زمرہ جات کے محفوظات: عرفان صدیقی

فرد فرد

عرفان صدیقی ۔ فرد فرد
اب خدا چاہے تو کچھ اور ہوا چاہتا ہے
آج تک تو وہ ہوا ہے جو عدو نے چاہا
خدا نے ذہن میں لفظ و بیاں کو بھیج دیا
جو کچھ کمایا تھا میں نے سو ماں کو بھیج دیا

غزال آتے بھی ہیں زیر دام جانتا ہوں
مگر یہ رزق میں خود پر حرام جانتا ہوں

شہر نے اُمید کی چادر اوڑھی دُور اذان شام ہوئی
سوچ کی کہنہ سرائے میں روشن مشعل بام ہوئی

میرے انکار پرستش نے بچایا ہے مجھے
سر جھگا دوں تو ہر انسان خدا ہو جائے

کون پاگل اپنا سر دینے کی سرشاری میں ہے
فائدہ تو صرف اعلان وفاداری میں ہے

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہوتا
نہ ہوا ورنہ یہ نظارہ غضب کا ہوتا

میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا

غزل میں ہم سے غم جاں بیاں کبھی نہ ہوا
تمام عمر جلے اور دھواں کبھی نہ ہوا

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہو گا
کبھی ہو گا تو یہ نظارہ غضب کا ہو گا

ہوا کے ہاتھ میں رکھ دی کسی نے چنگاری
تمام شہر اسے حادثہ سمجھتا رہا

کوئے قاتل کو تماشا گاہ سمجھا ہے حریف
کشتنی میری رقابت میں یہاں بھی آگیا

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمت سفر بدل دیں ہم

اس کا پندار رہائی نہیں دیتا اس کو
نقش دیوار دکھائی نہیں دیتا اس کو

میں اک دعا ہوں تو دروازہ آسمان کا بھی کھول
اور اک نوا ہوں تو حسن قبول دے مجھ کو

سوچتے سوچتے زندگی کٹ گئی اس نے چاہا مجھے
وہم بھی ایک شئے ہے مگر اس کے لیے کچھ قرینہ تو ہو

وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں

شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں

مری غزل کا یہ مضموں بدلنے والا نہیں
وہ ملنے والا نہیں، دل سنبھلنے والا نہیں

میں بھی تنہائی سے ڈرتا ہوں کہ خاکم بدہن
آدمی کوئی خدا ہے، کہ اکیلا رہ جائے

حکم یہ ہے کہ مجھے دشت کی قیمت دی جائے
میرے زنداں کے در و بام کو وسعت دی جائے

موتیوں سے منہ بھرے دیکھو تو یہ مت پوچھنا
لوگ کیوں چپ ہو گئے تاب سخن ہوتے ہوئے

آگ میں رقص کیا، خاک اُڑا دی ہم نے
اب کے تو شہر میں اک دھوم مچا دی ہم نے
آگ میں رقص کیا خاک اُڑا دی ہم نے
موج میں آئے تو اک دھوم مچا دی ہم نے

دل اک تپش میں پگھلتا رہے تو اچھا ہے
چراغ طاق میں جلتا رہے تو اچھا ہے

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچاتے تو زیاں نام و نسب کا ہوتا

موج خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا

کبھی طلب ہی نہ کی دوستوں سے قیمت دل
سو کاروبار میں ہم کو زیاں کبھی نہ ہوا

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچائیں تو زیاں نام و نسب کا ہو گا

بجا حضور، یہ ساری زمین آپ کی ہے
میں آج تک اسے ملک خدا سمجھتا رہا

میں نے تو اپنے ہی بام جاں پہ ڈالی تھی کمند
اتفاقاً اس کی زد میں آسماں بھی آگیا

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم

کیا کسی خواب میں ہوں میں تہہ خنجر کہ یہاں
چیختا ہوں تو سنائی نہیں دیتا مجھ کو
نہ گرم دوستیاں ہیں نہ نرم دشمنیاں
میں بے اصول ہوں کوئی اصول دے مجھ کو

ہم ہوا کے سوا کچھ نہیں اس پہ یہ حوصلہ دیکھئے
آدمی ٹوٹنے کے لیے کم سے کم آبگینہ تو ہو

مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں

شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں

لہو میں لو سی بھڑکنے لگی، میں جانتا ہوں
کہ یہ چراغ بہت دیر جلنے والا نہیں

دل افسردہ کے ہر سمت ہے رشتوں کا ہجوم
جیسے انسان سمندر میں بھی پیاسا رہ جائے

کب تلک کوئی کرے حلقۂ زنجیر میں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہو تو اجازت دی جائے

اب بدن سے موج خوں گزری تو اندازہ ہوا
کیا گزر جاتی ہے صحرا پہ چمن ہوتے ہوئے

درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم ہی دنیا سے اُٹھا دی ہم نے
درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم بہرحال اُٹھا دی ہم نے

وہ عشق ہو کہ ہوس ہو مگر تعلق کا
کوئی بہانہ نکلتا رہے تو اچھا ہے
عرفان صدیقی

تابِ نمو تو ہم میں ہے، آب و ہوا بھی چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 356
نخلِ مراد کے لیے فصلِ دُعا بھی چاہیے
تابِ نمو تو ہم میں ہے، آب و ہوا بھی چاہیے
کم نظرانِ شہر کو وحشتِ جاں نظر تو آئے
چاکِ جگر بہت ہوا، چاکِ قبا بھی چاہیے
سہل نہیں کہ ہاتھ آئے اس کے وصال کا گلاب
دستِ ہوس بھی چاہیے، بختِ رسا بھی چاہیے
کچھ نہ ملے تو کوچہ گرد، لوٹ کے گھر تو آسکیں
پاؤں میں کوئی حلقۂ عہدِ وفا بھی چاہیے
عرفان صدیقی

بے سمت راستہ ہے‘ بھٹک جانا چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 355
ہشیار ہیں تو ہم کو بہک جانا چاہیے
بے سمت راستہ ہے‘ بھٹک جانا چاہیے
دیکھو کہیں پیالے میں کوئی کمی نہ ہو
لبریز ہوچکا تو چھلک جانا چاہیے
حرفِ رجز سے یوں نہیں ہوتا کوئی کمال
باطن تک اس صدا کی دھمک جانا چاہیے
گرتا نہیں مصاف میں بسمل کسی طرح
اب دستِ نیزہ کار کو تھک جانا چاہیے
طے ہوچکے سب آبلہ پائی کے مرحلے
اب یہ زمیں گلابوں سے ڈھک جانا چاہیے
شاید پسِ غبار تماشا دکھائی دے
اس رہ گزر پہ دور تلک جانا چاہیے
عرفان صدیقی

اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 354
وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیے
اس عیش کے لیے سر و سامان چاہیے
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیے
تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور
سچا ہے کاروبار تو نقصان چاہیے
اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ
امید کے لیے کوئی امکان چاہیے
ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ
اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے
آخر ہے اعتبارِ تماشا بھی کوئی چیز
انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیے
جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں
اب کچھ نہیں تو سیرِ بیابان چاہیے
سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے
یہ واقعہ تو داخلِ دیوان چاہیے
ملکِ سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیے
اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا
بلقیس شاعری کو سلیمان چاہیے
عرفان صدیقی

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 353
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو ظفریاب دیکھنے کے لیے
کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے
چراغ‘ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے
عرفان صدیقی

پیڑ گملوں میں سمٹ جائیں گے ہریالی لیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 352
جنگلوں میں شہر در آئے ہیں خوشحالی لیے
پیڑ گملوں میں سمٹ جائیں گے ہریالی لیے
میری دَھرتی جس پہ برسوں سے گھٹا برسی نہیں
آسماں کو تک رہی ہے کاسۂ خالی لیے
ذہن پر اندیشے اولوں کی طرح گرتے ہوئے
آرزوئیں کھیت کے سبزے کی پامالی لیے
بستیوں پر روشنی کے چند سکّے پھینک کر
ایک بادل جا رہا ہے چاند کی تھالی لیے
شاعروں کو روز البیلے خیالوں کی تلاش
جیسے بچے تتلیوں کی کھوج میں جالی لیے
عرفان صدیقی

آندھی میں سیر ارض و سماء پر نہ جائیے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 351
جب بال و پر نہیں ہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیر ارض و سماء پر نہ جائیے
کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے
کیجے نہ ریگ زار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے
کچھ اور کہہ رہا ہوں غزل کے حوالے سے
مطلب سمجھئے، طرز ادا پر نہ جائیے
آخر تو فیصلہ سر مقتل اُسی کا ہے
اس انتظام جرم و سزا پر نہ جائیے
دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے
عرفان صدیقی

مرا رقیب بھی، میرا سجن بھی زندہ رہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 350
میں زندہ ہوں تو مری انجمن بھی زندہ رہے
مرا رقیب بھی، میرا سجن بھی زندہ رہے
حقیقتیں تو بہت ہیں بیان کرنے کو
خدا کرے مری تاب سخن بھی زندہ رہے
تجھے بھی تیغ کشیدہ کبھی زوال نہ ہو
دل کشادہ، ترا بانکپن بھی زندہ رہے
شکار جو سہی دشت سبکتیگن، مگر
رمیدہ خو ہے تو شاید ہرن بھی زندہ رہے
عرفان صدیقی

پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 349
جاؤ اب دشت ہی تعزیر تمہارے لیے ہے
پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے
اپنے ہی دستِ تہی ظرف نے مارا تم کو
اب بکھر جانا ہی اکسیر تمہارے لیے ہے
آخرِ شب تمہیں آنکھوں کا بھرم کھونا تھا
اب کوئی خواب نہ تعبیر تمہارے لیے ہے
عکس نظارہ کرو زود پشیمانی کا
اب تمہاری یہی تصویر تمہارے لیے ہے
آج سے تم پہ درِ حرف و نوا بند ہوا
اب کوئی لفظ نہ تاثیر تمہارے لیے ہے
منصبِ درد سے دل نے تمہیں معزول کیا
تم سمجھتے تھے یہ جاگیر تمہارے لیے ہے
عرفان صدیقی

