل گئیں۔ کالج میں کوئی پیریڈ اٹنڈ نہ کیا۔ بس سارا وقت باغ میں گھومتا اور اس رقعے کو پڑھتا رہا۔ دو دن گزر گئے، مگر یاسمین کی مڈبھیڑ نہ ہوئی۔ اس کو بہت کوفت ہورہی تھی۔ اس لیے کہ اس نے ایک لمبا چوڑا محبت بھرا خط لکھ دیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس تک پہنچا دے۔ تیسرے روز آخر کار وہ ظہیر کو ٹانگے میں نظر آئی۔ جب وہ کرایہ ادا کررہی تھی، سائیکل ایک طرف گرا کر وہ آگے بڑھا، اور یاسمین کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’حضور! یہ آپ کے چند کاغذات ٹانگے میں رہ گئے تھے!‘‘

یاسمین نے ایک جھٹکے۔ غصے سے بھرے ہوئے جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ چھڑایا اور تیز لہجے میں کہا۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ اور ظہیر کے محبت بھرے خط کے کاغذ سڑک پر پھڑپھڑانے لگے۔ وہ سخت حیرت زدہ تھا کہ وہ لڑکی جس نے یہ کہا تھا کہ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے، اتنی رعونت سے کیوں پیش آتی ہے۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شاید یہ بھی اندازِ دلربانہ ہے۔ دن گزرتے گئے، مگر ظہیر کے دل و دماغ میں یاسمین کے یہ الفاظ ہر وقت گونجتے رہتے تھے۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ شرم نہیں آتی تمہیں‘‘

۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے اس رقعے کے الفاظ یاد آتے جس میں یہ لکھا تھا۔

’’مجھے اپنی لونڈی سمجھیے۔ ‘‘

ظہیر نے اس دوران میں کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے، وہ چاہتا تھا کہ مناسب و موزوں الفاظ میں یاسمین سے کہے کہ اس نے بدتمیز کہہ کر اس کی اور اس کی محبت کی توہین کی ہے۔ مگر اُسے ایسے الفاظ نہیں ملتے تھے۔ وہ خط لکھتا تھا، مگر جب اسے پڑھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ غیر معمولی طور پر درشت ہے۔ ایک دن جب کہ وہ باہر سڑک پر اپنی سائیکل کے اگلے پہیے میں ہوا بھر رہا تھا۔ ایک لڑکا آیا، اور اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر بھاگ گیا۔ ہوا بھرنے کا پمپ ایک طرف رکھ کر اس نے لفافہ کھولا، ایک چھوٹا سا رقعہ تھا۔ جس میں یہ چند سطریں مرقوم تھیں:

’’آپ اتنی جلدی مجھے بھول گئے۔ محبت کے اتنے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ خیر۔ آپ بھول جائیں تو بھول جائیں۔ آپ کی کنیز آپ کو کبھی بھول نہیں سکتی۔ ‘‘

ظہیر چکرا گیا۔ اس نے یہ رقعہ بار بار پڑھا۔ سامنے دیکھا تو یاسمین ٹانگے میں سوار ہورہی تھی۔ سائیکل وہیں لٹا کر وہ اس کی طرف بھاگا۔ ٹانگہ چلنے ہی والا تھا کہ اس نے پاس پہنچ کر یاسمین سے کہا:

’’تمہارا رقعہ ملا ہے۔ خدا کے لیے تم اپنے کو کنیز اور لونڈی نہ کہا کرو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘

یاسمین کے برقعے کی نقاب اچھلی۔ بڑے غصے سے اس نے ظہیر سے کہا۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔ میں آج ہی تمہاری ماں سے کہوں گی کہ تم مجھے چھیڑتے ہو۔ ‘‘

ٹانگہ چل ہی رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ظہیر رقعہ ہاتھ میں پکڑے سوچتا رہ گیا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ مگرپھر اسے خیال آیا کہ معشوقوں کا رویہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے وہ سر بازار اس قسم کے مظاہروں کو پسند نہیں کرتے۔ خط و کتابت کے ذریعے ہی سے، کہ یہ ایک خاموش طریقہ ہے۔ ساری باتیں طے ہو جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ اس نے دوسرے روز ایک طویل خط لکھا اور جب وہ کالج سے واپس آرہا تھا، ٹانگے میں یاسمین کو دیکھا۔ وہ اتر کر کرایہ ادا کر چکی تھی اور گھر کی جانب جارہی تھی خط اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ایک نظر اس نے اپنے برقعے کی نقاب میں سے ظہیر کی طرف دیکھا اور چلی گئی۔ ظہیر نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی نقاب کے اندر مسکرا رہی تھی۔ اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ چنانچہ دوسرے روز صبح جب وہ سائیکل نکال کر کالج جانے کی تیاری کررہا تھا، اس نے یاسمین کو دیکھا۔ شاید وہ ٹانگے والے کا انتظار کررہی تھی۔ داہنے ہاتھ میں کتابیں پکڑے تھی۔ بایاں ہاتھ جھول رہا تھا۔ میدان خالی تھا، یعنی اس وقت بازار میں کوئی آمدورفت نہ تھی۔ ظہیر نے موقعہ غنیمت سمجھا، جرأت سے کام لے کر اس کے پاس پہنچا اور اس کا ہاتھ جو کہ جھول رہا تھا، پکڑ لیا اور بڑے رومانی انداز میں اس سے کہا۔

’’تم بھی عجیب لڑکی ہو۔ خطوں میں محبت کا اظہار کرتی ہو اور بات کریں تو گالیاں دیتی ہو۔ ‘‘

ظہیر نے بمشکل یہ الفاظ ختم کیے ہوں گے کہ یاسمین نے اپنی سینڈل اتار کر اس کے سر پر دھڑادھڑ مارنا شروع کردی۔ ظہیر بوکھلا گیا۔ یاسمین نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔ مگر وہ بوکھلاہٹ کے باعث سن نہ سکا۔ اس خیال سے کہ کوئی دیکھ نہ لے، وہ فوراً اپنے گھر کی طرف پلٹا۔ سائیکل اٹھائی اور قریب تھا کہ اپنی کتابیں وغیرہ اسٹینڈ کے ساتھ جما کرکالج کا رخ کرے کہ ٹانگہ آیا۔ یاسمین اس میں بیٹھی اور چلی گئی۔ ظہیر نے اطمینان کا سانس لیا۔ اتنے میں ایک اور بر قع پوش لڑکی نمودار ہوئی، اسی گھر میں سے جس میں سے یاسمین نکلی تھی۔ اس نے ظہیر کی طرف دیکھا اور اس کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔ مگر ظہیر ڈرا ہوا تھا۔ جب لڑکی نے دیکھا کہ ظہیر نے اس کا اشارہ نہیں سمجھا تو وہ اس سے قریب ہو کے گزری اور ایک رقعہ گرا کر چلی گئی۔ ظہیر نے کاغذ کا وہ پُرزہ اٹھایا، اس پر لکھا تھا:

’’تم کب تک مجھے یونہی بے وقوف بناتے رہو گے؟۔ تمہاری ماں میری ماں سے کیوں نہیں ملتیں۔ آج پلازا سینما پر ملو۔ پہلا شو۔ تین بجے۔ پروین!‘‘

سعادت حسن منٹو

برف کا پانی

’’یہ آپ کی عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں‘‘

’’میری عقل پر تو اُسی وقت پتھر پڑ گئے تھے جب میں نے تم سے شادی کی بھلا اس کی ضرورت ہی کیا تھی اپنی ساری آزادی سلب کرالی۔

’’جی ہاں آزادی تو آپ کی یقیناً سلب ہُوئی اس لیے کہ اگر آپ اب کھلے بندوں عیاشی نہیں کرسکتے شادی سے پہلے آپ کو کون پوچھنے والا تھا جدھر و منہ اُٹھایا چل دئیے جھک مارتے رہے‘‘

’’دیکھو میں تم سے کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ کہنا ہو چند لفظوں میں صاف صاف کہہ دیا کرو مجھے یہ جھک جھک پسند نہیں۔ جس طرح میں صاف گو ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی صاف گو ہوں‘‘

’’آپ کی صافگوئی تو ضرب المثل بن چکی ہے‘‘

’’تمہاری یہ طنز خدا معلوم تم سے کب جدا ہو گی اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔

’’آپ کی طبیعت تو شگفتہ گفتگو سُن کر بھی خراب ہو جاتی ہے اب اس کا کیا علاج ہے اصل میں آپ کو میری کوئی چیز بھی پسند نہیں۔ ہر وقت مجھ میں کیڑے ڈالنا آپ کا شغل ہو گیا ہے اگر میں آپ کے دل سے اُتر گئی ہوں تو صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے بڑے صاف گوبنے پھرتے ہیں آپ ایسا ریا کار شاید ہی دنیا کے تختے پر ہو۔ ‘‘

’’اب میں ریا کار بھی ہو گیا کیا ریاکاری کی ہے میں نے تم سے یہی کہ تمہاری نوکروں کی طرح خدمت کرتا ہوں۔ ‘‘

