دل پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے آنکھ کو خوں برسانے دو
ہم سے جنوں کی بات کرو تم ہوش و خِرَد کو جانے دو
بات نہ کرنا چُپ رہنا نظریں نہ ملاؤ دیکھ توَ لو
اِس پر بھی گر چہرے کا رنگ اُڑتا ہے اُڑ جانے دو
مَن کی بات چھُپانا مشکل آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں
ایسے بھی کیا دل پر پَہرے کچھ تو زباں تک آنے دو
سحرِ محبت ہے یہ سب، مجبوری بھی جھنجھلاہٹ بھی
اُن کے مُنہ میں جو آئے چپ چاپ سنو کہہ جانے دو
دونوں کو احساسِ محبت، دونوں کو انکار بھی ہے
لو! میدانِ عشق میں ضامنؔ کود پڑے دیوانے دو
ضامن جعفری