ہم کو جو رنج ہے وہ جرأتِ فریاد سے ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 348
شکوہ کوئی بھی نہ دستِ ستم اِیجاد سے ہے
ہم کو جو رنج ہے وہ جرأتِ فریاد سے ہے
داستانوں میں تو ہم نے بھی پڑھا ہے، لیکن
آدمی کا بھی کوئی رِشتہ پری زاد سے ہے
زندہ ہے ذہن میں گزرے ہوئے لمحوں کی مہک
دشت آباد بہت، نکہتِ برباد سے ہے
سچ تو یہ ہے کہ تری نوک پلک کا رِشتہ
آخرِ کار ترے حسنِ خداداد سے ہے
اُس بلندی سے تجھے چاہے میں دِکھلائی نہ دوں
پھر بھی کچھ ربط تو دیوار کا بنیاد سے ہے
زہر کا جام ہو یا منبرِ دانش، عرفانؔ
ابنِ آدم کا جو ورثہ ہے وہ اَجداد سے ہے
عرفان صدیقی

باطن کی چمک سانولے پن میں بھی وہی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 347
احوال ترا شامِ بدن میں بھی وہی ہے
باطن کی چمک سانولے پن میں بھی وہی ہے
وحشت کے لیے شہر مناسب نہیں ورنہ
آہو تو مری جان ختن میں بھی وہی ہے
آباد نہیں اس سے فقط وصل کی بستی
وہ پھول ہے اور ہجر کے بن میں بھی وہی ہے
اک موج سے شاداب ہیں یہ دونوں کنارے
جو ہے مرے من میں ترے تن میں بھی وہی ہے
یہ راز کھلا روزنِ زنداں کی بدولت
سورج میں ہے جو بات کرن میں بھی وہی ہے
مٹّی ہی میں ملنا ہے تو اس شہر سے کیوں جائیں
مٹّی تو میاں ارضِ وطن میں بھی وہی ہے
تنہا ہوں سو اے میرے حریفو مری پہچان
رن میں بھی وہی بزمِ سخن میں بھی وہی ہے
عرفان صدیقی

اور سچ پوچھو تو سرمایۂ فن وہ بھی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 346
ہائے وہ جسم کہ اِک جی کی جلن وہ بھی ہے
اور سچ پوچھو تو سرمایۂ فن وہ بھی ہے
اُس کو بانہوں میں گرفتار کرو تو جانیں
تم شکاری ہو تو رَم خوردہ ہرن وہ بھی ہے
ایک دِن تو بھی مری فکر کے تاتار میں آ
تیرا گھر اَے مرے آہوئے ختن، وہ بھی ہے
اُس کی آنکھوں میں بھی رقصاں ہے وہی گرمئ شوق
غالباً محرمِ اَسرارِ بدن وہ بھی ہے
لاؤ کچھ دیر کو پہلوئے بتاں میں رُک جائیں
ہم مسافر ہیں، ہمارا تو وطن وہ بھی ہے
اور کچھ راز نہیں راتوں کی بیداری کا
ہم بھی ہیں شیفتۂ شعر و سخن، وہ بھی ہے
عرفان صدیقی

توُ بھی ہے، اَے مری جاں تیغ بکف توُ بھی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 345
واقعی کیا اِسی قاتل کی طرف توُ بھی ہے
توُ بھی ہے، اَے مری جاں تیغ بکف توُ بھی ہے
آسماں اپنی کماں توڑ چکا، یہ نہ سمجھ
اَب کوئی تِیر جو چھوٹا تو ہدف توُ بھی ہے
تیز رفتار ہیں دُشمن کے فرس تجھ سے سوا
میرے بعد اَے مری بکھری ہوئی صف توُ بھی ہے
عرفان صدیقی

لشکر بھی ہے، خنجر بھی ہے، پہرا بھی ہے، دریا بھی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 344
منظر وہی، پیکر وہی، دیکھیں کوئی پیاسا بھی ہے
لشکر بھی ہے، خنجر بھی ہے، پہرا بھی ہے، دریا بھی ہے
پیروں میں ہے زنجیر کیوں، ہے خاک دامن گیر کیوں
رخصت بھی ہے، مہلت بھی ہے، ناقہ بھی ہے، رستہ بھی ہے
کچھ رقص کر، کچھ ہائے ہو، اے دل ہمیں دکھلا کہ تو
قیدی بھی ہے، وحشی بھی ہے، زخمی بھی ہے، زندہ بھی ہے
آشفتگاں، کیا چاہیے اس حرف کے کشکول میں
نعرہ بھی ہے، نالہ بھی ہے، نغمہ بھی ہے، نوحہ بھی ہے
صدیوں سے ہے اک معرکہ لیکن یہ سرکارِ وفا
قائم بھی ہے، دائم بھی ہے، برحق بھی ہے، برپا بھی ہے
عرفان صدیقی

کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 343
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
کس نے اس ریت پہ گلبرگ بچھا رکھے ہیں
یہ زمیں کس کی ہے‘ یہ موجِ صبا کس کی ہے
کس نے بھیجا ہے غبارِ شبِ ہجرت ہم کو
کیا خبر اپنے سروں پر یہ رِدا کس کی ہے
کون بجھتے ہوئے منظر میں جلاتا ہے چراغ
سرمئی شام، یہ تحریرِ حنا کس کی ہے
کیسے آشوب میں زندہ ہے مرادوں کی طرح
جانے بھاگوں بھری بستی پہ دُعا کس کی ہے
عرفان صدیقی

ہوا ادھر سے اُدھر آتی جاتی رہتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 342
پس حصار خبر آتی جاتی رہتی ہے
ہوا ادھر سے اُدھر آتی جاتی رہتی ہے
پرند لوٹ بھی آئیں خلاء سے شاخوں پر
کہ فصلِ برق و شرر آتی جاتی رہتی ہے
یہاں بھی دل میں دیئے جلتے بجھتے رہتے ہیں
ہمارے گھر بھی سحر آتی جاتی رہتی ہے
غبار میں کوئی ناقہ سوار ہو شاید
سو راستے پہ نظر آتی جاتی رہتی ہے
دُعا کرو کہ سلامت رہے شجر کا بدن
بہارِ برگ و ثمر آتی جاتی رہتی ہے
عرفان صدیقی

چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 341
ہم سے وہ جانِ سخن ربطِ نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے
اُس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال
میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے
میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جانِ مراد
خود کو زنجیرِ محبت سے رہا چاہتی ہے
چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے
روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر‘ یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے
ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد
گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے
ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے
اور انہیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے
عرفان صدیقی

خامشی آکے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 340
زیرِ محراب نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آکے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دُنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہوُ کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گری ہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے
عرفان صدیقی

ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 339
اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے
پھر کوئی رات بجھا دیتی ہے میری آنکھیں
پھر کوئی صبح دریچے مرے وا کرتی ہے
ایک پیمانِ وفا خاک بسر ہے سرِ شام
خیمہ خالی ہوا تنہائی عزا کرتی ہے
ہو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
کیسی مٹی ہے کہ دامن سے لپٹتی ہی نہیں
کیسی ماں ہے کہ جو بچوں کو جدا کرتی ہے
اب نمودار ہو اس گرد سے اے ناقہ سوار
کب سے بستی ترے ملنے کی دُعا کرتی ہے
عرفان صدیقی

سلونی شام جیسے خوں کی پیاسی ہوتی جاتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 338
سمٹتی دُھوپ تحریرِ حنا سی ہوتی جاتی ہے
سلونی شام جیسے خوں کی پیاسی ہوتی جاتی ہے
تھکے ہونٹوں سے بوسوں کے پرندے اُڑتے جاتے ہیں
ہوس جاڑے کی شاموں کی اُداسی ہوتی جاتی ہے
سکوتِ شب میں تم آواز کا شیشہ گرا دینا
فضا سنسان کمرے کی ننداسی ہوتی جاتی ہے
کوئی رَکھ دے کسی اِلزام کا تازہ گلاب اِس میں
بچھڑتی چاہتوں کی گود باسی ہوتی جاتی ہے
تو پھر اِک بار یہ چاکِ گریباں سب کو دِکھلا دیں
بہت بدنام اپنی خوش لباسی ہوتی جاتی ہے
غزل کی صحبتوں سے اور کچھ حاصل نہیں، لیکن
غزالوں سے ذرا صورت شناسی ہوتی جاتی ہے
عرفان صدیقی

جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 337
لپٹ سی داغِ کہن کی طرف سے آتی ہے
جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے
میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
پہاڑ چپ ہیں تو اب ریگ زار بولتے ہیں
ندائے کوہ ختن کی طرف سے آتی ہے
کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر
یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے
جگوں کے کھوئے ہوؤں کو پکارتا ہے یہ کون
صدا تو خاکِ وطن کی طرف سے آتی ہے
عرفان صدیقی

ہماری خاک میں کوئی خرابی رہ گئی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 336
فلک پہ جاتی ہوئی ماہتابی رہ گئی ہے
ہماری خاک میں کوئی خرابی رہ گئی ہے
بس اب کے اس کی نگاہِ دگر پہ فیصلہ ہے
میں گم تو ہوچکا ہوں بازیابی رہ گئی ہے
چمک گیا تھا کبھی بندِ پیرہن اس کا
بدن سے لپٹی ہوئی بے حجابی رہ گئی ہے
غبارِ شب کے ادھر کچھ نہ کچھ تو ہے روشن
میں جاگتا ہوں ذرا نیم خوابی رہ گئی ہے
سمیٹنا ہی تو ہے ساز و برگِ خانۂ دل
اس ایک کام میں اب کیا شتابی رہ گئی ہے
عرفان صدیقی

میاں کھینچی ہوئی تلوار سے معاملہ ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 335
تمہارے ناز کشیدہ سری سے کیا ہو گا
میاں کھینچی ہوئی تلوار سے معاملہ ہے
کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا
صدائے گریہ کو دیوار سے معاملہ ہے
جگر کے پار نہیں تیر نیم کش اس کا
عجب عدوئے کم آزار سے معاملہ ہے
کسے یہ فکر کہ کیا ہے نوشتۂ تقدیر
یہاں نوشتۂ اغیار سے معاملہ ہے
عرفان صدیقی