’’بڑی خدمت کی ہے آپ نے میری۔ ‘‘

’’سر پر قرآن اُٹھاؤ اور بتاؤ کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے کبھی تم نے میرا سر تک سہلایا ہے میں بُخار میں پھنکتا رہا ہوں کبھی تم نے میری تیمار داری کی۔ پچھلے دنوں میرے سر میں شدت کا درد تھا میں نے رات کو تمھیں آواز دی اور کہا مجھے بام دے دو مگر تم نے کروٹ بدل کر کہا۔ میری نیند نہ خراب کیجیے ٗ آپ اُٹھ کر ڈھونڈ لیجیے کہاں ہے۔ اور یاد ہے جب تمھیں نمونیہ ہو گیا تھا تو میں نے سات راتیں جاگ کر کاٹی تھیں دن اور رات مجھے پل بھر کا چین نصیب نہیں تھا۔

’’دن بھر سوئے رہتے تھے آپ میری بیماری کا ایک بہانہ مل گیا تھا سات چھٹیاں لیں اور دفتر کے کام سے نجات پا کر آرام کرتے رہے ہیں آپ کے سارے حیلے بہانے جانتی ہوں میرا علاج آپ نے کیا تھا یا ڈاکٹروں نے۔ ‘‘

ان ڈاکٹروں کو تم بُلا کر لائی تھیں کیا۔ اور دوائیں بھی کیا تم نے خود جا کر خریدی تھیں اور جو روپیہ خرچ ہوا کیا فرشتوں نے اوپر سے پھینک دیا تھا کتنے سفید جھوٹ بولتی ہو کہ میں دن کو سویا رہتا تھا قسم خدا کی جو ایک لمحے کے لیے بھی ان دنوں سویا ہوں تم بیمار ہو جاؤ تو گھر کی اینٹیں بھی جاگتی رہتی ہیں تم اُس وقت کس کو سونے دیتی ہو۔ آہ و پُکار کاتانتا بندھا رہتا ہے جیسے کسی پر بہت بڑا ظلم ڈھایا جارہا ہے۔

’’جناب بیماریاں ظلم نہیں ہوتیں تو کیا ہوتی ہیں جو میں نے برداشت کیا ہے وہ آپ کبھی نہ کرسکتے۔ اور نہ کبھی کر سکتے ہیں میں نے کتنی بیماریاں خندہ پیشانی سے سہی ہیں آپ کو تو خیر اس وقت کچھ یاد نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ آپ میرے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ ‘‘

’’دن ہی کو میں تمہارا دشمن بن جاتا ہوں رات کو تو تم نے ہمیشہ بہترین دوست سمجھا ہے‘‘

’’شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے‘‘

’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘

کہہ کر آپ نے میرا گلا گھونٹ دیا کہ میں آپ سے کچھ اور نہ کہہ سکوں‘‘

’’لو بھئی اب میں اطمینان سے یہاں بیٹھ جاتا ہوں آرام جائے جہنم میں تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ایک ہی سانس میں کہتی چلی جاؤ۔ ‘‘

’’میری سانس اتنی لمبی نہیں۔ ‘‘

’’عورتوں کو سانس کے متعلق تو یہی سُنا تھا کہ بہت لمبی ہوتی ہے اور زبان بھی ماشاء اللہ کافی دراز۔ ‘‘

’’آپ یہ مہین مہین چٹکیاں نہ لیجیے میں نے اگر کچھ کہہ دیا تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔ ‘‘

’’اس تن بدن میں کئی بار آگ لگ چکی ہے چلو ایک فائر کرو اور قصہ تمام کر دو‘‘

’’قصہ تو آپ میرا تمام کر کے رہیں گے۔ ‘‘

’’کس لیے۔ مجھے تم سے کیا بغض ہے اللہ کے واسطے کا بیر تو نہیں مجھ سے ہے۔ ‘‘

’’محبت اور اطاعت کو آپ بیر سمجھتے ہیں اس لیے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کی عقل پر پتھر پتھر پڑ گئے ہیں۔

’’میری عقل پر پتھر پڑیں یا کوہ ہمالیہ کا پہاڑ لیکن تمہاری محبت اور اطاعت میری سمجھ میں نہیں آئی اطاعت کو فی الحال چھوڑو۔ لیکن میں یہ پوچھتا ہُوں کہ اب تک تم محبت بھری گفتگو کر رہی تھیں‘‘

’’تو میں نے آپ کو کون سی گالی دی ہے‘‘

’’گالی دینے میں تم نے کوئی کسر تو اٹھا نہیں رکھی ریا کار تک تو بتا دیا مجھ کو اس سے بد تر گالی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ‘‘

’’یہ لو کھلا گریبان ہے میں نے اپنا سارا سر اس میں ڈال دیا اب تم بتاؤ۔ صرف تمہاری شکل نظر آتی ہے۔ خوفناک ٗ بڑی ہیبت ناک‘‘

’’تو کوئی دوسری کر لیجیے جو خوش شکل ہو۔ ‘‘

’’ایک ہی کر کے میں نے بھرپایا ہے۔ خدا نہ کرے زندگی میں دوسری آئے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے اس قدر تنگ کیوں آ گئے ہیں۔ ‘‘

’’میں قطعاً تنگ نہیں آیا۔ بس تم دل جلاتی رہتی ہو۔ ‘‘

’’میرا دل تو جل کر کوئلہ ہو چکا ہے سچ پوچھیے تو میں چاہتی ہوں کہ کچھ کھا کے مر جاؤں۔ میں جارہی ہوں‘‘

’’کہاں۔ ‘‘

’’میں نے ایک من برف منگوائی ہے اسے چار بالٹیوں میں پانی کے اندر ڈال رکھا ہے اس ٹھنڈے پانی سے نہاؤں گی اور پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤں گی ایک مرتبہ مجھے پہلے نمونیہ تو ہو ہی چکا ہے اب ہو گا تو پھیپھڑے یقیناًجواب دے جائیں گے۔ ‘‘

’’خدا حافظ۔ ‘‘

’’خدا حافظ۔ خودکشی کا یہ طریقہ تم نے بہت اچھا ڈُھونڈا ہے جو آج تک کسی کو سُوجھا نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کے پہلو میں تو دل ہی نہیں‘‘

’’جوکچھ بھی ہے بہر حال موجود ہے اور دھڑکتا بھی ہے۔ جاؤ یخ آلود پانی سے نہا کر پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

’’جا رہی ہوں۔ آپ سے چند باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

’’ضرور کرو۔ ‘‘

’’میرے بچوں کا آپ ضرور خیال رکھیئے گا۔ ‘‘

’’کیا وہ میرے بچے نہیں ہیں۔ ‘‘

’’ہیں۔ لیکن شاید میری وجہ سے اچھا سلوک نہ کرو‘‘

’’نہیں نہیں۔ تم کوئی فکر نہ کرو۔ میں انھیں بورڈنگ میں داخل کرانے لے جاتا ہوں۔ خدا حافظ‘‘

’’خدا تمہارا حافظ ہو مجھے تو فی الحال خودکشی نہیں کرنی لیکن سنو نمونیہ ہو تو ڈاکٹر کو بُلا لاؤں۔ ‘‘

’’ہرگز نہیں۔ میں مرنا چاہتی ہوں‘‘

’’تو میں نہیں بُلاؤں گا۔ لیکن نمونیہ کے مریض فوراً نہیں مرتے پانچ چھ روز تو لگاتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ اس عرصہ تک انتظار کیجیے گا۔ ‘‘

’’بہت بہتر۔ ‘‘

’’میری کہی سُنی معاف کر دیجیے گا۔ ‘‘

’’وہ تو میں نے اُسی روز کر دی تھی جب تم سے نکاح ہوا تھا۔ ‘‘

’’میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کی عقل پر جو پتھر پڑ گئے ہیں انھیں دُور کر دیجیے گا۔ ‘‘

’’میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم کہو تو قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں اچھا تو میں چلا بچے باہر کھیل رہے ہیں انھیں ہوسٹل لے جاتا ہوں واپس دو تین گھنٹے میں آ جاؤں گا۔ اگر اس دوران میں تم مر گئیں تو بہت اچھا ٗ تجہیز و تکفین کا سامان کر دُوں گا ٗ مجھے ابھی کل ہی تنخواہ ملی ہے۔ ‘‘

’’جائیے میں بھی چلی۔ ‘‘

’’الوداع۔ ‘‘

’’الوداع۔ ‘‘

’’کبھی کبھی مجھ نابکار کو یاد کر لیا کیجیے‘‘

’’ضرور ضرور تم نابکار کیوں کہتی ہو خود کو‘‘

’’میں کس کام کی ہوں‘‘

’’خیر چھوڑو۔ بحث اس پر الگ شروع ہو جائے گی۔ اور تمہاری خریدی ہُوئی ایک من برف پگھل کر گرم پانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ‘‘

’’یہ تو آپ نے درست کہا۔ اچھا۔ میں چلی۔ ‘‘

میں آ گیا ہوں بچوں کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرا کے تم غسلخانے میں ابھی تک کیا کر رہی ہو۔

’’کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔ ‘‘

’’کیا سوچ رہی تھیں‘‘

’’میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا‘‘

’’کونسا خط۔ ‘‘

’’جو آپ کی میز کی دراز میں پڑا تھا کسی لڑکی کی طرف سے تھا۔ اب میں نے جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے نام نہیں بلکہ اُس اخبار کے ایڈیٹر کے نام ہے جہاں آپ کام کرتے ہیں مجھے افسوس ہے میں نے آپ پر شک کیا۔ ‘‘

