چشمِ حیرت بن کے دیکھے ہے مری منزل مجھے
ڈھونڈتے ہیں ناخدا و کشتی و ساحل مجھے
مشغلہ شوق و جنوں کا کامِ ذوقِ جستجو
صد منازل سے عزیز اِک سعیِ لا حاصل مجھے
ننگ ہے خوباں کا ہم کو اشتراکِ عنصری
اَور رُسوا کر رہے ہیں تیرے آب و گِل مجھے
میری طرح کب کسی نے پھر چڑھایا سَر اسے
ڈھونڈتی پھرتی ہے خاکِ کوچہِ قاتل مجھے
ضامنؔ! اُٹھتے جا رہے ہیں بیخودی میں خود قدم
لے کے جاتا ہے کہاں دیکھوں تَو میرا دل مجھے
ضامن جعفری