ہمارے ساتھ اَبھی نام و ننگ سا کچھ ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 334
شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ اَبھی نام و ننگ سا کچھ ہے
حریف تو سپر اَنداز ہو چکا کب کا
درونِ ذات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اِس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا نہ میرا ہاتھ
جو سوچئے تو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
وہ میری مصلحتوں کو بگاڑنے والا
ہنوز مجھ میں وہی بے درنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی آسمان ہی ہو گا
محبتوں پہ بہرحال تنگ سا کچھ ہے
عرفان صدیقی

تنہا نہیں ہیں وہ کہ خدا اُن کے ساتھ ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 333
حق اُن کے ساتھ حق کی رضا اُن کے ساتھ ہے
تنہا نہیں ہیں وہ کہ خدا اُن کے ساتھ ہے
گل کر دیے ہیں دست جفا نے جہاں چراغ
اُن راستوں میں شمع وفا اُن کے ساتھ ہے
حر آرہے ہیں شمر سے شبیر کی طرف
اس معرکے میں بخت رسا اُن کے ساتھ ہے
کرتے ہیں اہل صبر و رضا اپنی صف درست
دل مطمئن ہیں قبلہ نما اُن کے ساتھ ہے
پیاسا نہ جان اُن کو تو اے نہر کم نصیب
راہ وفا میں آب بقا اُن کے ساتھ ہے
اُن کو سفر میں باد ستم گر کا ڈر نہیں
شہر نبی کی موج صبا اُن کے ساتھ ہے
عرفان صدیقی

ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 332
اَبھی تو سب سے بڑا اِمتحان بیچ میں ہے
ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے
زمین سخت سہی، آسمان گرم سہی
وہ مطمئن ہے کہ اُس کی اُڑان بیچ میں ہے
یہ شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں
کسے خیال کہ تیرا مکان بیچ میں ہے
جدھر بھی جاؤ وہی فاصلوں کی دیواریں
کوئی زمیں ہو وہی آسمان بیچ میں ہے
رُتوں کے جسم سے کیسے لپٹ سکوں عرفانؔ
مرا بدن ہے کہ اِک سائبان بیچ میں ہے
عرفان صدیقی

مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 331
لہو رکاب پہ ہے اور شکار زمین میں ہے
مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے
اُسے بھی فکر ہے اسٹیج تک، پہنچنے کی
جو شخص اَبھی صفِ آخر کے حاضرین میں ہے
جو دیکھ لے وہ برہنہ دِکھائی دینے لگے
عجیب طرح کی تصویر میگزین میں ہے
فقط یہ بڑھتا ہوا دستِ دوستی ہی نہیں
ہمیں قبول ہے وہ بھی جو آستین میں ہے
مٹھائیوں میں ملی کرکراہٹیں جیسے
گماں کی طرح کوئی شے مرے یقین میں ہے
نمو پذیر ہوں میں اَپنی فکر کی مانند
مرا وجود مرے ذہن کی زمین میں ہے
عرفان صدیقی

یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 330
جو سر پہ کل تھا وہی آسماں ابھی تک ہے
یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے
کسی جزیرے پہ شاید مجھے بھی پھینک آئے
سمندروں پہ ہوا حکمراں ابھی تک ہے
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے
یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے
تو رہزنوں کو بھی توفیقِ خواب دے یارب
کہ دشتِ شب میں مرا کارواں ابھی تک ہے
میں کس طرح مرے قاتل گلے لگاؤں تجھے
یہ تیر تیرے مرے درمیاں ابھی تک ہے
عرفان صدیقی

کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی تو ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 329
نبضِ عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے
کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی تو ہے
تیرے ہی پیک ہیں سب سچے صحیفوں والے
ان کا آنا ترے آنے کی بشارت ہی تو ہے
ہم تو اک دھوپ کا صحرا تھے جہاں اوس نہ پھول
ہم پہ برسا یہ ترا ابر عنایت ہی تو ہے
پیش کرتا ہے یہی داورِ محشر کے حضور
میرا سرمایہ ترے نام سے نسبت ہی تو ہے
اس فقیری میں کبھی سر نہیں جھکنے پاتا
میرا تکیہ ترا بازوئے حمایت ہی تو ہے
میں بھی گریاں ہوں اسی چوبِ شجر کی مانند
جس میں بھی جاگ اٹھے دردِ محبت ہی تو ہے
عرفان صدیقی

مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 328
ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے
مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے
کیا شمع جلاتا ہے کہ اے دولتِ شب تاب
کل صبح کا سورج تو تری گات میں گم ہے
کھلتے ہی نہیں لمس پہ اس جسم کے اسرار
سیاح عجب شہرِ طلسمات میں گم ہے
میں ڈوب گیا جب ترے پیکر میں تو ٹوٹا
یہ وہم کو تو خود ہی مری ذات میں گم ہے
یا حسن ہی اس شہر میں کافر نہیں ہوتا
یا عشق یہاں عزتِ سادات میں گم ہے
عرفان صدیقی

کیا سمندر ہے کہ اک موج رواں سے کم ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 327
ساعتِ وصل بھی عمر گزراں سے کم ہے
کیا سمندر ہے کہ اک موج رواں سے کم ہے
ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دُنیا تجھ میں
پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے
جان کیا دیجئے اس دولتِ دُنیا کے لیے
ہم فقیروں کو جو اک پارۂ ناں سے کم ہے
وادیِ ہو میں پہنچتا ہوں بیک جستِ خیال
دشتِ افلاک مری وحشتِ جاں سے کم ہے
میں وہ بسمل ہوں کہ بچنا نہیں اچھا جس کا
ویسے خطرہ ہنرِ چارہ گراں سے کم ہے
عرفان صدیقی

کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 326
شور کرنا ہمیں بے وجہ نہیں آگیا ہے
کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے
کو بہ کو صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے
شہر میں کون شکاری سرزیں آگیا ہے
اور کیجیے ہنر خوش بدناں کی تعریف
وہ بدن آگ لگانے کو یہیں آگیا ہے
دل برباد زمانے سے الگ ہے شاید
سارا عالم تو ترے زیر نگیں آگیا ہے
ان کے نزدیک یہ ساری سخن آرائی تھی
تجھ کو دیکھا ہے تو لوگوں کو یقیں آگیا ہے
اب کسی خیمہ گہ ناز میں جاتے نہیں ہم
بیچ میں کب سے کوئی خانہ نشیں آگیا ہے
عرفان صدیقی

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 325
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
چمک رہا ہے افق تک غبارِ تیرہ شبی
کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
غرض کہ پوچھتے کیا ہو مآلِ سوختگاں
تمام جلنا جلانا فسانہ ہو گیا ہے
فضائے شوق میں اس کی بساط ہی کیا تھی
پرند اپنے پروں کا نشانہ ہو گیا ہے
کسی نے دیکھے ہیں پت جھڑ میں پھول کھلتے ہوئے
دل اپنی خوش نظری میں دوانہ ہو گیا ہے
عرفان صدیقی

پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 324
وہ اُن دِنوں تو ہمارا تھا، لیکن اَب کیا ہے
پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اُس کا وَار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دُھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اَے غبارِ شب کیا ہے
دِکھا رہا ہے کسے وقت اَن گنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے
اَب اِس قدر بھی سکوں مت دِکھا بچھڑتے ہوئے
وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے
میں اَپنے چہرے سے کسی طرح یہ نقاب اُٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دَستورِ گفتگو، عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیرِ لب کیا ہے
عرفان صدیقی

ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اُٹھا رکھا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 323
ابھی کھلنے کے لیے بند قبا رکھا ہے
ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اُٹھا رکھا ہے
کیا چھپاؤں مرے مہتاب کہ تیرے آگے
دل کف دست کے مانند کھلا رکھا ہے
ہے مری خاک بدن آئینہ گر تیرا کمال
تونے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے
کیسی آنکھیں ہیں کہ دریاؤں کو پہچانتی ہیں
کیسا دل ہے کہ سرابوں سے لگا رکھا ہے
ایک ہی رنگ ہے، تیرے لب و رخسار کا رنگ
اور میرے ورق سادہ میں کیا رکھا ہے
MERGED ابھی کھلنے کے لیے بندِ قبا رکھا ہے
ہم نے ہر کام کو فردا پہ اٹھا رکھا ہے
کیا چھپاؤں مرے دلدار کہ تیرے آگے
دل کفِ دست کے مانند کھلا رکھا ہے
ہے مری خاکِ بدن آئینہ گر تیرا کمال
تو نے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے
ہم تعارف ہی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں
اور ابھی مرحلۂ کارِ وفا رکھا ہے
ایک ہی رنگ ترے اسم دل آویز کا رنگ
اور میرے ورقِ سادہ میں کیا رکھا ہے
عرفان صدیقی

یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 322
غزل کا رنگ کچھ ہو خون کے دھاروں سے اچھا ہے
یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے
ہماری طرح اعلان گنہگاری نہیں کرتا
کم از کم شیخ ہم جیسے سیہ کاروں سے اچھا ہے
کسی کے پاؤں کے چھالے ہوں زنجیروں سے بہتر ہیں
کسی کے درد کا صحرا ہو، دیواروں سے اچھا ہے
کہاں ملتی ہے بے رنگ غرض جنس وفا صاحب
مری دُکان میں یہ مال بازاروں سے اچھا ہے
محبت میں کوئی اعزاز اپنے سر نہیں لیتا
یہ خادم آپ کے پاپوش برداروں سے اچھا ہے
عرفان صدیقی

گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 321
دست عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے
میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے
لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشان قمر بھی اسی کا ہے
آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے
وہ خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے
منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوق نظر بھی اسی کا ہے
بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے
تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریاد کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے
تیرا یقین سچ ہے مری چشم اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے
خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے
عرفان صدیقی