’’تم ہمیشہ شک کیا کرتی ہو۔ اب تو میری عقل کے پتھر ہٹ گئے۔ وہ لڑکی نہیں کوئی مرد ہے اسی لیے میں تفتیش کی غرض سے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا خیر چھوڑو ٹھنڈا پانی تو پلاؤ ایک من برف تم نے منگوائی تھی۔ ‘‘

’’اُس کا سب پانی میں نے غسل خانے میں ڈال دیا۔ بڑا ٹھنڈا ہو گیا ہے آپ بھی یہاں آ جائیے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بدصورتی

ساجدہ اورحامدہ دو بہنیں تھیں۔ ساجدہ چھوٹی اور حامدہ بڑی۔ ساجدہ خوش شکل تھی۔ ان کے ماں باپ کو یہ مشکل درپیش تھی کہ ساجدہ کے رشتے آتے مگر حامدہ کے متعلق کوئی بات نہ کرتا۔ ساجدہ خوش شکل تھی مگر اس کے ساتھ اسے بننا سنورنا بھی آتا تھا۔ اس کے مقابلے میں حامدہ بہت سیدھی سادھی تھی۔ اس کے خدوخال بھی پرکشش نہ تھے۔ ساجدہ بڑی چنچل تھی۔ دونوں جب کالج میں پڑھتی تھیں تو ساجدہ ڈراموں میں حصہ لیتی۔ اس کی آواز بھی اچھی تھی، سر میں گا سکتی تھی۔ حامدہ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ کالج کی تعلیم سے فراغت ہوئی تو ان کے والدین نے ان کی شادی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ ساجدہ کے لیے کئی رشتے تو آچکے تھے، مگر حامدہ بڑی تھی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ پہلے اس کی شادی ہو۔ اسی دوران میں ساجدہ کی ایک خوبصورت لڑکے سے خط و کتابت شروع ہو گئی جو اس پربہت دنوں سے مرتا تھا۔ یہ لڑکا امیر گھرانے کا تھا۔ ایم اے کر چکا تھا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جانے کی تیاریاں کررہا تھا۔ اس کے ماں باپ چاہتے تھے کہ اس کی شادی ہو جائے تاکہ وہ بیوی کو اپنے ساتھ لے جائے۔ حامدہ کو معلوم تھا کہ اس کی چھوٹی بہن سے وہ لڑکا بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک دن جب ساجدہ نے اسے اس لڑکے کا عشقیہ جذبات سے لبریز خط دکھایا تووہ دل ہی دل میں بہت کُڑھی، اس لیے کہ اس کا چاہنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے اس خط کا ہر لفظ بار بار پڑھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دل میں سوئیاں چبھ رہی ہیں، مگر اس نے اس درد و کرب میں بھی ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی، لیکن وہ اپنی چھوٹی بہن پر برس پڑی:

’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ غیر مردوں سے خط و کتابت کرتی ہو!‘‘

ساجدہ نے کہا۔

’’باجی۔ اس میں کیا عیب ہے!‘‘

’’عیب!۔ سراسر عیب ہے۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں کبھی ایسی بے ہودہ حرکتیں نہیں کرتیں۔ تم اس لڑکے حامد سے محبت کرتی ہو؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’لعنت ہے تم پر‘‘

ساجدہ بھنا گئی۔

’’دیکھو باجی مجھ پر لعنتیں نہ بھیجو۔ محبت کرنا کوئی جرم نہیں۔ ‘‘

حامدہ چلائی۔

’’محبت محبت۔ آخر یہ کیا بکواس ہے۔ ‘‘

ساجدہ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’جو آپ کو نصیب نہیں۔ ‘‘

حامدہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ چنانچہ کھوکھلے غصے میں آکر اس نے چھوٹی بہن کے منہ پر زور کا تھپڑ مار دیا۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے الجھ گئیں۔ دیر تک ان میں ہاتھا پائی ہوتی رہی۔ حامدہ اس کو یہ کوسنے دیتی رہی کہ وہ ایک نامحرم مرد سے عشق لڑا رہی ہے، اور ساجدہ اس سے یہ کہتی رہی کہ وہ جلتی ہے اس لیے کہ اس کی طرف کوئی مرد آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ حامدہ ڈیل ڈول کے لحاظ سے اپنی چھوٹی بہن کے مقابلے میں کافی تگڑی تھی، اس کے علاوہ اسے خار بھی تھی جس نے اس کے اندر اور بھی قوت پیدا کردی تھی۔ اس نے ساجدہ کو خوب پیٹا۔ اس کے گھنے بالوں کی کئی خوبصورت لٹیں نوچ ڈالیں اور خود ہانپتی ہانپتی اپنے کمرے میں جا کر زار و قطار رونے لگی۔ ساجدہ نے گھر میں اس حادثے کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ حامدہ شام تک روتی رہی۔ بے شمار خیالات اس کے دماغ میں آئے۔ وہ نادم تھی کہ اس نے محض اس لیے کہ اس سے کوئی محبت نہیں کرتا اپنی بہن کو، جو بڑی نازک ہے، پیٹ ڈالا۔ وہ ساجدہ کے کمرے میں گئی۔ دروازے پر دستک دی اور کہا۔

’’ساجدہ!‘‘

ساجدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ حامدہ نے پھر زور سے دستک دی اور رونی آواز میں پکاری۔

’’ساجی! میں معافی مانگنے آئی ہوں۔ خدا کے لیے دروازہ کھولو۔ ‘‘

حامدہ دس پندرہ منٹ تک دہلیز کے پاس آنکھوں میں ڈبڈبائے آنسو لیے کھڑی رہی، اسے یقین نہیں تھا کہ اس کی بہن دروازہ کھولے گی، مگر وہ کُھل گیا۔ ساجدہ باہر نکلی اور اپنی بڑی بہن سے ہم آغوش ہو گئی۔

’’کیوں باجی۔ آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘

حامدہ کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

’’مجھے افسوس ہے کہ تم سے آج بیکار لڑائی ہو گئی۔ ‘‘

’’باجی۔ میں بہت نادم ہوں کہ میں نے آپ کے متعلق ایسی بات کہہ دی جو مجھے نہیں کہنی چاہیے تھی۔ ‘‘

’’تم نے اچھا کیا ساجدہ۔ میں جانتی ہوں کہ میری شکل و صورت میں کوئی کشش نہیں۔ خدا کرے تمہارا احسن قائم رہے۔ ‘‘

’’باجی!۔ میں قطعاً حسین نہیں ہوں۔ اگر مجھ میں کوئی خوبصورتی ہے تو میں دعا کرتی ہوں کہ خدا اسے مٹا دے۔ میں آپ کی بہن ہوں۔ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اپنے چہرے پر تیزاب ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

’’کیسی فضول باتیں کرتی ہو۔ کیا بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ تمہیں حامد قبول کرلے گا؟‘‘

’’مجھے یقین ہے۔ ‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’وہ مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو وہ میری لاش سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ ‘‘

’’یہ محض بکواس ہے‘‘

’’ہو گی۔ لیکن مجھے اس کا یقین ہے۔ آپ اس کے سارے خط پڑھتی رہی ہیں۔ کیا ان سے آپ کو یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ مجھ سے کیا کیا پیمان کر چکا ہے۔ ‘‘

’’ساجی۔ ‘‘

یہ کہہ کر حامدہ رک گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد اس نے لرزاں آواز میں کہا۔

’’میں عہد و پیمان کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘

اور رونا شروع کردیا۔ اس کی چھوٹی بہن نے اسے گلے سے لگایا۔ اس کو پیار کیا اور کہا

’’باجی۔ آپ اگر چاہیں تو میری زندگی سنور سکتی ہے۔ ‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’مجھے حامد سے محبت ہے۔ میں اس سے وعدہ کرچکی ہوں کہ اگر میری کہیں شادی ہو گی تو تمہیں سے ہو گی۔ ‘‘

’’تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’میں یہ چاہتی ہوں۔ کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کریں۔ اگر وہاں سے پیغام آئے تو آپ اس کے حق میں گفتگو کیجیے۔ امی اور ابا آپ کی ہر بات مانتے ہیں۔ ‘‘

’’میں انشاء اللہ تمہیں ناامید نہیں کروں گی۔ ‘‘

ساجدہ کی شادی ہو گئی، حالانکہ اس کے والدین پہلے حامدہ کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ مجبوری تھی، کیا کرتے۔ ساجدہ اپنے گھر میں خوش تھی۔ اس نے اپنی بڑی بہن کو شادی کے دوسرے دن خط لکھا جس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا:

’’میں بہت خوش ہوں۔ حامد مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ باجی۔ محبت عجیب وغریب چیز ہے۔ میں بے حد مسرور ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا صحیح مطلب اب میری سمجھ میں آیا ہے۔ خدا کرے کہ آپ بھی اس مسرت سے محظوظ ہوں۔ ‘‘

اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں اس خط میں تھیں جو ایک بہن اپنی بہن کو لکھ سکتی ہے۔ حامدہ نے یہ پہلا خط پڑھا اور بہت روئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اسکا ہرلفظ ایک ہتھوڑا ہے جو اس کے دل پر ضرب لگا رہا ہے اس کے بعد اس کو اور بھی خط آئے جن کو پڑھ پڑھ کے اس کے دل پر چھریاں چلتی رہیں۔ رو رو کر اس نے اپنا براحال کرلیا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ کوئی راہ چلتا جوان لڑکا اس کی طرف متوجہ ہو، مگر ناکام رہی۔ اسے اس عرصے میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد ملا۔ بس میں مڈبھیڑ ہوئی۔ وہ اس سے مراسم قائم کرنا چاہتاتھا مگر حامدہ نے اسے پسند نہ کیا۔ وہ بہت بد صورت تھا۔ دو برس کے بعد اس کی بہن ساجدہ کا خط آیا کہ وہ اور اس کا خاوند آرہے ہیں۔ وہ آئے۔ حامدہ نے مناسب و موزوں طریق پر ان کا خیر مقدم کیا۔ ساجدہ کے خاوند کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں ایک ہفتے تک قیام کرنا تھا۔ ساجدہ سے مل کر اس کی بڑی بہن بہت خوش ہوئی۔ حامد بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ وہ اس سے بھی متاثر ہوئی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی، اس لیے کہ اس کے والدین کسی کام سے سرگودھا چلے گئے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ حامدہ نے نوکروں سے کہا کہ وہ بستروں کا انتظام صحن میں کردے اور بڑا پنکھا لگا دیا جائے۔ یہ سب کچھ ہو گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ ساجدہ کسی حاجت کے تحت اوپر کوٹھے پر گئی اور دیر تک وہیں رہی۔ حامد کوئی ارادہ کرچکا تھا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ اٹھ کر

’’ساجدہ‘‘

کے پاس گیا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ غیر سی کیوں لگتی ہے۔ کیوں کہ وہ شروع شروع میں بے اعتنائی برتتی رہی۔ آخر میں وہ ٹھیک ہو گئی۔ ساجدہ کوٹھے سے اتر کر نیچے آئی اور اس نے دیکھا۔ صبح کو دونوں بہنوں میں سخت لڑائی ہوئی۔ حامد بھی اس میں شامل تھا۔ اس نے گرما گرمی میں کہا:

’’تمہاری بہن، میری بہن ہے۔ تم کیوں مجھ پر شک کرتی ہو۔ ‘‘

حامد نے دوسرے روز اپنی بیوی ساجدہ کو طلاق دے دی اور دو تین مہینوں کے بعد حامدہ سے شادی کرلی۔ اس نے اپنے ایک دوست سے جس کو اس پر اعتراض تھا، صرف اتنا کہا۔

’’خوبصورتی میں خلوص ہونا ناممکن ہے۔ بدصورتی ہمیشہ پرخلوص ہوتی ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بدتمیزی

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیسے سمجھاؤں‘‘

’’جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو سمجھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے‘‘

’’آپ تو بس ہر بات پر گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ آپ نے یہ تو پوچھ لیا ہوتا کہ میں آپ سے کیا کہنا چاہتی ہوں‘‘

’’اس کے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بس فقط لڑائی مول لینا چاہتی ہو‘‘

’’لڑائی میں مول لینا چاہتی ہوں کہ آپ۔ سارے ہمسائے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ آئے دن مجھ سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

’’خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک برس تک میں تم سے کوئی تلخ بات کی ہے نہ شیریں‘‘

’’شیریں بات کرنے کا آپ کو سلیقہ ہی کہاں آتا ہے۔ نوکر کو آواز دے کر بلوائیں گے تو سارے محلے کو پتہ چل جائے گا کہ آپ اسے گولی سے ہلاک کرنا چاہتے ہیں‘‘

’’میرے پاس بندوق ہی نہیں۔ ویسے میں خرید سکتا ہوں مگر اس کو چلائے گا کون؟۔ میں تو پٹاخے سے ڈرتا ہوں‘‘

آپ بنیئے نہیں۔ میں آپ کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ یہ فراڈ میرے ساتھ نہیں چلے گا آپ کا‘‘

’’اب میں فراڈ بن گیا؟‘‘

’’آپ ہمیشہ سے فراڈ تھے۔ ‘‘

’’یہ فیصلہ آپ نے کن وجوہ پر قائم کیا‘‘

’’آپ جب پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے تو کیا آپ نے ابّا جی کی جیب سے دو روپے نہیں نکالے تھے؟‘‘

’’نکالے تھے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ بھنگی کی لڑکی کو ضرورت تھی‘‘

’’اس لیے کہ وہ بھنگی کی لڑکی تھی۔ بہت بیمار۔ والد صاحب سے اگر کہا جاتا تو وہ کبھی ایک پیسہ بھی اسے نہ دیتے ‘ میں نے اسی لیے مناسب سمجھا کہ ان کے کوٹ سے دو روپے نکال کر اس کو دے دُوں۔ یہ کوئی گناہ نہیں‘‘

’’جی ہاں۔ بہت بڑا ثواب ہے۔ باپ کے کوٹ پر چھاپہ مار کر آپ تو اپنے خیال کے مطابق جنت میں اپنی سیٹ بک کر چکے ہوں گے لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ اس کی سزا آپ کو اتنی کڑی ملے گی کہ آپ کی طبیعت صاف ہو جائے گی‘‘

’’طبیعت تو میری ہر روز صاف کی جاتی ہے۔ اب اتنی صاف ہو گئی ہے کہ جی چاہتاہے کہ اس طبیعت کو کیچڑ میں لت پت کر دوں تاکہ تمہارا مشغلہ جاری رہ سکے‘‘

’’یہ کیچڑ میں تو آپ ہر وقت لتھڑے رہتے ہیں‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے‘‘

’’بہتان کیا ہے۔ حقیقت ہے۔ آپ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کو کسی نفیس چیز سے دلچسپی ہی نہیں‘ بات کریں گے تو غلاظت کی۔ نہاتے آپ نہیں‘‘

’’غضب خدا کا۔ میں تو دن میں تین مرتبہ نہاتا ہوں‘‘

وہ بھی کوئی نہانا ہے۔ بدن پر دو ڈونگے پانی کے ڈالے۔ تولیے سے اپنا نیم خشک جسم پونچھا اور غسل خانے سے باہر نکل آئے۔ ‘‘

’’دو ڈونگے تو نہیں‘ کم از کم بیس ہوتے ہیں‘‘

’’تو ان سے بھی کیا ہوتا ہے۔ کیا آپ نے آج تک کبھی صابن استعمال کیا ہے؟‘‘

’’میں تم سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ صابن جلد کے لیے بہت مضر ہے‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ اس میں ایسے تیزابی مادے ہوتے ہیں جو جلد کا ستیاناس کر دیتے ہیں‘‘

’’میری جلد تو آج تک ستیاناس نہیں ہوئی۔ آپ کی جلد بہت ہی نازک ہو گی

’’

’’نازک ہونے کا سوال نہیں۔ یہ ایک سائینٹیفک بحث ہے‘‘

’’میں سائنٹیفک وائینٹیفک کچھ نہیں جانتی۔ بس میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ صابن کیوں استعمال نہیں کرتے؟‘‘

’’بھئی ‘ تمھیں بتا تو چکا ہوں کہ یہ مضر ہے‘‘

’’تو آپ نہاتے کس طرح ہیں‘‘

’’نہانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ پانی ڈالتے گئے اور نہاتے گئے‘‘

’’جسم پر آپ کوئی چیز نہیں ملتے۔ میرا مطلب ہے ‘ صابن نہیں تو کوئی اور چیز‘‘

’’ملا کرتا ہوں‘‘

’’کیا؟‘‘

’’بیسن‘‘

’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’ارے ‘ بھئی‘ چنے کا آٹا‘‘

آپ کی جو بات ہے، نرالی ہے۔ میں تو آپ ایسے سنکی سے خدا قسم تنگ آگئی ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، کہاں جاؤں۔ ‘‘

’’اپنے میکے چلی جاؤ۔ وہاں تمہیں اپنی ہم خیال مل جائیں گی۔ ‘‘

’’میں کیوں جاؤں وہاں۔ میں یہیں رہوں گی۔ ‘‘

’’میں نے تم سے آج ہی کہا۔ اس لیے کہ تم لاکھ مرتبہ مجھے دھمکی دیتی رہی ہو کہ میں چلی جاؤں گی اپنے میکے۔ ‘‘

’’مجھے جب جانا ہو گا چلی جاؤں گی۔ ‘‘

’’آج تمھاری طبعیت نہیں چاہتی؟‘‘

’’آپ مجھے چڑانے کی کوشش کیوں کررہے ہیں؟‘‘

’’میں نے توکوئی کوشش نہیں کی۔ اگر تم چاہتی ہوکہ کوشش کروں، تو یقین مانو، تم ابھی تانگہ لے کر اسٹیشن پہنچ جاؤگی۔ ‘‘

’’کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔ میں یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گی۔ یہ میرا گھر ہے۔ ‘‘

