زمرہ جات کے محفوظات: گیت

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

یہ قوم کے شاہین ہیں جرأت کے ستارے

اُڑتے ہیں یہ شاہیں تہِ افلاک جہاں تک

اِک آگ کا دریا نظر آتا ہے وہاں تک

مشرق کے کنارے کبھی مغرب کے کنارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

اِک جست میں دشمن کے نشیمن کو جلایا

جو سامنے آیا اُسے اِک پل میں گرایا

ہیں اِن کے پر و بال میں بجلی کے شرارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

بھولے سے کبھی اِن کے نشانے نہیں چوکے

فی النار کیے آن میں طیارے عدو کے

کچھ ڈھیر کیے خاک پہ کچھ راہ میں مارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

ہو اَمن کا موسم تو یہ خوشبو ہیں صبا ہیں

اور جنگ میں دشمن کے لیے قہرِ خدا ہیں

محفوظ ہے یہ پاک وطن اِن کے سہارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

(۱۱ دسمبر ۱۹۷۱)

ناصر کاظمی

اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا

اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

سارے جہاں کی تم پہ نظر ہے بڑھے چلو

ہر گام سوئے فتح و ظفر ہے بڑھے چلو

خالی نہ جائے کوئی بھی اب وار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

راہِ خدا میں بدر کے اصحاب کی طرح

بڑھنا ہے تم کو نوح کے سیلاب کی طرح

کرنا ہے آج کفر کو مسمار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

رکھنا ہے تم کو ملتِ اسلام کا بھرم

شیرانہ ہر محاذ پہ آگے بڑھے قدم

ایمان پر ہے کفر کی یلغار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

اللہ اور رسولؐ کا پیغام ہے وہی

اسلام اور دشمنِ اسلام ہے وہی

اے پیروانِ حیدرِ کرار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

بارہ کروڑ ہونٹوں پہ ہے ایک ہی صدا

اے ارضِ پاک تیرا نگہبان ہے خدا

ظاہر ہوئے ہیں فتح کے آثار دیکھنا

بچ کر نہ جائے لشکرِ کفار دیکھنا

(۸ دسمبر ۱۹۷۱ ۔ اُستاد امانت علی خاں ، فتح علی خاں )

ناصر کاظمی

میرے سر مرے دل کی صدائیں

ترے گن گائیں

تیری وفا کے گیت سنائیں

ترے گن گائیں

تو غازی تو مردِ میداں

ساری قوم ہے تجھ پر نازاں

تیرے ساتھ ہیں سب کی دُعائیں

ترے گن گائیں

تو ہے عظمت پاک وطن کی

شان ہے تجھ سے پاک چمن کی

پاک چمن کی پاک ہوائیں

ترے گن گائیں

دھوم ہے تیری عالم عالم

گھر گھر چمکا فتح کا پرچم

گھر گھر میں خوشیاں لہرائیں

ترے گن گائیں

میرے سر سنگیت کی کلیاں

مہک رہی ہیں جن سے گلیاں

کیسے کیسے رُوپ دکھائیں

ترے گن گائیں

(۱۰ نومبر ۱۹۶۵ ۔ کلا رتی راگ، آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان۔ طبلے پر سنگت۔ شوکت حسین)

ناصر کاظمی

تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن

پھول ہیں تیرے ماہتاب ذرّے ہیں تیرے آفتاب

تیرے ایک رنگ میں تیری بہار کا شباب

داغِ خزاں سے پاک ہے تیرے چمن کا پیرہن

تیری گلی گلی کی خیر اے مِرے دل رُبا وطن

تیرے علم ہیں سربلند عرصہِ کارزار میں

تیرے جواں ہیں سربکف وادی و کوہسار میں

اَبر و ہوا کے ہم قدم تیرے دلیر صف شکن

تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

تیری ہوائیں مشکبو تیری فضائیں گلفشاں

تیرے ستارہ و ہلال عظمت و امن کا نشاں

دُھوم تری نگر نگر شان تری دمن دمن

تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

(۹ نومبر ۱۹۶۵ ۔ بسنت بہار۔ آوازیں ۔ اُستاد نزاکت علی خاں ، سلامت علی خاں ۔ طبلے پر سنگت —- شوکت حسین)

