نکہتِ گل کی شان سے نکلا

حرف جو اس زبان سے نکلا
نکہتِ گل کی شان سے نکلا
اس کے سایے سے کیوں گُریزاں ہو
کام جس مہربان سے نکلا
آینوں کی تراش کر چادر
پتھروں کے جہان سے نکلا
دھیرے دھیرے، شکیبؔ، یاد کا شہر
دُھند کے سایہ بان سے نکلا
شکیب جلالی

تبصرہ کریں