’’آپ کا ہے۔ آپ کے باپ دادا کا ہے۔ لیکن یہ تو بتائیے۔ ‘‘

’’میرے باپ دادا کا نام مت لیجیے۔ اُن بیچاروں کا کیا قصور تھا؟‘‘

’’ْقصور تو سارا میرا ہے۔ لیکن بیگم، تم کبھی کبھی اتنا غور کرلیا کرو کہ میں نے آخر تمھیں کون سا جانی نقصان پہنچایا ہے کہ تم لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑجاتی ہو۔ ‘‘

’’لٹھ تو ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہا ہے۔ میں تو اُسے اٹھا بھی نہیں سکتی۔ ‘‘

’’تم بڑے سے بڑا گرز اُٹھا سکتی ہو۔ تم ایسی عورتوں میں بلا کی قوت ہوتی ہے۔ تم عقاب ہو۔ تمہارے سامنے تو میرے حیثیت ایک چڑیاکی سی ہے۔ ‘‘

’’باتیں بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ آپ چڑیا ہیں۔ سبحان اللہ۔ جب کڑکتے اور گرجتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیردھاڑ رہا ہے۔ ‘‘

’’اس شیر کو پہلے ایک نظر دیکھ لو۔ ‘‘

’’کیا دیکھوں؟۔ پندرہ برس سے دیکھ رہی ہوں۔ ‘‘

’’یہ خاکسار شیر ہے کیا؟

’’شیر ہے، مگر خاک میں لپٹا ہوا۔ ‘‘

’’اس تعریف کا شکریہ۔ اب آپ یہ بتائیے کہ آپ کہنا کیا چاہتی تھیں۔ ‘‘

’’آپ اتنے لائق فائق بنے پھرتے ہیں۔ سمجھیے کہ میں کیا کہنا چاہتی تھی۔ ‘‘

’’تمھاری باتیں تو صرف خداہی سمجھ سکتا ہے۔ میں کیا سمجھوں گا۔ ‘‘

خدا کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں۔ ‘‘

’’خدا کو اگر بیچ میں نہ لایا جائے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’بڑے آئے ہیں آپ خدا کو ماننے والے۔ ‘‘

’’خدا کو تو میں ہمیشہ سے مانتا آیا ہوں۔ وہ طاقت جو دُنیا پر کنٹرول کرتی ہے۔ ‘‘

’’کنڑول تو آپ مجھ پر کرتے آئے ہیں۔ ‘‘

’’کس قسم کا؟‘‘

’’ہر قسم کا۔ میںآج تک اپنی مرضی کے موافق کوئی چیز نہیں کرسکتی کپڑے لیتی ہوں، تو اُس میں آپ کی مرضی کا دخل ہوتا ہے۔ کھانے کے بارے میں بھی آپ کی مرضی چلتی ہے۔ آج یہ پکے، کل وہ پکے۔ ‘‘

’’اس میں تمھیں اعتراض ہے؟‘‘

’’اعتراض کیوں نہیں۔ میرا جی اگر کبھی چاہتا ہے کہ اوجھڑی کھاؤں تو آپ نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘

’’اوجھڑی بھی کوئی کھانے کی شے ہے۔ ‘‘

’’آپ کیاجانیں، کتنی مزیدار ہوتی ہے۔ چُونے میں ڈال کر اُسے صاف کر لیا جاتاہے، اُس کے بعد اچھی طرح گھی میں تلا جاتاہے۔ اللہ قسم مزا آجاتاہے۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ میں ایسی غلط چیز کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

’’اور ٹینڈے؟‘‘

’’بکواس ہیں۔ سبزی کی سب سے بڑی توہین ہیں۔ اُن میں کوئی رس ہوتاہے نہ لذت۔ بس ققط ٹینڈے ہوتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پیدا کس غرض کے لیے کیے گئے تھے۔ نہایت واہیات ہوتے ہیں۔ میں تو اکثر یہ دُعا مانگتا ہوں کہ اُن کا وجود سرے ہی سے غائب ہوجائے۔ بڑے بے جان ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کدّو بدرجہا بہتر ہے‘حالانکہ وہ بھی مجھے سخت ناپسند ہے۔ ‘‘

’’آپ کو کون سی چیز پسند ہے؟۔ ہر اچھی چیز میں آپ کیڑے ڈالتے ہیں۔ بھنڈی آپ کو پسند نہیں کہ اُس میں لیس ہوتی ہے۔ گوبھی آپ کو نہیں بھاتی کہ اُس میں یہ نقص نکالا جاتاہے کہ بدبُو ہوتی ہے۔ ٹماٹر آپ کو اچھے نہیں لگتے، اس لیے کہ اُس کے چھلکے ہضم نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’تم ان باتوں کو چھوڑو۔ ٹینڈے، گوبھی اور ٹماٹر جائیں جہنم میں۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ مجھ سے کہنا کیا چاہتی تھیں۔ ‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔ بس ایسے ہی آگئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ کوئی کام نہیں کررہے، تو آپ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ‘‘

’’بڑی نوازش ہے آپ کی۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور کہنا ہو گا آپ کو۔ ‘‘

’’آپ سے اگر کچھ کہہ بھی دیا تو اُس کا حاصل کیا ہو گا۔ ‘‘

’’جو آگے آپ کو حاصل ہوتا رہا ہے، اُسی حساب سے آج بھی حاصل ہوجائے گا۔ آپ یہاں سے کچھ حاصل کیے بغیر ٹلیں گی کیسے؟‘‘

’’میں آپ سے ایک خاص بات کرنے آئی تھی۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں۔ میں یہ کہنے آئی تھی، کہ میری سمجھ میں نہیں آتا، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘

’’آپ کیا سمجھانے آئی تھیں مجھے۔ ‘‘

’’آپ کو تو خدا سمجھائے گا۔ میں یہ کہنے آئی تھی کہ آپ پتلون پہن کر اُس کے بٹن بالکنی میں بند نہ کیا کریں۔ ہمسایوں کو سخت اعتراض ہے۔ یہ بہت بڑی بدتمیزی ہے۔ ‘‘

۲۲، مئی ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

بچنی

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں۔ خاص طور پر ان کی جو بٹوارے سے پہلے امرتسر میں رہتی تھیں۔ مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھنگنوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں۔ خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہاں تتر بتر ہو گئی تھیں۔ رشید ان کے مقابلے میں گجریوں کی تعریف کرتاتھا۔ اس نے مجید سے کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہوکہ امرتسری بھنگنیں اپنی جوانی کے زمانے میں بڑی پرکشش ہوتی ہیں، لیکن ان کی یہ جوانی کھترانیوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔ بس ایک دن جوان ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ادھیڑ ہو جاتی ہیں۔ ان کی جوانی معلوم نہیں کون سا چور چرا کے لے جاتا ہے۔ خدا کی قسم۔ ہمارے ہاں ایک بھنگن کوٹھا کمانے آتی تھی۔ اتنی کڑیل جوانی تھی کہ میں اپنی کمزورجوانی کو محسوس کرکے اس سے کبھی بات نہ کرسکا۔ عیسائی مشنریوں نے اسے اپنے مذہب میں داخل کرلیا تھا۔ نام اس کا فاطمہ تھا۔ پہلے گھر والے اسے پھاتو کہتے تھے۔ مگر جب وہ عیسائی ہوئی تو اسے مس پھاتو کے نام سے پکارا جانے لگا۔ صبح کو وہ بریک فاسٹ کرتی تھی، دوپہر کو لنچ اور شام کو ڈنر۔ لیکن چند مہینوں کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ اس کی ساری کڑیل جوانی جیسے پگھل گئی ہے۔ اس کی چھاتیاں جو بڑی تندخو تھیں اور اس طرح اوپر اٹھتی رہتی تھیں جیسے ابھی اپنا سارا جوان بدن آپ پر داغ دیں گی، اس قدر نیچے ڈھلک گئی تھیں کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے گھر میں وہ گجری جو اُپلے لے کر آتی تھی، تیر کی طرح سیدھی تھی۔ اس کی عمر بھی اتنی ہو گی جتنی اس بھنگن کی تھی۔ مگر وہ تین برس کے بعد بھی ویسی ہی جوان تھی۔ سروقد۔ اُپلوں کا ٹوکرااس کے سر پرہوتا تھا۔ ایک پہاڑ سا بنا ہوا۔ مگر مجال ہے کہ اس کی گردن میں ہلکی سی جنبش آجائے یا اس کی کمر میں خفیف سا خم آجائے۔ تین برس وہ ہمارے یہاں آتی رہی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہو گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ اور مجید! میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ اس کی کمر ویسی ہی مضبوط تھی۔ تم میری مان لو کہ بھنگنیں، گوجریوں کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کرسکتیں۔ ‘‘

مجید تلملا رہا تھا۔ اس نے پان کی گلوری چُندنیا میں سے نکال کر اپنے کلّے میں دبائی۔ چھوٹی ڈبیا سے ماچس کی تیلی کی مدد سے تھوڑا سا قوام نکالا اور منہ میں ڈال کر بڑے تحمل سے کہا۔