ناصر کاظمی

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عقیدتوں کا سلام تجھ پر

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

بجا ہے یہ احترام تیرا

رہے گا تا حشر نام تیرا

تری شہادت سے اے سپاہی

ملی ہے قرآن کو گواہی

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

محاذ پر جاگتا رہا تو

پہاڑ بن کر ڈٹا رہا تو

وطن کو پائندہ کر گیا تو

وفا کو پھر زندہ کر گیا تو

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

سلام کہتا ہے شہر تجھ کو

سلام کہتی ہے نہر تجھ کو

سلام کہتے ہیں تجھ کو ہمدم

سلام کہتا ہے سبز پرچم

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

رہِ وفا کا شہید ہے تو

نویدِ صبحِ اُمید ہے تو

یہ زندگی جو تجھے ملی ہے

یہ زندگی رشکِ زندگی ہے

عزیزِ ملت نشانِ حیدر

(۷ اکتوبر ۱۹۶۵ ۔ موسیقی ۔ کالے خان۔ آوازیں ۔ منیر حسین اور ساتھی)

ناصر کاظمی

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

تم ہو پاک وطن کا گہنا

دُھوم ہے گھر گھر آج تمھاری

خوشبو کی نہریں ہیں جاری

شاخوں نے پھر گہنا پہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

پھول ہیں تھوڑے ، خار بہت ہیں

پردے میں اغیار بہت ہیں

اپنا بھید کسی سے نہ کہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

تم ہو شہیدوں کا نذرانہ

تم کو قسم ہے سر نہ جھکانا

آپس کے دُکھ مل کر سہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

راوی اور چناب کے پیارو

جہلم ، سندھ کی آنکھ کے تارو

آج سے میرے دل میں رہنا

ہنستے پھولو ہنستے رہنا

(۱۵ نومبر ۱۹۶۵)

ناصر کاظمی

گلشن پاک ہمارا

گلشن پاک ہمارا

تن من دھن سے پیارا

ہم کو ناز ہے اس گلشن پر

ہم نے کتنی جانیں دے کر

اس کا رنگ اُبھارا

گلشن پاک ہمارا

بستے شہر زمیں کے سہرے

تہذیبوں کے روشن چہرے

گھر گھر چاند ستارا

گلشن پاک ہمارا

پاک فضا ، پرچم نورانی

بیداری کی زندہ نشانی

نصرت کا گہوارہ

گلشن پاک ہمارا

ناصر کاظمی

چلو پھر سے مسکرائیں

چلو پھر سے مسکرائیں

چلو پھر سے دل جلائیں

جو گزر گئی ہیں راتیں

اُنہیں پھر جگا کے لائیں

جو بسر گئی ہیں باتیں

اُنہیں یاد میں بُلائیں

چلو پھر سے دل لگائیں

چلو پھر سے مسکرائیں

کسی شہ نشیں پہ جھلکی

وہ دھنک کسی قبا کی

کسی رگ میں کسمسائی

وہ کسک کسی ادا کی

کوئی حرف بے مروّت

کسی کُنجِ لب سے پھُوٹا

وہ چھنک کے شیشۂ دل

تہِ بام پھر سے ٹوٹا

یہ مِلن کی نامِلن کی

یہ لگن کی اور جلن کی

جو سہی ہیں وارداتیں

جو گُزر گئی ہیں راتیں

جو بِسر گئی ہیں باتیں

کوئی ان کی دھُن بنائیں

کوئی ان کا گیت گائیں

چلو پھر سے مسکرائیں

چلو پھر سے دل جلائیں

فیض احمد فیض

جب تیری سمندر آنکھوں میں

یہ دُھوپ کنارا، شام ڈھلے

مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں

جو رات نہ دن ، جو آج نہ کل

پل بھر کو امر ،پل بھر میں دھواں

اِس دھوپ کنارے، پل دو پل

ہونٹوں کی لپک

باہوں کی چھنک

یہ میل ہمارا ، جھوٹ نہ سچ

کیوں زار کرو، کیوں دوش دھرو

کس کارن، جھوٹی بات کرو

جب تیری سمندر آنکھوں میں

اس شام کا سورج ڈوبے گا

سُکھ سوئیں گے گھر دَر والے

اور راہی اپنی رہ لے گا

(لندن سے)

فیض احمد فیض

گوری گوری بانہاں ، ہری ہری چوڑیاں ۔ گیت

گوری گوری بانہاں ، ہری ہری چوڑیاں

بانہیاں پکڑ دھر لینی رے موسے

بل بل جاؤں میں تورے موسے

خسرو نظام کے بل بل جیے

موہے سہاگن کینی رے موسے

امیر خسرو

کاہے کو بیاہی بدیس ۔ گیت

کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھی بابل مورے

کاہے کو بیاہی بدیس

بھائیوں کو دیے محلے دو محلے ہم کو دیا پردیس

کاہے کو بیاہی بدیس ، رے بابل!

کاہے کو بیاہی بدیس

ہم تو ہیں بابل تیرے کھونٹے کی گائیاں

جد ہانکے ، ہنک جائیں

ہم تو ہیں بابل تیرے بیلے کی کلیاں

گھر گھر مانگی جائیں

ہم تو ہیں بابل تیرے پنجرے کی چریاں

بھور بھئے اڑ جائیں

ٹاکوں بھری میں نے گڑیاں جو چھوڑیں

چھوٹا سہیلی کا ساتھ

کوٹھے تلے سے پالکی نکلی

بیرن نے کھائے پشاد

ڈولی کا پردہ اٹھا کر جو دیکھا

آیا پیا کا دیس

کاہے کو بیاہی بدیس ، رے بابل!

کاہے کو بیاہی بدیس؟

امیر خسرو

میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے ۔ گیت

میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے

گھر ناری کنواری کہے سو کرے

میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے

سوہنی صورتیا ، موہنی مورتیا

میں تو ہریزے کے پیچھے سما آئی

گھر ناری کنواری کہے سو کرے

میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے

امیر خسرو

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے ۔ گیت

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

تو تو صاحب میرا محبوب الٰہی

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

ہماری چنریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیا کی پگڑیا

وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے

جو کچ مانگے رنگ کی رنگائی

مورا جوبن گروی رکھ لے

آن پڑی دربار تمہارے

موری لاج شرم سب رکھ لے

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

امیر خسرو

سب سکھیوں میں چادر میری میلی ۔ گیت

سب سکھیوں میں چادر میری میلی

دیکھیں ہنس ہنس ناری

اب کے بہار چادر میریرنگ دے

پیا رکھ لے لاج ہماری

صدقہ باب گنج شکر کا

رکھ لے لاجک ہماری

قطب فریدل آئے براتی

خسرو راج دلاری

کوئی ساس کوئی نند سے جھگڑے

ہم کو آس تمہاری

رکھ لے لاج ہماری نظام

رکھ لے لاج ہماری

امیر خسرو

ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں ۔ گیت

ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ

سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما

نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں

بحقِّروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو

سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

امیر خسرو

جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ۔ گیت

جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر

ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر

جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا

حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر

توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے

تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر

جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں

تیری جو چنتا دل دھروں ، اک دن ملو تم آئے کر

میرا جو من تم نے لیا ، تم نے اُٹھا غم کو دیا

غم نے مجھے ایسا کیا جیسا پتنگا آگ پر

خسرو کہے باتاں غضب ، دل میں نہ لاوے کچھ عجب

قدرت خدا کی یہ عجب ، جب جیو دیا گل لائے کر

امیر خسرو

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی ۔ گیت

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

کیسے میں بھر لاؤں مدھوا سے مٹکی

پانی بھرن کو جو میں گئی تھی

دوڑ ، جھپٹ ، موری مٹکی پھٹکی

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

مورے اچھے نظام پیا جی

امیر خسرو