پھر بھی دُنیا میں خسارہ سر بہ سر آنکھوں کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 320
کھیل سب آنکھوں کا ہے سارا ہنر آنکھوں کا ہے
پھر بھی دُنیا میں خسارہ سر بہ سر آنکھوں کا ہے
ہم نہ دیکھیں گے تو یہ منظر بدل جائیں گے کیا
دیکھنا ٹھہرا تو کیا نفع و ضرر آنکھوں کا ہے
سوچنا کیاہے ابھی کارِ نظر کا ماحصل
ہم تو یوں خوش ہیں کہ آغازِ سفر آنکھوں کا ہے
رفتہ رفتہ سارے چہرے درمیاں سے ہٹ گئے
ایک رشتہ آج بھی باقی مگر آنکھوں کا ہے
راستہ کیا کیا چراغوں کی طرح تکتے تھے لوگ
سلسلہ آنکھوں میں تا حدِ نظر آنکھوں کا ہے
تھک چکے دونوں تماشہ گاہِ عالم دیکھ کر
آؤ سو جائیں کہ ان آنکھوں میں گھر آنکھوں کا ہے
عرفان صدیقی

یہ کاروبارِ محبت اسی کے بس کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 319
سپردگی میں بھی انداز دسترس کا ہے
یہ کاروبارِ محبت اسی کے بس کا ہے
بھلی لگے گی نہ جانے کدھر لہو کی لکیر
کہ سارا کھیل ہی منظر میں پیش و پس کا ہے
یہاں کسی کا وفادار کیوں رہے کوئی
کہ جو وفا کا صلہ ہے وہی ہوس کا ہے
میں جانتا ہوں کہ تو ایک شعلہ ہے‘ لیکن
بدن میں ڈھیر بہت دن سے خار و خس کا ہے
عرفان صدیقی

برگ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 318
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے
ہم تو بارش ہیں خرابے کی ہمیں اگلے برس
در و دیوار کے چہرے پہ لکھا ہونا ہے
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
کچھ تو کرنا ہے کہ پتھر نہ سمجھ لے سیلاب
ورنہ اس ریت کی دیوار سے کیا ہونا ہے
عرفان صدیقی

پڑھا ہوا وہ دِلوں کی کتاب کتنا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 317
اُس ایک شخص کو مجھ سے حجاب کتنا ہے
پڑھا ہوا وہ دِلوں کی کتاب کتنا ہے
حقیقتیں بھی سہانی دِکھائی دیتی ہیں
بسا ہوا مری آنکھوں میں خواب کتنا ہے
وہ مل گیا ہے مگر جانے کب بچھڑ جائے
سکوں بہت ہے مگر اِضطراب کتنا ہے
نہ ہو گا کیا کبھی اُس کے بدن کا چاند طلوع
لہو میں اُترا ہوا آفتاب کتنا ہے
صدائیں اُس کی دِلوں میں اُترتی جاتی ہیں
گدائے شہرِ سخن باریاب کتنا ہے
عرفان صدیقی

سارا منظر مرے خوابوں کے جہاں جیسا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 316
پھول چہروں پہ سویروں کا سماں جیسا ہے
سارا منظر مرے خوابوں کے جہاں جیسا ہے
کیسا موسم ہے کوئی پیاس کا رشتہ بھی نہیں
میں بیاباں ہوں، نہ وہ ابرِ رواں جیسا ہے
تو یہاں تھا تو بہت کچھ تھا اسی شہر کے پاس
اب جو کچھ ہے وہ مرے قریۂ جاں جیسا ہے
جان بچنے پہ یہ شکرانہ ضروری ہے‘ مگر
جانتا ہوں ہنرِ چارہ گراں جیسا ہے
جوئے مہتاب تو میلی نہیں ہوتی‘ شاید
آج کچھ میری ہی آنکھوں میں دھواں جیسا ہے
عرفان صدیقی

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 315
شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے
جب سے جانا ہے کہ میں جان سمجھتا ہوں اسے
وہ ہرن چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا ہے
سیر بھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر
دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے
کیسے اس شخص سے تعبیر پہ اصرار کریں
جو کوئی خواب دکھانا بھی نہیں چاہتا ہے
اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں
ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے
میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
عرفان صدیقی

ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 314
اے مرے طائر جاں کس کی طرف دیکھتا ہے
ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں
دلِ بے مایہ یہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
بانوئے ناقہ نشیں دیکھ کے چہرہ تیرا
بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے
میں تو اک منظرِ رفتہ ہوں مجھے کیا معلوم
اب جہانِ گزراں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون‘ کہاں‘ کس کی طرف دیکھتا ہے
اس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف
وہ شہِ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
عرفان صدیقی

اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 313
نرم جھونکے سے یہ اِک زَخم سا کیا لگتا ہے
اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے
ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی
سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے
وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامانِ دُعا لگتا ہے
اَے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اَپنے منظر ہی میں ہر رَنگ بھلا لگتا ہے
ایسی بے رَنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دُنیا
پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے
دیکھنے والو! مجھے اُس سے الگ مت جانو
یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے
زَرد دَھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی
جیسے اک خیمہ سرِ دشت بلا لگتا ہے
عرفان صدیقی

کچھ کم سماعتوں کو سنانا بھی ہوتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 312
کچھ تو فغاں کا خیر بہانا بھی ہوتا ہے
کچھ کم سماعتوں کو سنانا بھی ہوتا ہے
دیکھو ہمارے چاک گریباں پہ خوش نہ ہو
یہ ہے جنوں اور اس کا نشانا بھی ہوتا ہے
آزادگاں کو خانہ خرابی کا کیا ملال
کیا موج گل کا کوئی ٹھکانا بھی ہوتا ہے
ہم اس جگہ میں خوش ہیں کہ ایسے خرابوں میں
سانپوں کے ساتھ ساتھ خزانا بھی ہوتا ہے
میں کیوں ڈروں کہ جان سے جاتا ہوں ایک بار
دشمن کو میرے لوٹ کے آنا بھی ہوتا ہے
اب آپ لوگ سود و زیاں سوچتے رہیں
بندہ تو چوتھی سمت روانہ بھی ہوتا ہے
عرفان صدیقی

رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 311
بے دلاں، کارِ نظر ختم کہاں ہوتا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
نیند سے پہلے بہت شور مچاتے ہیں خیال
شب کو ہنگامۂ سر ختم کہاں ہوتا ہے
چاہتا کون ہے مرنے کی اذیت سے نجات
زہر توُ ہے تو اثر ختم کہاں ہوتا ہے
اگلے موسم میں پھر آئیں گے نئے برگ و ثمر
اے ہوا بارِ شجر ختم کہاں ہوتا ہے
اپنی ہی آگ سے روشن ہوں میں اک ذرۂ خاک
دیکھئے رقصِ شرر ختم کہاں ہوتا ہے
بولتے بولتے ہوجاتے ہیں خاموش چراغ
سخنِ سایۂ در ختم کہاں ہوتا ہے
عرفان صدیقی

جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 310
ندی سے پھول نہ گنجِ گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے
لہو میں غرق ہمارے بدن کو سہل نہ جان
یہ آفتاب ہے اور ڈوب کر نکلتا ہے
جراحتیں مجھے کارِ رفو سکھاتی ہیں
مرا عدو ہی مرا چارہ گر نکلتا ہے
زمین پھر بھی کشادہ ہے بال و پر کے لیے
کہ آسمان تو حدِّ نظر نکلتا ہے
ذرا جو بند ہوں آنکھیں تو شب کے زنداں میں
عجیب سلسلۂ بام و در نکلتا ہے
عرفان صدیقی

تو اکیلا ہے کہ دُنیا سے جدا چلتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 309
کام اس شکوۂ تنہائی سے کیا چلتا ہے
تو اکیلا ہے کہ دُنیا سے جدا چلتا ہے
رنگ آسان ہیں پہچان لیے جاتے ہیں
دیکھنے سے کہیں خوشبو کا پتا چلتا ہے
لہر اُٹّھے کوئی دل میں تو کنارے لگ جائیں
یہ سمندر ہے یہاں حکمِ ہوا چلتا ہے
پاؤں میں خاک کی زنجیر پڑی ہے کب سے
ہم کہاں چلتے ہیں نقشِ کفِ پا چلتا ہے
شہر در شہر دواں ہے مری فریاد کی گونج
مجھ سے آگے مرا رہوارِ صدا چلتا ہے
اس خرابے میں بھی ہوجائے گی دُنیا آباد
ایک معمورہ پسِ سیلِ بلا چلتا ہے
عرفان صدیقی

نہ اس کی تیغ نہ میرا لہو پکارتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 308
سکوتِ خوف یہاں کو بہ کو پکارتا ہے
نہ اس کی تیغ نہ میرا لہو پکارتا ہے
میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں
کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے
وہ مجھ میں بولنے والا تو چپ ہے برسوں سے
یہ کون ہے جو ترے روبرو پکارتا ہے
ندائے کوہ بہت کھینچتی ہے اپنی طرف
مرے ہی لہجے میں وہ حیلہ جو پکارتا ہے
ہمارا عہد ہے بے برگ و بار شاخوں سے
اگرچہ قافلۂ رنگ و بو پکارتا ہے
کہ جیسے میں سرِ دریا گھرا ہوں نیزوں میں
کہ جیسے خیمۂ صحرا سے تو پکارتا ہے
عرفان صدیقی

یہ کشتگاں کا قبیلہ سمٹتا جاتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 307
دلوں سے درد کا احساس گھٹتا جاتا ہے
یہ کشتگاں کا قبیلہ سمٹتا جاتا ہے
کھلے پروں پہ فضا تنگ ہوتی جاتی ہے
اور آسمان زمینوں میں بٹتا جاتا ہے
ہزار قرب کے امکان بڑھتے جاتے ہیں
مگر وہ ہجر کا رشتہ جو کٹتا جاتا ہے
افق میں ڈوبتا جاتا ہے شامیانۂ زر
سوادِ شام بدن سے لپٹتا جاتا ہے
طلوع ہونے کو ہے پھر کوئی ستارۂ غیب
وہ دیکھ‘ پردۂ افلاک ہٹتا جاتا ہے
شہریار کے نام
عرفان صدیقی

