یاد آؤ نہ اتنی رات گئے

یاد آؤ نہ اتنی رات گئے
آرزو کے دیے بُجھانے دو
مجھ کو پھولوں کی سیج دے نہ سکے
خارزاروں میں سو ہی جانے دو
شکیب جلالی

تبصرہ کریں