عجیب شہر ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

نہ سوچتے ہیں نہ میزان_دل پہ تولتے ہیں
عجیب شہر ہے، سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
پرکھنے والا نہیں کوئی اے دیار_سخن
فضول ہم تری گلیوں میں لعل رولتےہیں
ہر ایک شب میں کئی بار آنکھ کھلنے پر
نجانے چونک کے پہلو میں کیا ٹٹولتے ہیں
ابدکے بعد ہے کیا، اور ازل سے قبل تھا کیا
اگر کہو تو ابھی ہم یہ راز کھولتے ہیں
وجود کیا ہے بجز اک حباب_ آب_ گماں
چلو بہ سطح_ عدم تھوڑی دیر ڈولتے ہیں
عرفان ستار

تبصرہ کریں