مگر اُجالا مرے سوز جاں سے آتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 306
مرا چراغ تو جانے کہاں سے آتا ہے
مگر اُجالا مرے سوز جاں سے آتا ہے
نشانہ باز کوئی اور ہے عدو کوئی اور
کسی کا تیر کسی کی کماں سے آتا ہے
مجھے کمی نہیں رہتی کبھی محبت کی
یہ میرا رزق ہے اور آسماں سے آتا ہے
وہ دشت شب کا مسافر ہے اس کو کیا معلوم
یہ نور خیمہ گہہ رہزناں سے آتا ہے
عرفان صدیقی

ہم اپنے گیت گائیں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 305
زمیں پر شورِ محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے
ہم اپنے گیت گائیں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے
یہ ہم نے بھی سنا ہے عالمِ اسباب ہے دُنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتاہے
مسافر رات کو اس دشت میں بھی رک ہی جاتے ہیں
ہمارے دل میں بھی جشنِ طرب ہوتا ہی رہتا ہے
کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے
سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے
عرفان صدیقی

یہ کون شعبدہ گر ہے، یہ کیا تماشا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 304
جدھر بھی دیکھئے دل کی حریف دُنیا ہے
یہ کون شعبدہ گر ہے، یہ کیا تماشا ہے
ذرا بدن کسی موجِ رواں کو سونپ کے دیکھ
کنارِ آب مری جان سوچتا کیا ہے
تو کون ہیں یہ مرے ساتھ چلنے والے لوگ
وہ کہہ رہا تھا کہ ہر آدمی اکیلا ہے
رفاقتوں کو ذرا سوچنے کا موقع دو
کہ اس کے بعد گھنے جنگلوں کا رستہ ہے
خدا رکھے تری کھیتی ہری بھری، لیکن
تو اس پہ اتنا بھروسہ نہ کر، یہ دریا ہے
عرفان صدیقی

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادوں ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 303
غزل تو خیر ہر اہلِ سخن کا جادُو ہے
مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادوں ہے
کبھی شراب، کبھی انگبیں، کبھی زہراب
وصال کیا ہے کسی کے بدن کا جادُو ہے
وہ بستیوں میں یہ اَنداز بھول جائے گا
ہرن کی شوخئ رَفتار بن کا جادُو ہے
بجھیں چراغ تو اس رنگِ رُخ کا راز کھلے
یہ روشنی تو تری اَنجمن کا جادُو ہے
سبک نہ تھا ترا بازوئے تیغ زَن اتنا
ترے ہنر میں مرے بانکپن کا جادُو ہے
مرے خیال میں خوُشبو کے پنکھ کھلنے لگے
ہوائے دَشت کسی خیمہ زَن کا جادُو ہے
عرفان صدیقی

اس کے آگے کچھ بھی نہیں ہے سارا منظر خالی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 302
دل کی زمیں تک روشنیاں ہیں، پانی ہے، ہریالی ہے
اس کے آگے کچھ بھی نہیں ہے سارا منظر خالی ہے
اگلے تو یہ بام و در و محراب بناکر چھوڑ گئے
میرا مقدر گرتی ہوئی دیواروں کی رکھوالی ہے
قیس گیا فرہاد گیا اب جو چاہو اعلان کرو
یارو کس نے جنگل دیکھا، کس نے نہر نکالی ہے
عرفان صدیقی

جو بھی قاتل ہے ہماری ہی طرح بسمل ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 301
کس کو دیں قتل کا اِلزام بڑی مشکل ہے
جو بھی قاتل ہے ہماری ہی طرح بسمل ہے
تیز دَھاروں نے حدیں توڑ کے رکھ دِیں ساری
اَب یہ عالم کہ جو دَریا ہے، وہی ساحل ہے
جو اَکیلے میں جلوسوں کا اُڑاتا ہے مذاق
وہ بھی اِس بھیڑ میں اوروں کی طرح شامل ہے
اِتنی اُمید نہ آتے ہوئے برسوں سے لگاؤ
حال بھی تو کسی ماضی ہی کا مستقبل ہے
شوق دونوں کو ہے ملنے کا، مگر رَستے میں
ایک پندار کی دیوارِ گراں حائل ہے
زہرۂ فکر کم آمیز بہت ہے، عرفانؔ
کم سے کم اُس کا تعارف تو تمہیں حاصل ہے
عرفان صدیقی

ہر اک اُس سرکار کا چاکر، اُس در کا درباری ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 300
جو بھی سورج، چاند، ستارہ، خوشبو، بادِ بہاری ہے
ہر اک اُس سرکار کا چاکر، اُس در کا درباری ہے
لوگو، تم اس منظر شب کو کاہکشاں بتلاتے ہو
یہ تو اُنؐ کی خاک گزر ہے، اُنؐ کی گردِ سواری ہے
سر پر بوجھ گناہوں کا اور دل میں آس شفاعت کی
آگے رحمت اُنؐ کی ویسے مجرم تو اقراری ہے
اُنؐ کے کرم کے صدقے سب کے بند گراں کھل جاتے ہیں
داد طلب کہیں چڑیاں ہیں، کہیں آہوئے تاتاری ہے
عالم عالم دھوم مچی ہے اُنؐ کے لطف و عنایت کی
بستی بستی، صحرا صحرا فیض کا دریا جاری ہے
بزم وفا صدیقؓ و عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ سے روشن ہے
چار ستارے، چاروں پیارے، چار کی آئینہ داری ہے
اُنؐ کی ذات پاک سے ٹھہرا اُن کا سارا گھرانہ پاک
جس کے لیے تطہیر کی چادر اُنؐ کے رب نے اُتاری ہے
عرفان صدیقی

جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 299
کوئی میرے دل حیراں کا سراپا دیکھے
جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے
باندھ کر جانے کہاں لے گئی قسمت کی کمند
وہ چلا تھا کہ ذرا وسعت صحرا دیکھے
یہ تو اک بھولا ہوا چہرہ ہے، جب یاد آجائے
شام دیکھے نہ یہ مہتاب سویرا دیکھے
میں اب ان چھوٹی سی خوشیوں کے سوا کیا چاہوں
پیاس بوندوں سے نہ بجھ پائے تو دریا دیکھے
عرفان صدیقی

میاں کا صدقہِ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 298
فقیر ہوں دلِ تکیہ نشیں ملا ہے مجھے
میاں کا صدقہِ تاج و نگیں ملا ہے مجھے
زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا آب و نمک
عجب تبرکِ نان جویں ملا ہے مجھے
میں بوریا بھی اسی خاک پر کیا تھا بساط
سو یہ خریطۂ زر بھی یہیں ملا ہے مجھے
چراغِ گنبد و محراب بجھ گئے ہیں تمام
تو اک ستارۂ داغِ جبیں ملا ہے مجھے
یہ سر کہاں وہ کلاہِ چہار ترک کہاں
ابھی اجازۂ بیعت نہیں ملا ہے مجھے
عرفان صدیقی

یہ جو تونے سر دیوار جلایا ہے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 297
کیا کسی جشن کا عنوان بنایا ہے مجھے
یہ جو تونے سر دیوار جلایا ہے مجھے
میں تنک سایہ ہوں پھر بھی کوئی مصرف ہو گا
اُس نے کچھ سوچ کے صحرا میں اُگایا ہے مجھے
میں وہ دولت ہوں جو مل جائے ضرورت کے بغیر
جس نے پایا ہے مجھے اس نے گنوایا ہے مجھے
مدتوں بعد ہوا لائی ہے پیغام اُس کا
راستہ بھول چکا ہوں تو بلایا ہے مجھے
جس سمندر نے ڈبویا تھا سفینہ میرا
اس کی ہی موج نے ساحل سے لگایا ہے مجھے
پھر ملا دے اسی مٹی میں یہ حق ہے اس کو
اُس نے آکر اِسی مٹی سے اُٹھایا ہے مجھے
عرفان صدیقی

دیکھیے اب کے وہ کیا چیز بناتا ہے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 296
کوزہ گر پھر اسی مٹی میں ملاتا ہے مجھے
دیکھیے اب کے وہ کیا چیز بناتا ہے مجھے
میں تو اس دشت میں خود آیا تھا کرنے کو شکار
کون یہ زین سے باندھے لیے جاتا ہے مجھے
خاک پر جب بھی کوئی تیر گرا دیتا ہے
دستِ دلدار کوئی بڑھ کے اٹھاتا ہے مجھے
ساعتے چند کروں مشقِ گراں جانی بھی
جاں سپاری کا ہنر تو بہت آتا ہے مجھے
دولتِ سر ہوں‘ سو ہر جیتنے والا لشکر
طشت میں رکھتا ہے‘ نیزے پہ سجاتا ہے مجھے
عرفان صدیقی

تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 295
میں تو اِک بادل کا ٹکڑا ہوں، اُڑالے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے
خوُد ہی نیلے پانیوں میں پھر بلالے گا کوئی
ساحلوں کی ریت تک اَے نقشِ پا لے چل مجھے
تجھ کو اِس سے کیا میں اَمرت ہوں کہ اِک پانی کی بوُند
چارہ گر، سوکھی زبانوں تک ذرا لے چل مجھے
کب تک اِن سڑکوں پہ بھٹکوں گا بگولوں کی طرح
میں بھی کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں صبا لے چل مجھے
اَجنبی رَستوں میں آخر دُھول ہی دیتی ہے ساتھ
جانے والے اَپنے دامن سے لگا لے چل مجھے
بند ہیں اس شہرِ ناپرساں کے دروازے تمام
اَب مرے گھر اَے مری ماں کی دُعا لے چل مجھے
عرفان صدیقی

اے چشمِ اعتبار پریشاں نہ کر مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 294
جب وہم ہے وہ شکل تو حیراں نہ کر مجھے
اے چشمِ اعتبار پریشاں نہ کر مجھے
اس روشنی میں تیرا بھی پیکر نظر نہ آئے
اچھا یہ بات ہے تو فروزاں نہ کر مجھے
آئینہ سکوت نہ رکھ سب کے روبرو
میں دل پہ نقش ہوں تو نمایاں نہ کر مجھے
یوسف نہیں ہوں مصر کے بازار میں نہ بیچ
میں تیرا انتخاب ہوں ارزاں نہ کر مجھے
کون ایسی بستیوں سے گزرتا ہے روز روز
میرے کرشمہ ساز‘ بیاباں نہ کر مجھے
میں برگ ریزِ ہجر میں زندہ نہ رہ سکوں
اتنا امیدوارِ بہاراں نہ کر مجھے
عرفان صدیقی

پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 293
ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے
تجھ کو اک جادو دکھانا پیچ و تابِ خاک کا
اک تماشا اے ہوائے رہ گزر کرنا مجھے
دھیرے دھیرے ختم ہونا سر کا سودا، دل کا درد
رفتہ رفتہ ہر صدف کو بے گہر کرنا مجھے
اپنے چاروں سمت دیواریں اُٹھانا رات دِن
رات دِن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
اِک خرابہ دِل میں ہے، اِک آب جوُ آنکھوں میں ہے
میں تمہیں لینے کہاں آؤں خبر کرنا مجھے
عرفان صدیقی

پھر اک کرن اسی کوچے میں لے کے جائے مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 292
پھر ایک جھونکا وہاں سے لگا کے لائے مجھے
پھر اک کرن اسی کوچے میں لے کے جائے مجھے
صدا کی لہر کسی اور شہر تک لے جائے
کچھ اور بات ہو کچھ اور یاد آئے مجھے
اسی کا خانۂ ویراں، اسی کا طاقِ ابد
میں اک چراغ ہوں چاہے جہاں جلائے مجھے
یہ اس کا دل ہے کہ گم گشتگاں کی بستی ہے
کہاں چھپا ہوں کہ وہ بھی نہ ڈھونڈ پائے مجھے
اب اس کے آگے تو گرداب ہے خموشی کا
میں لفظ بھول رہا ہوں کوئی بچائے مجھے
عرفان صدیقی

میں سر سے پا تک شمع جاں کس نے کیا روشن مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 291
کن قتل گاہوں سے ملا گل رنگ پیراہن مجھے
میں سر سے پا تک شمع جاں کس نے کیا روشن مجھے
اس خاک تن کو چاک پر کس نے نیا پیکر دیا
ان گردشوں کی آگ میں کس نے کیا کندن مجھے
کس نے کیا مسند نشیں اس بوریائے عشق پر
کس نے دیا احساس کا یہ راج سنگھاسن مجھے
میرے تصور سے سوا ان کی عطا، اُن کی سخا
اتنے خزانے مل گئے چھوٹا لگا دامن مجھے
وہ سرور و رہبر بھی ہیں، وہ یاور و دلبر بھی ہیں
میں کیوں نہ اُن پر وار دوں حاصل ہیں جان و تن مجھے
عرفان صدیقی

مسافتوں کی ہوائے سحر سلام تجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 290
ہوئی ہے شاخ نوا تازہ تر، سلام تجھے
مسافتوں کی ہوائے سحر سلام تجھے
شعاع نور نہیں ہے حصار کی پابند
سو اے چراغ مکان دگر سلام تجھے
کھلا کہ میں ہی مراد کلام ہوں اب تک
اشارۂ سخن مختصر سلام تجھے
یہ فاصلوں کے کڑے کوس مملکت میری
مرے غبار، مرے تاج سر سلام تجھے
ندی کی تہہ میں اُترنا تجھی سے سیکھا ہے
خزینۂ صدف بے گہر سلام تجھے
فضا میں زندہ ہے پچھلی اُڑان کی آواز
مری شکستگئ بال و پر سلام تجھے
عرفان صدیقی

کہ زندہ جہاں لوگ مرنے کو تھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 289
طلسمات تھا شہ سواروں کا شہر
کہ زندہ جہاں لوگ مرنے کو تھے
کرامت کوئی ہونے والی تھی رات
فقیر اس گلی سے گزرنے کو تھے
ادھر تیر چلنے کو تھے بے قرار
ادھر سارے مشکیزے بھرنے کو تھے
ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج
فرشتوں کے لشکر اترنے کو تھے
سمندر ادا فہم تھا‘ رک گیا
کہ ہم پاؤں پانی پہ دھرنے کو تھے
اگر ان کی بولی سمجھتا کوئی
تو دیوار و در بات کرنے کو تھے
ہوا نے ٹھکانے لگایا ہمیں
ہم اک چیخ تھے اور بکھرنے کو تھے
عرفان صدیقی

اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 288
نہ موج خوں پہ، نہ تیغِ جفا پہ لکھیں گے
اب اک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے
ترا ہی ذکر کریں گے لبِ سکوت سے ہم
ترا ہی نام بیاضِ صدا پہ لکھیں گے
عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں
تری جبینِ ستارہ نما پہ لکھیں گے
سفینہ ڈوب چکے گا تو روئدادِ سفر
کسی جزیرۂ بے آشنا پہ لکھیں گے
بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا
جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے
عرفان صدیقی

ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 287
سر ہونے دو یہ کارِ جہاں عیش کریں گے
ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے
کچھ عرض کریں گے تب و تابِ خس و خاشاک
آجا‘ کہ ذرا برقِ بتاں عیش کریں گے
اب دل میں شرر کوئی طلب کا‘ نہ ہوس کا
اس خاک پہ کیا خوش بدناں عیش کریں گے
کچھ دور تو بہتے چلے جائیں گے بھنور تک
کچھ دیر سرِ آبِ رواں عیش کریں گے
اس آس پہ سچائی کے دن کاٹ رہے ہیں
آتی ہے شبِ وہم و گماں عیش کریں گے
عرفان صدیقی

نگاہوں سے جو چپکے ہیں وہ منظر کیسے پھینکو گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 286
ہر اِک تصوِیر کو کھڑکی سے باہر کیسے پھینکو گے
نگاہوں سے جو چپکے ہیں وہ منظر کیسے پھینکو گے
جھٹک کر پھینک دو گے چند اَن چاہے خیالوں کو
مگر کاندھوں پہ یہ رکھا ہوا سَر کیسے پھینکو گے
اگر اِتنا ڈروگے اَپنے سر پر چوٹ لگنے سے
تو پھر تم آم کے پیڑوں پہ پتھر کیسے پھینکو گے
خیالوں کو بیاں کے دائروں میں لاؤ گے کیوں کر
کمندیں بھاگتی پرچھائیوں پر کیسے پھینکو گے
کبھی سچائیوں کی دُھوپ میں بیٹھے نہیں اَب تک
تم اَپنے سر سے یہ خوابوں کی چادر کیسے پھینکو گے
تو پھر کیوں اُس کو آنکھوں میں سجا کر رکھ نہیں لیتے
تم اِس بیکار دُنیا کو اُٹھاکر کیسے پھینکو گے
عرفان صدیقی

وہ ہم سے کہہ رہا ہے کیا مجھے بیمار کردیں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 285
سو ہم نذرِ فراموشی یہ سب اشعار کردیں گے
وہ ہم سے کہہ رہا ہے کیا مجھے بیمار کردیں گے
وہی سچ ہے جو آنکھوں سے ہویدا ہوتا رہتا ہے
اگر ہونٹوں سے پوچھو گے تو وہ انکار کردیں گے
بدن کی ریت پر اب تک اسی وعدے کا سایہ ہے
اب آئیں گے تو تیرے دشت کو گلزار کردیں گے
بتانِ شہر سے یہ دل تو زندہ ہو نہیں سکتا
بہت ہو گا تو میری خواہشیں بیدار کر دیں گے
قیامت استعارہ ہے اشارہ میرے قاتل کا
کہ ہم ابرو ہی کیا سارا بدن تلوار کردیں گے
انہیں دیوارِ جاں ہی سے الجھنے دو کہ وحشی ہیں
اگر چھیڑا تو دیوارِ جہاں مسمار کردیں گے
کسی کو شہر میں سیلِ بلا کی زد پہ آنا ہے
چلو یہ کام بھی میرے در و دیوار کردیں گے
عرفان صدیقی

چین ملتا ہے تو یاد آتے ہیں غم دِلّی کے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 284
کتنے دِلدار تھے اَربابِ ستم دِلّی کے
چین ملتا ہے تو یاد آتے ہیں غم دِلّی کے
کتنی بھولی ہوئی یادوں نے سنبھالا دِل کو
جیسے پردیس میں ہوں دوست بہم دِلّی کے
جانے کیوں کوئی سندیسہ نہیں لاتی پچھوا
کیا ہمیں بھول گئے اہلِ کرم دلّی کے
چاہے جس شہر میں رہ آئیں، مگر رہتے ہیں
زندگی دِلّی کی، دِل دِلّی کا، ہم دِلّی کے
یوُں تو بُت خانہ ہے یہ شہر بھی لیکن عرفانؔ
آج تک پھرتے ہیں آنکھوں میں صنم دِلّی کے
عرفان صدیقی

دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 283
رائیگاں ہو گئے لمحے ترے پاس آنے کے
دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے
آنکھ سورج کی کرن دیکھ کے ڈرنے والی
خواب پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں سستانے کے
دل ہو یا آنکھ بس اک رات کا ڈیرا اپنا
ہم تو بنجارے، نہ بستی کے، نہ ویرانے کے
لوٹ کر آئے تو سنسان لگا شہر تمام
اب کبھی اس کو سفر پر نہیں پہنچانے کے
عرفان صدیقی

نیند آنکھوں سے اُڑی کھول کے شہپر اپنے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 282
رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے
نیند آنکھوں سے اُڑی کھول کے شہپر اپنے
تم سرِ دشت و چمن مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو
میں تو ہر رت میں بدل دیتا ہوں پیکر اپنے
یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر
رکھ دیے دل میں مرے سات سمندر اپنے
روز وہ شخص صدا دے کے پلٹ جاتا ہے
میں بھی رہتا ہوں بہت جسم سے باہر اپنے
کس قدر پاسِ مروت ہے وفاداروں کو
میرے سینے میں چھپا رکھے ہیں خنجر اپنے
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے
عرفان صدیقی

راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 281
شہر میں گلبدناں، سیم تناں تھے کتنے
راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے
خوُب ہے سلسلۂ شوق، مگر یاد کرو
دوستو! ہم بھی تو شیدائے بتاں تھے کتنے
کچھ نہ سمجھے کہ خموشی مری کیا کہتی ہے
لوگ دلدادۂ الفاظ و بیاں تھے کتنے
تو نے جب آنکھ جھکائی تو یہ محسوس ہوا
دیر سے ہم تری جانب نگراں تھے کتنے
اَب تری گرمئ گفتار سے یاد آتا ہے
ہم نفس! ہم بھی کبھی شعلہ زَباں تھے کتنے
وقت کے ہاتھ میں دیکھا تو کوئی تِیر نہ تھا
رُوح کے جسم پہ زَخموں کے نشاں تھے کتنے
کسی تعبیر نے کھڑکی سے نہ جھانکا، عرفانؔ
شوق کی راہ میں خوابوں کے مکاں تھے کتنے
عرفان صدیقی

کیسا جشن منایا ہم نے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 280
جام تہی لہرایا ہم نے
کیسا جشن منایا ہم نے
رات ہوا کے ساتھ نکل کر
حلقۂ در کھڑکایا ہم نے
چپ گلیوں میں دیں آوازیں
شہر میں شور مچایا ہم نے
خاک تھے لیکن لہر میں آکر
رقصِ جنوں فرمایا ہم نے
دیکھیں کب ہوں عشق میں کندن
راکھ تو کردی کایا ہم نے
عمرِ شرر بیکار نہ گزری
پل بھر تو چمکایا ہم نے
سب کو نشانہ کرتے کرتے
خود کو مار گرایا ہم نے
تم سے ملے تو خود سے زیادہ
تم کو اکیلا پایا ہم نے
اپنے سر کی آن پہ واری
پاؤں سے لپٹی مایا ہم نے
اے شبِ ہجراں، اب تو اجازت
اتنا ساتھ نبھایا ہم نے
عرفان صدیقی

میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 279
تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے
میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے
گر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے
وہ یہاں ایک نئے گھر کی بنا ڈالے گا
خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
دوسرا چہرہ اس آئینے میں دکھلائی نہ دے
دل کو اپنے لیے تیار کیا ہے اس نے
حرف میں جاگتی جاتی ہے مرے دل کی مراد
دھیرے دھیرے مجھے بیدار کیا ہے اس نے
میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا
کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے
میں بہر حال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں
یوں تو آزاد کئی بار کیا ہے اس نے
اب سحر تک تو جلوں گا کوئی آئے کہ نہ آئے
مجھ کو روشن سرِ دیوار کیا ہے اس نے
عرفان صدیقی

انگلیاں ہونٹوں پہ رکھی ہیں زباں کیسے کھلے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 278
پوچھنے والو، مرا راز نہاں کیسے کھلے
انگلیاں ہونٹوں پہ رکھی ہیں زباں کیسے کھلے
ایک بار اور مرے سینے پر رکھ پھول سا ہاتھ
ایک دستک پہ یہ دروازۂ جاں کیسے کھلے
کوئی یاد آئے تو یہ دل کے دریچے وا ہوں
آنے والا ہی نہیں کوئی، مکاں کیسے کھلے
عرفان صدیقی

کہ لکھ دیں گے سب ماجرا لکھنے والے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 277
چھپانے سے کیا فائدہ لکھنے والے
کہ لکھ دیں گے سب ماجرا لکھنے والے
بہت بے اماں پھر رہے ہیں مسافر
کہاں ہیں خطوں میں دُعا لکھنے والے
ہمیں سرکشی کا سلیقہ عطا کر
مقدر میں تیغِ جفا لکھنے والے
مجھے کوئی جاگیرِ وحشت بھی دینا!
مرے نام زنجیر پا لکھنے والے
زمیں پر بھی سبزے کی تحریر لکھ دے
سمندر پہ کالی گھٹا لکھنے والے
سلامت رہیں بے ہوا بستیوں میں
پرندے، پیامِ ہوا لکھنے والے
عرفان صدیقی

وہی چہرے تھے مرے دیدہ حیراں والے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 276
رات پھر جمع ہوئے شہر گریزاں والے
وہی چہرے تھے مرے دیدہ حیراں والے
سارے آشفتہ سراں اُن کے تعاقب میں رواں
وحشتیں کرتے ہوئے چشم غزالاں والے
چاند تاروں کی رداؤں میں چھپائے ہوئے جسم
اور انداز وہی خنجر عریاں والے
پاسداروں کا سرا پردۂ دولت پہ ہجوم
سلسلے چھت کی فصیلوں پہ چراغاں والے
نارسائی پہ بھی وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم
شہر بلقیس میں ہیں ملک سلیماں والے
پھر کچھ اس طرح پڑے حلقہ زنجیر میں پاؤں
سب جنوں بھول گئے دشت و بیاباں والے
میں بھی اک شام ملاقات کا مارا ہوا ہوں
مجھ سے کیا پوچھتے ہیں وادئ ہجراں والے
اَب اُنہیں ڈُھونڈ رہا ہوں جو صدا دیتے تھے
’’اِدھر آبے ابے او چاک گریباں والے‘‘
عرفان صدیقی

دُنیا نے جو پھینکا ہے وہ دستانہ اٹھا لے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 275
ہاں اے دلِ دیوانہ حریفانہ اٹھا لے
دُنیا نے جو پھینکا ہے وہ دستانہ اٹھا لے
خاک اڑتی ہے سینے میں بہت رقص نہ فرما
صحرا سے مری جان پری خانہ اٹھا لے
تم کیا شررِ عشق لیے پھرتے ہو صاحب
اس سے تو زیادہ پرِ پروانہ اٹھا لے
یار اتنے سے گھر کے لیے یہ خانہ بدوشی
سر پر ہی اٹھانا ہے تو دُنیا نہ اٹھا لے
پھر بار فقیروں کا اٹھانا مرے داتا
پہلے تو یہ کشکولِ فقیرانہ اٹھا لے
جو رنج میں اس دل پہ اٹھایا ہوں اسے چھوڑ
تو صرف مرا نعرۂ مستانہ اٹھا لے
آسان ہو جینے سے اگر جی کا اٹھانا
ہر شخص ترا عشوۂ ترکانہ اٹھا لے
لو صبح ہوئی موجِ سحر خیز ادھر آئے
اور آکے چراغِ شبِ افسانہ اٹھا لے
ہم لفظ سے مضمون اٹھا لاتے ہیں جیسے
مٹی سے کوئی گوہرِ یک دانہ اٹھا لے
عرفان صدیقی

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 274
شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے
چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد
آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے
حوصلے دیتا ہے یہ ابرِ گریزاں کیا کیا
زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے
سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہو گا
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے
دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا
اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے
اب جو چمکا ہے یہ خنجر تو خیال آتا ہے
تجھ کو دیکھا ہو کبھی نہر کنارے جیسے
اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے
عرفان صدیقی

میں جل رہا ہوں اسی روشنی میں پہلے سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 273
چمک ہے عشق کی تیرہ شبی میں پہلے سے
میں جل رہا ہوں اسی روشنی میں پہلے سے
چلی تھی خاک بھی میری وہیں بکھرنے کو
ہوا نے رقص کیا اس گلی میں پہلے سے
کوئی بھی حلقۂ زنجیر ہو اسیر ہوں میں
ترے ہی سلسلۂ دلبری میں پہلے سے
ترے وصال سے کچھ کم نہیں اُمیدِ وصال
سو ہم ہلاک ہوئے ہیں خوشی میں پہلے سے
ڈبو دیا مجھے میرے لہو نے آخرِ کار
بھنور تو سوئے ہوئے تھے ندی میں پہلے سے
کھلا کہ تیرا ہی پیکر مثالِ صورتِ سنگ
چھپا ہوا تھا مری شاعری میں پہلے سے
عرفان صدیقی

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 272
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
پیکر سادہ ہے اور دل سے وہ کرتا ہے سلوک
جو کبھی حسنِ دو عالم نہیں کرتا ہم سے
خود ہی شاداب ہے وہ لالۂ صحرا ایسا
خواہشِ قطرۂ شبنم نہیں کرتا ہم سے
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
صبر اے عشق‘ وہ خواہاں ہے شکیبائی کا
طلبِ دیدۂ پر نم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی

پوچھئے دور کی آواز کا جادو ہم سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 271
ہم سخن ہوتا ہے صحرا کا وہ آہو ہم سے
پوچھئے دور کی آواز کا جادو ہم سے
لیے پھرتی تھی کسی شہرِ فراموشی میں
رات پھر کھیل رہی تھی تری خوشبو ہم سے
اپنے لفظوں سے اسے ہم نے سنبھلنے نہ دیا
ہو گئے دل میں کئی تیر ترازو ہم سے
کیا جھلکتاہے یہ جاناں تری خاموشی میں
حرفِ اقرار تو کہتا بھی نہیں توُ ہم سے
ہم کبھی دھیان سے اس کے نہ اترنے پائیں
دائم آباد رہے حسن کا پہلو ہم سے
عرفان صدیقی

برس رہا ہے کہاں اَبر بے خبر میرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 270
جھلس رہے ہیں کڑی دُھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں اَبر بے خبر میرے
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پر میرے
اَب اِس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے
خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو
کہ اُس کے قد سے تو اُونچے ہیں بام و در میرے
بہت ہے آئینے جن قیمتوں پہ بک جائیں
یہ پتھروں کا زمانہ ہے، شیشہ گر میرے
حریفِ تیغِ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے
اَب اور مجھ سے توُ کیا چاہتا ہے سر میرے
عرفان صدیقی

جاتی رت، ہوئیں گے کب پیڑ گھنیرے میرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 269
بور میرے، نہ پرندوں کے بسیرے میرے
جاتی رت، ہوئیں گے کب پیڑ گھنیرے میرے
اور اے نہر ترا رنگ بدل جائے گا
اور اس دشت سے اُٹھ جائیں گے ڈیرے میرے
جسم کا بوجھ بھی آواز کی لہکار کے ساتھ
اک ذرا بین کو جنبش دے سپیرے میرے
ہیں سبھی بکھرے ہوئے خواب مری آنکھوں میں
دے گئے مجھ کو مرا مال لٹیرے میرے
عرفان صدیقی

روشنی لکھتی ہے اسمائے گرامی تیرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 268
سب لقب پاک ہیں سب نام ہیں نامی تیرے
روشنی لکھتی ہے اسمائے گرامی تیرے
حرف حق تیرے حوالے سے اجالے کا سراغ
لفظ پائندہ ترے‘ نقش دوامی تیرے
اذن معبود کا مقصود بھی نصرت تیری
مصحف نور کے آیات بھی حامی تیرے
سب ستارہ نظراں‘ خوش ہنراں‘ چارہ گراں
پیک تیرے‘ سفری تیرے‘ پیامی تیرے
بے اماں قریوں پہ دائم تیری رحمت کا نزول
حبشی تیرے‘ حجازی ترے‘ شامی تیرے
تو غزالوں کو کمندوں سے بچانے والا
سارے سلطان غلامانِ قیامی تیرے
کشت سرسبز ترے فیض کی ہریالی سے
دشت میں نخلِ نمودار تمامی تیرے
میرے الفاظ فقط عجز بیاں کا اقرار
کعب و حسان ترے، سعدی و جامی تیرے
نوریاں مدح سرا خاک نہادوں کی مثال
کہیں محسن‘ کہیں جبریل سلامی تیرے
سب تری مملکت جود و کرم میں آباد
حکم نافذ مرے قوسین مقامی تیرے
عرفان صدیقی

اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 267
کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے
اے اندھیری بستیو! تم کو خدا روشن کرے
ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب
اور ماتھے پر کوئی حرفِ دُعا روشن کرے
زرد چہروں پر بھی چمکے‘ سرخ جذبوں کی دھنک
سانولے ہاتھوں کو بھی رنگِ حنا روشن کرے
ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے
خیر‘ اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ
تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے
آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے
دل ہی فانوسِ وفا‘ دل ہی خس و خارِ ہوس
دیکھنا یہ ہے کہ اس کا قرب کیا روشن کرے
یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا
یا مرا ہی لفظ میرا راستہ روشن کرے
عرفان صدیقی

دل سے ہمیں فرزانہ جانے دیوانہ مشہور کرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 266
ہم نے اسے محبوب کیا یہ سوچ کے جی میں غرور کرے
دل سے ہمیں فرزانہ جانے دیوانہ مشہور کرے
اس کا نام ہی انتم سر ہے مری صدا کے سرگم کا
اس کے آگے سناٹا ہے کوئی اگر مجبور کرے
حرف میں اپنے جانِ سخن نے دونوں مطلب رکھے ہیں
جب چاہے افسردہ کردے‘ جب چاہے مسرور کرے
کیا کیا طور اسے آتے ہیں دل کو شکیبا رکھنے کے
لغزش پہ ناراض نہ ہو اور خواہش نا منظور کرے
شب کو جو محوِ خوابِ گراں ہو گل ہوں ستارہ چاند چراغ
صبح کو جب وہ جامہ چساں ہو جگ میں نور ظہور کرے
ہم کو تو دلبر خوب ملا خیر اپنی اپنی قسمت ہے
پھر بھی جو کوئی رنج اُٹھانا چاہے عشق ضرور کرے
عرفان صدیقی

دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 265
کشتی تو اپنی خود ہی جلا دی، بستی ہماری دریا کنارے
دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے
برفیلی رُت نے جب بھی تمہاری مٹّی کا دانہ پانی چرایا
دیکھو پرندو‘ رب نے تمہاری روزی اتاری دریا کنارے
تم بھی مسافر کتنے دلاور‘ ہم بھی مسافر کیسے شناور
آندھی کے پیچھے جنگل سے ناتا‘ دریا سے یاری دریا کنارے
ریتی کے پیلے دامن پہ ہم بھی رنگِ حنا سے بکھرے پڑے ہیں
موجِ بہاراں‘ آئے گی کب تک تیری سواری دریا کنارے
تمثیل سمجھو یا استعارہ اتنا سا لوگو، قصہ ہمارا
آنکھوں میں اپنی پھولوں سے چہرے، چہروں کی کیاری دریا کنارے
عرفان صدیقی

کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 264
در و دیوار میں کچھ تازہ ہوا حل کردے
کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے
پس نظارہ نکلتا ہے تماشا کیا کیا
آنکھ وہ شے ہے کہ انسان کو پاگل کردے
میں وہ طائر ہوں کہ ہے تیر کی زد سے باہر
اب یہ ضد چھوڑ مجھے آنکھ سے اوجھل کردے
ہے کوئی شخص مرے دشتِ زیاں کا سفری
ہے کوئی شخص جو اس دھوپ کو بادل کردے
ایک رنگ آج بھی تصویرِ ہنر میں کم ہے
موجِ خوں آ‘ مرا دیوان مکمل کردے
عرفان صدیقی

آتے موسم کا پتا سوکھی ہوئی ڈالی دے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 263
کس کو دھوکا یہ ہوا بیتی رُتوں والی دے
آتے موسم کا پتا سوکھی ہوئی ڈالی دے
اَے خدا! سبزۂ صحرا کو بھی تنہا مت رکھ
اِس کو شبنم نہیں دیتا ہے تو پامالی دے
ہر برس صرف سمندر ہی پہ موتی نہ لٹا
ابرِ نیساں مرے کھیتوں کو بھی ہریالی دے
جب کبھی شام کو توُ دستِ دُعا پھیلائے
آسماں کو ترے ہاتھوں کی حنا لالی دے
چپ ہوا میں تو بس اقرارِ خطا ہی سمجھو
کیا بیاں اِس کے سوا مجرمِ اِقبالی دے
ویسے آنکھیں تو گنہگار بہت ہیں عرفانؔ
آگے جو کچھ مرے جذبوں کی خوش اعمالی دے
عرفان صدیقی

کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 262
روشنیوں کے مالک اب ہم کو رستے کا اشارا دے
کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے
جانے کب سے جلنے والے، ڈوبنے والے، سوچتے ہیں
شاید کوئی آگ میں کیاری، پانی میں گلیارا دے
سوکھے ہوئے دریا کے کنارے، پیڑ کھڑے ہیں دِھیر دَھرے
بادل چادر سایہ کرے، یا لہر کوئی چمکارا دے
اُجلی لڑکی دُنیا میں بڑی کالک ہے، پر ایسا ہو
مانگ میں تیری جگنو چمکیں‘ لونگ تری لشکارا دے
رُکنا ہو یا چلنا ہو، کوئی فکر نہیں بنجارے کو
بنجارن نئے چھپر چھائے، کوچ میں پوت سہارا دے
عرفان صدیقی

اب عشق تو اس بے ہنری کو نہیں کہتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 261
اُس شمع سے ہم شب بسری کو نہیں کہتے
اب عشق تو اس بے ہنری کو نہیں کہتے
اک عرض ہے یہ پیرہن ناز سیامت
وحشی سے کبھی بخیہ گری کو نہیں کہتے
تو موج گریزاں ہے تو کچھ دُور تک آجا
ہم دیر تلک ہمسفری کو نہیں کہتے
عرفان صدیقی

مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 260
خوشبو کی طرح گرم سفر ہم نہیں ہوتے
مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے
پل بھر کا تماشا ہے سو دیکھو ہمیں اس بار
ایک آئنے میں بار دگر ہم نہیں ہوتے
کیا ابر گریزاں سے شکایت ہو کہ دل میں
صحرا ہی کچھ ایسا ہے کہ تر ہم نہیں ہوتے
لے جاؤ تم اپنی مہ و انجم کی سواری
ہر شخص کے ہمراہ سفر ہم نہیں ہوتے
مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے
جس سمت وہ ہوتا ہے اُدھر ہم نہیں ہوتے
عرفان صدیقی

وہ لوگ ادا اجر رسالت نہیں کرتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 259
جو معرکۂ صبر میں نصرت نہیں کرتے
وہ لوگ ادا اجر رسالت نہیں کرتے
ہوتی ہے یہی مصحف ناطق کی نشانی
نیزے پہ بھی سر بولے تو حیرت نہیں کرتے
جب تشنہ دہاں خود نہ دیں اس کی اجازت
دریا بھی قریب آنے کی ہمت نہیں کرتے
پھولوں سے بہت ڈرتے تھے باطل کے گنہگار
کیوں تیر چلا دینے میں عجلت نہیں کرتے
وہ ہاتھ کٹا دیتے ہیں سر دینے سے پہلے
مظلوم کبھی ظلم کی بیعت نہیں کرتے
کوثر پہ نہ کیوں حق ہو کہ دنیا میں بھی ہم لوگ
گریہ نہیں کرتے ہیں کہ مدحت نہیں کرتے
اس وقت سے ظالم کے مقابل ہیں سو اب تک
بیعت ہے بڑی چیز، اطاعت نہیں کرتے
یہ اشک عزا اور یہ دنیا کے خزانے
ہم اپنے چراغوں کی تجارت نہیں کرتے
اس آئینہ خانے کی طرف دیکھتے ہیں ہم
پھر کوئی زیارت کسی صورت نہیں کرتے
جز حرف دلا کچھ بھی عبارت نہیں کرتے
ہم اور سخن کوئی سماعت نہیں کرتے
جس طرح چلے سبط نبی شہر نبی سے
اس طرح تو مہماں کو بھی رُخصت نہیں کرتے
اک درد کو کرتے ہیں جہاں گیر جہاں تاب
ہم صرف وہ تاریخ روایت نہیں کرتے
وہ شمع بجھی اور یہ حقیقت ہوئی روشن
ارباب وفا ترک رفاقت نہیں کرتے
عرفان صدیقی

درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 258
کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
تھکے ہوئے کسی لمبے سفر سے لوٹے ہیں
ہوائے تازہ ابھی ہم کہیں نہیں جاتے
بہت یقیں ترے دستِ رفو پہ ہے لیکن
میں کیا کروں مرے زخمِ یقیں نہیں جاتے
یہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
اُدھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے
میں تم سے ملنے کو اس شہرِ شب سے آتا ہوں
جہاں تم ایسے ستارہ جبیں نہیں جاتے
یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اترے ہیں
کہ ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے
عرفان صدیقی