یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے

بے رنگ ترے در سے، کب خاک بسر اٹھے
یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے
چل آج پہ روتے ہیں، تھک ہار کے سوتے ہیں
پھر رنج اٹھائیں گے، کل صبح اگر اٹھے
تہذیب کے روگوں کا، احسان یہ لوگوں کا
ہم سے تو نہیں اٹھتا، تم دیکھو اگر اٹھے
مصرعوں کی یہ ہمواری، مفہوم کی تہداری
توفیق عطا ہو تو، یہ بارِ ہنر اٹھے
سمجھائیں کہ کیسی ہو، یکجائی تو ایسی ہو
جب زخم اُدھر آئے، اور درد اِدھر اٹھے
عرفان ستار

تبصرہ کریں