مجمعِ اہلِ مفادات سے کٹتا ہوا میں
آ گیا خود میں بتدریج سمٹتا ہوا میں
اتنا لے جاتا ہے جس کو ہو ضرورت جتنی
ختم ہو جاؤں گا اک دن یونہی بٹتا ہوا میں
دو مناظر ہیں یہی رزم گہِ ہستی کے
خود سے بچتا ہوا یا خود پہ جھپٹتا ہوا میں
کس طریقے سے کہ منظر میں کمی تک نہ لگی
یوں نکل آیا ہوں تصویر سے ہٹتا ہوا میں
تم اس اثنا میں ذرا ٹھیک سے پھر غور کرو
تم تک آتا ہوں زمانے سے نمٹتا ہوا میں
جیسے تقویم سے بچھڑا ہوا دن ہو کوءی
دفعتاً کٹ گیا بس یونہی اچٹتا ہوا میں
اپنے اندر کے درندے کے مقابل عرفان
کبھی ڈرتا ہوا میں، یا کبھی ڈٹتا ہوا میں
عرفان ستار