میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں

نہیں کہ دِل ہی فقط رَہگُذَر میں رکھتا ہُوں
میں چَشم و گوش بھی دیوار و دَر میں رکھتا ہُوں
تمام رات ہیں اُس کی شکایتیں خُود سے
پھِر اُس کو اپنی دُعائے سحر میں رکھتا ہُوں
وہ کھویا رہتا ہے آرائشِ جمال میں جب
میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں
ضامن جعفری

تبصرہ کریں