’’رشید بھائی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن جس بھنگن کا تصور میرے دماغ میں ہے، اور جس کی دراصل میں بات کرنا چاہتا تھا۔ ایک فتنہ تھا۔ اب تم ایسا کرو کہ میری ساری داستان سُن لو تاکہ تمہیں اس فتنہ و قیامت کے متعلق کچھ معلوم ہوسکے۔ جوبن ڈھلنے کی تم جو بات کرتے ہو، اس کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ گجریوں کاقد لمبا ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر انھیں جلدی ڈھلنا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ننگے پاؤں رہتی ہیں اور اپنے سر پر بقول تمہارے پہاڑ سا اُپلوں کا ٹوکرا اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں۔ لیکن لعنت بھیجو فی الحال گجریوں پر، کیوں کہ مچھے بچنی کی بات کرنا ہے جو ہمارے محلے کی بڑی کراری بھنگن تھی۔ اس کا قد تو انگشتانہ بھرکا تھا مگر زبان اسکندری گز تھی۔ شادی شدہ تھی، مگر خاوند سے ہر روز لڑتی جھگڑتی رہتی تھی۔ ہمارے کمپاؤنڈ میں یہ دونوں میاں بیوی ہر روز صبح سویرے آتے اور ایک بڑکے درخت کے ساتھ جھولا لٹکا دیتے۔ اس میں وہ اپنا لڑکا ڈال دیتے تھے۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کو جھلانے والا کوئی نہیں تھا، چنانچہ دونوں میاں بیوی جھاڑو چھوڑ کر اسے جھولا جھلاتے یا گود میں اٹھائے پھرتے تھے۔ ‘‘

رشید نے مجید سے کہا۔

’’یہ جھولے کی بات کہاں سے آگئی۔ تم تو ایک کراری بھنگن کی بات کررہے تھے۔ جو بقول تمہارے بہت خوبصورت تھی۔ ‘‘

مجید نے فوراً کہا۔

’’یار تم جھولے کے ساتھ کیوں اٹک گئے۔ میری پوری کہانی تو سن لو۔ یہ جھولے کی نہیں بچنی کی بات ہے۔ اس بچنی کی جسے میں ساری عمر فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ ایک آفت تھی۔ صبح اپنے خاوند کے ساتھ آتی تھی۔ ہاتھ میں لمبی سی جھاڑو لیے۔ ماتھے پرسینکڑوں تیوریاں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی جھاڑو آپ کے سر پر دے مارے گی۔ مگر ایسا موقع کبھی نہیں آیا۔ میں نے ہزاروں بار اس کو گھورا، لیکن اس نے میرے سر پر جھاڑو نہیں ماری۔ اس کی تیوریاں اس کے ماتھے پر بدستور قائم رہیں اور وہ حسب سابق اپنا کام کرتی رہیں۔ اس کا خاوند جس کا نام معلوم نہیں کیا تھا، اول درجے کا زن مرید تھا۔ اس کا قد اپنی بیوی سے بھی چھوٹا تھا۔ وہ اس کو کام کے دوران میں ہمیشہ گالیاں دیا کرتی تھی۔ محلے کے سب لوگ سنتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ ‘‘

رشید اتنی لمبی داستان سن کر بھنا گیا۔

’’تم اصل بات کی طرف آؤ۔ یہ کیا چہ مے گوئیاں بک رہے ہو۔ بچنی نام بڑا اچھا ہے، ورنہ خدا کی قسم! میں تمہاری یہ خرافات کبھی نہ سنتا۔ معلوم نہیں یہ تمہاری جوڑی ہوئی کہانی ہے۔ بہر حال، تمہیں چند منٹ دیتا ہوں۔ سنالو۔ ‘‘

مجید تاؤ میں آگیا۔

’’الو کے پٹھے۔ تم نے صرف بچنی کا نام سنا ہے، کبھی تم نے اسے دیکھا ہوتا تو دل نکال کر اس کے ٹوکرے میں ڈال دیا ہوتا۔ میں تم سے اگر ایک واقعہ بیان کررہا ہوں تو اس میں نمک مرچ لگانے کی مجھے اجازت ہونی چاہیے۔ تم اگر اکتا گئے ہو تو جہنم میں جاؤ۔ ‘‘

رشید کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ کسی سینما میں چلا جاتا، اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ مجید کی داستان سن لے۔

’’جہنم میں جانے کا سوال نہیں۔ تم ذرا اختصار سے کام لو۔ اصل میں مجھے بچنی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ ‘‘

مجید غصے میں آگیا۔

’’تمہاری دلچسپی کی ایسی کی تیسی۔ سالے، تم کون ہوتے ہو اس میں دلچسپی لینے والے۔ اس میں دلچسپی لینے والے تم ایسے ہزاروں تھے، مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ میں تم سے کروڑ مرتبہ زیادہ خوبصورت ہوں، لیکن میں اس نگہ التفات کا ہروقت منتظر رہتا تھا۔ وہ بڑی ہٹیلی تھی۔ میرے دوست رشید خدا کی قسم! اس جیسی لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ نام اس کا بچنی تھا۔ یعنی بچن سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر وہ تو پھاپھا کٹنی تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کو اپنے قبضے میں لے آؤں، پرناکام رہا۔ وہ پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دیتی تھی۔ ‘‘

یہ سن کر رشید بولا۔

’’تم یار ہمیشہ ایسے معاملوں میں کور ے رہے ہو۔ ‘‘

مجید کے گہری چوٹ لگی۔

’’بکواس کرتے ہو۔ میں نے ایک روز اسے پکڑ لیا۔ میرے گھر کے باہر وہ جھاڑو دے رہی تھی کہ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

رشید نے ازراہ مذاق سگریٹ سلگایا اور ماچس کی تیلی بجھا کر اس کے کئی ٹکڑے کرکے ایش ٹرے میں ڈال دیے۔ مجید کو ایسا محسوس ہوا کہ رشید نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ بہت جزبز ہوا، لیکن آدمی سچا تھا اس لیے جھوٹ نہ بول سکا۔

’’یار رشید! تم مذاق اڑاتے ہو۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ اس روز ہوا، اس کا مذاق اڑانا ہی چاہیے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ لیکن اس حرامزادی نے کھینچ کے اپنی جھاڑومیرے منہ پر دے ماری۔ میں شرم کے مارے اندر بھاگ گیا۔ لیکن فوراً باہر نکلا۔ دیکھا کہ وہ میرے مکان کے باہر جھاڑو دے رہی ہے۔ میں نے اسے پھر پکڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے سوچا۔ ‘‘

رشید نے مجید کا فقرہ مکمل کردیا۔

’’کہ معاملہ درست ہو گیا ہے۔ ‘‘

مجید بوکھلا گیا:

’’خاک درست ہوا۔ وہ میری گرفت سے نکل کر سیدھی میری بیوی کے پاس چلی گئی۔ لیکن اس سے کوئی شکایت نہ کی۔ میں ڈر کے مارے دبکا ہوا تھا۔ میں نے صرف یہ سنا اور میری جان کا بوجھ ہلکا ہوا۔

’’بی بی جی آج پانی نہیں آیا۔ یہ ان لوگوں کو جو آپ سے ہر مہینے دس روپے وصول کرتے ہیں، کیا ہو گیا ہے۔ کیوں وہ اتنا خیال نہیں کرتے کہ آپ کو ہر روز ماشکی کو دس مشکوں کے چار آنے فی مشک کے حساب دو روپے آٹھ آنے دینا پڑیں۔ ‘‘

میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے میری عزت و آبرو رکھ لی۔ لیکن میں نے بعد میں سوچا کہ میری عزت و آبرو رکھنے والی اصل میں بچنی۔ لیکن جب زیادہ سوچا تو احساس ہوا کہ ایسا سوچنا کفر ہے۔ ‘‘

رشید قریب قریب تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنے دوست کی خاطر آواز دبا کرکہا۔

’’کافر کے بچے۔ بات تو کر کہ تیرا اس بچنی کی بچنی سے کیاہوا۔ کیا تم نے اسے پٹالیا؟‘‘

مجید نے رشید کی چندنیا میں سے ایک گلوری لی اور کہا۔

’’دیکھو رشید۔ تم بچنی کو جانتے نہیں۔ افسوس ہے کہ میں افسانہ نگار نہیں ورنہ میں اس کا کردار بہت اچھی طرح۔ جیتا جاگتا پیش کرسکتا۔ وہ معلوم نہیں شے کیا تھی۔ عمر اس کی زیادہ سے زیادہ۔ یہ سمجھو کہ سترہ اٹھارہ برس کے قریب ہو گی۔ قد اس کا ساڑھے چار فٹ ہو گا۔ چھاتی ایسی تھی جیسے لوہے کی بنی ہے، حالانکہ ایک بچے کی ماں تھی۔ ‘‘

رشید بہت تنگ آگیا۔

’’ایک بچے کی ماں کے بچے۔ تو اپنی داستان کے انجام کوپہنچ۔ مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانا ہے۔ ساڑھے سات بج چکے ہیں، لیکن تمہاری د استان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ !‘‘

مجیدسنجیدہ رہا۔

’’رشید لالے۔ معاملہ بڑا نازک ہے۔ ‘‘

’’کس کا۔ تمہارا یا میرا؟‘‘

’’میں نہیں کہہ سکتا، لیکن جس وقت کی میں بات کررہا ہوں، اس وقت معاملہ میرا تو بہت نازک تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں، کیا نہ کروں۔ اب تم یہ خیال کرو کہ میں ہزاروں کا مالک تھا۔ تم جانتے ہو کہ ماں باپ مر کھپ چکے تھے۔ ساری جائیداد کا میں وارث تھا۔ جہاں چاہتا، لٹا دیتا۔ اس روز جب میں نے بچنی کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچا اور وہ میری گرفت سے یوں الگ ہٹی جیسے میرا کام تمام کردے گی، لیکن میری بیوی سے اس نے اس سلسلے کا ذکر تک نہ کیا تو مجھے امید ہو گئی کہ چند ایسے معاملوں کے بعد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ ‘‘

