زمرہ جات کے محفوظات: الطاف حسین حالی
اک یہ لپکا دیکھئے کب جائے گا
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
ناصح قوم اس پہ کہلاتے ہیں آپ
بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کو باغ باغ
نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ گھر کی صورت
کاٹنا ہے شب تنہائی کا
دل کو یہ کیسی لگا دی تو نے چاٹ
تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ
تو بھی کھانے میں نہیں محتاط شیخ
ہم کریں پینے میں کیوں پھر احتیاط
کوچ کی حالیؔ کرو تیاریاں
ہے قویٰ میں دمبدم اب انحطاط
کس توجہ سے پڑھ رہا ہے نماز
سخن پر ہمیں اپنے رونا پڑے گا
سخن پر ہمیں اپنے رونا پڑے گا
یہ دفتر کسی دن ڈبونا پڑے گا
ہوئے تم نہ سیدھے جوانی میں حالیؔ
مگر اب مری جان ہونا پڑے گا
سبحہ و سجادہ ہیچ اور جبہ و دستار ہیچ
بلکہ جام آبِ کوثر سے لذیذ
کوئی مل گیا گر ہمیں یار واعظ
گرچہ اُترے جی سے دل اکثر ابا کرتا رہا
چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
احسان یہ نہ ہر گز بھولیں گے ہم تمہارا
بدنام ہی دنیا میں نکو نام ہے گویا
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے
میری ہی طرح تو بھی غیروں سے خفا ہوتا
تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد
یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا
وہ حوصلہ رہا نہیں صبر و قرار کا
جب کبھی جیتے تھے ہم اے بذلہ سنج
آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا
قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندۂ نا فرماں ہے حمد سرا تیرا
گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہو گا حق کیونکہ ادا تیرا
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا
جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا
عظمت تری مانے بن کچھ بن نہیں آتی یاں
ہیں خیرہ و سرکش بھی دم بھرتے سدا تیرا
تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پر محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا
نشہ میں وہ احساں کے سرشار ہیں اور بیخود
جو شکر نہیں کرتے نعمت پہ ادا تیرا
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لئے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالیؔ ہے سب سے جدا تیرا
بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
ہو گئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
اور معرکۂ گردش ایام ہے درپیش
گویا نہ رہا اب کہیں دنیا میں ٹھکانا
پھر کئے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا
کی بھی اور کسی سے آشنائی کی
تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا
کیمیا کو طلا سے کیا مطلب
مال مہنگا نظر آتا تو چکایا جاتا
گو ہوں سب کی جدا جدا اغراض
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
اے بہار زندگانی الوداع
اے شباب شاد مانی الوداع
آ لگا حالیؔ کنارے پر جہاز
الوداع اے زندگانی الوداع