اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں

سمجھوتہ کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں
اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں
زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر
اس حلقۂ مژگاں میں ٹھہرنے کا نہیں میں
کل رات عجب دشتِ بلا پار کیا ہے
سو بادِ سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں
کیوں مملکتِ عشق سے بے دخل کیا تھا
اب مسندِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں
دم بھر کے لیے کوئی سماعت ہو میسّر
بے صوت و صدا جاں سے گزرنے کا نہیں میں
اب چشمِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا
اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں
ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ
اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں
عرفان ستار

تبصرہ کریں