رشید نے اس سے پوچھا۔

’’تجھے کامیابی ہوئی؟‘‘

’’خاک۔ تم اسے جانتے ہی نہیں۔ بڑی تیزخو لڑکی ہے۔ اپنے خاوند کو کچھ نہیں سمجھتی۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ میں نے اس سے اتنی چھیڑ خانی کی، لیکن اس نے کسی سے بات تک نہ کی، ورنہ اگر چاہتی تو میرا گھر نکالا کرسکتی تھی۔ ‘‘

رشید مسکرایا۔

’’میں تمہاری بچنی کو جانتا ہوں!‘‘

مجید نے بڑی حیرت سے پوچھا۔

’’تم کیسے جانتے ہو اس کو؟‘‘

’’جس طرح تم جانتے ہو۔ کیا تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ تمہارے ہی محلے کے کام کیا کرے۔ میں اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ ‘‘

مجید کو یقین نہ آیا۔

’’بکواس کرتے ہو۔ اس کی عمر ہی کتنی ہے کہ تم اسے جانو۔ دو برس سے کچھ مہینے اوپر ہو گئے ہیں کہ وہ ہمارے محلے میں بلاناغہ آتی ہے۔ اس کے لڑکے کی عمر بھی دو سال کے قریب ہو گی۔ یعنی جب وہ ہمارے ہاں ملازم ہوئی تو اس کے کوئی بچہ نہیں تھا۔ لیکن دو تین مہینے کے بعد اس کی گود میں ایک لڑکا تھا۔ ‘‘

رشید پھر مسکرایا۔

’’تمہارا؟‘‘

’’میرا!‘‘

مجید گھبرا گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے مذاق کا جواب مذاق میں دیا۔

’’میرا ہوتا تو کیا کہنے تھے۔ کم از کم میں یہ تو کہنے کے قابل ہو جاتا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ ‘‘

رشید کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب رنگ اختیار کرگئی۔

’’تمہیں اپنی بچنی کے شوہر کا نام معلوم نہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’میں بتاتا ہوں تمہیں۔ اس کے شوہر کا نام رشید ہے۔ ‘‘

مجید بوکھلا گیا۔

’’رشید۔ کیا اس کا نام رشید ہے؟‘‘

رشید نے بڑے وثوق اور بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’ہاں۔ اس کا نام رشید ہے۔ اصل میں وہی اس کا شوہر ہے۔ ‘‘

’’وہ جو اس کے ساتھ ہمارے محلے میں جھاڑو دیتا ہے اور اپنے بچے کو جھولا جھلاتا ہے؟‘‘

مجید کی بوکھلاہٹ اسی طرح قائم تھی۔ رشید کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔

’’وہ الو کا پٹھا اپنے بچے کو جھولا نہیں جھلاتا!‘‘

’’تو کسے جھلاتا ہے۔ کیا وہ اس رشید کا بچہ نہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’تو کس کا بچہ؟‘‘

’’ایک غریب اور نادارآدمی کا۔ جو خوبصورت بھی نہیں۔ تم سے ہزاروں درجے نیچے ہے۔ ‘‘

’’کون ہے وہ؟‘‘

’’پوچھ کے کیا کرو گے؟‘‘

’’کروں گا کیا۔ بس ایسے ہی جاننا چاہتا ہوں۔ ‘‘

رشید نے ایک سگریٹ سلگایا اور بڑے اطمینان سے کہا۔

’’جاننا چاہتے ہو تو جان لو۔ وہ رشید میں ہوں۔ تمہاری بچنی سے میری آشنائی بچپن کی ہے۔ وہ گیارہ برس کی تھی۔ میں تیرہ برس کا۔ جب سے میرا اس کا معاملہ چل رہا ہے۔ وہ لڑکا جو تم اس کی گود میں دیکھتے ہو اور جسے اس کا الو کا پٹھا شوہر ہر روز جھولا جھلاتا ہے، اس خاکسار کی اولاد ہے۔ شکر ہے خداوند کریم کا کہ لڑکی نہ ہوئی، ورنہ میں تو اسے دوسرے ہی روز مار ڈ التا۔ ‘‘

یہ کہہ کر رشید فوراً اٹھا اور چلا گیا۔ مجید سوچتا رہ گیا کہ خدا وند کریم نے اس پر کون سا کرم کیا تھا جو وہ اس کا شکر گزار تھا۔ !

سعادت حسن منٹو

بجلی پہلوان

بجلی پہلوان کے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں‘ کہتے ہیں کہ وہ برق رفتار تھا۔ بجلی کی مانند اپنے دشمنوں پر گرتا تھا اور انھیں بھسم کر دیتا تھا لیکن جب میں نے اسے مغل بازار میں دیکھا تو وہ مجھے بے ضرر کدّو کے مانند نظر آیا‘ بڑا پھسپھس سا‘ توند باہر نکلی ہوئی‘ بند بند ڈھیلے‘ گال لٹکے ہوئے‘ البتہ اس کا رنگ سُرخ و سفید تھا۔ وہ مغل بازار میں ایک بزاز کی دُکان پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا‘ میں نے اُس کو غور سے دیکھا‘ مجھے اس میں کوئی غنڈہ پن نظر نہ آیا‘ حالانکہ اُس کے متعلق مشہور یہی تھا کہ ہندوؤں کا وہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ وہ غنڈہ ہو ہی نہیں سکتا تھا‘ اس لیے کہ اُس کے خدوخال اُس کی نفی کرتے تھے۔ میں تھوڑی دیر سامنے والی کتابوں کی دکان کے پاس کھڑا اُس کو دیکھتا رہا۔ اتنے میں ایک مسلمان عورت جو بڑی مفلس دکھائی دیتی تھی‘ بزاز کی دکان کے پاس پہنچی‘ بجلی پہلوان سے اس نے کہا

’’مجھے بجلی پہلوان سے ملنا ہے‘‘

بجلی پہلوان نے ہاتھ جوڑ کر اسے پرنام کیا

’’ماتا‘ میں ہی بجلی پہلوان ہوں‘‘

اس عورت نے اُس کو سلام کیا

’’خدا تمھیں سلامت رکھے۔ میں نے سنا ہے کہ تم بڑے دیالو ہو

’’بجلی نے بڑی انکساری سے کہا :

’’ماتا ‘ دیالوپرمیشور ہے۔ میں کیا دیا کر سکتا ہوں‘ لیکن مجھے بتاؤ کہ میں کیا سیوا کر سکتا ہوں‘‘

’’بیٹا‘ مجھے اپنی جوان لڑکی کا بیاہ کرنا ہے۔ تم اگر میری کچھ مدد کر سکو تو میں ساری عمر تمھیں دعائیں دوں گی‘‘

بجلی نے اُس عورت سے پوچھا:

’’کتنے روپوں میں کام چل جائے گا‘‘

عورت نے جواب دیا : بیٹا! تم خود ہی سمجھ لو۔ میں تو ایک بھکارن بن کر تمہارے پاس آئی ہوں‘‘

بجلی نے کہا بھکارن منہ سے نہ کہو۔ میرا فرض ہے کہ میں تمہاری مدد کروں‘‘

اس کے بعد اس نے بزاز سے جو تھان تہہ کر رہا تھا کہا

’’لالہ جی۔ دو ہزار روپے نکالیے‘‘

لالہ جی نے دو ہزار رُوپے فوراً اپنی صندوقچی سے نکالے اور گن کر بجلی کو دے دیے۔ یہ روپے اُس نے اس عورت کو پیش کر دیے۔

’’ماتا۔ بھگوان کرے کہ تمہاری بیٹی کے بھاگ اچھے ہوں‘‘

وہ عورت چند لمحات کے لیے نوٹ ہاتھ میں لیے بُت بنی کھڑی رہی۔ غالباً اُس کو اتنے روپے ایک دم مل جانے کی توقع ہی نہیں تھی۔ جب وہ سنبھلی تو اُس نے بجلی پہلوان پر دُعاؤں کی بوچھاڑ کر دی‘ میں نے دیکھا کہ پہلوان بڑی اُلجھن محسوس کر رہا تھا‘ آخر اُس نے اس عورت سے کہا :

’’ماتا ‘ مجھے شرمندہ نہ کرو۔ جاؤ‘ اپنی بیٹی کے دان، جہیز کا انتظام کرو۔ اس کو میری اشیر باد دینا‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس قسم کا غنڈہ اور بدمعاش ہے جو دو ہزار روپے ایک ایسی عورت کو جو مسلمان ہے اور جسے وہ جانتا بھی نہیں (دو ہزار روپے) پکڑا دیتا ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا مخیّر ہے‘ ہر مہینے ہزاروں روپے دان کے طور پر دیتا ہے۔ مجھے چونکہ اس کی شخصیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی‘ اس لیے میں نے کافی چھان بین کے بعد بجلی پہلوان کے متعلق کئی معلومات حاصل کیں۔ مغل بازار کی اکثر دکانیں اُس کی تھیں‘ حلوائی کی دکان ہے‘ بزاز کی دُکان ہے‘ شربت بیچنے والا ہے‘ شیشے فروخت کرنے والا ہے‘ پنساری ہے۔ غرضیکہ اِس سرے سے اُس سرے تک جہاں وہ بزاز کی دُکان میں بیٹھا تھا اُس نے ایک

