منصور آفاق ۔ غزل نمبر 589
ہوتے مرے بھی خال و خد، آئینہ دیکھتا مجھے
سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے
کشفِ وصال و ہجر میں کیسا شعورِ ذات ہے
عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے
اس کے خرامِ ناز پر کوئی چراغ کیا جلا
شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے
لکھی غزل ہے میر نے میرے چُرا چُرا کے خواب
غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے
قریہء ماہ تاب تک چھان کے آ گیا ہوں میں
منزلِ وصل کے لیے اتنا نہ اب پھرا مجھے
اس کو حیات بخش دی، مہر منیر ہو گیا
شاخِ صلیبِ شام پر جس نے کہا خدا مجھے
جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے
چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے
کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں
میرے قریب بیٹھ کر تُو بھی کبھی منا مجھے
مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک
میرا مقام و مرتبہ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے
میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں
میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے
ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں
لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے
میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی
اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے
خیمۂ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو
حرف صدائے کن بتا، کیسے ہے تھامنا مجھے
اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے
لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے
میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے
اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے
ایک کرن شعور کی، ایک بہار نور کی
اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے
مجھ سے بڑا کوئی نہیں ‘ رات کے اک چراغ نے
کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے
آمدِ یار کے لیے جمع چراغِ چشم ہیں
کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے
پاؤں میں ہے غبارِ رہ، آنکھ میں منظرِ سیہ
دل ہے مرا طلب کدہ کوئی دیا دکھا مجھے
اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا
پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے
کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیوں ترے بغیر
دیتا تمام شہر ہے، جینے کا مشورہ مجھے
رستہ تھا روشنی بکف، گھر تھا چمن بنا ہوا
تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے
میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں
میرے بدن پہ پاؤں رکھ، قوس قزح بنا مجھے
کہتی ہے داستانِ نور، آ کے سیہ لباس میں
مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے
سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں
چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے
مستی سے بھر، ترنگ دے، دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