شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں

شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں
منت کشِ پُر خار رہے ہیں برسوں
کچھ ہم ہی سمجھتے ہیں رُموزِ گلشن
پھولوں کے طلب گار رہے ہیں برسوں
شکیب جلالی

تبصرہ کریں