’’لائن آف کمیونیکیشن‘‘

قائم کر رکھی تھی تاکہ اگر پولس چھاپہ مارنے کی غرض سے آئے تو اسے فوراً اطلاع مل جائے۔ دراصل اُس کی دو بیٹھکوں میں جو بزاز کی دُکان کے بالکل سامنے تھیں‘ بہت بھاری جوا ہوتا تھا‘ ہر روز ہزاروں روپے نال کی صورت میں اُسے وصول ہو جاتے تھے۔ وہ خود جوا نہیں کھیلتا تھا‘ نہ شراب پیتا تھا مگر اس کی بیٹھکوں میں شراب ہر وقت مل سکتی تھی‘ اس سے بھی اس کی آمدن کافی تھی۔ شہر کے جتنے بڑے بڑے غنڈے تھے‘ ان کو اُس نے ہفتہ مقرر کر رکھا تھا‘ یعنی ہفتہ وار انھیں ان کے مرتبے کے مطابق تنخواہ مل جاتی تھی۔ میرا خیال ہے اس نے یہ سلسلہ بطور حفظ ماتقدم شروع کیا تھا کہ وہ غنڈے بڑی خطرناک قسم کے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ غنڈے سب کے سب مسلمان تھے زیادہ تر ہاتھی دروازے کے۔ ہر ہفتے بجلی پہلوان کے پاس جاتے اور اپنی تنخواہ صول کر لیتے۔ وہ ان کو کبھی نااُمید نہ لوٹاتا۔ اس لیے کہ اس کے پاس روپیہ عام تھا۔ میں نے سُنا کہ ایک دن وہ بزاز کی دکان پر حسبِ معمول بیٹھا تھا کہ ایک ہندو بنیا جو کافی مالدار تھا‘ اُس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی

’’پہلوان جی! میرا لڑکا خراب ہو گیا ہے۔ اس کو ٹھیک کر دیجیے۔ پہلوان نے مسکرا کر اس سے کہا

’’میرے دو لڑکے ہیں۔ بہت شریف ‘ لوگ مجھے غنڈہ اور بدمعاش کہتے ہیں لیکن میں نے انھیں اس طرح پالا پوسا ہے کہ وہ کوئی بُری حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ مہاشہ جی یہ آپ کا قصور ہے‘ آپ کے بڑے لڑکے کا نہیں‘‘

بنیے نے ہاتھ جوڑ کر کہا

’’پہلوان جی۔ میں نے بھی اس کو اچھی طرح پالا پوسا ہے‘ پر اُس نے اب چوری چوری بہت بُرے کام شروع کر دیے ہیں‘‘

بجلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا

’’اس کی شادی کر دو‘‘

اس واقعے کو دس روز گزرے تھے کہ بجلی پہلوان ایک نوجوان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا حالانکہ اس سے اس قسم کی کوئی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ لڑکی کی عمر سولہ سترہ برس کے لگ بھگ ہو گی اور بجلی پچاس سے اُوپر ہو گا۔ آدمی بااثر اور مالدار تھا۔ لڑکی کے والدین راضی ہو گئے‘ چنانچہ شادی ہو گئی۔ اس نے شہر کے باہر ایک عالی شان کوٹھی بنائی تھی‘ دولہن کو وہ جب اس میں لے کر گیا تو اُسے محسوس ہوا کہ تمام جھالر اور فانوس ماند پڑ گئے ہیں۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی‘ پہلی رات بجلی پہلوان نے کسرت کرنا چاہی مگر نہ کر سکا۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں اپنی پہلی بیوی کا خیال کروٹیں لے رہا تھا‘اس کے دو جوان لڑکے تھے جو اسی کوٹھی کے ایک کمرے میں سو رہے تھے یا جاگ رہے تھے۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کو کہیں باہر بھیج دیا تھا ‘ اس کو اس کا قطعاً علم نہیں تھا کہ اس کے پتی نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بجلی پہلوان سوچتا تھا کہ اسے اور کچھ نہیں تو اپنی پہلی بیوی کو مطلع کر دینا چاہیے تھا۔ ساری رات نئی نویلی دولہن جس کی عمر سولہ سترہ برس کے قریب تھی‘ چوڑے چکلے پلنگ پر بیٹھی بجلی پہلوان کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتی رہی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شادی کیا ہے‘ کیا اسے ہر روز اسی قسم کی باتیں سننا ہوں گی۔

’’کل میں تمہارے لیے دس ہزار کے زیور اور لاؤں گا‘‘

’’تم بڑی سندر ہو‘‘

’’برفی کھاؤ گی یا پیڑے‘‘

’’یہ سارا شہر سمجھو کہ تمہارا ہے‘‘

’’یہ کوٹھی میں تمہارے نام لکھ دُوں گا‘‘

کتنے نوکر چاہئیں تمھیں۔ مجھے بتا دو ایک منٹ میں انتظام ہو جائے گا۔

’’میرے دو جوان لڑکے ہیں‘ بہت شریف۔ تم ان سے جو کام لینا چاہو لے سکتی ہو‘ وہ تمہارا حکم مانیں گے‘‘

دولہن ہر روز اسی قسم کی باتیں سنتی رہی‘ حتٰی کہ چھ مہینے گزر گئے‘ بجلی پہلوان دن بدن اُس کی محبت میں غرق ہوتا گیا‘ وہ اس کے تیکھے تیکھے نقش دیکھتا تو اپنی ساری پہلوانی بھول جاتا۔ اس کی پہلی بیوی بدشکل تھی۔ ان معنوں میں کہ اس میں کوئی کشش نہیں تھی‘ وہ ایک عام کھترانی تھی جو ایک بچہ جننے کے بعد ہی بوڑھی ہو جاتی ہے لیکن اس کی یہ دوسری بیوی بڑی ٹھوس تھی‘ دس بچے پیدا کرنے کے بعد بھی وہ ثابت و سالم رہ سکتی تھی۔ بجلی پہلوان کا ایک وید دوست تھا اس کے پاس وہ کئی دنوں سے جا رہا تھا اُس نے بجلی کو یقین دلایا کہ اب کسی قسم کے تردّد کی ضرورت نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پہلوان خوش تھا۔ وید کے ہاں سے آتے ہوئے اس نے کئی سکیمیں تیار کیں‘ راستے میں مٹھائی خریدی‘ سونے کے دو بڑے بڑے خوشنما کڑے لیے ‘ بارہ قمیصوں اور بارہ شلواروں کے لیے بہترین کپڑا قیمت ادا کیے بغیر حاصل کیا۔ اس لیے کہ وہ لوگ جو دُکان کے مالک تھے اس سے مرعوب تھے اور قیمت لینے سے انکاری تھے۔ شام کو سات بجے وہ گھر پہنچا ‘ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا‘ دیکھا تو وہاں اس کی دوسری بیوی نہیں تھی‘ اس نے سوچا شاید غسل خانے میں ہو گی چنانچہ اس نے اپنا بوجھ‘ میرا مطلب ہے وہ تھان وغیرہ پلنگ پر رکھ کر غسل خانے کا رخ کیا ‘ مگر وہ خالی تھا۔ بجلی پہلوان بڑا متحیر ہوا کہ اس کی بیوی کہاں گئی۔ طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آئے مگر وہ کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکا اس نے دیدکی دی ہوئی گولیاں کھائیں اور پلنگ پر بیٹھ گیا کہ اس کی بیوی آ جائے گی آخر اسے جانا کہاں ہے؟ وہ گولیاں کھا کر پلنگ پر بیٹھا قمیصوں کے کپڑوں کو اُنگلیوں میں مسل مسل کر دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنی بیوی کی ہنسی کی آواز سنائی دی وہ چونکا اُٹھ کر اُس کمرے میں گیا جو اُس نے اپنے بڑے لڑکے کو دے رکھا تھا اندر سے اس کی بیوی اور اس کے بیٹے کی ہنسی کی آواز نکل رہی تھی۔ اُس نے دستک دی۔ لیکن دروازہ نہ کھلا پھر بڑے زور سے چلانا شروع کیا کہ دروازہ کھولو۔ اس وقت اس کا خون کھول رہا تھا۔ دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کمرے کے اندر اس کی بیوی اور اس کے بڑے لڑکے نے سانس لینا بھی بند کر دیا ہے۔ بجلی پہلوان نے بڑے کمرے میں جاکر گورمکھی زُبان میں ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت اُردو میں کچھ یوں ہوسکتی ہے‘‘

یہ کوٹھی اب تمہاری ہے۔ میری بیوی بھی اب تمہاری بیوی ہے خوش رہو۔ ۔ تمہارے لیے کچھ تحفے لایا تھا۔ وہ یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ یہ رقعہ لکھ اس نے ساٹن کے تھان کے ساتھ ٹانک دیا۔ (۲۷ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو