زمرہ جات کے محفوظات: نعت

تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج

تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج

جشنِ ولادتِ شہِ جن و بشر ہے آج

صدیوں سے فرشِ راہ تھے جس کے لیے نجوم

آغوشِ آمنہ میں وہ رشکِ قمر ہے آج

صبح ازل کو جس نے دیا حسنِ لازوال

وہ موجِ نور زینتِ دیوار و در ہے آج

کس کے قدم سے چمکی ہے بطحا کی سر زمیں

ظلمت کدوں میں شورِ نویدِ سحر ہے آج

اے چشمِ شوق شوکتِ نظارہ دیکھنا

ماہِ فلک چراغِ سرِ رہ گزر ہے آج

شوقِ نظارہ نے وہ تراشا ہے آئنہ

جس آئنے میں جلوہِ آئینہ گر ہے آج

جچتی نہیں نگاہ میں دُنیا کی رونقیں

کیا پوچھتے ہو دھیان ہمارا کدھر ہے آج

ناصر درِ حضورؐ سے جو چاہو مانگ لو

وا خاص و عام کے لیے بابِ اثر ہے آج

(۱۹ مئی ۱۹۷۰)

ناصر کاظمی

دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے

دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے

ہم نے پائی نئی زندگی آپؐ سے

کیوں نہ نازاں ہوں اپنے مقدر پہ ہم

ہم کو ایماں کی دولت ملی آپؐ سے

کل بھی معمور تھا آپ کے نور سے

ہے منوّر جہاں آج بھی آپؐ سے

دُشمنوں پر بھی در رحمتوں کا کھلا

راہ و رسمِ محبت چلی آپؐ سے

دل کا غنچہ چٹکتا ہے صلِ علیٰ

اپنے گلشن میں ہے تازگی آپؐ سے

سب جہانوں کی رحمت کہا آپؐ کو

کتنا خوش ہے خدا ، یانبی آپؐ سے

ختم ہے آپ پر شانِ پیغمبری

یہ روایت مکمل ہوئی آپؐ سے

(۱۱ فروری ۱۹۷۱)

ناصر کاظمی

شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں

شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں

یہ بے زبان تمھیں سے کلام کرتے ہیں

زمیں کو عرشِ معلی ہے تیرا گنبدِ سبز

تری گلی میں فرشتے قیام کرتے ہیں

مسافروں کو ترا دَر ہے منزلِ آخر

یہیں سب اپنی مسافت تمام کرتے ہیں

جنھیں جہاں میں کہیں بھی اماں نہیں ملتی

وہ قافلے یہاں آ کر قیام کرتے ہیں

نظر میں پھرتے ہیں تیرے دیار کے منظر

اسی نواح میں ہم صبح و شام کرتے ہیں

سکونِ دل کی انہی سے اُمید ہے ناصر

جو اپنا فیض غریبوں پہ عام کرتے ہیں

(۲۵ فروری ۱۹۷۵ ۔ لاہور ٹی وی)

ناصر کاظمی

پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں

پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں

تمھاری یاد کو ہم زندگی سمجھتے ہیں

تمھارے نور سے معمور ہیں وجود و عدم

اسی چراغ کو ہم روشنی سمجھتے ہیں

قدم پڑا ہے جہاں آپ کے غلاموں کا

ہم اُس زمین کو تختِ شہی سمجھتے ہیں

یہ آپ ہی کا کرم ہے کہ آج خاک نشیں

مقامِ بندگی و قیصری سمجھتے ہیں

سمجھ سکیں گے وہ کیا رُتبہِ نبیِؐ کریم

جو آدمی کو فقط آدمی سمجھتے ہیں

ناصر کاظمی

اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے

اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے

تو جانِ سخن موضوعِ سخن اے پاک نبی رحمت والے

اے عقدہ کشائے کون و مکاں ترے وصف نہیں محتاجِ بیاں

عاجز ہے زباں ، قاصر ہے دہن اے پاک نبی رحمت والے

اے بدر و حنین کے راہ نما ، اے فاتحِ خیبر کے مولا

ترا ایک اشارہ کفر شکن اے پاک نبی رحمت والے

تری یاد ہماری شمعِ یقیں ، ترا نام ہمارا نقشِ نگیں

ترے نور سے ہے ملت کا چمن اے پاک نبی رحمت والے

میں کچھ بھی نہیں مجھے کیا ہے غم جب تیرا کرم ہے شاہِ کرم

شاداب ہے میرے تن کا بن اے پاک نبی رحمت والے

ناصر کاظمی

تضمین براشعارِ غالب

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

’’زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘

خطِ جبیں ترا اُمّ الکتاب کی تفسیر

کہاں سے لاؤں ترا مثل اور تیری نظیر

دکھاؤں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر

’’مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے‘‘

کہاں وہ پیکرِ نوری ، کہاں قبائے غزل

کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل

کہاں وہ جلوئہ معنی ، کہاں ردائے غزل

’’بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے

قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے

’’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘

ناصر کاظمی

ارادہ حمد کہنے کا تھا

لفظِ حمد لکھا۔

خیال آیا کہ اس سے پہلے

حرفِ میم یا حرفِ الف لکھ دوں

تو اُس کا نام بن جائے

وہ جس کا نام لینا اک عبادت ہے۔

محمدؐ لکھ دیا ہم نے تو گویا حمد بھی کہہ دی،

پڑھیں تو چشم ودل شاداں

لکھیں تو انگلیاں نازاں

محمدؐ سے زیادہ خوبصورت نام کس کا ہے؟

باصر کاظمی

جنہوں نے روشنی پائی مِرے پیمبرؐ سے

سدا چمکتے رہے مہر و ماہ و اختر سے

چلے جو آپؐ کے ہمراہ پا گئے منزل

نہیں چلے تو جھگڑتے رہے مقدر سے

وگرنہ مجھ کو تہی دامنی ہی زیبا ہے

کہ چاہیے مجھے خیرات ایک ہی در سے

وہ آنکھ جس کا کہ سرمہ ہو خاکِ راہِ رسولؐ

وہ ہو سکے گی نہ خیرہ زر و جواہر سے

نبیؐ کی مدح سرائی وہ قرض ہے باصرِؔ

ادا ہوا نہ کبھی جو کسی سخن ور سے

1987ئ

باصر کاظمی